امام موسی دا ظم علیہ السلام دی سیاسی تے مجاہدانہ زندگی اُتے اک نظر

تعارف:

سلسلہ امامت کے چھٹے تاجدار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے حوالے سے خصوصی تحریر

امام موسی ٰ کاظم کا دور امامت سودھو

تاریخ اسلام کےسال ۱۴۸ ہجری سے لےکر ۱۸۳ہجری تک کے اس پینتیس سالہ دورانیے،یعنی حضرت امام موسیٰ کا ظم کے دورِ امامت کا شمار ائمہ معصومین کی زندگی کے ایک اہم ترین دورمیں ہوتاہے۔اِس عرصے میں بنو عباس کے دو مقتدر ترین خلفاء(منصوردوانیقی اور ہارون)اور دو جابرترین خلفاء (مہدی اور ہادی)نے حکومت کی۔ بنو عباس نے اِس عرصے میں اپنی حکومت کے خلاف خراسان، افریقہ، جزیرۂ موصل، دیلمان، جرجان، شام، نصیبین، مصر، آذربایجان، ارمنستان اور دوسرے علاقوں میں اُٹھنے والی شورشوںاوربغاوتوںکو سختی کے ساتھ کچل کر انہیں اپنا مطیع اور فرمانبردار بنالیاتھا اورانھوں نے اپنی سلطنت کے مشرقی، مغربی اور شمالی علاقوں کو اسلامی مملکت کے وسیع قلمرو میں داخل کرلیا تھااور اِن مفتوحہ علاقوں سے حاصل ہونے والے غنائم اور دوسرے محصولات نےبنو عباس کی سلطنت کو مزید استحکام بخشا تھا۔

اِس دور میں بہت سی نظریاتی اور عقیدتی تحریکیں اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی، جبکہ بہت سی تحریکوں نے ابھی جنم لیا تھا۔ لوگوں کے اذہان اختلافی باتوں سے بھرے ہوئے تھے اور یہ چیز جہاں ایک طرف حکمرانوں کے لیے بہترین موقع فراہم کرتی تھی تو دوسری طرف ایک آفت کی صورت صحیح اسلامی معارف اور تعلیمات کا پرچار کرنے والوں کے سامنے ایک رکاوٹ بن گئی تھی اور صحیح اسلامی معارف اور علوی تحریک کی طرف دعوت دینے والوں کے لیے میدان تنگ ہوچکاتھا۔

شعر و ہنر، فقہ و حدیث یہاں تک کہ زہدو تقویٰ جیسی صفات بھی اربابِ اقتدار کی خدمت پر کمر بستہ ہوچکی تھیںاور مکمل طور پر یہ ارباب اقتدار کے ہاتھوںایک کھلونے کی شکل اختیار کر چکی تھیں۔ اس وقت نہ توبنی امیہ کے آخری دورِ خلافت کی طرح کوئی حکومت مخالف تحریک زوروں پر تھی اور نہ ہی بنوعباس کے ابتدائی دس سالہ دورِ خلافت کی طرح اور نہ ہی ہارون الرشید کی موت کے بعد کے زمانے کی طرح کہ جب مسلط حکومت کو کسی نہ کسی قسم کا خوف لاحق رہتاتھا، کوئی ایسا سنگین خطرہ خلافت کی بنیادوں کولاحق نہیں تھا،جو خلیفہ وقت کو اہل بیت کی گہری اور مسلسل دعوت سے غافل کر سکے۔

اِس دور میں ایک ہی بات جو اہل بیت اور ان کے سچے پیروکاروں کی نظریاتی اور سیاسی جنگ اور جدّوجہد کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھا سکتی تھی، وہ ان بزرگوار ہستیوں کی انتھک محنت اور اس الٰہی شیوہ، یعنی تقیہ سے متوسّل ہونا تھا۔ یہاں سے حضرت امام موسیٰ کاظم ں کے جہاد کی حیرت انگیز عظمت اور ہیبت آشکار ہوجاتی ہے۔

میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ مورخین کو تاریخ اسلام قلمبند کرتے وقت حضرت امام موسیٰ کاظم کےحالات زندگی کے جس پہلو پرہوشیاری کے ساتھ سب سے زیادہ توجہ د ینی چاہیے تھی جبکہ اتنی توجہ نہیں دی گئی، وہ آپؑکی زندگی کا عظیم اور بے نظیر واقعہ ’’طویل المدّت اسیری‘‘ کا پہلو اور واقعہ ہے، جس کے نتیجے میں مورخین آپ ؑکے اس عظیم جہاد سے غافل رہےہیں۔

حضرت امام موسیٰ کاظم کے ۳۵سالوں پر محیط دورِ امامت میں آپؑکی مسلسل جدّوجہد اور جہاد، آپؑکی زندگی کے مختلف پہلوؤں، واقعات اور آپ ؑکی علمی و روحانی زندگی، آپؑکا الٰہی مقام، آپؑکا خاندان، اصحاب اور شاگردوں سے متعلق واقعات اور اُن کے علمی اور کلامی مباحثوں کے تذکروںاور اِس قسم کی دوسری چیزوں کو بیان کیے بغیر آپؑکے حالاتِ زندگی کا مکمل احاطہ ممکن نہیں ہوسکتا ،بلکہ اس طرح کا زندگی نامہ ناقص اور نامکمل رہ جائے گا۔ یہ آپؑکی بابرکت زندگی کا وہ حصہ ہے جس کی وضاحت کے ذریعےآپؑکی حیات کے مختلف پہلوؤں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ایک ایسی مکمل اور واضح تصویر پیش کی جاسکتی ہےجس میں آپؑکی حیات کےہر واقعے کی حقیقت کو بیا ن کیا جاسکے۔

حضرت امام جعفر صادق مفضّلؒ سے یہ کیوں کہتے ہیں کہ: اِس جوان کی امامت کے بارے میں صرف قابلِ اعتماد لوگوں کو بتایا کرو؟اور عبدالرحمن بن حجاج کو واضح طور پر بتانے کی بجائے اشاروں کنایوں میں فرماتے ہیں کہ: کیازرہ ان کے جسم پربرابر آئی ہے ؟اور اپنے انتہائی قریبی اصحاب جیسے صفوان جمالؒ کے سامنے آپؑکا علامتوں اور نشانیوں کے ساتھ تعارف کراتے ہیں؟یہاں تک کہ اپنے وصیت نامے میں اپنے فرزند(امام موسیٰ کاظم) کا نام بطورِ وصی ،چاردوسرے لوگوں کے بعددرج کرتے ہیں جن میں سب سے پہلانام منصور عباسی کا تھا اور اس کے بعد حاکمِ مدینہ کااور اس کے بعد دوعورتوں کے نام ہیں؛ چنانچہ امام جعفر صادق؈ کی شہادت کے بعد شیعہ اکابرین کے ایک بڑےطبقے کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ آپؑکا جانشین یہی بیس(۲۰) سالہ جوان ہیں؟کیوں ہارون رشید کے ساتھ اپنی ایک گفتگو کے دوران جب وہ آپؑکے بھتیجے کا قول نقل کرتا ہے کہ’’خَلِیْفَتَانِ یَجِیْئُ اِلَیْھِمَا الْخَرَاجُ‘‘[۱]

تو آپؑنرم انداز میں گفتگو کرتے ہوئے انکارآمیز رویہ اپناتے ہیں ؟لیکن اس سے کچھ ہی دیر پہلے حسین بن عبداللہ نامی ایک زاہد اور پرہیزگار شخص سےگفتگو کے دوران امام کی معرفت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خود کو’’مُفْتَرَضُ الطَّاعَۃ‘‘ امام و پیشوا،یعنی اِس مقام کے حامل کے طور پر تعارف کرواتے ہیں کہ جس پر اس وقت خلیفہ براجمان تھا؟

کیوں امام موسیٰ کاظم اپنے ایک چاہنے والے شخص’’ علی بن یقطین‘‘ کو جو ہارون کے دربار میں ایک اہم عہدے پر فائزتھا تقیہ پر عمل کرنے کا حکم دیتےہیں ،جبکہ صفوان جمال کی اسی دربار میں ملازمت کرنے پر اُن کی سرزنش کرتے ہوئے خلیفہ کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرنے کا حکم دیتےہیں؟کس طریقے سے اور کن ذرائع سے وسیع و عریض اسلامی ریاست میں اپنے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے ساتھ رابطہ برقرار کیے ہوئے ہیں جو چین تک پھیلا ہوا ہے؟

آخر کیوں منصور، مہدی ،ہادی اور ہارون میں سے ہر ایک اپنے دورِ اقتدار میں امامؑ کو قتل، قید اور جلاوطن کرنے پر کمر بستہ ہوجاتا ہے ؟[۲]آخر بعض روایات سے یہ کیوں معلوم ہوتاہے کہ آپؑاپنے پنتیس(۳۵) سالہ دورِ امامت میں بعض اوقات شام کے دیہاتوں، قصبوں یا طبرستان کے بعض علاقوں میں روپوشی کی زندگی گزارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ؟اور خلیفۂ وقت آپؑکی تلاش میں رہتاہے اور امامؑ اپنے دوستوں اور پیروکاروں کو یہ تاکید فرماتے ہیں کہ اگر خلیفہ میرےبارے میں پوچھے تو اُس سے کہیں کہ ہم امام موسیٰ کاظم کو نہیں جانتے یا یہ کہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس وقت آپؑ کہاں ہیں؟

آخر کیا وجہ ہے کہ ہارون ایک مرتبہ سفر حج کے دوران بہت شان و شوکت کے ساتھ آپؑکا احترام کرتے ہوئے ،خاطر مدارات کرتاہے تو دوسری مرتبہ آپؑکو گرفتار کرتے ہوئے جلاوطن کرنے کا حکم دیتاہے؟اور کیوں امام موسیٰ کاظم نے ہارون کے دورِ خلافت کی ابتداء میں جبکہ ہارون نے نرم رویہ اختیار کیا ہواتھا اور علویوں کو قید سے رہابھی کررہاتھا،باغِ فدک کی حدود بیان کرتے ہوئے وسیع وعریض اسلامی ریاست کے تمام علاقوں کو اس میں شامل قراردیا ؛یہاں تک کہ یہاں تک کہ خلیفہ کو اعتراض کرتے ہوئےیہ کہنا پڑاکہ: تو پھر آپؑآجائیں اورمیری جگہ بیٹھ جائیں ؟اور کیوں اسی مہر بان خلیفہ کا رویہ کچھ ہی سالوں بعد اس قدر تلخ اور سخت ہوجاتاہے کہ آپؑکو زندان میں ڈال دیتا ہے اور سالہا سال قید رکھنے کے بعد قید خانے میں بھی آپؑکا وجو دِمقدس اُس کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتاہے اور وہ انتہائی سفّاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو زہر دیکر شہید کرادیتاہے؟

اِس قسم کے دوسرے سیکڑوں توجہ طلب، پرمعنی اور بظاہر آپس میں بے ربط اور کبھی تو آپس میں متضاد واقعات سے امام موسیٰ کاظم کی زندگی بھری ہوئی ہے اور یہ واقعات اس وقت با معنی اور مربوط ثابت ہوں گے جب ہم اِس عظیم امامؑ کی امامت کے آغاز سےلےکر شہادت تک زندگی کے تمام واقعات کا تسلسل کے ساتھ جائزہ لیں۔

یہ چیز وہی ائمہ معصومین کی ڈھائی سوسالہ زندگی کے دوران جہاد اور مبارزہ آرائی سے عبارت ہے جو ہر دور میں مختلف شکل اور مختلف انداز میں جاری رہی ہے اور اس کا پہلا ہدف ومقصد؛خالص اسلام ِ محمدی ؐ کی تبیین و تشریح ،قرآن کی صحیح وواقعی تفسیر اور اسلامی معارف کی واضح وروشن تصویر پیش کرنا ہے اور دوسرا ہدف و مقصد؛اسلامی معاشرے میں امامت اور سیاسی حاکمیت کے مسئلے کو (بہترین اور صحیح انداز سے)اُجاگر کرنا ہے اور تیسرا ہدف و مقصد ؛اس معاشرے کی تشکیل کے لیے سعی و کوشش کرنا ہے جس کے وجود میں لانے کے لیے پیغمبر اکرمﷺ اور دوسرے انبیائے الٰہی مبعوث ہوئے ؛یعنی (معاشرے میں)عدل و انصاف کا قیام اور دشمنانِ خدا کو تختِ حکومت و سلطنت سے برطرف کرتے ہوئے ،اُن کی جگہ حقیقی الٰہی خلفااور خداوند متعال کے نیک و صالح بندوں کو (لوگوں کی)زندگی کے تمام اُمور کی باگ ڈور سپرد کرنا ہے۔

امام موسیٰ کاظم نے اپنی پوری زندگی اِسی مقدس جہاد کے لیے وقف کر رکھا تھی، آپؑکا درس و تدریس، تعلیم و تربیت، فقہ، حدیث، تقیہ سب کا محور یہی تھا۔ البتہ آپؑکا دور بعض امتیازی خصوصیات کا حامل بھی تھا،پس اِس لحاظ سے آپؑکا جہاد بھی اپنے زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے حضرت امام زین العابدین سے لےکر حضرت امام حسن عسکری تک ہمارے آٹھ اماموںؑ میں سے ہر ایک نے اپنے زمانے کے مخصوص حالات کے مطابق اپنا جہاد جاری رکھا۔ مجموعی طورپر اِن آٹھ اماموں کا دورہمارے ائمہ اطہارکی ڈھائی سوسالہ دورِحیات کے چوتھے مرحلے کو تشکیل دیتاہے جو خود بھی کئی مرحلوں میں تقسیم ہوتاہے۔ (۱۸؍۱۰؍۱۹۸۹ء)

امام موسیٰ کاظم تقیہ کا اصول اورانتھک جدّوجہد سودھو

حضرت امام موسیٰ کاظم کی زندگی ایک حیرت انگیز اورتعجب آور زندگی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امامؑ کی خصوصی زندگی کے حالات سے صرف آپؑکے قریبی لوگ ہی باخبر تھے۔ آپؑکے قریبی رشتہ داروں اور اصحاب میںسے کوئی ایک بھی ایسانہ تھا جو یہ نہ جانتاہوکہ امام موسیٰ کاظم کی جدوجہد کا مقصد کیا ہے۔ خود امامؑ اپنے ارشادات اور اشاروں کنایوں میں لوگوں کو یہ سمجھاتے رہتے تھے کہ آپؑکا مقصد کیا ہے۔ یہاں تک کہ امامؑ کی رہائشگاہ ،یعنی وہ حجرہ جس میں امام موسیٰ کاظم قیام فرماتے تھے وہ ایسا تھا کہ راوی (جس کا تعلق امام ؑکے قریبی اصحاب میں سے ہے) کہتاہے کہ میں امام موسیٰ کاظم کےحجرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اس میں تین چیزیں رکھی ہوئی تھیں؛ ایک سخت قسم کا کھردرا لباس، جو عام قسم کے آرام دہ لباس کے برعکس ہوتا ہے، یعنی آج کی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک جنگی لباس، جس کو امام موسیٰ کاظم نے پہناہوا تونہیں تھا لیکن ایک علامت کے طور پر حجرے میں رکھاہواتھا اور دوسری چیز’’سَیْفٌ مُعَلَّقٌ‘‘یعنی ایک تلوار چھت یا دیوار پر لٹکی ہوئی تھی اور تیسری چیز’’مُصْحَفٌ‘‘یعنی قرآن مجید رکھا ہوا تھا۔[۳]قارئین کرام! غور کیجئے کہ امام موسیٰ کاظم کے اِس مخصوص حجرے میں جہاں، آپؑکے قریبی اصحاب کے علاوہ کوئی جا نہیں سکتا، وہاں آپؑنے کتنی خوبصورت چیزیں رکھی تھیں۔ یہ چیزیں خود بتاتی ہیں کہ یہ ایک نظریاتی قسم کے جنگجو مجاہدانسان کا حجرہ ہے۔ تلوار کی موجودگی اِس بات کی علامت ہے کہ آپؑجہاد کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جنگی لباس کی موجودگی اِس بات پر شاہد ہے آپؑکی زندگی ایک سخت قسم کی جنگی اور انقلابی زندگی ہے اور قرآن مجید کی موجودگی اِس بات کی نشانی ہے کہ آپؑاپنی زندگی کو قرآنی اصولوں کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں۔ پس اس مقصد کے حصول کے لیے ان وسائل سے استفادہ کرتے تھے جس کے نتیجے میں سختیاں اور تکالیف بھی جھیلتے تھے،امامؑ کے دشمنوں کو بھی اِس بات کا بخوبی علم تھا۔

حضرت امام موسیٰ کاظم کی زندگی یعنی آپؑکی امامت کا آغاز ایک مشکل ترین زمانے میں ہوا۔ میرے خیال میں حضرت امام زین العابدین کے علاوہ دیگراماموںؑکی زندگیوں میںایساسخت دور کبھی نہیں آیا۔جب ۱۴۸ہجری میں اپنے والدِ گرامی کی شہادت کے بعدحضرت امام موسیٰ کاظم منصب امامت پر فائز ہوئے تو اُس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ بنوعباس اپنی خلافت کی ابتداء میں پیداہونے والے داخلی اختلافات اور آپس کی جنگوں سےفراغت پاچکے تھے۔ بڑے بڑے سرکشوں اور باغیوں کو جن کی طرف سے اُن کی حکومت کو خطرات لاحق تھے، جیسے بنی الحسن، محمدبن عبداللہ ابن حسن، ابراہیم بن عبداللہ ابن حسن اور امام حسن مجتبیٰ کی اولاد میں سے دیگر افراد کہ جن کا شمار بنو عباس کی حکومت کے سخت مخالفین میں ہوتا تھا، ان سب کی سرکوبی کرنے کے بعد ، انہیں خاموش کردیا تھا۔ بہت سے حکومت مخالفین کو قتل کرکے ان لاشوں کو ایک مخصوص جگہ پر جمع کیا گیا تھاکہ جس کے بارے میں منصور عباسی کے مرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس نے بہت سی اہم حکومت مخالف شخصیات اور دیگر افراد کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو ایک جگہ جمع کررکھاتھا جہاں ان کے ڈھانچے اس وقت بھی موجود تھے۔

منصور عباسی نے اپنے دورِ خلافت میں بنی الحسن، بنی ہاشم اور یہاں تک کہ خود اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے بہت ساری اہم شخصیات قتل کرایاتھاکہ ان کے ڈھانچوں سے ایک اسٹور بھراہواتھا۔ منصور عباسی جب اِن تمام افرادسے نمٹ چکاتو اب امام جعفر صادق کی باری آئی اور اس نے آپؑکو بھی زہر دیکر شہید کردیا۔ امام جعفر صادق کی شہادت کے بعد بنوعباس کی سیاسی زندگی میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی تھی۔ کچھ اس قسم کے حالات میں جب منصور عباسی اپنے اقتدار کے عروج پر تھےتو حضرت امام موسیٰ کاظم کے دورِ امامت کا آغاز ہوا۔ جبکہ آپؑابھی نوجوان ہی تھے۔ تمام تر حفاظتی انتظامات کے ساتھ، یہاں تک کہ جولوگ امام جعفر صادق ؈کے بعد یہ جاننا چاہتے تھے کہ امام ؑوقت کون ہیں اور انہیں کس سے رجوع کرنا چاہیے ؟تو وہ بڑی مشکل سے حضرت امام موسیٰ کاظم تک پہنچ پاتے تھےاور آپؑ بھی انہیں یہ نصیحت فرماتے تھے کہ خبردار ہوشیار رہنا اگر دشمن کو معلوم ہوگیاکہ تم لوگ مجھ سے ملتے ہو، مجھ سے رابطے میں ہو اور مجھ سے اسلامی تعلیمات حاصل کرتے ہوتو اس کا مطلب ’’الذّبح‘‘یعنی قتل ہوجانا ہے۔ پس امام موسیٰ کاظم کچھ ایسے حالات میں منصبِ امامت پر فائز ہوئے اور اپنی جدوجہد کا آغاز فرمایا۔

اب اگر کوئی سوال کرے کہ حضر ت امام موسیٰ کاظم؈ نے منصبِ امامت پر فائز ہونے کے بعد کس طرح جدوجہد کی، کونساکارنامہ انجام دیا، کن لوگوں کوجمع کیا، کہاں کہاں تشریف لے گئے اورآپؑکے پینتیس(۳۵) سالہ دور ِامامت میں کون کونسے واقعات رونما ہوئے، تو افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے کہ اِن سوالات کا میرے پاس کوئی واضح جواب نہیں ہےاور یہ چیز ایک ایسے شخص کے لیے انتہائی دکھ کی بات ہے جو صدرِ اسلام پر تحقیق کرتاہو،کیونکہ اِس حوالے سے ہمارے پاس کوئی چیز موجود نہیں ہے،یعنی امام موسیٰ کاظم کے۳۵ سالہ دورِ امامت کے حالات و واقعات مرتب اور مدوّن صورت میں موجود نہیں ہیں۔ میں یہ جو عرض کررہاہوں کہ اِس حوالے سے کوئی کتاب نہیں لکھی گئی اور نہ کسی نے کوئی تحقیق کی ہے ،تو میرا مطلب یہ ہے کہ محققین کو یہ کام کرنا چاہیےکیونکہ بہت سی پراکندہ اور بکھری ہوئی باتیں اور واقعات موجود ہیں جنھیںجمع کرکے اِن سے بہت کچھ سیکھا اور سمجھاجاسکتاہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم کے پینتیس(۳۵) سالہ دورِ امامت میں بنو عباس کے چار خلفاءنے حکومت کی ہے؛ان میں سے ایک منصور عباسی ہے جو امام ؑکے پہلے دس سالہ دورِ امامت میں برسراقتداررہا۔ اُس کے بعد اس کا بیٹامہدی خلیفہ بنااور وہ بھی دس سال تک اقتدار پر رہا۔ مہدی کے بعد اُس کا بیٹا ہادی ایک سال تک منصب خلافت پر بیٹھا اور ہادی کے بعد ہارون رشید تقریباً بارہ سال تک برسراقتدار رہا۔ ہارون رشید سمیت اِن تمام خلفاءکے دورِ حکومت میں امام موسیٰ کاظم لوگوں کو امامت کی طرف دعوت دیتے رہے اور اِن چاروں خلفامیں سے ہر ایک کسی نہ کسی طریقے سے امام موسیٰ کاظم  کو کوئی نہ کوئی تکلیف پہنچانے کی کوششیں کرتا رہا۔

امام موسیٰ کاظم کی جلاوطنی اور باربار اسارت سودھو

منصور دوانیقی نے امام موسیٰ کاظم کو بغداد طلب کیا؛یعنی آپؑکو اپنے گھر اور اپنے شہرسے جلاوطن کرکے زبردستی بغداد طلب کیا۔ البتہ یہ جو باتیں میں عرض کررہاہوں یہ امام موسیٰ کاظم کی زندگی میں پیش آنے والے بعض واقعات ہیں جب انسان آپؑکی حیاتِ طیبہ کا بغور مطالعہ کرتاہے تومعلوم ہوتاہے کہ آپؑکی زندگی اِس قسم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ انہیں واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ آپؑکو زبردستی مدینہ سے بغداد لایا گیا۔ بغداد لانے کے بعد ایک عرصہ تک آپؑکو نظر بند رکھاگیا اور آپ ؑ پر بہت سختی کی گئی۔ جیسا کہ روایات سے بھی معلوم ہوتاہے کہ آپؑکو بالکل تنہا اور سخت پہرے میں رکھا گیا تھا۔ یہ آپؑکی زندگی کا ایک واقعہ ہے، لیکن یہ سلسلہ کتنےعرصے تک جاری رہایہ معلوم نہیں ہے۔ بظاہرایک مرتبہ پھر اسی منصور ہی کے دورِ خلافت میںامام موسیٰ کاظم کو جلاوطن کرکے عراق کے علاقے’’ابجر‘‘ بھیجا گیا۔ روای کہتاہےکہ جب میں وہاں پرحضرت مام موسیٰ کاظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑنے اِن واقعات کی تفصیل مجھے سےبیان کی۔

مہدی عباسی کے دورِ خلافت میں بھی امام موسیٰ کاظم کو کم ازکم ایک مرتبہ مدینہ سے بغداد لایا گیا۔ راوی کہتاہے کہ جس راستے سے حضرت امام موسیٰ کاظم؈ بغداد جارہے تھے یا آپؑکو لے جایا جارہاتھا ’’فِی الْمَقْدَمَۃِ الْاُوْلیٰ‘‘ یعنی  جب پہلی مرتبہ آپؑ کو بغداد لے جایا جارہا تھا(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑکو کئی مرتبہ بغداد لے جایا گیا اور میرے خیال میں مہدی عباسی کے دورِ خلافت میں آپؑکو دو یا تین مرتبہ مدینہ سے بغداد لے جایا گیاہے) چنانچہ راوی کہتاہے کہ میں امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اورمیں نے افسوس اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو حضرتؑ نے فرمایا:’’ تم پریشان مت ہو میں اِس سفر سے صحیح و سالم واپس لوٹ جاؤں گا اِس سفر میں یہ لوگ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔‘‘ یہ ہے مہدی عباسی کادورِ خلافت۔  

ہادی عباسی کے دورِ خلافت میں بھی امام موسیٰ کاظم کو بغداد لاکر شہید کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں ،لیکن اہل بیت رسول  کے ساتھ بنو عباس کے اس رویے پر ہادی عباسی کے دربار سے وابستہ ایک فقیہ کو دلی صدمہ ہوااوراُس نے ہادی عباسی کو اپنے اِس منصوبے سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا۔ اسی طرح ہارون رشید کے دورِ خلافت میںبھی حضرت امام موسیٰ کاظم کو بغداد بلایا گیا۔ میرے خیال میںہارون کے دورِ خلافت میں بھی آپؑکو ایک سے زیادہ مرتبہ اپنے شہر مدینہ سے جدا کیا گیا، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ حضرتؑکوایک بار یقینی  طور پرمدینہ سے بغداد لاکر وہاں کے مختلف قید خانوں میں قید رکھا گیایہاں تک بغداد ہی میں’’ سندی بن شاہک ‘‘کے قید خانے میں آپؑکو(زہر دے کر) شہید کردیاگیا۔

قارئین کرام!ذرا غور کیجئے کہ اِس چونتیس یا پینتیس سالہ دور میں آپؑاپنے فرائضِ منصبی کو نبھاتے ہوئے مسلسل نظریۂ امامت کی تبلیغ میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اِس دوران آپؑ کے زمانے کے خلفا نےمتعدد بار آپؑکو شہید کرنے کے منصوبے تیار کیا۔ منصور کا بیٹا مہدی جب پہلی مرتبہ خلیفہ بناتو اس نے اپنے وزیر یا قریبی راز دار شخص ’’ربیع‘‘ سے کہا کہ موسیٰ بن جعفرؑ کا کام تمام کرنے کا کوئی منصوبہ بناؤ۔ کیونکہ اسے بخوبی معلوم تھا کہ اگر اس کے لیے کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ امام موسیٰ کاظم  ہی کی طرف سے ہے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہادی عباسی نے بھی اپنی خلافت کے آغاز ہی میںحضرت امام موسیٰ کاظم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، یہاں تک کہ اس نے اس حوالے سے ایک شعر بھی کہا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے: ’’بنوہاشم کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا زمانہ اب ختم ہوگیاہے اب تو میں نے یہ مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ تم میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گااور موسیٰ ابن جعفرؑ وہ پہلا شخص ہے جن کا کام سب سے پہلے تمام کردوں گا۔‘‘۔ ہادی کے بعد اس کابیٹا ہارون بھی یہی کچھ کرنا چاہتاتھا اور اس نے ایسا کر دکھایا اور اِس قبیح جرم کا وہ مرتکب ہوا۔ اب آپ غور کیجئے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم  نے کس قسم کے حالات میں زندگی گزاری ہے۔

اس کے علاوہ بھی امام موسیٰ کاظم کی زندگی کے بہت سارے اذیت ناک چھوٹے بڑے واقعات موجود ہیں۔ یقیناآپؑکی زندگی کا ایک حصہ روپوشی میں گزرا ہے اور لوگوں کو بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ آپؑ کہاں ہیں؟ اِس دوران خلیفہ وقت لوگوں کو بلا بلاکر ان سے پوچھتارہتاتھاکہ کیا تم نے موسیٰ بن جعفرؑ کو دیکھا ہے ؟اور وہ کہتے تھے: نہیں ہم نے نہیں دیکھا ! یہاں تک کہ(جیسا کہ روایت میں ہے) حضرت امام موسیٰ کاظم نے ایک شخص سے کہاکہ تجھ سے میرے بارے میں ضرور پوچھاجائے گا لیکن تم بالکل انکار کرنا اور اُن سے کہنا کہ میں نےانہیں نہیں دیکھا ہے اور بعد میں ایسا ہی ہوا اور اس شخص کو زندان میں ڈالاگیا تاکہ اس سےیہ بات اگلوائی جا سکے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم کہاں پرروپوش ہیں۔

اندازہ کیجئے کہ ایسی زندگی گزارنے والا شخص کون ہوسکتاہے؟ایک ایسا شخص جو صرف دینی احکام اور اسلامی معارف بیان کرتاہو اور حکومتی معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھتاہو ،وہ کبھی ایسی مشکلات کا شکار نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ حضرت امام موسیٰ کاظم کے بارے میں، میں نے ایک روایت میں پڑھاہے کہ آپؑاپنی روپوشی کے دوران شام کے گاؤں، دیہاتوں میں زندگی گزاررہے تھے۔ ’’وَ قَعَ مُوسیٰ بْنُ جَعْفَرُ بَعْضَ قُرَای الشَّام ھَارِبًامُتَنَکِّرًا فَوَقَعَ فِی غَارِ‘‘۔ ب[۴]یعنی روایات میں ہے کہ ایک مدّت تک امام موسیٰ کاظم مدینہ میں موجود ہی نہیں تھے بلکہ شام کے دیہاتوں میں حکومتی جاسوس آپ کا پیچھا کررہے تھے اور آپ اپنا حلیہ بدل کر اجنبی شخص کےبھیس میں ایک دیہات سے دوسرے دیہات چلے جاتے تھے۔ چلتے چلتے آخر ایک غار میں پہنچتے ہیں اور اُس میں داخل ہوجاتے ہیں، جہاں ایک نصرانی بھی موجود تھا ۔حضرت اس شخص کے ساتھ اسلام کی حقانیت کے بارے میں بحث ومناظرہ کرتےہیں ؛یعنی اِس حال میں بھی آپؑ الٰہی فریضےکی انجام دہی سے،یعنی حقیقت بیان کرنے سے غافل نہیں رہتے۔آپؑاس نصرانی کے ساتھ بحث و مباحثہ کرکے اور اسے مسلمان بناتے ہیں ۔

امام موسیٰ کاظم کی زنددگی،جہد مسلسل کا نمونہ سودھو

آپ دیکھیں کہ امام موسیٰ کاظم کی زندگی کس قدر پُر جوش اور ولولہ انگیز واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ آج ہم یہاں بیٹھ کر یہ سوچتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ کاظم ایک مظلوم، خاموش اور غیر جانبدار شخص تھے جو مدینہ میں خاموشی سے زندگی گزار رہے تھےاور حکومتی کارندوں نے ایسے ہی آپؑ کوگرفتار کر کے بغداد، کوفہ یا بصرہ میں قید کیا اور بعد میں زہر دیکر آپؑکو شہید کردیاگیا۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے،بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور تنظیمی اُمور کارفرماتھے۔ یہ ایک ایسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ جس میں امام موسیٰ کاظم پورے عالم اسلام میں موجوداپنے بہت سارے پیروکاروںاور چاہنے والوں کےہمراہ حکومت وقت کے خلاف مشغول عمل تھے،یہی وجہ ہے کہ آپ کا وہ نافرمان بھتیجاجو دربارِخلافت سے وابستہ تھا، ہارون رشید کے ساتھ حضرت امام موسیٰ کاظم کے بارے میں بات کرتے ہوئے یوں اظہار کرتاہے: ’’خَلِیْفَتَانِ یَجِی ءُ اِلَیْھِمَا الخَرَاج‘‘وہ کہتا ہے کہ اے ہارون! تم یہ خیال نہ کرنا کہ اسلامی سلطنت پر صرف تم ہی خلیفہ ہو اور لوگ صرف تمھیں خراج دیتے ہیں ،بلکہ اِس وقت عالم اسلام میں دوخلیفہ ہیں؛ ایک تم ہو اور دوسرے موسیٰ کاظم ہیں۔ جس طرح لوگ تمھیں خراج دیتے ہیں، ایسے ہی موسیٰ کاظم کو بھی دیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت بھی تھی۔ اگرچہ وہ تو یہ باتیں اپنی خباثت کی وجہ سےکررہاتھا اور وہ اِن باتوں کے ذریعے امام موسیٰ کاظم کے خلاف خلیفہ کو بھڑکارہاتھا ،لیکن یہ اپنی جگہ ایک حقیقت بھی تھی کہ پورے عالم اسلام میں ایسے لوگ موجود تھے جن کے امام موسیٰ کاظم سے تعلقات اور روابط تھے لیکن وہ اِس حد تک نہیں تھے کہ امام موسیٰ کاظم کھلم کھلاکوئی مسلحانہ جدّوجہد کرسکتے۔

امام موسیٰ کاظم کچھ ایسے حالات میں زندگی گزاررہے تھے یہاں تک کہ ہارون رشید کی باری آپہنچی، جب ہارون خلیفہ بن گیا تو اسلامی معاشرے میں کسی قسم کے اختلاف و انتشار کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حکومتِ وقت کسی قسم کی پریشانی کے بغیر یک سوئی کے ساتھ اپنے معاملات چلانے میں مشغول تھی؛لیکن اِس کے باوجود امام موسیٰ کاظم کے حالات زندگی اور آپ کی وسیع تبلیغا ت کا سلسلہ کچھ اس طرح جاری تھاکہ اس سے نمٹناحکمرانوں کے لیے کوئی آسان کام نہ تھا۔ چونکہ ہارون رشید سیاست سے باخبر اور ایک انتہائی ہوشیار شخص تھا لہٰذا ہارون الرشید نے جو اقدامات کیے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ بذات خود مکہ چلا گیا۔ مشہور مورّخ طبری کا خیال ہےکہ بظاہر تو ہارون رشید حج کے لیے مکہ گیا تھا لیکن اُس کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ خود مخفی طور پر مدینہ جاکر حضرت امام موسیٰ کاظم کو قریب سے دیکھےکہ آپؑ ہیں کیا؟ وہ یہ دیکھنا چاہتاتھاکہ یہ عظیم شخصیت جس کے بارے میں اتنی ساری باتیں کی جارہی ہیں، جس کے اتنے سارے چاہنے والے موجود ہیں، یہاں تک کہ بغداد میں بھی ان سے محبت کرنے والے بہت سارے موجود ہیں، یہ کس قسم کی شخصیت کے مالک ہیں؟کیاواقعاً ان سے ڈرناچاہیے یا نہیں؟لہٰذا وہ مدینہ آتاہے اور امام موسیٰ کاظم سے کئی ملاقاتیںکرتاہے۔ یہ ملاقاتیں ناقابل تصور حد تک اہم اور حساس ہیں۔ ان میں سے ایک ملاقات مسجد الحرام میں ہوئی جس میں بظاہر امام موسیٰ کاظم ہارون کے ساتھ سختی سےپیش آتے ہیں اور دونوں کے درمیان سخت باتوں کی تکرار ہوتی ہےجس میں امام موسیٰ کاظم لوگوں کی موجودگی میں ہارون کی شان و شوکت خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اُس وقت ہارون امام موسیٰ کاظم کو نہیں پہچانتا تھا۔

اِس کے بعد ہارون مدینہ آتا ہے اور وہاں بھی امام موسیٰ کاظم کے ساتھ کئی ملاقاتیں کرتاہے یہ ملاقاتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ میں اِس حد تک اشارہ کرنے پر اکتفاء کرتاہوں تاکہ جو لوگ اہلِ مطالعہ اور اہلِ تحقیق ہیں اور اِس قسم کے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ اِن مسائل پر تحقیق کریںاور اِن کی بنیادوں تک پہنچ جائیں۔ منجملہ یہ کہ ہارون رشید اِن ملاقاتوں میں وہ سارے کام کرتاہے جو اپنے کسی مخالف شخص کورام کرنے نیزایک حقیقی مجاہد کو زیرکرنےکے لیے ضروری ہوتے ہیں، یعنی دھمکی، لالچ، دھوکہ دہی وغیرہ۔(۱۲؍۰۴؍۱۹۸۵ء)

ہارون رشید خلیفہ بننےکے بعد جب پہلی مرتبہ مدینہ آیاتو اُس نے حضرت امام موسیٰ کاظم کو بڑی عزت دی اور آپؑکا احترام کیا۔ اِس سلسلےمیں مامون کی زبانی ایک مشہور واقعہ بھی ہے۔ وہ کہتاہے جب ہم مدینہ گئے تو ایک دفعہ امام موسیٰ کاظم ایک گدھے پر سوار ہوکر اس محل میں پہنچے جہاں میرے والد ہارون نے قیام کر رکھاتھا اور جب امام موسیٰ کاظم سواری سے اُترنے لگےتو ہارون نے قسم دے کر کہا:نہیں! آپؑ میری مسند تک اپنی سواری پر ہی تشریف لائیں۔ چنانچہ آپؑاپنی سواری پر ہی ہارون کی مسند تک چلے آئے۔ اِس کے بعد ہارون انتہائی عزت و احترام کے ساتھ آپؑکے ساتھ پیش آیااور اس کے بعد جب آپؑجانے لگے تو ہم سے کہا کہ تم سب امام موسیٰ کاظم کی سواری کی رکاب تھامے رکھو۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مامون اپنی اسی روایت میں کہتاہے کہ میراباپ ہارون نے سب کو پانچ ہزار اوردس ہزار دینار دیتا تھااس نے امام موسیٰ کاظم کو صرف دوسو دینار دئیے، جبکہ اس سے پہلے ہارون نے امامؑ سے احوال پرسی کی تھی تو آپؑنےفرمایاتھا کہ چونکہ میری اولادزیادہ ہےجس کی وجہ سے بے شمار مسائل ہیں اور میری مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔

ہارون کے ساتھ امامؑ کی یہ گفتگو بھی بڑی دلچسپ ہے۔ میری نظر میں ہارون ریشد کے ساتھ امام موسیٰ کاظم کی اِس قسم کی گفتگوہمارے لیے بالکل واضح اور قابل فہم ہےکہ کس طرح ایک انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ہارون جیسے شخص سے اپنے مسائل بیان کرے اور کہے کہ جی ہاں! ہماری مالی حالت خراب ہے، گزربسر نہیں ہورہا اور اِس قسم کی باتوں کا مطلب کسی سے اپنی حاجت طلب کرنا اور دستِ نیاز دراز کرنا نہیں، بلکہ جو شخص ایسے تجربات سے گزرچکاہو ،وہ بخوبی سمجھ سکتاہے ہے کہ اِن باتوں کا مطلب کیا ہوتا ہے؟

میں جانتاہوں کہ آپ میں سے بہت سارے لوگوں نے شاہی دور حکومت کے اُن مشکل اور کھٹن ایام میں اِس قسم کے بہت سے طریقے اپنائے ہوںگے ،اس لیے یہ باتیں آپ لوگوں کے لیے بالکل قابل فہم ہیں۔ اب جب امام موسیٰ کاظم ہارون سے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں تو اس کا تقاضاتو یہ ہے کہ ہارون کو چاہیے کہ امامؑ سے یہ کہتے ہوئے کہ اگر آپ کو یہ پریشانیاں درپیش ہیں تو یہ لیجئے پچاس ہزار دینا آپؑ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ صرف دوسو دینار امام ؑکی خدمت میں پیش کیے۔

مامون کہتا ہے کہ بعد میں، میں نے اپنے باپ ہارون سے پوچھا کہ آپ نے کیوں ایسا کیا ؟ تو ہارون نے کہا: اگر میں انہیں اس سے زیادہ دینار دےدیتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ (ان پیسوں سے)ہاتھوں میں تلواریں لیے بیٹھے خراسانیوں کو میرے خلاف منظم کریں اور دولاکھ لوگوں کو لےکر مجھ پر حملہ آور ہوجائیں۔ یہ تھے حضرت امام موسیٰ کاظم کے بارے میں ہارون کے تاثرات اور خیالات، جواس کے اپنے اعتبار سے یہ خیالات صحیح بھی تھے۔ اب بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ امامؑ(ہارون کے سامنے)توریہ اور تقیہ سے کام لے رہے تھے؛لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت تھی کیونکہ جس دور میں امام موسیٰ کاظم ہارون رشید کے خلاف جہاد میں مشغول تھےاگر اُس وقت آپؑکے پاس پیسے ہوتے تو ایسے بہت سارے لوگ موجود تھے جو امامؑ کے ہمرکاب ہوکر( حکمرانوں کے خلاف) جنگ کے لیے تیار ہوجاتے۔ اِس کی بہت سی مثالیں ہمارےائمہ معصومین کے علاوہ ،دوسرے حکومت مخالف عناصر کے یہاں بھی ملتی ہیں۔ جیسا کہ ہارون سے پہلے موسیٰ الہادی کے دورِ خلافت میں حسین بن علی (شہید ِفخ) اور دوسرے لوگوں کی تحریکیں اِس بات کی واضح علامت ہیں، تو آپ اندازہ لگائیے کہ اگر ائمہ معصومین حکمرانوں کے خلاف قیام فرماتے تو اِس صورت میں کتنے لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرتے، اس نکتے کو ہارون بہت اچھی طرح سمجھتاتھا۔

امام موسی کاظم کو فدک کی پیشکش اور امام کا جواب سودھو

ہارون رشید نے حضرت امام موسیٰ کاظم کے ساتھ اپنی ان ملاقاتوں میں جن اُمور پر بات چیت کی ،اُن میں ایک فدک کا معاملہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے: آپ بنو ہاشم ’’فدک‘‘ سے محروم ہوگئے ہیں اور آل علی سے فدک کو چھیناگیاہے۔اب میں اسے آپ لوگوں کو واپس لوٹاناچاہتاہوں، آپؑبتائیں کہ فدک کہاں تک ہے اور اِس کی حدود کیا ہیں؟ تاکہ میں اسے آپ لوگوں کو لوٹاسکوں۔

ظاہر ہے کہ یہ فدک کے نام پر ایک دھوکہ اور فریب تھا۔ وہ چاہتاتھا کہ اہل بیت کے غصب شدہ حق انہیں واپس دلانے کے بہانے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے بارے میں اچھے تأثرات پیدا کرے۔ امام موسیٰ کاظم نے ہارون سے فرمایا: بہت اچھا! اب جبکہ تم فدک ہمارے حوالے کرنا چاہتے ہوتو میں اس کی حدودبیان کرتاہوں۔ امامؑ نےفدک کی حدود بیان کرنا شروع کیا اور اُس زمانے کی پوری اسلامی مملکت کو فدک کی حدود میں شامل قرار دیتےہوئے فریا کہ فدک یہ ہے۔ یعنی کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اُس وقت ہمارا دعویٰ صرف ایک ایسے باغ پر تھا جس میں چند ایک کھجور کے درخت لگے ہوئے تھے؟ یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ یاد رکھو! اُس وقت بھی ہمارا دعویٰ صرف ایک باغ اور کھجور کے چند درختوں پر نہیں تھا بلکہ مسئلہ پیغمبر اکرمﷺ کی خلافت  اور جانشینی کا تھا، مسئلہ اسلامی حکومت کی رہبری اور قیادت کا تھا۔لیکن اُس دور کے لوگوں کے خیال میں جو چیز ہمیں خلافت سے محروم کرسکتی تھی، وہ فدک کو ہم سے چھین لینا تھا۔ اس لیے ہم اس کے مقابلے میں مزاحمت کرتے تھے اور آج ہماری جس چیز کو تم نے غصب کر رکھاہے وہ صرف باغ فدک نہیں کہ جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،بلکہ وہ پوری اسلامی مملکت ہے۔ لہٰذا امام موسیٰ کاظم اسلامی مملکت کی حدود اربعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فدک یہ ہے۔ اب اگر تم فدک واپس لوٹاناچاہتے ہو تو اسے ہمارے حوالے کردو۔ یعنی آپؑنے واضح الفاظ میں اسلامی مملکت کی قیادت و رہبری اور خلافت کا دعویٰ کرتے ہیں۔(۱۲؍۰۴؍۱۹۸۵ء)

چنانچہ واقعہ یوں ہے کہ ہارون رشیدنے کہا: خُذفَدَکاً حَتَّی أرُدَّھَا اِلَیْکَ:آپ فدک کی سرحدیں معین فرمائیے تاکہ میں اسے آپ کو واپس لوٹا دوں۔ امام موسیٰ کاظم نے شروع میں تو اِس کام سے انکار کیا(لیکن جب ہارون نے اصرار کیا تو فرمایا): لَاآخُذُھَا اِلَّا بِحُدُودِھَا: یعنی میں اِس کی اصلی حدودکے ساتھ ہی لوںگا۔ ہارون کہتاہے:بہت اچھا! آپ حدود کو معین تو کیجئے۔بہت دلچسپ بات ہےکہ آپؑفدک کی حدودبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ أمَّا الْحَدُّ الأوَّلُ فَعَدَن‘‘اس کی پہلی سرحد’’ عدن‘‘ ہے۔ اب یہ مدینہ یا بغداد میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے ہیں اور آپؑنے فرمایا کہ اِس کی پہلی حدّ عدن ہے جو جزیرۃ العرب کی آخری سرحد ہے: فَتَغَیَّرَ وَجْہُ الرَّشِیْد: یہ سن کر ہارون کے چہرے کا رنگ بدل گیا: وَقَالَ أیُّھَا: اور اس نے کہا:تعجب ہے!’’قَالَ وَ الحَدُّ الثَّانِی سَمَرْقَنْد ‘‘امامؑ نے فرمایا: اس کی دوسری سرحد’’ سمرقند‘‘ ہے: فَاربَدَّ وَجھُہُ: یہ سن کرہارون کا چہرہ ماند پڑ گیا!’’وَالحَدُّ الثَّالِثُ اِفرِیْقِیَۃ‘‘اس کی تیسری سرحد افریقہ(تیونس) ہے۔’’ فَاسوَدَّ وَجْھُہُ‘‘یہ سن کرہارون کے چہرے کارنگ سیاہ ہو گیا۔ وَقَالَ ھِیَہ‘‘ہارون نے ہنستےہوئے تعجب سے کہا: یہ کیسی باتیں کرتے ہیں!’’قَالَ وَالرَّابِعُ سَیْفُ الْبَحَرِ مِمّا یَلِی الجُزُرَ وَ اِرْمِیْنِیَۃ‘‘امام ؑ نے فرمایا: اس کی چوتھی سرحد ارمنستان تک پھیلے ہوئے سمندر کے ساحل اور جزائر ہیں:’’ قَالَ الرَّشِیْدُ فَلَمْ یَبْقَ لَنَا شَیئٌ‘‘ یہاںہارون نے کہا:اس طرح توہمارے لیے کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے :’’فَتَحَوَّلَ اِلیٰ مَجْلِسِی‘‘ پھر تو آپؑآئیے اور میری جگہ پر بیٹھ جائیے:’’قَالَ مُوْسَی قَدْ أعْلَمْتُکَ أنَّنِی اِنَّ حَدَّدْتُھَا لَمْ تَرُدُّھَ‘‘امام عالی مقام ؑ نے فرمایا: میں نے تو تم سے کہا تھا کہ اگر میں اِس(فدک)کی سرحدیں معین کروں گا تو تم اسے واپس نہیں لوٹا ؤ گے۔ ’’فَعِنْدَ ذٰلِکَ عَزَمَ عَلَی قَتْلِہِ‘‘ اس کے بعدہارون نے امام کے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ [۵](۱۹؍۰۷؍۱۹۸۶ء)

مدینہ کے اِس سفر کے دوران جب ہارون رشید پیغمبراکرمﷺ کے روضۂ اطہرمیں داخل ہوا اور اپنے آس پاس لوگوں کے سامنے رسول اکرمﷺ سے اپنی رشتہ داری ظاہر کرنے کی خاطر کھڑے ہوکراس نے یوںسلام کیا:’’ اَلسَّلامُ عَلَیکَ یَابنَ عَمِّ‘‘یعنی یہاں ہارون ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘نہیں کہتا ،بلکہ کہتاہے: اے میرےچچاکے بیٹے! تجھ پر میر ا سلام ہو۔ یعنی ہارون لوگوں کے سامنے یہ ثابت کرنا چاہتاہے وہ رسول اکرمﷺ کے چچا کابیٹا ہے۔ اتنے میں امام موسیٰ کاظم بغیر کسی توقف کے آگے بڑھتے ہیں اور رسول اکرمﷺ کی ضریح مبارک کے سامنے کھڑے ہوکر کہتے ہیں: ’’اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا اَبا‘‘اے بابا جان !آپؐپر میرا سلام ہو؛یعنی اگر رسول اکرمﷺ تیرےچچازاد ہیں تو میرے بابا ہیں۔ یوں امام موسیٰ کاظم نے تمام لوگوں کے سامنے ہارون رشیدکی ظاہری شا ن و شوکت کو خاک میں ملا دیا۔

جو لوگ ہارون کے حواری تھے انہیں بھی اِس بات کا بخوبی احساس ہوگیا تھا کہ اگر حکومتی مشینری کوکسی کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ امام موسیٰ کاظم ہی ہیں۔ ہارون کے اِس سفر مدینہ کے دوران حکومتی کارندوں میں سے ایک شخص وہاں کھڑیہ منظر دیکھ رہاتھا کہ امام ؑجو کسی اعلیٰ نسل کے قیمتی گھوڑے پر سوار ہونے کی بجائے انتہائی سادگی کے ساتھ ایک گدھے پر سوار ہوکرتشریف لاتے ہیںاور لوگ آپؑ کے احترام میں راستے سے ہٹ جاتے ہیں ۔اُس شخص نے پوچھا کہ یہ کون تھا کہ جس کے آنے پر تمام لوگ اُس کے سامنےاحترام سے جھک گئے ،یہاں تک کہ خلیفہ کے اردگرد گھومنے والوں نے بھی انہیں جگہ دی ہے؟ اس شخص سے کہا گیا کہ یہ امام موسیٰ کاظم ہیں۔ امامؑ کا نام سنتے ہی وہ کہنے لگا: افسوس ہو اس قوم (یعنی بنو عباس)کی حماقت اور بے وقوفی پر!جو شخص ان کے مرنے کی تمناکرتاہے، جو اِن کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتاہے ،یہ لوگ اس شخص کا اتنااحترام کرتے ہیں ؟

پس سب کو معلوم تھا کہ امام موسیٰ کاظم کا وجود، حکومتی مشینری کے لیے خطرے کی علامت ہے کیونکہ آپؑایک ایسے رہبر اور قائد تھے، جو علم ومعرفت، تقویٰ وپرہیزگاری اورعبودیت و بندگیِ الٰہی میں اِس قدر مشہور تھے کہ جو لوگ آپؑکو جانتے تھے وہ آپؑکی اِن تمام اوصاف سے بھی باخبر تھےاور پورے عالم اسلام میں آپؑکے دوستوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ آپؑاتنے شجاع اور بہادر تھے کہ کسی بھی ظالم و جابر کی شان وشوکت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؑہارون رشید کی ظاہری شان و شوکت کو خاطر میں لائے بغیر بے دھڑک حق بات کہہ دیتے ہیں۔

امام موسیٰ کاظم کی مظلومانہ شہادت سودھو

ایک ایسی مجاہد ومبازر شخصیت کا وجود، جس کا رابطہ اللہ سے ہو، جسے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ ہو اور پورے عالم اسلام میں جس کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہو، جو معاشرے میں حقیقی معنوں میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنے اور اسلامی نظام نافذ کر نے کے حوالے سے ایک منصوبہ بھی رکھتا ہو، یقیناً ایسے شخص کا وجود ہارون کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہوسکتاتھا۔ لہٰذا ہارون رشید اپنے سامنے سے اِس بڑی رکاوٹ اور خطرے کو ہٹانے کا فیصلہ کرتاہے۔ چونکہ ہارون ایک چالاک سیاست دان اور سمجھ دار آدمی تھا اس لیے اُس نے ایک دم سےیہ کام انجام نہیں دیا۔ وہ چاہتاتھا کہ کسی طریقے سے بالواسطہ اِس کام کو انجام دیا جائے۔ لہٰذا اس نے امام موسیٰ کاظم کو قید کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ قید خانے میں آپؑکے ساتھ کوئی ساز باز کر سکےاور آپ ؑکو کوئی عہدہ دیکر یا ڈرادھمکاکر اپنے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر سکے۔

چنانچہ اُس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ امام موسیٰ کاظم کو مدینے میں اِس طریقے سےگرفتار کیاجائے کہ اہلِ مدینہ کو پتابھی نہ چل سکے کہ امام موسیٰ کاظم؈ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے۔ لہٰذا مدینے میں دوسواری اور محمل تیار کئے گئے اور ان میں سے ایک کو عراق اور دوسری کو شام کی طرف لے جایاگیا، تاکہ لوگوں کو یہ پتا نہ چل سکے کہ امام موسیٰ کاظم کو کہاں لے جایا گیا ہے! امام کو گرفتارکرکے بغداد لایا گیا اور وہاں پر ایک طویل عرصےتک قیدخانے میں رکھا گیا۔ البتہ یہ احتمال ہے لیکن یہ حتمی نہیں کہ آپؑکو ایک مرتبہ قیدسے رہاکرکے دوبارہ گرفتار کرلیا گیاہو۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ آخری مرتبہ آپؑکو اسی مقصد کے تحت  گرفتارکرکیا گیا تاکہ آپؑکوقیدخانے ہی میں شہید کردیاجائےاور انھوں ایساہی کیا۔

البتہ حضرت امام موسیٰ کاظم کی شخصیت قید خانے میں بھی ایک ایسے مشعل کی مانند تھی جو اپنے تمام اطراف کو روشن کرتی ہے۔ آپ توجہ کیجئے سچی بات تو یہ ہے اسلامی فکری تحریک اور قرآن کی نظر میں جہاد کبھی نہیں رُکتا۔ یہاں تک کہ مشکل ترین حالات میں بھی وہ جاری و ساری رہتاہے۔ یہ وہی کام ہے جسے امام موسیٰ کاظم نے انجام دیا۔ اِس سلسلے میں بے شمار واقعات اور احادیث و روایات موجو د ہیں۔ انہیں روایات میں سے ایک انتہائی دلچسپ روایت یہ ہے جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ مشہور زندان بان’’ سندی بن شاہک ‘‘ایک انتہائی طاقتور، سنگدل، بنوعباس کا پالتواور خلافتی مشینری کا وفادار شخص تھا۔ امام موسیٰ کاظمں اسی شخص کے قید خانے میں تھے جس نے آپؑکو اپنے گھر کے زیرزمین ایک انتہائی تنگ و تاریک تہہ خانے میں قید کررکھاتھا۔ سندی بن شاہک کے اہل خانہ بعض اوقات کسی سوراخ سے قیدخانے کا جائزہ لیتے تھے۔ جس کی وجہ سے امام موسیٰ کاظم کے طرزِ زندگی نے انہیں حیرت زدہ اور متأثر کردیا تھا اوران لوگوں کے دلوں میں اہل بیت اطہارکی محبت پیدا ہوگئی تھی۔ اسی سندی بن شاہک کی اولاد میں سے ’’کشاجم‘‘ نامی شخص کا شمار تشیع کے بزرگوں میں ہوتاہےجو شاید ایک یادونسل کے بعد تھا۔ تمام تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ کشاجم اپنے زمانے کے مشہور اُدباء، شعراء اور اہلِ تشیع بزرگان میں سے تھا؛ یعنی اُس کا نام کشاجم السندی تھا اور سندی بن شاہک کی نسل سے تھا۔

یہ امام موسیٰ کاظم کا طرزِزندگی ہے جسےآپؑنے قید خانے میں اختیار کر رکھا تھا۔ البتہ اِس دوران بھی حکمران آپؑکو ڈراتے، دھمکاتے اور طمع و لالچ دینے کی مسلسل کوششیںکرتے رہے،وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح امام ؑ کوراضی کرلیں؛ لیکن آپؑخوف الٰہی، لطفِ الٰہی اور اپنے پروردگار کی ذاتِ بابرکت پر بھروسے کے ذریعےحکمرانوں کے مقابلے میں پوری قاطعیت سے ڈٹے رہے اور یہی آپؑکی ثابت قدمی ہے جس کی وجہ سے آج بھی دین اسلام اور قرآن محفوظ ہیں۔ یاد رکھیں کہ ظلم وجور اور فسق وفجور کے مقابلے میں ہمارے ائمہ معصومین  کی اسی استقامت کے نتیجے میں حقیقی اسلام آج تک باقی ہے۔ آج اگر عالم اسلام یا عالم انسانیت کے سامنے اسلام، قرآن اور سنت نام کی کوئی چیزباقی ہے تو،چاہے وہ اہل تشیع کی کتابوں میں ہو یا اہل سنت کی ،یہ سب کچھ ائمہ معصومین کی ڈھائی سو سالہ انتھک جدوجہد اور جہاد ہی کے مرہون منت ہے۔ ورنہ بنواُمیہ اوربنو عباس دور کے ضمیرفروش اہل قلم اور خطباء نے اسلامی تعلیمات میں اتنے انحرافات پیدا کردیئےتھے کہ ایک دوصدیوں کے بعد اسلام کا نام و نشان بھی باقی رہنا مشکل تھا۔ کوئی قرآن باقی نہیں رہتا اور اگر باقی بچتاتو بھی وہ صحیح و سالم نہیں ہوتا بلکہ تحریف شدہ ہوتا۔

تاریخ اسلام کے یہ لہراتے پرچم، یہ نور افشاں مشعلیں، یہ اونچے اور روشن منارے کہ جن کے صبر و استقامت نے اسلام کی روشنی کو اِس طرح دنیا میں پھیلایاکہ جو لوگ باطل کے اندھیرے میں حقائق کومسخ کرنا چاہتے تھے،جو معاشرے کو تاریکی میں ڈبونا چاہتے تھے وہ اپنے اِس ہدف میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ ائمہ معصومین کے شاگردوں       میں صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ تمام اسلامی فرقوں کے لوگ شامل تھے؛ یعنی ائمہ اطہارکے شاگردوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود تھے جو شیعہ عقائد کے حامل نہیں تھے ،لیکن وہ ائمہ معصومین سے تفسیر، قرآن اور حدیث کا درس لیتے تھے۔ لہٰذا ائمہ اطہار کے صبر و استقامت نےآج تک اسلام کو زندہ رکھا ہے۔

آخر کار حضرت امام موسیٰ کاظم کو قید خانے میں زہر دیکر شہید کردیا گیا۔ ائمہ اطہارکی تاریخ کے تلخ ترین واقعات میں سے ایک امام موسیٰ کاظم کی شہادت ہے۔ البتہ حکمران اِس واقعے پر بھی پردہ ڈالنا چاہتے تھے۔ ا س لیےآپؑکی زندگی کے آخری دنوں میں سندی بن شاہک بغداد کے بعض مشہور سرداروںاور بزرگوں کو آپؑکی خدمت میں بلاکر لاتا ہے اور کہتا ہے: آپ لوگ دیکھ لیں کہ موسیٰ ابن جعفرؑ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس موقع پرآپؑبغداد کے اکابرین سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: جی ہاں! لیکن آپ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انھوں نے مجھے زہر دیا ہے۔ ‘‘ اِن ظالموں نے امام کوکھجور کے چند دانے کھلاکر اس حالت میں زہر دے کرشہید کردیا جب آپؑکے ہاتھ پاؤںاورگردن طوق و زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اور اسی حالت میں امام ِمظلوم کی روحِ پر فتوح نے قید خانےسےملکوتِ اعلیٰ کی طرف پرواز کی۔

لیکن اِس کے باوجودظالم حکمران آپؑسے ڈرتے تھے؛آپؑکے جنازے سے ڈرتے تھے،آپؑکی قبر مطہر سے خائف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قید خانے سے آپؑکا جنازہ باہر نکالاجارہاتھا تو وہ یہ اعلان کرتے جارہے تھے کہ یہ اُس شخص کا جنازہ ہے جس نے حکومتِ وقت کے خلاف بغاوت کی تھی۔یہ سب کچھ اِس لیے کہہ رہے تھے تاکہ آپؑکی شخصیت اور کردار کو لوگوں کی نظروں کے سامنے داغ دار کیا جاسکے۔ اُس وقت حکومتی مشینری کے لیے حالات اِس قدر مخدوش ہوچکے تھے کہ حکومتی عہدوں پر فائز افراد میں سے ایک شخص سلیمان بن جعفر(سلیمان ابن جعفر ابن منصور عباسی ،یعنی ہارون الرشید کا چچازاد بھائی جس کا شمار بنو عباس کے اہم افراد میں ہوتاتھا)نے جب دیکھا کہ اِس صورت میں تو اُن کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتاہے تو اُس نے ایک نئے منصوبے کو اپنے ذمے لیا اور اُس نے امام موسیٰ کاظم کے جسدِ مطہر کو ایک قیمتی کفن پہنایا اور جنازے کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ کوفہ کےنزدیک قریش کے قبرستان میں اُس مقام پر،جسے ہم آج ’’کاظمین ‘‘کے نام سے جانتے ہیں، دفنادیااوریوں حضرت امام موسیٰ کاظم کی جدوجہد اور جہاد سے بھرپور زندگی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ (۱۲؍۰۴؍۱۹۸۵ء)

ہورویکھو سودھو

حوالہ جات سودھو

{{حوالے}

باہرلےجوڑ سودھو

  1. ایک ہی مملکت میں دوخلفاء ہیں اور دونوں خراج وصول کرتے ہیں!(الاحتجاج علی اہل اللجاج،طبرسی،ج۲،ص۳۸۹. 
  2. . 
  3.  بحارالانوار،ج۴۸،ص۱۰۰. 
  4. حار الانوار،ج۴۸،ص۱۰۵. 
  5. بحارالانوار،ج۴۸،ص۱۴۴.