صابر ظفر
صابر ظفر | |
---|---|
جم | 12 ستمبر 1949 (75 سال)[۱] |
وفات |
|
رہائش | کراچی |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
استاذ | رئیس امروہوی |
پیشہ | شاعر ، نغمہ نگار ، غنائی شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
IMDB اُتے صفحات | |
باب ادب | |
ترمیم |
صابر ظفر (پیدائش:12 ستمبر، 1949ء) پاکستان دے نامور شاعر نيں جنہاں دے گیتاں تے غزلاں اُتے پاکستان دے مشہور گلوکاراں نے اپنی آواز دا جادو جگایا اے۔
حالات زندگی
سودھوصابر ظفر 12 ستمبر، 1949ء نوں کہوٹہ، راولپنڈی، پاکستان وچ عبد الرحیم دے گھر پیدا ہوئے۔ انہاں نے شاعری دی ابتدا 1968ء توں کيتی۔ صابر ظفر نے دوسال بذریعہ ڈاک رئیس امروہوی توں اصلاح لئی۔ ماہنامہ اپنی زمین وچ کچھ عرصہ بطور معاون مدیر کم کیتا۔ [۲]
ادبی خدمات
سودھوصابر ظفر عہد حاضر دے اک اہم غزل گو شاعر نيں۔ انہاں دی شاعری وچ دو مختلف جہتاں نيں۔ روايتی غزل انہاں دا بنیادی حوالہ اے تے گیت نگاری وچ وی انہاں نوں یدِ طولیٰ حاصل اے۔[۳]
صابر ظفر حساس دل تے سادہ طبیعت دے مالک نيں، انہاں دی غزلاں غلام علی، منی بیگم، نیرہ نور، گلشن آرا سید نے گائاں۔ گیت گانے والے گلوکاراں وچ نازیہ حسن، زوہیب حسن، محمد علی شہکی، سجاد علی، شہزاد رائے، نجم شیراز، حدیقہ کیانی، فاخر، راحت فتح علی خان، شفقت امانت علی خان، وقار علی تے ہور شامل نيں۔ صابر ظفر دے لکھے ہوئے درجناں گیت پاکستانی ڈرامےآں دے ٹائٹل سونگ بن چکے نيں جنہاں نوں بہت مقبولیت ملی، انہاں وچ سرلسٹ میری ذات ذرہ بے نشاں اے۔ دو قومی گیتاں نوں وی بہت شہرت ملی، پہلا ہے جذبہ جناں تاں ہمت نہ ہار سی، جو 1996 دا ٹائٹل سونگ، دوسرا ہالی وڈ دی فلم جناح دا ٹائٹل سونگ سی۔[۳]
صابر ظفر غزل دی روایت نوں مضبوط کرنے والے عہد حاضر دے شاعر وچ اک نمایاں شاعر دی حیثیت توں جانے جاندے نيں۔ انہاں دی شاعری وچ زندگی اپنی تلخ حقیقتاں دے نال دکھادی دیندی اے۔[۳]
لکھتاں
سودھو- ابتدا
- دُھواں اور پھول
- پاتال
- جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی
- دریچہ بے صدا کوئی نہیں
- لہو ترنگ
- دُکھوں کی چادر
- بارہ دری میں شام
- عشق میں روگ ہزار
- ایک تری یاد رہ گئی باقی
- بے آہٹ چلی آتی ہے موت
- چین اک پل نہیں
- اپنے رنگوں میں ڈوب جانے والے
- محبت کا نیل کنٹھ
- کوئی لو چراغ قدیم کی
- نامعلوم
- پرندوں کی طرح شامیں
- محبت دور کی آواز تھی
- سانول موڑ مہاراں
- زنداں میں زندگی امر ہے
- خاموش بدن کی خود کلامی
- ہر چیز کلام کر رہی ہے
- ستارہ وار سخن
- آئینوں کی راہداریاں
- اباسین کے کنارے
- غزل خطاطی
- صندل کی طرح سلگتے رہنا
- سب اپنے خیال کی دھنک
- غزل اندر غزل
- گردش مرثیہ
- پلکوں میں پروئی ہوئی رات
- سر بازار می رقصم
- جمال ماورائے جسم و جاں
- رانجھا تخت ہزارے کا
- اساطیر کم نما
- آوارگی کے پر کھلے
- غزل نے کہا
- لہو سے دستخط
- شہادت نامہ
- مذہب عشق (کلیات)
نمونۂ کلام
سودھوغزل
میں نہ چاہوں کسی فانی میں فنا ہوجانا | تم اگر ملنا مجھے، میرے خدا ہوجانا | |
بول بن جاؤں کوئی، گیت کوئی بن جاؤں | چاہتا ہوں ترے ہونٹوں سے ادا ہوجانا | |
ایک احساس رفاقت کو سُبک رکھتا ہے | کبھی خوشبو تو کبھی تیرا ہَوا ہوجانا | |
رنگِ تنہائی لپکتا ہے تمہیں چَھونے کو | ہو اگر بس میں تمہارے تو جُدا ہوجانا | |
اب خموشی کی سزا ملتی رہے گی شاید | ہے مکّرر تو کٹھن کُن کی صدا ہوجانا | |
دلِ وحشی کا چلن ورنہ بغاوت ہے ظفر | عشق سکھلاتا ہے راضی بہ رضا ہوجانا |
غزل
کوئی تو ترکِ مراسم پہ واسطہ رہ جائے | وہ ہم نوا نہ رہے صورت آشنا رہ جائے | |
میں سوچتا ہوں مجھے انتظار کس کا ہے | کواڑ رات کو گھر کا اگر کُھلا رہ جائے | |
کسے خبر کہ اسی فرش ِ سنگ پر سو جاؤں | مِرے مکاں میں بستر مرا بچھا رہ جائے | |
ظفر ہی بہتری اس میں کہ میں خموش رہوں | کُھلے زبان تو عزت کسی کی کیا رہ جائے |
غزل
اِسی لیے کبھی خُوش ہیں کبھی ہیں مُضطر ہم | کسی کو یاد نہیں اور کسی کو ازبر ہم | |
ہمارے حال کو پُہنچے اگر، تو جانے کوئی | غُبارِ غم سے نہاں ہیں درُونِ منظر ہم | |
خُدا ہو چاہے صنم، سب کچھ اپنے آپ میں ہے | اور اپنے آپ میں رہتے نہیں ہیں اکثر ہم | |
یہ نم گرفتہ و لُکنت زدہ، ہمارا سُخن | قبُول کر کہ تِری حمد کے ہیں خُوگر ہم | |
بشکلِ ہجرتِ دائم روانہ ہونا ہے | ظفر لپیٹ کے رکھنے لگے ہیں بستر ہم |
غزل
نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے | یہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے | |
ترا جبر ہے مرا صبر ہے تری موت ہے مری زندگی | مرے درجہ وار شہید ہیں، مری کربلا کوئی اور ہے | |
کئی لوگ تھے جو بچھڑ گئے کئی نقش تھے جو بگڑ گئے | کئی شہر تھے جو اجڑ گئے، ابھی ظلم کیا کوئی اور ہے | |
نہ تھا جس کو خانہ خاک یاد ہوا نذر آتش و ابر و باد | کہ ہر ایک دن دن سے الگ ہے دن جو حساب کا کوئی اور ہے | |
ہوئے خاک دھول تو پھر کھلا یہی بامراد ہے قافلہ | وہ کہاں گئے جنہیں زعم تھا کہ راہ وفا کوئی اور ہے | |
یہ ہے ربط اصل سے اصل کانہیں ختم سلسلہ وصل کا | جو گرا ہے شاخ سے گل کہیں تو وہیں کھلا کوئی اور ہے | |
وہ عجیب منظر خواب تھا کہ وجود تھا نہ سراب تھا | کبھی یوں لگا نہیں کوئی اور، کبھی یوں لگا کوئی اور ہے | |
کوئی ہے تو سامنے لائیے ، کوئی ہے تو شکل دکھائیے | ظفر آپ خود ہی بتائیے، مرے یار سا کوئی اور ہے |