بودھ مسلم باہمی تعامل

تاریخ نویسانہ تعصب

سودھو

مسیحی مغرب کےذریعےمسلمانوں کوشیطانی طاقتوں کےطورپردیکھےجانےکی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس کاآغازگیارہویں صدی عیسوی کےخاتمےپران مذہبی جنگوں کےساتھ ہواجومسلمانوں سےمقدس زمینوں کی بازیافت کےلیےلڑی گئیں۔ یہ سلسلہ پندرہویں صدی عیسوی کےوسط تک قسطنطنیہ میں ترکوں کےبالمقابل مشرقی راسخ العقیدہ عیسائیت کےمرکزکےزوال کےساتھ ساتھ جاری رہااورپھرپہلی عالمی جنگ کےدوران گیلی پولی کےمقام پر، برطانوی اورآسٹریلیائی لوگوں کےذریعےترکوں کی بھاری شکست نےاسےبڑی مضبوطی سےدوبارہ بیدارکردیا۔ مغربی عوامی ذرائع ابلاغ اکثراسلامی مذہبی شخصیتوں کوجنوبی ملّاؤں"کےطورپرپیش کرتےہیں، کرنل قذافی، صدام حسین، ایدی امین، آیت اللہ خمینی اوریاسرعرفات جیسےمسلم رہنماؤں کوبھیانک بناکردکھاتےہیں۔ مغربیوں میں تمام مسلمانوں کوکٹّردہشت گردوں کےطورپردیکھنےکاچلن عام ہےاوروہ اوکلاہوماشہرمیں۱۹۹۵ء کےدوران ہونےوالی فیڈرل بلڈنگ کی بمباری جیسےبےلگام پرتشددواقعات کےپیچھےفوراًکسی اسلامی بنیادپرست کاہاتھ ہونےکاشک کربیٹھتےہیں۔ اپنےقائدین، مذہب اورثقافتوں کی اس توہین کےجواب میں بہت سےمسلمان مغرب کوشیطان کی سرزمین سمجھنےلگتےہیں جوان کی (مسلمانوں کی) اقداراورمقدس مقامات کےلیےخطرہ بنی ہوئی ہے۔ باہمی بےاعتباری اورخوف پرمبنی یہ رویّےغیرمسلموں اوردنیائےاسلام کےمابین مفاہمت اورتعاون کےراستےکی بہت بڑی رکاوٹ بن گئےہیں۔

مسلمانوں کےخلاف یہ بےاعتباری اورتعصب ایشیائی تاریخ بالخصوص وسطی ایشیااوربرصغیر ہندوستان تک اسلام کی ترویج کےدوران مسلمانوں اوربودھوںکےدرمیان تعامل کی تاریخ میں سرایت کرتاگیاہے۔ مغربی صحافت کےپہلوبہ پہلو، جوتشددآمیزواقعات میں خاص مسلمانوں کےجنونی عناصرکی شمولیت کی رپورٹنگ کرتی ہے، گویاکہ یہ شدت پسندعناصرہی تمام تردنیائےاسلام کےنمائندےہیں۔ مقبول عام مغربی تاریخوں میں سب سےزیادہ زوربودھی خانقاہوں کی تاراجی اوران بھکشوؤں کےقتل سےمتعلق دورپردیاجاتاہےجنہوں نےاپنامذہب نہیں بدلا۔ بہیمانہ واقعات جوفی الحقیقت وجودمیں آئے، ان پرزور دینے اورمسخ شدہ تاثردینےکی وجہ سےلوگوں میں یہ تاثرپیداہوتاہےکہ (مسلمانوں اور بودھوںکےمابین) یہ باہمی تعامل سارےکاساراصرف منفی اورپرتشددتھا۔

اس غلط گمانی کاایک وسیلہ بالخصوص انیسویں صدی میں برطانوی راج کےدوران برطانیہ کےزیرانتظام بہت سےمورخوں کامخفی ایجنڈاہے۔ اپنی ہندوستانی رعایاکی اطاعت کےحصول اورکولونیل اقتدارکےجوازکی فراہمی کےلیے، ایسے بہت سےمورخوں نےیہ ظاہرکرنےکی کوشش کی کہ برطانوی انتظامیہ کیوں کرزیادہ انسان دوست تھااوران کی محصولاتی پالیسی پہلےکی ہرمسلم سلطنت کےمقابلےمیں کس طرح زیادہ منصفانہ تھی۔ آثار قدیمہ کےماہرین نےاگرمندروں کےکھنڈر دیکھ لیےتواس کی یہ وضاحت کردی کہ یہ بربادی مسلم جنوبی اورکوتاہ بینوں کی لائی ہوئی ہے۔ اگرمجسمےاوردوسری قیمتی اشیاء غائب نظرآئیں تویہ نتیجہ نکال لیاکہ یاتوانہیں مسلم حملہ آوروں نے لوٹ لیایاپھربودھوںنےمسلمانوں کی لوٹ مارکےڈرسےانہیں چھپادیاتھا۔ مسلم حکمرانوں نےاگرمندروں کی مرمت کی اجازت دےدی توانہوں نےیہ فرض کرلیاکہ انہیں پہلےمسلمان فوجوں نےہی توتباہ کردیاتھا۔ اقتصادی یاطبعی وجغرافیائی مقاصدسےصرف نظرکرتےہوئےاورفوجی پالیسی کومذہبی پالیسی سےخط ملط کرتےہوئےانہوں نےاس تصورکوعام کیاکہ اشاعت اسلام کی طلب اورکافروں کوتلوارکےزورپرمسلمان بنانےکی سرگرمی نےہی مسلمان فوجوں کی طرف سےتمام حملوں کوبڑھاوادیاتھا۔ یہ مورخین تبدیلئ مذہب سےفتح مرادلیتےتھےاوراس کےبعدجوبغاوت پیداہوتی تھی اسےاسلام کاجوااتارپھینکنے کی خواہش کےبرابرگردانتےتھے۔

برطانوی مشنریوں نےخاص طورپرمسلم عدم رواداری کےاسی تصور کوہوادی تاکہ اپنےآپ کوبہتربناکردکھاسکیں۔ چنانچہ بہت سےبرطانوی مورخوں نےبرصغیرکی عرب، ترکی اورمغلیہ فتوحات کوملاکرایک خانےمیں ڈال دیااوران سب پراسلامی جارحیت کی سرخی جمادی، بجائےاس کےکہ وہ ان سےایسی انفرادی سیاسی وحدانیتوں کےحملےمرادلیتےجوایک دوسرےسےبہت مختلف تھے۔ دوسرے مغربی مورخوں نےبھی یہی طرزعمل اختیارکیا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آج بھی سیاسی قائدین اور خبررساں ذرائع ابلاغ (میڈیا) متواترمسلم دہشت گردی کاراگ الاپےجاتےہیں، کبھی عیسائی، یہودی اور ہندودہشت پسندوں کانام بھی نہیں لیتے۔

اس طرح کی یک رخی تصویرپیش کرنےمیں مغربی تاریخ نویسی تنہانہیں ہے۔ تبتی، منگولیائی، عربی، فارسی اورترکی روایات پرمبنی مذہبی تاریخیں، ان میں سےبیشتروسطی ایشیائی ریاستوں کےباہمی تعامل کاتذکرہ اسی اندازمیں کرتی ہیں۔ گویاکہ مذہب کادفاع اورمذہب کی تبلیغ ہی واحدترغیبی طاقتیں تھیں جن سےواقعات کاتعین کیاجاسکتاہے۔ ۔ بودھیمذہبی تاریخیں ایک پرتشدد تصویرسامنےلاتی ہیں اوریہ بتاتی ہیں کہ مذہب کی تبدیلی صرف طاقت کےذریعےزبردستی کروائی گئی۔ (اس کےبرعکس) اسلامی مذہبی تاریخ ایک زیادہ پرامن نقشہ سامنےلاتی ہیں۔ ان کازوراس بات پرہےکہ بودھوںنے (اپنادین چھوڑکر) جواسلام قبول کیاتواس لیےکہ یاتومسلم عقیدےکواخلاقی برتری حاصل تھی یاپھروہ ہندوجبرسےخودکوبچاناچاہتےتھے۔ مفروضہ یہ ہےکہ ہندوستانی جابروں کاامتیازی وصف ان کاہندومذہب تھا، نہ کہ ان کی سیاسی اوراقتصادی پالیسیاں۔

چینیوں کی (مرتّب کردہ) تاریخوں میں، جوحکمراں سلطنتوں کااحاطہ کرتی ہیں، ان سےایک اورترجیح سامنےآتی ہے، یعنی کہ چین کےایک یادوسرےحکمراں خاندان کی اخلاقی برتری اوراس کےمقابلے میں تمام بدیسی ثقافتوں کی تابع داری۔ یہ مخفی ایجنڈاان کی پیش کردہ بین الاقوامی یابین المذہبی تعلقات کی تصویر کومسخ کردیتا ہے۔

بعض متون ماضی بعیدکےواقعات میں تحریف کردیتےہیں، بدھ مت اوراسلام کےمابین روابط کی غلط نمائندگی کرتےہیں۔ مثال کےطورپرابتدائی چودہویں صدی عیسوی کےکشمیری مسلمان مصنف، رشیدالدین نےاپنی (کتاب) "بدھ کےسوانح اورتعلیمات"میں جوفارسی اورعربی (زبانوں) میں موجوداور محفوظ ہے، یہ وضاحت کی ہےکہ پیغمبراسلام کےعہدسےپہلےمکّہ اورمدینہ کےباشندے، سب کےسب بودھی تھے۔ وہ کعبے میں بدھ کی شکل کےبتوں کی پرستش کرتےتھے۔

مستقبل کی پیش گوئیاں تک مذہبی عصبیت کےپھیرسےنہیں نکل سکیں۔ مثلاًبودھی اورمسلمان، دونوں ایک عظیم روحانی پیشواکےظہورکی بشارت دیتےہیں جوایک الہامی جنگ کےذریعےمنفی طاقتوں پرغالب آجائےگا۔ یہبودھی تذکرہ"کالچکرتنتر"سےماخوذہے، جس کامتن ہندوسان میں دسویں صدی عیسوی کےاواخراورگیارہویں صدی عیسوی کےاوائل میں سامنےآیا، جوتبتیوں اورمنگولوں میں نہایت مقبول ہے۔ ایک مشترکہ بودھی اورہندوآبادی پرمشتمل افواج کےذریعے، جومکّہ اوربغداد کے تئیں وفادارتھیں، آئندہ زمینی حملوں سےخبردارکرتےہوئےاس متن میںبودھی راجہ"راودر-چکرن"کو آخری مسلمان پیغبرمہدی کےبالمقابل پیش کیاگیاہے۔ ثانی الذکرکابیان اس متن میں غیرہندی جنگی افواج کےقائدکےطورپرکیاگیاہے، جوکائنات کوفتح کرنےاورتمامترروحانیت کوختم کردینےکےدرپےہوگا۔ متن "کالکی" کا نام راودر-چکرن دیا تھا اور اس کے اسباب کی طرف سے، ہندوؤں بھی نے مستقبل کی اس فرقہ وارانہ نقطہ نظر کے لئے متحد رہے تھے۔ ایک الہامی جنگ میں کالکیکی شرکت بھی ہوگی جوہندودیوتاوشنوکادسواں اورآخری اوتارہے۔

جوابی کارروائی کےطورپرمسلمان علاقوں میں، جیسےشمال مشرقی پاکستان میں واقع بلستستان (کاعلاقہ)، جوتبتیبودھی ثقافتی علاقےسےایک تاریخی رشتہ رکھتاہے، متذکرہ الہامی جنگ کی ایک دوسری رودادترتیب دی گئی۔ اس رودادمیں مہدی کےحریف دجّال کی نشاندہی شاہ گیسرکی شکل میں کی گئی ہےجووسطی ایشیائی اسطوری ہیروسمجھاجاتاہےاورجس کومختلف بودھیگروہ صدیوں سے نہ صرف راجہ راودر-چکرن بلکہ چنگیزخان تک کی شبیہ مانتےآئےہیں۔

بہرحال، اگراس تاریخ کوزیادہ توجہ اوراحتیاط کےساتھ دیکھا جائےتووسطی اورجنوبی ایشیاکے بودھوںاورمسلمانوں کےمابین سیاسی، اقتصادی اورفلسفیانہ دائروں میں دوستانہ تعاون اور تعامل کےثبوت بکثرت نظرآتےہیں۔ ان کےآپس میں بہت سےمعاہدےہوئے، کاروبارہوئےاوراپنےباطنی وجودکی ترقی کےلیےروحانی طریقوں کی سطح پرمتواترتبادلۂ خیال بھی ہوتارہا۔ اس بیان سےاس واقعےکی تردیدنہیں ہوتی کہ دونوں گروہوں کےدرمیان متعددمنفی واقعات بھی رونماہوئے۔ مگرپھربھی، جغرافیائی سیاسیات اوراقتصادی نیزعلاقائی توسیع کی ترغیب کاپلّہ ان مذہبی اسباب وعوامل کےمقابلےمیں کہیں زیادہ بھاری ہےجن کی وجہ سےان دونوں میں یہ تضادات رونماہوئےاورایسااس حقیقت کےباوجودہےکہ جنگجوقائدین فوجی دستوں کویکجاکرنےکےلیےاکثرایک مذہبی جہادکانعرہ بلندکرتےرہتےتھے۔ اس کےعلاوہ، واقعات اورپالیسیوں کی تشکیل کرنےوالےہوشمنداورذمّہ دار حکمرانوں کی تعداد، دونوں طرف تنگ نظراورکٹّرمزاج قائدین کی بنسبت زیادہ تھی۔

آج بھی بالخصوص وسطی ایشیا میں عام آبادی کےتناسب سےمسلمانوں اوربودھوںکی تعدادزیادہ ہے۔ لہٰذا، اس علاقےکےدونوں مذاہب اورگروہوں کےمابین تاریخی رشتوں کاایک زیادہ معروضی اورغیرجذباتی جائزہ لیاجاناچاہیے، نہ صرف غیرجانب دارانہ علمی تحقیق کےپیش نظر بلکہ آنےوالےدنوں میں اس پورےخطّےکےپرُامن فروغ کےلیےبھی!


ساتویں صدی عیسوی کے وسطی دور میں، وسطی ایشیا میں عربوں کے ذریعے سے اسلام کی آمد سے بہت پہلے، سینکڑوں برسوں تک، وہاں بدھ مت پھلتا پھولتا رہا۔ یہ صورت حال، بالخصوص شاہراہ ریشم کے آس پاس زیادہ نمایاں تھی۔ ہندوستان اور ہان چین کے درمیان کاروبار بھی اسی راستے سے ہوتا تھا اور یہ شاہراہ بازنطین اور سلطنت روما، دونوں سے منسلک تھی۔ اب ہم دنیا کے اس حصّے میں بدھ مت کے اولین فروغ کا ایک مختصر خاکہ پیش کرتے ہیں تاکہ اسلام کو درپیش تاریخی پس منظر، ذرا بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔

جغرافیہ

سودھو

وسطی ایشیا کے ابتدائی بودھی علاقوں میں، موجودہ جغرافیائی خطے کے حوالے سے، مختلف اوقات میں حسب ذیل نقشہ مرتب ہوتا ہے:

(۱) ہندوستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکا علاقہ ۔

(۲) شمال میں پاکستانی سلسلئہ کوہ سے ملحق وادیاں مثلا گلگت،

(۳) پاکستانی پنجاب، بشمول وادئ سوات اور ہندوکش پہاڑوں کے، جنوب میں مشرقی افغانستان کا علاقہ،

(۴) ہندوکش کے شمال کی جانب آمو دریا کی وادی اور مغربی ترکستان (جنوب مشرقی ازبکستان اور جنوبی تاجکستان)، دریا کےشمال کی جانب،

(۵) شمال مشرقی ایران اور جنوبی ترکمانستان،

(۶) دریائے آمو اور دریائے سیر کے بیچ کا علاقہ، جو وسط مغربی ترکستان (مشرقی ازبکستان اور مغربی تاجکستان) کے نام سے موسوم ہے،

(۷) سیر دریا کے شمال کا علاقہ، شمال مغربی ترکستان (کرغیزستان مشرقی قازقستان) کے نام سے موسوم،

(۸) عوامی جمہوریہ چین میں سنکیانگ کا علاقہ جو جنوب مشرقی ترکستان کہلاتا ہے اور "تکلا مکان" ریگستان کے شمال اور جنوب، دونوں طرف تاریم کے طاس (نشیبی علاقہ) کا حلقہ کیے ہوئے ہے۔

(۹) شمالی سنکیانگ، تیانشان اور التائی پربت کے بیچ کا علاقہ،

(۱۰) تبت کا خود مختار علاقہ، چینگهای، جنوب مشرقی گانسو، مغربی سیچوآن، اور شمال مغربی یوننان، اب یہ سب کے سب عوامی جمہوریئہ چین میں ہیں،

(۱۱) اندرونی منگولیا جو عوامی جمہوریئہ چین میں ہے، جمہوریہ منگولیا (بیرونی منگولیا)، اور سائبیریا، روس میں بوریات جمہوریہ۔


ان علاقوں کے تاریخی نام یہ تھے:

(۱) کشمیر، سری نگر میں اپنے درالسلطنت کے ساتھ،

(۲) گلگت،

(۳) گندھارا، اپنے خاص بڑے شہروں مثلاً ٹیکسلا کے ساتھ جو درّہ خیبر کے پاکستانی پنجاب کی سمت، اور کابل جو افغانی سمت میں واقع ہے، اس کے علاوہ سوات جیسے اوڈیانہ کہتے ہیں،

(۴) باختر، جو دریائے اوکس کی وادی میں پھیلا ہوا ہے اور جس کا مرکز بلخ میں ہے، آج کے دور کے مزار شریف کے قریب،

(۵) پارتھیا، جسے بعد میں "خراسان" کہا گیا، اپنے خاص شہر "مرو" کے ساتھ، اور بعض اوقات جنوبی ترکمانستان میں واقع اس کے ایک حصّے کو مرجیانا کہا گیا،

(۶) سغدیہ، بعد کا ماوراء النہر جو اوکس اور جکسارتس دریاؤں کے بیچ میں ہے اور اگر سرسری طور پر ہم مغرب سے مشرق کی طرف جائیں تو اس کے خاص مراکز یہ ہوں گے: بخارا، سمرقند، تاشقند اور فرغانہ،

(۷) وہ علاقہ جس کا نام متعین نہیں ہے مگر جس کا خاص مرکز "اسیک کول جھیل" کے جنوب میں "سویاب" کے مقام پر ہے،

(۸) کسی متعین نام کے بغیر والا "تاریم" کے طاس جو ریگستان میں شہری ریاستوں کے ساتھ ساتھ جنوبی کنارے سے ملحق ہے اور مغرب سے مشرق کو جاتا ہے، کاشغر، یارکند، ختن اور "نیا" پر مشتمل اور شمالی کنارے کے ساتھ ساتھ کوچہ، کاراشہر اور ترفان (قوشو) اور اسی کے ساتھ "دُن ہوانگ" کے مقام پر مشرق میں ایک دوسرے سے ملنے والے دونوں راستوں کا احاطہ کرتا ہوا،

(۹) "دزونگاریا" معہ اپنے خاص شہر "بیشبالق" کے، جس کے مشرقی دروازے پر ترفان سے تیان شان پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، موجودہ دور کے اورومچی سے ملحق،

(۱۰) تبت لہاسا کے مقام پر اپنی راجدھانی کے ساتھ، اور،

(۱۱) منگولیا۔


اگرچہ تاریخ کے سفر میں، ان میں سے بہت سے نام بار بار تبدیل ہوئے، مگر ہم کسی طرح کے ابہام اور الجھن سے بچنے کے لیے، اپنےآپ کو انہی ناموں تک محدود رکھیں گے۔ گانسو، اندرونی منگولیا، اصل مقامی آبادی پر مشتمل تبتی علاقوں، منچوریا اور جنوب کے پہاڑی قبیلوں سے صرف نظر کرتے ہوئے، عوامی جمہوریہ چین کے اس خطے کو ہم "ہان چین" کا نام دیں گے یعنی دیسی (مقامی) ہان آبادی کا احاطہ کرنے والا، ان کا اپنا وطن۔ "شمالی ہندوستان" کی اصطلاح سے ہماری مراد خاص طور پر دریائے گنگا کے ساتھ کا میدانی علاقہ ہوگا جس میں جموں کشمیر، ہماچل پردیش، ہندوستانی پنجاب، راجستھان یا مغربی بنگال کے مشرق میں واقع جمہوریہ ہندوستان کی کوئی اور ریاست شامل نہیں ہوگی۔ "ایران" سے ہمارا مطلب ہوگا وہ علاقے جو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے حدود میں آتے ہیں، اور "عرب" کا مطلب ہوگا جزیرہ نمائے عرب اور جنوبی عراق کی تمام آبادی۔

مغربی اور مشرقی ترکستان

سودھو

ہر چند کہ شاکیہ مُنی بدھ سے متعلق تاریخوں کے بارے میں کئی روایتیں موجود ہیں، لیکن بیشتر مغربی اسکالرز کا اتفاق اس بات پر ہے کہ وہ ۴۸۶ اور ۵۶۶ سال قبل مسیح کے درمیان زندہ رہے۔ شروع شروع میں وہ شمالی ہندوستان کے گنگا کے میدانوں کے مرکزی حصّے میں درس دیتے رہے۔ پھر دھیرے دھیرے، ان کے پیروکاروں نے آس پاس کے علاقوں تک ان کا پیغام پہنچایا جہاں بھکشوؤں اور بھکشونیوں کے خانقاہی گروہ جلد ہی اُٹھ کھڑے ہوئے جو بدھ کی تعلیمات کا محافظ تھے اور انہیں زبانی طور پر دوسروں تک پہنچا رہا تھے ۔ اس طرح بدھ مت بتدریج ایک منظم مذہب کے طور پر پھیلنے لگا ۔

تیسری صدی قبل مسیح کے وسط میں، موریہ بادشاہ اشوک (دور حکومت۲۳۲۔۲۷۳ سال قبل مسیح) کی کوششوں سے، بدھ مت شمالی ہندوستان سے گندھارا اور کشمیر تک پھیل گیا۔ دو صدیوں کے بعد اس نے مغربی اور مشرقی ترکستان، دونوں میں اپنے لیے راستہ بنا لیا اور پہلی صدی قبل مسیح کے دوران، اس نے باختر سے گندھارا تک اور کشمیر سے ختن تک وسعت حاصل کرلی۔ اس وقت تک بدھ مت مشرقی ایران سے گزرتے ہوئے پارتھیا تک، کشمیر سے گلگت تک، اور شمالی ہندوستان سے جنوبی پاکستان تک، یعنی آج کے سندھ اور بلوچستان تک، پہنچ چکا تھا۔ روایتی بودھی تاریخوں کے مطابق، باختر کے دو سوداگر شاکیہ مُنی بدھ کے براہ راست مریدوں میں شامل تھے۔ بہرحال، اس امر کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ انہوں نے ابتدائی مرحلے میں اپنے وطن کو بدھ مت سے عملاً متعارف کرایا ہو۔


پہلی صدی قبل مسیح تک بدھ مت نے باختر سے سغدیہ تک پہنچتے ہوئے مغربی ترکستان میں اپنی جڑیں گہرائی تک پھیلا دی تھیں۔ اس صدی میں اس نے گندھارا سے کشمیر اور کاشغر کو جاتے ہوئے، تاریم کے طاس میں جنوبی کنارے کے ساتھ ساتھ مزید وسعت حاصل کرلی، اور گندھارا سے کشمیر اور ختن کے علاوہ "نیا" میں کرورئینا کی راجدھانی تک، اپنے قدم جما لیے۔ چوتھی صدی مِں کرورئینا کو ریگستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور اس کے بیشتر شہری ختن میں آباد کر دیے گئے۔

دوسری صدی قبل مسیح کے دوران، باختر سے کوچہ اور ترفان کے تخاری باشندوں سے گزر کر بدھ مت تاریم کے طاس کے شمالی کنارے تک بھی جا پہنچا۔ بعض ماخذ کے مطابق، تخاری لوگ یوئ۔جی کی اولاد تھے، کاکیشیا کے رہنے والے، جو ایک قدیم مغربی ہند کی یورپی زبان بولتے تھے۔ دوسری صدی قبل مسیح میں یوئ۔جی کا ایک گروہ جو بعد میں تخاریوں کے طور پر جانا گیا، مغرب کی طرف نقل مکانی کرتے ہوئے باختر میں جا بسا تھا۔ نتیجے کے طور پر، باختر کو "تخارستان" کہا جانے لگا۔ بہرحال، نام کی مماثلت کے باوجود، مشرقی باختر کے تخاریوں اور کوچہ و ترفان کے تخاریوں میں کسی طرح کا سیاسی رشتہ قائم نہ ہوسکا۔

مغربی اور مشرقی ترکستان کے ایسے بہت سے علاقوں، بالخصوص باختر، سغدیہ، ختن اور کوچہ میں ایرانی ثقافت کے کچھ آثار پائے جاتے تھے۔ اس کی وجہ سے، وسطی ایشیائی بدھ مت میں مختلف درجات تک، دین زرتشت کے اوصاف بھی گھل مل گئے۔ دین زرتشت ایران کا پرانا مذہب تھا۔ مشترکہ زرتشتی عناصر، ہینیان بدھ مت کے سرواستیواد روپ میں جو باختر، سغدیہ اور کوچہ میں پھلا پھولا، اسی کے ساتھ ساتھ ختن میں برتری حاصل کرنے والے مہایان بدھ مت، دونوں میں ظاہر ہوئے ہیں۔

ہان چین

سودھو

ہان چینیوں نے، تاریم کے طاس میں، پہلی صدی قبل مسیح سے لے کر دوسری صدی تک، ریگستان میں واقع شہری ریاستوں میں اپنے فوجی دستے قائم کر رکھے تھے۔ بہر حال، بدھ مت نے اس وقت تک ہان چین میں مقبولیت حاصل نہیں کی، جب تک کہ ان نو آبادیوں کو پھر سے اپنی کھوئی ہوئی آزادی نہیں مل گئی۔

دوسری صدی عیسوی کے وسط سے شروع ہوکر، بدھ مت پہلے پارتھیا سے ہان چین میں آیا۔ اس کے بعد وسطی ایشیا کے دوسرے بودھی علاقوں، اور اسی کے ساتھ ساتھ اس نے شمالی ہندوستان اور کشمیر تک، بھکشوؤں کے ذریعے رسائی حاصل کی۔ وسطی ایشیائی اور شمالی ہندوستان کے بھکشوؤں کی مدد سے ہان چینیوں نے سنسکرت اور گندھاری پراکرتوں کے متون کے چینی زبان میں ترجمے کیے، گو کہ وسطی ایشیائی لوگ خود اپنے ذاتی استعمال کے لیے اولاً ان کے اصل ہندوستانی متن کو ترجیح دیتے تھے۔ اپنے یہاں شاہراہ ریشم کے راستے بین الاقوامی قافلوں کی مسلسل آمدورفت کے باعث، ان میں بیشتر لوگ غیر ملکی زبانوں سے خاصے مانوس تھے۔ ہان چینیوں کے لیے ترجمے کے کام کے دوران، بہر طور، وسطی ایشیائیوں نے ان متون میں کبھی زرتشتی عناصر کو منتقل نہیں کیا۔ اس کے بجائے، ہان چینی بدھ مت نے تاؤمت اور کنفیوشیائی ثقافتی خصوصیات سے خاصے اثرات قبول کیے۔

چھ سلطنتوں کے دور (۵۸۹۔۲۲۰ء( میں، ہان چین بہت سی قلیل مدتی حکومتوں میں بکھر گیا جو سرسری طور پر شمال اور جنوب کے بیچ میں تقسیم ہو گئی تھیں۔ بیشتر غیر ہان چینی سلطنتوں کا سلسلہ جو ترکوں، تبتوں، منگولوں اور منچووں کے اولین پیشروں پر مشتمل تھا، اس نے شمال پر حملہ کر کے اپنا اقتدار قائم کر لیا، جب کہ جنوب نے زیادہ تر روایتی ہان چینی تہذیب کے آثار کو برقرار رکھا۔ شمال میں بدھ مت کا مزاج زیادہ روحانی تھا اور سرکاری اقتدار کی منشا کا تابع۔ اس کے برعکس، جنوب میں یہ آزاد تھا اور فلسفیانہ تخصص یا چھان بین پر زور دیتا تھا۔

تاؤمت کے ماننے والے اور کنفیوشیائی وزیر جو بودھی خانقاہوں کی سرکاری حمایت کے تئیں حسد کا جذبہ رکھتے تھے، ان کے اثر کی وجہ سے ۵۷۴ء اور ۵۷۹ء کے درمیان، شمالی چینی ریاستوں میں سے دو ریاستوں میں، ہندوستانی مذہب کو پسپائی کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ بہر حال، وین-دی جس نے ساڑھے تین صدیوں کے انتشار کے بعد ہان چین کو پھر سے متحد کیا اور سوئی سلطنت (۵۸۹۔۶۱۸ء) کی بنیاد ڈالی، اس نے اپنے آپ کو ایک عالم گیر بدھ مت راجہ (سنسکرت: چکرورتی) کا لقب دیا۔ اس اعلان کے ساتھ کہ اس کی حکومت (۵۸۹۔۶۰۵ء) چین کو ایک بدھ "خالص سرزمین" بنا دے گی، اس نے ہندوستانی عقیدے کو پھر سے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اگرچہ تانگ خاندان کے شروع کے کئی حکمراں (۹۰۶۔۶۱۸ء) تاؤمت کی حمایت کرتے تھے، مگر انہوں نے بدھ مت سے بھی اپنا تعاون جاری رکھا۔

مشرقی اور مغربی ترک سلطنتیں

سودھو

پانچویں صدی عیسوی کے آغاز سے "روآن روآن" باشندے منگولیا میں مرکوز ایک وسیع سلطنت پر راج کرتے رہے، جو کوچہ سے کوریا کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے بدھ مت کی وہ شکل اختیار کی جو ایران کے زیر اثر پیدا ہونے والی ختنی اور تخاری روایتوں کا مرکب تھی، اور اسے منگولیا سے متعارف کرایا۔ پرانے ترک، جو "روآن روآن" اقتدار کے تحت گانسو میں رہتے تھے، انہوں نے ۵۵۱ء میں ثانی الذکر کا تختہ پلٹ دیا۔ ان کی قائم کردہ قدیم ترک سلطنت دو برسوں کے اندر مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہو گئ۔

مشرقی ترک منگولیا پر حکومت کرتے رہے اور انہوں نے وہاں پائی جانے والی، بدھ مت کی ختن – تخاری "روآن روآن" شکلوں کو برقرار رکھتے ہوئے، اسے شمال کے ہان چینی عناصر کے ساتھ ملا دیا۔ انہوں نے شمالی ہندوستان، گندھارا اور ہان چین، بالخصوص ترفان میں رہنے والے سغدیائی فرقے کے بھکشوؤں کی مدد سے، مختلف النوع بدھ مت زبانوں سے، بہت سے بدھ مت متون کا قدیم ترک زبان میں ترجمہ کیا۔ شاہراہ ریشم کے سب سے اہم تاجروں کی حیثیت سے، سغدیہ کے لوگوں میں ایسے بھکشو تیار ہوتے رہتے تھے جن میں فطری طور پر ایک ساتھ متعدد زبانیں سیکھ لینے کی صلاحیت موجود ہوتی تھی۔

پرانے ترک بدھ مت کی اہم خاصیت عوام الناس میں اس کی اپیل تھی جو بدھ کے حلقئہ ارادت میں بہت سے مقبول، مقامی طور پر پوجے جانے والے دیوتاؤں کی شمولیت سے پیدا ہوئی تھی اور ان میں روایتی شمن پرست، تینگریائی اور زرتشتی، دونوں موجود تھے۔ تینگریت، بدھ مت سے پہلے کا منگولیائی سرسبز میدانوں میں آباد مختلف انسانوں میں مروّج ایک روایتی نظام عقیدہ تھا۔

مغربی ترکوں نے پہلے دزونگاریا اور مغربی ترکستان پر حکومت کی۔ ۵۶۰ ء میں انہوں نے سفید فام ہُنوں (ہپتھالیوں) سے شاہراہ ریشم کا مغربی حصّہ چھین لیا اور رفتہ رفتہ کاشغر، سغدیہ اور باختر کی طرف منتقل ہوتے ہوئے، افغانی گندھارا میں بھی اپنی ایک خاص موجودگی قائم کرلی۔ اپنے اس توسیع کے عمل میں، ان کے ایک بڑے حلقے نے بدھ مت اختیار کر لیا، بالخصوص ان شکلوں کے ساتھ جو ان کے مفتوحہ علاقوں میں پائی جاتی تھیں۔

مغربی ترکوں کی آمد کے وقت مغربی ترکستان میں بدھ مت کی صورت حال

سودھو

مغربی ترکوں کی ہجرت سے صدیوں پہلے، یکے بعد دیگرے یونانی- باختری، شاکانی، کشان، فارسی ساسانی اور سفید فام ہُنوں کی حکومتوں کے تحت مرکزی، جنوبی اور مغربی ترکستان میں بدھ مت خوب برگ و بار لا رہا تھا۔ ہندوستان کو آنے والا ہان چینی سیّاح فاشیان، جس نے ۳۹۹ء اور ۴۱۵ء کے درمیان اس علاقے کا سفر کیا، اس نے یہ اطلاع دی کہ یہاں ہر طرف سرگرم خانقاہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ تاہم، جب ڈیڑھ صدی کی مدت کے بعد مغربی ترک اس علاقے میں پہنچے تو انہوں نے بدھ مت کو ایک کمزور حالت میں دیکھا۔ خاص کر سغدیہ میں۔ بظاہر اس پر یہ زوال سفید فام ہُنوں حکومت کے دور میں آیا تھا۔

بیشتر سفید فام ہُن، بدھ مت کے پرجوش حامی تھے۔ مثال کے طور پر، ۴۶۰ء میں، ان کے حکمراں نے بدھ کے لباس کا ایک ٹکڑا صندوقچے میں تبرک کے طور پر رکھ کر، کاشغر سے شمالی چینی درباروں میں سے ایک دربار کے لیے نذرانے کے طور پر بھجوایا تھا۔ بہر حال، ۵۱۵ء میں سفید فام ہُنوں راجہ "مہرکلا" نے بودھوں کو ستانے کے لیے، بدیہی طور پر، اپنے دربار میں موجود حادس مانوی اور نسطوری عیسائی گروپوں کے اثر میں آکر، لوگوں کو بھڑکا دیا۔ اس کا بدترین نقصان گندھارا، کشمیر اور شمالی ہندوستان کے مغربی حصّے میں ظاہر ہوا، مگر قدرے محدود پیمانے پر، یہ نقصان باختر اور سغدیہ تک بھی پہنچا۔

۶۳۰ء کے آس پاس، جب دوسرے قابل ذکر چینی زائر شوان-دزنگ نے سمرقند کا دورہ کیا جو سغدیہ میں مغربی ترک سلطنت تھی، تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایسے بہت سے بودھی تھے جن کی طرف مقامی زرتشتیوں کا رویہ مخاصمانہ تھا۔ وہاں کی دونوں خاص بودھی خانقاہیں، ویران اور بند پڑی تھیں۔ بہر حال،۶۲۲ء میں شوان-دزنگ کے سمرقند پہنچنے سے پہلے، اس شہر کے مغربی ترک حکمراں، تونگشیھو قاغان نے، پربھاکرمترا کی رہنمائی میں جو وہاں شمالی ہندوستان سے آنے والا ایک بھکشو تھا، باضابطہ طور پر بدھ مت اختیار کر لیا۔ شوان-دزنگ نے راجہ کو شہر کے قریب واقع مگر ویران پڑی ہوئی خانقاہوں کو، پھر سے کھولنے بلکہ مزید خانقاہیں تعمیر کرنے کی ترغیب دی۔

راجہ اور اس کے جانشینوں نے چینی بھکشو کا مشورہ تسلیم کیا اور صرف سمرقند میں سغدیہ کے مقام پر ہی نہیں، بلکہ وادئ فرغانہ اور آج کے دور کے مغربی تاجکستان میں بھی نئی خانقاہیں تعمیر کیں، انہوں نے شمال مغربی ترکستان تک بدھ مت کی سغدیائی اور کاشغری شکلوں کی آمیزش سے تیار شدہ ایک شکل بھی پہنچا دی۔ وہاں انہوں نے موجودہ دور کے جنوبی قازقستان، شمال مغربی کرغیزستان میں دریاۓ چو کی وادی اور آج کے الماتی سے قریب جنوب مشرقی قازقستان میں واقع "سیمریچیے" میں بھی نئی خانقاہیں بنوائیں۔

سغدیہ کے برعکس، شوان-دزنگ نے کاشغر اور باختر، نیز مغربی ترکوں کے زیر اقتدار دوسرے اہم علاقوں میں بھی، بہت سی بودھی خانقاہوں کے فروغ کا بیان کیا ہے۔ کاشغر میں سینکڑوں خانقاہیں تھیں اور دس ہزار بھکشو رہتے تھے، جب کہ باختر میں یہ تعداد زیادہ واجبی (کمتر) تھی۔ اس پورے علاقے کی عظیم ترین خانقاہ باختر کے خاص شہر بلخ میں نووہار (نوبہار) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ خانقاہ سارے کے سارے وسطی ایشیا میں اعلٰی سطحی بودھی تعلیمات کے اہم ترین مرکز کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی خانقاہیں تھیں۔ انہیں بھی نووہار ہی کہا جاتا تھا۔

کسی یونیورسٹی کی طرح پھیلی ہوئی اس خانقاہ، نووہار میں صرف ان بھکشوؤں کو داخل کیا جاتا تھا جو پہلے ہی عالمانہ متون (کتب) مرتب کرچکے ہوں۔ یہ اپنے ان ششدر کر دینے والے جواہرات، بدھ کے خوبصورت مجسّموں کے لیے مشہور تھی، جو بیش قیمت ریشمی ملبوسات اور مقامی زرتشتی رواج کے مطابق، شاندار ہیرے جواہرات کے زیوروں سے آراستہ کیے گئے تھے۔ ختن سے اس خانقاہ کا خصوصی طور پر قریبی رابطہ تھا جہاں یہ اپنے بہت سے اساتذہ کو بھجواتی رہتی تھی۔ شوان-دزنگ کے بیان کے مطابق، اس وقت ختن میں پانچ ہزار بھکشوؤں کے ساتھ ایک سو خانقاہیں موجود تھیں۔

مغربی ترکوں کا زوال

سودھو

ساتویں صدی کے وسط تک، مغربی اور مشرقی ترکستان کے ان علاقوں میں مغربی ترکوں کا اقتدار کمزور پڑنے لگا۔ پہلے ترکوں کے ہاتھ سے باختر نکلا اور گندھارا پر حکومت کرنے والے ایک دوسرے ترکیائی بودھی قبیلے "ترکی شاہیوں" کے قبضے میں چلا گیا۔ شوان-دزنگ کو گندھارا میں بدھ مت کا حال باختر سے زیادہ خراب اور ابتر دکھائی دیا تھا اور ایسا اس واقعے کے باوجود تھا کہ ۵۹۱ء میں، کابل سے قریب ہی، مغربی ترکوں نے کپیشا کے مقام پر ایک خانقاہ قائم کرلی تھی۔ درّہ خیبر کے کابل کی سمت واقع بڑی خانقاہ ناگر وہار درّہ خیبر جو موجودہ دور کے جلال آباد کے عین جنوب میں ہے، وہاں بدھ کے کاسئہ سر کی باقیات محفوظ تھیں اور اسے بودھی دنیا کی مقدس ترین زیارت گاہوں میں سے ایک کی حیثیت حاصل تھی۔ بہر حال، وہاں کے بھکشو مادہ پرست اور دنیا دار ہوگئے تھے اور اس مقدس تبرک کو دیکھنے کے بدلے میں ہر زائر سے سونے کا ایک سکّہ طلب کرتے تھے۔ اس پورے علاقے میں مطالعے کے کوئی مراکز نہیں تھے۔

پنجابی سمت میں، بھکشو لوگ محض نظم و ضبط کے خانقاہی قوانین کی حفاظت کرتے تھے اور ان میں مشکل سے ہی بودھی تعلیمات کی کوئی سوجھ بوجھ پائی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر، سوات کی وادی (اڈیانہ) میں شوان-دزنگ کو ایسی بہت سے خانقاہیں کھنڈر کی شکل میں دکھائی دیں، اور ان میں جو بھی خانقاہیں ابھی تک کھڑی ہوئی تھیں، وہاں مافوق الفطرت ہستیوں سے اپنی حفاظت اور اختیارات کے حصول کے لیے، بھکشو لوگ محض (بے دلی کے ساتھ) رسموں کی ادائیگی کیے جا رہے تھے۔ وہاں اب مطالعے اور مراقبے کی کوئی روایت باقی نہیں رہ گئی تھی۔

اس سے پہلے کے ایک ہان چینی سیّاح سونگ-یون نے۵۲۰ء میں سوات کا دورہ کیا تھا، مہرکلا کی ستم رانی کے پانچ برس بعد۔ اس کا بیان ہے کہ خانقاہیں ابھی بھی فروغ پارہی تھیں۔ اپنی سلطنت کے زیادہ فاصلے پر واقع علاقوں میں سفید فام ہُن حکمراں نے بظاہر ابھی تک اپنی بدھ دشمن پالیسی کا نفاذ نہیں کیا تھا۔ بعد میں سوات میں خانقاہوں کی بدحالی کا سبب، دونوں چینی زائروں کے دوروں کے درمیان کی صدی میں وقوع پذیر ہونے والے کئی شدید زلزلے اور سیلاب تھے۔ پہاڑی وادی کی مفلوک الحالی اور گلگت سے مشرقی ترکستان تک تجارت کا سلسلہ بند ہو جانے کی وجہ سے، خانقاہیں اپنی تمام تر اقتصادی امداد اور دوسری بودھی ثقافتوں سے اپنا ربط ضبط کھو چکی تھیں۔ پھر بودھی فہم وفراست کے باقی ماندہ حصّے میں مقامی توہم پرستانہ عقائد اور شامانی رسوم بھی گھل مل گئے تھے۔

۶۵۰ء میں ہان چینی ، جو۶۱۸ء میں تانگ حکومت کے قیام کے وقت سے اپنے اقتدار کو پھیلائے جارہے تھے، ان کے قبضے میں کاشغر کے چلے جانے سے، مغربی ترک سلطنت مزید سکڑ گئی۔ کاشغر پر اپنا تسلط قائم کرنے سے پہلے، تانگ فوجوں نے مشرقی ترکوں سے منگولیا اور پھر تاریم کے طاس (نشیب) میں شمالی کنارے کے ساتھ ساتھ واقع شہری ریاستیں بھی چھین لی تھیں۔ روز افزوں ہان خطرے اور اپنے دفاع کی اہلیت میں کمزوری پیدا ہو جانے کے باعث، کاشغر اور جنوبی کنارے سے ملحق آزاد ختن نے کسی مزاحمت کے بغیر، خاموشی کے ساتھ سپر ڈال دی۔

ساتویں صدی کے ربع دوم میں اہلِ تبت نے اپنے ملک کو متحد کرلیا۔ راجہ سونگ تسین گامپو (دور حکومت: ۶۱۷ تا ۶۴۹ ء) نے ایک سلطنت قائم کی جو شمالی برما سے ہان چین کی سرحدوں اور ختن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس سلطنت میں ایک تعلق دار مملکت کے طور پر نیپال بھی شامل تھا، جو فی الوقت کٹھمنڈو وادی تک محدود تھی۔ سلطنت کے قیام کے بعد، سونگ تسین گامپو نے اوآخر ۶۴۰ء میں اپنے ملک کو بدھ مت سے روشناس کرایا۔ بہر حال، ہان چین، نیپال اور ختن سے ماخوذ مختلف پہلوؤں کو باہم یکجا کرکے، یہ عمل ایک انتہائی محدود پیمانے پر کیا گیا تھا۔ تبتی جیسے جیسے اپنی مملکت کو وسیع کرتے گئے، انہوں نے ۶۶۳ء میں تانگ چین سے کاشغر چھین لیا اور اسی سال مغربی تبت کو مشرقی باختر سے جوڑتے ہوئے، گلگت اور واخان کی بیرونی پٹی تک اپنی حکومت قائم کرلی۔

گنگا کے کنارے ہندوستان (دریائے گنگا کے پہلو میں آباد ہندوستان)

سودھو

شمالی ہند میں، قدیم ترین زمانوں سے گنگا کے میدانوں میں ہندو اور جین مذاہب کے ساتھ ساتھ بدھ مت کا سلسلہ بھی، پر امن بقائے باہمی کے تحت، جاری چلا آرہا تھا۔ چوتھی صدی عیسوی سے، ہندو باشندے بدھ کو اپنے سب سے بڑے دیوتا وشنو کے دس اوتاروں میں سے، ایک کے طور پر تسلیم کرتے تھے۔ مقبول عام سطح پر، بہت سے ہندو بدھ مت کو اپنے ہی مذہب کی ایک اور شکل کے طور پر دیکھتے تھے۔ پہلے گپت عہد (۳۲۰۔۵۰۰ء) کے بادشاہ مندروں، خانقاہوں اور دونوں مسلکوں کے اساتذہ کی متواتر سرپرستی کرتے رہے۔ انہوں نے ان گنت بودھی خانقاہی یونیورسٹیاں قائم کیں جہاں خوب فلسفیانہ بحثیں کی جاتی تھیں۔ ان میں آج کے مرکزی بہار میں واقع نلندا یونیورسٹی سب سے مشہور تھی۔ وہ اپنی مملکت اقتدار میں دوسرے بدھ ممالک کے زائرین کو مقدس مقامات تک آنے کی اجازت بھی دیتے تھے۔ مثال کے طور پر، بادشاہ سمدرا گپت نے سری لنکا کے راجہ میگھاونا (دور حکومت۳۶۲ء تا ۴۰۹ء) کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ وجرآسن (جدید دور کا بودھ گیا) کے مقام پر ایک مہابودھی خانقاہ قائم کرے جہاں بدھ کو عرفان حاصل ہوا تھا۔

سفید فام ہُنوں نے گندھارا اور شمالی ہندوستان کے مغربی حصّے پر تقریباً تمام چھٹی صدی حکومت کی۔ مہرکلا کے ہاتھوں خانقاہوں کی بربادی کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے کوشامبی تک جا پہنچا، جو اتر پردیش میں موجودہ دور کے الٰہ آباد سے تھوڑی سی دوری پر ہے، دوسری گپت عہد (اوآخر چھٹی صدی) کی شروعات کے ساتھ اس کے بادشاہوں نے گزشتہ نقصانات کی تلافی کا بیڑا اٹھایا۔ بہر حال، شوان-دزنگ کو اپنے سفر کے دوران کوشامبی کے مغرب میں بہت سی خانقاہوں کے کھنڈر اس وقت بھی دکھائی دیے۔ تاہم، مشرق کی طرف مگدھ میں، مثلاً نلندا اور مہابودھی کے مقام پر جو خانقاہیں تھیں، وہ ابھی بارونق اور فروغ پذیر تھیں۔

بادشاہ ہرش (دور حکومت۶۰۶ تا ۶۴۷ء)، جو بدھ مت کا مضبوط ترین، گپت سرپرست تھا، اس نے اپنے شاہی دربار میں ایک ہزار بھکشو رکھے ہوۓ تھے۔ اس کی نظروں میں بدھ مت کا احترام اس بلند درجے کو پہنچا ہوا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلی ملاقات شوان-دزنگ کے پیر روایتی ہندو طریقے سے چھوکر اس (ہان چینی بھکشو) کا استقبال کیا۔

۶۴۷ء میں ایک بدھ مت دشمن وزیر، ارجن نے ہرش کا تختہ پلٹ دیا اور مختصر مدت کے لیے گپت حکومت کو غصب کرلیا۔ اس نے جب باہر سے آنے والے ایک چینی زائر، "وانگ شوان تسے" کے ساتھ بداخلاقی کا سلوک کیا اور اس کی جماعت کے زیادہ تر افراد کو لوٹ کر قتل کر دیا، تو وہ بھکشو جو تانگ بادشاہ تائی-دزونگ کا ایلچی بھی تھا، نیپال کی طرف فرار ہو گیا۔ وہاں اس نے تبتی بادشاہ سونگ تسین گامپو سے مدد کی درخواست کی جس نے ۶۴۱ء میں تانگ بادشاہ کی بیٹی وین چنگ سے شادی کرلی۔ اپنے نیپالی جاگیرداروں کی مدد سے، تبتی حکمراں نے ارجن کو بے دخل کردیا اور ازسرنو گپت حکومت قائم کردی۔ بعد کے ادوار میں بدھ مت کے لیے شمالی ہندوستان میں ایک عام پسندیدہ حیثیت برقرار رہی۔

کشمیر اور نیپال

سودھو

شمالی ہندوستان کی طرح کشمیر اور نیپال کی بنیادی طور پر ہندو ریاستوں میں بھی بدھ مت ترقی کرتا رہا۔ شوان-دزنگ کا بیان ہے کہ کشمیر میں بودھوں نے مہرکلا کے جو روستم سے خود کو بڑی حد تک بحال کرلیا تھا، خاص طور پر اسے اس وقت کی نئی کارکوٹا سلطنت (۶۳۰ء تا ۸۵۶ء) کے بانی کی حمایت حاصل رہی تھی۔

دوسری طرف، نیپال سفید فام ہُن حکومت سے بچ نکلا تھا۔ لچھوی سلطنت (۳۸۶ تا ۷۵۰ء) کے تاجداروں نے بدھ مت کی حمایت کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا۔ ۶۴۳ء میں تبتی بادشاہ سونگ تسین گامپو نے اس سلطنت کے ایک غاصب وشن گپت کو نکال باہر کیا اور راجہ نریندر دیو کو، جو نیپال کے تخت کا وارث تھا اور جس نے تبت میں پناہ لے رکھی تھی، پھر سے بحال کردیا۔ بہر حال، اس واقعے کا کٹھمنڈو وادی میں نیپالی بدھ مت کی حالت پر بہت معمولی سا اثر پڑا۔ اس کے بعد سونگ تسین گامپو نے راجہ نریندر دیو کی بیٹی راجمکماری بھرکوتی سے شادی کرلی اور یوں دونوں ملکوں کے رشتے مضبوط ہوئے۔

خلاصہ

سودھو

اس طرح ساتویں صدی کے وسط میں جب مسلمان عرب یہاں پہنچے، وسطی ایشیا کے تقریباً تمام حصّوں میں بدھ مت پایا جاتا تھا۔ یہ سب سے زیادہ مستحکم اور مقبول باختر، کشمیر اور تاریم کے طاس میں تھا۔ لیکن گندھارا اور منگولیا میں اسے بس ایک معمولی اور نچلی سطح پر سمجھا گیا تھا، تبت میں اس کا صرف تعارف ہوا تھا اور سغدیہ میں نئے سرے سے اس کا احیا ہو رہا تھا۔ بہر طور، یہاں اسے اس علاقے کے خصوصی عقیدے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ وہاں زرتشتی، ہندو، نسطوری عیسائی، یہودی، مانوی، نیز شمنیت، تینگریت اور دوسرے دیسی غیر منظم عقیدوں کے سلسلے بھی موجود تھے۔

وسطی ایشیا کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت ہان چین، نیپال اور شمالی ہندوستان میں بھی طاقت ور تھا۔ جہاں اس کے پیروکار تاؤمت، کنفیوشیائی مذہب، ہندووں اور جینیوں کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ رہے تھے۔

وسطی ایشیا میں مسلمان عربوں کی آمد کے وقت گندھارا اور باختر میں ترکی شاہیوں کی حکومت تھی، جبکہ مغربی ترک شمالی مغربی ترکستان کے حصّوں اور سغدیہ پر اپنا اقتدار جمائے ہوئے تھے۔ گلگت اور کاشغر پر تبتوں کا قبضہ تھا، جبکہ تاریم کے طاس کے باقی تمام حصوں، اس کے ساتھ ساتھ منگولیا پر تانگ چین کی حکومت قائم تھی۔ منگولیا کے مشرقی ترکوں کو، ہان چینی اقتدار کے ایک مختصر عبوری دور میں، عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔


سغدیہ اور باختر، دور بنو امیہ کے آغاز کے وقت

سودھو

چونکہ سغدیہ اور باختر ہی وہ خاص علاقے تھے جن تک عربوں نے وسطی ایشیا میں اسلام کی اشاعت سب سے پہلے کی۔ اس لیے، ہمیں وہاں کے باشندوں کے مذہبی پس منظر کو مزید توجہ کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ اس سے مسلم عقیدے کے تئیں ان لوگوں کے اولین ردّعمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

بدھ مت سے زر تشتیوں کے رشتے

سودھو

سغدیہ اور باختر کے باشندوں کی اکثریت زرتشتی تھی، جبکہ بودھوں، مانويوں، نسطوریوں عیسائیوں اور یہودیوں کو وہاں کی اہم اقلیتوں کی حیثیت حاصل تھی۔ دوسری صدی قبل مسیح کے خاتمے سے لے کر ۲۲۶ء تک کشان حکومت کے دوران اس پورے علاقے میں بدھ مت پھیل گیا تھا۔ لیکن یہ کبھی دین زرتشت پر سبقت نہ پاسکا۔ لہذا، فطری طور پر، سغدیہ میں اس کی حالت سب سے کمزور تھی کیوں کہ کشمیر، گندھار، اڈیانہ اور کابل میں کشانوں کے مراکز اقتدار سے دور دراز علاقوں تک پھیلے ہوئے تھے۔

فارسی ساسانیوں (۲۲۶۔۶۳۷ء) نے سغدیہ، باختر، کاشغر، گندھارا کے مختلف حصوں پر پانچویں صدی کی شروعات تک حکومت کی جب تک کہ سفید فام ہنوں نے اس علاقے کو فتح کر کے انہیں ایران میں پناہ لینے پر مجبور نہیں کیا۔ اگرچہ ساسانیوں کی سلطنت طبعاً قوم پرست اور مشتاقانہ طور پر زرتشت نواز تھی۔ جس کے زیادہ سخت گیر حکمرانوں نے ایسے کسی بھی زرتشتی فرقے پر جوان کے نزدیک بدعتوں کا شکار ہوگیا ہو، سخت ستم ڈھائے تھے، مگر ان میں زیادہ تر لوگ دوسرے مذاہب کی طرف رواداری کا رویہ رکھتے تھے۔ وہ انہیں اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ اپنے عقائد کے پابند رہیں بشرطے کہ ہر بالغ مرد ایک طے شدہ آمدنی، جزیہ کے طور پر ادا کرتا رہے۔

اس میلان میں ایک بڑی استثنائی شکل تیسری صدی کے نصف دوم میں اس وقت رونما ہوئی، جب زرتشتوں کے بڑے پروہت کارتر نے، سلطنت کی مذہبی پالیسی کو راستہ دکھانا شروع کیا۔ اپنی مملکت سے دیوی دیوتاؤں کی تمام شبیہوں کو نکال پھینکنے کے مصلحانہ جوش کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ کہ آئندہ صرف زرتشتیوں کی مقدس آگ پوری مملکت میں عبادت کا مرکز ہوگی۔ کارتر نے متعدد بدھ خانقاہوں کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا جن میں بطور خاص باختر کی خانقاہیں شامل تھیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ ان خانقاہوں میں موجود مجسموں اور دیواری تصاویروں میں بہت سے زرتشتی عناصر بھی شامل کرلیے گئے تھے۔مثلاً، بدھ کی شبیہ کو اکثر ایک شعلہ نما ہالے کے ساتھ دکھایا جاتا تھا یا اس کے ساتھ بدھ-مزد کے الفاظ کندہ کردیے جاتے تھے۔ ایسی صورت میں، باختری بدھ مت اس بڑے پروہت کو زرتشتی بدعت کا شکار دکھائی دیتا۔ بہر حال، کارتر کی تعذیب کے بعد، بدھ مت کو پھر سے فروغ ملا۔

زروانیت

سودھو

زروانیت ایک زرتشتی فرقہ تھا جسے بعض اوقات کچھ خاص ساسانی بادشاہوں کی حمایت حاصل رہی اور دوسرے وقتوں میں زیادہ کٹر حکمرانوں نے اسے بدعت سمجھ کر جڑ سے ختم کرنا چاہا۔ اگرچہ ساسانی سلطنت کے طول وعرض میں ہر طرف یہاں تک کہ زرتشت کی جائے پیدائش بلخ میں بھی جگہ جگہ زروانیت کے مراکز موجود رہے، تاہم وہ جگہ جس کی طرف زروانیوں نے سب سے زیادہ کشش محسوس کی، سغدیہ تھی۔ ایسا شاید سغدیہ کی دورافتادگی کے باعث تھا۔

سغدیائی زروانی اس زرتشتی گروہ کے لوگ تھے جن کا رویہ دوسرے مذاہب کی طرف سب سے زیادہ معاندانہ اور جارحانہ تھا۔ باختر میں ان کے ساتھی زروانیوں سے کہیں زیادہ مخاصمت آمیز۔ ان کی جارحیت شاید اس احساس مدافعت کی وجہ سے تھی جو ایران میں انہیں تعصب کا ہدف بنائے جانے کے باعث پیدا ہوا تھا، علاوہ ازیں، اس میں یہ وجہ بھی شامل تھی کہ سغدیہ کے ماحول نے ان میں اپنی تعداد کے یکجا ہونے کی وجہ سے ایک طرح کی خود اعتمادی بھی پیدا کردی تھی۔ ان کی عصبیت نے بہت سے بودھوں، مانويوں اور سغدیہ کے نسطوری عیسائیوں کو اپنا گھر چھوڑنے اور مشرق میں شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ، تاریم طاس (نشیبی علاقے) کی شہری ریاستوں، بالخصوص ترفان میں جابسنے پر مجبور کردیا۔ چونکہ ترفان کے تخاری بھی ایک مہاجر فرقے کے لوگ تھے جو مغرب سے وہاں آئے تھے، اس لیے سغدیائی پناہ گزینوں کا ان کی طرف سے شاید ہمدردانہ طریقے سے استقبال کیا گیا۔

سفید فام ہنوں کی حکومت اور سغدیہ میں اس کا ماحاصل

سودھو

سفید فام ہن باشندے، جنہوں نے ساسانیوں سے سغدیہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا، بیشتر ادوار میں، بودھوں کی شدید حمایت کرتے رہے۔ انھوں نے صرف وسطی ایشیا کے سابقہ ساسانی موضعوں پر ہی حکومت نہیں کی بلکہ شمالی ہندوستان کے کچھ حصّے، کشمیر اور ختن بھی ان کے زیر اقتدار رہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے، پانچویں صدی کی شروعات میں، جب فاشیان نے یہاں کا سفر کیا تو یہ بتایا تھا کہ سغدیہ میں بدھ مت کی بنیادیں اس وقت مضبوط تھیں۔ تاہم، وہاں کے لوگوں کی اکثریت ابھی تک زروانی تھى جو غالباً بودھی احیا کو پسند نہیں کرتے تھے۔

۵۱۵ ء میں، سفید فام ہن راجہ مہرکلا نے بودھوں پر ایک مختصر لیکن تباہ کن جبر کی شروعات کی۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اس کی فوجوں نے چودہ سو خانقاہیں برباد کر ڈالیں۔ سب سے زیادہ نقصان گندھارا کے میدانوں، کشمیر اور شمال مغربی ہندوستان نے اٹھایا جہاں فام ہون راجہ مہرکلا کے اقتدار کے مراکز تھے۔ اس نے اپنی سلطنت کے زیادہ دور افتادہ علاقوں، مثلاً سوات میں اپنی اس پالیسی کا نفاذ نہیں کیا۔ بہر حال، ایک خاص حد تک ان علاقوں پر اس کا اثر پڑا۔ مثال کے طور پر سمرقند کی خانقاہیں مسمار تو نہیں کی گئیں مگر بھکشوں سے پوری طرح خالی ہوگئیں۔

بدھ مت کے تئیں مقامی زروانیوں کی ناپسندیدگی نے، بلاشبہ، ان سغدیائى خانقاہوں کے پھر سے کھولے جانے میں رکاوٹ ڈالی، ان کے اس دماغی خلل کو ایران میں راسخ العقیدہ زرتشتیت کے ازسرنو سختی کے ساتھ اپنے دعوے پر اصرار نے شاید اور زیادہ ہوا دی، اسی کے ساتھ ساتھ کچھ ہی دنوں بعد، ساسانی بادشاہ خسرو (دور حکومت ۵۳۲۔۵۷۸ء) کے ذریعے بدعتی فرقوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بھی انہیں تقویت ملی تھی۔ اس طرح، مغربی ترکوں نے سغدیہ میں، ۵۶۰ء میں بدھ مت کو کمزور پایا اور شوان-دزنگ نے ۶۳۰ء میں یہ اطلاع دی کہ سمرقند کی خانقاہیں ابھی تک بند پڑی تھیں اور بدھ مت کی طرف مقامی زرتشی فرقے کا رویہ جارحانہ تھا۔

خود ایران میں، شوان-دزنگ کی رپورٹ کے مطابق، سابق پارتھیا کے مقام پر، جو کہ ملک کے شمال مشرق میں واقع تھا، اس وقت تین بودھی خانقاہیں بچی ہوئی تھیں۔ گیارہویں صدی کے مسلمان مؤرخ، البیرونی کا کہنا ہے کہ وہاں پہلے شام کی سرحدوں کےساتھ ساتھ، راستے بھر بڑی تعداد میں خانقاہیں موجود تھیں۔ بظاہر ساسانیوں نے باقی سب کو برباد کردیا تھا۔

باختر

سودھو

شوان-دزنگ نے باختر میں بدھ مت کو فروغ پذیر دیکھا، بالخصوص بلخ میں خانقاہ نووہار کے مقام پر۔ گو کہ بلخ زرتشتیت کا مقدس ترین شہر تھا اور وہاں کے باشندوں کی اکثریت، بشمول زروانی فرقے کے، اسی مذہب کی پیروکار تھی، اس کے باوجود یہ لوگ بدھ مت کے تئیں روادار تھے۔ سغدیہ کے مقابلے میں ایران سے یہاں آنے والے زروانی مہاجرین کی تعداد خاصی کم تھی اور شاید اسی وجہ سے ان لوگوں کو اپنے مذہب کے سلسلے میں حفاظت کرنے کی فکر بھی کم تھی۔

زرتشتی دنیا کے روحانی مرکز میں رہتے ہوئے، بظاہر یہی لگتا ہے کہ انہیں تعلیمات کو پھیلانے والے بودھی خانقاہی ادارے کی موجودگی سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ ایسے ماحول کی وجہ سے نووہار کو پورے وسطی ایشیا کے بودھی فرقوں کی حمایت حاصل تھی، اور یہاں تعلیم کا معیار بلند ہونے کے باعث داخلے کے امیدواروں کی درخواستیں مسلسل موصول ہوتی رہتی تھیں، یہ دونوں باتیں اس خانقاہ کی اور ترقی کی ضامن تھیں۔ قطع نظر اس تمام نقصان کے جو اسے مہرکلا کے مختصر دور استبداد میں پہنچتا رہا۔

گندھارا

سودھو

اگرچہ وسطی ایشیا کے اولین عربوں کے لیے گندھارا پہنچنا ممکن نہیں تھا، تاہم، اس پوری روداد کی تکمیل کے لیے، بدھ مت کی حالت کا تجزیہ بھی کر لینا چاہیے۔ شوان-دزنگ کے بیان کے مطابق، گندھارا کی خانقاہیں سرگرم تھیں، مگر نہایت پست روحانی سطح پر۔ مہرکلا کی فوجوں کا ڈھایا ہوا ستم اور بیشتر نقصان کابل کے علاقے اور گندھارا کے پنجابی میدانوں نے برداشت کیا۔ وہاں کے بودھی باشندے، خاص طور پر گندھارا میں رہنے والے، ایک ایسے ماحول سے دوچار تھے جو بڑی حد تک ہندو تھا، عباداتی رسوم پر زور دیتا تھا، اور جو بدھ کو ایک ہندو دیوتا کے طور پر تسلیم کرتا تھا۔ درس و تدریس کے بڑے مراکز نہ ہونے کی وجہ سے، اس واقعے پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ اگرچہ خانقاہیں کھلی ہوئی تھیں، مگر ان کی ساری توجہ زائرین کی عام عقیدت مندانہ ضرورتوں پر تھی نہ کہ بدھ مت سنجیدہ مطالعے پر۔ مختصر یہ کہ گندھارا کی خانقاہیں مہرکلا کی لائی ہوئی بربادیوں کی وجہ سے کبھی بھی پوری طرح ابھر نہ سکیں اور ان کی صحت بحال نہ ہو سکی۔

خلاصہ

سودھو

ان تمام تفصیلات کے پس منظر میں، یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ شروع میں نہ توزروانی اکثریت اور نہ ہی سغدیہ کی بدھ مت اقلیت کھلے بندوں اسلام کا خیر مقدم کرسکتی تھی۔ زروانیوں نے ایک چھوٹے سے فرقے کی حیثیت سے اپنے لیے ایران میں طاقت ور اور راسخ العقیدہ زرتشتیوں کی ناپسندیدگی کا تجربہ برداشت کیا تھا، اور سغدیہ کے بودھوں کو بھی زروانیوں کے ہاتھوں اسی طرح کے تجربے سے گزرنا پڑا تھا۔ لہذا، ان میں سے زیادہ تر کے لیے، عربوں کی حکومت کے ساتھ رونما ہونے والی صورت حال کو، جو ایک مسلمان ریاست میں محفوظ مگر دوسرے درجے کی غیرمسلم رعایا (عربی اصطلاح میں ذمی) کی حیثیت سے عبارت ہے، اسے قبول کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ ایران کی ساسانی رسم کو اختیار کرتے ہوئے، عربوں کا مطالبہ ہر بالغ مرد سے یہ تھا کہ وہ طے شدہ آمدنی (عربی میں جزیہ) اپنے مذہب پر قائم رہنے کے لیے، ادا کرتا رہے۔ باختر میں زرتشتی اور بودھی دونوں اس کی تمام تر قیمت ادا کرتے رہنے کے باوجود اپنے عقائد میں مستحکم اور خود اعتماد تھے۔ وہ اسے جاری بھی رکھنا چاہتے تھے۔


بودھی ایشیا اور مسلمانوں کی پہلی مڈ بھیڑ

سودھو

اسلام سے پہلے بدھ مت کی شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا میں موجودگی

سودھو

ہندوستان اور مغربی ایشیا کے درمیان زمینی اور سمندری راستوں سے تجارت کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ ہندوستان اور میسوپوٹیمیا میں کاروباری روابط کا آغاز بہت پہلے ۳۰۰۰ سال قبل مسیح میں ہوا، یمن کی درمیانی بندرگاہوں کے ذریعے ۱۰۰۰ سال قبل مسیح۔ بدھ کی پچھلی زندگیوں کی روداد پر مشتمل ابتدائی بودھی مجموعے، "بویرو جاتک" کے ایک باب میں بابل (سنسکرت: بویرو) کے ساتھ سمندری ساحلوں کے آس پاس ہونے والے کاروبار کا تذکرہ ملتا ہے۔

سال ۲۵۵ قبل مسیح میں، ہندوستان کے موریہ شہنشاہ اشوک نے (دور حکومت: ۲۳۲۔۲۷۳ سال قبل مسیح) بودھی بھکشوؤں کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ شام اور مغربی ایشیا کے مذہبی حکمراں اینٹی یوکس دوم، مصر کے فلاڈیلفاس بطلیموس دو، سائرین کے ماگاس، مقدونیہ کے اینٹی گون گونٹاس اور کورنتھ کے اسکندر سے تعلقات قائم کرسکیں۔ آخرکار، ہندوستانی سوداگروں، ہندو اور بودھ مت دونوں کے گروہ ایشیائے کوچک، جزیرہ نمائے عرب، اور مصر کی سمندری اور دریائی بندرگاہوں میں سے بعض اہم بندرگاہوں میں جاکر بس گئے۔ جلدی ہی دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں نے بھی ان کی تقلید کی، شامی مصنف، زینوب گلاک نے ایک ہندوستانی قوم کے بارے میں لکھا ہے جو پوری طرح اپنی مذہبی عبادت گاہوں (مندروں) کے ساتھ، موجودہ زمانے کے ترکی میں، دوسری صدی قبل مسیح کے دوران وان جھیل کے مغرب میں دریائے فرات کے بالائی علاقے کی طرف آباد ہوگئی تھی، اور یونان کے سابق قوم پرست ڈیوں کرائسوسٹم (۴۰۔۱۱۲ء) نے ایسی ہی ایک قوم کے اسکندریہ میں بودوباش اختیار کر لینے کا ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ آثار قدیمہ کی باقیات سے ثابت ہے، دوسری بودھی بستیاں دریائے فرات کے نشیبی علاقے میں کوفہ کے مقام پر، زیرراہ کے مشرقی ایرانی ساحل پر، اور جزیرہ سوکوترا کے خلیج عدن کے دہانے پر واقع تھیں۔

پہلے ہزار برس کے وسط میں بابلی اور مصری تہذیبوں کے زوال، اور اسی کے شانہ بشانہ بحر احمر میں بازنطینی جہاز رانی میں تخفیف کے ساتھ، ہندوستان اور مغرب کے مابین ہونے والی تجارت کا بڑا حصہ جزیرہ نمائے عرب تک سمندری راستے سے پہنچتا تھا اور پھر عرب ثالثوں کی وساطت سے زمینی راستہ اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا تھا۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) (۵۷۰۔۶۳۲ء) کی جائے پیدائش مکہ مکرمہ ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا جہاں مشرق و مغرب کے سوداگر آپس میں ملتے تھے۔ ان میں جو سب سے اہم (کاروباری) تھے، انہی میں جاٹ لوگ (عربی: ذوت) بھی شامل تھے، جن میں سے بہت ساروں نے خلیج فارس کے اوپری سرے پر واقع، موجودہ زمانے کے شہر بصرہ کو اپنی جائے رہائش بنا لیا۔ پیغمبر اسلام کی زوجہ حضرت عائشہ کا علاج ایک مرتبہ ایک جاٹ معالج نے کیا تھا۔ اس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یقینی طور پر ہندوستانی ثقافت سے واقف تھے۔


مزید ثبوت کے طور پر وسط بیسویوں صدی کے اسکالر حامد عبدالقادر کی کتاب "بدھ اعظم، ان کی حیات اور فلسلفہ" (عربی: "بدھ الاکبر، حیاتہ و فلسفۃ") کا یہ بیان ہے کہ پیغمبر ذوال کفل (کفل کا باشندہ)، جس کا تذکرہ قرآن میں ایک صابر اور نیک شخص کے طور پر دوبار آیا ہے، بدھ کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے، اگرچہ بیشتر لوگ اس سے عیزیکیل مراد لیتے ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق "کفل" کپل وستو کی جائے پیدائش کپل وستو کا عربی مترادف ہے۔ اسی اسکالر نے یہ خیال بھی پیش کیا ہے کہ انجیر کے درخت کا حوالہ بھی بدھ کی ہی طرف ہے جنہوں نے ایک شجر کے نیچے عرفان پایا۔

اسلام کی ابتدائی تاریخوں میں سے ایک "تاریخ طبری" دسویں صدی عیسوی کے دوران بغداد میں الطبری (۸۳۸۔۹۲۳ء) کے ذریعے لکھی گئی جس میں عرب میں موجود ہندوستانیوں کے ایک گروہ کا تذکرہ ہے جو سندھ سے آئے تھے اور سرخ لباس (احمر) پہنتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ اشارہ "زعفرانی ملبوس" والے بودھی بھکشوؤں کی طرف ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان بھکشوں میں سے تین نے اسلامی دور کے ابتدائی کچھ برسوں کے دوران عربوں کے سامنے فلسفیانہ تعلیمات کی تشریح کی۔ لہٰذا، یہ طے ہے کہ کم سے کم عرب رہ نما، جزیرہ نمائے عرب سے آگے اسلام کو لے جانے سے پہلے، بدھ مت سے واقف ہو چکے تھے۔

خلافت بنو امیہ کا قیام

سودھو

پیغمبر اسلام کے انتقال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (دور خلافت ۶۳۲۔۶۳۴ء) اور پھر حضرت عمرفاروق (دور خلافت ۶۳۴۔۶۴۴ء) کو ان کے دینی وارث کے طور پر منتخب کیا گیا۔ ثانی الذکر کے عہد اقتدار میں عربوں نے شام، فلسطین، مصر، شمالی افریقہ کے کچھ حصے فتح کرلیے اور ایران پر حملہ شروع کردیا۔ ان دونوں کے بعد چھ اشخاص پر مشتمل ایک کونسل نے حضرت علی المرتضی کو خلافت کی پیش کش کی جو رسول اللہ کے چچازاد بھائی اور داماد تھے۔ مگر ایسی شرطوں کے ساتھ جنہیں وہ قبول نہیں کرسکتے تھے۔

اس کے بعد خلافت حضرت عثمان غنی (دور خلافت ۶۴۴۔۶۵۶ء) کے سپرد کی گئی، جنہوں نے ۶۵۱ء میں ایران میں ساسانیوں کا تختہ پلٹنے کے عمل کی تکمیل کی اور اسلام کی حدود میں مرجیہ تحریک کا نفاذ کیا۔ انہوں نے یہ فرمان جاری کیا کہ غیر عرب بھی مسلمان بن سکتے ہیں اگر ظاہری طور پر بھی وہ شرعی قانون کی پابندی کریں اور خلیفہ کے اقتدار کو تسلیم کرلیں۔ بہر حال، صرف اللہ ان کے باطنی زہد وتقویٰ کا حساب کرسکتا ہے۔

بالآخر، اس گروہ نے جو حضرت علی کا حامی تھا، اس کے ہاتھوں حضرت عثمان قتل کردیے گئے۔ خانہ جنگی چھڑ گئی جس میں پہلے حضرت علی اور پھر ان کے سب سے بڑے بیٹے حسن، مختصر مدت کے لیے خلافت سنبھالنے کے بعد شہید کردیے گئے۔ پیغمبر کے برادر نسبتی اور حضرت عثمان کے حمایتیوں کے قائد، معاویہ آخر کار فتح یاب ہوئے اور انہوں نے اپنے بنو امیہ (۶۶۱۔۷۵۰ء) کے پہلے خلیفہ ہونے کا اعلان کردیا (دور خلافت ۶۶۱۔۶۸۰ء) انہوں نے اپنا دارالسلطنت مکّہ سے دمشق منتقل کردیا جب کہ خلافت پر دعوے داری کے حق کا اعلان حضرت علی کے چھوٹے بیٹے حضرت امام حسین کی طرف سے ہوا۔ وسطی ایشیا میں مسلمان عربوں اور بودھوں کے مابین سب سے پہلے روابط اس کے کچھ ہی عرصے بعد رونما ہوئے۔


باختر پر بنو امیہ کے حملے

سودھو

۶۶۳ء میں ایران میں مقیم عربوں نے، باختر پر اپنا پہلا حملہ کیا۔ حملہ آور فوجوں نے ترکی شاہوں سے بلخ کے اطراف کا علاقہ خانقاہ نووہار سمیت چھین کر اپنے قبضے میں لے لیا جس کے باعث ترکی شاہی جنوب کی سمت میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔ جہاں وادئ کابل میں انہوں نے اپنا مضبوط مورچہ بنا رکھا تھا۔ جلد ہی عرب اس قابل ہوگئے کہ وہ اپنا اقتدار شمال کی جانب پھیلا سکیں، انہوں نے مغربی ترکوں سے بخارا چھین کر سغدیہ میں اپنی کامرانی کا پہلا راستہ بنا لیا۔

عربوں کی فوجی پالیسی یہ تھی کہ وہ ان تمام لوگوں کو قتل کر دیں گے جو مزاحمت پر کمربستہ ہوں، مگر ان لوگوں کو محفوظ حیثیت عطا کردیں گے جو پرامن طریقے سے ان کی اطاعت قبول کرتے ہوں اور جن سے خراج وصول کیا جاسکے، چاہے رقم کی شکل میں چاہے چیزوں کی شکل میں۔ کوئی بھی ایسا شہر جو اس معاہدے کی پابندی پر راضی ہوتا تھا، اسے وہ ایک قانونی اقرار نامے کے ذریعے حفاظت کی ضمانت بھی دے دیتے تھے۔ اسلامی قانون کے مطابق کئے گئے عہد اور معاہدے پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوتے اور اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ عربوں نے جلد ہی اپنی نئی وجوبی رعیت کا اعتبار بھی حاصل کرلیا تاکہ انہیں اپنے اقتدار کا تابع بناتے وقت کم سے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔

مذہبی پالیسی کے بعد فوجی پالسی سامنے آئی۔ جن لوگوں نے معاہدے کے مطابق عربوں کی حکومت قبول کرلی تھی، انہیں ایک معینہ محصول (جزیہ) کی ادائیگی کے بعد اپنے مذاہب پرکار بند رہنے کی اجازت تھی۔ مزاحمت کرنے والوں کے سامنے یا تو تبدیلئ مذہب کا راستہ تھا یا پھر تلوار کا۔ بہر حال، بہت ساروں نے رضاکارانہ طور پر اسلام قبول کرلیا۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو محصول کی ادائیگی سے بچنا چاہتے تھے، جب کہ دوسری طرف وہ لوگ تھے، خاص کر بیوپاریوں اور کاری گروں میں جنہیں مذہب کی تبدیلی میں نئے اور زائد مالی فائدے دکھائی دیتے تھے۔

ہر چند کہ باختر میں کچھ بدھ مت کے پیروکاروں نے، یہاں تک کہ نووہارکے ایک پروہت نے بھی اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا، لیکن اس علاقے کے بیشتر بودھوں نے اسلامی ریاست کے اندر بحفاظت ایک وفادار غیرمسلم رعایا کی حیثیت میں رہنے اور اس کے لیے خود پرعائد ہونے والا محصول ادا کرتے رہنے کو ترجیح دی۔ خانقاہ نووہار حسب معمول کھلی رہی اور اپنا کام کرتی رہی۔ ہان چینی زایر "یی-جنگ" نے آٹھویں صدی کے آغاز کے آس پاس نووہار کی زیارت کی اور اطلاع دی کہ یہ خانقاہ خوب پھل پھول رہی تھی۔

ایک اموی فارسی مصنف، عمر ابن لأزرق الکرمانی نے، آٹھویں صدی عیسوی کے عہد آغاز میں نووہار کے تفصیلی حالات قلم بند کیے ہیں، جنہیں ابن الفقیہ الحمدانی نے دسویں صدی کی ایک کتاب جو "كتاب البُلدان" کے نام سے موسوم ہے میں محفوظ کرلیا ہے، اس کتاب میں انہوں نے نووہار کی تفصیلات ایسی اصطلاحوں میں بیان کی ہیں جو مکے میں واقع کعبے سے خاص مماثلت رکھتی ہیں اور جنہیں مسلمان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی بیان کردہ تشریح کے مطابق خاص مندر کے مرکز میں ایک مربع سنگین چوکی تھی۔ کپڑے سے ڈھکی ہوئی اور لوگ اس کا طواف کرتے تھے۔ یہ مربع سنگین چوکی، بلاشبہ اس پلیٹ فارم کی نشاندہی کرتی ہے جس پر ایک استوپا کے تبرکات خانے کی تعمیر کی گئی تھی، جو کہ باختری اور تخاری مندروں میں بالعموم پایا جاتا ہے۔ وہ غلاف جس نے اسے ڈھانک رکھا تھا، احترام کے اظہار کی ایرانی رسم کے عین مطابق تھا جس کا اطلاق بدھ کے مجسموں اور استوپاؤں دونوں پر ہوتا ہے، اور جہاں تک طواف کا تعلق ہے، تو یہ عبادت کا عام طریقہ ہے۔ پھر بھی، الکرمانی کے متذکرہ بیان سے اس کشادہ اور احترام آمیز رویّے کی نشاندہی بھی ہوتی ہے جو اموی عربوں نے ان تمام دوسرے غیراسلامی ادیان جیسے کہ بدھ مت کو سمجھنے کی کوشش کے طور پر اختیار کررکھا تھا، جن سے کہ اپنی نئی مفتوحہ سرزمینوں میں ان کا سامنا ہوتا تھا۔

ایران میں امویوں کا غیر مسلموں کے ساتھ سابقہ تجربہ

سودھو

باختر پر حملے سے قبل، امویوں نے ایران میں اپنی زرتشتی، نسطوری عیسائی اور بودھی رعایا پر تحفظ کی ضمانت کے ساتھ ساتھ محصول (جزیہ) عائد کردیا تھا۔ بہر حال، کچھ مقامی عرب عہدیدار، دوسروں کی بہ نسبت کم روادار تھے۔ بعض اوقات اپنے تحفظ کی ضمانت پانے والی رعایتوں کو خاص وضع کے ملبوسات یا بلّے نشان پہننے پڑتے تھے تاکہ ان کی شناخت نمایاں رہے اور اس کی مزید اہانت اس طرح کی جاتی تھی کہ ہر مرتبہ جب وہ اپنا جزیہ ادا کرتے تھے اور اطاعت میں اپنا سر جھکاتے تھے تو ان کی گردن پر ایک گھونسا بھی رسید کیا جاتا تھا۔ اس محفوظ رعایا کو اگرچہ اپنے طریقے سے عبادت کی آزادی تھی، پھر بھی کچھ سخت گیر حکام انہیں نئے مندروں یا گرجا گھروں کی تعمیر سے روکتے تھے اور اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ دوسری طرف، وہ لوگ جو جمعہ کی نماز کے لیے مسجدوں میں آتے تھے انہیں کبھی کبھی کچھ رقم بھی بطور انعام دے دی جاتی تھی۔ بعد کے ادوار میں، اگر کسی غیرمسلم خاندان کا کوئی فرد اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیتا تو اسے اس کے اپنے خاندان کی ساری جائیداد کا وارث بنا دیا جاتا تھا۔ مزید برآں، اور زیادہ جارحانہ مزاج رکھنے والے عہدے دارغیر ملکیوں کو خاص کر ترکوں کو متواتر غلام بنا لیتے تھے لیکن اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کردیں تو انہیں آزادی بھی دے دیتے تھے۔

اس طرح کی پابندیوں اور ذلتوں سے بچنے اور مالی و سماجی فائدے حاصل کرنے کی طلب کے باعث بہت سے لوگ فطری طور پر اپنا مذہب چھوڑنے اور نیا مذہب اختیار کرنے پر بھی تیار ہوجاتے تھے۔ لہٰذا، ایران میں بہت سے زرتشتیوں نے بالآخر اپنی محفوظ حیثیت چھوڑ دی اور حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا باختر اور بخارا میں بودھوں کے درمیان بھی اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تھی، لیکن یہ فرض کر لینا بعید از عقل نہیں کہ ایسا ضرور ہوا ہوگا۔

اس وقت اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کرلینے کا عمل، بنیادی طور پر، ایک بیرونی معاملہ اور مرجیہ رسم و رواج کے عین مطابق تھا۔ بس اتنا کرنا ہوتا تھا کہ اسلامی عقیدے کے بنیادی ارکان کو تسلیم کر لیا جائے اور روزآنہ پنج گا نہ نمازوں کی ادائیگی، غریب مسلمانوں کے لیے زکوۃ دینے، رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے اور زندگی میں ایک بار حج کی خاطر مکہ جانے کے اساسی مذہبی فرائض قبول کرلیے جائیں۔ ان سب کے پہلے امیہ حکومت کی اطاعت کا اقرار ضروری تھا کیونکہ سب سے خاص اور مطلوبہ شرط روحانی اطاعت سے زیادہ سیاسی اطاعت شعاری اور تابع داری کی تھی۔ وہ لوگ جو شرعی قوانین کو توڑنے کے قصوروار ٹھہرتے تھے ان پر اموی عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا تھا اور سزا دی جاتی تھی ہر چند کہ اس وقت بھی وہ اپنی تمام شہری مراعات کے ساتھ باضابطہ طور پر مسلمان ہوتے تھے۔ یہ فیصلہ صرف اللہ کے ہاتھوں میں تھا کہ اپنے مذہبی عقائد میں کون کتنا مخلص ہے۔

ایسی رعیت جو عرب اقتدار کے مطابق تابعدار اور وفا شعار ہو، اس کا دل جیتنے کے لیے کچھ خاص رسمیں رائج کر دی گئی تھیں۔ ان میں وہ لوگ فطرتاً کشش محسوس کرتے تھے جو سیاسی، سماجی اور اقتصادی ضرورتوں کے تحت تبدیلئ مذہب پر رضامند ہوں، خواہ اپنے باطن کی سطح پر، وہ اپنے اصل اور پرانے دین پر پوری طرح قائم ہوں۔ اس قسم کے نومسلموں کی بہ نسبت ان کے بیٹی بیٹے، یا پوتے پوتیاں اسلام کی بیرونی چوکھٹے کے اندر اپنی نشوونما کے باعث، اپنے نئے عقیدے سے کہیں زیادہ مخلص اور وفادار تھے۔ اس طریقے سے وسطی ایشیا میں مسلمانوں کی آبادی میں بتدریج پر امن طریقے سے اضافہ ہوتا رہا۔

جنوبی سغدیہ میں بنو امیہ کی دھیمی پیش رفت

سودھو

سغدیہ کے باقی ماندہ حصوں پر بنو امیہ کے اقتدار کا قیام کوئی سیدھا سادا معاملہ نہِیں ہے۔ مغربی ترکوں سے اس علاقے کو چھیننے کی کوشش میں تین دوسری طاقتیں بھی ایک دوسرے سے برسرپیکار تھیں تاکہ شاہراہ ریشم کے راستے ہونے والی منافع بخش تجارت پر قبضہ کرسکیں۔ یہ راستہ اسی طرف سے گزرتا تھا۔ کاشغر کے تبتی، تاریم کے طاس کی باقی ماندہ ریاستوں میں بسنے والے تانگ چینی اور پھر، بالآخر منگولیا کے مشرقی ترک باشندے یہ وہ طاقتیں تھیں جو اس علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں ۔ ان کی باہمی چپقلش نہایت پیچیدہ ہوتی گئی۔ یہاں ان سے متعلق تمام تفصیلات کا بیان ضروری نہیں ہے۔ سو، ہم ساتویں صدی عیسوی کے نصف دوم اور آٹھویں صدی کی پہلی دہائی کے دوران وقوع پذیر ہونے والی باتوں کا صرف خلاصہ بیان کیے دیتے ہیں تاکہ عربوں کو درپیش مقابلے کو سمجھا جاسکے۔


تبتوں نے پہلے ۶۷۰ء میں، تانگ چین کے قبضے سے تاریم کے طاس کی بچی کچی شہری ریاستیں اپنے اختیار میں منتقل کرلیں، اس طرح کی شروعات انہوں نے ختن سے کی اور پھر کاشغر کے شمال میں واقع کئی اضلاع تک پہنچے۔ ایک مسلسل بڑھتے ہوئے تبتی فوجی خوف کے پیش نظر، تانگ فوجوں نے، بتدریج تاریم کے نشیب میں باقی ماندہ علاقے سے، ترفان کی جانب پسپائی اختیار کی، اور یہ خلا جوان کے پیچھے ہٹنے سے پیدا ہوا تھا اب تبتوں نے بھر دیا۔ اس کے بعد، تانگ فوج نے تیان شان پربتوں کو پار کرکے، ترفان سے بیشبالیق کی جانب بڑھتے ہوئے اور مغربی سمت میں اپنی پیش قدمی کے ساتھ شمال مغربی ترکستان میں، ۶۷۹ء میں، سویاب کے مقام پر، اپنی عسکری حیثیت بنالی۔ بہر حال، تانگ چین کے عمومی زوال کے پس منظر میں یہ ایک استثنائی صورت حال تھی۔ ۶۸۲ء میں ترکوں نے منگولیا میں تانگ حکومت کے خلاف بغاوت کردی اور دوسری مشرقی ترک سلطنت قائم ہوئی۔ اور پھر، ۶۸۴ء میں خود تانگ سلطنت کا تختہ ایک ناگہانی آفت کے نتیجے میں پلٹ گیا۔ یہ سلطنت ۷۰۵ء تک بحال نہ ہوسکی اور ۷۱۳ء تک اس میں استحکام پیدا نہ ہوسکا۔

دریں اثنا باختر پرعربوں کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ ۶۸۰ء میں خلیفہ یزید (دورحکومت ۶۸۰۔۶۸۳ء) کے مختصر غلبہ اقتدار کے شروع میں، حضرت علی کے چھوٹے بیٹے حسین نے بنو امیہ کے خلاف ایک ناکام بغاوت کی قیادت کی جس میں، عراق میں کربلا کی جنگ کے دوران وہ شہید کر دیے گئے۔ اس تصادم نے خلافت کی توجہ کا مرکز وسطی ایشیا سے ہٹا دیا۔ نتیجتاً، یزید کے اقتدار کے خاتمے پر، بیشتر باختری شہری ریاستوں کی باگ ڈور بنو امیہ کے ہاتھ سے نکل گئی۔ لیکن سغدیہ میں بخارا پر انہوں نے اپنی گرفت قائم رکھی۔ بعد کے برسوں میں، حضرت امام حسین کی شہادت کی یاد میں اسلام میں سنی گروہ کے بالمقابل شیعہ فرقے کی تشکیل کی اور اسے امیہ سلسلے کی مرجیہ تحریک سے مزید ترقی ملی۔

اس زمانے کا تبتی حکمران اندرونی اقتدار کی جدوجہد میں اپنے ایک حریف قبیلے سے الجھا ہوا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۶۹۲ء میں تبتوں نے تاریم کے طاس کی ریاستوں پر اپنی گرفت کھودی گو کہ انہوں نے اپنی موجودگی تو وہاں قائم رکھی، بالخصوص جنوبی گھیرے کے ساتھ ساتھ ۔ ہان چینیوں کے پاس ترفان میں اپنے مرکز اقتدار سے نسبت رکھنے والی ان ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کی ایک لمبی روایت تھی جسے کلاسیکی چینی تاریخوں میں "باج گذار مشن" کا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح اگرچہ ترفان سے آگے تاریم کے بیشتر نشیبی علاقے میں تانگ چین کو اب ایک غالب بدیسی طاقت کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، لیکن سارا دبدبہ تجارت اور کاروبار میں ترقی کی وجہ سے تھا، سیاسی یا فوجی کنٹرول کے باعث نہیں، بالخصوص جنوبی ریاستوں میں۔

۷۰۳ء میں تبتوں نے تاریم کے طاس کے مشرقی سرے پر واقع تانگ فوجوں کے خلاف مشرقی ترکوں کے ایک اتحاد کی تشکیل کی، مگر انہیں ترفان سے نکال باہر کرنے میں ناکام رہے۔ مغربی ترکوں نے بھی اپنے آپ کو تانگ فوجی دستوں کے مقابل صف آرا کرلیا، مگر مغربی محاذ پر اور سویاب سے انہیں نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد مغربی ترکوں نے شمال مغربی ترکستان کے حکمرانوں کے طور پر اپنے ذیلی قبائل میں سے ایک قبیلے، ترغش ترکوں پر مشتمل مغربی ترکوں کا ایک مورچہ قائم کیا ۔ ترغش دیس مسکن وہی علاقہ ہے جو سویاب کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔

اب تبتوں نے اپنے آپ کو گندھارا کے ترکی شاہیوں کے ساتھ متحد کرلیا اور ۷۰۵ء میں، یہ کوشش کی کہ بنو امیہ کی فوجوں کو جو پہلے ہی کمزور پڑچکی تھیں، باختر سے باہر نکال دیں۔ وقتی طور پر عرب اپنی زمین پر قدم جمانے میں کامیاب دکھائی دیۓ۔ بہر جال، خلیفہ الولید کے دور حکومت میں (۷۰۵۔۷۱۵ء) ترکی شاہی شہزادے نازاکتار خان نے امویوں کو باختر سے نکال دیا اور کئی برسوں کے لیے وہاں ایک تنگ نظر بودھی حکومت قائم کردی۔ اس نے نووہار کے بڑے پروہت کا سر تک قلم کر دیا جس نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا۔

باختر سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد، بنو امیہ کی افواج نے سغدیہ میں بخارا پر اپنی گرفت قائم رکھی۔ شمال سے پیش رفت کرتے ہوئے ترغشیوں نے سغدیہ کے بچے ہوئے حصے پر قبضہ کرلیا اور مغربی تاریم کے نشیبی علاقے سے کاشغر اور کوچہ کو بھی اپنا تابع بنالیا۔ ایک اور تبتی اتحادی، مشرقی ترک لوگ اس کے بعد سغدیہ کے لیے اقتدار کی جنگ میں شامل ہوگئے اور دزونگاریا کے راستے سے آتے ہوئے انہوں نے شمال کی جانب سے ترغشوں پر حملہ کردیا اور بالآخر سویاب میں ترغشوں کی ارض وطن پر قابض ہو گئے۔ شمالی محاذ کی طرف ترغشوں کو متوجہ دیکھ کر، اموی افواج نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور بخار اسے آگے بڑھتے ہوئے ترغشوں کے علاقے کے سب سے جنوبی حصے میں واقع سمرقند کو پانی مملکت میں شامل کرلیا۔

خلاصہ

سودھو

باختر پر بنو امیہ عربوں کی اولین گرفت بہت مضبوط نہیں تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سغدیہ میں ان کی پیش رفت نہایت سست رہی۔ وہ من مانے طریقے سے حملے کرنے کی طاقت سے محروم تھے، اور انہیں سغدیہ پر نظر گاڑنے والی دوسری بڑی طاقتوں میں، فوجی اعتبار سے ان کا دھیان ہٹ جانے کے لمحوں کی راہ دیکھنی پڑتی تھی تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں۔ پورے وسطی ایشیا میں بلاشک شبہ، وہ اسلام کی اشاعت کے لیے کوشاں کسی مقدس جنگ میں مصروف نہیں تھے، بلکہ وہ بھی سیاسی اور علاقائی زمینی مفادات کے لیے سرگرم، متعدد طاقتوں میں سے بس ایک تھے۔ عرب جرنیل قتیبہ نے بخارا میں، سغدیہ کی پہلی مسجد ۷۱۲ء میں تعمیر کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ۷۷۱ء تک کوئی دوسری مسجد نہیں بنوائی جاسکی، یہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ درحقیقت اسلام کی اشاعت کس قدر دھیمی تھی۔


بر صغیر ہند میں پہلی مسلم یلغار

سودھو

مشرقی ومغربی تجارتی راستوں کی صورت حال

سودھو

چین سے مغرب کی سمت جانے والا زمینی راستہ شاہراہ ریشم مشرق ترکستان سے مغرب ترکستان اور پھر سغدیہ اور ایران سے ہوتا ہوا بازنطین اور یورپ کو جاتا تھا۔ یہ ایک متبادل راستہ بھی تھا جو مغربی ترکستان سے باختر، گندھارا کے کابل اور پنجابی حصوں کو پار کرتا ہوا، بحری جہاز سے دریائے سندھ کے ذریعے سندھ تک اور پھر اس سے بھی آگے بحر عرب اور بحر احمر تک لے جاتا تھا۔ گندھارا سے چین اور وسطی ایشیائی تجارت کا سلسلہ شمالی ہندوستان تک بھی جاری رہتا تھا۔


بودھی خانقاہیں چین سے سندھ کی بندرگاہوں تک جگہ جگہ شاہراہ ریشم پر بکھری ہوئی تھیں۔ یہ خانقاہیں تاجروں کو سفر کے دوران آرام کرنے کی سہولتیں اور قرض کے طور پر سرمایہ بھی دے دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہاں ان بودھی کاریگروں کو رہنے کی جگہ بھی میسّر تھی جو چین سے لائے ہوئے ادنٰی قیمت والے ہیروں کو تراشنے کا کام کرتے تھے۔ بودھی تاجر اور کاریگر ہی ان خانقاہوں کو بنیادی معاشی امداد مہیا کرتے تھے۔ اس طرح بودھی فرقے کی فلاح کے لیے تجارت کا یہ سلسلہ بہت ضروری تھا۔

فتح عرب سے قبل ایران کے ساسانی حکمران اپنی سلطنت کے اندر کسی بھی سامان کی نقل وحمل پر تاجروں سے بہت زیادہ نرخ وصول کرتے تھے۔ اسی وجہ سے بازنطینی لوگ، اسباب تجارت کو نسبتاً کم مہنگے سمندری راستے، یعنی سندھ سے ایتھوپیا کے ذریعے، اور پھر زمینی راستے سے لے جانے کے حق میں تھے۔ بہر حال، ۵۵۱ء میں بازنطین کو ریشم کے کیڑے پالنے کے طریقوں سے متعارف کرایا گیا اور چینی ریشم کی مانگ میں گراوٹ آگئی۔ ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کی جنگی مہمات نے اس وقت تک تجارت کو مزید نقصان پہنچایا جب تک کہ ایران سے ہوکر جانے والے زمینی تجارتی راستہ پر آنے جانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ آٹھویں صدی کے آغاز پر ہان چینی زائر یی-جنگ نے یہ اطلاع دی کہ وسطی ایشیا میں چین اور سندھ کے مابین تجارت میں، بنو امیہ، تانگ چینیوں، تبتوں، مشرقی ترکوں، ترکی شاہیوں اور ترغشوں کے درمیان جاری رہنے والی مسلسل جنگوں کے باعث، شدید کمی آ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چینی سامان تجارت اور زائرین اب سفر کے لیے آبنائے ملکّا اور سری لنکا کے سمندری راستے استعمال کرنے لگے۔ اس صورت حال کے پیش نظر، بنو امیہ کے حملوں کی شروعات کے دور میں، سندھ کا بودھی فرقہ ایک مشکل وقت سے گزر رہا تھا۔

سندھ پر حملے

سودھو

اپنی خلافت کے ابتدائی برسوں میں بنو امیہ متعدد موقعوں پر، مسلسل یہ کوشش کرتے رہے کہ برصغیر ہندوستان پر قبضہ کرلیں۔ بلاشبہ، ان کے خاص مقاصد میں ایک یہ مقصد بھی شامل تھا کہ وہ اس تجارتی راستے پر تسلط قائم کرلیں جو دریائے سندھ کی وادی سے نکل کر سندھ کی سمندری بندرگاہوں تک جاتا تھا۔ چونکہ وہ ترکی شاہیوں سے گندھارا کو چھیننے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے اور انہیں کبھی یہ موقع بھی نہیں مل سکا کہ درّہ خیبر کے راستے سے برصغیر میں ان کے علاقوں کے اندر سے ہوکر گزر سکیں۔ ایسی صورت میں متبادل صرف یہی رہ جاتا تھا کہ وہ گندھارا کے پاس سے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سندھ کی جنوبی سمت کا راستہ اختیار کریں اور گندھارا پر دو محاذوں سے حملہ کریں۔


سندھ پر قبضہ کرنے کی پہلی دو کوششیں ناکام رہیں۔ بہر حال، ۷۱۱ء میں، تقریباً اسی وقت جب انہوں نے سمرقند پر ہاتھ ڈالا، عربوں نے بالآخر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس وقت اموی سلطنت کے بعید ترین مشرقی صوبوں کا گورنر حجاج بن یوسف سقفی تھا، جس میں آج کے زمانے کا مشرقی ایران، بلوچستان (مکران) اور جنوبی افغانستان بھی شامل تھے۔ اس نے اپنے بھتیجے اور داماد، جنرل محمد بن قاسم کو دوہزار کی تعداد پر مشتمل فوج کے ساتھ، سندھ پر سمندری اور زمینی، دونوں اطراف سے حملے کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس حملے کا پہلا نشانہ دیبل کا ساحلی شہر تھا جو موجودہ کراچی کے قریب واقع ہے۔

اس وقت سندھ میں ہندوؤں، بودھوں اور جینوں کی ملی جلی آبادی تھی۔ شوان-دزنگ کا بیان ہے کہ چار سو سے زیادہ بودھی خانقاہوں میں وہاں چھبیس ہزار بھکشو رہتے تھے۔ شہری تجارت پیشہ اور دست کار طبقے کی اکثریت بودھوں والوں پر مشتمل تھی، جب کہ دیہاتی کسانوں میں بیشتر ہندو تھے۔ اس علاقے پر ایک دیہی اساس رکھنے والے ہندو برہمن چاچ کی حکمرانی تھی جس نے حکومت کا اختیار غصب کرلیا تھا۔ وہ کھیتی باڑی کی حمایت کرتا تھا اور تجارت کی سرگرمی کے تحفظ میں اس کو دلچسپی نہیں تھی۔

ہندوؤں میں ایک جنگجو فرقہ بھی تھا جس نے اپنے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ اموی افواج سے نبرد آزمائی کی۔ دوسری طرف بودھی تھے، جن میں کوئی جنگجوانہ روایت یا فرقہ نہ ہونے اور چاچ کی پالیسیوں سے بے اطمینانی کے باعث، اس بات پر رضامندی پائی جاتی تھی کہ وہ تباہی اور بربادی سے گریز کرتے ہوئے پر امن طریقے سے اطاعت قبول کرلیں۔ جنرل بن محمد قاسم کی فوجوں کو فتح ملی، اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مقامی آبادی کو بڑی تعداد میں تہہ تیغ کر دیا نیز مزاحمت کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے شہر کو بھاری نقصان پہنچایا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس رپورٹ میں کتنا مبالغہ ہے۔ عربوں میں سب سے زیادہ خواہش اس بات کی تھی کہ معاشی طور پر مستحکم سندھ کو اپنے زیر اقتدار لے آئیں تاکہ وہاں کے راستے سے کی جانے والی تجارت میں اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والے منافع میں اضافہ ہو۔ تاہم، امویوں نے وہاں کے خاص ہندو مندر کو مسمار کرکے اس کی جگہ پر ایک مسجد تعمیر کروائی۔

اس کے بعد اموی فوجوں نے پاکستان کے موجودہ شہر حیدر آباد کے قریب واقع نرون کے خلاف اپنی پیش قدمی کا آغاز کیا۔ اس شہر کے بودھی گورنر نے رضامندانہ طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ بہر حال، ایک اور مثال قائم کرنے کے لیے فاتح مسلمانوں نے یہاں کی ایک بڑی بودھی خانقاہ کے مقام پر بھی ایک مسجد تعمیر کروائی۔ بقیہ شہر کو انہوں نے حسبِ حال چھوڑ دیا۔

بودھوں اور ہندوؤں، دونوں نے عربوں کے ساتھ تعاون کیا، اگرچہ بودھی، اس معاملے میں ہندوؤں سے آگے تھے۔ اس طرح دو تہائی سندھی شہروں نے حملہ آوروں کے سامنے پر امن طریقے سے ہتھیار ڈال دیے اور ان سے معاہدے اور سمجھوتے کرلیے۔ مزاحم ہونے والوں پر حملے کیے گئے اور انہیں سزا دی گئی، اطاعت قبول کرنے والوں اور تعاون کی راہ اپنانے والوں کو تحفظ دیا گیا اور اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی بھی دی گئ۔

سندھ پر قبضہ

سودھو

گورنر حجاج بن یوسف کی رضامندی سے، جنرل محمد بن قاسم نے اب رواداری کی پالیسی اختیار کی، بودھوں اور ہندوؤں کو محفوظ رعایا (ذمیوں) کی حیثیت دے دی گئی۔ جب تک وہ اموی خلیفہ کے حق وفادار رہیں اور معینہ محصول (جزیہ) ادا کرتے رہیں، انہیں اپنے مذہب پرکاربند رہنے اور اپنی زمین اور ملکیت پر قابض رہنے کی اجازت تھی۔ بہر حال، بہت سے بودھی سوداگروں اور دست کاروں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا۔ مسلمان حلقوں کی طرف سے جیسے جیسے مقابلہ آرائی میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ اپنا پرانا مذہب بدل دینے اور کم محصول ادا کرنے میں معاشی فائدے ہیں۔ معینہ محصول کے ساتھ ساتھ ذمی تاجروں کو اپنے تمام مال پر دوہری ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی تھی۔

دوسری طرف، اگرچہ اسلام کی اشاعت کرنے میں جنرل بن قاسم کو خاصی دل چسپی تھی، تاہم یہ اس کا بنیادی مقصد نہیں تھا۔ تبدیلی مذہب کا خیر مقدم وہ بے شک کرتا تھا، لیکن اس کی بنیادی مصروفیت سیاسی اقتدار کو قائم رکھنے میں تھی۔ اسے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنی مہم کے بھاری اخراجات اور پہلے کی تمام فوجی ناکامیوں کا تاوان حجاج کے دربار میں واپس لوٹا سکے۔

عرب جنرل محمد بن قاسم نے یہ مقصد نہ صرف زمین اور تجارت پر ٹیکس کے ذرائع سے حاصل کیا، بلکہ اس ٹیکس کے ذریعے سے بھی جو بودھوں اور ہندوؤں کو اپنے مقدس مزارات کا دورہ کرنے کے لئے ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس واقعے سے شاید یہ نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ سندھ کے بودھی بھکشوؤں کو شمال میں اپنے گندھارا کے بھکشوؤں کی طرح، اس دور کے اسی ذلت آمیز رواج کی عادت پڑ گئی تھی جس کے مطابق وہ زائروں سے اپنے مندروں میں داخلے کا محصول وصول کرتے تھے، اور امویوں نے بس یہی تو کیا کہ ان کی یہ آمدنی اپنے قبضے میں کرلی تھی۔ اس طرح، بعد کے بیشتر ادوار میں، مسلمانوں نے سندھ میں، بودھی، ہندو مندروں، شبیہوں اور وہاں حفاظت سے رکھے ہوئے تبرکات کو مزید نقصان نہیں پہنچایا، کیونکہ انہی کی وجہ سے تو وہاں زائرین آتے تھے اور ان سے خوب کمائی اور آمدنی ہوتی تھی۔

سوراشٹرا کا معرکہ

سودھو

اس زمانے میں مغربی ہندوستان بودھی سرگرمی کا سب سے بڑا مرکز والابھی کے مقام پر تھا جو آج کے گجرات میں مشرقی سوراشٹرا کے ساحل پر واقع تھا۔ اس علاقے پر میترا کی سلطنت کا راج تھا (۴۸۰۔۷۱۰ء) جو سفید فام ہنوں کے قبضے سے پہلے، اپنے زوال کے آخری سالوں میں پہلی گپت سلطنت سے ٹوٹ کر الگ ہوگیا تھا۔ شوان-دزنگ کے بیان کے مطابق، اس علاقے میں ایک سو سے زائد خانقاہیں تھیں جن میں چھ ہزار بھکشو رہتے تھے۔

ان اداروں میں عظیم ترین حیثیت دودّا وہار کمپلیکس کی تھی، یہ ایک وسیع خانقاہی یونیورسٹی تھی۔ جہاں بھکشوؤں کے لیے اعلی سطح کی تعلیم کا انتظام تھا اور جس میں صرف بودھی کے مذہبی مضامین ہی شامل نہیں تھے، بلکہ طب اور سیکولر علوم کے درس کا نظام بھی رائج تھا۔ یہاں کے بہت سے فارغ التحصیل طالب علم میتراکاؤں کے زیر حکومت سرکاری ملازمتوں میں داخل ہو جاتے تھے۔ اس کے بدلے میں راجاؤں کی طرف سے خانقاہوں کو امداد کے طور پر کئی گاؤں دے دیے گئے تھے۔ ہان چینی زائر یی-جنگ نے میترا کا حکومت کے آخری برسوں میں، والابھی کا دورہ کیا اور اس ادارے کی عظمت کی گواہی دی، جو اس وقت تک بدستور برقرار تھی۔

سندھ پر بنو امیہ کے حملے سے ایک سال پہلے، ۷۱۰ء میں میترا کی حکومت کا بیشتر حصہ تحلیل ہو کر راشٹرکوٹاؤں (۷۱۰۔۷۷۵ء) کی سلطنت میں شامل ہوگیا۔ نئے حکمرانوں نے بودھی خانقاہوں کی سرپرستی کا سلسلہ اپنے پیشروؤں کی طرح ہی برقرار رکھا۔ دودّا وہار کے تربیتی پروگرام بغیر کسی رکاوٹ کے اسی طرح چلتے رہے۔

اس کے کچھ ہی دنوں بعد، جنرل محمد بن قاسم نے اپنی مہمات کا رخ سوراشٹرا کی طرف موڑ دیا جہاں اس کی افواج نے راشٹرکوٹا حکمرانوں کے ساتھ کئی پرامن سمجھوتے اور معاہدے کیے۔ وسطی ہندوستان سے بازنطین اور یورپ کے ساتھ سمندری تجارت کا راستہ سوراشٹرا کی بندرگاہوں سے ہوکر جاتا تھا۔ عربوں کی خواہش تھی کہ ان سے بھی ٹیکس کی وصولی کی جائے، بالخصوص اس صورت میں کہ اگر ہندوستانی تاجر سندھی بندرگاہوں سے بچنے کے لیے گندھارا سے اپنے کاروبار کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

مسلمان سپاہیوں نے اس وقت والابھی کی جس میں صرف بودھی کے مذہبی مضامین ہی شامل نہیں تھے خانقاہوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ انہوں نے اپنے کاروبار کی ترقی جاری رکھی اور سندھ سے بے دخل کیے جانے والے پناہ گزیں بھکشوؤں کو اپنے یہاں جگہ دیتے رہے۔ بعد کے برسوں میں والابھی کے مقام پر بہت سی نئی خانقاہوں کا اضافہ کیا گیا تاکہ آنے والوں کے اس سیلاب کے لیے گنجائش پیدا کی جاسکے۔

سندھی مہم کی تقویم

سودھو

ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں بنو امیہ کے ذریعہ جس میں صرف بودھی کے مذہبی مضامین ہی شامل نہیں تھے خانقاہوں کی بربادی سندھ پر ان کے قبضے کے پس منظر میں ایک انوکھی اور شروعاتی واردات تھی۔ فتح یاب ہونے والے جرنیلوں نے اس حملے کا حکم انہیں سزا دینے کے لیے یا پھر مخالفت سے باز رہنے کے لیے جاری کیا تھا۔ یہ کوئی کلیہ نہیں تھا۔ بعد میں، جب سوراشٹرا کے جیسے علاقوں نے پر امن طریقے سے اطاعت قبول کرلی تو اموی افواج نے خانقاہوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔ اگر عرب مسلمان بدھ مت کو ختم کرنے کے درپے ہوتے تو انہوں نے اس وقت والابھی کو ہاتھ لگائے بغیر یونہی نہ چھوڑ دیا ہوتا۔ لہٰذا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جس میں صرف بودھی کے مذہبی مضامین ہی شامل نہیں تھے خانقاہوں کے خلاف تشدد آمیز واقعات زیادہ تر سیاسی ترغیب کے باعث تھے، کسی مذہبی ترغیب کی وجہ سے نہیں۔ بہر حال، ان واقعات میں شامل ہونے والوں کے پس پشت، ان سب کی اپنی ذاتی مصلحتیں اور ترغیبات رہی ہوں گی۔

سندھ میں محض تین برس گزارنے کے بعد، جنرل محمد بن قاسم نے اپنے معمولی ماتحتوں کے ذمے یہ کام چھوڑ دیا کہ وہ بودھوں اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات کے استحصال کی پالیسی کو اسی طرح نافذ کیے رہیں تاکہ حکومت کی آمدنی کا سلسلہ جاری رہے اور ٹیکس کی وصولی ہوتی رہے۔ خود اس نے اب حجاج کے دربار کو واپسی کا راستہ اپنایا۔ اس کے رخصت ہونے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد، بہر حال، مقامی ہندو حکمرانوں نے اپنی کھوئی ہوئی بیشتر زمینیں پھر سے حاصل کرلیں اور بس گنتی کے کچھ خاص سندھی شہر عربوں کے قبضے میں رہنے دیے۔

باختر پر بنو امیہ کا دوبارہ قبضہ

سودھو

گورنر حجاج نے، ۷۱۵ء میں اپنے بھتیجے کو سندھ میں حاصل ہونے والی کامیابی سے حوصلہ پاکر، جنرل قتیبہ کو یہ ہدایت دی کہ وہ شمال مشرقی ایران کی سمت سے حملہ کرکے باختر پر دوبارہ اپنا اقتدار قائم کرلے۔ جنرل کو اس مقصد میں کامیابی ملی اور اس نے پرانی بغاوتوں کی سزا دینے کے لیے، نووہار پر ایک زبردست حملے کی ٹھانی اور اسے بھاری نقصان پہنچانے کی غرض سے آگے بڑھا۔ بہت سے بھکشو مشرق کی طرف کشمیر اور ختن کو بھاگ گئے۔ کارکوٹا کے راجہ للت آدتیہ (دور حکومت ۷۰۱۔۷۳۸ء) نے اپنے باختری بودھی وزیر کی شہ پر کشمیر میں بہت سی نئی خانقاہیں بنوائیں، تاکہ عالم فاضل پناہ گزینوں کے زبردست ریلے کو سنبھالا جاسکے۔ اس واقعے سے کشمیری بدھ مت کو زبردست بڑھاوا ملا۔

نووہار نے جلد ہی اپنے آپ کو بحال کرلیا اور پہلے کی طرح سرگرم ہوگئی جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ باختر میں بودھی خانقاہوں کو مسلمانوں نے جو نقصان پہنچایا تھا اس عمل کے پیچھے کسی طرح کی مذہبی ترغیب نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ ایسے کسی ادارے کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت نہ دیتے۔

باختر میں ترکی شاہیوں اور ان کے تبتی اتحادیوں پر اموی فتح کے بعد، تبتوں نے پالا بدلا اور سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اپنے آپ کو اب عربوں کے ساتھ وابستہ کرلیا۔ انہوں نے مشرقی ترکستان کے جو سرسبز و شاداب شہر پہلے کھو دیئے تھے انہیں دوبارہ حاصل کرنے کے لئے معاہدے کئے، ان معاہدوں میں ناکام ٹھہرنے کے بعد بھی تبتوں کو بے شک یہ امید تھی کہ بنو امیہ کے ساتھ مل کر وہ شاہراہ ریشم کو دبارہ فتح کرلیں گے اور اس میں حصہ دار بھی بن جائیں گے۔ معاملہ جب اقتدار کی توسیع اور ریاست کے خزانے میں اضافے کا ہو تو مذہبی اختلافات، بدیہی طور پر، کوئی رول ادا نہیں کرتے۔

اس کے بعد تبتوں کی مدد سے، جنرل قتیبہ نے ترغشیوں سے فرغانہ جیت لیا، لیکن اسے اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ انہی ترغشیوں سے کاشغر پر فتح یابی کی ایک اور مہم کے لیے تیاری کررہا تھا۔ اس کے بعد عربوں کو کبھی بھی مشرقی ترکستان میں پیش قدمی کا موقعہ نہیں مل سکا۔

اشاعت اسلام کی پہلی کوششیں

سودھو

پچھلے اموی خلفا کی مذہبی رواداری کے عام میلان کے باوجود، عمر دوم (۷۱۷۔۷۲۴ء) نے دور دراز کی بستیوں اور سرزمینوں میں روحانی اساتذہ علما کو اشاعت اسلام کی غرض سے بھیجنے کی ایک پالیسی کا آغاز کیا۔ بہر حال، ان کی حیثیت خاصی کمزور تھی اور وہ اپنی پالیسی کا نفاذ سختی کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ مثال کے طور پر، خلیفہ نے فرمان جاری کیا کہ مقامی سردار صرف اسی صورت میں سندھ میں حکومت کرسکیں گے اگر وہ اسلام قبول کرلیں۔ مگر چونکہ اس وقت سندھ میں امویوں کا سیاسی اقتدار ختم ہوچکا تھا اس لیے، ان کے اس فرمان کو بیشتر نظر انداز کیا گیا اور انہوں نے بھی اس معاملے پر زیادہ زور نہیں دیا۔ نومسلم باشندے سندھی بودھوں اور ہندوؤں کے ساتھ امن چین سے زندگی گزار رہے تھے اور یہ روش اموی اقتدار کے خاتمے تک جاری رہی۔ پالا سلطنت (۷۵۰ء – بارہویں صدی کے اوآخر) سے متعلق اس دور اور اس کے بعد کی کئی صدیوں کے دوران، شمالی ہندوستان کے کتبوں میں، بدستور، سندھ کے بدھ بھکشوؤں کا تذکرہ موجود ہے۔

عمردوم نے یہ فرمان بھی جاری کیا کہ تمام اموی اتحادیوں کو اسلام پر کاربند ہونا چاہیے۔ لہٰذا، تبت کے شاہی دربار نے سفیر بھیجا کہ اس نئے عقیدے کی تبلیغ کے لیے اس کے علاقے میں ایک استاد مہیا کیا جائے۔ خلیفہ نے تعلیم دینے کے لیے الصلت بن عبداللہ الحنفی کو بھیج دیا۔ اس واقعے سے کہ متذکرہ معلّم کو، تبت میں، اسلام کے دائرے میں نئے لوگوں کو شامل کرنے میں کسی طرح کی مصدقہ کا میابی نہیں ملی، یہ پتہ چلتا ہے کہ بنو امیہ اپنے مذہب کی اشاعت کی کوششوں میں زیادہ سرگرم نہیں تھے۔ دراصل ان کے لیے بنو امیہ کے لیے عرب قبائلیت ایک کثیر الثقافتی اسلامی معاشرے کے قیام کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ انہوں نے وسطی ایشیا میں جہاں بھی فتح حاصل کی، اپنے مذہب اور ثقافت کا پودا، اصلاً اپنے ہی لیے لگایا۔

اس کی اور بھی بہت سی وجوہات تھیں کہ تبت والوں نے کسی مسلمان معلم کی باتیں کھلے دل کے ساتھ کیوں نہیں سنیں؟ اس بات کا تعلق خود ان کا اسلام کی بنیادی فلسفے سے بہت دوری ہے۔ اسی لیے، اب ہم تبت میں اسلام اور بدھ مت کے مابین پہلی مقابلہ آرائی کے سیاسی پس منظر پر زیادہ قریب سے نظر ڈالتے ہیں۔


پہلے مسلم معلم کی آمد کے وقت کا تبت

سودھو

جس وقت الصالت بن عبد اللہ الحنفی نے تبت میں قدم رکھا، وہاں پہلے سے شاہی دربارمیں دو مذہبی روایات موجود تھیں، ایک تو نام نہاد "بون" اور دوسری "بدھ مت"۔ بون تبت کا دیسی عقیدہ تھا، جب کہ دوسرے کا تعارف تبت کے پہلے بادشاہ سونگ تسن گامپو (دور حکومت ۶۴۹۔۶۱۷ء) نے کروایا تھا۔ روایتی تبتی تذکروں کے مطابق ان دونوں کے درمیان بہت رقابت تھی۔ جدید تحقیق سے اور زیادہ پیچیدہ صورت حال سامنے آئی ہے۔

منظم بون مذہب اور دیسی تبتی روایت

سودھو

گیارہویں صدی عیسوی کے بعد کے دور تک، جب اس میں اور بدھ مت میں بہت سے مشترک عناصر پائے جاتے تھے، بون مذہب ایک منظم عقیدے کی حیثیت اختیار نہیں کر سکا تھا۔ اس سے پہلے تبت کی قدیم بودھی دیسی روایت کو بعض اوقات مبہم طور پر "بون" کا نام بھی دیا جاتا تھا، جو بنیادی طور پر، ایک شاہی مسلک کی حمایت کی خاطر کچھ خاص رسوم پر مشتمل تھی جیسے کہ شاہی میّتوں کے لیے اور عہد ناموں کی تکمیل کے وقت، بڑے پیمانے پر قربانیوں کی ادائیگی۔ اس روایت میں علم غیب، نجوم، نقصان پہنچانے والی روحوں کو راضی رکھنے کے لیے علاج معالجے کی بعض رسموں اور جڑی بوٹیوں کے ذریعے علاج معالجے کے کچھ نظام بھی شامل تھے۔

اپنی تاریخی دستاویزات کے مطابق، بون مذہب کی تنظیم یافتہ شکل تاگزگ کے مشرقی سرے پر واقع اولمو لونگ-رنگ کی داستانوی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک معلم شین راب سے شروع ہوتی ہے۔ اسی معلم نے ماضی بعید میں، یہ مذہب (بون) ژانگ ژنگ تک پہنچایا۔ ژانگ ژنگ ایک پرانی قدیم ریاست تھی جس کا پایہ تخت مقدس کیلاش پربت کے قریب مغربی تبت میں واقع تھا۔ کچھ جدید روسی اسکالر، لسانی تجزیے کا سہارا لیتے ہوئے، اولمو لونگ-رنگ کو "ایلم" کا مترادف بتاتے ہیں جو قدیم مغربی ایران میں ہے اور باختر کے حوالے سے تاگزگ کو "تاجک" سے ملا دیتے ہیں۔ بون مذہب کے مؤرخین کے اس اصرار کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اس کے بودھی مماثل پہلوؤں کے پیش نظر، اس عقیدے کو سونگ تسن گامپو پر زمانی سبقت حاصل ہے، ان اسکالروں نے یہ حقیقت بغیر بحث کے تسلیم کر لی ہے کہ اس مذہب سے وابستہ نظام کو اولین توانائی باختر کے ایک بودھی معلم سے ژانگ ژنگ کی طرف جاتے وقت ملی تھی۔ اس نے یہ سفر کسی وقت، پہلے ہزاریے کی شروعات کے دور میں کیا تھا، شاید ختن یا گلگت اور کشمیر کے راستے سے۔ ژانگ ژنگ نے اپنے ان دونوں پڑوسی علاقوں کے ساتھ، روایتی طور پر، گہرے معاشی اور ثقافتی رشتے قائم کر رکھے تھے۔ ان بون تذکروں سے اتفاق کرتے ہوئے، وہ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اس معلم نے ژانگ ژنگ میں قدم جمانے کے بعد، بہت سے بودھی مماثل اوصاف اور عناصر کو مقامی دیسی رسوم کے ساتھ خلط ملط کر دیا۔

دوسرے علما بون مذہب کے ماخذ کا تذکرہ محض زبردستی من گھڑت طور پر چودہویں صدی سے جوڑتے ہیں جس کے پیچھے بہت سے عوامل یکجا ہو گئے تھے۔ اولمو لونگ-رنگ کا بون مذہب کو اس کے مشرق میں پھیلانا ویسا ہی ہوگا جیسے کہ بدھ مت کو تبت سے لے جا کر منگولیا اور تاگزگ میں پہنچا دینا۔ اس کا مطلب ہے واقعتاً "چیتوں اور تیندووں کے علاقے" میں جا بسنا یا دوسرے لفظوں میں، منگولوں اور خیتان والوں کی غضب ناک سرزمین پر ٹھکانا بنا لینا۔

بہر حال، تاگزگ (جسے "تازی" یا "تازگ" کے طور پر بولا جاتا ہے)، سنسکرت کی اصطلاح "تایی" کا تبتی نعم البدل ہے۔ کالچکر لٹریچر میں اس لفظ کا استعمال غیر انڈک (غیر ہندی) حملہ آوروں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سنسکرت لفظ "تایی" یا تو عربی اور آرامی اصطلاح "طے (جمع طیایہ، طیایے) یا پھر اس کی جدید فارسی شکل "تازی" کا بدلا ہوا صوتی روپ ہے۔ "طیایہ" اسلام کی آمد سے پہلے عرب قبیلوں میں طاقتور ترین قبیلہ تھا اور طیی یا "طیایہ" اسی وجہ سے، شامی اور عبرانی میں پہلی صدی عیسوی کے عربوں میں ایک عام نام کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ "تازی" کا جدید ایرانی روپ ایران کے عرب حملہ آوروں کے لیے مروج ایک اصطلاح ہے، مثال کےطور پر، آخری ساسانی حکمراں یزدگرد سوئم (دور حکومت ۶۵۱۔۶۳۲ء) کے لیے جو بادشاہ سونگ تسن گامپو کا ایک ہم عصر تھا۔

یہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ژانگ ژنگ نے "تاگزگ" کی اصطلاح وسطی فارسی کے "تازگ" سے اخذ کی جس کا استعمال ساسانی سلطنت (۶۵۰۔۲۲۶ء) کے ابتدائی دور میں مروج تھا اور جو سلطنت صرف ایران تک ہی نہیں، باختر تک بھی پھیلی ہوئی تھی۔ ساسانی لوگ، بہر حال، کٹر زرتشتی تھے اور باختر میں واقع بلخ ہی زرتشت کی جائے پیدائش تھا۔ اس کے علاوہ، ساسانیوں نے باختر میں بدھ مت کو برداشت بھی کر لیا جہاں یہ مذہب پچھلی کئی صدیوں سے اچھی طرح قائم ہو چکا تھا۔ چونکہ بون مذہب میں کئی ایسی خصوصیات ہیں جو زرتشتی کے ساتھ ساتھ بدھ مت سے بھی مماثلت رکھتی ہیں، اس لیے "بون" کے مؤیدوں کا یہ اصرار ہے کہ اس کے بودھی مماثل پہلو بادشاہ سونگ تسن گامپو کے وقت سے پہلے کے ہیں اور تاگزگ سے ماخوذ ہیں، قرین قیاس محسوس ہوتا ہے۔

یہ بات بہ ظاہر انہونی سی لگتی ہے کہ ماقبل سونگ تسن گامپو ژانگ ژنگ نے، ان علاقوں کے لیے جن پر ساسانی حکومت کر چکے ہوں، اسی لفظ کو اختیار کر لیا ہوگا جو ساسانی لوگ عربوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ واقعہ بہت ناقابل یقین ہے کہ ژانگ ژنگ نے اسی نام "تاگزگ" سے بجائے خود عربوں کو بھی موسوم کیا ہو۔ کچھ بھی ہو، عرب امویوں نے ۶۵۱ء تک ساسانیوں کے قبضے سے ایران کو نہیں نکالا تھا، نہ ہی وہ ۶۶۳ء تک باختر کو اور سغدیہ میں واقع بخارا کو اس کے کچھ برس بعد تک فتح کر سکے تھے۔ یہ (واقعہ) تو بادشاہ سونگ تسن گامپو کے ذریعے ژانگ ژنگ کی فتح کے کئی دہائیوں بعد کا ہے۔ چنانچہ، اگر یہ نام "تاگزگ" ماقبل سونگ تسن گامپو ژانگ ژنگ میں مروج تھا اور اسے اس کے بعد، تبتی میں منتقل کر لیا گیا، تو اس کا استعمال صرف ان ایرانی ثقافتی علاقوں کے نشاندہی کے لیے ہوا ہوگا جو بعد کے زمانوں میں عربوں کے زیر اقتدار آئے یا جن میں تبتوں نے بعد کے زمانوں میں عربوں سے جنگ کی۔ یہ بات معقول نہیں دکھائی دیتی۔

اس بات کاقوی امکان ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں، جب باختر میں عربوں سے تبتوں کا رابطہ قائم ہوا، اس وقت ان کے لیے یہ نام تاگزگ انھوں نے سیکھا ہوگا، تبتی دربار سے وابستہ بون حلقے نے وہیں سے یہ نام لے لیا اور بطور نظیر اس کا اطلاق باختری علاقے پر کر دیا جہاں سے ان کا مذہب ماخوذ تھا۔ یہ نظریہ اس دلیل کورد نہیں کرتا کہ بون مذہب باختری مآخذ سے لیا گیا ہے۔

مزید برآں، اگر اس نام تاگزگ کے آغاز سے متعلق یہ نظریہ درست ہے، تو پھر تبتی زبان میں اس لفظ کی شمولیت، سنسکرت کے کالچکر لٹریچر میں اس اصطلاح کے سنسکرت لفظ "تایی" سے ترجمہ کیے جانے سے پہلے کی بات ہوگی۔ تبتی زبان میں سنسکرت کے کالچکر لٹریچر سے اولین ترجمے صرف وسط گیارہویں صدی میں کیے گئے؛ جب کہ وہ لٹریچر جس سے تبت میں تاگزگ کی اصطلاح کا تعارف ہوا، ۱۰۶۴ء کا ہی واقعہ ہے، اور اسی واقعہ سے کال چکر لٹریچر میں تبتی ترجموں کی شروعات ہوتی ہیں۔


سونگ تسن گامپو کا ژانگ ژنگ سے رشتہ

سودھو

سونگ تسن گامپو یارلنگ کا بتیسواں حکمراں تھا جو وسطی تبت کی ایک چھوٹی سی مملکت تھی۔ اپنی مملکت کو وسعت دینے اور ایک وسیع و عریض سلطنت کو قائم کرنے کے عمل میں، جو باختر کی سرحدوں سے ہان چین کی سرحدوں تک اور نیپال سے مشرقی ترکستان کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی ہو، اس نے ژانگ ژنگ پر فتح حاصل کر لی۔ اس کی تاریخی دستاویزات کے مطابق، ایک زمانے سے ژانگ ژنگ نے تبت کے پورے مرتفع میدان کا احاطہ کر رکھا تھا۔ بہر نوع، اپنی اس شکست کے وقت اس میں صرف مغربی تبت شامل تھا۔

سر دست ہم ژانگ ژنگ کی بعید ترین سرحدوں، یا اپنی سلطنت کے نقطہ عروج پر ژانگ ژنگ کے بودھی مماثل خصائص اور ان کے ممکنہ آغاز کے معاملات سے قطع نظر کرتے ہیں۔ تاہم، سونگ تسن گامپو کے پیشرو یارلنگ راجاؤں کے مقبروں سے جو شہادتیں دستیاب ہوئی ہیں ان کی روشنی میں معقول طور پر یہ مفروضہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ کم از کم ژانگ ژنگ سے وابستہ درباری رسومات کا نظام، بادشاہ کے وطنی علاقے اور مغربی تبت کے مفتوحہ علاقے، دونوں میں مشترک تھا۔ بدھ مت کے بر عکس، ژانگ ژنگ رسومات، بدیسی رواجوں اور عقاید کے نظام پر مبنی نہیں تھیں، بلکہ ہمہ تبتی وراثت کا ایک جزو لا ینفک یا مکمل حصّہ تھیں۔

اپنے سیاسی اتحادوں اور اپنے اقتدار کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے، سونگ تسن گامپو نے پہلے تو ژانگ ژنگ کی راج کماری سے، پھر اپنی حکومت کے آخری دور میں، تانگ چین اور نیپال کی راج کماریوں سے بیاہ رچا لیا۔ ژانگ ژنگ کی راج کماری سے شادی کے بعد اس نے اس کے باپ لگ نیی-ہیا کو، جو آخری ژانگ ژنگ راجہ تھا، قتل کروا دیا۔ اس واقعے کے ساتھ شاہی مسلک کی دیسی رسوماتی حمایت کا رخ تبدیل ہو کر اب خود اس پر اور اس کی تیزی کےساتھ پھیلتی ہوئی مملکت پر اثرانداز ہوا۔

بدھ مت کا تعارف

سودھو

سونگ تسن گامپو نے تبت سے بدھ مت کا تعارف اپنی ہان چینی اور نیپالی بیگمات کے اثر کی وساطت سے کروایا۔ مگر، بہر حال، اس مذہب نے وہاں جڑ نہیں پکڑی، نہ ہی اس پورے عرصے میں یہ عام آبادی تک پھیل سکا۔ کچھ جدید مؤرخ سونگ تسن گامپو کی نیپالی بیوی کی تاریخیت پر سوال اٹھاتے ہیں، لیکن اس عہد کی تعمیراتی شہادتیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس وقت کم از کم ایک خاص حد تک نیپال کا ثقافتی اثر یقیناً پڑا تھا۔

اس بدیسی عقیدے کا خاص مظہر تیرہ بودھی مندروں کا وہ سلسلہ تھا جس کی تعمیر بادشاہ نے کروائی تھی، اپنی مملکت، بہ شمول بھوٹان کے چاروں طرف خصوصی طور پر منتخب کی جانے والی کچھ رملی جگہوں پر۔ اس نقشے کے مطابق تبت کو ایک ایسی دیونی کے طور پر دیکھا گیا تھا جو پیٹھ کے بل دراز ہے اور اس کے ارد گرد کے مندروں کی جگہیں چینی علم طب کی روشنی میں اکیوپنکچر کے ضابطوں کے حساب سے چنی گئی تھیں جو جا بجا اس دیونی کے بدن پر سوئیوں کی مثال تبت کی جاتی تھیں۔ سونگ تسن گامپو کو امید تھی کہ اس طرح وہ مقامی کینہ توز بد روحوں کی طرف سے کسی بھی مخالفت کو بے اثر کر دے گا۔

ان تیرہ بودھی مندروں میں سب سے بڑے مندر کی تعمیر شاہی راجدھانی سے اسی میل کی دوری پر کی گئی تھی، اس مقام پر جو بعد میں "لہاسا" (دیوتاؤں کی جگہ) کےنام سے جانا گیا۔ اس وقت اسے "راسا" کہتے تھے (بکریوں کی جگہ)۔ مغربی علما کے قیاس کے مطابق بادشاہ کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ راجدھانی کے مقام پر مندر نہ بنوائے تاکہ روایتی دیوتاؤں میں ناراضگی نہ پیدا ہو۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ان بودھی مندروں میں رہتا کون تھا، مگر شاید وہ (رہنے والے) بدیسی بھکشو تھے۔ پہلے تبتی خانقاہ نشیں جنھیں اپنے فرمان جاری کرنے کا حق دیا گیا، لگ بھگ ڈیڑھ صدی کے بعد مقرر کیے گئے۔

گرچہ مذہبی تاریخوں میں بادشاہ کو بودھی عقیدے کے خیر مجسم کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ہر چند کہ بودھی رسوم کی ادائیگی، بلا شبہ، اسی کے فائدے کے لیے کی جاتی تھی، لیکن انھیں شاہی دربار کی کفالت میں انجام دی جانے والی مذہبی تقریب کے کسی خصوصی روپ کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ سونگ تسن گامپو اپنے دربار میں دیسی روایتوں کے حامل پروہتوں اور ان کے حامی اشرافیہ کو ہی رکھتا تھا اور "راسا" کے خاص مندر میں بودھیوں کے ساتھ ساتھ صرف مقامی دیسی دیوی دیوتاؤں کے مجسمے بنوانے کے احکام جاری کرتا تھا۔ اس کے پیش روؤں کی طرح، خود وہ اور اس کے تمام ورثا، ماقبل بودھی، قدیمی ہمہ تبتی رسموں کے مطابق یارلنگ میں سپرد خاک کیے گئے۔ بہت کچھ، چھے صدیوں بعد کے چنگیز خاں کی طرح تبتی بادشاہ نے صرف اپنی دیسی روایات کا ہی خیر مقدم نہیں کیا، بلکہ ایک بدیسی مذہب "بدھ مت" کو بھی خوش آمدید کہا جس سے بادشاہ کو ایسی مذہبی رسوم کی حصولیابی کی توقع تھی جو اس کے اختیارات میں اضافے اور اس کی مملکت کے فائدے کا وسیلہ بن سکیں۔

ختنی رسم خط کا اپنایا جانا

سودھو

اپنے سیاسی اقتدار کو فروغ دینے کی غرض سے کسی بدیسی اختراع کو کام میں لانے کی سونگ تسن گامپو کی پالیسی کا مزید ثبوت، تبتی زبان کے لیے ایک رسم خط کا اپنایا جانا ہے۔ ختن، گلگت اور کشمیر سے اقتصادی اور تہذیبی رشتوں کی ژانگ ژنگ کی لمبی تاریخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، بادشاہ نے تونمی سمبھوتا کی قیادت میں ایک ثقافتی وفد اس علاقے کی طرف روانہ کیا۔ کشمیر میں اس وفد کی ملاقات ایک ختنی معلم، لی چن سے ہوئی۔ "لی" کا تبتی لفظ جو ختن کے لیے مستعمل ہے، اس معلم کے وطن مولود کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے، اس کی مدد سے، وفد نے تبتی زبان کو لکھنے کے لیے حروف تہجی وضع کیے جو ہندوستان کے عمودی گپت رسم خط کے ختنی تصرف پر مبنی تھے۔ تبتی تاریخی کتابیں اس نئے رسم خط کی تشکیل کے مقام کو اس کے نمونے یا ماڈل کی ابتدا کے مقام میں الجھا دیتی ہیں، اور اس طرح یہ تشریح کرتی ہیں کہ لکھی جانے والی تبتی زبان کشمیری حروف پر مبنی ہے۔

جدید تبتی علما کی دریافت یہ ہے کہ اس تشکیل سے پہلے، ژانگ ژنگ کا ایک رسم خط جس سے تحریر میں مدد لی جاتی تھی پہلے سے موجود تھا اور یہ کہ تبتی زبان کے حروف کو خط شکستہ میں لکھے جانے کی بنیاد اسی رسم خط نے فراہم کی۔ بہر نوع، ژانگ ژنگ خط تحریر کا نمونہ (ماڈل) بھی ختنی حروف تہجی رہے ہوں گے۔

سونگ تسن گامپو نے ہی بدیہی طور پر یہ فرمان جاری کیا تھا کہ سنسکرت کے ایک بودھی متن کے ترجمے کےلیے، جو دو صدیوں پہلے ہندوستان سے ایک تحفے کی شکل میں یارلونگ پہنچا تھا، اسی نئے خط تحریر کا استعمال کیا جائے۔ بہر نوع، اس وقت ترجمے کی خاص سرگرمی چینی علم نجوم اور چینی ونیز ہندوستانی طبی متون سے متعلق تھی، اور یہ عمل خاصا محدود تھا۔ بادشاہ نے تحریر کے اس نظام کا استعمال، بنیادی طور پر، میدان جنگ میں اپنے جرنیلوں تک خفیہ فوجی پیغام رسانی کے لیے کیا۔ اس کے بعد، ایسے ہی مقاصد کے لیے، ژانگ ژنگ کا اشاروں کی زبان میں اپنے پیغامات قلم بند کرنے کا رواج شروع ہوا۔

نام نہاد "بون" حزب اختلاف

سودھو

تبتی شاہی دربار میں، ایک گروہ سونگ تسن گامپو کی بدھ مت کی سرپرستی اور بدھ مت پر اس کے بھروسے کا مخالف بھی تھا۔ بلا شبہ، یہی لوگ شاہی راجدھانی کے مقام پر، بلکہ یارلونگ وادی تک میں بڑے بودھی مندر کی تعمیر نہ کیے جانے کے اس کے فیصلے کی پشت پر تھے۔ بعد کی تبتی تاریخوں نے ان لوگوں کو "بون" مذہب کے مجوزین کا نام دیا۔ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک، اور اس میں الصالت کے دورے کا وقت بھی شامل ہے، انھوں نے شاہی پالیسی کی زبردست مخالفت کی۔ تبت میں مسلمان مذہبی پیشوا کی ناکامی کو اسی سیاق میں سمجھنا چاہیے۔ لیکن "بون" کے یہ پیروکار جنھوں نے بدھ مت کی مخالفت کی، اور جن پر بعد کے دور میں، بلاشبہ، اتنی سرد مہری کے ساتھ اسلام کے خیر مقدم کی ذمے داری عاید ہوئی، یہ بھلا کون لوگ تھے؟ اور ان کی اس مخاصمت کے اسباب کیا تھے؟

تبتی اسکالرز کے مطابق، لفظ "بون" کا مطلب ہے "افسوں پڑھنا" یا "منتر پھونکنا" جس کا مقصد روحانی طاقتوں کو قابو میں کرنا تھا اور جس کا اشارہ بیس حصوں میں تقسیم ایک پورے نظام معالجہ کی طرف ہے جو علم غیب، علم نجوم، شفا بخشنے والی رسوم اور جڑی بوٹیوں سے بنی دواؤں─ ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔

گیارہویں صدی سے پہلے، "بون" ایک منظم مذہب نہیں تھا۔ بعض علما کا بیان ہے کہ اس وقت تک اس بودھی دیسی نظام عقاید اور رسوم کے لیے لفظ "بون" کا استعمال بھی شروع نہیں ہوا تھا جو بیک وقت، چار روایتی شعبہ ہائے علم و فن، یعنی علم غیب، علم نجوم، منتر اور افسوں جس کے ذریعے بیماروں کا علاج کیا جا سکے اور جنگلی جڑی بوٹیوں سے تیار کی جانے والی دوائیں، ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کا اطلاق شاہی دربار کے بس ایک خاص گروہ پر ہوتا تھا۔ گرچہ اس "بون" حلقے کے ساتھ کچھ ایسے پروہت بھی شامل تھے (جنھیں تبتی میں "گشین" کہتے تھے) جن کا تعلق دیسی روایت سے تھا اور ان کے ساتھ طبقہ امرا کے کچھ خاص لوگ منسلک ہو گئے تھے، مگر اس پورے گروہ کا تشخص ان کے مذہبی اعتقادات سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر ان کی سیاسی حیثیت سے قائم ہوتا تھا۔ یہ لوگ "غیب دانی" کی دیسی روایت کے ماننے والے تھے، لہٰذا وہ چاہے دربار کے اندر کے ہوں یا باہر کے، یہاں تک کہ خود بادشاہ کو بھی، "بون کا طرف دار یا حامی" نہیں کہا جاتا تھا۔ دربار میں "بون" امرا بھی تھے، جو لازمی طور پر، متذکرہ بالا چاروں روایتی فنون پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ دیسی روایت کے ہر پروہت تک کو اس گروہ کا فرد نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، دربار کے اندر وہ لوگ بھی تھے جو شاہی فرقے کی حمایت کرنے کے لیے کچھ خاص رسمیں انجام دیتے تھے اور بادشاہ کے انتقال پر میت کے روایتی آخری رسوم کی ادائیگی کرتے تھے۔ دربار کے باہر، وہ لوگ تھے جو بد روحوں کو قابو میں کرنے کے لیے غیبی یا معالجاتی رسمیں پوری کرتے تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی "بون کے اراکین" کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔

چنانچہ "بون" حلقہ ایک اقتدار دشمن، سخت گیر یا تنگ نظر اور اس سب سے زیادہ، دربار کی ایک خود غرض مفاد پرست اور اجنبیوں سے نفرت کرنے والی متعصب جماعت تک محدود تھا۔ یہ ایک حزب مخالف کے لوگ تھے جو خود اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بادشاہ کا مخالف ہونے کی وجہ سے، فطری طور پر، یہ لوگ ہر اس بات کے مخالف تھے جس سے شاہی اختیارات کو تقویت ملتی ہو، بالخصوص ایسی صورت میں جب یہ اختیار و اقتدار بدیسی یا غیر ملکی بنیاد رکھتا ہو۔ اسی لیے، بدیسی رسوم اور عقاید کی طرف اس گروہ کا مخاصمانہ رویہ محض مذہبی تنگ نظری اور عدم رواداری کا مظہر نہیں تھا جیسا کہ بعد کے تبتی بودھی مورخوں کا خیال ہے۔ گو کہ ان بون لوگوں نے اپنی بدھ مخالف پالیسی کی سفارشات کو بجا ٹھہرانے کے لیے ہو سکتا ہے کہ مذہبی بنیادیں وضع کر لی ہوں─ مثلاً یہ کہ کسی بودھی عقیدہ رکھنے والے کی موجودگی دیوتاؤں کی ناراضگی اور بربادی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ لوگ تمام تر دیسی مذہبی روایت کے حامی ہیں۔ "بون" حلقے میں بہر حال وہ پروہت شامل نہیں تھے جو بادشاہ کی حمایت کے لیے دیسی رسموں یا ارکان کی ادائیگی کرتے رہے ہوں۔

اس نام نہاد "بون" حلقے کا بودھی مخالف جذبہ بھی ژانگ ژنگ کی بغاوت اور سرکشی کی علامت نہیں تھا۔ مقامی پروہت اور ان کے حامی امرا جن سے حزب مخالف کی تشکیل ہوتی تھی، بلا شبہ وسطی تبت کے رہنے والے تھے، ژانگ ژنگ سے آنے والے غیر مقامی باشندے نہیں تھے۔ ثانی الذکر ایک مقبوضہ علاقہ تھا، سلطنت میں شامل اس کا لازمی حصہ یا اس کا ایک سیاسی ضلع نہیں تھا۔ یہ امر خارج از امکان ہے کہ اس کے قائدین نے شاہی دربار کے معتمد اراکین کے طور پر کبھی کوئی خدمت انجام دی ہو۔

مختصر یہ کہ وہ نام نہاد بودھی مخالف حلقہ "بون" جس نے آگے چل کر مسلمان مذہبی عالم کی آمد کو بے اثر اور ناکام کرنے میں مدد دی، اس کی حیثیت نہ تو کسی خاص مذہبی گروپ کی تھی نہ کسی خاص علاقائی پہچان رکھنے والے گروپ کی۔ یہ حلقہ ایسے افراد پر مشتمل تھا جو یارلونگ میں شاہی دربار کے مخالف تھے اور جنھیں اقتدار کی سیاست سے وابستہ حقائق یا اسباب سے تحریک ملتی تھی۔ وہ ان تمام غیر ملکی رابطوں میں روکاوٹ ڈالتے تھے اور ان سے مزاحم ہوتے تھے جو تبتی بادشاہ کی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرتے ہوں، جس سے خود ان کی اپنی حیثیت کمزور ہوتی ہو اور جو ان کے روایتی دیوتاؤں کو ناراض کرتے ہوں۔ یہاں تک کہ سونگ تسن گامپو کے انتقال کے بعد بھی اس حلقے کی یہ "بدیسی دشمنی" اور ان کے تئیں یہ بے اعتباری اسی طرح بڑھتی رہی۔

بعد کے دو تبتی بادشاہوں کی مملکت

سودھو

تبتی دربار میں اس "بدیشی دشمن" حلقے کے داخلے کی ممانعت پوری طرح معقول ثابت ہوئی جب اگلے تبتی بادشاہ مانگ سونگ مانگ تسین (دور حکومت ۶۷۶-۶۴۹ء) کی حکومت کے پہلے پانچ برسوں کے دوران، تانگ چین نے تبت پر حملہ کر دیا۔ ہان چینی فوجیں فاصلوں کو عبور کرتی ہوئی "راسا" تک پہنچ گئیں اور اس سے پیشتر کہ پلٹ کر ان پر وار کیا جاتا اور انھیں شکست دی جاتی، انھوں نے زبردست تباہی مچائی۔

اپنی حکومت کے آئندہ برسوں میں، مانگ سونگ مانگ تسین پر ایک دوسرے دھڑے کا ایک طاقتور وزیر حاوی رہا جو سلطنت کو مزید وسعت دینا چاہتا تھا۔ اس وزیر نے "تویوہون" کو فتح کر لیا جو تبت کے شمال مشرق کی ایک بودھی مملکت تھی اور بدھ مت کے ختنی اسلوب کی اور کاشغر کی پیروکار تھی جو ختن ہی کے ثقافتی علاقے کے اندر تھا۔ ۶۷۰ء میں اس نے بجائے خود ختن پر فتح حاصل کی اور ترفان کو چھوڑ کر، تاریم طاس (نشیبی علاقہ) کی بقیہ تمام نخلستانی ریاستوں کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ ختنی بادشاہ تانگ کے شاہی دربار کی طرف بھاگ کھڑا ہوا جہاں چینی حکمراں نے اسے تعاون کی پیش کش کی، اس واقعے کی داد دیتے ہوئے کہ اس نے کس طرح تبتوں سے مورچہ لیا تھا۔

ختن میں مرتب کی جانے والی رودادوں کے مطابق، (سرسبز علاقوں میں واقع) نخلستانی ریاستوں پر فتح یابی کے دوران، بہ شمول بودھی خانقاہوں اور درگاہوں کو نقصان پہنچانے کے، تبتوں نے خاصی تباہی مچائی۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد، بہر حال، انھیں اپنے پر ندامت کا احساس ہوا اور وہ بودھی عقیدے میں گہری دل چسپی لینے لگے۔ یہ پاکیزہ روداد، بہر نوع، بادشاہ اشوک کے لائق تقلید نمونے میں بعد کا کیا ہوا اضافہ بھی ہو سکتی ہے، جس نے اپنے کیے پر پشیمان ہونے اور بدھ مت کو اختیار کرنے سے پہلے بہت سے بودھی مندروں اور آثار کو برباد کر ڈالا تھا۔ باجود اس کے، کچھ مغربی اسکالرز اسی نقطے سے بدھ مت سے تبت کے زیادہ سنجیدہ رطب و تعلق کی شروعات کرتے ہیں۔ اگر تبتوں میں بدھ مت نے پہلے ہی سے زیادہ استحکام حاصل کر لیا ہوتا تو ختنی خانقاہوں کو مسمار نہ کیا گیا ہوتا بلکہ ان کا احترام کیا جاتا۔

ہر رکن تہجی کےلیے ایک صرفی علم کے ذریعے بودھی تکنیکی لفظیات کے ختنی طریقے کی ترجمانی کو اختیار کرتے ہوئے، اب تبتوں نے کچھ چنیدہ بودھی متون کو درآمد کرنا اور ان کا ترجمہ کرنا شروع کیا۔ یہ ایک دو طرفہ ثقافتی رابطہ تھا کیونکہ اسکالرز نے ایک ہندوستانی طبی کتاب کا، جو سنسکرت سے تبتی میں پہلے منتقل کی جا چکی تھی، ختنی زبان میں ترجمہ بھی کر ڈالا۔ شاہی دربار کی طرف سے اس قسم کے مضبوط غیر ملکی رشتوں کے قیام کے ساتھ، بدیسیوں کے تئیں بے اعتباری کے رویے پر مبنی مخالفت کی پیدا کردہ تشویش ایک بار پھر سے بڑھنے لگی۔

بعد کے تبتی بادشاہ، ٹری دوسونگ مانگ جے (دور حکومت ۷۰۴-۶۷۷ء)، اور اس کے گزشتہ وزیر کے قبیلے سے اقتدار کی ایک جنگ نے یارلونگ دربار کو نہایت کمزور کر دیا۔ تاریم طاس کی ریاستوں پر تبت کی فوجی اور سیاسی گرفت ختم ہو گئی، گرچہ اس کے جنوبی سرسبز علاقوں میں اپنی ثقافتی موجودگی کو تبت نے بدستور بنائے رکھا۔ بہر نوع، تبتی سلطنت کا حوصلہ ابھی برقرار تھا۔ ۷۰۳ء میں تبت نے اپنے آپ کو تانگ چین کے خلاف مشرقی ترکوں کے ساتھ متحد کر لیا۔

ملکاؤں کی حکومت

سودھو

اس مدت کے دوران، چینی حکمراں خاتون ملکہ وو (دور حکومت ۷۰۵-۶۸۴ء) نے ایک ناگہانی انقلاب کی قیادت کی جس میں عارضی طور پر، تانگ خاندان کا تختہ پلٹتے ہوئے اس نے یہ اعلان کر دیا کہ وہی مائیتریا ہے، مستقبل کی بدھ۔ ٹریما لو، جو تبتی ملکہ مادر تھی، بادشاہ ٹری دوسونگ مانگ جے کی ماں، اس کا تعلق شمال مشرقی تبت کے ایک طاقت ور قبیلے سے تھا، جس کے ساتھ نہ صرف یہ کہ "تویو ہون" اثر کے باعث ختنی بودھی ہمدردیاں وابستہ تھیں، بلکہ تانگ چین سے بھی اس کے قریبی رشتے تھے۔ ملکہ وو سے اس کا مراسلت اور بات چیت کا تعلق تھا، اور جب ۷۰۴ء میں اس کے بیٹے کا انتقال ہوا، جو تبتی حکمراں تھا، تو اس نے اپنے ہی پوتے کو معزول کر دیا اور اپنے شوہر کی وارث اختیار بیوہ ملکہ کی حیثیت سے، ۷۱۲ء میں اپنی موت تک، وہاں حکومت کرتی رہی۔ اس نے ملکہ وو کے ساتھ ایک ہان چین شہزادی، جن چنگ کے اپنے پڑ پوتے مے اگتسوم کے لیے دولہن کے طور پر تبت آنے کا انتظام کیا۔ یہ پڑ پوتا جو ٹری دتسوگتن کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اس وقت تک محض ایک نوزائیدہ بچہ تھا۔ شہزادی جن چنگ ایک راسخ العقیدہ بودھی تھی جو اپنے ساتھ ایک ہان چینی بھکشو کو بھی لے آئی تاکہ وہ تبتی دربار میں خواتین کو تعلیم دے سکے۔

دیسی پروہتوں اور امرا کا بدیسیوں کا مخالف حلقہ اس واقعے پر بہت مشتعل ہو گیا۔ اب ایک بار پھر، دربار میں اس حلقے کے لوگوں کو سونگ تسن گامپو کے دنوں کی طرح، ہان چینی بودھی بھکشوؤں کی طرف سے ایک چیلنج کا سامنا تھا۔ بہر نوع، ابکے بار یہ خطرہ زیادہ بڑا اور گمبھیر اس لیے تھا کیونکہ بدیسی لوگ اس وقت راجدھانی ہی میں آن موجود ہوئے تھے۔ اس اجنبی عیقیدے کی مافوق فطری طاقتوں کے دوبارہ مدعو کیے جانے سے تاکہ شاہی اختیار و اقتدار کو بڑھاوا دیا جا سکے، انھیں اپنے دیسی دیوتاؤں کی جانب سے سزا ملنے کا خوف تھا جیسا کہ ساٹھ سال پہلے بھی وسطی تبت پر تانگ حملے کے ساتھ وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ بہر نوع، سردست تو "بون" حلقے کو بس اپنا وقت گزارنا تھا۔

چینی دربار سے دوستانہ ربط و ضبط کےباعث، بیوہ ملکہ ٹریما لو نے، اب اس طرف سے تبت کے فوجی عزائم کا رخ پھیر دیا اور ۷۰۵ء میں گندھارا اور باختر کے ترکی شاہیوں کے ساتھ، اس مرتبہ اموی عربوں کے خلاف ایک اتحاد کی تشکیل کی ۷۱۲ء میں جس وقت بیوہ ملکہ کا انتقال ہوا اور مے اگتسوم نے راج گدی سنبھالی (دور حکومت ۷۵۵-۷۱۲ء) اس وقت تک وہ نابالغ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آنجہانی بیوہ ملکہ کی طرح ملکہ جن چنگ نے بھی تبتی دربار پر ایک گہرا اثر مرتب کیا۔

تبتی اموی اتحاد

سودھو

اس دوران میں مغربی ترکستان کو لے کر اقتدار کی کشمکش جاری رہی۔ ۷۱۵ء میں عرب جرنیل قتیبہ کے ترکی شاہیوں سے باختر کو پھر سے اپنے قبضے میں کر لینے کے بعد، تبت نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں اور ابھی تک وہ جن اموی افواج سے بر سر پیکار رہے تھے، انھیں کے ساتھ اپنے آپ کو متحد کر لیا۔ پھر تبتی دستوں نے عرب جرنیل کو ترغشیوں سے فرغانہ کی بازیافت اور ترغشیوں کے زیر اقتدار کاشغر کی جانب پیش رفت میں مدد دی۔ ترکی شاہوں سے، اور پھر امویوں سے تبتی اتحاد بلاشبہ ، ایک مصلحت کی وجہ سے تھا کہ باختر میں پھر سے وہ قدم جما لیں گے، اس امید کے ساتھ کہ تاریم طاس میں ان کا فوجی، اقتصادی، اور سیاسی تسلط ایک بار پھر سے قائم ہو جائے گا۔ شاہراہ ریشم کے راستے سے ہونے والی منافع بخش تجارت کے ذریعہ ٹیکس کی وصولی، ان کی سرگرمیوں کو ہمیشہ ترغیب دینے والی تھی۔

یہاں کسی کے لیے اس قیاس آرائی کی گنجائش بھی نکلتی ہے کہ امویوں سے باختر کو بچانے کے لیے، ترکی شاہیوں کے ساتھ پہلے کیا جانے والا اتحاد اس وجہ سے ہوا ہوگا کہ نام نہاد "بون" حلقہ اپنے آپ کو تاگزگ سے جوڑ کر دیکھتا تھا جو "بون" کی جائے پیدائش ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ، اپنی یہ پہچان بنانے کا ایک سبب یہ بھی رہا ہوگا کہ وہ اس کی خاص خانقاہ نووہار کو بے حرمتی سے بچانا چاہتے رہے ہوں گے۔

بہر نوع یہ نتیجہ ایسی صورت میں بھی موہوم ہو جاتا ہے اگر اس سے منسلک یہ دونوں مغالطہ آمیز مقدمے سچ سمجھ لیے جائیں کہ اس وقت "بون" ایک منظم مذہب تھا، اور یہ کہ "بون" حلقہ ایک مذہبی شناخت رکھنے والے گروہ پر مشتمل تھا۔ بالفرض اگر بون عقیدے کے کچھ پہلوؤں کی شروعات باختری بدھ مت سے رہی بھی ہوتی، تب بھی، بون مذہب کے پیروکار ان پہلوؤں یا خصوصیات کو بودھی خصوصیات کے طور پر نہیں دیکھتے تھے۔ بعد کے بون پیروکاروں نے تو، در اصل، یہ دعوا کیا ہے کہ تبت میں بودھوں نے اپنی بہت سی تعلیمات ان کے یہاں سے چرا لی تھیں۔

اسی لیے، تبتی دربار میں موجود بون حلقہ باختر میں کسی مقدس جہاد کی قیادت نہیں کر رہا تھا، مزید برآں، نہ ہی بودھی لوگ کوئی مذہبی جنگ لڑ رہے تھے، باختر کی شکست اور نووہار کی مسماری کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبتی باشندوں نے باختر میں بدھ مت کے دفاع کو جاری نہیں رکھا بلکہ اپنی وابستگیاں بدل کر مسلمان عربوں کے ساتھ جا ملے۔ تبتوں کی خارجہ پالیسی کے پس پشت متحرکہ طاقت اپنی نوعیت کے لحاظ سے سیاسی اور معاشی مفاد پرستی تھی، مذہب نہیں تھا۔

تبت کے مسلم مشن کا تجزیہ

سودھو

اس خیال کے تحت کہ اموی اتحادی ناراض نہ ہو جائیں اور ان کا باہمی تعلق ختم ہو جائے، ۷۱۷ء میں، خلیفہ عمر دوم کے اصرار پر، تبتی دربار ایک مسلمان معلم کو مدعو کرنے پر رضامند ہو گیا تھا۔ بہر حال، اسلام کے اصولوں میں حقیقی دل چسپی سے اس کا تعلق بہت کم تھا۔ زیادہ سے زیادہ، ملکہ جن چنگ نے اس کی طرف ویسی ہی نظر ڈالی ہوگی جیسی کہ بادشاہ سونگ تسن گامپو نے شروع میں بدھ مت کو دیکھا رہا ہوگا، یعنی کہ مافوق فطری طاقت کے ایک اور وسیلے کے طور پر جس کے ذریعے اس کی شاہی حیثیت کو مستحکم کرنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف، تبتی دربار کے رجعت پسند پروہت اور امرا، آنے والے عرب مذہبی معلم کے تئیں مخاصمانہ رویہ بھی رکھ سکتے تھے۔ انھیں یہ ڈر ہو سکتا تھا کہ عرب معلم کی یہ آمد ایک اور غیر ملکی اثر ہے جس کے آداب و رسوم شاہی مسلک کو مزید مستحکم کر سکتے ہیں۔ ان کی اپنی طاقت کو کم کر سکتے ہیں، اور تبت پر تباہی لا سکتے ہیں۔

چنانچہ تبت میں، مسلمان معلم کا خیر مقدم جتنی سرد مہری کے ساتھ کیا گیا، اس کا بنیادی سبب تبتی دربار میں حزب مخالف کی طرف سے پھیلایا جانا والا بدیسی یا اجنبی لوگوں کے لیے نفسیاتی خوف کا عام ماحول تھا۔ یہ کسی اسلامی۔بودھی یا اسلامی۔ بون مذہبی تصادم کی جانب اشارہ نہیں تھا۔ کم و بیش ستر برسوں تک اس مسلک کی مخاصمت کا رخ بدھ مت کی طرف رہ چکا تھا اور یہ صورت حال ابھی بھی باقی تھی۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ اسلام کی طرف ان کا یہ رویہ اجنبی یا بدیسی لوگوں سے نفرت اور بیزاری کے خاکے میں سماتا کس طرح ہے، اب ہم مختصراً تبت میں رونما ہونے والے واقعات پر ایک نظر ڈالیں گے۔

ختن سے آنے والے مہاجر بھکشو، تبت میں

سودھو

تانگ خاندان نے اپنی حکومت 705ء میں ملکہ وو کے تخت چھوڑنے کے بعد بحال کر لی تھی۔ بہر نوع، مجموعی صورت حال میں، ملکہ کے پڑپوتے شوان دزونگ (دور حکومت ۷۵۶-۷۱۳ء) کے اقتدار تک، استحکام نہیں آ سکا تھا۔ اس طاقتور نئے بادشاہ نے ایک بودھی مخالف پالیسی اختیار کی، اس کوشش میں کہ اپنی دادی کی تحریک کی حمایت کو کمزور کر سکے۔ ۷۲۰ء میں تانگ بادشاہ کے ایک بودھی مخالف حامی اور ہمدرد نے ختن کے مقامی بودھی راجہ کو معزول کر کے اس کا تخت چھین لیا۔ اس کے نتیجے میں مذہبی جور و ظلم کے خاصے مظاہر رونما ہوئے اور بہت سے بودھوں نے راہ فرار اختیار کی۔ چونکہ باختری بھکشو پناہ گزینوں کا ایک بہت بڑا جتھا، پانچ سال پہلے امویوں کے ہاتھوں نووہار کی بربادی کے باعث ختن پہنچ گیا تھا، اس لیے یہ گمان بے بنیاد نہیں ہوگا کہ باختر میں اپنے ہولناک تجربے کے دوہرائے جانے کے ڈر سے، ختن کی طرف بھاگ کھڑے ہونے والوں میں وہ پہلے لوگ رہے ہوں۔

۷۲۵ ء میں، ملکہ جن چنگ نے ختن اور ہان چین سے آنے والے پناہ گزیں بودھی بھکشوؤں کو تبت میں پناہ دینے اور بسانے کے لیے ان کی خاطر سات خانقاہیں بنوائیں جن میں سے ایک "راسا" میں تھی۔ اس اقدام نے دربار کے بدیسی بیزاری کے مرض میں مبتلا وزیروں کو اور زیادہ تشویش میں مبتلا کر دیا۔ جب ۶۳۹ء میں ملکہ نے چیچک کی ایک وبا کے دوران انتقال کیا تو ان لوگوں (وزیروں) نے ملک میں موجود تمام بدیسی بھکشوں کو اس موقعے کا استعمال کرتے ہوئے، ملک بدر کر کے گندھارا بھیج دینے کا انتظام کیا جو تبت کے روایتی اتحادی ترکی شاہیوں کے زیر حکومت تھا، اس یقین کے ساتھ کہ ان کے دیوتا ایک بار پھر ناراض ہو گئے ہیں اور انھیں سزا دے رہے ہیں، وزیروں نے یہ اعلان کر دیا کہ تبت میں ان کی مذہبی رسموں کے دوران بدیسیوں کی موجودگی ہی اس عام دور تک پھیلی ہوئی وبا کا سبب ہے۔ بھکشوؤں کے لیے گندھارا ایک معقول منزل تھی کیونکہ ترکی شاہیوں نے باختر پر بھی حکومت کی تھی جہاں سے زیادہ تر خانقاہ نشین بھکشوؤں کی آمد ہوئی تھی۔ ان کی ایک بڑی تعداد، بالآخر گندھارا کے اڈیانہ والے حصے کے شمال کی سمت پالتستان کے کہستانی علاقے میں جا کر بس گئی۔

اس بدیسی بیزاری حلقے کا اقتدار سولہ برس بعد، ۷۵۵ء میں اپنے انتہائی عروج تک پہنچا، جب انھوں نے بادشاہ مے اگتسوم کو تانگ چین اور بدھ مت کی طرف اس کے قوی میلان طبع جھکاؤ کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیا۔ چار برس پہلے، اسی سال جب تانگ فوجوں نے بھاری ہزیمت اٹھائی تھی اور مغربی ترکستان کے باہر کھدیڑ دی گئی تھیں، بادشاہ نے بدھ مت کے بارے میں مزید جانکاری کے لیے ایک تبتی وفد کو ہان چین بھیجوایا تھا۔ اس کا سربراہ تانگ دربار میں ایک سابق تبتی سفیر کا بیٹا، باسانگشی تھا۔ جب تانگ بادشاہ شوان دزونگ ۷۵۵ء میں ایک بغاوت کے دوران معزول کر دیا گیا، تو "بون" حلقے کو یہ یقین ہو چلا کہ اگر انھوں نے مے اگتسوم کو اس حماقت کے جاری رکھنے سے، اور اس مشن پر جمے رہ کر تبتی دربار میں، بلاشبہ، مزید ہان چینیوں کو مدعو کرنے سے روکا نہیں تو نہ صرف یہ کہ وہ اقتدار سے محروم ہو جائیں گے، ان کے ملک پر یقیناً دوبارہ تباہی بھی نازل ہوگی جیسا کہ تانگ چین میں ابھی ابھی ہو چکا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ کو قتل کرنے کے بعد انھوں نے تبت میں بدھ مت کو ایذا رسانی اور عقوبت کے ایک چھے سالہ سلسلے کی داغ بیل ڈالی۔ لہٰذا، شاہی دربار کی جانب سے ایک مسلمان معلم کے مدعو کیے جانے کے باوجود، اسلام کی قبولیت میں تبتوں کی سرد مہری بھی، تبت کی اس اندرونی سیاسی و مذہبی کشمکش کی تاریخ میں، بس ایک اور واقعہ بھر ہے۔


مغربی ترکستان میں مزید اموی توسیع

سودھو

آٹھویں صدی عسیوی کے نصف اوّل کے بعد کے برسوں میں اموی دور کے باقی ماندہ حصّے نے مختلف حکومتوں کے مابین معاہدوں اور سمجھوتوں میں ایک چکرا دینے والی تیز رفتار تبدیلی کا مشاہدہ کیا کیونکہ اب مغربی ترکستان اور شاہراہ ریشم پر قابض ہونے کے لیے پہلے سے زیادہ طاقتیں میدان میں اترآئی تھیں۔ خاص خاص واقعات کے جائزے سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اموی عرب ایسے راسخ العقیدہ مذہبی انتہا پسند نہیں تھے جو کفار کے ایک سمندر کو مسلمان بنانے کی مہم میں لگ گئے ہوں، بلکہ ان کی حیثیت بھی ایسے بہت سے حوصلہ مند لوگوں میں بس ایک کی تھی جو سیاسی اور معاشی فائدے کے لیے سرگرم ہو۔ بہ شمول بنو امیہ، سب کی سب طاقتیں مسلسل ایسے معاہدے کرتی اور توڑتی رہتی تھیں جن کی اساس مذہب پر نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ فوجی مصلحتوں پر قائم ہوتی تھی۔

ریاستی علاقوں کے اختیارات اور اتحادوں کی تبد یلی

سودھو

عمر دوم کی مملکت ﴿دورحکومت ۷۱۷۔۷۲۴ء) کے وسط میں باختر اور سغدیہ کے شہر بخارا، سمرقند اور فرغانہ امویوں کے زیر اقتدار تھے۔ تبتی لوگ ان کے اتحادی تھے۔ سغدیہ کا باقی حصہ، بالخصوص تاشقند اور اسی کے ساتھ ساتھ مغربی تاریم طاس میں کاشغر اور کوچا ترغش ترکوں کے پاس تھے۔ تانگ چینی افواج تاریم طاس کی مشرقی سرحد پر ترفان میں اور ترفان کے شمال کی سمت تیان شان پہاڑوں سے پرے بیشبالق میں تھیں. مشرقی ترک سغدیہ کے شمال میں مغربی ترکستان بہ شمول سویاب کے بقیہ حصوں پر قابض تھے جب کہ تبتوں نے جنوبی تاریم راستے کے ساتھ ساتھ اپنی موجودگی قائم کر رکھی تھی۔ ختن کے تخت حکومت پر، بہر حال ایک تانگ نواز حکمران براجمان تھا۔ ترکی شاہی گندھارا تک محدود تھے۔ اموی عربوں کے استشنا کے ساتھ، وسطی ایشیا کے تمام دوسرے اقتدار کی کشمکش کے نمائندے دلال مختلف درجات میں بدھ مت کے حمایتی تھے۔ بہر حال، ایسا لگتا ہے کہ اس صورت حال کا بعد کے واقعات پر کچھ بھی اثر نہیں پڑسکا۔

اموی جرنیل قیتبہ کی موت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، پہلی پیش رفت تانگ فوجوں کی طرف سے ہوئی۔ انہوں نے ترفان میں اپنے مضبوط مورچے کو چھوڑا اور تیان شان پہاڑوں کے شمال کی سمت سے مشرقی ترکستان کو عبور کرتے ہوئے عقبی حملے کی مدد سے کوچا اور کاشغر کو ترغشوں سے چھین لیا۔ مغربی ترکستان میں دور دراز کے مغربی حصے کو پار کرنے کے بعد انہوں نے مشرقی ترکوں سے سویاب، امویوں سے فرغانہ اور ترغشوں سے تاشقند بھی اپنے قبضے میں کرلیا۔

اس مرحلے پر ترغشوں نے اپنے آپ کو ایک دوسرے رہنما کی قیادت میں پھر سے منظم کرلیا اور منظر نامے پر ترکوں کا ایک نیا گروہ رونما ہوا، دزونغاریہ میں قرلوق خرلوخ جو بدھ مت کے سرپرست بھی تھے۔ قرلوقوں نے تانگ کے زیر اقتدار سویاب سے آگے، شمال مغربی ترکستان کے علاقے میں مشرقی ترکوں کی جگہ لے لی اور خود کو ہان چینیوں کے ساتھ متحد کرلیا۔ ترغشوں نے پلٹ کرعرب تبتی اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی۔ پھر ترغشوں نے اپنے وطن مالوف سویاب کو دوبارہ فتح کرلیا اور اس کے جواب میں، امویوں نے فرغانہ واپس لے لیا۔ تاشقند عارضی طور پر آزاد ہوگیا۔ اب تانگ فوجوں کے پاس صرف کاشغر اور کوچا رہ گئے تھے۔


سندھ پر اموی حکومت کا دوبارہ غلبہ

سودھو

۷۲۴ء میں نئے اموی خلفیہ ہاشم ﴿دور ۷۲۴۔۷۴۳ء﴾ نے جنرل جنید کو جنوب کی طرف بھیجا تاکہ وہ سندھ پر دوبارہ اقتدار قائم کرسکیں۔ عربوں کی قیادت میں جانے والی افواج کو سندھ میں کامیابی ملی، لیکن گجرات اور مغربی پنجاب کو زیر کرنے کی کوشش میں وہ ناکام رہیں۔ سندھ کے گورنر کی حیثیت سے جنرل جنید نے ہندوؤں اور بودھوں دونوں پر، عام محصول عائد کرنے اور اسی کے ساتھ ساتھ دونوں مذاہب کے مقدس شہروں کی زیارت کے لیے جانے والوں سے ٹیکس وصول کرنے کی گزشتہ اموی پالیسی برقرار رکھی۔

اگرچہ مغربی پنجاب میں ہندو پراتیہار حکمرانوں کو سندھ سے اموی فوجوں کو نکال باہر کر دینے کی طاقت حاصل تھی، مگر وہ ایسی کسی کاروائی سے باز رہے۔ مسلمانوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر پراتیہاروں نے حملہ کیا تو وہ خاص ہندو زیارت گاہوں اور مجسموں کو تباہ کر دیں گے، ہندو اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کو روایتی علاقے پر پھر سے اقتدار قائم کرنے کی بہ نسبت زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ اس سے اس امر کی مزید نشاندہی ہوتی ہے کہ اموی عربوں کے نزدیک غیر مسلم مذہبی مقامات کو برباد کرنا اقتدار کی سیاست کے بنیادی عمل کا حصّہ تھا۔

اموی نقصان اور سغدیہ کی بازیافت

سودھو

دریں اثنا، سویاب میں اپنی ارضِ وطن کی واپسی نے ترغشوں کے اعتماد میں جو اضافہ کیا اس کی وجہ سے انہوں نے امویوں کے ساتھ اپنا مختصر مدتی اتحاد ختم کردیا۔ عرب فوجوں کے بیشتر حصّے کی سندھ میں صف آرائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ترغشوں نے امویوں کی طرف رخ کیا اور انہیں فرغانہ سمیت سغدیہ نواحی علاقوں سے نکال باہر کردیا۔ اس کے بعد نئے ترغشی ۔ تبتی اتحاد نے امویوں پر وار کیا، اور ۷۲۹ء تک انہوں نے سغدیہ اور باختر کے باقی ماندہ بیشترعلاقوں سے انہیں بے دخل کردیا۔ عربوں کے پاس اب صرف سمرقند بچ گیا تھا۔

پھر امویوں نے طاقت ور ترغشی ۔ تبتی اتحاد کو توڑنے کے لیے، عارضی طور پر، خود کو تانگ چین کے ساتھ شامل کرلیا۔ انہوں نے ۷۳۶ء میں سویاب کے مقام پر ترغشوں کو شکست دی۔ دو برس بعد اپنے راجہ کی موت کے ساتھ ترغش قبائل بکھر گئے اور نہایت کمزور ہوگئے۔ ہان چینیوں نے سویاب کو بچائے رکھا اور تبتوں کے خلاف اپنی جنگیں جاری رکھیں، جب کہ امویوں نے باختر اور باقی ماندہ سغدیہ میں واپسی کی راہ اختیار کی۔ اس سے ۷۳۹ء میں تبتی بادشاہ کی کابل اور ختن کے درمیان شادی کے ایک جشن میں شرکت کے لیے کابل میں آمد سے تبتوں کو ترکی شاہیوں کے ساتھ اپنے روایتی اتحاد کو ازسرنو فعال بنانے کی ترغیب ملی۔

تانگ دربار نے اب سغدیہ میں امویوں کے زیر اقتدار شہروں میں حکومت کے مخالفین کو حمایت دینے کی ایک پالیسی کا آغاز کیا۔ اس مرحلے کے دوران، ایک وقت وہ بھی آیا جب سویاب سے صفایا کرتے ہوئے وہ نیچے اترے اور تاشقند میں افراتفری مچادی جو پہلے عارضی طور پر ان کے قبضے میں رہ چکا تھا۔ چینی عرب رشتوں میں تناؤ پیدا ہوگیا۔ بہر حال، یہ تصادم بھی مذہبی بنیادوں کے باعث نہ تھا بلکہ خالصتاً سیاست کی ترغیب کا نتیجہ تھا۔ اس مسئلے کا ہم زیادہ قریب سے جائزہ لیتے ہیں۔


امویوں کے زیر اقتدار سغدیہ پر تانگ حملوں کا تجزیہ

سودھو

اس وقت کے تانگ چینی بادشاہ شوان-دزونگ کی پالیسیوں میں سے کچھ پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے، ہم اور زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں کہ پچھلے امویوں میں غیرمسلموں کو جارحانہ طریقے سے مذہب تبدیل کروا کر انہیں مسلمان بنانے کی جستجو نہیں تھی، اور یہ کہ سغدیہ میں بنوامیہ کے مخالفین کو تانگ بادشاہ کی حمایت کا سبب، اسلام کے تئیں بودھی ناپسندیدگی کا جذبہ نہیں تھا۔

دو واقعات نے بادشاہ کی پالیسیوں کے لیے اسٹیج تیار کیا۔ پہلا،جب شوان-دزونگ کی دادی ملکہ وو نے بودھی ہزار سالہ حکومت الف سعادت کے عقیدے کو اپیل کرتے ہوئے، تانگ خاندان کا تختہ پلٹ دیا تھا اور بودھی بھکشوؤں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں ٹیکسوں سے مستثنٰی کردیا تھا۔ دوسرا، جب بادشاہ کے تخت نشین ہونے کے بعد جلد ہی، بہت سے سغدیائی ہان چین کی طرف امڈ آئے جو منگولیا میں جابسے تھے۔ بالآخر ان دو واقعات کی طرف بادشاہ کے رویّے نے سغدیہ میں اس کی سرگرمیوں کا راستہ کھولا۔

منگولیا کو سغدیائیوں کی دعوت اور نتیجتاً ان کی بے دخلی

سودھو

اگرچہ، پہلے صدیوں تک ہان چین میں شاہراہ ریشم کے ساتھ سغدیائی تاجروں کا تعلق رہا تھا، مگر چھٹی صدی کے وسط میں سغدیائی مہاجروں کا ایک بہت بڑا ریلا اس علاقے میں آیا۔ ان کے اس ریلے کی آمد کا سبب ایران کے ساسانی بادشاہ خسرو اوّل ﴿دور حکومت ۵۳۱۔۵۷۸ء﴾ کی مذہبی ستم رانیاں تھیں۔ پہلی مشرقی ترک سلطنت (۵۵۳۔۶۳۰ء) کے دوران، یہ سغدیائی مشرقی ترکوں کے ساتھ ایک مراعات یافتہ تعلق رکھتے تھے۔ بہت ساروں کو ترفان میں رہنے والی اپنی قوم کی طرف سے منگولیا آنے کی دعوت ملتی تھی اور وہی بودھی متون کو قدیم ترک زبان میں ترجمہ کرنے کا ذریعہ بنتے تھے۔ حکومت اپنے معاشی امور کی انجام دہی کے لیے سغدیائی زبان اور رسم الخط کا استعمال کرتی تھی۔ بہر حال، دوسرے مشرقی ترک دور (۷۴۴۔۶۸۲ء) میں طاقت ور وزیر تونیوقوق نے اس کے حکمرانوں کو ایک بودھی مخالف راستے پر لگا دیا۔

تونیوقوق نے پہلے مشرقی ترک خاندانی سلسلے کی شکست کے لیے ترکوں پر بدھ مت کے منفی اثر کو قصوروار ٹھہرایا۔ بدھ مت نرمی اور عدم تشدد سکھاتا تھا جس نے ترکوں کو ان کی شجاعانہ روح سے محروم کردیا۔ اس کی پکار یہ تھی کہ ترک اپنے روایتی ہمہ ترکی خانہ بدوش اور جنگ جوئی کے مسلک کو پھر سے اختیار کرلیں اور یہ خواہش ظاہر کی کہ تمام تر قبائل اس کے پیچھے متحد اور یکجا ہوکر اپنی سخت کوشی والا مزاج پھر سے پیدا کریں اور ہان چینیوں سے نبرد آزما ہوں۔

مشرقی ترکی اوتوکان اس منگولیائی پربت کے اجارہ دار تھے، جو ان سے پہلے بودھی تینگریائی اور شمالی مذاہب کے مطابق تمام ترکوں کے لیے مقدس تھا۔ تونیوقوق کا استدلال یہ تھا کہ اس نے جن حکمرانوں کی خدمت کی ہے، وہ اخلاقی طور پر اس بات کے پابند تھے کہ ترکی ثقافت اور اقدار کو برقرار رکھیں۔ سغدیوں کو بدھ مت اور ہان چینی سے وابستہ کرتے ہوئے، اس نے قاپاغان قاغان ﴿دور ۶۹۲۔۷۱۶ء﴾ پر دباؤ ڈالا کہ وہ انتظامی امور کے لیے سغدیائی زبان کا استعمال معطل کرے اور اس کی بجائے قدیم ترک زبان کو ایک رونک اسلوب والے رسم الخط کے ساتھ استعمال میں لائے۔ چونکہ منگولیا کی سغدیائی آبادی تیزی کے ساتھ مقبول ہونے لگی تھی، اسی لیے وہ لوگ ۷۱۳ء میں بڑے پیمانے پر شمالی چین کو ہجرت کر گئے اور خاص کر شاہراہ ریشم کے آخری شہروں چانگ۔ آن اور لویانگ میں بودوباش اختیار کرلی۔


مانویت کا عنصر

سودھو

منگولیا کا سغدیائی فرقہ خصوصی طور پر صرف بودھی نہیں تھا۔ درحقیقت ان میں اکثریت مانویت کے ماننے والوں کی تھی۔ اس ایرانی مذہب مانویت کی بنیاد بابل میں مانی (۲۱۷۔۲۷۶ء) نے ڈالی تھی۔ یہ ایک انتخابی عقیدہ تھا جس نے اپنے فروغ اور اشاعت کے دوران، وہ تمام عقائد جن سے اس کا سابقہ پڑا، ان کی بہت سی خصوصیات اور مقامی عقائد اپنا لیے۔ اس کی دو خاص شکلیں تھیں۔ ایک تو ایشیائے کوچک میں رواج پانےوالی مغربی شکل جو زرتشتیت اور عیسائیت سے ہم آہنگ تھی، اور دوسری، بعد میں رونما ہونے والی مشرقی شکل جو شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ پھیلی اور جس نے بہت مضبوط بودھی عناصر اپنے اندر شامل کرلیے۔ ان میں اوّل الذکر کی سرکاری زبانیں سریانی (شامی) اور پارتھیائی تھیں، جبکہ ثانی الذکر کے لیے یہ کردار سغدیائی زبان نے ادا کیا۔

مانویت نے ایک مستحکم تبلیغی تحریک کو جنم دیا، اور اس کے مشرقی شکل کے سغدیائی مقلدین نے، ایک مرتبہ ہان چین میں اس کے بدھ مت کی ایک شکل ہونے کا دعوی کیا تاکہ لوگوں کو تبدیلئ مذہب کے بعد اپنے حلقے میں لے آئیں۔ اس طرح انہوں نے ۶۹۴ء میں مانویت کا تعارف چین کے شاہی دربار میں ملکہ وو کو متاثر کرنے کے لیے کیا اور ۷۱۹ء میں منگولیا سے ان کی ہجرت کے بعد اسے دوبارہ دربار سے متعارف کرایا۔ یہ واقعہ ملکہ کے ذریعہ بودھی الف سعادت کی تقریب ہڑپ کیے جانے کے بعد کا ہے جس میں ملکہ کو بے دخل کر دیا گیا تھا اور تانگ حکومت دوبارہ مستحکم کردی گئی تھی۔ بہر حال ۷۳۶ء میں بادشاہ شوان-دزونگ نے ہان چینیوں کو مانویت سے باز رہنے کا فرمان جاری کیا اور اس مذہب کو غیرہان رعایا اورغیرملکیوں تک محدود کر دیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مانویت بودھی کی ایک سطحی اور چھچھلی نقالی ہے اور اسے ایک جھوٹ کی بنیاد پر ایک جعلی عقیدے کے طور پر پھیلایا جا رہا ہے۔

بہر حال تانگ بادشاہ بودھوں کے لیے ہمدردانہ رویہ نہیں رکھتا تھا، اور اس کی یہ تنقید اس خواہش کی وجہ سے نہیں تھی کہ وہ خالص بودھی تعلیمات کو بدعتوں سے صاف کرکے اوپر اٹھانا چاہتا تھا۔ بہت سے ہان چینی بادشاہ کی حوصلہ مندانہ وسطی ایشیائی مہمّات سے غیر مطمئن تھے کیونکہ نتیجتاً، ان سے ٹیکسوں کی ادائیگی اور فوجی خدمت انجام دینے کا بھاری مطالبہ کیا جاتا تھا۔ شوان-دزونگ کی بلاشبہ یہ خواہش رہی ہوگی کہ ہان چینیوں کے لیے ایک بدیسی، نیم بودھی مذہب کے حصول سے گریز کیا جائے، کیونکہ اپنے عدم اتفاق اور ممکنہ بغاوت کو سامنے لانے کے لیے وہ اس مذہب کے گرد یکجا اور متحد بھی ہوسکتے تھے۔

بادشاہ کی دادی نے مائیتریا بدھ کے مسلک کو اپیل کرتے تانگ سلسلے کو معزول کر دیا تھا۔ چونکہ سغدیائی متون میں مانی کو مائیتریا کے طور پر مسلسل دیکھا جاتا تھا، اور بادشاہ کی دادی مانویت کی طرف ہمدردانہ رویے کی حامل تھی، اس لیے الف سعادت جیسی ایک بغاوت، جس کا رخ اسی کی طرف رہا ہو، اس نے بے شک بادشاہ کو اس ایرانی مذہب مانویت کے خلاف اقدام کی حوصلہ افزائی کی ہوگی۔

ابھی تک ہان چین میں سغدیائی تاجروں کے تین مذاہب۔ مانویت، نسطوری عیسائیت اور بدھ مت، لوگوں کا مذہب بدلوا کر اپنے حلقے میں لے آنے کی سب سے زیادہ جارحانہ روش، اوّل الذکر مانویوں میں پائی جاتی تھی۔ کئی دہائیاں پہلے، عرب اور ایرانی مسلمان تاجروں نے بھی ہان چین کی جانب سفر کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ لوگ اصلاً بنیادی طور پر بحری راستے سے آتے تھے نہ کہ شاہراہ ریشم کے زمینی راستے سے، اور چین کے جنوب مشرقی ساحلی شہروں میں جا بستے تھے۔ ایک مسلمان معلّم، سعد بن علی وقاص ﴿وفات ۶۸۱ء﴾ انہی کے ساتھ آیا تھا۔ تاہم، شواندزنگ نے کبھی بھی ہان چینیوں کے اسلام قبول کرنے کے خلاف ایسا کوئی فرمان جاری نہیں کیا۔ واقعہ تو یہ ہے کہ بعد کے کسی چینی بادشاہ نے بھی، چاہے وہ بودھی رہا ہو یا نہیں، ایسا کبھی نہ کیا۔ انہوں نے اسلام کی طرف ہمیشہ مذہبی رواداری کی ایک پالیسی پرعمل کیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر ہان چین میں اولین مسلمانوں نے اپنے مذہب کو پھیلانے کی کوشش کی بھی ہو، تب بھی یہ کوشش بہت بڑی نہ رہی ہوگی، نہ ہی اسے وہاں ایک خطرے کے طور پر دیکھا گیا ہوگا۔

غیرہان بودھی راہبوں کا تانگ چین سے اخراج

سودھو

جیسے جیسے برس گزرتے گئے، تانگ حکومت کو وسطی ایشیا میں بادشاہ کی روز افزوں مہمات کی معاشی امداد کے لیے، اسی تناسب سے خزانے میں اضافے کی ضرورت بھی بڑھتی گئی۔ بودھی خانقاہوں کو محصول کی ادائیگی سے مستشنٰی کیے جانے کی جو حیثیت ملکہ وو کے غاصبانہ دور سے رائج چلی آرہی تھی، اس نے حکومت کی آمدنی کو بہت زیادہ محدود کر دیا۔ اس لیے، ۷۴۰ء میں، شوان-دزونگ نے داؤمت کی طرف اپنی حمایت پہلے سے بھی زیادہ بڑھا دی، بودھی خانقاہوں پر پھر سے ٹیکس عائد کر دیئے اور اپنی سلطنت میں ہان چینی بھکشوؤں اور راہباؤں کی تعداد شدّت سے گھٹا دی۔ اسے اس نے عوام پر ایک غیر ضروری مالی بوجھ قرار دیتے ہوئے تمام غیر ہان بودھی راہبوں کو بھی نکال باہر کیا۔

اس طرح سغدیہ میں اموی مخالف حلقے کی طرف سے شوان-دزونگ کی حمایت کے پیچھے صاف طور پر سیاسی اور معاشی مصلحتیں تھیں، ان کو اسلامی اور بودھی تعلقات سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ بادشاہ تو خود بھی ایک بودھی تک نہ تھا اور اس کا سغدیائی راہبوں کو ہان چین سے بے دخل کروا دینا، یقینی طور پر سغدیائی بودھوں میں ایک اسلام مخالف تحریک کو تقویت عطا کرنے کی غرض سے، راہبوں کو واپس سغدیہ بھیجنے کے مترادف نہیں تھا۔ اس نے صرف سغدیہ والوں کا نہیں بلکہ دوسری غیرہان قومیتوں سے تعلق رکھنے والے راہبوں کا بھی اخراج کیا۔ تانگ چین کی تمام تر دلچسپی امویوں سے علاقے واپس لے کر وسطی ایشیا میں اپنے اقتدار کو مزید وسعت دینے اور اسی کے ساتھ ساتھ شاہراہ ریشم کے راستے نفع بخش تجارت پراپنی گرفت کو مزید مستحکم کرنے سے تھی۔

دورِ بنو امیہ کے آخری واقعات

سودھو

اموی دور کے آخر (۷۴۴ء) میں وسطی ایشیا میں اسلام اور بدھ مت کے مابین ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے دونوں کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے لیے اہم اور بامعنی قرار دیا جاسکے۔ ویغور ترکوں کا مسکن شروع شروع میں شمال مغربی منگولیا کے پہاڑوں میں تھا، جب کہ ان کے بعض قبائل اپنی آوارہ خرامی کے ساتھ، جنوب میں تخاریوں کے زیر اقتدار ترفان علاقے اور شمال مشرق کی سمت میں سائبیریا کے جھیل بیکال کے علاقے کی دوری تک جا پہنچے تھے۔ یہ لوگ مشرقی ترکوں کے خلاف ہان چینیوں کے روایتی اتحادی تھے،جنہوں نے اپنے درمیان منگولیائی علاقوں کو سینڈ وچ کی طرح دبوچ رکھا تھا۔


۶۰۵ء میں، جب چار صدیوں سے زیادہ کے عرصے میں پہلے ہان چینی نے تاریم طاس میں قدم رکھا، اس وقت سوئی چینی بادشاہ، وین-دی نے ویغوروں کو ترفان پر فتح پانے میں مدد دی جو قدیم ترک بدھ مت کا مرکز تھا۔ ویغوروں نے تیزی کے ساتھ بودھی عقیدہ اختیار کرلیا، بالخصوص اس واقعے کی روشنی میں کہ ونڈی نے اپنے ایک بودھی کائناتی بادشاہ ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ ۶۲۹ء میں پہلے ویغور شہزادوں میں سے ایک نے بودھی نام "بودھی ستوا" اپنا لیا، یہ لقب مشرقی ترک مذہبی حکمرانوں میں بھی مستعمل تھا۔ ۶۳۰ء میں تانگ چین نے ویغوروں سے ترفان اپنے قبضے میں لے لیا، لیکن ثانی الذکر نے، اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد پہلی مشرقی ترک حکومت کے سلسلے کو ختم کرنے میں ہان چینیوں کی مدد کی۔

نصف صدی کے بعد، دوسری مشرقی ترک سلطنت نے اپنی جارحانہ طور پرہمہ پان ترکی فوجی پالیسی کے ساتھ ویغوروں کے وطن کی سرزمین پر فتح حاصل کرلی۔ بہر حال ۷۱۶ء میں سغدیائیوں کے منگولیا کی طرف فرار ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد ویغوروں نے آزادی حاصل کرلی۔ اس کے بعد، انہوں نے اپنے ہان چینی اتحادیوں کو مشرقی ترکوں کو پریشان کرنے کی پالیسی میں مدد دینا جاری رکھی۔ اب ۷۴۴ء میں ویغوروں نے قرلوقوں کی مدد سے دزنغاریہ اور شمال مغربی ترکستان میں مشرقی ترکوں پر حملہ کر کے انہیں شکست دی اور منگولیا میں خود اپنی اورخون سلطنت قائم کرلی۔

مشرقی ترکوں کا اوغوز قبیلہ، جسے سفید لباس والے ترکوں کے طور پر جانا جاتا ہے، اسی مرحلے میں موجودہ دور کے اندرونی منگولیا سے ہجرت کرکے فرغانہ کے نزدیک، سغدیہ کے شمال مشرقی کونے کی طرف چلا گیا۔ انہوں نے عباسیہ دور کے آغاز میں جلد ہی، سغدیہ کے پیچیدہ واقعات میں ایک اہم کر دار ادا کیا۔ مزید برآں، ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد، ویغور لوگ اپنے جاگیردار، قرلوقوں کے ساتھ متواتر لڑائی جھگڑے کرتے رہے۔ ویغوروں اور قرلوقوں کو اب ترکی قبائل کی مشرقی اور مغربی شاخوں کے باہم نبرد آزما قائدین کے کردار کی وراثت مل گئی تھی۔ ویغوروں کو بہر حال، عروج حاصل ہو رہا تھا کیونکہ ان کا قبضہ وسطی منگولیا میں، دارالسلطنت اوردوبالیق کے نزدیک، ترکوں کے مقدس پربت اوتوکان پر تھا۔ ان دو ترکی گروہوں کی باہمی رقابت نے بعد کے واقعات کے لیے بھی زمین تیار کر دی۔

لہٰذا، ۷۵۰ء میں عربوں کے ذریعہ باختر اور سغدیہ کو ایک بار کھو دینے اور پھر سے حاصل کر لینے کے ساتھ، اموی دور کا خاتمہ ہو گیا۔ علاقے پر ان کی گرفت ابھی بھی نازک تھی، بودھوں کے ساتھ ان کے رشتے، اپنی رعایا اور ہمیشہ تبدیل ہوتے ہوئے اتحادیوں اور دشمنوں کے ساتھ ان کے تعلقات ابھی بھی پہلے ہی کی طرح بیشتر سیاسی ، فوجی اور اقتصادی مصلحتوں پر مبنی تھے۔


ہورویکھو

سودھو


حوالے

سودھو

باہرلےجوڑ

سودھو