سبط حسن
سید سبط حسن | |
---|---|
جم | جولائی 31, 1912 ء اعظم گڑھ، برطانوی ہندوستان |
موت | اپریل 20, 1986 ء دہلی، بھارت |
دفن تھاں | کراچی، پاکستان |
قلمی ناں | سبط حسن |
کم کِتہ | دانشور، صحافی، ادیب، مورخ |
بولی | اردو، انگریزی |
نسل | مہاجر قوم |
شہریت | پاکستانی |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
صنف | تاریخ، سفرنامہ، ترجمہ، مارکسی تنقید، صحافت |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
وڈے کم | ماضی کے مزار نویدِ فکر موسیٰ سے مارکس تک پاکستان میں تہذیب کا ارتقا |
سید سبط حسن (انگریزی: Sibte Hassan)، (پیدائش: 31 جولائی، 1912ء - وفات: 20 اپریل، 1986ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور ترقی پسند دانشور، صحافی اور ادیب تھے جو اپنی تصانیف موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا اور ماضی کے مزار کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔
حالات زندگی
سودھوسبط حسن 31 جولائی، 1912ء کو اعظم گڑھ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[۱][۲]۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے جہاں ان کے ساتھیوں میں علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری جیسے افراد شامل تھے۔ کم و بیش اسی زمانے میں ان افراد نے سید سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقی پسند تحریک کا آغاز کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے اردو کی سب سے مقبول اور ہمہ گیر تحریک بن گئی۔
ادبی و صحافتی خدمات
سودھوسید سبط حسن نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور میں اقامت پزیر ہوئے جہاں انہوں نے 1957ء میں میاں افتخار الدین کے اہتمام میں ہفت روزہ لیل و نہار جاری کیا۔ جب میاں افتخار الدین کے ادارے کو صدر ایوب خان کی حکومت نے جبری طور پر قومی تحویل میں لیا تو سبط حسن لیل و نہار کی ادارت سے مستعفی ہو گئے اور 1965ء میں کراچی منتقل ہو گئے۔ کراچی میں سید سبط حسن نے اپنا زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں بسر کیا اور اس دوران ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلاب ایران، کارل مارکس اور نوید فکر جیسی خالص علمی اور فکری تصانیف پیش کیں۔ 1975ء میں انہوں نے کراچی سے پاکستانی ادب کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔[۱]
اگست 1985ء میں لندن میں مارچ 1986ء میں کراچی میں اور اپریل 1986ء میں لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو سید سبط حسن نے ان تینوں تقریبات میں فعال کردار ادا کیا۔[۱]
تصانیف
سودھو- ماضی کے مزار
- نویدِ فکر
- موسیٰ سے مارکس تک
- پاکستان میں تہذیب کا ارتقا
- انقلابِ ایران
- ادب اور روشن خیالی
- مارکس اور مشرق
- افکارِ تازہ
- بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی
- سخن در سخن
- شہرِ نگاراں
- آزادی کی نظمیں
وفات
سودھووہ بھارت میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کے لئی گئے ہوئے تھے کہ 20 اپریل 1986ء کو دہلی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔[۱][۲]
حوالے
سودھو- ↑ ۱.۰ ۱.۱ ۱.۲ ۱.۳ Lua error in ماڈیول:Citation/CS1/Date_validation/ar at line 45: attempt to compare number with nil.
- ↑ ۲.۰ ۲.۱ ص 595، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء