‎ ‎ ‎ شیرانوالا دروازہ، پاکستان دے صوبہ پنجاب چ لہور دے تھاں اتے واقع اے۔ایہ دورازہ پرانے لاہور دے تیراں دورازےآں چوں اک اے ۔ ایہ مغل راج ویلے چ تعمیر کیتا گیا تے ایہ اندرون شہر دے راستےآں اتے تعمیر شدہ تیراں دروازےآں چوں اک اے۔

پاکستان دے شہر لاہور دا تریخی دروازہ اے۔ ایہ فصیل شہر دے شمال مشرق ول واقع اے۔

شیرانوالہ دروازہ سودھو

شیرانوالہ دروازہ دے سجے پاسے یکی دروازہ تے کبھے پاسے کشمیری دروازہ واقع اے۔ کشمیری دروازے وانگ ایتھے وی سرکلر گارڈن باراں تیراں فٹ گہرائی چ اے۔ شیرانوالہ دروازے دے باہر اک سڑک اے جو سجے پاسے فصیل شہر دے نال نال چلدی ہوئی شیرانوالہ دروازے نوں کشمیری دروازے نل ملاندی اے۔ اس سڑک نوں مولانا عبید انور روڈ کہیا جاندا اے۔ شیرانوالہ دروازے دے اندر داخل ہوئيے تاں شرع چ ہی سجے ہتھ اتے خدام الدین بنت پبلک ہائی سکول اے تے اسدے نال ہی مولوی احمد علی مسجد اے جدونکہ کبھے پاسے گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ دی عمارت اے۔گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ 1889 چ تعمیر کیتا گیا سی۔ ایہ سکول انجمن حمایت اسلام لاہور دا قائم کردہ اے تے اس دی نویں عمارت 1987 چ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب دے تعاون نال ہیڈ ماسٹر چودھری منظور حسین دی زیر نگرانی تعمیر کیتی گئی سی۔ خضری محلہ چ قوت سماعت تے گویائی توں محروم بچےآں دا گورنمنٹ ہائی سکول وی تریخی اہمیت رکھدا اے۔ شیرانوالہ دروازے دے باہرلے پاسے مسجد غوثیہ جنیفہ باغ والی وی اے۔

ناں دی وجہ سودھو

اس دروازے کا پرانا نام ٴخضری دروازہٴ بھی ہے۔ جس کی وجہ تسمیہ یہ روایت بتائی جاتی ہے کہ حضرت خضرۿ اس دروازے سے باہر نکل کر راوی دریا میں اتر گئے تھے تب سے اس دروازے کا نام خضری دروازہ چلا آرہا ہے۔ حضرت خضرۿ وہی ہیں جنہوں نے آب حیات دریافت کیا جسے پینے کے بعد ابدی عمر پائی اور اب بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ کسی بزرگ کی شکل میں ظاہر ہو کر گم شدہ راہی کو منزل مقصود کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ اندرون شیرانوالہ دروازے میں آج بھی خضری محلہ موجود ہے۔ کنہیا لال شیرانوالہ دروازے کے بارے میں ٴٴتاریخ لاہورٴٴ میں لکھتے ہیں کہ ٴٴوجہ تسمیہ اس دروازے کی یہ ہے کہ زمانہ سلف میں دریائے راوی شہر کے بہت نزدیک بہتا تھا۔ خصوصاً اس دروازے کے آگے توکشتی پڑتی تھی۔ چونکہ خواجہ خضرکو دریائوں کے ساتھ کمال نسبت ہے اور ٴمیرالبحارٴ ان کا خطاب ہے، یہ سبب ہے کہ قرب دریا کے اس دروازے کا نام خضری دروازہ رکھا گیا۔ مگر اب لوگ اس کو شیراں والا دروازہ کہتے ہیں۔ باعث یہ ہے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہمیشہ دو شیروں کے پنجرے اس دروازے کے اندر رکھتے تھے اور خبر گیری شیروں کی محافظانِ دروازہ کے متعلق تھی۔ انگریزی عہد میں وہ پنجرے اُٹھوائے گئے مگر دروازے کا نام شیراں والہ دروازہ بحال رہا۔ٴٴ

دروازے دی موجودہ حالت سودھو

شیرانوالہ گیٹ میں داخل ہوں تو مرکزی راستے کی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس دروازے کا دریا کے کنارے ہونا تھا۔ یہ راستہ سیدھا پاکستان کلاتھ مارکیٹ میں آتا ہے جہاں اگلی طرف پرانی کوتوالی ہے جس کے قریب مسجد وزیر خان ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے اندرون آبادی کو اکبر کے عہد میں گزر اسحاق کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو ایک طرف رڑہ گزر سے اور دوسری طرف گزر جہجہ دیوانی کے ساتھ متصل ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے اندر آبادی کئی کٹڑیوں میں آباد ہے۔ جن میں کٹڑی خیر دین، کٹڑی بابو ممتاز، کٹڑی ہری داس، کٹڑی سدھیر زیادہ اہم ہیں جبکہ دیگر محلوں میں نواں محلہ، خضری محلہ، حویلی شاہ زمان اور کوچہ کنج لال زیادہ اہم ہیں۔ سطحی نقشے اور روکار کے اعتبار سے شیرانوالہ اور کشمیری دونوں دروازے بے حد مماثلت رکھتے ہیں۔ ماہر تعمیرات غافر شہزاد شیرانوالہ گیٹ کے نقشے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ٴٴیک سطحی نقشہ میں شیرانوالہ دروازہ ایک درمیانی ڈیوڑھی جس کے ہر دو اطراف دو دو کمرے بنے ہوئے ہیں، پر مشتمل ہے۔ ان میں ایک کمرہ چھوٹا ہے جس کا دروازہ ڈیوڑھی میں کھلتا ہے اور پھر اسی کمرہ کے ساتھ بڑا کمرہ متصل ہے جس کی ایک کھڑکی اندرونی جانب کھلتی ہے۔ دروازہ کی عمارت اس لحاظ سے قدرے مختلف ہے کہ یہاں دہلی یا لوہاری دروازے کے برعکس کوئی کھڑکی بیرونی جانب نہ کھلتی ہے، عمارت بھی یک منزلہ ہے اور اندرونی اور بیرونی روکا باہم کوئی مشابہت نہ رکھتے ہیں۔ گوتھک انداز تعمیر کی دوہری ڈاٹ جو ڈیوڈھی کی اندرونی و بیرونی جانب واقع ہے، کے علاوہ تمام عمارت ٹھوس ہے۔ بیرونی اطراف دو بڑے بڑے ستون ہیں جو مرکزی گوتھک انداز کی ڈاٹ کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔ چھت بھی اس ڈیوڑھی کی اسی کے انداز میں قدر اونچی بنائی گئی۔آج یہ دروازہ تجاوزات کا کا شکار ہے اور اپنی اصل شباہت کھو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اگر توجہ نہ دی گئی تو اس کی شناخت ختم ہو جائے گی۔ٴٴ

تریخی اہمیت سودھو

شیرانوالہ دروازہ اور اس کے اندر واقع چونا منڈی کا علاقہ ابتدائی سے ہی سرکاری اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ 1822ئ میں سکھ دور حکومت میں دریائے روای اس دروازے کے ساتھ بہتا تھا اور سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیر اعظم فقیر خاندان کے بانی فقیر عبدالرحیم تھے ۔ ان کے والد اور والدہ کا قیام شیرانوالہ دروازے کے علاقے میں تھا اور وہ خود تحصیل بازار اندرون بھاٹی گیٹ میں رہائش پذیر تھے جہاں آج بھی فقیر خانہ موجود ہے۔ مہارجہ رنجیت سنگھ نے بڑے اور عادی مجرموں کو سزا دینے کے لئے 444شیر پال رکھے تھے جن کے رہنے کے لئے 77ایکڑ زمین موضع گلی رام بیرون شیرانوالہ گیٹ میں دریائے راوی کے کنارے مختص کی گئی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ مجرموں کو سزائے موت دینے کے غرض سے ان کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینے کا حکم دیتا تھا جو پلک جھپکتے میں شیروں کی خوراک بن جاتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اسی نسبت سے اس دروازے کو شیرانوالہ دروازہ پکارا جانے لگا تھا۔ 1830ئ کی دہائی میں ارضی تبدیلیوں کے باعث دریا کا رخ تبدیل ہوگیا۔ دریا کا رخ تبدیل ہونے سے بہت سارا علاقہ خشک ہوگیا جہاں عمارات تعمیر کی جانے لگی۔ 1840ئ میں یہاں ڈسٹرکٹ پولیس لائنز قائم کی گئی جس کا بانی حوالدارسبحان خان تھا اس کی ہی نسبت سے شیرانوالہ گیٹ تین حصوں میں خضری محلہ، لائن سبحان خان اور نواں محلہ کی تقسیم کی گئی۔ نواں محلہ کے ساتھ ہی یکی دروازے کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جو حضرت پیر ذکیۯ کے نام سے منسوب ہے۔ شہر لاہور کی روایت رہی ہے کہ اولیائ کرام نے شہر کے دروازوں کے قریب مساجد قائم کیں اور قیام کیا۔ اس کے علاوہ شیرانوالہ دروازے کے علاقہ علمائے کرام ، فلمی اداکاروں اور سیاست دانوں کا بھی مرکز رہا ہے۔ اداکار سدھیر کی حویلی بھی شیرانوالہ گیٹ کے مرکزی بازار میں واقع تھی جسے بعد ازاں گرا دیا گیا تھا۔ شیرانوالہ دروازے کی مسجد خدام الدین بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ 1912ئ میں پنجاب کے ساتویں انگریز گورنر لارڈ مائونٹ منٹگمری تھے ، وہ گورنر پنجاب بننے سے پہلے دہلی کے چیف کمشنر تھے اور ان کے بڑے بیٹے کرنل جانسن منٹگمری برطانوی خفیہ ایجنسی MI5کے سربراہ تھے ۔ کرنل جانسن منٹگمری دہلی کے امن و امان کے بھی ذمہ دار تھے۔ اس دور میں دہلی کی جامعہ مسجد فتح پوری جنگ آزادی کے نامور علمائ شیخ الدین مولانا محمود حسن، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر احمد حسن اور مولانا عبید اللّہ سندھی کا مرکزی تھا ۔ مولانا عبید اللّہ سندھی کومارچ 1914ئ میں مولانا محمود حسن نے افغانستان کی جانب جنگ آزادی کا مورچہ سنبھالنے کے لئے قبائلی علاقے بھیجا۔ جس کے بعد مولانا احمد علی ان کے جانشین اور جامعہ مسجد فتح پوری کے خطیب مقرر ہوئے۔ دہلی کے کمشنر لارڈ منٹگمری کے صاحبزادے کرنل جانسن منٹگمری نے اپنے والد سے کہا کہ اگر آپ گورنر بن کے پنجاب جا رہے ہیں تو مولانا احمد علی کو بھی ساتھ لیتے جائیں ان سے دہلی میں انگریز سرکار کو بے حد خطرہ ہے۔ چنانچہ انگریزوں نے مولانا احمدعلی کو 14 جولائی 1914ئ میں ہتھکڑیاں لگا کر دہلی سے لاہور تھانہ نولکھا منتقل کر دیا۔ ادھر برطانیہ میں فرانس کے حملے کے بعد جنگ عظیم اول شروع ہوگئی تو مولانا احمد علی کو 17دسمبر 1915میں تھانہ نولکھا حوالات سے ڈسٹرکٹ پولیس لائنز منتقل کر دیا گیا۔ شیرانوالہ دروازے کے اندر داخل ہوں تو دائیں جانب ایک سفید تاریخی مسجد ہے۔ اس کے اندر ایک تالاب موجود ہے۔ پرانے وقتوں میں اس تالاب سے پولیس لائنز کے تین سو اونٹ پانی پیا کرتے تھے اور موجودہ مسجد کی جگہ اونٹوں کا اصطبل تھا۔جہاں اونٹوں کی نگہبانی کرنے والے مسلمان پولیس ملازمین کے لئے نماز پڑھنے کے لئے ایک مسجد بھی قائم تھی۔ مسجد کے قریب ہی ایک کنواں بھی تھا۔ گورنر منٹگمری نے عہدہ سنبھالنے کے بعد مولانا احمد علی لاہور کو حوالات سے نکل کر پولیس لائنز کی حدود میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے دی۔ انہوں نے اونٹوں کے اصطبل کے قریب قائم مسجد میں درس قرآن کا باقاعدہ آغاز کر دیا ۔ بعدازاں یہاں ایک مدرسہ قاسم العلوم قائم کیا اور 1933ئ میں موجودہ جامعہ مسجد کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس مسجد کی بنیاد کی 19اینٹیں مولانا احمد علی لاہور نے بیسویں اینٹ علامہ اقبال نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔ کچھ عرصہ قبل مولانا احمد علی لاہوری کے جانشین مولانا اجمل قادری نے مدرسہ دارلعلوم کو خدام الدین ہونیورسٹی کا درجہ دیے دیا۔

اسی دور میں افغان بادشاہ ایوب شاہ درانی کو انگریزوں نے چونا منڈی اندرون شیرانوالہ میں قید کر کیا۔ اسی وجہ سے آج بھی یہ علاقہ بنگلہ ایوب شاہ کہلاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں قدیم شہروں کے دیگر خدوخال میں حمام بہت اہم رہے ہیں۔ بصرہ اور فسطاط میں کھدائی کے دوران حماموں کی تعمیر کے شواہد بھی ملے ہیں۔ جہاں تک قدیم لاہور کا تعلق ہے تو اس حوالے سے مغل عہد میں تعمیر ہونے والے اندرون دہلی دروازے میں شاہی حمام وزیر خان کا تذکرہ ملتا ہے انیسویں صدی کے وسط کی دہائیوں میں بنائی جانے والی تصاویر کو دیکھا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ شہر قدیم کی بیرونی فصیل جہاں سے دریائے راوی گرزتا تھا، نہانے اور کپڑے دھونے کی عام روایت موجود تھی۔ اس ضمن میں ایک تصویر شیرانوالہ دروازے کی بھی ہے۔ گزشتہ صدی کی ایک مصور کی بنائی ہوئی تصویر میں خضری دروازے کے باہر زینے دکھائے ہیں جو نیچے پانی میں اترتے ہیں اورلوگوں کو وہاں کپڑے دھوتے اور نہاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ محلوں اور بازاروں میں بھی حمام موجود تھے جہاں آج بھی روایتی طور پر تولیے دھوپ میں سکھانے کے لئے لٹکا دیئے جاتے ہیں۔ پانی کی دستیابی کے لئے ہر محلے اور کٹڑی میں میں الگ چرخی کنواں بھی موجود ہوا کرتا تھا۔

تریخی حویلیاں سودھو

اندرون شیرانوالہ دروازے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں کئی عظیم الشان حویلیاں بھی تعمیر کی گئیں ۔ ان میں چونا منڈی میں تعمیر کی جانے والی خوشحال سنگھ اور راجہ دھیان سنگھ کی حویلیاں قابل ذکر ہیں۔آج ان حویلیوں میں گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج برائے خواتین قائم ہے۔ خوشحال سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا امیر و کبیر درباری تھا جس نے اس علاقے کے باسیوں سے مکان چھین کر اپنے لئے حویلی تعمیر کروائی تھی۔ کنہیا لال خوشحال سنگھ کی اس حویلی کے بارے میں ٴٴتاریخ لاہورٴٴ میں بیان کرتے ہیں کہ ٴٴاس حویلی کی وسعت اور عمارت کا کچھ حساب کتاب نہیں ہے، یہ حویلی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک امیر کبیر دربار سلطنت جمعدار خوش حال سنگھ نے تعمیر کروائی تھی۔ تعمیر کے وقت غریب رعایا کے مکانات مفت چھین لیے۔ جنوبی اور غربی دیواریں اس حویلی کی بہت بلند ہیں ۔ گویا قلعہ لاہور کے سامنے دوسرا قلعہ بنا ہوا نظر آتا ہے۔ ٴٴ حویلی خوشحال سنگھ کے ساتھ حویلی راجہ دھیان سنگھ واقع ہے جس کے بارے میں کنہیا لال لکھتے ہیں کہ ٴٴاس حویلی کی وسعت جمعدار خوش حال سنگھ کی حویلی سے زیادہ ہے۔ راجہ دھیان سنگھ وزیر سلطنت مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کو تعمیر کیا۔ جس قدر مکانات رعایا کے اس موقع پر تھے، سب حکماً گرا دیے گئے۔ کئی سال تک یہ عمارت بنتی رہی۔ٴٴ ان حویلیوں کے ساتھ ہی خوشحال سنگھ کے بیٹے تیجا سنگھ کی حویلی کی عمارت بھی موجود ہیں جنہیں اب ملا کر ایک عمارت کی شکل دے دی گئی ہے۔ موجودہ کالج کی عمارت سکھ دور حکومت کی عظیم فن تعمیر کی یاد دلاتا ہے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد 1850ئ کی دہائی میں ان عمارات کو گورنمنٹ ڈسٹرکٹ سکول کی شکل دے دی گئی ۔ یکم جنوری 1864ئ میں ڈاکٹر جی لیٹنر کی زیر سرپرستی گورنمنٹ کالج لاہور کی ابتدائی کچھ کلاسیں بھی اس عمارت میں ہوتی تھیں ۔ اور یہ سلسلہ 1877ئ میں گورنمنٹ کالج کی نئی عمارت کی تعمیر تک جاری رہا۔ کالج کی منتقلی کے بعد یہ عمارت طویل عرصہ تک ویران رہی۔ بعدازاں یہ عمارت سی آئی اے کے زیر استعمال رہی ۔1986ئ انیسویں صدی کی اس تاریخی یادگار کو محکمہ تعلیم کے حوالے کر دیا گیا اور لڑکیوں کے کالج کی بنیاد رکھی گئی۔

تریخی ورثہ سودھو

شیرانوالہ دروازہ تاریخی ورثے سے مالامال ہے۔ یہاں کی گلیاں، کٹڑیاں اور قدیم عمارات ماضی میں اس علاقے کے باسیوں کی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں کی نااہلی کے باعث یہ تاریخی ورثہ اپنے نشانات کھو رہا ہے۔ مرکزی دروازے سے لیکر اندرون شہر کے قدیم گھروں اور گلیوں کی خستہ حالی اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاریخی عمارات کی خستہ حالی ، جا بجا تجاویزات اور غیرقانونی تعمیرات سے اس تاریخی ورثے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر اس جانب سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو آئندہ آنے والے برسوں میں اس تاریخی ورثے کا نشان تک باقی نہ رہنے کا اندیشہ ہے۔

ہور ویکھو سودھو


بابرلے جوڑ سودھو