عثمانی سلطاناں دی تریخ

آ ل عثمان سودھو

چنگیز خان اور اس کےخونی لشکر اپنے آبائی علاقوں یعنی صحرائے گوبی کی سرحدوں سے باہر نکلے تو ان پر ایک نئی دنیا آشکار ہوئی - چین اور منگولیا کے سب سے بڑے صحرا جس کے شمال میں کوہ التائی اور منگولیا کے لق و دق میدان مغربی جنوب میں پہاڑوں اور وادیوں کی سرزمین تبت اور مشرقی جنوب میں شمالی چین کا وسیع ترین میدانی علاقہ اور ان سب پر مشتمل ایشیا کا سب سے بڑا صحرا " صحرائے گوبی "- انسانی سروں کی فصل کاٹنے والے چنگیزی لشکر میدانی اور صحرائی علاقوں میں انسانی زندگی کے کشت و خون سے دل بھر جانے کے بعد متمدن دنیا کی تلاش میں خوارزم اور ایرانی علاقوں کی طرف بڑھے جہاں ان کا پہلا نشانہ بننے والے ترک قبائل تھے جو ترکستان ،خوارزم خراسان اور فارس کی سرزمین پر پھیلے ہوئے تھے - محنت کش ، نڈر اور جری قوم کی صورت میں ایک بہت بڑا علاقہ ان ہی کے قبائل میں تقسیم تھا - صحرائے گوبی جو کہ ہمیشہ ہی سے منگول سلطنت کا حصّہ رہا ہے - تاتاری منگولوں کے ایک قدیم قبلیے " تاتا منگو " کی نسبت سے تاتاری کہلاتے ہیں بعد میں تمام منگول جن میں چنگیز خان کا قبیلہ بھی شامل تھا تا تا ری کہلائے جانے لگے -

علاقوں کو فتح کرنے اور لوٹ مار کا جنون تاتاریوں کو ترکستان کھینچ لایا - تہذیب و تمدن سے عاری یہ تاتاری خانہ بدوش قبیلے مختلف علاقوں میں بھٹکتے رہتے تھے - ان کا مال و اثاثہ مویشی بار بردار جانور ہوتے تھے جن کو ریوڑ کی شکل میں لے کر موسم کے اعتبار سے کبھی پہاڑوں پر لے جاتے اور سخت سرد موسم میں میدا نی علاقوں میں لے آتے - ان تاتاریوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ تھا - 1219 میں یہ تاتاری ترکستان کو روندتے اور سروں کے مینار کھڑے کرتے ہوئے ایشا ئے کوچک تک آگئے - سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں جبکہ تاتاریوں نے چنگیز خان کی قیادت میں سارے ایشیا میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ جلال الدین خوارزم کے تعاقب میں یہ تاتاری منگول افغانستان کو تباہ و برباد کرتے ہوئے پشاور تک پہنچ گئے۔
جلال الدین سلطنت خوارزم کا بادشاہ تھا۔ جو تاتاریوں کے حملے کے وقت جان بچا کر سندھ کی جانب نکل گیا تھا ۔ چنگیز خان کی افواج اس کا پیچھا کرتے کرتے دریائے سندھ تک پہنچ چکی تھی - جلال الدین خوارزم شاہ کے پیچھے اس کے خون کے پیا سوں کی فوج تھی ، سامنے وسیع ترین بپھرے ہوئے دریا کا چوڑا پاٹ تھا - خوارزم شاہ نے اپنے سواروں کو حکم دیا کہ گھوڑوں کو دریا میں ڈال دو ہم دریا کا سینہ چیر کر دوسرے کنارے جا پہنچیں گے - سالار کا حکم ملتے ہی لشکر نے اپنے گھوڑوں کو دریا میں اتار دیا - پلک جھپکتے ہی سینکڑوں گھوڑے مع سواروں کے دریا میں اتر چکے تھے - پیچھے دریا پر چنگیزی فوجیں ان بہادروں کو دیکھ رہی تھیں جو اپنے سپہ سالار کے حکم پر دریا میں اتر چکے تھے - بہت دیر بعد دریا کے دوسرے کنارے پر زندہ پہنچنے والے محض سات سوار تھے جن کی قیادت جلال الدین خرزم شاہ کرر ہا تھا - چنگیزی لشکر حسرت کے ساتھ ان سواروں کو دیکھتا ہی رہ گیا اور اس کے ساتھ منگولوں کی فوج بھی واپس چلی گئی۔ ترکستان کا ایک عسکری قبیلہ جو نسلا ترک ارطغل تھا اس نے ایشیا ئے کوچک میں اپنا ٹھکانہ کیا - 
وسط ایشیا اور ایران میں ایک سنی مسلم بادشاہت تھی جو پہلے سلجوقی سلطنت کے ماتحت تھی - یہ ترک ارطغل جب ہجرت کرکے یہاں پہنچے تو دیکھا کہ دو لشکروں کے درمیان خونی معرکہ درپیش ہے - ایک لشکر تعداد میں بہت زیادہ ہے اور دوسرا بہت مختصر - اپنی فطری بہادری اور نرمم مزاجی کے سبب انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر تماشہ دیکھنے کے بجائے کم تعداد والے لشکر کی مدد کا فیصلہ کیا اور میدان جنگ میں کود پڑے - شکست کے قریب پہنچنے والے مختصر لشکر کو جب بیرونی غیبی امداد ملی تو ان کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ کا نقشہ پلٹنے لگا - اب کامیابی اس لشکر کے حصے میں آئی جو مختصر تھا - کامیاب ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ جو لشکر جیتا ہے وہ درحقیقت سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو عیسایوں سے برسر پیکار تھا - سلجوقی سلطان نے اس کی بہادری اور شجاعت کو سراہتے ہوئے حسب مرتبہ سرحدی علاقوں پر مشتمل بہت بڑی جاگیر عطا کی - 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
عثمان اول نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد بروصہ کو دارالحکومت کا درجہ دیا - یہ شمال مغربی ترکی کا شہر ہے اور اسی نامم سے صوبہ بروصہ کا اہم ترین شہر ہے - اس ابتداء کے ساتھ ہی عثمانی سلطنت نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور جغرا فیائی اعتبار سے یورپ کے سنگم پر ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھا یا- ان کی فتوحات یورپ کے اندر پھیلتی تھیں - یہاں تک کہ 1453 عیسویں میں عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطینہ پر اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا اور اسطرح حضور نبی کریم ( ص ) کی خوشخبری کو عملی جامہ پہنایا جس کے مطابق آپ نے فرمایا تھا کہ " ایک دن آئے گا جب مسلمان قسطنطینہ کو اپنے زیر نگیں کر لیں " گے - آبنائے باسفورس کے دائیں بائیں کنارے - ایشیا اور یورپ کا سنگم پر قسطنطینہ کا یہ قدیم شہر 600 B C قبل مسیح میں یونا نیوں نے آباد کیا اس کا قدیم نام BYZANTIUM رکھا - بازنطین یونانیوں کی بازنطین سلطنت کا قدیم ترین شہر جس کو مذہبی مقام بھی حاصل تھا ۔ چوتھی صدی عیسوی میں سلطنت روم دو حصوں ، مغربی اور مشرقی میں تقسیم ہوگئی۔ مشرقی حصہ اپنے دارالحکومت بازنطین کے نام پر بازنطینی سلطنت کہلایا جانے لگا ۔ ایرانیوں اور پھر سکندر اعظم کے ہا تھوں اجڑتا تاراج ہوتا یہ قدیم شہر بالآخر رومن امپائر ( سلطنت ) کا حصّہ بنا 330ء میں بازنطینی رومن شہنشاہ قسطنطین نے بازنطیم کا نام اپنے نام سے منسوب کرتے ہوئے قسطنطنیہ رکھ دیا -اور مشرقی رومن ایمپائر کا دارلحکومت قرار دے دیا - رومن شہنشاہ نے عیسائیت کو سرکاری مذھب کا درجہ دیتے ہوئے دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر زندگی تنگ کردی - اس بازنطینی سلطنت میں شام ، ایشیائے کوچک ، مصر ، تھریس اوریونان کے ممالک شامل تھے۔ پانچویں صدی عیسوی میں بلقان کے سلاؤ قبائل اور جرمنی کے ونڈال قوموں نے قسطنطنیہ پر کئی حملے کیے- ساتویں صدی میں یہ بازنطینی سلطنت زوال کا شکار ہوئی اور شمالی اطالیہ کے میدان لمبارڈی میں بسنے والوں ، ایرانیوں اور عربوں نے اس پر پے درپے حملے کیے جس کے باعث یہاں طوائف الملوکی اور انتشار کا دور دورہ رہا۔ ساتویں صدی کے اختتام پر شمالی افریقہ ، مصر، شام ، فلسطین اور قبرص وغیرہ عربوں نے فتح کرلیے اور پھر بازنطینی سلطنت حقیقت میں صرف یونانی سلطنت بن کر رہ گئی۔ آخر 1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان محمد فاتح کی افواج نے قسطنطنیہ فتح کرلیا اور آخری بازنطینی بادشاہ قسطنطین یاز دہم مارا گیا۔ فتح قسطنطنیہ سے زمانہ وسطی کا خاتمہ اور یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ فا تح قسطنطنیہ محمد ثانی محمد ثانی 1444ء سے 1446ء اور 1451ء سے 1481ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان رہے۔ محض 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت ( رومن ایمپائر )کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا۔ سلطان محمد فا تح نے بازنطینی سلطنت کا ہزار سالہ غرور خاک میں ملا یا - اسی قسطنطنیہ قلعے کی فصیل کے نیچے صحابی رسول میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہکا مقبرہ موجود ہے جس پر اب تک سبز ہلالی پرچم لہرارہا ہے - سلطان محمد فاتح نے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے فتح کرکے عثمانی سلطنت میں شامل کئے جبکہ محاصرہ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوئے۔ 1458ء میں انہوں نے موریا کا بیشتر حصہ اور ایک سال بعد سربیا فتح کرلیا۔ 1461ء میں اماسرا اور اسفندیار عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے انہوں نے یونانی سلطنت طربزون کا خاتمہ کیا اور 1462ء میں رومانیہ، یائچی اور مدیلی بھی سلطنت میں شامل کرلئے۔ سلطان محمد فاتح اپنی فتوحات کو وسعت دیتے ہوئے یورپ کے قلب تک جا پہنچے تھے - حضور نبی پاک کی پیش گوئی کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے اس قسطنطنیہ شہر کے کم و بیش 24 مرتبہ محاصرے ہوئے - پہلی مرتبہ کامیابی عیسائیوں کو ملی جب 1204 عیسویں میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے عیسائیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں اس وقت جب سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔ مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔ جبکہ دوسری مرتبہ محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو عیسائی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔ محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور ان کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے ہی حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں نے کمزور حکمت عملی کے سبب زبردست جانی نقصان اٹھا یا - جبکہ عثمانی حکمرانوں نے بھی تین مرتبہ محاصرہ کیا - جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ 1453ء میں شہر کا آخری محاصرہ سلطان محمد فاتح نے کیا جس میں مسلمانوں نے محیر العقل کارنامہ انجام دیتے ہوئے شہر کو فتح کرلیا۔ محمد فاتح کے دور میں عثمانی سلطنت کا رقبہ کافی وسیع ہوا۔اسلام اور عثمانی خلافت کے یہ عظیم قائد، سپہ سالار سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کرگئے ۔ ان کا مزار استنبول میں فاتح مسجد کے برابر میں ہے۔ آبنائے باسفورس پر قائم کیا جانے والا دوسرے پل کو انہی کے نام پر "سلطان محمد فاتح پل" کا نام دیا گیا ہے۔


فتح قسطنطنیہ (بلاد روم/ استنبول) سودھو

عثمان اول درحقیقت وہ بہت ہی اعلٰی اوصاف کے حامل تھے - وہ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ یہ عثمان اول کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل چکی تھی - عثمان اول کے بعد سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان اول کے جانشینوں نے جاری رکھا- لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور فتوحات کا سلسلہ کچھ وقت کے لئے تھم گیا -

عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا- مگر عثمانیوں نے ہمت نہیں ہاری اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی دوبارہ بحالی کا سہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر ہے جو اپنے اعلٰی اخلاق و اوصاف کے باعث ترکوں میں "محمد چلبی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔عثمانیوں سے ہٹ کر امت مسلمہ کے لئے اس سے زیادہ فخر کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ نبی پاک ( ص ) کی پیشن گوئی پوری ہو چکی تھی - سلطان محمد دوئم کی قسمت کا ستارہ عروج پر تھا - فاتح کا لقب ہمیشہ کے لئے انکے نام کے ساتھ منسوب ہونا مقدر ہوچکا تھا قسطنطنیہ پر سب سے پہلا حملہ ویسے تو قسطنطنیہ پر حملے کی منصوبہ بندی کا حکم خلیفہ حضرت عثمان ابن عفان (رضی اللہ عنہ) نے دیا تھا اور یہ تجویز حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کی تھی، مگر خلافت راشدہ کے سیاسی حالات نے کسی ایسے بڑے پیمانے پر کئے جانے والے حملے کا موقع نہ دیا۔ لیکن اب چونکہ ایک نئی خلافت قائم ہوئی تھی اور وہ اس وقت کسی بڑے مسئلےسے دوچار بھی نہ تھی- اور پھر ایسے میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بیٹے حضرت عبدالرحمان ابن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) کو (اور بعض سنی مورخوں کے مطابق اپنے بیٹے یزید بن معاویہ کو یا شاید دونوں کو) شام کے ایک بھاری فوجی دستے کا سپہ سالار مقرر کیا اور قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا۔ یہلشکر بحیرہ روم میں اپنے جہاز ڈال چکا تھا - نعرہ تکبیر بلند کرتے مجاہد سخت جاڑوں کے ایام میں یخ بستہ سمندروں کا سینہ چیرتے قسطنطنیہ کی جانب روانہ ہوئے - پہلا پڑاؤ سمیرنا میں ہوا پھر یہ لشکر کلیکیا کی جانب روانہ ہوا ۔ یہاں سے تازہ دم مزید فوجی دستے لے کر اپریل 674ء " در دانیال" پہنچے۔ بحیرہ مرمرہ کے دو اہم زاویہ نما ابھاروں کے قریب پہنچ کر اموی بیڑے رومیوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے آہستہ آہستہ یہ جنگی جہاز قسطنطنیہ کے قلعے کے "سنہرے دروازے" (گولڈن ہارن ) کے قریب آچکے تھے ۔ یہ جنگی جہاز کئی مہینوں راستے سے گزرتے بازنطینی بیڑوں اور دیگر دفاعی کشتیوں پر گولے داغتے رہے۔ قسطنطین چہارم نے حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے سے ہی جنگ کے لئے دفاعی حکمت عملی بنا لی تھی - اس نے دو اہم اقدامات کئیے - ایک یہ کہ مسلمانوں کی اس پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے پہلے سے ہی ایک لمبے محاصرے کے لیے دفاعی انتظامات کئے ، جن میں نہ صرف قلعے کی دیواروں اور برجوں کو مضبوط کرنا اور کئی ماہ کیلئے کھانے پینے کا سامان اکٹھا کرنا تھا- اس سے آگے بڑھتے ہوئے ایسے بحری بیڑے بھی خصوصی طور پر تیار کروائے جو نالی یا خم دار نلکی کے ذریعے آگ پھینکتے تھے، جسے یونانی آگ کا نام دیا گیا تھا ۔ اس کا موجد ایک عیسائی جس کا نام کالینیکوس تھا - یہ بعلبک (موجودہ لبنان) کے پناہ گزین خا ندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس کا تاریخ میں پہلی بار استعمال، اسی جنگ میں ہوا اور اموی بیڑوں کو بہت بھاری نقصان پہنچایا-

یہ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا لیکن شہر کی مظبوط فصیل صحابہ کرام اور شہر کے درمیان حائل رہی۔ چھ ماہ تک معاملات نتائج خیز نہ رہے اور سردیاں بھی قریب تھیں تو حضرت عبدالرحمان ابن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) نے وہاں سے کوچ کیا اور سائیزیکس کو اپنا سردیوں کا قیام مرکز بنایا۔دریں اثنا، عرب افواج کو موسم سرما میں بھوک کا بھی شدید مسلہ تھا۔ اور اگلے پانچ سال ہر موسم بہار میں قسطنطنیہ پر حملے کئے اور قسطنطنیہ کے محاصرے کو جاری رکھا۔ مگر قلعے کی دیواریں بہت اونچی اور مضبوط تھیں اور ہر سال بازنطینی بحری بیڑے یونانی آگ کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے جس کی وجہ سے وہ پھر بغیر حتمی نتیجے کے لوٹ جاتے۔ بالآخر 678ء میں، عربوں کو محاصرے کو ختم کرنے کے لئے مجبور کر دیا گیا اور وہ واپس چلے گئے۔ راستے میں بازنطینی رومیوں نے پھر لیکیہ میں مسلمان لشکر پر حملہ کیا اور ان کو شکست دی۔ اس طرح رومی قسطنطنیہ کو بچانے میں کامیاب رہے ناکامی کے باوجود مختلف ادوار میں کوششیں جاری رہیں۔ ( جس کی تفصیل گزشتہ قسط میں آچکی ہے ) بایزید یلدرم کے پڑ پوتے اور سلطان مراد اول 29 مئی1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہوگیا۔ فتح قسطنطنیہ (بلاد روم/ استنبول) 

29 مئی 1453ع مسلمانوں کی تاریخ کا روشن ترین دن جب یہ شہر مسلمانوں کے زیر نگین آیا - 54 روز کی مسلسل محاصرے کے بعد قلعے کی دیواریں ملیامیٹ ہوچکی تھیں - قلعے کی دبیز اور مضبوط دیواریں ان خندقوں کو دیکھ ہی نہیں پائیں جو راتوں رات قلعے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر چکی تھیں - پورے عالم اسلام میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی، عثمانیوں کے عزت و احترم میں زبردست اضافہ ہوا اور سلطان فاتح ایک بہادر اور جہاندیدہ رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ اس جوش و خروش کی بنیادی وجہ شہر سے متعلق سرکارِ دو عالم ﷺ کی متعدد احادیث اور بشارتیں تھیں- سلطان محمد فاتح اپنے باپ سلطان مراد دوئم (عثمانی) کی وفات پر 855ھ مطابق 1451ء میں تخت سلطان پر بیٹھا۔ بچپن ہی سے سلطان محمد خاں کو قسطنطنیہ فتح کرنے کی خواہش نے مضطرب رکھا - یہ صرف اسی کی خواہش نہیں تھی بلکہ اس کے اجداد میں سے ہر ایک کا خواب تھا اور سب ہی قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے آرزو مند تھے ۔ مشہور انگریز مورخ لین پول کہتا ہے کہ ’’ترکوں کے دل میں اس عظیم شہر پر قبضہ کرنے کی خواہش اس وقت سے چٹکیاں لے رہی تھی جبکہ عثمان نے خواب میں اسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے دیکھا تھا۔ " سلطان بایزیدیلدرم شہر کا محاصرہ کرچکا تھا - عثمانی سلطان نے فتح کی صورت میں جشن کا پروگرام بھی بنایا لیا تھا۔ گویا دوسرے لفظوں میں اولاد عثمان کی یہ خاندانی خواہش تھی جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اس نسل کا ہرفرمانروا پوری پوری جدوجہد کرتا تھا۔ سلطان محمد فاتح نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردیں جس میں اسے دو سال لگ گئے - آبنائے باسفورس 6 اپریل 1453ء مطابق 26 ربیع الاول 857ھ کو اس کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ تقریباً 53 دن تک جاری رہا۔ اس دوران میں مسلمانوں نے شجاعت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے- سلطان نے آبنائے باسفورس کی ایک جانب جو مشرقی علاقے میں تھا ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا - جہاں جنگی سازو سامان ذخیرہ کیا جاتا رہا - سمندر میں خلیج حائل تھی - جس میں رومیوں نے اپنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے عظیم آہنی زنجیر ڈال رکھی تھی - جس کو عام حالت میں ڈھیلا چھوڑ دیتے تاکہ جہاز بلا روک ٹوک آ جا سکیں - اور جب حملے کا خطرہ ہوتا تو بڑی بڑی چرخیوں کی مدد سے اس آہنی زنجیر کو کھینچ دیا جاتا - قلعے تک رسائی کی یہی صورت تھی کہ کسی طرح آہنی زنجیر سے بچ بچا کر بحری بیڑے کو خلیج سے بحفا ظت گزارا جائے - جو کہ تقریبا ناممکن تھا - قلعے پر بازنطینی افواج چوکنا تھیں ، آہنی زنجیر پر طاقتور فوجی تعینات تھے کہ جیسے ہی خطرہ محسوس کریں زنجیر کھینچ دیں - سلطاں محمد فا تح نے یہ حالات دیکھے تو اپنی افواج کو مزید تھکانا مناسب نہ سمجھا اور سب کو حالت امن میں آجانے کا مشورہ دیتے ہوئے خشکی پر آنے کا حکم دیا - افواج بحری بیڑوں سے نیچے آچکی تھیں - سلطاں نے عظیم کام یہ کیا کہ اپنے ساتھ جانوروں کی چربی کے دو جہاز بھی لیا تھا - جن میں صرف چربی اور شہتیر تھے - اب تاریخ کا حیرت انگیز کام ہونے جا رہا تھا - مشرقی زمین پر لکڑی کے شہتیر بچھائے گئے جن پر چربی کا لیپ ہوتا رہا - کئی دن یہ کام جاری رھا- خشکی کا حصہ پہاڑی تھا ، گھنا جنگل حائل تھا - مگر یہی سلطان کی حکمت عملی تھی کہ جنگل میں درخت کاٹ کر راستہ بناؤ اور دشمن سے پوشیدہ رہتے ہوئے جنگی جہاز خشکی پر کھینچ لو - تمام فوج کو حکم دیا کہ "بحری بیڑے خشکی پر تختوں پر کھینچو اور اسی طرح جنگل میں گھسیٹے ہوئے لے آؤ - یہ کام آج نہیں تو پھر کبھی نہیں ہوگا -" یہ کہہ کر اس نے فوج کو حکم دیا کہ بلا جھجک اور بناء کسی توقف کے حکم کی تعمیل کی جائے - سلطاں کا حکم ملتے ہی فوج نے چھ سے سات میل تک کا افقی پہاڑی علاقہ بحری بیڑوں کو گھسیٹتے گزارا اور رات کی تاریکی میں بارہ بحری بیڑے آہنی زنجیر کے دوسری جانب بآسانی پانی میں اتا ر دئے - صبح سویرے بازنطینی حیران تھے کہ یہ کیا جادو ہوگیا کہ زنجیر خاموش رہی اور دیو ہیکل بحری بیڑے ھمارے منہ کے سامنے آچکے ہیں ۔ آخر 29 مئی کی صبح تھی جب سلطان نے فوج کو شہر پر آخری حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس دن تمام لشکر نے روزہ رکھا۔ اور صبح کی نماز کے بعد فتح کیلئے دعائیں مانگی گئیں۔ صبح کی سپیدی پھیلنے سے پیشتر ہی خشکی اور سمندر دونوں طرف سے قسطنطنیہ پر آخری حملہ شروع کر دیا گیا۔ حملے سے پہلے تمام رات مسلمانوں نے (مع سلطان) تسبیح و تہلیل میں گزاری۔ ایک مورخ لکھتا ہے کہ آخری حملے کی رات پوری ترک فوج اور خود سلطان معظم رات بھر عبادت کرتے رہے۔ اس دفعہ مسلمانوں کی کوشش رائیگاں نہیں گئی اور قسطنطنیہ اسی روز فتح ہوگیا۔ سلیم اور سلیمان کے ادوار میں عثمانی بحریہ دنیا کی عظیم ترین بحری قوت بنی جس نے بحیرہ روم کے بیشتر علاقوں کو فتح کیا۔ ان فتوحات میں اہم ترین کردار عثمانی امیر البحر خیر الدین پاشا باربروسا کا رہا جس نے سلیمان کے دور میں کئی شاندار عسکری فتوحات حاصل کیں۔ جس میں اسپین کے خلافتیونس اور الجزائر کی فتوحات اور سقوط غرناطہ کے بعد وہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں کی بحفاظت عثمانی سرزمین تک منتقلی اور 1543ء میں مقدس رومی سلطنت کے خلاف نیس کی فتح قابل ذکر ہیں۔ 16 ویں صدی میں مغربی یورپی قوتوں خصوصاً پرتگیزیوں کی خلیج فارس اور بحر ہند میں بڑھتی ہوئی قوت نے عثمانی بحریہ کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ عثمانیوں کی جانب سے مشرق اور جنوب کے راستے بند کر دینے کے باعث یورپی قوتیں ایشیا کے لیے نئے راستوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ اور ہند و چین کے لیے نئے راستے دریافت کیے۔


یہ بات ہے1289 عیسویں کی جب عثمان الاول بن ارطغل بن سلمان شاہ الترکمانی بانی دولت عثمانیہ اپنے باپ ارطغل کی وفات کے فورا بعد سلطاں علا الدین سلجوقی کی جانب سے جاگیردار مقرر ہوئے تھے - جاگیردار کا مطلب تھا اس علاقے کے حکمران جس کو اپنی جاگیر کے معاملات کا مکمل اختیار حاصل ہو - جا گیر دار مقرر ہونے کے ایک سال کے اندر انہوں نے من تونیہ کے قریب قلعہ قرہ الحصار کو فتح کیا اور اپنی جاگیر میں شا مل کیا ، اس بہادری اور فتح کے صلے میں سلطان علا الدین سلجوقی نے ان کو " بک" کا لقب عطا کرتے ہوئے اپنے نام کا سکہ جاری کرنے کی اجازت دی - اس کے ساتھ ہی جمعہ کے خطبے میں ان کا نام لیا جانا شروع ہوگیا - آپ ایک طرح سے اپنی جاگیر میں غیراعلانیہ بادشاہ ہوگئے تھے مگر بادشاہ کا لقب اختیار نہیں کیا تھا - 1300 عیسویں میں تاتاریوں کی یورشیں بڑھنے لگیں اور انھوں نے ایشیا ئے کوچک پر حملے شروع کئیے - اسی دوران سلطان علا الدین کا انتقال ہوا اور ان کا بیٹا سلطان غیاث الدین سلجوقی تخت نشین ہوا - جو تاتاریوں کے حملے میں مارا گیا - جس کا بدلہ عثمان الاول نے تاتاریوں کو شکست فاش دے کر لیا - اس کے بعد بادشاہ کا لقب اختیار کرتے ہوے بورصہ شہر سے شمال مشرق تک کا علاقہ اپن سلطنت میں لے لیا اور اس سے آگے کچھ فاصلے پر نیا شہر آباد کیا جو ینی شہر کہلایا - اس شہر کے اطراف فصیل اور قلعہ تعمیر کیا -پھر یہی نیا شہر اس کا دارلسلطنت قرار پایا - سلجوقی سلطان کی اولادیں ایشیاۓ کوچک کے علاقے میں مختلف جگہوں پر اپنی اپنی حکومتیں چلا رہی تھیں - مرکزیت ختم ہوچکی تھی - عملا متعدد حکومتیں بیک وقت چل رہی تھیں ان حکومتوں میں سے کچھ رومیوں کے پاس بھی تھیں -جن پر رومی بادشاہوں کا حکم چلتا تھا -ان رومن حکومتوں کا مذھب عییسا ئیت تھا - ان رومن عیسا ئی حکومتوں نے اپنی مدد کے لئے اس وقت کی سپر قوت یعنی تاتاریوںسے مدد کی اپیل کی - مختلف قبائل میں بٹے ہوئے تاتاری قبائل ان رومن عیسا ئیوں کی مدد کے لئے مجتمع ہوئے اور ایک لشکر عظیم تیار کرلیا - ان کی کاروائیوں کا مرکز بورصہ شہر تھا -جہاں سے انھوں نے عثمان الاول کے خلاف حملے شروع کئیے - ان تاتاری افواج کو مقامی رومن امراء اور عیسائی مذہبیرومن دربار قسطنطنیہ کی مدد بھی حاصل تھی - اس عظیم تاتاری لشکر سے مقابلے کیلئے عثمان اول نے اپنے بیٹے اور خان اول کو آگے بھیجا یہ لڑائی 1315 عیسویں میں لڑی گئی - رومن ریاستوں میں بہت سے مسلمان فوجی بھی شامل تھے جنھوں نے میدان جنگ میں لڑائی کے وقت اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے خان اول کا ساتھ دیا - خونریز معرکے کے بعد دو سال بورصه شہر کا محاصرہ کئے رکھا اس طرح مسلمانوں کے لشکر نے تاتاریوں کو شکست فاش سے دوچار کیا - تاتاریوں کی طاقت کا نشہ ہرن ہوچکا تھا ، بہت سے تاتاری مارے گئے ، بہت سے جان بچا کر بھاگ نکلے - بورصہ شہر مکمل طور سے مسلمانوں کے قبضے میں تھا - عثمان اول کی فوج نے ان سے بے انتہا اچھا برتاؤ رکھا جس کے نتیجے میں بورصہ شہر کا حکم جو رومن عیسائی تھا مسلمان ہوگیا - بانی عثمانی سلطنت عثمان بن اول نے اپنی موت سے کچھ پہلےاپنے بیٹے غازی خان اول بن عثمان اول کو اپنے پاس طلب کیا غازی خان اول باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ وہی وقت تھا جب عثمان اول اپنے آخری سفر پر روانہ ہورہے تھے -عثمان اول نے غازی خان اول کو اپنا ولی عہد مقرر کیا -اور اس دنیا سے کوچ فرمایا - غازی خان اول کے ایک بڑے بھائی بھی تھے جن کی ان کی ولی عہدی پر کوئی ا عتراض نہ تھا دونوں بھایئوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے حکومتی معاملات چلائے - اس اتحاد کا فائدہ یہ ہوا کہ وسط ایشیا کی تمام ریاستوں پر ان ترک مجاہدوں کی دھاک بیٹھ گئی اور وسط ایشیا کی ریاستوں کو اطاعت پر مجبور کردیا - عثمانیوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں - رومن ایمپائر سلطنت بازنطینی قسطنطنیہ ہر جگہ ان ترک عثمانیوں سے شکست کھاتی رہی -

غازی خان اول نے 35 سال تک نہایت کامیابی کے ساتھ سلطنت چلائی اور انتقال کے بعد بورصہ شہر میں ہی مدفون ہوا - اس کے بعد1360 عیسوی میں اس کا بیٹا غازی مراد خان اول بن اور خان اول تخت نشین ہوا - یہ بھی اپنے باپ کی طرح نہایت بہادر نکلا ، اس نے سب سے پہلے انقرہ شہر کو فتح کیا اور اپنی افواج کو اورنہ شہر پر حملے کا حکم دیا - قسطنطنیہ کی رومن حکومت پہلے ہی زخم خوردہ تھی شکستوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر بازنطینی حکومت نے اورنہ شہر کا قبضہ غازی مراد خان اول کے حوالے کردیا - غازی مراد خان اول نے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اشیاۓ کوچک اور جنوبی یورپ کے بہت سے علاقے تا راج کئے بازنطینی قسطنطنیہ سلطنت سے چھڑا کر دولت عثمانی میں شامل کئے - یہاں تک کہ صرف ایک علاقہ باقی بچا تھا جو ایشیاۓ کوچک میں مسلمانوں کو دعو ت مبازرت دے رہا تھا یہ الا شہر ( فلدلفیا ) تھا - جسے مراد خان اول کے بیٹے اور جانشین بایزید خان اول نے 1391 عیسویں کو فتح کرکے اشیاۓ کوچک سے رومن ایمپائر کا نام و نشان مٹا دیا -  

غازی مراد خان اول میدان میں انتہائی بہا دری سے لڑتا اور اپنے ساتھ اپنی فوجوں کو بھی بڑھ بڑھ کر حملے کرنے ابھارتا رہتا - اس کا انتقال بھی میدان جنگ میں ہوا - 1389 عیسوی میں قوص اوہ کی جنگ میں محا ذ جنگ پر جب وہ خود ایک بلند پہاڑی سے پسپا ہوتی ہوئی دشمن کی فوج کو بھاگتا دیکھ رہا تھا ایسے میں ایک دشمن فوجی نے نہایت قریب سے زہر آلود خنجر پھینک کر غازی مراد کو گھائل کردیا - جس کی وجہہ سے چند دنوں میں آپ کا انتقال ہوگیا - غازی مراد اول نے بیس سال حکمرانی کی اور 65 سال کی عمر پائی - سلطاں غازی بایزید خان اول ( بایزید یلدرم ) غازی مراد خان اول کی وفات کے بعد غازی بایزید خان اول تخت نشین ہوا - اس نے ایک حکمت عملی کے تحت سردیائی ریاست کو داخلی آزادی اور جزوی خودمختاری دیتے ہوئے ریاست پر جزیہ مقرر کیا اور وہاں کے سا بق بادشاہ سردیا اسٹیفن کو دوبارہ حکمران مقرر کیا- مگر اس کے بدلے اس کی بہن الویرا کو اپنے نکاح میں لیکر اپنے حرم میں داخل کیا - حکمت یہ تھی کہ اسطرح بایزید یورپ کی ریشہ دوانی سے محفوظ رہے گا - جس کے بعد بایزید نے ایشیا کی جانب توجہ دی اور 1391 میں الا شہر کو فتہ کرکے رومن سلطنت کی آخری نشانی بھی چھین لی - بایزید کے نام کے ساتھ یلدرم کا لاحقہ بھی حیران کن ہے - ترکی زبان میں یلدرم کا مطلب بجلی ہے ، بایزید کی شان یہ تھی کہ وہ نہایت پھرتی اور تیزی کے ساتھ دشمن پر حملہ اور ہوتا کہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا - یہی وجہ تھی کہ اس کا نام بایزید یلدرم پڑ گیا - اور بایزید اپنے اصل نام کی بجائے یلدرم کے نام سے زیادہ مشھور ہوا - اس کے بعد بایزید نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور اس کا محاصرہ کرلیا - قریب تھا کہ قسطنطنیہ فتح ہوجاتا ، مگر تیمور لنگ نے اسی اثنا میں ایشیائے کوچک پر حملہ کرکے ترکوں کے لئے نیا محاذ کھول دیا -تیمورکا تعلق بھی ترک قبیلے برلاس سے تھا جس کا چنگیز خان کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔ تیمور سمرقند کا رہنے والا تھا - اپنے وقت کا عظیم جرنیل تھا -تیمور نے اپنی زندگی میں 42 ملک فتح کئے ۔ تیمور کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کام لے سکتا تھا۔ وہ ایک ہاتھ میںتلوار اُٹھاتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑا۔ تیمور لنگ کے اس بے وقت حملے نے قسطنطنیہ کی فتح کو کچھ عرصے کے لئے مؤخر کردیا - کہ قسمت میں یہی لکھا تھا - تیمور لنگ کی فوج نے شہر سیواس پر حملہ کرنے کے بعد نہ صرف بایزید کے بیٹے ارطغل کو گرفتا ر کیا بلکہ قتل کروادیا - اس کے بعد اپنی فوج کو آگے بڑھاتا ہوا انقرہ کے نزدیک پہنچ گیا - اس مقام پر اس کا مقابلہ بایزید یلدرم سے ہوا - بیٹے کے قتل کا غم اور انتقام کی آگ نے یلدرم کو آتش فشاں میں تبدیل کردیا تھا - دنیا کے دو خطرناک جرنیل ایک دوسرے کے مقابل تھے - ایک وہ تھا جس نے ایشیا کوچک میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کا عزم کیا ہوا تھا ، دوسرا وہ جو بچپن سے ہی قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی خواہش لئے ہوئے تھا - دونوں کے مابین خوفناک جنگ شروع ہوگئی ، بایزید نے شجاعت کے جوہر دکھائے کہ دنیا حیران ہے - شومئی قسمتکہ عین وقت لڑائی آئدین صرو خان اور کریمان کے بہت سے عیسائی سپاہی بایزید کی فوج سے نکل کر تیمور کی فوج سے جاملے اور جنگ کا پانسہ پلٹنے لگا - بایزید پر تیمور کے سپاہیوں نے رسیوں کا جال پھینکا جس میں وہ الجھ کر رہ گیا اور گرفتار ہوا - اس کا بیٹا موسی خان بھی تیموری فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا - اس شکست کے بعد بایزید اور اس کا بیٹا موسی دونوں تیمور لنگ کی قید میں تھے - یورپی مؤرخین نے اس پر بےانتہا افسانے تراشے کہ تیمور لنگ بایزید یلدرم کو اہنی پنجرے میں قید رکھتا تھا اور اپنے ساتھ ہے جگہ لئے لئے گھومتا تھا وغیرہ وغیرہ - یہاں اس غلط فہمی کی دور ہوجانا چاہیے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ کبھی پیش ہی نہیں آیا کہ تیمور ان قیدی باپ بیٹے کو آہنی پنجرے میں قید کرکےگھماتا پھراتا نظر آیا ہو -ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ ان قیدیوں کو تخت رواں یعنی پانی کی کشتی پر قید کرکےفوجی نگرانی میں سفر کیا گیا تھا - جس کو اہنی پنجرے کا نام دیدیا گیا - بایزید کا انتقال قید کے دوران ہوا ، اس وقت بایزید کی عمر 44 سال تھی - بایزید کی وصیت کے مطابق تیمور لنگ نے اس کی میت کو عزت و احترام کے ساتھ بور صہ شہر منتقل کروایا اور تدفین عمل میں لائی گئی - بایزید کا مقبرہ سلطان مراد کی قبر کے قریب ہے - بایزید یلدرم کی وفات کے بعد سلطنت عثمانیہ میں طوائف الملوکی پھیل چکی تھی جس کا تیمور لنگ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہت سے شہزادوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا حکمران بنا دیا -


ینگ چری فوج اور گیلی پولی کی فتح سودھو

 ایشیا ئے کو چک ایک ایسا میدان جنگ تھا جہاں مسلمان ہی مسلمان کے خلاف برسر پیکاررہے -ان مسلمانوں میں منگول ، چنگیزی، مغل اور ترکمان سب شامل تھے - ماضی میں بھی یہاں مسلمانوں بڑی تعداد ہمیشہ سے ہی آباد رہی ہے - ان خاندانوں میں ترک قبا ئل کو اکثر یت حاصل تھی - جس کی ایک اہم وجہ عباسی خلیفہ مستعصم با للہ کا وہ فیصلہ بھی تھا جس کے مطابق خلیفہ نے ترک قبائل کو ایشیائے کوچک میں آباد ہونے کی با قاعدہ اجازت دی تھی - خلیفہ مستعصم با للہ اول دن سے ہی ترکوں کی جنگی صلا حیتوں کا معترف تھا -اس آباد کاری سے خلیفہ کو ایک طرف ترکمانی قبیلوں کی طرف سے حملے اور یورش کا خطرہ ٹل رہا تھا تو دوسری جانب ترکوں کی صورت میں ایک اچھی فوج بھی مل رہی تھی جو جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ میدان جنگ میں بہترین حکمت اور منظم انداز میں لڑنے کے حامل تھے - جبکہ ترک قبا ئل آئے دن کی چنگیزی اور مغل یلغاروں اور یورشوں سے پہلے ہی پریشان تھے - وہ اپنے پرانے علاقوں کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے - نسبتا مضبوط اور مسلمان سلطنت سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی تھی اور پھر جہاں ترک قوم پہلے سے آباد بھی تھی - ایسے حالات میں ایران ، خراسان اور عراق ترک خاندانوں نے بھی ہجرت کرکے ایشیائے کوچک کو اپنا مستقر بنا لیا - ایشیا ئے کوچک کا مشرقی علاقہ مسلمان اکثریت کا علاقہ تھا جن میں ترک قبا ئل اکثریت میں تھے - جبکہ شمالی اور مغربی حصوں پر عیسائیوں کو عددی برتری حاصل تھی - عیسائیوں کی جاگیرداریاں اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں - سلطان مراد خان اول سے پہلے جب غازی ارخا ن کی حکومت تھی اس وقت فتوحات کا سلسلہ یک دم تیز ہوگیا تھا - سلطان ارخان کے تخت نشین ہوتے ہی ایک سال کے اندر اندر ایشیا ئے کوچک مکمل طور پر عثمانی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا - ایشیا ئے کوچک کے شمالی اور مغربی حصے سلطنت میں شامل کرلئے گئے تھے اور عیسائی جاگیردار اور سرداروں میں سے بیشتر گرفتار تھے یا مارے جا چکے تھے - عیسائی رعایا نے خراج دے کر وہاں رہنا منظور کرلیا تھا - سلطان ارخان کا بھائی علا الدین جو بطور وزیر اعظم سلطنت کے انتظامی امور دیکھ رہا تھا - اس کی زیرک نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اگر ان عیسائی ذمیوں کے لئے مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی تو یہ جنگجو کسی بھی وقت سلطنت کے لئے فتنے اور فساد کا موجب ہو سکتے ہیں - چناچہ علا الدین نے سلطان ارخان کو تجویز پیش کی کہ مناسب ہوگا کہ ان عیسائی خاندانوں کے کمسن بچوں کو ابھی سے اپنی تربیت میں لے لیا جائے اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے ان کو اپنے قریب کیا جائے - سلطان ارخان نے اس تجویز کو پسند کیا اور ان بچوں کو ان کے خاندانوں سے اجازت لے کر شاہی مدارس میں داخل کیا - جہاں ان کو معقول وظیفہ بھی ملتا جو ان کے خاندان کی ایک طرح سے مدد بھی تھی - یہ بچے پہلے مسلمان ہوتے جہاں ان کو اسلامی تعلیم اور قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عسکری تربیت بھی دی جاتی -
سلطان ارخان خود ان کی تربیت کا ذمہ دار تھا - کئی ہزار عیسائی بچے اس کی تربیت میں تھے - یہ نو عمر بچے چند سالوں کی تربیت کے بعد بعد شاہی فوج کا حصہ بنے - اور سلطان کے محافظ کے طور پر فوج میں شامل کئے گئے - یہ فوج" ینگ چر ی " کہلائی - اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطان کے حسن و سلوک سے متاثر ہوکر بے شمار عیسائی خاندان اسلام کے قریب آئے اور جوق در جوق مسلمان ہونے لگے - آج کی عیسائی دنیا اس اقدام کو اور ینگ چری فوج کو ایک ظالمانہ اقدام ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے - جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے - ینگ چر ی فوج جس شان و شوکت کے ساتھ رہتی اور سلطان کی منظور نظر تھی ، اس کو دیکھ کر عیسائی خاندان از خود یہ تمنا کرنے لگے تھے کہ ان کی اولاد بھی سلطان کی تربیت میں آجائے - کیونکہ سلطان کی تربیت میں آجانے کے بعد ان کے بچے ہر قسم کے آزار سے محفوظ ہوجاتے - ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا - عالم یہ ہوتا کہ سالانہ بھرتی کے مواقعوں پر ہزاروں عیسائی بچے تعداد پوری ہونے پر واپس بھیج دیئے جاتے - ینگ چری فوج اس زمانے کی جدید ترین فوج تھی - جو اس وقت کے ا عتبار سے جدید اسلحہ سے لیس تھی - وزیر اعظم علا الدین نے انتظامی معاملات میں بھی خوب اصلاحات متعارف کروائیں - اس نے ان قزاق اور جنگجو قبیلوں کے نوجوانوں کو بھی سلطنت میں اہم کاموں پر لگا دیا جن کو قزاقی اور لوٹ مار کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا تھا - علا الدین نے ان جوانوں کو مجتمع کرکے ان کے لئے ایک نظام تشکیل دیا کہ ان پر مشتمل پلٹنیں بنا ڈالیں - کہ جب بھی عثمانی سلطنت پر بیرونی حملہ آور حملہ کریں یہ پلٹنین اپنی فوج کی مدد کریں گی - اور مزید یہ کہ یہ پلاٹون اور دستے دشمن کے سرحدی علاقوں میں اندر تک گھس کر لوٹ مار اور افرا تفری کا سامان پیدا کریں گی - ماہانہ بنیاد پر ان کا وظیفہ قائم تھا اور اگر ان کی جانب سے کوئی شکایت آتی تو سخت ترین سزا دی جاتی - ارخان کے بھائی وزیر اعظم علا الدین کی شاندار حکمت عملی کے سبب ممکن ہوا کہ سلطان ارخان نے اپنی تمام توجہ نہایت یکسوئی کے ساتھ عیسائی علاقوں میں فتوحات پر مرکوز رکھیں اور داخلی اور اندرونی محاذ علا الدین نے سنبھالا ہوا تھا - 1344 عیسوی میں ایشیائے کوچک کو فتح کے بعد قیصر قسطنطنیہ کنٹا کو زس نے سلطان ارخان کو ایشیا ئے کوچک کا سلطان اعظم تسلیم کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائی - (یہ وہی قیصر تھا جس نے اپنے سے پہلے قیصر جان پلا لوگس کو اندرونی ساز باز کرکے اقتدار سے محروم کردیا تھا -اس نے کم و بیش پچاس سال قسطنطنیہ پر قیصری کی - اس کی وفات کے بعد بھی دو اور حکمران قیصر قسطنطنیہ بنے مگر 1453 عیسوی میں بازنطینی عیسا ئی سلطنت کا سورج سلطان محمد فا تح کے ہاتھوں غروب ہوا - جس کی کچھ تفصیل پچھلے ابواب میں آچکی ہے ) قیصر قسطنطنیہ کنٹا کو زس نے مزید یہ کیا کہ ترکوں کی دل جوئی کی خا طر سلطان کو اپنی حسین و جمیل جوان بیٹی تھیو ڈورا کی شادی کا پیغام بھیج دیا - قیصر کنٹا کو زس کے ذہن میں ہوگا کہ اسطرح یورپ کے بقیہ عیسائی علاقے سلطان کی فتوحات سے محفوظ ہو سکتے ہیں - سلطان بھی قیصر کنٹا کو زس کی اس خواہش سے بے خبر نہیں تھا پھر بھی اس نے مفتوح قیصر کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دھوم دھا م کے ساتھ خود قسطنطنیہ گیا اور تھیو ڈورا کو اپنے نکاح میں لیا اور حرم شاہی کا حصہ بنایا - اس نکاح کے بعد قیصر کنٹا کو زس کو اطمینان تھا کہ اب سلطان اور ترک ہمارے بچے کچے علاقوں پر حملہ نہیں کریں گے ، مگر سات آٹھ سالوں میں قدرت نے عجب صورتحال سے مسلمانوں کی غیبی نصرت کے اسباب فراہم کردئیے - حالات کچھ یوں بنے کہ ایک طرف عثمانی بحری قوت اپنی استعداد میں اضافہ کرتی جارہی تھی - اس کے مقابلے پر جینوا اور وینس کی بحری طاقتیں اپنے وقت کی بہت عظیم قوت کے طور پر تسلیم کی جاتی تھیں - ان دونوں طاقتوں نے مل کر بحیرۂ روم پر اپنا تسلط برقرار رکھا ہوا تھا - جینوا جغرافیائی ا عتبار سے قسطنطنیہ کے مقبوضہ علاقوں سے متصل تھا ، جس وجہ سے قیصر کو جینوا سے پریشانی تھی - اور وہ وینس والوں سےزیادہ مطمئن تھا - ایسے میں بحیرہ روم کی راہداری کے مسئلے پر جینوا اور وینس کے درمیان لڑائی چھڑ گئی - قیصر وینس والوں کی کامیابی کا متمنی تھا - سلطان ارخان اس مخاصمت کو دیکھ رہا تھا - اس نے اپنی ہمدردی جینوا والوں کے پلڑے میں ڈال دی - نتیجہ یہ نکلا کہ جینوا بھی سلطان کے قریب آگیا - یہی وہ موقعہ تھا جب آبنائے باسفورس میں ان دو قوتوں کے مابین جنگ چھڑ گئی - جس جگہ جنگ کا محاذ گرم تھا اس کے سا حلی علاقوں پر سلطان کا بیٹا سلمان خان بطور عامل و گورنر تعینات تھا - سلمان خان نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک جنگی کشتی میں چالیس سپاہیوں کو ساتھ لیکر درہ دانیال عبور کرکے سپاہیوں کو پار اتار دیا -اور ایک اہم جنگی قلعے کو جو وینس والوں کے لئے بہت اہم تھا فتح کر لیا - قلعے کے فتح ہونے کی خبر سن کر ہزاروں ترک سپاہی اپنے شہزادے سلمان کی مدد کے لئے درہ دانیال کے پار یورپی ساحل پر لنگر انداز ہوگئے - یہ حالات قیصر کے لئے سخت تکلیف دہ تھے - ابھی سلطان ارخان شاہی پیغام رساں کو ہدایات لکھوا رہا تھا کہ" سلمان تم ان سے رقم لیکر قلعہ ان کے حوالے کردو " ، مگر اسی اثناء میں ساحلی شہر گیلی پولی جہاں یہ قلعہ تھا سخت ترین زلزلہ آیا - مقامی لوگ اس زلزلے سے سخت پریشا ن ہوئے اور شہزادے سلمان کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نمائندہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے - قلعے کی مضبوط فصیل زلزلے کی شدت سے پلک چھپکتے زمین پر آ گری - اور یہ شہر والوں کے لئے نہایت برا شگون تھا - شہزادہ سلمان اور اس کے سپاہیوں نے از سر نو قلعے کی فصیلوں کو تعمیر کیا اور اس کی مرمت کروائی اس کے بعد مزید ترک افواج بلا کر مستقل چوکی کی شکل دے دی - گیلی پولی پر یہ قبضہ کلیتا تائید ایزدی ثابت ہوا - اور گیلی پولی کی فتح سے وینس والوں کی یلغار کا اندیشہ بھی جاتا رہا - جوانی میں ہی سلمان کا انتقال اس طرح ہوا کہ ایک دن سلمان گھوڑے پر سوار شکار کی نیت سے نکلا ، اور گھوڑے کی پشت سے گر کر شدید زخمی ہوگیا - چند دن بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگیا - سلطان ارخان نے اس کی لاش بروصہ منگوانے کے بجائے درہ دانیال کے قلعے کی دیوار کے ساتھ ہی دفن کروائی تاکہ یورپ والوں کے ذہن ھمیشہ یہ بات تازہ رہے کہ یہ مسلمان ترکوں کا فتح کیا ہوا علاقہ ہے - سلمان خان کی وفات کے بعد چھوٹا بیٹا مراد خان اول ولی عہد بنا - سلطان ارخان کی وفات کے بعد جسیے ہی مراد خان تخت نشین ہوا اس وقت قرمان میں سلجوقی شہزادوں نے بغاوت کرڈالی - مراد خان نے اپنی توجہ ان بغاوتوں کو فرو کرنے میں صرف کیں - اور زیادہ تر وقت ایشا ئے کوچک کے مشرقی علاقوں میں گزارا - مگر اس کے ذہن سے یورپ کو زیر نگین کرنے کا خیال کبھی بھی محو نہیں ہوا - نتیجہ یہ نکلا کا اندرونی سلجوقی بغاوتوں کو فرو کرنے کے بعد اس نے اپنی افواج کو یورپ کے ساحلوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور آنا فانا یہ ترک فوجیں یورپ کے ساحلوں پر لنگر انداز ہونا شروع ہوئیں - سب سے پہلے ایڈ رنویا پل ( اورنا ) فتح ہوا - یہ سلطنت کا دارلخلافہ قرار پایا - ایڈ رنویا پر قبضہ ہونے کی دیر تھی کہ یورپ میں ھلچل مچ گئی - با گیریا ( موجودہ بلغاریہ ) اور سردیا ( سربیا ) والوں کو اپنی سلطنتوں کی سلامتی فکر لاحق ہوگئی -


عظیم مذہبی جنگ سودھو

سلطان مراد خان ثانی کے تخت نشین ہونے کی دیر تھی کہ یورپ کی عیسائی ریاستوں میں بے چینی جو بہت پہلے سے پھیلی ہوئی تھی اپنی انتہاؤں کو پہنچنے لگی - قسطنطنیہ کے عیسائی فرمانروا نے سلطان محمد خان کے انتقال اور مراد خان کے تخت نشین ہونے کی خبر سنتے ہی سازشوں کا جال اور مکاری کا تانا بانا بننا شروع کردیا - قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ نے اپنی قید میں موجود ایک مسلمان قیدی کو عقوبت خانے سے طلب کروا کر اس سے سادے کاغذ پر اقرار نامہ لکھوایا کہ اگر ہم تم کو سلطنت عثمانیہ کا بادشاہ بنا دیں تو تم ہمارے مقبوضہ علاقے اور جنگی اہمیت کے حامل قلعے ہمارے حوالے کردو گے - اس اقرار نامے کے لکھوانے کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ اس مسلمان قیدی جس کا نام مصطفیٰ تھا یورپ کے ساحلی علاقوں میں جو سلطنت عثمانی میں شامل تھے اتار دیا گیا - تاکہ یہ سلطنت عثما نیه پر قبضہ کرسکے - اس مصطفی نامی قیدی کو سلطاں کا بھائی اور بایزید یلدرم کا بیٹا ظاہر کیا گیا تھا - اگرچے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی تاہم پھر بھی ساحلی علاقوں کے بہت سے مسلمان سپاہی مصطفی نامی سپہ سالار کو بایزید کا بیٹا سمجھ کر اس کے ساتھ آملے - اس طرح باغی فوج کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوگیا - اس فوج نے ساحلی پٹی سے متصل بہت سے علاقے فتح کرنے شروع کردئیے - سلطان مراد خان کو اس شورش کو فرو کرنے کے لئے مرکز سے فوج روانہ کرنی پڑی - مگر معاملہ یہ ہوا کہ ترک فوج کے بہت سے سپاہی باغی فوج میں شامل ہوگئے اور جو باقی بچے وہ جان بچا کر بھاگ نکلے - مراد خان اس موقع پر حقیقی معنوں میں پریشان ہوا - ایک طرف مصطفیٰ کی فوج تھی جو اپنے آپ کو بایزید یلدرم کے بیٹے ( نام نہاد ) کو تخت پر بٹھانا چاہتی تھی دوسری جانب عثمانی سلطنت کے حقیقی بادشاہ سلطان مراد کی عزت کا سوال تھا - سلطان مراد نے اپنے سپہ سالار بایزید پاشا کی معیت میں دوبارہ ایک لشکر روانہ کیا - سخت ترین معرکے میں سپہ سالار بایزید پاشا مصطفی کی فوج کے ہاتھوں مارا گیا اورسلطان کی فوج کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی - اس کامیابی پر مصطفی نے مناسب سمجھا کہ پہلے ایشیا ئے کوچک کے علاقے فتح کئیے جائیں پھر بعد میں یورپ کے عثمانی علاقوں کو بھی عیسائی حکمرانوں کی مدد سے فتح کر لیں گے اور اس طرح سلطان مراد کی سلطنت پر قبضہ آسان ہوجائے گا - حالات سلطان مراد خان کے خلاف ہوتے جا رہے تھے - سلطان کا مرکز میں بیٹھے رہنا اس کی کمزوری کو ظاہر کر رہا تھا - لہٰذا سلطان مراد خان نے اپنی افواج کو ازسر نو منظم کیا اور خود اس فتنے کی سرکوبی کیلئے روانہ ہوا - یہ نہایت پرفتن دور تھا - سلطان کی افوا ج دیوانہ وار ایشیا ئے کوچک کی جانب بڑھتی جاتی تھیں اور راستے میں جہاں جہاں بغاوت کے آثار دکھائی دیتے ان کو فرو کرتے بالآخر ایشائے کوچک پہنچ گئے - جہاں ان کا مقابلہ جعلی فرزند بایزید یلدرم مصطفی یلدرم سے ہوا - ایک نہایت خونریز جنگ کے بعد سلطان مراد خان کو فتح نصیب ہوئی - سلطان کے میدان میں آتے ہی مسلمان سپاہی جو مصطفی کے ساتھ مل گئے تھے جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ نقلی شہزادہ ہے، واپس سلطان کی فوج سے آملے - مصطفی اپنا بھانڈا پھوٹنے کے بعد بچی کچی سپاہ کے ساتھ گیلی پولی کی طرف بھا گا مگر سلطان نے اس کا پیچھا کیا اور گلیی پولی سے بھی بھاگنے پر مجبور کیا جہاں سے وہ ایڈرینا نو پل کی جانب نکلا مگر مراد خان سائے کی طرح پیچھے لگا ہوا تھا - بالآخر اس کو ایڈرینا نو پل کی ایک خفیہ پناہ گاہ سے برآمد کرلیا گیا اور شہر کے مرکزی چوک پر عبرت عامہ کے لئے پھانسی پر لٹکادیا گیا - سلطان مراد خان نے حکمت کا ثبوت دیتے ہوئے جینوا کی ریاست کے ساتھ معاہدہ امن کیا اس لئے کہ جینوا والے قسطنطین کے بادشاہ کے خلاف تھے - اس معا ئدہ امن کی وجہ سے سلطان کو یورپ کے ایک حصے سے کوئی خطرہ نہ رہا - مگر اس نے ایک بڑ ی فوج قسطنطین کے بادشاہ کو سبق سکھانے کے لئے تیار کی - جیسے ہی اس لشکر کشی کی خبر قسطنطین کے عیسائی بادشاہ کو ملی اس نے چاپلوسی اور مکاری کا حربہ استمعال کرتے ہوئے اپنا ایک اعلی سطحی وفد سلطان کی خدمت میں بھیجا جو اپنے ساتھ بیشمار قیمتی تحائف بھی لیا تھا - مگر سلطان نے اس وفد کو الٹے قدموں سلطنت سے واپس نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ " آج تم لوگوں کی جان اس لئے بخش رہا ہوں کہ تم سرکاری مہمان کے طور پر آئے ہو ، اپنے بادشا ہ کو کہنا کہ سلطان مراد تمھارے احسان چکانے بنفس نفیس جلد حاضر ہوگا " سلطان کی جانب سے یہ پیغام کھلم کھلا اعلان جنگ تھا - جس کو سن کر قسطنطین کے بادشاہ کا رنگ فق ہوگیا - سلطان مراد خان بیس ہزار سپاہیوں کے لشکر کے ساتھ اگلے ماہ ہی آبنا ئے قسطنطین پر موجود تھا - پہلے سے تیار شدہ لکڑی کے تختوں کی مدد سے آبنائے قسطنطین کوپاٹا گیا اور سپاہ کو دوسری جانب اترنے کا حکم مل گیا- اس محاصرے میں منجنیق دمدمے اور ایسے گھومنے والے برج یعنی اونچے مینار تیار کروائے گئے تھے کہ جو اس سے پہلے اتنی تعداد میں کبھی نہیں آئے تھے - محاصرہ شروع ہوچکا تھا - جیسے جیسے محاصرہ طول پکڑ رہا تھا فتح کی امید قریب آتی جارہی تھی - سرنگوں کی مدد سے جگہ جگہ فصیل میں راستے نکالے جا چکے تھے اب فتح دنوں کی نہیں محض چند گھنٹوں کی مسافت پر تھی کہ اچانک سلطان کو اپنے دادا بایزید یلدرم کی طرح محاصرہ اٹھانے کا تلخ ترین فیصلہ کرنا پڑا - سازشوں کے تانے بانوں سے تیار شدہ ایک کردار مصطفی تو ایڈرینا نو پل کے چوراہے پر پھانسی جھول چکا تھا ، مگر عیسائی بادشاہ نے دوسرا مصطفی میدان میں اتار دیا - یہ مصطفی پہلے والے کی طرح کوئی فرضی کردار نہیں تھا بلکہ سلطان مراد کا اپنا چھوٹا بھائی مصطفیٰ خان تھا جو عمر میں سلطان مراد سے تین سال چھوٹا تھا - اس کو سلطان مراد خان نے تخت نشین ہونے کے بعد ایشیاۓ کوچک میں بطور عامل اور سپہ سالار مقرر کیا تھا - قسطنطین کے عیسائی بادشاہ نے اس مرتبہ سلطان مراد کے خونی بھائی کو اپنے مکروہ جال میں پھانس کر سلطان مراد کے خلاف بغاوت پر اکسایا - مصطفیٰ خان بادشاہت کے لالچ میں سلجوقی سرداروں کی مدد سے سلطان کے خلاف کھل کر میدان میں آگیا - کوچک کے وہ علاقے جو سلجوقیوں کی جاگیر میں تھے ان پر قبضہ کیا اور بہت سے فوج لیکر بروصہ کا محاصرہ کرلیا - عین اس وقت جب قسطنطینیہ فتح کے نزدیک تھا ، سلطان کو یہ منحوس خبر ملی کہ چھوٹا بھائی مقابلے پر اتر آیا ہے - کوچک کا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا ہے اوربروصہ بھی ہاتھ سے جانے کو ہے - اس خبر کو سنتے ہی سلطان مراد نے محاصرہ اٹھا کر چھوٹے بھائی مصطفی خان کی مزاج پرسی کا ارادہ کیا اور دن رات کی پرواہ کے بناء ایشیا ئے کوچک پہنچ کر ہی دم لیا - چھوٹے بھائی مصطفیٰ خان کی مزاج پرسی کے بعد قتل کروا دیا ، باغی افواج کی لاشوں کو میں واسطے عبرت کے تین دن تک بے گور و کفن پڑا رہنے دیا اور جو گرفتار ہوئے وہ موت کی تمنا کرتے کرتے مر گئے - سلطان مراد خان نے اس سازش کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد ایشیا ئے کوچک میں داخلی اور انتظامی معاملات کو بذات خود اپنی نگرانی میں لیا اور عمال و منتظمین کا ایک مضبوط نظام تشکیل دیا - اس دوران سلطان نے کسی عیسائی سلطنت سے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اپنی سلطنت کے داخلی امور پر توجہ مرکوز رکھی مگر عزت اور امن زیادہ دیر تک عیسائی ریاستوں کو راس نہ آیا اورسب سے پہلے سروبیا کے نئے بادشاہ جارج برنیک وچ ( جو اسٹیفن کے مرنے کے بعد تخت نشین ہوا تھا ) نے معاہدہ امن میں نقائص نکالنے شروع کئے - ہنگری والے بھی پچھلی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینے کے لئے کسی مشترکہ کوشش کے انتظار میں تھے - سلطان نے وینس اور جزیرے زانٹی اور یونان کے علاقے سلونیکا سے عیسائی حکومتوں کا بوریا بستر گول کردیا تھا - وینس ہاتھ سے نکلا تو قسطنطنیہ کے بادشاہ کو بہت دکھ ہوا اس لئے کہ وینس والوں کی ہمدردی قسطنطنیہ کے بادشاہ کے ساتھ تھی - سربیا اور رومانیہ کے عیسائی جب سلطان کے خلاف نکلے تو سلطان نے ان کو شکست اور ستر ہزار سے زیادہ عیسائی فوجی قید کرلئے -- اب علاقوں میں سلطان کی دھاگ بیٹھ چکی تھی - ہنگری میں جان ہنی ڈیزیا جان سپہ سالار بنا تو اس نے سب سے پہلے ترکوں سے بدلہ لینے کا خیال ظاہر کیا اور ٹرانسلوونیا سے ترکوں کو نکال با ھر کیا- ترک افواج کے مقابلے کے لئے یورپ میں مذہبی حوالے سے ایسی فضا بنائی گئی کہ ترکوں سے جنگ اور ان کا خاتمہ کلیسا کے لئے ایک مقدس فریضہ ہے - قسطنطنیہ کا بادشاہ ہمیشہ کی طرح پیش پیش تھا اس نے پاپائے اعظم سے فتوی حاصل کیا کہ " ان حالات میں مسلمانوں نے کئے گئے معائدے کی پاسداری ضروری نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کے خلاف لڑنا واجب ہے " ایک بڑی عظیم جنگ کی تیاری شروع ہو گئی - اس لڑائی میں پاپائے اعظم نے اپنے مذہبی نائب کارڈذل سزارینی کو جنگ میں جانے کا حکم دیا - کارڈذل سزارینی کی قیادت او مذہبی دعاؤ ں کے ساتھ لشکر کی تیاری اور مذہبی رسومات کا آغاز ہوا - آسٹریا ، ہنگری بوسنیا ، البانیا،سرویا ،ولشیا ، پولینڈ ، جرمنی ، اٹلی ، فرانس کی افواج مشترکہ طور پر جان ہنی ڈیزیا کے پرچم تلے جمع ہوگئیں - عثمانی فوج کا ان سے آمنا سامنا ہوا ، ترکوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور ترک عامل جرنیل مزید بیگ اپنے بیٹے کے ساتھ جنگ میں مارا گیا -تیس ہزار سے زیادہ ترک فوجی اس معرکے میں کام آئے - ہنگری میں جشن منایا گیا - ان ترک قیدیوں کو شاہی ضیافتوں میں جیل سے نکال کر شریک کروایا جاتا اور تقریب کا اختتام اس طرح ہوتا کہ شاہی مہمان بھری محفل میں ان کا سر قلم کرتے اور پھر جام صحت لنڈھاتے - جب سلطان کو اس عبرت ناک شکست کا احوال معلوم ہوا تو سلطان نے ہنگری والوں سے بدلہ لینے کے لئے تدابیر سوچنے لگا - اسی جنگ میں سلطان کا بہنوئی محمد چلپی بھی گرفتار ہوگیا تھا اور ہنگری و ا لوں کی قید میں تھا ، سلطان کی بہن کا اصرار تھا کہ اس کے شوہر کو کسی بھی قیمت پر رہا کروایا جائے - چناچہ سلطان نے ہنگری والوں سے جنگ بندی کا ایک معا یدہ کیا جس کی رو سے سرویا کی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک خطیر رقم دے کر محمد چلپی کو آزاد کروایا گیا - اور دس سا لوں کے لئے جنگ بندی کے دستخط ہوئے - اسی ھزار کا ایک عظیم لشکر تیار کرنے کا فرمان جاری کیا - یہ بات 847 ھجری کی ہے - اس لشکر کی قیادت اپنے سپہ سالار کو سونپی - ان ہی دنوں سلطان مراد کے بڑے بیٹے علا الدین کا انتقال ہوگیا یہ حالا ت ایسے تھے کہ سلطان نے با دل نخواستہ امور سلطنت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا - اور اپنے چھوٹے بیٹے محمد خان کو تخت پر بٹھا نے کا فرمان جاری کیا- نو عمر محمد خان کی تخت نشینی کا ا علان کا سنتے ہی قسطنطنیہ کے بادشاہ کو احساس ہوا کہ اب سلطنت عثمانی زوال کا شکار ہے - اس پر اسی وقت کاری وار کرنا چاہیے - چناچہ جس صلح نامے کو لکھے تیس دن بھی نہیں گزرے تھے اس کی خلاف ورزی پر مذہبی فتوی حاصل کیا گیا - اور اس صلح نام کے ٹھیک پچاسویں دن عظیم مذہبی جنگ کا آغاز کردیا گیا - (جاری ہے )

مسلمانوں کی عظیم فتح سودھو

ہنگری کا سپہ سالار جان ہنی ڈیزیا تمام حالات پر نظر رکھے ہوئے تھا - اس کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ سلطان مراد خان ثانی نہ صرف عمر رسیدہ ہو گیا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ مملکت کے معاملات سے بےنیاز ہوکر گوشہ نشین بھی ہوچکا ہے - پاپائے اعظم نےجان ہنی ڈیزیا کی کی پشت پر نہ صرف اپنا ہاتھ رکھا بلکہ عیسائی ریاستوں کو مذہبی حوالے سے سخت تاکید بھی کی کہ اگر ابھی مسلمانوں کی یلغار اور بڑھتے قدموں کو نہیں روکا گیا تو پورا یورپ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا - یکم ستمبر 1444 عیسوی کو جان ہنی ڈیزیا نے بھرپور تیاری اور مذہبی جوش و خروش کے ساتھ مملکت عثمانی (ترکی) کی سرحدی چوکیوں پر حملہ کردیا - یہ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ عثمانی فوج کو پسپا ہونا پڑا - ان چوکیوں پر قبضے کے ساتھ ہی بلغریا کا راستہ کھلا دکھائی دیا - وہاں کی عیسائی آبادیاں بھی مذہبی پکار سن کر نکل آ ئیں اور ہنگری کی افواج کے ساتھ شامل ہوتی چلی گئیں - بحر اسود کے ساتھ ساتھ حفاظتی چوکیاں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اور عثمانی محافظ کوئی قابل ذکر مزاحمت بھی نہیں دکھا سکے - سپہ سالار جان ہنی ڈیزیا ہر چوکی پر قبضے کے بعد فرط جذبات سے مزید توانا ہوتا جارہا تھا - مذہبی نائبین پاپائے اعظم اس کی جنتی ہونے کی نویدیں سناتے - اور مسلمان قیدیوں کو قتل کرکے ان کے خون سے رات رات بھر چہروں کو ملتے اس طرح فتح کے جشن منائے جاتے رہے - اب سپہ سالار جان ہنی ڈیزیا اپنی افواج کو بحر اسود کی جنوبی سمت پر ڈال چکا تھا جہاں سے شہر وارنا جو عثمانی سلطنت کا مفتوحہ علاقہ اور مضبوط گڑھ تھا کچھ زیادہ دور نہ تھا - برق رفتاری سے ہنگری کی افواج نے یہ راستہ طے کرتے ہوئے بلآخر وارنا شہر کا محاصرہ کرلیا - عثمانی فوج نے سخت مزاحمت دکھائی - وہ کچھ دنوں تک روز فصیل سے باہر نکلتے اور مقابلہ کرتے رہے - اس دوران جان ہنی ڈیزیا نے کمال ہشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی با قاعدہ افواج کو آرام دلوایا اور وہ عیسائی قبائل جو مذہبی جنون میں افواج کے ساتھ نکل آئے تھے ان پر مشتمل لڑنے والے دستے بنا دئیے تھے - عثمانی افواج دن بھر ان سے لڑتے بھڑتے رہتے اور شام ہوتے ہی واپس فصیل کے اندر چلے جاتے - چند دنوں کے محاصرے کے بعد عثمانی افواج سلطنت کی جانب سے کمک نہ ملنے کے سبب بدحال ہوتی چلی گئیں اور بلآخر وارنا ہنگری کی فوج کے ہاتھوں فتح کرلیا گیا - عثمانی سلطنت کو یہ دوسرا بڑا دھچکا لگا تھا - سپہ سالار جان ہنی ڈیزیا کے ہاتھوں مسلمان افواج اور شہریوں کا بے دریغ خون بہا یا گیا ، بستیوں کی بستیاں پلک جھپکنے میں قبرستان کا منظر پیش کرنے لگیں - ادھر کوچک کے صحرا میں سلطان مراد اپنی سلطنت محمد خان کے سپرد کرنے کے بعد تقریبا گوشہ نشین ہوچکا تھا - سلطنت کے مخبروں نے وارنا اور سرحدی علاقوں کی تباہی و بربادی اور مسلمانوں کے کشت و خون کی روداد محمد خان تک پہنچائی - محمد خان نو عمر تھا، جذباتی تھا اور اپنی سلطنت کو یوں برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا لہٰذا اس نے اپنی افواج کو تیاری کا حکم دیا - ہنگامی بنیادوں پر جنگی تیاریاں شروع کی جا چکی تھیں - گوشہ نشین سلطان مراد کو خبر ہوئی کہ معاملہ ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے ، محمد خان نا تجربہ کار ہے ، اور میدان جنگ کا عملی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے چناچہ ضعیف العمری اور گوشہ نشینی کے باوجود جسم پر عسکری لباس پہن کر اپنے کمرے سے باہر نکل آیا - تنہائ میں محمد خان سے گفتگو کی اور محمد خان سے درخوا ست کی کہ عیسایوں کی اس درندگی کا جواب دینے کے لئے میں ابھی زندہ ہوں - بیٹے تم امور مملکت سنبھالو میں خود اس منہ زور عیسائی یلغار کو روکوں گا - چناچہ محمد خان نے اپنے والد سلطان مراد ثانی کو اس جہاد کا سالار مقرر کیا اور ان کی سرپرستی میں عثمانی افواج نے اپنے بہادر سپہ سالار کی قیادت میں ایڈریانو پل کا قصد کیا - روانگی سے پہلے تمام سلطنت میں نماز جمعہ کے بعد خصوصی دعائیں مانگی گئیں اور نوافل کا ا ہتمام ہوا - جس کے بعد یہ لشکر پوری شان و شوکت کے ساتھ ایڈریانو پل کی جانب چلا - گھوڑے دھول اڑا تے منزلوں کو اپنے ٹاپوں تلے روندتے اللہ و اکبر کی صدا مارتے دوڑے چلے جاتے تھے - دن اور رات دونوں کی مسافتیں سکڑتی چلی جارہی تھیں ، دوری نزدیکیوں میں بدلنے کو تھی اور پھر پہلا پڑاؤ ایڈریانو پل پر پہنچ کر ہی خیمے لگانے کا حکم ملا - کچھ آرام ہوا کچھ مشاورت ہوئی اور اب بلا کسی تاخیر کے وارنا جانے کا فیصلہ کیا جاچکا تھا - سلطان مراد ثانی نے لشکر کے وسط میں اپنا مقام طے کیا اور دائیں بائیں شاہی دستے اور شہادت پر قسم کھائے ہوئے جانثاروں کے جلو میں اپنے گھوڑے کو بسم اللہ کہہ کر ایڑ لگادی - دوسری جانب وارنا کے بھر میدان میں فاتح وارنا سپہ سالار جان ہنی ڈیزیا اپنی افواج کے ساتھ خیمہ زن تھا - اسی رات مکمل چاند تھا جس خوشی میں فاتح افواج کے لئے شاندار جشن کا بندوبست تھا - چاند کی روشنی انجانے مہمانوں کی آمد و رفت کی چغلی کھا رہی تھی - مدہوش فاتح نے دور سے آتے ہوئے سائے دیکھ لئے تھے - سپہ سالار کا ماتھہ ٹھنکا اس نے اپنے تیز رفتار جاسوس دوڑائے کہ خبر لاؤ مجھے یہ کیا دکھتا ہے ؟ جاسوسوں نے آکر بتلایا کہ سلطان مراد ثانی قریبا چالیس ہزار سے زیادہ کا لشکر لیکر بس آیا ہی چاہتا ہے - جان ہنی ڈیزیا کا نشہ ہرن ہوچکا تھا - فوج کو جشن سمیٹنے اور حالت جنگ میں آنے کا کہہ کر جان ہنی ڈیزیا عیسائی راہبوں کے قدموں میں گر گیا اور اپنی کامیابی کی دعائیں مانگنے لگا - جاسوسوں نے بتایا تھا کہ سلطان اور ہمارے درمیان بمشکل چار میل ک فاصلہ ہے اگر سلطان چاہےتو برق رفتار سواروں کی مدد سے صرف ایک گھنٹے میں طے ہوسکتا ہے- جان ہنی ڈیزیا نے مذہبی رسومات سے فراغت کے بعد اپنے جاسوسوں سے مزید احوال پوچھا - تب معلوم ہوا کہ کچھ جاسوس راستے سے غائب ہیں جو اندر کی خبر لینے آگے تک چلے گئے تھے - اگلی بات سننے سے پہلے ہی جان ہنی ڈیزیا نے نتیجہ اخذ کرلیا کہ وہ سلطان کے وفادار دستے کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں - اور حقیقت حال ایسی ہی تھی - سلطان نے ان گرفتار جاسوسوں سے محاذ جنگ کی ذیلی تفصیلات حاصل کیں اور اپنی نیام سے تلوار نکالی اور جاسوسو ں کی گردن زنی کرکے جہاد کا آغاز کر دیا - خون آلود تلوار کو نیام سے باہر ہی رکھا اور لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا - ہنگری کا سالار جان ہنی ڈیزیا اپنی افواج کی صف بندی کرتا جاتا تھا اور اس کی نگاہیں سامنے سے اڑتی دھول کو دیکھ رہی تھیں - صلیبی فوجی اپنے سامنے لکڑی سے بنی ہوئی سب سے بڑی صلیب کو آگے لیکر آ گئے - فیصلہ ہوا کہ صلیب ولشیا کی فوج کے ہاتھ میں ہوگی جو لشکر کے وسط میں ہوگا ہنگری کے چنیدہ دستے میمنہ کی جانب مامور کے گئے - ہنگری کا بادشاہ اپنے سرداروں اور بہادر سپاہیوں کے ساتھ قلب لشکر تعینات ہوا - کارڈنل جولین کے ساتھ دس دستے اور ہر ایک دستہ دو سو سپاہیوں پر مشتمل تھا مامور کے گئے - پولینڈ کی فوج ایک بشپ کی سربراہی میں افواج کی پشت پر لگائی گئی - جان ہنی ڈیزیا اس تمام فوج کا سپہ سالار تھا اور ایک سفید گھوڑے پر سوار تھا جس پر لال رنگ کا مخملی جھنڈا لگا ہوا تھا - مکمل زرہ بکتر سے لیس اہنی خود جس سے صرف سپہ سالار کی آنکھیں دکھائی دیتی تھیں - گردن تک اہنی چادروں میں لپٹا یہ سپہ سالار کبھی فوج کے دائیں جاتا اور کبھی بائیں جانب جاتا - کبھی واپس پیچھے بشپ کے پاس چلا آتا - جان ہنی ڈیزیا کا تذبذب اس کی حرکتوں سے نمایاں تھا - اس کو یہ توقع نہیں تھی کہ سلطان مراد ثانی گوشہ نشینی ترک کر کے میدان جنگ میں بھی آسکتا ہے - یہ ابھی تک فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ آگے بڑھ کر سلطان کا مقابلہ کرے یا اسی جگہ سلطان مراد ثانی کے آنے کا انتظار کرے - چاندنی ڈھلنے لگی تھی سپیدی سحر نمودار ہورہی تھی - گرد جو اڑتی دکھائی دیتی تھی ا ب بیٹھ رہی تھی - لگتا تھا کسی نے پانی کا چھڑکاؤ کردیا ہو - مگر حقیقت یہ تحوی کہ شبنم اتنی گری تھی کہ مٹی گلی ہوچکی تھی - سلطان کی امامت میں فجر کی نماز ادا ہوئی اور نعرہ تکبیر کے ساتھ ہی سلطان مراد آسمانی بجلی بن کر صلیبی افواج پر کوند چکا تھا - سلطان سے آگے ایک جانثار نے اپنے گھوڑے پر اونچا نیزہ اٹھایا ہوا تھا جس کے پھل پر صلح نامے کی نقل پھنسی ہوئی تھی گویا یہی علم تھا جو سلطان کی فوج نے اٹھایا ہوا تھا ، یہ وہ صلح نامہ تھا جو ہنگری کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر سلطان کے حوالے کیا تھا - وہ لڑائی جو وارنا میں 10 نومبر کو شروع ہوئی تھی اس کو اب دو ماہ دس دن گزر چکے تھے - اس دوران معایدے کی خلاف ورزی تو اپنی جگہ ہوتی رہی مگر ہزاروں مسلمانوں کا خون بے دریغ بہتا رہا ، جبکہ جان و مال اور امن کی ضمانت دی گئی تھی - ولشیا کی فوج نے سلطان کے حملے کو روکا اور بے جگری سے گاجر مولی کی طرح گرتے رہے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عثمانی دستے پیچھے کی جانب دھکلتے چلے گئے - ایسا لگتا تھا کہ ولشیا والے سلطان کی فوج کو روند ڈالیں گے - مگر سلطان کا میمنہ کام آیا اس میں شامل شاہی افواج نے ولشیا کی فوج پر نیزوں کو پھینکنا شروع کیا - ماہر نشانچی تا ک تا ک کر نیزے پھینکتے جاتے اور ایک طرف سے صلیبی لشکر کے درمیان جگہ بناتے چلے جاتے - کارڈ جونیل کی عیسائی سپاہ نے یہ معاملہ دیکھتے ہوئے اپنے تمام دستے جنگ میں جھونک دئے - یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ عثمانی فوج کے قدم اکھڑنے لگے - سلطان اونچائی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا ، اس نے یہ پسپائی برداشت نہ ہوسکی - سلطان نے اپنے جانثاروں کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جیسے ہی سلطان رکابی دستے کو لیکر آگے بڑھا ، شہنشاہ ہنگری لیڈ سلا س نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ تیزابی تیر پھینکے جائیں - تیزابی تیروں کا رخ صرف اور صرف سلطان کی جانب تھا - ایک وقت میں بیس بیس تیر ایک ڈھال کی صورت سلطان کے رکابی دستے کی جانب آرہے تھے - دیکھتے ہی دیکھتے سلطان کے آدھے رکابی جانثار گھائل ہوچکے تھے - لیڈ سلاس صفوں کو کھدیڑ تا ہوا سلطان کے سر پر پہنچا ہی چاہتا تھا - کہ سلطان نے اپنے ترکش سے چاندی کا بنا ہوا نشان زدہ تیر نکالا اور ناک کی نوک پر آنکھ دباتے ہوئے ہوا میں چھوڑ دیا - تیر کمان سے نکالا ہی تھا کہ سامنے لیڈ سلاس کبر و نخوت کے ساتھ استادہ دکھائی دیا اس کی تلوار ہوا میں سلطان کی گردن سے چند قدموں کی دوری پر تھی کہ تیر اپنی جگہ بنا چکا تھا - تیر گھوڑے کی پیشانی پر لگا اور گھوڑا چکرا کر زمین پر آرہا - جیسے ہی گھوڑا بے قابو ہوا لیڈ سلاس اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا اور زمین پر گر پڑا - لیڈ سلاس ابھی اٹھنے کی کوشش میں ہی تھا کہ ایک شاہی جانثار جو تیروں سے گھا ئل موت و زیست کی کشمکش میں تھا ، اپنی تلوار لیڈ سلاس کی گردن پر مار کر دھڑ کی قید سے آزاد کرچکا تھا - اب سلطان نے علم بردار نیزہ سوار کو قریب بلایا ، اس کے ہاتھ سے نیزہ لیا اور صلح نامے کے ساتھ گردن کو بھی نیزے کے پھل( انی ) میں ٹوچ لیا اور نیزہ بلند کردیا - صلیبی سپاہیوں نے نیزے کی انی پر شہنشاہ کا کٹا ہوا سر دیکھا تو ان کے پاؤں تلے زمین نکل چکی تھی - محاذ جنگ کا نقشہ پلٹ چکا تھا - عثمانی فوج کی حری ہوئی بازی فتح میں بدلتی جارہی تھی - ولشیا کی فوج جو اب تک مکمل طور پر نہیں کٹ پائی تھی اب کٹنے کو تھی - جان ہنی ڈیزیا نے بتیہری کوشش کی کہ کسی طرح حملہ کرکے شہنشاہ کے سر کو نیزے کی انی سے گرا دے مگر سلطان نے ہر بار اس کے حملے کو ناکام بنایا - مسلمانوں کی ہاری ہوئی بازی فتح میں بد ل رہی تھی ، عیسائی بشپ اور رہنما کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا ، لکڑی کی صلیب کو شاہی دستے نے آگ میں جھونکچکے تھے - جس سے کالا دھواں آٹھ رہا تھا - عیسائی فوج کو زندہ بھاگنے کا موقع بھی میسر نہیں آرہا تھا -

کا رڈ جولین پوپ کا نائب اور بخشا ہوا جنتی ما را جاچکا تھا - صرف ایک شاطر سپہ سالار جان ہنی ڈیزیا تھا جو سلطان کے قدموں میں گر کر اپنی جان بخشوا رہا تھا - منٹ سماجت کے بعد اس کو گھوڑے سمیت بھاگنے کی اجازت ملی تھی - سلطان مراد ثانی نے جان کی امان دیتے ہوئے اس سے کہا کہ " میں تجھ کو تیری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں چھوڑ رہا بلکہ تیرے گھوڑے کی بہادری کی وجہ سے بخش رہا ہوں جس نے تیرا اس وقت ساتھ دیا جب تیرے اپنے مذہبی پیشوا تجھے اکیلا چھوڑ گئے تھے "- کہتے ہیں کہ سلطان مراد ثانی نے اس کو اس لئے زندہ چھوڑ دیا کہ وہ اپنے لوگوں کو عثمانیوں کی فتح کا آنکھوں دیکھا حال بتا سکے -اس کے ساتھ ہی سروبیا عثمانی سلطنت کاحصّہ بن گیا ، بوسنیا بھی عثمانی سلطنت میں شا مل ہوا - 


کوسوو کی صلیب سودھو

بوسنیا اور سروبیا کی فتح کے بعد یہاں کے بہت سے عیسائی خاندان مسلمان ہوکر مملکت عثمانیہ کے وفادار بن گئے - تاہم کچھ رئیس اور سردار ایسے بھی تھے جنہوں نے ماضی کی طرح اب اپنی سازشیں جاری رکھیں - چناچہ ان کو سلطنت کا غدار ہونے کے جرم میں سزائیں دی گئیں - اسلام قبول کرنے کے معاملے پر کسی پر کوئی زبردستی نہیں تھی - عیسائی آبادیوں کو مکمل مذہبی حقوق پہلے کی طرح بدستور حاصل رہے - کچھ عرصے تک تو سلطان مراد ثانی نے مفتوحہ علاقوں کا انتظام و امور سلطنت اپنے ہاتھ میں رکھے لیکن اس سے فارغ ہوتے ہی ایک مرتبہ پھر اپنے بیٹے محمد خان کو حکمرانی سونپتے ہوئے معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرلی - لیکن محمد خان کے دوبارہ حکومت سنبھالتے ہی عثمانی فوج میں بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے - بد انتظامی اور شاہی فوج کی خودسری حد سے تجاوز کرتی جارہی تھی - ان میں ینگ چری فوج پیش پیش تھی - ان کا خیال تھا کہ ان تمام تر فتوحات میں ینگ چری کا کردار سب سے اہم ہے اس لئے ان کی تنخوا ھو ں اور مراعات میں مزید اضافہ ہونا چا ہئے - ینگ چری ( شاہی خصوصی دستے ) کے ان نامناسب مطالبات کو ماننا محمد خان کے لئے مشکل تھا کیونکہ پہلے ہی ان کی مراعات فوج کے دوسرے دستوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھیں - جس پر فوج کے عام دستوں میں عدم اطمینان پایا جاتا تھا - ینگ چری فوج نے جب دیکھا کہ ان کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی تو انھوں نے عام فوج میں بددلی پھیلانی شروع کی اور کھل کر بغاوت کی دھمکیاں دینی شروع کردیں - معاملات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ ینگ چری دستے کھلے بندوں لوٹ مار کرنے لگے تھے - سلطنت عثمانیہ ایک مرتبہ پھر شدید بحران میں مبتلا تھی - ماضی میں بھی اس طرح کی بہت سی سازشیں ہو چکی تھیں مگر اس مرتبہ مرکز میں شاہی دستے کی جانب سے بغاو ت نے محمد خان کے لئے بہت مشکل حالات پیدا کردئیے - سلطان مراد خان کو مجبورا اس مرتبہ بھی حجرے سے باہر آنا پڑا - سلطان مراد خان میدان جنگ کا شہسوار تھا - دشمن کے مقابلے میں ہر مرتبہ الله کے کرم سے کامیابی نے اس کے قدم چومے - عثمانیوں کی تاریخ میں سلطان مراد خان ہمیشہ ناقابل شکست رہا ہے - سلطان نے معتمد جانبازوں کو اپنے ساتھ لیا اور ایشیا ئے کوچک سے نکلتا ہوا ایڈریانو پل جا پہنچا - رعایا نے جب دیکھا کہ ان کا چہیتا سلطان خود نکل آیا ہے تو پوری آبادی سلطان کے استقبال کے لئے موجود تھی - ان میں اب تک کے عیسائی خاندان بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ استقبالی جلوس میں موجود تھے - سلطان نے محمد خان کو ایشیا ئے کوچک کی ریاستوں میں بھیج کر حکومت سنبھالنے کا حکم صادر کیا - اس کے خیال میں محمد خان کو ابھی مزید تجربے کی ضرورت تھی جو کوچک کی ریاستوں میں انتظامی معاملات سنبھالنے سے مل سکتا تھا - سلطان مراد خان کی پوری توجہ ینگ چری فوج کے سرکشں باغیوں کی گوشمالی پر مرکوز تھی - اس نے فوج کے باغی اور فسادی عناصر کو ٹھکانے لگایا اور عام سپاہیوں کی مراعات میں اضافہ کیا - سلطان کے اس عمل نے مجموعی ا عتبار سے عام فوج کا مورال بلند کیا دوسری طرف ینگ چری فوج کے باغی عناصر کو بغاوت کے جرم میں عبرتناک سزائیں دے کر اس معاملے کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا - ان اقدامات کے بعد سلطان نے اقتدار اپنے ہی ہاتھ میں رکھنے کا فیصلہ کیا اور اپنے انتقال تک اقتدار محمد خان کو منتقل نہیں کیا - سلطان مراد خان نے اپنی تمام تر توجہ انتظامات کی بہتری اور سلطنت کی مضبوطی پر مرکوز رکھی - اس نے آس پڑوس کی عیسائی ریاستوں نے کوئی تعرض نہیں برتا - مگر اس کے باوجود عیسائی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں اپنا کام کرتی رہیں -  

مگر ماضی کا ایک کردار جان ہنی ڈیزیا کو عزت راس نہیں آ ئی - پچھلی ذلت آمیز شکست میں معافی اور جان بخشی کے باوجود اس نے عیسائی ریاستوں سے مدد مانگی اور اس مرتبہ بھی عیسائی ریاستوں نے اس کی بھرپور مدد کا فیصلہ کیا - شاہ قسطنطنیہ ان کا سب سے بڑا مددگار تھا - سب سے بڑی فوجی امداد اسی نے فراہم کی - عیسائی مشترکہ افواج نے اپنی موت اور ذلت کے لئے اپنے طور پر کوسوو کا میدان منتخب کیا - ان کا خیال تھا کہ یہاں کے نوے فیصد عیسائی علاقے پر ان کے مذھب کا راج ہے لہٰذا کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے - اور سلطان کو اپنے مرکز سے یہاں نکال کر لانے میں اگر عیسائی کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ وہ جگہ سلطان کے لئے موت کا کنواں بن جائے گی - اسطرح ہم بیچ میدان میں سلطان کی فوج کو چاروں جانب سے گھیر کراور ایک طویل جنگ میں پھانس کر عثمانی فوج کو شکست سے دوچار کردیں گے - ان کے اس خیال کو تقویت یوں بھی ملتی تھی کہ ان کی مذہبی کتابوں اور قصے کہانیوں میں ان کی عظیم فتح ایک بڑی شکست کے بعد ہی مل سکتی تھی - اور ان کے خیال میں پچھلی صلیبی یلغار میں عظیم شکست سے دوچار ہوچکے تھے لہٰذا اب کی بار یہ جنگ ان کے لئے فتح کی نوید ثابت ہوگی - سلطان نے جان ہنی ڈیزیا کا چیلنج قبول کرتے ہوئے آگے نکل کر کوسوو جانے کا سخت اور مشکل فیصلہ کیا - اور اپنی افواج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا - سلطان جان ہنی ڈیزیا کی جنگی تکنیک کی رگ رگ سے واقف تھا - اس کو بھی معلوم تھا کہ اس کے دماغ میں گھیر کر مارنے کی کھچڑی پک رہی ہے - لہٰذا سلطان مراد خان نے نئی حکمت عملی ترتیب دی جس کا علم یہ تو سلطان کو تھا یا پھر فوجی دستوں کے سالاروں کو - سلطان نے اپنی فوج کو تین حصوں مین تقسیم کیا - پہلے حصے میں کل افواج کا ستر فیصد حصہ تھا جس کو کوچ کا حکم دیا گیا تھا اس کی سالاری ینگ چری فوج کے آزمودہ کار جرنیل کو دی - اس فوج کو حکم تھا کہ محاذ جنگ پر پہنچ کر ہمارا انتظار نہ کیا جائے بلکہ حالات دیکھ کر یا صلیبیوں کی دعوت مبازرت پر جنگ شروع کردینا - سلطان نے اس فوج کو باور کروایا کہ وہ خود اس معرکے میں شامل نہیں ہونا چاہتا کیونکہ میں تمہاری صلاحیتوں کو آزمانا چاہتا ہوں -ماضی کی بغاوت نے تمہاری کارکردگی پر جو سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے اور اس دھبے کو دھونے کے لئے یہ فتح کتنی ضروری ہے - اس فوج کے روانہ ہونے کے بعد سلطان نے باقی رہ جانے والی فوج کو مزید دو حصوں میں بانٹا اور ایک کی قیادت خود سنبھالی اور دوسرے حصے کی قیادت اپنے ہونہار بھتیجے کے سپرد کی - دونوں حصوں کی افواج نے الگ الگ راستوں کا انتخاب کیا - ایک راستہ وہ تھا جو قدرے طویل تھا کہ اگر آج ہی روانہ ہوتا تو کوسوو کے میدانوں تک پہنچنے میں دو دن کی تاخیر پیش آسکتی تھی - مگر سلطان مراد کی حکمت عملی یہی تھی کہ یہ دستے میدان جنگ میں دو روز کی تاخیر سے ہی پہنچیں - اسی طرح سلطان مراد نے اپنے زیر کمان دستوں کو اپنے متعین کردہ خفیہ راستے پر ڈال دیا - جس کا علم سلطاں کے سوا کسی کو نہ تھا - پہلا بڑا مرکزی لشکر کوسوو پہنچ چکا تھا - سامنے جان ہنی ڈیزیا اپنے صلیبی لشکر کے ساتھ موجود تھا - پوری رات دونوں افواج کے جاسوس دستے ایک دوسرے کی فوجی طاقت کا اندازہ لگاتے رہے - جان ہنی ڈیزیا کو جب معلوم ہوا کہ اس لشکر کی قیادت سلطان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور فوج کی تعداد بھی اندازے سے نہایت کم ہے تو اس نے مشاورت سے فیصلہ کیا کہ سپیدی سحر کے پھوٹتے ہی عثمانی لشکر پر دھاوا بول دیا جائے - جان ہنی ڈیزیا نے اپنی تمام سپاہ کو یکبارگی مکمل قوت کے ساتھ جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کیا - دوسری جانب وفادار عثمانی سپاہی اور ینگ چری کماندار ماضی کے داغ دھونے کو بے تاب تھے - ان کے نزدیک داغ دھونے کا اس سے بہتر موقع کو اور ہو ہی نہیں سکتا تھا - چناچہ سورج کی پہلی کرن کے نمودار ہوتے ہی تلواریں نیام سے باہر نکل آئیں - گھوڑوں کی با گیں ڈھیلی چھوڑ دی گئیں - خیمے خالی اور میدان جنگ متحا رب فوجوں سے بھر چکا تھا - ایک طرف صلیبی خوش تھے کہ سلطان مراد کے بغیر اس کی فوج کا مورال یقینا آدھا رہ گیا ہوگا - مگر اس کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ سلطان نے اپنے آپ کو بظاھر میدان جنگ سے علیحدہ رکھ کر اپنی فوج کو ایک آتش فشانی لشکر میں تبدیل کردیا تھا - جہاں عددی برتری کی کوئی حثیت نہیں تھی - صلیبی نقاروں نے ہیبت ناک آواز میں بجنا شروع کیا اور صلیبی افواج ایک مخصوص مذہبی ترانے پڑھتے ہوئے عثمانیوں کی جانب لپکیں - سامنے سے نعرہ تکبیر -الله و اکبر کے فلک شگاف نعروں نے عثمانی لشکر میں بجلی سی بھر دی تھی - پوری قوت کے ساتھ تلواریں آپس میں ٹکرائیں - صبح سے دوپہر اور پھر شام ہو چلی تھی - عثمانی نہ صلیبی دونوں میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا - رات میدان میں کام آجانے والوں کو اکٹھا کرنے میں گزرا - صلیبیوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا تھا مگر ان کی عددی برتری اتنی زیادہ تھی کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا - رات جنگ رکی تو اندازہ ہوا کہ عثمانی لشکر ایک چوتھائی شہید ہوچکا ہے - عثمانی دھن کے پکے نکلے شہدا کی تدفین اجتماعی قبر وں میں کی گئی اور دوسری صبح ایک نئے انداز سے جنگ کی ابتداء ہوئی - اگلی صبح ینگ چری کماندار نے نئی حکمت عملی ترتیب دی اور اپنی فوج کو بڑے سے گھیرے میں حلقہ بناتے ہوئے آگے بڑھتے رہنے کا حکم دیا - عثمانی فوج گھیرا بنا کر آگے بڑھتی جاتی اور غیر محسوس انداز میں صلیبی ان کے دائرے میں آتے چلے گئے - دائرۂ اتنا وسیع تھا کہ جان ہنی ڈیزیا کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ وہ عثمانیوں کے نرغے میں آچکا ہے - اب عثمانی کماندار نے اپنی فوج کو گھیرا تنگ کرنے کا حکم دیا اور عثمانی فوج اندر کی جانب سکڑتی چلی گئی - صلیبی اس ترکیب سے اپنے آپ کو نکالنے کی جستجو میں تھے کہ پیچھے سے شاہ قسطنطنیہ کی جانب سے بھیجے گئے خاص دستے نے مداخلت کی اور عثمانی فوج پر بھرپور حملہ کیا - یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ عثمانی فوج بوکھلا گئی مگر اس سے پہلے کہ عثمانی پسپا ہوتے انہیں اپنے عقب سے گرد و غبار دکھائی دیا - نعرہ تکبیر بلند کرتا سلطان مراد کا بھتیجا رحمت کا فرشتہ بن کر ان کی مدد کو پہنچ چکا تھا - اس کی تلواروں نے سب سے پہلے قسطنطین کے سورماؤں کو ڈھیر کیا اور پھر مشترکہ صلیبی افواج کو اپنی تلواروں کی دھار دکھانی شروع کی - ابھی معرکہ گرم ہی تھا کہ سلطنت عثمانی کا لال پرچم لئے سلطانی جاہ و جلال اور شان فتح مندی کے ساتھ سلطان مراد خان ثانی بنفس نفیس میدان جنگ میں نمودار ہوا - سلطان نے اپنے آپ کو میدان کے عقب میں ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چھپا رکھا تھا اور انتہائی قریبی مگر انتہائی دشوار گزار راستے سے گزر کر ایک دن قبل ہی اپنے خاص دستے کے ساتھ وہاں موجود تھا - سلطان کی آمد کا غلغلہ ہوا تو جان ہنی ڈیزیا کی جیسے جان نکل گئی - صلیبی فوج میں صف ماتم بچھ چکی تھی- طویل جنگ کا خواب دیکھنے اور عثمانیوں کو گھیر کر مارنے کا منصوبہ بنانے والوں کو اپنی جان کے لالے پڑ چکے تھے - سلطان کا بھتیجا شاہ قسطنطنیہ کی سپاہ کو کچھ دیر پہلے ہی جہنم کے دروازے پر پہنچا چکا تھا - باقی بچ جانے والے دوزخی سلطان مراد کے رحم و کرم پر تھے - اس رات جنگ تو رکی مگر صلیبی افواج کے گرد گھیرا جاری رہا ، یوں سمجھیں کہ کسی کو میدان چھوڑ کر اپنی کمین گاہ میں جانے کی اجازت نہیں تھی - رات آنکھوں میں کاٹی - سپاہیوں کی لاشیں بھی نہ اٹھائی جا سکیں - صرف تلواروں کی دھاریں تیز ہورہی تھیں یا سلطان کی الله کے حضور مناجا ت و فریاد کی آواز تھی - اگلا دن کوئی بہت بڑا معرکہ نہیں تھا صرف حتمی کاروائی عمل میں آنی تھی - سر قلم کرنے کی روایات کی تجدید کا دن تھا سلطان نے آگے بڑھ کر جان ہنی ڈیزیا کی گردن اپنی تلوار سے قلم کی جو اس بات کا اعلان تھا کہ صلیبی یہ جنگ ہار چکے ہیں - جنگ کا فیصلہ تیسرے دن دوپہر ہونے سے بہت پہلے ہوچکا تھا - نماز ظہر کے ساتھ ہی عثمانی سپاہیوں کی نماز جنازہ اور تدفین کا عمل ہو ا- جس کے بعد نماز شکرانہ ادا کی گئی - اسطرح کوسوو کی زمین بھی عثمانی سلطنت کا میں شامل ہوگئی -

البانیہ کا سکندر بیگ سودھو

تاریخ خلافت عثمانیہ - البانیہ کا سکندر بیگ سلطان مراد خان نے کوسو و کے بیشتر علاقے پر سلطنت عثمانیہ کا سکہ جاری کردیا تھا لیکن البانیہ کا علاقہ ابھی تک شورش زدہ تھا - جہا ں عثمانی سلطنت کسی طور کامیاب نہیں ہو پا ر ہی تھی - اس کی ایک بڑی وجہ وہاں کی جغرافیائی حالت تھی - پہاڑوں اور بلند ترین راستوں میں گھرا ہوا البانیہ عثمانی سلطنت کے لئے درد سر بنتا جارہا تھا - اگرچہ البانیہ کو ترکوں نے عرصہ پہلے ہی فتح کرکے صوبے کا درجہ دے دیا تھا ، مگر اس صوبے کا انتظام قدیم فرمانرواں خاندان کے ذمے ہی تھا - جو عثمانیوں کو جزیہ ادا کرتا تھا - اس کے بدلے میں والئی البانیہ جان کسٹرا ئیٹ نے اپنے چار بیٹوں کو سلطان کی ینگ چری فوج میں داخلے کے لئے روانہ کیا - بدقسمتی یہ ہوئی کہ جان کسٹرائٹ کے تین چھوٹے بیٹے کسی بیماری میں مبتلا ہوکر وفات پاگئے - جس پر جان کسٹرا ئیٹ سلطان کی طرف سے بدگمان ہوگیا کہ سلطان نے سازش کے تحت میرے لڑکوں کو مروایا ہے - اس بات کا سلطان کو بھی بے حد ملال تھا - چناچہ اس نے زندہ بچ جانے والے لڑکے جارج کسٹرائٹ کو سلطانی محل میں اپنی زیر نگرانی رکھا اور بیٹوں کے ساتھ شامل پرورش رکھا - اس کا اسلامی نام سکندر بیگ رکھا گیا - جو لارڈ سکندر بے کہلایا جاتا تھا - اس کی تربیت بھی شہزادوں کی طرح ہوتی رہی - جب سکندر بیگ اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچا تو اس کو مختلف اضلا ع کا انتظام دیا گیا - اسی دوران جان کسٹرائٹ کا انتقال ہوگیا - مگر سلطان نے سکندر بیگ کو باپ کی جگہ فرمانرو ائے البانیہ مقرر نہیں کیا - سلطان کے دماغ میں یہ بات تھی ہی نہیں کہ کبھی شہزادوں اور بیٹوں کی طرح پرورش پانے والا سکندر بیگ بھی سرکشی اور بغاوت پر آمادہ ہوسکتا ہے - سکندر بیگ کے دماغ میں بغاوت کا خناس تو اس وقت ہی بھر چکا تھا جب جان ہنی ڈیزیا کے ہاتھوں پہلی بار ترک افواج کو شکست ہوئی تھی - اس وقت رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر سکندر بیگ میر منشی کے خیمے میں جا پہنچا اور تلوار کے زور پر اس سے تحریر لکھوائی کہ' میں میر منشی سلطان مراد خان البانیہ کے صوبیدار کو لکھ کر دیتا ہوں کہ سکندر بیگ کو بطور وائسرائے قبول کیا جائے " - اس مضمون پر سلطانی مہر لگوا کر سکندر بیگ نے میر منشی کو قتل کردیا اور جعلی حکم نامہ لیکر راتوں رات البانیہ کے پہاڑوں کی جانب نکل گیا - البانیہ کے صوبے دار نے شہزادہ سکندر بیگ کے ہاتھوں فراہم کی جانے والی تحریر اور مہر سلطانی دیکھتے ہی بلا کسی تا مل کے البانیہ کی حکومت سکندر بیگ کے کومت پر براجمان ہوتے ہی سکندر بیگ نے دین اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی مذھب اختیار کرنے کا اعلان کیا - اور اس کے ساتھ ہی البانیہ میں ترکوں اور مسلمانوں کا بےدریغ قتل عام شروع ہوگیا - ترکوں کےلئے البانیہ کی سرزمین تنگ کردی گئی - سلطان مراد خان کے انتقال تک سکندربیگ کی شورش کو دبایا نہیں جا سکا تھا- 855 ہجری میں سلطان مراد خان کے انتقال کے بعد محمد خان ثانی تخت نشین ہوا - (فاتح قسطنطنیہ) سلطان محمد خان ، سلطان مراد کی زندگی میں دو مرتبہ تخت نشین رہ چکا تھا ، مگر اس وقت وہ کم عمر اور ناتجربہ کار تھا - لیکن اب ایسا نہیں تھا - شروع میں تو سلطان محمد خان ثانی نے سکندربیگ سے معائدہ کیا کہ وہ امن و اما ن برقرار رکھے اور جزیہ دے - اور ترکوں کا قتل عام روکے ، مگر جب سکندر بیگ کی اکڑ فوں برقرار رہی تب مجبور ہوکر سلطان محمد خان ثانی نے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ البانیہ پر چڑھائی کی اور البانیہ کو فتح کرکے مکمل طور سے عثمانی سلطنت میں داخل کیا - سکندر بیگ نے بھاگ کر وینس کے علاقے میں پناہ لی - 872 ھجری میں ترک سپاہیوں نے اس کی لاش کی باقیات وینس کے علاقے سے بازیاب کیں - قسطنطنیہ کی فتح کا احوال قارئین تاریخ خلا فت عثمانیہ کی ابتدا ئی قسط میں تفصیل کے ساتھ پڑھ ہی چکے ہیں لہذا اس واقعے کے بعد کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں بلغراد پر ترکوں کے حملے کی ناکامی اور سکندر بیگ کی بغاوتوں کے سبب فاتح قسطنطنیہ کے طور پر سلطان کا رعب و دبدبہ جو قائم تھا بظاھر کمزور ہوتا دکھائی دے رہا تھا - چناچہ وینس والوں نے جو معاہدہ کیا تھا اس سے روگردانی کی خبریں آنی شروع ہوچکیں تھیں - سلطان نے اس فتنے کی سرکوبی ضروری سمجھی اور سمندر کی حدود کے ساتھ ساتھ وینس کے بہت سے علاقے فتح کے - اور بہت سے شہروں کو عثمانی سلطنت میں شامل کیا - 878 ہجری میں سلطان محمد خان فاتح نے اپنے سپہ سالار احمد قیودوق کو وزیر اعظم بنایا اور خود بحیرۂ یونان کے جزیروں کی جانب جا نکلا - حا ں لانکہ ایران کا بادشاہ حسن طویل ترکمان بھی اپنی فوجیں عثمانیوں کے خلاف تیار کر رہا تھا مگر سلطان نے چاہا کہ مسلمان قوت آپس میں نہ ہی الجھے تو بہتر ہے - اس لئے اس کی تمام تر توجہ اٹلی کی جانب مرکوز رکھی - لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ دائیں بائیں کی سازشوں سے بےخبر تھا - حادثہ بلغراڈ سے سب سے بڑا سبق یہ ملا تھا کہ سلطان فاتح نے دریائے ڈینوب کے شمالی صوبوں پر قبضے کو مزید مستحکم کیا - اسی دوران الله نے سلطان فاتح کے مقدر میں ایک اور بہت بڑی نصرت کا سامان ڈال دیا تھا - تفصیل اس فتح کی یوں ہے کہ 879 ھجری میں سلطان نے فتح کریمیا کے اپنے وزیر اعظم احمد قید وق کو مقرر کرتے ہوئے بحر اسود کے محاذ پر روانہ کیا- کریمیا جو عرصہ دراز سے چنگیزی قبائل کے خوانین کی حکومت میں چل رہا تھا جنیوا کے عیسایوں کے حملے کی زد میں آگیا- جنیوا والوں نے ان کے جزائر پر قبضہ کرلیا - خان کریمیا نے سلطان کو خط لکھا کہ ہمیں جنیوا والوں کے ستم سے نجات دلاؤ اور اپنی سرپرستی میں لے لو - چناچہ سلطان فاتح نے احمد قیودوق کی سالاری میں چالیس ہزار کا لشکر روانہ کیا اور چار دن کے محاصرے کے بعد علاقہ یافہ فتح کیا اور جینوا والوں متعین افواج کو گرفتار کرلیا یافہ شہر سے بیشمار مال غنیمت احمد قیودوق کے ہاتھ لگا جن میں بڑے جنگی جہاز اور سامان حرب بھی شامل تھا - اس فتح کے ساتھ ہی خان کریمیا نے عثمانیوں کی اطاعت قبول کرلی اور تین سو سال خوانین کریمیا سلطنت عثمانیہ کے وفادار رہے - یا فہ شہر کی بندر گاہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سب سے بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے - یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اسی سال یعنی 878 ہجری کو روس میں زار روس کا خاندان برسر اقتدار آیا تھا - کریمیا شہر یافہ اور بندرگاہ عثمانی سلطنت میں شامل ہو اتو ایران کی حکومت کو سب سے زیادہ پریشانی لاحق ہوئی - چناچہ بادشاہ حسن طویل نے عثمانیوں کے خلاف سازشوں کا جال تیار کرنا شروع کیا - یہ وہ وقت تھا جب عثمانی سلطنت شام سے لیکر بحیرہ ایڈر یاٹک تک اپنے جھنڈے گاڑ چکی تھی - 885 ہجری میں سلطان نے روڈرس کی عیسائی سلطنت پر حملے کے لئے ایک مہم روانہ کی مگر اس کو ناکا می کا سامنا کرنا پڑا - پہلی مہم کے ناکام ہوتے ہی سلطان نے تجربہ کار جرنیل کی سربراہی میں تابڑ توڑ دوسری بحری مہم روانہ کی ، روڈرس والوں کو اتنی جلدی دوسری مہم کا شائبہ تک نہیں تھا - مگر اچانک بحری جہاز ان کے ساحلوں پر لنگر انداز دکھائی دئے - روڈرس جزیرے پر عثمانی فوج کا قبضہ ہوچکا تھا - ایسے موقع پر جب فوج روایتی لوٹ مار میں مصروف ہونا چاہتی تھی کمانڈر نے رتی بھر کی لوٹ مار سے بھی ہاتھ روکنے کا حکم دیا جس سے فوج میں بد دلی پھیلی اور خدمات انجام دینے سے پہلو تہی برتی جانے لگی - فوج اور سپہ سالار کی ناچاقی سے یہ کامیاب مہم بھی ناکام ہو گئی - اور فوج کو جزیرہ چھوڑ کر واپس آنا پڑا - روڈرس ایک بار پھر بچ گیا - سلطان کی عجیب و غریب حکمت عملی دیکھئے کہ ایک جانب پئے درپے روڈرس پر مہم بھیج رہا تھا دوسری طرف خاموشی کے ساتھ احمد قیودوق فاتح کریمیا کے ہمراہ ایک بڑا فوجی لشکر اٹلی کے جنوب میں روانہ کردیا - چناچہ احمد قیودوق نے اٹلی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے ہی بے شمار جزائر کو قبضے میں لینا شروع کردیا اٹلی کا باب الفتح شہر آر ٹینٹو کا محاصرہ کرلیا گیا - شہر آر ٹینٹو کے فتح ہونے کا مطلب تھا کہ اٹلی پر مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہوجاتا - 885 ہجری بمطابق 1480 عیسوی 11 اگست احمد قیودوق کی سربراہی میں عثمانی فوج نے شہر آر ٹینٹو کو مکمل طور پر فتح کرلیا اور بیس ہزار سے زیادہ فوجی گرفتار کرکے تہہ تیغ کرڈالے - پورا اٹلی خوف سے کانپ اٹھا - روم کا پوپ بوریا بستر لپیٹ کر بھاگنے کی تیاری کرنے لگا - ادھر سلطان کو جب روڈرس کی دوسری مہم کی ناکامی کا احوال معلوم ہوا تو اس نے تازہ دم لشکر کو تیاری کا حکم صادر کیا - اب سلطان فاتح کے سامنے بایزید یلدرم کی یہ خواب تھا کہ عثمانی سلطان شہر روما میں داخل ہوکر اپنے گھوڑے کو بڑے گرجا گھر میں دانہ کھلا ئے - سلطان فاتح نے اس ہنگام کے ساتھ جنگی تیاریاں کیں کہ عیسایوں کی بچی کچی سلطنتوں میں کہرام مچ گیا - سلطان نے آبنائے باسفورس کے ساتھ ساتھ جنگی علم لہرا دئیے - جو اس بات کی علامت تھی کہ سلطان فاتح کے ارادے بہت خطرناک ہیں - سلطان کے سامنے بیک وقت تین بڑی مہمات درپیش تھیں - ایک ایران کے بادشاہ شاہ حسن طویل کو سبق سکھانا کہ اس نے شہزادہ بایزید کے مقابلے میں چھیڑ خانی اور لڑائی شروع کی تھی - دوسرے جزیرہ روڈرس کو فتح کرنا اور تیسرے اٹلی کو مکمل طور پر فتح کرکے شہر روم میں فاتحانہ داخل ہونا - سلطان کے ارا دے کیا تھے ؟ اس بارے میں کسی کو کوئی خبر نہ تھی - سلطان جنگی ضروریات کے مطابق سامان جمع کر رہاتھا - افواج سلطنت کے چپے چپے سے قسطنطنیہ پہنچ رہی تھیں - تیاری اس قدر غیر معمولی تھی کہ ظاہر تو یہی ہوتا تھا کہ براعظم یورپ اور بر ا عظم ایشیا میں عثمانیوں کی فتوحات کا سلسلہ دراز ہونے جارہا ہے - ایک سا ل کا عرصہ گزر گیا - لشکر کی روانگی کا وقت ہو ا ہی چاہتا تھا قافیہ شناس اندازے لگا رہے تھے کہ سلطان سب سے پہلے شاہ ایران کو سبق سکھا کر روڈرس کی جانب جائے گا - پھر اٹلی میں داخل ہوگا یہاں احمد قیودوق سلطان کا شہرآر ٹینٹو میں منتظر تھا - قسطنطنیہ سے افواج کو کوچ کا حکم مل چکا تھا - مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا - فوج کے روانہ ہوتے ہی سلطان پر ایک جان لیوا بیماری کا حملہ ہوا - 886 ہجری بمطابق 3 مئی 1481 عیسوی سلطان محمد فاتح کو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا حکم نامہ مل گیا - اور یوں یہ عظیم الشان جنگی مہم ملتوی ہو گئی - سلطان فاتح کی تدفین قسطنطنیہ میں کی گئی - سلطان محمد فاتح نے 53 سال کی عمر پائی اور تقریبا 31 سال حکمرانی کی -

سلطنت ڈگمگا نے لگی سودھو

تاریخ خلافت عثمانیہ - سلطنت ڈگمگا نے لگی (نواں حصہ ) سلطان محمد خان ثانی فا تح قسطنطنیہ الله کے حضور پیش ہو چکا تھا - اس عظیم فاتح نے اپنا تمام دور حکومت مسلسل جنگ و پیکار میں گزارا - اپنے دور حکومت میں بارہ عیسائی رومن ریاستیں اور دو سو سے زیادہ چھوٹے بڑے شہر عثمانی سلطنت میں داخل کئیے - جنگ و جدل میں آٹھ لاکھ مسلمان مجاہد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے - حیرت کی بات یہ ہے کہ سلطان کی باقائدہ افواج کی تعداد لاکھ سوا لاکھ سے زیادہ تجاوز نہیں کر پائی - ان میںبارہ ہزار ینگ چری فوج کے وفادار دستے بھی شامل تھے - یہ ینگ چری افواج باڈی گارڈ یا وفادار فوج کہلاتی تھی - جنگ کے میدان میں سلطان کا میمنہ و میسرہ ان ہی کمانڈروں کے سپرد ہوتا تھا - سلطان محمد فاتح نے فوج کو انتظامی اور نظم و ضبط کے مضبوط نظام میں باندھ دیا تھا- اگرچہ سلطان کے پہلے دور حکومت میں ینگ چری فوج نے بغاوت کا مظا ہرہ بھی کیا تھا - مگر ان کو سخت ترین سزائیں دے کر نشان عبرت بنا دیا گیا - سلطان کے جاری کردہ قوانین سے سلطنت عثمانیہ کو استحکام حاصل ہوا - اور ایک لحاظ سے سلطنت عثمانیہ نے فتوحات کے حوالے اپنا عروج حاصل کرلیا تھا - بیشتر یورپ میں رومن عیسائی علاقوں میں مسلمان ترک اپنی سلطنت مستحکم کر چکے تھے - سلطان محمد خان ثانی کے حوالے سے حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس کا تمام تر دور جنگوں اور معرکوں میں گزرا مگر اس کے باوجود اس کی انتظامی صلا حیتوں کا معترف ہوئے بناء نہیں رہا جاسکتا - سلطان نے اپنے دربار میں علماء کونسل کو سب وزیروں اور امراء پر فوقیت دی - اور عثمانی سلطنت کا دستور اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ترتیب دیا جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے صادر کے جاتے اور علماء کونسل کو ان سب پر فوقیت حاصل رہی - سلطان کی شاندار حکمت عملی یہ بھی رہی کہ اس نے رومیوں اور عیسایوں سے حاصل کردہ علاقوں میں دینی مدارس کا جال بچھا دیا تھا - تاکہ مفتوحہ علاقوں کے نومسلم اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہوسکیں - ان مدارس کا نصاب بھی سلطان اور علماء کونسل کا تجویز کردہ تھا - سال میں دو مرتبہ مدارس میں امتحان ہوتا جس کے بعد کامیاب طلباء کو اسناد جاری کی جاتیں - ان اسناد پر قابلیت کے مطابق سرکار کی جانب سے وظیفہ مقرر کیا جاتا اور سرکاری نوکری پیش کی جاتی - آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سلطان خود ایک عالم دین تھا اور علوم جدید کا جاننے والا بھی - طبیعات ریاضی اور قران و حدیث کے علوم پر بہت مہارت حاصل تھی - یہی وجہ تھی کہ سلطان کے دور حکومت میں بہترین نصاب درسگاہوں میں متعارف کروایا گیا - سلطان کی زبان دانی کا عالم یہ تھا کہ وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتا تھا جن میں ترکی کے علاوہ عربی ، فارسی ، لاطینی ، یونانی اور بلگیرین زبانیں شامل تھیں - سلطان کے عہد میں علماء کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر سلطان کا کوئی فیصلہ قرآن و حدیث سے متصادم دکھائی دیتا تو علماء اس کو منسوخ کرنے کی سفارش کرسکتے تھے - اور سلطان پابند تھا کہ اپنے فیصلے کو واپس لے - سلطنت کے انتظامی معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے کمشنری اور اضلا ع کا نظام رائج کیا - جس سے اتنی بڑی مملکت کا اچھا انتظام ممکن ہوسکا - حسب مراتب ضلعی افسر کو بیگ ، کمشنر کو سنجق اور صوبیدار کو پاشا کا سرکاری لقب جاری کیا - دربار عثمانی کو باب عالی کا نام دیا گیا تھا - باب عالی میں باقائدہ امراء و وزراء و علماء کا مشترکہ اجلاس ہوتا جن میں سلطنت کے تمام امور پر کھل کر بات ہوتی - باب عالی کے اجلاس سنجیدہ اور متانت سے لبریز ہوتے - کسی قسم کا لعو و لعب کا شائبہ تک نہ تھا - دین کے معاملات میں سخت ترین رویہ اختیار رکھتا اور خود بھی پنج وقتہ نمازی عبادت گزار تھا - عالم دن کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری سے بھی خاص انسیت تھی اور خود بھی بہت عمدہ شعر موزوں کرتا - ان سب کے ساتھ ساتھ سلطان اپنی رعایا پر بہت مہربان تھا - فوج کے ساتھ اس کا برتاؤ ہمیشہ شفیقانہ رہا - سلطان کے ابتدائی دور میں عثمانی سلطنت میں جو شورشیں اٹھیں ان کو نہایت کامیابی کے ساتھ فرو کرنا اس کے ماہرانہ انتظامی معاملات کا منہ بولتا ثبوت ہیں - سلطان نے اپنی وفات پر پیچھے دو بیٹے چھوڑے جن میں ایک بیٹا بازید خان اور دوسرا بیٹا شہزادہ جمشید تھا - سلطان کی وفات کو وقت دونوں بیٹے اسلامبول ( موجودہ استمبول ) میں موجود نہیں تھے - بڑا شہزادہ بازید اماسیہ کا گورنر تھا اور چھوٹا شہزادہ جمشید صوبہ قرمان (کریمیا )کا گورنر تھا - سلطان کی وفات کے نو دنوں بعد شہزادہ بایزید اسلامبول پہنچا - اس وقت بایزید کی عمر 35 سال اور جمشید کی عمر لگ بھگ 22 سال کی تھی - جیسا کہ میں پچھلی قسط میں بتا چکا ہوں کہ سلطان مرحوم نے اپنے وزیر ا عظم قیدوق کو اٹلی کی جانب سپہ سالار بنا کر بھیجا تھا اور اس کی جگہ محمد پاشا کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا - محمد پاشا نے جمشید کو تخت پر بٹھانے کی غرض سے بایزید سے سلطاں کی وفات کی خبر چھپائی اور جمشید کو خفیہ پیغام دے کر اسلامبول طلب کیا - مگر اس سازش کی اطلا ع وفاداروں تک پہنچ چکی تھی اور بایزید فورا اسلامبول کے لئے روانہ ہوگیا - ینگ چری افواج نے محمد پاشا کو قتل کردیا اور اسحاق پاشا کو وزارت عظمی پر فائز کردیا - جانثار افواج کی خود سری نے مرکز میں بد انتظامی کی حد عبور کرتے ہوئے مختلف محکموں پر اپنا قبضہ جما لیا- ادھر دوسری طرف سپہ سالار قیدوق جو اٹلی کے محا ذ پر تھا اپنی جگہ کسی اور کو کمان دے کر الٹے پیروں اسلامبول کی جانب پلٹا تاکہ بد انتظامی پر قابو پایا جاسکے - بایزید جب اماسیہ سے روانہ ہوا تو اپنے ساتھ چار ہزار کا لشکر بھی لیکر آیا تھا - اس نے آتے ہی سلطنت کا انتظام سنبھالا اور جمشید سے سخت لڑائی ہوئی - شہزادہ جمشید کو پاپائے اعظم اور یوروپ کے کئی سرداروں کی درپردہ حمایت بھی حاصل تھی - ادھر ینگ چری افواج نے شہزادہ بایزید کی حکومت سے مزید شاہی خزانے سے امداد کا معاہدہ کیا اور اپنے لئے مزید مراعات منظور کروالیں - محمد پاشا شہزادہ جمشید کو حکومت دینا چاہتا تھا جبکہ ینگ چری فوج مراعات کے بدلے میں بایزید کو سلطان تسلیم کر چکی تھیں - ایسے میں قیدوق بھی اٹلی کے محاذ سے واپس آچکا تھا اس نے بھی حالات دیکھتے ہوئے شہزادہ بایزید کی بیعت منظور کرلی - مگر عثمانی سلطنت میں بغاوت کی چنگاری ابھی بجھی نہیں تھی - چھوٹے شہزادے جمشید نے ایشیائے کوچک کے علاقوں میں گڑ بڑ مچانی شروع کی اور بہت سے علاقوں کا انتظام سنبھال لیا - شہر بروصہ کا انتظام شہزادہ جمشید اور اس کی وفادار فوج کے ہاتھ لگ چکا تھا - شہزادہ جمشید نے بروصہ سے اپنے بڑے بھائی سلطان بایزید کے نام ایک مکتوب بھیجا جس میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ بڑے بھائی کی مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ " بھائی ہم دونوں نے انتہائی کرب کے ساتھ ابا جان کی جدائی اور موت کا غم برداشت کیا ہے - میرے علم میں نہیں کہ ابا جان نے اپنی زندگی میں آپ کو یا مجھ کو اپنی ولی عہد نامزد کیا ہو - اسلئے آپ تنہا اس سلطنت کے وارث نہیں قرار پاتے - با ادب اور با احترام ہوکر آپ سے درخوا ست کرتا ہوں کہ ایشیائی مقبوضات میرے ماتحت رہنے دیں اور آپ خود یوروپ کے مفتوحہ علاقوں کی حکمرانی سنبھال لیں -" اس مکتوب کا جواب بایزید نے یہ کہہ کر دیا کہ " ناممکن ! یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک نیام میں دو تلواروں کی جگہ پیدا کی جاسکے " قسطنطنیہ میں سلطان محمد فاتح کی بہن موجود تھیں اس نے بایزید کو سمجھایا کہ دونوں بھایوں کا آپس میں لڑنا اچھا نہیں - اس سے عیسائی اور رومن فائدہ اٹھاسکتے ہیں ،منا سب یہی ہے کہ جمشید کو اشیاۓ کوچک کا انتظام دے دو اور با قی سلطنت تم اپنے ہاتھ میں رکھو - بایزید نے پھوپھی کی بات کا بھی پاس نہ رکھا اور اتنا کہا کہ " میں زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہوں کہ اس کی بیت المقدس معہ عیال کے جانے دیا جاسکتا ہے اور کرییمیا کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ مستقلا اس کے نام کیا جاسکتا ہے -" بہر حال دونوں شہزادوں کے درمیان مصلحت کی کوئی سبیل نہ نکل پائی اور بلآخر جون 1481 عیسوی میں دونوں کے درمیان جنگ ہوئی اور اس لڑائی میں شہزادہ جمشید کو شکست ہوئی اور وہ یوروپ کے مختلف ممالک میں در بدر رہا آخر کار اٹلی کی جانب فرار ہوگیا - جہاں اس نے زندگی کے تیرہ سال گزارے - اور 36 سال کی عمر میں انتقال کیا اور شہر گاٹیا میں دفن ہوا - سلطان بایزید نے481 عیسوی سے 1512 عیسوی تک عثمانی سلطنت پر حکرانی کی - دونوں شہزادوں کے مابین اس اقتدار کی اس خونی کہانی کا انجام نہایت بھیانک نکلا - جس وقت ان کے مابین جنگ جاری تھی اٹلی کے شہر اٹرانٹو جہاں ترک قبضہ کرچکے تھے اور روما پر حملے کی پوزیشن میں تھے - روما کے پوپ نے سلطان کے مرنے اور دونوں بھائیوں کے درمیاں قبضے کی جنگ کا احوال سنا تو یوروپ کے عیسایوں کو صلیبی جنگ کے لئے آمادہ کرلیا کہ آخری موقع ہے کہ اٹلی کو مکمل آزاد کروالیا جائے - چناچہ پو پ روما کی اپیل پر اٹرانٹو پر حملے کی تیاری کرلی گئی - ترک سپہ سالار نے قسطنطنیہ سے مدد طلب کی مگر بے سود - دونوں شہزادے آپس میں برسر پیکار تھے مدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا - سپہ سالار نے جب عثمانی مرکز سے مدد نہ ملنے کا یقین ہوگیا تو اس نے عیسایوں سے دب کر صلح کی شرائط پیش کیں کہ ہماری جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے تو ہم اٹرانٹو کا قبضہ چھوڑنے پر تیار ہیں - چناچہ صلح نامے پر دستخط ہوئے اور ترک افواج نے اٹرانٹو کا قبضہ ختم کرکے مرکزی دروازہ کھول دیا - ابھی ترک افواج شہر سے نکلنے کی تیاری میں تھیں کہ عیسائیوں نے صلح نامے سے روگردانی کرتے ہوئے ترک افواج پر بڑا حملہ کردیا اور ترکوں کا بےدریغ قتل عام شروع ہوگیا ، یہاں تک کہ شہر اٹرانٹو کی گلیاں بازار ترک فوج کے خون سے لبریز ہو گئے - وزیر اعظم قیدوق جس نے اٹلی اور روما کی فتح کے لئے اٹلی کے دل اور مرکز اٹرانٹو پر قبضہ کیا تھا - وہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا -قیدوق پلٹ کر اٹرانٹو نہیں جا سکا کہ ترک قبضے کو مستحکم کرتا اور یوں آپس کی اقتدار کی ہولناک جنگ نے اٹلی کو عثمانی سلطنت کا حصہ بننے سے محروم کردیا -

شہزادہ جمشید کی بے بسی سودھو

عثمانی سلطان بایزید اور شہزادہ جمشید کے مابین اقتدار کی یہ جنگ نہ صرف عثمانی سلطنت بلکہ عالم اسلام کے لئے بھی بیحد نقصان کا سبب بنی - واضح رہے کہ اس وقت مسلمانوں کی خلافت بنو عباس کے پاس تھی جس کا مرکز مصر تھا اور عباسی خلیفہ بھی مصر میں مقیم تھا - شہزادہ جمشید اپنے بھائی سلطان بایزید کے مقابلے میں ایشیائے کوچک اور بروصہ شہر میں شکست دوچار ہوا اور چند جان نثار شہہ سواروں والدہ اور بیوی کو ساتھ لیکر مصر کی جانب روانہ ہوگیا - قسمت کی خرابی دیکھئے کہ ابھی شہزادے کا شکست خوردہ قافلہ عثمانی سلطنت کی حدود میں ہی تھا کہ ایک ترک سردار نے اس قافلے پر حملہ کردیا - بمشکل تمام شہزادہ اپنے قافلے کو بچانے میں کامیاب ہو پایا - مگر اس کا سارا مال لٹ چکا تھا - مصر میں مملوک خاندان کی حکمرانی تھی جو خاندان چراکسہ کے نام سے مشہور تھا - بادشاہ کا نام ابو سعید قائد بیگ تھا

جیسے ہی شہزادہ جمشید لٹا پٹا بے سرو ساماں شکست خوردہ قافلہ مصر کی حدود میں داخل ہوا تو مصر کے حا کم ابو سعید قائد بیگ نے اس کا شاہی مہمان کے طور پر استقبال کیا - اور نہایت تکریم کے ساتھ اپنے شاہی محل میں جگہ دی - بایزید کو جب اس بارے میں علم ہو ا تو اس نے سعید بیگ سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ رکھا اور والدہ کی خیر خیریت بھی معلوم کرتا رہا - اس دوران سعید بیگ نے عسکری اور مالی اعتبار سے شہزادہ جمشید کی ہر ممکن مدد فراہم کی - یہاں تک کہ بہت جلد شہزادہ جمشید اپنی فوج بنانے میں کامیاب ہوگیا - اس مرحلے پر ایشیا ئے کوچک کے کچھ سرداروں نے بھی جمشید کو بھرپور مدد کی یقین دہانی کروائی - چناچہ شہزادہ جمشید ایک بار پھر مصر کی عسکری و ما لی امداد کے زور پر عثمانی سلطنت پر قبضے کے خواب دیکھنے لگا - 1482 عیسوی میں شہزادہ جمشید اپنے لشکر کے ساتھ ایک بار پھر عثمانی سلطنت میں داخل ہوا - بہت سے قبائلی ترک سردار شہزادہ جمشید کے ساتھ مل گئے ابتداء میں شہزادہ جمشید کو کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں - مگر سلطان بایزید نے اس بار اس کے تدارک کے لئے اپنےسپہ سالار احمد قیدوق کو روانہ کیا- دونوں جانب سے خونی معرکہ ہوا - مگر اس دوران قبائلی ترک سرداروں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے سلطان بایزید کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا اور عین میدان جنگ میں جمشید کی فوج تنہا رہ گئی - شہزادہ جمشید کے لشکر کا خاصہ جانی نقصان ہوا - بمشکل تیس جانثار اور شہزادہ جمشید جا ن بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوسکے - مارے شرمندگی کے جمشید نے مصر واپس جانے سے گریز کیا اور نہایت عجلت میں روڈس کے عیسائی حکمران کو خط لکھا کہ اگر تم مجھ کو پناہ دے سکتے ہو تو میں عثمانی سلطنت پر قبضہ کرنے کے بعد تمہارا بہت خیال رکھوں گا - روڈس کے عیسائی حکمران نے اس تجویز پر فورا ہامی بھر لی اور اندروں خانہ ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے جب جمشید عثمانی سلطنت پر قبضہ کرلے گا تو روڈس کے حکمران اور حکومت کے لئے مالی امداد فراہم کرنے کا پابند ہوگا اور تجارتی راستوں سے محصول اٹھا لیا جائے گا - ان شرائط کے طے پا جانے کے بعد شہزادہ جمشید اپنے تیس جاں نثاروں کے ساتھ روڈس کی جانب چلا گیا - اس دوران مصر کے سعید قائد بیگ ، جمشید کی والدہ اور بیوی نے بہت اصرار کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے - مگر قسمت کو یہ منظور نہ تھا - اور شہزادہ جمشید روڈس کے حکمران کا مہمان بن گیا - یہاں آکر معلوم ہوا کہ شہزادہ شاہی مہمان نہیں بلکہ شاہی قیدی بن چکا ہے - روڈس کی پارلیمنٹ کے سربراہ ڈی آبسن نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عثمانی سلطان بایزید کو مراسلہ بھیجا کہ تمہارا بھائی ہماری قید میں ہے - اگر تم چاہتے ہو کہ ہم اس کو تمہارے حوالے کردیں تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ تم سلطنت عثمانی کی تمام بندر گاہوں کو ہماری تجارت کے لئے راہداری دو اور محصولات کو یکسر ختم کردو - اس کے علاوہ سالانہ 45 ہزار روپیہ شہزادے کے اخراجات کی مد میں بجھوانے کا وعدہ کرو - ورنہ ہم اس کو تمہاری سلطنت کی جانب بھیج دیں گے جہاں یہ تم سے خانہ جنگی کرتا رہے گا - سلطان بایزید نے اس کی ان مکروہ شرائط کو منظور کرتے ہوئے سالانہ رقم بھجوادی اوررا ہداری کھولنے کا اعلان کیا- اس مکار حکمران نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیابلکہ مصر میں شہزادے کی والدہ کو خط لکھا کہ اگر اپنے بیٹے کی زندگی عزیز ہے تو ہم کو اخراجات اور شہزادے کی حفاظت کے صلے میں ڈیڑھ لاکھ سالانہ ہم کو دیتی رہو - اس کے بدل میں ہم شہزادے کی زندگی کی ضمانت دینے کو تیار ہیں - ماں آخر کو ماں تھی اس نے جیسے تیسے کرکے اور سعید قائد بیگ سے مالی مدد حاصل کرکے کسی طرح ڈی آ بسن کی پیسوں کی ہوس کو نہ صرف پورا کیا بلکہ ہر سال دیتے رہنے کا وعدہ بھی کیا - ادھر ڈی آبسن عثمانی سلطان بایزید اور مصر میں شہزادے کی ماں دونوں سے پیسہ بٹورتا رہا - دونوں بھائیوں کے درمیان اقتدار کی اس چپقلش نے عثمانی سلطنت کے وقار اور دبدبے کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا - شہزادہ جمشید عیسائی حکمرانوں کے ہاتھوں میں " سونے کی چڑیا " بن چکا تھا - شہزادے کی قید اور ذلت کی داستان نہایت عبرت انگیز ہے - ڈی آبسن پیسے وصولنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا ادراک بھی رکھتا تھا کہ کسی بھی وقت سلطان بایزید بلیک میلنگ سے تنگ آکر اس کے علاقے پر حملہ کرکے شہزادہ کو بازیاب کروالے گا - لہٰذا اس نے فوری طور پر شہزادہ جمشید کو فرانس کے شہر نائس بھیجنے کا ارادہ کیا - اور اس مقصد کے لئے پوپ سے مدد لی - فرانس کے حاکم کو پاپ نے رضامند کیا اور مالی مدد کا بھی وعدہ کیا - ڈی آبسن نے راتوں رات شہزادہ جمشید کو اس قلعے میں پہنچایا جو فرانس کے بادشاہ نے نائس شہر میں پناہ گاہ کے لئے خاص طور پر تیار کروایا تھا -یہی نہیں بلکہ شہزادے کی حفاظت کے لئے سپاہیوں کا ایک چاق و چوبند دستہ بھی مامور کیا - جمشید اب ایک حکمران کی قید سے نکل کر دوسرے عیسائی حاکم کی قید میں جاچکا تھا - اس کے تیس جانثاروں کو بھی اس کے ساتھ قید کیا گیا - جن کو علیحدہ رکھا گیا تھا - اور بعد میں ان سب کو قید کے دوران زہر دے کہ ہلاک کردیا گیا - نائس کے حکمران کے دل میں بھی پیسوں کی لالچ آچکی تھی چناچہ اب اس نے ڈی نائس سے شہزادے کی حفاظت کے لئے زیادہ رقم کا مطالبہ کردیا - اس مطالبے نے ڈی آبسن کے کان کھڑے کردئیے اس کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فرانس کا بادشاہ شہزادے کی جان کی حفاظت کے لئے بایزید سے الگ رقم مانگ لے - ادھرحا کم مصر ابو سعید نے نے ڈی آبسن کے پاس اپنا سفیر بھیجا جو نذرانے اور سلطان کا خصوصی پیغام لیکر پہنچا تھا کہ حسب وعدہ جمشید کو مصر کے حوالے کیا جائے - ابھی سفیر ڈی آ بسن کے محل میں ہی مقیم تھا کہ پوپ جس کا نام شینوس تھا وفات پا گیا - اس پوپ کی جگہ جو دوسرا پوپ آیا وہ اس کی نسبت زیادہ خبیث ثابت ہوا - اس پاپ کا نام اسکندر تھا - ڈی آبسن ابو سعید قائد بیگ کے مطالبے پر آنا کانی دکھانے لگا - کیونکہ حوالگی کے لئے فرانس کے بادشاہ کی رضامندی ضروری تھی - اور فرانس کا بادشاہ کسی طور پر سونے کی چڑیا شہزادہ جمشید کو حوالے کرنے پر تیار نہیں تھا -اس آنا کانی میں وقت گز رتا رہا اور حا کم مصر ابو سعید کا سفیر ناکام واپس آگیا - نیا پوپ اسکندر بہت شاطر نکلا -اس نے سلطان کے پاس اپنا نمائندہ جارج نامی سفیر کو بھیجا جس نے سالانہ رقم کے علاوہ تین لاکھ ڈاکٹ یکمشت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ رقم ملتے ہی ہم تمہارے دشمن یعنی جمشید کا خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیں گے - جس کا مطلب یہ تھا کہ شہزادے کو مار دیا جائے گا اور عثمانی سلطنت کے سر سے یہ بوجھ اتر جائے گا - ابھیعثمانی سلطان بایزید فیصلہ نہیں کرپایا تھا کہ اسکندر کو کیا جواب دیا جائے - الله کا کرنا یہ ہوا کہ1495 عیسوی میں جس دوران اسکندر کا سفیر سلطان کے دربار میں ہی تھا کہ فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم نے اٹلی پر حملہ کردیا - حملے کا مقصد یہی تھ اکہ فرانس شہزادے کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا تھا - پاپ اسکندر اس حملے کے ساتھ ہی روما سے بھگ کر سینٹ انجیلو کے قلعے میں پناہ لے چکا تھا - وہ اپنے ساتھ شہزادہ جمشید کو بھی لے آیا تھا - فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم اور اسکندر کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے جس میں طے پایا کہ شہزادہ جمشید چارلس ہشتم کی پناہ میں رہے گا - اس کی رو سے شہزادہ اٹلی کی قید سے نکل کر فرانس کی قید میں چلا گیا - جہاں نیپلز کے عقوبت خانے میں قید کردیا گیا - ڈی آبسن نے ایک اور چال چلی کہہ شہزادے کی ماں کو لکھا کہ اگر ڈیڑھ لاکھ روپیہ فورا ادا کیا جائے تو شہزادے کی بحفاظت مصر پہنچانے کی ضمانت لیتا ہوں - شہزادے کی ماں یعنی سلطان محمد فاتح کی بیوہ نے بیٹے کی رہائی کے عوض یہ رقم کسی طرح ڈی آبسن کے حوالے کی جس کے بعد ڈیآ بسن نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اب شہزادے کی اٹلی لے آیا جائے - حانلا نکہ وہ یہ بات جانتا تھا کہ فرانس کا بادشاہ کسی طور بھی شہزادے کو آزاد نہیں کرے گا - ایسا ہی ہوا - فرانس کے بادشاہ نے انکار کیا- پوپ نے دو عیسائی حکمرانوں میں بات بگڑتے دیکھی تو فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے با ہم تصفیہ کروایا کہ دس ہزار کی ضمانت دیتا ہوں کہ ڈی آبسن شہزادے کو اپنے پاس رکھے گا اور کسی مسلمان حا کم کے حوالے نہیں کرے گا - اس ضمانت کے بعد شہزادے کو اٹلی کی جانب روانہ کردیا گیا- اس حوالگی کے دوران فرانس کا سفیر اور پوپ اسکندر دونوں موجود تھے - پوپ اسکندر نے شہزادے کو مشورہ دیا کہ ایک صورت میں تمہاری آزادی ہو سکتی ہے کہ تم ہنگری کے بادشاہ کے مہمان بن جاؤ - مگر اس کی شرط یہ ہے کہ تم کو عیسائی مذھب اختیار کرنا ہوگا - میں تمہاری زندگی کی ضمانت دینے کو تیار ہوں - یہ وہ لمحہ تھا جہنا ایک طرف مسلسل قید و بند کی صعوبتیں اور دوسری جانب آزادی کی پیشکش - ایک لمحہ کی تاخیر کے بناء شہزادے نے پوپ اسکندر کی یہ پیشکش رد کردی اور اپنی قید پر مطمئن رہا - اس کے بعد شہزادے کو اٹلی کی جیل میں بند کردیا گیا - جہاں اس کو ایک مرتد حجام کے حوالے کیاگیا - جس نے شہزادے کے سر کے بال اتارے اور گنجا کیا - مرتد حجام درحقیقت پوپ کا آدمی تھا جو ہر ہفتے زہر آلود استرے سے شہزادے کی حجامت کرتا اور زخم لگا دیتا - اس طرح چند دنوں بعد زہر پورے جسم میں سرایت کر گیا اور شہزادہ جمشید اپنے انجام کو پہنچا - 14 فروری 1495 عیسوی کو انتقال ہوا اور گا ٹیا شہر میں تدفین عمل میں آئی - عبرت کا پہلو یہ ہے کہ سلطان بایزید اور شہزادہ جمشید کے باپ یعنی سلطان محمد فاتح نے جس دبدبے کے ساتھ یوروپ کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور فتوحات کا سلسلہ شروع کیا تھا -سلطان محمد فاتح کی موت کے بعد بھائیوں کی آپس کی جنگ اور کشمکش نے ان فتوحات کا سارا رعب و دبدبہ خاک میں ملا دیا - کہاں وہ وقت تھا کہ سلطان فاتح نے عیسائی حکمرانوں کو ملیامیٹ کرنے کے لئے لشکر جرار تیار کیا - روما اور ایران کی مملکتوں مینن بے چینی پھیل گئی تھی اور ان کو اپنی حکومتیں بچانی مشکل تھیں - اور کہاں یہ وقت کہ اب عثمانی شہزادہ عیسائی حکمرانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہورہا تھا -

اقتدار کی غلام گردشیں سودھو

سلطان بایزید ثانی مجموعی طور پر 32سال تک عثمانی سلطنت کے بادشاہ رہے- تاریخ میں ان کو مزاجا صلح پسند اور جنگ و جدل سے پرہیز رکھنے والے بادشاہ کے طور پر لکھا گیا ہے - مگر جس طرح کی عظیم سلطنت سلطان بایزید کے حصے میں آئی تھی اس کا تقاضہ تھا کہ وہ اپنے باپ سلطان محمد فاتح کی عظیم فتوحات کو آگے بڑھاتا - مگر ایسا نہ ہو سکا - بایزید نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلی کمزوری تو یہ دکھائی کہ ینگ چری فوج کے مطالبات پر ان کو سالانہ مراعات اور خزانے سے مالی امداد منظور کرلیں - آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس وقت کی خانہ جنگی کی کیفیت میں وقت کا تقاضہ ہو ، مگر جمشید کے معاملے میں روا رکھے جانے والے سلوک پر اٹلی اور روڈس کے عیسائی حکمرانوں کے آگے یوں خاموشی سے سر تسلیم خم کردینا اور کسی قسم کا تعرض نہ برتنا میری نظر میں سوائے بزدلی اور کم فہمی کے کچھ نہیں تھا - اس کا سب سے جانباز سپہ سالار احمد قیدوق پاشا جو نہ صرف اچھا منتظم تھا بلکہ فوج میں بھی نہایت مقبول تھا - پهر اٹرانٹو کے محاذ پر کامیاب جنگی کاروائی نے اس کی بہادری پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی - بایزید چاہتا تو اس سے فتوحات کے سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا تھا - لیکن بایزید نے اس اپنے اس با صلاحیت سپہ سالار کے ساتھ بہت برا رویہ رکھا - اور جب بھی احمد قیدوق پاشا نے بادشاہ کو توجہ دلائی کہ اس کی پالیسی عثمانی سلطنت کے مفاد میں نہیں ہے تو اس کو قید کروادیا - چونکہ احمد قیدوق فوج میں بہت مقبول تھا اس لئے فوج نے بادشاہ کے اس فیصلے پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے - مجبور ہوکر بایزید نے سپہ سالار کو رہا کرکے فوج کے حوالے کردیا ،مگر اس کے بعد فوج کو سرحدی علاقوں کے دور افتادہ مقام پر کسی مہم پر روانہ کردیا گیا - دارالحکومت فوج سے خالی ہوچکا تھا - بایزید نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے اس اہم سپہ سالار کو ایک مرتبہ پھر قید کرلیا اور قید کے دوران ہی قتل کروادیا - سلطنت عثمانیہ کا یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا - مصر کے مملوکی حکمران ایشیائے کوچک کے علاقوں پر حملے کرتے رہے اور سلطنت عثمانی ان کو روکنے میں ناکام رہی - مملوکی حکمرانوں نے کئی سرحدی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا - ا ن مملوکیوں سے سلطان بایزید نے امن کے معائدے بھی کئے اور مقبوضہ علاقے مملوکیوں کے پاس ہی رہے - تاہم اتنا ضرور ہوا کہ سلطان نے ان کو مجبور کیا کہ ان علاقوں کی آمدن حرمین شریفین کے اخراجات اور حجاج کی بہبود پر خرچ کی جائے گی - سلطان بایزید نے اپنے دور حکومت میں بحری فوج کو بہت ترقی دی اور مستحکم کیا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے اپنے بھائی جمشید اور عیسائی حکمرانوں کی جانب سے یہ خطرہ تھا کہ وہ کسی بھی وقت عثمانی سلطنت پر حملہ کرسکتے ہیں -اور ساتھ ہی ساتھ روڈس اٹلی اور دیگر مملکتوں سے امن کے معائدے بھی کئے - یہ وہی دور تھا جب شہزادہ جمشید ڈی آبسن کی قید میں تھا اور اندلس کے مظلوم مسلمانوں اور شاہ غرناطہ نے اندلس کو بچانے کیلئے سلطان بایزید ثانی سے مدد کی درخوا ست کی تھی - سلطان نےاسپین میں غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ کی مدد کی درخواست پر کوئی خاص توجہ نہ دی - مگر بہت تذبذب کا مظا ہرہ کر نے کے بعد نہایت معمولی بحری بیڑہ امیر البحر کمال رئیس کی قیادت میں اسپین کی جانب روانہ کیا جس میں چند بحری کشتیاں اور دو درمیانی درجے کے جنگی جہاز شامل تھے - یہ مدد اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق تھی - ڈوبتے ہوئے غرناطہ میں اسلامی حکومت کا چراغ گل ہونے کو تھا - آخر کار 892ھ بمطابق 1492ء میں اسپین میں آخری مسلم ریاست غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے عیسائی حکمرانوں ملکہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اسپین کی آخری ریاست غرناطہ بھی عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اس سقوط کے بعد معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن عیسائی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کردیا گیا۔ مسلمانوں کو جبرا عیسائی بنایا گیا جنہوں نے اس سے انکار کیا انہیں جلاوطن کردیا گیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ جب سلطان بایزید کو جمشید کے مرنے کی خبر ملی اور وہ عثمانی سلطنت پر عیسائیوں اور جمشید کے ممکنہ حملوں سے بے خوف ہویا تو اس نے یونان اٹلی اور وینس کے جزیروں پر بحری حملے شروع کئے - اس کا سبب بھی میری نگاہ میں یہ تھا کہ بایزید اپنی ینگ چری فوج کو مصروف رکھنا چاہتا تھا - اس کے علاوہ ہرزیگووینا کی ریاست جو محمد فاتح کے دورسے عثمانی سلطنت کی باجگذار تھی سلطان بایزید نے اسے مکمل فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنایا۔ ہنگری اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن فتح کی نوبت نہ آ سکی اور بالآخر صلح ہو گئی۔ بایزید کے دور میں چھوٹے بڑے کئی بحری معرکے بھی ہوئے اور 1498ء میں وینس سے ہونے والی جنگ میں ترکوں نے تین قلعے فتح کیے۔ بایزید کے دور میں ہی ترکی اور مصر کی دشمنی کا آغاز ہوا۔ مملوکوں سے دشمنی کی وجہ تویہ تھی کہ مصر کے مملوکی حکمرانوں نے جمشید کی حمایت کی تھی دوسری وجہ مملوکوں کا ایشائے کوچک کے علاقوں پر قبضہ کرنا تھا - جبکہ مشرقی سمت ایران میں صفوی حکومت کے قیام سے عثمانی سلطنت میں بے چینی پائی جاتی تھی - ایرانی صفوی حکمران سرحدی علاقوں میں مستقل شورشیں برپا کر رہے تھے - بایزید نے ہی سقوط غرناطہ کے بعد وہاں سے نکالے گئے مسلمانوں اور یہودیوں کو بچانے کے لیے امیر البحر کمال رئیس کی زیر قیادت کئی بحری مہمات بھیجیں جنہوں نے ہزاروں مسلمانوں اور یہودیوں کی جانیں بچائیں۔ بایزید کا خاتمہ بھی عجب انتشار و افتراق کے عالم میں ہوا -سلطان بایزید ثانی کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے پانچ اوائل عمری میں وفات پاگئے تین بیٹے جن میں احمد ، سلیم اور قرقود شامل تھے، قرقود سب سے بڑا تھا جبکہ سلیم سب سے چھوٹا تھا -- اقتدار کے طلب تینوں بھائیوں کو آمنے سامنے لے آئی اور بیٹوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ قرنود اور احمد ایشیا ئے کوچک میں عامل و فرماں روا تھے - جانشینی کے لیے سلطان کی نظر انتخاب دوسرے بیٹے احمد پر تھی لیکن چھوٹا بیٹا سلیم فوجی قابلیت کا حامل تھا اور فوج میں زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا جس کی بناء پر فوج اس کی پشت پر تھی ۔ سلیم اپنے باپ کی نیت سے باخبر تھا - فوج سے ساز باز کرنے کے بعد شہزادہ سلیم طرابزون سے قسطنطنیہ روانہ ہوا۔ بایزید کو جب شہزادہ سلیم کی آمد اور ارا دوں کا اندازہ ہوا تو سلطان نے اسے واپس جانے کا حکم دیا لیکن طاقت کے نشے میں چور سلیم اپنے باپ یعنی سلطان بایزید سے جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔ سلطان اور شہزادے کے درمیان جنگ ہوئی جس میں شہزادہ سلیم کو شکست ہوئی اور اس نے جان بچانے کے لئے کریمیا جانے کا قصد کیا اور یہی اس کے لئے بہتر تھا کیونکہ کریمیا کا فرمانروا شہزادہ سلیم کا سسر تھا تھا۔ سسر کی مدد سےسلیم دوبارہ قسطنطنیہ آیا اور فوج کی مدد حاصل کرنے کے بعد سلیم نے اپنے باپ سے سلطنت سے دستبرداری کا مطالبہ کر دیا۔ فوج نے بایزید کا محاصرہ کرلیا - فوج کے عزائم دیکھتے ہوئے سلطان بایزید نے 1512ء میں سلیم کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا اور تخت چھوڑ دیا۔ زندگی کے بقیہ ایام ایشیائے کوچک شہر ڈیمو ٹیکا میں گذارنے کی خواہش لے کر سفر کا آغاز کردیا لیکن وہاں تک ہی نہ پہنچ سکا اور تین دن بعد راستے میں ہی انتقال کیا - سلیم نے ان کی میت استنبول منگوائی اور بایزید مسجد کے پہلو میں دفن کیا - سلطان سلیم اول (مقب بہ وز ) بن سلطان بایزید ثانی نے اپنے والد بایزید ثانی کو تخت سے اتارا اور خود حکومت سنبھالی۔ شاہی رسم و رواج کے مطابق انہوں نے تخت سنبھالتے ہی اپنے تمام بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کر ڈالا تھا - سلطان سلیم اول (مقب بہ وز ) بن سلطان بایزید ثانی عثمانی سلطنت کے نویں فرمانروا اور پہلے امیر المومنین کہلا ئے - جس کی وجہ یہ تھی کہ آخری عباسی خلیفہ محمد المتوکل الثانی نے سلطان سلیم اول کے ہاتھ پر بیعت کرکے انہیں خلیفہ تسلیم کیا - سلطان سلیم اول نے عثمانی سلطنت کے مشرقی اور مغربی سرحدوں کی طرف بہت سے علاقوں کو فتح کیا اور ایران کے صفوی بادشاہ کو بارہا مختلف معرکوں میں شکست سے دوچار کیا - جس کی وجہ سے ان کو بہ وز یعنی شکرا بھی کہا جاتاہے بمعنی (تیز و ظالم ) ا س نے جنگ مرج دابق اور جنگ ردانیہ میں مملوکوں کو شکست دے کر شام، فلسطین اور مصر کو عثمانی قلمرو میں شامل کیا۔ مملوکوں کی اس شکست سے حجاز اور اس میں واقع مکہ و مدینہ کے مقدس شہر بھی عثمانی سلطنت کا حصہ قرار پائے ۔ اس فتح کے بعد قاہرہ میں مملوکوں کے زیر نگیں آخری عباسی خلیفہ المتوکل ثالث سلیم اول کے ہاتھوں خلافت سے دستبردار ہوگیا اور یوں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان کو منتقل ہوگئی۔ اسطرح مسلمانوں کی خلافت کا مرکز قسطنطنیہ اور عثمانی سلطنت قرار پایا -اور یوں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان میں منتقل ہوگئی ۔ سلطان سلیم اول نے ایران کے شاہ اسماعیل اول کو جنگ چالدران میں بدترین شکست دی اور صفویوں کے دارالحکومت تبریز پر بھی قبضہ کرلیا تاہم اس نے دانستہ طور پر ایران کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا۔کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل وجہ سلطان سلیم کی اہل تشیع سے شدید نفرت تھی اور چونکہ ایران میں اہل تشیع کی اکثریت تھی لہذا سلطان سلیم ا یران کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے پر رضامند نہیں ہوا - اپنے دور حکومت میں سلیم نے عثمانی سلطنت کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلومیٹر سے 65 لاکھ مربع کلومیٹر تک پہنچادیا۔ عباسی خلفاء کے دور میں خلیفہ کو حاکم الحرمین الشریفین کے لقب سے پکارا جاتا تھا - لیکن سلطان سلیم نے اس کی جگہ خادم الحرمین الشریفین کہلانے کا فرمان جاری کیا - 1520 عیسوی میں سلطان سلیم بن بایزید ثانی روڈس کے عیسائی بادشاہ کی سرکوبی کے لئے اپنے لشکر کو تیار کر رہے تھے کہ داعی اجل کا بلا وہ آگیا اورجب سلطان سلیم اول بن بایزید ثانی بہ وز قسطنطنیہ سے اورنا کی جانب عازم سفر تھے کہ راستے میں ہی انتقال ہوگیا - انتقال کے وقت سلطان سلیم کی عمر 54 سال تھی سلطان سلیم کا عہد اقتدار نو سال کے عرصے پر محیط رہا - ان کا دور اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ یہ عباسی خلافت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کے پہلے عثمانی امیر المومنین قرار پائے -


یورپ کی تباہی سودھو

سلطان سلیم بن بایزید ثانی کے انتقال کے بعد سلطان سليمان اول‎

سلطنت عثمانیہ کے دسویں فرمانروا اور خلافت اسلامیہ کے دوسرے عثمانی خلیفہ قرار پائے - 1520ء سے 1566ء تک 46 سال تک حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔سلطان سليمان اول‎کا شمار سلطنت عثمانیہ کے سب سے عظیم اور مدبر حکمران کے طور پر کیا جاتا ہے انہوں نے اپنے بے مثا ل عدل و انصاف اور لاجواب انتظام کی بدولت پوری مملکت اسلامیہ کو خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ انہوں نے مملکت کے لئے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر انہیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے - اہل مغرب ان کی عظمت کا اس قدر معترف ہے کہ مغربی مصنفین انہیں سلیمان ذیشان یا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کے زمانے میں متعدد اعلی عدالتی قوانین وضع ہوئے اور انتظامی ضابطے بنائے گئے - اور ایسے سماجی معاشرتی قواعد رائج کئے جن کی بنیاد شریعت اسلامی پر رکھی گئی تھی - امیر المومنین سلمان قانونی نے اپنے چھیالیس سالہ دور اقتدار میں ایک دن کے لئے بھی جہاد کو موقوف نہیں ہونے دیا -اور مسلسل جہاد کے ذریعے خلافت کی حدود کو توسیع دیتے رہے یہاں تک کہ اسلامی خلافت کی حدود کو ایشیا، یورپ اور افریقه کی انتہاؤ ں تک پہنچا دیا-ان کی حکومت میں سرزمین حجاز، ترکی، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔ اس کے بعد سلطنت عثمانیہ اور خلافت اسلامیہ ان حدود سے آگے نہیں بڑھ سکی - سلمان اول کو یہ انتظامی و جہادی صلاحیتیں اپنے والد سلطان سلیم بن بایزید ثانی سے یوں سمجھیں ورثے میں ملی تھیں - انہوں اپنے والد سے 16 سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے بطور خاص اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ ابتدائی عمر میں ہی سلمان دینی تعلیم سے کماحقه واقف ہو جائیں -سات سال کی عمرمیں سلیمان کوسائنس، تاریخ، ادب، الہیات اور جنگی فنون سیکھنے کے لیے توپ کاپی محل، قسطنطنیہ میں بھیجا گیاتھا۔ سلیمان کی انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت کھل کر سامنے آئیں جب ان کو سلطنت کے مختلف صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے دادا سلطان بایزید ثانی کے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے مغنیسیا، ادرنہ اور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ سلیم اول نے جب ایران پر حملہ کیا تو سلیمان نائب کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں موجود تھے۔ سلمان اول قانونی کے دور میں خلافت کے زیر اثر علاقے ہوں یا وہ علاقے جو براہ راست سلطنت میں نہیں آتے تھے جیسے کہ ہندوستان، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک ان سب میں خلافت کا معنوی اثر و رسوخ تھا - تمام دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے عثمانی خلافت اسلامیہ ہی امیدوں کا مرکز تھی - سارے مسلمان مرکز خلافت کا نہ صرف احترام کرتے تھے بلکہ اسے روحانی اور دنیاوی مرکز تصور کرتے تھے - ماسوائے ایران کی صفوی حکومت کے - عثمانیوں کے علاوہ دیگر مسلمان حکمران بھی خلیفہ سے سند حکومت حاصل کرنے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے تھے اور اس وقت تک تخت حکومت پر نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ خلیفہ کی جانب سے خلعت فرمان جاری نہیں کردیا جاتا - خلیفہ کی جانب سے خلعت فرماں روائی جاری ہونے کے بعد اس بات کا اہتمام ہوتا تھا کہ دربار منعقد ہو جس میں خلیفہ کی جانب سے جاری کے گئے فرمان کو پڑھ کر سنایا جاتا اور خفہ کا نامزد سفیر یا نمائندہ نئے بادشاہ کو خلعت پہناتا اور کمر میں تلوار دیتا ، اقرار و پیمان لیتا - عدل و انصاف کی تاکید کرتا اور سند حکمرانی پڑھ کر سناتا - اور وہ علاقے جہاں مسلمان اقلیت میں تھے وہاں کے لئے سلطان و خلیفہ کی طرف سے خصوصی رقم مختص کی جاتی جس سے دینی و دنیوی تعلیم کا بندوبست ہوتا - یہی نہیں بلکہ وہاں کی غیر مسلم حکومتوں کے حکمرانوں کو مسلمانوں کے ساتھ آزادانہ مذہبی شعائر اور رسوم عبادت کی آزادی کا پابند کیا جاتا - جہاں ایسا ممکن نہیں تھا وہاں سیاسی دباؤ بھی استمعال کیا گیا - جس کی بیشمار مثالیں موجود ہیں - سلیمان نے اپنے 46 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے انتھک محنت کی اس کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ جس دور میں سلطان بایزید نے اور سلطان سلیم نے حکومت کی اس زمانے میں مسیحی و روم کی طاقتیں مغربی اقوام صلیبی پرچم تلے متحد ہورہی تھیں اور کلیسا پاپائے روم کی قیادت میں بڑی بڑی شخصیات کے جلو میں خلافت اسلامیہ کے سامنے آنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر چکی تھیں - شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ اسپین، بیلجیئم، ہالینڈ اور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے " صلیبی پکار " پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اختلافات پس پشت ڈال دئیے تھے -ان کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جائے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 26 سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے سلیمان اعظم نے اپنی تخت نشینی کے بعد خیرالدین باربروسہ کو پورے عثمانی بحری بیڑے کا سپریم کمانڈر ایڈمرل یعنی امیر البحر مقرر کیا - امیر البحرخیر الدین شہنشاہ چارلس اور صلیبیوں پر قہر بن کر ٹوٹا بیش تر عیسائی بادشاہوں کے فوجی بیڑے سمندر برد ہوگئے اور بے شمار نہروں، ساحلوں اور بندرگاہوں کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا گیا - تجارتی راہداریوں اور سمندروں پر عثمانی خلافت کا راج مضبوط ہوگیا ۔ مراکش، فیض، الجیریا، تیونس اور طرابلس (ٹریپولی) کے علاقے بھی عثمانیوں کے زیرنگیں آچکے تھے۔ خلیفہ بننے کے بعد سلیمان کی زندگی کا پہلا معرکہ فتح بلغراد تھی۔ ہنگری کے بادشاہ لوئی ثانی سلطان سلیم کے زمانے سے ہی عثمانی سلطنت کے لئے مشکلات کھڑی کر رہا تھا ۔ سلیمان نے خلیفہ بننے کے بعد شاہ ہنگری کے پاس اپنے سفیر بھیجا جس نے سلیمان کی جانب سے خراج کی ادائیگی کا مطالبہ شاہ ہنگری کو پہنچایا۔ شاہ ہنگری طاقت کے نشے میں مست تھا اس نےعثمانی سلطنت کے سفیر کو قتل کروا دیا۔ سلیمان کو خبر ملی تو انہوں نے فوجی تیاری کا حکم دیا۔ ماہ رمضان المبارک میں یہ مہم سر کی گئی۔ 1521ء میں اسلامی فوج بلغراد پر قبضہ کر چکی تھی۔ سلیمان نے بلغراد کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا اور وہاں بڑے کلیسا کی صفائی کروائی اور نماز ادا کی اور اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ بلغراد جسے سرب زبان میں بوئیگراد یعنی سفید شہر کہا جاتا ہے مسلمان سلطنت کا حصہ بن گیا - جزیرہ رہوڈس کا حاکم اپنی اچھی قسمت کے سبب عثمانیوں کے حملوں سے اب تک تو بچتا آیا تھا - یہ بحری قزاق عثمانی قافلوں کو راستے میں لوٹ لیا کرتے تھے - سلمان قانونی نے اس مرتبہ جزیرے پر مکمل تیاری کے ساتھ حملہ کیا - رہوڈس کے قلعے میں سینٹ جان کے نائٹس حملے سے بچنے کی تدبیریں نکالنے میں مصروف تھے - پاس کی رومن طاقتوں سے مدد مانگنے کے لئے سفراء کو بھیجا جارہا تھا - شہریوں کو صلیبوں کے ساتھ نائٹس کی کمان میں دیا جاچکا تھا کہ سلطان سلمان اول قانونی نے 300 جنگی جہاز اور 400 باربرداری کے جہاز وں کے ساتھ 4 رمضان بمطابق 28 جولائی کو عثمانی افواج ساحل پر اتا ر دیں اور 8 رمضان بمطابق یکم اگست کو رہوڈس کا محاصرہ شروع کیا، یہ محاصرہ 5 ماہ تک جاری رہا۔ بالآخر رہوڈس کے حاکم نے سلطان سلمان کی شرائط پر ہتھیار ڈال دیئے۔ سلیمان نے جزیرہ روڈرس کے نائٹس اور فوج کو 12 دن کی مہلت دی اور اعلی ظرفی سے کام لیتے ہوئے انہیں اجازت دی کہ وہ اپنا سامان اور اسلحہ لے جاسکتے ہیں اور ضرورت پڑے تو عثمانی جہازوں کو بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ رہوڈس کے مسیحی باشندے یہاں سے نکل کر جزیرہ کریٹ چلے گئے تیسرا بڑ ا حملہ (مجارستان) ہنگری پر ہوا یہ یورپ کا وہ ملک تھا جس کے اطراف میں کوئی سمندر نہیں ہے اور اس کے اردگرد آسٹریا، سلواکیہ، یوکرائن، رومانیہ، کروشیا اور سلوانیہ واقع ہیں۔ مشہور دریا دریائے ڈینیوب کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ سلطان سلمان 1526 میں ایک لاکھ سپاہیوں کی فوج کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اس وقت 300 توپیں بھی فوج کے ساتھ تھیں۔ دار الحکو مت پہنچنے سے پہلے پہلے ہی مہاچ کے مقام پر اسلامی افواج ہنگری کی فوجوں کے مدمقابل ہوئیں۔ مسلمان اس قدر جوش و جذبے سے لڑے کہ محض دو سے تین گھنٹوں میں جنگ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگیا اور شاہ لوئی نے بھاگنے میں عافیت جانی - مگر دریا میں ڈوب کر ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن گیا - سلیمان نے اب ہنگری کے دارالحکومت بوڈا پر فیصلہ کن حملے کا فیصلہ کیا ۔ 10 ستمبر 1526ء کو دارلحکومت بوڈ ا پسٹ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہو چکا تھا ۔ شاہ لوئی بے اولاد تھا - خلیفہ سلیمان نے مقامی امراء کے مشورے سے کاؤنٹ زاپولیا کو وہاں کا حاکم مقرر کیا جزیہ مقرر کرنے کے بعد واپس چلے آئے اس کے کچھ عرصے بعد شہنشاہ چارلس پنجم کے بھائی فرڈینننڈ نے ہنگری کا حکمران بننے کے خواب دیکھنے شروع کردیئے اور اپنے ان خوابوں کو حقیقت بنانے کی غرض سے اس نے ہنگری پر حملہ کیا اور کاؤنٹ زاپولیا کو شکست دے کر ہنگری پر قبضہ جما لیا -کاؤنٹ زاپولیا نے پولینڈ میں پناہ لے لی ۔ پولینڈ پہنچ کر کاؤنٹ زاپولیا نے سلطان سے فریاد کی۔ فرڈیننڈ نے اس موقع پرسلطان سلمان سے مطالبہ کہ ہنگری کے جن شہروں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا تھا وہ بھی واپس اس کے حوالے کردئیے جائیں - سلمان قانونی نے زاپولیا کی مدد کا فیصلہ کرلیا۔ 12 رمضان المبارک 935ھ بمطابق 20 مئی 1529ء کو سلطان ایک بڑی فوج لے کر بوڈا پہنچے۔ 6 روزہ محاصرے کے بعد معمولی جھڑپ کرکے قلعہ فتح کر لیا گیا ۔ اس فتح کے بعد ذپولیا کو وہاں کا حکم مقرر کیا- اور سلطان نے نیا محاذ تلاش کرلیا تھا - اس بار سلطان نے آسٹریا کو قابو کرنے کا منصوبہ بنایا - چناچہ 27ستمبر 1529ء کو ویانا کا محاصرہ شروع ہوگیا - موسم شدید سرد تھا - رسد میں مشکلات کا سامنا تھا - مگر افواج محاذ پر موجود رہیں بڑی توپیں جو ہنگری میں استمعال ہوئیں تھیں خراب موسم کے سبب ویانا نہیں پہنچ پا رہی تھیں - لہذا فیصلہ ہوا کہ محاصرہ اٹھا لیا جائے - اس محاصرے کے تین سال بعد سلطان سلمان دوبارہ آسٹریا کی جانب نکلا اور گونز کا علاقہ فتح کیا - یہ فتح حاصل کرنے میں تین ماہ کا وقت صرف ہوا - اس کے بعد آسٹریا بھی مسلمانوں کے زیر نگین آگیا - سلطان نے ان کو بھی جذ یہ دینے پر راضی کیا اور واپس قسطنطنیہ پہنچ گئے -۔ اب سلطان کو اپنی افواج کو تیونس کی جانب بھیجنا پڑا - اسطرح کامیابیوں کا سفر جاری رہا اور 1534 میں تیونس بھی عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا - ایران کی صفوی حکومتیں ہر دور میں ہی عثمانیوں کے مسائل کھڑی کرتی رہتی تھیں چناچہ سلطان نے اب کی مرتبہ صفوی حکمرانوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور سلطان نے اپنے وزیر اعظم ابراہیم کو کمانڈ دے کر ایران روانہ کیا - 941ھ بمطابق جولائی 1534ء میں تبریز پر قبضہ کرلیا۔ ستمبر میں سلطان بذات خود اس شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوا ۔ یہاں سےعثمانی ا فوا ج نے ہمدان کے راستے بغداد کا رخ کیا۔ سلطان کا قیام بغداد میں چار ماہ رہا - اس اثناء میں ایرانیوں نے اپنے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا تھا اس لئے عثمانی افواج ایک بار پھر ایران کی جانب آنکلیں اور اس مرتبہ آذربائیجان اور دیگر کئی علاقے فتح کرلئےگئے ایران کے صفویوں کو شکست دینے کے بعد سلطان نے چند سالوں تک مختلف چھوٹی بڑی مہمات میں اپنی سپاہ کو مصروف رکھا ۔ اس دوران ہنگری میں حاکم زاپولیا کا انتقال ہوگیا تھا اور فرڈیننڈ نے پھر پورے ہنگری پر قبضہ جمانا چاہا، سلطان کو یہ اطلاعات ملیں تو انہوں نے اگست 1541ء میں ہنگری کا رخ کیا۔ اس حوالے سے امیر البحر خیر الدین کا ذکر از حد ضروری ہے جس نے بے پناہ حکمت اور بہادری سے اپنی سپاہ کو لڑایا - اس عہد کے بیش تر نام ور مورخین اور محققین نے خیرالدین کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہیں ۔ خیرالدین کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ طارق بن زیادہ کے اختیار کردہ بحری راستے کے ذریعے جبرالٹر (جبل الطارق) پہنچ کر اس پر دوبارہ مسلمانوں کو قبضہ دلادیں۔ اپنی خواہش کی تکمیل میں وہ عمر بھر سرگرم عمل رہے۔ بالآخر 20 اگست 1540 کو وہ ایک ہزار ملاحوں اور دو ہزار سپاہیوں کے ہم راہ سولہ بحری جہازوں کے بیڑے کے ساتھ جبرالٹر (جبل الطارق) پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے مدمقابل لاکھوں کی بحری فوج ہزارہا بحری جہاز اور سسلی کا مشہور تجربے کار ایڈمرل ڈان برنارڈ ڈیو مینڈوزا موجود تھا۔ دس یوم کی خوں ریز جنگ کے بعد خیرالدین باربروسا نے جبرالٹر کے ساحلوں پر اپنے قدم جمالیے۔ فرانس نے خیرالدین کی بحری مدد کے سبب اسپین کی بندرگاہ حاصل کرنے کے بعد طولون کی بندرگاہ عثمانیوں کو تحفے کے طور پر پیش کردی۔ بحیرۂ عرب، بحیرۂ روم، بحیرۂ احمر سے لے کر جبل الطارق اور ہندوستان کے مغربی ساحل تک صرف خیرالدین کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ ٹرانسلوانیا کو دالپور، ہیکلوس، فونفکیرشن پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ یہاں مستقل طور پر عثمانی دستے متعین کردیئے گئے۔ ہنگری کو سنجقوں میں تقسیم کردیا گیا اور یہاں بھی عثمانی عامل ،گورنر مقررکردئیے گئے - اس محاذ کو پابند کردینے کے بعد سلطان نے دوبارہ ایران اور دیگر علاقوں کا قلعہ قمع کرنے کا سوچا - پھر سلطان کی نیام سے نکلی تلوار نیام میں واپس نہیں گئی -سلطان نے ایران میں اندر تک حملے کئے۔ بغداد، موصل، یریوان، آرمینیا اور بین النہرین (میسوپوٹیمیا) کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ ادھر عدن پر قبضہ کیا اور بحیرہ روم میں الجزائر، طرابلس اور بحیرہ ایجیئن کے متعدد جزیرے فتح ہو چکے تھے - ایشیا اور یورپ کی کوئی بھی مملکت بری اور بحری لحاظ سے عثمانی سلطنت کی برابری نہیں کر رہی تھی - بلا شرکت غیرے عثمانیوں کو سمندروں اور زمینوں پر حکمرانی کا عروج حاصل ہو چکا تھا - سلطان سلیمان کا جذبہ جہاد مرتے دم تک قائم رہا -یہاں تک کہ جنگ کے دوران ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہوگئی جس میں عیسائیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انہیں گٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود مردانہ وار افواج کی قیادت کے لئے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ سگتوار کا محاصرہ 2 اگست 1565ء کو شروع ہوا اور 8 ستمبر تک جاری رہا اور قلعہ فتح ہوگیا اور اس وقت جب لشکر اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہورہا تھا لیکن سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انہیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیراعظم صوقوللی پاشا نے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانےبند ہوگئے اور فضا سوگوار ہوگئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انہیں سپردخاک کیا گیا۔ انہوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئی اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔

طاؤ س و رباب سودھو

تاریخ خلافت عثمانیہ - طاؤ س و رباب (تیر ہواں حصہ) جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ سلطان سلیمان قانونی کی وفات کی خبر وزیراعظم صوقوللی پاشا نے دانستہ مخفی رکھی تھی اور فتح کے بعد اعلان کیا تاکہ فوج میں کسی قسم کی بد دلی نہ پھیلے - یہاں تک کہ اس فتح کو بھی سلطان سلیمان کے نام سے ہی موسوم کیا گیا - سلطان کی تدفین قسطنطنیہ لاکر سلطان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں کی گئی - سلطان کے انتقال کے وقت سلطان سلیمان قانونی کا بیٹا غازی سلیم ثانی شہر کوتاہیہ میں تھا -( یہ شہر موجودہ استمبول سے189 کلو میٹر کی مسافت پر ہے ) فورا بلغراد پہنچا -اور سلطان کے جنازے کو شہر اسکود ار سے قسطنطنیہ پہنچانے کا انتظام کیا - 1566 عیسوی بمطابق 10 مئی سلطنت کے گیارھویں اور بطور تیسرے امیر المومنین خلیفہ سلطان سلیم خان غازی( سلیم ثانی) کی خلافت کا اعلان کیا گیا - بدقسمتی سے یہ اعلان سلطنت کی تباہی و بربادی کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوا- مرحوم سلطان سلیمان قانونی کی تمام عمر کی مساعی و جدوجہد جو یورپ کو فتح کرنے کے سلسلے میں تھی ضایع ہونے جا رہی تھی - سلیم ثانی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تیزی کے ساتھ زوال کا شکار ہوتی چلی گئی - اگر اس موقع پر وزیراعظم صوقوللی پاشا موجود نہ ہوتا تو سلطنت عثمانیہ ریت کی دیوار کی مانند ڈھہ چکی ہوتی - سلطان سلیم ثانی کی ماں کا تعلق روس سے تھا اور وہ روکسان کی شہزادی تھی - سلیم ثانی اوائل عمر میں ہی شراب و حرم سرا کا رسیا ہو چکا تھا - اور ان صلاحیتوں سے بھی محروم تھا جن کا بادشاہ میں ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے - اس بد بخت نے سلطنت پر بیٹھتے ہی سلطنت میں شراب کی ممانعت اٹھانے کا فرمان جاری کیا اور عثمانی سلطنت میں شراب کی تیاری اور خرید و فروخت جو عرصہ پہلے بند کی جاچکی تھی دوبارہ اجازت دے دی- پرلے درجے کا نکما اور کاہل سلطان جس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لیکر اپنے مرنے تک ایک دن بھی اپنا قدم شاہی محل سے باہر نہیں نکالا - ہر وقت شراب کے نشے میں مست اور کنیزوں کے درمیان رہتا - یہی وجہ ہے کہ وہاں کی عوام نے اسے شرابی سلطان کے لقب سے نوازا- جیسا کہ میں نے صوقوللی پاشا کی بابت تحریر کیا ہے کہ اگر یہ دانا وزیر اس کی سلطنت میں نہ ہوتا تو سلطنت کا نقشہ بہت پہلے ہی بگڑ چکا ہوتا - آئیے دیکھتے ہیں کہ اس وزیر باتدبیر نے کن حکمتوں اور نزاکتوں کے ساتھ عثمانی سلطنت کا وقار بلند رکھا - محمد صوقوللی کا تعلق بوسنیا کے ایک قصبے صوقول سے تھا - یہاں کے رہنے والے صوقولوچ کہلاتے تھے - عثمانی حکمرانوں کا وہ مفتوحہ علاقوں کے ذہین بچوں کو تعلیم و تربیت کے لئے اپنی نگرانی میں لے لیتے تھے پھر ان کی دینی، اخلاقی اور حربی تربیت کے مراحل سے گزار کر صلاحیتوں کی بنیاد پر انتظامی عہدہ دیتے یا پھر ینگ چری فوج کا حصہ بنا لیتے - محمد صوقوللی بھی اسی طرح عثمانی خلیفہ کی تربیت میں آکر شاہی خاندان کے قریب آتا چلا گیا - عثمانی سلطنت میں اپنی قابلیت اور بہا دری کے سبب جلد ہی " پاشا ' کے خطاب سے سرفراز کیا گیا - جلد ہی شاہی محل میں مختلف نوعیت کی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد صدر ا عظم یعنی وزیر اعظم تک پہنچ گیا - شاہی محل میں بااعتماد فرد ہونے کی بناء پر سلیم ثانی کی بیٹی سے نکاح ہوا اور اسطرح محمد صوقوللی پاشا شاہی خاندان کا فرد بن گیا - ظاہری اعتبار سے سلیم ثانی کا اقتدار تو قائم رہا مگر عملا عثمانی سلطنت کے تمام معاملات صوقوللی پاشا ہی چلا رہا تھا - اس نے اپنی ذہانت سے تمام امور مملکت نہایت خوش اسلوبی سے چلائے اور فوج کو مزید فتوحات کی جانب گامزن رکھنے کی اپنی ی کوششیں جاری رکھیں - مگر بدقسمتی سے فتوحات کے باب میں سلیم ثانی کا ہی بطور خلیفہ ذکر کیا جا تا رہا - سلیم ثانی کے انتقال کے بعد بھی محمد صوقوللی پاشا اپنے عہدے پر برقرار رہا اور سلیم ثانی کے بیٹے مراد ثا لث کے ابتدائی دور تک حکومتی معاملات اسی کے ہاتھ میں تھے لیکن کچھ عرصے بعد مراد ثا لث نے محلاتی سازشوں کے ذریعے اس کو قتل کروا دیا - سلیم ثانی کے آٹھ سالہ دور میں بھی کچھ اہم معرکے ہوئے اور ان میں کچھ اہم کامیابیاں بھی ملیں جوسب اس وزیر باتدبیر کی مرہون منت تھیں - یمن کے قبائلیوں سے جنگ اور وہاں مختلف نوعیت کے مذہبی فتنوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹا گیا - غازی سلیم خان ثانی کے دور میں عثمانیوں کا پہلی مرتبہ روس کے ساتھ ٹکراؤ بھی دیکھنے میں آیا - معاملہ یہ ہوا کہ جب صوقوللی پاشا نے دو تجا ویز پیش کیں کہ خاکنائے سوئز میں ایک نہر نکالی جائے تاکہ بحیرۂ قلزم اور بحیرۂ روم اور دریائے ڈون اور دریائے وولگا آپس میں مل جائیں اس طرح سے تجارتی راستہ کم سے کم ہو سکتا ہے اور بحری بیڑے کی بدولت علاقے پر نگرانی بھی آسان ہو جائے گی - مگر وولگا اور ڈون شہر کو با ہم ملا نے کے اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ روس تھا - کیونکہ استر خان شہر جہاں سے یہ نہر گزرتی تھی روس کے قبضے میں تھا - 1568 عیسوی میں اس شہر کو قابو کرنے کا پلان بنایا گیا اور 25000 ہزار آزمودہ کار ینگ چری فوجی شہر ازوف کی جانب روانہ کے گئے - شہر پر قبضے کی جنگ شروع ہوئی اور ترک فوج مصروف جنگ تو رہی مگر اس کو کسی بھی قسم کی کامیابی نہ مل سکی - لامحالہ واپسی کا فیصلہ ہوا اور عثمانی فوج کو واپس آنے کا پیغا م دیا گیا - موسم کی خرابی اور بحیرۂ اسود میں طوفانی طغیانی نے عثمانی بحری بیڑے کو خوب زچ کیا - بیشتر کشتیاں سمندر میں ڈوب گئیں - بمشکل تمام عثمانی بیڑہ ناکام واپس آگیا - اس کے بعد روس اور عثمانیوں کے درمیان صلح کا ایک معا یدہ ہوا جس پر ایک سو سال تک دونوں مملکتیں عمل پیرا رہیں - 1571 عیسوی، 2 اگست میں جزیرہ قبرص کو فتح کیا اور وینس والوں سے ایک معا یدہ عمل میں آیا جس میں قبرص پر عثمانی قبضے کو قانونی حیثیت دی گئی - قبرص پر عثمانیوں کے قبضے اور وینس سے معا یدے کی خبر نے عیسائی اور رومن حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا - چانچہ فوری طور پر عیسائی ریاستوں نے بڑے پیمانے پر اپنی افواج کو عثمانیوں کے مقابلے پر مجتمع کرنا شروع کردیا اور مذہبی نائٹس اور کلیسا کی جانب وفود بھیجے کہ صلیبی پکار ماری جائے - نتیجتا کلیسا ان کی پشت پر آگیا اور صلیبی جنگ کی تیاری شروع ہوئی - منصوبہ یہ تھا کہ کسی طرح عثمانیوں کی بحری طاقت کو توڑا جائے - لہٰذا آسٹریا کے سالار اعظم ڈان جان کو اس مشن کی کمانڈ سونپی گئی اور اس کی قیادت میں صلیبی لشکر تیار ہوا - 1571 عیسوی میں صلیبی فوج اپنے بحری بیڑے کے ساتھ مسینا کے مقام پر لنگر انداز ہوئی - اس کے مقابلے کے لئے عثمانی بحری بیڑہ پہلے سے ہی تیار تھا اور ان کابحری بیڑہ لی پانٹو کے ساحل پر لنگر انداز تھا - عثمانی بحری بیڑے کی قیادت امیر البحر علی پاشا کے ہاتھ میں تھی - لی پانٹو کا سا حل پر دونوں بیڑے آمنے سامنے آئے اور ایک خونریز جنگ کا آغاز ہوگیا - اس معرکے کو جنگ لی پانٹو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے - اس جنگ کا اختتام عثمانیوں کے لئے اچھا نہ تھا - چند گھنٹوں کی اس جنگ میں امیر البحر علی پاشا مارے گئے اور ترکوں کا شدید جانی نقصان ہوا اور بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا - کوئی تیس ہزار ترک سپاہی اور ملاح مارے گئے - جبکہ کئی جہاز سمندر میں غر ق ہو گئے جو بچے وہ عیسایوں کے قبضے میں جا چکے تھے - اس بد ترین شکست اور عظیم نقصان کے باوجود صوقوللی پاشا کی اوللعزمی کی بدولت جلد ہی عثمانی دوبارہ ایک بہت شاندار بحری بیڑہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے - اور چند ماہ کے اندر اندر امیر البحر سنان پاشا نے 1572 عیسوی میں عیسائی بحریہ پر جوابی حملہ کرکے خاصی حد تک اس شکست کی تلافی بھی کردی - غازی سلیم خان ثانی نے آٹھ سال صرف نام کی حکومت کی اور 1574 عیسوی کو اپنے پیچھے چھ بیٹے اور تین لڑکیاں چھوڑ کر انتقال کیا - سلطان غازی سلیم خان ثانی کے بعد اس کاسب سے بڑا بیٹا سلطان غازی مراد خان سلطنت خلافت عثمانیہ پر مسند آراء ہوا -

سلطنت سکڑنے لگی سودھو

سلطان غازی مراد خان سلیم خان ثانی 12 دسمبر 1574 عیسوی میں تخت نشین ہوا - یہ سلطنت کا بارہواں

فرمانروا اور چوتھا خلیفہ تھا - اپنے باپ سلطان سلطاں سلیم ثانی کی طرح یہ بھی ایک کمزور حکمران ثابت ہوا -


کےابتدائی دور میں بھی امور سلطنت چلانے میں اہم کردار معروف عثمانی صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا کے اس

ہاتھوں میں تھا جو اکتوبر 1579ء میں اپنے قتل تک اس عہدے پر فائز رہے اور عثمانی سلاطین کی کمزوری کا اثر


سلطنت پر نہ پڑنے دیا - ملکہ صفیہ سلطان سے اس کو خاص رغبت تھی - چہیتی ملکہ صفیہ کے علاوہ حرم میں شمس


رخسار خاتون،سخی خوباں خاتون،نازپرور خاتون،مہربان خاتون موجود تھیں - والدہ نور بانو سلطان کے اثر و نفوذ


کے سبب غازی مراد خان اپنی والدہ کے فیصلوں کا ہی پابند رہا - ان کے ساتھ ساتھ امور سلطنت میں حرم کا عمل


دخل اور سازشوں کا معاملہ بھی عروج پر پہنچ گیا -ماں اور ملکہ صفیہ سلطانہ کے فیصلے سے ہی معاملات چلانے کی

کوشش کی جانے لگی - صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا نے اس پر خاصی مزاحمت دکھائی اور شراب کی کھلے عام

تیاری جو سلطان سلیم ثانی نے اٹھا دی تھی اس پر دوبارہ پابندی لگائی - اگرچہ اس فیصلے کے خلاف مملکت میں


ہنگامے بھی 


ہوئے مگر صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا کی سخت اور معاملہ فہم پالیسی نے ان پر قابو پالیا- اسی دوران غیر مسلموں

کی جانب سے بھی مزید مراعات کا مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا - یہاں تک کہ ملک میں خونی ہنگامے پھوٹ پڑے -

مگر صوقوللی پاشا کے پایہ استقامت میں کوئی لغزش نہیں آ ئی - آسٹریا اور ہنگری میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا -

ایران کے صفوی حکمرانوں کی جانب سے بھی شرارتیں ہونے لگیں ، سرحدی جھڑپوں میں ایرانی شاہوں نے

عثمانی افواج کی چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا- جس پر گوشمالی کی گی گئی - داغستان کا علاقہ فتح کرکے عثمانی


سلطنت میں شامل کیا گیا

-


شاہی فوج میں ایک بار پھر بغاوت نمودار ہوئی جو بڑھتے بڑھتے خونریز ہنگاموں میں تبدیل ہو گئی - ان اندرونی مسائل کو بھی حکمت کے ساتھ کنٹرول کیا گیا - ان سب کا معاملات کو قابو کرنے کا سہرا صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا کے سر جاتا ہے - اکتوبر 1579 عیسوی میں شاہی محل کی اندرونی سازشوں کے نتیجے میں سلطنت کے قابل ترین اورعثمانی سلطنت کی ریڑھ کی ہڈی صدر اعظم محمد صوقوللی پاشا کو قتل کردیا گیا اور یوں عثمانی معیشت اور اداروں کی تنزلی کا دورِ آغاز شروع ہوگیا - مملکت عثمانیہ کے مفتوحہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کا قیام اور نظام تعلیم کی اصلاح کے ساتھ ساتھ کارخانوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا - مگر معیشت کے امور میں ناتجربہ کاری کے سبب توازن برقرار نہ رہ سکا - سلطان غازی مراد خان ثالث نے اکیس سال حکمرانی کی اور پچاس سال کی عمر میں 16 جنوری 1595 عیسوی میں قسطنطنیہ وفات پائی- اپنے باپ کی تدفین کے تین دن بعد 19 جنوری 1595 عیسوی اس کا بڑا بیٹا غازی محمد خان ثالث بن مراد خان ثالث تخت نشین ہوا - تین دنوں تک تو سلطنت میں سوگ کا سماں رہا مگر جو رسم سلطان محمد فا تح نے برادران کے قتل کی شروع کی تھی اس کا بھیانک مظاہرہ غازی مراد خان ثالث کی تخت نشینی کے وقت دیکھنے میں آیا - اس قبیح رسم کا مقصد تو سلطان کے خلاف بغاوت کے اثرات کو ختم کرنا تھا مگر جس طرح اپنے خاندان کی نسل کشی کے ظالمانہ مظاھر سامنے آئے اس کا داغ ہمیشہ سلطنت کے چہرے پر نمایاں رہے گا سلطان محمد خان ثالث نے تخت پر بیٹھتے ہی اپنے 27 بھائیوں کے قتل کے احکامات جاری کئے - ان میں سے کچھ برادران تقریب تخت نشینی میں شریک بھی تھے - یہی نہیں اس کا ظالمانہ قدم اس سے بڑھ کر یہ بھی تھا کہ اس کو اپنی بیس بہنوں پر بھی ترس نہیں آیا اور ان کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا -اپنی سلطنت کی خاطر تمام بہنوں کی موت کا حکم دیا اور ان سب بہنوں کو قتل کردیا گیا -سلطان کا یہ قدم اس کو سلطنت کے سب سے مکروہ سلطان کے روپ میں پیش کرنے کے لئے بہت کافی ہے - کہتے ہیں کہ ان سب فیصلوں کی ذمہ دار اس کی ماں تھی - جس نے اپنی سوکنوں کی اولادوں کے قتل کا حکم دیا تھا - اس کے دور میں ہنگری میں آسٹریا اور عثمانیوں کے درمیان ایک طویل جنگ لڑی گئی جو 1596ء سے 1605ء تک جاری رہی۔ جنگ میں عثمانیوں کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا - عثمانیوں کی جو ہیبت اور دبدبہ تھا وہ پیشرو نااہل حکمرانوں کی عیاشیوں کے سبب زائل ہو چکا تھا - فوج کی بزدلی اور پیٹھ دکھانے کے با عث سلطان کو افواج کی قیادت خود سنبھالنی پڑی اور وہ سلیمان اول کے بعد میدان جنگ میں اُترنے والا پہلا عثمانی حکمران تھا۔ وہ آستانہ سے بلغراد پہنچا اور فوج کی قیادت سنبھالی اس کی افواج نے ارلو کا قلعہ فتح کیا جو سلیمان قانونی کے دور میں بھی فتح نہیں کیا جا سکا تھا- 1596ء میں اگری فتح کیا اور جنگ کرسزتس میں ہیبسبرگ اور ٹرانسلوانیا کی افواج کو شکست دی۔ اسطرح ہنگری اور آسٹریا کی مشترکہ فوج کو جو پاپائے روم کے ایماء پر بھیجی گئیں تھیں عبرتناک شکست سے دوچار کیا - اس کے عہد خلافت میں فوج سے فرار ہونے والے ایک کمانڈر نے ایک بہت بڑا مذہبی فتنہ بھی کھڑا کیا تھا- اس باغی کمانڈر کا نام قرہ بازیجی تھا - اس نے اپنے بہت سے سپاہیوں سمیت فوج سے لیا تھا - اس کا کہنا تھا کہ حضرت محمد (صلعم ) اس کے خواب میں آئے تھے اور انھوں نے اس کو عثمانیوں پر فتح کی خوشخبری سنا ئی ہے - قرہ بازیجی کے اس اعلان کے بعد بہت سے سپاہی اور وہاں کے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس فتنہ پرور کے ساتھ مل گیا - قرہ بازیجی اور اس کے بھائی ولی حسن نے اپنی باقاعدہ فوج بنالی اور انھوں نے عثمانی سلطنت کی حدود میں بے حد تباہی پھیلائی - بالآخر عثمانی فوجوں نے اس کا پیچھا کیا اور ایک مقابلے میں قرہ بازیجی مارا گیا - جبکہ اس کے بھائی ولی حسن کو ہنگری اور آسٹریا کے محاذ پر بھیج دیا گیا - جہاں ولی حسن اور اس کے بہت سے سپاہی مارے گئے اور باقی منتشر ہوکر روپوش ہوگئے - جن کا تاریخ کی کتابوں میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا - اگلے سال معالجین نے سلطان کو کثرت شراب نوشی اور بسیار خوری سے پیدا ہونے والے امراض کے باعث میدان جنگ میں اترنے سے منع کر دیا۔ ان جنگوں میں فتوحات کے باعث محمد ثالث کے دور میں زوال پزیر سلطنت عثمانیہ کو کوئی اور دھچکا نہیں پہنچا۔ 1603 عیسوی میں سلطان محمد خان ثالث کا انتقال ہوا - اس کی مدت خلافت نو سال رہی - 29 سال کی امر میں تخت پر بیٹھا اور 38 سال کی عمر میں وفات پاگیا - یہ مملکت عثمانی کا پانچواں خلیفہ تھا - اس کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا غازی احمد خان اول تخت نشین ہو ا- جس کی عمر اس وقت محض 15 سال تھی - غازی احمد خان اول کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس نے اپنے پیشروں کی طرح برادران قتل کی رسم کو آگے نہیں بڑھایا - بلکہ انہوں نے قتل برادران کے روایتی قانون کو استعمال کرنے کے بجائے اپنے بھائی مصطفٰی کو اپنی دادی صفیہ سلطان کے ہمراہ رہنے کی اجازت دی۔ وہ اپنی شہسواری، نیزہ زنی اور مختلف زبانوں ّ پر عبور رکھنے کے باعث معروف تھا۔ اپنے دور حکومت کے ابتدائی دور میں احمد اول نے عثمانی سلطنت کی گرتی ہوئی ساکھ کو قوت کے بل بوتے پر بحال کرنے کی کوشش کی مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ۔ صلیبی قوتیں ایک بار پھر متحد ہوکر مقابلے پر آچکیں تھیں - دوسری جانب ایران مستقل طور پر ایک دو محاذ چھیڑ تا رہا - ایسے نازک وقت میں ایک مدبر وزیر مراد پاشا بہ قولوچی صدر اعظم بنا جس کی عمر اسی سال تھی مگر حوصلہ جوانوں جیسا تھا -اس کے دور حکومت میں ہنگری اور ایران میں لڑی جانے والی تمام جنگوں کے نتائج سلطنت کے حق میں نہیں نکلے اور 1606ء میں معاہدۂ ستواتورک کے نتیجے میں سلطنت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا اور اس کے نتیجے میں آسٹریا کی جانب سے دیا جانے والا خراج ہمیشہ کیلئے ختم کردیا گیا - عریانی شاہوں کو کامیابیاں ملنے لگیں - سلطنت کی حدود بھی آھستہ آہستہ سمٹنے لگیں -1611 میں مراد پاشا بہ قولوچی کا انتقال ہوا - جس کے بعد ایران پوری قوت کے ساتھ عثمانی سلطنت پر حملہ آ ور ہوا -1613 عیسوی میں عثمانیوں کو شاہ ایران سے شرمناک معائدہ کرنا پڑا جس کی رو سے عراق عرب آذر بائیجان اور جو علاقے عثمانیوں نے حاصل کیے تھے سب واپس کردے جائیں - اس منحوس معائدے کے لئے عثمانیوں پر روس ، برطانیہ پرتگال اور فرانس کا مشترک دباؤ شامل تھا - کرغستان اور آذربائیجان، عراق ایران کے حوالے کر دیے گئے۔ 22 نو مبر 1617عیسوی میں سلطان غازی احمد خان اول کا انتقال ہوا - غازی سلطان احمد ایک شاعر بھی تھا جس کا تخلص بختی تھا۔ اپنے مذہبی خیالات کی وجہ سے مقبول تھا خدمت دین کے لیے خزانے کا بھرپور استعمال کرتا تھا۔ اس نے اسلامی قوانین کی بحالی کے لیے اقدامات بھی کیے اور شراب کی پابندی کا حکم صادر کیا اور نماز جمعہ کے موقع پر تمام افراد کی موجودگی کو بھی لازمی قرار دیا اس کا معمول تھا کہ وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد غریبوں میں خیرات تقسیم کیا کرتا۔ آج احمد اول کو استنبول میں واقع سلطان احمد مسجد کے باعث یاد کیا جاتا ہے جو نیلی مسجد بھی کہلاتی ہے۔ اس مسجد کے گرد واقع علاقہ سلطان احمد کے نام سے موسوم ہے۔ اسی معروف مسجد کے دامن میں اس سلطان کی آخری آرامگاہ واقع ہے۔

مرکز میں خانہ جنگی سودھو

غازی احمد خان اول کے انتقال کے وقت اس کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ عثمان خان کی عمر محض بارہ سال چند مہینے تھی - چناچہ اس کی خلافت پر کوئی یکسو نہیں ہو پارہا تھا - احمد خان اول نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بھائی مصطفے خان اول کیلئے وصیت کردی تھی -یہ پہلا اتفاق تھا کہ بیٹے کی بجائے بھائی وا رث تخت ہوا ہو ۔ یہ اس لیے ہوا کیونکہ سلطان احمد کا بیٹا عثمان اس وقت کم عمر تھا۔ عثمان خان کے چچا مصطفے خان اول کی خلافت کا اعلان ہو تو گیا تھا - مگر فوج اور شاہی محل اس پر راضی نہ تھا - مصطفی اول کی عمر زیادہ تر شاہی محل میں گزری تھی، اس وجہ امور سلطنت سے بے خبر تھا۔ مصطفی کی غیر دا شنمندانہ پالیسیوں اور نااہلیت کی بناء پر امراء سلطنت نے اس کو تین ماہ بعد16 فروری1618 کو تخت سے اتار کر سلطان احمد کے 13سالہ بڑے بیٹے عثمان خان کو تخت پر بٹھا دیا۔ - معزولی کے بعد فوج کی مدد سے شہزادہ عثمان خان ثانی ابن احمد اول خلیفہ قرار پایا - آپس میں چچا اور بھتیجے کے درمیان اندرونی طور پر سازشیں جاری رہیں -اس دوران معزول چچا مصطفے خان فوج میں بہت سے کمانڈروں کو اپنا ہمنوا بنا چکا تھا اسی طرح کچھ امراء بھی مصطفے خان کے ساتھ تھے - چناچہ چار سال کے اندر اندر خلیفہ عثمان خان ثانی کو ایک مرتبہ پھر اقتدار سے علیحدہ کردیا گیا - اور اس کی جگہ چچا مصطفے خان نے لے لی - اور 20 مئی 1622ء کو باغی امراء نے معزول سلطان خلیفہ عثمان خان ثانی کو قتل کردیا اور اگلے ایک سال تک مصطفے خان عثمانی خلیفہ رہا - اقتدار کی کرسی کسی کو بھی راس نہیں آئی - عثمانی سلطنت آپس کی سازشوں میں اس قدر مصروف ہو چکی تھی کہ اس دوران کوئی قا بل ذکر فتح حاصل نہ ہوسکی - غازی مصطفے خان عثمانی سلطنت کا پندر ھواں سلطاں تھا - اس کو ایک سال کے بعد ایک مرتبہ پھر معزولی کا منہ دیکھنا پڑا -20 جنوری 1639 میں اپنی طبعی موت مرا - خلافت عثمانی کا تاج غازی مراد خان را بع ( چہارم ) کے سر پر سجایا گیا - 1623ء سے 1640ء تک وہ عثمانی سلطنت کا خلیفہ اور خادم الحرمین شریفین رہا - وہ سلطان احمد اول کا بیٹا تھا۔ اس افراتفری اور شاہی خاندان کی آپس کی سازشوں نے مملکت کا حال یہ کردیا تھا کہ فوج عملی طور پر سلطنت کو چلا رہی تھی - جہاں جس کمانڈر کا زور چلتا وہ اپنی فوج کو لوٹ مار پر مامور کردیتا - انہیں شاہی محل سے تنخواہ سے زیادہ مال دار تاجروں سے رقم اینٹھنے میں مزا مل رہا تھا - اس شاہی فوج نے سلطان مراد خان چہارم کو صرف چودہ سال کی عمر میں اسلئے تخت پر بٹھایا تھا تاکہ فوج اپنی من ما نی کرسکے - اور سلاطین کے تخت پر اتا رنے چڑھا نے کے عمل میں فوج کو کھل کر اپنی من ما نی کا موقع بھی ملتا رہا - عثمانی سلطنت کے ازلی دشمن عباس صفوی شاہ ایران کو اچھا موقع مل گیا تھا کہ وہ عثمانی سلطنت پر حملہ آور ہو چناچہ اس شاندار موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ ایران نے عراق میں موجود ترکی کے حا کم کو اپنے ساتھ ملایا اپر غداری کے بدلے میں علاقے کی سرداری اور سرکاری زمین دینے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملالیا - اس طرح صفوی ایرانی بادشاہ نے بغداد پر حملہ کیا اور شدید ترین لڑائی کے بعد بغداد پر قبضہ کرلیا - اس قبضے کے بعد سلطان غازی مراد چہرم اپنی نگرانی میں ایک بڑا لشکر لیکر قسطنطنیہ سے بغداد کی جانب نکلا اور بغداد کو 48 گھنٹوں کے مختصر محاصرے کے بعد فتح کرلیا- غدار ترکی حاکم بغداد کو سولی پر چڑھا دیا گیا -یہی حال اس کا ساتھ دینے والے سپاہیوں کا بھی ہوا - صفوی شاہ عباس ایک سال تک سلطان سے صلح کی درخوست کرتا رہا اور بلآخر ایک سال بعد دونوں کے درمیان ایک معائدہ طے پایا - جس کے نتیجے میںشمالی ایران کا علاقہ شاہ عباس کو دیدیا گیا اور بغداد پر عثمانیوں کا تسلط قائم رہا- غازی مراد چہارم نے جس طرح سے عثمانی سلطنت پر صفویوں کے حملوں کا جواب دیا اس سے سلطان قانونی کا دور تازہ ہوگیا - سلطان غازی مراد چہا رم جوانی میں ہی سترہ سال حکومت کرنے کے بعد 8 یا 9 فروری 1640ء کو انتقال کرگیا -غازی مراد چہارم کی کوئی اولاد نہ تھی - چناچہ متفقہ طور پر ان کے چھوٹے بھائی غازی ابراہیم خان اولبن سلطان احمد اول کی عثمانی سلطنت کا خلیفہ مقرر کیا گیا - غازی ابراہیم خان ایک دیندار اور صاحب علم سلطان تھے - ان کے دور میں یورپ کے محاذ پر جاری چپقلشوں کو روکا گیا اور صلح کے معا ئدے ہوئے جس کی بدولت یورپ کے محاذ پر دیرپا امن قائم ہوگیا - مگر پھر بھی یورپ کے ایک محاذ شہر آزوف پر ایک شدید جنگی معرکہ ہو ا- جس کی تفصیل یہ ہے کہ پاپائے اعظم نے وہاں کے مقامی عیسایوں کو مذھب کا واسطہ دے کر شمالی بحر اسود کے بڑے شہر آزوف پر حملہ کردیا اور صلح نامے کی خلاف وردی کرتے ہوئے شہر آزوف پر قبضہ کرلیا یہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے جوش انتقام میں سارے شہر کو آگ لگا دی گئی - اس پر جوابی کاروائی کرتے ہوئے غازی مراد خان نے اپنی سپاہ کو وہاں روانہ کیا جس نے وہاں پر قابض عیسائی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور ازسر نو شہر آزوف پر قبضہ ختم کرکے امن و امان بحال کیا - خلیفہ ابراہیم کا ایک اور کارنامہ جزیرہ کریٹ کی فتح کا بھی ہے - جزیرہ پر عیسائی حکومت قائم تھی اور ان کا عثمانی سلطنت سے کسی قسم کا جھگڑا بھی نہیں تھا مگر باوجود اس کے عجیب واقعہ ہوا کہ سلطان کے اکلوتے بیٹے محمد کیخادمہ اپنے شوہر قیزلر آغاسی کے ساتھ حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئی تو راستے میں عیسایوں نے اس کے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیا اور آغاسی اور بچے کی ماں کو مذہبی جوش انتقام میں قتل کردیا گیا - اس بچے کو وہ سلطان کے بیٹے محمد کا بیٹا سمجھ کر عیسائی طریقے پر پالنا پوسنا شروع کردیا - اس بچے کا نام عثمان اوتمانو یعنی عثمان پادری رکھا گیا - اور پھر مقامی عیسائی اس بچے کو لیکر مقدس را ہبین کے جزیرے کریٹ میں لیکر پہنچے تو عیسائی راہبوں نے ان عیسایوں کو خوب آؤ بھگت کی - اور بچے کو اپنے قبضے میں لے لیا - خلیفہ غازی ابراہیم خان کو اس واقعے کی اطلاع بہت دیر سے ملی تا ہم اس نے فورا اپنا سفیر جزیرہ کریٹ بھیجا جس نے اس بچے کی بازیابی کا مطالبہ کیا- اس مطالبے کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا گیا اور پاپائے اعظم نے جنگ کی دھمکی دے دی - اس کے ساتھ ہی پاپائے اعظم نے اپنی تمام عیسائی حکومتوں کو اپنی مدد کیلئے بحری بیڑے روانہ کرنے کی درخواست کی - ان بحری بیڑوں میں انگلستان اور فرانس کے بحری بیڑے شامل تھے - سلطان ابرہیمم خان نے امیر البحر غازی یوسف کوعیسایوں کے ممکنہ حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا - امیر البحر غازی یوسف نے کمال ہوشیاری کے ساتھ تیزی کے ساتھ اپنے بحری بیڑے کو جزیرہ کریٹ پہنچا یا - متحدہ عیسائی قوتوں کا بیڑہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا - اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئےامیر البحر غازی یوسف نے جزیرے پر اپنی افواج کو اترنے کا حکم دے دیا اور یوں تمام افواج جزیرے پر پھیل گئیں - جزیرے پر موجود عیسائی افواج سے ایک سخت مقا بلہ کے بعد جزیرے پر قبضہ مکمل کرلیا - اس جزیرے کی فتح میں کچھ تاخیر ضرور ہوئی تھی -جس کی وجہ یہ تھی کہ قسطنطنیہ سے روانہ ہونے والی کرا ئے کی فوج ( انکشاری فوج ) نے روانہ ہونے میں تا خیری حربے استمعال کئیے تھے تاکہ ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوسکے- اس دوران عثمانی سلطنت کے مرکز میں فوج نے شدید انتشا ر پھیلایا ہوا تھا - سلطان ابراہیم خان کے خلاف سورش برپا ہو چکی تھی - جس کی وجہ سے غازی ابراہیم خان اول کو اپنے سات سالہ بیٹے محمد الرابح کے حق میں دستبردار ہونا پڑ گیا تھا - 28 اگست 1648 عیسوی کو ہنگامے اتنے شدید ہو چکے تھے کہ باغی افواج نے سلطان غازی ابراہیم خان اول کو اپنے حملے میں شہید کردیا - سلطان غازی ابراہیم خان اول کی مدت خلافت 8سال 9 ماہ رہی - عثمانی سلطنت کا سلطان اب ایک سات سال کا بچہ تھا - جس کا نام غازی محمد سلطان خان رابع تھا - اس کی عمر کا خیال کرتے ہوئے سلطنت مفتی اعظم اور صدر اعظم محمد کوپریلو کے حوالے کے گئے - صدر اعظم محمد کوپریلو نے انتظامی اور جہادی معاملات بہت حکمت و دانشمندی کے ساتھ نبھائے - حالانکہ اس وقت اندرونی خانہ جنگی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی - صدر اعظم محمد کوپریلو نے اوسٹریا، ہنگری ، پولینڈ اور دیگر یورپی علاقوں میں امن و امان کو ممکن بنایا اور مرکز سلطنت میں بھی باغیوں کے ساتھ معاملات درست رکھے - پولینڈ ،ہنگری اور او سٹریا بدستور عثمانیوں کو خراج ادا کر تی رہیں ، روس نے اس دوران چھوٹے بڑے کئی حملے کئے مگر روس کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی - پاپائے اعظم نے بھا گ دوڑ کرنے کے بعد ان عیسائی ریاستوں کو ایک مقدس معایدے کے بندھن میں با ندھ دیا جو درحقیقت عثمانیوں کو کمزور کرنے کی سازش تھی - جس میں پاپائے ا عظم نے تمام عیسائی ریاستوں کو عثمانی سلطنت کے مقابلے پر ابھا را - جنگیں ہوئیں مگر عثمانیوں کے سامنے کوئی کامیابی نہ مل سکی - اس کے برعکس عیسائی سلطنتیں آپس کی جنگوں میں الجھ کر رہ گئیں - البتہ فرانس کو کچھ مقامات پر عثمانیوں کے خلاف کامیابی ضرور حاصل ہوئی - عثمانی یورپی محاذ پر اپنا دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوچکے تھے - یہاں تک کہ چیکو سلواکیہ کے ایک دفاعی اعتبار سے بہت اہم قلعے ناؤ نازل پر صدر اعظم محمد کوپریلو کے محاصرے کے سبب کامیابی حاصل کی اور یہ قلعہ اپنے قبضے میں لے لیا - قلعہ میں موجود عیسائی فوج نے امیر البحر محمد کوپریلو سے استدعا کی کہ ہمیں جان کی اما ن دے دی جائے تو ہم اپنا اسلحہ چھوڑ کر بناء جنگ کیے علاقہ چھوڑ دیں گے - محمد کوپریلو نے ان کی درخوا ست منظور کرتے ہوئے ان کو علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا اور جان بخشی کی - ستمبر 1686 عیسوی میں ہنگری کا ایک شہر بوڈا کو آسٹریا کے ڈیوک آف لورین نے فتح کیا- اس وقت عثمانی افواج ہنگری میں موجود اپنی فوج کی مدد کے لئے بروقت نہیں پہنچ پائیں -اسی طرح 1687 عیسوی میں عیسایوں کی مشترکہ فوج کے مقابلے میں ایک اور شکست کھائی - جس کا اثر مرکز عثمانی میں پڑا اور کرائے کی فوج کی بدانتظامی بڑھتی چلی گئی - مرکز میں فسادات پھوٹ پڑے اور بلآخر سلطان محمد الرابح کو تخت سے دست بردار ہونے کا کہا گیا -نومبر 1687 کو سلطان تخت سے دست بردار ہوگیا اور گوشہ نشینی اختیار کرلی - 53 سال کی عمر میں 1692 عیسوی کو سلطان نے دنیا سے کوچ کیا

فوج کے ہاتھوں پریشان، عثمانی سلطان سودھو

سلطان محمد رابع کے تخت شاہی سے دست بردار ہونے کے بعد عثمانی سلطنت کا تاج سلیمان ثانی کے سر پر سجایا گیا - سلطان محمد را بح کی شہرت ایک دیندار، پابند صوم و صلوا ة اور علم کے دلدادہ سلطان کی رہی - اس کا زیادہ تر وقت یورپ کے محاذ پر جنگ و جدل اوریورپی حکمرانوں سے مفاہمت کی کوششوں میں گزرا - اس کے باوجود اس کے دور میں تجارت اور تعلیم کے میدان میں بہت کام ہوا -سلیمان ثانی کی خلافت کا فیصلہ بھی صدراعظم احمد فاضل کوپریلو اور شاہی خاندان کی مشترکہ مشاورت سے ہوا تھا - خلیفہ سلیمان ثانی سابق خلیفہ محمد رابع کا چھوٹا بھائی تھا۔ سلطان سلیمان نے محض چار سال حکمرانی کی -اور 1687ء سے 1691ء تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالی- وہ 15 اپریل 1642ء کو توپ قاپی محل، استنبول میں پیدا ہوا اور 1691ء میں اپنے انتقال تک عہدہ سلطانی پر موجود رہا- اسطرح سلطان سلیمان ثانی نے پینتالیس سال کی زندگی میں اقتدار سنبھالا - دیگر شہزادوں کی طرح سلیمان ثانی کی زندگی بھی حرم میں ہی گزری - قارئین کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ عثمانی سلاطین کے دور میں شہزادوں کے حرم میں زندگی گزارنے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کو اقتدار سے دور رکھا جائے اسطرح وہ حرم کی رنگینیوں میں اس قدر گم ہوجائیں کہ ان کو بغاوت اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا خیال تک نہ آئے - ان شہزادوں کو امور مملکت سے دور رکھا جاتا پچھلے سلاطین نے شہزادوں کو بے دریغ قتل کرنے کی روایت قائم کی تھی - مگر اس کے بعد شہزادوں کو حرم کی زندگی تک محدود کرکے رکھ دیا جاتا - سلیمان ثانی کی خلافت کا دور بھی افراتفری کا دور تھا - شاہی فوج کی بغاوت جاری رہی - اور ان کے مطالبات میں روزآنہ اضافہ ہی ہورہا تھا - یہاں تک کہ بغاوت کے اثرات سے وزیر اعظم سیاوش پاشا تک محفوظ نہ رہ سکے - ان کے خلاف باغی افواج نے بہت برا سلوک کیا - ان کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور سارا سامان لوٹ لیا گیا - اس بغا وت کا عیسائی حکمرانوں نے خوب فائدہ اٹھایا - آسٹریا اور ہنگری کے محاذ پر انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی حملے کے اور اہم دفاعی چوکیوں کو ترکوں کے قبضے سے واپس لینے میں کامیاب ہو گئے - تاہم یہ بھی ہوا کہ جو مذہبی مراعات عیسائی رعایا کو حاصل تھیں اس وجہ سے بہت سے علاقوں میں عیسایوں نے اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی اور عثمانی حکومت میں بخوشی شامل ہوئے - اس کی اہم وجہ جہاں عیسایوں کو ملنے والی مراعات تھیں وہیں عیسایوں کے مختلف فرقوں کے آپس میں روا رکھے جانے والے مظالم بھی تھے - جیسے جہاں پروٹسٹنٹ حکمران تھے وہ دوسرے فرقے کیتھولک کو زبردستی پروٹسٹنٹ بننے پر مجبور کرتے - اور جو ان کی حکم عدولی کرتا اس کو سخت ترین اذیتوں سے دوچار کیا جاتا - یہاں تک ہوتا کہ ان کی آبادیوں کو آگ لگا دی جاتی - اسی طرح کیتھولک اثر والے علاقوں میں پروٹسٹنٹ اس عذاب کا شکار تھے ان کو بھی ان ہی مظالم کا سامنا تھا جس طرح وہ کیتھولک فرقے پر کرتے تھے - پھر پاپائے اعظم کی جانب سے مذہبی بے عقائدگی کے الزام میں بہت سے عیسایوں کو موت کا حکم جاری ہوتا رہا - جس کی ایک بڑی مثال مورہ رومی کے علاقے کی ہے جہاں کے لوگ عیسائی تو ضرور تھے مگر نہ کیتھولک تھے اور نہ ہی پروٹسٹنٹ فرقے کے ماننے والے تھے - پاپائے اعظم کی طرف سے انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ کیتھولک مذھب اختیار کرلیں -نافرمانی کی صورت میں زندہ آگ میں ڈالنے کا حکم تھا - مورہ رومی کے معززین کا ایک وفد درخوا ست لیکر سلطان سلیمان سے ملا اور درخواست کی کہ ان کے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کرکے پاپائے اعظم کے ظلم سے نجات دلائی جائے - چناچہ ان کی درخواست پر مورہ رومی کے علاقے کو سلطنت میں شامل کیا گیا اور ان عیسایوں کو مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی معاملات چلانے کا اختیار دیا گیا - پچاس سال کی عمر میں سلطان سلیمان غازی کا انتقال ہوا - سلطان سلیمان ثانی نے تین سال آٹھ مہینے خلافت کی -ان کی کوئی اولاد نہ تھی لہذا اس کے بھائی غازی احمد خان ثانی سلطنت عثمانی کے فرمانروا قرار پائے - سلطان غازی احمد خان ثانی نے اپنے بھائی کی طرح محمد کوپریلو کو صدر اعظم برقرار رکھا اور ان کی مشاورت سے معاملات مملکت چلائے - محمد کوپریلو ایک عظیم جنگجو بھی تھے 19 اگست1691 کو آسٹریا کے ایک محاذ پر جب وہ اپنی افواج کے ساتھ عیسائی یلغار کا سامنا کر رہے تھے کہ ایک حملے میں شہید ہوگیے - یہ صدمہ عثمانی سلطنت کے لئے حقیقت میں بہت بڑا تھا - چونکہ جس کمال حکمت و تدبر کے ساتھ صدر اعظم محمد کوپریلو نے معاملات سنبھالے اور اندرونی اور بیرونی محاذوں پر عثمانی سلطنت کا دفاع کیا وہ ناقابل فراموش ہے - ان کے بعد عربه جی علی پاشا صدر اعظم مقرر ہوئے - غازی احمد خان ثانی نے 54 سال کی عمر میں چار سال آٹھ مہینے خلافت کی اور دار فا نی سے کوچ کیا ان کو دادا سلمان اول کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا- ان کے انتقال کے بعد غازی سلطان مصطفی خان ثانی ابن سلطان محمد الرا بح مسند خلافت پر سرفراز کے گئے -خلافت سنبھالتے وقت غازی سلطان مصطفی خان ثانی کی عمر 32 سال تھی - جوانی کا جوش تھا اور جذبہ جہاد رگوں میں دوڑ رہا تھا - خلافت سنبھالتے ہی چوتھے دن اعلان کیا کہ وہ خود فوج کی قیادت کرتے ہوئے پولینڈ کے محاذ پر جائیں گے - اس اعلان کے ساتھ ہی وہ اپنے ساتھ مجاہدین کا ایک لیکر پولینڈ کے محاذ پر روانہ ہوگئے جہاں پہلے سے عثمانی افواج برسر پیکار تھیں - یہاں پر روسی شہنشاہ پطرس اعظم اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کئی معرکوں میں ناقابل فراموش شکستوں سے دوچار کیا - اس کے دور اقتدار کا سب سے افسوسناک واقعہ معاہدہ کارلووٹز تھا جسے سلطنت عثمانیہ کے زوال کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ہنگری سلطنت کے دائرہ اختیار سے نکل گیا۔ یورپی مسیحیوں نے اس اثناء میں مسئلہ شرقیہ کے نام سے ایک سازش تیار کی جس کے مطابق سلطنت عثمانیہ کو یورپ سے بیدخل کرکے سلطنت کے یورپی حصوں پر اپنا تسلط قائم کرنا تھا - اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ دین مسیح کی حفاظت کی جائے اور مسلما نوں کو یورپی علاقوں سے نکال با ھر کیا جائے- عثمان سلطنت کو درپیش خطرات میں سب سے بڑا خطرہ ایک طرف روس اور آسٹریا سے تھا تو ایک جانب تحائف مقدسہ کے نام پر پاپائے اعظم کے پر امن معائدوں کا سازشی جال تھا - اور عثمانی سلطنت اس جال میں پھنس چکی تھی - غازی سلطان مصطفی خان ثانی ان امن معائدو ں کے نتیجے میں سلطنت کو کمزور ہوتا دیکھ رہا تھا - لہذا اس نے اندرونی معاملات پر توجہ دینے کی کوشش کی مگر شاہی افواج کی خود سری کے آگے کچھ نہ کرپایا - غازی مصطفیٰ خان کی اصلاحی کوششیں بیکار جارہی تھیں - افواج باغی ہوچکی تھیں -اس مرتبہ افواج نے غازی مصطفی خان ثانی کا گھیراؤ کرلیا اور 15 اگست 1703 عیسوی کو اس کو معزول ہونے پر مجبور کیا - خلیفہ معزول ہونے کے بعد پانچ ما ہ زندہ رہا اور دسمبر 1703 عیسوی کو انتقال کرگیا - غازی مصطفیٰ خان ثانی کے بعد اس کا بھا ئی غازی احمد ثا لث بن محمد الرا بح کو تخت پر بٹھایا گیا - یہ انکشا ریہ فوج ( کرائے کی فوج ) کی مدد سے تخت نشین ہوئے تھے - اس لئے کچھ عرصہ تک فوج ان سے خوش رہی - مگر جلد ہی مزید مراعات کا مطالبہ زور پکڑنے لگا - مگر سلطان غازی احمد ثا لث ان سے سخت طریقے سے نمٹنے کا فیصلہ کرچکا تھا - سلطان نے بہت وسیع پیمانے پر ان کے خلاف کا روائی شروع کی - شرعی عدالتوں سے سزائیں دلوائیں اور جو فوجی شہریوں کے قتل میں ملوث پائے گئے ان کو قصاص میں قتل کروایا - اس ایکشن کا فائدہ یہ ہوا کہ وقتی طور پر امن قائم ہوگیا - ایک اور اہم کام یہ بھی کیاکہ وزیر اعظم احمد نشانچی کو معزول کردیا احمد نشانچی انکشاری افواج کا حمایت یافتہ تھا اور درپردہ سازشوں میں آلہ کار ثابت ہوا تھا - احمد نشانچی کی جگہ اپنی بہن کے شوہر حسن پاشا کو وزیر اعظم نامزد کیا - یہ پچھلے کے مقابلے پر زیادہ قا بل اعتماد تھا- حسن پاشا دیندار اور نہایت با صلاحیت وزیر ثابت ہوئے - مگر شرپسندوں نے ان کو کام کرنے کا زیادہ موقع نہیں دیا -حسن پاشا جلد ہی اس عہدے سے مستعفی ہوگئے - 1130 ہجری میں ابراہیم پاشا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو اس دوران ایران نے ایک مرتبہ پھر افغانوں کی مدد سے عثمانی سلطنت میں مداخلت شروع کی - اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے بحر خزر کے پر قبضہ جما لیا - روس کی نگاہیں اب پورے ایران پر قبضہ کرنے کی تھیں - جبکہ ایران کا بہت سا علاقہ عثمانی سلطنت میں بھی شامل تھا ابراہیم پاشا نے عثمانی افواج کو پیش قدمی کا حکم جاری کیا اور روس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو عثمانی ایرانی علاقوں تک آنے سے روکے رکھا -1724عیسوی کو روس نے اس موقع پر فرانس کو ساتھ ملا تے ہوئے ایک معا ئدہ کیا کہ اب روس اپنی فوجوں کو عثمانی سلطنت میں داخل نہیں کرے گا - اس وقت فوج نے یہ غوغا بلند کردیا کہ وزیر اعظم ایرانیوں سے مل گیا ہے اور سازش کی بدولت روس کو ایران پر حملہ کرنے سے روکا ہے - ان باغیوں نے امیر البحر اور وزیر جنگ دونوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں دریا میں بہا دیں - افواج کی بغا وت نے یہ رنگ دکھلایا کہ انتہائی نازک وقت میں خلیفہ غازی احمد ثالث اپنے بھتیجے سلطان محمود اول کے حق میں1730 عیسوی میں دستبردار ہوکر کنارہ کش ہوگئے - کنارہ کشی کے چھ سال بعد 1736 عیسوی میں اس دنیا سے کوچ کیا - خلیفہ غازی احمد ثالث کے ہی دور میں ترکی میں پہلا چھاپہ خانہ مطبع خانہ قائم ہوا - اس حوالے سے اہم بات قارئین تک ضرور پہنچنی چاہیے کہ اس وقت کے مفتی اعظم نے اس شرط پر اس کے قیام کی اجازت دی تھی کہ قرآن مجید کی طبا عت کی اجازت نہیں ہوگی - اس کی وجہ یہ تھی کہ خدانخواستہ طبا عت کے دوران اس بات کا امکان تھا کہ شرپسند عناصر اس میں کسی قسم کی تحریف نا کرسکیں -

روس کی ریشہ دوانیاں اور معاہدہ کوچک کناری سودھو

غازی احمد ثالث سلطان محمود اول دستبردار ہوکر مملکت سلطنت سے کنارہ کش ہوچکے تھے -ان کے انتقال کے بعد غازی محمود خان اول ابن غازی مصطفیٰ خان ثانی مسند خلافت پر بیٹھے - ان کی مدت خلافت پچیس سال رہی - 1730 عیسوی سے لیکر 1754 عیسوی تک خلافت پر سرفراز رہے - اس دوران پولینڈ اور روس کے محاذ پر سرحدی جھڑپیں اور جنگیں جاری رہیں - ابتدائی دور میں اصل حکمرانی وزیر اعظم خلیل کی تھی تقریبا دو سال تک تو خلیل کا ہی حکم چلتا رہا - تاہم امور مملکت آہستہ آہستہ غازی محمود خان اول کے ہاتھوں میں آنا شروع ہوئے اور اسطرح غازی محمود خان اول نے بھرپور طریقے سے مرکز اور سرحدی محاذوں پر یکسوئی کے ساتھ توجہ دینی شروع کردی - داخلی محاذ پر سلطان محمود اول کو اب کوئی خطرہ نہیں تھا - پڑوسی مملکت ایران کے ساتھ امن کے معایدے پر پیش رفت کی - اس وقت ایرانمیں طہماسپ خان کی حکومت تھی - جب امن معائدہ ہوا تو نادر خان نے اس پر فساد کھڑا کردیا اور طہماسپ خان کی حکومت کو معزول کردیا اس اندرونی خلفشار کے نتیجے میں طہماسپ خان کا شیر خوار بچہ عباس ایران کا شاہ بنا دیا گیا - نادر خان نے عراق پر بہت بڑا حملہ کیا اور بغداد کا محاصرہ کرلیا گیا - ان حالا ت میں عثمانی سلطنت کو نادر خان کے ساتھ معائدہ کرنا پڑا اور نادر خان کو عثمانی سلطنت نے ایران کا شاہ تسلیم کرلیا گیا - نادر خا ن کے شاہ ایران بننے سے عثمانی سلطنت اور ایرانیوں میں لڑایئوں کا دور ختم ہوا - یوروپی محاذ مگر پھر بھی گرم ہی رہا - ساٹھ سال کی عمر میں غازی محمود خان اول کا انتقال ہوا- ان کے دور میں عثمانیوں نے اقتصادی ترقی حاصل کی - تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور انصاف کی بالادستی رہی -آیا صوفیہ ،جا مع الفا تح اور غلطہ سرائے کے عظیم کتب خانے غازی محمود خان اول کی ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے - غازی محمود خان اول کے انتقال کے بعد غازی سلطان عثمانی خان الثالث نے خلافت کا حلف اٹھایا - حلف اٹھانے کے بعد ا علان کیا کہ اب عثمانی سلطان کا دروازہ ہر خاص و عام کے لئے دن رات کھلا ہے - اس کا عملی مظا ہرہ بھی دیکھنے کو ملتا- سلطان راتوں کو بازار اور گلیوں میں اکیلا گشت کرتا بھی نظر اتا - اور متاثرین کی داد رسی کرتا - ایک مرتبہ گشت کے دوران اپنے وزیر کی سختی اور حد سے تجاوز کرنے کی اطلا ع ملی - جب باز پرس کی گئی تو الزام سچ ثابت ہوا - جس پر فوری طور پر صدر اعظم کو تبدیل کرکے مشھور عا لم دین راغب پاشا کو صدر اعظم بنادیا گیا - راغب پاشا کا شمار معروف مدبرین مملکت میں ہوتا تھا - راغب پاشا کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں - سلطان غازی عثمان الثالث کا دور اگرچہ بہت طویل نہیں تھا - مگر مجموعی ا عتبار سے پرسکون تھا - علمی کام بہت ہوا - اقتصادی ترقی کو عروج حاصل ہوا اور رعایا خوش حال رہی - تجارت کو فروغ حاصل رہا - ذرعی شعبے میں نمایاں کام ہوا - تین سال گیارہ مہینے کے دور حکومت میں لوگوں کو بھرپور انصاف فراہم ہوا - سلطان غازی عثمان الثالث کے انتقال کے بعد1757 عیسوی میں غازی سلطان مصطفی خان الثالث ابن سلطان احمد ثالث عہدہ خلافت پر مسند آراء ہوا- سلطان غازی عثمان الثالث مرحوم کی طرح غازی سلطان مصطفی خان الثالث بھی بہت دیندار اور اچھا خلیفہ ثابت ہوا - فلاحی ادارے اور مریضوں کے لئے مفت شفاخانوں کا رواج ان ہی کے دور میں شروع ہوا تھا - ان کا یادگار کام غرباء کے لئے عزت اور مکمل رازداری کے ساتھ رقم کی فراہمی بھی تھی - مسافروں کے لئے مفت یا کم معاوضے پر سرائے اور سرکاری ہسپتال قائم کروائے گئے - صحیح معنوں میں ایک رفاہی سلطنت کا تاثر قائم ہوا - اس ہی دور میں عا لم دین اور محبوب ترین وزیر اعظم محمد راغب پاشا کا انتقال ہوگیا - جس پر عثمانی سلطنت میں قومی سوگ منایا گیا - راغب پاشا کے انتقال کے بعد سلطنت عثمانیہ کو ایک بہت بڑی سازش سے دوچار ہونا پڑا - یہ سازش روس نے تیار کی تھی اور اس کا سرخیل علی بیگ تھا - علی بیگ مصر میں شہر قاہرہ کا امیر البلد یعنی مئیر تھا - روس نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے اس کو بغاوت پر آمادہ کیا- اور جنگی سازو سامان کے ساتھ اس کی مدد کی - اس امداد کے ملتے ہی علی بیگ نے عثمانی حکمرانوں کے خلاف بغاوت شروع کردی اور باقاعدہ جنگ کی ابتداء کی - عثمانی سلطنت کی اپنی افواج مصر میں بہت بر تعداد میں موجود نہ تھیں - چنانچہ قبل ذکر مزاحمت نہ ہو سکی - یہی حال شام کا بھی تھا - اس جگہ بھی عثمانی حکومت تو تھی مگر فوج بہت ہی مختصر رکھی گئی تھی - فوج کا زیادہ تر حصہ یوروپی مفتوحہ علاقوں میں تعینات کیا گیا تھا - علی بیگ نے روسی اسلحہ کی بدولت نہایت آسانی کے ساتھ غزہ ، نابلس ، القدس یا فہ اور بالآخر دمشق تک فتح کرلیا - یہ حالا ت 1772 عیسوی کے ہیں - علی بیگ نے روسی فوجیوں کی مدد سے بیروت شہر کو اجاڑ کر رکھ دیا - مسلمان عورتوں اور بچیوں کی آبرو ریزی کی گئی - جوا نوں اور بوڑھوں کو سڑکوں پر لاکر ذبح کیا گیا - صرف مسلمان ہی نہیں روسیوں اور علی بیگ کی فوج نے عیسائی راہبوں اور ان کے خاندانوں تک کو نہیں بخشا - ان کی خانقاہوں سے گھسیٹ کر راہبوں کو با ھر نکالا اور با زا روں میں لاکر گلے پر چھریاں پھیر دی گئیں - روسی فوجی آرتھوڈکس تھے اور بیروت میں کیتھولک فرقے کے عیسائی آباد تھے - انھوں نے کیتھولک فرقے کو اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا - اتنی وحشیانہ نسل کشی ہوئی کہ تاریخ میں اس کو بدترین نسل کشی سے تعبیر کیا جاتا ہے - اس کامیاب حملے کے بعد علی بیگ نے ترکی صوبے اناضول کی جانب بڑھنا شروع کیا - علی بیگ مصر سے نکلتے وقت ابولذھب محمد بیگ کو اپنا نائب بنا چکا تھا - جیسے ہی علی بیگ نے اناضول کی جانب پیشقدمی کی ابولذ ھب محمد بیگ نے علی بیگ کے خلاف بغاوت کردی - علی بیگ کو راستے سے واپس لوٹنا پڑا - 1773 عیسوی میں علی بیگ نے محمد بیگ ابولذھب سے نمٹنے کا فیصلہ کیا - محمد بیگ نے الصالحہ ( مصر کا علاقہ ) میں علی بیگ کی فوج کو رو کا- علی بیگ کی اپنی فوج کے علاوہ چار سو روسی فوجی بھی علی بیگ کے لشکر میں موجود تھے - شدید ترین لڑائی کے بعد محمد بیگ ابولذھب کو کامیابی ملی -علی بیگ کی بہت سی فوج ماری گئی - اور روسی فوجی مارے گئے - علی بیگ خود بھی شدید زخمی ہوا - اس کو گرفتار کرنے کے بعد قاہرہ لا یا گیا - علی بیگ زخموں کی تاب نہ لاکر جلد ہی مر گیا - اور بغاوت ختم ہوئی - چار روسی کمانڈراب تک زندہ تھے - محمد بیگ ابولذھب نے علی بیگ کا سر کاٹ کر اور چاروں روسی کمانڈروں کو حمص کے عثمانی گورنر خلیل پاشا کے پاس بھیج دیا - اسطرح محمد بیگ از خود خلافت کے وفاداروں میں شامل ہوگیا - مصطفیٰ ثالث نے سترہ سال حکمرانی کی اور 1774 عیسوی میں قسطنطنیہ میں انتقال کیا - ان کی زندگی زہد و تقوی سے لبریز تھی خیرات اور یتیموں کی کفالت میں ان کا بہت مقام ہے - انہیں عثمانی حکمرانوں میں یتیم پرور کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے - ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی غازی عبدا لحمید خان اول نے عثمانی سلطنت کا تاج پہنا - روس اور بلغاریہ کی حکومتیں مسلسل عثمانی سلطنت کے خلاف سازشیں کر رہے تھے - مستقل وہاں کی سرحدوں پر ہلکی پھلکی جنگی کاروائیاں جاری رہتیں - روس کی مسلمان دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف تو بیروت میں عیسایوں کا قتل عام اور دوسری طرف پاپائے اعظم کے ساتھ مل کر دوبارہ کیتھولک عیسایوں کو اپنے ساتھ ملالیا گیا اور عثمانی سلطنت کے خلاف فوج تیار کی - ادھر بلغاری حکومت بھی مسلسل دباؤ ڈال رہی تھی - عثمانی سلطنت کا حال یہ تھا کہ وہ اتنی طویل سرحدوں پر اپنی فوج کو تعینات کرنے کے بعد ان کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے پریشا ن تھی - ما لی اخراجات کا بوجھ روز بروز بڑھتا جارہا تھا - اقتصادی حالت بھی بگڑنے لگی تھی - لیکن اس کے باوجود غازی عبدالحمید اول نے اپنے پیشروں کے رفائی کا م کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کو آگے بھی بڑھایا - جولائی 1774 عیسوی میں عثمانی سلطنت روس کےمابین ایک مشہور معائدہ عمل میں آیا جسے" معائدہ قنیا رجہ " ( معاہدہ کوچک کناری ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے - یہ معائدہ بظاھر عثمانی سلطنت کے خلاف جاتا تھا مگر سلطان عبدالحمید اول نے عثمانی سلطنت کو مزید سکڑنے سے بچانے کے لئے اس معائدے پر ہامی بھری تھی لیکن اس کے باوجود روس نے اس کی پاسداری نہیں کی اور خلاف ورزی کی - روس کی تاریخ اس خلاف ورزی کی روایت سے بھری پڑی ہے - اس کے مقابلے پر یہ بات بھی تاریخی ا عتبار سے ہمیشہ سراہی جائے گی کہ ترکوں نے کبھی بھی کسی بھی معاہدے کی کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کی - اس معایدے میں صریح طور پر نشاندھی کی گئی تھی کہ دونوں حکومتیں اقرم ، بسرابیا اور توران کی آزادی تسلیم کرتی ہیں - لیکن اس کے برعکس چند ہی دنوں بعد روس نے قرم اور بسرابیا پر حملہ کردیا - اس سراسر بد عہدی کے مقابلے پر عثمانی سلطنت کو قرم اور بسرابیا کی مدد کے لئے میدان میں آنا پڑا - اسی اثناء میں روس نے بلغراد پر حملہ کرکے عثمانیوں کے لئے نیا محاذ کھول دیا -1789 عیسوی میں عثمانی افواج نے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے روسیوں کو عبرت نا ک شکست سے دوچار کیا - اس کے چند ماہ بعد خلیفہ سلطان عبدالحمید اول کا انتقال ہوگیا جن کے بعد سلطان غازی سلیم خان ثالث ابن سلطان مصطفیٰ ثالث مسند خلافت پر بیٹھے -

نپولین بونا پارٹ کا حملہ - انگریزوں کا فریب سودھو

امیر المومنین سلطان غازی سلیم خان ثالث نے اپریل 1789 عیسوی میں عثمانی سلطنت کے اٹھائیسویں سلطان اور بیسویں خلیفہ کی حیثیت سے مسند خلافت سنبھالی اور 28 جون 1807 عیسوی میں خلافت سے معزول کردئیے گئے - خلافت کے منصب پر بیٹھتے وقت سلطان سلیم خان کی عمر اٹھائیس سال تھی سلطان غازی سلیم خان ثالث کی مدت خلافت 19 سال رہی - معزولی کے وقت سلطان سلیم خان ثالث کی عمر 48 سال تھی - - اس وقت عثمانی سلطنت کو دو بہت بڑے مسائل کا سامنا تھا - پہلا مسئلہ سلطنت کا یوروپی محاذ تھا جہاں مسلسل سرحدی جھڑپیں جاری تھیں - دوسری مشکل صورتحال یہ تھی کہ خز انہ خالی ہوتا جارہا تھا - سلطان سلیم نے سب سے پہلی توجہ فوج اور اس کے انتظام و انتصرام پر مرتکز کی - سلطنت میں اسلحے کے کارخانے قائم کئے - تاکہ جنگی ضروریات میں خود کفیل ہوا جا سکے - اس کا ضمنی فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہنر مند افراد کو روزگار فراہم ہوا اور دوسری جانب غیر ملکی اسلحے کی خریداری پر جو لاگت آرہی تھی وہ بھی بچت میں تبدیل ہوگئی - اسلحے اور دیگر فوجی ضروریات کے ساز و سامان کی آسان ترسیل کے لئے مواصلات کے نظام میں بہتری پیدا کی جس کا نتیجہ اچھی شاہراہوں کی تعمیر کی صورت میں نکلا - لیکن مایوس کن صورتحال یہ بھی رہی کہ کرائے کی فوج اور پیشہ ور افواج میں سازشی عناصر سے حد درجہ مایوسی پیدا کردی تھی جس کے نتیجے میں فوجی کیمپ چھوڑ چھوڑ کر جانے لگے - داخلی محاذ پر فوج میں بددلی پھیلانے کے بعد سازش کا سرغنہ روس مزید متحرک ہوگیا اور اس نے آسٹریا کے ساتھ اتحاد کرلیا - اس اتحاد کا فائدہ اٹھا کر آسٹریا کی فوجوں نے مفتوحہ عثمانی علاقے بلغراد پر چڑھائی کردی اور بلغراد پر قبضہ ہوگیا - عثمانی افواج نے پسپائی کے فورا بعد بھرپور جوابی حملہ کیا اور بلغراد کو آزاد کروالیا گیا - روس اور آسٹریا کی فوجوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا - 1791 عیسوی کو امن معا ئدہ ہوا جس کے مطابق آسٹریا کے بہت بڑے علاقے اور بلغراد پر عثمانی قبضے کو تسلیم کیا گیا - عثمانی سلطنت یوروپ کے بہت بڑے علاقے پر اپنی بالادستی قائم رکھنے میں کامیاب رہی - 1798 عیسوی کو فرانس کے نپولین بونا پارٹ نے بغیر اعلان کے بلکہ اور اپنے انگریز حلیفوں سے بھی مخفی رکھتے ہوئے جزیرہ مالٹا پرفرانسیسی فوجیں اتار دیں -اور اسکندریہ ( مصر ) تک اپنی افواج لے آیا - اس کا کہنا تھا کہ میں جنگ کرنے کیلئے نہیں بلکہ خلیفہ کے حکم سے تجارتی راہداریوں کا جائزہ لینے آیا ہوں - یہاں تک کہ وہ جا معہ ازہر(قاہرہ) پہنچ کر شیخ الازہر عبداللہ شرقاو ی سے ملاقات کرتا ہے اور ان کو اپنے مسلمان ہونے کا یقین بھی دلاتا ہے - اور قسمیں کھا کر اس بات کا یقین دلانے کی کوشش بھی کی کہ وہ امیر المومنین کی اجازت سے اسلئے یہاں آیا ہے کہ ہندوستان سے انگریزوں کا عمل دخل ختم کردے - حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فوجی مداخلت کی کسی بھی جگہ کوئی قا بل ذکر مزاحمت نہیں ہوئی - ما سوائے مالٹا میں جہاں قدیس حنا اور شلیمی کے مسلح راہبوں نے اس کو روکنے کی اپنی سی کوشش کی - یا پھر اسکندریہ ( مصر ) میں مراد بیگ کی مٹھی بھر وفادار فوج نے مزاحمت دکھائی - جب خلیفہ کو ان حالات کا علم ہوا تو انھوں نے اپنی تازہ دم افواج کو کاروائی کا اشارہ دیتے ہوئے مصر روانگی کا حکم دیا - یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں سلطنت میسور میں حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان انگریزوں کے مقابل تھا - انگریزوں کو نپولین سے خطرہ تھا کہ اگر اس نے عثمانیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ہندوستان کا رخ کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں کا بوریا بوریا بستر گول ہوتے دیر نہیں لگے گی - اس حقیقی خطرے ک بھانپتے ہوئے برطانیہ نے نپولین کو مصر سے نکالنے کی مہم میں عثمانیوں کا ساتھ دیا -دوسری طرف نپولین نے مصر میں قبضہ مستحکم رکھنے کیلئے شام پر بھی چڑھائی کردی اور خاصی حد تک قبضہ بھی کرلیا - یکم اگست 1798 عیسوی میں جوابی کا روائی میں برطانوی امیر البحر نیلسن نے نپولین بونا پارٹ کی بحریہ پر شدید حملہ کرکے اس کو تہس نہس کردیا - دوسری جانب دولت عثمانیہ نے فرانس کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے مصر کو آزاد کروانے کا فیصلہ کیا اور فرانسیسی افواج کی شکست سے دوچار کیا- اور پھر معجزاتی طور پر یا سفارتی جا دوگری کے تحت نپولین باحفا ظت طریقے سے اسکندریہ سے فرار فرانس جا پہنچا - البتہ مصر میں اس کے نائب موسیو کلیبر کو گرفتار کرکے قتل کردیا گیا اور اسطرح مصر ایک بار پھر دولت عثمانیہ کا حصہ بن گیا- اس فتح کے بعد بھی روس اور آسٹریا سے عثمانیوں کی جنگیں جاری رہیں - مگر عجب صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب برطانیہ نے عملا روس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کی اور عثمانی سلطنت کا دشمن بن بیٹھا - اور پھر روس کے ساتھ مل کر اپنی فوجوں کو درہ دانیال پر اتا ر دیا اور اسطرح درہ دانیال مشترکہ طور پر روس اور برطانیہ کی عمل داری میں آگیا - اسی زمانے میں مشھور انگریز جنرل مسلمان ہوا جس کا اسلامی نام مصطفی رکھا گیا اور بعد میں اس نےبہت گرانقدر فوجی کارنامے سر انجام دے جس پر اس کو کئی فوجی ا عزازات اور شاہی القاب عطا کے گئے - سلطان سلیم خان کا دور ترکی اور عثمانی سلطنت کا اہم دور کہا جاسکتا ہے جس میں عثمانیوں نے روایتی حربی ذرا یع پر انحصار کرنے کے بجائے جدید فوج کا نظام وضع کیا اور فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی پہلی شعوری کوشش کی - سلطان سلیم خان ثالث کے دور میں ہونے والی عسکری اصلاحات کی بدولت یورپی خطوط پر افواج کو جدید تر بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے گئے ۔ فرانسیسی کاریگروں اور فنی مہارت رکھنے والے انجینئروں اور توپچیوں کی مدد سے توپ ڈھالنے کے جدید طرز کے کارخانے قائم کیے گئے۔ جاگیرداری نظام جو اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کو ختم کرنے کا فرمان جاری کیا گیا ۔ کسانوں کو ترغیبات دے کر کاشتکاری پر آمادہ کیا گیا - ان اقدامات پر عثمانی سلطنت کے مذہبی اور پرانے خیالات کے ینی چری دستوں نے کھل کر مخالفت کی اور اس کے نتیجے میں شاہی فوج ینگ چری نے بغاوت بھی کی۔ شیخ الاسلام اسعد آفندی عثمانی سلطنت میں کی جانے والی اصلاحات کے پرزور حامی تھے، لیکن 1807ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو نئے شیخ الاسلام عطاء اللہ آفندی جو شاہی فوج ینگ چری کے زیر اثر تھے، انہوں نے مذہب کے نام پر ان اصلاحات کی مخالفت کی۔ اور جدید یورپی طرز کی فوجوں کی تنظیم کو بے دینی سے تعبیر کیا - ان کا ا عتراض جدید فوجی وردیوں پر بھی تھا - وہ ان وردیوں کو بھی ہنود و نصری کی نشانی سے تشبیہہ دیتے تھے - یہاں تک کہ بندوق کے آگے سنگین تک کے استعمال کی اس لیے مخالفت کی گئی کہ کافروں کے اسلحے سے متشابہ تھا اس لئے اس کا استمعال کرنا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ سلطان سلیم کے خلاف یہ کہہ کر نفرت پھیلائی گئی کہ وہ کفار کے طریقے رائج کرکے اسلام کو خراب کررہا ہے۔ عطاء اللہ آفندی نے فتویٰ دیا کہ ایسا بادشاہ جو قرآن کے خلاف عمل کرتا ہو بادشاہی کے لائق نہیں آخر کار 1807ء میں سلیم کو معزول کرکے قتل کردیا گیا۔ روس کی ریشہ دوانیاں بڑھتی جارہی تھیں - اصلاحات کے خلاف مذہبی اور صوفیوں کی تحریک مزاحمت میں تشدد کا عنصر پیدا کرنے کے بعد شاہی فوج کی مسلح بغاوت ہوئی جس کے نتیجے میں سلطان سلیم کو معزول کیا گیا اور ایک سال بعد ہی سلطان سلیم خان پراسرار انداز میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے - جس کے بعد یہ مشہور کروایا گیا کہ ان کو سلطان مصطفی را بع کے ایماء پر قتل کروایا گیا ہے - جب کہ حقیقت یہ تھی کہ سلطان سلیم خان ثالث ہنگامے سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے - یہ خبر سلطان مصطفی را بع سے بدگمان کرنے کی خاطر پھیلائی گئی تھی - سلطان سلیم خان ثالث کی معزولی کے بعد 1807عیسوی میں غازی سلطان مصطفی خان بن سلطان عبدالحمید اول تخت نشین ہوئے - اور صرف تیرہ ماہ اس منصب پر رہنے کے بعد 1808عیسوی میں معزول کر دئے گئے - سلطان مصطفی خان نے یوروپ کے محاذ پر اپنی توجہ رکھنے کی کوشش کی مگر فوج کی اندرونی بغا وت کے آگے کچھ نہ کر پائے - باغی فوج جس نے سلطان سلیم کی معزولی کے بعد سلطان مصطفی کو تخت پر براجمان کروایا تھا ، اس کا تقاضا یہ تھا کہ جو اصلاحات معزول سلطان نے جاری کروائی ہیں ان کا حکم منسوخ کرکے نیا فرمان جاری کیا جائے- مگر سلطان مصطفی کی جانب سے اس دباؤ کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا اور وہ اپنے پیشرو سلطان سلیم ثالث کی اصلاحات کو آگے بڑھانے پر لگے رہے - باغی افواج نے اپنے مطالبات کو رد ہوتے دیکھ کر سلطان سرائے کا گھیراؤ کرلیا اور سلطان مصطفی خان کو گھر میں داخل ہوکر تخت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا - معزولی کے کچھ دنوں بعد اکتوبر 1808عیسوی میں ان کو ان کی خواب گاہ میں قتل کردیا گیا - جس دن سلطان مصطفی خان رابع کو معزول کیا گیا تھا باغی افواج نے سلطان محمود خان ثانی کو تخت سنبھا لنے کا حکم دیا - سلطان محمود ثانی نے حسب روایت جلوس کی صورت میں فصیل قسطنطنیہ میں مدفون صحابی رسول حضرت ابوایوب انصاری کے مزار پر حاضری دی نماز شکرانہ ادا کی اور دعا فرمائی اور خلافت کے منصب کا حلف اٹھایا - حالت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انھوں نے باغی افواج کے خلاف کسی بھی رد عمل کا اظہار نہیں کیا - اور دو ہفتوں کی طویل فوجی مشاورت کے بعد برقدار مصطفی پاشا کو وزیر اعظم مقرر کرنے کا اعلان کیا - اور پھر ایک فرمان کے ذریعے جدید اصلاحات کو روکنے اور سلمان قانونی کے دور کے سابقہ نظام کو رائج کرنے کا اعلان کیا گیا - عثمانی سلطنت جس نازک ترین دور سے گزر رہی تھی ان حالات میں سلطان محمود نے حکمت و فراست کے ساتھ نہایت پیچیدہ معاملات کو خوش اسلوبی سےچلایا اور اندرونی خلفشار کو ٹھنڈا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی - اس کے باوجود انکشاری فوجی ( کرائے کے فوجی ) ان سے شاکی ہی رہے - اخلاقیات سے عاری ان کرائے کے فوجیوں کے نزدیک اگر کوئی شے قا بل احترام تھی تو وہ صرف اور صرف شاہی القابات اور اس کے بدل میں شاہی وظائف تھے - ان میں اگر کوئی اچھی صفت باقی بچی تھی تو وہ تھی شجاعت - جس کا وہ جائز اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے تھے - سلطان محمود ایک اچھا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس کرائے کی فوج کو یوروپ کے محاذ پر بہت خوبی کے ساتھ استمعال کیا اور متعدد مواقعوں پر اپنی عوام کو ان کے غضب سے دور رکھا - سلطان محمود کے عہد کے مشہور واقعات میں نپولین کا مصر پر قبضہ اور پھر نپولین کی شام میں درندگی و مظالم اس کے بعد نپولین کا مصر سے نکل جانا اور مصر کی ایک بار پھر فتح ، مصر میں نجدیوں کی وہابی تحریک سے مقابلہ ، خلیفہ کے خلاف مصر کی بغاوت ، 1839 عیسوی میں عثمانیوں کا مصریوں کے خلاف جنگ نصبین میں شکست سے دوچار ہونا شامل ہے - جنگ نصیبن کی شکست کے بعد 2 جولائی 1839 عیسوی کو چند دن بیمار رہ کر سلطان محمود خان اس دار فا نی سے کوچ کرگئے - سلطان محمود کا دور خلافت 31سال دس مہینے رہا - ان کے بعد ان کے بیٹے غازی سلطان عبدالحمید اول ان کے جا نشین قرار پائے -

عثمانی سلطنت دیوالیہ ہوگئی سودھو

غازی سلطان عبدالمجید اول بن سلطان محمود خان ثانی نے 3 جولائی 1839 عیسوی میں خلافت کا منصب سنبھالا - ان کے خلافت پر فائز ہونے سے پیشتر سلطان محمو د ثانی کے دور خلا فت میں مصرکے محمد علی پاشا کو فرمان خلافت جاری کرتے ہوئے اور خدیو کے لقب سے نوازا گیا تھا - خدیو محمد علی پاشا کے حوالے سے گزشتہ مضامین میں تفصیل کے ساتھ ذکر آچکا ہے تا ہم مختصرا یہ بتا نا ضروری ہے کہ خدیو مصر نے عثمانی سلطنت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ رکھیں اور ہر موقع پر اپنے لئے ما لی منفعت کے راستے تلاش کئے - یہاں تک کہ عثمانی سلطنت کی کشتی میں سوراخ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا - غازی سلطان عبدالمجید اول جب خلافت پر بیٹھے تب ان کی عمر اٹھارہ سال تھی - عثمانی سلطنت کی حالت روز بروز خراب ہوتی جارہی تھی - یورپی محاذ پر مستقل جنگیں ہورہیں تھیں - عیسائی حکمرانوں نے عثمانی سلطنت کو حصوں میں تقسیم کرنے کا عزم کیا ہوا تھا - داخلی محاذ پر بد انتظامی اور اضطراب کی کیفیت تھی - عیسائی یورپی حکومتوں سے ان کی شرائط پر معایدے کرنے پڑ رہے تھے جس سے عثمانی سلطنت کو ہر بار نقصان ہی پہنچ رہا تھا - غازی سلطان عبدالمجید اول نے مغربی یورپ کی اہم سیاسی قوتوں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور انہی اتحادیوں کے ذریعے روس کے خلاف جنگ کریمیا لڑی۔ 30 مارچ 1856ء کو معاہدۂ پیرس کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کو یورپی اقوام کا باقاعدہ حصہ قرار دیا گیا۔ عبد المجید کی سب سے بڑی کامیابی تنظیمات کا اعلان اور نفاذ تھا جس کا آغاز ان کے والد محمود ثانی نے کیا تھا۔ اس طرح 1839ء سے ترکی میں جدیدیت کا آغاز ہو گیا۔ یورپی حکمرانوں نے عثمانی سلطنت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا اور پروپیگنڈے کو پھیلانے کیلئے بڑی تعداد میں اپنے جاسوس عثمانی حکمرانوں کے اطراف پہنچا دے تھے جن کا کا م سلطنت کے فیصلوں پر غیر ضروری تنقید اور عثمانی حکمرانوں کی کردار کشی تھا - ان حالات میں نصبیں کے میدان جنگ میں خدیو مصر کے مقابلے پر عثمانی سلطنت جس شکست سے دوچار ہوئی اس سے عثمانیوں کے وقار کو بہت دھچکا پہنچا - طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ عثمانی امیر البحراحمد پاشا نےکمال ہوشیاری اور مکاری سے اسکندریہ ( مصر ) کے محاذ پر اپنی افواج اتار دیں اور اپنے بحری بیڑے کو مصریوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا - اس غداری اور بزدلانہ حرکت کے پیچھے جو عنصر تھا وہ یہ تھا کہ احمد پاشا کو خسرو پاشا کے وزیر اعظم بنائے جانے سے سخت مایوسی ہوئی تھی - احمد پاشا کے درپردہ والی مصر محمد علی پاشا سے مراسم بھی تھے چناچہ رقابت کی انتہا پر پنچ کر اس نے اپنی بحری فوج کے بہت بڑے حصے کو والی مصر کے حوالے کردیا- 13 جولائی 1839 عیسوی میں یہ واقعہ پیش آیا - اور اس کے بدلے میں بیش بہا مراعات حاصل کیں - اس واقعے نے عثمانی سلطنت کو بےدست و پاء کردیا تھا - مگر اس صورتحال میں بین الاقوامی سطح پر عجب حالات پیدا ہونا شروع ہوئے - انگلستان جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے سہارے برصغیر میں اپنے قدم جما چکا تھا اس کو سمندری راستہ بند ہوجانے کا خوف لاحق ہوگیا- فرانس کو یہ دکھائی دینے لگا کہ اگر وہ اپنی فوجی قوت کو استمعال کرکے انگلستان کو زیر کرلے تو برصغیر ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرسکے گا - روس کو عثمانی سلطان آبنائے باسفورس سے گزرنے کا پروانہ راہداری جاری کر ہی چکے تھے - روس کو سمجھ آرہا تھا کہ احمد پاشا کے بحری بیڑے کو مصر کے حوالے کرنے سے مصر کے حکمران اسی بحریہ کو ترکی کے خلاف استمعال کریں گے اور اسطرح باسفورس کا راستہ روس کے لئے بند ہوجائے گا - اس کھچڑی کہانی میں روس اور برطانیہ ایک ہوگئے اور فرانس کے خلاف آواز بلند کرنے لگ گیۓ - اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ روس کو عثمانیوں سے کوئی ہمدردی پیدا ہوگئی تھی - روس کی عثمانیوں سے عداوت پہلے کی طرح اب بھی موجود تھی لیکن سمندری راستوں پر قبضے اور راہداری نے بڑے حریفوں کو ایک کردیا تھا - اسمیں کوئی شبہ نہیں کہ سلطان عبدالمجید اول کے دور میں سلطنت عثمانیہ جدیدیت کی راہ پر گامزن ہوئی اور سلطنت میں امن قائم ہوا لیکن اس جدیدیت کی سلطنت عثمانیہ کو بہت مہنگی قیمت بھی چکانی پڑی۔ تاریخ میں پہلی بار جنگ کریمیا کے دوران سلطنت عثمانیہ کو اگست 1854ء میں غیر ملکی قرضہ لینا پڑا۔ اس کے بعد 1855ء، 1858ء اور 1860ء میں بھی سلطنت نے قرضے لیے اور یوں معاشی طور پر قرضوں میں جکڑتی گئی۔ یہ عثمانیوں کی وہ غلطی تھی جس نے اقتصادی طور پر سلطنت کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی -دوسری جانب شاہ اور شاہی محل کے اخراجات بھی حد سے زیادہ تجاوز کرچکے تھے جس کا اندازہ استنبول میں دولمہ باغچہ جیسے عظیم الشان محل کی تعمیر سے بھی ہوتا ہے جس پر 35 ٹن سونے کی لاگت آئی- عبد المجید 39 سال کی عمر میں 25 جون 1861ء کو ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہونے کے باعث انتقال کر گئے۔ 7 جون1861 عیسوی میں ان کی جگہ ان کے بھائی عبد العزیز اول تخت سلطانی پر بیٹھے۔ اس وقت آسٹریا اور ہنگری کے مابین قبضے کی کشمکش عروج پر تھی -اور روس کی نگاہیں پولینڈ پر جمی ہوئی تھیں - ہنگری دولت عثمانیہ کو جزیہ ادا کرنے والی ریاست تھی جس کا عثمانی سلطنت سے معاہدہ بھی تھا - پاپائے اعظم کا مقدس فرمان پر سرعت کے ساتھ عملی اقدامات اٹھا ئے جارہے تھے ، جس میں عثمانی سلطنت کو ختم کرنے کی ہدایت بھی موجود تھی - تاکہ کسی طرح دین مسیح کے عالمی اقتدار کے لئے راستہ ہموار کیا جا سکے - ان کے دور حکومت میں جو اہم اصلاحات ہوئیں ان میں ہم اصلاحات ہوئیں ان میں 1840ء میں عثمانی کاغذی نوٹوں کا اجرا، فوج کی تنظیمِ نو ،1844ء میں عثمانی قومی ترانہ اور قومی پرچم کا انتخاب، فرانسیسی طرز سے ملتا جلتا مالیاتی نظام کا آغاز اور تنظیمِ نو، فرانسیسی طرز پر ہی ضابطۂ فوجداری و دیوانی کی تنظیمِ نو، 1848ء میں جدید جامعات و تعلیمی اداروں کا قیام، 1856ء میں غیر مسلموں پر عائد اضافی محصولات کا خاتمہ،1856ء میں غیر مسلموں کو فوج میں شمولیت کی اجازت ، معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے انتظامی امور میں بہتری کے لیے اقدامات، غازی سلطان عبد المجید کے دور میں پہلی بار پگڑی کی جگہ فاس (جو بعد ازاں ترکی ٹوپی کہلائی) کو اختیار کیا گیا۔ فرانس کی افواج کے بیروت سے نکل جانے کے بعد ہی سلطان عبدالمجید انتقال کر جانے کے بعد ان کے بھائی غازی سلطان عبدا لعز یز خلیفہ بنائے گئے - یورپی محاذ پر عیسائی حکمرانوں کی صورت میں مستقل خطرہ موجود تھا - اس زمانے میں عیسائی تین مختلف گروہوں میں موجود تھے اور ان کے درمیان بھی پوپا ئیت کا جھگڑا موجود تھا مگر مسلمانوں کے مقابلے پر وہ اپنے اندرونی معاملات کا اظہار نہیں کرتے تھے - تین بڑے فرقوں میں سے ایک فرقہ رومن کیتھولک عیسائی تھا جس کی قیادت اطالوی پاپائے اعظم کے پاس تھی - اس کی خواہش یہ تھی کہ عثمانی سلطنت میں بسنے والے تمام عیسائی اسے اپنا قائد اور رہنما تسلیم کریں - دوسرا فرقہ پروٹسٹنٹ تھا جس کی قیادت جرمنی کے فرمانروا کے پاس تھی - ایک اور فرقہ آرتھوڈکس تھا جس کی سربرا ہی روس کے پاس تھی - روس کے شہنشاہ عظیم پطرس اعظم نے مرنے سے پہلے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ یورپ میں عثمانییوں کے خلاف مسیحی بالاد ستی کی جدوجہد ہر قیمت پر جاری رکھی جائے - اور مجبور کیا جائے کہ عثمانی سلطنت میں بسنے والے آرتھوڈکس عیسایوں کا خیال رکھے اور روس کو ان کے معاملات کا نگران تصور کیا جائے - اسی نظریے اور مطالبے کی بنیاد پر ملکہ کیتھرا ین نے پو لینڈ اور عثمانی یورپی علاقوں میں جنگیں بھی کیں - ان جنگی سلسلوں کی ایک مشھور جنگ نہر الطونہ کی جنگ ہے جو شہر سلسترا کی جنگ کہلاتی ہے - اس جنگ میں عثمانیوں نے روس کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا - مگر پسپا ہوتے ہوئے روسی جس علاقے سے گزرتے وہاں کی تمام آبادی کوقتل کرتے ہوئے جاتے - یہاں تک کہ تمام علاقہ انسانی لاشوں اور مردہ جسموں سے اٹ چکا تھا - وہاں کی اکثریت کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی تھی - عثمانی سپہ سالار عثمان پاشا نے عقب سے روسیوں پر حملہ کیا اور روسیوں کو عبرتناک شکست دی - اسی بہادری پر عثمان پاشا کو غازی کا لقب دیا گیا - ‏عبدالعزیز نے عثمانی بحریہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ابتداء کی ۔ 1875ء میں عثمانی بحریہ میں 21 بحری جنگی جہاز اور 173 دیگر جہاز شامل تھے اس لحاظ سے وہ برطانیہ اور فرانس کی بحری افواج کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی بحری فوج بن چکی تھی۔ ان کے دور میں ہی پہلی مرتبہ بذریعہ ریل سلطنت کے مختلف شہروں میں رابطہ قائم کیا گیا اور اس مقصد کے لیے استنبول میں سرکیجی ریلوے اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جو آج بھی استنبول میں اسی آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔ ان کے دور میں استنبول میں آثار قدیمہ کا عجائب گھر قائم ہوا۔ ان کے عہد میں ہی 1863ء میں ترکی میں پہلی مرتبہ ڈاک ٹکٹیں شائع کی گئیں اور ترکی نے 1875ء میں یونیورسل پوسٹل یونین میں بانی رکن کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ لیکن المیہ یہ بھی تھا کہ عثمانی سلطنت شدید ترین معاشی بحران میں بھی مبتلا ہو چکی تھی - غیر ملکی قرضوں ، پرتعیش طرز زندگی اور شاہی اخراجات نے سلطنت کو کنگال کردیا - یہاں تک کہ 1875ء میں سلطنت تقریباً دیوالیہ ہو گئی ۔ ساتھ ہی ساتھ 1875ء میں بوسنیا و ہرزیگووینا اور 1875ء میں بلغاریہ میں بہت بڑے پیمانے پر بغاوتیں ہوئیں۔ اور 11 مئی 1876ء کو دارالخلافہ میں بغاوت کے نتیجے میں 29 اور 30 مئی 1876ء کی درمیانی شب سلطان کو استعفٰی دینے پر مجبور کر دیا گیا۔ 4 جون کو ان کی لاش پراسرار انداز میں شاہی محل میں پائی گئی۔ اس موت کو خود کشی کہا گیا - مگر ایسا نہیں تھا ،وہ محلاتی سازش کا شکار ہوکر قتل کردے گئے تھے -

خلافت کا سورج غروب ہوگیا سودھو

سلطان عبدا لعزیز کے قتل کے بعد عبدالمجید اول کے بیٹے اور عبدالحمید ثانی کے بھائی مراد خامس نے 31 اگست 1876عیسوی میں عثمانی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور صرف ایک ماہ اکیس دن خلیفه رہنے کے بعد 7ستمبر 1876عیسوی میں امور سلطنت سے معزول کردئیے گئے - سلطان مراد خامس نے کثیر تعداد میں شادیاں کیں۔ ان کے حرم میں نو ملکائیں موجود تھیں - ان کے مختصر عہد میں کوئی قابل ذکر واقعہ تاریخ میں موجود نہیں - سلطان مراد خامس کی معزولی کے بعد سلطاں عبدالحمید خان ثانی عثمانی سلطنت کے خلیفہ بنے -وہ سلطنت عثمانیہ کے 34ویں فرمانروا تھے-1876ء سے 27 اپریل 1909ء ( اپنی دست برداری تک ) خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والا سلطان تھے۔ وہ سلطنت عثمانیہ کے 34ویں فرمانروا تھے۔ وہ 21 یا 22 ستمبر 1842ء کو استنبول میں پیدا ہوئے اور 75 برس کی عمر میں 10 فروری 1918ء کو فوت ہوئے۔ خلفائے بنو عثمان میں سلطان محمد فاتح کے بعد اگر کوئی خلیفہ تقوی و دینداری کے اعلی معیار پر اترتا ہے تو وہ تھے سلطان عبدالحمید خان ثانی - حافظ قرآن ، مدبر اور کئی زبانوں کے ماہر - حکمت و دانشمندی میں اپنی مثال آپ - ہندوستانی مشاہیر میں سے مولانا شبلی نعمانی مرحوم نےسلطان عبدالحمید خان ثانی سے ملاقات کی اور اپنے شہرہ آفاق سفرنامہ روم و شام میں اس کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے - سلطان عبدالحمید خان ثانی نے مولانا کو علم و فضل کی بناء پر علمی ایوارڈ تمغۂ نشان مجیدی عنایت کیا - اسی دور کی بات ہے جب مسلسل جنگوں اور لڑا ئیوں کی وجہ سے ترکی کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا تھا - یورپ کے یہودیوں نے دنیا بھر کے یہودیوں سے رقم جمع کی تاکہ فلسطین میں یہودیوں کے لئے زمین خرید سکیں - رقم جمع ہوجانے کے بعد فرانس کے سفیر کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی وفد لیکر سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ انہیں اس رقم کے بدلے میں فلسطین میں زمین دے دی جائے تا کہ وہ اپنی عبادت گاہ بنا سکیں - سلطان چاہتا تو عثمانی سلطنت کے اس بدترین معاشی بحران میں اس خطیر رقم کو قبو ل کرلیتا مگر سلطان نے اس رقم کو حقارت سے ٹھکرا تے ہوئے تاریخی جملہ ادا کیا کہ "خلیفہ زمین کا ملک نہیں صرف منتظم ہوتا ہے- نہ مجھے اس کا ا ختیار ہے نہ ہی میرا ایمان یہ بات گوارا کرتا ہے کہ میں اس ترغیب کو قبول کروں "- سلطان کے انکار کے بعد فرانس اور برطانیہ سے تعلقات مزید خراب ہوتے چلے گئے - سلطان غازی عبدالحمید کی غیرت مسلم نے گوارا نہ کیا کہ فلسطین کی ایک انچ زمین بھی یہودیوں کے پاس جائے - چاہے سا ری دنیا ہی سے مخالفت کیوں نہ مو ل لینی پڑے - سلطان غازی عبدالحمید حقیقی معنوں میں نہ صرف اپنی سلطنت و رعایا بلکہ تمام علم اسلام کے لئے ہمدردی رکھتے تھے - اپنی ذاتی آمدن سے حبشہ کے دارلحکومت ادیس ابابا اور چین کے دارلحکومت پیکنگ میں قرآن ،عربی اور علوم اسلامیہ سکھانے کیلئے مدارس قائم کئے اور ان پر ہونے والے تمام تر اخراجات اپنی جیب خاص سے ادا کرتے - علماء کے قدردان تھے - ان کے وظائف اور معاونت کے لئے گراں قدر وظائف جاری کرتے - خاص طور پر علمائے مکہ و مدینہ پر ان کا خاص اکرام ہوتا تھا - 1897 عیسوی میں قبرص نے ترک مقبوضہ علاقوں پر حملہ کیا اور معاشی طور پر مقروض ترکی پر جنگ مسلط کردی - جس کا عثمانیوں نے بھرپور جواب دیا اور قبرصیوں کو مار بھگایا - اس جنگ میں قبرص کو شکست فاش ہوئی تھی - جس کا خمیازہ چالیس کروڑ پاؤنڈ کی صورت میں قبرصیوں کوادا کرنا پڑا - یہ ان کا آخری زمانہ تھا جب یورپ کے مسیحی حکمرانوں نے خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد ترکی کے نوجوان طبقے میں مغربی طرز کی جمہوریت شوشہ چھوڑا اور نوجوانوں میں انجمن ترقی و اتحاد کے نام پر ترقی پسند نوجوانوں کو اکھٹا کرنا شروع کیا - انجمن ترقی و اتحاد کے باغیانہ افکار جب تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے تب غازی سلطان عبدا لحمید نے خون خرابے سے بچنے کے لئے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا - اور اسطرح 1909 عیسوی میں حکومت سے دست بردار ہو گیے - انھوں نے 33 سال آٹھ ما ہ حکومت کی - مستعفی ہونے کے بعد نو سال زندہ رہے اور 1918 عیسوی میں انتقال فرمایا -غازی سلطان عبدالحمید عثمانی سلطنت کے چونتیسویں حکمران اور پچیسو یں خلیفہ تھے - یورپی ناقدین نے ان کو جابر اور متشدد حکمران قرار دیا مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے - مشھور شا می محقق ڈاکٹر احسن حقی نے تاریخ دولتہ العلیہ میں تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ پروپیگنڈا یورپی نقادوں نے محض مذہبی دشمنی کی بناء پر پھیلایا ہے - ان کے دستبردار ہونے پر سلطان محمد خامس رشاد نے خلافت کا منصب سنبھالا - یہ غازی عبدالحمید ثانی کے سا بق خلیفہ کے بھا ئی تھے سا بق خلیفہ دست بردار ہونے کے بعد سلوا نکیا چلے گئے تھے ایسے میں سلطان محمد خامس رشاد کے ہاتھوں پر بیعت لی گئی - سلطان محمد خامس رشاد نے نو سال کچھ ماہ حکومت کی اور جون 1918 عیسوی کو انتقال فرمایا - ان کے دور حکومت میں پارلیمانی نظام کو عملی طور پر نافذ کیا گیا - سلطان محمد خامس رشاد کے عہد حکومت کا سب سے بڑا قا بل ذکر واقعہ دنیا کی پہلی خوں ریز عالمی جنگ تھا - یہ جنگ سات جولائی 1914 عیسوی سے لیکر نومبر 1918 عیسوی تک جاری رہی - آدھی سے زیادہ دنیا اس کی تباہ کاریوں سے براہ راست متاثر ہوئی - اس جنگ کی ابتداء جرمنی اور فرانس کے مابین شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھل گئی - عثمانیوں نے جرمنی کا ساتھ دیا اور کیونکہ اس جنگ میں جرمنی کو اتحادی افواج کے مقابلے پر شکست ہوئی اس لئے اس کی قیمت ترکی کو بھی چکانی پڑی - اس جنگ کے ساتھ ساتھ انگریزوں نے شریفحسین مکہ کو اپنے جال میں پھانس لیا اور عربوں میں قوم پرستی کا بیج بو دیا - جس کے نتیجے شریف حسین مکہ نے بغاوت کردی اور عرب ریاستیں آپس میں اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہوگئیں - ( اس کی مکمل تفصیل انیسوی صدی کے باب میں موجود ہے ) - شریف حسین مکہ نےانگریز سیکرٹ ایجنٹ لارنس آف عربیہ کے کہنے میں آکر اپنی خلافت کا اعلان کردیا - مگر شریف حسین کو سلطان عبدا لعز یز بن عبدا لرحمان کے ہاتھوں 1923 عیسوی میں شکست ہوئی - شریف حسین حجاز فرار ہوگیا - اسے آخر وقت تک انگریزوں سے یہ امید رہی کہ انگریز اس کو دوبارہ بادشاہ بنا دیں گے مگر انگریز اس کو خاطر میں نہیں لائے اور شریف حسین نہ صرف عرب دنیا کی نظروں میں خراب ہوا بلکہ نظربندی کی حالت میں 1931 عیسوی میں دار فانی سے کوچ کرگیا - سلطان محمد خامس کے بعد شہزادہ وحید الدین محمد سا وس کے ہاتھ پر بعیت خلافت ہوئی - ترکی علمی جنگ میں شکست خوردہ ریاست تھی چناچہ یورپی اتحادیوں نے اس کے حصے بخرے کرتے ہوئےعثمانی سلطنت کے آپس میں حصے بانٹ لئے - یونان نے ترکی کے کچھ علاقے ہتھیالئے - فرانس نے شام پر قبضہ جما لیا - عراق پر برطانیہ نے قبضہ کیا ہوا تھا - ترکی بد انتظامی کی آگ میں جل رہا تھا - حکومت کی زمام کار مصطفیٰ کمال ترقی پسند کے ہاتھ میں آچکی تھی - یونان سے عثمانی سلطنت اب بھی برسر پیکار تھی - سلطاں صرف نام کا سلطان تھا - عملا تمام اختیارات مصطفی کمال کے پاس تھے - اس کے باوجود 1909 میں جو دستور حکومت نافذ ہوا تھا اس کے مطابق سلطان کے پاس اب بھی کچھ اختیارات باقی تھے - 1922 عیسوی میں یونان کے مقا بل جنگوں میں ترکی نے فیصلہ کن برتری حاصل کرلی تھی - اس طرح مصطفی کمال کو موقع مل گیا کہ وہ سلطان محمد خامس سے اقتدا ر کا مطالبہ کرے - اور ایسا ہی ہوا - مصطفی کمال نے سلطان سے لادینی حکومت کے قیام کا مطالبہ کردیا - مگر سلطان محمد خامس اس غیر آئینی مطالبے پر راضی نہ ہوئے - خانہ جنگی چھڑ چکی تھی - فوج نے اپنا مطالبہ بزور بندوق منوانے کا فیصلہ کیا اور مجبورا 1922 عیسوی کو سلطان محمد خامس کو برطرف کردیا گیا - اس برطرفی کے بعد سلطان عبدالمجید خان ثانی بن عبدا لعزیز ثانی کے ہاتھ پر بعیت کی گئی - مگر اس شرط پر کہ سلطان کو دنیا وی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا - اس کے دو ہی سال بعد 1924 عیسوی میں سلطان عبدالمجید الثانی کو معزول کرکے جلاوطن کردیا گیا - فرانس کے شہر نیس میں غربت وافلاس کے عالم میں 1933 میں عثمانی سلطنت کے آخری اور انتیسویں خلیفہ نے انتقال فرمایا - ان کے انتقال سے سلسلہ خلافت کی لڑی ٹوٹ کر ایسے بکھری کہ آج تک امت خلیفہ کے لئے ترس رہی ہے - خلافت کے ختم ہوجانے سے عالم اسلام میں سوگواری پھیل گئی - ترکی میں جدیدیت کا بھوت ناچنے لگا - مذہبی حلقوں میں سوگ کا سماں تھا - اسے میں عالم اسلام کے مذہبی و سیاسی زعما خلافت کی بحالی کے لئے تدابیر سوچنے لگے- مگر ان ہی کے حلقوں میں ایسے سیاسی عناصر بھی تھے جو درپردہ خلافت کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے - بالاخر 1926 میں مکہ مکرمہ کے مقام پر ایک کانفرنس میں بحالی خلافت مہم کا اعلان کیا گیا - اس اجلاس میں دنیا بھر سے معروف علماء و مشائخ نے حصہ لیا - جنھوں نے خادم الحرمین شریفین سلطان عبدا لعزیز بن عبدلرحمان کی صدارت میں ایک جلسہ کیا - اور ایک عا لمی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا اولین مقصد خلافت کی بحالی تھا- اس میں شریک ہونے والے تاسیسی اراکین میں خادم الحرمین شریفین سلطان عبدا لعزیز بن عبدا لرحمان آل سعود ، علامہ سید سلیمان ندوی ، رئیس عمر چکرنتو انڈونیشیا ، سید رشید رضا المصری ، مفتی امین الحسینی فلسطین ، مولانا محمد علی جوہر ہندوستان ، مفتی کفایت الله دہلوی ہندوستان ، موسی جار اللہ روس ، محمد علی علوبہ پاشا ، مصری شامل تھے -



آخری عثمانی خلیفہ عبدالحمید ثانی کی اکلوتی شہزادی خدیجہ خیریہ عائشہ در شہوار آخری نظامِ حیدرآباد نواب میر عثمان علی خان کے بیٹےاعظم جاہ کے عقد میں دی گئی تھیں۔


مارچ 1924 میں خلیفہ کے عہدے کے خاتمے کے بعد آخری عثمانی خلیفہ عبدالحمید ثانی کو اپنے پیشرو وں کی طرح اہل خانہ سمیت ملک بدر کر دیا گیا۔ وہ فرانس کے شہر نیس میں قیام پزیر تھے ، جہاں نظامِ حیدرآباد نواب میر عثمان علی خان کے سب سے بڑے بیٹے اعظم جاہ کی بھی رہائش تھی - 12نومبر 1931ء کو ان دونوں کا نکاح پڑھایا گیا - ان سے دو نرینہ اولادیں 1933ء میں مکرم جاہ اور 1936ء میں مفکحم جاہ پیدا ہوئے- دونوں کی تعلیم برطانیہ میں ہوئی اور دونوں نے ترکی النسل خواتین سے نکاح کیا ۔ پھر دونوں مملکتوں کا اختتام بھی انگریز سازش کی بدولت ہی ممکن ہوسکا -انگریز نے سب سے پہلے عرب قومیت کا نعرہ لگوا کر عربوں کو ترکوں سے لڑوایا پھر خلافت عثمانی کا خاتمہ کیا اسی طرح اپنے ہر دلعزیز دوست نظام دکن میر عثمان علی خان کو آسرے میں رکھ کر ہندوستان کی کمر تھپتھپائی اور مملکت آصفیہ بھی صرف تاریخ کی کتابوں تک محفوظ کردی گئی -

پندرہویں اور سولہویں صدی میں، مسلم کلاسیکی تاریخ سہ پہر کے بعد شام کا رخ کررہی تھی، سائے گہرے ہورہے تھے، ماضی مستقبل سے بہتر لگ رہا تھا۔ دمشق، بغداد، اندلس، اور خراسان کی شان وشوکت عرصہ ہوا قصۂ پارینہ ہوچکی تھی۔ اگرچہ تہذیبِ اسلامی روبہ زوال تھی، مسلمانوں کے ایک گروہ نے ایک آخری بھرپور کوشش کی کہ کسی طور بقائے باہمی ممکن بنائی جاسکے۔ یہ عثمان ترک تھے۔ بیشتر دنیا اُن کی طاقت کے آگے لرزاں رہی۔ عربوں کی پہلی فتح کے ہزار سال بعد، جب سقوطِ بغداد اور سقوطِ غرناطہ وقوع پذیر ہوچکے تھے، عثمان ترکوں نے عرب دنیا کو ازسرِنو تعمیر کیا، تاہم اندلس وہ واپس نہ لے سکے۔ انھوں نے اسپین کی جگہ بلقان کی ریاستوں پر فتوحات حاصل کیں، اور رومانیہ سے پولینڈ کی جنوبی سرحدوں تک پہنچ گئے۔ اُن کا دارالحکومت بغداد نہیں بلکہ استنبول تھا، اور انھوں نے ہمیشہ کے لیے بازنطینی سلطنت کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا تھا۔ وہ باسفورس کے پانیوں سے تین براعظموں میں دور تک واحد مقتدر قوت تھے۔ وہ سائبیریا کے برف زاروں سے ترکی تک سو سال کا طویل فاتحانہ سفر طے کرکے قدیم چین کے دروازے پردستک دے رہے تھے، جہاں وہ Tu K’ueکے نام سے پکارے گئے۔ ترک محض طاقت کی علامت نہ تھے، بلکہ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوںکے بھی مالک تھے، انھوں نے ایک ایسی عالمی سلطنت مستحکم کی، جو چھے صدیوں تک قائم رہی، اور بیسویں صدی تک یہ سفر جاری رہا۔ عثمانی سلطنت میں مذہبی رواداری، بین المذاہب معاشرتی زندگی، اور انصاف کی فراوانی تھی۔ یہ سن 1492ء تھا، استنبول کی بندرگاہوں سے، ابھی جب کہ ترکوں کے ہاتھوں بازنطینی قسطنطنیہ کی فتح کو چالیس سال ہی گزرے تھے، ایک چھوٹی سی غیر ملکی کشتی آتی ہوئی نظر آئی۔ سلطان بایزید ثانی کا وفد وزیراعظم کی سربراہی میں کسی کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھا۔ کشتی میں آنے والے بھی کسی ملک کے نمائندے لگتے تھے۔ آخر کون تھے یہ مہمان؟ جب کشتی حدِّ نگاہ میں داخل ہوئی، توصاف دیکھا جاسکتا تھا کہ آنے والے کوئی مسافر نہ تھے بلکہ تھکے ہارے پناہ گزین تھے، جو اپنا وطن کھوچکے تھے، ایسا نقصان اٹھا چکے تھے کہ جس کی تلافی ممکن نہ تھی، وہ پوری ایک تاریخ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ انھوں نے ترک عثمان حکومت کی جانب سے پناہ کی دعوت قبول کرلی تھی۔ یہ اندلس کے سفاردی یہودی پناہ گزین تھے۔ یہ غرناطہ، قرطبہ، اشبیلیہ اور میڈرڈ کے رہنے والے تھے۔ یہ وہ شہر تھے جو کبھی عظیم سہ مذہبی ریاست کا حصہ تھے۔ ان سفاردیوں کو اندلس سے ملکہ ازابیلا کے حکم پرجلا وطن کردیا گیا تھا۔ انھوں نے جبراً عیسائی بن جانے یا موت پر جلا وطنی کو ترجیح دی، اور عثمانی خلافت کے سائے میں پناہ لینا پسند کیا، اور استنبول میں بودو باش اختیارکی۔ یہودیوں کے اس نئے گھر میں، جہاں ترک مسلمانوں کی عمل داری تھی، ہزاروں آرتھوڈکس عیسائی بھی آباد تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ آرتھوڈکس عیسائیوں کی سر قبیلی آماج گاہ تھی۔ استنبول میں پہلے ہی سے کئی یہودی مہاجرین آباد تھے۔ عثمانی ترک سلطنت دراصل ہم آہنگ اور باہم مذہبی معاشرت کی تجسیمِ نو تھی۔ یہاں وہ سارے مذاہب پھر سے یکجا ہوگئے تھے، جن کی تہذیبی آبیاری گزشتہ مسلم ادوار میں ہوئی تھی۔ ترکی واحد مسلم مثالی معاشرہ نہ تھا۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں، یہودی اور عیسائی پوری مسلم دنیا میں آباد تھے۔ مصر، عراق، شام، اور ہندوستان میں عیسائیوں کی بڑی بڑی اقلیتیں موجود تھیں۔ مراکش کے شہروں سے پورے شمالی افریقا میں، مصر سے ایران تک بڑی بڑی یہودی کمیونٹیز پھل پھول رہی تھیں۔ مگر عثمانی ترک سلطنت میں یہ رویہ کوئی خاموش غیر سرکاری پالیسی نہ تھا، بلکہ اعلانیہ اور واضح تھا۔ سلطانوں کے فرمان میں صاف لکھا تھا کہ ’’ترک گورنر ہرگز کسی یہودی کو داخل ہونے سے نہیں روکیں گے، اور نہ ہی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہونے دیں گے، بلکہ عزت و تکریم سے اُن کا خیر مقدم کریں گے۔‘‘ یہودیوں کی استنبول آمد کے صرف چھے سال بعد، عثمانی سلطنت اپنی سیاسی و عسکری قوت کے اوج پر پہنچ گئی تھی۔ ترک اور اُن کی افسر شاہی نے بیس لاکھ اسکوائر میل سے زائد زمین اور لاکھوں میل ملحقہ سمندری علاقوں کا انتظام خوبی سے سنبھالا ہوا تھا۔ ترکوں کی گرفت میں وہ زمینیں اور لوگ تھے، جو عمان سے بحرہند اور جنوب مغربی ایشیا میں دور تک، جنوبی پولینڈ اور روس سے یورپ کے شمال مشرقی علاقوں تک، اور مراکش سے پورے شمالی افریقا تک پھیلے ہوئے تھے۔ ترک بیڑے بحر روم پر راج کرتے تھے۔ ترک نقشہ ساز عالمی مہم جوئیوں میں اُسی طرح مصروف تھے، کہ جس طرح اُن کے دشمن اسپین سے شمالی و جنوبی امریکہ میں نئی دنیائیں تلاش کررہے تھے۔ یہ عظیم سلطنت اپنے اندر ایک کائنات تھی۔ یہاں عرب، بازنطینی، یونانی، سرب، بوسنیائی، کروٹس، پولس، یوکرائنی، چیک، سلووک، ہنگرین، آسٹریائی، رومانینز، فارسی، قفقازی، بربر، آذربائیجانی، آرمینی، جارجیائی، صومالی، اور ایتھوپین ہم آہنگی سے مساویانہ زندگی گزار رہے تھے۔ زبانیں اور لب و لہجے بے شمار تھے۔ ایسی ریاست میں اسپین کے لٹے پٹے یہودیوں کا خیرمقدم کیوں نہ کیا جاتا؟ بغداد اور قرطبہ سے قاہرہ تک، اور پھر استنبول کی خلافت میں دیگر مذاہب اور نسل کے لوگوں کو ہمیشہ حمایت اورسرپرستی حاصل رہی ہے۔ سلطان کے شاہی محافظ اور دستے زیادہ تر بلقانی مسیحی نوجوانوں پر مشتمل تھے۔ تاہم انھیں شادی اور خاندان تشکیل دینے کی اجازت نہ تھی، تاکہ وہ ساری زندگی شاہی خدمات میں پوری طرح صرف کرسکیں۔ یہاں تک کہ چند عیسائی اعلیٰ وزارتوں تک پہنچے، اور سلطان سلیمان کے دور سے تین نسلوں تک نمایاں وزارتی حیثیتوں میں کام کرتے رہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ عظیم الشان سلطنت دیگر حکومتوں کی طرح موروثی انتظامیہ پرقائم نہ تھی، بلکہ قابلیت کی بنیاد پر نوجوان حکام کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ یہ تعلیمی اداروں سے امتیازی کارکردگی کی بنیاد پرچنے جاتے تھے، اور سینئرعہدوں تک پہنچتے تھے۔ اس پر مزید انوکھی بات یہ ہے کہ اکثر غیر مسلم ہوتے تھے۔ البتہ عثمانی خلافت موروثی تھی۔ استنبول کا سلطان حرمین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا والی کہلاتا تھا، اور خلیفۂ وقت خدا کا زمین پر نمائندہ تھا۔ ترک حکومت نے ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا کہ جس میں مسلمانوں کے لیے شرعی قوانین، اور دیگر کے لیے اُن کی شریعتوں کے قوانین لاگوکیے گئے تھے۔ تاہم ریاست کے کاروباری معاملات کے لیے سول قوانین بنائے گئے تھے۔ دیگر مذاہب اور نسلوں کے لیے برداشت اور ہم آہنگی کا رویہ اسوۂ حسنہ اور خلافتِ راشدہ کے طرزِ حکمرانی کا ہی تسلسل تھا، جسے خوبی سے قائم رکھا گیا تھا۔ طاقت، انصاف، اور موافقت کے اس ماحول نے ترک سلطنت کی عظمت مستحکم کردی تھی۔ اس معاملے میں سلطان سلیمان اوّل کا کردار سب سے نمایاں رہا، اس کا زرّیں دور 1526ء سے 1566ء تک طویل اور عظیم الشان تھا۔ یہ1566ء کے موسم خزاں کی ابتدا تھی۔ سلیمان توپ قاپی محل کی بالکونی میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا، باسفورس کے پانیوں میں شام ڈھل رہی تھی، چاند ٹھنڈی لہروں پر جھلک رہا تھا، ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ 71 سالہ بوڑھا، گوکہ اب تک وہ روئے زمین کا سب سے طاقت ور حکمران تھا، آج بالکل تنہا تھا۔ اُس کی چہیتی یوکرائنی نژاد بیوی خرم سلطان آٹھ برس ہوئے دنیا سے رخصت ہوچکی تھی، اُس کے چہیتے بیٹے بھی خانہ جنگی یا صحت کی خرابی سے چل بسے تھے۔ اُسے اس مرحلے پر یہ خبر بھی ملی تھی کہ ہنگری، جسے وہ چھے بار مغلوب کرچکا تھا، پھر مشکلات کھڑی کررہا تھا۔ اب اس عمر اور تنہائی میں کیا میدانِ جنگ اُس کے لیے کسی دلچسپی کا حامل ہوسکتا تھا؟ جبکہ وہ دس سال سے میدانِ جنگ سے دور رہا تھا۔ یہ بہت مشکل لگ رہا تھا۔ یہ وہ حکمران تھا کہ جس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ انجیلی ہم نام (حضرت سلیمان علیہ السلام) کی مانند ہے، جسے زوال نہیں۔ آسٹریائی سفیرBaron de Busbecq، جو سلیمان عالیشان کے دور میں استنبول میں تعینات تھا، 1555ء میں سلطان سے ملا تھا کہ جب اُس کی عمر ساٹھ برس تھی، وہ اپنی یادداشتوں میں سلطان کی بابت لکھتا ہے: ’’اُس کا تاثر ایک ایسا چہرہ، جس پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی، ایک تمکنت، کہ جس میں باوقار سی اداسی محسوس ہوتی تھی۔ وہ گئے برسوں سے بوجھل معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اُس کا رکھ رکھاؤ اور حلیہ ایک عظیم الشان ریاست کے شاندار حکمران کا سا تھا۔‘‘ خلیفہ سلیمان کے بارے میں ایک تلخ تصور یہ ہے کہ یورپ میں کسی بھی مقامی حکمران سے زیادہ وہ پروٹسٹنٹ ازم کی پیش قدمی میں مددگار ثابت ہوا۔ ابتدا میں فرانسیسی بادشاہ فرانسس اوّل سے اُس کے اتحاد کے باعث ایسا ہوا، فرانسس پروٹسٹنٹ مفادات کے لیے کام کررہا تھا، جبکہ مخالفت میں زیادہ طاقت ور کیتھولک قوتیں اسپین کے چارلس پنجم کے ساتھ میدان میں تھیں۔ بزلہ سنج اور منصف ہونے کے ساتھ ساتھ، سلیمان ایک ماہر جنگجو، عسکری چالوں میں مشاق، ہتھیاروں کی پہچان اور سپہ سالاری میں عمدہ صلاحیتوں کا حامل تھا۔ سن 1521ء میں اُس نے بلغراد فتح کیا، اور اگلے ہی سال جزیرہ رہوڈز کو سرنگوں کیا، سن 1526ء میں ہنگری کو پسپا کیا، اور وسطی یورپ میں ویانا کے دروازے تک پہنچ گیا، 1529ء کے ستمبر سے اکتوبر تک اُس نے ویانا کا محاصرہ کیے رکھا۔ سن 1534ء میں سلیمان کی فوجوں نے فارس کے خلاف کامیاب جنگی مہم چلائی، عرب دنیا میں وہ شمالی افریقا تک فتح کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا، اور بحر احمر کی بندرگاہ عدن پر جاکر رکا۔ تاہم مالٹا میں اُسے ناکامی کا سامنا ہوا۔ سلیمان عربی، فارسی شاعری میں صوفیانہ درک بھی رکھتا تھا، خود بھی شاعرتھا۔ اپنے ایک دوہے میں لکھتا ہے:

مری تنہائی کی دولت، مری محبت، مری چاندنی
مری مخلص دوست، مری رازداں، مرا وجود، مری سلطانہ
سب حسیناؤں سے حسین…۔
مری بہار کا سماں، مری مسکراتی صبح، مری دلگداز شام
مری محبوب، مرا گلاب، اس دنیا میں مرے دل کا سکون
یہ حسین زلفیں، یہ ابرو، یہ نگاہیں
مرے محبوب، ترے حُسن کے گیت ہمیشہ گنگناؤں گا
میں، ایک دکھی دل لیے، آنکھوں میں آنسو پیے، خوش ہوں…

تاہم شاعری اُس کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ سے زیادہ کچھ نہ تھی، تلخ سیاسی فیصلوں کے کرب سے بچنے کے لیے جہاں وہ پناہ لیتا تھا۔ یہ فیصلے اسے ہر روز ہی لینے پڑتے تھے۔ مثال کے طور پر، اسے اپنے ہی دوبیٹوں کو سزائے موت دینی پڑی تھی۔ بایزید اور مصطفیٰ، جنھیں بغاوت کی سازشوں میں ملوث ہونے پرگرفتار کیا گیا تھا۔ کیسی کیسی تلخ یادیں بوجھ بن چکی تھیں۔ ایک دن مؤرخ کو یہ لکھنا پڑا کہ سلطنتِ عثمانیہ میں شہزادوں کی بغاوتوں کی روایت نے حالات انتہائی مشکل بنادیے تھے۔ بعدازاں قفس کے قانون کا نفاذ شاید سنگین ترین غلطی ثابت ہوا۔ اس قانون کے تحت ممکنہ جانشینوں کو نظربند رکھا جاتا تھا کہ کہیں اقتدار کی خاطر بغاوتیں نہ کرتے پھریں۔ مگر پھر یہی قانون آگے چل کر خلافتِ عثمانیہ کے زوال کا ایک سبب قرار پایا۔ ترک بدقسمتی سے شاہی جانشینی کوکوئی منظم ادارتی شکل نہ دے سکے تھے۔ یہ ایک خطرناک حقیقت تھی کہ اس عظیم الشان ریاست کے معماروں نے اس سلسلے میں بڑی غفلت کا ارتکاب کیا تھا۔ جس طرح بازنطینی ممکنہ حریف جانشینوں کو مروا دیا کرتے تھے، کچھ یہی رویہ عثمان ترکوں نے بھی اختیار کرلیا تھا۔ یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ سلطان سب سے بڑے بیٹے کے بجائے جس بیٹے کو بھی زیادہ اہل سمجھے، یا چہیتا خیال کرے، اُسے اپنا ولی عہد نامزد کرسکے۔ وجہ اس کی جو بھی بنی، نتیجہ اقتدار کی خونیں کشمکش کی صورت میں سامنے آیا، اور اس میں سلطان کی بیویوں کے سازشی کردار کلیدی ثابت ہوئے۔ یوں کئی صدیوں تک یہ محلاتی سازشیں سلطنتِ عثمانیہ کی جڑیں کھوکھلی کرتی رہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اُس شام سلیمان کو ہنگری کے بارے میں فیصلہ کرنے میں دشواری پیش نہ آئی۔ اگلی صبح اُس نے سیاسی مشیر محمد پاشا اور قانونی مشیر ابوسعود کو طلب کیا، اور ہنگری کے معاملے میں رائے مانگی۔ ’’ہم آپ کی یہ مہم انجام تک پہنچائیں گے‘‘ انھوں نے انتہائی مؤدبانہ لہجے میں گزارش کی۔ دوماہ بعد نومبر میں، سلیمان عالیشان نے جنگ کا حکم دے دیا۔ شمال میں ہنگری کے محاذ پر فوجیں روانہ کردی گئیں۔ وہ بھی اُن سے ایک مقام پر آملا تھا۔ ترک آسٹریا اور عالم عیسائیت کی سرحدوں پر صف بہ صف ہوگئے تھے۔ موسم انتہائی سرد اور نم تھا۔ وہ پہلے بھی کئی بار اس مقام پراپنی فوج کی قیادت کرچکا تھا، مگر اِس بار وہ بیمار اور ضعیف تھا، زندگی کے دن پورے ہورہے تھے، عجیب مایوسی ماحول پر طاری تھی۔ اُس کا سارا تزک واحتشام ایک غیرمحسوس اداسی لیے ہوئے تھا۔ گو کہ اُس کی فوجیں بڑی زورآور تھیں، مگر زندگی ساتھ چھوڑ گئی۔ سلیمان عالیشان دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا، مگر تاریخ آگے بڑھ گئی۔ مؤرخین نے اُس کی موت کو ترک عثمانوں کے زوال کا اشارہ قرار دیا۔ سوسال بعد ایک اور ترک سلطان نے ویانا کا محاصرہ کیا، اور اُس کی شکست خلافتِ عثمانیہ کی آخری یورپی مہم ثابت ہوئی۔ تاہم باسفورس کی سدا بہار لہروں پر زندگی جھلملاتی رہی۔ مرمرہ میں بڑے بڑے جہازوں کی آمد اور چھوٹی کشتیوں کی سیر جاری رہی۔ ایک اور سلطان اقتدار میں آچکا تھا، مگر اُس کا کام دربار تک محدود ہوچکا تھا، اور معاملات درباریوں کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے۔ اس کے بعد بھی یہ عظیم الشان سلطنت تین سو پچاس سال قائم رہی، تاہم زوال پذیر رہی۔ اس کمزور صورتِ حال کی وجہ سلیمان جیسی قیادت کی کمی تھی۔ دھیرے دھیرے ترک انتظامیہ کے تاروپود بکھرنے لگے، ماتحت ریاستیں ایک ایک کرکے آزاد ہوتی چلی گئیں۔ کریمیا، ایران، آرمینیا، اور جارجیا آزاد و خودمختار ہوگئے۔ رومانیہ نے 1877ء میں آزادی حاصل کی۔ بلغاریہ نے 1908ء میں اعلانِ آزادی کیا۔ البانیہ 1917ء میں الگ ہوا۔ یمن 1918ء میں سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ نہ رہا۔ پہلی عالمی جنگ میں شکست نے اس عظیم خلافت کا حتمی طور پر خاتمہ کردیا۔






ترکی میں بقائے اسلام کی جدوجہد ::; صادق البیراک on May 13, 2019

خلافت عثمانیہ کے بطل جلیل خلیفہ عبدالحمید نے کیسے پورے کفر کے ... سلطان عبدالحمید ثانی کی حکومت کا ۱۹۰۹ء میں تختہ الٹے جانے کے بعد ’’دی یونین اینڈ پروگریس کمیٹی‘‘ نے اعلیٰ افسران کے تبادلے شروع کردیے۔ اخبارات نے بھی ملک کی بدلی ہوئی صورت حال سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اپنے ادارتی عملے میں تبدیلیاں کیں۔ مسلح افواج پہلے ہی سرایت کے مرحلے سے گزر چکی تھیں مگر وہ ملک میں امن بحال کرنے اور استحکام یقینی بنانے میں ناکام رہیں۔ اُس زمانے میں صہیونی یہودیوں نے فلسطین میں اپنے لیے آزاد ریاست کے قیام کے مطالبے پر زور دینا شروع کردیا تھا۔ اُن کے مطالبے کو مغربی قوتوں، عالمی برادری اور بین الاقوامی میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ معروف صحافی ابوضیا توفیق نے اپنے اخبار میں ’’ترکی میں نو آبادی قائم کرنے کا صہیونی مطالبہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا: ’’قرون وسطیٰ میں بڑی طاقتیں زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں کے حصول اور ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف رہتی تھیں۔ تب یہودی خاموشی سے ایک جامع اور انتہائی طاقتور معاشی نظام وضع کرنے میں مصروف رہے تاکہ دنیا کی نظر میں قابل رشک قرار پانے والی سلطنت قائم کرسکیں۔ جب استعماری قوتیں اپنے رقبے اور عسکری قوت میں اضافے کی کوششیں کر رہیں تھیں تب یہودی تجارت اور سرمایہ کاری میں اپنی مہارت کے بل بوتے پر ایسا مالیاتی نظام وضع کرنے میں مصروف تھے جن کے ذریعے کسی بھی بڑی طاقت کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ یوں یہودیوں نے غیر معمولی طاقت حاصل کرلی جو بالآخر صہیونیت مخالف لہر پر منتج ہوئی اور ان سے نفرت کرنے والوں کی تعداد بڑھی۔ اب اگر ہم اپنی سرزمین کا ایک انچ ٹکڑا بھی صہیونیوں کو دیتے ہیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان اور عیسائی ہی نہیں، خود ترک یہودی بھی اُن کے استحصالی ہتھکنڈوں کا شکار ہوکر رہ جائیں گے۔ صہیونی طاقتیں ترک سلطنت کی حدود میں رہنے والی تمام قومیتوں کو اپنا غلام بناکر چھوڑیں گی۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ صہیونی قوتیں ترک سلطنت کی حدود میں اپنے پنجے مستقل طور پر گاڑنے کی کوشش کر رہی ہیں‘‘۔ نقش دل، وہ لڑکی جس نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی بنیاد رکھی - مفتی ... مصنف نے لندن کے اخبار اسٹینڈرڈ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا حوالہ بھی دیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ نوجوان ترک، صہیونیوں کو ترک سلطنت کی حدود میں آبادیاں قائم کرنے کی اجازت دینے کو تیار ہیں جبکہ سلطان عبدالحمید ثانی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک نوجوان ترک حماد پاشا کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ نوجوان ترکوں کو ملک میں سیاسی اعتبار سے زیادہ قوت حاصل نہ تھی۔ ابو ضیاء توفیق نے مزید لکھا: ’’یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ نام نہاد اشرافیہ یعنی نوجوان ترک آئینی اصلاحات کے روح رواں ہیں۔ یہ لوگ ترک سلطنت کو بھیڑیوں کی طرح بھنبھوڑیں گے اور اس کا خون چوس لیں گے۔ ملک کو درپیش مسائل کا حل یہ نہیں ہے کہ اس کے وسائل کو اِس بے دردی سے استعمال کیا جائے کہ پھر صورت حال کو بہتر بنانا ممکن ہی نہ رہے۔ اِس کے برعکس ہمیں ملک کے وسائل کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دینا چاہیے تاکہ اِن سے بہتر طور پر استفادہ کرکے ترقی کی راہ ہموار کی جاسکے‘‘۔ کچھ کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ۱۹۱۲ء میں حافظ اسمٰعیل حقی نے کہا: ’’چار برسوں کے دوران ہم نے کئی طرح کی ذلتوں کا سامنا کیا ہے۔ ہمارے مذہب کی توہین کی گئی ہے، ہماری عزت داؤ پر لگائی گئی ہے، لوگ قتل کیے گئے ہیں، دولت لوٹی گئی ہے اور املاک تباہ کردی گئی ہیں۔ ہمیں بدترین توہین اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثبتیت (Positivism) اور فری میسن میں یقین رکھنے والوں نے ترک خلافت کے سینے میں خنجر گاڑنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے اوقاف کے فنڈ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی دولت ہی سے اُنہیں آپس میں دست بہ گریباں کردیا ہے۔ صہیونی ترکی میں آئینی اصلاحات نافذ کرانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، جبکہ درحقیقت اُنہوں نے ایوان ہائے اقتدار میں اپنے ایجنٹس بھرتی کر دیے ہیں، جنہوں نے ملک کی دولت لوٹی ہے، معیشت کو تباہ کیا ہے اور شدید انتشار اور نراجیت کی کیفیت پیدا کی ہے‘‘۔ نوجوان ترکوں نے فلسطینی علاقوں میں صہیونی ریاست کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ سلطان عبدالحمید ثانی کو بھاری معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کے باوجود بھی صہیونی کچھ حاصل نہ کر سکے۔ مگر یہ سب کچھ انہوں نے ’’دی یونین اینڈ پروگریس پارٹی‘‘ کی حکومت کے ذریعے زیادہ آسانی سے اور کچھ بھی خرچ کیے بغیر حاصل کرلیا۔ بعد میں نوجوان ترکوں کو اپنی حماقت کا احساس ہوا، مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ انہوں نے صہیونیوں کو فلسطینی اراضی کی فروخت بند کردی۔ یہ بات وزیر داخلہ طلعت پاشا کے اس خط سے ثابت ہوتی ہے جو انہوں نے فلسطین کے گورنر کو لکھا تھا۔ ’’دی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی۔ کونفیڈینشل اینڈ کلاسیفائیڈ سیکریٹ نمبر ون۔ بیت المقدس اور اس کے نواحی علاقوں بیروت سیدہ ڈسٹرکٹ، سُر، مرجیون، سینٹرل ڈسٹرکٹ، عکہ اور نابلس میں مقامی یا بیرونی نسل کے یہودیوں کو اراضی فروخت کرنے پر فی الفور پابندی عائد کی جاتی ہے۔ آج کے بعد کسی بھی جائیداد کو یہودیوں کے نام کرنے کا عمل بھی غیر قانونی قرار پائے گا۔ املاک کی خریداری سے متعلق تمام درخواستوں کا انتہائی باریکی سے جائزہ لیا جائے تاکہ اندازہ ہو کہ کہیں کسی یہودی کے ہاتھ تو کچھ فروخت نہیں کیا جارہا۔ اگر املاک کی خرید و فروخت میں کسی یہودی کا شامل ہونا ثابت ہوگیا تو معاہدہ غیر موثر قرار پائے گا۔ اس حکم کا اطلاق عام زمین، زیر کاشت زمین اور دیگر تمام غیر منقولہ املاک پر ہوگا۔ جن املاک کے سودے ہوچکے ہیں ان پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ یہودی اپنی املاک ورثا کو منتقل کرسکیں گے۔ بیروت کے گورنر اور بیت المقدس کے ڈسٹرکٹ افسر کو خفیہ کوڈیڈ ٹیلی گرام کے ذریعے ۲۸ مارچ ۱۹۱۵ء کے اِس نئے حکم سے مطلع کیا جاچکا ہے۔‘‘ اِس دستاویز سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوان ترکوں کو بہت جلد یہ احساس ہوگیا تھا کہ انہوں نے صہیونیوں کو فلسطینی علاقوں میں قدم جمانے کا موقع دے کر اچھا نہیں کیا۔ انہوں نے تلافی کی کوشش کی مگر تب تک پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی اور اس میں ترکی بھی پھنس کر رہ گیا تھا۔ حالات ایسے تھے کہ کچھ بھی کیا نہیں جاسکتا تھا۔ صہیونیوں نے ترکوں کی نئی نسل کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے نہایت مکاری اور چالاکی سے استعمال کیا۔ ’’دی یونین اینڈ پروگریس کمیٹی‘‘ ۱۹۱۸ء میں ختم کردی گئی اور اسی سال شام اور فلسطین سے برطانوی افواج نے ترک افواج کو نکال دیا۔ انور پاشا، طلعت پاشا اور جمال پاشا نے ایک بحری جہاز کے ذریعے جرمنی فرار ہونے کی کوشش کی مگر انہیں درد ناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ اسلام پر حملہ پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے کچھ دن قبل اظہار رائے کی آزادی، اسلام پر حملوں کا جواز بن گئی اور یہ حملے مختلف حلقوں کی طرف سے کیے جانے لگے۔ عیسائی مشنریوں نے اسلامی تعلیمات پر کھل کر حملے شروع کیے۔ اندرونی سطح پر بھی خرابیاں جڑ پکڑ رہی تھیں۔ ترقی اور روشن خیالی کے نام پر نام نہاد مسلم اشرافیہ نے بھی اسلامی تعلیمات پر حملے شروع کر دیے۔ ایسی کئی دستاویز ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان حملوں کا بنیادی مقصد اسلامی دنیا کی آخری خلافت کا خاتمہ تھا۔ یہاں میں شیخ الاسلام کے حوالے سے چند دستاویز کا حوالہ دوں گا۔ یہ ادارہ سیاست دانوں کا آلۂ کار ہوکر رہ گیا تھا۔ ترک سلطنت کے مسلمانوں کو حکمرانوں اور اشرافیہ نے دین کی حفاظت کے معاملے میں خود اُنہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ ایک شہری (عثمان بن عبداللہ) نے ۲۸؍ اگست ۱۹۱۳ء کو “The War Against Superstitions” کے عنوان سے شائع ہونے والی گستاخانہ کتاب کے بارے میں شیخ الاسلام کو شکایتی خط تحریر کیا۔ خط میں لکھا تھا: ’’میں اِس کتاب کی ایک کاپی منسلک کر رہا ہوں۔ اِس میں خواتین اور پردے سے متعلق ایک باب ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر شیخ الاسلام اپنے کام سے کام رکھیں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف موضوع کو محض چھونے سے کہیں زیادہ کرنا چاہتا ہے۔ پریس کی آزادی ہے مگر اس کا غیر ضروری اور ناجائز استعمال زیادہ ہے۔ مصنف نے کتاب میں لکھا ہے کہ قرآن میں کہیں بھی اللہ نے پردے کو خواتین کے لیے لازم قرار نہیں دیا۔ مصنف نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ اگر پردہ ختم کردیا جائے تو معاشرے سے جسم فروشی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور یہ کہ خواتین میں پردے کا چلن چند اعتقادات اور جہالت کے باعث ہے۔ جو بے باکی مصنف (حقی خلق زادے) نے دکھائی ہے وہ کسی عیسائی مِشنری نے بھی نہیں دکھائی۔ میں ایک مسلم شہری ہوں اور آپ کی توجہ اسلام کے خلاف تیزی سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ میں آپ سے یہ استدعا بھی کرتا ہوں کہ اسلامی تعلیمات کے بارے میں بے بنیاد حوالہ دینے پر مصنف کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے‘‘۔ اس شکایتی خط کے جواب میں شیخ الاسلام کے ادارے نے یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء کو لکھا۔ ’’آپ نے کتاب میں جن ابواب کا حوالہ دیا ہے ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ مصنف نے اسلامی تعلیمات کا انتہائی دیدہ دلیری سے مضحکہ اڑایا ہے۔ مصنف یوم جزا اور جنت و جہنم کا قائل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی غیر مسلم نے بھی اسلامی تعلیمات کا مضحکہ اڑانے کے معاملے میں ایسی بے ہودہ زبان استعمال نہیں کی جیسی اس کتاب میں استعمال کی گئی ہے۔ اس نوع کی کتابیں دراصل اسلام کے خلاف انقلاب کی تیاری کا حصہ ہیں۔ اس قسم کی کتابیں نوجوانوں کو جنسی بے راہ روی کی طرف مائل کرنے اور خیر و شر کے اسلامی اصولوں سے بیگانہ کرکے اخلاقی اور روحانی بالیدگی سے محروم کرنے کی سازش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا پروپیگنڈا ترک سلطنت کی حدود میں اسلام مخالف قوتوں کی فتح کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہے۔ اسلام کے خلاف لکھنے پر پابندی ہے اور متعلقہ قوانین بھی موجود ہیں مگر اس کے باوجود بہت کچھ لکھا اور شائع کیا جارہا ہے۔ اس کتاب میں اگرچہ حکومت پر بھی تنقید کی گئی ہے، مگر اصل حملہ تو اسلام پر کیا گیا ہے۔ ہم نے یہ معاملہ متعلقہ کمیٹی کے حوالے کردیا ہے۔ اگر ضروری ہوا تو مدعا علیہ کو کرمنل کورٹ بھیجا جائے گا اور اس کارروائی کا نتیجہ بھی طشت از بام کیا جائے گا‘‘۔ شیخ الاسلام کمیشن نے ایک اور کتاب ’’گناہ‘‘ کا بھی تادیب کے نقطۂ نظر سے جائزہ لیا۔ ادارے نے لکھا: ’’وزارتِ داخلہ نے ۲۴ ستمبر ۱۹۱۳ء کو جو کتاب ’’گناہ‘‘ بھیجی ہے، اس میں اناطولیہ کے نوجوانوں کو اسلام کے خلاف اُکسانے اور بھڑکانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب میں نوجوانوں کو مخاطب کرکے لکھا گیا ہے کہ آپ جس دین سے بہت محبت کرتے ہیں اور جس کی حفاظت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں، وہ چند بے بنیاد عقائد کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔ نوجوانوں سے کہا گیا ہے کہ جس خدا کی آپ عبادت کرتے ہیں، وہ حقیقی خدا نہیں۔ جس شریعت کی آپ پیروی کرتے ہیں، وہ حقیقی شریعت نہیں، بلکہ مدارس کی ایجاد ہے۔ مسلم علما نے اس شریعت کو مدارس کی تاریک راہداریوں میں تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے اسلام کا اصل چہرہ چھپاکر ملک کو غربت اور پس ماندگی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ انہوں نے آپ سب سے غداری کی ہے۔ یہ علما، شیخ اور مرشد غدار ہیں۔ کتاب میں مزید لکھا ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ علما کو قتل کردیا جائے تاکہ دین کی حفاظت ممکن ہو۔ نوجوانوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ہم حکومت سے کسی بہتر اقدام کی توقع نہیں رکھ سکتے، کیونکہ وہ دیگر اہم امور میں الجھی ہوئی ہے۔ آخری میں نوجوانوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اجتہاد کریں اور اسلام کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور مدارس کی پھیلائی ہوئی تاریکی ختم کردیں۔‘‘ شیخ الاسلام کمیشن نے لکھا کہ ان کتابوں کی اشاعت انتہائی تشویشناک ہے، کیونکہ ملک کو اتحاد اور یگانگت کی ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف نوجوانوں کو اسلام اور ریاست کے خلاف اکسایا جارہا ہے۔ لازم ہے کہ حکومت بھرپور کارروائی کرے۔ کتاب کو فتوے کے اجرا کے لیے متعلقہ حکام کو بھیج دیا گیا۔ اس دستاویز کا تعلق بھی سال ۱۹۱۳ سے ہے۔ ترکی میں اسلام کے خلاف جو کچھ لکھا جارہا تھا، اس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو تشویش تھی۔ مکۂ مکرمہ کے والی نے بھی اس صورت حال کا نوٹس لیا اور شاہ محمد پنجم اور شیخ الاسلام کو ایک احتجاجی مراسلہ لکھا جس میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈے پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک خط کا متن ملاحظہ فرمائیے۔ ’’اللہ کے نام پر شیخ الاسلام (استنبول) سے اپیل۔ میں آپ کی توجہ اسلام کے خلاف لکھی جانے والی چند کتب کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ان کتب میں انتہائی بے ہودہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ اسلام کے خلاف کتب کے علاوہ اخبارات و جرائد میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے، جو مسلمانوں کے ذہنوں میں شدید انتشار پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس صورت حال کا فوری نوٹس لیا جانا چاہیے۔ اسلام کے دشمن اس مواد کو خلافت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔ میں اسلام کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ ان مطبوعات پر پابندی عائد کی جائے اور ان کے ناشرین، مصنفین اور تقسیم کاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ الداعی الحسین بن علی امیر، مکۂ مکرمہ ۶ ربیع الاول ۱۳۳۲ ہجری‘‘۔ ان دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ میں سیاسی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ شیخ الاسلام کے ادارے سے وابستہ افسران بے بس تھے کیونکہ اس ادارے پر ’’دی یونین اینڈ پروگریس کمیٹی‘‘ کا کنٹرول تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کی آمد ۲۳ دسمبر ۱۸۷۶ء کو دوسری آئینی اصلاحات کے نفاذ کے وقت ترکی میں تین فکری دھارے پائے جاتے تھے۔ قوم پرستی، اسلام اور مغربی ذہنیت۔ خالص قوم پرستی اور مغرب پسندی دونوں ہی مغربی افکار کا نتیجہ تھے۔ ابتدا میں ترک قوم پرستی اور اسلام کسی حد تک مماثل اور ہم آہنگ دکھائی دیے۔ بعد میں ترکی کو ’’ری پبلک‘‘ میں تبدیل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی اسلام کو ایک طرف ہٹادیا گیا۔ اس کے بعد قوم پرستی کو بھی لات مار کر ایک طرف کردیا گیا تاکہ مغربیت اچھی طرح اور آسانی سے پروان چڑھ سکے۔ قوم پرستی کی وکالت کے لیے جریدہ ’’ترک یُردو‘‘ (Turk Yurdu) میدان میں تھا اور اسلام کی حمایت و وکالت کا بیڑا ’’سبیل الرشد‘‘ اور ’’بیان الحق‘‘ نے اٹھا رکھا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے آغاز سے قبل اسلام اور قوم پرستی (توران ازم) کے درمیان جس نوعیت کی مخاصمت چل رہی تھی اس کا اندازہ ’’سبیل الرشد‘‘ کے ایک مضمون کے زیر نظر اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے: ’’مذہب اور مذہبی عقائد ترک ریاست کی روح ہیں۔ جو لوگ ملک کی تاریخ کو پورے سیاق و سباق سے پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، وہی اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کی جسارت کرسکتے ہیں۔ جو بھی قوم کے مذہبی عقائد کا احترام نہ کرتا ہو، وہ قوم پرست نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ ترک قوم پرستی کو مذہب سے ہٹ کر دیکھتے ہیں، وہ قومی یگانگت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگ مسلمانوں اور ترکوں کے درمیان نفاق کا سبب ہی بنیں گے۔ ترکوں کے ہاتھ میں جو خلافت ہے، وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بروئے کار لائی جانی چاہیے۔ خلافت کو بچانے کے لیے ہمیں قوم پرستی کے تنگ نظری پر مبنی نظریات کو ترک کرکے بلند ترین نظریات پر نظر رکھنا ہوگی‘‘۔ جرمن اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر ترکوں کو جنگ میں شریک کرنا ہے تو ان کے مذہبی جذبات کو اپیل کرنا ہوگا۔ بیرن اوپن ہائمر (Baron Oppenheimer) نے ترک اخبار ’’اقدام‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’’آپ ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جو تہذیب کا مآخذ رہا ہے۔ ہم آج جو بسر کر رہے ہیں وہ زندگی مسلمانوں نے دی ہے۔ میں مشرقی تہذیب کا دلدادہ ہوں۔ سورج مشرق سے طلوع ہوکر مغرب کی طرف سفر کرتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ تہذیب مشرق سے شروع ہوئی اور مغرب کی طرف گامزن ہے۔ مشرق میں آشوری، بابلی، مصری اور اسلامی تہذیبیں تھیں۔ جب یورپ میں زندگی تھمی ہوئی تھی، جہالت تھی، درندگی تھی، تب اسلامی تہذیب بلندی پر تھی اور پھل پھول رہی تھی۔ شاہ شارلے مین نے اپنے ایلچی کو بغداد کے خلیفہ کے پاس بھیجا تھا۔ یہ دراصل اسلامی تہذیب کو خراج تحسین تھا۔ آج مشرق اپنی طاقت کا کچھ حصہ کھو چکا ہے اور جارحیت کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ جنگ میں شریک ہوکر مشرق اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ مشرق کے پاس جو روشنی ہے، اس سے وہ آج بھی دنیا کو اور بالخصوص مغرب کو راستہ دکھا سکتا ہے۔ روس، برطانیہ اور فرانس کی برہنہ جارحیت کے اثرات سے نپٹنے کے لیے جرمنی اور ترکی کا جنگ میں ایک ہو جانا، ناگزیر ہے۔ اس جنگ میں ترکوں کو اپنے اجداد کی طرح شامل ہونا ہے، جو غازی تھے۔ اگر ترک غازی کی طرح لڑیں گے تو فتح ان کا مقدر ہوگی۔ اگر آپ اس جنگ میں کامیاب ہوئے تو یہ سمجھ لیجیے کہ تیس کروڑ مسلمانوں کو یورپ کی غنڈہ ریاستوں کی غلامی سے بچانے میں کامیاب رہیں گے۔ یہ ریاستیں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی ہیں اس لیے ان کے خلاف متحد ہونا آپ کا فرض ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم جیتیں گے کیونکہ ہم حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ آسٹریا اور جرمنی کو عثمانیوں پر پورا بھروسا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اس جنگ میں فتح ہمارے قدم چومے گی‘‘۔

بیرن اوپنہائمر کو مسلمانوں کی تاریخ کا جس قدر علم تھا، اگر اُسی قدر علم ترکوں کو بھی ہوتا تو سلطنتِ عثمانیہ کبھی ختم نہ ہوتی۔



خلافت عثمانیہ، تاسیس، عروج وزوال اور خاتمہ کی مختصر تاریخ on October 31, 2019

عثماني‌ خلافت څنګه نسکور شو؟ – Safia Haleem: صفيه حليم ایک خراسانی الاصل ترک قبیلہ “ترکان غز ” سلیمان خان کی سرداری میں ہجرت کرکے ” آرمینا “میں آباد ہوا،سلجوقی سلطنت کے حکمراں علاء الدین کیقباد پر اس کے پایہ تخت “قونیہ” میں سن 621 ہجری میں چنگیزخان نے فوج کشی کی، سلیمان خان نے اپنے جانباز بیٹے “ارطغرل ” کی سپہ سالاری میں چار سو چوالیس 444 جنگجووں کو مدد کے لئے بھیجا، ارطغرل نے تاتاریوں کو عبرتناک شکست دی، اس پہ خوش ہوکے سلجوقی سلطان نے ارطغرل کو انتہائی زرخیز علاقہ ” سغوت ” جاگیر میں دیا، علاء الدین کیقباد کی وفات کے بعد اس کے بیٹے غیاث الدین کیخرو سلجوقی سن 634ہجری میں تخت نشیں ہوا سن 687ہجری میں ارطغرل کے گھر ایک لڑکا تولد ہوا جسکا نام عثمان خان رکھا گیا پہر سلطان غیاث الدین نے اپنی بیٹی کی شادی بھی عثمان خان سے کردی تاتاریوں کے حملے میں غیاث الدین جب مقتول ہوگیا تو عثمان خان سن 1299ء میں قونیہ پہ مسند نشیں ہوگیا، اور یہیں سے سلطنت عثمانیہ کے نام سے ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد پڑ گئی، اور اسرائیل بن سلجوق کی اولاد کی جو سلطنت 470ہجری میں قائم کی گئی تھی اس کا چراغ گل ہوگیا ۔خلافتِ راشدہ، خلافت امویّہ اور خلافتِ عباسیہ کے بعداسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت عثمانیہ تھی،جوتقریبا۲کروڑ مربع کلومیٹر پر محیط تھی،سلطنت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ زیر تبصرہ ( ’’تاریخ سلطنت عثمانیہ ‘‘ ڈاکٹر محمد عزیر ،مطبوعہ دار المصنفین شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ)

سلاطین عثمانی کی مجموعی تعداد سینتیس 37 ہے عثمانی سلطنت کے تیسرے سلطان‘ مراد اوّل نے یورپ میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے،اورساتویں عثمانی سلطان، محمد فاتح نے قسطنطنیہ (شہرِ قیصر) فتح کر کے گیارہ سو سال سے قائم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر کے حدیثِ رسول اللہﷺ میں فتح قسطنطنیہ کے حوالے سے وارد ہونے والی بشارت کا مصداق بنے ۔ سلطنت عثمانیہ کا دائرہ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا تھا، دار السلطنت قسطنطنیہ(استنبول ) تھا، مصر، اردن، عراق، شام، اور حجاز مقدس کے علاوہ اکثر عربی علاقے خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھے ، فلسطین بھی اسی کی ریاست تھی، شہر بیت المقدس بھی اسی کے شہروں میں تھا برطانوی استعماروں اور صہیونیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام ،یہودیوں کی آباد کاری اور مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لئے عالمی پلان تیار کیا، سلطنت عثمانیہ باہمی اختلافات ،غیرملکی قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ ،مالی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کےرواج ،درباری غلام گردشوں اور سازشوں کی وجہ سے اندورنی طور پر کھوکھلا اور مالی طور پر خستہ حال ہوچکی تھی ، صہیونیوں کے وفد سلطان عبد الحمید کے پاس ایک دو نہیں بلکہ مختلف بہانوں سے مختلف اوقات میں تین بار آیا اور فلسطین میں آباد ہونے/تعلیمی ادارے کھولنے اور آخری ملاقات میں دوگنی چوگنی قیمت کے عوض فلسطین کی اراضی خریدنے یا سارا ملکی قرضہ اتارنے کے لئے ملینوں کی رقم کی پیش کش کی لیکن سلطان عبد الحمید جرات ، حمیت ، غیرت اسلامی اور دور اندیشی کے سبب ان کے یہودی آباد کاری جیسے مکروہ عالمی صہیونی عزائم سے واقف تھے اس لئے انہوں نے اس کی اجازت نہ دی،اور ان کے زمانے میں یہودی ایجنڈے کی تکمیل نہ ہوسکیی ، جس کے بعد سے ہی ان کی خلافت کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی جانے لگی ۔اور عوام کو خلافت کے خلاف اکسانے کی سازشیں کی جانے لگیں صہیونیوں نے مختلف عرب گروپوں میں عصبیت ابھارنے کے لئے نجد پہ صدیوں سے حکمرانی کرنے والے آل سعود اور ترکوں کی طرف سے متعین کردہ مکہ کا والی حسین بن علی (شریف مکہ ) کو سلاطین عثمانی سے علیحدگی اور بغاوت پہ اکسایا، شریف مکہ کو ترکوں سے بغاوت کرنے اور اس کی افواج کو حجاز سے نکال باہر کرنے کے عوض حجاز کے امیر المومنین بننے کا خواب دکھایا گیا جبکہ آل سعود کو نجد کے علاوہ دیگر علاقوں پہ حکومت کی لالچ دی گئی تھی، شریف مکہ نے 1817میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی جب دونوں گروپوں کی بغاوت سے عرب دنیا خلافت عثمانیہ کے دائرہ سے باہر ہوگئی تو اب برطانیہ نے 1924 میں سعود کے بیٹے عبد العزیز کو نجد کے ساتھ حجاز کا علاقہ دیدیا اور سعودی حکومت قائم ہوگئی اور شریف مکہ کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے کو اردن پہ متمکن کردیا گیا خلافت عثمانیہ کے ڈوبتے سورج کے تحفظ کے لئے علماء دیوبند نے ہندوستان میں بے مثال سعی کی ، اس کے لئے ہندوستان میں تحریک چلائی گئی ، نجدیوں کی حکومت کی تائید سلفیوں کی طرف سے ہوئی جبکہ احمد رضا خان بریلوی نے خلافت عثمانیہ کے خلاف شریف مکہ کے فتوی پہ دستخط وتائید کی ۔ یکم نومبر 1922ء کومصطفی کمال پاشا نے استعماری طاقتوں کی ایما پر ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کی قرارداد منظور کی ، اس وقت کے خلیفہ اسلام، عثمانی سلطان محمد وحید الدین ششم کو اٹلی کی طرف ملک بدر کردیا گیا ، ان کے قریبی رشتہ دار عبدالمجید آفندی کو آخری وعلامتی عثمانی خلیفہ بنایا ،مگر 3 مارچ 1924ء کو ترکی کی قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ پھراسلام دشمنی اور مغرب پروروں کا ثبوت دیتے ہوئے اتاترک کی قیادت میں اسلامی خلافت کے خاتمے کا قانون بھی منظور کرلیا سلطنت عثمانیہ ختم ہوگئی اور یوں دنیائے اسلام رحمت عظیمہ خلافت اسلامیہ سے محروم ہوگئی، اسلامی شریعت کو معطل کر کے سرزمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر نے کے بعد ہر ایک کو اپنا آئین ، قانون، قومیت اور جھنڈا تھمانے کے ساتھ امت کا شیرازہ بکھیردیا گیا،اسلام کی عادلانہ نظام معیشت کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے ، اور لادینیت واشتراکیت کو جمہوریت کے حسین لبادہ میں پیش کردیا گیا ۔ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے منظم پروگرام کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں آکر آباد ہونا شروع کیا۔ وہ فلسطین میں جگہ خریدتے تھے اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے۔ فلسطینی عوام نے اس لالچ میں جگہیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے با وجود محض دگنی قیمت کی لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس وقت عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ ان کا اصل پروگرام ہے اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیگر بڑے علماء کرام کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی جاری کیا جو ان کی کتاب ’’ بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنے والے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ 1945ء میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے ان کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دے دی جس کے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالہ کر دیا۔(حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب ) خلافت عثمانیہ کے سقوط کے اس سارے سازشی تانے بانے کے پیچھے گریٹر اسرائیل کا قیام ، مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور مسلمانوں کے قبلہ اول پہ ناپاک تسلط وقبضہ کار فرما تھا مسلمانوں کے باہمی اختلاف اور گروہی عصبیتوں نے صہیونیوں کو اپنے مقصد میں کامیاب کردیا :



سلطنت عثمانیہ ،یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک (عثمانی ترک زبان:

"دولت علیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔  یہ ترک  قبیلے  اوغوز نسل  تھے جن میں  منگول ترک ،تاتاری ترک   اور کرد ترک سبھی شامل تھے -

چنگیز خان کی افواج نے جب جلال الدین خوارزم کی فوج کو شکست دے کر خون کی ندیاں بھنی شروع کیں

 یہ خانہ بدوش  ترک قبائل جنوب کی طرف بھاگے اور ایران اور شام میں پہنچے۔ بعد ازاں وہ مصر کے مملوک سلاطین سے الجھے لیکن یہاں انہیں شکست ہوئی، اور وہ واپس ایشیائے کوچک میں سلجوقیوں سے آ ملے۔
غازی ارطغرل اردو - Posts | Facebook

ارطغرل کے باپ سلیمان شاہ کا قبیلہ بھی ان قبیلوں میں سے ایک تھا جو اپنے لئے کسی عافیت والی جگہ کی تلاش میں تھے -

دریائے فرات کو عبور کرتے ہوئے سلیمان شاہ کی   ڈوبنے کے سبب موت  واقع  ہوگئی - ارطغرل اپنے بھایوں  کے ساتھ  شام کی طرف بڑھے اور علاء الدین سلجوق کی سلطنت میں داخل ہو گئے۔

اب آجائیں عثمانی سلطنت کی بنیادیں رکھنے والے عظیم جنگجو اور مجاہد اعظم کی جانب جسے ارطغرل بن سلمان شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، اگرچہ یہ عظیم کردار تاریخ کے اوراق میں گم تھا، مگر موجودہ دور میں ترک سربراہ رجب طیب اردوگان کی ہدایت پر اس پر کئی ڈرامے بنائے گئے جن کی بدولت دنیا اس عظیم جنگجو کی حیرت انگیز فتوحات اور اس کے قبیلے کا نام قائی قبیلہ ہے سے باخبر ہوئی – کہتے ہیں کہ ترکی کے موجودہ سربراہ کا تعلق بھی اسے قائی قبیلے سے ہے -

سلجوقی سلطنت لکے خاتمے سے پہلے ہی ارطغرل نے اپنی جزوی فتوحات کا سلسلہ شروع کردیا تھا ، مگر اس کو سلجوقی سلطنت میں رہنے والے سازشوں نے کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا ، یہ سب کچھ اسطرح ہوا کہ کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسا پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔

عظیم سلطنت    کی حدود
اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔


منگولوں کی پے درپے یلغاروں کا یہ سلسلہ ارطغر ل بن سلمان شاہ نے ہی روکا ،اور جب سلجوقی سلطنت اپنے اختتا امی دور سے گزر رہی تھی اس وقت 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی -جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ سلجوقی سلطنت یعنی سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے بعد اناطولیہ میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔ 1300ء تک زوال کی جانب گامزن عیسائی بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔ کہا جاتا ہے عثمان اول نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد دار الحکومت بروصہ منتقل کر دیا۔ عثمان اول ترکوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ یہ عثمان اول کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل گئی۔ سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی دوبارہ بحالی کا سہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر جاتا ہے جو اپنے اعلیٰ اخلاق و اوصاف کے باعث ترکوں میں "محمد چلبی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہو گیا۔ تین براعظموں پر پھیلی اس وسیع و عریض سلطنت کا سب سے اہم ترین کارنامہ اور برتری اس کی سمندروں پر حکمرانی تھی – سمندروں پر حکمرانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آدھی سے زیادہ دنیا سمندری راستوں سے گزرنے پر محصولات عثمانی سلطنت کے حوالے کرتے تھے –

عثمانی بحریہ استنبول میں آبنائے باسفورس کے ساتھ واقع ترک بحری عجائب گھر کے قریب باربروسہ کا مجسمہ 1308ء میں بحیرہ مرمرہ میں جزیرہ امرالی کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی اور 1321ء میں اس کے جہاز پہلی بار جنوب مشرقی یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور بعد ازاں براعظم یورپ میں فتوحات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عثمانی بحریہ دنیا کی پہلی بحریہ تھی جس نے بحری جہازوں پر توپیں نصب کیں اور 1499ء میں لڑی گئی جنگ زونکیو تاریخ کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے دوران میں بحری جہازوں پر لگی توپیں استعمال کی گئیں۔ عثمانی بحریہ نے ہی شمالی افریقہ میں فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کیا۔ 1538ء میں جنگ پریویزا اور 1560ء میں جنگ جربا بحیرۂ روم میں عثمانی بحریہ کے عروج کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں عثمانی بحری جہازوں نے 1538ء سے 1566ء کے درمیان میں بحر ہند میں گوا کے قریب پرتگیزی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ 1553ء میں عثمانی امیر البحر صالح رئیس نے مراکش اور آبنائے جبل الطارق سے آگے کے شمالی افریقی علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں بحر اوقیانوس تک پہنچا دیں۔ 1566ء میں آچے (موجودہ انڈونیشیا کا ایک صوبہ) کے سلطان نے پرتگیزیوں کے خلاف عثمانیوں کی مدد طلب کی اور خضر رئیس کی قیادت میں ایک بحری بیڑا سماٹرا بھیجا گیا تھا۔ یہ بیڑا 1569ء میں آچے میں لنگر انداز ہوا اور اس طرح یہ سلطنت کا مشرقی ترین علاقہ قرار پایا جو عثمانیوں کی زیر سیادت تھا۔ 1585ء میں عثمانی امیر البحر مراد رئیس نے جزائر کناری میں لانزاروت کو فتح کیا۔ 1617ء میں عثمانی افواج نے مدیرہ پر بھی قبضہ کیا اور بعد ازاں اگست 1625ء میں مغربی انگلستان کے علاقوں سسیکس، پلائی ماؤتھ، ڈیوون، ہارٹ لینڈ پوائنٹ اور کورن وال پر چھاپے مارے۔ 1627ء میں عثمانی بحریہ کے جہازوں نے جزائر شیٹ لینڈ، جزائرفارو، ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ تک اور 1627ء سے 1631ء کے دوران میں آئرستان اور سویڈن تک بھی چھاپے مارنے میں کامیاب ہوئے۔ 1827ء میں جنگ ناوارینو میں برطانیہ، فرانس اور روس کے مشترکہ بحری بیڑے کے ہاتھوں شکست اور الجزائر اور یونان کے کھو جانے کے بعد عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہو گیا اور اس طرح سلطنت سمندر پار مقبوضات پر گرفت کمزور پڑتی چلی گئی۔ سلطان عبد العزیز اول (دور حکومت: 1861ء تا 1876ء) نے مضبوط بحریہ کی تشکیل کے لیے از سر نو کوششیں کیں اور کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بحری بیڑا تشکیل دیا جو 194 بحری جہازوں پر مشتمل تھا لیکن زوال پزیر معیشت ان بحری جہازوں کے بیڑے کو زیادہ عرصے برقرار نہ رکھ سکی۔ اصلاح پسند مدحت پاشا اور 1876ء میں پہلی عثمانی پارلیمان کی حمایت کے بعد سلطان عبد الحمید ثانی (دور حکومت: 1876ء تا 1908ء) کا اعتبار بحریہ پر سے اٹھ گیا۔ اور روس کے خلاف جنگوں میں کوئی استعمال نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اکثر بحری جہاز شاخ زریں میں بند کر دیے گئے جہاں وہ اگلے 30 سالوں تک سڑتے رہے۔ 1908ء میں نوجوانان ترک انقلاب کے بعد اتحاد و ترقی جمعیتی نے ملک کا نظم و ضبط سنبھالنے کے بعد بحریہ کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی اور عوامی چندے سے عثمانی بحریہ فاؤنڈیشن تشکیل دی گئی اور عوامی رقم سے ہی بڑے بحری جہازوں کی خریداری شروع کی گئی۔ امیر البحر خیر الدین بارباروسا عثمانی امیر البحر کپتان پاشا (یا قپودان پاشا) کہلاتا تھا۔ سلطنت کے معروف امیر البحروں میں خیر الدین باربروسا، پیری رئیس، حسن پاشا، پیالے پاشا، طرغت پاشا اور سیدی علی عثمانی تاریخ کے ساتھ یورپ کی بحری تاریخ میں بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ بحری فتوحات کے علاوہ ان کے علمی کارنامے بھی نمایاں ہیں۔ عثمانی ترکوں کی بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ امیر البحر کی اہمیت بھی دو چند ہو گئی اور باربروسا کے زمانے میں کپتان پاشا دیوان کا باقاعدہ رکن بن گیا۔ عہدے کے اعتبار سے وہ امیر العساکر کے مساوی اور شیخ الاسلام کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔

نہایت منظم بری فوج جسے ' ینگ چر ی ' کے نام سے  پکارا جاتا تھا –

عثمانی فوج اپنی زمانے کی دنیا کی جدید ترین فوج تھی اور وہ پہلی فوج تھی جس نے بارودی اسلحے کا استعمال شروع کیا۔ اس کے علاوہ وہ تلواریں، نیزے، تیر اور دیگر روایتی اسلحے بھی استعمال کرتے۔ 1389ء میں جنگ کوسوو اور 1396ء میں جنگ نکوپولس میں فتوحات کے بعد عثمانی افواج تیزی سے وسطی یورپ کو اپنے پیروں تلے روندتے چلی گئیں اور 1526ء میں جنگ موہاکس میں فتح کے ذریعے ہنگری پر بھی قابض ہو گئیں اور دو مرتبہ 1529ء اور 1683ء میں ویانا کا محاصرہ بھی کیا۔ علاوہ ازیں یہ پہلی فوج تھیں جو غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرتیں اور ان کے افسران کو تربیت کے لیے مغربی یورپ کے ممالک میں بھیجا جاتا۔ سلطنت کی طاقت کا دار و مدار اس کے فوجی نظام پر تھا۔ عثمانیوں کے دوسرے سلطان اورخان اول کے دور میں پہلی بار فوج کو منظم شکل دی گئی جو ینی چری کہلائی۔ ینی چری مستقل پیدل فوج تھی جس کی حیرت انگیز شجاعت، نظم و ضبط اور وفاداری نے تین صدیوں تک یورپی قوتوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھی اور سلطنت عثمانیہ کی ابتدائی تمام فتوحات بلاشبہ اسی کے زور بازو کا نتیجہ تھیں۔


سلطنت عثمانیہ کا گھڑ سوار دستہ "سپاہی" ینی چری کے تین مختلف دستے تھے جن میں یایا، سکبان اور آغا بولک لری شامل تھے۔ ینی چری کا سب سے بڑا عہدیدار ینی چری آغاسی کہلاتا۔ ایک عہدہ ینی چری آفندی سی ہوتا تھا جو دراصل کاتب تھا اور تنخواہ دینا اس کے ذمہ تھا۔ زمانۂ امن میں دیوان کے اجلاس میں پہرہ دینا، آگ بجھانے، اعلیٰ عہدیداروں کی حفاظت، امن و امان قائم کرنے میں مدد و دیگر ذمہ داریاں ینی چری کے سپرد ہوتی تھیں۔ ینی چری کے لیے اپنے افسروں کی اطاعت پہلی شرط اور اتحاد و مساوات، ظاہری نمود و نمائش سے پرہیز اور دین داری بھی ضروری تھیں۔ جنگ کے دوران ینی چری قلب میں سلطان کے گرد ہوتے۔ ابتدا میں صرف نو مسلم مسیحی ہی اس میں بھرتی کیے جاتے بعد ازاں مسلمان بھی بھرتی کیے جانے لگے۔ جب تک سلاطین مضبوط تھے ینی چری قابو میں رہے لیکن عنان حکومت کمزور ہاتھوں میں آتے ہی ینی چری سرکش ہو گئے اور بدعنوانی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور یہ فوج سلطنت کے لیے مستقل خطرہ بن گئی اور 1826ء میں محمود ثانی نے بالآخر اس کو ختم کر ڈالا۔ ینی چری کے خاتمے کو واقعۂ خیریہ کہا جاتا ہے۔ سپاہی مستقل پیدل فوج کے علاوہ ایک مستقل سوار فوج بھی تھی جو سپاہی کہلاتی۔ ان کی تربیت بھی اعلیٰ انداز میں کی جاتی اور ذہنی قابلیت کے لحاظ سے بہتر سپاہیوں کو حکومت کے انتظامی شعبے کے لیے منتخب کر لیا جاتا تھا۔ سلیمان اعظم کے بعد ینی چری کی طرح ان میں بھی بد عنوانیاں ہونے لگیں۔


عظیم مسلم سلطنت کا زوال درجہ بدرجہ عثمانیوں کے دور زوال کو مغربی مورخین جدید دور بھی قرار دیتے ہیں-

اس دور میں سلطنت نے ہر محاذ پر شکست کھائی اور اس کی سرحدیں سکڑتی چلی گئیں تنظيمات (اصلاحات) کے باوجود مرکزی حکومت کی ناکامی کے باعث انتظامی عدم استحکام پیدا ہوا۔ 19 ویں صدی کے دوران میں سلطنت عثمانیہ سمیت کئی ممالک میں قوم پرستی کو عروج نصیب ہوا۔ نسلی قوم پرستی کی لعنت ان مغربی نظریات میں سب سے اہم تھی جو اس دوران میں سلطنت عثمانیہ میں وارد ہوئیں۔ اس دوران میں کئی انقلابی سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آ گئیں۔ مملکت میں آئے دن بڑھتا ہوا بگاڑ کے جہاں دیگر کئی اسباب تھے وہیں زوال کی اہم ترین وجوہات میں قوم پرستی کا پھیلاؤ بھی شامل ہے۔ اس عرصے میں 1892ء میں یونان نے آزادی حاصل کی اور اصلاحات بھی ڈینیوب کی امارتوں میں قوم پرستی کو نہ روک سکیں اور 6 عشروں سے نیم خود مختار ان علاقوں سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا، ولاچیا اور مالدووا نے بھی 1875ء میں سلطنت سے آزادی کا اعلان کر دیا اور 1877ء کی روس ترک جنگ کے بعد سربیا، رومانیا اور مونٹینیگرو کو باقاعدہ آزادی مل گئیں اور بلغاریہ کو خود مختاری عطا کر دی گئی البتہ بلقان کی دیگر ریاستیں بدستور عثمانی قبضے میں رہیں۔ زوال کے اسی دور میں سربیا کے ایک یہودی یہودا سولمن الکلائی نے صیہون کی طرف واپسی اور اسرائیل کی آزادی کا نظریہ پیش کیا۔

محمود ثانی نے 1839ء میں تنظیمات کے ذریعے ترکی میں جدید دور کی بنیاد رکھی دور تنظیمات (1839ء تا 1876ء) میں آئینی اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا گیا جس کے نتیجے میں ایک نسبتاً جدید فوج، بنکاری نظام کی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جدید کارخانے قائم ہوئے۔ 1856ء میں خط ہمایوں کے ذریعے نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر تمام عثمانی شہریوں کو برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ مسیحی اقلیتوں کو بھی خصوصی حقوق عطا کیے گئے جیسے 1863ء میں آرمینیائی دانشوروں کی مرتب کردہ 150 شقوں کے ضابطہ قانون کے تحت منظور شدہ دیوان نظام نامۂ ملت آرمینیان (Armenian National Constitution) ۔ اصلاحات کے اس دور کی سب سے اہم بات وہ دستور تھا جو قانون اساسی کہلاتا تھا جسے نوجوانان عثمان نے تحریر کیا اور 23 نومبر 1876ء کو نافذ کیا گیا۔ اس کے ذریعے تمام شہریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی نظر میں برابری عطا کی گئیں۔ سلطنت کا پہلا آئینی دور (عثمانی ترک زبان: برنجی مشروطیت دوری) مختصر رہا لیکن اس کے نتیجے میں جو نظریہ فروغ پایا وہ مغربی جامعات میں تعلیم پانے والے نوجوانان عثمان نامی اصلاح پسند گروہ کے مطابق یہ تھا کہ ایک آئینی بادشاہت مملکت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ 1876ء میں فوجی تاخت کے ذریعے سلطان عبدالعزیز (1861ء تا 1876ء) مراد پنجم کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ مراد پنجم ذہنی معذور تھا اور چند ماہ میں ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کے ممکنہ جانشین عبد الحمید ثانی (1876ء تا 1909ء) کو اس شرط پر بادشاہت سنبھالنے کی دعوت دی گئی کہ وہ آئینی بادشاہت کو تسلیم کریں گے جس پر انہوں نے 23 نومبر 1876ء کو عمل بھی کیا۔ لیکن پارلیمان صرف دو سال قائم رہی اور سلطان نے اسے معطل کر دیا اور بعد ازاں پارلیمان کو طلب کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ تاہم قانون اساسی کے اثرات کافی حد تک کم ہو گئے۔ اس عرصے میں سلطنت کو بیرونی جارحیت اور قبضہ گیری کے خلاف اپنے دفاع کے حوالے سے شدید خطرات کا سامنا رہا۔ 1798ء میں فرانس نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ 1877ء کی روس ترک جنگ میں شکست کے بعد برلن کانگریس میں حمایت کے صلے میں 1878ء میں ایالت قبرص پٹے پر برطانیہ کے حوالے کرنا پڑا۔ سلطنت اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے قابل نہ رہی اور مختلف یورپی ممالک کی مداخلت و اتحاد کے ذریعے اس کے مسائل حل ہونے پڑے مثال کے طور پر جنگ کریمیا جس میں عثمانیوں نے روس کے خلاف برطانیہ اور فرانس سے اتحاد کیا۔


تحلیل (1908ء-1922ء) استنبول کے ضلع سلطان احمد میں ایک عوامی مظاہرہ، 1908ء دوسرا آئینی دور (عثمانی ترک زبان: اکنجی مشروطیت دوری) سلطنت عثمانیہ کی حتمی تحلیل پر منتج ہوا۔ اس دور میں اتحاد و ترقی جمعیتی کی سیاست اور نوجوانان ترک (ترک زبان: جون ترکلر) کا سبب بننے والی تحریک نمایاں ترین ہیں۔ نوجوانان ترک کے انقلاب کا آغاز 3 جولائی 1908ء کو ہوا اور جلد ہی تحریک سلطنت بھر میں پھیل گئی اور نتیجتاً سلطان کو 1876ء کے آئین کی بحالی کا اعلان اور پارلیمان کو طلب کرنا پڑا۔ آئینی دور میں 1909ء کے جوابی تاخت اور واقعہ 31 مارچ کے جوابی انقلاب کے دوران میں رخنہ آیا جس کے ساتھ ہی سلطان عبد الحمید ثانی کے دور کا خاتمہ کر دیا گیا اور انہیں جلاوطن کر دیا گیا اور ان کی جگہ ان کے بھائی محمد پنجم کو تخت پر بٹھایا گیا۔ نوجوانان ترک کے انقلاب کے دوران میں سلطنت عثمانیہ کی داخلی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1908ء میں آسٹریا-ہنگری نے مقبوضہ بوسنیا و ہرزیگووینا کا باضابطہ الحاق کر دیا۔ آسٹریا-ہنگری نے 1877ء کی روس ترک جنگ اور برلن کانگریس (1878ء) کے بعد اس پر قبضہ کیا تھا۔ اطالیہ ترک جنگوں کے دوران میں سربیا، مونٹی نیگرو، یونان اور بلغاریہ پر مشتمل بلقان لیگ نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کو بلقان جنگ (1912ء-1913ء) کا سامنا کرنا پڑا اور اسے جزیرہ نما بلقان کے کئی علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ لیبیا اور جزیرہ نما بلقان میں جنگیں اتحاد و ترقی جمعیتی کا پہلا بڑا امتحان تھیں۔ اطالیہ ترک جنگوں میں سلطنت کو لیبیا سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ پہلی جنگ تھی جس میں دنیا میں پہلی بار میدان جنگ میں ہوائی جہازوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ 19 ویں صدی کے آخر میں قائم ہونے والی بلقان ریاستیں نسلی و قومی بنیادوں پر البانیہ، مقدونیہ اور تھریس (تراقیا) کے عثمانی صوبوں سے بھی اضافی علاقوں کے حصول کی خواہشمند تھیں۔ ابتدائی طور پر مارچ 1912ء میں سربیا اور بلغاریہ اور مئی 1912ء میں یونان اور بلغاریہ کے درمیان معاہدے طے پائے جس میں روس نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ سرب-بلغاری معاہدے میں مقدونیہ کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا تھا جو پہلی بلقان جنگ کا سب سے اہم سبب بنا۔ دوسری بلقان جنگ کے آغاز کا اہم سبب سابق بلقان اتحادیوں میں نئے حاصل کردہ علاقوں کی تقسیم پر پیدا ہونے والے تنازعات تھے جس سے سلطنت عثمانیہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تھریس میں کئی علاقے دوبارہ فتح کر لیے۔ بلقان جنگ کے سیاسی نتائج 1913ء کے تاخت اور تین پاشاؤں کی حکومت کا سبب بنے۔ جنگ عظیم اول

مصطفٰی کمال اتاترک 1915ء میں جنگ گیلی پولی کے دوران میں ایک خندق میں پہلی جنگ عظیم میں بغداد ریلوے پر جرمن اختیار بین الاقوامی طور پر کشیدگی کا ایک مسئلہ اہم تھا۔ سلطنت عثمانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے مشرق وسطٰی میدان میں حصہ لیا جس کا سبب ترک جرمن اتحاد تھا۔ عثمانیوں نے جنگ کے ابتدائی دور میں دو اہم فتوحات، جنگ گیلی پولی اور محاصرۂ کوت، حاصل کیں لیکن اسے کئی دھچکے بھی پہنچے جیسے روس کے خلاف تباہ کن قفقاز مہم۔ 1917ء کے روسی انقلاب نے عثمانیوں کو شکست کے داغ دھونے اور کھوئے ہوئے علاقے حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا اور عثمانی افواج جنگ کے اختتامی مراحل میں آذربائیجان کے حصول میں کامیاب ہو گئیں لیکن جنگ عظیم کے اختتام پر اسے ان فتوحات سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس تنازعے میں پیش آنے والا ایک متنازع اور اہم واقعہ صوبہ وان میں ترک حکام، عثمانی افواج اور کرد جنگجوؤں کے ہاتھوں لاکھوں آرمینیائی باشندوں کا مبینہ قتل عام اور ملک بدری اور اس کے خلاف آرمینیائی باشندوں کی مزاحمت تھی۔ ایک مرکزی آرمینیائی مزاحمتی گروہ نے مئی 1915ء میں آزاد عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا، اور عثمانیوں نے اسے مشرقی اناطولیہ پر جارحیت کرنے والی روسی افواج کا ساتھ دینے کی کوشش سمجھا۔ 1917ء کے اختتام تک آرمینیائی انقلابی وفاق نے جمہوریہ آرمینیا قائم کر دی جو آرمینیائی قتل عام سے بچ جانے والے باشندوں پر مشتمل تھی۔ واضح رہے کہ ترک حکومت آرمینیائی باشندوں کے قتل عام پر یقین نہیں رکھتی۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے آرمینیائی قتل عام پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کے شکست کے دو اہم اسباب ایڈمنڈ ایلنبائی کی زیر کمان برطانوی افواج کی اہم اہداف پر حملے اور عرب بغاوت تھے۔ ان میں عرب بغاوت سلطنت عثمانیہ کی شکست کا سب سے بڑا سبب سمجھی جاتی ہے۔ عرب بغاوت کی ان مہمات کا آغاز شریف مکہ حسین کی جانب سے برطانیہ کی مدد سے جون 1916ء میں جنگ مکہ سے اور اس کا اختتام دمشق میں عثمانیوں کے اسلحہ پھینک دینے کے ساتھ ہوتا ہے۔ مدینہ کے عثمانی کماندار فخری پاشا نے محاصرہ مدینہ میں ڈھائی سال سے زیادہ عرصے تک زبردست مزاحمت کی۔ تقسیم

عثمانی سلطنت کے آخری سلطان محمد ششم کی آمد، 1922ء جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ میں تقسیم کا عمل قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن بعد 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدہ مدروس کے ذریعے شروع ہوا۔ اور بعد ازاں معاہدہ سیورے کے ذریعے مشرق وسطٰی میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی، ترک ایجیئن ساحلوں کو یونان، اور آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کو بین الاقوامی علاقے کے طور پر اتحادی قوتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی اناطولیہ میں جمہوریہ آرمینیا کو توسیع دیتے ہوئے ولسونین آرمینیا کی تشکیل دی گئی جو آرمینیائی باشندوں کا قدیم وطن تھا تاہم بعد ازاں ان علاقوں میں ترک اور کرد بھی بس گئے۔ برطانیہ نے مشرق وسطٰی کی تقسیم کے لیے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس کے ساتھ سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کیا۔ استنبول اور ازمیر پر قبضہ ترک قومی تحریک کے قیام کا سبب بنی اور مصطفٰی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کے آغاز اور جمہوریہ ترکی کے قیام کے اعلان کیا گیا۔ مصطفٰی کمال کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں "قومی مجلس اعلیٰ" (ترک زبان: بیوک ملت مجلسی) کے قیام کا اعلان کیا، جس نے استنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ترک انقلابیوں نے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس کی افواج کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔ معاہدہ سیورے کے نتیجے میں جو علاقے جمہوریہ آرمینیا کو مل گئے تھے انہیں بھی دوبارہ حاصل کیا اور آبنائے پر قابض برطانوی افواج کے لیے خطرہ بن گئی۔ بالآخر ترک انقلابیوں نے آبنائے اور استنبول پر قبضہ کر لیا اور یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ آخری سلطان محمد ششم وحید الدین (1861ء تا 1926ء) 17 نومبر 1922ء کو ملک چھوڑ گئے اور معاہدہ لوزان کے تحت 24 جولائی 1923ء کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ چند ماہ بعد 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔ 50 سال بعد 1974ء میں ترک قومی مجلس اعلیٰ نے سابق شاہی خاندان کو ترک شہریت عطا کرتے ہوئے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔

جب  ترکی میں نماز اور آذان پر پابندی  لگادی گئی 


۴۸۱ سال تک یہاں مسلمان اذانیں دیتے اور نمازیں پڑھتے رہے۔ لیکن ۱۹۳۴ء میں کمال اتاترک نے اپنی روشن خیالی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے جہاں ترکی میں دیگر مساجد میں اذان اور نمازیں پڑھنے پر پابندی لگائی، وہیں آیا صوفیا میں بھی نماز اور اقامت پر پابندی لگا کر اسے ایک میوزیم قرار دے دیا گیا-

یہاں تک کہ قران پاک کو اعلانیہ پڑھنے اور گھروں میں رکھنے پر بھی سخت ترین سزائیں سنائی جاتیں - کمال اتاترک کے الحادی دور میں لباس جو مسلم تقافت کا آئنہ دار تھا اس پر پابندی لگا کر پتلون اور کوٹ لازمی کردیا گیا ، رسم الخط یکسر تبدیل کرکے قران پاک سے دور کردیا گیا - اب مسلم ترکی مغربی غیر مسلم ممالک کی طرح کا ایک ملک بن چکا تھا - خلافت عثمانیہ کو پارہ پارہ کرکےترکی سمیت درج ذیل ممالک کی بنیاد رکھی گئی ١۔ سعودی عرب ٢۔ بلغاریہ ٣۔ یونان ٤۔ سربیا ٥۔ مونٹی نیگرو ٦۔ بوسینیا ھرزیگووینا ٧۔ کروشیا ٨۔ مقدونیا ٩۔ سلوانیا ١٠۔ رومانیہ ١١۔سلواکیہ ١٢۔ ھنگری ١٣۔ مولڈووا ١٤۔ یوکراٸن ١٥۔ آذر باٸیجان ١٦۔ آرمینیا ١٧۔ قبرص ١٨۔ جنوبی ساٸپرس ١٩۔ روس کے شمالی علاقہ جات ٢٠۔ پولینڈ ٢١۔ اٹلی کے شمالی ساحل ٢٢۔ البانیہ ٢٣۔ بیلاروس ٢٤۔ لتھوانیا ٢٥۔ کوسوو ٢٦۔ لٹوویہ ٢٧۔ ووجودینیہ ٢٨۔ عراقی ٢٩۔ شام ٣٠۔ اسراٸیل ٣١۔ فلسطین ٣٢۔ اردن ٣٣۔ یمن ٣٤۔ عمان ٣٥۔ متحدہ عرب امارات ٣٦۔ قطر ٣٧۔ جارجیا ٣٨۔ بحرین ٣٩۔ کویت ٤٠۔ ایران کے مغربی علاقے ٤١۔ لبنان ٤٢۔ مصر ٤٣۔ لیبیا ٤٤۔ تیونس ٤٥۔ الجیریا ٤٦۔ سوڈان ٤٧۔ اریٹریا ٤٨۔ ڈی جبوتی ٤٩۔ صومالیہ ٥٠۔کینیا کے ساحل ٥١۔ تنزانیہ کے ساحل ٥٢۔ چاڈ کے شمالی حصے ٥٣۔ ناٸیجر کا حصہ ٥٤۔ موزمبیق کے زیراثر علاقے ٥٥۔ مراکش ٥٦۔ مغربی صحارا ٥٧۔ موریطانیہ ٥٨۔ مالی ٥٩۔ سینیگال ٦٠۔ دی گیمبیا ٦١۔گنی بیساٶ ٦٢۔ گھانا