سانچہ:خانہ معلومات شخصیت

(سانچہ:Infobox person توں مڑجوڑ)
خانہ معلومات شخصیت
جم

وفات

شہریت پاکستان
عملی زندگی
مادر علمی بلوچستان یونیورسٹی
پیشہ شاعری
پیشہ ورانہ زبان اردو

ابتدائی زندگی

سودھو

رشید حسرت پاکستان نال تعلق رکھنے والے اردو دے اک نامور شاعر نيں۔ اوہ ۱۶ جون ۱۹۶۲ نو‏‏ں مٹھڑی ضلع (کچّھی) (بلوچستان) دے اک مذہبی گھرانے وچ پیدا ہوئے۔ انہاں دے والد مولوی محمد رمضان پاکستان ریلوے وچ درجہ چہارم دے ملازم سن اس وجہ تو‏ں گزر بسر مشکل تے معاشی تنگ حالی دا سامنا سی لہذا انہاں نو‏ں میٹرک دے بعد بطور جونیئر کلرک ملازمت اختیار کرنا پئی۔ بھانويں بعد وچ ایم اے اردو ک‏ر ک‏ے بطور لیکچرر بھرتی ہوئے۔ اوہ ۱۹۸۱ تو‏ں باقاعدہ شاعری ک‏ر رہ‏ے نيں۔ انہاں دا پہلا شاعری مجموعہ ۲۰۰۱ وچ سوکھے پتےآں پہ قدم دے ناں تو‏ں لاہور تو‏ں شائع ہؤا۔ دوسرا مجموعہ اپسرا ادا کے نام، دے ناں تو‏ں ۲۰۲۱ وچ شائع ہؤا اے جدو‏ں کہ تیسرا مجموعہ خزاں آلود بہار دے ناں تو‏ں جلد منظر عام اُتے آنے والا ا‏‏ے۔ دونے مجموعےآں نو‏‏ں خوب سراہا گیا ا‏‏ے۔

تصانیف

سودھو

سوکھے پتوں پہ قدم

اپسرا ادا کی بات

خزاں آلود بہار

نمونہ کلام

سودھو

غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے

ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے

اُس کے حِصّے کی زمِینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے

اب مِرا اُس سے تعلُّق بھی نہِیں ہے کوئی اور احکام کی تعمِیل ہُوئی جاتی ہے

میں نے کھائی تھی قسم اُس کا بھرم رکھ لُوں گا پر بیاں ساری ہی تفصِیل ہُوئی جاتی ہے

اور کُچھ روز مِرا ظرف کشا کش میں رہے اِس بہانے مِری تکمِیل ہُوئی جاتی ہے

سارا دِن دُھوپ میں جلتا ہُوں فقط روٹی کو زخم سے پِیٹھ مِری نِیل ہُوئی جاتی ہے

ابرہہؔ بن کے نہ کر میرے حرمؔ پر حملہ بے بسی اب تو ابابِیلؔ ہُوئی جاتی ہے

کِس تکلُّف سے تِرا درد مِرے ساتھ رہا یاد کی رو ہے کہ تمثِیل ہُوئی جاتی ہے

اب تو دو وقت کی روٹی بھی میسّر ہے کہاں زِندگی بُھوک میں تحلِیل ہُوئی جاتی ہے

میں سمجھتا تھا اُسے بُھول گیا ہوں حسرتؔ پر چُبھن دِل میں مِرے کِیل ہُوئی جاتی ہے

۲۔  تمام عُمر اُسے مُجھ سے اِختِلاف رہا رہا وہ گھر میں مِرے پر مِرے خِلاف رہا

خبر نہِیں کہ تِرے من میں چل رہا یے کیا؟ تِری طرف سے مِرا دِل ہمیشہ صاف رہا

بجا کہ رُتبہ کوئی عین قاف لام کا ہے بلند سب سے مگر عین شِین قاف رہا

مُجھے گُماں کہ کوئی مُجھ میں نقص بھی ہو گا؟ رہا نقاب میں چہرہ، تہہِ غِلاف رہا

کبھی تھا بِیچ میں پریوں کے، اب جِنوں کے بِیچ یہ شہر میرے لیئے گویا کوہ قاف رہا

وُہ شخص جِس کو سُکوں میرے بِن نہ آتا کہِیں نہِیں تھا میرا، نیا ایک اِنکشاف رہا

خُدا کرے کہ وفا کا بھرم رہے قائم مُعاملہ تھا بڑا صاف اور صاف رہا

میں اپنے فن کا پُجاری ہوں دُوسروں کا نہِیں بڑا ہے وہ کہ جِسے سب کا اعتراف رہا

رشِیدؔ کوسا کِیا میں یہاں مُقدّر کو وہاں چُھپا ہؤا سِینے میں اِک شِگاف رہا

۳۔  جو بڑا جِتنا ہے ڈاکُو اُس بڑے منصب پہ ہے

آہ و زاری پر ہے دُنیا اور شِکوہ لب پہ ہے

حُکم جاری کر دیا ہے دیس کے حاکِم نے یہ ضابطہ جو میں نے رکھا ہے وہ لازِم سب پہ ہے

بُھوک سے مجبُور ہو کر لوگ خُود سوزی کریں اور حاکِم ہے کہ ہر دِن نِت نئے کرتب پہ ہے

تُم کو مخلُوقِ خُدا پر رحم کُچھ آتا نہِیں تُف تُمہاری حُکمرانی پر، تُمہارے ڈھب پہ ہے

عدل سے مایُوس بوڑھی ماں نے یہ رو کر کہا اب تو بیٹا فیصلہ رکھا یہ ہم نے ربّ پہ ہے

اپنی ناکامی کی کالک دُوسروں کے مُنہ ملی کیا کِیا ہے تُم نے اب جو ساری تُہمت تب پہ ہے

جو ترقّی کا کبھی وعدہ کِیا لوگوں کے بِیچ تُم نے منصُوبہ اُٹھا رکھا بھی آخر کب پہ ہے؟

تھا وہ پاکِیزہ مگر ہم نے خروشیں ڈال دِیں بس ترقّی کا ہماری اِنحصار اُس چھب پہ ہے

کیسی حسرتؔ آس رکھی، کیا ہُوئے ہیں دِن نصِیب اب وہ مایُوسی کا عالم ہے کہ تکیہ شب پہ ہے

۴۔ اِک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا  پاؤں میں زنجِیر سی پہنائے گا، لے جائے گا 

 میں نے اُس کے نام کر ڈالی متاعِ زِندگی  اب یہاں سے اُٹھ کے وُہ جب جائے گا لے جائے گا

 کل نئی گاڑی خرِیدی ہے مِرے اِک دوست نے  سب سے پہلے تو مُجھے دِکھلائے گا لے جائے گا

 میں بڑا مُجرم ہُوں مُجھ کو ضابطوں کا ہے خیال   ہتھکڑی اِک سنتری پہنائے گا، لے جائے گا

 میری چِیزوں میں سے اُس کو جو پسند آیا کبھی  چِھین لے گا چِیز پِھر مُسکائے گا، لے جائے گا

 شاعری رکھ دی ہے میں نے کم نظر لوگوں کے بِیچ  دوستو وہ مِہرباں بھی آئے گا، لے جائے گا

 اپنی بِیوی کے بِنا کِس کا گُزارا ہے یہاں  دیکھنا، داماد جی پچھتائے گا، لے جائے گا

 سر میں چاندی تار لے کر ایک لڑکی نے کہا  کیا کوئی اب بھی مُجھے اپنائے گا، لے جائے گا؟؟

 دیکھنا کُوڑے میں سڑتا باسی کھانا بھی رشِیدؔ  ننھا سا مجبُور بچّہ کھائے گا، لے جائے گا 

۵۔  کوئی بھی سچّا نہِیں ہے، سب اداکاری کریں آؤ مِل کر دوست بچپن کے، عزا داری کریں

اِن کو اپنے آپ سے بڑھ کر نہِیں کوئی عزِیز پیار جُھوٹا جو جتائیں اور مکّاری کریں

بھیڑ بکری کی طرح یہ بس میں ٹھونسیں آدمی اور بولیں اور تھوڑی آپ بیداری کریں

تب تو اِن کی بات پر تُم کان تک دھرتے نہ تھے اب تُمہارا ساتھ کیا دیں، کیوں طرف داری کریں؟؟

جو تُمہارے عہدِ کُرسی میں وفاداروں میں تھے عین مُمکِن ہے کہ تُم سے آج غدّاری کریں

کار سرکاری ہماری اور اِیندھن مُفت کا بے دھڑک ہم خرچ یارو مال سرکاری کریں

ایسی مِحنت کا تصوُّر بھی کہاں ہم کو نصِیب جو ہمارے آج کے مزدُور یا ہاری کریں

وہ جِسے ہم رامؔ سمجھے تھے نِکل آیا ہے شامؔ کِس کو سمجھاتے پِِھریں اب کِس سے مُنہ ماری کریں

قِیمتیں چِیزوں کی بڑھتی جارہی ہیں دِن بدِن ہم رکھیں فریاد کِس کے سامنے، زاری کریں

ایک مُدّت سے رہے اِس عارضے میں مُبتِلا دُور دِل سے آؤ اب ہم "میں" کی بِیماری کریں

ہم مزارِع گاؤں کے ایسے ہُوئے جِس میں رشِیدؔ ایک سے بڑھ کر جہاں پر لوگ سرداری کریں

۶۔  بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی  تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی

 حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری  گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی

 مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا  کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی

 تُمہاری یاد کی خُوشبُو کے دائروں میں رہا  اگرچہ زرد رہی، پر بہار جیسی تھی 

 تُمہارے ہِجر کے موسم میں، کیا کہُوں حالت  کبھی اُجاڑ، کبھی تو سِنگھار جیسی تھی

 ہزار طرح کے گھمبیر مرحلوں میں تھا حیات جیسے کِسی اِک حِصار جیسی تھی

 وہ رات جِس سے کہ جی بھر لِپٹ کے روتا رہا  رشِیدؔ شب وہ مگر کوہسار جیسی تھی

۷۔ تسلِیم ہم شِکست کریں یا نہِیں کریں اپنی انا کو پست کریں یا نہِیں کریں

اِک شب کا ہے قیام رہو تُم ہمارے ساتھ رُتبہ بلند و پست کریں یا نہِیں کریں

شوہر بِچارے سوچ میں ڈُوبے ہُوئے ہیں آج بِیوی کو زیرِ دست کریں یا نہِیں کریں

اعصاب کی شکست کو عرصہ گُزر گیا پِھر سے عدم کو ہست کریں یا نہِیں کریں

دِل یہ صنم تراش بھی ہے بُت شِکن بھی ہے اِس کو خُدا پرست کریں یا نہِیں کریں

لکھا ہؤا ہے سال وِلادت کا اور کُچھ اِس کو بدل کے شست کریں یا نہِیں کریں

تُم نے کہا تھا مارچ میں لوٹاؤ گے اُدھار اب فیصلہ اگست کریں یا نہِیں کریں

چھوڑا ہے اُس نے بِیچ میں کسنے کو اِک خلا اب فِقرہ کوئی جست کریں یا نہِیں کریں

حسرتؔ ہے وجد کیف مگر چُپ لگی ہُوئی کہیے کہ مست الست کریں یا نہِیں کریں

۸۔  تھا بے سکت ہوا میں اُچھالا گیا تھا جب بے روزگار گھر سے نِکالا گیا تھا جب

ناکامیوں نے مُجھ میں بڑی توڑ پھوڑ کی محرُومیوں کی گود میں ڈالا گیا تھا جب

اُس نے تو صاف آنے سے اِنکار کر دیا احقر منانے، حضرتِ اعلا! گیا تھا جب

تب اُس کی ضِد میں تھا کہ نہ تھا مُمکِنات میں بچّے کی طرح ڈانٹ کے ٹالا گیا تھا جب

اُس دِن سے یہ وجُود اندھیروں کی زد میں ہے مُجھ کو اکیلا چھوڑ اُجالا گیا تھا جب

اپنی زبان کاٹ کے جانا پڑا مُجھے اِک فرد ساتھ بولنے والا گیا تھا جب

تب تک مِرا وجُود ہی گل بھی چکا حُضور مُدّت کے بعد آ کے سنبھالا گیا تھا جب

اُس کے گلے میں غیر کی بانہوں کے ہار تھے لے کر خلُوص و پیار کی مالا گیا تھا جب

اب ہیں سمیٹنے میں تُمہیں ہِچکِچاہٹیں تب کیوں نہ تِھیں رشؔید کو گالا گیا تھا جب


۹۔ کب ہم نے کہا تُم سے محبّت ہے، نہِیں تو دِل ہِجر سے آمادۂِ وحشت ہے، نہِیں تو

باتیں تو بہُت کرتے ہیں ہم کُود اُچھل کر اِس عہد میں مزدُور کی عِزّت ہے، نہِیں تو

مزدُوری بھی لاؤں تو اِسی کو ہی تھماؤں بِیوی میں بھلا لڑنے کی ہِمّت ہے، نہِیں تو

دولت کے پُجاری ہیں فقط آج مسِیحا دُکھ بانٹنا ہے، یہ کوئی خِدمت ہے؟؟ نہِیں تو

دعوا تو سبھی کرتے ہیں پر ایسا نہِیں ہے تفرِیق نہیں ہم میں حقِیقت ہے، نہِیں تو

خُود ہاتھ سے میں آپ کرُوں اپنی تباہی اور سب سے کہُوں یہ مِری قِسمت ہے، نہِیں تو

جو پہلی محبُت تھی مزہ اُس کا الگ تھا کیا اب بھی وُہی پہلی سی لذت ہے، نہِیں تو

ہم جِس کے سہارے پہ رہے، اُس کا بِچھڑنا جاں لینے سے کیا کم یہ مُصیبت ہے، نہِیں تو

اے وقت تِرا زخم بھرا ہے نہ بھرے گا محفُوظ ترے وار سے حسرتؔ ہے، نہِیں تو

۱۰۔ کُچھ نہِیں پایا ہے ہم نے اِس بھرے سنسار میں پُھول سے دامن ہے خالی گر چہ ہیں گُلزار میں

پِھر محبّت اِس طرح بھی اِمتحاں لیتی رہی جیب خالی لے کے پِھرتے تھے اِسے بازار میں

ہم نے ہر ہر بل کے بدلے خُوں بہایا ہے یہاں تب کہِیں جا کر پڑے ہیں پیچ یہ دستار میں

ذائقوں سے اِن کے ہم کو کُچھ نہیں ہے اِنحراف سب سے مِیٹھا پھل ہے لیکن صبر سب اثمار میں

چُرمراتے سُوکھے پتوں پر قدم رکھتے ہوئے کھو کے رہ جاتے ہیں ماضی کی حسِیں مہکار میں

ہم گلی کُوچوں میں تو دعوا کریں تہذِیب کا اور اپنے گھر رکھیں ماں باپ کو آزار میں

کیا ہی اچھّا تھا کہ ہم کرتے کِسی نُکتے پہ بات ہم دُکاں داری لگاتے ہیں فقط تکرار میں

کل تُمہارے پاؤں چاٹیں گے ہمارا کام ہے آج حاضِر ہو نہِیں پائے اگر دربار میں

زیدؔ نے لوگوں میں بانٹا، آج آٹا، دال، گِھی اِس توقع پر کہ ہو گی کل خبر اخبار میں

ہم تُمہاری بے زُبانی سے تھے تھوڑا آشنا کِھلکھلاتی "ہاں" چُھپی تھی "پُھسپُھسے اِنکار میں

جو سُنے وہ گُفتگُو کا بن کے رہ جائے اسِیر کیسا جادُو رکھ دیا اِک شخص نے گُفتار میں

تھا زمانہ وہ تُمہارے ناز کا، انداز کا شرم کے مارے گڑھے پڑتے تُمہیں رُخسار میں

کام کیا ایسا پڑا ہے، ڈُھونڈتے ہو کِس لِیئے ہم سے مِلنا ہے تو پِھر ڈُھونڈو ہمیں اشعار میں

اِک وفا کو چھوڑ کر تصوِیر میں سب کُچھ مِلا اے مُصوّر رہ گئی بس اِک کمی شہکار میں

جو ہُنر رکھتا ہے وہ روٹی کما لے گا ضرُور دوستو طاقت بڑی رکھی گئی اوزار میں

شاعری تو خاک کر لیں گے مگر اِتنا ضرُور فیضؔ کا سندیس گویا روزنِ دِیوار میں

جِس کی مرضی، جب، جہاں، جیسی بھی من مانی کرے اِک ذرا سا دم کہاں باقی رہا سرکار میں

کیا حقِیقت پُوچھتے ہو، زِندگی اِک جبر ہے درد بن کر خُون بہتا ہے تِرے فنکار میں

ہم اگر تذلِیل کی زد میں ہیں تو باعِث ہے یہ حل کبھی ڈُھونڈا نہیں اقبالؔ کے افکار میں

آج اپنے فن کی لوگو قدر دانی کُچھ نہیں کل ہمیں ڈُھونڈا کرو گے تُم قدِیم آثار میں

مصلِحت کا یہ تقاضہ تھا کہ ہم نے مان لی جِیت پوشِیدہ کِسی کی تھی ہماری ہار میں

آخری شمعیں بھی اب تو پھڑپھڑا کے رہ گئِیں مُنتظِر بیٹھے ہوئے ہیں ہم یہاں بےکار میں

وہ، تعلُّق جِس کی خاطِر سب سے توڑا تھا رشِیدؔ لو چلا ہے وہ بھی ہم کو چھوڑ کر اغیار میں

۱۱۔  وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو

کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو

کب کہا میں نے تعلُّق وہ پُرانا ہو بحال بس دِکھاوے کو فقط تُم سے کوئی راہ تو ہو

جو محبّت میں وفاؤں کو تڑپتا چھوڑے پِِھر ترستا ہی رہے، پہلے اُسے چاہ تو ہو

میں نے کب اُس کی محبّت کا کِیا ہے اِنکار؟ اُس طرف جاتا کوئی راستہ ہو، راہ تو ہو

تُرش لہجے پہ کبھی غور کِیا ہے تُم نے گرم جوشی نہ سہی دل میں مگر جاہ تو ہو

کیا ہُؤا چاند اگر اپنے تصرُّف میں نہِِیں شک نہِیں اِس میں مِرے واسطے تُم ماہ تو ہو

آج کُچھ ایسا ادا کرنا پڑے گا کِردار ہو نہ ہو کُچھ بھی مگر دوست خُود آگاہ تو ہو

یہ وُہی خانہ بدوشوں کا قِبیلہ ہے رشِیدؔ ڈیرہ ڈالے گا، وہاں کوئی چراگاہ تو ہو

۱۲۔

سُناؤں گا تُمہیں اے دوست میں فُرصت سے حال اپنا

مہِینہ چین سے گزرا، نہ دِن، گھنٹہ نہ سال اپنا

تُمہارے ہِجر و حِرماں سے کہُوں کیا حال کیسا ہے سمجھ لِیجے کہ ہونے کو ہے اب تو اِنتقال اپنا

نہِیں ہوتا تو ہم کب کا جُھلس کر راکھ ہو جاتے ہمارے کام آیا دیکھ لو یہ اعتدال اپنا

تُمہاری آنکھ سے آنسُو تو کیا خُوں بھی رواں ہو گا کہو تو شعر گوئی میں دِکھا دیں وہ کمال اپنا

بہت مقبُول ہوتی جا رہی ہے دِل زدگاں میں ہماری شاعری، اب تو فسُوں بھی بے مثال اپنا

غُرُور اِک عارضہ جِس کا تدارُک ہی نہِیں مُمکِن لگا اِک بار یہ جِس کو سمجھ لے وہ زوال اپنا

کرِشمہ وقت میں رکھا گیا ہے زخم بھرنے کا لگے جو گھاؤ تو حسرتؔ، بنے خُود اِندمال اپنا

۱۳۔ گو پنکھ نہِیں پِھر بھی آزاد نہِیں کرنا نا شاد رکھو مُجھ کو تُم شاد نہِیں کرنا

قد کاٹھ اگر دو گے، سمجُھوں گا تُمہیں بونا بونا ہی رکھو مُجھ کو شمشاد نہیں کرنا

تُم عام سی لڑکی ہو، میں عام سا لڑکا ہوں شِیرِیںؔ نہ سمجھ بیٹھو، فرہادؔ نہِیں کرنا

ایسے نہ اُجڑ جانا دیکھو تو کہِیں تُم بھی بستی ہی کوئی دِل کی آباد نہِیں کرنا

جو ذہن کے ریشوں میں رچ بس کے رہا اُس سے کیسے یہ کرُوں وعدہ اب یاد نہِیں کرنا

اِس شہر کے حاکِم نے یہ حُکم کیا جاری کُچھ بھی ہو کوئی ہرگز فریاد نہِیں کرنا

بس ایک انا پائی، گھر اپنا لُٹا بیٹھے اے بیٹِیو! اے بیٹو! اضداد نہِیں کرنا

تہذِیب بتا دے گی، تُم کتنے مُہذّب ہو ظاہِر ہی کِسی پر تُم اسناد نہِیں کرنا

کُچھ وقت کبھی ہم نے اِک ساتھ گُزارا ہے اب جور و جفا حسرتؔ، بے داد نہِیں کرنا

۱۴۔

آج چہچہاتے ہیں کل مگر نہیں ہوں گے آشنا سے یہ چہرے بام پر نہیں ہوں گے

دل پہ ڈال کر ڈاکہ چُھپ کے بیٹھ جاتے ہیں جا کے دیکھ لیں لیکن، لوگ گھر نہیں ہوں گے

پی کے ہم بہکتے تھے، چھوڑ دی ہے اب یارو کھائی ہے قسم ہم نے، ہونٹ تر نہیں ہوں گے

اُس کے من پسندوں میں ہم اگر نہیں شامل جان بھی لُٹا دیں تو معتبر نہیں ہوں گے

نا ہؤا میسّر گر ساتھ آپ کا تو پھر چند گام رستے بھی مختصر نہیں ہوں گے

ہم سے لاج چاہت کی، آبرو محبّت کی ناز کون اُٹھائے گا، ہم اگر نہیں ہوں گے

مشورہ دیا تم کو، قیمتی ہیں یہ الفاظ گر عمل کرو گے تو، بے اثر نہیں ہوں گے

رہبری کے پردے میں راج رہزنوں کا ہے آج ہم نہیں یا پِھر، راہبر نہیں ہوں گے

درد وہ مِلا حسرتؔ جاں بچانے کے حربے آزمائے لیتے ہیں، کارگر نہیں ہوں گے

۱۵۔

فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا

مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا

وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا

مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا کُھلا وہ شخص، غرض کا سلام کرتا رہا

بہُت کنِیزیں مُیسّر ہیں حرف حلقے میں بہت سے لفظوں کو اپنا غُلام کرتا رہا

طلب تھی جِس کے لیئے ہر گھڑی مسرّت کی مِری خُوشی کو وہ غم اِنضمام کرتا رہا

پڑا جو وقت، مُعلّق تھا میں خلاؤں میں گُمان کو در و دِیوار و بام کرتا رہا

کبِھی جو چین کے لمحے مُجھے نصِیب ھُوئے یقِین رکھنا وہ سب اُس کے نام کرتا رہا

جو آدمی کی نفِی، اِختلاف اُن سے ہے جو مُعترِف، سو میں اِحترام کرتا رہا

کہا تھا اُس کو مِرے ساتھ دِن کا کھانا ہے وہ کھا چُکا، میں یہاں اِہتمام کرتا رہا

رشیدؔ کیسے بلاؤں سے بچ کے نِکلوں گا جو قید رکھنی تھیں خُود بے لگام کرتا رہا


۱۶۔

دیکھا ہے جو اِک میں نے وہی خواب بہُت ہے ورنہ تو وفا دوستو! کمیاب بہُت ہے

یہ دِل کی زمِیں بنجر و وِیران پڑی تھی تھوڑی سی ہُوئی تُُجھ سے جو سیراب بہُت ہے

کل لب پہ تِرے شہد بھری بات دھری تھی اور آج کے لہجے میں تو تیزاب بہُت ہے

اِک میں کہ نِگوڑی کے لیئے جان بکف ہوں اِک جنسِ محبّت ہے کہ نایاب بہُت ہے

جب عہد کیا دِل نے کہ بے چین نہ ہوگا پِھر کیا ہے سبب اِس کا کہ بےتاب بہُت ہے

کُچھ فرق نہِیں چاند رسائی میں نہِیں جو تُو میرے لیئے اے مرے مہتاب بہُت ہے

کمزور عدُو کو ہی سمجھنا ہے تِری بُھول بازُو میں تِرے مانتے ہیں تاب بہُت ہے

کچُھ اور کرُوں تُجھ سے بھلا کیسے تقاضہ آنکھوں میں بسا رکھا ہے جو آب بہُت ہے

کہتا ہے تُجھے کون کہ تُو ٹُوٹ کے چاہے حسرتؔ کے لِیئے اِک تِرا "آداب" بہُت ہے

۱۷۔

اُلٹا ہی دُعاؤں کا اثر دیکھ لیا ہے  اب تو میرا آفات نے گھر دیکھ لیا ہے

اب چین کہاں، راحت و آرام کہاں کا جنّت میں جو ممنوعہ شجر دیکھ لیا ہے

بس حاجتِ احسان نہیں ہے کہ اب ھم نے جنگل میں، بیابان میں گھر دیکھ لیا ہے 

کیا چین ملے مجھ کو سُکوں کیوں ہو میسّر بے چین اُسے، چشم کو تر دیکھ لیا ہے

ویسے تو کوئی شخص بھی عیبوں سے نہیں پاک مُنہ بند رکھو پھر بھی اگر دیکھ لیا ہے

پھن سانپ کی مانند اُٹھایا ہے جِنہوں نے ایسوں کا تو کُچلا ہؤا سر دیکھ لیا ہے

بچّوں پہ لُٹا دی تھی پسینے کی کمائی حسرتؔ جو ملا اُن سے ثمر دیکھ لیا ہے

۱۸۔

پِھر اُس کے بعد تو تنہائِیوں کے بِیچ میں ہیں کہ غم کی ٹُوٹتی انگڑائِیوں کے بِیچ میں ہیں

غرور ایسا بھی کیا تُجھ کو شادمانی کا کِسی کی چِیخیں جو شہنائِیوں کے بِیچ میں ہیں

ہمیں تو خوف سا لاحق ھے ٹُوٹ جانے کا تعلُّقات جو گہرائِیوں کے بِیچ میں ہیں

ہمارے بیچ میں ہے مسئلہ زمینوں کا فساد انہی پہ مِرے بھائِیوں کے بِیچ میں ہیں

ہمارا درد بھی اِک، سوچنے کا زاوِیہ ایک عجِیب ناتے یہ صحرائِیوں کے بِیچ میں ہیں

کِسی کو اوجِ ثُریّا پہ لے چلے تھے مگر زمانہ دیکھ ہمیں کھائیوں کے بِیچ میں ہیں

یہ دِل کا شِیشہ تو ٹُکڑوں میں بٹ چُکا کب کا کہ سادہ دل ابھی  رعنائِیوں کے بِیچ میں ہیں

وفا ھے کیا؟ یہاں مفہُوم کِس کو سمجھائیں یہی تو دُکھ ھے کہ ہرجائِیوں کے بِیچ میں ہیں 

بجا یہ بات کہ لازِم ھے ضبط حسرتؔ جی اُداس آنکھیں یہ پُروائِیوں کے بِیچ میں ہیں ۱۹۔

ذرا سی باپ مِرا کیا زمین چھوڑ گیا کثیر بچّے ہیں ازواج تین چھوڑ گیا

مُجھے مِلے تو میں اُس نوجواں کو قتل کروں جو بد زباں کے لیئے نازنِین چھوڑ گیا

رہا جو مُفت یہ حُجرہؔ دیا سجا کے اُسے مکاں کُشادہ تھا، لیکن مکین چھوڑ گیا

پِلایا دودھ بھی اور ناز بھی اُٹھائے، مگر کمال سانپ  تھا جو آستین چھوڑ گیا

پلٹ تو جانا ھے ھم سب کو ایک دن، یارو مگر وہ شخص جو یادیں حسین چھوڑ گیا

میں اپنی تلخ مِزاجی پہ خُود ھُؤا حیراں  گیا وہ شخص تو لہجہ متین چھوڑ گیا 

ابھی کی حق نے عطا کی ھے، کل کی دیکھیں گے اب ایسی باتوں پہ کاہے یقین چھوڑ گیا؟

وہ ایک جوگی جو ناگن کی کھوج میں آیا ھؤا کچھ ایسا کہ وہ اپنی بِین چھوڑ گیا

صِلہ خلوص و عقیدت کا مانگ سکتا تھا جو ایک شخص زمیں پر جبین چھوڑ گیا

 خدا کا خوف نہیں، وائرس کا تھا خدشہ جسے بھی موقع ملا ھے وہ چِین چھوڑ گیا

کوئی مزے سے مِرا کھیل دیکھتا تھا رشیدؔ مگر جو دیکھنے والا تھا سِین، چھوڑ گیا

۲۰۔

آسمانِ وقت پر روشن ستارا آپ کا نقص مجھ کو، فائدہ سارے کا سارا آپ کا

دکھ ھؤا یہ جان کر، بیٹے الگ رہنے لگے کچھ بتاؤ، کس طرح اب ھے گزارا آپ کا؟

باندھ لو رختِ سفر پھر سے مدینہ کے لیئے کچھ نہیں اس کے سوا بس اب تو چارہ آپ کا

مالکن نے ہاتھ سے پکڑا، نکالا ڈانٹ کر شب، مِری بیٹھک پہ تھا نوکر بچارا آپ کا

مجھ سے مت پوچھو کہ میں نے کس طرح کے غم سہے کس طرح دکھ جھیل کر قرضہ اُتارا آپ کا

بھائی نے بے دخل مجھ کو کر دیا میراث سے اور یہ تک کہہ دیا، اس میں نہ پارا آپ کا۔

ناشتے پہ پھر سے بیگم سے لڑائی ھو گئی؟ مجھ پہ نکلا آج پھر غصہ وہ سارا آپ کا

ماں منع کرتی رہی مجھ کو شراکت سے مگر پڑ گیا سر پر مِرے آخر خسارا آپ کا

روز کا معمول ھے حق تلفیاں کرنا رشیدؔ کب تلک آخر رہے گا، یہ اجارا آپ کا

۲۱۔

بِک جائیں گےھم، حُسن خرِیدار اگر ھے نِمٹیں گے کوئی بر سرِ پیکار اگر ھے

کل اُس سے ہمیشہ کو تِری جان چُھٹے گی اِک رات کا مہمان ھے، بِیمار اگر ھے

بس ایک نظر دل کے صحِیفے کی طرف دیکھ پھر شوق سے کر جان تُو اِنکار اگر ھے

ھونٹوں کو بھلے جُنبش الفاظ گِراں ھو آنکھوں ھی سےکر ڈالیئے اِظہار اگر ھے

لو کل سے نئی سمت کا کرتے ھیں تعیّن اے دوست بِچھڑنے کا ھی اِصرار اگر ھے

ھم جِس کےلیئے عُمر گنوا بیٹھے ہیں یارو رکھ لے گا بھرم صاحبِ کِردار اگر ھے

اے جانِ رشِیدؔ اِس کا سبب تُم تو نہیں ہو یہ خاک نشِیں جان سے بیزار اگر ھے

حوالہ جات

سودھو

[۱]

  1. https://www.rekhta.org/poets/rashid-hasrat/all?lang=ur