جھوٹھے نبی
اسود عنسی
سودھواس کذاب کا تعلق یمن سے تھا۔ یہ خاتم الانبیاء سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ میں دعویٰ نبوت کرنے والا پہلا شخص تھا۔ اسود عنسی شعبدہ بازی اور کہانت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا چونکہ اس زمانے میں یہ دو چیزیں کسی کے باکمال ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس کی معتقد بن گئی۔ اسود عنسی کو ذوالحمار کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا، تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اس کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا یہ جب اس کو کہتا خدا کو سجدہ کرو تو وہ فوراً سربسجود ہوجاتا، اسی طرح جب بیٹھنے کو کہتا بیٹھ جاتا اور اور کھڑے ہونے کو کہتا کھڑا ہوجاتا، نجران کے لوگوں کوجب اس کے دعویٰ نبوت کا علم ہوا تو انہوں نے اسے امتحان کی غرض سے اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس نے وہاں بھی اپنی شعبدے بازی دکھائی، لوگوں کو متاثر کیا اور چکنی چپڑی باتوں سے اہل نجران کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنالیا اور آہستہ آہستہ اس نے اپنی طاقت بڑھانا شروع کردی۔ سب سے پہلے اس نے نجران پر ہی فوج کشی کرکے عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو وہاں سے بیدخل کیا اور پھر بتدریج پورے یمن پر قبضہ کرلیا۔ عمرو بن حزم اور خالد بن سعید نے مدینہ منورہ پہنچ کر سارا قصہ حضور نبی کریم ﷺ کے گوش گزار کیا جس پر آپ ﷺ نے یمن کے بعض سرداروں اور اہل نجران کو اسود کے خلاف جہاد کا حکم نامہ تحریر فرمایا اور یوں یہ لوگ باہم ربط اسود کے خلاف متحد ہوگئے۔
اسود عنسی کا قتل
سودھواسود عنسی نے صنعا پر قبضے کے بعد اس شہر کے مسلمان حاکم شیر بن باذان کی بیوی آزاد کو اپنے گھر میں قید کرلیا لیکن وہ اس سے سخت نفرت کرتی تھیں۔ ادھر آزاد کے چچا ذاد بھائی فیروز کو اس کا سخت رنج ہوا اور وہ آزاد کو اسود سے نجات دلانے اور انتقام لینے کے لیے مواقع ڈھونڈنے لگا۔ جب آپ ﷺ کا حکم نامہ ملا تو یمن کے مسلمان اسود کے خلاف لشکر کشی کے بجائے گھر میں گھس کر اسود عنسی کذاب کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ اسی دوران فیروز اپنی تایا زاد بہن آزاد سے ملا اور اس کو اسود عنسی کے قتل کرنے میں مدد کے لیے آمادہ کرلیا۔ آزاد کی مدد سے فیروز اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوا اور کذاب اسود کے کمرے میں گھس کر اس کی گردن توڑ کر مار ڈالا۔ اسود عنسی کے گلے سے خرخر کی آواز سن کر پہرے دار آگے بڑھے مگر آزادنے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ خبردار آگے مت جانا تمہارے نبی پر وحی کا نزول ہورہا ہے۔ فیروز نے محل سے باہر نکل کر اس کذاب کی موت کی خبر سنائی تو سب پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اسود کے قتل کے بعد جب مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا تو اسود کے پیروکار صنعا اور نجران کے درمیان صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی کی نذر ہوگئے اور یوں یمن ونجران ارتداد کے وجود سے پاک ہوگیا اور آپ ﷺ کے احکامات دوبارہ بحال کردیے گئے۔ اسود عنسی پہلا کذاب تھا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم پر آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنے انجام کو پہنچا۔
مسیلمہ کذاب یمامہ
سودھویہ شخص کذاب یمامہ کے لقب سے بھی مشہور ہے اس کی خود ساختہ نبوت کا فتنہ کافی عرصے تک رہا جس کو بڑے بڑے صحابہؓ نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا جس وقت اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اس کی عمر 100سال سے بھی زیادہ ہوچکی تھی۔
دربار نبوی ﷺ میں مسیلمہ کی حاضری
سودھومسیلمہ نے دربار نبویﷺ میں حاضر ہوکر آپ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جانشین مقرر فرمائیں، اس وقت آپ ﷺ کے سامنے کھجور کی ٹہنی پڑی تھی آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا! اے مسیلمہ اگر تم امرخلافت میں مجھ سے یہ شاخ خرما بھی مانگو تو میں دینے کو تیار نہیں۔ یہ جواب سن کر وہ مایوس لوٹ گیا۔
دعویٰ نبوت کا آغاز
سودھوجب آپ ﷺ کے دربار سے مایوس مسیلمہ کذاب یمامہ واپس لوٹا تو اس نے اہل یمامہ کو جھوٹی یقین دہانی کرائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی نبوت میں شریک کرلیا ہے اور اپنی من گھڑت وحی اور الہام سنا سناکر کئی لوگوں کو اپنا ہم نوا اور معتقد بنالیا۔ جب آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کے ہی قبیلے کے ایک بااثر شخص ’’نہار‘‘ کو یمامہ روانہ کیا تاکہ وہ مسیلمہ کو سمجھا بجھاکر راہ راست پر لے آئے مگر یہ شخص بھی یمامہ پہنچ کر مسیلمہ کذاب کا معتقد بن گیا اور لوگوں کے سامنے اس کے شریک نبوت ہونے کی جھوٹی تصدیق کرنے لگا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کذاب کا حلقہ بڑھنے لگا۔ اپنے ہم نواؤں کی کثرت دیکھ کر مسیلمہ کذاب نے اپنے دماغ میں یہ بات پختہ کرلی کہ واقعی وہ حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت میں شریک ہے۔
حضرت سید المرسلین ﷺ کے نام مسیلمہ کا مکتوب
سودھوچنانچہ مسیلمہ کذاب نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ ’’مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام معلوم ہو کہ میں امر نبوت میں آپ کا شریک کار ہوں۔ عرب کی سرزمین نصف آپ کی ہے اور نصف میری لیکن قریش کی قوم زیادتی اور ناانصافی کررہی ہے‘‘۔
یہ خط دو قاصدوں کے ہاتھ جب حضور نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچایا گیا تو آپ ﷺ نے ان قاصدوں سے پوچھا تمہارا مسیلمہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی وہ ہی کہتے ہیں جو ہمارا سچا نبی کہتا ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کرادیتا‘‘۔خاتم المرسلین سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب میں مسیلمہ کو لکھا۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ منجانب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بنام مسیلمہ کذاب۔ سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد معلوم ہو کہ زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنادیتا ہے اور عاقبت کی کامیابی متقیوں کے لیے ہے‘‘۔ آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا مگر آپ ﷺ کے وصال پاتے ہی مسیلمہ کذاب نے لوگوں کو اپنے دین اور جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک ایسے عامیانہ اور رندانہ مسلک کی بنیاد ڈالی جو عین انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق تھا، چنانچہ اس نے شراب حلال کردی، زنا کو مباح کردیا، نکاح بغیر گواہوں کے جائز کردیا، ختنہ کرنا حرام قرار پایا، ماہ رمضان کے روزے اڑادیے، فجر اور عشاء کی نماز معاف کردی، قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں، سنتیں ختم صرف فرض نماز پڑھی جائے۔ان کے علاوہ اور بہت سی خرافات اس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں جاری کیں چونکہ یہ سب باتیں انسانی نفس امارہ کے عین مطابق تھیں اس لیے کم عقل لوگ اس پر ایمان لانے لگے اس کا اثر یہ ہوا ہر طرف فواحشات اور عیش کوشی کے شرارے بلند ہونے لگے اور پورا علاقہ فسق وفجور کا گہوارہ بن گیا ۔ جھوٹے نبی کے معجزات وکمالات
- ایک مرتبہ ایک شخص کے باغات کی شادابی کی دعا کی تو درخت بالکل سوکھ گئے۔*کنوؤں کا پانی بڑھانے کے لیے حضور علیہ التحیتہ والسلام کی طرح مسیلمہ نے اپنا آب دہن ڈالا تو کنویں کا پانی اور نیچے چلاگیا اور کنواں سوکھ گیا ۔*بچوں کے سر پر برکت کے لیے ہاتھ پھیرا تو بچے گنجے ہوگئے۔*ایک آشوب چشم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل اندھا ہوگیا۔*بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا سارا دودھ خشک ہوگیا اور تھن سکڑ گئے۔
مسیلمہ کذاب کی پذیرائی کو دیکھ کر دوسرے مزید بدباطن لوگوں کو بھی دعویٰ نبوت کی جرأت ہوئی جس میں طلیحہ اسدی بھی تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فراست ایمانی سے آغاز خلافت ہی میں ان تمام ہنگاموں کی قوت کا پورا اندازہ لگالیا تھا۔ چنانچہ منصب خلافت سنبھالتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تقرر طلیحہ مدعی نبوت کے مقابلے میں کیا اور ساتھ ہی طلیحہ اسدی کے قبیلے سے حضرت عدی بن حاتمؓ کو بھی روانہ کیاکہ ان کو سمجھاکر تباہی سے بچائیں۔ انہوں نے اپنے قبیلے کو بہت سمجھایا جس کے نتیجے میں قبیلہ طئے اور قبیلہ جدیلہ نے خلیفہ اسلام کی اطاعت قبول کرلی۔طلیحہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے مقابلے میں شکست کے بعد شام کی طرف بھاگ گیا جہاں کچھ عرصہ بعد دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام فتنوں کی سرکوبی کے لیے مجموعی طور پر گیارہ لشکر ترتیب دیئے تھے، اس میں ایک دستہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل کی قیادت میں مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے یمامہ کی طرف روانہ کیا اورہدایت کی کہ حضرت شرجیل رضی اللہ عنہ بن حسنہ کی آمد سے پہلے حملہ نہ کرنا لیکن انہوں نے جوش جہاد میں حملہ کردیا اور شکست کھائی جب اس شکست کی خبر خلیفہ اول کو ملی تو حضرت خالد بن ولیدؓ کو (جو کہ بنی طئے کی مہم سے فارغ ہوچکے تھے) مسیلمہ کے خلاف معرکہ آراء ہونے کا حکم دیا جس میں مہاجرین پر حضرت ابو حذیفہؓ اور حضرت زید بن خطاب رضی الہ عنہ (فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بھائی) اور انصار پر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا۔ جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ یمامہ پہنچے تو مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ مسلمانوں کا لشکر 13ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ مسیلمہ کذاب نے جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقربانا نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اسی میدان میں حق وباطل کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے جن میں ثابت بن قیس، حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ شامل ہیں۔
مسیلمہ اس جنگ کے دوران ایک باغ میں قلعہ بند چھپا رہا مگر لشکر اسلام نے قلعے کا دروازہ توڑ کر حملہ کردیا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان ہوچکے تھے اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مسیلمہ زمین پر گرکر تڑپنے لگا۔ قریب ہی ایک انصاری صحابیؓ کھڑے تھے، انہوں نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جاگرا اور یوں دوسرا جھوٹا نبی بھی نشان عبرت بن گیا۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ جنگ (یمامہ) جھوٹے ’’مدعیان نبوت‘‘ کے خلاف آخری معرکہ تھا جس کے بعد دور صدیقی رضی اللہ عنہ میں کسی اور شخص کو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔
سجاح بنت حارث
یہ عورت اپنے زمانے کی مشہور کاہنہ تھی۔ نہایت فصیحہ وبلیغہ اور بلند حوصلہ عورت تھی۔ مذہباً عیسائی تھی، سجاح کو اپنی فطرت اور باکمال خوبیوں پر بہت ناز تھا۔ ایک دن اس نے سوچا مسیلمہ کذاب جیسا 100سالہ بوڑھا نبوت کا دعویٰ کرکے بااقتدار بن گیا ہے تو مجھے بھی اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جیسے ہی اس نے سید المرسلین ﷺ کے وصال کی خبر سنی تو دعویٰ نبوت کردیا چونکہ جناتی طاقت اور تحریر وتقریر کے فن پر اس کو عبور حاصل تھا۔ لہٰذا اس نے بہت جلد بنی تغلب اور بنی تمیم کے بڑے بڑے سرداروں کو اپنا ہم نوا بنالیا، مالک بن ہبیرہ، حنف بن قیس اور حارث بن بدر جیسے سردار بھی سجاح کی سحر بیانی سے مرعوب ہوکر مرتد ہوگئے۔
جب سجاح کی طاقت بڑھ گئی تو اس نے ایک رات تمام معتقدین سرداروں کو بلاکر یمن پر حملے کی تیاری کا حکم دیا، جب سجاح کا لشکر یمن کی طرف روانہ ہوا جہاں مسیلمہ کذاب پہلے سے اپنی جھوٹی نبوت کی دکان کھولے بیٹھا تھا تو اسی دوران حضرت صدیق اکبرؓ نے ایک لشکر سجاح بنت حارث کی سرکوبی کے لیے بھی روانہ کردیا تھا۔ لشکر اسلام کچھ فاصلہ آگے بڑھا تھا کہ معلوم ہوا کہ نبوت کے دو جھوٹے دعویداروں کے درمیان تصادم ہونے جارہا ہے تولشکر اسلام وہیں رک گیا۔ ادھر مسیلمہ کذاب کو جب سجاح کے حملے کی خبر ملی تو وہ سخت پریشان ہوا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ سجاح بہت ہوشیار اور حوصلہ مند عورت ہے۔ اس لیے اس نے کمال مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی قیمتی تحائف کے ساتھ راستے میں ہی سجاح بنت حارث سے ملاقات کی اور اسے اپنے جال میں پھانس لیا اور دونوں نے 3دن تک مسیلمہ کذاب کے خیمے میں اپنی اپنی نبوت پر بحث ومباحث کے دوران داد وعیش کے دور گزارنے کے بعد نکاح کرلیا۔ جب 3روز بعد سجاح نے اپنے معتقدین کو مسیلمہ کذاب کے نبی برحق ہونے اور نکاح کی خبر سنائی تو بڑے بڑے سردار اس سے ناراض ہوکر الگ ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سجاح بنت حارث اکیلی رہ گئی اور خاموشی سے اپنے نانہالی قبیلے بنی تغلب میں زندگی گزارنی شروع کردی، جب حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے بنی تغلب کو بصرہ میں آباد کرلیا، سجاح بن حارث بھی ان کے ساتھ یہاں آباد ہوگئی اور توبہ استغفار کرکے دوبارہ مسلمان ہوگئیں ۔ انتہائی دینداری، پرہیز گاری اور ایمانی کیفیت میں ان کا انتقال ہوا، بصرہ کے حاکم اور صحابی رسولﷺ سمرہ بن جندبؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
حارث کذاب دمشقی
جو شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کرلے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہوجاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہوسکتے، ایسے لوگ اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہتے ہیں۔ حارث کذاب بھی اپنی ریاضت ومجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسے افعال کرتا تھا، مثلاً یہ لوگوں کو کہتا کہ آؤ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو جاتے ہوئے دکھاؤں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ نہایت حسین وجمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جارہے ہیں۔ یہ لوگوں کو موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں میں موسم سرما کے پھل کھلاتا۔ اس کے گمراہ کن افعال اور شعبدوں کی شہرت آس پاس پھیل گئی اور اس بدبخت نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ خلق خدا کو گمراہ ہوتے دیکھ کر ایک دمشقی رئیس قاسم بن بخیرہ اس کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ تم کس چیز کے دعویدار ہو، حارث بولا میں اللہ کا نبی ہوں۔ اس پر قاسم نے کہا اے دشمن خدا تو بالکل جھوٹا ہے۔ حضرت خاتم المرسلینؐ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ یہ کہہ کر قاسم سیدھا خلیفہ وقت عبدالمالک بن مروان کے پاس گئے اور سارا ماجرا سنادیا۔
عبدالمالک نے حارث کو گرفتار کرکے دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس دوران وہ بیت المقدس کی جانب فرار ہوچکا تھا اور وہاں پہنچ کر اس نے اعلانیہ اپنی جھوٹی نبوت کا آغاز کردیا۔ بصرہ کے ایک شخص نے اس سے ملاقات کی اور بہت دیر تک تبادلہ خیال کے بعدسمجھ گئے کہ یہ جھوٹا نبی ہے۔ تاہم اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اس کا اعتماد حاصل کیا اور کچھ عرصے بعد خلیفہ کے دربار میں پہنچ کر سارا قصہ بیان کرنے کے بعد حارث کی گرفتاری کے لیے 20سپاہی لے کر پھر بیت المقدس پہنچ گئے اور موقع ملتے ہی حارث کو زنجیروں میں باندھ لیا۔ بیت المقدس سے بصرہ تک راستے میں حارث نے شیطانی طاقتوں کے ذریعے 3سے زائد بار اپنی زنجیریں کھلوائیں مگر یہ شخص جس نے گرفتار کیا تھا وہ کسی طور مرعوب نہیں ہوئے اور جھوٹے نبی کو خلیفہ کے دربار میں پیش کردیا۔ خلیفہ کے دربار میں بھی حارث نبی ہونے کا دعویدار رہا جس پر خلیفہ نے محافظ کو نیزہ مارنے کا اشارہ کیا لیکن پہلے نیزہ کے وار نے اس کے جسم پر کوئی اثر نہیں کیا جس پر اس کے حواریوں کی بانچھیں کھل گئیں۔ پھر خلیفہ عبدالمالک نے محافظ سے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارو۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارا تو وہ حارث کے جسم کے پار ہوگیا اور یوں یہ جھوٹا نبی بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
1حارث کی شیطانی کرامات زنجیروں کے کھلنے اور فرشتوں کے نظر آنے سے متعلق علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب’’ الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان ‘‘ میں لکھا ہے کہ حارث کی زنجیریں کھولنے والا اس کا کوئی موکل یا شیطان تھا اور فرشتوں کو جو گھوڑوں پر سوار دکھایا وہ فرشتے نہیں جنات تھے۔
’’مغیرہ بن سعید‘‘
یہ شخص خالد بن عبداللہ قمری والی کوفہ کا آزاد کردہ غلام تھا حضرت امام محمد باقرؓ کی رحلت کے بعد پہلے امامت اور پھر نبوت کا دعویٰ کرنے لگا۔ یہ کہتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کی مدد سے مردوں کو زندہ اور فوجوں کو شکست دے سکتا ہوں اگر میں قوم عاد وثمود کے درمیانی عہد کے لوگوں کو بھی چاہوں تو زندہ کرسکتا ہوں۔ اس کو جادو اور سحر میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی اور دوسرے طلسمات مثلاً نیز نجات وغیرہ بھی جانتا تھا جس سے کام لے کر لوگوں پر اپنی بزرگی اور عقیدت کا سکہ جماتا تھا۔
مغیرہ کا انجام
جب خالد بن عبداللہ قمری کو جو خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے عراق کا حاکم تھا یہ معلوم ہوا کہ مغیرہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور اس نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے تو اس نے 119ہجری میں اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ مغیرہ اپنے مریدوں کے ساتھ گرفتار کرکے خالد کے سامنے پیش کیا گیا۔ خالد نے اس سے پوچھا تو کس چیز کا دعویدار ہے۔ اس نے کہا میں اللہ کا نبی ہوں۔ خالد نے پھر اس کے مریدوں سے پوچھا تم اس کو اللہ کا نبی مانتے ہو سب نے اثبات میں جواب دیا۔ خالد نے مغیرہ کو سرکنڈے کی گھٹے کے ساتھ باندھا اور تیل چھڑک کر زندہ جلادیا۔ خیال رہے کہ خالد نے جوش میں اس کو آگ کی سزا دی ورنہ حدیث شریف میں آگ سے عذاب دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
بیان بن سمعان
یہ شخص اہل ہنود کی طرح تناسخ اور حلول کا قائل تھا اس کا دعویٰ تھا کہ میرے جسم میں خدا کی روح حلول کرگئی ہے۔ یہ بھی کہتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کے پیروکار اس کو اسی طرح خداکا اوتار مانتے تھے جس طرح رام چندرجی اور کرشن جی کو۔یہ قرآن پاک کی ایسی تاویلات کرتا تھا جیسے قادیان کے خود ساختہ نبی نے کی ہیں۔ اس کے ماننے والے کہتے تھے کہ ’’ھٰذا بین للناس وھدی وموعظہ للمتقین‘‘ قرآن کی یہ آیت بیان ہی کی شان میں اتری ہے۔اور خود بیان کا بھی یہی خیال تھا ۔ بیان نے اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت حضرت امام محمد باقرؓ جیسی جلیل القدر ہستی کو بھی دی تھی اور اپنے ایک خط میں جو اپنے قاصد عمر بن عفیف کے ہاتھ امام موصوف کے پاس بھیجا اس نے لکھا۔
’’تم میری نبوت پر ایمان لے آؤ گے تو سلامتی میں رہو گے اور ترقی کروگے ۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ کس کو نبی بناتا ہے‘‘۔
کہتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقرؓ یہ خط پڑھ کر بہت غضبناک ہوگئے اور قاصد سے فرمایا اس خط کو نگل جاؤ قاصد بے تامل نگل گیا اور اس کے فوراً بعد ہی گر کر مرگیا اس کے بعد حضرت امام محمد باقرؓ نے بیان کے حق میں بھی بددعا فرمائی ۔
بیان کی ہلاکت
خالد بن عبداللہ حاکم کوفہ نے مغیرہ بن سعید کے ساتھ ہی بیان کو بھی گرفتار کرکے دربار میں بلایا تھا جب مغیرہ ہلاک ہوچکا تو خالد نے بیان سے کہا اب تیری باری ہے۔ تیرا دعویٰ ہے کہ تو اسم اعظم جانتا ہے اور اس کے ذریعے فوجوں کو شکست دیتا ہے اب یہ کر کہ مجھے اور میرے عملہ کو جو تیری ہلاکت کے درپے ہیں اسم اعظم کے ذریعے ہلاک کر۔ مگر چونکہ وہ جھوٹا تھا اس لیے کچھ نہ بولا اور خالد نے مغیرہ کی طرح اس کو بھی زندہ جلادیا۔
صالح بن طریف
یہ شخص یہودی تھا اور اندلس میں اس کی نشوونما ہوئی۔ وہاں سے مغرب اقصیٰ کے بربری قبائل میں رہائش اختیار کی۔ یہ قبائل بالکل جاہل اور وحشی تھے صالح نے اپنے جادو کے شعبدے دکھاکر ان سب کو اپنا مطیع کرلیا اور ان پر حکومت کرنے لگا۔۱۲۷ھ میں جب ہشام بن عبدالملک خلیفہ تھے، صالح نے نبوت کا دعویٰ کیا شمالی افریقہ میں اس کی حکومت مستحکم ہوگئی اور اس کو وہ عروج ہوا کہ اس کے کسی ہم عصر حاکم کو اس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ اس شخص کے کئی نام تھے عربی میں مصالح۔ فارسی میں عالم۔ سریانی میں مالک۔ عبرانی میں روبیل اور بربری زبان میں اس کو واریا یعنی خاتم النبین کہتے تھے۔
صالح کی مضحکہ خیز شریعت
یہ جھوٹا نبی کہتا تھا کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح مجھ پر بھی قرآن نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی قوم کے سامنے جو قرآن پیش کیا اس میں 80سورتیں تھیں اور حلال وحرام کے احکام بھی اس میں مذکور تھے۔ اس کے جھوٹے قرآن میں ایک سورۃ غرائب الدنیا کے نام سے تھی جس کو اس کے امتی نماز میں پڑھتے تھے، اس کی جھوٹی شریعت کی خاص خاص باتیں یہ تھیں۔
- روزے رمضان کے بجائے رجب میں رکھے جاتے تھے۔*نمازیں 10وقت کی فرض تھیں۔*11محرم کے دن ہر شخص پر قربانی واجب تھی۔*شادی شدہ عورت مرد پر غسل جنابت معاف۔*نماز صرف اشاروں سے پڑھتے تھے البتہ آخری رکعت کے بعد پانچ سجدے کئے جاتے تھے۔*شادیاں جتنی عورتوں سے چاہیں کریں تعداد کی کوئی قید نہیں تھی۔* ہر حلال جانور کی سری کھانا حرام تھا۔
صالح 47سال تک دعوائے نبوت کے ساتھ اپنی قوم کے سیاہ وسفید کا مالک رہا اور 174ھ میں تخت وتاراج سے دستبردار ہوکر پایہ تخت سے کہیں مشرق کی طرف جاکر گوشہ نشین ہوگیا۔ جاتے وقت اپنے بیٹے الیاس کو نصیحت کی کہ میرے دین پر رہنا چنانچہ نہ صرف الیاس بلکہ صالح کے تمام جانشین پانچویں صدی ہجری کے وسط تک نہ صرف اس کے تخت وتاج بلکہ اس کی خانہ ساز نبوت کے بھی وارث رہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق الیاس بن صالح باپ کی وصیت کے مطابق اس کی تمام کفریات پر عمل کرتا رہا اور پچاس برس تک حکومت کرنے اور مخلوق خدا کو گمراہ کرنے کے بعد 224ھ میں مرگیا۔ الیاس کے بعد اس کا بیٹا یونس اس کے بعد ابو غفیر کا بیٹا ابو الانصار اس کے بعد اس کا بیٹا ابو منصور عیسیٰ بھی نبوت کے دعویدار رہے۔ 369ھ میں ایک لڑائی میں جھوٹی نبوت کے اس خاندان کا آخری کذاب بھی واصل جہنم ہوا اور مرابطون نے 451ھ میں اہلسنّت والجماعت کی حکومت قائم کردی۔ اسحاق اخرس ان جھوٹے نبیوں کی فہرست میں شمالی افریقہ کا اسحاق اخرس بھی شامل تھا،135ھ میں جب عباسی خلیفہ کا دور تھا تو یہ بدبخت اصفہان سے ظاہر ہوا، اس نے تمام آسمانی کتابوں کا مطالعہ کیا اور شعبدہ بازی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ایک عربی مدرسہ میں قیام پذیر ہوگیا۔ 10برس تک اس نے گونگا ہونے کا ڈرامہ رچایا۔ یہاں تک کہ اس کا لقب ہی ’’اخرس‘‘ یعنی ’’گونگا‘‘ پڑگیا۔ 10برس کی صبر آزما مدت کے بعد اس کذاب نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ اس نے ایک نفیس قسم کا روغن تیار کیا جو لگانے سے چہرہ چمک اٹھتا تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کو مرعوب کرنا تھا کہ اللہ نے قوت گویائی کے ساتھ ساتھ نورانیت بھی عطا کردی ہے۔ اس کی ان چالبازیوں اور مکاریوں کے اثر سے اس مدرسے کے اساتذہ اور مہتمم بھی محفوظ نہ رہ سکے قاضی وقت سمیت پورا شہر اس کا معتقد ہوگیا۔ اسحاق کا عروج وزوال۔ آخر کار ہلاکت جن لوگوں کا دل نور ایمان سے منور تھا اور جن کو ہر عمل شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا آتا تھا انہوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ اسحاق اخرس کوئی نبی یا ولی نہیں بلکہ جھوٹا۔کذاب۔ شعبدہ باز اور رہزن دین وایمان ہے لیکن عقیدت مندوں کی خوش اعتقادی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ بالآخر اسحق اخرس کے پاس اتنی قوت اور لوگوں کی تعداد ہوگئی کہ اس کے دل میں ملک گیری کی ہوس پیدا ہونے لگی۔ چنانچہ اس نے ایک بڑی تعداد اپنے عقیدت مندوں کی لے کر بصرہ۔ عمان اور اس کے قرب وجوار کے علاقوں پر دھاوا بول دیا اور عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے حاکموں کو بصرہ اور عمان وغیرہ سے بے دخل کرکے خود قابض ہوگیا۔خلیفہ جعفر منصور کے لشکر سے اسحاق کے بڑے بڑے معرکے ہوئے آخر کار عساکر خلافت فتح یاب ہوئے اور اسحاق مارا گیا اوریوں وہ خود اور اس کی جھوٹی نبوت خاک میں مل گئی۔ استاد سیس خراسانی اس شخص نے خراسان کے اطراف ہرات سجستان وغیرہ میں اپنی نبوت کے بلند بانگ دعوے کیے اور عوام اس کثرت سے اس کے معتقد ہوئے کہ چند ہی برس میں استاد کے پاس تقریباً 3لاکھ آریوں کی جماعت ہوگئی جو اس کو خدا کا فرستادہ نبی سمجھتے تھے اس زمانے میں بھی خلیفہ ابوجعفر منصور مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔ استاد سیس کے دل میں بھی اپنی اتنی بڑی جماعت دیکھ کر ملک گیری کی ہوس پیدا ہوئی اور خراسان کے اکثر علاقے اپنے قبضے میں کرلئے۔ خلیفہ منصور نے یہ حالت دیکھ کر اس کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر روانہ کیا جسے استاد نے شکست دے دی۔ خلیفہ منصور نے یکے بعد دیگرے کئی لشکر بھیجے مگر سب ناکام رہے۔ آخر کار منصور نے ایک نہایت تجربہ کار سپہ سالار خازم بن خزیمہ کو 40ہزار سپاہیوں کے ساتھ استاد کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا جس نے نہایت ہوشیار اور پامردی سے استاد سیس کے لشکر کو شکست فاش دی اور اس کے 70ہزار آدمی قتل کردیے اور 14ہزار کو قیدی بنالیا۔ استاد سیس اپنی بقیہ 50ہزار فوج کو لے کر پہاڑوں میں جا چھپا۔ خازم نے تعاقب کرکے پہاڑ کا محاصرہ کرلیا۔ آخر کار استاد نے محاصرے سے تنگ آکر اپنے آپ کو خازم کے سپرد کردیا ۔ تاریخ اس باب میں خاموش ہے کہ اس کی موت کس طرح واقع ہوئی ، غالب قیاس یہی ہے کہ ابو جعفر منصور نے دوسرے جھوٹے نبیوں کی طرح اس کو بھی قتل کردیا ہوگا۔ علی بن محمد خارجی رے کے شہر کے مضافات میں پیدا ہوا۔ خواج کے فرقہ ازراقہ سے تعلق تھا۔ ذریعہ معاش خلیفہ جعفر عباس کے بعض حاشیہ نشینوں کی مدح سرائی سے انعامات کا حصول تھا۔ 249ھ میں علی بغداد سے بحرین چلاگیا اور وہاں اپنی نبوت کا دعویٰ کردیا۔ اس نے اپنا ایک آسمانی صحیفہ بھی بنارکھا تھا جس کی بعض سورتوں کے نام سبحان، کہف اور ص تھے۔ بحرین کے اکثر قبائل نے اس کی نبوت کو تسلیم کرلیا۔ بعض عمائدین اس کی فوج کے افسر مقرر ہوئے۔ بہبود زندگی کو امیر البحر مقرر کیا گیا۔ 5سال بحرین میں گزارنے کے بعد 254ھ میں چند مریدوں کے ساتھ بصرہ پہنچ گیا اور وہاں حاکم وقت محمد بن رجا کیخلاف سرگرمیاں شروع کردیں۔ رجا نے گرفتاری کی کوشش کی مگر یہ بھاگ کر بغداد آگیا۔ ایک سال بعد محمد بن رجا کیخلاف بغاوت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پہنچ گیا اور اعلان کردیا کہ جو زنگی غلام میری پناہ میں آجائیں گے ان کو آزاد کردوں گا اور اس طرح اس نے غلاموں کی ایک کثیر جماعت اپنی ہم نوا بنالی، اس جماعت کو ایک لشکر میں تبدیل کرکے جھوٹے نبی نے آس پڑوس میں ڈاکے مارنے شروع کردیے۔ مسلسل 9سال تک علی بن محمد کے زنگی لشکر کو شکست دینے کے بعد بادشاہی لشکر آئے اور شکست کھاکر واپس چلے جاتے۔ اس دوران خطے میں فاقہ کشی اور جنگی تباہی وبربادی کا یہ عالم تھا کہ انسان انسان کو کھاجاتے تھے۔ آخر کار خلیفہ نے اپنے بھتیجے ابو العباس کو لشکر دے کر زنگیوں کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ ابو العباس نے کئی محاذوں پر علی بن محمد خارجی کے زنگیوں کو شکست سے دوچار کیا۔ جب جھوٹے نبی کو اس کی اطلاع ملی تو اس نے ساری فوجوں کو یکجا ہوکر حملے کا حکم دیا اسی اثناء میں عباس کے والد موفق کو بھی منصوبے کی اطلاع مل گئی اور وہ ایک بھاری لشکر کے ساتھ اپنے بیٹے سے آملے۔ اب دونوں باپ بیٹے نے مل کر زنگی لشکر کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کردیا اور ان کے مرکز منصورہ شہر پر قبضہ کرلیا۔ 15شعبان 268ھ کو موفق اپنے بیٹے ابوالعباس کے ساتھ زنگیوں کو کاٹتے ہوئے ان کے شہر پناہ کے قریب پہنچ گئے جہاں کذاب علی بن محمد خارجی موجود تھا، آخر کار 27محرم 270ھ کو طویل ترین جنگ کے بعد موفق نے شہر پر مکمل قبضہ کرکے بڑے بڑے سردار گرفتار کرلیے مگر کذاب پھر بھی ہاتھ نہیں آیا، وہ چند افسران کے ہمراہ شہر سفیانی کی طرف بھاگ گیا مگر اسلامی لشکر نے تعاقب کیا اور موفق نے کذاب علی بن محمد خارجی کا کام تمام کردیا۔ ’’مختار بن ابو عبید ثقفی‘‘ حضرت ابو عبید بن مسعود جلیل القدر اصحاب رسول میں سے تھے۔ مختار انہی کا ناخلف بیٹا تھا گو یہ اہل علم میں سے تھا مگر اس کا ظاہر باطن سے متغائر اور اس کے افعال واعمال تقویٰ سے عاری تھے اس کا اندازہ اس تحریک سے ہوسکتا ہے جو اس نے نواسۂ رسول حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنے چچا کے سامنے پیش کی تھی۔ ابتداء میں مختار خارجی مذہب رکھتا تھا اور اہل بیت نبوت سے سخت عناد رکھتا تھا لیکن حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد مسلمان کربلا کے قیامت خیز واقعات سے نہایت رنجیدہ اور غم وغصہ میں تھے جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایک منصوبہ بندی کے تحت اہل بیت کی محبت کا دم بھرنا شروع کیا اور اعلان کیا کہ میرا مشن قاتلان حسینؓ سے انتقام لینا ہے۔اس بات پر اس کی تحریک کو اتنا فروغ حاصل ہوا کہ آہستہ آہستہ اس نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کرلیا اور سوائے بصرہ اور حجاز مقدس ان تمام ممالک پر قبضہ کرلیا جو حضرت ابن زبیرؓ کے زیرنگیں تھے۔ کوفہ اور دوسرے شہروں پر اپنی عملداری کو مستحکم کرنے کے بعد مختار نے اپنے مشن کے مطابق ان لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا جو حضرت حسینؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کے قتل وغارت گری میں شریک تھے چنانچہ اس نے عبیداللہ ابن زیاد، زید بن رقاد، عمربن سعد، عمرو بن حجاج زبیدی، شہربن ذی الجوش، عبدالرحمن بجلی، خولی بن یزید، مالک بن نیر بدلی، حصین بن عمیر، حکیم بن طفیل طائی، مرہ بن منقد، عثمان بن کالد بہنی اور عمرو ابن صبیح کو قتل کردیا۔ دعویٰ نبوت کی بنیاد جس زمانے میں مختار نے قاتلین حسینؓ کو تہس نہس کرنے اور ان کی ہلاکت اور قتل کا بازار گرم کررکھا تھا اور ہر طرف اس بات پر خوشیاں منائی جارہی تھیں اور مختار کو بڑی عزت کی نظروں سے دیکھا جارہا تھا اسی دوران بڑی تعداد میں کچھ شرپسندوں نے مختار کی حاشیہ نشینی اور قربت حاصل کرکے چاپلوسی کے انبار باندھنے شروع کردیے۔بعض خوشامد پسندوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اتنا بڑا کار عظیم جو اعلیٰ حضرت مختار کی ذات قدسی صفات سے ظہور میں آیا ہے ۔ نبی یا وحی کے بغیر کسی بشر سے ممکن نہیں۔ اس بناء پر مختار کے دل ودماغ میں انانیت اور اپنی عظمت وبزرگی کے جراثیم پیدا ہونے لگے جو دن بدن بڑھتے گئے اور آخر کار اس نے بساط جرأت پر قدم رکھ کر نبوت کا دعویٰ کردیا اور اپنے تمام مکاتیب اور خطوط پر مختار نے اپنے نام کے آگے رسول اللہ بھی لکھنا شروع کردیا وہ یہ بھی کہتا تھا خدائے برتر کی ذات نے میرے جسم میں حلول کیا ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے کہا کہ مختار کہتا ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا سچ کہتا ہے ایسی وحی کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی اس آیت میں دی ہے:’’وان الشیاطین لیو حون الٰی اولیاہم‘‘شیاطین اپنے مددگاروں پر وحی نازل کیا کرتے ہیں‘‘ انجام کار ابراہیم بن اشتر جس کے طفیل مختار نے میدان جنگ میں کئی کامیابیاں حاصل کی تھیں کی علیحدگی کے بعد اس کا زوال شروع ہوگیا۔ابراہیم کی علیحدگی کے بارے میں علامہ عبدالقادر بغدادی اپنی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’جب ابراہیم کو اس بات کا علم ہوا کہ مختار نے علیٰ الاعلان نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ نہ صرف اس سے الگ ہوگیا بلکہ اپنی خود مختاری کا اعلان کرکے بلاد جزیرہ پر قبضہ بھی جمالیا۔‘‘ابراہیم بن اشتر کی رفاقت سے محروم ہونے کے بعد مختارکی قوت مدافعت بہت کم ہوگئی اس بات سے حاکم وقت مصعب بن زبیرؓ نے فائدہ اٹھایا اور کوفہ پر حملہ کردیا حرورا کے مقام پر شکست کھانے کے بعد مختار قصر امارت میں محصور ہوگیا اور مصعب ابن زبیرؓ نے چار مہینے تک قصر امارت کا محاصرہ کیے رکھا اور ضروریات زندگی کی رسد بالکل کاٹ دی۔ جب محاصرہ کی سختی ناقابل برداشت ہوگئی تو مختار نے اپنے لشکر کو باہر نکل کر لڑنے کی ترغیب دی۔ مگر صرف اٹھارہ آدمیوں کے سوا کوئی باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوا۔آخر کار مختار اپنے اٹھارہ آدمیوں کے ساتھ قصر امارت سے نکل کر مصعب کے لشکر پر حملہ آور ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں مع اپنے 18ساتھیوں کے ہلاک ہوگیا ۔ ’’حمدان بن اشعث قرمطی‘‘ حمدان کوفہ کا باشندہ تھا، بیل پر سوار ہوا کرتا تھا اس لیے اس کو کرمیط کہتے تھے جس کا محرب قرمط ہے۔ شروع میں زہد وتقویٰ کی طرف مائل تھا مگر ایک باطنی کے ہتھے چڑھ کر سعادت ایمان سے محروم ہوگیا اور دین اسلام کے مقابلے میں ایک نئے مذہب قرمطی یا قرامطہ کی بنیاد ڈالی۔ اس نے سب سے پہلے اپنے ماننے والوں پر 50 نمازیں فرض کیں مگر لوگوں کی شکایات پر کم کرکے دو رکعت قبل از فجر اور دو رکعت قبل از غروب کردیں اور اذان میں بھی تحریف کردی۔روزے صرف دو فرض کردیے ایک مہرجان کا اور دوسرا نو روز کا۔ شراب حلال کردی اور غسل جنابت کو برطرف کردیا گیا۔ تمام درندے اور پنجے والے جانور حلال کردیے اور قبلہ بجائے کعبہ کے بیت المقدس قرار دیا اور اس پر دلالت دی کہ یہ سب مسیح ابن مریم نے میرے پاس آکر بتایا ہے۔ حمدان کی گرفتاری ورہائی جب ہضیم حاکم کوفہ کو معلوم ہوا کہ حمدان نے دین اسلام کے مقابلے میں ایک نیا دین جاری کیا ہے اور شریعت محمدیہ میں ترمیم وتنسیخ کررہا ہے تو اس نے اس کو گرفتار کرلیا اور اس خیال سے کہ کوئی حیلہ کرکے یہ بھاگ نہ جائے قید خانے کے بجائے اپنے ہی پاس قصر امارت کی ایک کوٹھڑی میں بند کرکے قفل کردیا اور کنجی قفل کی اپنے تکیے کے نیچے رکھ دی اور قسم کھائی کہ اس کو قتل کیے بغیر نہیں چھوڑوں گا۔ہضیم کے گھر کی ایک کنیز بڑی رحمدل تھی جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ شخص قتل کیا جانے والا ہے تو اس کا دل بھر آیا اور رقت طاری ہوگئی جب ہضیم سوگیا تو اس کنیز نے کنجی اس کے تکیے کے نیچے سے نکالی اور ہمدان کو آزاد کرکے پھر اسی جگہ رکھ دی صبح جب ہضیم نے اس غرض سے دروازہ کھولا کہ حمدان کو موت کی نیند سلادیا جائے تو یہ دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا کہ حمدان غائب ہے۔جب یہ خبر کوفہ میں مشہور ہوئی تو خوش عقیدہ لوگ فتنہ میں پڑگئے اور یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ خدائے قدوس نے حمدان کو آسمانوں پر اٹھالیا۔ اس کے بعد لوگوں میں حمدان آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ حاکم کوفہ کے مقفل قید خانے سے کس طرح نکلے۔ حمدان بڑے ناز وغرور سے کہنے لگا کہ کوئی میری ایذا رسانی میں کامیاب نہیں ہوسکتا یہ سن کر لوگوں کی عقیدت اور بڑھ گئی۔ حمدان کے انجام پر تاریخ کی خاموشی حمدان کو اب ہر وقت یہ خطرہ رہتا تھا کہ دوبارہ نہ گرفتار کرلیا جائے اس لیے ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے علی بن محمد خارجی کے پاس جاکر کہا تھا کہ میں ایک مذہب کا بانی اور نہایت صائب الرائے ہوں ایک لاکھ سپاہی اپنے لشکر میں رکھتا ہوں آؤ ہم اور تم مناظرہ کرکے کسی ایک مذہب پر متفق ہوجائیں تاکہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے مددگار بن سکیں۔ علی خارجی نے اس رائے کو پسند کیا اور بہت دیر تک مذہبی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی لیکن آپس میں متفق نہ ہوسکے۔ اس کے بعد حمدان واپس آکر گوشہ نشین ہوگیا آگے کا حال کچھ معلوم نہیں ہوسکا تاہم اس کے چیلوں نے عالم اسلام کو بہت نقصان پہنچایا، ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو عین حج کے زمانے میں خانہ کعبہ کے اندر قتل کیا۔ حجرا اسود اکھاڑ کر لے گئے اور دس برس تک لوگ ان کے خوف سے حج ادا نہ کرسکے۔ ’’علی بن فضل یمنی‘‘ یمن کے علاقے صنعا کے مضافات سے ایک شخص علی بن فضل جو ابتداء میں اسماعیلی فرقے سے تھا اس دعوے کے ساتھ ظاہر ہوا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔ بہت عرصے تک اپنی جھوٹی نبوت کی دعوت دینے کے بعد بھی جب کسی نے اس کی تصدیق نہیں کی تو اس نے سوچا کہ کسی حیلے یا شعبدے کے ذریعے لوگوں کو اپنا عقیدت مند بنانا چاہیے چنانچہ بہت غور وفکر کے بعد اس نے ایک سفوف تیار کیا اور ایک مرتبہ رات کو ایک بلند مقام پر چڑھ گیا اور نیچے کوئلے جمع کرکے دھکادیے اوپر سے اس نے اپنا بنایا ہوا کیمائی سفوف ڈال دیا۔ اچانک آگ سے ایک سرخ رنگ کا دھواں اٹھنے لگا جو دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کی ساری فضا پر چھاگیا اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ ساری فضا آگ سے بھری ہوئی ہے پھر اس نے کوئی ایسا عمل کیا یا منتر پڑھا کہ دھویں میں بے شمار آگ کی مخلوق دکھائی دینے لگی۔ یہ وحشتناک منظر دیکھ کر لوگ خوفزدہ ہوگئے اور ان پر یہ وہم سوار ہوگیا کہ انہوں نے ایک اللہ کے نبی کی دعوت کو ٹھکرادیا تھا اس لیے خداکی طرف سے عذاب کا منظر دکھاکر ہمیں ڈرایا گیا ہے اور یوں اپنی قسمت اور دعویٰ نبوت کے ساتھ اسے کسی حد تک خدائی کا بھی دعویٰ تھا چنانچہ جب اپنے کسی اندھے عقیدت مند کے نام کوئی تحریر بھیجتا تو یوں لکھتا: یہ تحریر زمین کے پھیلانے اور ہانکنے والے اور پہاڑوں کے ہلانے اور ٹھہرانے والے علی من فضل کی جانب سے اسکے بندے فلاں بن فلاں کے نام ہے۔ اس نے بھی اپنے مذہب میں تمام حرام چیزوں کو حلال کردیا تھا حتیٰ کہ سگی بیٹیوں سے عقد نکاح بھی جائز قرار دے دیا تھا۔ جب نوبت یہاں تک پہنچی تو بعض شرفائے بغداد غیرت ملی اور ناموس اسلامی سے مجبور ہوکر اس کی ہلاکت کے درپے ہوئے اور 303ھ میں اس کو زہر دے کر ہلاک کردیا گیا۔ ’’حامیم بن من اللہ‘‘ اس شخص نے 1212ھ میں مغرب میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنی فریب کاریوں کا جال پھیلاکر ہزاروں بھولے بھالے بربری عوام کو اپنا معتقد بنالیا۔ حامیم کی نئی شریعت شریعت محمدیہ کے مقابلے میں اس مرتد نے اپنی ایک خانہ ساز شریعت گھڑی تھی اس کی خاص خاص باتیں یہ تھیں۔ اس نے صرف 2نمازوں کا حکم صادر کیا۔ رمضان کے روزوں کی جگہ رمضان کے آخری عشرہ کے 3، شوال کے 2اور ہر بدھ اور جمعرات کو دوپہر بارہ بجے تک کا روزہ متعین کیا۔ حج کو ساقط کردیا، زکوٰۃ کو ختم کردیا، نماز سے پہلے وضو کی شرط ختم کردی، خنزیر کو حلال کردیا۔ ایک کتاب بھی لکھی جسے کلام الٰہی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔حامیم 319ھ میں تبخیر کے مقام پر ایک جنگ میں مارا گیا لیکن جو مذہب اور عقیدہ اس نے رائج کیا وہ ایک عرصے تک مخلوق خدا کی گمراہی کا سبب بنتا رہا۔ الحمدللہ آج اس کے ماننے والوں کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ ’’عبدالعزیز باسندی‘‘ اس شخص نے 332ھ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک پہاڑی مقام کو اپنا مستقر بنایا۔ یہ شخص انتہائی مکار اور شعبدہ باز تھا۔ پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر جب باہر نکالتا تو اس کی مٹھی سرخ اشرفیوں سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔اس قسم کی شعبدہ بازیوں اور نظر بندیوں نے ہزاروں لوگوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔ علماء کرام اور اہل حق نے لوگوں کو بہت سمجھایا مگر جن کی قسمت میں مرتد ہونا لکھا تھا اس کو کون ٹال سکتا تھا جب باسندی نے دیکھا کہ اہل حق اسکی نبوت میں رکاوٹ ہیں تو اس نے اہل حق کے خلاف ظلم وستم کا بازار گرم کیا۔ ہزاروں مسلمان اس جرم میں اس کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ جب لوگ اس کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تو حکومت کو بھی اس کی تحریک سے خطرہ محسوس ہوا چنانچہ وہاں کے حاکم ابو علی بن محمد بن مظفر نے باسندی کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر روانہ کیا۔ باسندی ایک بلند پہاڑ پر جاکر قلعہ بند ہوگیا لشکر اسلام نے اس کے گرد محاصرہ ڈال دیا اورکچھ مدت کے بعد جب کھانے پینے کی چیزیں ختم ہونے لگیں تو باسندی کے فوجیوں کی حالت دن بدن خراب ہونے لگی اور جسمانی طاقت بھی جواب دے بیٹھی ۔یہ صورت حال دیکھ کر لشکر اسلام نے پہاڑ پر چڑھ کر ایک زبردست حملہ کیا اور مار مار کر دشمن کا حلیہ بگاڑ دیا۔ باسندی کے اکثر فوجی مارے گئے اور خود باسندی بھی جہنم واصل ہوا۔ ’’ابو طیب احمد بن حسنین متبنی‘‘ 303ھ میں کوفہ کے محلہ کندہ میں پیدا ہوا جوانی ہی میں شام چلا آیا اور فنون ادب میں مشغول رہ کر درجہ کمال کو پہنچا اسے لغات عرب پر غیر معمولی عبور تھا۔ جب کبھی اس سے لغات کے متعلق کوئی سوال کیا جاتا تو نظم ونثر میں کلام عرب کی بھرمارکردیتا۔ ابو طیب کے دعویٰ نبوت کے بارے میں ایک شخص ابو عبداللہ لاذوقی جس نے اس سے مکالمہ کیا تھا کہ اس کی شعبدہ بازی دیکھ کر مرتد ہوگیا جب اس نے ملک شام میں نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک کثیر تعداد میں لوگ اس کا کلمہ پڑھنے لگے تو حمص کے حاکم امیر لؤلؤ نے گرفتارکرکے اس کو قید خانے میں ڈال دیا۔ معتقدین اِدھر اُدھر ہوگئے اور جب قید وبند کی صعوبتیں سہتے سہتے اس کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو اس نے ایک قصیدہ لکھا جس سے پڑھ کر امیر کو رحم آیا اور وہ ابوطبیب سے کہنے لگا اگر تو اپنی جھوٹی نبوت سے توبہ کرلے تو میں تجھے آزاد کردوں گا۔ ابو طبیب نادم ہوا اور اپنی نبوت کے دعوے سے توبہ کی اور ایک دستاویز لکھ کر امیر کے سپردکی اس دستاویز میں لکھا تھا: ’’میں اپنی نبوت کے دعوے میں جھوٹا تھا۔ نبوت خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر ختم ہوگئی اب میں توبہ کرکے ازسر نو اسلام کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘۔ ’’ابو القاسم احمد بن قسی‘‘ ابتداء میں یہ شخص جمہور مسلمین کے مذہب ومسلک پر کاربند تھا لیکن بعد میں اغوائے شیطان سے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح قرآنی آیات کی عجیب عجیب تاویلات بیان کرنا شروع کردیں اور ملحدوں کی طرح نصوص پر اپنی نفسانی اور شیطانی خواہشات کا روغن قاز ملنے لگا پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی نبوت کا دعویٰ بھی کردیا۔ اس کو بھی ہزاروں بے وقوف متابعت اور عقیدت مندی کے لیے مل گئے۔ شاہ مراکش علی بن یوسف بن تاشقین کو جب معلوم ہوا کہ ایک شخص احمد بن قسی نام کا نبوت کا دعویدار ہے تو اس نے اس کو اپنے پاس بلالیا اور پوچھا کہ میں نے سنا ہے تم نبوت کے دعویدار ہو؟ اس نے صاف لفظوں میں اپنی نبوت کا اقرار نہیں کیا بلکہ مختلف قسم کی باتیں بناکر اور حیلے گڑھ کر بادشاہ کو مطمئن کرکے چلا آیا۔ واپس آنے کے بعد اس نے شیلہ کے ایک گاؤں میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور اس میں بیٹھ کر اپنے مسلک اور مذہب کا پرچار کرنے لگا۔ جب اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھ گئی تو اس نے ثلب کے مقامات احیلہ اور مزیلہ پر بزور شمشیر قبضہ کرلیا۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد خود اسکا ایک فوجی سردار محمد بن وزیر اس سے برگشتہ ہوکر اسکا مخالف ہوگیا اس کو دیکھ کر دوسرے معتقدین بھی اس سے الگ ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ انہیں ایام میں مراکش کی حکومت شاہ یوسف بن تاشقین کے ہاتھ سے نکل کر عبدالمومن کے عنان اختیار میں آگئی۔ یہ شخص بھاگ کر عبدالمومن کے پاس پہنچا۔ عبدالمومن نے اس سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم نبوت کے مدعی ہو کہنے لگا جس طرح صبح صادق بھی ہوتی ہے اور کاذب بھی اسی طرح نبوت بھی دو طرح کی یعنی صادق اور کاذب۔ میں نبی ہوں مگر کاذب ہوں۔ من پر عبدالمومن نے اس کو قیدکردیا۔ اس کے سوا اس کا مزید حال تاریخ میں نہیں ملتا۔ اس کی موت 550ھ اور 560ھ کے درمیان کسی وقت ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی خانہ ساز نبوت بھی دم توڑ گئی۔ ’’عبدالحق بن سبعین مرسی‘‘ اس کا پورا نام قطب الدین ابو محمد عبدالحق بن ابراہیم بن محمد بن نصر بن محمد بن سبعین تھا۔ مراکش کے شہر مرسیہ میں اس نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس کے پیرو سبعینیہ کہلاتے ہیں۔صاحب علم آدی تھا اور اس کا کلام بھی اکابر صوفیا کے کلام کی طرح بڑا غامض اور دقیق تھا جس کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا تھا۔ چنانچہ اسمام شمس الدین ذہبیؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عالم اسلام کے مایہ ناز عالم قاضی القضاۃ تقی الدین ابن دقیق چاشت کے وقت سے لے کر ظہر تک اس کے پاس بیٹھے رہے اور اس اثناء میں وہ گفتگو کرتا رہا۔ علامہ تقی الدین اس کے کلام کے الفاظ کو سمجھتے تھے مگر مرکبات ان کے ملبغ فہم سے بالاتر تھے۔عبدالحق ایک کلمہ کفر کی بناء پر مغرب سے نکالا گیا۔ اس نے کہا تھا کہ امر نبوت میں بڑی وسعت اور گنجائش تھی لیکن ابن آمنہ ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے لانبی بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا جائے گا) کہہ کر اس میں بڑی تنگی کردی۔ اعمال کے متعلق علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک صالح آدمی نے جو عبدالحق کے مریدوں کی مجلس میں رہ چکا تھا بیان کیا کہ یہ لوگ نماز اور دوسرے مذہبی فرائض کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ شیخ صفی الدین ہندی کا بیان ہے کہ 666ھ میں میری اس سے مکہ معظمہ میں ملاقات ہوئی تھی۔ 668ھ میں اس نے فصد کھلوائی خون بند نہ ہوسکا اسی میں مرگیا۔ کہتے ہیں کہ یہ شخص کیمیا اور سیمیا بھی جانتا تھا۔ ’’بایزید روشن جالندھری‘‘ پورا نام بایزید ابن عبداللہ انصاری931ھ بمقام جالندھر (پنجاب) میں پیدا ہوا۔ بڑا عالم اور صاحب تصنیف تھا۔ حقائق ومعارف بیان کرنے میں لاثانی اور لوگوں کے دل پر اس کی علمیت اور کمالات کا سکہ جما ہوا تھا۔ اس کے دعویٰ نبوت سے پہلے ہمایوں بادشاہ کے بیٹے مرزا محمد کلیم صوبیدار کابل نے اپنے دربار میں علماء سے اس کا مناظرہ کرایا تھا۔ علمائے کابل جو علوم فلسفہ بالکل نہ جانتے تھے اس کے مقابلے پر آئے مگر بایزید کے سامنے ان کو کامیابی نہ ہوسکی اور صوہ دار بایزید کی علمیت اور زورکلام سے اتنا مرعوب ہوا کہ خود ہی اس کا معتقد ہوگیا۔ بایزید پر شیطان کا پورا جادو چل گیا اور اپنی ریاضت وعبادت کے انوار وثمرات سے بہک کر اپنے آپ کو عرش بریں پر خیال کرنے لگا اور یہ خیال یہاں تک بڑھا کہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگا اور لوگوں سے کہتا تھا کہ جبریل امین میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لاتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ اس نے ایک کتاب بنام ’’خیر البیان‘‘ چار زبانوں عربی، فارسی، ہندی اور پشتو میں لکھی اور اس کو کلام الٰہی کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اورکہا کہ میں نے اس میں وہی کچھ لکھا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کیا ہے۔ بایزید کا باپ عبداللہ جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا بیٹے کی اس گمراہی پر بہت غضبناک ہوا اور غیرت دینی سے مجبور ہوکر بایزید پر چھری لے کر پل پڑا۔ بایزید بری طرح مضروب ہوا اور کامی کرم چھوڑ کر افغانستان کے علاقے ننگرہار چلا آیا ۔ جب وہاں کے علماء کو بایزید کی گمراہی اور بدمذہبی کا حال معلوم ہوا تو سب اس کی مخالفت پر متفق ہوکر کھڑے ہوگئے جب وہاں اس کا جادو نہ چل سکا تو یہ پشاور جاکر غور یاخیل قبائل میں رہنے لگا۔ یہاں چونکہ کوئی عالم دین اس کی مزاحمت کرنے والا نہیں تھا اس لیے اسے خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔ بایزید یہاں اپنا تسلط قائم کرکے اب دہشت نگر وارد ہوا۔ یہاں بھی اس کی اطاعت اور عقیدت کا بازار گرم ہوگیا۔ ایک دینی عالم اخوند درویزہ سے بایزید کا مناظرہ ہوا جس میں بایزید مغلوب بھی ہوگیا مگر اس کے مرید ایسے اندھے خوش اعتقاد اور طاقتور تھے کہ اخوند درویزہ کی ساری کوششیں بیکار ہوگئیں۔ جب بایزید کی مذہبی غارتگری کا حال کابل کے گورنر محسن خان نے سنا جو اکبر بادشاہ کی طرف سے کابل کا حاکم تھا تو وہ بہ نفس نفیس ہشت نگر آیا اور بایزید کو گرفتار کرکے لے گیا اور ایک مدت تک اس کو قید میں رکھ کر رہاکردیا۔ بایزید ہشت نگر آگیا اور اپنے مریدوں کو جمع کرکے آس پاس کے پہاڑوں میں جاکر مورچہ بند ہوگیا۔ بایزید مغل بادشاہ اکبر کے مقابلے پر اور اکبر بادشاہ کی اطاعت سے باہر ہوکر علیٰ الاعلان اس کا حریف بن کر مقابلے پر آگیا۔ جب بایزید کی بغاوت حد سے بڑھ گئی تو اکبر نے ایک لشکر جرار اسکی سرکوبی کے لیے روانہ کیا مگر مقابلہ ہوتے ہی بایزید کے ہاتھوں شکست کھاگیا۔ اس فتح سے بایزید کے حوصلے اور بڑھ گئے اور ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیے اس سے لوگوں کے دل میں اس کی عقیدت کم ہونے لگی۔ ادھر اکبر بادشاہ ہر وقت اس کی سرکوبی کے منصوبے بناتا تھا آخر کار اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ ایک لشکر روانہ کیا اور کابل کے صوبہ وار محسن خان کو بھی ساتھ ملالیا اس حملے میں بایزید کو شکست ہوئی اور افغانستان کے سلسلہ کوہ میں بھیتر پور کی پہاڑیوں میں اسکا آخری وقت گزرا اور اسی علاقے میں اس کی قبر واقع ہے۔ ’’میر محمد حسین مشہدی المعروف نمود‘‘ ایران کے شہر مشہد کا رہنے والا اور بڑا عالم آدمی تھا۔ سلطان اورنگ زیب عالمگیر کے آخری زمانے میں دولت دنیا کی تحصیل کا شوق اس کو ہندوستان کھینچ لایا۔ اس سے پہلے یہ کابل گیا جہاں امیر خان حاکم تھا اور اس کی داد و دہش اور فیض گستری کا ایران بھر میں بڑا شہرہ تھا۔ امیر خان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اس نے ایک ملازم کی لڑکی کو پالا تھا۔ میر حسین کی قابلیت اور سعادت مندی کو دیکھتے ہوئے اس نے اس لڑکی کی شادی اس سے کردی۔ کچھ دن کے بعد امیر خان کا انتقال ہوگیا اور میر محمد حسین نے اپنے پر کھولنے شروع کردیے۔ نخوت وخود بینی سے جب اس کا دماغ بھرچکا تھا تو یہ رائج الوقت مذاہب کی پیروی کو اپنے لیے ننگ وعار سمجھنے لگا اور اس نے ایک نیا مذہب روشناس کرانے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ اپنے شاگرد رشید منشی زادے دوجی یار کے ساتھ مل کر نئے مذہب کی بنیاد ڈال دی ۔ اپنے منصوبہ کے مطابق محمد حسین نے ایک کتاب لکھی جس کو فارسی کے جدید الفاظ سے مزین کیا اور اس میں متروک اورغیر مانوس الفاظ کی خوب بھرمار کی اور بہت سے پرانے اور فارسی الفاظ عربی طریقہ پر ترمیم کرکے درج کیے اور اس کو الہامی کتاب کا درجہ دے کر اس کا نام ’’آقوزہ مقدمہ‘‘ رکھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد اس نے نزول وحی اور خود کو ’’بیگوگیت‘‘ کہنا شروع کردیا اور دعویٰ کیا کہ یہ رتبہ نبوت اور امامت کے درمیان ہے اور کہا کہ ہر اولوالعزم پیغمبر کے نوبیگوک تھے چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی نوبیگوک تھے۔ اپنے ماننے والوں کو اس نے ’’فربودی‘‘ کا لقب دیا۔ جس روز اس پر پہلی وحی نازل ہوئی (شیطانی القا) اس دن کا نام یوم جشن قرار دیا اور جس جگہ نازل ہوئی اس مقام کو غار حرا سے تشبیہ دیتا تھا۔ ہر سال ایک جم غفیر کے ساتھ اس مقام پر جاکر جشن مناتا تھا جو 7روز تک جاری رہتا۔ اس نے پانچ وقت کی نماز کی جگہ ہر روز تین مرتبہ اپنی زیارت فرض کی تھی ۔خلفائے راشدین کی نقالی کرتے ہوئے اپنے بھی چار خلیفہ مقررکیے تھے۔ میر محمد حسین نے اپنی جھوٹی نبوت کا دائرہ دہلی تک پھیلادیا۔ اس کی شعبدہ بازیاں اور کابل کے صوبیدار کے لڑکے ہادی علی خان کی عقیدت دیکھ کر بہت سے لوگ اس کے گرویدہ ہوگئے جن میں بادشاہ فرخ سعید بھی شامل تھا جس نے تخت دہلی پر قدم رکھتے ہی اس کے کاشانہ پر حاضری دی اور اس کا معتقد ہوگیا۔ فرخ سیر بادشاہ کے بعد دہلی کے تخت سلطنت پر محمد شاہ براجمان ہوا تو محمد امین اس کا وزیر تھا۔ محمد امین نے جب اس مردود کے اقوال سنے اور اس کی حرکتیں دیکھیں اور ایمان و اسلام کی سربلندی کی تڑپ رکھنے والے ہزاروں لاکھوں دلوں کا خون ہوتے دیکھا تو اس نے نمود کو گرفتار کرکے اس فتنے کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیا۔ تقدیر الٰہی کی نیرنگی دیکھیے کہ جیسے ہی محمد امین کے سپاہی جھوٹے نبی کی قیام گاہ پر اس کو گرفتارکرنے پہنچے محمد امین پر درد قولنج کا حملہ ہوگیا ۔ لوگ امین کے مرض کو نمود کی کرامت اور اس کی بددعا کا اثر سمجھے ۔ اس مرض کا سنتے ہی امین کی افواج بھی واپس لوٹ آئیں، نمود جو بھاگنے کی تیاری کررہا تھا محمد امین کی بیماری اور لوگوں کے خیالات سن کر رک گیا۔ نمود کو امین کی حالت نزع کا علم ہوچکا تھا بڑے غرور سے کہنے لگا کہ میں نے اس کافر کے جگر پر ایسا تیر مارا ہے کہ اب وہ جانبر نہ ہوسکے گا اس پر لوگوں کے اعتقاد میں اور اضافہ ہوگیا۔ ادھر محمد امین کی معیاد زندگی پوری ہوچکی تھی چنانچہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اس واقعہ سے نمود کی تحریک میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا ہوگیا اور اس کی عظمت کے لوگ گن گانے لگے اس کرامت کا دہلی میں بڑا چرچا ہوا۔ محمد امین کی موت کے تین سال بعد میر محمد حسین بھی فوت ہوگیا اور اس کا بیٹا نحا جانشین بن گیا۔ بیٹے کی وجہ سے جھوٹی نبوت کا بھانڈا پھوٹ گیا اس نے عطایا اور نذر ونیاز کے ان حصوں میں جو دوجی یار کے لیے کابل میں باہمی اتفاق رائے سے طے ہوئے تھے اور جن کو نمود مرتے دم تک باقاعدہ دوجی یار کو دیتا رہا ازراء کوتاہ اندیشی کمی کرنی چاہی۔ اس بناء پر دوجی یار اور نحا نمود میں رنجش اور مخاصمت شروع ہوگئی۔ دوجی یار نے جب یہ دیکھا کہ جھوٹے نبی کا بیٹا کسی صورت اس کا مقررہ حصہ دینے پر راضی نہیں تو ناچار اجتماع جشن کی تقریب پر جبکہ فربودی بکثرت جمع تھے اور دوسرے تماشائیوں کا بھی بڑا ہجوم تھا اچانک کھڑے ہوکر ایک تقریر کی جس میں محمد حسین المعروف نمود کے خود ساختہ مذہب اور دعویٰ نبوت کی ساری سازشیں لوگوں کے سامنے ظاہر کردیں۔ نمود کی عیاری اور اپنی شرکت کا سارا ماجرا اول سے آخر تک حاضرین جلسہ کو سناکر حیران کردیا۔ اس وقت مجمع سے ہزارہا آدمی جن کو خدا نے فطرت سلیمہ عطا فرمائی تھی اس باطل مذہب سے توبہ کرکے ازسر نو اسلام میں داخل ہوئے اور میر محمد حسین مشہدی کے خود ساختہ دین کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی یہ ملعون وکذاب بھارتی صوبہ پنجاب ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے موضع قادیان میں 1839ء یا 1840ء میں پیدا ہوا۔ 7,6سال کی عمر میں اس نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ چند فارسی کتب بھی پڑھیں مگر تفسیر، فقہ اور دوسرے دینی علوم سے قطعاً محروم رہا۔ والد نے طب کی تعلیم بھی دلانے کی کوشش کی مگر یہ اس میدان میں بھی آگے نہ بڑھ سکا اور نتیجتاً ’’نیم ملا خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان‘‘ بن گیا۔ سیالکوٹ میں ملازمت کی۔ مختار کے امتحان میں بیٹھا مگر ناکام رہا۔ پھر قادیان کا رخ کیا۔ قانون کے چند نکات سے واقفیت تھی، والد کے اثرورسوخ پر وکیل بن گیا اور کچہریوں کی خاک چاٹتا رہا اور اپنے خاندانی مقدمات بھی ہارتا رہا۔ بٹالہ اور گردونواح میں بزرگان دین کے جاء وجلال کو دیکھ کر اس کے منہ میں بھی رال ٹپکنے لگی اور یہ پیری مریدی کے خواب دیکھنے لگا۔ اسی دوران اس کے بچپن کے دوست ہم مکتب مولوی محمد حسین ابو سعید بٹالوی دینی تعلیم مکمل کرکے بٹالہ آئے۔ خبر ملتے ہی یہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور غیر اسلامی ادیان کے رد میں کتاب لکھنے کا مشورہ طلب کیا۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ یہ مبارک خیال ہے ۔ کتاب کی اشاعت کے لیے سرمایہ کا مسئلہ درپیش تھا مگر مولوی صاحب نے لاہور آنے کا مشورہ دے کر یہ مشکل بھی حل کردی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی ہنگامہ خیزیوں سے ملک میں مذہبی فضا کو آلودہ کردیا تھا۔ اسلام کیخلاف ہرزہ سرائی عروج پر تھی، غلام احمد قادیانی نے مولوی محمد حسین کے پاس مسجد چینیا لاہور میں رہائش اختیار کی اور مختلف مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگا، اس دوران گاہے بگاہے اس کی ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب ومسلک کے لوگوں سے مڈبھیڑ بھی ہونے لگی اور اس نے اپنے گرد مجمع اکٹھا کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔ اب مرزا قادیانی نے ان بحث مباحثوں سے باہر نکل کر الہام بازی کی دنیا میں قدم رکھا اور ملہم ومستجاب الدعوات ہونے کا پروپیگنڈا شروع کردیا، شہرت تو پہلے سے تھی اب اہل حاجات کی آمدورفت کا بھی سلسلہ بھی بڑھ گیا ۔ لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملا واہل یہ دو ہندو اس کے مشیر خاص اور حاشیہ نشین تھے۔ خوشامدیوں اورمدح سراؤں کی بھی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ ’’براہین احمدیہ‘‘ مرزائیوں کے نزدیک مرزا قادیانی کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ہے، یہ 564صفحات پر مشتمل کتاب ہے جس کے جواب پر مرزا قادیانی نے غیر مسلموں کے لیے 10ہزار روپے کا انعام مقرر کیا۔ اس اعلان پر مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ مرزااسلام کی تائید میں غیر مسلموں کو منہ توڑ جواب دے گا۔ ’’برائین‘‘ میں قادیانی نے ایسا لب ولہجہ اختیار کیا کہ آریوں اور عیسائیوں کے دلوں میں بھی اسلام کے خلاف نفرت وعناد میں اضافہ ہوگیا۔ پنڈت لیکھ رام نے ’’تکزیب براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے جواب شائع کیا جو دشنام طرازی اور بدگوئی میں اپنی مثال آپ تھی۔ اس بدبخت نے انبیاء ورسل کی اس قدر توہین کی کہ شاید پہلے ایسا نہ ہوا ہو اور اس سب کا ذمے دار مرزا قادیانی ہی قرار پایا لیکن مرزا اور اس کے حواریوں کے نزدیک برائین کامیاب ترین کتاب رہی۔ اسی دوران امرتسر میں مرزا قادیانی کے دوست حکیم محمد شریف کلانوری نے اس کو ’’مجدد‘‘ ہونے کے دعویٰ کا مشورہ دیا۔ چنانچہ مرزا نے ’’مجددیت‘‘ کا ڈھنڈورا بھی پیٹنا شروع کردیا اور دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں لٹریچر بھجوانے شروع کردیے۔ لیکن مرزا تجدید کے اثر کا کمال یہ ہوا کہ 20ہزار دعوتی اشتہار کی ترسیل کے باوجود ایک بھی غیر مسلم اسکا ہم نوا نہ بنا۔ علمائے لدھیانہ میں ممتاز حیثیت کے حامل مولوی محمد، مولوی عبداللہ اور مولوی اسمعٰیل تینوں حقیقی بھائیوں نے کہیں سے کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ حاصل کرکے اس کا مطالعہ کیا۔ اس میں الحاد وزندقہ کے طومار نظر آئے انہوں نے شہر میں اعلان کردیا کہ یہ شخص مجدد نہیں بلکہ ملحد وزندیق ہے اور مرزا کی تکفیر کا فتویٰ جاری کردیا۔ تھوڑے ہی دنوں بعد علماء حرمین کی طرف سے بھی مرزا کے کفر کے فتوے ہندوستان پہنچ گئے۔ جب تکفیری فتوؤں کے بعد مرزا قادیان کی سرگرمیاں متاثر ہونے لگیں تو اس نے مسیح ہونے کے اعلان کی منصوبہ بندی شروع کردی سب سے پہلے اس نے حضرت مسیحؑ کی حیات اور آپ کی آمدثانی سے انکار کیا۔ حالانکہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر498میں پہلے یہ حضرت عیسیٰؑ کی حیات اور آمد ثانی کا اقرار کرچکا تھا۔ پھر اس بدبخت نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ میں مثیل مسیح ہوں علماء حق کی جانب سے اس کے اس دعویٰ کی بھی بھرپور نفی کی گئی مگر پادریوں کی جانب سے خاموشی نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور آخر کار اس نے 1890ء میں یہ دعویٰ بھی کردیا کہ احادیث میں جس مسیح کے آنے کی پیشن گوئی کی تھی وہ میں ہی ہوں (نعوذ باللہ) جب ہر طرف سے معجزات مسیح میں سے کوئی ایک ایک معجزہ دکھانے کے مطالبات بڑھنے لگے تو اس زندیق نے معجزات مسیح کا سرے سے ہی انکار کردیا۔ 1892ء میں اس نے مہدی ہونے کا بھی دعویٰ کردیا۔ مرزا کے جھوٹ پر جھوٹ اور دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے پر اس کے محسن ومربی مولوی محمد حسین سمیت کئی لوگوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس کے جھوٹے دعوؤں کے پول کھولنے لگے اسی دوران حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑی نے مرزا قادیان کی ایسی خبر لی کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے جب اس نے محسوس کیا کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو مناظرے کی دعوت دے دی اور جب بے حد مصروفیت کے باوجود حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب مناظرے کے لیے لاہور پہنچے تو یہ بھاگ گیا اور پروپیگنڈہ پیر صاحب کے خلاف شروع کردیا کہ وہ تشریف نہیں لائے۔ 1901ء میں مرزا کذاب نے ظلی وبروزی اور غیر تشریعی بنی اور پھر اصلی نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ (معاذ اللہ)اور 29مئی 1908ء کو اچانک قہر خدا کا شکار ہوا اور ہیضہ میں مبتلا ہوکر لاہور میں پاخانے کے اندر موت واقع ہوئی۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور دعوائے نبوت قادیانیت کے دوسرے امام اور مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین 1910ء نے قادیانیوں کے دوسرے مختصر گروپ لاہوری پارٹی کے خلاف حقیقۃ النبوۃ نام کی ایک کتاب لکھی جس کے 50صفحات صرف اس لیے سیاہ کیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اسی قسم کے نبی تھے جس کے اور جیسے نبی پہلے آتے رہے اور اگلے نبیوں کے نہ ماننے والے جس طرح کافر ہیں اور نجات کے مستحق نہیں اسی طرح مرزا صاحب کے نہ ماننے والے سارے مسلمان بھی کافر اور نجات سے محروم رہنے والے ہیں۔ اس میں مرزا کی نبوت پر 20دلیلیں دی گئی ہیں، ان میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مرزا صاحب نے خود اپنے کو نبی اور رسول کہا ہے، اس کے بعد اس کے لڑکے اور حقیقۃ النبوۃ کے مصنف نے مرزا کی کتابوں سے 39 عبارتیں درج کی ہیں ان میں سے کچھ آپ بھی پڑھیے، مرزا کہتے ہیں۔ (1) میں اس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے (تتمہ حقیقۃ الوحی، صفحہ 68/از مرزا قادیانی)۔(2) ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول ونبی ہیں (بدر5،مارچ1908ء)۔(3) سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلای، صفہ11)۔(4) خدا تعالیٰ قادیان کو اس طاعون کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے (دافع البلای، صفحہ10)۔(5) پس خدا نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہوگیا۔ تب وہ وقت آیا کہ ان کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے (تتمہ حقیقۃ الوحی، ص 52) مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے دعوائے نبوت کے ساتھ ساتھ کچھ خدائی الہامات بھی گڑھے ہیں۔ اس کے بیٹے بشیر الدین محمود نے ان الہامات کو بھی اپنے باپ کی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، ان من گھڑت الہامات میں سے چند ملاحظہ کریں۔*ہم نے احمد (مرزا غلام احمد قادیانی) کو ایک قوم کے پاس بھیجا تو اس نے اعراض کیا اور کہا یہ انتہائی جھوٹا اور بہت شریر ہے۔* میں رسول کے ساتھ قائم ہوں اور ملامت کرنے والے کو ملامت کرتا ہوں۔ *میں نے نیند میں خود کو ’’ہو بہو اللہ دیکھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ میں وہی اللہ ہوں۔ (نعوذ باللہ ذالک) (آئینہ کمالات اسلام، ص564از مرزا)اسی طرح اس بدبخت کذاب نے خدا کا بیٹا ہونے کا بھی دعویٰ کیا، اس کے علاوہ کرشن، اوتار اور درجنوں جھوٹے دعوے کیے اور آج بھی اس کے پیروکار دنیا بھر میں اس کی تعلیم کو عام کرنے اور ارتدادی سرگرمیوں میں مصروف کار ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو عقل سلیم کے ساتھ ان جھوٹے مدعیان نبوت کی شرانگیزیوں سے محفوظ رکھے۔ مندرجہ بالا تحقیق وتحریر کا مقصد عالم اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ان جھوٹے نبیوں کی کارستانیوں اور ان کے عبرتناک انجام سے آگاہ کرنا مقصود ہے۔ خاتم الانبیاء سید المرسلین حضرت محمدﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں جھوٹے مدعیان نبوت کے قتل اور انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے احکامات جاری کیے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے دور خلافت میں ترجیح بنیادوں پر ان بدبختوں کا قلع قمع کیا، آپ کے بعد بھی ہر دور میں اس طرح کے لوگ سامنے آئے اور انجام بد سے دوچار ہوئے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ گزشتہ 2،3صدیوں کے دوران عالم اسلام کی جانب سے ان جھوٹے نبیوں کی سرکوبی کے لیے حکومتی سطح پر کوئی واضح اقدامات نظر نہیں آئے، مرزا غلام احمد قادیان کا اثرورسوخ اس وقت دنیا بھر کے کم وبیش 8ممالک میں مضبوط تر ہے، بالخصوص جنوبی ایشیا پاکستان اور بھارت کے مسلمان اس کے مرتد مریدوں کے نشانے پر ہیں۔ پاکستان میں حکومتی راہ داریوں میں گھسے یہ قادیانی کچھ ضمیر فروش سیاستدانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز بیورو کریٹ اور ریاستی اداروں میں اعلیٰ افسران کی حیثیت سے ہر موقع پر دین اسلام میں نقب لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ بعض ایسے لوگ بھی انہیں اپنے بہن بھائی قرار دے رہے ہیں جن کے بارے میں عمومی طور پر مسلمانان پاکستان میں اچھا تاثر پایا جاتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دین اسلام کے پاک وجود کو بچانے کے لیے ان شیطانوں اور کذابوں کا قلع قمع کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واحکامات کی پیروی کرتے ہوئے سخت سے سخت فیصلے کیے جانے چاہئیں۔