عثمانی ترکاں دے آئینی دور

عثمانی ترکوں کے آئینی دور 
عثمانی سلطنت کا پہلا آئینی دور 

عثمانی سلطنت کا پہلا آئین یا آئینی دور قانون اساسی کہلاتا ہے۔ یہ آئین سلطان عبدالحمید ثانی (1876ء-1909ء) کے عہد میں نوجوانان عثمان کے اراکین، خصوصاً احمد شفیق مدحت پاشا، نامق کمال اور ضیا بیگ نے تحریر کیا۔ یہ آئین صرف دو سال، 1876ء سے 1878ء تک، قابل عمل رہا اور عبد الحمید ثانی نے اسے کالعدم کر دیا۔ نوجوانان عثمان سلطنت عثمانیہ کے قوم پرست دانشوروں کا ایک گروہ تھا جو 1865ء میں قائم ہوا۔ یہ گروہ روسو جیسے مغربی مفکرین اور انقلاب فرانس سے متاثر تھا۔ انہوں نے عثمان ازم کا نظریہ تخلیق کیا۔ وہ آئینی و پارلیمانی نظام حکومت کے حامی تھے۔ اس تنظیم کا اصل نام اتفاق جمعیت تھا البتہ اسے ژون ترک لر، ارباب شباب ترکستان، گنج عثمانلی لر اور ینی عثمانلی کے مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا تھا۔ نوجوانان عثمان افسر شاہی کے وہ ارکان تھے جو دور تنظیمات کی پیداوار تھے اور استبدادیت سے بیزار تھے اور مسائل کا زیادہ جمہوری حل چاہتے ہیں۔ ان میں دو مشہور شخصیات ضیاء پاشا گوک الپ اور نامق کمال کی تھیں۔ نوجوانان ترک کا گروہ انہی میں سے نکلا تھا جن کی بدولت عثمانی سلطنت دوسرے آئینی دور میں داخل ہوئی اور جنگ عظیم اول میں شریک ہوئی۔

عثمانی سلطنت کا دوسرا آئینی دور 

سلطنت عثمانیہ کا دوسرا آئینی دور یا دوسرا دور مشروطیت سلطان عبد الحامد ثانی کی جانب سے 1908ء کے نوجوانان ترک کے انقلاب کے بعد آئینی بادشاہت کی بحالی کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں متعدد انتخابات کے بعد جمعیت اتحاد و ترقی کو سیاست میں فروغ حاصل ہوا۔ اس آئینی دور کا خاتمہ پہلی جنگ عظیم اور استنبول پر اتحادیوں کے قبضے کے ساتھ 18 مارچ 1920ء کو ہوتا ہے۔ نوجوانان ترک سلطنت عثمانیہ میں اصلاحات کے حامی مختلف گروہوں کا اتحاد تھا۔ نوجوانان ترک انقلاب کے ذریعے ہی سلطنت دوسرے آئینی دورمیں داخل ہوئی۔ یہ تحریک 1889ء میں پہلے فوجی طلبہ میں پھیلی اور پھر دیگر سلطان عبد الحامد ثانی کے استبدادی رویے کے باعث آگے پھیلتی چلی گئی۔ 1906ء میں باضابطہ طور پر جمعیت اتحاد و ترقی کے نام سے خفیہ طور پر تخلیق پانے والا گروہ نوجوانان ترک کے بیشتر ارکان پر ہی مشتمل تھا۔ نوجوانان ترک کے تین پاشاؤں نے 1913ء کی بغاوت سے جنگ عظیم اول کے اختتام تک سلطنت عثمانیہ پر حکومت کی۔

جمعیت اتحاد و ترقی 

جمعیتِ اتحاد و ترقییا اتحاد و ترقی جمعیتی (Committee of Union and Progress) سلطنت عثمانیہ میں 1889ء میں قائم کردہ ایک خفیہ انجمن تھی جو پہلے جمعیتِ اتحادِ عثمانی یا اتحاد عثمانی جمعیتی (İttihad-ı Osmanî Cemiyeti) کے نام سے قائم کی گئی۔ ابراہیم تیمو، عبد اللہ جودت، اسحاق شوکتی اور حسین زادہ علی اس کے بانی تھے۔ بعد ازاں 1906ء میں بہاء الدین شاکر نے نوجوانان ترک کے تحت اسے سیاسی تنظیم بنا دیا۔ 1908ء سے 1918ء کے دوران اسے بھرپور قوت حاصل رہی۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر سلطان محمد ششم نے اس کے کئی اراکین کو سزائیں سنا دیں اور کئی پابندِ سلاسل کر دیے گئے۔ 1926ء میں اتاترک کو قتل کرنے کی مبینہ سازشوں میں ملوث پائے جانے پر اس تنظيم کے متعدد ارکان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ بقیہ اراکین نے جمہوریت خلق پارٹی ( Cumhuriyet Halk Partisi) کے نام سے سیاسی سفر جاری رکھا۔

تین پاشا 

تین پاشا سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں مجموعی طور پر ان تین اہم وزراء کو کہا جاتا تھا جو 1913ء سے لے کر جنگ عظیم اول کے خاتمے تک عملاً سلطنت عثمانیہ کے حاکم تھے۔ ان میں وزیر داخلہ محمد طلعت پاشا (1874ء-1921ء)، وزیر جنگ اسماعیل انور پاشا (1881ء-1922ء) اور وزیر بحریہ احمد جمال پاشا (1872ء-1922ء) شامل تھے۔ یہ تینوں پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کی اہم ترین سیاسی شخصیات تھے۔ ان تینوں کا ترک جرمن اتحاد کے قیام اور جنگ عظیم اول میں ترکی کی شرکت میں اہم ترین کردار تھا۔ معاہدۂ مدروس کے بعد انور، طلعت اور جمال قسطنطنیہ سے فرار ہو گئے۔ 1919-20ء میں ترک فوجی عدالت نے ان کی غیر موجودگی میں انہیں سزائے موت سنائی۔ بعد ازاں طلعت اور جمال آپریشن نیمیسس میں مارے گئے جبکہ انور روسی خانہ جنگی کے دوران وسط ایشیا میں ایک سوویت فوجی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ انور کا قتل بھی آپریشن نیمیسس کا ہی حصہ تھا۔

دور لالہ 

دور لالہ سلطنت عثمانیہ کے 1718ء سے 1730ء تک کے دور کا روایتی نام ہے جو نسبتاً پرامن دور تھا۔ اس دور کا نام سلطنت عثمانیہ کے دربار میں حد درجہ پسند کیے جانے والے گل لالہ سے موسوم ہے۔ اس عہد میں نوشہرلی دمت ابراہیم پاشا سلطنت کے صدر اعظم تھے اور یہ پورا دور سلطان احمد ثالث کی حکومت کی بجائے ان کی وزارت کا عہد سمجھا جاتا ہے۔ اس عہد کا خاتمہ 1730ء میں پٹرونا خلیل کی بغاوت کے ساتھ ہوا۔ اس عہد میں دارالحکومت آبنائے باسفورس کے کناروں پر پھیلتا چلا گیا جہاں امرا نے ساحلوں پر اپنی رہائش کے لیے محلات تیار کرائے۔ اس عہد میں عثمانی ثقافت پر مغربی تہذیب کے اثرات کے آغاز ہوا۔ اسی عہد میں مشہور مصور عبد الجلیل لیونی ادرنہ سے استنبول آئے اور اپنے شاندار فن مصوری کے بل بوتے پر شاہی مصور بنے۔ پہلے عثمانی چھاپے خانے کا قیام بھی اسی عہد کی یادگار ہے جو ہنگری کے ایک نو مسلم ابراہیم متفرقہ نے قائم کیا تھا۔

دور تنظیمات 

"تنظیمات" سلطنت عثمانیہ میں اصلاحات کے اس عہد کو کہا جاتا ہے جو 1839ء میں شروع ہو کر 1876ء میں پہلے آئینی دور کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ اصلاحات کا یہ دور سلطنت عثمانیہ کو جدید تر بنانے کی کوشش تھی تاکہ قوم پرستی کی تحریکوں اور بیرونی جارحیت سے مملکت کو بچایا جاسکے۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں مختلف نسلی گروہوں میں "عثمانیت" کو اجاگر کرتے ہوئے قوم پرست تحریکوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے اور غیر مسلم اور غیر ترک باشندوں کو زیادہ آزادی فراہم کر کے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ دور تنظیمات میں آئینی اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا گیا جس کے نتیجے میں ایک نسبتاً جدید فوج، بنکاری نظام کی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جدید کارخانے قائم ہوئے۔ 1856ء میں خط ہمایوں کے ذریعے نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر تمام عثمانی شہریوں کو برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ مسیحی اقلیتوں کو بھی خصوصی حقوق عطا کیے گئے جیسے 1863ء میں آرمینیائی دانشوروں کی مرتب کردہ 150 شقوں کے ضابطہ قانون کے تحت منظورہ شدہ دیوان نظام نامۂ ملت آرمینیان (Armenian National Constitution)۔ اصلاحات کے اس دور کی سب سے اہم بات وہ دستور تھا جو قانون اساسی کہلاتا تھا جسے نوجوانان عثمان نے تحریر کیا اور 23 نومبر 1876ء کو نافذ کیا گیا۔ اس کے ذریعے تمام شہریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی نظر میں برابری عطا کی گئیں۔ اس کے بعد سلطنت کا پہلا آئینی دور (عثمانی ترک زبان: برنجی مشروطیت دوری) آیا جو ایک مختصر دور تھا لیکن اس کے نتیجے میں جو نظریہ فروغ پایا وہ مغربی جامعات میں تعلیم پانے والے نوجوانان عثمان نامی اصلاح پسند گروہ کے مطابق یہ تھا کہ ایک آئینی بادشاہت مملکت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔

عثمانی ترکوں کی جنگ ویانا 

عہد سلیمانی میں محاصرہ ویانا کی ناکامی کے بعد 1683ء میں محمد چہارم کے دور میں ویانا کا دوسرا محاصرہ کیا گیا جو تاریخ میں جنگ ویانا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس جنگ میں عثمانیوں اور پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی کی متحدہ افواج سے ہوا۔ جنگ میں عثمانی افواج کی قیادت صدر اعظم قرہ مصطفٰی پاشا نے کی جس کی ناقص حکمت عملی کے باعث دو ماہ کے محاصرے کے بعد بھی ویانا فتح نہ ہو سکا۔ عثمانی افواج نے 14 جولائی 1683ء کو محاصرے کا آغاز کیا جبکہ فیصلہ کن جنگ 12 ستمبر کو ہوئی جب متحدہ صلیبیوں کے 70 ہزار فوجی ویانا پہنچے۔ یہ جنگ وسطی یورپ کی سلطنتوں اور عثمانی سلطنت کے درمیان 300 سالہ کشمکش کا اہم ترین موڑ ثابت ہوئی اور اس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کا زوال تیزی سے شروع ہوا اور وہ آہستہ آہستہ یورپ کے مقبوضات کھونے لگی۔

اسباب 

محاصرہ ویانا کے تمام اسباب داخلی تھے کیونکہ آسٹریا کے زیر حکومت ہنگری کا تمام علاقہ شاہ آسٹریا لیوپولڈ اول کے متعصبانہ رویہ سے خائف تھا اور اہل ہنگری نے اس کے خلاف بغاوت بھی اور ایک سردار نے آسٹریا سے آزادی کا اعلان کر کے خود کو ہنگری کا فرمانروا قرار دے دیا اور عثمانی سلطان کی سیادت قبول کر لی۔ یہ عمل عثمانیوں کو ویانا پر چڑھائی کا موقع فراہم کر دینے کا لیے کافی تھا۔ علاوہ ازیں ہنگری کے امرا مسلم حکومت کو متعصب کیتھولک حکومت پر ترجیح دیتے تھے۔ دوسری جانب قسطنطنیہ میں بھی ایک گروہ جنگ کے حق میں تھا اور قرہ مصطفٰی پاشا سمیت بڑی تعداد فوج کشی کی خواہش مند تھی کیونکہ ویانا پر قبضہ عثمانیوں کی ایک پرانی خواہش تھی اور اس کے ذریعے ویانا کے پہلے محاصرے میں ناکامی کا داغ بھی دھونا چاہے تھے۔

واقعات 

ویانا پر چڑھائی کے لیے ادرنہ میں زبردست ترکوں کی زبردست فوج جمع کی گئی جو افواج با آسانی ویانا پہنچ گئیں اور شہر کے گھر گھیرا ڈال لیا۔ شہنشاہ لیوپولڈ اول اہل خانہ سمیت فرار ہو گیا اور محصورین ارنسٹ روڈیگر وان اسٹی رہی مبرگ کی زیر قیادت بہادری سے ڈٹ گئے۔ ہزاروں شہری بھی حملہ آوروں کے خلاف بر سر پیکار دستوں میں شامل ہو گئے۔ دوسری جانب قرہ مصطفٰی نے عام حملے کا حکم دینے کی بجائے محصورین کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا انتظار کیا۔ ادھر صورت حال یہ تھی کہ شاہ لیوپولڈ فرار سے قبل پولینڈ کے جرنیل جان سوم سوبیسکی سے مدد طلب کر چکا تھا اور اس کی افواج ویانا کی جانب محو سفر تھیں اور وہ آسٹرین شاہی افواج کے سپہ سالار سے آ ملا۔ اب دونوں لشکر ویانا کی جانب بڑھے اور ترک لشکر کو بالکل عقب سے جا لیا۔ اس وقت عثمانی لشکر انتہائی بے ترتیب تھا اور اچانک حملے کی تاب نہ لا سکے۔ ادھر سوبیسکی کی آمد نے مخالفین کے حوصلوں کو مزید بلند کر دیا۔ میدان جنگ میں زبردست مقابلہ ہوا اور بالآخر عثمانی لشکر کے قدم اکھڑ گئے اور عیسائیوں کو ایک شاندار فتح ملی۔

نتائج 

دوسرے محاصرے کے نتائج سلیمان اعظم کے محاصرے کے بالکل برعکس تھے۔ محاصرہ اول کی ناکامی مجبوری اور مصلحت کے تحت تھی۔

قرہ مصطفٰی نے شکست کھائی اور ہزاروں ترک فوجی اس جنگ میں کام آئے۔
اس شکست نے دولت عالیہ کی عظمت پر بہت برا اثر ڈالا اور تمام دنیا پر واضح ہو گیا کہ عثمانی فتوحات کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔
اس شکست میں عثمانی افواج اور توپ خانے کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ شکست ویانا سے یورپی قوتوں کے حوصلے بڑھے جو ہمیشہ عثمانیوں کے خوف میں مبتلا رہتی تھیں اور انہوں نے اس شکست کے بعد متحد ہو کر عثمانی خطرے کا مقابلہ کیا بلکہ جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ترک علاقوں پر یکے بعد دیگرے قبضہ کرتے گئے۔
ویانا کی شکست کا ذمہ دار قرہ مصطفٰی پاشا قرار پایا اور سلطان نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔
اس شکست کے بعد ترکوں کے قدم اکھڑ گئے اور عیسائیوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ آسٹریا، پولینڈ، وینس، روس اور مالٹا نے مل کر ترکوں کے خلاف جنگوں کا آغاز کیا اور ہنگری کے کئی علاقے اور کرویئشا کا پورا صوبہ ہاتھوں سے نکل گیا۔ حتٰی کہ ترک فوجوں نے دار الحکومت میں اکٹھے ہو کر سلطان کی معزولی کا مطالبہ کر دیا اور بالآخر 1687ء میں سلطان محمد چہارم کو معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا۔
شکست کی وجوہات 

دوسرے محاصرے کی ناکامی کے اسباب مندرجہ ذیل تھے:

سوبیسکی نے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو بالائے طاق رکھ کر آسٹریا کا ساتھ دیا اور اس کی یہ وعدہ خلافی ترکوں کو ناقابل تلافی نقصان دے گئی۔
قرہ مصطفٰی نے سوبیسکی کی ویانا کو فوری امداد کی عدم فراہمی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا اور دو جگہ سے شہر کی فصیل گرنے کے باوجود پوری قوت سے حملے کا حکم دینے کی بجائے اہلیان شہر کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا انتظار کرتا رہا۔ اس طرح سوبیسکی کو ویانا پہنچنے کا موقع مل گیا۔
قرہ مصطفٰی کو اپنی فوجی قوت پر حد درجہ بھروسا تھا اور مخالفین کو کمزور سمجھنا ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بنا۔
دشوار گزار راستوں سے بیرونی لشکر کی آمد کو نہ روک کے جس غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اس کا خمیازہ شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
عثمانی ترکوں کا محاصرہ ویانا 

محاصرہ ویانا سے مراد عثمانی ترکوں کی جانب سے آسٹریا کے دار الحکومت ویانا کے وہ دو محاصرے ہیں جو 1529ء اور 1683ء میں کیے گئے لیکن ترک شہر کو حاصل کرنے میں ناکام رہے اور نہ صرف پورا وسطی یورپ ترک مسلم افواج کے زیر نگیں نہ آسکا بلکہ محاصرہ ویانا کی ناکامی سلطنت عثمانیہ کے زوال کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوئی۔ محاصرہ ویانا کی 1529ء میں ہونے والے محاصرے کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسرا محاصرہ جنگ ویانا کہلاتا ہے۔ یہ محاصرے یورپ کی مسیحی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ جس طرح بلاط الشہداء میں شکست سے مغربی یورپ میں مسلم پیش قدمی رک گئے بالکل اسی طرح محاصرہ ویانا میں ناکامیاں وسطی یورپ میں مسلم پیش رفت کو روکنے کا باعث بنیں۔ دونوں جنگیں مسیحی یورپ کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں اس امر کا فیصلہ ہوا کہ یورپ کا مستقبل مسیحیت ہوگا اسلام نہیں۔ ترکوں کی جانب سے کیے گئے ویانا کا پہلا محاصرہ سلطان سلیمان اعظم کے دور میں جبکہ دوسرا محاصرہ سلطان محمد چہارم کے دور میں ہوا۔ پہلے محاصرے کی ناکامی کی وجہ اہلیان ویانا کی بے مثال شجاعت اور بہادری اور موسم کی خرابی تھی جبکہ دوسرے محاصرے کی ناکامی کی وجہ ترک صدر اعظم قرہ مصطفٰی پاشا کی نا اہلی تھی جس کے باعث ترکوں کو جنگ میں بد ترین شکست ہوئی۔

ویانا کا پہلا محاصرہ 

عثمانیوں نے ویانا کا پہلا محاصرہ 1529ء میں سلطان سلیمان قانونی کے عہد میں کیا جب چارلس پنجم جرمنی، اسپین اور آسٹریا کا حکمران تھا اور اس کا بھائی آرک فرڈیننڈ حکومت آسٹریا کے لیے مقرر تھا۔ آسٹریا کا شہنشاہ چارلس پنجم اس وقت یورپ کا سب سے بڑا فرماں روا تھا وہ اسپین، نیدرلینڈ، سسلی اور جرمنی کی مملکتوں کا تنہا ۔الک تھا محاصرہ ویانا کے وقت وہ اٹلی میں فرانسس اول ، شاہ فرانس سے جنگ میں مصروف تھا اس لیے ترکوں کے خلاف اپنی فوج نہ بھیج سکا اور آسٹریا کو اپنی فوج پر اکتفا کرنا پڑا محاصرہ 27 ستمبر سے 14 اکتوبر تک جاری رہا، مگر ترک اسے فتح نہ کر سکے کریسی نے لکھا محاصرہ کی ناکامی کی وجہ موسم کی شدت جس کے ترک عادی نہ تھے اور دوسرا ینی چری کی شرکسی تھی جو موسم میں حوصلہ چھوڑ بیٹھے، یہ یورپ کے دروازے پر پہلی دستک تھی جو کہ ناکام ثابت ہوئی، چنانچہ سلیمان نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلے گئے، ( بہ حوالہ سلطنت عثمانیہ جلد اول صفحہ 173 تحریر عرفان علی عزیز) شہر کے محاصرے کے لیے ترک فوج ستمبر 1529ء میں ویانا کی دیواروں تلے پہنچی۔

اسباب 
ہنگری میں بڈاپسٹ کی فتح کے بعد سلیمان نے جان زاپولیا کو وہاں حکمران مقرر کیا لیکن اس سے ہنگری میں خانہ جنگی ہوئی جس میں شہنشاہ چارلس کے بھائی آرک بوک فرڈیننڈ نے تخت کا دعوی کیا اور زاپولیا سے جنگ کر کے اس سے یہاں کی حاکمیت چھین لی اور زاپولیا کو ملک سے باہر کر دیا۔ زاپولیا نے سلیمان سے مدد مانگی اور سلطان نے مدد فراہم کر کے زاپولیا کو دوبارہ تخت پر بٹھایا۔ یہ واقعہ سلطان اور فرڈیننڈ کے درمیان تعلقات کی خرابی کا باعث بنا۔ اور تعلقات کی یہی خرابی آسٹریا کی جانب توجہ کا باعث بنی۔
فتح ہنگری سے عثمانی سرحد آسٹریا سے مل گئی تھی اس لیے سلیمان کا اس جانب توجہ کرنا ضروری تھا۔
سلیمان جب آسٹریا کی جانب متوجہ ہوا تو اس نے پیش قدمی کے طور پر اپنے فوجی دستوں کو "لٹیروں" کے طور پر بے لگام چھوڑ دیا۔ ان دستوں سے ہر علاقے میں زبردست تباہی پھیلائی اور کئی شہروں کو فتح کیا۔ اس پیش قدمی اور ابتدائی فتوحات سے نہ صرف عثمانی افواج کا حوصلہ بڑھا بلکہ ان کی ہیبت میں بھی اضافہ ہوا۔ اور یہی ابتدائی فتوحات ویانا کے محاصرے کا سبب بنیں۔
اہل ویانا کی دفاعی تیاریاں 

ترکوں کی پیش قدمی کی خبر سنتے ہی آسٹریا اپنی دفاعی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ ابتدا میں اہل ویانا نے اپنی تمام ممکن کوششیں کر کے زیادہ سے زیادہ فوج اکٹھی کی اور ہر دسویں شخص کو فوجی خدمت کے لیے طلب کیا گیا اور ہمسایہ ریاستوں سے بھی فوجی امداد طلب کی گئی۔ شہر کے دفاعی استحکامات پرانے اور انتہائی بوسیدہ تھے شہر کی فصیل بمشکل چھ فٹ موٹی تھی اور باہر کی دفاعی باڑھ کمزور تھی۔ اسے مضبوط بنانے کے لیے فصیل کے قریب واقع تمام مکانات گرا دیے گئے اور کمزور اور ناقابل مرمت مقامات پر خندق کھود کر اس کے گرد ایک مضبوط باڑھ قائم کر دی گئی۔ شہر کے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ دفاع کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے شہر کے تمام نواحی علاقے تباہ کر دیے گئے تاکہ محاصرہ کرنے والی ترک فوج گرد و نواح سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ غرض اہل ویانا نے دفاع کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ وہ شہر کو ترکوں سے بچا سکیں۔

محاصرہ 

آسٹریا کی بھرپور کوششوں کے باوجود سلیمان قانونی نے 27 ستمبر 1529ء ویانا کا محاصرہ کر لیا اور عظیم شکر کے ہزار ہا خیمے شہر کے باہر نصب کر دیے گئے۔ محاصرے کے لیے 2 لاکھ عثمانی فوجی شہر کے باہر موجود تھے جبکہ دریائے ڈینیوب کی جانب 400 ترک جہاز بھی شہر کے گرد حصار ڈالے ہوئے تھے۔ ویانا پہنچنے سے قبل راستے میں بارش اور راستوں کی خرابی کے باعث ترک اپنی تمام بھاری توپیں چھوڑ آئے تھے اس لیے اب وہ شہر پر گولہ باری نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم انہوں نے شہر پر قبضے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن اہل شہر نے شجاعت و بہادری سے تمام حملوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور ترک شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ تین دن بعد حتمی حملے کا فیصلہ ہوا اور کامیابی کی صورت میں انعامات و اکرامات کی بارش کا اعلان کیا گیا اور ینی چری اور دیگر ترک دستے شہر پر آخری وار کے لیے آگے بڑھے لیکن پوری قوت سے کیا گیا یہ حملہ بھی ناکام رہا اور سلیمان کو بالآخر 14 اکتوبر 1529ء کو شہر کا محاصرہ اٹھانا پڑا اور ترک فوج نامراد واپس لوٹ آئی۔ یہ وسطی یورپ کی تاریخ کا یادگار ترین دن تھا جب عثمانی طوفان کی موجیں ویانا کی دیواروں سے ٹکرا کر ہمیشہ کے لیے واپس آ گئیں اور پھر عثمانیوں کے قدم کبھی اس شہر کی فصیل سے آگے نہ بڑھ سکے۔

ناکامی کے اسباب 

ویانا کا پہلا محاصرہ 27 ستمبر سے 14 اکتوبر 1569ء تک جاری رہا۔ اس محاصرے کے لیے سلیمان اعظم نے انتہائی ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا لیکن آخر کار چند وجوہات کی بنا پر اسے یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ مغربی مورخین کے مطابق ترکوں کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں حتٰی کہ ینی چری نے بھی دل برداشتہ ہو کر حملہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ناکامی کی ایک اہم ترین وجہ یہ تھی کہ ترک افواج ایک طویل عرصے سے بر سر پیکار تھیں اور ویانا تک پہنچنے کے لیے انہیں طویل سفر طے کرنا پڑا تھا اور محصورین کی بھرپور شجاعت نے ان کے رہے سہے حوصلے بھی پست کر دیے اور بالآخر سلیمان کو محاصرے کو مزید طول نہ دینے کا فیصلہ کر کے اٹھانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ محاصرہ اٹھانے کی ایک وجہ سرد موسم کا قریب آ جانا تھا کیونکہ سردی و برف باری میں محاصرے کا جاری رکھ پانا بالکل ممکن نہ تھا اور سلیمان موسم کی خرابی سے قبل دارالحکومت واپسی چاہتا تھا۔ اہل ویانا نے شہر کی دفاع کی بھرپور تیاریاں کی تھیں اور وہ کسی قیمت پر شہر کو عثمانیوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس جذبے نے شہر کے دفاع کو عثمانیوں کی توقعات سے کہیں زیادہ مضبوط بنا دیا تھا۔ ینی چری کی سرکشی بھی محاصرہ اٹھانے کی اہم وجہ تھی۔ اصل میں سلیمان کے ابتدائی عہد میں ینی چری مصر میں بغاوت کر بیٹھے تھے اور سلیمان ان کی سرکشی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اس لیے اس نے حالات مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے محاصرہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ناکامی میں ایک فیصلہ کن کردار اہلیان شہر کی قسمت کا بھی تھا کیونکہ راستے میں بارش کے باعث ترک اپنی بڑی توپیں نہ لا سکتے تھے جو یقیناً جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتیں اور اہل ویانا کے دفاع کے پرخچے اڑا دیتیں دوسری جانب موسم کی شدت اور خرابی بھی حملہ آور فوج کے حوصلے پست کرنے کا باعث بنی۔

ویانا کا دوسرا محاصرہ 

عہد سلیمانی میں محاصرہ ویانا کی ناکامی کے بعد 1628ء میں محمد چہارم کے دور میں ویانا کا دوسرا محاصرہ کیا گیا جس کی قیادت صدر اعظم قرہ مصطفٰی پاشا نے کی۔ اس محاصرے کے دوران ترکوں کو بد ترین شکست ہوئی اور اس شکست کے ساتھ ہی وسطی یورپ میں ان کی پیش قدمی ہمیشہ کے لیے رک گئی بلکہ یہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا۔

عثمانی ترکوں کی جنگ چالدران 

عثمانی ترکوں اور صفوی ایرانیوں کے درمیان 23 اگست 1514ء کو ہونے والی ایک جنگ جس میں عثمانیوں نے فیصلہ کن فتح حاصل کی جس کے نتیجے میں اناطولیہ کا مشرقی حصہ بھی عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ جنگ میں عثمانی افواج کی تعداد 2 لاکھ تھی جبکہ ایرانیوں کی تعداد 50 سے 80 ہزار تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اناطولیہ میں علویوں کی بغاوت بھی ختم ہو گئی۔ اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ایران میں شاہ اسماعیل صفوی کی حکومت تھی اور مصر و شام پر مملوک حکمران تھے۔ مصر اور ایران کی ان حکومتوں نے عثمانی ترکوں کے خلاف معاہدہ کر لیا تھا اور بعض باغی عثمانی شہزادوں کو پناہ بھی دے رکھی تھی۔ اس کے علاوہ ان میں اور عثمانی ترکوں میں کبھی کبھی سرحدی لڑائیاں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ ان اسباب کی بنا پر عثمانی سلطان سلیم اول نے ان دونوں حکومتوں کو ختم کرنے کا ارادہ کر لیا۔ شاید وہ یہ سمجھتا تھا کہ جب تک عثمانی سلطنت کے پڑوس میں ایران اور مصر کی طاقتور حکومتیں مخالف رہیں گی مسلمان یورپ کی طرف پیشقدمی نہیں کرسکیں گے۔ اس سلسلے میں سلیم نے پہلے اسماعیل صفوی کو چالدران کے میدان جنگ میں شکست دے کر اس کے دار الحکومت تبریز پر قبضہ کر لیا۔ سلیم چاہتا تھا کہ پورا ایران فتح کرکے صفوی حکومت کو ختم کر دے لیکن اس کی فوجوں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور سلیم کو واپس ہونا پڑا۔

جنگ نکوپولس 

جنگ نکوپولس 25 ستمبر 1396ء کو سلطنت عثمانیہ اور ہنگری، فرانس اور مقدس رومی سلطنت کے متحد لشکر کے درمیان لڑی جانے والی جنگ تھی۔ یہ جنگ دریائے ڈینیوب کے کنارے نکوپولس (موجودہ نکوپول، بلغاریہ) کے قلعے کے قریب لڑی گئی۔ اس جنگ کو صلیبی جنگ بھی کہا جاتا ہے اور یہ قرون وسطیٰ کی آخری بڑی صلیبی جنگ تھی۔ اس جنگ کا سبب عثمانیوں کے ہاتھوں مسلسل شکست کھانے کے بعد مسیحی دنیا کا رد عمل تھا۔ 1394ء میں پوپ بینیفیس نہم نے ترکوں کے خلاف نئی صلیبی جنگ کا اعلان کیا۔ اس جنگ میں عثمانیوں کی قیادت سلطان بایزید اول کے ہاتھوں میں تھی جو 24 ستمبر کو مقابلے کے لیے نکوپولس پہنچے۔ صلیبیوں کے عظیم لشکر کے باعث مسلمانوں کی فتح کے امکانات کم تھے لیکن وہ انتہائی پامردی سے لڑے۔ سلطان بایزید جنہیں شراب کی بری لت پڑی ہوئی تھی، نے شراب نوشی سے توبہ کرتے ہوئے اللہ سے فتح کی دعا کی اور بالآخر فتح عثمانیوں کا مقدر بنی۔

جنگ کریمیا 

جنگ کریمیا مارچ 1854ء سے فروری 1856ء تک جزیرہ نما کریمیا میں لڑی جانے والی ایک جنگ تھی جس میں ایک جانب سلطنت روس اور دوسری جانب فرانس، برطانیہ، سلطنت سارڈینیا اور سلطنت عثمانیہ کی متحدہ فوج تھی۔ بیشتر جنگ جزیرہ نما کریمیا میں لڑی گئی تاہم کچھ معرکے ترکی اور بحیرۂ بالٹک کے خطوں میں بھی ہوئے۔ کبھی کبھار جنگ کریمیا کو پہلا "جدید" معرکہ قرار دیا جاتا ہے جس کے دوران جنگی انداز میں ایسی تکنیکی تبدیلیاں واقع ہوئیں جنہوں نے مستقبل کی جنگوں پر اثرات ڈالے۔ جنگ کا خاتمہ معاہدۂ پیرس اور اتحادیوں کی فتح کے ساتھ ہوا۔ یہ جنگ علاقے میں روسی اثر و رسوخ کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔

عثمانی ترکوں کی جنگ لیپانٹو 

جنگ لیپانٹو یورپ کے مسیحیوں کے مقدس اتحاد اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان 7 اکتوبر 1571ء کو لڑی جانے والی ایک بحری جنگ تھی جس میں اتحادی افواج کو کامیابی نصیب ہوئی۔ مسیحی اتحاد میں اسپین، جمہوریہ وینس، پاپائی ریاستوں، جمہوریہ جینووا، ڈچی آف سیوائے اور مالٹا کے سورماؤں کے بحری بیڑے شامل تھے۔ 5 گھنٹے جاری رہنے والا یہ معرکہ یونان کے مغربی حصے میں خلیج پطرس کے شمالی کناروں پر پیش آیا جہاں لیپانٹو میں اپنے مرکز کی جانب جاتی ہوئی عثمانی افواج کا ٹکراؤ مقدس اتحاد کے بحری بیڑے سے ہوا جو مسینا سے آ رہا تھا۔ جنگ میں فتح کے نتیجے میں عارضی طور پر بحیرہ روم پر مسیحیوں کو کنٹرول حاصل ہوا۔ یہ بھی دنیا کی فیصلہ کن ترین جنگوں میں سے ایک ہے۔ یہ 15 ویں صدی کے بعد کسی بھی بڑی بحری جنگ میں عثمانیوں کی پہلی اور بہت بڑی شکست تھی جس میں عثمانی اپنے تقریباً پورے بحری بیڑے سے محروم ہو گئے۔ اس جنگ میں ترکوں کے 80 جہاز تباہ ہوئے اور 130 اتحادیوں کے قبضے میں چلے گئے جبکہ 15 ہزار ترک ہلاک، زخمی یا گرفتار ہوئے اس کے مقابلے میں 8 ہزار اتحادی ہلاک یا زخمی ہوئے جبکہ ان کے 17 جہاز تباہ ہوئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں بحیرۂ روم میں ترکوں کی برتری کا خاتمہ ہو گیا تاہم ترکوں سے بہت جلد اپنا بحری بیڑا دوبارہ تشکیل دیا اور مسیحیوں کو ملنے والی عارضی برتری کا خاتمہ کر دیا۔

عثمانی ترکوں کا صوبائی نظام 

سلطنت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور انتظامی امور کے لیے سلطنت کو بڑے بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جو "ایالت" کہلاتے تھے۔ ایالتیں سنجق میں، سنجق قضا میں اور قضا کو کوئے میں تقسیم کیا گیا تھا۔ صوبے پہلے ایالت کہلاتے تھے جنہیں بعد ازاں ولایت کر دیا گیا جبکہ سنجق کی حیثیت ضلعوں کی سی تھی۔ ولایتوں کے حاکم بیلربے یا پاشا اور ضلعوں کے حاکم سنجق بے کہلاتے۔ سنجق کے حاکم کی دو اقسام ہوتی تھیں ایک شہزادہ اور اور غیر شہزادہ۔ سلیمان اعظم کے عہد میں سلطنت 21 ولایتوں اور 250 سنجقوں میں تقسیم تھی۔ ہر صوبے کی ایک مجلس شوریٰ ہوتی تھی جس کا صدر وہاں کا والی ہوتا تھا۔ قضا کسی بڑے شہر یا اس سے ملحق چند قصبات پر مشتمل ہوتی تھی اور اس کا حاکم اعلٰی سوباشی یعنی فوج کا افسر ہوتا تھا۔ کوئے میں گاؤں اور قصبے سب شامل کیے گئے تھے۔ غیر فوجی معاملات خصوصاً شرعی و قانونی امور کی دیکھ بھال قاضی کے ہی سپرد تھی۔

اقتصادی نظام 

سلطنت کا اقتصادی نظام اس کے جغرافیے پر قائم تھا کیونکہ مشرق اور مغرب کے درمیان تمام تجارتی شاہراہیں تین براعظموں پر پھیلی اس سلطنت سے گذرتی تھیں۔ ان تجارتی شاہراہوں کے ذریعے ہی اسے محصول کے ذریعے اتنی ادائیگی ہوتی کہ وہ اپنے وقت دنیا کی بڑی اقتصادی قوتوں میں سے ایک بن گئی۔ سلطنت عثمانیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی یورپی قوتوں نے متبادل راہ ڈھونڈنے کے لیے بحری مہمات شروع کیں اور جب 1492ء میں کرسٹوفر کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو اس وقت سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر تھی۔ وسطی یورپ اور عثمانیوں کے درمیان تعلقات میں تبدیلی کی بنیاد بھی نئے بحری راستوں کی دریافت تھا اور ممکنہ طور پر سلطنت عثمانیہ کی زوال کی وجہ بھی کیونکہ یورپی قوتوں نے مشرق وسطٰی اور بحیرۂ روم کے بجائے دیگر راستے اختیار کرنا شروع کر دیے جو سلطنت کی مالی حالت کی خرابی کا باعث بنا۔ سلطنت مندرجہ ذیل اقسام کے ممالک میں تقسیم تھی:

اراضی کا وہ بڑا حصہ جس کا انتظام براہ راست حکومت عثمانیہ کی طرف سے ہوتا تھا
وہ علاقے جن کا انتظام خاص ضوابط کے ماتحت ہوتا۔
متعدد باجگذار صوبے
بعض وابستہ ریاستیں

جو علاقے براہ راست زیر حکومت تھے وہ سنجقوں میں تقسیم تھے اور ان میں سے ہر ضلع کے محاصل کا ایک علاحدہ قانون تھا جس کی بنیاد ان معاہدوں پر تھی جو فتح کے وقت کیے گئے تھے۔ محصولات کے لیے سلطنت عثمانیہ میں زمین کو اس طرح تقسیم کیا گیا تھا:

جو بزور شمشیر فتح کی گئی تھیں ان کے لیے دسواں حصہ محصول مقرر تھا۔
دوسری وہ زمینیں جو مفتوحین اور رعایا کے قبضے میں تھیں، ان کے لیے بھی دسواں حصہ مقرر تھا
تیسری وہ زمین جن کو بادشاہ نے جنگی خدمات کے صلے میں عطا کیا تھا۔ وہ بھی دو حصوں میں تقسیم تھیں۔ ایک جس پر شرعی اصولوں کے مطابق عملدرآمد ہوتا تھا اور دوسرا جس کا نفاذ مقنن کی رائے کے مطابق ہوتا تھا۔

تمام محاصل کا عام نام خراج تھا اس میں جزیہ، مال گزاری اور محصول پیداوار وغیرہ شامل تھے۔ رعایا کی فلاح و بہبود اور خوشحالی سلاطین کا نصب العین تھا اور غیر مسلم رعایا سے جزیہ کے علاوہ کوئی ناجائز محصول نہ لیا جاتا تھا۔

فوجی نظام 

عثمانی فوج اپنی زمانے کی دنیا کی جدید ترین فوج تھی اور وہ پہلی فوج تھی جس نے بارودی اسلحے کا استعمال شروع کیا۔ اس کے علاوہ وہ تلواریں، نیزے، تیر اور دیگر روایتی اسلحے بھی استعمال کرتے۔ 1389ء میں جنگ کوسوو اور 1396ء میں جنگ نکوپولس میں فتوحات کے بعد عثمانی افواج تیزی سے وسطی یورپ کو اپنے پیروں تلے روندتے چلی گئیں اور 1526ء میں جنگ موہاکس میں فتح کے ذریعے ہنگری پر بھی قابض ہو گئیں اور دو مرتبہ 1529ء اور 1683ء میں ویانا کا محاصرہ بھی کیا۔ علاوہ ازیں یہ پہلی فوج تھیں جو غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرتیں اور ان کے افسران کو تربیت کے لیے مغربی یورپ کے ممالک میں بھیجا جاتا۔

ینی چری 

سلطنت کی طاقت کا دار و مدار اس کے فوجی نظام پر تھا۔ عثمانیوں کے دوسرے سلطان اورخان اول کے دور میں پہلی بار فوج کو منظم شکل دی گئی جو ینی چری کہلائی۔ ینی چری مستقل پیدل فوج تھی جس کی حیرت انگیز شجاعت، نظم و ضبط اور وفاداری نے تین صدیوں تک یورپی قوتوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھی اور سلطنت عثمانیہ کی ابتدائی تمام فتوحات بلاشبہ اسی کے زور بازو کا نتیجہ تھیں۔ ینی چری کے تین مختلف دستے تھے جن میں یایا، سکبان اور آغا بولک لری شامل تھے۔ ینی چری کا سب سے بڑا عہدیدار ینی چری آغاسی کہلاتا۔ ایک عہدہ ینی چری آفندی سی ہوتا تھا جو دراصل کاتب تھا اور تنخواہ دینا اس کے ذمہ تھا۔ زمانۂ امن میں دیوان کے اجلاس میں پہرہ دینا، آگ بجھانے، اعلٰی عہدیداروں کی حفاظت، امن و امان قائم کرنے میں مدد و دیگر ذمہ داریاں ینی چری کے سپرد ہوتی تھیں۔ ینی چری کے لیے اپنے افسروں کی اطاعت پہلی شرط اور اتحاد و مساوات، ظاہری نمود و نمائش سے پرہیز اور دین داری بھی ضروری تھیں۔ جنگ کے دوران ینی چری قلب میں سلطان کے گرد ہوتے۔ ابتدا میں صرف نو مسلم مسیحی ہی اس میں بھرتی کیے جاتے بعد ازاں مسلمان بھی بھرتی کیے جانے لگے۔ جب تک سلاطین مضبوط تھے ینی چری قابو میں رہے لیکن عنان حکومت کمزور ہاتھوں میں آتے ہی ینی چری سرکش ہو گئے اور بدعنوانی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور یہ فوج سلطنت کے لیے مستقل خطرہ بن گئی اور 1826ء میں محمود ثانی نے بالآخر اس کو ختم کر ڈالا۔ ینی چری کے خاتمے کو واقعۂ خیریہ کہا جاتا ہے۔

سپاہی 

مستقل پیدل فوج کے علاوہ ایک مستقل سوار فوج بھی تھی جو سپاہی کہلاتی۔ ان کی تربیت بھی اعلٰی انداز میں کی جاتی اور ذہنی قابلیت کے لحاظ سے بہتر سپاہیوں کو حکومت کے انتظامی شعبے کے لیے منتخب کر لیا جاتا تھا۔ سلیمان اعظم کے بعد ینی چری کی طرح ان میں بھی بد عنوانیاں ہونے لگیں۔

مہتران 

عثمانی آرمی کا بینڈ جو فوجی مہمات کے دوران دھنیں بجا کر جوانوں میں جوش و جذبہ پیدا کرتا۔ مہتران عام طور پر ینی چری کا حصہ ہوتے۔

نظام جدید 

19 ویں صدی کے اوائل میں افواج کی جدید خطوط پر تربیت کی کوششیں شروع کر دی گئیں اور 1826ء میں سلطان محمود ثانی نے ینی چری کا خاتمہ کر کے ایک جدید عثمانی فوج کی بنیاد رکھی جسے نظام جدید کا نام دیا گیا۔ نظام جدید افواج مصروف اور ردیف میں تقسیم کی گئی تھیں اور اس کی خصوصیات یہ تھیں:

افواج کی مدت ملازمت بیس سال تھی۔
سالانہ بھرتی کی تعداد 50 ہزار تھی۔
پہلے غیر مسلموں کو فوجی خدمت سے مستثنٰی سمجھا جاتا تھا لیکن بعد ازاں انہیں بھی فوج میں شامل کیا گیا۔
فوج کا امیر سپہ سالار اعظم ہوتا۔
عثمانی بحریہ 

1308ء میں بحیرہ مرمرہ میں جزیرہ امرالی کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی اور 1321ء میں اس کے جہاز پہلی بار جنوب مشرقی یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور بعد ازاں براعظم یورپ میں فتوحات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عثمانی بحریہ دنیا کی پہلی بحریہ تھی جس نے بحری جہازوں پر توپیں نصب کیں اور 1499ء میں لڑی گئی جنگ زونکیو تاریخ کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے دوران بحری جہازوں پر لگی توپیں استعمال کی گئیں۔ عثمانی بحریہ نے ہی شمالی افریقہ میں فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کیا۔ 1538ء میں جنگ پریویزا اور 1560ء میں جنگ جربا بحیرۂ روم میں عثمانی بحریہ کے عروج کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں عثمانی بحری جہازوں نے 1538ء سے 1566ء کے درمیان بحر ہند میں گوا کے قریب پرتگیزی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ 1553ء میں عثمانی امیر البحر صالح رئیس نے مراکش اور آبنائے جبل الطارق سے آگے کے شمالی افریقی علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں بحر اوقیانوس تک پہنچا دیں۔ 1566ء میں آچے (موجودہ انڈونیشیا کا ایک صوبہ) کے سلطان نے پرتگیزیوں کے خلاف عثمانیوں کی مدد طلب کی اور خضر رئیس کی قیادت میں ایک بحری بیڑا سماٹرا بھیجا گیا تھا۔ یہ بیڑا 1569ء میں آچے میں لنگر انداز ہوا اور اس طرح یہ سلطنت کا مشرقی ترین علاقہ قرار پایا جو عثمانیوں کی زیر سیادت تھا۔ 1585ء میں عثمانی امیر البحر مراد رئیس نے جزائر کناری میں لانزاروت کو فتح کیا۔ 1617ء میں عثمانی افواج نے مدیرہ پر بھی قبضہ کیا اور بعد ازاں اگست 1625ء میں مغربی انگلستان کے علاقوں سسیکس، پلائی ماؤتھ، ڈیوون، ہارٹ لینڈ پوائنٹ اور کورن وال پر چھاپے مارے۔ 1627ء میں عثمانی بحریہ کے جہازوں نے جزائر شیٹ لینڈ، جزائرفارو، ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ تک اور 1627ء سے 1631ء کے دوران آئرستان اور سویڈن تک بھی چھاپے مارنے میں کامیاب ہوئے۔ 1827ء میں جنگ ناوارینو میں برطانیہ، فرانس اور روس کے مشترکہ بحری بیڑے کے ہاتھوں شکست اور الجزائر اور یونان کے کھو جانے کے بعد عثمانی بحریہ کا زوال شروع ہو گیا اور اس طرح سلطنت سمندر پار مقبوضات پر گرفت کمزور پڑتی چلی گئی۔ سلطان عبد العزیز اول (دور حکومت: 1861ء تا 1876ء) نے مضبوط بحریہ کی تشکیل کے لیے از سر نو کوششیں کیں اور کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس کے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بحری بیڑا تشکیل دیا جو 194 بحری جہازوں پر مشتمل تھا لیکن زوال پزیر معیشت ان بحری جہازوں کے بیڑے کو زیادہ عرصے برقرار نہ رکھ سکی۔ اصلاح پسند مدحت پاشا اور 1876ء میں پہلی عثمانی پارلیمان کی حمایت کے بعد سلطان عبد الحمید ثانی (دور حکومت: 1876ء تا 1908ء) کا اعتبار بحریہ پر سے اٹھ گیا۔ اور روس کے خلاف جنگوں میں کوئی استعمال نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اکثر بحری جہاز شاخ زریں میں بند کر دیے گئے جہاں وہ اگلے 30 سالوں تک سڑتے رہے۔ 1908ء میں نوجوانان ترک انقلاب کے بعد اتحاد و ترقی جمعیتی نے ملک کا نظم و ضبط سنبھالنے کے بعد بحریہ کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی اور عوامی چندے سے عثمانی بحریہ فاؤنڈیشن تشکیل دی گئی اور عوامی رقم سے ہی بڑے بحری جہازوں کی خریداری شروع کی گئی۔

امیر البحر 

عثمانی امیر البحر کپتان پاشا (یا قپودان پاشا) کہلاتا تھا۔ سلطنت کے معروف امیر البحروں میں خیر الدین باربروسا، پیری رئیس، حسن پاشا، پیالے پاشا، طرغت پاشا اور سیدی علی عثمانی تاریخ کے ساتھ یورپ کی بحری تاریخ میں بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ بحری فتوحات کے علاوہ ان کے علمی کارنامے بھی نمایاں ہیں۔ عثمانی ترکوں کی بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ امیر البحر کی اہمیت بھی دو چند ہو گئی اور باربروسا کے زمانے میں کپتان پاشا دیوان کا باقاعدہ رکن بن گیا۔ عہدے کے اعتبار سے وہ امیر العساکر کے مساوی اور شیخ الاسلام کے ماتحت سمجھا جاتا تھا۔

عثمانی فضائیہ 

عثمانیہ فضائیہ کی بنیاد جون 1909ء میں رکھی گئی اس طرح یہ دنیا کی قدیم ترین جنگی ہوا بازی کے اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب سلطنت عثمانیہ نے اپنے دو ترک ہوا بازوں کو پیرس میں منعقدہ بین الاقوامی ہوا بازی کانفرنس شرکت کے لیے بھیجا۔ فضائی جنگ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر عثمانی حکومت نے اپنے عسکری ہوا بازی کے منصوبے کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے 1910ء کے آخر میں متعدد افسران کو تربیت کے لیے یورپ بھیجا گیا جنہوں نے وہاں جنگی ہوا بازی کی تربیت حاصل کی۔ رہائش کی ناقص سہولیات کے باعث تعلیم کا یہ منصوبہ ختم ہو گیا اور زیر تربیت اہلکار 1911ء کے اوائل میں ترکی واپس آ گئے۔ فضائیہ کے قیام کے لیے حکومتی رہنمائی کے خاتمے کے باوجود اس وقت کے عثمانی وزیر دفاع محمد شوکت پاشا نے عسکری فضائی منصوبے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں جاری رکھیں اور دو افسران کو فرانس تربیت کے لیے بھیجا۔ ان ہوا بازوں کی تربیت فروری 1921ء میں مکمل ہوئی اور اسی سال مزید ترک افسران کو فرانس بھیجا گیا۔ سلطنت عثمانیہ نے 3 جولائی 1912ء کو استنبول میں فضائی اکادمی کے قیام کے ذریعے اپنے ہوا بازوں اور طیاروں کی تیاری اور اپنے افسران کی تربیت کا آغاز کیا۔ ترک ہوا بازوں کی نا تجربہ کاری کے باعث بلقان جنگوں کے پہلے مرحلے (1912ء) میں متعدد جہازوں کا نقصان اٹھانا پڑا تاہم دوسرے مرحلے (1913ء) میں انہیں کئی کامیابیاں ملیں۔ بلقان جنگوں کے خاتمے کے بعد فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عمل کا آغاز کیا گیا اور نئے طیارے خریدے گئے۔ جون 1914ء میں استنبول میں ہی نئی عسکری اکادمی "بحری ہوا بازی اکادمی" کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی یہ عمل رک گیا البتہ 1915ء میں چند جرمن افسران سلطنت میں آئے اور چند ترک افسران تربیت کے لیے جرمنی گئے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانی فضائیہ کئی محاذوں پر لڑی جن میں مغرب میں گلیسیا، مشرق میں قفقاز اور جنوب میں یمن کے علاقے تک شامل تھے۔ عثمانی فضائیہ کو از سر نو منظم کرنے کی کوششیں جاری تھیں کہ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور استنبول پر اتحادیوں کے قبضے کے ساتھ ہی ان کا خاتمہ ہو گیا۔

عدالتی نظام 
شیخ الاسلام 

قسطنطنیہ کے مفتی کا درجہ تمام قاضیوں سے بڑھ کر تھا اور اسے مفتی اعظم کہا جاتا تھا۔ محمد فاتح نے اسے شیخ الاسلام کا لقب بھی عطا کیا۔ تمام قوانین کا تعلق شیخ الاسلام سے تھا اور اس کی حیثیت عباسی دور کے قاضی القضاۃ کی سی تھی۔ اس کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔ شیخ الاسلام کا عہدہ وزارت عظمٰی کے بعد سب سے بڑا تھا۔ شیخ الاسلام کا تقرر عام طور پر تمام عمر کے لیے ہوتا تھا۔ صوبائی افسران صدر اعظم اور صدر اعظم سلطان کے سامنے جوابدہ تھا لیکن شیخ الاسلام صرف خدا کو جوابدہ تھا اور وہ ہر کام شریعت کے مطابق کرتا تھا۔ شیخ الاسلام کے اختیارات انتہائی وسیع تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان کی معزولی کے متعلق اس کا فتویٰ بہت ضروری تھا اور اس کے بغیر سلطان کی معزولی ممکن نہ تھی۔ سلطان کی نماز جنازہ بھی وہی پڑھاتا تھا۔ دور انحطاط میں اس منصب میں بھی کئی خامیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ عثمانیوں کے پورے دور میں 131 شیوخ الاسلام ہوئے۔ 19 نے استعفٰی دیا اور تین کو پھانسی دی گئی۔ اکثریت ترکی النسل تھی۔ 1442ء میں اس منصب کی ابتداء ہوئی اور مراد دوم کے عہد کے حضرت ملا شمس الدین فناریپہلے شیخ الاسلام تھے۔ آخری شیخ الاسلام مدنی محمد نوری آفندی تھے جنہوں نے سلطنت کے خاتمے پر 1922ء میں استعفٰی دے دیا۔ اس طرح یہ عہدہ 498 سال برقرار رہا۔

قاضی 

تمام قاضی شہر کے منصف ہوا تھے اور ان کا حلقۂ اختیار قریبی علاقوں پر بھی تھا۔ قاضیوں کا حلقۂ اختیار ادارۂ حکومت سے زیادہ وسیع تھا۔ مثلاً کریمیا اور شمالی افریقہ کی ریاستیں اگرچہ انتظامی حیثیت سے مرکزی حکومت کے تابع نہ تھیں بلکہ وابستہ حکومتیں تھیں لیکن یہ بھی عثمانی نظام عدالت کے ماتحت تھیں۔ محمد فاتح نے قانون نامہ میں محکمہ قضا کو ایک ستون قرار دیا تھا اور مملکت کے قوانین کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر رکھی تھی۔

ثقافت 

کیونکہ سلطنت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ایک وسیع سلطنت تھی اس لیے اسے کسی واحد ثقافت کے طور پر بیان کرنا مشکل ہے البتہ مختلف مراکز میں اس کے مختلف روپ تھے۔ قسطنطنیہ کی شہری وضع نے دمشق، بغداد، مکہ، مدینہ، قاہرہ اور تیونس و الجزائر پر اثر انداز ہوئی۔ فنکاروں کا اجتماع قسطنطنیہ میں تھا لیکن دستکاری اور صنعت کی غیر معمولی ترقی اناطولیہ میں ہوئی جس میں بروصہ اور ازنک کو اہم مقام حاصل تھا۔ کئی اہم شہروں میں کارخانے پوری سلطنت کو کپڑا اور ظروف فراہم کرنے کے علاوہ غیر ممالک کو بھی اشیاء برآمد کرتے تھے۔ پارچہ بافی کے علاوہ قالین سازی بھی سلطنت کی اہم ترین صنعت تھی۔

عثمانی فن تعمیر 

سلطنت عثمانیہ کا ابتدائی فن تعمیر سلجوقی طرز تعمیر سے متاثر تھا لیکن قسطنطنیہ کی فتح کے بعد یہ رومی طرز تعمیر کے زیر اثر آ گیا لیکن بعد ازاں اس میں مزید بہتری لائی گئی اور بالآخر جدید عثمانی طرز تعمیر دنیا بھر میں معروف ہوا۔ عثمانی سلاطین نے فن تعمیر پر خاص توجہ دی۔ ینی شہر، بروصہ، ادرنہ اور قسطنطنیہ میں مساجد، مدارس اور محلات کی تعمیر اور فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطنت بھر میں عثمانی تعمیرات اس عظیم سلطنت کی شوکت و عظمت کی آئینہ دار ہیں اور آج بھی اس شاندار ماضی کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ چودہویں صدی کی عثمانی دور کی مساجد میں سلجوقی طرز ہر جگہ نمایاں ہے جس کی اہم ترین مثالیں بروصہ کی شاندار مساجد ہیں جن میں بایزید جامع اور اولو جامع نمایاں ہیں۔ پندرہویں صدی میں استنبول کی مساجد میں بروصہ کی طرز کی تقلید کی گئی لیکن بڑی مساجد میں ایاصوفیہ جامع کے طرز تعمیر کی تقلید کی گئی جو بازنطینی گرجا تھی جسے فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ترک معماروں نے جدید عثمانی طرز تعمیر کی کئی شاندار اور بلند عمارات بنائیں جن میں فاتح جامع، سلیمیہ جامع، سلیمانیہ جامع اور اورتاکوئے جامع نمایاں ہیں۔ عثمانی طرز تعمیر ان عمارتوں کے ذریعے آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے حتٰی کہ دنیا بھر میں جہاں بھی ترک تارکین وطن نے مساجد تعمیر کیں وہ اسی طرز تعمیر کا شاہکار ہیں۔ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد کے مینار بھی ترک طرز تعمیر کے حامل ہیں۔ عثمانی طرز تعمیر کا تذکرہ سنان پاشا کے بغیر ادھورا ہے جس نے اپنے طرز اور ہنر سے اس عہد کے طرز تعمیر کو چار چاند لگا دیے۔ سولہویں صدی کی عثمانی تعمیرات میں سنانی طرز ہر جگہ نمایاں ہے اور آج بھی شاندار شکل میں موجود ہے۔ شہزادہ مسجد اور سلیمیہ مسجد اس عظیم معمار کے فن پارے ہیں۔ سنان نے قسطنطنیہ، ادرنہ اور دیگر شہروں میں کئی عظیم مساجد تعمیر کیں۔ عثمانیوں کے تیار کردہ توپ قاپی اور دولما باغچہ محلات اپنے وقت کے تعمیرات کے عظیم ترین شاہکار تھے جن میں اول الذکر عثمانی اور ثانی الذکر یورپی طرز تعمیر کے زیر اثر ہے۔

عثمانی ترک زبان 

عثمانی ترک زبان مملکت کی اہم ترین زبان تھی جو عربی اور فارسی کے زیر اثر تھی۔ عثمانیوں کے عدالتی و دفتری معاملات میں یہی زبان استعمال کی جاتی تھی۔ لیکن ایک وسیع سلطنت کے باعث اس میں مختلف مقامات پر مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں اور آخری ایام میں فرانسیسی اور انگریزی بھی غیر مسلموں کے اعلٰی طبقے میں بڑے پیمانے پر بولی جاتیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فارسی ادبی اور عربی مذہبی زبان کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔

مذہب 

عثمانی سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا لیکن غیر مسلموں خصوصاً اہل کتاب (مسیحیوں اور یہودیوں) سے ان کا اعلٰی رویہ مسلمانوں کی وسیع القلبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے بعد مقامی مسیحیوں کو شہر میں رہنے کی اجازت دی اور ان کے چند گرجوں کو بھی بحال رکھا۔ 1492ء میں سقوط غرناطہ کے بعد اسپین سے نکالے گئے مسلمانوں کو بخیریت مسلم سرزمین پر پہنچانے کی جو عظیم مہم چلائی گئی اس میں کئی یہودیوں کو بھی مسیحیوں کے مظالم سے بچا کر ترک سرزمین پر لایا گیا اور انہیں سلطنت عثمانیہ میں آزادی کے ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی۔ اسلامی شریعت مملکت کا بنیادی قانون تھا اور اس کا ماخذ قرآن و حدیث تھے اور ان دونوں سے رہنمائی نہ ملنے کی صورت اجماع یا قیاس سے کام لیا جاتا۔

علم و ادب 

سلاطین عثمانیہ علم و ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے علماء و فضلاء کی بے حد تعظیم و تکریم کی جاتی اور ان کے لیے باعزت روزگار فراہم کیا جاتا تھا۔ محمد اول کے دور میں علم و ادب کی بھرپور سرپرستی کی گئی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دراصل انہی کے دور میں سلطنت میں ادب خصوصاً شاعری کو ترویج دی گئی۔ سلطان محمد فاتح ترکی زبان کے ایک صاحب دیوان شاعر تھے۔ مطالعہ کا بے حد شوق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے دور حکومت میں دیگر علوم و فنون کی ترویج کا کام بھی کیا۔ بایزید کو تصوف، مذہب اور شاعری سے دلچسپی تھے جبکہ سلیم اول کو تاریخ و فارسی شاعری کے علاوہ مطالعے کا بھی شوق تھا۔ فارسی زبان میں سلیم اول کی کچھ نظمیں بھی موجود ہیں۔ مراد ثانی تصوف کی ایک کتاب کے باعث شہرت رکھتے تھے۔ عثمانی حکمرانوں میں 21 کے بیاض ملتے ہیں۔ دراصل عثمانی ادب اور فارسی ادب ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ میں تعلیم کے دو دور نمایاں نظر آتے ہیں:

دینی دور: آغاز سے دور تنظیمات یعنی 1839ء تک
درمیانی دور: تنظیمات سے جمہوریہ کے اعلان تک
اصلاحات کا دور: یہ تیسرا دور کیونکہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد شروع ہوا اس لیے ہمارا موضوع بحث نہیں۔

محمد فاتح کے دور میں تعلیم کے سلسلے کا باقاعدہ آغاز ہوا، وہ خود بھی علماء کا بڑا قدر دان تھا۔ محمد کے جانشینوں نے تعلیم کو خوب پھیلایا اور ہر سلطان ایک مسجد ضرور تعمیر کرتا جس کے ساتھ مدرسہ قائم کرنا بھی لازمی تھا۔ یوں مسجدوں کے ساتھ ساتھ مدارس کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ مصطفٰی ثالث کے عہد میں صرف قسطنطنیہ میں تقریباً تین سو مدارس تھے۔ دور تنظيمات میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا۔ تعلیم کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1892ء میں ہر صرف قسطنطنیہ میں ہر قسم کے مدارس کی تعداد 500 تھی جن میں 13 بڑے کالج تھے۔

عثمانی ترکوں کا زوال اور جدت سازی 

عثمانیوں کا دور زوال کو مورخین جدید دور بھی قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں سلطنت نے ہر محاذ پر شکست کھائی اور اس کی سرحدیں سکڑتی چلی گئیں تنظيمات (اصلاحات) کے باوجود مرکزی حکومت کی ناکامی کے باعث انتظامی عدم استحکام پیدا ہوا۔ 19 ویں صدی کے دوران سلطنت عثمانیہ سمیت کئی ممالک میں قوم پرستی کو عروج نصیب ہوا۔ نسلی قوم پرستی کی لعنت ان مغربی نظریات میں سب سے اہم تھی جو اس دوران سلطنت عثمانیہ میں وارد ہوئیں۔ اس دوران کئی انقلابی سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آ گئیں۔ مملکت میں آئے دن بڑھتا ہوا بگاڑ کے جہاں دیگر کئی اسباب تھے وہیں زوال کی اہم ترین وجوہات میں قوم پرستی کا پھیلاؤ بھی شامل ہے۔ اس عرصے میں 1892ء میں یونان نے آزادی حاصل کی اور اصلاحات بھی ڈینیوب کی امارتوں میں قوم پرستی کو نہ روک سکیں اور 6 عشروں سے نیم خود مختار ان علاقوں سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا، ولاچیا اور مالدووا نے بھی 1875ء میں سلطنت سے آزادی کا اعلان کر دیا اور 1877ء کی روس ترک جنگ کے بعد سربیا، رومانیا اور مونٹینیگرو کو باقاعدہ آزادی مل گئیں اور بلغاریہ کو خود مختاری عطا کر دی گئی البتہ بلقان کی دیگر ریاستیں بدستور عثمانی قبضے میں رہیں۔ زوال کے اسی دور میں سربیا کے ایک یہودی یہودا سولمن الکلائی نے صیہون کی طرف واپسی اور اسرائیل کی آزادی کا نظریہ پیش کیا۔ دور تنظیمات (1839ء تا 1876ء) میں آئینی اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا گیا جس کے نتیجے میں ایک نسبتاً جدید فوج، بنکاری نظام کی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جدید کارخانے قائم ہوئے۔ 1856ء میں خط ہمایوں کے ذریعے نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر تمام عثمانی شہریوں کو برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ مسیحی اقلیتوں کو بھی خصوصی حقوق عطا کیے گئے جیسے 1863ء میں آرمینیائی دانشوروں کی مرتب کردہ 150 شقوں کے ضابطہ قانون کے تحت منظور شدہ دیوان نظام نامۂ ملت آرمینیان اصلاحات کے اس دور کی سب سے اہم بات وہ دستور تھا جو قانون اساسی کہلاتا تھا جسے نوجوانان عثمان نے تحریر کیا اور 23 نومبر 1876ء کو نافذ کیا گیا۔ اس کے ذریعے تمام شہریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی نظر میں برابری عطا کی گئیں۔ سلطنت کا پہلا آئینی دور (عثمانی ترک زبان: برنجی مشروطیت دوری) مختصر رہا لیکن اس کے نتیجے میں جو نظریہ فروغ پایا وہ مغربی جامعات میں تعلیم پانے والے نوجوانان عثمان نامی اصلاح پسند گروہ کے مطابق یہ تھا کہ ایک آئینی بادشاہت مملکت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ 1876ء میں فوجی تاخت کے ذریعے سلطان عبدالعزیز (1861ء تا 1876ء) مراد پنجم کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ مراد پنجم ذہنی معذور تھا اور چند ماہ میں ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کے ممکنہ جانشین عبد الحمید ثانی (1876ء تا 1909ء) کو اس شرط پر بادشاہت سنبھالنے کی دعوت دی گئی کہ وہ آئینی بادشاہت کو تسلیم کریں گے جس پر انہوں نے 23 نومبر 1876ء کو عمل بھی کیا۔ لیکن پارلیمان صرف دو سال قائم رہی اور سلطان نے اسے معطل کر دیا اور بعد ازاں پارلیمان کو طلب کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ تاہم قانون اساسی کے اثرات کافی حد تک کم ہو گئے۔ اس عرصے میں سلطنت کو بیرونی جارحیت اور قبضہ گیری کے خلاف اپنے دفاع کے حوالے سے شدید خطرات کا سامنا رہا۔ 1798ء میں فرانس نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ 1877ء کی روس ترک جنگ میں شکست کے بعد برلن کانگریس میں حمایت کے صلے میں 1878ء میں ایالت قبرص پٹے پر برطانیہ کے حوالے کرنا پڑا۔ سلطنت اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے قابل نہ رہی اور مختلف یورپی ممالک کی مداخلت و اتحاد کے ذریعے اس کے مسائل حل ہونے پڑے مثال کے طور پر جنگ کریمیا جس میں عثمانیوں نے روس کے خلاف برطانیہ اور فرانس سے اتحاد کیا۔ حالانکہ اس عرصے میں اسے "یورپ کا مرد بیمار" کہا گیا لیکن معاشی طور پر سلطنت کی بد حالی کا سبب اس کی ترقی پزیر معیشت میں نہیں تھا بلکہ وہ ثقافتی خلا تھا جو اسے یورپی قوتوں سے الگ کیے دیتا تھا۔ اقتصادی مسائل دراصل بیرونی سامراجیت اور ابھرتی ہوئی داخلی قوم پرستی جیسے مسائل سے نہ نمٹ پانے کی وجہ سے تھے۔

تحلیل 

دوسرا آئینی دور (عثمانی ترک زبان: اکنجی مشروطیت دوری) سلطنت عثمانیہ کی حتمی تحلیل پر منتج ہوا۔ اس دور میں اتحاد و ترقی جمعیتی کی سیاست اور نوجوانان ترک (ترک زبان: جون ترکلر) کا سبب بننے والی تحریک نمایاں ترین ہیں۔ نوجوانان ترک کے انقلاب کا آغاز 3 جولائی 1908ء کو ہوا اور جلد ہی تحریک سلطنت بھر میں پھیل گئی اور نتیجتاً سلطان کو 1876ء کے آئین کی بحالی کا اعلان اور پارلیمان کو طلب کرنا پڑا۔ آئینی دور میں 1909ء کے جوابی تاخت اور واقعہ 31 مارچ کے جوابی انقلاب کے دوران رخنہ آیا جس کے ساتھ ہی سلطان عبد الحمید ثانی کے دور کا خاتمہ کر دیا گیا اور انہیں جلاوطن کر دیا گیا اور ان کی جگہ ان کے بھائی محمد پنجم کو تخت پر بٹھایا گیا۔ نوجوانان ترک کے انقلاب کے دوران سلطنت عثمانیہ کی داخلی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1908ء میں آسٹریا-ہنگری نے مقبوضہ بوسنیا و ہرزیگووینا کا باضابطہ الحاق کر دیا۔ آسٹریا-ہنگری نے 1877ء کی روس ترک جنگ اور برلن کانگریس (1878ء) کے بعد اس پر قبضہ کیا تھا۔ اطالیہ ترک جنگوں کے دوران سربیا، مونٹی نیگرو، یونان اور بلغاریہ پر مشتمل بلقان لیگ نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کو بلقان جنگ (1912ء-1913ء) کا سامنا کرنا پڑا اور اسے جزیرہ نما بلقان کے کئی علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ لیبیا اور جزیرہ نما بلقان میں جنگیں اتحاد و ترقی جمعیتی کا پہلا بڑا امتحان تھیں۔ اطالیہ ترک جنگوں میں سلطنت کو لیبیا سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ پہلی جنگ تھی جس میں دنیا میں پہلی بار میدان جنگ میں ہوائی جہازوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ 19 ویں صدی کے آخر میں قائم ہونے والی بلقان ریاستیں نسلی و قومی بنیادوں پر البانیہ، مقدونیہ اور تھریس (تراقیا) کے عثمانی صوبوں سے بھی اضافی علاقوں کے حصول کی خواہشمند تھیں۔ ابتدائی طور پر مارچ 1912ء میں سربیا اور بلغاریہ اور مئی 1912ء میں یونان اور بلغاریہ کے درمیان معاہدے طے پائے جس میں روس نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ سرب-بلغاری معاہدے میں مقدونیہ کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا تھا جو پہلی بلقان جنگ کا سب سے اہم سبب بنا۔ دوسری بلقان جنگ کے آغاز کا اہم سبب سابق بلقان اتحادیوں میں نئے حاصل کردہ علاقوں کی تقسیم پر پیدا ہونے والے تنازعات تھے جس سے سلطنت عثمانیہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تھریس میں کئی علاقے دوبارہ فتح کر لیے۔ بلقان جنگ کے سیاسی نتائج 1913ء کے تاخت اور تین پاشاؤں کی حکومت کا سبب بنے۔

جنگ عظیم اول 

پہلی جنگ عظیم میں بغداد ریلوے پر جرمن اختیار بین الاقوامی طور پر کشیدگی کا ایک مسئلہ اہم تھا۔ سلطنت عثمانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے مشرق وسطٰی میدان میں حصہ لیا جس کا سبب ترک جرمن اتحاد تھا۔ عثمانیوں نے جنگ کے ابتدائی دور میں دو اہم فتوحات، جنگ گیلی پولی اور محاصرۂ کوت، حاصل کیں لیکن اسے کئی دھچکے بھی پہنچے جیسے روس کے خلاف تباہ کن قفقاز مہم۔ 1917ء کے روسی انقلاب نے عثمانیوں کو شکست کے داغ دھونے اور کھوئے ہوئے علاقے حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا اور عثمانی افواج جنگ کے اختتامی مراحل میں آذربائیجان کے حصول میں کامیاب ہو گئیں لیکن جنگ عظیم کے اختتام پر اسے ان فتوحات سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس تنازعے میں پیش آنے والا ایک متنازع اور اہم واقعہ صوبہ وان میں ترک حکام، عثمانی افواج اور کرد جنگجوؤں کے ہاتھوں لاکھوں آرمینیائی باشندوں کا مبینہ قتل عام اور ملک بدری اور اس کے خلاف آرمینیائی باشندوں کی مزاحمت تھی۔ ایک مرکزی آرمینیائی مزاحمتی گروہ نے مئی 1915ء میں آزاد عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا، اور عثمانیوں نے اسے مشرقی اناطولیہ پر جارحیت کرنے والی روسی افواج کا ساتھ دینے کی کوشش سمجھا۔ 1917ء کے اختتام تک آرمینیائی انقلابی وفاق نے جمہوریہ آرمینیا قائم کر دی جو آرمینیائی قتل عام سے بچ جانے والے باشندوں پر مشتمل تھی۔ واضح رہے کہ ترک حکومت آرمینیائی باشندوں کے قتل عام پر یقین نہیں رکھتی۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے آرمینیائی قتل عام پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کے شکست کے دو اہم اسباب ایڈمنڈ ایلنبائی کی زیر کمان برطانوی افواج کی اہم اہداف پر حملے اور عرب بغاوت تھے۔ ان میں عرب بغاوت سلطنت عثمانیہ کی شکست کا سب سے بڑا سبب سمجھی جاتی ہے۔ عرب بغاوت کی ان مہمات کا آغاز شریف مکہ حسین کی جانب سے برطانیہ کی مدد سے جون 1916ء میں جنگ مکہ سے اور اس کا اختتام دمشق میں عثمانیوں کے اسلحہ پھینک دینے کے ساتھ ہوتا ہے. مدینہ کے عثمانی کماندار فخری پاشا نے محاصرہ مدینہ میں ڈھائی سال سے زیادہ عرصے تک زبردست مزاحمت کی۔

تقسیم 

جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ میں تقسیم کا عمل قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن بعد 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدہ مدروس کے ذریعے شروع ہوا۔ اور بعد ازاں معاہدہ سیورے کے ذریعے مشرق وسطٰی میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی، ترک ایجیئن ساحلوں کو یونان، اور آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کو بین الاقوامی علاقے کے طور پر اتحادی قوتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی اناطولیہ میں جمہوریہ آرمینیا کو توسیع دیتے ہوئے ولسونین آرمینیا کی تشکیل دی گئی جو آرمینیائی باشندوں کا قدیم وطن تھا تاہم بعد ازاں ان علاقوں میں ترک اور کرد بھی بس گئے۔ برطانیہ نے مشرق وسطٰی کی تقسیم کے لیے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس کے ساتھ سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کیا۔ استنبول اور ازمیر پر قبضہ ترک قومی تحریک کے قیام کا سبب بنی اور مصطفٰی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کے آغاز اور جمہوریہ ترکی کے قیام کے اعلان کیا گیا۔ مصطفٰی کمال کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں "قومی مجلس اعلٰی" (ترک زبان: بیوک ملت مجلسی) کے قیام کا اعلان کیا، جس نے استنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ترک انقلابیوں نے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس کی افواج کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔ معاہدہ سیورے کے نتیجے میں جو علاقے جمہوریہ آرمینیا کو مل گئے تھے انہیں بھی دوبارہ حاصل کیا اور آبنائے پر قابض برطانوی افواج کے لیے خطرہ بن گئی۔ بالآخر ترک انقلابیوں نے آبنائے اور استنبول پر قبضہ کر لیا اور یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ آخری سلطان محمد ششم وحید الدین (1861ء تا 1926ء) 17 نومبر 1922ء کو ملک چھوڑ گئے اور معاہدہ لوزان کے تحت 24 جولائی 1923ء کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ چند ماہ بعد 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔ 50 سال بعد 1974ء میں ترک قومی مجلس اعلٰی نے سابق شاہی خاندان کو ترک شہریت عطا کرتے ہوئے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔

عثمانی ترکوں کا نظام حکومت 
سلطان 

عثمانی ترکوں نے ایشیائے کوچک میں داخل ہونے کے بعد ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے تین سو سال میں دنیا کی وسیع ترین اور سب سے زیادہ طاقتور سلطنت کا روپ اختیار کر لیا اور اس میں بنیادی کردار ترک قوم کی شجاعت اور تنظیمی صلاحیت تھی جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ جیسی وسیع اور پائیدار سلطنت قائم ہوئی۔ چونکہ عثمانی سلاطین نے سلجوقیوں کے نظام کو اپنایا تھا اس لیے فرمانروا کا انتخاب اہل خاندان کرتے تھے اور خاندان کا سربراہ ہی بادشاہ ہوتا تھا۔ عملی سیاست کے تعلق تک بادشاہ مطلق العنان اور تمام قوتوں کا سرچشمہ ہوتا تھا تاہم اس کے تمام اقدامات و افعال اس کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتے تھے۔ وہ قانون، نظام اور رسم و رواج کا پابند تھا اور شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا تھا۔ اسلامی قوانین کو تقریباً تمام معاملات میں برتری حاصل تھی اور بادشاہ شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے حق و طاقت کا استعمال کر سکتا تھا۔ چونکہ بادشاہ کی حیثیت مطلق العنان فرمانروا کی تھی اس لیے جب کمزور سلطان آئے تو سلطنت کے امور وزراء انجام دینے لگے لیکن پھر بھی احکامات سلطان کی جانب سے صادر ہوتے تھے۔ ابتداء میں عثمانی حکمران خود کو بیگ اور غازی کہلواتے تھے۔ بایزید اول پہلا عثمانی حکمران تھا جس نے سلطان کا لقب اختیار کیا اور سلیم اول فتح مصر کے بعد پہلا عثمانی خلیفہ بنا۔ سلطان سلیمان قانونی کے زمانے تک فوج کی اعلٰی کمان سلطان کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور وہ خود جنگ میں شرکت کرتا تھا لیکن بعد کے حکمرانوں میں یہ طریقہ نہ رہا جس سے سلطان کے وقار کو ٹھیس پہنچی۔

دیوان 

سلطان کی اعلٰی مجلس شوریٰ کا نام دیوان تھا اور مرکزی نظام میں اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ ابتدا میں سلطان دیوان کی صدارت خود کرتا تھا لیکن بعد کے سلاطین نے دیوان میں آنا چھوڑ دیا اور سلطان کے اہل رائے سے تعلق نہ ہونے سے نظام میں کمزوری پیدا ہو گئی۔ دیوان کے مستقل اراکین یہ تھے:

صدر اعظم
قاضی عسکر
دفتر دار
نشانچی

مرکزی نظام کے یہ چار اعلٰی عہدیدار سلطنت کے بنیادی ستون تھے۔ محمد فاتح نے اپنے آئین میں ان ستونوں کو واضح کیا اور سلطنت کو ایک خیمے سے تشبیہ دی جس کا صدر دروازہ باب عالی کہلاتا اور دیوان گویا اس کی آخری عدالت تھی۔ صدر دروازے کا یہ نام اتنا معروف ہوا کہ دنیا بھر میں عثمانی دربار "باب عالی" کے نام سے ہی معروف ہو گیا۔

صدر اعظم 

مرکزی نظام حکومت میں سلطان کے بعد دوسری اہم حیثیت صدر اعظم کو حاصل تھی جو دیوان کا ایک اہم رکن کہلاتا تھا۔ ابتدائی دور میں صرف وزیر ہوتا تھا لیکن ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بعد ان میں سے ایک وزیر اعظم کہلانے لگا جو پھر صدر اعظم بن گیا۔ طاقتور سلاطین کے عہد میں صدر اعظم سلطان کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ صدر اعظم کے ماتحت وزراء میں وزیر جنگ و داخلہ، صدر اعظم کی غیر موجودگی میں اس کا قائم مقام ہوتا تھا، وزیر خارجہ، جو رئیس آفندی کہلاتا اور میر دربار شامل ہوتے تھے۔ صدر اعظم کے عہدے پر کئی نام ایسے شامل ہیں جن کی خدمات عثمانی نظام کے لیے ناقابل فراموش ہیں جن میں کوپریلی خاندان قابل ذکر ہے۔ یہ عہدہ 1368ء سے 1922ء تک یعنی 554 سالوں تک یہ عہدہ سلطنت عثمانیہ میں موجود رہا جس میں 211 (یا 215) صدر اعظم ہوئے جن کی اکثریت غیر ترک تھی اور ان میں عرب، البانوی، روسی، چرکسی، یونانی، ارمنی اور سلافی قوموں کے افراد شامل تھے تاہم کبھی کسی غیر مسلم کو صدر اعظم نہیں بنایا گیا۔ صدر اعظم کا تقرر خود سلطان کرتا تھا۔

قاضی عسکر اور دفتر دار 

اس کی اصل حیثیت فوجی منصف کی تھی اور شیخ الاسلام کے بعد اس کا درجہ آتا تھا۔ قاضی عسکر کو سلطان خود مقرر کرتا تھا۔ قاضی عسکر دو تھے ایک یورپی اور دوسرا ایشیائی مقبوضات کے لیے جو بالترتیب قاضی عسکر رومیلیا اور قاضی عسکر اناطولیہ کہلاتے تھے۔ دفتر دار دراصل وزیر مالیات تھا جو تمام مالی امور کا جوابدہ تھا۔

نشانچی 

نشانچی بھی مالیات کا ذمہ دار تھا لیکن اس کے ذمہ دیگر بہت سارے امور تھے جن میں شاہی مہر لگانا، زمین کے معاملات کا اندراج، غلطیوں کی تصحیح اور ان کی ترتیب، حکمرانوں اور نیم خود مختار حاکموں کو فرامین بھیجنا وغیرہ۔ نشانچی تمام سرکاری کاغذات کی تیاری کا کام بھی کرتا تھا اور اس کے بعد کاغذات پر سلطان کا طغرہ ثبت کرتا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی قوت ہی اس کے ادارۂ حکومت کے زبردست نظام پر قائم تھی اور اس کے خاص اصولوں میں امیدواروں کا عمدہ انتخاب، تعلیم و تربیت کی سخت نگرانی، مکمل نظم و ضبط اور پرجوش مقابلہ اہم ترین تھے اور انہی کی بنیاد پر کوئی بھی امیدوار اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی کر کے اعلٰی ترین عہدے پر پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح گویا شاہی خاندان ہی ایسا تھا جس میں نسلی امتیاز تسلیم کیا جاتا تھا دیگر تمام عہدوں کے لیے صلاحیت کو بنیاد بنایا جاتا تھا۔

ترکوں کی سلطنت عثمانیہ 

سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔

طلوع سے عروج تک 

سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے بعد اناطولیہ میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔ 1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان خان اول تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسا پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ عثمان اول نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد دار الحکومت بروصہ منتقل کر دیا۔ عثمان اول ترکوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلٰی اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ یہ عثمان اول کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل گئی۔ سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی دوبارہ بحالی کا سہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر جاتا ہے جو اپنے اعلٰی اخلاق و اوصاف کے باعث ترکوں میں "محمد چلبی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہو گیا۔

توسیع اور نقطۂ عروج 

1453ء میں فتح قسطنطنیہ نے جنوب مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کے ایک عظیم قوت کے طور پر ابھرنے کی بنیاد رکھی اور پھر 1566ء تک یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں فتوحات کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا۔ ان فتوحات کا سبب فوج کا معیاری نظم و ضبط اور جدید عسکری قوت تھی جس میں بارود کے استعمال اور مضبوط بحریہ کا کردار بہت اہم تھا۔ ریاست کی معیشت میں اہم ترین کردار تجارت کا تھا کیونکہ یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارت کے تمام زمینی و سمندری راستے عثمانی سلطنت سے ہو کر گذرتے تھے۔ ایک کے بعد دیگر عظیم سلاطین نے سلطنت کی سرحدیں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا جن میں سلیم اول کا نام نمایاں ہے جنہوں نے مشرقی و جنوبی جانب توجہ کی اور صفوی سلطنت کے شاہ اسماعیل صفوی کو جنگ چالدران میں شکست دی اور مصر میں عثمانی حکومت قائم کی۔ سلیم کے جانشیں سلیمان عالیشان (1520ء تا 1566ء) نے مغرب میں سلطنت کو توسیع دی اور 1521ء میں بلغراد کی فتح کے بعد 1526ء میں جنگ موہاکز کے ذریعے ہنگری اور دیگر وسطی یورپی علاقوں میں عثمانیوں کی دھاک بٹھا دی۔ اس کے بعد انہوں نے 1529ء میں ویانا کا محاصرہ کیا لیکن سرد موسم اور شہر کے باسیوں کی زبردست مزاحمت کے باعث یہ محاصرہ ناکام ہو گیا اس طرح عثمانی طوفان کی موجیں ویانا کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ گئیں اور عثمانی سلطنت کی سرحدیں وسطی یورپ کے اس شہر سے آگے کبھی نہ بڑھ سکیں۔ سلیمان کے ادوار میں ٹرانسلوانیا، ولاچیا اور مالدووا سلطنت عثمانیہ کے باجگذار بنے۔ مشرق میں عثمانیوں نے ایران سے بغداد دوبارہ حاصل کر لیا اور بین النہرین پر قبضہ کر کے خلیج فارس تک بحری رسائی حاصل کر لی۔ سلیم اور سلیمان کے ادوار میں عثمانی بحریہ دنیا کی عظیم ترین بحری قوت بنی جس نے بحیرہ روم کے بیشتر علاقوں کو فتح کیا۔ ان فتوحات میں اہم ترین کردار عثمانی امیر البحر خیر الدین پاشا باربروسا کا رہا جس نے سلیمان کے دور میں کئی شاندار عسکری فتوحات حاصل کیں۔ جس میں اسپین کے خلاف تیونس اور الجزائر کی فتوحات اور سقوط غرناطہ کے بعد وہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں کی بحفاظت عثمانی سرزمین تک منتقلی اور 1543ء میں مقدس رومی سلطنت کے خلاف نیس کی فتح قابل ذکر ہیں۔ 16 ویں صدی میں مغربی یورپی قوتوں خصوصاً پرتگیزیوں کی خلیج فارس اور بحر ہند میں بڑھتی ہوئی قوت نے عثمانی بحریہ کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ عثمانیوں کی جانب سے مشرق اور جنوب کے راستے بند کر دینے کے باعث یورپی قوتیں ایشیا کے لیے نئے راستوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ اور ہند و چین کے لیے نئے راستے دریافت کیے۔

بغاوتیں اور احیاء 

1566ء میں سلیمان کا انتقال علاقائی فتوحات کے خاتمے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ مغربی یورپ کی سلطنتوں کا بطور بحری قوت ابھرنا اور یورپ سے ایشیا کے لیے متبادل راستوں اور "نئی دنیا" (امریکہ) کی دریافت نے عثمانی معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ایسے نازک وقت میں جب سلطنت عثمانیہ کو بیدار مغز حکمرانوں کی ضرورت تھی بدقسمتی سے اسے نالائق حکمرانوں کے طویل دور کو سہنا پڑا جس نے داخلی و عسکری محاذ پر مملکت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود 1683ء میں جنگ ویانا تک سلطنت کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا تاہم اس جنگ کے بعد یورپ میں سلطنت کی توسیع کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ مغربی یورپ کی جانب سے نئے تجارتی راستوں کی تلاش و دریافت کے علاوہ "نئی دنیا" سے اسپین میں بڑی مقدار میں چاندی کی آمد عثمانی سکے کی قدر میں تیزی سے بے قدری کا باعث بنی۔ سلیم ثانی کے دور میں صدر اعظم محمد پاشا صوقوللی نے معیشت کو استحکام بخشنے کے لیے سوئز نہر اور ڈون-وولگا نہر کی تعمیر کے منصوبہ جات پیش کیے لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اسی دور میں جنوبی یورپ میں اسپین کے فلپ ثانی کی زیر قیادت کیتھولک قوتوں نے بحیرہ روم میں عثمانی بحریہ کی قوت کو نقصان پہنچانے کے لیے گٹھ جوڑ کر لیا۔ 1571ء میں جنگ لیپانٹو میں شکست بحیرہ روم میں سلطنت کی برتری کے فوری خاتمے کا باعث بنی۔ اس لیے متعدد مورخوں نے جنگ لیپانٹو میں شکست کو عثمانی سلطنت کے زوال کا اشارہ قرار دیا ہے۔ اس طرح 16 ویں صدی کے اختتام تک فتوحات و کامیابیوں کے سنہرے دور کا خاتمہ ہو گیا۔ عثمانیوں کی ایک مخصوص مقام پر جاکر فتوحات کے رک جانے کی کئی وجوہات ہیں ایک تو دور قدیم میں جغرافیائی خصوصیات کے باعث محدودیت جن کی وجہ سے بہار کے ابتدائی دور سے خزاں کے آخری ایام تک کے جنگی موسم میں عثمانی فوج ویانا سے آگے نہیں جا سکتی تھی۔ دیگر وجوہات میں سرحدوں کے دونوں جانب دو مختلف حریفوں (یورپ میں آسٹریا اور ایشیا میں ایران کے صفوی حکمران) کے خلاف بیک وقت جنگ کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں فکری، ذہنی و عسکری جمود نے عثمانیوں کے زوال پر مہر ثبت کر دیں کیونکہ عسکری طور پر جدید ہتھیاروں کا استعمال ہی وسیع پیمانے اور تیزی سے فتوحات کا سبب تھا اور مذہبی و دانشور طبقے کے بڑھتے ہوئے دقیانوسی خیالات نے یورپیوں کی جدید عسکری ٹیکنالوجی کے مقابلے میں عثمانیوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ ینی چری، جن سے یورپ کی تمام افواج کانپتی تھیں، آرام پسند ہو گئیں اور ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے باعث ریاست کی تباہی کا سبب بنی۔ صفویوں سے یریوان (1635ء) اور بغداد (1639ء) چھیننے والے مراد چہارم (1612ء تا 1640ء) اس دور کے واحد حکمران جنہوں نے سیاسی و عسکری طور پر سلطنت کو مضبوط بنایا۔ مراد چہارم ہی وہ آخری سلطان تھے جنہوں بذات خود افواج کی قیادت کی۔ 16 ویں صدی کے اواخر اور 17 ویں صدی کے اوائل میں جلالی بغاوت (1519ء-1610ء) اور ینی چری بغاوت (1622ء) نے اناطولیہ میں بڑے پیمانے پر لاقانونیت اور فسادات کو فروغ دیا اور متعدد حکومتوں کے خاتمے کا سبب بنا۔ اس طرح 17 ویں صدی عثمانیوں کے لیے جمود اور زوال کی صدی رہی۔ 1530ء سے 1660ء تک کے دور میں حرم کی ملکی معاملات میں مداخلت اور اثرات سے بھی قطع نظر نہیں کیا جا سکتا جس میں سب سے اہم کردار نوجوان سلطان کی ماؤں کا رہا۔ اس دور کی نمایاں خواتین میں خرم سلطان، قصم سلطان اور تورخان خادج اور دیگر شامل ہیں۔

جمود اور اصلاحات 

جمود کے دور میں بلقان کے کئی علاقے آسٹریا کے قبضے میں آ گئے۔ ریاست کے متعدد علاقے، جیسے مصر اور الجزائر، مکمل طور پر خود مختار ہو گئے اور بالآخر سلطنت برطانیہ اور فرانس کے قبضے میں چلے گئے۔ 17 ویں سے 19 ویں صدی کے دوران روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان کئی جنگیں بھی لڑی گئیں جنہیں ترک روس جنگیں کہا جاتا ہے۔ عثمانیوں کے جمود کے اس طویل دور کو مورخین ناکام اصلاحات کا دور بھی قرار دیا ہے۔ اس دور کے اواخر میں ریاست میں تعلیمی و تکنیکی اصلاحات بھی کی گئیں اور استنبول تکنیکی جامعہ جیسے اعلٰی تعلیم کے ادارے قائم ہوئے۔ لیکن قدیم سوچ کے حامل مذہبی و عسکری طبقے سے اصلاحات کی شدید ترین مخالفت کی حتٰی کہ چھاپہ خانوں تک کو "شیطانی ایجاد" قرار دیا گیا جس کے باعث 1450ء میں یورپ میں چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد 43 سال تک سلطنت عثمانیہ چھاپے خانوں سے محروم رہی لیکن 1493ء میں اسپین سے بے دخل کیے گئے یہودیوں نے استنبول میں پہلا چھاپہ خانہ قائم کیا۔ دور لالہ سلطان احمد ثالث کے پرامن دور اور گل لالہ سے محبت کے باعث دور لالہ کہلاتا ہے۔ 1712ء میں روس کے خلاف پرتھ مہم میں کامیابی اور اس کے بعد معاہدۂ پاسارووچ کے باعث 1718ء سے 1730ء تک کا دور پرامن رہا۔ اس دور میں سلطنت نے یورپ کی پیشقدمی کے خلاف مضبوط دفاع کے پیش نظر بلقان کے مختلف شہروں میں قلعہ بندیاں کیں۔ دیگر اصلاحات میں محصولات میں کمی؛ عثمانی سلطنت کے بیرون ممالک میں تصور کو بہتر بنانا اور نجی ملکیت و سرمایہ کاری کی اجازت شامل ہیں۔ عثمانیوں میں عسکری اصلاحات کا آغاز سلیم ثالث (1789ء-1807ء) کے دور میں ہوا جنہوں نے یورپی خطوط پر افواج کو جدید تر بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے۔ حالانکہ ان اقدامات کی مذہبی قیادت اور ینی چری دستوں نے کھل کر مخالفت کی اور اس کے نتیجے میں ینی چری نے بغاوت بھی کی۔ اور سلیم کو اپنی اصلاحات کا خمیازہ حکومت اور جان دونوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں اٹھانا پڑا لیکن اس کے جانشیں محمود ثانی نے ان تمام اصلاحات کو نافذ کر کے دم لیا اور 1826ء میں ینی چری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا-

امیر تیمور ایک تورک بادشاہ 

امیر تیمور نے ہمیشہ خود سے کئی گنا بڑی فوج اور مملکت کو شرم ناک شکست سے دوچار کیا، اور ساری عمر جنگی مہمات میں گزری۔ دنیا کے مشہور فاتحین میں سکندر اعظم، جولیس سیزر، ہمنی بال، بسمارک، ہٹلر، بایزید یلدرم، سلطان محمود غزنوی, چنگیز خان، صلاح الدین ایوبی اور امیر تیمور شمار کیے جاتے ہیں لیکن جب حقائق اور فتوحات کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے تو ان تمام میں امیر تیمور سر فہرست اور حقیقی معنیٰ میں دنیا کا عظیم ترین فاتح قرار پاتا ہے کیوں کہ سکندر اعظم اور چنگیزخان کو اپنے سے کم تر طاقتوں سے مقابلہ کرنا پڑا، جب کہ امیر تیمور نے ہمیشہ خود سے کئی گنا بڑی فوج اور مملکت کو شرم ناک شکست سے دوچار کیا، اور اس کی تقریباً ساری عمر جنگی مہمات میں گزری۔ چودہویں صدی عیسوی میں گمنامی کے اندھیروں سے نکل کر عظیم فاتح کہلانے والے تیمور لنگ نے اپنے دشمنوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ اس دور میں جسمانی طاقت ایک بڑا اثاثہ تھی اور اپنے دشمنوں کو نیست و نابود کر دینا ایک کارنامہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے دور میں چھ بڑھ طاقتیں دنیا پر راج کررہی تھیں یعنی سائبیریا کا منگول خان، عظیم ترک سلطنت، مصر کے مملوک، گریٹ خان آف چین، سلطنت دہلی اور بغداد کے مسلم حکمران۔ ان میں سے پانچ بڑی قوتوں کو تیمور لنگ نے شکست دی اور عالم پر حکم رانی کے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے چین کی جانب رواں ہوا لیکن موت نے بھی تعاقب جاری رکھا اور حدودِ چین میں اس کی روح قبض کرلی گئی یعنی 17شعبان807ھ بمطابق 18 فروری 1405 کو وہ چین کے دریائے سیحون کے کنارے شدید سردی کے عالم میں سکتے کی حالت میں ستر (70) سال کی عمر میں بائیں ہاتھ سے تلوار چلانے اور لکھنے والا تیمور لنگ اللہ کو پیارا ہوگیا تیمور 26 شعبان 736ھ بمطابق 9 اپریل 1336 کو امیر ترقائی یا امیر تاراغئی اور تکینہ خاتون کے ہاں پیدا ہوا، اور جائے پیدائش کا نام خواجہ ایلغار تھا جو آج کل مولود خانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امیر تارا غئی برلاس تاتار خاندان کے علاقے کُش یا شہر سبز کا چھوٹا سا حکمران تھا۔ تیمور بچپن ہی سے ذہین، شجاع اور دلیر تھا اس کی تعلیم واجبی سی تھی لیکن تربیت اور فنونِ سپاہ گری میں وہ حددرجہ ماہر تھا۔ تیمور اپنے والد کی مذہبی تعلیم وتربیت سے متاثر تھا جس نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ دنیا سونے کا گلدان ہے جس میں سانپ اور بچھو بھرے ہیں یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے شوقین کھیلوں شطرنج اور چوگان سے دست برداری اختیار کرلی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ تیمور حافظِ قرآن تھا۔ دینی اور دنیاوی علوم کا ماہر، اپنے لحاظ سے مفتی اور فقیہہ کے مقام پر تھا مشہور مورخ ہیرالڈ لیمب اپنی کتاب میں تیمور کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔ لگ بھگ چھ سو سال پہلے ایک شخص نے ساری دنیا پر حکمرانی کی وہ ہر شعبۂ حیات میں کامرانی حاصل کرتا رہا وہ عظم فاتح ہے۔ تاریخ میں تیمور کا مقام متین کرنا آسان نہیں ہے کیوں کہ وہ نہ تو سکندر کی طرح بادشاہ کا بیٹا تھا اور نہ ہی اسے چنگیز جیسی جدی پشتی ریاست کی حمایت حاصل تھی بلکہ چھوٹے سے علاقے اور جانوروں کے ایک ریوڑ کا مالک تھا جس نے بکھرے ہوئے تاتاریوں کو اکٹھا کر کے مختصر فوج کی تشکیل دی اور مختلف چھوٹی بڑی مہمات اور جنگوں سے طاقت ور اور بااختیار بنتا گیا۔ گرین سٹی (شہر سبز) کو اس نے ایک شاطرانہ چال سے بغیر لڑائی کیے حاصل کرلیا۔ اس کی فوج نے اطراف و اکناف کے علاقوں میں پھیل کر درخت اور جھاڑیاں کاٹ کر اتنا گرد و غبار پھیلایا کہ قلعہ بند فوج نے یہ سمجھ کر کہ بڑی فوج نے حملہ کردیا ہے قلعہ تیمور کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد تیمور نے مزید ایک اور چال سے جاٹ جنرل بیکی جوک کی فوجوں کے اطراف شب کے سناٹے میں مختلف اور کثیر مقامات پر مہیب آگ جلوا کر یہ تاثر دیا کہ تیمور کے ساتھ کثیر فوج کیمپوں میں موجود ہے۔ بیکی جوک حوصلہ ہار بیٹھا اور صبح کے اولین پہر راہ فرار اختیار کر گیا یوں تیمور نے گرد و غبار اور آگ کی مدد سے بغیر خون بہائے دو علاقے فتح کرلیے اور اپنی بہادری و ذہانت کی دھاک بٹھا دی۔ اب تیمور نے منگول سردار الیاس خان کو ایک ایسی ہولناک جنگ میں شکست دی جس میں گھوڑے گھٹنوں کیچڑ و دلدل میں دھنسے ہوئے تھے۔ بحیثیت جنگ جو اور لیڈر برتری ثابت کردینے پر تاتاریوں نے متفقہ طور پر تیمور کو اپنا سردار مان لیا، تاتاریوں کے روحانی و مذہبی رہنما زین الدین نے اسے جانشین چغتائی اور ال تیمور کا لقب دے کر تخت نشین کیا۔ جن علاقوں میں فارسی مروج تھی وہاں تیمور کو امیر کے لقب سے پکارا جانے لگا جو بعدازاں اس کے نام کا جزو بن گیا تھا۔

امیر کے لیے معذوری مجبوری نہ بنی 

یہ عظیم فاتح اپنے وطن ازبکستان میں امیر تیمور کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن مفتوحہ علاقوں میں تاریخ نے انہیں تیمور لنگ کا نام دیا جو تیمور لنگڑے کے عرف سے بگڑ کر تیمور لنگ بنا۔ 1402 میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان بازید کے سامنے میدان جنگ میں اترے تو ان کے سپاہیوں میں آرمینیا سے لے کر افغانستان اور سمرقند سے سربیا تک کے لوگ شامل تھے۔ پیدائش کے وقت انہیں تیمور نام دیا گیا جس کا مطلب ’لوہا‘ ہے ۔ جوانی میں ہی وہ شدید زخمی ہوئے اور دائیں پیر سے لنگڑانے لگے اور ان کا نام تیمور لنگ پڑگیا۔ مغربی ممالک میں انہیں اسی نام سے جانا جاتا ہے۔ انہیں یہ زخم کیسے آئے اس بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا گیا۔ ایک ایسے دور میں جب سیاسی طاقت کے لیے جنگی صلاحیتیں بہت اہم سمجھی جاتی تھیں اس طرح کی معذوری کسی بھی مرد کے لیے بہت بڑا دھچکہ ہو سکتا تھا۔ نوجوان تیمور کو یہ مقامی کہاوت معلوم تھی کہ ’جو ہاتھ تلوار اٹھا سکتا ہے وہی تخت وتاج کا حقدار ہوتا ہے‘۔ اس زمانے میں ایک کے بعد ایک جنگی کامیابی اور بڑھتی ہوئی عظیم الشان فوج کے ساتھ آگے بڑھنا ناقابلِ تصور تھا. سپین کے سفارتکار کلاوی نے جو 1404 میں سمرقند گئے تھے لکھا ہے کہ کس طرح تیمور لنگ نے سیستان کے گھڑ سواروں کی ایک بڑی تعداد سے نپٹا جس نے تیمور کے بہت سے سپاہیوں کو موٹ کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 1941 میں سابق سوویت یونین میں میخائل گرازیموف کی قیادت میں آثارِقدیمہ کی ایک ٹیم نے سمرقند میں تیمور لنگ کی قبرکشائی کی جس پر معلوم ہوا کہ تیمور لنگ ’لنگڑے‘ تھے۔ ان کے دائیں کولہے میں اس جگہ زخم تھا جہاں ہڈی گُھٹنے تک جاتی ہے۔ اس لیے ان کی دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ کے مقابلے میں چھوٹی تھی جس کے سبب وہ لنگڑا کر چلتے ہوں گے۔ چودہویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے حکمران ہوں یا پھر بغداد یا دمشق کے حکمران اُن کے لیے تیمور کو جنگ میں شکست دینا تو مشکل تھا تاہم ان کی ٹانگ کا مذاق اڑانا آسان تھا۔ یہاں تک کہ دمشق کے رہنے والے مورخ احمد بن عربشاہ، جن کا شمار ان کے سخت ناقدین میں ہوتا ہے، انہوں نے بھی تسلیم کیا تھا کہ تیمور ’ایک انتہائی باہمت اور طاقتور‘ حکمران تھے-

اکبر اعظم کے خوابوں کا شہر 

فتح پور سیکری ریاست آگرہ سے 35 کلو میٹر دورواقع ہے ۔ اس شہر کو ترک و مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے فرزند کی پیدائش پر تعمیر کروایا تھا اور اس کو اپنادارالحکومت بناناچاہتا تھا لیکن سیاسی حالات کی وجہ سے اس نے دارالحکومت پہلے لاہور اور پھر آگرہ منتقل کردیا۔ اس طرح اکبراعظم کا یہ خوابوں کا شہرویران ہوگیا۔ اس کی شاندار عمارتیں آج بھی جوں کی توں حالت میں ہیں۔ 1569 میں تعمیرکردہ یہ شہر 1571سے 1585تک مغل حکومت کا دارالحکومت تھا۔ اس شہر کا نام پہلے سیکری گڑھ تھا جو آخری راجپوت راجہ مہاراجہ سنگرام سنگھ کے قبضہ میں تھا۔ اکبر نے چتوڑ اور رنتھبور پر اپنی فتوحات کی یاد میں اس شہر کا نام فتح پور سیکری رکھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اکبر نے جب صحرامیں مقیم صوفی سنت حضرت سلیم چشتیؒ کی خانقاہ میں حاضری دی تو انہوں نے بشارت دی کہ اکبر کا ہونے والا بیٹا اس کی سلطنت کو نہ صرف وسعت دے گا بلکہ وہ مغلیہ سلطنت کا ایک عظیم بادشاہ ہوگا۔ 1569میں اکبر کے یہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی ،اس نے اپنے بیٹے کا نام سلیم چشتیؒ کے نام پر سلیم رکھا جو بعد میں شہنشاہ جہانگیر کھلایا۔ اس کی پیدائش پر ہی اکبر نے صوفی حضرت سلیم چشتی کے اعزاز میں یہاں کے ایک شہر کی بنیاد ڈالی۔ حضرت سلیم چشتیؒ کی درگاہ اسی مقام پر سنگ مرمر سے بنائی گئی ہے۔ جب اکبر نے اس شہر کو اپنا دارالحکومت بنایاتو اس کا نام فتح آباد تھا۔ یہاں اکبراعظم کی جانب سے تعمیر کروائے گئے محلات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔فتح پور سیکری کے شاہی محلات دو میل لمبے اور ایک میل چوڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے 3 اطراف میں 5 میل لمبی دیوار بنائی گئی۔ شاہی محلات کے علاوہ اس علاقہ میں کچھ اور بھی عمارتیں ہیں جوکھنڈر بن گئی ہیں۔ نوبت خانہ کے قریب پرانے شہر میں بازاروں کے باقیات موجود ہیں۔ نوبت خانہ آگرہ روڈ پر شہر کا باب الداخلہ ہے۔ نیا شہر اس کامپلکس کے مغربی سمت میں بسایا گیا ہے۔ 7ہزار کی آبادی والا یہ شہر تعمیری مزدوروں اور سنگتراشوں کیلئے شہرت رکھتا ہے جس وقت فتح پورسیکری تعمیر کیا گیا تھااس شہر کے 3 طرف دیوار تھی اور ایک طرف جھیل تھی یہ جھیل اب باقی نہیں ہے۔ سرخ پتھر سے بنی عمارتیں مقامی طور پر دستیاب پتھروں سے بنائی گئی ہیں اس کامپلکس کے دروازوں میں دہلی گیٹ، لال گیٹ،آگرہ گیٹ، چندن پال گیٹ ،گوالیار گیٹ، سہرا گیٹ، چور گیٹ اور اجمیر گیٹ شامل ہے۔

درگاہ حضرت سلیم چشتی ؒ اور جامع مسجد 

فتح پور سیکری میں درگاہ حضرت سلیم چشتی کامپلکس میں داخل ہونے کیلئے بلند دروازے سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دروازے کو شہنشاہ اکبر نے 1601میں تعمیر کروایا تھا۔ 43میٹر بلند اس دروازے کو اکبر کی گجرات اور اتر پردیش میں فتوحات کی یاد میں تعمیر کروایاتھا۔ اس کی کمان پر قرآنی آیات کنندہ ہیں اس دروازے تک پہنچنے کیلئے 42 سیڑھیاں ہیں۔ یہ دروازہ 35 میٹرچوڑا ہے۔ دروازے کی چھت پر 13 چھتری نما گنبد ہیں۔ دروازہ 3 کمانوں پر مشتمل ہے۔ بلند دروازے سے داخل ہوتے ہی اس کے بائیں طرف ایک کنواں ہے اور سامنے درگاہ حضرت سلیم چشتی ؒ اور جامع مسجدہے۔ اس دروازہ میں داخل ہونے کی ایک اور نکلنے کی 3 کمانیں ہیں۔ یہ درگاہ جو مکمل سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے حضرت سلیم الدین چشتی (1478تا 1572) کی آخری آرامگاہ ہے۔ سنگ مرمر میں انتہائی باریک اور نفیس انداز سے تراشی ہوئی جالیوں سے اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حضرت سلیم چشتیؒ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ انہوں نے مہارانا پرتاپ کے خلاف ایک جنگ میں اکبرکی فوج کے شیخ زادہ دستے کی قیادت بھی کی تھی۔ تاریخ کے مطابق اکبراعظم لاولد تھا۔ 14 سال کی عمر میں ہی تخت پر بیٹھنے والے اکبر کو رقیہ بیگم سے ایک لڑکی (1561)ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھاگیا لیکن وہ نومولود ہی فوت ہوگئی۔ اس کے بعد دو بیٹے ہوئے جن کا نام حسن اور حسین رکھا گیا (1564) لیکن وہ بھی ایک ماہ میں چل بسے۔ اس کے بعد اکبر نے آگرہ سے سیکری تک کا پیدل سفر کیا اور حضرت شیخ سلیم الدین چشتی ؒ کی بارگاہ میں درخواست کی کہ وہ نرینہ اولاد کیلئے دعا کریں۔ ان کی دعاسے اکبرکے یہاں بیٹا ہوا جس کا نام نور الدین محمد سلیم رکھا گیا۔ (اکبر کو سلیم کے علاوہ دو اور بیٹے مراد(1569)اور دانیال (1572) تھے مراد 29 برس کی عمر میں اور دانیال 31 برس کی عمر میں کثرت شراب نوشی سے فوت ہوگئے۔ ان کے علاوہ اکبر کی 6 بیٹیاں بھی تھیں) اس مقبرے کے بائیں طرف مشرق کی سمت اسلام خان اول کا مقبرہ ہے جو حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے پوتے شیخ بدر الدین چشتی کے فرزند تھے۔ شیخ بدر الدین چشتی، جہانگیر کی فوج میں جنرل تھے۔ اس مقبرے پر 36 چھوٹی چھتریاں بنائی گئی ہیں جو گنبد کی شکل میں ہے یہاں کئی نامعلوم افراد کی قبور ہیں یہ تمام قبور شیخ سلیم چشتیؒ کے افراد خانہ کی بتائی جاتی ہیں۔ جامع مسجد 15711 میں حضرت سلیم چشتیؒ کی نگرانی میں مکمل کی گئی۔ اس وقت مولوی مکرم احمد اس شاہی مسجد کے امام ہیں جن کو بھی شاہی امام کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو اسلامی فن تعمیر کے طرز پر تعمیر کیا گیا۔ اس پر 5 چھتری نما گنبد ہیں۔ دیوان خاص: یعنی خاص محل یہ ایک چارکونی سادہ عمارت ہے جس کی چھت پر چاروں طرف چھتری نما گنبد بنائے گئے ہیں۔ لیکن یہ ایک درمیانی ستون کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ ستون چار کونی بنیاد پر ہے اور اس پر خوبصورت بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے اوپر ایک پلیٹ فارم ہے جہاں اکبربیٹھا کرتا تھا یہ پلیٹ درمیان میں معلق ہے اور اس کو چاروں کونوں سے ایک راستے کے ذریعہ ملایاگیاہے۔ یہاں اکبر کا خاص دربار لگتا تھا۔

دیوان عام اور نوبت خانہ 

یعنی عام دربار لگانے کی جگہ۔ یہ دربار ہر قلعہ میں ملتا ہے۔ فتح پور سیکری کا دیوان عام ایک کھلے میدان میں اسٹیج کے نمونے کا بنایا ہوا ہے جس پرکمانیں بنی ہوئی ہیں۔ دیوان عام کے جنوبی مغرب میں ترکی کے مشہور حمام بنے ہوئے ہیں۔ عبادت خانہ اکبر اعظم نے 1575میں یہ عبادت خانہ اس وقت بنوایا تھا جب اس نے جودھا بائی کے مشورے سے دین الہی کے نام سے نئے مذہب کی بنیاد ڈالی تھی۔ انوپ تلاو ایک مصنوعی تالاب ہے۔ اس پر سے گذر کر چند خاص محلات تک جانے کیلئے پُل بنے ہوئے ہیں۔ ان عمارتوں میں خواب گاہ یعنی اکبر کا خاص کمرہ، پنچ محل جو پانچ منزلہ عمارت ہے، دیوان خاص آنکھ مچولی اور دلچسپ کورٹ شامل ہیں۔ ہجرہ انوپ تلاؤ بتایاجاتا ہے کہ یہ اکبر کی بڑی بیگم رقیہ کا خاص کمرہ تھا چونکہ یہ چھوٹا کمرہ ہے اس لئے اسکے بارے میں وثوق سے کہنا مشکل ہے۔ مریم الزمانی (جودھا بائی) کا محل اکبرکی زندگی میں آنے والی راجپوت شہزادی جودھا بائی کی تاریخی اہمیت متنازعہ ہے۔ تاریخ میں اس خاتون کو اس لئے شہرت ملی کہ اس کو اکبر کے واحد وارث جہانگیر کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے لیکن تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ جودھا بائی نے کبھی اسلام قبول نہیں کیا اور اس کے کہنے پر ہی اکبر نے دین الہی مذہب کی بنیاد ڈال کر مسلمانوں کی نظروں میں مشکوک ہوگیا ۔ جودھا بائی کا محل گجراتی اور ہندو طرز تعمیر کا امتزاج ہے۔ ہاتھی پول گیٹ کے آگے یہ محل تعمیر کیا گیا۔ اس کو نقار خانہ بھی کہاجاتا ہے۔ یہاں موسیقار مختلف مواقعوں پر موسیقی بجاتے تھے۔ یہ مقام بھی ہاتھی پول گیٹ کے آگے ہے ۔ بادشاہ کی آمد کا اعلان بھی نقارہ بجا کر کیا جاتا تھا۔ یہ مقام کامپلکس کے جنوبی باب الداخلہ پر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دروازہ سے بادشاہ کی آمد ہوتی تھی۔



اکبرِ اعظم کے نورتن 

" نورتن" کا لُغت میں مطلب موتی ،ہیرا،یاقوت وغیرہ ہے لیکن بکرماجیت اور اکبرِ اعظم کے نورتن اُن 9قابل آدمیوں کی کونسل (موتیوں کی لڑی) کہلاتی ہے جنہوں نے اپنے اپنے دور کے آقاؤں کیلئے سلطنت کی وسعت کے ساتھ آئینی،عملی،ادبی وغیرہ جیسی خدمات بھی انجام دیں اور تاریخ میں اپنی الگ ہی شناخت چھوڑ گئے۔ بکرماجیت 375ء تا 413ء گپت خاندان کا تیسرا جنگجو راجہ تھا جس نے ہندوستان میں فتوحات کے ساتھ آریہ تہذیب و تمدن اور علم و ادب کو ازسرِ نو زندہ کیا تھا۔اسکے نورتن میں مشہورِ زمانہ شاعر و ڈرامہ نگار "کالی داس" کانام تو سب جانتے ہیں اسکے علاوہ وتیلا بھاٹا،وراہم ہرہ ،وارھرچی ،عمارسیماہ، دھن واتری ،شاپنکا،شانکو اور گھٹکا پارہ شامل تھے۔ترک و مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 14سال کی عمر میں اپنے والد بادشاہ ہمایوں کے انتقال کے بعد حکومت سنبھالی جس میں سب سے اہم کردار اُنکے اتالیق بیرم خان کا تھا۔اُنھوں نے اپنی سرپرستی میں انتہائی وفاداری کے ساتھ اُنھیں ہندوستان کے تخت پر بٹھایا اور پھر ہندوستان کے شورش زدہ علاقوں میں سازشوں کا سدِ باب کیا۔اسطرح بادشاہ اکبر نے 1556ء تا1605ء تک تقریباً پچاس سال ہندستان پر حکومت بھی کی اور اس دوران اپنی سلطنت کو وسعت دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اکبرِ اعظم بذاتِ خود تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن اعلیٰ دماغ کے مالک تھے اور انسان شناس بھی۔لہذا ہر مذہب کے فرد کو دربار تک رسائی حاصل تھی اور اُن میں سے سپاہیانہ،ذہانت،فطانت، ظرافت ،علم وحکمت اور فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک افراد اُنکے اہم درباری تھے۔اُنہی میں سے وہ "نورتن"بھی تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا۔لہذا اگر لُغت کے معنی پر غور کیا جائے تو کئی "موتی" تھے۔بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اکبر کیلئے کوئی ہیرا تھا ،کوئی زمرد،کوئی نیلم یا پکھراج یا کوئی یاقوت یا لعل تھا۔اسطرح عددی تعداد 9سے زیادہ ہونا کوئی حیران کُن بات نہیں ہے لیکن چونکہ نورتن سے مُراد محققین نے9ہی لی ہے لہذا اُن کے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ گو کہ وہ شہنشاہِ اکبر کے قابلِ اعتماد ساتھی تھے لیکن کوئی دُشمنوں کی سازش کی نظر ہوا تو کسی کو اپنوں نے ہی مروا ڈالا۔چند نے بڑھاپا غموں میں گزارتے ہوئے جان دی اور کوئی آخری دم تک بادشاہ کی خواہش کے مطابق ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ہی وفات پا گیا۔بہرحال اُنکی زندگی کے چند اہم پہلو ہی اُنکی وہ پہچان ہیں جسکی وجہ سے آج بھی اُنکا ذکر مختلف شعبوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔

راجا بیربل 

راجا بیربل اکبر اعظم کے نورتنوں میں سے ایک برہمن ہندو ۔نام مہیش داس ،ذات بھاٹ ۔ابتدا میں نہایت غریب اور پریشان حال تھے۔اکبر کی تخت نشینی پر دربار میں حاضر ہوئے اور اپنی لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی کی وجہ سے بادشاہ کا قُرب حاصل کر لیا۔اکبر اُنھیں صاحبِ دانشور کہا کرتے تھے ۔سنسکرت کے عالم تھے۔ بیربل مہم یوسف زئی (سوات و باجوڑ)کی لڑائی میں مارے گئے اور لاش نہ مل سکی ۔اس پر بادشاہ اکبر کو اتنا صدمہ ہوا کہ اُنھوں نے دو دن کھانا نہیں کھایا۔

ابوالفیض فیضی 

ابوالفیض فیضی دربار اکبری کے رتن،شیخ مبارک کے بیٹے ، ابوالفضل کے بڑے بھائی ،بلند خیال شاعر اور شگفتہ مزاج عالم تھے۔ قرآن مجید کی تفسیر سواطع الالہام تحریر کی جس میں نقطے والا کوئی حروف نہیں لکھا۔بارھویں صدی کے ثمر قند کے نظامی گنجوی کی مشہورِ زمانہ خمسہ ء نظامی (پانچ مثنویوں) کے جواب میں مثیویاں لکھ ڈالیں۔ہندوؤں کی اہم کتاب مہا بھارت کا ترجمہ فارسی میں کیا۔اپنی علم و حکمت کی وجہ سے شہزادوں کے اتالیق بھی رہے۔ دمہ کی بیماری میں52سال کی عمر میں انتقال ہوا۔

ابو الفضل 

ابو الفضل 1572ء میں اپنے بڑے بھائی فیضی کے ساتھ دربارِ اکبری میں باریاب ہوئے اور 1600ء میں منصبِ چار ہزاری پر فائز ہوئے۔اپنے وقت کے علامہ اور بلند پایہ مصنف تھے۔علامی تخلص تھااور آزاد خیال فلسفی ہونے کی وجہ سے علماء اُنھیں دہریہ سمجھتے تھے۔اسی لیئے اکبر کے "دین الٰہی" کے اجراء کا سبب اُنہی کو گردانا جاتا ہے۔"اکبر نامہ" اور" آئین اکبری" اہم تصانیف اور خطوط کا مجموعہ" مکتوبِ علامی "فارسی ادب کا شکار سمجھا جاتا ہے۔شہزادہ سلیم (جہانگیر)کا خیال تھا کہ ابو الفضل اُسکے بیٹے خسرو کو ولی عہد بنانا چاہتے ہیں لہذااُنکے اشارے پر راجہ نر سنگھ دیو نے 53سالہ ابو الفضل کو اُس وقت قتل کر دیا جب وہ دکن سے لوٹ رہے تھے۔اعلیٰ ترین خوبی یہ تھی کہ کمال کے واقعہ نویس تھے۔

تان سین 

تان سین دربارِاکبری کے ایک ایسے اہم نورتن تھے جنکا نام آج بھی ہندوستان کے موسیقارِ اعظم کی حیثیت میں ہر ایک کی زبان پر ہے۔برصغیرِ کی کلاسکی موسیقی اُنکے راگوں پر ہی زندہ ہے۔ لہذا اُنکے بعد آنے والے اُستادوں نے راگ ودیا میں تبدیلی نہیں کی۔"دھرپت راگ" کو موجودہ فنی شکل تان سین نے ہی دی تھی۔درباری کانٹرا ،میاں کی ملہار اور میاں کا سا رنگ جیسے راگ بھی اُنہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ وفات پر اکبر نے بھی جنازے میں شرکت کی۔

عبدالرحیم 

عبدالرحیم نام تھا اور خان خاناں خطاب۔بیرم خان کے فرزند تھے اور لاہور میں پیدا ہوئے۔والد کے قتل کے بعد جب ابھی اُنکی عمر 5سال تھی تو بادشاہ اکبر نے اُنھیں اپنے پاس بُلا لیا اور شہزادوں کے ساتھ پرورش کی۔ 20سال کی عمر میں شہزادہ سلیم (جہانگیر)کا اتالیق بنایا گیا۔ نہایت حسین تھا۔ مختلف معرکوں میں سپاہیانہ جوہر دکھائے اور کئی بغاوتوں کو ناکام کیا۔بہادر سپاہی ،عالم فاضل اور عربی،فارسی،ترکی ،سنسکرت کے ماہر تھے۔ہندی میں شعر کہتے تھے۔ان سب خوبیوں کی وجہ سے اہم نورتن رہے۔ اُنکی وفات بادشاہ جہانگیر کے دور میں ہوئی۔

راجہ مان سنگھ 

راجہ مان سنگھ برہمن ہندو تھے۔اُنکی وفاداری اور ملنساری اکبر بادشاہ کے دل پر نقش ہو گئی۔اُنکی رفاقت نے بادشاہ کو اپنائیت اور محبت سکھائی۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اُنکی وجہ سے اکبر بادشاہ کو ہندوستان میں پذیرائی حاصل ہوئی اور تیموری خاندان کی بنیاد بھی مضبوط ہوئی۔بہادری اور جوانمردی میں اپنی مثال آپ تھے لہذا سپہ سالار بھی مقرر ہو ئے اور بادشاہ اکبر کے ساتھ مل کر مغل حکومت کی وسعت میں اہم ذمہ داریاں نبھائیں۔جہاں بھی لشکر لیکر گئے کامیابی نے قدم چومے۔اُنکی بہن کی شادی جہانگیر سے ہوئی اور پھر جہانگیر کے بیٹے خسرو کے اتالیق بھی مقرر ہوئے۔اس خوش اخلاق اور ملنسار نے غموں سے نڈھال ہو کر وفات پائی۔

مُلا دوپیازہ 

مُلا دوپیازہ کا اصل نام ابوالحسن اور پیدائش طائف نزد مکہ مکرمہ (عرب) کی تھی۔والد سوتیلی ماں سے اختلاف کی بنا پر گھر چھوڑ گئے تو اُنکی تلاش میں قافلہ در قافلہ سفر کرتے ہوئے ایران پہنچ گئے۔وہاں سے مغل فوج میں تعلق کی بناپرہندوستان آگئے اور ایک مسجد میں قیام کر لیا۔اپنی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی سے شہر میں شہرت ہوئی تو ایک دعوت پر مدعو ہونے پر کھانا بہت پسند آیا ۔کھانے کا نام پوچھا تو جواب ملا کہ" دوپیازہ پلاؤ"۔اُنھوں نے کہا کہ آئندہ کسی بھی دعوت میں شرکت پر اس کھانے کی تمنا ہو گی۔بس وہاں سے ہی اس نام سے مشہور ہوگئے ۔اُنکی خوش خلقی سے فیضی بھی متاثر ہوئے اور اُنکی رسائی دربارِ اکبری تک کروا دی۔ دُنیا کی ٹھوکروں نے عملی طورپر معاملہ فہم بھی بنا دیا تھا لہذا جلد ہی اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اہم رُتبہ حاصل کر لیا۔60برس کی عمر میں بیماری کی وجہ سے انتقال ہوا۔

راجہ ٹو ڈرمل 

راجہ ٹو ڈرمل ذات میں کھتری ہندواور دربارِ اکبری میں مقام 22صوبوں کا دیوانِ کُل اور وزیر باتدبیر تھے۔بیوہ ماں کی دُعاؤں سے اعلیٰ رُتبہ پایا۔سپاہ گیری اور سرداری کے جوہر نے بھی اُنکی اہمیت اُجاگرکی ۔پابندیِ آئین احکام میں کسی کو رعایت نہیں دیتے تھے لہذا اُن پر سخت مزاجی کا الزام تھا۔لیکن اہم خوبی یہ تھی کہ ہر معاملے کی تہہ تک پہنچ کر حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔اس وجہ سے قابل،معاملہ فہم اور دانشمند کہلائے۔بڑھاپے میں بیماری کی وجہ سے وفات پائی۔

مرزا عزیز کوکلتاش 

مرزا عزیز کوکلتاش کی والدہ نے اکبر کو بھی دودھ پلایا تھا لہذا وہ اکبر بادشاہ کے رضاعی بھائی کہلائے اور اس وجہ سے اُنکا احترام بھی بہت تھا۔خان اعظم کا خطاب بھی حاصل ہوا۔ بادشاہ ہر وقت اُنھیں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور ہاتھی پر سواری کے وقت اُنھیں خواصی پر بیٹھاتے تھے۔ ایک طرف سخاوت و شجاعت کی وجہ سے درباری پسند کرتے تھے تو دوسری طرف غصے و سخت مزاج کی وجہ سے چند اچھے انسان اُن سے نالاں بھی تھے۔ وہ سچی بات بادشاہ کے سامنے کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔کیا کرتے فطرت ہی ایسی تھی۔ طبعیت میں زمانہ سازی بالکل نہ تھی۔ سپاہی کمال کے تھے ۔علمی وعملی صلاحیتوں میں عالمانہ مقام تھا۔فارسی کے ماہر تھے۔طبعی موت پائی۔اسکے علاوہ چند اور بہت اہم نام ہیں جنکو اکبر کے نورتن ہی شمار کیا جاتا ہے۔ وہ شیخ مبارک،حکیم حمام،منعم خان اور شیخ عبدالقادر بدایونی ہیں۔

اکبرِ اعظم اور مہارانا پرتاپ سنگھ 

پرتاپ سنگھ کے بیٹے امر سنگھ نے مان سنگھ کا استقبال کیا لیکن مہارانا پرتاپ نے پیٹ میں درد کے بہانے اس شاہی ضیافت میں شرکت نہیں کی۔ اس ضیافت کا ذکر کرتے ہوئے جیمز ٹوڈ اپنی کتاب 'اینلس اینڈ اینٹيكويٹيز آف راجستھان' میں لکھتے ہیں: 'مان سنگھ نے کہا کہ مجھے پیٹ میں درد کا بہانہ اچھی طرح معلوم ہے۔ میں اس وقت تک ایک بھی نوالہ اپنے منہ میں نہیں ڈالوں گا، جب تک پرتاپ میرے سامنے تھالی نہیں رکھتے، پھر ہم ایک تھالی میں ساتھ مل کر کھائیں گے۔' 'پرتاپ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ایسے راجپوت کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے جس نے اپنی بوا (پھوپھی) کو شادی میں ترکوں کو دے دیا۔' اس واقعے کا ذکر نہ تو ابوالفضل نے 'اکبرنامہ' میں اور نہ ہی عبدالقادر بدایونی نے اپنی کتاب 'منتخب التواریخ' میں کیا ہے۔ البتہ 'امرکاویہ ونشاولی' میں راج رتناکر نے اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: 'جب مان سنگھ درمیان میں ہی ضیافت چھوڑ کر اٹھنے لگے تو پرتاپ نے ان پر طنز کیا کہ انھیں اپنے پھوپھا اکبر کے ساتھ وہاں آنا چاہیے تھا۔' 'مان سنگھ کے جانے کے بعد پرتاپ سنگھ نے ان برتنوں کو دھلوايا جس میں مان سنگھ کو کھانا پیش کیا گيا تھا، تاکہ ان کی نظروں میں اس گناہ کو دھویا جا سکے جو انھوں نے اپنی پھوپھی کو شہنشاہ کو شادی میں دے کر کیا تھا۔'

جگمال کو اپنا وارث بنایا 

مان سنگھ سے پہلے ان کے والد بھگونت داس اور اکبر کے نورتنوں میں سے ایک راجہ ٹوڈرمل بھی اکبر کی طرف سے مہارانا پرتاپ کو منانے آ چکے تھے، لیکن انھیں بھی کامیابی نہیں ملی تھی۔ 28 فروری سنہ 1572 کو رانا اودے سنگھ کی موت سے پہلے، اس نے اپنے نویں بیٹے جگمال کو اپنا جانشین بنایا، اگرچہ رانا پرتاپ ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ میواڑ کے وزیروں اور درباریوں نے بالاخر رانا پرتاپ کو ہی تخت نشین کرایا۔ 'مہارانا پرتاپ - دی انونسیبل واریئر' کی مصنفہ ریما ہوجا بتاتی ہیں کہ 'رانا اودے سنگھ نے 20 سے زائد شادیاں کی تھیں۔ رانا پرتاپ ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے 25 بھائی اور 20 بہنیں تھیں۔ جب اودے سنگھ کی موت ہوئی تو پرتاپ روایت کے مطابق ان کے منھ میں آگ دینے نہیں گئے، کیونکہ اس وقت تک میواڑ میں یہ رواج تھا کہ سب سے بڑا بیٹا باپ کی آخری رسومات کے وقت محل میں ہی رہتا تھا، تاکہ اگر کوئی دشمن اس وقت حملہ کر دے تو وہ اس سے نمٹ سکے۔

کریمیائی تاتار 

کریمیائی تاتار ایک ترک نسلی گروہ ہے جو جزیرہ نما کریمیا کی مقامی آبادی ہے۔ 1944ء میں سوویت اتحاد کے تحت کریمیائی تاتاریوں کی جبری ملک بدری کی گئی۔ اور اب وہ اپنی آبائی زمین میں 12 فیصد اقلیت کے طور پر ہیں۔ ان میں زیادہ تر ترکی اور ازبکستان ہجرت کر گئے تھے۔

خانیت کریمیا 

خانیت یا خانات ایک تورک لفظ ہے جو ایک خان کے ماتحت کسی سیاسی وجود کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ریاستِ خانان کریمیا یا خانیت کریمیا 1441ء سے 1783ء تک کریمیائی تاتار مسلمانوں کی ایک ریاست تھی، جس کا مقامی نام "قرم یورتی" تھا جبکہ ترک اسے “قرم خانلغی“ کہتے تھے خانان کریمیا کی یہ ریاست آلتن اوردہ کے خاتمے پر قائم ہونے والی ترک خانان کی ریاستوں میں سب سے زیادہ طویل عرصہ تک قائم رہنے والی حکومت تھی۔ یہ دشت قپچاق (موجودہ یوکرین و جنوبی روس کے میدانی علاقوں)میں سلطنت آلتن اوردہ کے اُن مختلف قبائل نے مل کر تشکیل دی جو کریمیا کو اپنی سرزمین بنانا چاہتے تھے۔ اس امر کے لیے انہوں نے حاجی گیرائے کو اپنا حکمران مقرر کیا اور 1441ء میں ایک آزاد ریاست قائم کی۔ یہ سلطنت جزیرہ نما کریمیا اور دشت قپچاق پر مشتمل تھی۔ حاجی گیرائے کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں میں تخت کے لیے کشمکش شروع ہو گئی اور یوں 1478ء میں سلطنت عثمانیہ کے زیر تحفظ چلی گئی جو اس وقت بحیرہ اسود کے ساحلی علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہی تھی۔ سلطنت عثمانیہ اور خانان کریمیا کے تعلقات انتہائی خوشگوار تھے، حالانکہ منتخب خان کو سلطان سے منظوری لینا پڑتی تھی لیکن وہ قسطنطنیہ کا مقرر کردہ نہیں ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں خارجہ پالیسی میں بھی وہ کسی حد تک عثمانی اثر سے آزاد تھے۔ خانان کو اپنے سکے چلانے اور خطبۂ جمعہ میں اپنا نام شامل کرنے کی بھی اجازت تھی جو ان کی سالمیت کی ایک اہم علامت تھی۔ وہ سلطنت عثمانیہ کو کسی قسم کا خراج نہیں دیتے تھے بلکہ اس کے برعکس عثمانی انہیں فوجی خدمات کے عوض ادائیگی کرتے تھے۔ 1502ء میں خانان کریمیا نے آلتن اوردہ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور اس کی جانشیں قرار پائی۔ اس کے نتیجے میں ماسکوی کی ننھی ریاست سے محاذ آرائی بھی شروع ہو گئی اور 1571ء میں دولت اول گیرائے کی زیر قیادت ایک کامیاب مہم میں روسی دار الحکومت کو نذر آتش کر دیا گیا۔ 1532ء میں ریاست کا دار الحکومت سلاچق سے باغچہ سرائے منتقل کر دیا گیا۔ خانان کریمیا کی سلطنت بلاشبہ 18 ویں صدی تک مشرقی یورپ کی طاقتور ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ کریمیائی تاتار مسلمانوں نے سلطنت اسلامیہ کی سرحدوں کے دفاع کے لیے، خاص طور پر ماسکوی اور پولش ریاستوں کے خلاف، ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔ خانان کریمیا کی سلطنت کا زوال سلطنت عثمانیہ کے زوال سے منسلک ہے اور جیسے جیسے مشرقی یورپ میں طاقت کا توازن مسیحی سلطنتوں کے حق میں بڑھتا گیا ویسے ہی مسلم ریاستیں تیزی سے تنزلی کی جانب بڑھنے لگیں۔ جدید اسلحہ کی کم یابی کے باعث تاتاری مسلم افواج یورپی اور روسی جدید افواج کے سامنے شکست کھانے لگیں۔ 17 ویں صدی کے اواخر میں ماسکوی کی ریاست اتنی مضبوط ہو گئی کہ وہ کریمیا کو کچل سکتی تھی۔ 18 صدی کے وسط میں روس ترک جنگوں کے دوران روسی و یوکرینی افواج کریمیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئیں اور بالآخر ملکہ کیتھرائن ثانی کے دور میں معاہدہ کوچک کناری کے نتیجے میں خانان کریمیا کی سلطنت عثمانی اثر سے نکل گئی اور روسی سلطنت اس پر حاوی ہو گئی۔ آخری خان شاہین گیرائے کے دور میں روسی اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا اور کیتھرائن نے انتہائی چالاکی سے جو منصوبہ تیار کیا تھا اس کے عین مطابق 8 اپریل 1783ء کو معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کریمیا کو سلطنت روس میں شامل کر لیا۔

ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺗﺮکوں ﮐﺎ ﻗﻮﻣﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ 

ویسے تو بھیڑیا ایک بدنام جانور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی بدنامی میڈیا ٹرائل کا نتیجہ ہے یہ بدقسمت جانور جانے کس تعصب کا نشانہ بن کر معتوب ٹہراہے حالانکہ حقیقت میں بھیڑیا ایک انتہائی منتظم ، نیک خصلت اور عزت نفس سے مالا مال درندہ ہے بھیڑیا کی سب سے منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ دنیا واحد جانور ہے جو جنات کو قتل کرسکتا ہے بھیڑیا کی تیز آنکھوں میں جنات کو دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے ۔جن کو دیکھتے ہی بھیڑیا اس پرجھپٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے بھیڑیا کی اس صلاحیت کے سبب بھیڑیوں کی موجودگی والے علاقوں میں جنات کو جان بچا کر رہنا پڑتاہے بھیڑیا ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ کا ﻏﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺷﯿﺮ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ تیز اور پھرتیلی ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ جانوروں کے شاہی خاندان سے تعلق ہونے کی نسبت بھیڑیا مردار کھانے کو عیب سمجھتا ہے ﺍﻭﺭ یہی ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮬﮯ جدید سائنس کے مطابق بھیڑیا ایک انتہائی منتظم ، نیک خصلت اور عزت نفس سے مالا مال درندہ ہے بھیڑیا دیگر جانوروں کی طرح زواج محارم میں ملوث نہیں ہوتا ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮬﯽ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﺆﻧﺚ ﭘﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮏ نہیں ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﻧﺚ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺆﻧﺚ بھیڑیا ﺑﮭﯽ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﮐﮭﮍﺍ بطورِ ماتم ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ "ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺒﺎﺭ" ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ، ﯾﻌﻨﯽ 'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ' اس لیئے ﮐﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺟﺐ اس کے ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮬﻮﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ یہ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ، ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ، ﺧﻮﺩﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ حسنٍ ﺳﻠﻮﮎ مشہور ﮬﯿﮟ. ﺑﮭﯿﮍﺋﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ بطورٍ کارواں ﻣﯿﮟ کچھ یوں ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ؛

ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺟﻮ ﺑﻮﮌﮬﮯ، ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ بطورِ ابتدائی طبی امداد ‏(ﻓﺮﺳﭧ ﺍﯾﮉ) ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ، ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ (ہنگامی دستہ) ﭼﺎﮎ ﻭ ﭼﻮﺑﻨﺪ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ.
ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﺎﻡ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﻗﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺭﮬﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ‏"ﺍﻟﻒ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﯿﻼ 'ﮬﺰﺍﺭ' ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔

ﺍﯾﮏ ﺳﺒﻖ ﺟﻮ ﺑﺎﻋﺚ ﻋﺒﺮﺕ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍیئے ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ بہترﯾﻦ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮦ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍسی لیئے ﺗﺮﮎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺮکوں ﮐﺎ 'ﻗﻮﻣﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ' بھی ﮨﮯ.

بھیڑئیے کی عادات و مزاج 

یہ کسی بڑے جانور کا تعاقب کرتے ہیں۔ شکار کا تعاقب کرتے وقت بھیڑیوں کی رفتار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ زبان باہر نکالے پوری قوت سے دوڑتے ہیںا ور جب تک شکار نڈھال ہوکر گر نہیں پڑتا اس وقت تک اس کا پپچھا نہیں چھوڑتے بھیڑئیے کا شمار کراہ ارض پر پائے جانے والے قدیم ترین جانوروں میں ہوتاہے۔ ماہرین حیوانات کے مطابق یہ دراصل جنگلی کتا ہے جو صحراؤں اور جنگلوں میں رہنے کے باعث قدوقامت کے لحاظ سے بڑا ہوگیا ہے۔ دنیا کی قدیم ترین لوک کہانیوں میں بھیڑیے کا ذکر جابجا موجود ہے اور اسے ہر جگہ مکاری‘ چالاکی اور درندگی کے روپ میں پیش کیا گیا ہےگویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ابتدا سے ہی بھیڑیے کو اپنادشمن سمجھتا اور اس سے خوف کھاتا چلا آتا ہے۔ اس کی خون آشامی اور وحشت کے بے شمار قصے ہرزبان میں مل جائیں گے۔ اگرچہ اب جدید علم سائنس کی رو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بھیڑیا اتنا موذی اور خونخوار نہیں جتنا کہ مشہور ہے۔ وہ خود آدمی سے ڈرتا ہے اور اس پر خواہ مخواہ حملہ نہیں کرتا بلکہ محض اپنے بچاؤ اور حفاظت کیلئے حملہ کرتا ہے ایسے شخص نے جو پولینڈ اور روس میں پائے جانے والے بھیڑیوں کی فطرت کا خاصا گہرا مطالعہ کرچکا تھا‘ ایک مرتبہ بتایا کہ برفانی علاقوں میں جبکہ بہت سے لوگ پھسلنے والے تختوں پر سفر کرتے ہیں‘ ان کے بارے میں کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ بھیڑیوں نے ان پر حملہ کیا ہو۔ البتہ یہ دیکھا ہے کہ دس دس‘ بیس بیس بھیڑیوں کے گروہ ان مسافروں کا تعاقب ضرور کرتے ہیں لیکن انہیں ہلاک کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ محض اس لالچ میں کہ جب یہ مسافر کہیں قیام کرکے روانہ ہوں گے تو پیچھے بچی کھچی خوراک بھیڑیوں کو مل جائے گی۔ بھیڑیا‘ یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ اور ایشیا کے براعظموں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ براعظم انٹار کٹیکا میں سفید رنگ کا بھیڑیا ملتا ہے۔ ان کی شکل و صورت‘ رنگ اور قدو قامت میں بھی نمایاں فرق ہوتا ہے۔ دم سمیت اس کا قد پانچ فٹ سے لے کر سات فٹ تک دیکھا گیا ہے۔ مادہ بھیڑیا‘ نر کے مقابلے میں کسی قدر چھوٹی ہوتی ہے۔ بھیڑیے کی کھال نرم‘ بالوں سے بھری بھری اور کسی قدر سیاہ مائل بھوری ہوتی ہے لیکن اس رنگ کے علاوہ بالکل سیاہ‘ سرخ‘ خاکی اور سفید بھیڑیے بھی ملتے ہیں۔ یہ اپنے سے دوگنی قوت کے حیوان کو آسانی سے شکار کرلیتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بھیڑیا بارہ سنگھے‘ ہرن اور گھوڑے کو بھی مار گراتا ہے۔ اس کے دانت نہایت لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں۔ جن کی مدد سے یہ آناً فاناً اپنے شکار کی بوٹیاں کرڈالتا ہے۔ بھیڑیا اکیلا باہر نہیں نکلتا بلکہ دس دس‘ پندرہ پندرہ کے گروہ کی شکل میں شکار کو نکلتے ہیں اور پھر یہ کسی بڑے جانور کا تعاقب کرتے ہیں۔ شکار کا تعاقب کرتے وقت بھیڑیوں کی رفتار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ زبان باہر نکالے پوری قوت سے دوڑتے ہیں اور جب تک شکار نڈھال ہوکر گر نہیں پڑتا اس وقت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھیڑیے آپس میں ایک دوسرے کو ہڑپ کرجاتے ہیں لیکن یہ حادثہ اس صورت میں پیش آتا ہے کہ انہیں تلاش کے باوجود غذا نہ ملے یا بارش اور برف باری کے باعث وہ کسی غار میں قید ہوجائیں۔۔۔۔ تب وہ بھوک سے تنگ آکر ایک دوسرے پر حملہ کردیتے ہیں۔ چنانچہ کمزور بھیڑیوں کو طاقتور بھیڑیے کھاجاتے ہیں بھیڑیا تین اور چار سال کی عمر میں بالغ ہوجاتا ہے اورجب نر بھیڑیا ایک مرتبہ جس مادہ کو پسند کرلے‘ تمام زندگی اسی کےساتھ بسر کرتا ہے اور کسی دوسرے بھیڑیے کو اس کے نزدیک آنے نہیں دیتا۔ دسمبر اور اپریل کےدرمیانی عرصے میں مادہ بھیڑیا بچے دیتی ہے۔ حمل قرار پانے کے 63دن بعد بچے پیدا ہوتے ہیں جن کی تعداد بیک وقت چار سے چودہ تک ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’خاندان‘‘ میں شریک تمام بھیڑیے ان ننھے منے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں شکاریوں کے تجربات ومشاہدات کے مطابق بھیڑیے وسیع وعریض علاقے میں گھومنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ بعض اوقات دن میں پچاس پچاس میل کا چکر آسانی سے لگالیتے ہیں۔ جن راستوں سے وہ ایک بار گزر جائیں انہیں کبھی نہیں بھولتے۔ عموماً وہ اپنے بھٹوں سے رات کے وقت نکلتے ہیں اور چاندنی راتوںمیں تو اکثر ان کے گروہ ساری ساری رات پھرتے رہتے ہیں۔

جنگِ کرنال 

جنگِ کرنال (24 فروری 1739ء) ترک و مغل بادشاہ ابو الفتح نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ اور شاہ ایران نادر شاہ ترک کے درمیان دہلی سے تقریباً 110 کلومیٹر کم دوری پر کرنال کے مقام پر پیش آئی۔ نادر شاہ نے جنگی حکمت عملی اور جدید ہتھیاروں کی مدد سے محمد شاہ کی کثیر مگر بے نظم فوج کو شکت فاش دی اور دلی میں فاتحانہ داخل ہوا۔ اس جنگ میں مغل سلطنت کو خاصہ نقصان ہوا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ کی فوج 100،000 سے اوپر بتائی جاتی ہے جبکہ نادر شاہ کے پاس صرف 55000 لیکن انتہائی منظم و تربیت یافتہ فوج تھی۔ مغل فوج کو اس جنگ میں شکست فاش ہوئی اور محمد شاہ نے ھتیار ڈال دیے۔ نادر شاہ اپنی فوج کے ساتھ دلی میں داخل ہوا۔ اس دوران میں نادرشاہ کی فوج کی لوٹ مار اور کچھ فوجیوں کے قتل کے واقع کی بنا پر نادر شاہ نے قتل عام کا حکم دے دیا۔ اس قتل عام میں کثیر ہلاکتیں ہوئیں اور لوٹ مار اور غارت گری نے دلی کو برباد کر کے رکھ دیا۔ مغل حکومت کی اس شکست اور غارت گری کے بعد نادر شاہ واپس چلا گیا مگر محمد شاہ اور اس کے نااہل امرا حکومت کا نظم و نسق نہ سنبھال سکے بلکہ حالات اور بدتر ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ سکھوں اور مرہٹوں نے پھر سر اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ دیہاتوں اور شہروں کو تاراج کرتے رہے لیکن مغل حکمران نادر شاہ کے ہاتھوں شکست کے بعد رہی سہی فوجی قوت بھی کھو چکے تھے لہٰذا وہ ان بغاوتوں کا سددِ باب کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔

تتائج 

قتل و خون نادر شاہ مئی 1739 کے شروع میں دہلی سے چلا گیا۔ وہ جنگی جانور اور خزانہ اتنا ساتھ لے گیا کہ تین سال تک ایران میں ٹیکس نہیں لیا۔ اندارہ ہے کہ خزانہ 70 کروڑ کی لاگت کا تھا۔ مغلیہ سلطنت کے لیے یہ بہت بڑا دھکا تھا۔

خانیت چغتائی 

خانیت چغتائی ایک تورک خانیت تھی جس کا حکمران چنگیز خان کا دوسرا بیٹا چغتائی خان اور بعد میں اس کی اولاد تھی۔

چغتائی زبان 

چغتائی یا جغتائی زبان کبھی وسطی ایشیا میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی تھی بیسویں صدی کے اوائل تک یہ علم و ادب کی بڑی زبان تھی مگر پھر یہ ناپید ہو گئی یہ زبان تورک زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور برصغیر کے ابتدائی تیموری حکمرانوں کی مادری زبان تھی بادشاہ بابُر نے بابر نامہ اسی زبان میں لکھا مرزا غالبؔ کے آباؤاجداد یہی زبان بولتے تھے یہ ہندی اور اردو پر خاصی اثرانداز ہوئی نظام الدین علی شیر نوائی چغتائی زبان کے نمائندہ شاعر اور لکھاری تھے علاوہ ازیں وہ سیاست دان، ماہرِ لسانیات، صوفی اور مصور تھے وہ نو فروری 1441ء کو ہرات میں پیدا ہوئے اور تین فروری 1501ء کو وفات پائی ہرات ان دنوں تیموری سلطنت میں شامل تھا چغتائی زبان اوزبیک اور اویغور کی پیش رو ہے اسے قدیم اوزبیک اور قدیم اویغور بھی کہا جاتا ہے اس کا رشتہ تورک زبانوں کے خاندان قارلوق سے ہے یہ اس قدیم تورک زبان سے برآمد ہوئی جو کسی زمانے میں وسطی ایشیا میں رابطے کی زبان تھی اس پر عربی اور فارسی دونوں کا بہت اثر پڑا تیموری سلطنت میں اس نے عروج پایا بیسوی صدی کے اوائل تک سوویت اصلاحات سے قبل یہ وسطی ایشیا میں علم و ادب کی زبان رہی 1921ء میں جب اوزبیکستان سوویت یونین کا حصہ بن چکا تو چغتائی کے بجائے مقامی اوزبیک لہجے کو ترویج دی گئی چین کے چِنگ سلسلۂ شاہی (1644ء تا 1912ئ) نے چین میں بولی جانے والی جن بڑی زبانوں کی لغات تیار کرنے کے احکامات جاری کیے تھے ان میں چغتائی بھی شامل تھی تورکی کی یونیورسٹیوں میں چغتائی تورکی اب بھی پڑھائی جاتی ہے اور اسے تورک ورثے کا حصہ سمجھا جاتا ہے یہ بات دھیان میں رہے تو اعلیٰ کہ برصغیر کے مسلمانوں پر ترکوں نے صدیوں حکومت کی ہے ’’اردو‘‘ خود تورکی زبان کا لفظ ہے اور تورک آج بھی شلوار کو شلوار کہتے ہی نہیں دیہاتوں میں پہنتے بھی ہیں محمود غزنوی بھی تورک تھا اور تیموری بھی تورک تھے جن کے دربار کی زبان فارسی لیکن گھریلو زبان تورکی ہی تھی بابُر نے اپنی سوانح بھی تورکی زبان میں ہی لکھی تھی اور بیچ میں جو امیر تیمور آیا وہ بھی برلاس تھا اور برلاس بھی ترکوں کا ہی ایک قبیلہ تھا امید ہے اس مختصر سی تمہید کے بعد یہ سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہو گا کہ تورکی اور ترکوں کے ساتھ ہمارا کیا رشتہ ہے۔

پانی پت کی پہلی لڑائی 

ترک و مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے درمیان 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان میدان جنگ میں ناکام ہوا۔ اور فوج تتر بتر ہو گئی۔ پانی پت کی جنگ کے بعد ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔

پانی پت کی دوسری لڑائی 

ہمایوں کی وفات کے بعد اکبر اعظم کی تخت نشینی کا اعلان ہوا تو ہیموں بقال نے جو عادل شاہ کا وزیر اور بڑا صاحب قوت و اقتدار تھا نے دہلی پر قبضہ کرنا چاہا۔ بیرم خان نے اس کی مزاحمت کی۔ نومبر 1556ء میں پانی پت کے میدان میں دنوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ خون ریز معرکے کے بعد بیرم خاں کو فتح ہوئی اور ہیموں بقال زخمی ہو کر گرفتار ہو گیا۔

پانی پت کی تیسری لڑائی 

یہ جنگ افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے سداشو راؤ بھاؤ درمیان 1761ء میں ہوئی۔ مرہٹے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مرہٹے جنگجو اور بہت بہادر لوگ تھے۔ نسل در نسل مغلوں کے مظالم برداشت کرنے کے بعد مرہٹے اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور مغلوں کو درجنوں جنگوں میں شکست دی۔ مغل شہزادے جانشینی کی جنگیں لڑتے رہے اور مرہٹے اپنی فوجی طاقت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ 1755ء میں دہلی تک پہنچ گئے مغل بادشاہ ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ 1760ء تک مرہٹے پاک و ہند کے بڑے حصے کو فتح کر چکے تھے۔ ان کے سردار رگوناتھ نے مغلوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا۔ پھر لاہور پر قبضہ کرکے اٹک کا علاقہ فتح کر لیا۔ انہوں نے لال قلعہ دہلی کی سونے کی چھت اترواکر اپنے لیے سونے کے سکے بنوائے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ دہلی کی شاہی مسجد کے منبر پر رام کی مورتی رکھیں گے جس سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمان سردار نجیب الدولہ نے احمد شاہ ابدالی کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے ہندوستان پر حملہ کی دعوت دی اور مالی وعسکری مدد کا یقین دلایا۔ مرہٹہ مقبوضہ علاقہ جات احمد شاہ ابدالی کی ملکیت تھے ان کا حاکم احمد شاہ درانی کا بیٹا تیمور شاہ تھا جسے شکست دے کر مرہٹوں نے افغانستان بھگا دیا اب احمد شاہ درانی نے اپنے مقبوضات واپس لینے کے لیے چوتھی مرتبہ برصغیر پر حملہ کیا۔ 14 جنوری 1761ء کو پانی پت کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ یہ جنگ طلوع آفتاب سے شروع ہوئی جبکہ ظہر کے وقت تک ختم ہو گئی روہیلہ سپاہیوں نے بہادری کی داستان رقم کی۔ ابدالی فوج کے سپاہیوں کا رعب مرہٹوں پر چھایا رہا ان کے تمام جنگی فنون ناکام ہو گئے۔ فریقین میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد سپاہی مارے گئے جن مین زیادہ تعداد مرہٹوں کی تھی مرہٹوں سے نفرت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب مرہٹے شکست کھاکر بھاگے تو ان کا پیچھا کرکے انہیں مارنے والوں میں مقامی افراد کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی شامل تھیں اس جنگ میں مرہٹوں نے عبرت ناک شکست کھائی اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی جنگی میدان میں فتح حاصل نہ کرسکے۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پہنچ کر شہزادہ علی گوہر کو دہلی کے تخت پر بٹھایا اور دو ماہ بعد واپس چلا گیا۔

نتائج 

مرہٹوں کا خاتمہ ہو گیا ان کی طاقت مکمل طور پر توڑ دی گئی۔ ہندوستان پر ان کی حکومت کی خواہش اور شاہی مسجد دہلی کے منبر پر رام کی مورتی لگانے کا خواب بکھر گیا۔ مرہٹوں کے 27سردار مارے گئے۔ وہ دوبارہ اٹھنے کا قابل نہ رہے مگر مغلوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ دوبارہ اپنا اقتدار مضبوط کریں۔ ان کی کمزوری سے فائدہ انگریزوں نے اٹھایا انہوں نے باآسانی مرہٹہ سرداروں کو شکست دے کر اپنی حکومت مضبوط کی۔

تیموری سلطنت 

تاریخ میں دو سلطنتیں تیموری سلطنت کہلاتی ہیں جن میں سے پہلی امیر تیمور نے وسط ایشیا اور ایران میں تیموری سلطنت کے نام سے قائم کی جبکہ دوسری ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے نام سے قائم کی۔

امیر تیمور 

اس سلطنت کا بانی امیر تیمور تھا جس کا چنگیز خان کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔ وہ دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز میں 1336ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اچھا سپاہی اور بے مثل سپہ سالار تھا۔ وہ ترکستان اور موجودہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہونے کے بعد 1366ء میں بلخ میں تخت نشین ہوا۔ بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک پورے 37 سال جاری رہا۔ تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ اگلے چند سالوں میں اس نے کاشغر، خوارزم، خراسان، ہرات، نیشاپور، قندھار اور سیستان فتح کر لیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا جو "یورش سہ سالہ" کہلاتی ہے اور اس مہم کے دوران ماژندران اور آذربائجان تک پورے شمالی ایران پر قابض ہو گیا۔ اس مہم کے دوران اس نے گرجستان پر بھی قبضہ کیا۔ 1391ء میں تیمور نے سیر اوردہ یعنی خاندان سرائے کے خان تختمش کے خلاف لشکر کشی کی اور دریائے قندزجہ کے کنارے موجودہ سمارہ کے قریب 18 اپریل کو اسے کو ایک خونریز جنگ میں شکست دی۔ روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا جو "یورش پنج سالہ" کہلاتی ہے۔ اس مہم کے دوران اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔ تیمور ایران کی مہم سے فارغ ہوکر ابھی تبریز واپس ہی آیا تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ تختمش نے دربند کے راستے پر حملہ کر دیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے 18 اپریل 1395ء کو تختمش کو ایک اور شکست فاش دی۔ اس کے بعد تیمور نے پیش قدمی کرکے سیر اوردہ کے دار الحکومت سرائے کو تباہ و برباد کر دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس مہم کے دوران تیمور استراخان، ماسکو، کیف اور کریمیا کے شہروں کو فتح کرتا اور تباہی پھیلاتا ہوا براستہ قفقاز، گرجستان اور تبریز 798ھ میں سمرقند واپس آگیا۔ 1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا دسمبر 1398ء میں دہلی فتح کر لیا۔ اگلے سال اس نے شام فتح کر لیا۔ 1402ء میں تیمور نے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو جنگ انقرہ کو شکست فاش دی اور سمرقند واپس آنے کے بعد چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ تاہم اس سفر کے دوران وہ بیمار پڑ گیا اور 18 فروری 1405ء کو انتقال کر گیا۔ تیمور کے بعد اس کے کے جانشیں شاہ رخ نے تیموری سلطنت کو اس کے عروج پر پہنچا دیا۔ 1507ء میں شیبانی خان نے ہرات پر قبضہ کرکے وسط ایشیا میں تیموری اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔

سید امیر کلال اور امیر تیمور خان 

امیر سید مسعود کلال سبوخاری بخاری کی جائے ولادت بخارا ہے۔ شہر بخاراسے چھ میل کے فاصلہ پر سوخار نامی قریہ میں 676ہجری 1278 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ آپ کی نسبت بابا سماسی سے ہے 20 سال ان کی خدمت میں رہے۔

کلال کی وجہ تسمیہ 

آپ کوزہ گری کا شغل رکھتے تھے فارسی میں کلال کوزہ گر(کمھار،داشتگر) کو کہتے ہیں معاش کا ذریعہ زراعت تھا۔ طاقت ور پہلوان تھے، اوائل جوانی میں شوق سے کشتی کھیلا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا،ایک دن رامتین میں کشتی میں مصروف تھے کہ وہاں سے بابا سماسی کا گزر ہوا تو آپ وہیں کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ”یہاں موجود اس میدان میں اک مرد میدان جس کی صحبت سے کاملین زمانہ فیض یاب ہونگے اور بندگان خدا کو فیض پہنچے گا، میں اسی لیے کھڑا ہوں “۔ جب خواجہ امیر کلال کی نگاہ پڑی تو سب کچھ چھوڑ کر ان کے پیچھے چل پڑے اور طریق تصوف میں شامل ہو گئے۔ یہ سیدزادے بابا سماسی کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ صحبت و خدمت میں رہ کر آپ کے خلیفہ بلکہ جانشین بنے۔ آپ کے باکمال اور صاحب فیض ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا سید بہاؤالدین نقشبند بخاری کے پیر و مرشد ہیں۔

استغناء کا عالم 

ایک دفعہ امیر تیمور نے سمرقند سے ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجا کہ اس کی ولایت کو قدم مبارک سے مشرف کریں۔ آپ نے اپنے صاحبزادے امیر عمر کو عذر خواہی کے لیے بھیجا اور کہا کہ اگر امیر تیمور تمہیں کوئی جاگیر یا انعام دے تو مت قبول کرنا۔ اگر تم قبول کرو گے تو اپنے جد بزرگوار حضرت محمد ﷺ کے خلاف کرو گے۔ امیر تیمور نے آپ کو تمام بخارا عطا کیا لیکن آپ نے قبول نہ کیا۔ امیر تیمور نے کہا اگر سارا نہیں تو کچھ حصہ قبول کر لیجیے امیر عمر نے پھر انکار کیا اور کہا کہ اجازت نہیں ہے۔ امیر تیمور نے کہا کہ امیر کلال کو کیا لکھ بھیجوں کہ ہمارا تقرب درویشوں میں ہو جا ئے۔ سید امیر عمر نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا تقرب درویشوں میں ہو جائے تو تقویٰ اور عدل کو اپنا شعار بنا لو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور خاصان حق کے تقرب کا یہی راستہ ہے آپ جمعرات 8 جمادی الاول 771ھ بمطابق 28 نومبر 1370ء بروز جمعرات کو اس دار فانی سے دائمی ملک بقا روانہ ہوئے مزار مبارک سوخار میں زیارت گاہ اور مرکز رشد و ہدایت ہے۔

ترک و مغل کی فن مصوری 

ترک منگولوں سے اگر فن مصوری کا آغاز ہوا تو تیموروں نے اسے اپنے خون سے سینچا اور ایران کے صفوی بادشاہوں نے اس کی ناز برداری کی۔ 14 ویں صدی سے 16 ویں صدی تک ایران کی فن مصوری تزئین کاری تک محدود تھا کیونکہ درباروں میں کتابوں کی تزئین کا رواج عام تھا۔ اس دور میں ہرات اور بخارا اس کا مرکز رہے۔ عباسی خاندان کے حکمرانوں نے اس فن کو آگے بڑھایا۔ ترک منگولوں کے متواتر حملوں سے علوم و فنون کی ترویج میں بڑی رکاوٹ آئی، سیاسی انتشار نے لوگوں کے سکون کو درہم برہم کر دیا لیکن جلد ہی ان کی تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ درباروں میں فنون پر دسترس رکھنے والے جمع ہوئے اور پھر ایک بار سمرقند اور بخارا ماہرین فن سے بھر گيا۔

بابر اور ہمایوں 

بابر فنون لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ شاعری، مصوری اور فلسفے میں اسے بڑی دلچسپی تھی۔ تزک بابری میں اس نے ایران کے مشہور مصور بہزاد کے قلم کی بڑی تعریف کی ہے۔ بابر کا یہ ذوق موروثی تھا۔ تیمور کی طرح وہ بھی جلال و جمال کا پرستار تھا۔ افسوس کہ زندگی کی رزم آرائيوں نے اسے مہلت نہیں دی اور جب ماہرین فن کی سرپرستی کا وقت آيا تو اس نے صدائے اجل کو لبیک کہا۔ ہمایوں بھی اپنے والد بابر کی طرح جمالیات کا دلدادہ تھا۔ ایک دن کی بات ہے کہ ایک خوبصورت سی فاختہ کہیں سے آ نکلی۔ شہنشاہ نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور مصوروں کو بلواکر اس کی تصویر بنائی اور پھر اسے آزاد کر دیا۔ ایران کے دور اقامت میں ہمایوں کی کئی نامور مصوروں سے ملاقات ہوئی جو بعد میں ان کی دعوت پر ہندوستان آئے اور یہیں سے مصوری کے ایک نئے سکول کی ابتدا ہوئی ہے جو بعد میں مغل فن مصوری کے نام سے مشہور ہوئی۔ ایرانی مصوروں نے مصوری کے ایسے معجزے دکھائے کہ اگر حادثات زمانہ اور انقلابات وقت سے محفوظ رہ جاتے تو لوگوں کو محو حیرت بنائے رہتے۔ میر سید علی اور عبدالصمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا جس میں تماشائیوں سمیت کھلاڑیوں اور گھوڑوں کی شبیہیں تھیں۔ عبدالصمد نے ہندوستانی مصوروں کی مدد سے داستان امیر حمزہ کی تزئین کا کام سر انجام دیا اور بادشاہ سے نادرالعصر کا خطاب حاصل کیا۔ اس میں کل ملا کر 1375 تصاویر ہیں۔

جلال الدین محمد اکبر اور جہانگیر 

جلال الدین محمد اکبر کے دور میں فن مصوری کی بھی تجدید ہوئي۔ ایرانی اور ہندوستانی مصوروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی کسی دربار میں اکٹھا نہیں ہوئي تھی۔ دو مختلف مزاج کے مصور جب مل بیٹھے تو ان کے قلم میں یکسانیت آئی اور اکبر کا دربار فن مصوری کا گہوارہ بن گيا۔ اکبر کے عہد کی معروف کتاب آئين اکبری میں اس کا مفصل ذکر ہے۔ اکبر نے درباری مصوروں کو اپنے دادا کی کتاب بابر نامہ کی تزئین کا کام سپرد کیا اور تزئین کاری کو فروغ دیا۔ رزم نامہ، تیمور نامہ، خمسۂ نظامی اور بہارستان کی تزئين کاری اکبری عہد کا انمول خزانہ ہیں۔ جمال پرست بادشاہ جہانگیر زندگی کو حسن کے آئینے میں دیکھنے کا قائل تھا اور کم و بیش شاہجہاں کی بھی یہی حالت تھی۔ جہانگیر کو شراب و جام سے بہت قرب حاصل رہا چنانچہ اس زمانے کی مصوری میں یہی علامتیں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔

شاہجہانی دور 

شاہجہانی دور میں طلائی کا کام ہویدا ہوا۔ معروف مورخ بنارسی پرشاد سکسینہ کا خیال ہے کہ تصویروں میں طلائی کاری اثر فن تعمیر کے زیر اثر آيا کیونکہ شاہجہاں نے تاج محل کی تعمیر میں طلائی کاری پر بڑا زور دیا تھا۔ شاہ جہاں کی طرح ان کا بڑا لڑکا دارا شکوہ بھی مصوری کا بڑا دلدادہ تھا اور ان کا مرقع انڈو ایرانی فن میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اورنگزیب کو ذاتی طور پر اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن دربار کے امرا میں اس فن کا چرچا تھا۔ اورنگزیب کے قیام دکن نے بہت سے لوگوں کو دکن کا ساکن بنا دیا۔ پیسہ حاصل کرنے کے لیے مصوروں نے عوام کی دلچسپی کی چیزیں بنانا شروع کیں تاکہ فروخت میں آسانی ہو۔ اس طرح دکن میں مصوری کے ایک نئے سکول کی ابتدا ہوئی اور فن مصوری دربار سے نکل کر عوام تک پہنچا۔ دکن کے علاوہ مصوروں کے کئی کنبے مختلف سمتوں پر نکل پڑے جن میں سے کچھ اودھ کے دربار میں آ گئے، کچھ پٹنہ چلے گئے اور کچھ اورنگ آباد اور حیدرآباد چلے گئے۔ ترک مغلوں کے زوال کے ساتھ مغربی فن مصوری کا عروج ہونے لگا۔ در حقیقت مغل فن مصوری کی کہانی ہندوستانی تاریخ سے کم دلچسپ نہیں۔

یاس یگانہ چنگیزی 

یگانہؔ ایک کلاسیکی غزل گو شاعر تھے۔ حالانکہ انہوں نے قطعات و رباعیات بھی کہی ہیں لیکن ان کی اصل پہچان ان کی غزلیں ہی ہیں۔ انہوں نے غزل کے موضوعات کے دائرے کو ایک نئی جہت اور اونچائی عطا کی اور ایسے مضامین نظم کیے جو پہلی بار حقیقت پسندانہ کیفیت کے ساتھ غزل کے افق پر نمودار ہوئے۔ وہ خود اپنی ذاتی زندگی میں، جس طرح کے شیریں و تلخ تجربات سے گزرے تھے اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کا جس طرح تجربہ کیا تھا، اس سے ان کے دل و دماغ نے جو تاثرات قبول کیے تھے، انہیں واقعات نے ان کی غزلوں کو اصلیت پسندی اور تابناکی بخشی۔ ان کی غزل گوئی ان کے مزاج کی آئینہ دار ہے۔ وہ ایک خود دار اور صاف گو انسان تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی اس کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے ۔

زور کلام 

یگانہؔ کی شاعری میں جو چیز سب سے پہلے دل پر اثر کرتی ہے، وہ ہے ان کا زورِکلام۔ بندش کی چستی کے علاوہ بلند بانگ مضامین کے لیے ایسے الفاظ لے آتے ہیں، جو پوری طرح مفہوم کو ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ خیالات کو بھی جلا دیتے ہیں۔ دوسری چیز جو ان کی شاعری میں دلکشی پیدا کرتی ہے وہ ہے ’’طنز‘‘ ،ان کی شاعری کا یہ عنصر کہیں کہیں اتنا تیز اور تیکھا ہوتا ہے کہ زور بیان کا لطف دوبالا کردیتا ہے ۔ انسان کا انسان فرشتے کا فرشتہ انسان کی یہ بوالعجبی یاد رہے گی پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا خدا تھے کتنے مگر کوئی آڑے آنہ گیا کیسے کیسے خدا بنا ڈالے کھیل بندے کا ہے خدا کیا ہے حال دونوں کا ہے غیر،اب سامنا مشکل کا ہے دل کو میرا درد ہے اور مجھ کو رونا دل کا ہے جو خاک کا پتلا، وہی صحرا کا بگولہ مٹنے پہ بھی اک ہستی برباد رہے گی ’’دردِدل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ‘‘ زندگی پھر کیوں ہوئی ہے دردِ سر میرے لیے

تخیل کی بلندی 

یگانہؔ کے کلام میں تخیل کی بلند پروازی اور فکر کی بالیدگی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ وہ حقائق کو عالمِ بالا سے چن کر لاتے ہیں اور نہایت صفائی و سادگی کے ساتھ اشعار میں سمو دیتے ہیں۔ بندش ایسی ہوتی ہے کہ الفاظ و تراکیب میں مطلب ومفہوم الجھنے نہیں پاتا۔ ان کے کلام میں زیادہ تر حوصلہ اور ہمت افزائی کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں۔ مصیبتوں میں گِھرجانے کے باوجودبھی انسان کو ہمت کسی بھی صورت میں ہارنا نہیں چاہیے ۔ مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا ہمیں سر مار کر تیشے سے مرجانا نہیں آتا بزم دنیا میں یگانہؔ ایسی بیگانہ روی میں نے مانا عیب ہے لیکن ہنر میرے لیے رات دن شوقِ رہائی میں کوئی سر پٹکے کوئی زنجیر کی جھنکار سے دیوانہ بنے واہ کس ناز سے آتا ہے ترا دور شباب جس طرح دور چلے بزم میں پیمانے کا باز آ ساحل پہ غوطے کھانے والے بازآ ڈوب مرنے کا مزہ دریائے بے ساحل میں ہے بلند ہوتو کھلے تجھ پہ راز پستی کا بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

خودی 

یگانہؔ ایک خود دار،حق گو اور بے باک انسان تھے اور یہی خصوصیات ان کے کلام میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی خودداری کہیں کہیں ’’اناپرستی‘‘ سے جا ملتی ہے، جسے بعض ناقدین نے ان کی ’’کجروی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اپنے دور میں انہیں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ،جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کی زندگی کشمکش، آزمائش اور اتار چڑھاؤ سے عبارت تھی، اس کے باوجود ان کی شاعری میں زندگی سے فرار، مایوسی اور پست ہمتی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے کو طئے کرنے کی ان میں بڑی جرأت تھی۔ میرا خیال ہے شاید اسی وجہ سے ان کے کلام میں مایوسی، قنوطیت اور حرماں نصیبی نہیں پائی جاتی۔ ہنوز زندگی تلخ کا مزا نہ ملا کمال صبر ملا صبر آزمانہ ملا بہار آئے گی پھر یاس ناامید نہ ہو ابھی تو گلشن ناپائدار باقی ہے دل ہے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں وہ آنسو کیا پیے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا سراپا راز ہوں میں کیا بتاؤں،کون ہوں،کیا ہوں سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا رہائی کا خیالِ خام ہے یا کان بجتے ہیں؟ اسیرو،بیٹھے کیا ہو گوش بر آوازِ در ہوکر پاؤں ٹوٹے ہیں مگر آنکھ ہے منزل کی طرف کان اب تک ہوس بانگ درا کرتے ہیں

تشبیہات و استعارات 

یگانہؔ کے کلام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں فارسی ترکیبوں کے استعمال سے کافی لگاؤ تھا۔ تشبیہات کی جدت سے وہ طرزِبیان میں تازگی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے مصرعے نہایت چست ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ کی بندش سے اشعار میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً: وحشت آباد عدم ہے وہ دیارِ خاموش کہ قدم رکھتے ہی ایک ایک سے بیگانہ بنے حسن وہ حسن کبھی جس کی حقیقت نہ کھلے رنگ وہ رنگ جو ہر رنگ میں شامل ہو جائے چشمِ نامحرم سے، غافل،روئے لیلیٰ ہے نہاں ورنہ اک دھوکا ہی دھوکا پردۂ محمل کا ہے دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے

سیمابی کیفیت 

یگانہؔ نے صرف اپنا تخلص ہی یاس سے یگانہؔ (1920-21 میں ) نہیں کیا بلکہ 1932ء تک پہنچتے پہنچتے، اس میں چنگیزی کا اضافہ بھی کر لیا۔ اس کے بارے میں خودلکھتے ہیں کہ: ”جس طرح چنگیز نے اپنی تلوار سے دنیا کا صفایا کر دیا تھا ،اسی طرح جب سے میں نے غالبؔ پرستوں کا صفایا کرنے کا تہیہ کیا ہے،یہ لقب اختیار کیا ہے۔“ یہ تبدیلی صرف تخلص تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نظریات و افکار میں بھی تبدیلی کی دلالت ہے۔ اہلِ لکھنؤ سے ان کے معرکے نے انہیں اور خود سر اور پر اعتماد بنا دیا۔ انہیں معرکوں کے باعث ان کے لہجے میں تیزی آئی۔ یہاں یگانہؔ کے کلام سے کچھ ایسے شعر دیکھتے چلیں، جن سے ان کے لہجے کا انوکھا پن ہی نہیں بلکہ تیکھا پن بھی سامنے آجائے توشاید کوئی مضائقہ نہ ہو۔ کون دیتا ہے ساتھ مردوں کا - حوصلہ ہے تو باندھ ٹانگ سے ٹانگ موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی - لے دعا کرچکے اب ترک دعا کرتے ہیں کلامِ یاس سے دنیا میں پھر اک آگ لگی - یہ کون حضرتِ آتَشؔ کا ہم زباں نکلا دن چڑھے سامنا کرے کوئی شمع کیا شمع کا اجالا کیا صبر کرنا سخت مشکل ہے، تڑپنا سہل ہے اپنے بس کا کام کرلیتا ہوں آساں دیکھ کر مندرجہ بالا اشعار یگانہؔ کی یگانہ روی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ زبان و بیان کے اعتبار سے ان کا کلام ان کے کسی ہم عصر سے کم تر نہیں ہے۔ روزمرہ محاوروں کا استعمال، طرزِ ادا، کلام میں روانی اور بے ساختگی یگانہؔ کی خاص پہچان بن گئے تھے۔

رباعی 

یگانہ نے اپنی رباعیوں میں بھی ایک طرح کی جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ دیگر شعرا سے ان کا رنگ الگ رہے۔ اس فراق میں انہوں نے ایسی بندشیں اور محاورے استعمال کیے جو منجھے ہوئے نہیں تھے یا جن پر زبان کی صفائی نے ابھی تک جلا نہیں کی تھی۔ لیکن یہ بات طئے ہے کہ یگانہؔ کو رباعی کے فن پر کامل عبور تھا۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ رباعی کے چوتھے مصرعے میں خیال کی تان ٹوٹتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیاں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں۔ انہوں نے غالبؔ کے کلام پر بھی رباعی میں اظہار خیال کیا تھا۔ یگانہؔ کی رباعیوں کے مجموعے کا نام ’’ ترانہ ‘‘ ہے، جسے کافی سراہا گیا ہے۔ ان کی رباعیوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے تمام تر رباعیوں کو عنوان دے کر رقم کیا ہے۔ مثلاً : ’’ تحفۂ درد‘‘ ملاحظہ ہو: دل کو پہلے ٹٹول لیتا ہوں پھر تحفۂ درد مول لیتا ہوں آثارِ زلال و درد و مستی و خمار آنکھوں آنکھوں میں تول لیتا ہوں میں ’’ حسن دو روزہ ‘‘ سورج کو گہن میں نہیں دیکھا شاید کیوں، چاند کو گہن میں نہیں دیکھا شاید اے حسن دو روزہ پہ اکڑنے والو - یوسف کو کفن میں نہیں دیکھا شاید ’’ٹیڑھے مرزا‘‘ شاہوں سے مری کلاہ ٹیڑھی ہی رہی بد مغزوں سے رسم و راہ ٹیڑھی ہی رہی ٹیڑھے مرزا کو کون سیدھا کرتا سیدھی نہ ہوئی نگاہ ٹیڑھی ہی رہی

غالب شکنی 

یگانہؔ نے غالبؔ شکنی کے باعث بڑی بدنامی مول لی لیکن یہ بدنامی ایسے ہی نہیں تھی بلکہ انہوں نے بہت سی رباعیاں اس سلسلے میں کہی تھیں۔ ان کی اس رنگ کی بھی چند رباعیاں پیش ہیں تاکہ حقیقت کا اندازہ کیا جاسکے ۔ غالبؔ کے سوا کوئی بشر ہے کہ نہیں اوروں کے بھی حصے میں ہنر ہے کہ نہیں مردہ بھیڑوں کو پوجتا ہے ناداں زندہ شیروں کی کچھ خبر ہے کہ نہیں اللہ ری ہوا وہو میں خلعت و زر مرزا کا سر ہے اور انگریز کا در ہاں کیوں نہ ہوں مورکھوں کے دیوتا غالبؔ ہے باؤلے گاؤں اونٹ بھی پرمیشر

اردو کا منفرد شاعر یاس یگانہ چنگیزی 

یاس یگانہ چنگیزی(پیدائش: 17 اکتوبر 1884ء) ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر تھے۔یگانہ چنگیزی کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ پہلے یاسؔ تخلص کرتے تھے لیکن بعد میں یگانہ ؔہو گئے۔ ان کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے اور سلطنت مغلیہ کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔ پرگنہ حویلی عظیم آباد میں جاگیریں ملیں اور وہیں سکونت پزیر ہوئے۔ اسکول کے زمانے سے انہوں نے شاعری کا آغا کیا اور بیتاب عظیم آباد ی سے کے شاگرد ہوئے یاس یگانہ کو سمجھیئے تو وہ یکتائے روزگار ہیں ورنہ ان کا نام تو بہت ہی طویل ہے یعنی مرزا واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی لکھنوی ثم عظیم آبادی۔ ان کو اپنے یکتا ہونے کا احساس تھا اسی لیے وہ خود ہی کہتے ہیں: " کلام یاس سے دنیا میں ایک آگ لگی یہ کون حضرتِ آتش کا ہم زبان نکلا " یاس یگانہ کی پیدائش 17 اکتوبر 1884ء کو پٹنہ میں ہوئی تھی جسے اس زمانے میں عظیم آباد کہا جاتا تھا۔ وہ خود اپنی جائے پیدائش کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’شہر عظیم آباد محلہ مغلپورہ میرا مولد ہے جو تیموریوں، چغتائیوں اور قزلباشوں کا مسکن تھا۔ جہاں اعلیٰ درجے کے مہذب، امرا، شرفا بستے تھے۔ وہاں اول درجے کے چھٹے ہوئے شریف بدمعاش بھی اودھم مچایا کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے مغلپورہ کے مدرسے میں حاصل کی تھی اور انگریزی تعلیم کے لیے عظیم آباد کے مشہور و معروف محمڈن اینگلو عربک اسکول پٹنہ سٹی میں داخل ہوئے۔

قیام دکن 

زندگی کے دوسرے مشاغل کے ساتھ ساتھ یگانہؔ کی ملازمت کا سلسلہ بھی ناہمواری کا شکار رہا۔ ایک عرصے تک وہ ’’اودھ اخبار‘‘ سے وابستہ رہے۔ لیکن حتمی طور سے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ کب سے کب تک، البتہ ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیروں میں یگانہؔ کا نام شامل ہے ۔1924ء میں یگانہؔ اٹاوہ چلے گئے، جہاں انہیں اسلامیہ ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی۔ مارچ 1925ء کے آس پاس وہ اٹاوہ کو چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے، وہاں ایک پریس میں انہیں ملازمت مل گئی۔ 1926ء میں انہوں نے لاہور کا رخ کیا اور ’’اردو مرکز‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں کا ماحول انہیں راس آیا۔ یہاں کے ادیبوں سے ان کے بہتر مراسم رہے۔ کئی کتابوں اوررسالوں کے چھپنے کی سبیل پیدا ہوئی۔ اقبالؔ کے یہاں بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ اقبالؔ بھی یگانہؔ کے بڑے قائل تھے۔ 1928ء میں یگانہؔ ’’اردو مرکز‘‘ سے علاحدہ ہو گئے لیکن قیام لاہور ہی میں رہا۔ لاہور کے بعد انہوں نے حیدرآباد دکن کا رخ غالباً 1928ء میں کیا۔ حیدرآباد میں ان کا قیام ان کے لیے کافی آسودگی لے کر آیا۔ جہاں ان کا تقرر نثار احمد مزاج کے توسط سے محکمہ رجسٹریشن میں ’’نقل نویس‘‘ کی حیثیت ہو گیا۔ یہاں ان کی آمدنی پچیس تیس روپے ماہوار تھی اور کبھی کبھی زیادہ بھی ہوجاتی تھی ۔1931ء میں یگانہؔ محکمۂ رجسٹریشن میں باقاعدہ ملازم ہو گئے۔ یہ جگہ سب رجسٹرار کی تھی۔ اس طرح وہ ’’عثمان آباد‘‘، ’’لاتور‘‘ اور ’’یادگیر‘‘ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور 1942ء میں 55 برس کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد ایک لمبے عرصے تک حیدرآباد ہی میں قیام رہا۔ 1946ء میں وہ بمبئی گئے اور وہاں اپنے بڑے بیٹے آغا جان کو ملازمت دلوائی۔ حیدرآباد میں نواب معظم جاہ نے انہیں اپنے دربار سے وابستہ کرناچاہا لیکن یگانہؔ راضی نہ ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد یگانہؔ بار بار حیدرآباد روزگار کی امید سے آتے رہے لیکن انہیں مایوسی ہی نصیب ہوئی۔

خدا داد صلاحیت اور فطری ذہانت 

خدا داد صلاحیت اور فطری ذہانت کے سہارے اسکول کے درجات میں وہ اول آتے اور وظیفے، تمغے اور انعامات پاتے رہے۔ وہیں سے انہیں مذاقِ شعر و سخن کی بھی تربیت ملی اور بیتاب عظیم آباد ی سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ سنہ 1903ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد معاش کی جستجو میں مصروف ہو گئے، جس میں انہیں در در کی خاک چھاننی پڑی۔ چونکہ ان کی شادی لکھنؤ میں ہوئی تھی، اس لیے وہ لکھنؤ میں جا بسے لیکن وہاں انہیں جو تکلیفیں اٹھانی پڑیں اس کا بیان بھی مشکل ہے۔ حالانکہ وہ خود ہی کہتے ہیں: لکھنؤ کے فیض سے ہیں دو دو سہرے میرے سر اک تو استادِ یگانہ، دوسرے داماد ہوں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنی شاعری میں یگانہ تھے۔ انہوں نے ہمیشہ وہ راہ ترک کر دی جو پہلے سے مستعمل تھی، اس لیے لکھنؤ اسکول میں آتش کے بعد یگانہ ہی سب سے منفرد شاعر ہیں، جن کی آواز سب سے الگ محسوس ہو تی ہے۔ یاس یگانہ کا کلام ان کے مختلف مجموعوں اور اس زمانے کے رسالوں میں بکھرا ہوا تھا۔ ان اوراقِ لخت لخت کو نام ور محقق مشفق خواجہ نے اکٹھا کر 2003ء میں کلیاتِ یگانہ شائع کی، جس نے یگانہ کی شاعرانہ شخصیت کی بازیافت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یگانہ کا انتقال چار فروری کی صبح لکھنؤ میں ہوا۔ لیکن ان کی زندگی کا یہ باب اتنا المناک ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں دوارکا داس شعلہ نے لکھا ہے: ’’ آخری وقت میں مرزا صاحب پیلا مکان شاہ گنج لکھنؤ میں بالکل تنہا تھے۔ یعنی ملازم اور سسرالی اعزا کے سوا بیوی، بچوں میں سے کوئی بھی آس پاس نہیں رہ گیا تھا۔ عارضہٴ دمہ کے سبب ان کی سانسیں اکھڑی اکھڑی رہتی تھیں، پیروں پر ورم آگیا تھا اور ان کو کامل یقین ہو چکا تھا کہ اب وہ جادہٴ زندگی کی آخری منزل میں ہیں۔‘ تین فروری کی شب 11 بجے مرزا صاحب نے چائے طلب کی کچھ دیر بعد تھوڑا سا پانی پیا اور بستر پر دراز ہو گئے۔ چار فروری کی صبح جب ملازم کی اچانک چیخ گونجی تو مرزا نقوی اور دیگر لوگوں کو مرزا صاحب کی موت کا علم ہوا۔ موت کے صحیح وقت کا علم کسی کو بھی نہ ہو سکا۔ ان کی وفات چار فروری سنہ 1956کو ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 73سال تھی۔ اگرچہ مرزا صاحب کی موت کو صیغہٴ راز میں رکھا گیا تھا اس کے باوجود مخالفین کو خبر ہو ہی گئی اور وہ لوگ تجہیز و تکفین میں رخنہ اندازی کرنے لگے۔ غسال کو غسل دینے سے منع کر دیا گیا، کربلا کے متولی کو قبر کی زمین دینے سے روکا گیا اور مولانا محمد سعید صاحب نے یہ فتویٰ بھی جاری کر دیا تھا کہ یگانہ کے جنازے میں شرکت ناجائز ہے۔ بہر حال کسی طور پر جنازے کو غسل دیا گیا اور مولوی احمد علی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جنازے میں کل چھ افراد شریک تھے۔ یاس یگانہ کو لکھنؤ والوں کے سلوک کا اندازہ تھا اسی لیے انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا: مزار یاس پہ کرتے ہیں شکر کے سجدے دعائے خیر تو کیا اہل لکھنؤ کر تے یاس یگانہ کا مزار ان کی بیٹی مریم جہا ں نے پختہ بنوا دیا تھا، جس پر ان کا یہ شعر لکھا ہوا ہے: "خود پرستی کیجیئے یا حق پرستی کیجیئے آہ کس دن کے لیے ناحق پرستی کیجیئے" یگانہ کی خود پسندی کا عالم ملاحظہ فرمائیے کہ ’غالب شکن‘ کے سرورق پر یگانہ نے اس پر اپنا نام میرزا یگانہ چنگیزی لکھنوی علیہ السلام لکھوایا تھا۔ تاہم ان ہنگامہ خیزی کے باوجود جدید دور میں یگانہ کے ادبی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے اور آج ان کو بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کے اہم ترین شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یگانہ کا انتقال 4 فروری 1956ء کی صبح لکھنؤ میں ہوا۔۔

قپچاق 

قپچاق ایک ترک قبیلہ تھا۔ انکا اصل وطن خاقان کیمک تھا اور بعد میں کومان کے ساتھ مل کر 11ویں، 12ویں صدی عیسوی کے دوران یوریشیائی گیاہستان (Steppe) پر ایک قپچاق - کومان وفاق قائم کی- مگر 13ویں صدی عیسوی میں منگولوں نے دشت قپچاق کو فتح کر لیا۔ یہ اب پتہ لگانا ناممکن ہے کہ جب مورخین لفظ قپچاق یا دشت قپچاق استعمال کرتے تو کیا انکا مطلب صرف قپچاق تھا یا دشت قپچاق میں رہنے والے دیگر نسلی گروہ یا قبائل تھے جیسے کومان، جن کے ساتھ قپچاق نے مل کر قپچاق - کومان وفاق قائم کی تھی- اس وجہ سے ان دونوں گروہوں، (قپچاق و کومان)، کے بارے میں خصوصی طور سے لکھنا خاصا مشکل ہے-

کومان 

کومان لسانی ترک خانہ بدوش لوگ تھے مگر شاید انکا نسلی گروہ مختلف تھا- انہیں مختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا لیکن سب کا تقریباً ایک ہی مطلب تھا یعنی سنہرے بالوں والی قوم- یہ اب پتہ لگانا ناممکن ہے کہ جب مورخین لفظ قپچاق یا دشت قپچاق استعمال کرتے تو کیا انکا مطلب صرف قپچاق تھا یا دشت قپچاق میں رہنے والے دیگر نسلی گروہ یا قبائل تھے جیسے کومان، جن کے ساتھ قپچاق نے مل کر قپچاق - کومان وفاق قائم کی تھی- اس وجہ سے ان دونوں گروہوں کے بارے میں خصوصی طور سے لکھنا خاصا مشکل ہے- یہ لیکن ضرور معلوم ہے کہ کومان کی ابتدا چین کے دریائے زرد کے علاقے سے ہوئی تھی-

قپچاق - کومان وفاق 

قپچاق نے کومان کے ساتھ مل کر 11ویں، 12ویں صدی عیسوی کے دوران یوریشیائی گیاہستان یعنی دشت قپچاق میں ایک قپچاق - کومان وفاق قائم کی- اس اتحاد کی وجہ تھی عظیم ترک ہجرت جس کے تحت کئی ترک قبائل وسط ایشیا، مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ، بہتر زندگی کی تالاش میں پہنچے تھے- نئی جگہوں پر نئے رشتوں اور دوستوں کی ضرورت پڑتی ہے- کومان شاید قپچاق سے قبل مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ آئے- مگر لسانی طور پر ترکی بولتے تھے- دونوں کے اختلافات کے مقابلے میں مماثلت زیادہ تھیں اور اس طرح سن 900ء میں، اپنے باہمی مفاد کی خاطر، یہ دونوں جو خود کئی خانہ بدوش قبیلوں کے وفاق تھے، نے ایک اور وفاق قائم کی- قپچاق - کومان وفاق نہ تو ریاست تھی اور نہ ہی ایک سلطنت، بلکہ بے شمار آزاد گروہ تھے جو مختلف خان کے ماتحت تھے اور اپنے فرائض سر انجام دیتے تھے- ارد گرد ریاستوں کی سیاسی زندگی کے معاملات میں مداخلت کرنا انکا معمول بھی تھا اور انکی ضرورت بھی- روسی، بلغاریہ، بازنطینی سلطنت، افلاقی، بلقان ریاستوں، آرمینیا، جارجیا، کوہ قاف اور خوارزم میں کئی حملے کیے- انہوں نے جنگجوؤں کی ایک طاقتور ذات پیدا کی جنہیں مملوک یعنی غلام کہا گیا جو مختلف عربی، کرد اور ترکی سلطانوں کی خدمت میں رہے اور بعد میں خود بھی سلطان بنے جیسے رکن الدین بیبرس اور سیف الدین قلاوون- قپچاق و کومان نے پہلے سے اپنے علاقے آپس میں طے کیے ہوئے تھے- قپچاق کا علاقہ موجودہ قازقستان سے جنوبی روس تک اور کومان کا یوکرین، جنوبی مالڈووا اور مغربی افلاق تک تھا- کومان مزید دو بڑے دھڑوں میں بٹے تھے؛ ایک کا نام آق کومان جو افلاق کی طرف تھے اور قرہ کومان جو مالڈووا کی طرف تھے-

ترک منگول فتح دشت قپچاق 
مملکت جارجیا پر ابتدائی حملے 

خوارزم شاہی سلطنت کو 1220ء میں فتح کرنے کے بعد چنگیز خان نے جیبی نوین اور سبتائی بہادر کو شاہ علاء الدین محمد بن تکش کے پیچھے بھیجا مگر وہ اپنی جان بچا کر بحیرہ قزوین کے ایک جزیرہ میں جا چھپا اور بیمار ہو کر مر گیا- اس دوران جیبی نوین اور سبتائی بہادر نے عراق العجم‎، آذربائیجان اور ایران کے ری، زنجان، قزوین‎ اور ھمدان کے علاقوں میں بے حد ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے کرتے کوہ قاف کی سرحدوں تک آن پہنچے- کوہ قاف کی مملکت جارجیا کے بادشاہ لاشا جارج نے 10،000 کی فوج کے ساتھ پیش قدمی کی اور منگولوں کو واپس طفلس کے قریب دھکیل دیا- منگولوں کے ساتھ چھوٹی جھڑپیں ہوتی رہیں لیکن منگولوں نے پھر ایک مکمل پیمانے پر حملے کا آغاز کیا اور جارجیا کی فوج کو شکست دے دی- جیبی نوین اور سبتائی بہادر نے مارچ 1221ء میں دوبارہ عراق العجم‎، آذربائیجان اور ایران پر حملے کیے جن میں بے شمار جانیں لی گئیں اور لوٹ مار کیا گیا تاکہ کوہ قاف کے خلاف جنگی تیاریاں کی جاسکیں- منگولوں نے پھر فورا مملکت جارجیا پر حملہ کیا جس میں بادشاہ لاشا جارج نہ صرف ہار گیا بلکہ بری طرح سے زخمی بھی ہوا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا-

جنگ کوہ قاف اور دشت قپچاق 

ترک منگول پھر کوہ قاف میں بذریعہ دربند آگے بڑھتے رہے باوجود سخت سردی کے جس میں ان کے بے شمار آدمی بھی مرے- آخرکار ان کا سامنہ 50،000 کے قریب کی ایک طاقتور فوج سے ہوا جو قپچاق، کومان، وولگا بلغاریہ، لزجين، چرکس، الانان اور دیگر انجان قبائل پر مبنی تھی- یہ فوج بد نظمی کا شکار تھی- کومان کے سربراہ خوتن خان نے اپنے بھائی یوری خان اور بیٹے دانیال خان کو اس فوج کا سپہ سالار مقرر کیا-اتحادی فوج اور منگولوں کے درمیان پہلی لڑائی فیصلہ کن نہ تھی اس لیے جیبی نوین اور سبتائی بہادر نے چالاکی سے قپچاق - کومان وفاق کو اس اتحادی فوج سے، مغل-ترک دوستی کا واسطہ دے کر اور تسلیاں دے کر علاحدہ کروا دیا- منگولوں نے دوبارہ لڑائی چھیڑی اور اب چونکہ قپچاق و کومان علاحدہ ہو چکے تھے اتحادی فوج ہار گئی- منگول اپنا وعدہ جلد ہی بھول گئے اور قپچاق - کومان وفاق کی واپس لوٹتی ہوئی فوج پر پیچھے سے حملہ کیا جو اس وقت دو الگ الگ حصوں میں جا رہی تھی اور انہیں تباہ کر دیا- جیبی نوین اور سبتائی بہادر انکا پیچھا کرتے ہوئے استراخان آئے اور اس شہر کو برباد کرکے رکھ دیا- خوتن خان ترک منگولوں کی فتوحات کے آگے نہ ٹک سکا اور اپنی فوج سمیت روس اپنے داماد مستیسلاو مستیسلاو وچ کی پناہ میں آگیا جو نووگورد قلمرو کا بادشاہ تھا- خوتن خان نے اپنے داماد اور دیگر روسی حکمرانوں کو منگولوں کے خطرے سے آگاہ کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر ایک سال تک ناکام رہا- انکا مذہب تنگری پرستی کہلاتی تھی جس میں شَمَن پَرَستی، روحّیت، ٹوٹم پسندی اور اجداد پرستی کے عناصر شامل تھے- دشت قپچاق، بحیرہ ارال کے شمال سے لے کر مغرب کی جانب بحیرہ اسود کے شمال تک پھیلے ہوئے علاقے کا تاریخی نام ہے جو موجودہ قازقستان، جنوبی روس، یوکرین، جنوبی مالڈووا اور مغربی افلاق پر مبنی تھا-

پونچھ کی مختصر تاریخ 

پونچھ کا علاقہ وادی کشمیر کے مغرب میں 1627مربع میل پر مشتمل ہے اور وادی کشمیر کی مانند یہ بھی بلند و بالا برف پوش پہاڑوں اور گھنے جنگلوں کا خوبصورت خطہ ہے۔1923ء کی مردم شماری کے مطابق پونچھ کی آبادی تقریباً چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ،جس میں مسلمان 96فیصد ہندو 3فیصد اور دیگر مذاہب کے پیروکار ایک فیصد تھے۔ عہدِ قدیم سے پونچھ کی تاریخ صوبہ پنجاب کی تاریخ سے وابستہ رہی ہے جہاں ایک طرف پنجاب کی سیاست یہاں اثر انداز ہوتی رہی وہاں دوسری جانب ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ بھی پونچھ کو متاثر کرتی رہی۔ تاریخ ِہند کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنسی خاندان کارکوٹ گوت کے حکمران یہاں 617ء تا 872ء حکومت کرتے رہے۔ چونکہ ان راجگان کے حالات میں کہیں کہیں پونچھ کاذکر ملتا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پونچھ برصغیر ہند میں کوئی غیر معروف خطہ ارضی نہ تھا۔ ازاں بعد لوہارا سلطنت کے ذکر میں یہ واضح ہے کہ موجودہ پونچھ شہر سے مشرق کی جانب موجودہ منڈی کے مقام پر اس سلطنت کا دار الحکومت تھا اور راجگان ِکشمیر، لوہاراسلطنت کے حریف اور مدمقابل تھے۔ منڈی کے قریب لوہر کوٹ کا قلعہ اتنا مضبوط تھا کہ اسے ﺗﺮﮎ سلطان محمود غزنوی جیسا بہادر سپہ سالار بھی سرنہ کرسکا۔ ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں مسلم سلاطین کا عہد 1325ء سے شروع ہوتا ہے جب صدرالدین عرف رنچن شاہ جو آبائی طور پر بُدھ مت کا پیرو کار تھا، ایک مبلغ اسلام سید عبد الرحمن المعروف بلبل شاہ ؒکے دستِ مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوا۔ اور اس طرح ریاست جموں و کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنا۔1327ء میں اس کی وفات کے بعد حکومت پھر غیر مسلموں کے ہاتھوں میں چلی گئی اور راجا سہد یو اور اس کے بھائی راجا دیو1344ء تک کشمیر پر حکومت کرتے رہے۔ مسلم سلاطین کی باقاعدہ حکومت کا قیام 1344ء کو عمل میں آیا۔ اس کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں نمایاں کردار ﺗﺮﮎ سلطان شہاب الدین نے اداکیا۔ اسی عہد میں ایران سے سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان ؒکشمیر میں وارد ہوئے، جن کے فیض سے ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے اور کشمیر کی وادی نعرئہ توحید سے گونج اُٹھی۔ ﺗﺮﮎ سلطان قطب الدین (1378ء تا1394ء)کے عہدِ حکومت میں شاہ ہمدانؒ دوبارہ کشمیر آئے، اس بار اُن کے ہمراہ سات سو مبلغ بھی تھے،جنہوں نے اس خطہ میں صنعت وحر فت علم و ادب اور دینِ مبین کی تبلیغ کا کام شروع کیا۔ ان بزرگانِ دین کی مساعی ء جمیلہ سے پونچھ کا سارا علاقہ اسلام کی روشنی سے جگمگا اُٹھا اور یوں پونچھ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا مرکز بن گیا۔1566ء میں کشمیر میں چک خاندان کے عہد حکومت میں مذہبی فرقہ پرستی کے باعث انتشار و خلفشار پیدا ہوا اور ﺗﺮﮎ مغل شہنشاہ اکبرِ اعظم جو ایک عرصہ سے کشمیر پر نظریں جمائے بیٹھا تھا،حملہ آور ہوا اور کشمیر کا سارا علاقہ1586ء میں سلطنت ِمغلیہ کا حصہ بن گیا۔ جہاں تک پونچھ کا تعلق ہے، شہنشاہ جہانگیر کے عہدِ حکومت میں سراج الدین کو پونچھ کا راجا مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا راجا فتح محمد خان 1646ء سے 1700ء تک پونچھ پر حکمران رہا،اس طرح پونچھ سکھوں کے عہد حکومت تک ﺗﺮﮎ مغلوں اور افغانوں کے زیرِ نگر رہا۔ سکھ کشمیر پر 1819ء سے 1839ء تک حکمران رہے۔ یہ پورا دور افراتفری اور طوائف الملوکی کا دور تھا۔ مرکزیت ختم ہو گئی تھی اور مختلف قبائل نے اپنے اپنے مقامی سرداروں کی سرکردگی میں چھوٹی چھوٹی حکوتیں قائم کر لی تھیں۔ تاریخ میں اس دور کو ’’آپ راجی‘‘کا نام دیاگیاہے۔ اس عہدِ ستم میں استحصال کی کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں اور علاقہ کے سردار کوٹوں اورڈپلیوں میں رہتے تھے اور وہیں سے احکام جاری کرتے تھے۔ یہ سردار اپنے اپنے علاقہ کی رعایا سے لگان وصول کرتے تھے اور اپنا حصہ وضع کرکے باقی لگان اپنے سے بڑے سردار کو پیش کر دیتے تھے۔ اس ظالمانہ سرداری نظام میں عوام بُری طرح پِس رہے تھے۔ مزارعوں اور دستکاروں کا معاشرہ میں کوئی مقام نہ تھا۔ وہ سردار کے سامنے چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتے تھے اگر کوئی ایسا کرنے کی جرات کربیٹھتا تو اسے کڑی سزادی جاتی۔ یہ لوگ اپنے پاس اچھی گائے، بھینس بھی نہیں رکھ سکتے تھے اور اُن میں سے کوئی بھاگ کر کسی دوسرے سردار کے ہاں پناہ بھی نہیں لے سکتا تھا۔ اکثریتی قبیلہ کے ہاتھوں اگر کسی اقلیتی فرقہ کے آدمی کا قتل ہو جاتا تو اس سے کوئی باز پرس نہ کی جاتی اور اگر یہی جُرم کسی اقلیتی فرقہ کے فرد سے سرزد ہوجاتا تو اُسے سزائے موت دی جاتی۔ توہین انسانیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ جب دربار منعقد ہوتا تو اقلیتی فرقہ کے لوگ حاضر ہوکر سردار کو نہایت مؤدبانہ جُھک جُھک کر سلام کرتے اور اگر سلام کے جواب میں سردار اپنی جوتی کی نوک اُوپر اُٹھاتا تو سمجھا جاتا کہ وہ خوش ہے اور اگر سردار ایسا نہ کرتا تو سلام کرنے والا خوفزدہ ہوجاتابلکہ اُس کو جان کے لالے پڑجاتے۔ بعض سردار اقلیتی فرقہ کی لڑکیوں کو جبراً اغوا کرلیتے تھے۔ الغرض اُس دور میں ایک دوسرے کا مال چھیننا کسی بے گناہ کو قتل کرنا اور اپنے سے کمزور پر ظلم کرنا روزمرہ کا معمول تھا۔ 1822ء میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے جموں کے ڈوگرہ گلا ب سنگھ کو اُس کی وفاداریوں کے صلہ میں جموں کا علاقہ دے دیا جس نے اقتدار سنبھالتے ہی یہ اندازہ کر لیا کہ جب تک تمام پہاڑی علاقے فتح نہیں ہوجاتے ڈوگرہ اقتدار کا مستحکم ہونا محال ہے‘ چنانچہ اس نے سب سے پہلے سلطان خان والئی بھمبر کو گرفتار کیا۔ اس کے بعد راجوری کے راجگان راجا عزیز خان اور اغرخان کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور ان مفتوحہ علاقوں پر دیوان دلباغ رائے کو حاکم مقرر کیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے بھمبر (چبھال) کے علاقے دھیان سنگھ کو اور پونچھ اور حسیروٹہ کا علاقہ دھیان سنگھ کے بیٹے ہیراسنگھ کو بطور جاگیر کے عطا کر دیے تھے یوں اُس نے پونچھ کے قبائل کی آزادی سلب کر لی۔

ملدیال 

ملدیال نسلی طور پر ﺗﺮﮎ مغل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پونچھ کے آزاد قبائل میں ملدیال قبیلہ زیادہ غیور تھا اور اپنی اس غلامی کو شدت سے محسوس کرنے لگا تھا۔ اُس دور میں شمس خان ملدیال قبیلہ کا ایک ممتاز اور موثر سردار تھا۔ راجا دھیان سنگھ نے سردار شمس خان کی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر اُسے گھوڑا اور چار سپاہی دے کر اپنی ذاتی ملازمت میں لے لیا تھا۔ وہ اپنی قابلیت کی بناپر جلد ہی دھیان سنگھ کا منظورِنظر بن گیا۔ راجا گلاب سنگھ کو اپنے بھائی راجا دھیان سنگھ کی یہ ادا پسند نہ تھی اور اُس کی یہ کوشش تھی کہ دھیان سنگھ سردار شمس خان پر بھروسا کرنا ترک کر دے لیکن اس تنبیہ کے باوجود دھیان سنگھ سردار شمس خان پر اعتماد کرتا رہا بلکہ اس نے حاکم پونچھ دلباغ رائے کو اہم معاملات میں سردار شمس خان سے مشورہ لینے کا حکم دے رکھا تھا۔ 1832ء میں جب سکھوں کو پشاور اور اس کے گرد و نواح میں شکست ہوئی تو اس کاپونچھ کے پہاڑی قبائل پر بھی اثر پڑا اور ان میں بھی آزادی کا ایک تازہ ولولہ پیدا ہوا اور ڈوگروں کے خلاف نفرت و حقارت نے ایک عملی بغاوت کی شکل اختیار کر لی۔ ڈوگروں نے پونچھ کے مختلف اہم مقامات پر قلعے بنارکھے تھے اور اُن میں فوجی اور نیم فوجی دستے متعین تھے۔ ان میں سے ایک اہم قلعہ منگ کے مقام پرتھا جس میں تین سوکے قریب ڈوگرے مقیم تھے۔ ملدیالوں نے سردار جموں خان اور سردار مہتا خان کی سرکردگی میں اس قلعہ پر حملہ کرکے اس کو فتح کر لیا۔ وہاں زیادہ تر ڈوگرے فوجی مارے گئے۔ صرف چند جان بچا کر چھپتے چھپاتے جموں پہنچے اور جموں دربار کو پونچھ کے حالات سے آگاہ کیا۔ دریں اثنا کنجہیری، پرل، راولاکوٹ، دھمنی، جنڈالی، پلنگی، باغ اور کئی دوسرے مقامات پر بھی ڈوگرہ فوجیوں پر حملے ہوئے اور انہیں مار بھگایا گیا۔ جب یہ اطلاعات جموں سے ہوتی ہوئی خالصہ دربار لاہور پہنچیں تو گلاب سنگھ نے مہاراجا رنجیت سنگھ کو پونچھ کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے آمادہ کیا اور ناظم کشمیر کو پونچھ پر چڑھائی کاحکم دیا۔ انہی ایام میں سردار شمس خان، راجا دھیان سنگھ کی اجازت سے چند دنوں کے لیے گھر آیاہوا تھا۔گلاب سنگھ نے پشاور سے دھیان سنگھ کو خط لکھا کہ شمس خان غدار ہے اور وہی پونچھ کی شورش اور بغاوت کا ذمہ دار ہے، لہذا شمس خان کو اس کی تحویل میں دے دیا جائے۔ سردار شمس خان کو جب ان حالات کا علم ہوا تو اُس نے ملدیال سرداروں سبز علی خان اور ملی خان (ساکن منگ تحصیل سدھنوتی) کے ساتھ مشورہ کرکے بغاوت کا اعلان کر دیااور بہت سے قلعے ڈوگروں سے چھین لیے اور پونچھ خاص کے قلعے کا بھی محاصرہ کر لیا جہاں ڈوگرہ فوج خاصی تعداد میں مقیم تھی۔ اُس قلعہ کو سر کرنے کی تدابیر ہو رہی تھیں کہ سکھ اور ڈوگرہ فوج کی ایک بہت بڑی کمک دریائے جہلم کو منگلا کے مقام سے عبور کرکے تیزی سے پونچھ کی جانب پیش قدمی کرنے لگی جب یہ اطلاع موصول ہوئی تو سردارشمس خان کے جتھے پونچھ سے ہٹ کر اپنے اپنے علاقوں کی حفاظت کے لیے منتشر ہو گئے۔ مہاراجا گلاب سنگھ کا بیٹا اودہم سنگھ سکھوں اور ڈوگروں کے ایک بہت بڑے لشکر معہ دو جرنیلوں زور آور سنگھ اور لعب سنگھ، سرزمین پونچھ میں داخل ہوا اور قتل و غارت و لوٹ مار کا بازار گرم کرتا،ملدیال مجاہدین کو پیچھے دھکیلتا ہوا، پونچھ شہر کے قریب پلنگی تک پہنچ گیا۔ مجاہدین نے سکھوں اور ڈوگروں کی مشترکہ فوج کے ہر مورچے پر زبردست مزاحمت کی اور باوجود ہتھیاروں اور دیگر جنگی ساز وسامان کی کمی کے بڑی جوانمردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ وہ ہر مورچے پر اپنی شجاعت و غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔ مگر شکست قبول نہ کی برعکس اس کے اودہم سنگھ کی فوج کے اس سنگلاخ پہاڑی علاقے میں جگہ جگہ مقابلوں اور سخت مزاحمت سے حوصلے پست ہوتے چلے گئے۔ اور بالآخر اُس کو اپنے جرنیلوں اور بچی کھچی فوج کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے پسپا ہونا پڑا اور اس طرح سکھوں اور ڈوگروں کی طاقت کا غرور خاک میں مل گیا۔ اُس وقت گلاب سنگھ سرحد کے علاقے سوات میں پٹھانوں کے خلاف فوج کشی میں مصروف تھاجب اودہم سنگھ کی شکست کی خبر ڈوگرہ دربار جموں اور خالصہ دربار لاہور میں پہنچی تو رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو حکم دیا کہ وہ سوات و ہزارہ کی مہمات ملتوی کر دے اور فوراً پونچھ پر چڑھائی کرکے وہاں شورش کی سرکوبی کرے۔ اس طرح اپنے بیٹے اودہم سنگھ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے گلاب سنگھ اپنے ٹڈی دل لشکر کے ساتھ پونچھ کی طرف روانہ ہوا۔ گلاب سنگھ ہیرا نے کہوٹہ (ضلع راولپنڈی) کے نزدیک ایک مقام پر پڑائو ڈالا اور پونچھ پر فوری براہ راست حملہ کرنے کی بجائے اس نے پہلے گرد و نواح کے قبائل میں نااتفاقی پیدا کرنے اور ان کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے سازشوں اور رشوتوں کا جال پھیلایا اور ساتھ ہی پونچھ کے علاقے میں اپنے جاسوس بھیج کر اطلاعات حاصل کیں بلکہ بعض لوگوں کو خرید بھی لیا ،جن کے ذریعے علاقے بھر میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے افواہیں پھیلائیں۔ ان نفسیاتی جنگی حربوں کا یہ اثر ہوا کہ بعض سردار، سردار شمس خان کا ساتھ چھوڑ کر گلاب سنگھ کے ساتھ مل گئے اور بعض نے تصادم کی صورت میں غیر جانبدار رہنے کا وعدہ کیا۔ کہوٹہ پہنچنے پر گلاب سنگھ کے ساتھ آٹھ ہزار سپاہی تھے۔ اس نے بارہ ہزار مزید فوج تیار کی اور اپنا یہ لشکر لے کر کہوٹہ سے براستہ آئن اور لچھمن پتن (موجودہ آزادہ پتن) منگ کی طرف بڑھا۔ اورمنگ کے علاقہ میں آزادی کے پروانوں کو تہ تیغ کرتا ہوا پلندری تک آن پہنچا جہاں اس نے سولہ دن قیام کیا۔ یہ ایام علاقے کے غریب اور نہتے عوام کے لیے قیامت خیز تھے۔گلاب سنگھ نے عبرت ناک خوف و ہراس پھیلانے کے لیے قتل عام کا کھلا اعلان کر دیا اور حکم دیا کہ جو سپاہی کسی باغی کا سرکاٹ کر لائے گا اُس کو پانچ روپے فی سرانعام دیاجائے گا۔ چنانچہ بے شمار معصوم اور بے گناہ لوگ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ،قتل کر دیے گئے۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے کنبوں کے ساتھ پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے اور کچھ ہجرت کر گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ علاقے میں کوئی ذی روح نہیں بچے گا۔ گلاب سنگھ کے حکم سے ڈوگرہ سپاہیوں نے عورتوں اور بچوں کو جانوروں کی مانند ہانک کر پلندری کے مقام پر ایک باڑے میں جمع کیا ان بے گناہ اور مظلوم عورتوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار کے قریب تھی اور باڑے کے ارد گرد خاردار جھاڑیاں جمع کر دی گئی تھیں ڈوگرہ سپاہی ان عورتوں کے ساتھ بھی انتہائی ظلم برتتے۔ انہیں بھوکا پیاسا رکھتے اور کبھی کبھار ان کے آگے مکئی کے بُھٹے ڈال دیتے تھے تاکہ وہ زندہ رہیں۔ دن میں صرف ایک مرتبہ پانی پلانے کے لیے انہیں نزدیکی نالے پر لے جاتے تھے۔ ان سختیوں کے باعث ڈیڑھ ہزار عورتیں پلندری ہی میں لقمہ اجل ہوگئیں اور باقی ماندہ کوجموں لے جایاگیا ،جن میں تقریباً سات سونے راستے ہی میں دم توڑ دیا۔گلاب سنگھ نے ان سولہ دنوں میں تقریباً چھ ہزار افراد کو پہاڑوں سے تلاش کرکے ان کے سرکاٹ کر سرِ عام لٹکا دیے۔ پلندری میں جس جگہ ظلم و ستم کا یہ بازار گرم رکھا گیا اور ہزاروں بے گناہ افراد کو تہ تیغ کیا گیا اسے اب بھی سو لتیراں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اب عین اسی جگہ ایک ڈگری کالج قائم ہے جو خان صاحب خان محمد خان کے اسم گرامی سے موسوم ہے۔ سردار سبز علی خان اور ملی خان کو ان کے گائوں منگ میں نمائش کے طور پر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیااور اُن کے جسموں سے کھالیں کھینچ کر اُن میں بھُوسا بھر کر مجسمے بنائے گئے تاکہ لوگوں کو ایسی عبرت دلائی جائے کہ ان کی آئندہ نسلیں بھی بغاوت کا نہ سوچ سکیں۔گلاب سنگھ نے سازش کے ذریعے سردار شمس خان اور اُس کے بھتیجے راجولی خان کو شہید کرایا اور ان کے سرکاٹ کر لوہے کے پنجرے میں بند کرکے پونچھ کے ایک پہاڑی درے ادھ ڈھک کے مقام پر لٹکادئے، جہاں وہ کئی سالوں تک پڑے رہے۔ سردار شمس خان کی شہادت کے بعد گلاب سنگھ نے پورے پونچھ پر آسانی سے تسلط جمالیا اور پھر وہ واپس جموں چلاگیا۔ لاہور خالصہ دربار میں دھیان سنگھ کے قتل کے بعد وزارتِ عظمیٰ ہیرا سنگھ کو دی گئی۔گلاب سنگھ کا بھائی سوچیت سنگھ اس بات سے ناخوش ہوا کیونکہ وہ وزارتِ عظمیٰ اپنا حق سمجھتا تھا۔ دونوں کی چپقلش نے جب نازک صورت اختیار کر لی تو ہیراسنگھ نے سوچیت سنگھ کو اس کے محافظ دستے سمیت قتل کر دیا۔ بعد میں جب ہیراسنگھ جہلاپنڈت کے ساتھ جموں جا رہاتھا تو راستے میں مخالفوں نے اُسے بھی قتل کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد دھیان سنگھ کے دوسرے بیٹے موتی سنگھ و جواہر سنگھ، راجا گلاب سنگھ کے پاس رہے، جب یہ دونوں بالغ ہوئے تو مہاراجا نے کچھ شرائط کے ساتھ پونچھ کا علاقہ اُنہیں واپس دے کر اپنے ماتحت رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان دو بھائیوں نے نہ صرف یہ فیصلہ ماننے سے انکارکیابلکہ پونچھ کی اُس آمدنی کا بھی مطالبہ کیا جو ان کی نابالغی کے زمانے میں راجا گلاب سنگھ کے خزانے میں جمع ہوئی تھی، لیکن گلاب سنگھ کا مؤقف تھا کہ اس نے ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کی رُو سے کشمیر کی قیمت پچہترلاکھ روپے(نانک شاہی ) انگریزوں کو اداکی ہے۔ اس لیے وہ انہیں بطور راجا پونچھ اپنے ماتحت رکھنا چاتا ہے۔ اس پر دونوں بھائیوں نے لاہور ریذیڈنٹ کے پاس مقدمہ دائر کر دیا۔ ریذیڈنٹ نے گلاب سنگھ کے موقف کی تائید کی اور تسلیم کیا کہ جواہر سنگھ اور موتی سنگھ، مہاراجا گلاب سنگھ کے جاگیردار کی حیثیت سے پونچھ پر قابض رہ سکتے ہیں، چنانچہ ایک معاہدہ کی رُو سے پونچھ کی جاگیر دونوں بھائیوں کو واپس کر دی گئی اور اُنہیں پابند کر دیاگیا کہ وہ مہاراجا جموں وکشمیر کی مشاورت کے بغیر کوئی کام نہ کریں اور اُس کے باجگزار بن کر رہیں۔ موتی سنگھ نے 1852ء میں باقاعدہ پونچھ کا انتظام سنبھالا اور 1947ء کی جنگ آزادی تک یہی خاندان پونچھ پر حکمران رہا۔ موتی سنگھ جانتا تھا کہ پونچھ کے قبائل خاص کر ملدیال بے حد سرکش اور جنگ جُو ہیں جب تک ان کو معاشی اور اقتصادی بدحالی میں مُبتلا نہ رکھا گیا تو اُن پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ لہذا ملحقہ علاقوں سے وہ بہت سے ہندو تاجر ریاست میں لایا اور اُن کی اس قدر پُشت پناہی کی کہ اُنہوں نے جونکوں کی طرح مسلمانوں کا خُون چوسنا شروع کر دیا اور مسلمان اُن سُود خور بنیوں کے رحم و کرم پر ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ اُس نے پونچھ انتظامیہ میں بھی مسلمانوں کو شامل نہ کیا اور ان علاقوں کے لوگوں کو نمبرداریوں اور جاگیرداریوں کے چکر میں اُلجھائے رکھا، تاکہ یہ سرکشی نہ کرسکیں۔ اُس نے پونچھ کی سر زمین پر کوئیاسکول قائم نہ کیا جہاں لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کر سکتے۔ چنانچہ مسلمان دینی و دنیوی تعلیم سے بے بہرہ رہے۔

ڈوگروں کے بے شمار نئے ٹیکس 

الغرض ڈوگرہ راج نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے مسلمانوں کا تشخص اور خود اعتمادی ختم ہو اور وہ صرف اور صرف ڈوگرہ شاہی کے رحم و کرم پر زندہ رہ سکیں۔ اس ناپاک مقصد کے حصول کے لیے ڈوگروں نے رعایاپر بے شمار نئے ٹیکس لگائے اور ان کو مالیہ میں مدغم کر دیا گیا۔ یہ ٹیکس مندرجہ ذیل تھے۔

سری ٹھاکر جی ٹیکس بحساب چار فی صد بررقم مالیہ
وسہرا کے تہوار پر چار فی صد بررقم مالیہ
دیوالی ٹیکس چار فی صد بررقم مالیہ
زرٹیکس بہ حساب چار فی صد بررقم مالیہ(راجا صاحب کے جواہرات)

علاوہ ازیں نذرِ سرکار اور نذرِ وزیر ٹیکس بھی شامل مالیہ کیے گئے۔ ایک ٹیکس رسوم جنگلات کے نام سے بھی نافذ تھا۔ ہندوئوں کو مال مویشی رکھنے پر کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا تھا،جبکہ مسلمانوں کو ہر قسم کے مال مویشی پر ٹیکس دیناپڑتاتھاجو ترنی کہلاتا تھا۔ صنعت و حرفت پر ٹیکس بھی وصول کیاجاتاتھاجس کو متحرفہ کہاجاتاتھا ،پن چکیوں پر بھی ٹیکس عائد تھا۔ مسلمان لڑکیوں کی شادی پر بھی ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور طلاق پر بھی۔ پونچھ میں ڈوگرہ فوج اور دیگر اہل کاروں کو مالیہ کی وصولی پر ششماہی حساب سے تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں۔ اس لیے مالیہ نہایت سختی سے وصول کیاجاتا اور جو زمیندار بوجہ تنگ دستی مالیہ ادانہ کرسکتے انہیں طرح طرح کی سزائیں اور اذیتیں دی جاتی تھیں۔ ان کے لواحقین کو گرفتار کر لیاجاتا تھا اور ان کی رہائی اس وقت تک نہ ہوتی جب تک مالیہ ادانہ ہوجاتا۔ ان سختیوں کی وجہ سے اکثر زمیندار اپنی زمینیں چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے۔ ڈوگرہ شاہی کے اس طویل دور میں صرف راجا بلدیو سنگھ ایک ایسا حکمران تھا جس نے 1899ء میں حکومتِ ہند سے انگریز افسروں کو مستعار لے کر ان کا تقرر بطور مہتمم بندوبست کیا اور علاقہ کی دوبارہ پیمائش کرائی۔ ان انگریز افسروں نے رعایا کے تمام مصائب و آلام، تکالیف اور چیخ و پکار سے متاثر ہوکر راجا بلدیو سنگھ کی رضامندی سے پونچھ کی برطانوی ہند سے وابستگی کرادی اور اُسے ریاست پونچھ کا نام دیاگیا۔ مزید برآں نگرانی کے لیے ایک انگریز ریڈیڈنٹ مقرر ہوا۔ پونچھ کے آخری مہتمم بندوبست کیپٹن آر۔ ای۔ ہملٹن نے رعایا کی دل جوئی کے لیے محکمہ جات کو الگ الگ دفتری صورت دی اور آبادی کے تناسب سے ان محکمہ جات کی انتظامیِ تشکیل کی، لیکن بدقسمتی نے مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا ،کیونکہ بعض جنونی حد تک متعصب ہندو جو سوامی دیانند کے پیروکار تھے،نہیں چاہتے تھے کہ ہندو راجائوں اور مہاراجوں کی ریاستوں میں کوئی مسلمان کسی اہم عہدے پرفائز ہو یا راجا کسی ایسے شخص کو وزیر یا اہلکار بنائے جو چاروں ویدوں کا عالم نہ ہو۔ وہ یہ ہرگز گوارا کرنے کے لیے تیار نہ تھے کہ ریاست پونچھ میں برطانوی ہند کی ریذیڈنسی کی بدولت مسلمانوں کی اندرونی اور بیرونی طاقت میں اضافہ ہو۔ چنانچہ اُنہوں نے راجا سکھدیوسنگھ کو جو ابھی کمسِن تھا، ریذیڈنسی سے علاحدہ ہونے پر آمادہ کر لیا اور پونچھ دوبارہ دربار جموں وکشمیر کی سرپرستی میں آ گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کر دی گئی اور چھوٹے بڑے مسلمان افسروں کی ملازمتیں نہ صرف ختم کر دی گئیں بلکہ اُن پر عرصہ حیات بھی تنگ کر دیاگیا یہاں پر یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ محکمہ صحت میں صرف ایک مسلمان کمپونڈر رہنے دیا گیا اور اس کو بھی دُور دراز علاقے میں مامُور کیا گیا۔ محکمہ جنگلات میں کوئی مسلمان ملازم نہ تھا۔ فارسٹر، رینجر اور گارڈکُھلے عام نذرانہ وصول کرتے ور نہ مصنوعی نقصان جنگل کی مِسل تیارکی جاتی اور پورے گائوں کو جرمانہ کیاجاتاتھا۔ ڈوگرہ شاہی کے اس دور میں عدالتی نظام بھی عوام کو انصاف بہم پہنچانے کی بجائے ناانصافی اور ظلم و استحصال کا ایک مزید ذریعہ بن گیا۔ عدالتوں کے چپڑاسی، اہلمداور محرر کھلے عام رشوت لیتے تھے۔ سرسری شہادت پیش کرنے میں کئی کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ ملزم عام طور پر علاقہ غیر میں فرار ہوجاتے تھے۔ دیوانی مقدمات میں جج صاحبان قانون کی کوئی پروا نہ کرتے اور ساہوکاروں کی طرف داری کرتے ہوئے غریب زمینداروں کے خلاف ڈگریاں صادر کرتے۔ ماتحت عدالتوں کی اپیل بغیر ہیڈ کلرک اور ریڈرکو رشوت دیے جج کی عدالت میں دائر نہیں ہوسکتی تھی،اس کے بعد بھی لوگوں کو سال ہا سال خوار ہونا پڑتا تھا۔ سزا یافتہ اپیل کنند گان میں بعض تو پوری سزا بھگت کر رہا ہوتے اور بعض جیل ہی میں مرجاتے مگر ان کی اپیلوں کی سماعت مکمل نہ ہوتی۔ چیف جج کے فیصلہ کے خلاف اپیل وزیر پونچھ کے ہاں دائر ہوتی تھی لیکن وہاں تو مظلوم عوام کی اپیل کی سماعت کا موقع ہی نہیں آتا تھا۔ محکمہ مال میں رشوت انتہائی عروج پر تھی۔ محکمہ کا ہر ملازم رشوت خور تھا اور زمینداروں کا بُری طرح استحصال کرتا تھا۔ رہن و بیع کے حصولِ اجازت کے لیے ابتدائی درخواست پر کورٹ فیس کے علاوہ دفتر کے چپڑاسی کو رشوت دینے کے بعد ہی مسل پیش کی جاسکتی تھی۔ پھر درخواست پٹواری کے پاس جاتی وہ بھی رشوت لیے بغیر متعلقہ کاغذات تیار نہ کرتا۔ پھر تحصیلدار کا محرر رشوت لیتا اور مسِل تحصیلدار کو آخری رپورٹ کے لیے پیش کرتا جو نذرانہ وصول کرکے مسل چیف ریونیو آفیسر کے دفتر بھیجتا ،جہاں ریڈر اور چیف ریونیو آفیسر بھی جیب گرم کیے بغیر رپورٹ وزارتِ عالیہ میں نہ بھیجتے۔ وزارتِ عالیہ میں بھی محرر ڈاک اور وزیر کا ریڈر معقول رشوت وصول کرنے کے بعد ہی مسل راجا صاحب کے دفتر بھیجتے۔ وہاں سے منظوری پر مسل محکمہ مال میں واپس آتی جہاں محرر پھر نذ رانہ لے کر سر ٹیفکیٹ دیتا۔ گویا راجا کی منظوری حاصل کرنے میں اُس سستے زمانے میں بھی غریب زمیندار کو کم از کم ایک سو روپے بطور رشوت خرچ کرنے پڑتے تھے۔ وقت کا نقصان اور سب کی خوشامدیں الگ کرنا پڑتی تھیں۔ حصولِ نو توڑ میں بالکل اسی طرح کم ازکم سوروپیہ خرچ آتا تھا۔ تحصیلدار علاقہ زمین کے ایک انتقال کرنے کے دس سے پچاس روپے تک لیتاتھا۔ علاوہ ازیں پٹواری اور گرد اور نے ہر فصل پر الگ نذرانے مقرر کررکھے تھے جو باقاعدگی سے وصول کیے جاتے تھے۔ ڈوگرہ مظالم کے اُس دور میں محکمہ شکار بھی کسی سے پیچھے نہ تھا۔ یہ محکمہ زمینداروں کے مال مویشیوں کی چراگاہوں کو بند کرکے ان میں سؤر اور جنگلی جانور پالتا تھا۔ بعض گائوں میں جہاں جھاڑی تک نہ تھی محض لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے شکار گاہیں بنائی گئیں تھیں۔ اگر شکار گاہوں میں کسی زمیندار کی بکری بھی گُزرجاتی تو بکری کی قیمت کے مساوی جرمانہ وصول کیاجاتاتھا۔ انسانوں کا ان شکار گاہوں میں داخلہ ممنوع تھا۔ اگر جنگل میں کسی انسان کا ریچھ سے مقابلہ ہو جاتا اور ریچھ مارا جاتا تو آدمی کو سزادی جاتی لیکن اگر ریچھ انسان کو مار ڈالتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ ڈوگروں نے مذہبی امور اور محتاجوں کی پرورش کے بہانے ’’دھرم ارتھ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیاہوا تھا جو تمام فنڈز دھرم شالائوں کی تعمیر پر خرچ کرتا تھا اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر کوئی پیسہ خرچ نہ کرتا تھا۔ مسلمانوں کے لیے گائے کو ذبح کرنا ایک سنگین جُرم تھابلکہ مسلمان تو بھیڑ بکری کاگوشت بھی آزادی سے استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ ظلم و استحصال کا ایک اور ادارہ محکمہ کسٹم بھی تھا جس کے اہل کاروں نے علاقے میں اودہم مچارکھا تھا۔ کسٹم چوکی پر معززین کی چوروں کی مانند تلاشی لی جاتی تھی اگر اُن ملازموں کو نذرانہ نہ دیاجاتا تو پھر کسٹم کئی گُنا زیادہ وصول کیا جاتا۔ پونچھ اور جموں و کشمیر کی سرحدات پراندرونِ ریاست بھی کئی کسٹم چوکیاں تھیں جہاں درآمد برآمد پر کسٹم وصول کیاجاتاتھا۔ یہ امراہلِ پونچھ کے لیے بالخصوص تکلیف دہ تھا، انہیں ریاست جموں و کشمیر میں بار بار مختلف مقامات پر کسٹم ٹیکس کی صورت میں بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی تھیں جس سے اشیاء صرف پر کئی گُنا اخراجات بڑھ جاتے۔ باوجود ان ٹیکسوں کے ڈوگرہ حکومت رعایا پر کوئی پیسہ خرچ نہ کرتی تھی اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے ملازمتیں یادیگر ذرائع روزگار تھے ۔96فیصد کی مسلمان اکثریت کے لیے سات فیصد سے بھی کم ملازمتیں مہیا تھیں۔ لوگ ہندوستان او ر خاص کر فوج میں ملازمت سے اپنی گزراوقات کرتے تھے۔ سڑکیں ناپید تھیں اور دریائوں ندی نالوں پر پل یاکشتیاں بھی نہ تھیں۔ پہاڑی سنگلاخ راستوں پر لوگوں کو بوجھ پُشت پر یاسر پر اُٹھا کر سفر کرنا پڑتا تھا۔ پونچھ کے عوام پر قحط سالی اور مفلوک الحالی کے بادل ہر وقت چھائے رہتے تھے۔ لوگوں کے علاج معالجے کے لیے کوئی ہسپتال نہ تھا اور اُن کی تعلیم کے لیے کوئیاسکول بھی نہ تھا جبکہ ڈوگرے قومی دولت کو اپنے محلوں اور تفریح گاہوں میں ضائع کرتے تھے یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ غریب عوام سے وصول کی جانے والی آمدن کا چالیس فیصد حصہ صرف شاہی خاندان کے ذاتی خرچ اخراجات کے لیے مخصوص تھا۔ پونچھ کی مسلمان رعایا ان بے بہا ٹیکسوں کے بوجھ تلے کچلی جا رہی تھی اور ڈوگرے اُن سے بار برداری کا کام بھی بغیر اُجرت دیے کرواتے تھے جو ’’بیگار‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ جب بھی راجا، رانی یادربار کے کسی حاکم یا اہلکار نے کہیں جانا ہوتا تو جن علاقوں سے اُن کا گزر ہوتا وہاں کے تمام مسلمان افراد کو ذیلداروں اور نمبرداروں کے ذریعے پابند کر لیتے اور تمام سامان جن میں ڈوگرہ مستورات کے ’ ڈولے ‘بھی شامل ہوتے تھے ،منزلِ مقصود تک پہنچانا ہوتا تھا اور تعجب خیز بات یہ تھی۔ کہ ’’بیگار‘‘ کے دوران میں ان مظلوم لوگوں کو اپنے کھانے پینے کا بندوبست بھی خود کرنا پڑتا تھا۔ یہی حال راجا ،مہاراجا اُن کے وزیروں، دیگر افسروں اور اُن کے معزز مہمانوں کی شکار گاہوں میں شکار کھیلتے وقت پیش آتا تھا۔ علاقے کی تمام نفری شکار گاہوں میں درندے کو شکاری تک ہانک کر لے جاتی جو ’’چاہڑ‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ بھوکے پیاسے یہ بدقسمت لوگ کئی کئی دن چاہڑ کے سلسلے میں جکڑے جاتے اور ان میں سے کئی خوفناک درندوں شیروں، ریچھوں اور جنگلی سورئوں سے زخمی ہوجاتے یامارے بھی جاتے۔ قابل تعجب بات یہ تھی کہ غریب عوام سے باقاعد ہ قلی ٹیکس جو مالیہ میں شامل تھا بھی وصول کیا جاتا لیکن یہ رقم ڈوگرہ شاہی اہلکار خود ہضم کر جاتے تھے اورغریب عوام سے راستوں کی تعمیر کاکام بھی بغیر اُجرت کے لیاجاتا تھا۔ مسلمانوں پر سب سے بڑا عذاب سود خور ہندو بنیوں کا تھا۔ وہ پہلے کسی ضرورت مند مسلمان کو معمولی سی رقم کی اشیائے خوردنی اُدھار دیتے تھے اور اس پر ایک معقول شرح سے سود مقرر کر لیتے تھے۔ اصل رقم جُوں کی توں برقرار رہتی تھی اور یہ ماہوار صرف سود ہی وصول کرتے تھے۔ اگر کسی ماہ مقروض مسلمان قرض ادانہ کر سکتا تو جرمانہ کے طور پر رقم دُگنی کردی جاتی اس طرح جب مقروض مسلمان مجبور ہو جاتا تو یہ فوراً سرکار کی پُشت پناہی سے اس کی زمین کی ڈگری کراکر اس پر قبضہ کر لیتے اور وہی زمین اسی شخص کو حصہ پر دے دیتے اور وہ غلہ پیدا کرتا جس کا تیسرا حصہ اُسے کاشتکاری کے عوض ملتاتھا۔ اس طرح مالک مقروض ہوکر سود خوروں کا مزارع بن جاتاتھا۔ غلہ کاحساب یہ تھا کہ اگر کسی مسلمان کو دو من مکئی یاگندم قرض دی جاتی تو بنئیے دوسرے سال فصل پر چار من وصول کرتے تھے اگر کسی وجہ سے مسلمان یہ ادانہ کر سکتا تو اس سے اگلے سال یہ آٹھ من ہوجاتی تھی اور اس طرح یہ حساب بڑھتا ہی جاتاتھا۔ دراصل اس طریقے سے ڈوگرہ سرکار مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے محروم کرنا چاہتی تھی اور بہت حد تک مسلمانوں کو ان کی کار آمد زمینوں سے بے دخل بھی کر چکی تھی۔ یہ تھا پونچھ کا وہ تاریخی ،سیاسی، سماجی اور معاشی پس منظر جس میں اہل پونچھ اپنی زندگیوں کو جبرو تشدد اور انتہائی نکبت و افلاس کی فضا میں گزارنے پر مجبور تھے اور اﷲ جل شانہ‘ سے دست بُدعا تھے کہ اُن کی نجات کا کوئی راستہ نکلے۔ اﷲ نے ان کی دُعائیں قبول فرمائیں اور ان کے درمیان میں ایک ایسامردِ حق و مجاہد پیداکیا جس نے ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر1947ء کے مبارک سال میں انہیں آزادی کی نعمت سے ہم کنار کیا۔ پونچھ پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر کے دس اضلاع میں سے ایک ہے۔ پونچھ کی چار تحصیلیں ہیں۔ راولاکوٹ،ہجیرہ، عباسپور، تھوراڑ

سردار شمس خان ملدیال 

ملدیال نسلی طور پر ﺗﺮﮎ مغل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ضلع باغ اور پونچھ میں ان کی تعداد زیادہ ہے اسکے علاوہ مظفرآباد نیلم اور عباسپور میں بھی ان کی کافی تعداد موجود ہے۔ ان کے جدامجد کا نام مرزا مولود بیگ تھا۔مولود بیگ جہانگیر کے دور میں کشمیر آیا ۔ تحصیل حویلی کے علاقہ دیگوار میں قیام ہوا۔ اسکی نسل کشمیر میں پھیلی پھولی اس حوالے سے یہ ملدیال کہلائے۔ شمس خان ملدیال بھی مرزا مولود کی نسل میں سے تھا۔ ان لوگوں کی زبان پہاڑی زبان ہے۔

پونچھ کی تاریخ 

پونچھ کی تاریخ میں خوفناک جنگیں ہوئی ہیں ، جس جنگ کی اور شخصیت کی بات پونچھ سے منسوب کی گئی ہے ، اور جنگ کا محور منگ کو بتایا جا رہا ہے ، منگ میں کوئی جنگ نہں ہوئی ہے ، جو کچھ منگ سے نتھی کیا گیا ہے وہ سب جھوٹ فراڈ ہے ، ریاست کے کسی حصے یا پنجاب کے کسی دانشور نے منگ میں کسی بھی قسم کا کوئی ذکر نہں کیا ہے ، موجودہ پونچھ کے کچھ دانشوروں جھوٹ موٹ کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ، پونچھ والوں نے رنجیت سنگھ کے خلاف جنگ کی ہے ، اور یہ رنجیت سنگھ کے دور کی بات ہے جب رنجیت سنگھ لاہور دربار میں تخت نشیں تھا اور اس کے ایک فوجی جرنل اطہر سنگھ کی قیادت میں یہ آپریشن سردار شمس خان ملدیال کے خلاف 1827 میں شروح کیا تھا . شمس خان ملدیال پونچھ کی دھرتی کے مایا ناز لیڈر تھے ، جس کی گرفتاری پر انعام بھی رکھا گیا تھا - تاریخ اقوام پونچھ ، تاریخ اقوام راجگان جموں ، تاریخ پنجاب ، جسٹس یوسف صراف ، کرپا رام دیوان ، ستیندر سنگھ ، محمّد دین فوک ، اور بے شمار مصنفین نے شمس خان ملدیال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ، اور اس کو ملدیال ہی لکھا ہے ، پونچھ کے مہشور پہاڑی لوک گیت میں بھی شمس خان ملدیال کا ذکر آیا ہے . شمس خان ملدیال کے نام سے باغ کے بائیس بڑے گاؤں منسوب کے گئے ہیں ، جن میں کھرل ملدیلاں ، دیگوار ملدیلاں ، سالیاں ملدیلاں آج بھی موجود ہیں . شمس خان ملدیال کی برادری کے 22 گاؤں کو تہس نہس کر دیا گیا تھا ، یاد رہے کہ شمس خان ملدیال کے خلاف ایک بھی مقامی شخص نے بغاوت نہیں کی بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی جانوں کو شمس خان پر قربان کر گئے . ملدیال قبیلے کی لیسٹ میں ٹوپی کوٹھیاں پہلے نمبر پر تھا اور بیئر پانی دوسرے نمبر پر تھا ، ان دو گاؤں کی خاصیت یہ ہیکہ یہاں ملدیال برادری اکثریت سے آباد ہے اور ان گاؤں والوں نے برادری کے لیڈران کو ماضی کی تاریخ میں اور سردار شمس خان کا جم کر ساتھ دیا ، اسی وجہ سے سردار شمس کی اپنی تحریر تقریر میں ان گاؤں کا نام آیا ، اور جب دشمن نے حملہ کیا تو بھی سب سے پہلے یہ گاؤں تباہ کر دیے گئے ، ملدیایلوں کے ٨٤ گاؤں ہیں ، سب سے آخری نمبر پر پنالی گاؤں ہے -

سردار شمس خان ملدیال اور اطہر سنگھ 

سردار شمس خان نے اطہر سنگھ کو شکست دے دی تھی ، پھر پنجاب دربار کے وزیر اعظم دیہان سنگھ کے بیٹے کو پونچھ میں بیھجا گیا ، جب اس کو بھی شکست ہوئی تو اس وقت رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو کہا کہ اپ جموں کے مقامی ہو اپ کے علاوہ شمس خان کو کوئی شکست نہں دے سکتا ، جب گلاب سنگھ نے پونچھ کے راجہ دلباغ راۓ کو خط لکھا کہ اپ شمس خان کو گرفتار کرو ، راجہ دلباغ نے گلاب سنگھ کو صاف انکار کر دیا کہ شمس خان کو میں گرفتار نہں کر سکتا ، پونچھ کی خواتین اس کے گیت گاتی ہیں ، اور ہزاروں کے حساب سے اس کی ملدیال برادری ہر وقت اس کے ساتھ ہوتی ہے ، اس پر گلاب سنگھ نے شمس خان کے سر کی پانچ نانک شاہی قیمت رکھی ، گلاب سنگھ خود پونچھ پر حملہ اور ہوا ، لڑائی خوف ناک تھی ، اسی دوران سردار شمس خان ، اور اس کے بتیجهے راج ولی کو دیگوار کے مقام پر محمّد خان تیوڑھ کے گھر دھوکے کے ساتھ کھانے میں زیر ملا کر دیا گیا جس سے کہ سردار شمس خان اور راج ولی خان بے ہوش ہو گئے اس دوران ظالم تویڑہ نے ساتھیوں سمیت شمس خان کی تلوار سے ہی دونوں چچا بھتیجا کا سر قلم کر دیا تھا ، یوں اگلی کہانی سری نگر دانشور کے ڈی مینی کی کتاب پہاڑی شیرازہ میں تفصیل پڑھ لی جیے ، لیکن ملدیال قبیلے نے سردار شمس خان کے قتل کے بعد جنگ بند نہں کی اور بعد میں بننے والی جدید ریاست جموں کشمیر سے 80 سال بائیکاٹ کر رکھا تھا جسی کی وجہ سے دوسرے قبائل کے لوگوں نے ان 80 سالوں میں پونچھ کی ایم زمینوں پر قبضے کر لئے تھے ، اور یہی وجہ ہے کہ ملدیال قبیلہ اس وقت سے لے کر پستی کا شکار رہا ، جو بعد میں پر نا ہو سکا اور دوسرے قبائل آگے نکل گئے - اور بعد میں سدھن قبیلے کے ایک لیڈر ریاست جموں کشمیر کے سب سے بڑے غدار ابراہیم خان سمیت 20 مصنفین نے کتابیں لکھی اور ان کتابوں میں شمس خان کو سدھن لکھا گیا جو سرا سر تاریخ پونچھ اور ریاست جموں کشمیر اور ریاستی ہیرو کے خلاف ایک سازش تھی ، اور ریاست جموں کشمیر میں رہنے والے ملدیال مغلوں کی تاریخ سے زیادتی اور دھوکہ تھا اس کے لیے ضروری یہ تھا کہ غیر ملدیال لوگوں کی کتابوں اور کشمیر کی تاریخ سے مواد لے کر کشمیر کے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے . اس حوالے سے صدیق چغاتی صاحب نے بہت محنت کی ہے اور ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں.

توران 

وسط ایشیا کے اس علاقے کو توران کہتے ہیں جس میں تورک، تاتاری، ترکمان وغیرہ نسل کے لوگ آباد ہیں یہ علاقہ ایک طرف منگولیا تک پھیلتا چلا گیا ہے اور دوسری طرف روسی قفقاز تک کے علاقے کو اپنی مغربی سمت کے پھیلاؤ میں لیے ہوئے ہے یہ وہی علاقہ ہے جس پر کبھی شاہنامہ فردوسی کا تورانی فرمانروا افراسیاب حکمران تھا اور اس جس کی برپا کی ہوئی جنگوں میں ایران کا مشہور پہلوان رستم بن زال معرکہ آرا نظر آتا تھا آج کل یہ علاقہ قلمرو چین اور وسط ایشیا کے ممالک میں بٹا ہوا ہے اور اس کے سنکیانگ، تورکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، آذربائجان وغیرہ کے ناموں کے ساتھ کئی حصے بخرے ہو گئے ہیں تورکستان کے معنی ترکوں کی سرزمین ہے جو وسط ایشیا کا ایک خطہ ہے جس میں آج بھی ترکوں کی اکثریت ہے ترک اور فارسی کہانیوں میں اس کا حوالہ ملتا ہے اور یہ توران کا حصہ ہے یہ اوغوز ترک، ترکمان، ازبک، قازق، خزر، کرغز اور ایغور قوموں کی سرزمین ہے یہی اقوام وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی گئیں اور آج ترکی (اناطولیہ و استنبول)، آذربائیجان اور تاتارستان انہی ترکوں کی ریاستیں ہیں تورکستان کو مغربی اور مشرقی تورکستان میں تقسیم کیا گیا ہے مغربی تورکستان وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے جس پر سوویت یونین نے قبضہ کر لیا تھا جبکہ مشرقی تورکستان اب بھی چین کے زیر قبضہ ہے جسے چین میں سنکیانگ کہا جاتا ہے چین کے ایغور علیحدگی پسند سنکیانگ کو ایغورستان اور مشرقی تورکستان کہتے ہیں تورکستان ایک شاندار تاریخ کا حامل ہے جو تین ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے یورپ اور چین کے درمیان تجارت کا اہم راستہ شاہراہ ریشم اسی سے ہوکر گذرتا ہے مسلم سلطنتوں کا حصہ بننے کے بعد 1860ء میں مغربی علاقہ روسی سلطنت کے زیر اثر آگیا اور انقلاب روس کے بعد اسے تورکستان خود مختار سوویت اشتراکی جمہوریہ میں تبدیل کر دیا گیا اور بعد ازاں مسلمانوں کی مزاحمت کے خاتمے کے لیے اسے قازق، کرغز، تاجک، ترکمان اور ازبک سوویت اشتراکی جمہوری ریاستوں میں بانٹ دیا گیا روس کے خاتمے کے بعد ان جمہوری ریاستوں نے آزادی حاصل کرلی مشرق تورکستان جسے چینی تورکستان بھی کہا جاتا ہے ایغور ترکوں کی سرزمین ہے جس پر 18 ویں صدی کے وسط میں چنگ سلطنت نے قبضہ کر لیا اور سنکیانگ یعنی "نیا صوبہ" کا نام دیا عوامی جمہوریہ چین نے اسے سنکیانگ ایغور خود مختار خطہ قرار دیا صوبے میں خطے کی قدیم ایغور تورک آبادی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے اور چین کی سب سے بڑی نسلی اکائی ہان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے موجودہ اعدادہ و شمار کے مطابق ایغوز اب صوبے کی آبادی کا صرف 46 فیصد رہ گئے ہیں جب کہ 1948 میں انکی آبادی خطے کی آبادی کا 98 فیصد تھی۔

وسط ایشیا 

وسط ایشیا کے مغربی حصے کے بیشتر علاقے پر دنیا کے دو عظیم صحرا کاراکم اور کیزل کم پھیلے ہوئے ہیں مشرق میں بلند و بالا پہاڑی سلسلے ہندو کش، تین شان اور پامیر ہیں چند دریا صحرا میں سے گذرتے ہیں جن میں آمو دریا بھی شامل ہے جو پامیر میں سے نکلتا ہوا سکڑتے ہوئے بحیرہ ارال میں جا گرتا ہے علاقے کے عوام کی اکثریت کا ذریعہ معاش چونکہ زراعت ہے اس لیے بیشتر آبادی دریائی وادیوں اور نخلستانوں میں رہتی ہے علاقے میں متعدد بڑے شہر بھی واقع ہیں ابھی تک روایتی خانہ بدوشوں کا طرز زندگی بھی پایا جاتا ہے جو اپنے جانوروں کے ساتھ ایک سے دوسری چراگاہ میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں افغانستان کا بہت بڑا علاقہ، مغربی صحرا اور مشرق کے پہاڑی علاقے تقریباً غیر آباد ہیں تاشقند، کابل اور بشکک اس خطے کے بڑے شہر ہیں بحیرہ ارال جو کسی زمانے میں دنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل تھا اب 1960ء کے مقابلے میں صرف 40 فیصد رہ گیا ہے اس کی بڑی وجہ اس میں گرنے والے دریاؤں میں سے نہروں کو نکال کر بڑے پیمانے پر زمینوں کو قابل کاشت بنانا تھا جس سے اس جھیل میں پانی کے ذرائع ختم ہو کر رہ گئے اور یہ روز بروز سکڑتی چلی گئی اور کم پانی بھی شدید گرمی کے باعث بخارات میں تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اب عالمی توجہ کے بعد اس قدرتی ورثے کی حفاظت کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے جس سے اس عظیم جھیل میں، جو اپنے وسیع حجم کے باعث سمندر بھی کہلاتی ہے، دوبارہ پانی بھرنا شروع ہو گیا ہے کاراکم کا عظیم صحرا ترکمانستان کا 70 فیصد علاقے پر پھیلا ہوا ہے اس صحرا کی سطح ہواؤں سے تشکیل پانے والے ٹیلوں اور گھاٹیوں پر مشتمل ہے انسانی آبادیاں اس صحرا کے کناروں تک ہی محدود ہیں سطح زمین پر دباؤ پر کھنچاؤ سے وادی فرغانہ تشکیل پائی جو بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان ایک گہری وادی ہے یہ وادی اپنی زرخیز زمین کے باعث انتہائی گنجان آباد ہے اور وسط ایشیا کے بڑے صنعتی مراکز میں سے ایک ہے یہاں کی زمین سیر دریا اور دیگر زیر زمین آبی ذخائر سے فیض یاب ہوتی ہے۔

صحرائے گوبی 

منگولیا پر بہت سے نامور بادشاہوں نے حکومت کی ہے 1206ء میں چنگیز خان نے منگولیا پر حکومت کی سولہویں صدی کے آخر میں بدھ مت مذہب یہاں پر پھیل گیا سترہویں صدی کے آخر میں منگولیا راجونش خاندان کی حکمرانی میں چلا گیا جب 1911ء میں منگولیا نے آزادی کا اعلان کیا تو انہیں آزادی کے لیے بادشاہوں سے لڑنا پڑا جس میں سوویت یونین نے ان کی مدد کی 1921ء میں دنیا نے منگولیا کو آزاد ملک تسلیم کر لیا منگولیا اب بھی بنیادی طور پر دیہی ہے منگولیا میں ریڈ کراس سوسائٹی 1939ء میں قائم کیا گیا اس کے ہیڈ کوارٹر اولان باتور میں قائم ہیں سوویت یونین کے خاتمے پر روس کی منگولیا میں دلچسپی ختم ہو گئی جو اس سے قبل منگولیا میں دلچسپی دکھا رہا تھا اب چین اور جنوبی کوریا منگولیا کے کے ساتھ تجارت کو شعبے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں صحرائے گوبی چین اورجنوبی منگولیا کا ایک بہت بڑا صحرا ہے صحرا کے شمال میں کوہ التائی اور منگولیا کے میدان، جنوب مغرب میں سطح مرتفع تبت اور جنوب مشرق میں شمالی چین کے میدان ہیں منگولین زبان میں گوبی کا مطلب "بہت بڑا اور خشک" کے ہیں یہ ایشیا کا سب سے بڑا صحرا ہے تاریخ میں گوبی منگول سلطنت کا حصہ ہونے اور شاہراہ ریشم پر متعدد اہم شہروں کے باعث معروف ہے یہ صحرا1,295,000 2 مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلا ہوا ہے یہ ایک شدید سرد صحرا ہے سال کا طویل عرصہ اس کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم رہتا ہے اس کے ٹیلوں پر برف باری ہوتی رہتی ہے یہ سطح سمندر سے 910 میٹر تا 1520میٹر بلند ہے سالانہ بارش کی اوسط مقدار7.6انچ ریکارڈ کی گئی ہے سائبیریا سے آنے والی شدید سرد ہواؤں کے باعث یہاں شدت کی سردی پڑتی ہے موسم سرماکے دوران درجہ حرارت 40 - سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جنوری میں درجہ حرارت 26.5 - سینٹی گریڈ تک جبکہ جولائی کے ایام میں17.5 سینٹی گریڈ ناپا گیا ہے یہاں برفانی طوفان چلتے ہیں جن میں ریت شامل ہوتی ہے صحرائے گوبی میں قدیم جانور(ڈائنوسارس)کی باقیات اور ان کے انڈے دریافت ہوئے ہیں شدید سرد آب وہوا کے باوجود یہاں جنگلی حیات بھی پائی جاتی ہیں مثلاََ کالی دم والا ہرن،دوکوہانوں والا اونٹ،بلی نما جانور،منگولیہ کا جنگلی گدھا، برفانی چیتا،بھورا ریچھ اوربرفانی بھیڑیا اور کئی قسم کے پرندے شامل ہیں یہاں کی نباتات میں جھاڑی نما پودے پائے جاتے ہیں جو خشکی اور پانی کی کمی کو برداشت کرسکتے ہیں نوکدار گھاس پائی جاتی ہے۔

شاہنامہ 

شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے یا کارنامے بنتا ہے فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً 1000ء میں لکھی اس شعری مجموعہ میں “عظیم فارس“ کے تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے یہ مجموعہ تقریباً 60000 سے زائد اشعار پر مشتمل ہے اس ادبی شاہکار، شاہنامہ میں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے یہ واقعات شاعرانہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے ایرانی تہذیب اور ثقافت میں شاہنامہ کو اب بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے جس کو اہل دانش فارسی ادب میں انتہائی لاجواب ادبی خدمات میں شمار کرتے ہیں فارسی کی رزمیہ شاعری کا شاہکار جس کا آغاز 980ء کو ہوا اور اختتام 1009ء کو ہوا اس کے مرکزی کردار بادشاہ ہیں مگر ضمناً عوامی زندگی اور مختلف قدروں پر حکیمانہ تبصرہ بھی ہے شدید ایران پرستی کے باعث فردوسی نے عربی الفاظ سے پرہیز کیا مگر اس کی وجہ سے زبان مشکل ہے کلام میں بہت زور ہے واقعہ نگاری، منظر کشی اور جذبات نگاری میں شاعر کو غیر معمولی ملکہ حاصل ہے بعض اشعار بے حد بلیغ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے اسے ایران کا انسائیکلو پیڈیا قرار دیا ہے۔

منگول سلطنت کا عروج‌ و زوال 

روس کے باشندے خوف کے مارے تھرتھر کانپ رہے تھے مشرق کی سمت سے گُھڑ سواروں کا ایک بڑا لشکر تیزی سے روس کی طرف بڑھ رہا تھا روسی فوج نے اُن کا سامنا کرتے ہوئے بُری طرح شکست کھائی جتنے بھی گاؤں قصبے اور شہر اُس لشکر کی زد میں آئے وہ سب کے سب تباہ ہو گئے آخرکار روس کا صرف ایک ہی صوبہ اِس لشکر کے شکنجے میں آنے سے بچ گیا اور یہ نوگوروڈ کا صوبہ تھا وہاں کے ایک خوف‌زدہ مؤرخ نے لکھا!

روس پر ایسے قبائلی حملہ‌آوروں کا سیلاب ٹوٹ پڑا ہے جن کے بارے میں ہمیں نہ تو معلوم ہے کہ وہ کون ہیں اور نہ ہی کہ وہ کونسی زبان بولتے ہیں 

روس پر حملہ کرنے والے یہ گُھڑسوار دراصل تاتاری تھے اُن کا آبائی علاقہ وسطیٰ اور شمال‌ مشرقی ایشیا میں واقع وہ میدانی علاقہ ہے جو آج تک منگولیا کہلاتا ہے تیرھویں صدی کے شروع میں منگولوں نے ایشیا سے یورپ تک ایک وسیع علاقے پر قبضہ جما لیا محض پچیس سال کے اندر اندر اُن کے قابو میں اتنا بڑا علاقہ آیا جتنا کہ رومی سلطنت اپنی حکمرانی میں مغلوب نہیں کر پائی جب منگول سلطنت اپنے عروج پر تھی تو اُس نے کوریا سے ہنگری تک اور سائبیریا سے انڈیا تک راج کِیا انسانی تاریخ میں کسی اور سلطنت نے اس پیمانے کے متواتر علاقے پر حکمرانی نہیں کی منگول سلطنت کے بارے میں سیکھ کر نہ صرف ایشیا اور یورپ کی تاریخ کے بارے میں ہمارا علم بڑھتا ہے بلکہ خدا کے کلام میں پائی جانے والی کئی سچائیوں کی تصدیق بھی ہوتی ہے مثلاً یہ کہ حکمرانوں کی شان‌ و شوکت محض تھوڑے ہی عرصے کے لئے ہوتی ہے انسان دوسروں پر حکومت کرکے اُن پر بلا لاتا ہے اس کے علاوہ پاک صحائف میں سلطنتوں کو اکثر جنگلی حیوانوں سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ وہ جانوروں کی طرح دوسری قوموں پر حملہ‌آور ہوتی ہیں۔‏

تاتاری کون تھے؟‏ 

تاتاری ترکوں کی ایک شاخ ہیں تاتار قوم ایسے خانہ‌بدوش قبیلوں پر مشتمل تھی جو ماہر گُھڑسوار تھے اور جو مویشی پالنے کے علاوہ شکار اور تجارت کرنے سے بھی اپنا گزر بسر کرتے تھے اُس زمانے میں زیادہ‌ تر قوموں میں صرف فوجی ہی جنگ‌ بازی سیکھتے تھے جبکہ منگولوں کا تقریباً ہر مرد جس کے پاس گھوڑا ہوتا ایک زورآور جنگجو اور ماہر تیرانداز تھا ہر قبیلے کا اپنا اپنا سردار ہوتا تھا جسے خان کا لقب دیا جاتا تھا قبائلی ہر صورت میں اپنے سردار کے وفادار رہتے منگول قبیلے بیس سال تک ایک دوسرے سے لڑتے رہے آخرکار تقریباً ۲۷ منگول قبیلے تموجن نامی ایک خان کی سربراہی کے تحت متحد ہو گئے بعد میں تُورک مسلمان بھی اِس اتحاد میں شامل ہو گئے ان تُورک قبیلوں کو تاتار کہا جاتا تھا اس لئے جب منگول اور تاتار لشکروں نے یورپ کا رُخ کِیا تو وہاں انہیں مجموعی طور پر تاتار کہا جانے لگا منگولوں نے تموجن کو ”‏چنگیز خان“‏ کا لقب دیا اس لقب کا مطلب ”‏طاقتور حکمران“‏ یا ”‏عالمگیر حکمران“‏ ہے اس کے علاوہ اُسے ”‏خاقان“‏ یعنی ”‏عظیم خان“‏ کا لقب بھی دیا گیا چنگیز خان کے لشکر ایسے تیراندازوں پر مشتمل تھے جو گھوڑوں پر سوار ہو کر تیر چلانے میں ماہر تھے اس لئے وہ اتنی تیزی سے حملہ کر سکتے تھے کہ دُشمن اُن کا مقابلہ نہیں کر پاتے اکثر مختلف لشکر ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں پر حملہ‌آور ہوتے اس طرح میدانِ‌ جنگ ہزاروں میل تک پھیلا ہوتا چنگیز خان جنگ‌ بازی کے لحاظ سے سکندرِاعظم یا نپولین اوّل کے برابر تھا چنگیز خان کے زمانے میں رہنے والے فارسی مؤرخ جوزجانی نے اُس کے بارے میں لکھا کہ!

وہ بڑی توانائی امتیاز ذہانت اور سمجھداری کا مالک تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جوزجانی نے اُسے ”‏قصائی“‏ کا لقب بھی دیا 
ایشیا میں چنگیز خان کی فتوحات 

شمالی چین کا علاقہ مانچو نامی ایک قوم کے قبضے میں تھا اُنہوں نے اپنی سلطنت کو ”‏کن“‏ یعنی ”‏سنہری سلطنت“‏ کا نام دیا مانچو کے علاقے تک پہنچنے کے لئے چنگیز خان کے لشکروں کو صحرائےگوبی کو پار کرنا پڑا لیکن یہ ریگستان بھی اِن خانہ‌ بدوشوں کی راہ میں رُکاوٹ نہ بن سکا اُنہوں نے اپنے گھوڑوں کا دودھ اور اُن کا خون پی کر اِسے صحیح‌ سلامت پار کر لیا البتہ چین اور مانچوریا پر فتح حاصل کرنے میں چنگیز خان کو تقریباً بیس سال لگے جب آخرکار چین اُس کے قبضے میں آ گیا تو اُس نے وہاں کے عالموں،‏ کاریگروں،‏ تاجروں اور انجینئروں کو کام پر لگا لیا تاکہ وہ اُس کے لئے دیواریں توڑنے والی اور پتھر پھینکنے والی مشینیں بنائیں اس کے علاوہ اُنہوں نے چنگیز خان کے لئے بارود والے بم بھی بنائے شاہراہِ‌ریشم بھی چنگیز خان کے قبضے میں آ گئی تھی اس کے ذریعے وہ مغربی قوموں کے ساتھ اور خاص طور پر تُرکی سلطان محمد کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا تھا جس وسیع علاقے پر سلطان محمد حکمرانی کر رہا تھا اس میں آج افغانستان،‏ تاجکستان،‏ تُرکمانستان،‏ اُزبکستان اور ایران شامل ہیں منگول ایلچی سلطان محمد کی سلطنت کی سرحد پر پہنچے وہ تو محض تجارتی معاہدے کرنے کے لئے آئے تھے لیکن وہاں کے صوبہ‌دار نے اُن سب کو قتل کر دیا اس کے نتیجے میں منگولوں نے اُس مسلم ملک پر دھاوا بول دیا وہ سیلاب کی طرح سلطان محمد کی سلطنت پر ٹوٹ پڑے تین سال تک وہ لُوٹتے اور شہروں اور زمینوں کو آگ لگاتے رہے اُنہوں نے سلطان محمد کی رعایا میں خون کی ندیاں بہا دیں صرف ایسے لوگ زندہ بچ گئے جن کا کوئی ایسا ہنر تھا جو منگولوں کے کام آ سکتا تھا ایک اندازے کے مطابق منگول لشکر تقریباً بیس ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھا اُنہوں نے آذربائیجان اور جارجیا سے گزر کر کوہِ‌قاف کے شمال میں واقع میدانوں کا رُخ کِیا راستے میں اُنہوں نے اُن کا سامنا کرنے والی ہر فوج کو شکست دی ان میں اسی ہزار سپاہیوں پر مشتمل روسی فوج بھی شامل تھی آخرکار اُنہوں نے بحیرۂخزر کے اِردگِرد کے پورے علاقے پر قبضہ جما لیا۔‏ اُنہوں نے تیرہ ہزار کلومیٹر گھوڑوں پر سوار طے کئے کئی تاریخ‌دانوں کا خیال ہے کہ یہ تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی فتح تھی جسے ایک گُھڑسوار فوج نے حاصل کی چنگیز خان نے بعد میں آنے والے منگول حکمرانوں کے لئے مثال قائم کی اُنہوں نے اِس مثال کی نقل کرتے ہوئے مشرقی یورپ پر حملہ کِیا۔‏

چنگیز خان کا جانشین 

چنگیز خان کی پسندیدہ بیوی نے چار بیٹوں کو جنم دیا تیسرے بیٹے کا نام اوکتائی خان تھا اور اُسی کو چنگیز خان کی موت پر خاقان بنایا گیا جن علاقوں پر اُس کے والد نے فتح حاصل کی تھی اوکتائی خان نے اُن کے مقامی سرداروں سے خراج وصول کِیا اس کے علاوہ اُس نے شمالی چین میں واقع کن نامی سلطنت کے باقی حصوں پر بھی قبضہ جما لیا منگول اپنی کامیابی کے نتیجے میں جلد ہی عیش‌وعشرت کی زندگی کے عادی ہو گئے اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے اوکتائی خان نے نئے نئے علاقوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کِیا اُس نے یورپ پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ جنوبی چین میں واقع سنگ نامی سلطنت پر بھی حملہ کِیا یورپ میں تو اُس نے فتح حاصل کر لی لیکن سنگ سلطنت کے زیادہ‌تر علاقے پر وہ قبضہ نہیں جما سکا۔‏

یورپ پر تاتاریوں کے حملے 

ڈیڑھ لاکھ منگول جنگجو یورپ کی طرف بڑھنے لگے سب سے پہلے اُنہوں نے دریائےوُلگا کے علاقے پر حملہ کِیا پھر اُنہوں نے دیگر روسی شہروں پر چڑھائی کی مثال کے طور پر اُنہوں نے شہر کی‌ایو کو راکھ کر دیا اس کے بعد منگولوں نے پیشکش کی کہ اگر انہیں روسی شہروں میں موجود تمام مال کا دسواں حصہ دیا جائے تو وہ اِن کو تباہ نہیں کریں گے لیکن روسیوں نے لڑنے کا فیصلہ کِیا لہٰذا منگولوں نے پتھر پھینکنے والی مشینوں کے ذریعے اِن شہروں پر پتھر،‏ جلتا ہوا شورہ اور مٹی کا تیل برسایا جب ایک شہر کی دیوار گِر جاتی تو منگول اس کے باشندوں میں اِس حد تک خونریزی کرتے کہ تقریباً کوئی شخص زندہ نہیں بچتا منگول لشکر پولینڈ اور ہنگری میں تباہی مچاتے ہوئے اُس علاقے کی سرحد پر پہنچے جو آج جرمنی کہلاتا ہے مغربی یورپ کے لوگ اِس بات کی توقع کر رہے تھے کہ منگول اُن پر حملہ‌آور ہوں گے لیکن کوئی ایسی بات واقع نہیں ہوئی کیونکہ دسمبر اوکتائی خان فوت ہو گیا تھا اس لئے تمام فوجی کمانڈر ایک نئے حکمران کو منتخب کرنے کے لئے منگولیا کے دارالحکومت قراقرم واپس لوٹے اوکتائی خان کے بیٹے کیوک کو خاقان کے عہدے کے لئے منتخب کِیا گیا کیوک خان کی تخت‌ نشینی کے وقت ایک اطالوی رہبر بھی دربار میں حاضر تھا اُس نے پندرہ مہینے کا سفر طے کِیا تاکہ وہ کیوک خان تک پوپ اِنوسینٹ چہارم کا ایک پیغام پہنچا سکے پوپ نے منگولوں سے یہ وعدہ چاہا کہ وہ دوبارہ سے یورپ پر حملہ نہیں کریں گے اس کے علاوہ وہ اُنہیں عیسائی مذہب کو قبول کرنے کی ترغیب دینا چاہتا تھا لیکن کیوک نے ایسا وعدہ کرنے سے انکار کِیا اس کی بجائے اُس نے پوپ کو یہ پیغام بھیجا کہ بادشاہوں کا ایک ٹولا اپنے ساتھ لا کر میرے پاس آؤ اور میری تعظیم کرو۔‏

چین اور مشرقِ‌ وسطیٰ پر حملہ 

منگو خان اگلا خاقان بنا اپنے بھائی قبلائی خان سمیت اُس نے جنوبی چین میں واقع سنگ سلطنت پر حملہ کِیا اس کے ساتھ ساتھ منگولوں کے ایک اَور لشکر نے مغرب کا رُخ کِیا اِس لشکر نے شہر بغداد کو خاک میں ملا دیا اور شہر دمشق کو شکست دی اُس وقت عیسائی،‏ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ لڑ رہے تھے وہ یہ دیکھ کر بڑے خوش ہوئے کہ مسلمانوں نے منگولوں کے ہاتھ شکست کھائی ہے یہاں تک کہ بغداد میں رہنے والے عیسائی اپنے مسلمان پڑوسیوں کو قتل کرنے اور اُن کے گھروں کو لُوٹنے لگے اب ایسا لگ رہا تھا کہ منگول لشکر مسلمان دُنیا کو تباہ‌وبرباد کر دے گا لیکن عین اُس وقت اُنہیں منگو خان کی موت کی خبر ملی ایک بار پھر منگول فوج اپنے وطن واپس لوٹی اُنہوں نے صرف دس ہزار سپاہیوں کو سرحد کی حفاظت کے لئے کھڑا کِیا تھوڑے ہی عرصے بعد مصری فوج نے اِس قدراً چھوٹے لشکر کا نام‌ونشان مٹا دیا تاہم جنوبی چین کی جنگ میں منگول لشکر نے سنگ سلطنت کے خلاف فتح حاصل کر لی قبلائی خان اس سلطنت پر حکومت کرنے لگا اور اِسے یوآن کا نام دیا اُس نے ایک نیا دارالحکومت تعمیر کِیا جو آج تک بیجنگ کے نام سے مشہور ہے لگ‌ بھگ قبلائی خان نے چین کے اُن علاقوں پر بھی فتح حاصل کر لی جہاں سنگ سلطنت کے حمایتی باقی تھے اس طرح چین تقریباً ۳۷۰ سال کے بعد پہلی بار متحد ہو گیا۔‏

منگول سلطنت کا زوال 

سن ۱۳۰۰ء کے لگ‌بھگ منگولوں کی سلطنت میں شگاف پڑنے لگے چنگیز خان کی اولاد میں سے بعض افراد طاقت آزمائی کرنے لگے اس کے نتیجے میں منگول سلطنت کے دیگر حصوں میں مختلف خان حکومت کرنے لگے اس کے علاوہ منگول اُن علاقوں کی تہذیبوں کو اپنانے لگے جن پر اُنہوں نے فتح حاصل کر لی تھی چین میں بھی قبلائی خان کی اولاد ایک دوسرے سے طاقت آزمائی کرنے کی وجہ سے اپنا اختیار کھونے لگی چینی لوگ ناقص حکمرانوں کرپشن اور خراج کے بوجھ سے اُکتا گئے تھے لہٰذا اُنہوں نے ۱۳۶۸ء میں منگولوں کے تخت کو اُلٹا کر یوآن سلطنت کو ختم کر دیا ایشیا اور یورپ پر منگول ایک آندھی کی طرح آئے تھوڑے ہی عرصے کے لئے زوروں پر رہے اور پھر آندھی کی طرح جلد ہی تھم گئے اِس کے باوجود منگولوں نے ایشیا اور یورپ کے نقشے پر اپنا نشان چھوڑ دیا درحقیقت آج بھی منگولیا میں چنگیز خان کو بابائےقوم خیال کِیا جاتا ہے۔‏

تاتاریوں کی تجارت 

قبلائی خان نے یوآن سلطنت کو وجود دیا یہ سلطنت اپنے عروج پر دُور دراز علاقوں کے ساتھ تجارت کرتی تھی تاریخ‌ دانوں کا کہنا ہے کہ!

تاریخ میں یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارت میں سب سے زیادہ اضافہ یوآن سلطنت کی وجہ سے ہوا 

یہ وہ زمانہ بھی تھا جب اطالوی مسافر مارکو پولو نے چین تک سفر کِیا اُس زمانے میں عرب،‏ فارس،‏ اِنڈیا اور یورپ سے تاجر یا تو خشکی کے راستے یا پھر سمندر کے ذریعے چین کا سفر کرتے تھے وہ گھوڑوں،‏ قالینوں،‏ جواہرات اور مصالحوں کے بدلے باریک ظروف،‏ لاکھ کے کام کے فرنیچر اور ریشم کی تجارت کرتے تھے مارکو پولو کے سفرنامے کو پڑھنے کے بعد کرسٹوفر کولمبس منگول سلطنت کے ساتھ دوبارہ سے تجارت شروع کرنا چاہتا تھا اس لئے وہ منگولوں کے مُلک کی تلاش میں یورپ سے مغرب کی طرف روانہ ہوا البتہ اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سلطنت کا وجود ایک صدی پہلے ختم ہو چکا تھا اس کے زوال کی خبر اس لئے یورپ تک نہیں پہنچی تھی کیونکہ مسلمانوں نے یورپ سے مشرق کی طرف جانے والی تمام شاہراہوں کو بند کر دیا تھا۔‏

منگول دوسرے مذاہب کا احترام کرتے تھے 

منگولوں کے مذہب کے مطابق ہر چیز کی ایک رُوح ہوتی ہے جسے راضی رکھنے کی کوشش کی جانی چاہئے لیکن منگول دوسرے مذاہب کا بھی احترام کرتے تھے منگولوں کی تاریخ کے بارے میں ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جب یورپی لوگ منگولیا کے دارالحکومت قراقرم پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں چرچ مسجدیں اور مندر ساتھ ساتھ بنے ہیں منگولوں کا ایسے عیسائیوں سے بھی واسطہ پڑا جو بزنطینی چرچ کے ایک فرقے (‏نسٹوریوں)‏ سے تعلق رکھتے تھے اِس فرقے کی تبلیغ کی وجہ سے ایشیا کے تُورک قبیلوں میں بہت سے لوگ عیسائی بن گئے تھے منگولوں کے اُن قبیلوں کے ساتھ بھی تعلقات تھے یہاں تک کہ ان قبیلوں میں سے کئی عیسائی عورتوں نے منگولوں کے شاہی خاندان کے چند اراکین سے شادی کر لی آجکل منگولیا کے لوگ طرح طرح کے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں کُل آبادی میں سے تقریباً ۳۰ فیصد اپنے پردادا کے پُرانے مذہب پر چلتے ہیں ۲۳ فیصد بدھ‌مت سے تعلق رکھتے ہیں اور ۵ فیصد مسلمان ہیں آبادی کا باقی حصہ کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔‏

سیف الدین قطزبطور سلطان 
ہلاکو خان کے ترک منگولوں سے خطرہ 

1258ء میں منگول فوج نے ہلاکو خان کے زیر سایہ بغداد کا محصرہ کیا اور اس کے باشندوں کا قتل عام کیا اور عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو مار ڈالا۔ اس کے بعد ہلاکو خان نے شام کے ایوبی بادشاہ الناصر صلاح الدين يوسف کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا۔ الناصر يوسف نے خلاف توقع اپنے پرانے دشمنوں، یعنی مملوکوں سے مدد کی طلب کی- نائب سلطان قطز اور مصری امرا اس بات سے حیران و پریشان تھے- وہ منگولوں کی بڑھتی طاقت سے واقف بھی تھے اور ان کے ظلم و بربریت سے بھی آشنا ہو چکے تھے- کئی امرا خوف زدہ تھے- نائب سلطان قطز نے سب امرا کو بلا کر فیصلہ کیا کہ اس نازک وقت میں یکجہتی اور مضبوطی کا مظاہرہ کیا جائے اور صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر نور الدین علی کو برطرف کرکے وہ خود نومبر 12، 1259ء میں سلطان بنا-

ترک منگولوں کے خلاف جنگی تیاریاں 

قطز چونکہ ناصر یوسف کے پیغام سے فکر مند تھا اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ اس کی طرف سے پیش قدمی میں کوئی کمی واقع نہ ہو اور مصر سے شام کی جانب فوری طور پر مدد کے لیے جنگی تیاریاں شروع کیں- لیکن اس دوران ہلاکو خان شام کے شہر حلب کے نزدیک پہنچ گیا- الناصر يوسف کے ساتھ ساتھ کئی امرا بھی گھبرا گئے اور وہ منگولوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کا سوچنے لگے- مگر وہاں کے پناہ گزین مملوکوں کے سردار رکن الدین بیبرس اس فیصلے کے سخت خلاف تھا اور وہاں سے وہ واپس مصر کی طرف روانہ ہوا جہاں اس کا خیر مقدم کیا گیا- ان حالات میں شام اور کمزور ہو گیا اور اب لڑنے کے قابل نہ رہا جس کی وجہ سے حلب اور دمشق دونوں پر ہلاکو خان نے قبضہ کر لیا اور وہاں کے شہریوں پر انگنت ظلم ڈھائے- الناصر يوسف بے شرمی سے مصر کی طرف بھاگا مگر اسے قطز نے اندر نہ آنے دیا اور سرحد تک اسے روکے رکھا- اس کے امرا اسے ایک کے بعد ایک چھوڑنے لگے اور آخر کار سلطان قطز نے ناصر یوسف کے زیورات اور رقم، جو اس نے اپنی بیوی اور نوکروں کے ساتھ مصر بھیجا تھا، پر قبضے کا حکم دیا اور الناصر يوسف کو گرفتار کرکے ہلاکو خان کے پاس بھیج دیا تاکہ ہلاکو اس بات کو ذہن میں رکھے کہ مملوکوں نے اس کے دشمن کو پناہ نہیں دی اور اسے منگولوں کے حوالے بھی کر دیا اور اس طرح شاید وہ مصر پر حملہ آور نہ ہو- بدقسمتی سے ہلاکو خان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ اس نے اسلامی تاریخ کا سب سے زیادہ دھمکی بھرا خط قطز کے نام بھیجا-شام اور بغداد میں اسلامی اقتدار کے مراکز کی فتح کے بعد، اسلامی سلطنت کا مرکز مصر منتقل ہوا اور ہلاکو خان کا اگلا ہدف بن گیا۔ قطز پریشان ضرور ہوا لیکن وہ بزدل نہ تھا - اس نے صبر و سنجیدگی سے اپنے امرا سے مشورے کے بعد منگول ایلچیوں کا سر قلم کرکے اعلان جنگ کیا اور باب زويلہ پر ان کے سر لٹکا دیے- منگولوں کے حملہ کرنے کے انتظار کی بجائے، قطز نے فوج کو مصر سے دور مشغول اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ مصر کے دیگر علاقے سے لوگ فرار ہو گئے۔ جیسے مراکش مغرب کی جانب فرار ہو گئے، جبکہ یمنی یمن اور کئی افراد حجاز بھاگ گئے۔ قطز خود الصالحیہ کی طرف روانہ ہوا اور رکن الدین بیبرس کو غزہ بھیجا تاکہ منگول براول دستہ جو وہاں موجود تھا، کو شکست دے کر راستہ صاف کیا جائے- غزہ میں ایک دن گزارنے کے بعد ساحل کے ساتھ ساتھ، قطز نے عکہ تک فوج کی قیادت کی، جو کسی زمانے کے یروشلم صلیبی ریاست کا حصہ تھا مگر اب صرف یہ شہر ہی باقی تھا . صلیبی ریاستیں مملوکوں کے روایتی دشمن تھے اور انہیں منگولوں کی طرف سے فرنگی منگول اتحاد کے قیام کے بارے میں رابطہ بھی کیا گیا . اس سال تاہم، صلیبی ریاستوں کو منگولوں سے زیادہ خطرہ محسوس ہوا . قطز نے صلیبی ریاستوں کو منگولوں کے خلاف عارضی طور پر فوجی اتحاد کا مشورہ دیا، لیکن عکہ کے فرنگی دونوں فرقوں کے درمیان نہیں آنا چاہتے تھے اور انہوں نے غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا۔ تاہم وہ، قطز اور اس کی فوج کو صلیبی علاقے کے ذریعے سفر اور عکہ کی صلیبی گڑھ کے قریب ڈیرہ ڈالنے کی اجازت دینے کو تیار ہو گئے۔ قطز اور اس کی فوج نے تین دن کے لیے وہاں قیام کیا اور جب اسے منگولوں کے دریائے اردن کو تجاوز کرنے کی خبر ملی،تو وہ اور بیبرس عین جالوت کے مقام پر پہنچ گئے-

جنگ عین جالوت 

جنگ عین جالوت 3 ستمبر، 1260ء میں لڑی گئی تھی اور نہ صرف اسلامی تاریخ کی سب سے اہم ترین لڑائیوں میں سے ایک ثابت ہوئی بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ پر یہ جنگ لڑی گئی تھی جب منگول کی بڑھتی فتوحات کو نہ چین نہ وسط ایشیا نہ روس و مشرقی یورپ بلکہ خوارزم، عباسی خلافت اور ایوبی شام بھی نہ روک سکے تھے-

  1. _میاں_محمد_وقاص_خاں



2424 7 Shares Like Comment Share

0 Comments Active

Write a comment… • • • • •


MiAn WaQas pordnteSsoul592688b11a2l00a 3ch1lalmie0gc084irtel,48m02egfD •

سیف الدین قطز 

سیف الدین قطز مصر و شام کے بحری ترک مملوک سلطانوں میں تیسرے سلطان بنے جنہوں نے 1259 سے 1260 تک حکومت کی۔ ان کی قیادت میں بحری ترک مملوکوں نے جنگ عین جالوت میں ترک منگولوں کو فیصلہ کن شکست دی - اگرچہ قطز کا دور مختصر تھا، وہ اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول مملوک سلطانوں میں سے ایک ہے- انہیں سلطان المظفر کے لقب سے نوازا گیا- جنگ عین جالوت کے بعد مملوک بادشاہ سیف الدین قطز کو بیبرس نے 24 اکتوبر، 1260 میں قتل کروا کے حکومت پر قابض ہوا۔

ابتدائی زندگی 

قطز کی ابتدائی زندگی کافی غیر واضح ہے .کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ منگولوں کے کسی یلغار میں قطز پکڑا گیا اور ایک مصری غلام تاجر کو شام میں فروخت کیا گیا- اس مصری غلام تاجر نے آگے عز الدین أیبک کو قطز بطور غلام فروخت کیا- بعض ذرائع کے مطابق، قطز نے دعویٰ کیا کہ ان کا اصل نام محمود ابن ممدود تھا اور وہ خوارزم شاہی سلطنت کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے- ان میں سے کسی بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی مگر یہ واضع ہے کہ مملوکوں میں جلد ہی اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ترقی کرنے لگا اور اعلی عہدوں پر فائض ہوا-

بطور نائب سلطان 

عز الدین أیبک نے قطز کو 1252ء میں نائب سلطان مقرر کیا-

بحری مملوک کے دو دھڑوں میں پھوٹ 

أیبک کو صرف ایک مملوک سے ڈر تھا، وہ فارس الدین أقطائی الجمدار تھا جس کے ساتھی رکن الدین بیبرس اور سیف الدین قلاوون تھے- أیبک کے گروہ کو المعزی کہتے تھے- أیبک کو شک تھا کہ أقطائی اس سے اقتدار چھیننا چاہتا ہے اور وہ شک یقین میں بدل گیا جب أقطائی نے قاہرہ کے قلع میں داخل ہونے کا مطالبہ کیا- چنانچہ أیبک نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور قطز کے ساتھ مل کر أقطائی کے قتل کی سازش کی اور اسے قلعے ميں بلوایا اور مروا دیا- أقطائی کا کٹا سر قلعے سے گرتے ہوئے دیکھ کر اس کے ساتھی اپنی جانیں بچا کر کوئی دمشق، کوئی الکرک یا تو پھر سلاجقہ روم بھاگے- أیبک نے أقطائی کے ساتھیوں کی املاک لوٹی اور اسکندریہ کا ضلع، جو کبھی أقطائی کا تھا، پر قبضہ کر لیا- جو حضرات بھاگنے نہ پائے وہ یا تو قید و بندش کی نظر ہوئے یا پھر تلوار کی-

قتل أیبک کی تفتیش اور نور الدین علی کا سلطان بننا 

جب 1257ء میں شجر الدر نے عز الدین أیبک کو قتل کروا دیا تو قطز نے شجر الدر کو حراست میں لے لیا اور صالحی مملوکوں کی پناہ میں اسے ڈال دیا- قطز نے نور الدین علی، جو أیبک کا 15 سالہ بیٹا تھا، کو سلطان مقرر کیا- نور الدین علی نے شجر الدر کو بے دردی سے قتل کروا دیا-1257ء تا 1259ء قطز ہی بطور نائب سلطان ملک کی باگ ڈور سنبھالتا رہا-

باغیوں سے مقابلہ 

اس دوران قطز الکرک کے المغيث کی بغاوت سے نمٹنے کے لئیے روانہ ہوا اور اسے شکست دی-

سیف الدین قطز کا قتل 

قطز جب واپس الصالحیہ آیا تو اسے مملوک سازشیوں نے قتل کر دیا- قتل کرنے والوں کے نام تقی الدین أحمد المقریزی کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں- وہ امیر بدر الدین بکتوت الجوکندار المعزی، امیر أنص سلاحدار الأصبہانی، امیر بہادر المعزی، امیر بلبان الہارونی، امیر بلبان الرشیدی، امیر بندوغز الترکی اور امیر بید غان الرکنی تھے- بعض مغربی تاریخ ساز بلا وجہ رکن الدین بیبرس کا نام بھی شامل کرتے ہیں- یہ سچ ضرور ہے کے قتل کی سازش بیبرس کی تھی-مگر کیا بیبرس نے خود اپنے ہاتھوں سے قطز کا قتل کیا کہ نہیں، اس بات کا کوئی حتمی ثبوت یا سراغ تاریخ نے ہم تک نہیں پہنچایا- ترک مملوک مورخین اس قتل کی سازش کی دو اہم وجوہات ہم تک پہنچاتے ہیں؛

ایک یہ کے رکن الدین بیبرس اپنے دوست فارس الدین أقطائی الجمدار کی موت کا بد لہ لینا چاہتا تھا-
دوسری وجہ یہ تھی کہ جنگ عین جالوت کے بعد قطز نے رکن الدین بیبرس کو حلب دینے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ اس نے امیر موصل الملک السعید علاءالدین کو دے دیا-

سلطان المظفر سیف الدین قطز کو شام کے قصبے القصير‎ میں پہلے دفن کیا گیا اور بعد میں قاہرہ میں نعش کو لے جا کر دفن کیا گیا- جنگ عین جالوت سے فتح یاب ہوکر رکن الدین بیبرس مصر لوٹ آیا اور قاہرہ میں دھوم دھام سے جشن منایا گیا- ساتھ ہی اس نے نیا سلطان ہونے کا اعلان کیا اور جنگ ٹیکس ختم کر دیا جو قطز نے نافذ کیا تھا اور اس طرح لوگوں کے دل جیت لیے- قطز نے ایک سال کے لیے مصر پر حکومت کی- انہیں ایک نیک اور ایک انتہائی بہادر سلطان کے طور پر مسلمانوں کے تاریخ دانوں کی طرف سے یاد کیا جاتا رہا ہے- ایک مسجد قطز کے نام سے قاہرہ میں موجود ہے-


سلطان عبدالحمید خان ثانی 

عثمانیوں سے عداوت اہل مغرب کے ہماری اور ہمارے ہاں مغرب کی اندھی تقلید کرنے والوں کی غفلت سے فائدہ اٹھانے کا نتیجہ ہے،مثلاً ایک دور میں فرانسیسیوں نے سلطان عبدالحمید ثانی کوLe sultan ruj ’’’’(خونی بادشاہ) کا لقب دیاتھا۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارے صحافیوں نے بھی اس لقب کو اپنے اخبارات میں جلی حروف کے ساتھ شائع کیا۔یہ حقیقت ہے کہ ہمارے آباء واجداد کے بارے میں تمام ناپسندیدہ القاب مغرب سے درآمد کردہ ہیں،یہی وجہ ہے ہمارے عظیم ہیرؤں کے لئے استعمال ہونے والے کسی بھی برے لقب کا ہماری زبان سے تعلق نہیں،بلکہ سب کی کڑیاں یورپ سے جاملتی ہیں۔کاش! امت مسلمہ اپنے اسلاف کی اتنی قدر تو کرتی جتنی قدر اہل یورپ اپنے اسلاف کی کرتے ہیں۔یہ کہنا ہر گز درست نہیں کہ عثمانیوں نے اسلام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا،کیونکہ عثمانیوں نے اپنے عروج و زوال کے ہر دور میں اسلام کے دامن کو تھامے رکھا۔

طغرل بیگ 

نہ صرف عثمانی بلکہ الپ ارسلان کے چچا طغرل بیگ بھی عباسی خلیفہ قائم باللہ کے دربار میں انتہائی ادب کے ساتھ حاضر ہوتے تھے،حالانکہ اس وقت خلیفہ بہت کمزور ہو چکے تھے اور ان کے لئے خلافت کی نمائندگی اور اس کا دفاع کرنا ممکن نہ رہا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ طغرل بیگ کو ایسے خلیفہ کا اس قدر ادب و احترام کرنے کی ضرورت نہ تھی،لیکن وہ انہیں نبی اکرم ﷺ کا خلیفہ سمجھ کر ان کا احترام کرتے اور ان سے کہتے کہ وہ ان کی پناہ میں آکر اسلام اور نبوت کے دفاع سے متعلق ہر حکم کے منتظر ہیں،بلکہ انہوں نے عملی طور پر اپنے تمام وسائل اور صلاحیتیں خلیفہ کی خدمت میں پیش کردیں۔ کہنے کو قائم باللہ خلیفہ تھے، لیکن خلافت کی حفاظت کی ذمہ داری طغرل بیگ سرانجام دے رہے تھے۔اس دور میں ترکوں کے ایک ہزار خاندان دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کی قیادت طغرل بیگ کے ہاتھ میں تھی۔میں نے یہ معلومات مشہور مؤرخ اسماعیل جامی دانشمند سے الفاظ کے تھوڑے سے تغیر و تبدل کے ساتھ نقل کی ہیں۔اسلام کے بارے میں ہماری قوم کے طرز عمل کے اظہار کے سلسلے میں ان معلومات کی بڑی اہمیت ہے۔میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ طغرل بیگ کے اس طرز عمل کا اسلام کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ایسے عمدہ طرز عمل کا تعلق استحصال کے ساتھ جوڑنا ترک قوم کی عظمت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ یہی جذبہ دولت عثمانیہ کی تاسیس میں کارفرما تھا۔جب غازی ارطغرل نے سارے اناطولیہ کو اپنے زیرنگین کر کے ’’سوکت‘‘ کے قریب سکونت اختیار کی تو وہ اسلام کے علمبردار تھے۔وہ خلیفہ کا انتہائی ادب و احترام کرتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ جب انہوں نے‘‘سوکت’’ کے قریب ‘‘قای بویو’’ کو پائے تخت بنایا تو اس وقت اناطولیہ میں متعدد ریاستیں تھیں،جو ہمیشہ آپس میں برسریپکار رہتیں،لیکن ارطغرل اور ان کے بعد غازی عثمان نے ان سے الجھنے کے بجائے اپنی سوچ اور جدوجہد کو ہمیشہ باز نطینیوں پر مرکوز رکھا۔ یہ حکمت عملی جہاں مسلمانوں کی توجہ کو اپنے اصل مقصد پر مرکوز رکھنے کی ضامن تھی، وہیں اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں سے ترکوں کا خوف اور ان کے بارے میں شکوک و شبہات بھی زائل ہوئے۔ غازی عثمان سب سے پہلے مسلمانوں کو یکجا کرنے کی کوشش کر سکتے تھے،لیکن وہ ہر اقدام اپنے والد اور اپنے خسر شیخ ادب عالی کی وصیت کی روشنی میں اپنی خداداد دانائی اور حکمت سے کرتے،اسی لیے وہ کہا کرتے تھے:‘‘جب مسلمانوں کو یقین ہو جائے گا کہ اب ان کے پاس کفر کے سوا کوئی متبادل نہیں رہا تو وہ میرے ساتھ آملیں گے،جس کے نتیجے میں ہمیں کفار و فجار پر غلبہ حاصل ہو سکتاہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنا اصل ہدف بازنطینیوں کو قرار دیا۔انہوں نے کبھی مسلمانوں کو چھیڑا اور نہ ہی ان کے داخلی جھگڑوں میں مداخلت کی۔وہ کہا کرتے تھے:‘‘میرا ہدف بازنطینی ہیں اور ہم جلد یا بدیر قسطنطنیہ کو فتح کر لیں گے۔’’ اسلامی جذبے سے سرشار ایسے انسان کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا اسلامی جذبہ جیوپولیٹیکل جیو پولیٹیکس: یہ ایک ایسا علم ہے،جس میں ریاست کی خارجہ پالیسی پر طبیعی مثلاً جغرافیائی، آبادیاتی اور اقتصادی عوامل کے اثرات سے بحث کی جاتی ہے۔(عربی مترجم ){/qluetip} ضرورت تھی ناواقفیت یا بدنیتی پر مبنی ہے۔دولت عثمانیہ خدائی فضل کا ایک ایسا مظہر تھا جو کسی اور خاندان کے حصے میں نہ آیا۔اس نے چھ صدیوں تک پورے اخلاص کے ساتھ قرآن کا علم اٹھائے رکھا۔اس خاندان نے سب سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کی،بلکہ اگر ڈیڑھ صدی قبل اندورنی غدار اس کی پیٹھ میں چھرا نہ گھو پنتے تو شاید دنیا کے کئی اور ممالک بھی اس کے زیرنگیں آچکے ہوتے۔ عثمانیوں نے اپنے زوال کے بدترین ادوار میں بھی دین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

گستاخانہ ڈرامہ 

فرانسیسی ادیب والٹیر نے رسول اللہﷺ کے بارے میں ایک گستاخانہ ڈرامہ لکھا۔ حکومت فرانس اس دور میں اس ڈرامے کو اسٹیج پر دکھانا چاہتی تھی،جب ترکی کو ‘‘مردِبیمار’’کہا جاتا تھا،لیکن جب سلطان عبدالحمید جس پرLe Sultan Ruj ’’’’ (خونی بادشاہ) ہونے کا الزام لگایاجاتاہے کو اپنے سردار اور نورِ چشم کی شخصیت پر اس حملے کی اطلاع ملی تو اس زخمی شیر نے حکومت فرانس کو ٹیلی گرام بھیجوایاکہ اگر تم نے میرے اور تمام مسلمانوں کے رسولﷺ کی شخصیت کو نشانہ بنانے والے ڈرامے کو اسٹیج پر دکھایا تومیں تمام عربوں اور مسلمانوں کو تمہارے خلاف کھڑا کر دوں گا۔ کاش!آج بھی عالم اسلام ایسے جذبے اور احساس سے سرشار ہوتا۔اس ٹیلی گرام سے فرانس میں خوف کی لہر درڑ گئی اور حکومت فرانس اس ڈرامے کو اسٹیج پر دکھانے کی ہمت نہ کر سکی،اس کے بعد برطانیہ نے بھی اس ڈرامے کو اسٹیج پر دکھاناچاہا تو اس زخمی شیر نے اسے بھی ایک دھمکی آمیز ٹیلی گرام بھیجوایا،جس کی وجہ سے حکومت برطانیہ بھی اپنے ارادے سے باز رہی۔ہمارے اسلاف اس قدر عظیم لوگ تھے۔ رسول اللہﷺ کی داڑھی مبارک پر مٹی کا ایک ذرہ بھی پڑنے پر کانپ اٹھنے والی دولت عثمانیہ کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ضروری ہے۔صحابہ کرام کے عہد کے بعد دولت عثمانیہ اسلامی تاریخ کا سنہری ترین دور ہے۔وہ چھ صدیوں تک رسول اللہﷺ اور قرآن کا علم اٹھائے کفارسے برسرپیکار رہی۔ان پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں۔

تیموری شہنشاہ بہادرشاہ ظفر 

ایک صدی سے زیادہ عرصے تک ہندوستان کے آخری تیموری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی قبر کا نام و نشان نہیں ملتا تھا لیکن اب اس کی حادثاتی دریافت نے اس صوفی بزرگ عمدہ اردو شاعر اور تاریخ کے بدنصیب بادشاہوں میں سے ایک کی یاد دوبارہ تازہ کر دی ہے جب بہادر شاہ ظفر نے میانمار کے شہر رنگون (حالیہ نام ینگون) کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں آخری سانس لی تو ان کے خاندان کے گنے چنے افراد ہی ان کے سرہانے موجود تھے۔

انڈین ریاست میں تورک تاریخ 

اسی دن برطانوی افسران نے انھیں رنگون کے مشہور شویداگون پیگوڈا کے قریب ایک بےنشان قبر میں دفن کر دیا یہ ایک ایسے شہنشاہ کا تلخ حوصلہ شکن اور خجالت آمیز انجام تھا جس کے پرکھوں نے آج کے انڈیا پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان کے وسیع علاقوں پر صدیوں تک شان و شوکت سے راج کیا تھا یہ بات درست ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے پاس وہ سلطنت نہیں رہی تھی جو ان کے آبا اکبرِ اعظم یا اورنگ زیب عالمگیر کے پاس تھی لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ 1857 کی جنگِ آزادی میں ان کی پکار پر ہندوستان کے طول و عرض سے لوگ انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اس جنگ میں شکست کے بعد تیموری شہنشاہ پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور انھیں قید کر کے برما جلاوطن کر دیا گیا وہ 87 برس کی عمر میں چل بسے اور ان کی موت کے ساتھ ہی دنیا کے عظیم شاہی خاندانوں میں سے ایک کا اختتام ہو گیا لیکن ان کا نام اور ان کی تحریر کردہ اردو شاعری زندہ رہی جب بہادر شاہ ظفر نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت عظیم تیموریہ سلطنت سکڑ کر دہلی کے گرد و نواح تک محدود ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ اپنی رعایا کے لیے شہنشاہ ہی رہے انگریزوں نے پیروکاروں کے اٹھ کھڑے ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر ان کی قبر کو بےنشان رکھا تھا حتیٰ کہ ان کے مرنے کی خبر کو بھی ہندوستان پہنچتے پہنچتے دو ہفتے لگ گئے اس کے بعد ایک سو برس تک ان کی قبر کا کسی کو پتہ نہیں تھا لوگ ان کا نام بھی بھولنے لگے لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کا دوبارہ ذکر ہونے لگا دہلی اور کراچی میں ان کے نام پر سڑکوں کے نام رکھے گئے اور ڈھاکہ میں ایک پارک ان سے موسوم کیا گیا 'دا لاسٹ مغل' نامی کتاب کے مصنف اور مشہور تاریخ دان ولیم ڈیلرمپل نے بی بی سی کو بتایا وہ خطاط نامور شاعر اور صوفی پیر ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے شخص تھے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد میں یقین رکھتا تھے وہ کوئی ہیرو یا انقلابی رہنما نہیں تھے لیکن وہ اپنے جدِ امجد اکبرِ اعظم کی طرح مسلم ہندوستانی تہذیب کی برداشت اور کثیر القومیت کی علامت ہیں ہندوستان کے دو بڑے مذاہب کے اتحاد کی طرف بہادر شاہ ظفر کے جھکاؤ کی ایک وجہ خود ان کا خاندان تھا ان کے والد اکبر شاہ ثانی مسلمان جب کہ والدہ لال بائی ہندو راجپوت شہزادی تھیں۔

بہادر شاہ ظفر کا مقبرہ 

رنگون کے ایک پرسکون علاقے میں واقع بہادر شاہ ظفر کا مقبرہ ہندوستانی تاریخ کے ایک جذباتی اور متلاطم دور کی یاد دلاتا ہے رنگون کے باسیوں کو یہ تو معلوم تھا کہ آخری تیموری شہنشاہ ان کے شہر میں واقع چھاؤنی کے اندر کہیں نہ کہیں دفن ہیں لیکن درست جگہ کا کسی کا علم نہیں تھا آخر 1991 میں مزدوروں کو ایک نالی کھودتے کھودتے اینٹوں کا چبوترہ ملا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دراصل بہادر شاہ ظفر کی قبر ہے بعد میں عطیات کی مدد سے یہاں مقبرہ تعمیر کیا گیا ہندوستان میں قائم دوسرے تیموری بادشاہوں کے عالی شان مقبروں کی نسبت یہ مقبرہ بہت معمولی ہے ایک آہنی محراب پر ان کا نام اور خطاب رقم ہے نچلی منزل پر ان کی ملکہ زینت محل اور پوتی رونق زمانی کی قبر ہے بہادر شاہ ظفر کی قبر گلاب کی پتیوں سے ڈھکی ہوئی ہے اس کے اوپر ایک لمبا فانوس لٹکا ہے اور دیواروں پر تصاویر آویزاں ہیں ساتھ ہی ایک مسجد ہے یہ مقبرہ درگاہ کا درجہ اختیار کر گیا ہے اور یہاں رنگون کے مسلمان حاضری دیتے ہیں الحاج یو عین لوِن بہادر شاہ کے مقبرے کی انتظامی کمیٹی کے خزانچی ہیں وہ کہتے ہیں!

یہاں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں کیوں کہ لوگ انھیں صوفی بزرگ مانتے ہیں لوگ یہاں مراقبہ کرنے اور ان کی قبر کے قریب نماز پڑھنے آتے ہیں جب لوگوں کی خواہشات پوری ہوتی ہیں تو وہ یہاں چڑھاوے چڑھاتے ہیں 

اس وقت بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے محبت اور زندگی کے بارے میں ان کی غزلیں برصغیر بھر کے ساتھ ساتھ برما میں بھی گائی اور سنی جاتی ہیں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو کاغذ قلم کے استعمال سے روک دیا تھا کہا جاتا تھا کہ آخری دور میں وہ دیواروں پر کوئلے سے اشعار لکھا کرتے تھے ان سے منسوب بعض غزلیں اس مقبرے کی دیواروں پر بھی رقم ہیں بطور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں تھا لیکن وہ جنگِ آزادی کے دوران علامتی رہنما کے روپ میں سامنے آئے جن کے پیچھے ہندو اور مسلمان دونوں کھڑے ہو گئے تاریخ میں لکھا ہے کہ اس دوران ہزاروں مسلمان اور ہندو سپاہیوں نے ان کی شہنشاہی بحال کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں 1857 کی جنگِ آزادی کے 160 برس مکمل ہو گئے لیکن اس کی یاد منانے کے لیے کہیں کوئی تقریبات منعقد نہیں ہوئیں آج کے دور میں جب قوم پرستی اور بنیاد پرستی زور پکڑ رہی ہیں تاریخ دانوں کے مطابق بہادر شاہ ظفر کی مذہبی رواداری آج بھی اتنی ہی متعلقہ ہے جتنی ان کے دور میں تھی بطور شہنشاہ ان سے تاج و تخت اور سلطنت چھن گئی لیکن بطور شاعر اور بزرگ وہ آج بھی ان گنت لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔

سلطنتِ عثمانیہ تین براعظموں کے سلطان 

(عام خیال کے مطابق آج سے ٹھیک پانچ سو سال قبل 1517 میں خلافتِ عثمانیہ کا آغاز ہوا تھا۔) ظہیر الدین بابر کو اچھی طرح احساس تھا کہ اس کی فوج دشمن کے مقابلے پر آٹھ گنا کم ہے، اس لیے اس نے ایک ایسی چال چلی جو ابراہیم لودھی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اس نے پانی پت کے میدان میں عثمانی ترکوں کا جنگی حربہ استعمال کرتے ہوئے چمڑے کے رسوں سے سات سو بیل گاڑیاں ایک ساتھ باندھ دیں۔ ان کے پیچھے اس کے توپچی اور بندوق بردار آڑ لیے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں توپوں کا نشانہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوا کرتا تھا لیکن جب انھوں نے اندھا دھند گولہ باری شروع کی تو کان پھاڑ دینے والے دھماکوں اور بدبودار دھویں نے افغان فوج کو حواس باختہ کر دیا اور اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر جس کا جدھر منھ اٹھا، ادھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔

عثمانی تحفہ 

یہ پانی پت کی پہلی لڑائی تھی اور اس کے دوران ہندوستان میں پہلی بار کسی جنگ میں بارود استعمال کیا گیا۔ 50 ہزار سپاہیوں کے علاوہ ابراہیم لودھی کے پاس ایک ہزار جنگی ہاتھی بھی تھے لیکن سپاہیوں کی طرح انھوں نے بھی کبھی توپوں کے دھماکے نہیں سنے تھے، اس لیے پورس کے ہاتھیوں کی تاریخ دہراتے ہوئے وہ جنگ میں حصہ لینے کی بجائے دم دبا کر یوں بھاگ کھڑے ہوئے کہ الٹا لودھی کی صفیں تتر بتر کر دیں۔ بابر کے 12 ہزار تربیت یافتہ گھڑسوار اسی لمحے کا انتظار کر رہے تھے، انھوں نے برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے لودھی کی فوج کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور کچھ ہی دیر بعد بابر کی فتح مکمل ہو گئی۔ مورخ پال کے ڈیوس نے اپنی کتاب ’100 فیصلہ کن جنگیں‘ میں اس جنگ کو تاریخ کی سب سے فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ یہ عظیم الشان مغلیہ سلطنت کا لمحۂ آغاز تھا۔ عثمانی جنگی حربے کے علاوہ اس فتح میں دو ترک توپچیوں استاد علی اور مصطفیٰ نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ انھیں ایک اور عظیم سلطنت یعنی سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے خلیفہ سلیم اول نے بابر کو بطور تحفہ عنایت کیا تھا۔ دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں میں سے ایک سلطنتِ عثمانیہ کی داغ بیل عثمان غازی نے 13ویں صدی میں ڈالی تھی۔ اس زمانے میں بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی اور اناطولیہ متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور راجواڑوں میں بٹا ہوا تھا۔ 1254 میں پیدا ہونے والے عثمان غازی ان میں سے ایک چھوٹی سی ریاست سوغوت کے ترک سردار تھے۔ تاہم انھوں نے ایک دن ایک ایسا خواب دیکھا جس نے تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔

عثمان کا خواب 

برطانوی مورخ کیرولین فنکل نے اپنی کتاب ’عثمان کا خواب‘ میں لکھا ہے کہ ایک رات عثمان ایک بزرگ شیخ ادیبالی کے گھر میں سو رہے تھے کہ انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے سینے سے ایک درخت اگ کر ساری دنیا پر سایہ ڈال رہا ہے۔ انھوں نے جب شیخ کو خواب سنایا تو انھوں نے کہا: ’'عثمان، میرے بیٹے، مبارک ہو، خدا نے شاہی تخت تمھارے اور تمھاری اولاد کے حوالے کر دیا ہے۔‘ اس خواب نے عثمان غازی کے لیے مہمیز کا کام کیا کیوں کہ وہ سمجھنے لگے کہ اب انھیں خداوندی تائید حاصل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے آس پاس کی سلجوق اور ترکمان ریاستوں، اور بالآخر بازنطینیوں کو پے در پے شکستیں دے کر اناطولیہ کے بڑے حصے پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔ یہی خواب بعد میں چھ صدیوں تک راج کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ کا بنیادی جواز اور اسطورہ بن گیا جس کے سائے میں انھوں نے نہ صرف اناطولیہ بلکہ تین براعظموں کے بڑے حصوں پر صدیوں تک حکومت کی۔ عثمان کے جانشینوں نے جلد ہی اپنی نظریں یورپ پر جما دیں۔ 1326 میں انھوں نے یونان کا دوسرا بڑا شہر تھیسالونیکی فتح کر لیا، جب کہ 1389 میں وہ سربیا پر قابض ہو گئے۔ لیکن ان کی تاریخ ساز کامیابی 1453 میں بازنطینی دارالحکومت قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی فتح تھی۔ مسلمان پچھلے سات سو برسوں سے اس شہر پر قبضہ کرنے کی کوششیں کرتے چلے آئے تھے لیکن اس کا جغرافیہ کچھ ایسا تھا کہ وہ ہر بار ناکام رہے۔ قسطنطنیہ کو تین طرف سے بحیرۂ باسفورس نے گھیرے میں لیا ہوا ہے جو اس کے لیے شہر پناہ کا کام کرتا ہے۔ بازنطینیوں نے گولڈن ہورن کو زنجیریں لگا کر بند کر رکھا تھا جب کہ دوسری جانب ان کے 28 جنگی جہاز پہرے پر مامور تھے۔ 22 اپریل 1453 کو عثمانی سلطان محمد فاتح نے ایک ایسی چال چلی جو کسی کے سان و گمان میں بھی نہ تھی۔ انھوں نے خشکی پر تختوں کی شاہراہ تیار کی اور اس پر تیل اور گھی ڈال کر اسے خوب پھسلواں بنا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے 80 بحری جہاز اس راستے پر مویشیوں کی مدد سے گھسیٹ کر دوسری طرف پہنچا دیے اور شہر کے حیرت زدہ محافظوں پر آسانی سے قابو پا لیا۔ محمد فاتح نے اپنا دارالحکومت قسطنطنیہ منتقل کر کے اپنے لیے قیصرِ روم کا خطاب اختیار کیا۔

پہلا عثمانی خلیفہ 

فاتح کے پوتے سلیم اول کی نظریں کہیں اور تھیں۔ انھوں نے 1516 اور 1517 میں مصر کے مملوکوں کو شکست دے کر مصر کے علاوہ موجودہ عراق، شام، فلسطین، اردن، اور سب سے بڑھ کر حجاز پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت کا رقبہ دگنا کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی آج سے ٹھیک پانچ سو سال قبل حجاز کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ حاصل کرنے کے ساتھ ہی سلیم اول مسلمان دنیا کے سب سے طاقتور حکمران بن گئے۔ عام تصور کے مطابق 1517 ہی سے عثمانی خلافت کا آغاز ہوا، اور سلیم اول کو پہلا خلیفہ قرار دیا جاتا ہے، جب کہ ان سے پہلے عثمانی ’سلطان‘ یا ’پادشاہ‘ کہلاتے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد اپنی کتاب 'مسئلۂ خلافت' میں لکھتے ہیں: 'سلطان سلیم خان اول کے عہد سے لے کر آج تک بلا نزاع سلاطینِ عثمانیہ ترک تمام مسلمانان عالم کے خلیفہ و امام ہیں۔ ان چار صدیوں کے اندر ایک مدعی خلافت بھی ان کے مقابلہ میں نہیں اٹھا۔۔۔ حکومت کے دعوے دار سینکڑوں اٹھے ہوں، مگر اسلام کی مرکزی خلافت کا دعویٰ کوئی نہ کر سکا۔' مختصر عرصے میں یکے بعد دیگرے کامیابیاں حاصل کرنے کے دوران سلیم اول کا سب سے موثر جنگی ہتھکنڈا وہی تھا جو دس سال بعد ظہیر الدین بابر نے پانی پت میں آزمایا تھا، یعنی بارود۔

ہمایوں بنام خلیفہ 

بابر کے جانشین ہمایون کو عثمانیوں کا یہ احسان یاد رہا۔ وہ سلیم اول کے بیٹے سلمان عالیشان کو ایک خط میں لکھتے ہیں: 'رتبۂ خلافت پر فائز عالی جناب، فلکِ عظمت کے ستون، اسلام کی بنیادوں کے رکھوالے سلطان کے لیے نیک تمنائیں۔ آپ کا نام مہرِ جاہ و منزلت پر کھدا ہوا ہے اور آپ کے دور میں خلافت نئی بلندیوں تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ کرے کہ آپ کی خلافت جاری و ساری رہے۔' ہمایون کے بیٹے اکبر نے عثمانیوں کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کی، جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عثمانی ایران کے صفوی حکمرانوں کے ساتھ مسلسل حالتِ جنگ میں تھے اور اکبر صفویوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ البتہ ان کے جانشینوں شاہجہان اور اورنگ زیب عالمگیر کے عثمانی سلاطین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ان کے درمیان تحائف اور سفارتی وفود کا تبادلہ عام تھا اور وہ انھیں تمام مسلمانوں کا خلیفہ مانتے تھے۔ صرف ترک مغل نہیں بلکہ دوسرے ہندوستانی حکمران بھی ترک عثمانیوں کو اپنا خلیفہ سمجھتے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد ان سے بیعت لینا ضروری سمجھتے تھے۔ ٹیپو سلطان نے میسور کا حکمران بننے کے بعد ایک خصوصی وفد قسطنطنیہ بھیجا تھا تاکہ اس وقت کے عثمانی خلیفہ سلیم سوم سے اپنی حکمرانی کی تائید حاصل کر سکیں۔ سلیم سوم نے ٹپیو سلطان کو اپنے نام کا سکہ ڈھالنے اور جمعے کے خطبے میں اپنا نام پڑھوانے کی اجازت دی۔ یہ الگ بات کہ انھوں نے ٹیپو کی طرف سے انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے فوجی امداد کی درخواست قبول نہیں کی، کیوں کہ اس وقت وہ خود روسیوں سے برسرِ پیکار تھے اور اس دوران وہ طاقتور انگریزوں کی دشمنی مول نہیں لے سکتے تھے۔

ابومسلم خراسانی ایک ترک جرنیل 

ابومسلم خراسانی ایک ترک ایرانی جرنیل ہے جس نے بنو امیہ کی خلافت کا تختہ الٹنے میں بنو عباس کی مدد کی۔ اموی خاندان کے خلاف بنی عباس نے مدت سے خفیہ تحریک چلا رکھی تھی۔ ابومسلم خراسانی بھی اس تحریک میں شریک ہو گیا۔ اس نے ایک خفیہ فوج تیار کی۔ اور بالآخر اموی خلافت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ امویوں کو شکست دینے کے بعد ابومسلم نے عباسیوں کو خلافت سونپ دی مگر دوسرے عباسی خلیفہ منصور نے اسے قتل کرادیا۔ ابومسلم خراسانی کا نام ابراہیم بن عثمان بن بشار تھا، یہ ایرانی النسل تھے اور مشہور ہے کہ بزرحمیر کی اولاد سے تھے، اصفہان میں پیدا ہوا تھا، ماں باپ نے کوفہ کے متصل ایک گاؤں میں آکر سکونت اختیار کرلی تھی، جس وقت ابومسلم کا باپ عثمان فوت ہوا ہے تو ابو مسلم کی عمر سات برس کی تھی، اس کا باپ مرتے وقت وصیت کرگیا تھا کہ عیسیٰ بن موسیٰ سراج اس کی پرورش اور تربیت کرے، عیسیٰ اس کو کوفہ میں لے آیا ابومسلم چار جامہ دوزی کا کام عیسیٰ سیکھتا تھا اور اسی کے پاس کوفہ میں رہتا تھا، عیسیٰ بن موسیٰ اپنے زین اور چارجامے لے کرخراسان جزیرہ اور موصل کے علاقوں میں فروخت کے لیے جاتا تھا اور اس تقریب اکثر سفر میں رہتا اور ہرطبقہ کے آدمیوں سے ملتا تھا اس کی نسبت یہ شبہ ہوا کہ یہ بھی بنوہاشم اور علویوں کا نقیب ہے ؛ اسی طرح اس کے خاندان کے دوسرے آدمیوں پرشبہ کیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ یوسف بن عمر گورنرِ کوفہ نے عیسیٰ بن موسیٰ اور اس کے چچا زاد بھائی ادریس بن معقل اور ان دونوں کے چچا عاصم بن یونس عجلی کو قید کر دیا؛ اسی قید خانہ میں خالد تسری کے گرفتار شدہ عمال بھی قید تھے۔

ابومسلم قید خانہ میں 

ابومسلم قید خانہ میں عیسیٰ بن موسیٰ کی وجہ سے اکثر جاتا جہاں تمام قیدی وہ تھے جن کو حکومت بنواُمیہ سے نفرت تھی یا قید ہونے کے بعد لازماً نفرت پیدا ہوجانی چاہیے تھی، ان ہی میں بعض ایسے قیدی بھی تھے جو واقعی بنو عباس یا بنو فاطمہ کے نقیب تھے ؛ لہٰذا ان لوگوں کی باتیں سن کر ابو مسلم کے قلب پر بہت اثر پڑا اور وہ بہت جلد ان لوگوں کا ہمدرد بن کران کی نگاہ میں اپنا اعتبار قائم کرسکا، اتفاقاً قحطبہ بن شبیب جوامام ابراہیم کی طرف سے خراسان میں کام کرتا اور لوگوں کوخلافت عباسیہ کے لیے دعوت دیتا تھا، خراسان سے حمیمہ کی طرف جا رہا تھا راستے میں وہ کوفہ کے ان قیدیوں سے بھی ملا یہاں اس کو معلوم ہوا کہ عیسیٰ وعاصم وغیرہ کا خادم ابومسلم بہت ہوشیار اور جوہر قابل ہے، اس نے عیسیٰ سے ابومسلم کو مانگ لیا اور اپنے ساتھ لے کر حمیمہ کی طرف روانہ ہو گیا وہاں امام ابراہیم کی خدمت میں ابومسلم کوپیش کیا، امام ابراہیم نے ابومسلم سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ ابومسلم نے کہا کہ میرا نام ابراہیم بن عثمان بن بشار ہے، امام ابراہیم نے کہا نہیں ،تمہارا نام عبد الرحمن ہے ؛ چنانچہ اس روز سے ابومسلم کا نام عبد الرحمن ہو گیا، امام ابراہیم ہی نے اس کی کنیت ابومسلم رکھی اور قحطبہ بن شبیب سے مانگ لیا۔ چند روز تک ابومسلم امام ابراہیم کی خدمت میں رہا اور انھوں نے اچھی طرح ابومسلم کی فطرت واستعداد کا مطالعہ کر لیا، اس کے بعد اپنے ایک مشہور نقیب ابو نجم عمران بن اسماعیل ان لوگوں میں سے تھا جو خلافتِ اسلامیہ کو اولادِ علی میں لانا چاہتے تھے، اس عقد سے یہ فائدہ حاصل کرنا مقصود تھا کہ ابومسلم کو شیعانِ علی کی حمایت حاصل رہے اور اس کی طاقت کمزور نہ ہونے پائے، اس انتظام واہتمام کے بعد امام ابراہیم نے ابومسلم کو خراسان کی طرف روانہ کیا اور تمام دُعاۃ ونُقبا کو اطلاع دے دی کہ ہم نے ابومسلم کو خراسان کے تمام علاقے کا متہمم بناکر روانہ کیا ہے، سب کو دعوتِ بنو ہاشم کے کام میں ابومسلم کی فرماں برداری کرنا چاہیے، خراسان کے مشہور اور گارگزار نقبا جومحمد بن علی عباسی یعنی امام ابراہیم کے باپ کے زمانے سے کام کر رہے تھے یہ تھے سلیمان بن کثیر، مالک بن ہثیم، زیاد بن صالح، طلحہ بن زریق، عمر بن اعبن، یہ پانچوں شخص قبیلہ خزاعہ کے تھے، قحطبہ بن شبیب بن خالد بن سعدان یہ قبیلہ طے سے تعلق رکھتا تھا، ابوعیینہ موسیٰ بن کعب، لانبربن قریط، قاسم بن مجاشع، اسلم بن سلام یہ چاروں تمیمی تھے، ابو داؤد خالد بن ابراہیم شیبانی، ابوعلی ہروی اسی کوشبل بن طہمان بھی کہتے تھے، ابوالنجم عمران بن اسماعیل جب ابومسلم خراسان میں پہنچا توسلیمان بن کثیر نے اس کو نوعمر ہونے کی وجہ سے واپس کر دیا یہ تمام سن رسیدہ اور پختہ عمر کے تجربہ کار لوگ تھے، انھوں نے ایک نوعمر شخص کواپنی خفیہ کاروائیوں اور رازداری کے مخفی کاموں کا افسر ومتہمم بنانا خلافِ مصلحت سمجھا۔

جس وقت ابومسلم خراسان پہنچا 

جس وقت ابومسلم خراسان پہنچا تھا اس وقت ابوداؤد خالد بن ابراہیم شیبانی ماورالنہر کی طرف کسی ضرورت سے گیا ہوا تھا، وہ جب مرو میں واپس آیا اور امام ابراہیم کا خط اس نے پڑھا توابومسلم کودریافت کیا اس کے دوستوں نے کہا کہ سلیمان بن کثیر نے اس کونوعمر ہونے کی وجہ سے واپس لوٹادیا ہے کہ اس سے کوئی کام نہ ہو سکے گا اور یہ ہم سب کواور اُن لوگوں کوجنھیں دعوت دیجاتی ہے خطرات میں مبتلا کر دے گا، ابوداؤد نے تمام نقبا کوجمع کرکے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائے تعالیٰ نے اولین وآخرین کا علم دیا، آپ کی عترت واہلِ بیت اس علم کے وارث ہیں اور آپ کے اہلِ بیت معدن علوم اور ورثاءرسول ہیں، کیا تم لوگوں کواس میں کچھ شک ہے؟ حاضرین نے کہا نہیں، ابوداؤد نے کہا: پھرتم نے کیوں شک وشبہ کودخل دیا، اس شخص کوامام نے کچھ سوچ سمجھ کراور اس کی قابلیت کوجانچ ک رہی تمہاری طرف بھیجا ہوگا اس تقریر کوسن کرسب کو ابو مسلم کے واپس کرنے کا افسوس ہوا؛ اسی وقت آدمی روانہ کیا گیا وہ ابومسلم کوراستے سے لوٹاکرواپس لایا، سب نے اپنے تمام کاموں کامتولی ومتہمم ابومسلم کوبنادیا اور بخوشی اس کی اطاعت کرنے لگے ؛ چونکہ سلیمان بن کثیر نے اوّل اس کوواپس کر دیا تھا اس لیے ابومسلم سلیمان بن کثیر کی طرف سے کچھ کبیدہ خاطر ہی رہتا تھا، ابومسلم نے نقبا کوہرطرف شہروں میں پھیلادیا اور تمام ملکِ خراسان میں اس تحریک کوترقی دینے لگا۔ سنہ129ھ میں امام ابراہیم نے ابومسلم کولکھ بھیجا کہ اس سال موسمِ حج میں مجھ سے آکر مل جاؤ؛ تاکہ تم کوتبلیغ دعوت کے متعلق مناسب احکام دیے جائیں، یہ بھی لکھا کہ قحطبہ بن شبیب کوبھی اپنے ہمراہ لے آؤ اور جس قدر مال واسباب اس کے پاس جمع ہو گیا ہے وہ بھی لیتا آئے، اس جگہ یہ تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان خفیہ سازشوں کے لیے ایامِ حج بہترین موقع تھا، مکہ معظمہ میں حج کے لیے دُنیا کے ہرحصہ سے لوگ آتے تھے، کسی کوکسی کے آنے پرکوئی شبہ کا موقع نہ ملتا تھا اور سازشی لوگ بآسانی آپس میں مل کرہرقسم کی گفتگو کرلیتے تھے اور حج کے موقع کوکبھی فوت نہ ہونے دیتے تھے ؛ چنانچہ ابوملسم اور نقبا کوبھی ہمراہ لے کر معہ قحطبہ بن شبیب امام سے ملنے کی غرض سے مکہ کی جانب روانہ ہوا، مقام قومس پہنچا توامام ابراہیم کا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ تم فوراً خراسان کی طرف واپس ہوجاؤاور اگر خراسان سے روانہ نہ ہوئے ہوتووہیں مقیم رہو اور اب اپنی دعوت کوپوشیدہ نہ رکھو؛ بلکہ علانیہ دعوت دینی شروع کردو اور جن لوگوں سے بیعت لے چکے ہو ان کوجمع کرکے قوت کا استعمال شروع کردو، اس خط کوپڑھتے ہی ابومسلم تومرو کی جانب لوٹ گیا اوور قحطبہ بن شبیب مال واسباب لیے ہوئے امام ابراہیم کی جانب روانہ ہوا، قحطبہ نے جرجان کا راستہ اختیار کیا اطراف جرجان میں پہنچ کرخالد بن برمک اور ابوعون کوطلب کیا یہ لوگ معہ مال واسباب فوراً حاضر ہوئے قحطبہ اس مال واسباب کوبھی لے کرامام کی طرف چلا۔

ابومسلم کوعلانیہ دعوت اور طاقت کے استعمال کی اجازت ملی 

جب ابومسلم کوعلانیہ دعوت اور طاقت کے استعمال کی اجازت ملی تویہ وہ زمانہ تھا کہ خراسان میں کرمانی اور نصربن سیار کی لڑائیوں کا سلسلہ جاری تھا، جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، ابومسلم نے اپنی جماعت کے لوگوں کوفراہم کیا اور اُن کولے کرکرمانی اور نصربن سیار کے درمیان میں خیمہ زن ہوا اور بالآخر کرمانی قتل ہوا، اس کا لڑکا علی بن کرمانی ابومسلم کے پاس آ گیا اور ابومسلم نے نصر کومرو سے خارج کرکے مروپرقبضہ کر لیا؛ مگرچند روزہ قیام کے بعد مرو سے ماحوان کی جانب چلا آیا، نصر بن سیار نے مروان بن محمد خلیفہ دمشق کوامداد کے لیے خط لکھا تھا، مروان بن محمد ان دنوں ضحاک بن قیس خارجی سے مصروفِ جنگ تھا، وہ کوئی مددنصر کے پاس نہیں بھیج سکا جن ایام میں نصر کی عرض داشت مروان کے پاس پہنچی انھیں دنوں امام ابراہیم کا خط جومسلم کے نام انھوں نے روانہ کیا تھا اور جس میں لکھا تھا کہ خراسان میں عربی زبان بولنے والوں کوزندہ نہ چھوڑنا اور نصروکرمانی دونوں کا خاتمہ کردینا، پکڑا گیا اور مروان الجماعہ کی خدمت میں پیش ہوا؛ یہی پہلا موقع تھا کہ بنواُمیہ کوعباسیوں کی سازش کا حال معلوم ہوا، مروان نے علاقہ بلقا کے عامل کولکھا کہ امام ابراہیم کوحمیمہ میں جاکرگرفتار کرلو؛ چنانچہ امام ابراہیم گرفتار ہوکر آئے اور مروان نے ان کوقید کر دیا، جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، ابومسلم نے خراسان میں جب علانیہ دعوت وتبلیغ شروع کی توخراسان کے لوگ جوق درجوق اس کے پاس آنے لگے۔ سنہ130ھ کے شروع ہوتے ہی ابومسلم نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی اور اہلِ بیت نبوی کی اطاعت وفرماں برداری پرلوگوں سے بیعت لینے اور لوگوں کے فراہم کرنے سے ناراض تھے ؛ لیکن وہ اس طرح اپنی لڑائیوں میں مصروف تھے کہ ابومسلم کا کچھ نہ بگاڑسکے، قتل کرمانی کے بعد علی بن کرمانی اپنے باپ کی جماعت کا سردار تھا، ادھرابومسلم بھی کافی طاقت حاصل کرچکا تھا، نصربن سیار اور شیبان خارجی بھی اسی درجہ کی طاقت رکھتے تھے، اب خراسان میں یہی چار طاقتیں موجود تھیں۔

ابومسلم اور شیبان خارجی 

ابومسلم نے شیبان خارجی کواپنی طرف مائل کرنا چاہا اور ابنِ کرمانی کواس کے پاس جانے کی تحریک کی، علی بن کرمانی شیبان خارجی سے صلح کرنی چاہی؛ تاکہ وہ مطمئن ہوکر ابومسلم سے دودوہاتھ کرے ؛ لیکن ابومسلم نے علی بن کرمانی کے ذریعہ ایسی کوشش کی کہ دونوں کی صلح نہ ہو سکے، جب ان دونوں کی صلح نہ ہوئی توابومسلم نے موقع مناسب دیکھ کرنصر بن نعیم کوایک جمعیت کے ساتھ ہرات کی طرف روانہ کر دیا، نصر بن نعیم نے ہرات پہنچ کربہ حالتِ غفلت ہرات پرقبضہ کر لیا اور نصربن سیار کے عامل عیسیٰ بن عقیل بن معقل حریشی کوہرات سے نکال دیا، یحییٰ بن نعیم بن ہبیرہ شیبانی یہ سن کرابن کرمانی کے پاس آیا اور کہا کہ تم نصر سے صلح کرلو؛ اگرتم نے صلح کرلی توابومسلم فوراً نصر کے مقابلہ پرآمادہ ہو جائے گا اور تم سے کوئی تعرض نہ کرے گا؛ لیکن اگرتم نے نصر سے صلح نہ کی توابومسلم نصر سے صلح کرکے تمہارے مقابلہ پرمستعد ہوگا، شیبانی نے فوراً نصر کولکھا کہ ہم تم سے صلح کرنا چاہتے ہیں، نصر فوراً صلح پرآمادہ ہو گیا؛ کیونکہ اس کی پہلے ہی سے یہ خواہش تھی۔ ابومسلم نے فوراً علی بن کرمانی کوجوشیبان خارجی کا شریک تھا توجہ دلائی کہ نصر بن سیار تمہارے باپ کا قاتل ہے، علی بن کرمانی یہ سنتے ہی شیبان خارجی سے جدا ہو گیا اور اس کے ساتھ لڑائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا، ابومسلم ابنِ کرمانی کی مدد کے لیے پہنچا ادھر نصر بن سیار شیبان خارجی کی طرف سے آمادہ پیکار ہوا، یہ بھی عجیب زمانہ تھا، لڑنے والے چاروں گروہ محتلف الخیال اور مختلف العقیدہ تھے ؛ مگرموقع اور وقت کی مناسبت سے ہرایک دوسرے کواپنے ساتھ ملاکر تیسرے کوفنا کرنے کی تدبیروں میں مصروف تھا، خاص کرشیعانِ علی بھی خراسان میں پہلے سے بکثرت موجود تھے، وہ بھی سب ابومسلم کے شریک تھے۔ عبد اللہ بن معاویہ بن عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب نے کوفہ میں لوگوں سے بیعتِ خلافت لی تھی؛ مگرعبداللہ بن عمر بن عبد العزیز کے غالب ہوجانے پروہ مدائن کی طرف چلے گئے تھے ان کے ساتھ کوفہ کے بھی کچھ لوگ آئے تھے ؛ پھرانھوں نے پہاڑی علاقہ کا رُخ کیا اور اس پرقابض ہوکر حلوان، تومس، اصفہان اور رے پرقابض ہوئے، اصفہان کواپنی قیام گاہ بنایا، سنہ128ھ میں شیراز پرقبضہ کیا، جب یزید بن عمر بن ہبیرہ عراق کا گورنرمقرر ہوکر آیا تواس نے عبد اللہ بن معاویہ کے مقابلہ کولشکر روانہ کیا، اصطخر کے قریب جنگ ہوئی، عبد اللہ بن معاویہ کوشکست ہوئی، ان کے ہمراہی بہت سے مارے گئے، منصور بن جمہور سندھ کی طرف بھاگ گیا، اس کا تعاقب کیا گیا؛ لیکن وہ ہاتھ نہ آیا، عبد اللہ بن معاویہ کے ہمراہیوں میں سے جولوگ گرفتار ہوئے ان میں عبد اللہ بن علی بن عبد اللہ بن عباس بھی تھا، جس کویزید بن عمر گورنرکوفہ ے رہا کر دیا، عبد اللہ بن معاویہ فرار ہوکر ابومسلم کی طرف چلے ؛ کیونکہ اس سے امداد کی توقع تھی کہ وہ اہلِ بیت کا ہواخواہ ہے ؛ لیکن وہ شیراز سے کرمان اور وہاں سے اوّل ہرات پہنچے، ہراب میں ابومسلم کے عامل نصربن نعیم نے ان کوٹھہراکر ابومسلم کوان کے آنے کی اطلاع دی، ابومسلم نے لکھ بھیجا کہ عبد اللہ بن معاویہ کوقتل کردو اور ان کے دونوں بھائیوں حسن ویزید کو رہا کردو؛ چنانچہ نصر بن نعیم نے اس حکم کی تعمیل کردی۔ سنہ130ھ کے شروع ہوتے ہی خراسان میں مذکورہ بالا چاروں طاقتیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں، آخر علی بن کرمانی اور ابومسلم نے نصر بن سیار اور شیبان خارجی کوہزیمت دے کرمروپرمستقل قبضہ کر لیا، ابومسلم نے مرو کے دارالامارۃ میں جاکرلوگوں سے بیعت لی اور خطبہ دیا، نصر مرو سے شکست خوردہ سرخس اور طوس ہوتا ہوا نیشاپور میں آکرمقیم ہوا اور علی بن کرمانی ابومسلم کے ساتھ ساتھ رہنے لگا اور ہاں میں ہاں ملاتا رہا، شیبان خارجی جومرو کے قریب ہی شکست خوردہ قیام پزیر تھا اس کے پاس ابومسلم نے پیغام بھیجا کہ تم بیعت کرلو؟ اُس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ تم ہی میری بیعت کرلو، اس کے بعد شیبان خارجی سرخس اور ایک گروہ بکر بن وائل کا اپنے گرد جمع کر لیا، یہ سن کرابومسلم نے ایک دستہ فوج سرخس کی طرف روانہ کیا وہاں لڑائی ہوئی اور شیبان خارجی مارا گیا، اس کے بعد ابومسلم نے اپنے نقیبوں میں سے موسیٰ بن کعب کوا بیورو کی طرف اور ابوداؤد خالد بن ابراہیم کوبلخ کی جانب بھیجا، دونوں کوکامیابی ہوئی، ابیورد اور بلخ پر جب قبضہ ہو گیا ۔۔۔ ابومسلم نے ابوداؤد کوتوبلا بھیجا اور یحییٰ بن نعیم کوبلخ کا حاکم مقرر کرکے بھیج دیا، زیاد بن عبد الحق قسری نے جوحکومت بنواُمیہ کی طرف سے بلخ کا عامل تھا اور ابوداؤد سے شکست کھاکر ترمذ چلا گیا تھا، یحییٰ بن نعیم سے خط کتابت کرکے اس کواپنا ہم خیال بنالیا اور مسلم بن عبد الرحمن باہلی اور عیسیٰ بن زرعہ سلمی، ملوک طخارستان، ملوک ماورالنہر اور بلخ واہلِ ترمذ سب کومجتمع کرکے اور یحییٰ بن نعیم کومعہ اس کے ہمراہیوں کے ہمراہ لے کرابومسلم کی جنگ کے لیے روانہ ہوئے سب نے متفق ہوکر سیاہ پھریرے والوں سے (دُعاۃ بنوعباس) لڑنے کی قسمیں کھائیں، مقاتل بن حیان نبطی کوامیرلشکر بنایا۔

بلخ کی جانب روانہ 

ابومسلم نے یہ کیفیت سن کرابوداؤد کودوبارہ بلخ کی جانب روانہ کیا، بلخ سے تھوڑے فاصلہ پرفریقین کا مقابلہ دریا کے کنارے ہوا، مقابل بن حیان نبطی کے ساتھ سردار ابوسعید قرشی تھا، ساقہ فوج کا پچھلا حصہ ہوتا ہے اس حصہ کومسلح اور زبردست اس لیے رکھتا تھا کہ کہیں حریف دھوکا دے کرپیچھے سے حملہ نہ کر دے، جب لڑائی خوب زور شور سے ہو گئی توابوسعید قرشی نے بھی اپنی متعلقہ فوج سے دشمنوں کا مقابلہ کرنا اور ان کومار کرپیچھے بھگانا ضروری سمجھا، اتفاقاً ابوسعید کا جھنڈا بھی سیاہ تھا وہ جب اپنی فوج لے کرمتحرک ہوا تولڑنے والی اگلی صفوں کے لوگ بھول گئے کہ ہمارا بھی ایک جھنڈا سیاہ ہے وہ ابوسیع کے جھنڈے کودیکھتے ہی یہ سمجھے کہ دشمنوں کی فوج نے پیچھے سے ہم پرزبردست حملہ کیا ہے اور یہ انھیں کی فوج فاتحانہ پیچھے سے بڑھتی چلی آتی ہے ؛ چنانچہ ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور میدان چھوڑ کربھاگ نکلے، بہت سے دریا میں غرق ہوکر ہلاک ہوئے زیادہ یحییٰ ترمذ کی طرف چلے گئے اور ابوداؤد کوبلخ سے واپس بلالیا اور بلخ کی حکومت پرنصر بن صبیح مزنی کومامور کیا، جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، علی بن کرمانی ابومسلم کے پاس رہتا تھا اس کے ساتھ اس کا بھائی عثمان بن کرمانی بھی تھا، ابوداؤد نے ابومسلم کورائے دی ک ان دونوں بھائیوں کوایک دوسرے سے جدا کردینا ضروری ہے، ابومسلم نے اس رائے کوپسند کرکے عثمان بن کرمانی کوبلخ کی حکومت پرنازز کرکے بھیج دیا، عثمان بن کرمانی نے بلخ پہنچ کرفافضہ بن ظہیر کواپنا نائب بنایا اور خود معہ نصر بن صبیح کے مردالردو چلا گیا، یہ خبر سن کرمسلم بن عبد الرحمان باہلی نے ترمذ سے مصریوں کوہمراہ لے کر بلخ پرحملہ کیا اور بزورِ شمشیر اس اس پرقابض ہو گیا۔ عثمان ونصر کواس کی اطلاع ہوئی تووہ مرو رور سے بلخ کی طرف روانہ ہوئے ان کے آن کی خبرسن کرعبدالرحمن کے ہمراہی راتوں رات بھاگ نکلے، نصر نے ایک سمت سے اور عثمان نے دوسری سمت سے بلخ پرحملہ کیا تھا، نصر کے ہمراہیوں نے توبھاگنے والوں سے کوئی تعرض نہ کیا؛ لیکن عثمان بن کرمانی نے لڑائی چھیڑ دی اور خود ہزیمت اُٹھاکر بھاگ نکلے اور بہت سے مارے گئے اور بلخ پرقبضہ ہوتے ہوتے رہ گیا، یہ خبر سن کرابومسلم اور ابوداؤد نے مشورہ کیا، ابومسلم تونیشاپور کی طرف روانہ ہوا اور ابوداؤد پھربلخ کی جانب آیا، ابومسلم کے ہمراہ علی بن کرمانی تھا، ابومسلم نے نیشاپور کے راستے میں علی بن کرمانی کوقتل کیا اور ابوداؤد کے مشورہ کے موافق بلخ پرقابض ہوکر اور عبد الرحمن کوبلخ سے بھگاکر عثمان بن کرمانی کوقتل کر دیا، اس طرح ان دونوں بھائیوں کے خرحشے کومٹایا۔ اوپر پڑھ چکے ہو کہ امام ابراہیم نے ابومسلم کواوّل بلایا تھا؛ پھراس کوروک دیا تھا کہ علانیہ دعوت شروع کر دے، ابومسلم نے قحطبہ بن شبیب کومال واسباب کے ساتھ روانہ کیا تھا، قحطبہ نے امام ابراہیم سے ملاقات کی، مال واسباب پیش کیا، امام ابراہیم سے ملاقات کی، مال واسباب پیش کیا، امام ابراہیم نے ایک جھنڈا قحطبہ کہ ہاتھ روانہ کیا اور مکہ معظمہ سے اس کوخراسان کی جانب رخصت کر دیا اور خود حمیمہ کی طرف چلے آئے یہاں آتے ہی گرفتار ہوکر قید ہو گئے، قحطبہ یہ جھنڈا لے کرابومسلم کے پاس آیا، ابومسلم نے اس جھنڈے کومقدمۃ الجیش میں رکھا اور قحطبہ بن شبیب کومقدمۃ الجیش کا سردار بنایا اور سنہ130ھ کے ختم ہونے سے پہے پہلے خراسان کے بڑے حصہ پرقابض ومتصرف ہوکر ایک ایک دشمن کا قصہ پاک کیا، علی بن کرمانی کے قتل سے فارغ ہوکر ابومسلم مرو کی طرف لوٹ آیا اور قحبطہ کوچند سردارانِ لشکر ابوعون عبد الملک بن یزید، خالد بن برمک، عثمان بن نہیک اور خازم بن خزیمہ وغیرہ کے ساتھ طوس کی جانب روانہ کیا، اہل طوس نے مقابلہ کیا اور شکست کھائی، قحطبہ ے بڑی بے دردی سے ان کاقتل عام کیا، اس کے بعد قحطبہ نے تمیم بن نصرپر جومقام سوزقان میں تھا، حملہ کی تمیم بن نصرمعہ تین ہزار ہمراہیوں کے مقتول ہوا، قحبطہ نے شہر میں داخل ہوکر قتلِ عام کیا اور خالد بن برمک کومالِ غنیمت کی فراہمی پرمامور کیا۔

نیشاپور کا قصد 

اس کے بعد قحطبہ نے نیشاپور کا قصد کیا؛ یہاں نصر بن سیار مقیم تھا وہ نیشاپور سے قومس بھاگ آیا، قحطبہ شروع رمضان سنہ130ھ میں نیشاپور پرقابض ہوا اور آخر شوال تک نیشاپور میں مقیم رہا، نصر بن سیار کی مدد کے لیے یزید بن عمربن ہبیرہ گورنر کوفہ نے نباتہ بن حنظلہ کے ماتحت ایک فوج کوفہ سے بھیجی تھی نصر بن سیار قومس میں بھی زیادہ دنوں نہ ٹھہرا وہاں سے وہ جرجان چلا آیا وہیں نباتہ بن حنظلہ معہ اپنی فوج کے نصر بن سیار کے پاس پہنچا، قحطبہ نے شروع ذیقعدہ میں نیشاپور سے جرجان کی جانب کوچ کیا۔ قحطبہ کے ہمراہیوں نے جب یہ سنا کہ نباتہ بن حنظلہ عظیم الشان لشکر شام کے ساتھ جرجان میں پہنچ گیا ہے تو وہ خوف زدہ ہوئے قحطبہ نے ان کوایک پرجوش خطبہ دیا او رکہا کہ امام ابراہیم نے پیشین گوئی کی ہے کہ تم لوگ ایک بڑی فوج کا مقابلہ کرکے اس پرفتح پاؤ گے، اس سے لشکریوں کے دل بڑھ گئے، آخر معرکہ کارزار گرم ہوا، نباتہ بن حنظلہ معہ دس ہزار آدمیوں کے مارا گیا، قحطبہ کوفتح عظیم حاصل ہوئی، اس نے نباتہ بن حنظلہ کا سرکاٹ کرابومسلم کے پاس بھیج دیا یہ لڑائی شروع ماہ ذی الحجہ سہ 247ھ میں ہوئی قحطبہ نے جرجان پرقبضہ کیا، تیس ہزار اہلِ جرجا کوقتل کرڈالا، شکست جرجان کے بعد نصر بن سیار حرار الرائے کی طرف چلا آیا وہاں کا امیرابوبکر عقیلی تھا، یزید بن عمرہبیرہ کوجب یہ حالت معلوم ہوئے تواس نے ایک بہت بڑا لشکر ابن غعلیف کی سرداری میں نصر بن سیار کی امداد کے لیے روانہ کیا۔ قحطبہ نے جرجان سے اپنے لڑکے حسن بن قحطبہ کوخوارالرائے کی طرف روانہ کیا اور عقب سے ایک لشکر ابوکامل اور ابوالقاسم صحرزبن اباریم اور ابوالعباس مروزی کی سرداری میں حسن کی امداد کے لیے روانہ کیا؛ لیکن جس وقت یہ لوگ حسن کے لشکر کے قریب پہنچے توابوکامل اپنے ہمراہیوں سے جدا ہوکر مفر سے جاملا اور اس کوحسن کے لشکر کی نقل وحرکت سے آگاہ کر دیا، آخر لڑائی ہوئی اور حسن بن قحطبہ کوشکست فاش حاصل ہوئی، بنونصر سے مالِ غنیمت اور فتح کا بشارت نامہ یزید بن عمر بن ہبیرہ کے پاس روانہ کیا، یہ واقعہ محرم سنہ131ھ کا ہے، اُدھر سے نصر بن سیار کے قاصد مالِ غنیمت اور فتح کی خوشخبری لیے ہوئے جا رہے تھے، اِدھر سے ابن غعلیف فوج لیے ہوئے آ رہا تھا، مقام رے میں دونوں کی ملاقات ہوئی ابن غعلیف نے خط اور مال غنیمت لے لیا اور رے میں قیام کر دیا۔ نصر کویہ خبر سن کرسخت ملال ہوا جب نصر نے خود رے کا قصد کیا توغطیف معہ فوج ہمدان کی جانب روانہ ہو گیا؛ مگرہمدان کوچھوڑ کراصفہان چلا گیا، نصردوروز تک رے میں مقیم رہا، تیسے ر روز بیمار ہوتے ہی رے سے کوچ کر دیا، مقام سادہ میں پہنچا تھا کہ 12/ربیع الاوّل سنہ131ھ کوفوت ہو گیا، اس کے ہمراہی اس کی وفات کے بعد ہمدان چلے گئے، رے کا عامل حبیب بن یزید ہنشلی تھا، نصر کی وفات کے بعد جب قحطبہ بن شبیب جرجان سے فوج لے کررے کی طرف آیا توحبیب بن یزید اور اہلِ شام جو اس کے پاس موجود تھے بلامقابلہ رے کوچھوڑ کرچل دیے، قحطبہ نے رے پرقبضہ کیا اور اہلِ رے کے اموال واسباب ضبط کیے رے کے اکثر مفرور ہمدان چلے گئے، حسن نے نہادند پہنچ کرنہایت مضبوطی سے محاصرہ ڈال دیا۔

یزید بن عمر بن ہبیرہ 

یزید بن عمر بن ہبیرہ نے سنہ129ھ میں اپنے بیٹے داؤد بن یزید کوعبداللہ بن معاویہ سے لڑنے کوبھیجا تھا اور داؤد بن یزید کرمان تک ان کا تعاقب کرتا ہوا چلا گیا تھا، داؤد کے ساتھ عامر بن صبارہ بھی تھا یہ دونوں کرمان میں پچاس ہزار کی جمعیت سے مقیم تھے، جب یزید بن عمربن ہبیرہ کونباتہ بن حنظلہ کے مارے جانے کا حال معلوم ہوتا تواس نے داؤد بن صبارہ کولکھا کہ تم قحطبہ کے مقابلہ کوبڑھو، یہ دونوں پچاس ہزار فوج کے ساتھ کرمان سے روانہ ہوئے اور اصفہان جاپہنچے، قحطبہ نے ان کے مقابلہ کے لی مقاتل بن حکیم کیعبی کومامور کیا، اس نے مقام قم میں قیام کیا، ابن صبارہ نے یہ سن کرکہ حسن بن قحطبہ نے نہادند کا محاصرہ کررکھا ہے، نہادند کے بچانے کا ارادہ کیا اور اس طرح روانہ ہوا جب دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا توقحطبہ کے ہمراہیوں نے ایسی جاں بازی سے حملہ کیا کہ ابن صبارہ کے لشکر کوہزیمت ہوئی اور وہ خود بھی مارا گیا۔ یہ واقعہ ماہِ رجب سنہ131ھ کا ہے، قحطبہ نے اس فتح کی خوشخبری اپنے بیٹے حسن کے پاس کہلا بھجوائی اور خو داصفہان میں بیس روز قیام کیا، پھرحسن کے پاس آکرمحاصرہ میں شریک ہو گیا، تین مہینے تک اہلِ نہادند محاصرہ میں رہے، آخرنہادند فتح ہو گیا اور بہت سے آدمی اہلِ نہادند کے قتل کیے گئے، اس کے بعق قحطبہ نے حسن کوحلوان کی طرف روانہ کیا، حلوان بآسانی قبضہ میں آ گیا؛ پھرقحطبہ نے ابوعون بن عبد الملک بن یزید خراسانی کوشہر زور پرحملہ کرنے کوبھیجا، یہاں کا عامل عثمان بن سفیان تھا، اس کے مقدمۃ الجیش پرعبداللہ بن مروان بن محمد تھا، ابوعون اور عثمان کی آخری ذی الحجہ تک لڑائی ہوتی رہی، آخرعثمان مارا گیا، اس کی فوج کوشکست ہوئی ابوعون عبد الملک نے بلادِ موصل پرقبضہ کر لیا۔ جب عامر بن صبارہ مارا گیا توداؤد بن یزید اپنے باپ کے پاس بھاگ آیا، داؤد بن یزید نے جب یزید بن عمربن ہبیرہ کی اس شکست کا حال سنا توایک عظیم الشان لشکر لے کرچلا، خلیفہ مروان بن محمد نے بھی حوثرہ بن سہیل باہلی کواس کی کمک کے لیے روانہ کیا، یزید بن عمر بن حوثرہ بن سہیل حلوان پہنچا، قحطبہ بھی یہ سن کرحلوان کی طرف چلا اور دجلہ کوانبار کی طرف عبور کیا، یزید بن عمر نے بھی کوفہ کی طرف مراجعت کی اور حوثرہ کوپندرہ ہزار کی جمعیت سے آگے کوفہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا، قحطبہ نے انبار سے 8/محرم الحرام سنہ132ھ کودریائے فرات عبور کیا اس وقت ابن ہبیرہ وہانہ فرات پر23/فرسنگ کے فاصلہ پرمقیم تھا، ہمراہیوں نے اس کورائے دی کہ کوفہ چھوڑ کرخراسان کا قصد کیجئے، قحطبہ مجبوراً کوفہ کا ارادہ ترک کرکے ہمارے تعاقب میں آئے گا، یزید بن عمر نے اس رائے سے اختلاف کرکے دجلہ کومدائن سے عبور کیا اور دونوں لشکر بقصد کوفہ فرات کے دونوں جانب سفر کرنے لگے، فرات کے ایک پایاب مقام پرقحطبہ نے دریا کوعبور کیا، سخت لڑائی ہوئی، یزید بن عمر بن ہبیرہ کی فوج کوشکت ہوئی؛ مگرقحطبہ بن شبیب مارا گیا، قحطبہ جب معن بن زائدہ کے مارے زخمی ہوکر گرا تواس نے وصیت کی کہ کوفہ میں شیعانِ علی کی امارت قائم ہونی چاہیے اور ابوسلمہ کوامیر بنانا چاہیے، حوثرہ ویزید بن عمر بن ہبیرہ وابن نباتہ بن حنظلہ واسط کی طرف بھاگے، قحطبہ کی فوج نے حسن بن قحطبہ کواپنا سردار بنایا، اس واقعہ کی خبر کوفہ میں پہنچی تومحمد بن خالد قسری نے شیعان علی کومجتمع کرکے شب عاشورا سنہ132ھ کوخروج کیا ور قصرامارت میں داخل ہوکر قابض ہو گیا۔ اس واقعہ کا حال سن کرحوثرہ واسطہ سے کوفہ کی طرف لوٹا محمد بن خالد قصرامارت میں محصور ہو گیا، مگرحوثرہ کے ہمراہیوں نے دعوتِ عباسیہ کوقبل کرکے حوثرہ سے جدا ہونا شروع کیا، وہ مجبوراً واسطہ کی طرف واپس چلا گیا، محمد بن خالد نے اس واقعہ کی اطلاع اور اپے قصرامارت پرقبضہ ہونے کی اطلاع ابن قحطبہ کودی، حسن بن قحطبہ کوفہ میں داخل ہوا اور محمد بن خالد کوہمراہ لے کرابوسلمہ کے پاس حاضر ہوااور ابوسلمہ کوبطورِ امیرمنتخب کرکے بعیت کی، ابوسلمہ نے حسن بن قحطبہ کوابن ہبیرہ کی جنگ کے لیے واسطہ کی طرف روانہ کیا اور محمد بن خالد کوکوفہ کا حاکم مقرر کیا، اس کے بعد ابوسلمہ نے حمید بن قحطبہ کومدائن کی طرف روانہ کیا، اہواز میں عبد الرحمن بن عمر بن ہبیرہ امیر تھا، اس سے اور بسام سے جنگ ہوئی، عبد الرحمن شکست کھاکر بصرہ کی جانب بھاگا، بصرہ میں مسلم بن قیقبہ باہلی عامل تھا، بسام نے عبد الرحمن کوشکست دے کربصرہ کی حکومت پرسفیان بن معاویہ بن یزید بن مہلب کومامور کرکے بھیجا، ماہ صفر سنہ132ھ میں لڑائی ہوئی اور مسلم نے فتح پائی اور وہ بصرہ پراس وقت تک قابض رہا جب تک کہ اس کے پاس یزید بن عمر کے مارے جانے کی خبر پہنچی، اس خبر کوسن کروہ بصرہ سے نکل کھڑا ہوا اور میدان خالی پاکر محمد بن جعفر نے خروج کرکے بصرہ پرقبضہ کیا، چند روز کے بعد ابومالک عبد اللہ بن اسید خزاعی ابومسلم کی طرف سے واردبصرہ ہوااور ابوالعباس سفاح نے اپنی بیعت خلافت کے بعد سفیان بن معاویہ کوبصرہ کا عامل مقرر کیا۔

امام ابراہیم کی وفات 

امام ابراہیم کی وفات کے وقت حمیمہ میں ان کے خاندان کے مندرجہ ذیل حضرات موجود تھے، ابوالعباس، عبد اللہ سفاح، ابوجعفر منصور اور عبد الوہاب، یہ تینوں امام ابراہیم کے بھائی تھے، محمد بن ابراہیم، عیسیٰ بن موسیٰ، داؤد، عیسیٰ، صالح، اسماعیل، عبد اللہ، عبد الصمد، یہ آخرالذکر جوشخص امام بن ابراہیم کے چچا تھے، امام ابراہیم نے گرفتاری سے پہلے اپنے بھائی ابوالعباس عبد اللہ سفاح کواپنا جانشین مقرر فرمایا تھا اور مرتے وقت ابوالعباس عبد اللہ سفاح کے لیے وصیت کی تھی کہ کوفہ میں جاکر قیام کریں ؛ چنانچہ اس وصیت کے مطابق ابوالعباس عبد اللہ سفاح معہ مذکورہ بالا اہلِ خاندان حمیمہ سے روانہ ہوکر کوفہ میں آیا، ابوالعباس، جب کوفہ میں پہونچا ہے تووہ یہ زمانہ تھا کہ کوفہ میں ابوسلمہ کی حکومت قائم ہوچکی تھی، ابوسلمہ کوفہ میں امام ابراہیم کی طرف سے قائم مقام اور مرکز کوفہ میں تحریک کا متہمم تھا؛ لیکن اب اس کی تمام ترکوششیں اولاد علی کوخلیفہ بنانے میں صرف ہونے لگی تھیں، قحطبہ بن شبیب بھی اسی خیال کا آدمی تھا؛ لیکن چونکہ ابوہاشم بن محمد نے وصیت کردی تھی کہ محمد بن علی عباسی کوان کی جماعت کے تمام آدمی اپنا پیشوا تسلیم کریں، اس لیے وہ اس آخری نتیجہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرسکا تھا۔ جب ابوالعباس کے قریب پہنچنے کی خبر پہنچی توابوسلمہ معہ شیعانِ علی بہ غرض استقبال حمام اعین تک آیا اور ابوالعباس کوولید بن سعد کے مکان پرٹھہرایا اور کل شیعان علی وسپہ سالاران لشکر سے چالیس دن تک اس راز کوپوشیدہ رکھا، ابوسلمہ نے چاہا کہ آل ابی طالب میں سے کسی شخص کوخلیفہ منتخب کرکے اس کے ہاتھ پربیعت کی جائے ؛ لیکن ابوجہم نے جوشیعانِ علی میں سے تھا اس رائے کی مخالفت کی اور کہا کہ کہیں آلِ ابی طالب خلافت سے محروم نہ رہ جائیں اور لوگ ابوالعباس ہی کوخلیفہ نہ تسلیم کر لیں اگرابوالعباس امام ابراہیم کی وصیت کے موافق کوفہ میں نہ آ گیا ہوتا توبہت زیادہ ممکن تھا کہ ابوسلمہ ابی طالب کوخلیفہ بنانے میں کامیاب ہوجاتا، ابوسلمہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کوابوالعباس کے آنے کی اطلاع ہو اور وہ اس کی طرف متوجہ ہونے لگیں، چنانچہ ابوسلمہ نے اس عرصہ میں امام جعفر صادق بن امام باقربن امام زین العابدین بن حسین بن علی کوخط لکھا کہ آپ کوفہ میں آئیے اور خلیفہ بن جائیے ؛ انھوں نے جواب میں انکار کیا، اتفاقاً لوگوں کوابوالعباس سفاح کے کوفہ میں آجانے کی اطلاع ہو گئی۔

کوفہ میں 

کوفہ میں اب دوقسم کے لوگ موجود تھے ایک وہ جوآلِ عباس کی خلافت کے خواہاں تھے، دوسرے وہ جوآل ابی طالب کوخلیفہ بنانے کے خواہش مند تھے، عباسیوں کی طرف داروں نے سنتے ہی ابوالعباس سفاح کے پاس آنا جانا شروع کیا اور ان کے ساتھ ہی شیعانِ علی بھی ابوالعباس کے پاس آنے جانے لگے، جب لوگوں کویہ معلوم ہوا کہ ابوسلمہ حاکم کوفہ نے جووزیراہلِ بیت کے لقب سے مشہور تھا، ابوالعباس عبداللہ سفاح کے ساتھ مہمان نوازی کے لوازم وشرائط کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے توبہت سے شیعانِ علی عبد اللہ سفاح کے ہواخواہ بن گئے اور اس طرح ابوالعباس عبد اللہ سفاح کی کوفہ کی موجودگی نے عام طور پرلوگوں کی توجہ اور ہمدردی کواپنی طرف منعطف کر لیا۔ آخر12/ربیع الاوّل بروز جمعہ سنہ132ھ مطابق 30/اکٹوبر سنہ729ء کولوگوں نے مجتمع ہوکر ابوالعباس عبد اللہ سفاح کواس کی جائے قیام سے ہمارہ لیا اور دارالامارۃ زیں داخل ہوئے، عبد اللہ سفاح دارالامارۃ سے جامع مسجد میں آیا، خطبہ دیا، نماز جمعہ پڑھائی اور نماز جمعہ کے بعد پھرمنبر پرچڑھ کرتمام لوگوں سے بیعت لی، یہ خطبہ نہایت بلیغ وفصیح تھا، اسمیں اپنے آپ کومستحقِ خلافت ثابت کیا اور لوگوں کے وظائف بڑھانے کا وعدہ کیا، اہلِ کوفہ کی ستائش کی اس خطبہ کے بعد عبد اللہ سفاح کے چچاداؤد نے منبر پرچڑھ کرتقریر کی اور بنوعباس کی خلافت کے متعلق مناسب الفاظ بیان کرکے بنواُزیہ کی مذمت کی اور لوگوں سے بیان کیا کہ آج امیرالمؤمنین عبد اللہ سفاح کسی قدر بخار اور اعضاشکنی کی تکلیف میں مبتلا ہیں اس لیے زیادہ بیان نہ کرسکے، آپ سب لوگ ان کے لی دُعا کریں، اس کے بعد ابوالعباس عبداللہ سفاح قصرِامارت کی طرف روانہ ہوا اور اس کا بھائی ابوجعفر منصور مسجد میں بیٹھا ہوا رات تک لوگوں سے بیعت لیتا رہا، ابوالعباس عبد اللہ سفاح بیعتِ خلافت لینے کے لیے قصرِ امارت میں گیا؛ پھروہاں سے ابوسلمہ کے خیمہ میں جاکر اس سے ملاقات کی ابوسلمہ نے بھی بیعت توکرلی مگروہ دل سے اس بیعت اور عباسیوں کی خَافت پررضامند نہ تھا، عبد اللہ سفاح نے مضافات کوفہ کی نیابت اپنے چچا داؤد کودی اور اپنے دوسرے چچا عبد اللہ بن علی کوابوعون بن یزید کی کمک کے لیے روانہ کیا اور اپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ کوحسن بن قحطبہ کی مدد کے لیے بھیجا، جوواسطہ کا محاصرہ کیے ہوئے پڑا تھا اور ابن ہبیرہ کومحصور کررکھا تا اور یمیمی بن جعفر بن تمام بن عباس کوحمیدبن قحطبہ کی امداد پرمدائن کی طرف روانہ کیا؛ اسی طرح ہرطرف سرداروں کومتعین ومامور کیا، ابومسلم خراسان ہی میں تھا اور وہ خراسان کوجلد ازجلد دشمنوں سے صاف کر رہا تھا، عبد اللہ سفاح کوفہ میں خلیفہ ہوکر ہرایک اہم معاملہ میں ابومسلم کا مشورہ طلب کرتا تھا اور جیسے ابومسلم لکھتا تھا اسی کے موافق عمل درآمد کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تمام عالم اسلامی میں بڑا نازک اور خطرناک زمانہ تھا، ہرایک ملک اور ہرایک صوبہ میں جابجا لڑائیاں اور فسادات برپا تھے، واسط میں ابن ہبیرہ کومغلوب کرنا آسان نہ تھا ادھر مروان بن محمد اموی خلیفہ شام میں موجود تھا، حجاز میں بھی طائف الملوکی برپا تھی، مصر کی حالت بھی خراب تھی، اندلس میں عباسی تحریک کا مطلو کوئی اثر ہی نہ تھا، جزیرہ وآرمینیا میں اموری سردار موجود تھے اور عباسیوں کے خلاف مقابلہ پرآمادہ ہو گئے تھے، خراسان بھی پورے طور پرقابو میں نہ آیا تھا، بصرہ میں بھی عباسی حکومت قائم نہ ہوسکتی تھی، حضرِموت ویمامہ ویمن کی بھی یہی حالت تھی، عبد اللہ سفاح کے خلیفہ ہوتے ہی آل ابی طالب یعنی علویوں میں جواب تک شریکِ کار تھے ایک ہلچل سی مچ گئی اور وہ اس نتیجہ پرحیران اور ناراض تھے ؛ کیونکہ ان کواپنی خلافت کی توقع تھی، عباسیوں کی اس کامیابی میں سب سے بڑادخل محمد بن حنیفہ کے بیٹے ابوہشام عبد اللہ کی اس وصیت کوہے جوانھوں نے مرتے وقت محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس کے حق میں کی تھی، اس وصیت کی وجہ سے شیعوں کے فرقے کیسانیہ کا یہ عقیدہ قائم ہوا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد محمد بن حنیفہ امام تھے، ان کے بعد ان کے بیٹے ابوہشام عبد اللہ امام ہوئے ان کے بعد محمد بن علی عباسی ان کے جانشین اور امام تھے، محمد بن علی کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم امام ہوئے اور امام ابراہیم کے بعد عبد اللہ سفاح امام ہیں، اس طرح شیعوں کی ایک بڑی جماعت شیعوں سے کٹ کرعباسیوں میں شامل ہو گئی اور علویوں یافاطمیوں کوکوئی موقع عباسیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا نہ مل سکا وہ اندر ہی اندر پیچ وتاب کھاکررہ گئے۔ جب مروان بن محمد آخری اموی خلیفہ مارا گیا توحبیب بن مرہ حاکم بلقاء نے عبد اللہ سفاح کے خلاف خروج کیااور سفید جھنڈے لے کرنکلا ادھر عامل بن قنسرین بھی اُٹھ کھڑا ہوا؛ حالانکہ اس سے پہلے وہ عبد اللہ بن علی عباسی کے ہاتھ پربیعت کرچکا تھا، اہلِ حمص بھی اس کے شریک ہو گئے ادھر آرمینیا کے گورنراسحاق بن مسلم عقیلی نے عباسیوں کے خلاف خروج کیا ان تمام بغاوتوں کے فرو کرنے کے لیے عبد اللہ سفاح نے اپنے سرداروں اور رشتہ داروں کوبھیجا اور بتدریج کامیابی حاصل کی؛ لیکن یزید بن عمر بن ہبیرہ ابھی تک واسط پرقابض ومتصرف تھا اور کوئی سردار اس کومغلوب ومفتوح نہ کرسکا تھا، آخر مجبور ہوکر یزید بن عمربن ہبیرہ نے ابوجعفر منصور اور عبد اللہ سفاح نے جاکر صلح کی اور یزید بن عمر بیعت پرآمادہ ہوا؛ لیکن ابومسلم نے خراسان سے عبد اللہ سفاح کولکھا کہ یزید بن عمر کا وجود بے حد خطرناک ہے اس کوقتل کردو؛ چنانچہ دھوکے سے منصور عباسی نے اس کوقتل کرادیا اور اس خطرہ سے نجات حاصل کی۔ اب کوفہ میں ابوسلمہ باقی تھا اور بظاہر کوئی موقع اس کے قتل کا حاصل نہ تھا؛ کیونکہ عباسی اس ابتدائی زمانے میں شیعانِ اولاد علی کی مخالفت علانیہ نہ کرنا چاہتے تھے، ابوسلمہ کے متعلق تمام حالات لکھ کرابومسلم کے پاس خراسان بھیجے گئے اور اس سے مشورہ طلب کیا گیا، ابومسلم نے لکھا کہ ابوسلمہ کوفوراً قتل کرادینا چاہیے، اس پرعبداللہ سفاح نے اپنے چچاداؤد بن علی کے مشورہ سے ابومسلم کولکھا کہ اگرہم اس کوقتل کر دیں گے توابوسلمہ کے طرف داروں اور شیعانِ علی کی جانب سے علانیہ مخالفت اور بغاوت کا خطرہ ہے تم وہاں سے کسی شخص کوبھیج دو جوابوسلمہ کوقتل کر دے، ابومسلم مراد بن انس کوابوسلمہ کے قتل پرمامور کرکے بھیج دیا، مراد نے کوفہ میں آکر ایک روز کوفہ کی کسی گلی میں جب کہ ابوسلمہ جا رہا تھا اس پرتلوار کا وار کیا، ابوسلمہ مارا گیا، مراد بن انس بھاگ گیا اور لوگوں میں مشہور ہوا کہ کوئی خارجی ابوسلمہ کوقتل کرگیا ہے ؛ اسی قتل کے بعد ابومسلم نے اسی طرح سلیمان بن کثیر کوبھی قتل کرادیا، یہ وہی سلیمان بن کثیر ہے جس نے ابومسلم کوشروع میں وارد خراسان ہونے پرواپس کرادیا تھا اور ابوداؤد نے ابومسلم کوراستے سے واپس بلایا تھا؛ غرض ابومسلم نے چن چن کرہرایک اس شخص کوجواس کی مخالفت کر سکتا تھا قتل کرادیا۔ اس کے بعد سفاح کے سامنے ابومسلم خراسانی كا خطرہ باقی رہ گيا۔ سفاح کو خدشہ تھا کہ خراسانی بغاوت كر كے خلافت چھین ليگا۔ اسی ليے اس نے خراسانی كو اپنے پاس بلا كے قتل كرنے كا منصوبہ بنايا۔ اس نے خراسانی كو دار الخلافہ انبار آنے كا خط بھیجا ليكن اس نے انكار كر ديا اور دهمکی دی كے زيادہ اسرار پر وہ بغاوت كر لیگا۔ آخرکار سفاح کی چالوں میں آ كر وہ آنبار پہنچ گيا۔ محل مين خليفہ سے ملاقات كے وقت خليفہ نے مناظرہ شروع كر ديا۔ بحث وتکرار زیادہ ہوئی تو سفاح نے تالی بجا كر پردے كے پیچھے چھپے محافظوں كو اشارہ كر ديا کے خراسانی پر حملہ كر کے اسے قتل کر دو۔ اس طرح ابومسلم خراسانی كو قتل کر ديا گیا۔

ہن یا ہون 

ہن ترکوں کا نیم وحشی خانہ بدوش قبیلہ تھا۔ یہ لوگ مشرقی یورپ، قفقاز اور وسطی ایشیا میں پہلی صدی عیسوی اور ساتویں عیسوی کے درمیاں آباد تھے۔ ان کا اصل وطن سائبیریا کا صحرائی علاقہ تھا۔ جس کو اسٹپس کا میدان کہتے ہیں۔ جہاں آبادی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے وطن میں خوراک ملنا مشکل ہو گئی۔ چنانچہ ان قبیلوں نے دوسرے علاقہ کا رخ کیا۔ان کی ایک شاخ سیر دریا یا سیحوں کی طرف بڑھی اور دوسری شاخ دریائے اتل کے راستہ یورپ میں داخل ہو گئی جہاں ہونوں نے ایک وسیع حکومت قائم کی تھی۔ان کا مشہور سردار اٹلا تھا۔ جس نے یورپ میں تباہی مچادی تھی۔ اٹلا کی موت 453ء؁ میں ہوئی اور اس کی موت سے یورپ میں ہن مملکت کو زبردست صدمہ پہنچا اور ہن مملکت کا ذوال شروع ہو گیا۔ ہن قوم جو ہیاطلہ یا سفید ہن اور رومی ہفالت ، چینی یزاYetha کے علاوہ چیونی اور اپنے حکمران کے نام سے یققلی کہلاتے تھے۔

افغانستان میں نفوذ 

ہن افغانستان میں یوچییوں کی چھوٹی شاخ کے ساتھ آئے تھے۔ جب یوچی خورد کے بادشاہ نے اپنی فتوحات کا دائرہ کوہستان ہندوکش کے جنوب تک بڑھایا اور کابل، غزنی، گندھارا کے علاقے اپنی مملکت میں شامل کیے، تو ہنوں کا ایک قبیلہ غزنین کے علاقے میں آباد ہو گیا۔ یہ ہنوں کی اپنی مملکت کی تشکیل کی ابتدائی کوشش تھی۔ کیدار نے جب آزادی کا حق منوانے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں شاپور سے ازسرنو تصادم ہوا اور میں کیدار کی مملکت چھن گئی اور خود بھی مارا گیا۔ اس جنگ میں ہنوں نے شاپورکا ساتھ دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں باختریہ کی مملکت ہنوں کے قبضہ میں آگئی، جو اپنے حکمران خاندان کے نام پر یققلی کے نام سے معروف ہوئے۔400ء؁ عیسوی کے قریب کوہ ہندوکش کے شمال و جنوب کی سرزمین ہنوں کے قبضہ میں آچکی تھی۔ جنہیں ہندوکش کے سلسلہ کوہستان نے دو حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ مگر زابلی شاخ شمالی شاخ کی برتری تسلیم کرتی تھی اور دونوں ریاستیں ساسانیوں کی باج گزار تھیں۔ ساسانی جب تک طاقتور رہے ہن ساسانیوں کے باج گزار رہے۔ پانچویں صدی عیسوی میں ہنوں نے دیکھا ایران رومیوں کے طویل عرصہ تک رزم و پیکار اور کوہ قاف کے دروں کی وحشی قبائل کے مقابلے میں ان کی حفاظت مشکلات کا باعث ہو رہی ہے، تو ایرانی اقتدار کا جوا اتارنے کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگے اور انہوں نے خراسان پر حملہ کر دیا۔ لیکن بہرام گورنے نہایت مستعدی سے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں مرو کے قریب ایسی شکست دی کہ ہن بہرام کی زندگی میں سراٹھانے کی ہمت نہیں کرسکے۔

ایرانیوں پر غلبہ 

بہرام گور کی موت کے بعد یزدگرد جانشین ہوا تو ہنوں نے نہ صرف خود مختیاری حاصل کرلی بلکہ ایران پر حملے شروع کر دیے۔ یزدگرد کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہرمزد تخت نشین ہوا، مگر اس کے دوسرے بیٹے فیروز نے نہیں مانا اور مدد لینے کے لیے ہنوں کے پاس پہنچ گیا اور ان سے مدد حاصل کرکے ایک لڑائی میں ھرمز کو قتل کر دیا اور ساسانی تخت حاصل کر لیا۔ فیروز نے ہنوں کو ایک خظیر رقم دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر فیروزنے تخت حاصل کرنے کے بعد ایفائے عہد سے انکار کر دیا۔ اس پر ہنوں نے ساسانی سلطنت کے مشرقی حصہ کو تاراج کرکے اجاڑ دیا۔ فیروز نے کوشش کی کہ ہنوں کی اس سرکش کی روک تھام کرے۔ مگر وہ ناکام رہا اس لیے مجبوراََ ایک خطیر رقم کے بدلے فیروز کو ہنوں سے صلح کرنی پڑی۔ مگر یہ صلح دیرپا ثابت نہیں ہوئی اور ہنوں کے حملے دوبارہ شروع ہو گئے۔ فیروز 482ء؁ میں وہ ایک لشکر لے کر گیا اور فیروزاور ہنوں کے درمیان بلخ کے قریب جنگ ہوئی، اس جنگ میں ساسانیوں کو شکست ہوئی اور فیروز ماراگیا۔ فیروز کے جانشین بلاش نے خراج کی ادائیگی پر صلح کرلی اور ہنوں کو ایک خظیر رقم سالانہ دینا منظور کر لیا اور اس طرح ہن ساسانیوں کے باج گزار کی بجائے ساسانیوں سے خراج لینے لگے اور ساسانیوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک ہنوں کو خراج دیا۔

ترکوں کا ہونوں پر غلبہ 

531ء؁ میں نوشیرواں عادل ساسانی خاندان کا سب سے نامور حکمران ہوا۔560ء؁ میں وسط ایشیا کی بساط پر ایک نئی قوم نمودار ہوئی، یعنی ترکوں کی مغربی سلطنت جس کا حکمران ایل خان تھا۔ نوشیروان نے اس سے دوستانہ تعلقات قائم کرلیے اور ترکوں کی مدد سے ہنوں پر حملے کیے، جس میں ان کا سردار مارا گیا اور انہیں شکست ہوئی اور ان کی مملکت کا خاتمہ ہو گیا۔ مگراس علاقے پر ترکوں کا اثر و رسوخ قائم ہو گیا۔

برصغیر پر حملہ 

ہنوں کی جنوبی یعنی زابلی سلطنت جو انہوں نے کشن حکمرانوں کو شکست دے کر حاصل کی تھی۔ وہ کشنوں کو شکست دے کر برصغیر میں داخل ہو گئے اور 854 عیسوی میں انہوں نے پہلی مرتبہ گپتا مملکت پر حملہ کیا۔ شروع میں سکندا گپت نے بڑی حد تک ان کا مقابلہ کیا اور انہیں کامیابی سے روک لیا۔ لیکن ہنوں کے نئے نئے گروہ برابر آتے رہے اور آخر کار گپتا مملکت میں داخل ہو گئے۔ ان لڑائیوں کی تفصیلات تو نہیں ملتی ہیں، لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ سکندا گپت خود اپنے علاقے کے وسط میں ان پر حملہ کیا تھا اور اس کے علاوہ گپتا حکومت کے سکوں کی قیمت گرگئی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ ہن گپتا حکومت کے وسیع علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 171۔176۔ 177)

زابلی خاندان 

پانچویں صدی عیسوی میں زابلی مملکت پر ایک نیا خاندان حکمران تھا۔ اس خاندان کے دو بادشاہوں ٹورامن (Toramana) اور مہرکلا (Miheracula) نے برصغیر میں وسیع فتوحات کیں۔ ٹورامن نے شمال مغربی علاقوں کے وسیع حصے پر اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے سکے اور کتبے ہونوں کی تاریخ کا سب سے بڑا ماخذ ہیں۔ جو مدھیہ پردیش سے لے کر شمالی علاقوں اور ایران سے ملے ہیں۔ اس سے اس کی سلطنت کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہیونگ سانگ نے لکھا ہے کہ گپتا خاندان کے بالادیتہ نے ہون سردار ٹورامن کے حملہ کو روکا اور اس کو شکست دے کر اس کے بیٹے مہر گل (Miheracula) کو قید کر لیا اور بعد میں اس کو قید سے آزاد کر دیا۔

دارلحکومت 

وی اے اسمتھ کا کہنا ہے کہ ہنوں کے دارلحکومت کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ بامیان تھا کہ ہرات۔ مہرگل جب برصغیر کا گورنر تھا تو اس کا دارلحکومت سالہ (سیالکوٹ) تھا۔ مگر ہنوں کی وسیع مملکت کا دارلحکومت بامیان تھا۔ چینی مصنف سون لونگ 915 عیسوی میں ہرات میں مہر کولا کے دربار میں آیا تھا۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 178)

ہونوں کا زوال 

ٹورامن کا جانشین مہر کولا (مہر گل) (515ء؁ تا 544ء؁) حکمران بنا۔ یہ ایک طاقتور حکمران تھا اور چالیس ملکوں سے خراج وصول کرتا تھا۔ ہندی روایات میں اسے ایک ظالم حکمران بتایا گیا ہے کہ وہ بنی نوح انسان پر ظلم توڑتا تھا۔ اس نے اپنے ظلم کا مظاہرہ مقامی لوگوں کے قتل عام سے کیا۔ اس نے امن پسند بدھوں کو تہ بالا کرڈالا اور نہایت بے رحیمی سے ان کی خانقاہوں اور اسٹوپوں کو تباہ و برباد کرڈالا۔ اس کے ظلم و ستم نے مقامی راجاؤں کو اس کے خلاف ایک متحدہ وفاق بنانے پر مجبور کر دیا اور اسے قومی وفاق نے پہلے اسے بالادیتہ کی سردگی میں شکست دی اور اس کو بعد میں 335ء؁ میں منڈسور کے راجا یسودھرمن نے اسے مکمل شکست دی۔ اس کے بعد اس کی حکومت افغانستان تک محدود ہو کر رہے گئی۔ اس شکست کے بعد مہراکولا زیادہ دیر تک زندہ نہ رہا۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 178 تا 180) ہنوں نے وسطہ ہند اور ہند پر تقریباََ دوسو سال حکومت کی، ان کے دور میں ہندوستان میں دوبارہ ہندو مذہب کا احیاء ہوا اور بدھ مت کا ذوال شروع ہوا۔ ہن سورج کی پوجا کرتے تھے، اس لیے ان کو سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر شیو مہاراج کو اپنانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنے جھنڈے پر آنندی (بیل) کی تصویر بنائی تھی، جو شیو کی علامت تھی۔ چینی سیاح ہوانگ سانگ ہنوں کے آخری دور 629ء؁ میں برصغیر آیا تھا۔ اس کے سفر نامے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ کئی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور یہ ریاستیں ہنوں کی باج گزار تھیں۔ جب ہنوں کی حکومت کمزور ہوئی تو یہ ریاستیں خود مختیار ہوگئیں۔ (سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، 146۔ 147)

خاتمہ 

مہرکلا کے مرنے کے بعد جلد ہی افغانستان سے ہنوں کا اقتدار ختم ہو گیا اور ترکوں کے عروج نے ان کی قوت کو زبر دست صدمہ پہنچایا۔ ترکوں نے ایران کے نوشیروان کے اتحاد سے افغانستان میں ان کے اقتدار کا 563ء؁ تا 567ء؁ کے دوران مکمل خاتمہ کر دیا اور کچھ عرصہ تک ساسانیوں نے ہنوں کے کچھ علاقوں پر قبضہ جمالیا، لیکن ترکوں کی بڑھتی ہوئی طاقت نے سارے افغانستان پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ ہنوں کی دونوں سلطنتوں کے خاتمہ کے بعد ان کے امرا کے قبضہ میں علاقہ رہے تھے۔ مسلمانوں کی آمد کے وقت ان کے بہت سے خاندانوں کی افغانستان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں اور ان میں سے بعض چینیوں کو اور بعض ایرانیوں کو خراج ادا کر رہے تھے۔

خانان قاراخانی یا قاراخانی خانیت 

خانان قاراخانی یا قاراخانی خانیت، قرون وسطی کی ایک ترک ریاست تھی، جو قاراخانیوں، جو ایلیق خانی بھی کہلاتے تھے، نے قائم کی جو ایک ترک خاندان تھا۔ یہ ریاست 840ء سے 1211ء تک وسط ایشیا میں ماورا النہر میں قائم رہی۔ ان کا دار الحکومت پہلے کاشغر پھر بلاساگن، اوزگین اور پھر دوبارہ کاشغر رہا۔ ریاست کا نام دو ترک لفظوں قارہ (یا قرہ) اور خان سے بنا ہے، قارا کامطلب ترک زبان میں "کالا" یعنی معزز اور خان کا لقب ہے ریاست کے حکمران کو دیا جاتا ہے، جو اصل میں خاقان ہے۔

تاریخ 

پہلی اویغور سلطنت سے تسلسل اور قاراخوجہ سے قرابت داری کے علاوہ قاراخانی افسانوی افراسیاب شاہی سلسلہ یا خاندان کی نسل ہونے کے بھی دعوے دار تھے۔ عمودی لکھے جانے والا اویغور رسم الخط تیموریوں کے وقت سے مغربی ترکستان میں مسلمان ترکوں کے درمیان خاصہ استعمال ہونے لگا تھا اس کے ساتھ ساتھ مشرقی ترکستان کے کچھ حصوں میں مانچو دور حکومت میں مروج ہو گیا تھا۔ قاراخانی اور قاراخیتان ریاستوں کے خانہ بدوش عناصر نے جدید قپچاق ترک بولنے والی قازق، کرغز اور تاتار ثقافتوں کی بنیاد رکھی۔ قاراخانی تہذیب کے کچھ اسلامی اور ایرانی اثرات آج بھی تاجک، ازبک، افغان، ہوئی اور اویغور لوگوں میں پائے جاتے ہیں، جن میں سے دو چغتائی ترک زبان بولنے والے ہیں۔

ابتدائی ہجرتیں 

اویغوروں کی ایک شاخ دریائے گانسو اور تارم دریا کے طاس کے نخلستانوں کو ہچرت کر گئی، جس نے گاؤچانگ (خوجا) اور ہامی (کومول) اور بدھ ریاستوں کا ایک قاراخوجہ نام کا وفاق تشکیل دیا۔ دوسروں نے تارم دریا کے مغربی طاس، وادی فرغانہ، جنگاریا اور قازقستان کی مسلم سلطنت خوارزم کے سرحدی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ وہ 10 ویں صدی عیسوی تک مسلمان ہو گئے اور ان ہی میں سے ابھرنے والے شاہی خاندان کو تاریخ میں قاراخانی کہا گیا ہے۔ 999ء میں ہارون (یا حسن) بغرا خان نے، جو اویغور کارلوک اتحاد کے سردار کا پوتا تھا، سامانی سلطنت کے دار الحکومت بخارا پر قبضہ کر لیا۔ سامانی سلطنت کے علاقے خراسان اور افغانستان، سلطنت غزنویہ اور ماورا النہر قاراخانیوں کے قبضے میں چلے گئے، اس طرح آمو دریا دونوں حریف سلطنتوں کے درمیان سرحد بن گیا۔ اس دورانیے میں قاراخانیوں نے اسلام قبول کر لیا۔ 11 ویں صدی عیسوی کے شروع میں قاراخانیوں کا اتحاد اندرونی خانہ جنگیوں کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ 1041ء میں محمد عین الدولہ ( دور حکومت: 52-1041ء) نے سلطنت کے مغربی علاقوں کی حکومت سنبھالی، جس کا مرکز بخارا تھا۔ 11 ویں صدی کے آخر میں ایران میں سلجوقوں کے عروج سے قاراخانی سلجوقوں کے باجگذار بن گئے۔ بعد میں انہوں نے شمال میں خانان قاراختان اور جنوب میں سلجوقوں کے اقتدار کے آگے سر جھکایا۔ سلجوقوں کے زوال کے بعد 1140ء میں قاراخانی، شمالی چین میں حریف ترک قاراختائی اتحاد کے اقتدار کے نیچے آ گئے۔ عثمان (دور حکومت:11-1204ء) نے تھوڑی مدت کے لیے خاندان کی آزاد حکومت کو بحال کیا، لیکن 1211ء میں قاراخانیوں کو محمد علاؤ الدین خوارزم شاہ نے شکست دی اور اس قاراخانی سلسلہ شاہی کا خاتمہ ہو گیا۔

مشہور قاراخانی حکمران 

تاریخی اہمیت کے حامل قارا خانی حکمرانوں میں کاشغر کا محمود تامگاچ شامل ہے۔ اس کے علاوہ قارا خانی فوج کے کئی فوجی کمانڈر شہرت کے حامل ہوئے جن میں عثمان خوارزمی نے 1244ء میں مصر کے مملوکوں کی دعوت پر، اپنی فوج بیت المقدس بھیجی اور مسلمانوں کی کی طرف سے اس مقدس شہر کو صلیبیوں سے آزاد کروایا۔

ایاصوفیہ اور ترکی کی مساجد 

ایاصوفیہ (Church of Holy Wisdom یا موجودہ ایاصوفیہ عجائب گھر) ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کردیا۔ 1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجے و مسجد کی حیثیت ختم کرکے اسے عجائب گھر بنادیا۔ایاصوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور بلاشک و شبہ دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لاطینی زبان میں اسے Sancta Sophia اور ترک زبان میں Ayasofya کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں کبھی کبھار اسے سینٹ صوفیہ بھی کہا جاتا ہے۔

تاریخ 

ایاصوفیہ کا ایک اندرونی منظر4 صدی عیسوی کے دوران یہاں تعمیر ہونے والے گرجے کے کوئی آثار اب موجود نہیں۔ پہلے گرجے کی تباہی کے بعد قسطنطین اول کے بیٹے قسطنطیس ثانی نے اسے تعمیر کیا تاہم 532ء میں یہ گرجا بھی فسادات و ہنگاموں کی نذر ہوگیا۔ اسے جسٹینین اول نے دوبارہ تعمیر کرایا اور 27 دسمبر 537ء کو یہ مکمل ہوا۔ یہ گرجا اشبیلیہ کے گرجے کی تعمیر تک ایک ہزار سے زیادہ سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا رہا۔ ایاصوفیہ متعدد بار زلزلوں کا شکار رہا جس میں 558ء میں اس کا گنبد گرگیا اور 563ء میں اس کی جگہ دوبارہ لگایا جانے والا گنبد بھی تباہ ہوگیا۔ 989ء کے زلزلے میں بھی اسے نقصان پہنچا۔ 1453ء میں قسطنطنیہ کی عثمانی سلطنت میں شمولیت کے بعد ایاصوفیہ کو ایک مسجد بنادیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1935ء تک برقرار رہی جب کمال اتاترک نے اسے عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔ گنبد کی تزئین و آرائشایاصوفیہ بلاشبہ بازنطینی طرز تعمیر کا ایک شاہکار تھا جس سے عثمانی طرز تعمیر نے جنم لیا۔ عثمانیوں کی قائم کردہ دیگر مساجد شہزادہ مسجد، سلیمان مسجد اور رستم پاشا مسجد ایاصوفیہ کے طرز تعمیر سے متاثر ہیں۔ عثمانی دور میں مسجد میں کئی تعمیراتی کام کئے گئے جن میں سب سے معروف 16 ویں صدی کے مشہور ماہر تعمیرات معمار سنان پاشا کی تعمیر ہے جس میں نئے میناروں کی تنصیب بھی شامل تھے جو آج تک قائم ہیں۔ 19 ویں صدی میں مسجد میں منبر تعمیر اور وسط میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور چاروں خلفائے راشدین کے ناموں کی تختیاں نصب کی گئیں۔ اس کے خوبصورت گنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) ہے اور یہ 56 میٹر بلند ہے۔

اورتاکوئے مسجد 

اورتاکوئے مسجد، جس کا باقاعدہ نام "بیوک مجیدیہ جامعی" یعنی شاہی جامع مسجدِ سلطان عبد المجید ہے، ترکی کے شہر استنبول میں واقع ایک مسجد ہے۔ یہ استنبول کو دو براعظموں یورپ اور ایشیا میں تقسیم کرنے والی آبنائے باسفورس کے کنارے واقع ہے۔ اصل اورتاکوئے مسجد 18 ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی جبکہ موجودہ مسجد عثمانی سلطان عبدالمجید اول کے حکم پر 1854ء سے 1856ء کے دوران تعمیر ہوئی۔ نیو-باروک طرزِ تعمیر میں تعمیر کی گئی یہ مسجد آرمینیا سے تعلق رکھنے والے دو باپ بیٹوں کی مہارتوں کا نتیجہ ہے۔ یہ اس طرز تعمیر میں قائم دنیا کی واحد مسجد ہے۔ مسجد کے دو مینار بھی ہیں۔ اس کی دیواریں سفید پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔ اس کے وسیع و عریض دریچوں سے مسجد میں ہر وقت سورج کی روشنی براہ راست اور باسفورس کے پانیوں سے منعکس ہو کر پھیلی رہتی ہے۔ مسجد کے قریب سے آبنائے باسفورس پر قائم "باسفورس پل" گذرتا ہے جو ایشیا اور یورپ کو آپس میں ملاتا ہے۔

سلطان احمد مسجد 

سلطان احمد مسجد المعروف نیلی مسجد (ترک: سلطان احمد جامع) ترکی کے سب سے بڑے شہر اور عثمانی سلطنت کے دارالحکومت (1453ء تا 1923ء) استنبول میں واقع ایک مسجد ہے۔ اسے بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں۔ جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی لیکن اب چونکہ مسجد تعمیر ہو چکی تھی اس لیے اس نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ مسجد حرام میں ایک مینار کا اضافہ کرکے اُس کے میناروں کی تعداد سات کر دی۔ مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جن کے درمیان میں مرکزی گنبد واقع ہے جس کا قطر 33 میٹر اور بلندی 43 میٹر ہے۔ مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو 20 ہزار ہاتھوں سے تیار کردہ ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے جو ازنک (قدیم نیسیا) میں تیار کی گئیں۔ دیوار کے بالائی حصوں پر رنگ کیا گیا ہے۔ مسجد میں شیشے کی 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں تاکہ قدرتی روشنی اور ہوا کا گذر رہے۔ اس مسجد کے اندر قرآن مجید کی آیات اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے کی۔ مسجد کے طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے ہر کونے اور ہر جگہ سے امام کو با آسانی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ مسجد کے ہر مینار پر تین چھجے ہیں اور کچھ عرصہ قبل تک مؤذن اس مینار پر چڑھ کر پانچوں وقت نماز کے لیے اہل ایمان کو پکارتے تھے۔ آج کل اس کی جگہ صوتی نظام استعمال کیا جاتا ہے جس کی آوازیں قدیم شہر کے ہر گلی کوچے میں سنی جاتی ہے۔ نماز مغرب پر یہاں مقامی باشندوں اور سیاحوں کی بڑی تعداد بارگاہ الٰہی میں سربسجود دیکھی جا سکتی ہے۔ رات کے وقت رنگین برقی قمقمے اس عظیم مسجد کے جاہ و جلال میں اضافہ کرتے ہیں۔

سلیمیہ مسجد 

سلیمیہ مسجد (ترک: سلیمیہ جامع) ترکی کے شہر ادرنہ کی ایک مسجد ہے۔ یہ مسجد عثمانی سلطان سلیم دوئم کے حکم پر تعمیر کی گئی اور اسے مشہور معمار سنان پاشا نے 1568ء سے 1574ء کے درمیان تعمیر کیا۔ اسے سنان پاشا کے فن کا عظیم ترین شاہکار اور اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مسجد کے مینار ترکی کے بلند ترین مینار ہیں جن کی بلندی 70.9 میٹر ہیں۔ یہ جامع مسجد ایک کلیہ (مسجد کے گرد شفا خانہ، مدرسہ، کتب خانہ اور حمام) کے مرکز میں قائم ہے جو ایک مدرسہ، دار الحدیث اور ایک آراستہ (دکانوں کی قطار) کے درمیان واقع ہے۔ اس میں ایک تاریخی شفا خانہ بھی واقع ہے جسے اب عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔ سنان نے مسجد کا طرز تعمیر ایسا رکھا کہ مسجد کے ہر کونے سے محراب صاف دکھائی دے۔ اس مسجد میں روایتی عثمانی طرز تعمیر کے حامل چار خوبصورت مینار بھی شامل ہیں جبکہ ایک عظیم گنبد پر اس پر موجود ہے۔ مسجد کے گرد کتب خانے، مدرسہ، حمام، لنگر خانہ، بازار، شفا خانہ اور ایک قبرستان بھی قائم کیا گیا تھا۔ 1915ء میں بلغاریہ کی جانب سے ادرنہ کے محاصرے کے موقع پر مسجد کا گنبد بلغاری توپ خانے کی زد میں آ گیا لیکن مضبوط تعمیر کے صرف اس کی بیرونی تہہ کو ہی نقصان پہنچا۔

اولو جامع 

اولو جامع یعنی عظیم مسجد ترکی کے شہر بروصہ میں واقع ایک مسجد ہے جسے عثمانی طرز تعمیر کا اولین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ مسجد سلطان بایزید اول کے حکم پر علی نجار نے 1396ء سے 1399ء کے درمیان قائم کی۔ مستطیل شکل میں بنی اس مسجد پر 20 گنبد ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلطان بایزید نے جنگ نکوپولس میں فتح کی صورت میں 20 مساجد تعمیر کرنے کا عہد کیا تھا اور بعد ازاں انہی 20 مساجد کی جگہ بروصہ میں (جو اس وقت عثمانی سلطنت کا دارالحکومت تھا) 20 گنبدوں والی یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ اس کے دو مینار بھی ہیں۔ مسجد کے اندر معروف خطاطوں کے 192 شاندار فن پارے رکھے گئے جو فن خطاطی کے عظيم نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔

امام شامل 

امام شامل شمالی قفقاز کے مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما تھے جن کی قیادت میں انہوں نے روسی استعمار کے خلاف جنگ قفقاز میں بے مثل شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ وہ داغستان اور امامت قفقاز کے تیسرے سربراہ اور نقشبندی سلسلے کے تیسرے امام تھے امام شامل 1797ء میں موجودہ داغستان کے ایک چھوٹے سے قصبے گھمری میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک زمیندار تھے۔ امام شامل نے بچپن میں عربی سمیت کئی مضامین میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے نقشبندی مجددی خالدیہ صوفی سلسلے میں شمولیت اختیار کرلی اور قفقاز کے علاقے کے مسلمانوں کی ایک تعلیم یافتہ اور ہر دلعزیز شخصیت بن گئے۔ جب امام شامل پیدا ہوئے تو روسی سلطنت سلطنت عثمانیہ اور فارس کے علاقے پر قبضے کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کر رہی تھی۔ فارس کے سلطان کی حمایت سے جنگ قفقاز میں علاقے کے کئی مسلمان قبائل نے روسی استعمار کے بغاوت کردی۔ قفقازیوں کی مزاحمت کے اولین رہنماؤں میں شیخ منصور اور غازی ملا معروف ہیں۔ امام شامل غازی ملا کے بچپن کے دوست تھے۔ 1834ء میں غازی ملا جنگ گھمری میں شہید ہو گئے اور امام شامل قفقاز کے جہاد کے رہنما اور نقشبندی مجددی خالدیہ طریقت کے امام بن گئے۔

روسی استعمار 

روسیوں کے قبضے سے پہلے قفقاز کے علاقے کبھی ایران کی حکومت کے تحت آجاتے تھے اور کبھی ان پر عثمانی ترک قابض ہوجاتے تھے۔ شروان کا علاقہ جہاں سے اسماعیل صفوی نے اپنی حکومت کا آغاز کیا آذربائیجان کا ایک حصہ ہے۔ جب افغانوں نے اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا تو ایران کے ابتر حالات سے فائدہ اٹھاکر روس نے داغستان اور شمالی آذربائیجان پر اور عثمانی ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا تھا لیکن نادر شاہ نے ان علاقوں کو جلد ہی واپس لے لیا۔ اس کے بعد روسی 1797ء میں پھر داغستان پر قابض ہو گئے اور چند سال میں دریائے اردس تک پورے آذربائیجان پر قبضہ کر لیا۔ فتح علی شاہ قاچار 1828ء میں معاہدہ ترکمانچی کے تحت ان تمام علاقوں پر سے ایران کے حق سے دستبردار ہو گیا۔

تاریخی مزاحمت 

روسیوں کی اس جارحانہ پیش قدمی کے دوران جس علاقے کے باشندوں نے حملہ آوروں کا سب سے زیادہ مقابلہ کیا وہ داغستان ہے یہاں کے جری باشندوں نے بار بار بغاوت کی اور روسیوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کیا۔ آزادی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ شہرت اور نیک نامی امام شامل نے حاصل کی۔ داغستان کے حکمران کی حیثیت سے انہوں نے 25 سال تک بے مثل شجاعت سے روسیوں کی لاتعداد فوج کا مقابلہ کیا اور 1845ء تک داغستان کے ہرحصے سے روسیوں کو نکال دیا لیکن روسی بار بار حملہ آور ہوتے تھے اور امام شامل کے ليے ان کی کثیر تعداد اور جدید اسلحے سے لیس افواج کا تنہا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ سے مدد حاصل کرنا چاہی لیکن ناکام رہے۔ آخر کار 1859ء میں غنیب کے سخت ترین معرکے میں روسیوں کی تمام شہریوں کو قتل کردینے کی دھمکی پر انہوں نے تمام شہریوں کی جان کے بدلے خود کو روسی فوج کے حوالے کر دیا اور ہتھیار ڈال دیے۔ روسی کمانڈر نے جو زار روس کا بھائی تھا زار کو مبارکباد کا تار دیا کہ آج 100 سال سے جاری قفقاز کی جنگ ختم ہو گئی۔ اس دن کلیساؤں میں اس کامیابی پر شکرانے کی عبادت کی گئی۔ روسی حکومت امام شامل کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئی۔ ان کی پنشن مقرر کردی گئی اور رہنے کے ليے مکان دیا گیا۔ 1870ء تک امام شامل روس میں نظر بند رہے۔

حجاز مقدس آمد اور انتقال 

1870ء میں وہ روسی حکومت کی اجازت سے حج کے ليے مکہ معظمہ گئے۔ حجاز مقدس کی جانب سفر کے دوران وہ ترکی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک سے گزرے جہاں کے عوام نے ان کا فقید المثال خیر مقدم کیا۔ اگلے سال 1871ء میں ان کے صاحبزادے غازی محمد روسی قید سے رہا ہوکر مکہ مکرمہ پہنچے لیکن امام شامل مدینہ منورہ انتقال کر گئے۔ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

شخصیت اور کارنامے 

امام شامل کی عظمت محض ان کی دلیرانہ جنگ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی بصیرت، سوجھ بوجھ، انتظامی صلاحیت اور کردار کی بلندی نے عبدالقادر الجزائری اور ٹیپو سلطان کی طرح ان کی عظمت کو چار چاند لگادیے۔ ان کا زمانہ داغستان کی تاریخ میں "شریعت کا دور" کہلاتا ہے۔ امام شامل تصوف کے نقشبندی سلسلے کے سربراہ تھے۔ ان کے مرتب کردہ انتظامی اور قانونی ضابطے "نظام شامل" کہلاتے تھے۔ اس کے تحت داغستان 32 انتظامی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ انتظامیہ اور عدلیہ الگ الگ تھے۔ ہر ضلع کا مفتی عدالت کے محکمے کا ذمہ دار تھا اور ضلع کا حاکم اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا تھا۔ ہر مفتی کے تحت 4 قاضی ہوتے تھے۔ اگر کسی معاملے کو قاضی طے نہ کرسکتے تھے تو وہ مفتی کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور مفتی اس معاملے کو امام شامل یا مجلس شوری کے سامنے پیش کرتا تھا جس کو دیوان کا نام دیا گیا تھا۔ امام شامل نے احتساب کا محکمہ بھی قائم کیا تھا جس کے ذریعے عہدے داروں پر نگرانی رکھی جاتی تھی۔ فوجوں کی تنظیم بھی جدید طرز پر کی گئی تھی اور دار الحکومت ودینو میں بندوقوں اور توپوں کو ڈھالنے کا کارخانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں داغستان کی افواج کی تعداد 60 ہزار سوار اور پیادہ فوج تک پہنچ گئی تھی۔ فوجی تربیت کے ليے جو مراکز قائم کیے گئے تھے ان میں قید کیے جانے والے روسی افسر تربیت دیتے تھے۔ امام شامل کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد داغستان میں 5 سال تک روسیوں کی مزاحمت جاری رہی یہآں تک کہ 21 مئی 1864ء کو داغستان کا آخری پہاڑی قلعہ بھی روسیوں کے قبضے میں آ گیا اور داغستان کی آزادی کی جنگ ختم ہو گئی۔ شیشان میں جاری آزادی کی تحریک شاید انہی کی خاک کی چنگاری ہے۔ چیچن جانبازوں کے سربراہ شامل بسایوف کا نام ان کے والدین نے امام شامل کے نام پر ہی رکھا تھا جو رواں سال 10 جولائی 2006ء کو جاں بحق ہوئے۔

خانان استراخان 

خانان استراخان یا خانیت استراخان ایک ترک تاتار ریاست تھی، جو سنہری لشکر سلطنت (ترکی زبان میں آلتین اوردا) یا سلطنت اردوئے طلائی کے انہدام کے بعد قائم ہوئی۔ یہ ریاست 15ویں اور 16ویں صدی عیسوی میں دریائے وولگا کے طاس سے ملحقہ علاقوں میں موجود رہی، جہاں آج کل روس کا علاقہ استرا خان اوبلاست واقع ہے ۔ اس ریاست کو 1460ء میں محمود استراخانی نے قائم کیا۔ اس کا دار الحکومت حاجی تارخان شہر تھا، جو روسی وقائع (کرونیکل) میں استراخان کے ناں سے درج ہے۔ ریاست کے علاقوں میں زیریں وولگا وادی اور دریائے وولگا کا طاس، آج کے استراخان اوبلاست اور دریائے وولگا کے دائیں کنارے آج کے کلمیکیا کے گیاہستانوں (سٹیپ لینڈ) سمیت شامل تھا۔ بحیرہ کیسپیئن (بحیرہ قزوین) کا شمال مغربی ساحل ریاست کی جنوبی سرحد اور خانان کریمیا (قریم یورتی) اس کی مغربی سرحد پر واقع تھے۔ خانان استراخان کا صدرمقام حاجی تارخان، آج کے استراخان شہر سے 12 کلومیٹر دور واقع تھا ۔

ریاست کی تشکیل سے پہلے 

دریائے وولگا کے زیریں علاقے میں 5ویں صدی عیسوی سے ہی مختلف ترک قبیلے آباد چلے آ رہے تھے۔ جیسے کہ خزار جنہوں نے یہاں سب سے پہلے خزاری سلطنت قائم کی تھی۔ مشرق کی طرف سے منگول مداخلت کے بعد یہاں وولگا بلغاروں کی ریاست وولگا بلغاریہ کا خاتمہ ہوا اور یہ علاقے سلطنت اردوئے طلائی (سنہری لشکر سلطنت) کے زیر نگیں آ گیا۔ یہ سلطنت خانہ جنگی کی وجہ سے کمزور ہوئی تو 1466ء کے قریب نیم خود مختار خانان استرا خان ریاست قائم ہوئی۔ دریائے وولگا کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے کئی تجارتی راستے اس کے اختیار میں تھے جو آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھے، لیکن تجارتی راستے اپنی کشش کی وجہ سے ہمسایہ ریاست اور خانہ بدوش قبیلوں کے خانان استراخان پر حملے کا باعث بھی بنتے۔ قریم یورتی ( خانان کریمیا) کے خان مینلی اول گیرائے، جس نے عظیم لشکر ریاست(ریاست اردوئے عظیم ) کے دار الحکومت سرائے باتو کو تباہ کیا تھا، خانان استراخان کو بھی بہت نقصان پہنچایا ۔ خانان استراخان کی آبادی کی اکثریت استراخانی تاتار اور نوگائے لوگوں پر مشتمل تھی۔ تاجر ماسکو، کازان (قازان)، کریمیا، وسط ایشیا اور قفقاز پار کے علاقوں کو تجارت جہاں سے گزر کر ہی کرتے تھے ۔ اشرافیہ میں درجہ بہ درجہ سب سے پہلے خان پھر سلطان، بیگ اور مورزالر تھے۔ باقی لوگوں کوقارا خلق یعنی کالے لوگ ( پرانی ترک بولی میں مطلب عظیم مخلوق، قارا عام طور پر بڑے یا عظیم کے لیے استعمال ہوتا تھا ) جو عام لوگوں کے لیے ترک رتبہ تھا۔ ریاست کا مذہب اسلام تھا ۔ 1530ء کی دہائی میں استراخان نے خانان کریمیا اور ریاست اردوئے نوگائے (ریاست نوگائے لشکر) کے ساتھ ماسکو کی روسی ریاست کے خلاف تعاون کیا۔ اس کے بعد استراخان اپنے پہلے حلیفوں تاتاروں کے ساتھ تنازعات میں الجھ گیا۔ 1552ء میں زار روس ایوان چہارم، مشہور عام ایوان خوفناک، نے خانان قازان کے دار الحکومت قازان پر قبضہ کر لیا، اس کے کچھ ہی عرصے بعد استرا خان میں بھی ایک ماسکو نواز حکومت قائم ہو گئی ۔ ایوان چہارم نے استراخان میں اپنی فوجیں بھیجیں، جس کی وجہ سے استراخان کا آخری حکمران درویش خان، ماسکو کا باجگزار بننے پر مجبور ہوا۔ 1554ء میں ماسکو نواز اشرافیہ اور نوگائے قبائلیوں نے استرا خان پر قبضہ کر رہی روسی فوجوں کی حمایت کی۔ استرا خان پر کریمیا کا حملے ٹلنے کے بعد درویش خان نے خانان کریمیا سے، اپنے علاقوں سے روسیوں کو نکالنے کے لیے گٹھ جوڑ کیا۔ ایوان چہارم نے روسی آباد کاروں اور کاسک فوجوں کو بھیجا، جنہوں نے علاقے کو فتح کیا اور 1556ء میں اس کا ماسکو سے الحاق کر دیا۔ خانان استرا خان کا دار الحکومت حاجی تارخان کا محاصرہ کیا گیا اور اس جلا دیا گیا، ریاست روسیوں کے قبضے میں چلی گئی اور اس کا خاتمہ ہو گیا۔ درویش خان ازوف کے قلعے میں بھاگ گیا۔ حانان استراخان کے خاتمے کے بعد روسیوں کے حلیف کلمیکوں نے تاتاروں پو حملے کیے اور نوگائے خانہ بدوشوں کو علاقے سے نکال دیا۔ روسیوں اور کلمیکوں نے علاقے کی مسلم اکثریتی آبادی کا قتل عام کیا اور بچوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا ۔ کافی نوگائے قازقستان اور داغستان چلے گئے۔ تقریبا 70 ہزار تاتاری آج بھی استرا خان اوبلاست میں رہتے ہیں ۔

فتاویٰ ہندیہ: فتاویٰ عالمگیری 

فتاویٰ ہندیہ: فتاویٰ عالمگیری کے نام سے مشہور ترین کتاب ہے جو مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر تالیف کی گئی۔

فتاویٰ عالمگیری کی ضرورت 

عالمگیر کے عہد حکومت سے قبل اسلامی دنیا میں فقہ کی کئی مستند کتابیں رائج تھیں، لیکن برصغیر پاک و ہند تو درکنار پوری اسلامی دنیا میں فقہ حنفی میں کوئی ایسی کتاب موجود نہ تھی جس سے ایک عام مسلمان آسانی کے ساتھ کسی مسئلہ کو اخذ کرسکے اوراحکام شرعیہ سے بخوبی واقف ہو سکے، خود اورنگ زیب کو اس کا خاص خیال تھا کہ تمام مسلمان ان دینی مسائل پر عمل کیسے کریں جنہیں فقہ حنفی کے علما و اکابر واجب العمل سمجھتے ہیں، لیکن مشکل یہ تھی کہ علما فقہا کے اختلاف رائے کے سبب یہ مسائل فقہی کتابوں اورفتاویٰ کے مجموعوں میں کچھ اس طرح مل گئے تھے کہ جب تک کسی شخص کو فقہ میں مہارت تامہ حاصل نہ ہو اور بہت سی مبسوط کتابیں اسے میسر نہ ہو۔ صریح مسائل، نیز حکم صحیح کا معلوم کرنااس کے لیے ناممکن تھا۔ اس خیال کے پیش نظر اورنگزیب عالمگیرنے علمائے دہلی کے علاوہ سلطنت کے اطراف سے ایسے علما جمع کیے جنہیں علم فقہ میں کافی دستگاہ تھی اورانہیں حکم دیا کہ مختلف کتابوں کی مدد سے ایک ایسی جامع اور مستند کتاب تیار کریں جس میں نہایت تحقیق و تدقیق کے ساتھ یہ تمام مسائل جمع کیے جائیں تاکہ قاضی اور مفتی نیز دیگر تمام مسلمان علم فقہ کی بہت سی کتابیں جمع کرنے اور ان کی ورق گردانی سے بے نیاز ہوجائیں۔

فتاویٰ کے مدونین 

جب اورنگ زیب عالمگیرنے اس امر کا عزم کر لیا اور فقہ حنفی کی ایک جامع کتاب کی شدید ضرورت محسوس کی تو پہلے انہوں نے ملک کے کہنہ مشق علما فقہا کو فرمان کے ذریعے شاہی دربار میں طلب کیا۔ گفتگو کے بعد اس عظیم الشان کام کی انجام دہی کے لیے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی گئی، اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا، اس علمی و تحقیقی کمٹی کے صدر شیخ نظام برہان پوری (1092ھ/ 1681ء) ملا نظام صدر منتخب ہوئے اور بنفس نفیس بادشاہ نے کمیٹی کی سرپرستی قبول کی۔ جن چار افراد کو یہ کام ذمہ کیا گیا تھا ان کے ساتھ ساتھ دس دس افراد کو اور متعین کیا گیا تھا تاکہ یہ کام انتہائی دلجمعی اور حسن خوبی سے اختتام پذیرہو۔ ایک چوتھائی کام قاضی محمد حسین جونپوری محتسب فوج کے سپرد کیا گیا ایک چوتھائی سید جلال الدین محمد مچھلی شہری کے ایک چوتھائی شیخ وجیہ الدین گوپاموی کے ایک چوتھائی محمد اکرم لاہوری کے حوالہ کیا جو شہزادہ کام بخش کے استاد تھے۔ ملا حامد جونپوری سید محمد قنوجی شیخ رضی الدین بھاگلپوری محمد جمیل صدیقی قاضی علی اکبر الٰہ آبادی شیخ نظام الدین ثانی ٹھٹوی شیخ ابو الخیر ٹھٹوی علامہ ابو الواعظ ہرگامی شیخ احمد بن ابو منصور گوپامی شیخ محمد غوث کاکوروی فصیح الدین جعفری پھلواروی عبد الفتاح صمدانی قاضی عصمت اللہ لکھنوی قاضی محمد دولت فتحپوری محمد سعید سہالوی قاضی عبد الصمد دہلوی مفتی ابو البرکات دہلوی قاضی سید عنایت اللہ مونگھیری شاہ عبد الرحیم دہلوی شیخ محمد شفیع شیخ وجیہ الرب سید محمد فائق ابو الفرح سید معدن قاضی القضاۃ غلام محمد

مدت تالیف 

اس کی تالیف میں آٹھ سال کا عرصہ لگا جو 1074ھ سے لیکر 1082ھ تک ہے تقریباً 40 سے 50 علما نے اس میں خدمات سر انجام دیں کیونکہ شیخ وجیہ الدین گوپاموی کی مدد کے لیے 10 علما مامور تھے، اصل کتاب عربی میں تھی اس کے ترجمہ کے لیے چلبی عبد اللہ رومی کی خدمات لی گئیں۔

فتاویٰ کے مراجع 

جن کتابوں سے اس میں مدد لی گئی ہے ان کی فہرست کافی طویل ہے یہاں چند اہم اور خاص کتابیں یہ ہیں۔’’ہدایہ، قدوری، عنایہ، مبسوط، محیط برہانی، الجامع الكبير، محیط سرخسی، مختصر المعانی، فتح القدیر، بدائع الصنائع، البحر الرائق، غایۃ البیان، السراج الوہاج، الدر المختار، الکافی، قتیۃ المنیہ، برجندی، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ تاتارخانیہ، التجنیس والمزید۔‘‘

حوالہ جات 

اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 15 صفحہ 145 دانش گاہ پنجاب لاہور قاموس الفقہ ،جلد اول صفحہ 383،خالدسیف اللہ رحمانی،زمزم پبلشر کراچی

امیر تیمور خان 

امیر تیمور خان اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم دین تھا۔ اس کا طریقہ تھا کہ کسی مسلم شہر پر حملہ کرتے وقت وہاں کی کسی بڑی مسجد یا کسی عالم دین کے گھر کو دارالامان قرار دے دیتا تھا۔ اور فتح کے بعد اپنی جائے قیام پر ایک محفل علما یا محفل عرفا منعقد کرتا اور اس محفل میں دینی مسائل پر یا فقہی نکات پر بحث و مباحثہ ہوتا۔ اگر کوئی حافظ قرآن ہوتا جیسا کہ حافظ شیرازی کے ساتھ تھا، تو اس سے حفظ قرآن کا مقابلہ ہوتا اور ایسے ہر موقعے پر آخر میں یہی ثابت ہوتا کہ ان علما یا حفا میں تیمور کے پائے کا کوئی بھی نہیں ہے۔ مگر ان تمام باتوں کی ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کو خون بہانے یا خون بہتا دیکھ کر جتنا لطف آتا تھا، اتنا لطف اور کسی شے سے نہ حاصل ہوتا تھا۔ اس قتل و غارت گری میں وہ مسلم یا کافر میں بھی تمیز نہ کرتا تھا۔ اس کا طے شدہ اصول مال غنیمت جمع کرنا اور بے دریغ قتل و غارتگری سے خلق خدا پر اپنا رعب بٹھانا تھا۔ اس اصول سے انحراف اس نے صرف دو مقامات پر کیا، ایک ایران کے صوبے مشرقی آذر بائیجان کے شہر شبستر میں وہاں کے رہنے والے شاعر محمود شبستری کی وجہ سے کہ اس کی کتاب ’’گلشن راز‘‘ تیمور کو بہت پسند تھی۔ اور دوسرا مقام ایران ہی کا شہر شیراز تھا کہ اس کے شاعروں بالخصوص سعدی اور حافظ سے اپنے لڑکپن کے زمانے سے ہی اسے بڑی عقیدت تھی۔ اس کی قتل و غارت گری کی ایک بڑی وجہ شاید اس کی چنگیز خان ثانی بننے کی دلی آرزو تھی۔ وہ اپنے آپ کو بڑے فخر سے چنگیز خان کی اولاد کہتا تھا۔ اور خدا کی قدرت دیکھئے کہ یہ بات اس کی زندگی میں تو کوئی زبان پر نہ لاسکتا تھا، مگر آج اس کی قبر کے مجاور ہر خاص و عام کو یہ بات بہ بانگ دہل بتاتے ہیں۔ امیر تیمور اپنی خود نوشت میں رقمطراز ہے کہ: ’’وہ لوگ جو اس وقت میری سرگزشت پڑھ رہے ہوں یہ مت کہیں کہ مجھ جیسا شخص جو حافظ قرآن ہے اور فقیہ ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے، کیونکر اتنی بے دردی سے انسانی جانوں کے قتل عام کا حکم جاری کر سکتا ہے۔ جان لو کہ حکومت کرنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں، جو ابتدائے دنیا سے موجود تھے اور جب تک دنیا قائم ہے باقی رہیں گے اور ان میں رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ ان اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ لوگ اپنے حکمران سے ڈرتے رہیں اور چنانچہ حکمران کا خوف عوام کے دلوں میں نہ رہے تو اس کے احکام پر عملدرآمد نہیں ہوگا، جس کے نتیجے میں اوباش و اشرار ملک پر مسلط ہو جائیں گے اور عوام کی جان، مال و ناموس پر دست اندازی شروع کردیں گے۔ میں نے اس غرض سے اہل تاشقند کے قتل عام کا حکم جاری کیا تھا کہ دوسرے شہروں کے لئے عبرت ہو اور وہ جان لیں کہ میرے حکم سے سرتابی کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ مگر میں یہ بات بھی نہیں چھپانا چاہتا کہ اپنے دشمنوں کا خون بہتا دیکھ کر مجھے ایک خاص لذت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ لذت جو دوسرے لوگ شراب پی کر محسوس کرتے ہیں، مجھے دشمنوں کا خون بہتا دیکھ کر محسوس ہوتی ہے اور میرا تن من ایک سرور آگیں نشے میں ڈوب جاتا ہے۔ مجھے دشمنوں کا خون بہا کر لطف محسوس ہوتا ہے اور خونریزی کے ذریعے ہی اپنے ملک کا نظم و نسق بھی چلاتا ہوں۔ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ میری نافرمانی کرنے والے بلا تامل جلاد کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں۔ آج تین ہزار جلاد جن کے نام رسمی طور پر سرکاری دفاتر میں درج ہیں میرے وسیع و عریض ملک کے گوشے گوشے میں اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ مجرموں کی سزا دیں، ان کی گوشمالی کریں یا انہیں سزائے موت کے گھاٹ اتار دیں۔ اس سخت اور بے لچک رویے کے بہت سے فوائد ہیں اور آج تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو کہ ایک تجارتی قافلہ انگوریہ سے نکلتا ہے اور کسی حفاظتی سپاہ کے بغیر سمرقند پہنچ جاتا ہے اور طویل راستے میں کسی کو اس کارواں کے مال پر بری نظر ڈالنے کی جرات نہیں ہوتی۔ (انگوریہ کو کچھ مؤرخین نے ’’انگورانی‘‘ بھی تحریر کیا ہے۔ وہی شہر ہے جو بعد میں انقرہ کے نام سے مشہور ہوا اور آج ’’انکارا‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ مترجم)۔ تم چاہو تو سونے کے سکوں سے بھری تھالی کسی نابالغ بچے کے سر پر رکھ دو اور اس سے کہو کہ میرے ملک کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کی طرف پیدل اور اکیلا سفر کرے۔ جب کئی سال گزر جائیں اور وہ کمسن بچہ سن بلوغت کو پہنچ جائے تو تم دیکھو گے کہ اس طویل مدت میں سونے کا ایک بھی سکہ کم نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری حکمرانی کے علاقے میں کسی کو حتیٰ کہ ایک بچے کے مال پر نظر ڈالنے کی جسارت نہیں ہوتی۔ آیا تم نے کبھی سنا ہے کہ میرے وسیع و عریض ملک میں کہیں چوری کی واردات ہوئی ہو یا کوئی چور کسی کے گھر یا دکان میں داخل ہوا ہو؟ مجھے یقین ہے کہ تم نے ایسا کوئی واقعہ نہیں سنا ہوگا۔ مگر صرف اس زمانے میں کہ میں ابھی مشرق و مغرب کا سلطان نہیں بنا تھا! میں نے چوری کی روک تھام کے لئے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے جو آنے والے بادشاہوں اور حکمرانوں کے لئے سر مشق بن سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جہاں کہیں چوری کی واردات ہو تو میں اس علاقے کے داروغہ یا کوتوال کے ہاتھ کٹوا دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک کوئی داروغہ چور کا ہمدست نہ ہو یا اپنے کام میں غفلت نہ کرے تو اس وقت تک چوری نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنے وسیع و عریض ملک میں رہزنی و ڈکیتی اور شہروں میں چوری و گدائی کا یکسر خاتمہ کر دیا ہے اور آج تمہیں میرے ملک میں ایک بھی بھکاری نظر نہیں آئے گا۔ میں نے گداگری کا خاتمہ اس طرح کیا کہ سارے مستحق فقیروں کے لئے سرکاری وظیفہ مقرر کردیا۔ مستحق فقیر وہ ہیں جو اعضائے بدن کے ناقص ہونے یا اندھا ہونے کے باعث کام نہیں کرسکتے۔ میں جانتا تھا کہ جس شخص کو گدائی کی لت پڑ جائے تو وہ سرکاری وظیفے پر قناعت نہیں کر سکتا اور دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں آسکتا۔ اسی لئے میں نے وظیفہ حاصل کرنے والے بھکاریوں کو خبردار کر رکھا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ بھیک مانگتے دیکھا گیا تو کسی عذر کے بغیر ان کی گردن اڑا دی جائے گی۔ لہٰذا وہ بھکاری جو وظیفہ حاصل کرنے کے باوجود بھیک مانگنے سے دستبردار نہیں ہوئے تو میرے حکم سے معدوم کر دیئے گئے۔ البتہ ایسے گداگر جو کام کرنے کے قابل تھے، انہیں مختلف کاموں پر لگادیا گیا اور جن لوگوں نے کام سے جی چرایا تو انہیں بھی ملک عدم روانہ کردیا گیا۔ آج میری حکمرانی کے پورے علاقے میں آل محمدؐ یعنی اولاد رسولؐ میں سے کوئی ایک ایسا نہیں پاؤ گے جو معاشی بدحالی کا شکار ہو جبکہ مجھ سے پہلے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سادات اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کی غرض سے بھیک مانگنے پر مجبور تھے۔ میں جو خاندان رسالتؐ سے بے پناہ عقیدت رکھتا ہوں، یہ بدحالی برداشت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا میں نے ’’خمس‘‘ کے حصے سے تمام مستحق خاندانوں کے لئے وظیفہ مقرر کردیا اور ان کی معاشی کسمپرسی کا سدباب کردیا۔ آج تم میرے ملک کے سوا کوئی اور خطہ زمین ایسا نہیں پاؤ گے جہاں اتنی خوشحالی اور امن و سلامتی کا دور دورہ ہو۔ میری سطلنت سے پہلے میری رعایا نے اتنی فارغ البالی اور آسودہ حالی کا زمانہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ان پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی سرکاری کارندہ یا کوتوال یا داروغہ کسی رعایا کے گھر میں گھس جائے اور گزشتہ کی طرح اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور شے بطور رشوت طلب کرے تو میں اس کا سر بدن پر نہیں رہنے دیتا۔ اسی طرح اگر کوئی سپاہی یا قانون کا محافظ کسی سے کوئی چیز خریدے اور اس کی قیمت مروجہ نرخ کے مطابق ادا نہ کرے تو اس کا سر بھی پیکر سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ میرے جلاد عوام کو پریشان کرنے کے لئے نہیں، بلکہ سرکاری کارندوں اور قانون کے محافظوں کی خلاف ورزیوں پر ان لوگوں کو سخت سزا دینے کے لئے ہمہ وقت چوکس و آمادہ رہتے ہیں‘‘۔(میں ہوں تیمور)

ابو الخیر خان 

ابو الخیر خان خانہ بدوش ازبک ترک قبائل کا رہنما تھا۔ ابو الخیر خان 1412ء میں پیدا ہوا- ان کے والد کا نام دولت شیخ ابن ابراہیم خان تھا جو شیبان خان کے خاندان سے تھے - شیبان خان دراصل جوجی خان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ تو گویا یہ چنگیز خان کے اہل خانہ سے تعلق رکھتے تھے - شروع میں شیبان خان کے خاندان کے لوگ مغربی سائبیریا میں مقیم تھے اور اس علاقے کا نام شیبانی اردو تھا - شیبانی اردو نے 1282ء میں اسلام قبول کر لیا - بعد ازاں ایک بڑے دھڑے کی تقسیم ہوئی جس کا نام ازبک پڑ گیا اور وہ ماوراء النہر کی طرف ایک نئی زندگی کی تلاش میں نکلے - ابو الخیر خان نے اپنی قوم کی سربراہی 1428ء میں شروع کی- ان کے دور میں وہ علاقے جو کبھی جوجی خان نے اپنے بیٹے شیبان خان کے سپرد کیے تھے، اب چھوٹے چھوٹے حصوں ميں بٹ چکے تھے - ابو الخیر خان نے ان مختلف خانہ بدوش گروپوں کو اپنے ماتحت لا کر اپنی "ازبک" قوم کو مضبوط کیا- ابو الخیر خان کے راستے میں صرف ایک آدمی رکاوٹ کی دیوار بن رہا تھا اور وہ سائبیریا کا خان، قازی محمد خان تھا- قازی محمد خان ایک معارکہ میں مارا گیا، جس کے بعد ابو الخیر خان مغربی سائبیریا کا خان بنا تھا۔ اگلے چار سال پورے خطے میں ان کے کنٹرول کو مضبوط بنانے میں خرچ کیے گئے - ان کا ساتھ مغل قبیلہ منگودائی جسے منگیت بھی کہتے ہیں، کے سردار وقاس بیگ نے دیا- 1430 - 1431 ء میں دونوں نے مل کر خوارزم پر حملہ کیا اور دار الحکومت کہنہ گرگانج پر قابض ہوئے، تاہم 1431ء کے موسم گرما میں شہر اور علاقہ حالی کر دیا - ابو الخیر خان نے 1435-1436ء کو دوبارہ خوارزم پر حملہ کیا- اس طرح کے کیے حملے استراخان پر بھی کیے - 1446ء سے اس نے تیموری سلطنت پر بھی حملے شروع کر دیے - مگر ابو سعید میرزا کی درخواست پر وہ اس کا اتحادی بن گیا اور میرزا عبد اللہ‎ کو 1451ء سمرقند کے اقتدار سے ہٹا کر ابو سعید میرزا نے اسے مار ڈالا- 1465-66 ء میں ایک گروہ قزاق کے دو رہنما جانی بیگ خان اور قرائی خان نے ابو الخیر خان کی بڑھتی ہٹدھرمیوں کی وجہ سے علیحدگی کا اعلان کیا- ابو الخیر خان نے ان کے خلاف کارروائی شروع کی جس کی وجہ سے وہ دونوں مغولستان کے خان ایسین بوقا کی پناہ میں آگئے - وہاں انہیں کوزی باشی کے علاقے میں جگہ دی- یہاں سے انہوں نے جدوجہد جاری رکھی اور خانان قزاق کی بنیاد رکھی- ابو الخیر خان 1468ء کو انتقال کر گیا؛ اگرچہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ 1469 یا 1470 کو انتقال کیا- خان کی وفات کے بعد ان کے پوتے محمد شیبانی خان نے اقتدار سنبھالا اور ازبک قبائل کو مکمل طور پر متحد کرنے میں کامیاب ہوا - بعد ازاں ماوراء النہر کو مستقل طور پر اپنا وطن بنا لیا جہاں آج تک ازبک قوم مقیم ہے-


چنگیز خان کے جانشین اور وسطِ ایشیا کا تیموری تُرک خاندان 

1223ء میں منگولوں نے ترکستان، افغانستان اور شمالی ایران کو فتح کرلیا۔ حتیٰ کہ ہلاکوخان نے 1258ء میں بغداد کو بھی فتح کرکے تباہ وبرباد کردیا لیکن چونکہ مسلمانوں کی تہذیب بہت ترقی یافتہ تھی، اس لیے تاریخ کا یہ عجیب واقع ہوا کہ فاتحین نے مفتوحوں کا مذہب قبول کرلیا، اور یہ پورا علاقہ ایک دفعہ پھر مسلمانوں ہی کے تسلط میں آگیا۔ تیموری سلطنت کا بانی تیمور ایک تُرک قبیلے برلاس سے تعلق رکھتا تھا جو چنگیز خان کے خاندان کی سپہ سالاری کے فرائض انجام دیتا تھا۔ چونکہ تیمور ایک بہت اچھا سپہ سالار تھا، اس لیے اس نے 1366ء میں موجودہ افغانستان کے مقام بلخ میں تخت نشینی کا اعلان کردیا۔ اس کی ساری زندگی اردگرد کے ملکوں کو فتح کرنے میں گزری، جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ اگرچہ ہماری تاریخوں میں تیمور کو ایک ہیرو کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت ظالم اور سفاک حکمران تھا۔ 1398ء میں اس نے دہلی اور میرٹھ کو فتح کرنے کے بعد لاکھوں ہندوؤں کا قتل عام کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ بھی اس کی لڑائیاں رہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے ایک شہر سیورس پر جب اس کا قبضہ ہوگیا تو اس نے چار ہزار قیدی سپاہیوں کو زندہ دفن کردیا۔ یہ سب کے سب مسلمان تھے۔ اصفہان، بغداد اور دمشق میں اس نے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ وہ انتقام کے جوش میں شہر کے شہر ڈھا دیتا تھا۔ خوارزم، بغداد اور سرائے کے ساتھ اس نے یہی کچھ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ خونریزی اور سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان سے کم نہیں تھا۔

ہندوستان کی مسلمان سلطنتیں 

موجود ہ پاکستان اور شمالی بھارت میں سب سے پہلے مسلمان حکومت شہاب الدین غوری نے1206ء میں قائم کی۔ اس کے بعد اس کا غلام قطب الدین ایبک حکمران بنا ۔اس دور کو عام طور پر خاندان غلامان کہا جاتا ہے اور یہ تقریباً ایک سو برس جاری رہا۔ اس کے بعد خاندان تغلق کی حکومت شروع ہوئی جس کا پہلا حکمران غیاث الدین تغلق تھا ۔یہ دور بھی تقریباً ایک سو برس تک جاری رہا۔ اس دور میں فیروز شاہ تغلق جیسا حکمران بھی آیاجس کو مسلمانوں کے انتہائی نیک دل حکمرانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس خاندان کی حکومت کو تیمور نے ختم کیا۔ جب تیمور نے دہلی کو فتح کیا تو یہاں بہت بڑا قتلِ عام کیا اور پورے شہر کی یوں اینٹ سے اینٹ بجا دی کہ یہ عظیم الشان شہر ملبے کے ایک ڈھیر تبدیل ہوگیا۔ معین الدین چشتیؒ ، بابا فرید شکر گنجؒ اور خواجہ نظام الدین اولیاءؒ اسی دور میں گزرے۔ امیر خسرو بھی اس دور سے تعلق رکھتے تھے۔ تیمور کے ہاتھوں خلجی خاندان کی تباہی کے بعد برِ صغیر کئی حصوں میں بٹ گیا اور ہر جگہ مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہوگئیں۔ یہ دور بھی تقریباً ایک سو برس تک رہا۔ اسی دور میں 1498ء میں پرتگال کا مشہور جہاز ران واسکوڈے گاما کالی کٹ کے بندرگاہ پر لنگر انداز ہوگیا اور اگلے دس بارہ برسوں میں پرتگالیوں نے گواکے بندرگاہ سمیت اس ساحلی علاقے پر قبضہ کرلیا۔

دورِ زوال کے آغاز میں برصغیر کی حالت 

اپریل1524ء کو پانی پت کی پہلی لڑائی میں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر برصغیر میں تیموری تُرک یا تُرک یا مغل سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔ بابر ثمرقند کے قریب ایک چھوٹی سی جگہ فرغانہ کا حاکم تھا۔ 1504ء میں اس نے کابل کو فتح کرکے وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کرلی اور اس کے بائیس برس بعد اُس نے ہندوستان کا رُخ کیا۔ اورنگزیب کی وفات 1707)ء )تک یہ سلطنتِ مغلیہ تقریباً ایک سواسی برس سے کچھ زیادہ پورے آب وتاب سے قائم رہی۔ البتہ درمیان میں شیرشاہ سوری اور اس کے بیٹے اسلام شاہ نے پندرہ برس تک دہلی پر حکومت کی۔ بابر نے مسلمانوں سے ہی برصغیر کی حکومتیں چھینی تھیں۔ چونکہ زمین زرخیز تھی اور حکمران بیدار مغز تھے اس لیے عمومی خوش حالی کا دوردورہ رہا۔ تاہم بادشاہت کی تمام خامیاں موجود تھیں۔ اورنگزیب بہت دیانت دار اور رعایا پرور تھا، تاہم اس کی بھی بارہا اپنے بھائیوں سے لڑائیاں ہوئیں جس میں اس نے سب کو شکست دے دی اور داراشکوہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس نے اپنے باپ شاہ جہان کو زندگی کے آخری برسوں میں نظربند رکھا۔ اگرچہ انہوں نے ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کے نام سے اسلامی قانون کا بہت اہم مجموعہ تیار کروایا، تاہم انہوں نے غیر مسلموں میں اسلام کی اشاعت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اپنی وفات پر اورنگزیب نے اپنی حکومت اپنے تین بیٹوں میں تقسیم کردی جن کے درمیان سخت لڑائیاں ہوئیں۔ آخر میں ایک بیٹا بہادر شاہ اول کامیاب ہوا اور اس نے لڑائیوں میں اپنے باقی بھائیوں شہزادہ اعظم اور شہزادہ کام بخش کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اورنگ زیب کے ایک اور بیٹے شہزادہ اکبر نے اپنے باپ کی زندگی میں اس کے خلاف بغاوت کی تھی، مگر ناکامی کی صورت میں ایران فرار ہوگیا تھا۔ عام طور پر اورنگ زیب کی ایک بڑی صفت یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے قرآن مجید کی کتابت کرکے اس کی فروخت سے حاصل شدہ رقم اپنے ذاتی استعمال میں لاتے تھے، حالانکہ یہ وہ دور تھا جب یورپ میں چھاپہ خانے کی ایجاد کو دو ڈھائی سو برس گزر چکے تھے۔ ان دو صدیوں میں انگلستان کے اندر جمہوریت کی بنیادیں پڑ گئی تھیں لیکن برصغیر کے مغل بادشاہوں میں اس کا کوئی تصور تک بھی نہیں تھا۔ جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے، پرتگالی ملاح بابر کی حکومت قائم ہونے سے بھی پچیس برس پہلے ہندوستان میں آئے تھے اور انھوں نے نو آبادی بنالی تھی۔ اُن کے بعد فرانسیسیوں اور انگریزوں نے بھی برصغیر کا رخ کیا۔ اکبر کے زمانے میں 1600ء میں برطانیہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی تشکیل کی گئی۔ 1609ء میں انگریزی سفیر ویلیم ہائنس جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا۔ اس کے بعد انگریزمسلسل اپنی تجارتی کوٹھیاں، قلعے اور فیکٹریاں بناتے رہے لیکن مغل بادشاہوں نے قطعاً یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یورپ میں کیا ہورہا ہے۔ اورنگزیب کی وفات کے تئیس برس بعد ایران کے حکمران نادرشاہ نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی پر بھی حملہ کیا۔ اُس وقت اورنگزیب کا پوتا محمد شاہ رنگیلا یہاں حکمران تھا جو ایک آرام طلب اور عیش پسند انسان تھا۔ نادرشاہ نے دہلی پر قبضہ کرکے لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام کیا اور اُس کے فوجیوں نے سب کچھ لوٹ لیا۔ یہ تباہی پھیلاکر وہ خود بھی کروڑوں کا خزانہ ساتھ لے کر ایران چلا گیا اور اپنے پیچھے ایک برباد شدہ ملک کو چھوڑ گیا۔ 1761ء میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دے کر دہلی کو ان سے چھڑا لیا، لیکن بدقسمتی سے اس نے بھی یہاں اپنی حکومت قائم نہیں کی بلکہ واپس قندہار چلا گیا۔ یوں اس نے میدان انگریزوں کے لیے چھوڑ دیا۔ چنانچہ وہ انگریز جو 1600ء میں یہاں آئے تھے، اپنی تنظیم، منصوبہ بندی اور سائنسی ترقی کی بدولت آہستہ آہستہ ہندوستان میں اپنے پنجے میں پھیلاتے رہے۔ حتیٰ کہ ڈھائی سو برس کی جدوجہد کے بعد پورا ہندوستان 1857ء میں ان کے قبضے میں آگیا۔ مغلیہ دور میں عمارتوں اور باغات کی طرف بہت توجہ دی گئی، لیکن سائنسی ترقی کے اعتبار سے یہ پورا دور مکمل طور پر ناقابل ذکر ہے۔ اس دور کی سب سے بڑی شخصیت مجددالف ثانی ؒ ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی جدوجہد سے اصلاح کا بہت کام سرانجام دیا۔

ترکوں کی سلطنتِ عثمانیہ 

1260ء کے لگ بھگ قسطنطنیہ کے قریب ایک بہادرخانہ بندوش سردار اُرطغرل کی ایک جاگیر تھی۔ 1288ء میں وہ فوت ہوگیا اور اس کے بیٹے عثمان خان نے اپنے جاگیر کو ایک سلطنت قراردے دیا اور بہت جلد اردگرد کے علاقوں کو فتح کردیا۔ اسی سے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد پڑی۔ یہ سلطنت کسی نہ کسی طرح 1923ء تک، یعنی اگلے تقریباً ساڑھے چھ سو برس جاری رہی۔ درمیان میں اس سلطنت پر آزمائش کے بھی بڑے دور آئے۔ اس کے ابتدائی کئی حکمران انتظامِ سلطنت کے لحاظ سے بڑے باصلاحیت تھے، لیکن اسلام کے حوالے سے ان کو کوئی مقام نہیں دیا جاسکتا۔ اس دور کاسب سے بڑا حکمران محمد فاتح تھا۔ اس نے باقاعدہ یہ قانون بنایا کہ جب کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو وہ اپنے بھائیوں کو قتل کردے تاکہ لڑائیاں نہ ہوں۔ اس دور کے ابتدائی دوسو برسوں میں عثمانی حکمرانوں نے یورپ پر بہت سے حملے کیے اور البانیہ، بلغاریہ، یونان، سربیا، بوسنیا، کوسوو، کریمیااور اٹلی کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ ان میں سے کچھ علاقے درمیان میں ہاتھ سے نکلتے رہے اور دوسری طرف مسلمان ریاستوں سے بھی لڑائیاں جاری رہیں۔ عثمانی سلطنت اپنے وقت کی ایک بہت بڑی ریاست تھی۔ 1512ء میں سلطنت عثمانیہ میں سلیم اول حکمران ہوا۔ اُس نے اپنی فتوحات کا رُخ مشرق کی طرف کرلیا اور ساری زندگی مسلمان حکومتوں کو فتح کرتا رہا۔ 1517ء میں سلیم اول نے مصر اورحجاز پر بھی قبضہ کرلیا اور وہاں سے واپسی پر وہ عباسی خلیفہ متوکل سوم کو اپنے ساتھ استنبول لے گیا۔ وہاں متوکل ایک تقریب کے دوران میں سلیم اول کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگیا۔ اس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کو خلافت عثمانیہ کا نام دیا گیا۔ اگلے دوسو برسوں میں یہ سلطنت پورے آب وتاب سے جاری رہی، حتیٰ کہ 1699ء میں معاہدہ کارلووٹز کے تحت یورپ میں ترکوں کی پیش قدمی رک گئی۔ اس دور میں 1737ء میں استنبول میں پہلا چھاپہ خانہ قائم ہوا۔ یہ اسلامی دنیا کا پہلا چھاپہ خانہ تھا، لیکن مفتی اعظم نے اس شرط پر اس کو قائم کرنے کی اجازت دی کہ اس میں قرآن مجید اور دینی کتابوں کو شائع نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ مفتی صاحب کے خیال میں چھاپہ خانہ بنیادی طور پر ایک شیطانی مشین کی حیثیت رکھتا تھا۔ سلطان عبدالحمید اول کے زمانے میں 16جولائی 1774ء کو ترکی کو معاہدہ کوچک کناری پر مجبور ہونا پڑا۔ اس معاہدے کی رو سے کریمیا کو ایک آزاد مملکت قرار دیا گیا اور روس کو یہ حق دیا گیا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کی عیسائی رعایا کی حقوق کی حمایت کرسکتا ہے۔ گویا اس معاہدے کے ذریعے روس کو سلطنت عثمانیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق مل گیا۔ چنانچہ اس معاہدے کے آخری نتیجے کے طور پر اگلی صدی میں ترکی کو اپنے تمام مقبوضات سے دستبردار ہونا پڑا۔

سلطنت عثمانیہ ، اپنے خاتمے تک 

اس مکمل دورِ زوال کو سلطنت عثمانیہ کے حکمران سلطان سلیم ثالث نے روکنے کی بہت کوشش کی۔اس نے تعلیم اور جدید سائنسی علوم کی طرف توجہ دی ۔ اس نے جنگی فنون سے متعلق یورپی کتابوں کا ترکی زبان میں ترجمہ بھی کیا اور فرانسیسی انجنئیروں کی مدد سے توپ ڈھالنے کے جدید طرز کے کارخانے بھی قائم کیے۔ سلطان سلیم نے جاگیرداری نظام کو بھی ختم کردیا۔ ایک ایسے اہم وقت میں ترکی کے صوفیوں اور علماء نے مذہب کے نام پر ان سب اصلاحات کی مخالفت کی۔ انہوں نے یورپی طرز پر فوج کی تنظیم کو بے دینی سے تعبیرکیا، جدید فوجی وردیوں کے متعلق فتویٰ دیا کہ یہ دراصل نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ انھوں نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ کافروں کے ایجاد کردہ اسلحے کو استعمال کرنا گناہ ہے۔ چنانچہ سلطان سلیم کے خلاف یہ کہہ کر نفرت پھیلائی گئی کہ وہ کفار کے طریقے رائج کرکے اسلام کو خراب کررہا ہے۔ بالآخر شیخ الاسلام کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے 1807ء میں سلطان سلیم کو معزول کرکے قتل کردیا گیا۔ اس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ نے زوال کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ یہ سلطنت بہت پہلے ختم ہوجاتی، لیکن چونکہ اس سلطنت کے مستقبل کے متعلق بڑی طاقتوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوا اس لیے یہ سلطنت قائم رہی۔ 1876ء میں سلطان عبدالحمید خان نے عوامی دباؤ پر ایک جمہوری دستور کا اعلان کیا اور دوایوانوں پر مشتمل پارلیمنٹ قائم کی گئی جس کا افتتاح مارچ1877ء میں ہوا۔ مسلم دنیا میں مغربی انداز کی یہ پہلی پارلیمنٹ تھی۔ لیکن چند ہی مہینے بعد جنوری1878ء میں سلطان نے دستور کو معطل کردیا، پارلیمنٹ برخواست کردی ، اہم ترین سیاسی رہنما مدحت پاشا کو گرفتار کرلیااور چند برس بعد اس کو قید خانے میں قتل کردیا گیا۔ اس کے بعد سلطان نے اپنے سیاسی مخالفین کچلنے کے لیے ہر طرح کی سختیاں کیں، ہزاروں لوگوں کو قید میں ڈال دیا اور بے شمار لوگوں کو دوردراز کے علاقوں میں جلاوطن کردیا۔ اس نے ایک زبردست جاسوسی نظام بھی قائم کیا اور سب اختیارات پرکڑی نگرانی قائم کردی۔ تاہم عوامی بے چینی بڑھتی رہی۔ فوج میں بھی بے چینی اتنی بڑھی کہ فوج نے بھی دستور کی بحالی کا مطالبہ کردیا۔ چنانچہ تیس برس بعدیعنی جولائی 1908ء میں سلطان نے مجبوراً دستور کو بحال کردیا۔ مذہبی طبقہ دستور اور جمہوریت کے بالکل خلاف تھا، چنانچہ اپریل1909ء میں مذہبی گروہوں نے کچھ فوجی دستوں کو ساتھ ملاکر نئی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کردی اور شریعت کی حکمرانی کا مطالبہ کرلیا۔ فوج نے جلد ہی اس بغاوت پر قابوپالیا۔ چونکہ سلطان عبدالحمید اس بغاوت کی پشت پر تھا، اس لیے اسے معزول کرکے اس کے بھائی رشاد کو نیا خلیفہ اور بادشاہ مقرر کردیا گیا۔ جب 1914ء میں جنگ عظیم اول شروع ہوگئی تو اس میں سلطنتِ عثمانیہ جرمنی کی حلیف بن گئی۔ حالانکہ سلطنت عثمانیہ کے لیے صحیح حکمت عملی یہ تھی کہ وہ اس جنگ میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہتی۔ جرمنی کے شکست کھانے کے بعد ترکوں کو بھی ہتھیار ڈالنے پڑے اور اتحادی فوجیوں نے سلطنت کے دارالحکومت استنبول پر قبضہ کرلیا۔ اس دوران میں مصطفی کمال اتاترک نے آزادی کی جنگ شروع کردی اور بالآخر1922ء میں اس نے اصل ترکی کو دشمنوں سے آزاد کرلیا۔ مارچ 1924ء میں بادشاہت اور خلافت کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ یوں عثمانی سلطنت 625سال قائم رہنے کے بعد ختم ہوگئی۔ ایک بڑے عرصے سے سارا عالمِ عرب، عثمانی سلطنت کے تحت تھا اور عثمانیوں نے کافی سختی کے ساتھ عربوں کو دبایا ہوا تھا۔ اُس وقت عرب اپنے آپ کو سلطنتِ عثمانیہ کا غلام سمجھتے تھے۔ اس دوران میں آزادی حاصل کرنے کے لیے کئی بغاوتیں ہوئیں، تاہم عثمانی حکمرانوں نے ان بغاوتوں کو بڑی سختی سے کچل دیا۔ پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں نے عربوں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ان کا ساتھ دیں تو جنگ کے خاتمے کے بعد سب عرب ممالک کو سلطنتِ عثمانیہ کے پنجے سے آزاد کردیا جائے گا۔ چنانچہ پہلی جنگ عظیم میں سب عربوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اس طرح وہ عرب ممالک وجود میں آئے جن کو آج ہم دنیا کے نقشے پر دیکھتے ہیں۔ اس دور میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو ایک طرف سچے مسلمان تھے اور دوسری طرف آزادی اور جمہوریت کے علمبردار تھے۔ ان متوازن فکر کے حامل لوگوں میں نامق کمال اور سعید حلیم پاشا کے نام بہت اہم ہیں۔ اسی طرح احمد رسمی اور محمد متوفی نے بھی اس زمانے میں بہت متوازن خیالات کا اظہار کیا۔ ان سب نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ایک طرف اسلامی تعلیمات کو بھی پوری طرح اختیار کرنا چاہیے اور دوسری طرف ہمیں جمہوریت، آزادی اور جدید علوم کی طرف بھی بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ بعض نو مسلموں نے بھی اس کام میں پورا حصہ لیا۔ مثلاً مسلمان دنیا میں جس شخص نے 1739ء میں پہلا چھاپہ خانہ لگایا، وہ ہنگری کا ایک نو مسلم ابراہیم متفرقہ تھا۔ اس نے ایک بہت اہم کتاب لکھی جس میں اس نے عثمانی سلطنت کے سیاسی اور فوجی نظام کو یورپ کے نمونے پر ڈھالنے کی سفارش کی۔ اُس زمانے میں مسلم دنیا میں ایسے اور لوگ بھی منظر عام پر آئے جنہوں نے یورپ کی ترقی کے اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ ان میں تیونس کے خیرالدین پاشا اور مصر کے جناب رافع طہطاوی بہت قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں اسلامی علوم سے بھی باخبر تھے اور انہوں نے یورپ کا بھی قریب سے مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ایسے اہل علم کی ضرورت ہے جو ایک طرف جدید علوم اور جدید مسائل سے واقف ہوں اور دوسری طرف دینی علوم پر بھی ان کی نظر ہو۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مسلمان ممالک میں ملوکیت اور استبدادی نظام کی جگہ جمہوری حکومت کو لینی چاہیے جو قانون اور دستور کی پابند ہو۔ انھوں نے یورپ سے ان تمام علوم اور فنون کو حاصل کرنے کی حمایت کی جو اسلام سے مطابقت رکھتے ہیں۔اس زمانے میں مصر پر فرانس کا قبضہ تھا، چنانچہ طہطاوی نے ایک طرف فرانسیسی استعمار کی ڈٹ کر مخالفت کی مگر دوسری طرف فرانسیسیوں کی صداقت، انصاف،کردار اور محنت کی بھی خوب تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ اسلامی حدود کی پابندی میں رہ کر مغربی تہذیب کی اچھی چیزوں کو اپنانے میں کوئی ہرج نہیں۔انھوں نے مغربی لبرل ازم کے بارے میں کہا کہ یہ وہی چیز ہے جیسے اسلام میں عدل وانصاف کہا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایک آئینی اور نمائندہ حکومت ہی دراصل ایک شورائی حکومت ہوتی ہے۔تیونس کے خیر الدین پاشا نے ایک اہم کتاب ’’اقوم الممالک فی معرفۃ احوال الممالک‘‘۔ لکھی۔ اس کتاب میں خیرالدین پاشا نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ حکمت مومن کا گم شدہ مال ہے اس لیے یورپ میں ہمیں جو چیز اچھی اور مفید نظر آئے اسے قبول کرنا چاہیے اور جو ناپسندیدہ ہو وہ رد کردینی چاہیے۔ انھوں نے اس کتاب میں ایک اور پتے کی بات یہ لکھی ہے کہ مسلمانوں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ وہ دوایسے گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ ایک گروہ علمائے دین کا ہے جو شریعت سے واقف ہیں لیکن دنیا سے ناواقف اور دوسرا گروہ سیاست دانوں کا ہے جو دنیا سے واقف ہیں لیکن دین سے واقف نہیں اور چاہتا ہے کہ یورپ کا نظام پورے کا پورا دین کی طرف رجوع کیے بغیر مسلمانوں پر تھوپ دیں۔ خیرالدین پاشا لکھتے ہیں کہ ان دونوں گروہوں کا یہ فرق دور ہونا چاہیے۔ علماء کو دنیا سے واقفیت پیدا کرنا چاہیے اور سیاست دانوں کو دین سے واقف ہونا چاہیے۔ خیرالدین پاشا کے یہ خیالات تقریباً وہی تھے جو ترکی میں ان کے ہمعصر نامق کمال اور تنظیمات کے بعض رہنماؤں کے تھے۔ اسی دور کا ایک اہم نام ضیاگوک الف ہے۔ اگرچہ ایک طرف وہ سیکولرزم کے حامی تھے لیکن دوسری طرف وہ خلافت کے ادارے کے بھی حامی تھے، وہ ترکی زبان سے عربی اور فارسی الفاظ نکالنے کے حق میں نہیں تھے اور مسلمان طلبہ کے لیے دینی تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے۔ تاہم اس دور کے عظیم ترین صاحبِ علم جمال الدین افغانی تھے ، جو 1839ء میں افغانستان میں پیدا ہوئے اور وہاں وزارت کے منصب پر فائز رہے۔ جمال الدین افغانی مغربی استعمار کے بہت سخت خلاف تھے۔ وہ اتحادِ اسلامی کے بڑے داعی تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جمہوریت پر پختہ یقین رکھتے تھے،وہ جدید دنیا کے اجتماعی مسائل کو قدیم اور جدید اندازِ فکر کو ملاکر حل کرنا چاہتے تھے۔ وہ یورپ سے ہر اُس چیز کو حاصل کرنے کے حق میں تھے جو اسلام سے متضاد نہ ہو۔ 1870ء میں جب وہ ترکی پہنچے تو وہاں کے علماء اور صوفیوں نے ان پر کفر کا فتویٰ لگادیا اور ان کو ترکی چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ۔اس کے بعد وہ مصر، ہندوستان، ایران، روس اور برطانیہ بھی گئے۔ ہر جگہ سے ان کو جلاوطن کیا گیااس لیے کہ اُس وقت کی مسلمان دنیا اُن کے افکار ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جس جگہ حکمران جمہوریت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں، علماء تقلید، ذہنی جمود، تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہوں اور اہل تصوف لوگوں کو مابعدالطبعاتی مسائل میں مسلسل لوگوں کو الجھانے کے درپے ہوں، وہاں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔

یونس ایمرے 

ترکوں کے مقبول شاعر یونس ایمرےکا اچانک ذکر آگیا۔خاتون نے اناطولیہ کے اس درویش، صوفی اور خداداد صلاحیتوں کے حامل شاعر کا ذکرجس محبت اور شوق سے کیا اُس نے آتش شوق کو گویا بھڑکا سا دیا۔انہوںنے ان کی عوامی اور وحدت میں ڈوبی ہوئی شاعری کے چند ٹکڑے سُنائے اور ایک دلچسپ واقعہ بھی۔زمانہ تو مولانا جلال الدین رومیؒ کا ہی تھا۔کہتے بھی انہیں رومی ثانی ہے، مگر دونوں عظیم شاعروں میں فرق ذریعہ اظہار کا تھا۔مولانا رومی کا کلام اُس وقت ترکی کی شہری اشرافیہ کی مروجہ ادبی زبان فارسی میں ہونے کی و جہ سے خاص الخاص تھا جبکہ یونس ایمرے کے ہاں ذریعہ اظہار اُن کی عام لوگوں کی، یعنی دیہی علاقوں میں بولی جانے والی ترکی زبان میں ہی تھا۔زبان سادہ ،مفہوم واضح، تشبہات، استعارے عام فہم اور زبان زد عام ہونے والے کلام میں غنائیت اور نغمگی کا بہائو اس درجہ تھا کہ صوفیاء کی محفلوں میں جب گایا جاتا تھا، تو لوگ و جد میں آجاتے تھے۔ یونس ایمرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت شریں گفتار اور لحن دائودی کا سا کمال رکھتے تھے۔کبھی اگر دریا کے کنارے قرأت سے قرآن پاک پڑھتے تو بہتا پانی رک جاتا تھا۔ بہت دلچسپ ایک واقعہ بھی سُن لیجیے، یونس اُمرے کے قونیہ سفر کے دوران کہیں مولانا رومیؒ سے ملاقات ہوئی تو مولانا نے اُن سے اپنی مثنوی کے بارے میں دریافت کیا۔یونس ایمرے نے کہا ’’بہت خوبصورت ،بہت عظیم ،بہت اعلیٰ شاہکار ۔میں مگر اسے ذرا مختلف طریقے سے لکھتا ۔‘‘مولانا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا’’بتائو ذرا کیسے۔‘‘یونس بولے ’’میں آسمان سے زمین پر آیا ۔گوشت پوست کا لباس پہنا اور خود کو یُونس ایمرے کا نام دیا۔‘‘ ترکی کے اس مقبول اور اہم ترین شاعر کا زمانہ لگ بھگ1238ء تا 1320 ء کا ہے۔مقام پیدائش صاری کوئے نامی گائوں میں ہوئی۔اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔مولانا رومی شمس تبریزؒ سے متاثر تھے۔ایسے ہی یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے کے قدموں میں گزار دئیے۔اُن کی زیر نگرانی انہوںنے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی،گیت،نظمیں ،غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔ذرا دیکھئے کلام کی سادگی اور حُسن۔ ایک لفظ ہی چہرے کو روشن بنا سکتا ہے اُس شخص کیلئے جو لفظوں کی قدرو منزلت جانتا ہے جان لو کہ لفظ کب بولنا ہے اور کب نہیں ایک اکیلا لفظ دنیا کی دوزخ کو آٹھ بہشتوں میں بدل سکتا ہے یونس ایمرے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو زندگی محبت و پیار کے اصولوں پر گزارنی چاہیے۔ان کی فلاسفی میں اُونچ نیچ او ر تفریق کہیں نہیں۔یہ صرف انسانوں کے اعمال ہیںجو انہیں اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔زندگی عفو ودرگزر ،حلیمی اور رواداری جیسے جذبات کے تابع ہونی چاہیے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ خدا تک پہنچنے اور بخشش کا راستہ اکابرین دین،مختلف مذہبی اور مسلکی فرقوں کے اماموں کے ذریعے نہیں بلکہ یہ انسان دوستی اور احترام انسانیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہر مذہب اور ہر مذہبی فرقے کا دوسرے کو جہنمی کہنا اور سمجھنا بہت غلط ہے۔دنیا کا ہر مذہب انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے۔ان مذاہب اور انسانوں کے احترام سے خدا سے سچا عشق پیدا ہوتا ہے۔ان کا یہ کہنا کتنا خوبصورت ہے۔دین حق سر میں ہے سر پر رکھی جانے والی پگڑیوںاور دستاروںمیں نہیں۔یونس ایمرے عشق حقیقی کے پرستار اور اسیر تھے۔شاعری میں صوفیانہ علم، عجزو انکسار اور انسانیت کا بے پناہ جذبہ نظرآتا ہے۔ یونس ایمرے ترکوں میں بہت ہر دل عزیز ہیں۔دراصل اُن کی شاعری ترکوں کے قومی مزاج کی خوبصورت عکاس ہے۔ترک قوم کی دلیری اور خودداری کا اظہار ہے۔یہی و جہ ہے کہ ان کے اشعار خاص و عام کی زبانوں پر ہیں۔بیرونی دنیا میں اب ان پہچان ہورہی ہے۔ اس کی و جہ دراصل اُن کا کلام اپنی مادری ترکی زبان میں ہے۔ان کے ہم عصر مولانا رومیؒ کا کلام فارسی میں ہونے کی و جہ سے وہ برصغیر اور وسط ایشیا کی ریاستوں میں بہت زیادہ ہر دل عزیز ہیں،تاہم اب انگریزی ترجمے کی و جہ سے یونس ایمرے کے قارئین ان کی خداداد صلاحیتوں سے آگاہ ہورہے ہیں۔اُن کے فن اور کلام کی سادگی، برجستگی اور فلسفے سے واقف ہو رہے ہیں۔ ہم بھی شکر گزار ہوئے کہ انہوںنے ہمیں وقت دیا اور ہمیں ایک عظیم ہستی سے ملوایا۔