ایما ویگے ناسٹ ۔ جرمن خاتون۔ اقبال نال ایما د‏‏ی پہلی ملاقات 1907ء وچ جرمنی وچ ہوئی۔ اقبال جرمن بولی سیکھنے وچ ایما تو‏ں مدد لیا کردے سن ۔ ایما اک خوبصورت خاتون سی جس د‏‏ی ذہانت و حسن دا اقبال اُتے گہرا اثر پیا‘ جس دا اندازہ اُنہاں خطوط تو‏ں بآسانی ہوئے جاندا اے جو اقبال نے ایما دے ناں تحریر کیتے‘ جنہاں وچ جرمن بولی وچ لکھے ہوئے خطوط وی شامل نيں۔ ایما ویگے ناسٹ دا انتقال 16 اکتوبر 1964 نو‏‏ں ہويا۔[۱] "ایما ویگے ناسٹ"۔پر ایک نایاب تحریر اور اقبال کے اُن کو بھیجے گئے خطوط کا خُلاصہ "ایما ویگے ناسٹ" جن سے شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نےہائیڈل برگ میں 20 جولائی سے اکتوبر 1908ء تک جرمن زبان کا درس لیا۔ علامہ اقبال نے کیمبرج میں رہائش اختیار کرنے کے فوراً بعد میونخ یونیورسٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرا دی، تاہم یونیورسٹی کے اربابِ اختیار نے انھیں یونیورسٹی میں قیام سے مستثنیٰ قرار دے دیا اور ساتھ ہی تحقیقی مقالہ جرمن کے بجائےانگریزی زبان میں لکھنے کی اجازت دے دی، البتہ زبانی امتحان کے لیے جرمن زبان کی شرط برقرار رکھی؛ چنانچہ اقبال لندن سے بی اے اور کیمبرج سے بار ایٹ لاءکے بعد جرمن چلے آئے، جہاں جرمن زبان سیکھنے کے لیے وہ ہائیڈل برگ میں قیام پذیر ہوئے۔ "ایما ویگے ناسٹ" گہری نیلی آنکھیں، سیاہ بال، پانچ فٹ سات انچ قد اور غیر معمولی ذہانت کی حامل نہایت خوب صورت اور سلیقہ مند خاتون تھیں اور اقبال سے ملاقات کے وقت ان کی عمر اٹھائیس برس کے قریب تھی، جب کہ اقبال اُس وقت تیس سال کے تھے۔ بعض ھم عصر و مُصنّف اقبال کو ایما کا گرویدہ تو قرار دیتے ہیں، لیکن اس کا سبب وہ محض یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال کی نظروں میں مس ویگے ناسٹ اُن تمام اشیا کی نمائندگی کرتی تھیں، جن کو وہ جرمنی میں محبوب اور قابلِ تعظیم سمجھتے تھے اور جو انھیں جرمنی کے تمدن، اس کے فکر، اس کے ادب اور شاید اس کے تمام طرزِ معاشرت میں اس قدر پُرکشش معلوم ہوتی تھیں۔ خطوط اور واقعات کے مُطابق اقبال اور ایما شادی کرنا چاہتے تھے، مگر ایما نے آخری فیصلہ گھر والوں کی مرضی پر چھوڑا، جن سے وہ بہت جلد بات کرنا چاہتی تھیں۔ ایما ویگے ناسٹ کے چچازاد کی بیٹی پروفیسر کرش ہوف نے بھی یہ بات افشاء کی کہ ان کے خاندان میں اس بات کا کچھ تذکرہ تھا کہ ایک زمانے میں 1908ء کے لگ بھگ ایما ہندوستان جانا چاہتی تھیں، لیکن ان کے بڑے بھائی اور خاندان کے سربراہ مسٹر کارل نے ان کو اس دُور دراز ملک میں تن تنہا جانے سے منع کر دیا تھا۔ لیکن جس طرح ایما کے بڑے بھائی ان کے ہندوستان جانے کی راہ میں آڑے آ گئے، تقدیر کی ایک عجیب ستم ظریفی کی رو سے بالکل اسی طرح اقبال کے بڑے بھائی ان کے واپس ولایت جانے میں رکاوٹ بن گئے۔

9 اپریل 1909 کو وہ لکھتے ہیں: 'میں کوئی ملازمت کرنا ہی نہیں چاہتا، میرا منشا تو یہ ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو، اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ سبب آپ کو معلوم ہے۔ میرے اوپر اپنے بڑے بھائی کا اخلاقی قرض ہے جو مجھے روکے ہوئے ہے۔'

اخلاقی قرض یہ تھا کہ اقبال کی تعلیم کے اخراجات ان کے بھائی نے ادا کیے تھے، اور وہ یورپ سے آنے کے بعد انھیں یہ رقم لوٹانا چاہتے تھے

جب علامہ اقبال پی۔ ایچ۔ ڈی کے زبانی امتحان کے لیے میونخ چلے گئے تو ایک ماہ کے اندر اقبال نے انھیں تین خط لکھے۔ ایما ویگے ناسٹ کے نام اقبال کے خطوط کا ٹوٹل دَورانیہ اکتوبر 1907ء سے 21جنوری 1933ء تک، گویا تقریباً 26 برسوں پر محیط ھے۔ 

ایما کے نام اقبال کے خط خالص دلی جذبات کے عکاس ہیں۔ ان میں نہ علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو ہے، نہ یہ معاشرتی و تہذیبی اور نہ ہی سیاسی و عالمی صورتحال پر بات چیت ھے۔ان میں نہ علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو ہے، نہ یہ معاشرتی و تہذیبی اور نہ ہی سیاسی و عالمی صورتحال پر بات چیت ھے۔ ایما کے نام خطوط میں اقبال نے بار بار جرمن زبان میں اپنی ناپخُتگی کا اظہار کیا ۔ میونخ سے اپنے پہلے خط 17 اکتوبر 1907ء میں لکھتے ہیں: "افُسوس ہے کہ جرمن زبان سے میری محدود واقفیت ہمارے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ھے۔ اگر میرے خط مختصر ہوں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میرے پاس لکھنے کو کچھ نہیں، بلکہ یہ کہ میرا ذریعہ اظہار ناقص ہے۔ مَیں یہ بھی نہیں چاہتا کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی جرمن سے آپ کی تکلیف پہنچاؤں، لیکن یہ رکاوٹ آپ کے لیے نہیں، چنانچہ مجھے آپ سے مکمل اظہار کی امید ھے۔" اسی خیال کا اظہار بعد ازاں تواتر سے ہوتا رھا۔

11 مئی 1911ء کو بھی جرمن زبان بھول جانے کا اور اپنی بات نہ کر سکنے کا ذکر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ 30جولائی 1913ء سے اقبال، ایما کو جرمن کے بجائے انگریزی زبان میں خط لکھنے لگے۔ 7جون 1914ء کو انگریزی زبان کے جواز میں لکھتے ہیں۔

" یہ بڑے دُکھ کی بات ہے کہ مَیں آپ کو آپ کی خوب صُورت جرمن زبان میں خط نہیں لکھ سکتا۔ افسوس کہ مَیں اسے بالکل بُھول چکا ھُوں۔ اسی طرح 10 اکتوبر 1919ء کو لکھتے ہیں کہ "

مَیں یہ خط انگریزی میں لکھنے پر بڑا معذرت خواہ ہوں، لیکن مَیں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ آپ کو اس خط کا ترجمہ کروانے کی زحمت اٹھانی پڑے، بہ نسبت اس کے کہ مَیں اپنی غلط سلط اور بھونڈی جرمن سے آپ کے کان دُکھاؤں۔

"ایما ویگے ناسٹ" کے نام خطوں میں اقبال کے بعض جُملوں سے ان کے دِلی جذبات کی ترجمانی ہوتی ھے۔ لکھتے ہیں کہ "اگر میرے خط مُختصر ہوں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میرے پاس لکھنے کو کچھ نہیں۔اور کبھی یہ کہ مَیں اُس وقت تک آپ کو خط نہیں لکھوں گا، جب تک آپ مجھے وہ خط نہیں بھیجتیں، جو آپ نے پھاڑ ڈالا ھے۔ وہ بڑی حسرت سے لکھتے ہیں: 'مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب میں آپ کے ساتھ مل کر گوئٹے کا کلام پڑھا کرتا تھا۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو بھی وہ خوشیوں بھرے دن یاد ہوں گے جب ہم ایک دوسرے کے اس قدر قریب تھے۔ میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، آپ تصور کر سکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے مل سکوں۔'مَیں دوبارہ آپ سے بات کر سکوں اور آپ کو دیکھ سکوں، لیکن مَیں نہیں جانتا کہ کیا کروں۔اور کبھی یہ کہ "آپ سے دوستی کرنے والے کے لیے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے بغیر جی سکے"۔ 21 جنوری 1908ء کے خط میں لکھتے ھیں کہ! "کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ مَیں تغافل شعار ہوں؟ یہ بالکل ناممکن ہے۔ …… مَیں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوب صورت خیالوں سے معمُور رہتا ہے۔ ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے اور ایک شعلے سے ایک بڑا الاؤ رَوشن ہو جاتا ہے، لیکن آپ سرد مہر ہیں،غفلت شعار ہیں۔ جو جی میں آئے،آپ کیجیے؛ مَیں بالکل کچھ نہ کہوں گا اور ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا۔ اقبال، ایما سے مبینہ شادی تو نہ کر سکے، لیکن 1907ء سے 1933ء تک ایما ویگے ناسٹ کو پلٹ پلٹ کے آواز دیتے رھے۔ اور دوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے رھے۔ 26فروری 1908ء کو ان کا خیال تھا کہ وہ لندن سے وطن واپس جاتے ہوئے چند روز کے لیے ہائیڈل برگ میں ٹھہریں گے، دوسرا امکان یہ تھا کہ ایما، اقبال سے ملنے پیرس آجائیں۔ 3جون 1908ء کو اقبال نے اپنی مصروفیات کے پیش نظرمحسوس کیا کہ شاید وہ جرمنی کے راستے سفر نہ کر سکیں گے، لیکن ایما کو لکھا کہ میری یہ شدید خواہش ہے کہ مَیں ہندوستان لوٹنے سے پہلے آپ سے ملوں۔ پھر 3جولائی کو انگلستان سے روانہ ہوئے اور چند روز پیرس میں رُکے۔اور ایما کو لکھاکہ: "مَیں اگلے سال یورپ واپس آنے اور آپ سے ملنے کی امید رکھتا ہوں۔ مت بھولئیے گا کہ اگرچہ کئی ملک اور سمندر ہمیں ایک دوسرے سے جدا کریں گے، پھر بھی ہمارے درمیان ایک غیر مرئی رشتہ قائم رہے گا۔ میرے خیالات ایک مقناطیسی قوت کے ساتھ آپ کی طرف دوڑیں گے اور اس بندھن کو مضبوط بنائیں گے"

آنے کو تو اقبال ہندوستان آ گئے، لیکن ایما سے نہ مل سکنے کا انھیں بے حد افسوس رہا۔ 11 جنوری 1909ءکو اقبال نے اپنے ایک منصوبے کا اظہار کیا لکھتے ہیں

" کچھ عرصے بعد، جب میرے پاس کچھ رقم جمع ہو جائے گی تو مَیں یورپ میں اپنا گھر بناؤں گا۔ یہ میرا خواب ہے اور مجھے یقین ہے کہ سب پورا ہو گا۔

ہائیڈل برگ میں اپنے قیام کو اقبال ایک خواب سمجھتے تھے اور اسے دہرانا چاہتے تھے، لیکن یہ بھی جانتے تھے کہ ہماری تقدیر ہمارے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ کوئی ایسی عظیم قوت ہے، جو ہماری زندگیوں کو منظم کرتی ھے۔
پھر وہ کچھ ناامید سے ہونے لگے، 

چنانچہ 11_مئی 1911ءکو لکھا کہ ! "میری بڑی تمنا تھی کہ آپ سے ملنے کے لیے جرمنی کا دوبارہ سفر کر سکوں، مگر معلوم نہیں کہ یہ کبھی ممکن ہو بھی سکے گا۔"

1914ء میں ان کے اگلے برس یورپ جانے کاامکان پیدا ہوا تو ایما کو لکھا کہ اگر مَیں واقعی یورپ آیا تو آپ سے دوبارہ ہائیڈل برگ یاہائیل برون میں ملاقات کو آؤں گا۔ 

یہ تمام قصہ شروع ھونے پر اقبال اس وقت نہ صرف شادی شدہ تھے بلکہ دو بچوں کے باپ بھی بن چکے تھے، یہ الگ بات کہ 18 برس کی عمر میں والدین کی پسند سے کریم بی بی سے ہونے والی اس شادی سے وہ سخت ناخوش تھے۔ اسی دَوران 1913ء میں ان کی دوسری اور پھر تیسری شادی ہو گئی۔ پھر ان کو اﷲ نے جاوید سے نوازا اور پھر جب جاوید کم و بیش سات برس کا تھا اور شادی کو اٹھارہ سال ہو چکے تھے، جب اقبال اکتوبر 1931ء کو گول میز کانفرنس کے لیے لندن پہنچے۔ واپسی پر روم جاتے ہوئے وہ چند پرانے دوستوں سے ملنے کے لیے برلن میں ٹھہرنا اور وہاں سے وہ ایما سے ملاقات کے لیے ہائیڈل برگ جانا چاہتے تھے۔

اقبال اُن پُرمسرت دِنوں کی یاد تازہ کرنا چاہتے تھے،جو ہمیشہ کے لیے گزر چکے تھے، لیکن پھر یوں ہوا کہ انھیں اپنے سارا پروگرام تبدیل کرنا پڑا اور وہ لندن سے براہِ راست روم پہنچے، جہاں سے انھیں7دسمبر کو منعقدہ مؤتمر عالمِ اسلامی میں شرکت کے لیے یروشلم پہنچنا تھا، تاہم انھوں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ شاید وہ اگلے سال پھر یورپ کا سفر کر سکیں۔فلسطین میں مؤتمر عالمِ اسلامی میں شرکت کے بعد اقبال وطن پلٹ آئے تو بھی انھیں ایما کی یاد ستاتی رہی، چنانچہ 17جنوری 1932 کو ایک خط میں لکھتے ھیں کہ!

"افُسوس کہ مَیں جرمنی نہ آ سکا اور نہ اُن سہانے دِنوں کی یادتازہ کر سکا، جو مَیں نے آپ کی اور دیگر احباب کی معیت میں ہائیڈل برگ میں بسر کیے تھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اِن تمام برسوں میں مَیں نے آپ کو کبھی فراموش کیا ھو اور آپ سے دوبارہ ملنے کی تمنا ہمیشہ میرے دل میں رھی۔، لیکن

بختِ تیرہ کو جو منظور ہوا…… 

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!…… میرے ذھن نے ہمیشہ ایک کمی سی محسوس کی ھے۔ اورخود کو ہندوستانی ماحول میں تنہا سا پایا ہے، عمر کے ساتھ ساتھ اس تنہائی کا احساس بھی فزوں تر ہوا ہے، لیکن سوائے تسلیم و رضا کے ہمارے لیے اَور کوئی چارۂ کار نہیں اور مَیں نے پوری تسکینِ دل سے کے ساتھ اپنی قسمت کو قبول کر لیا ھے" اسی سال کے آخر میں اقبال پھر لندن پہنچے اور 12؍دسمبر کو ایک خط کے ذریعے ایما سے اس کی رہائش کی تصدیق کی۔ 29دسمبر کو اسے مُطلع کرتے ہیں کہ مَیں 18جنوری کو رات 10 بجکر 30 منٹ پر ہائیڈل برگ پہنچوں گا اور اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہائیڈل برگ میں میرے قیام کا واحد مقصد آپ سے اتنے سال بعد دوبارہ ملنا ھے۔ عجیب بات ھے کہ اس مرتبہ بھی اقبال کو اپنا پروگرام تبدیل کرنا پڑا، چنانچہ 21 جنوری 1933 کو میڈرڈ پہنچ کر "ایما "کو مطلع کرتے ہیں کہ افسوس، میرے لیے اس مرتبہ بھی ہائیڈل برگ آنا ناممکن ہو گا…… کیوں کہ میرے لیے ضروری ہے کہ مَیں وینس سے 10 فروری کو روانہ ہونے والے بحری جہاز

(کونتے وردی) میں سوار ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ شاید مَیں اپریل میں پھر انگلستان آؤں۔ لیکن پھر کوئی اپریل نہیں آیا کہ اقبال یورپ جاتے یا ایما سے کوئی نیا وعدہ کرتے۔

"ایما ویگے ناسٹ"کے نام اقبال کے ان تمام خطوں کا اقبال کی دلی جذبات اور ایما سے ملنے کی شدید خواہش کے اظہار کے علاوہ دیگر موضوعات سے کوئی تعلق نہیں۔ گویا ایما کے نام اقبال کے خطوط ابلاغ کے مسائل، ہائیڈل برگ میں گزارنے ہوئے دِنوں کے خوش گوار تذکرے اور دوبارہ ملاقات کے وعدوں پر محیط ھیں۔ اقبال کی شاعری میں اکثر "ایما ویگے ناسٹ" اپنی 26 سالہ جُدائی میں واضح طور پر دکھائی دیتی ھے۔ اقبال نے بہت پہلے لکھا تھا: ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں شاید یہ ان کی سادگی ہی تھی کہ ہندوستان لوٹنے کے بعد بھی ایما سے ملن کے خواب دیکھتے رہے۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی ہوائی سفر مستقبل میں تھا اور سمندر کے راستے ہندوستان سے یورپ جانے میں مہینوں لگا کرتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً سات سمندر حائل تھے۔ "ایما" اقبال کی 'میوز' بن کر ان کی شاعری میں وہ کسک اور دردمندی پیدا کر دی جس سے ان کی شاعری عبارت ہے۔ ان کے کلام میں کئی نظمیں ایسی ہیں جو اس دور کی یادگار ہیں۔ حسن و عشق،' '۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر،' 'چاند اور تارے،' 'کلی،' 'وصال،' 'سلیمیٰ،' عاشقِ ہرجائی،' 'جلوۂ حسن،' 'اخترِ صبح،' 'تنہائی' اور دیگر کئی نظمیں شامل ہیں جن پر ایما سے تعلق کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اقبال اور ایما کا ملاپ نہیں ہو سکا، لیکن اردو دنیا کو پھر بھی ایما کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ان کی بدولت اردو کو چند لازوال رومانوی نظمیں مل گئیں۔ .

حوالے

سودھو
  1. (تحریر و تحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)