"<span lang="ur">ہخامنشی سلطنت</span>[[ گٹھ:مضامین جنہاں وچ اردو بولی دا متن شامل اے ]]" دیاں دہرائیاں وچ وکھراپا

Content deleted Content added
No edit summary
لیک ۱۷ –
|event_end = سقوط مقدونیہ
|date_end =
|event1 = لیڈیا کیدی فتح
|date_event1 = 547 قبل مسیح
|event2 = [[جنگ اوپیس|بابل کیدی فتح]]
|date_event2 = 539 قبل مسیح
|event3 = مصر کیدی فتح
|date_event3 = 525 قبل مسیح
|event4 = [[یونانی فارسی جنگ]]
لیک ۳۲ –
|p3 = لیڈیا
|flag_p3 = Map Anatolia ancient regions-en.svg
|p4 = چھبیسواںچھبیواں مصری خاندان
|flag_p4 = Ancient Egypt map-en.svg
|s1 = مقدونیائی سلطنت
لیک ۳۹ –
|image_flag = Standard of Cyrus the Great (White).svg
|flag = Flag of Iran
|flag_type = کورش اعظم کادا پرچمجھنڈا
|image_coat =
|symbol =
لیک ۷۳ –
ھخامشی سلطنت چ موجودہ [[ایران]] دے علاوہ [[مشرق]] چ [[افغانستان]] تے [[پاکستان]] دے چند علاقے ، شمال مغرب مکمل [[اناطولیہ]] یعنی موجودہ [[ترکی]] ، بالائی [[بلقاں]] ، [[تھریس]] تے [[کالا سمندر]] دا زیادہ تر ساحلی علاقہ شامل سی ۔ مغرب چ اس چ موجودہ [[عراق]] ، شمالی [[سعودی عرب]] ، [[فلسطین]] ، [[اسرائیل]] ، [[اردن]] ، [[لبنان]] تے [[مصر]] دے تمام اہم مرکز شامل سن ، مغرب چ اس دیاں سرحداں [[لبیا]] تک پھیلیاں ہوئیاں سن ۔ 75 لکھ مربع [[کلومیٹر]] تے پھیلی ہوئی ھخامشی سلطنت [[تریخ]] دی وسیع ترین سلطنت سی تے آبادی لحاظ نال [[رومی سلطنت]] دے بعد دوجی وڈی سلطنت سی ۔ ایہہ سلطنت 330 قبل مسیح چ [[سکندر اعظم]] دے ہتھوں ختم ہوئی ۔
 
سلطنت دا پہلا حکمراں [[کو رشکورش اعظم]] یا [[سائرس اعظم]] سی جد کہ آخری فرمانروا [[دارا سوم]] سی ۔ ھخامشی سلطنت دا دارالحکو متدارالحکومت [[پرسی پولس]] یعنی [[تخت جمشید]] سی تے [[آتش پرستی]] ریاستی مذہب سی ۔
 
==ہخامنشی==
 
ھخامنشی سلسلہ کے ظہور کے ساتھ ہی دنیا کی اس دورکی سیاست میں ایران کا کردار بھی اہمیت کا حامل قراردیا جانے لگا،اس سلسلہ کے مورث اعلی نے انشان کے ایک حصہ ھخامنشیان میں ایک چھوٹے سے علاقہ سے اپنی حکو مت کی ابتداء کی تھی (ح۷۰۰ق م)۔ اس کے بیٹے نے اپنی حکو مت میں دوسرے علاقے بھی شامل کئے اور انشان کو چھوڑ کر صوبہ پارس تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا،اس کے بعد اس کی حکو مت اس کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوگئی، پارس کی حکو مت آریارمینہ کے حصہ میں آئی اور انشان کو رشکورش اول کو ملا اور یہیں سے ھخامنش خاندان دو بڑی شاخوں میں تبدیل ہو گیا اور انہوں نے ایک طویل مدت تک حکو مت کو اپنے درمیان تقسیم رکھا اور اس پر حکو مت کرتے رہے۔
 
کمبوجیہ اول کے بیٹے کو رشکورش دوم ملقب ”کبیر“ نے جو کہ ھخامنشیان کے انشان سلسلہ سے تھا، درحقیقت وہی اس جہانی حکو مت کا بانی تھا۔ اس کی انشان ریاستی حکو مت کا آغاز ۵۵۹ق م میں ہوا لیکن اس نے پارس کے تمام قبائل کو متحد کرنے ایران کو حکو مت اور قدرت کو مادوں کے چنگل سے نکالا اور ہمدان کے سقوط کے ساتھ ہی کو رشکورش کی مستقل حکو مت کا آغاز ہوگیا۔
 
کچھ ہی عرصہ بعد ساردپر پارس کی فوج کے حملہ کے ساتھ ہی لیدیا کی حکو مت بھی سرنگوں ہو گئی(۵۴۷ق م)اور اس کے بعد بتدریج تمام ایشیاء صغیر اور یونانی آناتولی کی زیرتسلط حکو متوں پر ھخامنشیان کا قبضہ ہوگیا (۵۴۶ق م) یہ واقعہ یونانیوں سے ھخامنشیان کے سیدھے ٹکراؤ کا سبب بنا جس کا نتیجہ طویل اور ہمیشہ رقابت اور جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ کچھ ہی سالوں میں کو رشکورش نے مشرقی ایران اور مرکزی ایشیاء کی تمام ریاستوں پر قبضہ کرکے اپنی حکو مت میں شامل کر لیا (۵۴۵۔۵۳۹ق م) اس کے بعد بابل پرحملے کی تیاریوں میں لگ گیا اور مختصرسے حملوں اور جنگ کے بعد بابل کے مضبوط قلعے، برج اور ڈھیروں مہمات کے باوجود اسے فتح کرلیا گیا ۵۳۹ق م) اس کے بعد کو رشکورش شہنشاہ بابل کے نام سے جانا جانے لگا،اس نے صلح وصفائی کی تاکید کے بعد عبادت گاہوں کی تعمیرنو کاحکم دیا۔ بابل کو تسخیر اور فتح کرنے کے ساتھ ہی بین النہرین، شام ،فلسطین اور فنیقیہ کے علاقے بھی (۵۲۹ق م )سے ھخامنشیان کی حکو مت میں داخل ہوگئے، کو رشکورش ظاہرا سکایی نامی صحرائی قبیلہ کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا (۵۳۰ق م) بہرحال اس کی موت کا سبب واضح نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے بارے میں تاریخ میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
 
 
کورش کی فرمانروائی کا علاقہ اس قدر وسیع وعریض تھا کہ اس سے پہلے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اس نے اپنی راجدھانی کا نام اپنے قبیلہ پر افتخار کے عنوان سے پاسارگاد رکھا، کو رشکورش کی شہرت ایک بڑی فرمانروا اور فاتح کے عنوان سے اس کے زمانے کے صدیوں بعد تک ہمیشہ لوگوں کی تحسین کا سبب رہی، جس زمانے میں قتل وغارت وخون ریزی ومذہبی سختی اس زمانے کے بادشاہوں کا وطیرہ تھا۔ کو رشکورش نے اس طرح کی باتوں سے پرہیزکیا اور حکو مت وسلطنت کی نئی راہ لوگوں میں متعارف کرائی، کو رشکورش کی نظر انداز کرنے والی اس سیاست نے جس پر بعد میں دوسرے ھخامنش بادشاہوں نے بھی عمل کیا، اس حکو مت کے توسعہ اور اس کے نظم و ضبط میں مددگار ثابت ہوئی۔
 
کو روش کا مدفن
 
کو رشکورش کے بعد اس کا بیٹا کمبوجیہ (۵۳۰۔۵۲۲) نے باپ کی حکمت عملی کے مطابق فتح مصر کو عملی کرکے دکھایا (۵۲۵ق م)اور شمال افریقا کے بعض علاقوں کو ھخامنش حکو مت کے زیرقیادت لے آیا، کمبوجیہ کی ایران میں عدم موجودگی کے زمانے میں ایک مذہبی رہنمانے جس کا نام گئوماتہ تھا، خود کو مقتول کمبوجہ کا بھائی ثابت کرکے ایران کے تخت پرقابض ہوگیا، کمبوجیہ کو جیسے ہی بغاوت کی خبرہوئی اس نے ایران کا رخ کیا مگرراستہ ہی میں نامعلوم طریقے سے اسے قتل کردیا گیا اور سرانجام داریوش اول جو ھخامنش کے پارس خاندان کا فرد تھا، گئوماتہ کو قتل کرکے تخت حکو مت پر بیٹھا (۵۲۲ق م)۔
 
داریوش کا خودنوشت کتیبہ بیستون کے مطابق(ستون۴،کے بندنمبر ۵۲،۵۷، ۵۹، ۶۲ ) تخت پربیٹھنے کے ایک سال بعد تک بغاوتوں کو کچلتا رہا جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھیں، اس کے باوجود کہ داریوش کی صداقت جواس نے کتیبہ بیستون میں بیان کی ہیں اس سے گئوماتہ کے واقعہ میں شک وشبہ کا شکار ہوجاتا ہے۔
لیک ۱۰۲ –
خشایارشا
 
خشیار کے قتل کے ساتھ ہی (۴۶۵ق م)جوایک سازش کا نتیجہ تھا، ھخامنش حکو مت کادربار آہستہ آہستہ حرم سرا سازشوں اور خواجہ سراؤں کی سیاست بازیوں کا شکارہوگئی، داریوش اول کے اکثر جانشینوں میں حکو مت کی تدبیر ولیاقت نہیں تھی اس کے باوجود ھخامنش حکو مت ایک طویل عرصہ تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلتی رہی اس کا سبب خود داریوش کے ذریعہ قائم ومنظم ومقتدر ادارے اور حکو مت تھی جس کی تاسیس اس نے کی تھی، حتی کہ مصر کے ھخامنش حکو مت سے داریوش دوم (حک۴۲۳۔ ۴۰۴ق م)کی حکو مت کے آخری دورمیں جدا ہوجانے کے بعد ،اور اس کے بیٹے کو رشکورش (حک۴۰۱ق م)کی اردشیردوم کے بھائی (حک۴۰۴۔۳۵۹ق م)کے خلاف بغاوت اور ھخامنش حکو مت سے ۱۰ہزار یونانی افواج کے قلب لشکر ھخامنش کے جداہونے اپنے ملک واپس ہوجانا، جو ھخامنش حکو مت کی فوجی انحطاط کی نشانی ہے اس کے باوجود ھخامنش حکو مت جوں کی توں رہی اس پرکو ئی اثر نہیں پڑا حالانکہ مصر چند سال کے بعد اردشیرسوم (حک۳۵۹۔۳۳۸ق م)کے دور کی حکو مت دوبارہ پارسیوں کی حکو مت سے ملحق ہوگئی،داریوش اول نے ملک کو مختلف صوبوں میں تقسیم کررکھاتھا یہ تقسیم چند جزئی تغییرات کے علاوہ پوری کی پوری آخرتک ویسے ہی باقی رہی۔ وہ فہرست جو ہردوت نے ھخامنش حکو مت کی تقسیم کے بارے میں ذکرکی ہے اگرچہ کہ اس سلسلہ کے بادشاہوں کے کتیبہ سے مختلف ہے، مگراس سے ان علاقوں کے مالیات(ٹیکس) کے بارے میں زبردست اور دلچسپ اطلاعات فراہم ہوتی ہے۔ اردشیرسوم کو سیاسی وفوجی کامیابیوں کے باوجود، اپنے بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کاقتل عام کرنا، اس کی حکو مت کی تباہی ثابت ہوئی، جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ھخامنشی بادشاہ داریوش سون نے خود کو سکندر مقدونی کے مقابلے میں مجبور وکمزورپایا، سکندر کے لشکرکے ساتھ اس کی پہلی جنگ ایشیاء صغیر کے مغرب میں گرانیکو س ندی کے کنارے ہوئی جس سے ہزیمت اٹھانی پڑی(۳۳۴ق م) اس کے بعد خلیج اسکندروں کے قریب ایسوس کے مقام پر سکندر کی دوسری فتح کے ساتھ(۳۳۳ق م) داریوش کا خانوادہ اور ڈھیروں غنائم پر اسکندر کی فوج کا قبضہ ہوگیا (۳۳۲ق م) مصرکی فتح کے بعد اسکندر نے بابل کا رخ کیا اور موصل کے نزدیک ”گاوگاملا“(گوگمل) میں ھخامنش سپاہ سے اس کی آخری لڑائی ہوئی جس میں اس فتح حاصل ہوئی (۳۳۱ق م) اس فتح سے شوش اور تخت جمشید بھی اس کے قبضہ میں اگئے، اسکندر جوکہ داریوش سوم کا پیچھا کر رہا تھا، آخرمیں اس کو داریوش کی لاش ملی، داریوش کو اس کے ساتھیوں نے قتل کیاتھا (۳۳۰ق م )
 
 
لیک ۱۱۲ –
سلطنت کا پہلا حکمران کورش اعظم یا [[سائرس اعظم]] تھا جبکہ [[دارا سوم]] اس کا آخری حکمران تھا۔ ہخامنشی سلطنت کا دارالحکومت پرسیپولس یعنی [[تخت جمشید]] تھا جبکہ آتش پرستی ریاستی مذہب تھا۔
 
[[فائل:Map_achaemenid_empire_en.png|تصغیرthumb|وسطcenter|ہخامنشی سلطنت اپنے عروج پرuc]]
ایران کی قدیم تاریخ دراصل دو آریائی قبائل، میدی یا ماد اور پارس کے سیاسی عروج سے ہوتی ہے۔ 1500 ق م میں آریا قبائل کی ایک جماعت کوہ البرز اور کرد ستان کی پہاڑیوں کے درمیان اس [[سطح مرتفع]] میں بسی جو ان سے منسوب ہوکر ایرانہ Airyana یا ایرانIran کہلایا۔ آریوں کے ورد سے صدیوں پہلے جنوبی ایران میں سوسیانہ یا خوزستان میں علامی Elamic آباد ہوچکے تھے اور شمال مغربی حصہ پر آشوری Asurianes اپنی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ اس سرزمین پر آریوں کو قدرتی طور پر ان دونوں سے جنگ کرنی پڑی تھیں۔ ہمیں پارس کے حالات خود ان کی تحریروں میں کچھ مل جاتے ہیں۔ شلما نصر سو مShamaneser 3ed (857۔ 823 ق م) کی روایات میں ان پارس کا ذکر ملتا ہے کہ اس نے پارسو Parsuکے بادشاہ سے خراج وصول کیا۔ شمش عداد پنجم Shamesh Adadd 5th(723۔811 ق م) اور تغلد بلاسر سوم Tiglath Plaser 3ed (745 تا 727 ق م) کے کتبوں میں بھی ان کا ذکر محکوم قوموں کی حثیت سے ان کا ذکر آیا ہے۔ ان تذکروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ850 ق م تک انہوں نے سیاسی اہمیت حاصل کرلی تھی۔ آریاؤں کی جو جماعت جنوبی ایران میں آباد ہوئی اس کے نام سے یہ خطہ پارس Pars کہلایا۔ پارس نے پرسومش Parsumash اور پرساگرد Parsagarda آباد کیا۔ یہ لوگ اوائل میں میدیا کی طرح آشوریوں کے محکوم رہے اور کم بیش قبائلی زندگی بسر کرتے رہے۔ تقریباً سات سو قبل مسیح میں جب میدیا میں دیاکو نے قبائل کو منظم کرکے حکومت ڈالی اسی وقت پارس کی سرزمین پر ایک شخص ہخامنش نے ایک حکومت کی بنیاد ڈالی۔ یہ دوسرا ایرانی خاندان اپنے بانی کے نام سے ہخامنشی کہلایا۔ اس خاندان کے اوائل کے بادشاہوں نام اور عہد حکومت میں سخت اختلافات ہیں۔ ہیروڈوٹس نے اس خاندان کا جو شجرہ نسب دیا ہے۔ اس کو دارا اول کے ان الفاظ کی روشنی میں جو بہستون کندہ ہیں۔ ”میری نسل کے آٹھ بادشاہوں نے مجھ سے پہلے حکومت کی اور میں نواں ہوں“ غور کرنے سے یہ سلسلہ اس طرح قائم ہوتا ہے۔
# '''ہخامنش'''