اسلام تے جدید سائنس
قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب
اِسلام کا فلسفۂ زندگی دیگر اَدیانِ باطلہ کی طرح ہرگز یہ نہیں کہ چند مفروضوں پر عقائد و نظریات کی بنیادیں اُٹھا کر اِنسان کی ذِہنی صلاحیتوں کو بوجھل اور بے معنی فلسفیانہ مُوشگافیوں کی نذر کر دیا جائے اور حقیقت کی تلاش کے سفر میں اِنسان کو اِس طرح ذِہنی اُلجھاؤ میں گرفتار کر دیا جائے کہ اُس کی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ اِسلام نے کسی مرحلہ پر بھی اِنتہاء پسندی کی حوصلہ اَفزائی نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس اِسلام کی فطری تعلیمات نے ہمیشہ ذہنِ اِنسانی میں شعور و آگہی کے اَن گنت چراغ روشن کر کے اُسے خیر و شر میں تمیز کا ہنر بخشا ہے۔ اِسلام نے اپنے پیروکاروں کو سائنسی علوم کے حصول کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ اِعتدال کی راہ دِکھا ئی ہے۔ اِسلام نے اِس کارخانۂ قدرت میں اِنسانی فطرت اور نفسیات کے مطابق اِنسان کو اَحکامات اور ضابطوں کا ایک پورا نظام دیا ہے اور اُس کے ظاہر و باطن کے تضادات کو مٹا کر اُسے اپنے نصبُ العین کی سچائی کا شعور عطا کیا ہے۔
تاریخِ علوم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اپنی جملہ توانائیوں کے ساتھ ہمارے ذِہن پر روشن اور واضح ہوتی ہے کہ آفاق ( universe ) اور اَنفس ( human life ) کی رہگزر فکر و نظر کے اَن گنت چراغوں سے منوّر ہے۔ غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذریعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی۔
یہاں ہم قرآنِ مجید کی چند ایسی آیاتِ کریمہ پیش کر رہے ہیں جن کے مطالعہ سے قرونِ اولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی تحقیقات کی طرف ترغیب ملی اور اُس کے نتیجے میں بنی نوعِ اِنسان نے تجرّبی توثیق کو حقیقت تک رسائی کی کسوٹی قرار دے کر تحقیق و جستجو کے نئے باب روشن کئے:
آیاتِ ترغیبِ علم
( إِنَّمَا يَخْشَی اللَّه مِنْ عِبَادِه الْعُلَمَاء ) (فاطر، ۳۵:۲۸) اللہ سے تو اُس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں (جو صاحبِ بصیرت ہیں)۔
( قُلْ هلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ ) (الزمر، ۳۹:۹) آپ فرما دیجئے کہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں! تحقیق سوچتے وُہی ہیں جو صاحبِ عقل ہیں( وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ) (المجادلۃ، ۵۸:۱۱) اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے (ﷲ) اُن لوگوں کے درجے بلند کرے گا۔
( وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهلِينَ ) (الاعراف،۷:۱۹۹) اور جاہلوں سے کنارہ کشی اِختیار کر لیں( وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ ) (آل عمران، ۳:۷) اور نصیحت صرف اہلِ دانش ہی کو نصیب ہوتی ہے( وَ قُل رَّبِّ زِدنِی عِلماً ) (طہٰ، ۲۰:۱۱۴) اور آپ (ربّ کے حضور یہ) عرض کریں کہ اَے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے( اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ) (العلق، ۹۶:۱) (اے حبیب!) اپنے ربّ کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا( فَاسْأَلُواْ أَهلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ) (النحل، ۱۶:۴۳) سو تم اہلِ ذِکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو
کائنات میں غور و فکر کی ترغیب
( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ وَالْفُلْكِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا ینفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّه مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْیا بِه الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَبَثَّ فِیها مِن كُلِّ دَآبَّة وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَینَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) (البقرہ، ۲:۱۶۴) بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دِن کی گردش میں اور اُن جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اُٹھا کر چلتی ہیں اور اُس (بارش) کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے اُتارتا ہے، پھر اُس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے، (وہ زمین) جس میں اُس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اُس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (اِن میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہیہ کی بہت سی) نشانیاں ہیں( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ لآیاتٍ لاِوْلِی الألْبَابِ الَّذِینَ یذْكُرُونَ اللّه قِیامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهمْ وَیتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ) (آل عمران، ۳:۱۹۰.۱۹۱) بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروَٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں:) اَے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے( إَنَّ الَّذِینَ لاَ یرْجُونَ لِقَاءنَا وَرَضُواْ بِالْحَیاة الدُّنْیا وَاطْمَأَنُّواْ بِها وَالَّذِینَ همْ عَنْ آیاتِنَا غَافِلُونَ ) (یونس، ۱۰:۶) بیشک رات اور دِن کے بدلتے رہنے میں اور اُن (جملہ) چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا فرمائی ہیں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو تقویٰ رکھتے ہیں( وَهوَ الَّذِی مَدَّ الأَرْضَ وَجَعَلَ فِیها رَوَاسِی وَأَنْهارًا وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیها زَوْجَینِ اثْنَینِ یغْشِی اللَّیلَ النَّهارَ إِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّقَوْمٍ یتَفَكَّرُونَ وَفِی الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیرُ صِنْوَانٍ یسْقَی بِمَاء وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَها عَلَی بَعْضٍ فِی الأُكُلِ إِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) (الرعد، ۱۳:۳.۴) اور وُہی ہے جس نے (گولائی کے با وُجود) زمین کو پھیلایا اور اُس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر قسم کے پھلوں میں (بھی) اُس نے دو دو (جنسوں کے) جوڑے بنائے، (وُہی) رات سے دِن کو ڈھانک لیتا ہے، بیشک اِس میں تفکر کرنے والے کے لئے (بہت) نشانیاں ہیں اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دُوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جھنڈ دار اور بغیر جھنڈ کے، اُن (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور (اُس کے با وُجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں۔ بیشک اِس میں عقلمندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں( هُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء لَّکُم مِّنهُ شَرَابٌ وَّ مِنهُ شَجَرٌ فِیهِ تُسِیمُونَ یُنبِتُ لَکُم بِهِ الزَّرعَ وَ الزَّیتُونَ وَ النَّخِیلَ وَ الأَعنَابَ وَ مِن کُلِّ الثَّمَرٰتِ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَومٍ یَّتَفَکَّرُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۰.۱۱) وُہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اُتارا، اُس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اُسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اُگاتا ہے۔ بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے( أَ اَوَلَمْ یتَفَكَّرُوا فِی اَنفُسِهمْ مَا خَلَقَ اللَّه السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَینَهمَا اِلاَ بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی ) (الروم، ۳۰:۸) کیا اُنہوں نے اپنے دِل میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے سب کو (اپنی) مصلحت (اور حکمت) ہی سے ایک معینہ مدّت کے لئے (عارضی طور پر) پیدا فرمایا ہے۔
( وَمِنْ آیاتِه خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ اِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّلْعَالِمِینَ ) (الروم، ۳۰:۲۲) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اِختلاف اُس کی نشانیوں میں سے ہے۔ بیشک اِس میں علم رکھنے والوں کے لئے (حیرت انگیز اور مستند) نشانیاں ہیں( وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ وَمَا اَنزَلَ اللَّه مِنَ السَّمَاء مِن رِّزْقٍ فَاَحْیا بِه الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ آیاتٌ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) O (الجاثیہ، ۴۵:۵) اور شب و روز کے یکے بعد دیگرے آنے جانے میں اور اُس رزق میں جو اللہ آسمان سے اُتارتا ہے، پھر جس سے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زِندہ فرماتا ہے اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل سے کام لینے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں( وَمَا مِن دَآبَّة فِی الاَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یطِیرُ بِجَنَاحَیه اِلاَ اُمَمٌ اَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الكِتَابِ مِن شَیءٍ ثُمَّ اِلَی رَبِّهمْ یحْشَرُونَ ) (الانعام، ۶:۳۸) اور (اے اِنسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا اِشارۃً بیان نہ کر دیا ہو)، پھر سب (لوگ) اپنے ربّ کے پاس جمع کئے جائیں گے( هوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَه مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّه ذَلِكَ اِلاَ بِالْحَقِّ یفَصِّلُ الآیاتِ لِقَوْمٍ یعْلَمُونَ ) (یونس، ۱۰:۵) وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اُس سے) روشن (کیا) اور اُس کے لئے (کم و بیش دِکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اَوقات کا) حساب معلوم کر سکو اور اللہ نے یہ (سب کچھ) درُست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا فرمایا ہے۔ وہ (اِن کائناتی حقائق کے ذریعے اپنی خالقیّت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں علم رکھنے والے لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے( وَ لَقَد خَلَقَنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَآئِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَ ) (المؤمنون، ۲۳:۱۷) اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرۂ ارضی کے گرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھے( قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْاَرْضَ فِی یوْمَینِ وَتَجْعَلُونَ لَه اَندَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِینَ وَ جَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ مِن فَوقِهَا وَ بَارَکَ فِیهَا وَ قَدَّرَ فِیهَا أَقوَاتَهَا فِیٓ أَربَعَةِ أَیَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلأَرضِ ائتِیَا طَوعًا أَو کَرهًا قَالَتَا أَتَینَا طَآئِعِینَ فَقَضَاهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ فِی یَومَینِ وَ اَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآءٍ اَمرَهَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصابِیحَ وَ حِفظًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (حم السجدہ، ۴۱:۹.۱۲) آپ (ذرا اُن سے) پوچھئے: کیا تم لوگ اُس (کی ذات) سے منکر ہو جس نے دو اَدوار میں زمین بنائی اور تم اُس کے (ساتھ دُوسروں کو) ہمسر ٹھہراتے ہو؟ (یاد رکھو کہ) وُہی تمام جہانوں کا پروردگار ہے O اور اُس نے اِس (زمین) میں اُوپر سے بھاری پہاڑ رکھے اور اِس (زمین) کے اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشو و نما کی قوّتیں) اور اِس میں (اپنی مخلوق کے لئے) سامانِ معیشت مقرر کیا (یہ سب کچھ اُس نے) چار اَدوارِ (تخلیق) میں (پیدا کیا) جو تمام طلب گاروں کے لئے یکساں ہے O پھر (اللہ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ پھر اُسے اور زمین کو حکم دیا کہ تم دونوں (میری قدرت کے قوانین کے تابع ہو کر) آؤ، خواہ تم اِس پر خوش ہو یا ناخوش۔ اُن دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں O پھر دو مراحل میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان کے اَحکام اُس میں بھیج دیئے اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے رونق بخشی اور اُسے محفوظ (بھی)کر دیا۔ یہ اِنتظام ہے زبردست (اور) علم والے (پروردگار) کا( اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِی خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارجِعِ البَصَرَ هَل تَرٰی مِن فُطُورٍ ثُمَّ ارجِعِ البَصَرَ کَرَّتَینِ یَنقَلِب إِلَیکَ البَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیرٌ ) (الملک، ۶۷:۳.۴) اُسی نے اُوپر تلے سات آسمان بنائے، تو رحمن کی کاریگری میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ ذرا دوبارہ آنکھ اُٹھا کر دیکھ،کیا تجھے کہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ O (ہاں) پھر بار بار آنکھ اُٹھا کر دیکھ (ہر بار) تیری نگاہ تھک کر ناکام لوٹے گی( وَ انشَقَّتِ السَّمَآء فَهِیَ یَومَئِذٍ وَّاهِیَةٌ ) (الحاقہ، ۶۹:۱۶) اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دِن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گا( أَ لَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ اللهُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ) (نوح، ۷۱:۱۵) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے ہیں؟( اَلشَّمسُ وَ القَمَرُ بِحُسبَانٍ ) (الرحمن، ۵۵:۵) سورج اور چاند ایک مقرر حساب کے پابند ہیں( خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ بِالحَقِّ تَعَالٰی عَمَّا یُشرِکُونَ ) (النحل، ۱۶:۳) اُسی نے آسمان اور زمین کو درُست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ اُن چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اُس کا) شریک گردانتے ہیں( اِنَّ اللهِ فَالِقُ الحَبِّ وَ النَّوٰی یُخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ مُخرِجُ المَیِّتِ مِنَ الحَیِّ ذٰلِکُمُ اللهُ فَأَنّٰی تُؤفَکُونَ فَالِقُ الاِصبَاحِ وَ جَعَلَ الَّیلَ سَکَنًا وَّ الشَّمسَ وَ القَمَرَ حُسبَانًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (الانعام، ۶:۹۵.۹۶) بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے، وہ مُردہ سے زِندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زِندہ سے مُردہ کو نکالنے والا ہے، یہی (شان والا) تو اللہ ہے، پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟ O (وُہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والا ہے اور اُسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اَندازہ ہے( وَ هُوَ الَّذِیٓ أَنشَأَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُستَقَرٌّ وَّ مُستَودَعٌ قَد فَصَّلنَا الاٰیَاتِ لِقَومٍ یَّفقَهُونَ وَ هُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَأَخرَجنَا بِه نَبَاتَ کُلِّ شَیءٍ فَأَخرَجنَا مِنهُ خَضِرًا نُّخرِجُ مِنهُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا وَ مِنَ النَّخلِ مِن طَلعِهَا قِنوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنَّاتٍ مِّن أَعنَابٍ وَّ الزَّیتُونَ وَ الرُّمَّانَ مُشتَبِهًا وَّ غَیرَ مُتَشَابِهٍ أُنظُرُوا إِلٰی ثَمَرِهٓ إِذَا أَثمَرَ وَ یَنعِه إِنَّ فِی ذٰلِکُم لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یُّؤمِنُونَ ) (الانعام، ۶:۹۸.۹۹) اور وُہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے، پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اِقامت (ہے) اور ایک جائے امانت۔ بیشک ہم نے سمجھنے والے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں O اور وُہی ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی اُتارا، پھر ہم نے اُس (بارش) سے ہر قسم کی پیوستہ دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے گابھے سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغات اور زیتون اور اَنار (بھی پیدا کئے جو کئی اِعتبارات سے) آپس میں ایک جیسے (لگتے) ہیں اور (پھل، ذائقے اور تاثیرات) جداگانہ ہیں۔ تم درخت کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل لائے اور اُس کے پکنے کو (بھی دیکھو)۔ بیشک اِن میں اِیمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ) (ھود، ۱۱:۷) اور وُہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی اور زیریں کائناتوں) کو چھ روز (یعنی تخلیق و اِرتقاء کے چھ اَدوار و مراحل) میں پیدا فرمایا۔
( ﷲ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ وَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَأَخرَجَ بِه مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزقًا لَّکُم وَ سَخَّرَ لَکُمُ الفُلکَ لِتَجرِیَ فِی البَحرِ بِأَمرِه وَ سَخَّرَ لَکُمُ الاَنهَارَ ) (اِبراہیم، ۱۴:۳۲) اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اُتارا پھر اُس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رِزق کے طور پر پھل پیدا کئے اور اُس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا تاکہ اُس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اُس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی) مسخر کر دیا( وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمسَ وَ القَمَرَ دَآئِبَینِ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیلَ وَ النَّهَارَ ) (اِبراہیم، ۱۴:۳۳) اور اُس نے تمہارے (فائدے) کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردِش کرتے رہتے ہیں اور تمہارے (نظامِ حیات کے) لئے رات اور دِن کو بھی (ایک) نظام کے تابع کر دیا( وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومُ مُسَخَّرٰتٌم بِأَمرِه إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۲) اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دِن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں۔ بیشک اِس میں عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں( وَ هُوَ الَّذِی سَخَّرَ البَحرَ لِتَأکُلُوا مِنهُ لَحمًا رِیًّا وَّ تَستَخرِجُوا مِنهُ حِلیَةً تَلبَسُونَهَا وَ تَرَی الفُلکَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَ لِتَبتَغُوا مِن فَضلِه وَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۴) اور وُہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اُس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اُس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو اور (اَے اِنسان!) تو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اُس میں چلے جاتے ہیں اور (یہ سب کچھ اِس لئے کیا) تاکہ تم (دُور دُور تک) اُس کا فضل (یعنی رِزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکرگزار بن جاؤ( وَ اَلقٰی فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ اَن تَمِیدَ بِکُم وَ اَنهَارًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُم تَهتَدُونَ وَ عَلَامَاتٍ وَ بِالنَّجمِ هُم یَهتَدُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۵.۱۶) اور اُسی نے زمین میں (مختلف مادّوں کو) باہم ملا کر بھاری پہاڑ بنا دیئے مبادا وہ (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور (قدرتی) راستے (بھی) بنائے تاکہ تم (منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکو O اور (دِن کو راہ تلاش کرنے کے لئے) علامتیں بنائیں اور (رات کو) لوگ ستاروں کے ذریعہ (بھی) راہ پاتے ہیں( اَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاهُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآء کُلَّ شَیءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤمِنُونَ وَ جَعَلنَا فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِهِم وَ جَعَلنَا فِیهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُم یَهتَدُونَ وَ جَعَلنَا السَّمَآء سَقفًا مَّحفُوظًا وَّ هُم عَن اٰیَاتِهَا مُعرِضُونَ وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (الانبیاء، ۲۱:۳۳.۳۰) اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز (کی زِندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر اَب بھی) اِیمان نہیں لاتے! O اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ بنا دیئے مبادا وہ (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے اُنہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اُس (زمین) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکیں O اور ہم نے سماء (یعنی زمین کے بالائی کرّوں) کو محفوظ چھت بنایا (تاکہ اہلِ زمین کو خلا سے آنے والی مہلک قوّتوں اور جارِحانہ لہروں کے مضر اَثرات سے بچائیں) اور وہ اُن (سماوی طبقات کی) نشانیوں سے رُو گرداں ہیں O اوروُہی (اللہ) ہے جس نے رات اور دِن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں( اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ مَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ) (الفرقان، ۲۵:۵۹) جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اُس (کائنات) کو جو اُن دونوں کے درمیان ہے چھ اَدوار(تخلیق) میں پیدا فرمایا۔
( تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآء بُرُوجًا وَّ جَعَلَ فِیهَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًا وَّ هُوَ الَّذِی جَعَلَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ خِلفَةً لِّمَن اَرَادَ اَن یَّذَّکَّرَ اَو اَرَادَ شُکُورًا ) (الفرقان، ۲۵:۶۱.۶۲) وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا O اور وُہی ذات ہے جس نے رات اور دِن کو ایک دُوسرے کے پیچھے گردِش کرنے والا بنایا، اُس کے لئے جو غور و فکر کرنا چاہے یا شکر گزاری کا اِرادہ رکھے (اِن تخلیقی قدرتوں میں نصیحت و ہدایت ہے)( قُل سِیرُوا فِی الاَرضِ فَانظُرُوا کَیفَ بَدَاَ الخَلقَ ثُمَّ ﷲ یُنشِیُ النَّشأَةَ الاٰخِرَةَ إِنَّ اللهِ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ ) (العنکبوت، ۲۹:۲۰) فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اُس نے مخلوق کی (زندگی کی) اِبتداء کیسے فرمائی، پھر وہ دُوسری زندگی کو کس طرح اُٹھا کر (اِرتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشو و نما دیتا ہے، بیشک ﷲ ہر شے پر بڑی قدرت والا ہے( خَلَقَ اللهُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ بِالحَقِّ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّلمُؤمِنِینَ ) (العنکبوت، ۲۹:۴۴) ﷲ نے آسمانوں اور زمین کو درُست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ بیشک اِس (تخلیق) میں اہلِ ایمان کے لئے (اُس کی وحدانیت اور قدرت کی) نشانی ہے( لَا الشَّمسُ یَنبَغِی لَهَآ اَن تُدرِکَ القَمَرَ وَ لَا الَّیلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (یٰسین، ۳۶:۴۰) نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دِن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب (سیارے) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں( وَ مِن اٰیَاتِه یُرِیکُمُ البَرقَ خَوفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآء مَآء فَیُحیی بِهِ الاَرضَ بَعدَ مَوتِهَا إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُونَ ) (الروم، ۳۰:۲۴) اور اُس کی نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ وہ تمہیں خوفزدہ کرنے اور اُمید دِلانے کے لئے بجلیاں دِکھاتا ہے اور بادلوں سے بارش برساتا ہے اور اُس سے مُردہ زمین کو زِندہ کر دیتا ہے، اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں( اَللهُ الَّذِی یُرسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبسُطُه فِی السَّمَآء کَیفَ یَشَآء وَ یَجعَلُه کِسَفًا فَتَرَی الوَدقَ یَخرُجُ مِن خِلَالِه فَاِذَا اَصَابَ بِه مَن یَّشَآء مِن عِبَادِه إِذَا هُم یَستَبشِرُونَ ) (الروم، ۳۰:۴۸) اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اُسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم اُس کے اندر سے بارش کو نکلتے دیکھتے ہو، پھر جب (اُس بارش کو) اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے اُن (کی آبادی) کو پہنچاتا ہے تو وہ خوشیاں منانے لگتے ہیں( فَانظُر إِلٰی اٰثَارِ رَحمَتِ اللهِ کَیفَ یُحیِی الاَرضَ بَعدَ مَوتِهَا إِنَّ ذٰلِکَ لَمُحیِ المَوتٰی وَ هُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ ) (الروم، ۳۰:۵۰) پس اللہ کی رحمت کے آثار تو دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو مُردہ ہونے کے بعد زِندہ (سرسبز و شاداب) کرتا ہے۔ بیشک وُہی مُردوں کو بھی زِندہ کرنے والا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے( اِنَّمَا اَمرُه اِذَا اَرَادَ شَیئًا اَن یَّقُولَ لَه کُن فَیَکُونُ ) (یٰسین، ۳۶:۸۲) اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ ہو جا! پس وہ ہو جاتی ہے( یَخلُقُکُم فِی بُطُونِ اُمَّهَاتِکُم خَلقًا مِّنم بَعدِ خَلقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثلَاَثٍ ) (الزمر، ۳۹:۶) وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں میں تین تاریک پردوں میں (بتدریج) ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں بناتا ہے O اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ ہو جا! پس وہ ہو جاتی ہے( وَ السَّمَآءَ بَنَینٰهَا بِاَیدٍ وَّ اِنَّا لَمُوسِعُونَ ) (الذاریات، ۵۱:۴۷) اور ہم نے سماوی کائنات کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور ہم ہی (کائنات کو) وسیع سے وسیع تر کرنے والے ہیں( ءَ اَنتُم اَشَدُّ خَلقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنَاهَا رَفَعَ سَمکَهَا فَسَوَّاهَا وَ اَغطَشَ لَیلَهَا وَ اَخرَجَ ضُحٰهَا وَ الاَرضَ بَعدَ ذٰلِکَ دَحٰهَا اَخرَجَ مِنهَا مَآئَهَا وَ مَرعٰهَا وَ الجِبَالَ اَرسٰهَا مَتَاعًا لَّکُم وَ لِاَنعَامِکُم ) (النازعات، ۷۹:۲۷.۳۳) کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا (پوری) سماوی کائنات کا، جسے اُس نے بنایا؟ o اُس نے آسمان کے تمام کرّوں(ستاروں) کو (فضائے بسیط میں پیدا کر کے) بلند کیا o پھر اُن (کی ترکیب و تشکیل اور اَفعال و حرکات) میں اِعتدال، توازن اور اِستحکام پیدا کر دیا o اور اُسی نے آسمانی خلا کی رات کو (یعنی سارے خلائی ماحول کو مثلِ شب) تاریک بنایا اور (اُس خلا سے) اُن (ستاروں) کی روشنی (پیدا کر کے) نکالی o اور اُسی نے زمین کو اُس (ستارے سورج کے وُجود میں آ جانے) کے بعد (اُس سے) الگ کر کے زور سے پھینک دیا o اُسی نے زمین میں سے اُس کا پانی (الگ) نکال لیا اور (بقیہ خشک قطعات میں) اُس کی نباتات نکالیں o اور اُسی نے (بعض مادّوں کو باہم ملا کر) زمین سے محکم پہاڑوں کو اُبھار دیا o (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کے لئے (کیا)( اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰی وَ الَّذِی قَدَّرَ فَهَدٰی وَ الَّذِی اَخرَجَ المَرعٰی فَجَعَلَه غُثَآءً اَحوٰی ) (الاعلی، ۸۷: ۵۲) جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیا o اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایا o اور جس نے (زمین سے) چارہ نکالا o پھر اُسے سیاہی مائل خشک کر دیا
باب دوم
اِسلام اور سائنس میں عدم مغائرت
اِسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ فطرت بھی ہے جو اُن تمام اَحوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق اِنسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وُجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اِسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی اِنسانیت کو نورِ علم سے منوّر کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع "اِنسان" ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وُقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہو سکیں۔
قرآنِ مجید نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اَوصاف ذِکر کئے ہیں اُن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر، علمِ تخلیقیات ( Cosmology ) کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
قرآنِ حکیم نے آئیڈیل مسلمان کے اَوصاف بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
إِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ اختِلَافِ الَّیلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیَاتٍ لِّأُولِی الأَلبَابِ الَّذِینَ یَذکُرُونَ اللهَ قِیَامًا وَّ قُعُودًا وَّ عَلٰی جُنُوبِهِم وَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ رَبَّنَا مَا خَلَقتَ هٰذَا بَاطِلاً سُبحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(آل عمران، ۳:۱۹۰.۱۹۱)
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کیلئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں O یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں۔ (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالےاِن آیاتِ طیبات میں بندۂ مومن کی جو شرائط پیش کی گئی ہیں اُن میں جہاں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے زِندگی کے ہر حال میں اپنے مولا کی یاد اور اُس کے حضور حاضری کے تصوّر کو جاگزیں کرنا مطلوب ہے، وہاں اِس برابر کی دُوسری شرط یہ رکھی گئی ہے کہ بندۂ مومن آسمانوں اور زمین کی خلقت کے باب میں غور و فکر کرے اور یہ جاننے میں کوشاں ہو کہ اِس وُسعتِ اَفلاک کا نظام کن اُصول و ضوابط کے تحت کارفرما ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وقعتی کا اَندازہ کرے۔ جب وہ اِس وسیع و عریض کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کر لے گا تو خود ہی پکار اُٹھے گا: "اے میرے ربّ! تو ہی میرا مولا ہے اور تو بے عیب ہے۔ حق یہی ہے کہ اِس وُسعتِ کائنات کو تیری ہی قوت وُجود بخشے ہوئے ہے ۔ اور تو نے یہ عالم بے تدبیر نہیں بنایا"۔
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے پہلے حصہ میں ’خالق‘ اور دُوسرے حصے میں ’خَلق‘ کی بات کی گئی ہے، یعنی پہلے حصے کا تعلق مذہب سے ہے اور دُوسرے کا براہِ راست سائنس اور خاص طور پر علمِ تخلیقیات ( cosmology ) سے ہے۔
مذہب اور سائنس میں تعلق
آج کا دَور سائنسی علوم کی معراج کا دَور ہے۔ سائنس کو بجا طور پر عصری علم ( contemporary knowledge ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا دَورِ حاضر میں دین کی صحیح اور نتیجہ خیز اِشاعت کا کام جدید سائنسی بنیادوں پر ہی بہتر طور پر سراَنجام دیا جا سکتا ہے۔ بناء بریں اِس دَور میں اِس اَمر کی ضرورت گزشتہ صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ مُسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی ترویج کو فروغ دیا جائے اور دینی تعلیم کو سائنسی تعلیم سے مربوط کرتے ہوئے حقانیتِ اِسلام کا بول بالا کیا جائے۔ چنانچہ آج کے مسلمان طالبِ علم کے لئے مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنا از بس ضروری ہے۔
مذہب ’خالق‘ ( Creator )سے بحث کرتا ہے اور سائنس اللہ تعالی کی پیدا کردہ ’خَلق‘ ( creation ) سے۔ دُوسرے لفظوں میں سائنس کا موضوع ’خَلق‘ اور مذہب کا موضوع ’خالق‘ ہے۔ یہ ایک قرینِ فہم و دانش حقیقت ہے کہ اگر مخلوق پر تدبر و تفکر اور سوچ بچار مثبت اور درُست انداز میں کی جائے تو اُس مثبت تحقیق کے کمال کو پہنچنے پر لامحالہ اِنسان کو خالق کی معرفت نصیب ہو گی اور وہ بے اِختیار پکار اُٹھے گا:
( رَبَّنَا مَا خَلَقتَ هٰذَا بَاطِلاً ) ۔ (آل عمران،۳:۱۹۱)
اے ہمارے رب! تو نے یہ(سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔
بندۂ مومن کو سائنسی علوم کی ترغیب کے ضمن میں اللہ ربّ العزت نے کلامِ مجید میں ایک اور مقام پر یوں اِرشاد فرمایا:
( سَنُرِیهِم اٰیاتِنَا فِی الاٰفَاقِ وَ فِی أَنفُسِهِم حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُم أَنَّهُ الحَقُّ ) (حم السجدہ،۴۱:۵۳)
ہم عنقریب اُنہیں کائنات میں اور اُن کے اپنے (وُجود کے) اندر اپنی نشانیاں دِکھائیں گے، یہاں تک کہ وہ جان لیں گے کہ وُہی حق ہے۔
اِس آیتِ کریمہ میں باری تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم اِنسان کو اُس کے وُجود کے اندر موجود داخلی نشانیاں ( internal signs ) بھی دِکھا دیں گے اور کائنات میں جا بجا بکھری خارجی نشانیاں ( external signs ) بھی دِکھا دیں گے، جنہیں دیکھ لینے کے بعد بندہ خود بخود بے تاب ہو کر پکار اُٹھے گا کہ حق صرف اللہ ہی ہے۔
دَورِ حاضر کا المیہ
قرآنِ مجید میں کم و بیش ہر جگہ مذہب اور سائنس کا اِکٹھا ذِکر ہے، مگر یہ ہمارے دَور کا اَلمیہ ہے کہ مذہب اور سائنس دونوں کی سیادت و سربراہی ایک دُوسرے سے ناآشنا اَفراد کے ہاتھوں میں ہے۔ چنانچہ دونوں گروہ اپنے مدِّ مقابل دُوسرے علم سے دُوری کے باعث اُسے اپنا مخالف اور متضاد تصوّر کرنے لگے ہیں۔ جس سے عامۃُ الناس کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے مذہب اور سائنس میں تضاد اور تخالف ( conflict / contradiction ) سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔
مغربی تحقیقات اِس امر کا مسلّمہ طور پر اِقرار کر چکی ہیں کہ جدید سائنس کی تمام تر ترقی کا اِنحصار قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کی فراہم کردہ بنیادوں پر ہے۔ مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی نہج پر کام کی ترغیب قرآن و سنت کی اُن تعلیمات نے دی تھی جن میں سے کچھ کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اِسی منشائے ربانی کی تکمیل میں مسلم سائنسدانوں نے ہر شعبۂ علم کو ترقی دی اور آج اَغیار کے ہاتھوں وہ علوم اپنے نکتۂ کمال کو پہنچ چکے ہیں۔ شومئ قسمت کہ جن سائنسی علوم و فنون کی تشکیل اور اُن کے فروغ کا حکم قرآن و حدیث میں جا بجا موجود ہے اور جن کی اِمامت کا فریضہ ایک ہزار برس تک خود بغداد، رے، دمِشق، اسکندریہ اور اندلس کے مسلمان سائنسدان سراَنجام دیتے چلے آئے ہیں، آج قرآن و سنت کے نام لیوا طبقِ ارضی پر بکھرے اَرب بھر مسلمانوں میں سے ایک بڑی تعداد اُسے اِسلام سے جدا سمجھ کر اپنی ’تجدّد پسندی‘ کا ثبوت دیتے نہیں شرماتی۔ سائنسی علوم کا وہ پودا جسے ہمارے ہی اَجداد نے قرآنی علوم کی روشنی میں پروان چڑھایا تھا، آج اَغیار اُس کے پھل سے محظوظ ہو رہے ہیں اور ہم اپنی اصل تعلیمات سے رُو گرداں ہو کر دیارِ مغرب سے اُنہی علوم کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
آج ایک طبقہ اگر اِسلام سے اِس حد تک رُو گرداں ہے تو دُوسرا نام نہاد ’مذہبی طبقہ‘ سائنسی علوم کو اَجنبی نظریات کی پیداوار قرار دے کر اُن کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مذہبی و سائنسی علوم میں مغائرت کا یہ تصوّر قوم کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ نسلِ نو اپنے اَجداد کے سائنسی کارہائے نمایاں کی پیروی کرنے یا کم از کم اُن پر فخر کرنے کی بجائے زوال و مسکنت کے باعث اپنے علمی، تاریخی اور سائنسی وِرثے سے اِس قدر لاتعلق ہو گئی ہے کہ خود اُنہی کو اِسلام اور سائنس میں عدم مغائرت پر قائل کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔
مذہب اور سائنس میں عدم تضاد
سائنس اور اِسلام میں تضاد کیونکر ممکن ہے جبکہ اِسلام خود سائنس کی ترغیب دے رہا ہے! بنا بریں اِسلامی علوم کل ہیں اور سائنسی علوم محض اُن کا ایک جزو۔ جزو اور کل میں مغائرت ( conflict ) ناممکن ہے۔ مذہب اور سائنس پر اپنی اپنی سطح پر تحقیقات کرنے والے دُنیا بھر کے محققین کے لئے یہ ایک عالمگیر چیلنج ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں تضاد ہے تو اُس کے ساتھ دو میں سے یقینا ایک بات ہو گی، ایک اِمکان تو یہ ہے کہ وہ مذہب کی صحیح سمجھ سے عاری ہو گا بصورتِ دیگر اُس نے سائنس کو صحیح طور پر نہیں سمجھا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس نکتے پر اُسے تضاد نظر آرہا ہو مطالعہ میں کمی کے باعث وہ نکتہ اُس پر صحیح طور پر واضح نہ ہو سکا ہو۔ اگر کسی معاملے کو صحیح طور پر ہر پہلو سے جانچ پرکھ کر سمجھ لیا جائے تو بندہ از خود یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ اِسلام کی رُو سے مذہب اور سائنس دونوں دینِ مبین کا حصہ ہیں۔
سائنس کا دائرۂ کار مُشاہداتی اور تجرباتی علوم پر منحصر ہے جبکہ مذہب اَخلاقی و رُوحانی اور ما بعد الطبیعیاتی اُمور سے متعلق ہے۔ اَب ہم مذہب اور سائنس میں عدم تضاد کے حوالے سے تین اہم دلائل ذِکر کرتے ہیں:
(۱) بنیاد میں فرق
مذہب اور سائنس میں عدم تضاد کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی جدا جدا ہیں۔ دَرحقیقت سائنس کا موضوع ’علم‘ ہے جبکہ مذہب کا موضوع ’ایمان‘ ہے۔ علم ایک ظنّی شے ہے، اِسی بناء پر اُس میں غلطی کا اِمکان پایا جاتا ہے، بلکہ سائنس کی تمام پیش رفت ہی اِقدام و خطاء ( trial / error ) کی طویل جِدّ و جہد سے عبارت ہے۔ جبکہ دُوسری طرف اِیمان کی بنیاد ظن کی بجائے یقین پر ہے، اِس لئے اُس میں خطا کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔
اِیمان کے ضمن میں سورۂ بقرہ میں اِرشادِ ربانی ہے:
( اَلَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ ) (البقرہ،۲:۳)
جو غیب پر اِیمان لاتے ہیں۔
گویا اِیمان جو کہ مذہب کی بنیاد ہے، مُشاہدے اور تجربے کی بناء پر نہیں بلکہ وہ بغیر مُشاہدہ کے نصیب ہوتا ہے۔ اِیمان ہے ہی اُن حقائق کو قبول کرنے کا نام جو مُشاہدے میں نہیں آتے اور پردۂ غیب میں رہتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے خود ساختہ ذرائعِ علم سے معلوم نہیں ہو سکتے بلکہ اُنہیں مشاہدے اور تجربے کے بغیر محض اللہ اور اُس کے رسول(ص) کے بتانے سے مانا جاتا ہے، مذہب کی بنیاد اِن حقائق پر ہے۔ اِس کے مقابلے میں جو چیزیں ہمیں نظر آ رہی ہیں، جن کے بارے میں حقائق اور مُشاہدات آئے دِن ہمارے تجربے میں آتے رہتے ہیں، اُن حقائق کا علم سائنس کہلاتا ہے۔ چنانچہ سائنس اِنسانی اِستعداد سے تشکیل پانے والا علم ( human acquired wisdom )ہے، جبکہ مذہب خدا کی طرف سے عطا کردہ علم ( God-gifted wisdom ) ہے۔ اِسی لئے سائنس کا سارا علم اِمکانات پر مبنی ہے، جبکہ مذہب میں کوئی اِمکانات نہیں بلکہ وہ سراسر قطعیات پر مبنی ہے۔ مذہب کے تمام حقائق وُثوق اور حتمیت ( certainty / finality ) پر مبنی ہیں، یعنی مذہب کی ہر بات حتمی اور اَمرِ واجب ہے، جبکہ سائنس کی بنیاد اور نکتۂ آغاز ہی مفروضوں ( hypothesis ) پر ہے۔ اِسی لئے سائنس میں درجۂ اِمکان ( degree of probability ) بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مفروضہ، مشاہدہ اور تجربہ کے مختلف مراحل میں سے گزر کر کوئی چیز قانون ( law ) بنتی ہے اور تب جاکر اُس کا علم ’حقیقت‘ کے زُمرے میں آتا ہے، سائنسی تحقیقات کی جملہ پیش رفت میں حقیقی صورتحال یہ ہے کہ جن حقائق کو ہم بارہا اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد سائنسی قوانین قرار دیتے ہیں اُن میں بھی اکثر ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ اِس بہت بڑے فرق کی بنیاد پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ کا اِمکان ہی خارِج اَز بحث ہے۔
(۲) دائرۂ کار میں فرق
مذہب اور سائنس میں کسی قسم کے تضاد کے نہ پائے جانے کا دُوسرا بڑا سبب دونوں کے دائرۂ کار کا مختلف ہونا ہے، جس کے باعث دونوں میں تصادُم اور ٹکراؤ کا کوئی اِمکان کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اِس کی مثال یوں ہے جیسے ایک ہی سڑک پر چلنے والی دو کاریں آمنے سامنے آ رہی ہوں تو وہ آپس میں ٹکرا سکتی ہیں، اِسی طرح عین ممکن ہے کہ سٹیشن ماسٹر کی غلطی سے دو ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ کار اور ہوائی جہاز یا کار اور بحری جہاز آپس میں ٹکرا جائیں۔ اَیسا اِس لئے ممکن نہیں کہ دونوں کے سفر کے راستے الگ الگ ہیں۔ کار نے سڑک پر چلنا ہے، بحری جہاز نے سمندر میں اور ہوائی جہاز نے ہوا میں۔ جس طرح سڑک اور سمندر میں چلنے والی سواریاں کبھی آپس میں ٹکرا نہیں سکتیں اِسی طرح مذہب اور سائنس میں بھی کسی قسم کا ٹکراؤ ممکن نہیں، کیونکہ سائنس کا تعلق طبیعیاتی کائنات ( physical world )سے ہے جبکہ مذہب کا تعلق مابعد الطبیعیات( meta physical world ) سے ہے۔ اِس بات کو دُوسرے لفظوں میں یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ سائنس فطرت ( nature ) سے بحث کرتی ہے جبکہ مذہب کی بحث مافوق الفطرت ( supernature ) دُنیا سے ہے، لہٰذا اِن دونوں میں سکوپ کے اِختلاف کی بناء پر اِن میں کسی صورت بھی تضاد ممکن نہیں ہے۔
(۳)۔ اِقدام و خطاء کا فرق
اِس ضمن میں تیسری دلیل بھی نہایت اہم ہے، اور وہ یہ کہ خالقِ کائنات نے اِس کائناتِ ہست و بُود میں کئی نظام بنائے ہیں، جو اپنے اپنے طور پر اپنی خصوصیات کے ساتھ روَاں دوَاں ہیں۔ مثلاً اِنسانی کائنات، حیوانی کائنات، جماداتی کائنات، نباتاتی کائنات، ماحولیاتی کائنات، فضائی کائنات اور آسمانی کائنات وغیرہ۔ اِن تمام نظاموں کے بارے میں ممکنُ الحصول حقائق جمع کرنا سائنس کا مطمحِ نظر ہے۔ دُوسری طرف مذہب یہ بتاتا ہے کہ یہ ساری اشیاء ﷲ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ چنانچہ سائنس کی یہ ذِمہ داری ہے کہ اللہ ربّ العزت کے پیدا کردہ عوالم اور اُن کے اندر جاری و ساری عوامل ( functions ) کا بنظرِ غائر مطالعہ کرے اور کائنات میں پوشیدہ مختلف سائنسی حقائق کو بنی نوع اِنسان کی فلاح کے لئے سامنے لائے۔
اللہ ربّ العزت کی تخلیق کردہ اِس کائنات میں غور و فکر کے دَوران ایک سائنسدان کو بارہا اِقدام و خطاء ( trial / error ) کی حالت سے گزرنا پڑتا ہے۔ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ کی تحقیق سے کسی چیز کو سائنسی اِصطلاح میں ’حقیقت‘ کا نام دے دیا جاتا ہے مگر مزید تحقیق سے پہلی تحقیق میں واقع خطا ظاہر ہونے پر اُسے ردّ کر تے ہوئے نئی تحقیق کو ایک وقت تک کیلئے حتمی قرار دے دیا جاتا ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں اگرچہ ایک ’مفروضے‘ کو مسلّمہ ’نظرئیے‘ تک کا درجہ دے دیا جاتا ہے، تاہم سائنسی طریقِ تحقیق میں کسی نظرئیے کو بھی ہمیشہ کیلئے حقیقت کی حتمی شکل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سائنس کی دُنیا میں کوئی نظریہ جامد ( unchangeable ) اور مطلق ( absolute ) نہیں ہوتا، ممکنہ تبدیلیوں کا اِمکان بہرحال موجود رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے تجربات کی روشنی میں صدیوں سے مسلّمہ کسی نظرئیے کو مکمل طور پر مستردّ کر دیا جائے۔
مذہب اِقدام و خطاء سے مکمل طور پر آزاد ہے کیونکہ اُس کا تعلق اللہ ربّ العزت کے عطا کردہ علم سے ہوتا ہے، جو حتمی، قطعی اور غیر متبدّل ہے اور اُس میں خطاء کا کلیتاً کوئی اِمکان نہیں ہوتا۔ جبکہ سائنسی علوم کی تمام تر تحقیقات اِقدام و خطا ( trial / error ) کے اُصول کے مطابق جاری ہیں۔ ایک وقت تک جو اشیاء حقائق کا درجہ رکھتی تھیں موجودہ سائنس اُنہیں کلی طور پر باطل قرار دے کر نئے حقائق منظرِ عام پر لا رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ حقائق تک پہنچنے کی اِس کوشش میں بعض اَوقات سائنس غلطی کا شکار بھی ہو جاتی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس کی بنیاد ہی سعی اور خطاء ( trial / error ) پر ہے جو مختلف مُشاہدات اور تجربات کے ذریعے حقائق تک رسائی کی کوشش کرتی ہے۔
مذہب ما بعدُ الطبیعیاتی ( metaphysical ) حقائق سے آگہی کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس مادّی کائنات سے متعلق بھی بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے، جن کی روشنی میں ہم سائنسی علوم کے تحت اِس کائنات کو اپنے لئے بہتر اِستعمال میں لا سکتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اِرشا دِ باری تعالیٰ ہے:
( وَ سَخَّرَ لَکُم مَّا فِی السَّمٰوَاتِ وَ مَا فِی الاَرضِ ) (الجاثیہ،۴۵:۱۳)
اور اُس (ﷲ) نے سماوی کائنات اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔
جہاں تک مذہب کا معاملہ تھا اُس نے تو ہمیں اِس حقیقت سے آگاہ کر دیا کہ زمین و آسمان میں جتنی کائنات بکھری ہوئی ہے سب اِنسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔ اَب یہ اِنسان کا کام ہے کہ وہ سائنسی علوم کی بدولت کائنات کی ہر شے کو اِنسانی فلاح کے نکتۂ نظر سے اپنے لئے بہتر سے بہتر اِستعمال میں لائے۔ اِسی طرح ایک طرف ہمیں مذہب یہ بتاتا ہے کہ جملہ مخلوقات کی خلقت پانی سے عمل میں آئی ہے تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ذِمہ داری یہ رہنمائی کرنا ہے کہ بنی نوع اِنسان کو پانی سے کس قدر فوائد بہم پہنچائے جا سکتے ہیں اور اُس کا طریقِ کار کیا ہو۔ چنانچہ اِس ساری بحث سے ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سائنس اور مذہب کہیں بھی اور کسی درجے میں بھی ایک دُوسرے سے متصادِم نہیں ہیں۔
مغالطے کے اَسباب
اَب جبکہ ہم یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ مذہب اور سائنس میں حقیقتاً کوئی تضاد موجود نہیں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام ذِہن میں اَیسی غلط فہمی کیوں پائی جاتی ہے اور اِس مغالطے کے اَسباب و عوامل کیا ہیں؟ اگرچہ اِس مغالطے کے اَسباب بہت سے ہیں لیکن بنیادی طور پر دو اہم اَسباب ایسے ہیں جن پر ہم سرِ دست خاص طور پر توجہ دینا چاہیں گے۔ اُن میں سے ایک کا تعلق یورپ سے ہے اور دُوسرے کا عالمِ اِسلام سے۔
پہلا سبب۔ ۔ ۔ سولہویں صدی کے کلیسائی مظالم
عالمِ مغرب میں یہ مغالطہ اُس دَور میں پیدا ہوا جب برِاعظم یورپ عیسائی پادریوں کے تسلط میں جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیرے میں ڈُوبا ہوا تھا۔ جاہل پادری عیسوی مذہب اور بائبل کی اصل اِسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے مَن گھڑت عیسائیت کو فروغ دینے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ بائبل میں تحریف کی وجہ سے عقائد اَوہام میں اور عبادات رسوم میں بدل چکی تھیں اور معاشرہ کفر و شرک کی اندھی دلدل میں دھنستا ہی چلا جا رہا تھا۔ عیسائی مذہب کی بنیادی تعلیمات جو حضرت عیسیٰؑ نے آج سے دو ہزار برس قبل دی تھیں اُنہیں بدل کر توحید کی جگہ تثلیث کا عقیدہ گھڑ لیا گیا، جو ایک اِنتہائی نامعقول تصوّر تھا اور اُسے آج خود عیسائی سکالر اور فلاسفر بھی ردّ کر رہے ہیں۔
اِس تحریف کے بعد سب سے بڑا فتنہ یہ پیدا ہوا کہ یونانی فلسفہ بائبل کا حصہ بن گیا، جسے دینِ عیسوی کے ماننے والے رفتہ رفتہ اپنا مستقل عقیدہ سمجھنے لگ گئے۔ حالانکہ وہ عقیدہ دراصل اُن کا نہ تھا بلکہ وہ محض یونانی فلسفے کے غلط تصوّرات تھے جو پادریوں کے ذریعے بائبل میں ڈال دیئے گئے تھے۔ اَب اِس تحریف کی وجہ سے بائبل میں یونانی فلسفے پر مبنی بے شمار سائنسی اَغلاط دَر آئیں۔
سولہویں صدی میں جب سائنس نے اُن غلط نظریات کو تحقیق کی روشنی میں جھٹلایا تو اُس وقت کے پادری یہ سمجھے کہ سائنسدان مذہب کو سائنس کے ذریعے ردّ کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ سائنسدانوں اور سائنسی علوم کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے۔ پہلے پہل نظامِ شمسی اور حرکتِ زمین کے بارے میں نئے سائنسی تصوّرات کا یہ نتیجہ نکلا کہ پادریوں نے تکفیر کے فتوے دیئے۔ گلیلیو نے جب ۱۶۰۹ء میں دُوربین اِیجاد کی اور اُس کی مدد سے نظامِ شمسی کی بابت اپنی تحقیقات دُنیا کے سامنے پیش کیں تو پادریوں نے اُسے اِس جرم کی پاداش میں سزائے قید سنائی اور وہ دورانِ قید ہی مر گیا۔ علیٰ ہذا القیاس متعدّد سائنسدانوں کو مذہب کے نام پر متعصب ظالمانہ قوانین کے شکنجے میں کستے ہوئے اُنہیں اپنے سائنسی نظریات واپس لینے پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ اُن میں سے بعض کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا۔ اِن تمام باتوں کے باوُجود سائنس کا کارواں مسلسل آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُس جاہلانہ معاشرے میں مذہب اور سائنس کے درمیان ایک گھمبیر جنگ چھڑ گئی۔ قانونِ قدرت کے مطابق حق (سائنس) کو بالآخر فتح نصیب ہوئی اور مسخ شدہ عیسائیت اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔
سائنس کے غلبے کا دَور آیا تو ردِ عمل ( reaction ) کے طور پر سائنسدانوں نے بچے کھچے عیسائی مذہب اور مسخ شدہ بائبل کے خلاف بدلے کے طور پر ایک مہم چلائی، جس کے تحت ایک بڑی تعداد میں کتابیں اور مضامین شائع کئے گئے۔ باقاعدہ علمی معرکے بپا ہوئے جن کے دَوران عیسائی پادریوں کی کونسل کے اِجلاس بھی ہوتے رہے، جن میں وہ عیسائیت کے دفاع کی کوشش کرتے۔ چند سال پیشتر پوپ آف روم نے بعض اہلِ کلیسا کی طرف سے دیئے گئے آسمانی کائنات کے متعلق غیر سائنسی اور جاہلانہ فتاویٰ کو منسوخ کرنے کا اِعلان کیا ہے۔
عیسائیت کی شکست کے بعد اگرچہ یہ جنگ اَب ختم ہو چکی ہے تاہم جدید ذِہن اِسلام سمیت دیگر تمام اَدیان کو بھی عیسائیت ہی کے پردے میں دیکھ رہا ہے اور اُنہیں بھی سائنسی تحقیقات پر پہرے بٹھانے والے اور باطل اَدیان سمجھ رہا ہے، حالانکہ حقیقت بالکل اِس کے برعکس ہے۔ مذہب اور سائنس میں مغائرت کی بحث کبھی بھی اِسلام کی بحث نہ تھی، یہ عیسائیت کے مسخ شدہ مذہب اور سائنس کی جنگ تھی۔بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں نے سائنسی علوم کی اِبتداء اور پیش رفت کے بارے میں جاننے کے لئے عالمِ اِسلام کی زرّیں تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اُنہوں نے اندلس ( Spain )، بغداد ( Baghdad )، دمِشق ( Damascus ) اور نیشاپور کی اِسلامی سائنسی ترقی کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ آج بھی ہالینڈ کی لیڈن یونیورسٹی کی لائبریری کے ایشین سیکشن ( Asian section ) میں مسلم سائنسدانوں کی لکھی ہوئی صدیوں پرانی کتابیں موجود ہیں، جو ہمیں اِس حقیقت سے آگاہ کرتی ہیں کہ جب یورپ جہالت کی اتھاہ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا اُس وقت دُنیائے اِسلام میں سائنسی تحقیقات کی بدولت علم و حکمت اورفکر و دانش کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی سائنس کے عروج کے دَور میں سائنسی علوم پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ چنانچہ مذہب اور سائنس کی یہ چپقلش اِسلام کی پیدا کردہ نہیں بلکہ یورپ کے دورِ جاہلیت ( dark ages ) کی پیدا وار ہے اور ہماری نوجوان نسل کی یہ بدقسمتی ہے کہ اُنہوں نے آج تک اِسلام کی تاریخ کو براہِ راست اپنے اِسلامی ذرائع سے نہیں پڑھا اور فقط مغربی ذرائعِ علم پر ہی اِکتفا کیا ہے۔ وہ اِس نکتے کو نہ سمجھ سکے کہ مذہب پر کی جانے والی تمام تنقیدیں اِسلام کے خلاف نہیں بلکہ عیسائیت کی مسخ شدہ مذہبی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ مغربی سائنسدانوں کے سامنے تو اِسلام کا سِرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں تھا، لہٰذا کسی بھی سائنسدان کی طرف سے مذہب کے خلاف کی جانے والی تنقیدات کا ہدف اِسلام نہیں۔ ایسی تنقید نام نہاد عیسائی مذہب کے مبنی بر جہالت و تعصب نظریات اور عقائد کے خلاف متصوّر ہونی چاہئے۔ اِسلام کا اُس سے کوئی سروکار نہیں۔
دُوسرا سبب۔ ۔ ۔ علمائے اِسلام کی سائنسی علوم میں عدم دِلچسپی
دُوسری اہم وجہ ہمارے علمائے کرام کے اَذہان میں پایا جانے والا ایک غلط تصوّر ہے کہ ہمارے ہاں مدارسِ اِسلامیہ کے نصاب ’درسِ نظامی‘ میں صدیوں سے جو فلسفہ پڑھایا جا رہا ہے وہ اِسلام سے ماخوذ ہے۔ یہ تصوّر ہی حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ وہ فلسفہ بنیادی طور پر اِسلامی نہیں بلکہ یونانی فلسفہ ہے۔ ہمارے بعض کم نظر علماء وہ کتابیں پڑھ کر یہ تمیز بھول گئے ہیں کہ وہ فلسفہ یونانی ہے قرآنی نہیں۔ اِسی وجہ سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ بعض سائنسی تصورات ہمارے مذہب کے خلاف ہیں، حالانکہ حقیقت اِس سے یکسر مختلف ہے اور بدیہی طور پر اِسلام اور سائنس میں کسی قسم کا کوئی تضاد اور ٹکراؤ نہیں بلکہ یہ تضاد غلط سوچ اور حقائق سے لاعلمی کی پیداوار ہے۔ نظریۂ اِضافیت ( Theory of Relativity ) کے خالق شہرہ آفاق سائنسدان ’آئن سٹائن‘ کا کہنا ہے کہ:
" Science without religion is lame and religion without science is blind ".
ترجمہ:
"مذہب کے بغیر سائنس لنگڑی ہے اور سائنس کے بغیر مذہب اندھا ہے"۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اِسلام اپنے ماننے والوں کو مذہب اور سائنس دونوں کا نور عطا کرتا ہے۔ اِس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اِسلام دُنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دین ہے، جو نہ صرف قدم قدم سائنسی علوم کے ساتھ چلتا نظر آتا ہے بلکہ تحقیق و جستجو کی راہوں میں سائنسی ذِہن کی ہر مشکل میں رہنمائی بھی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ جو سائنسی تصوّرات اِس وقت بنی نوع اِنسان کے سامنے آ چکے ہیں اور مستقبل کے تناظرات میں سائنس جس طرف بڑھ رہی ہے اُس کے پیش کردہ بنیادی نظریات قرآن و حدیث کے تصوّرات کی تائید و تصدیق کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے اِسلام کی حقانیت ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا اور مبالغہ آمیز نہ ہو گا کہ جدید سائنس کی ترقی سے مذہب کا نور نکھرتا جا رہا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ جب سائنس اپنی تحقیقات کے نکتۂ کمال کو پہنچے گی تو اللہ کے دین کا ہر اِیمانی تصوّر سائنس کے ذریعے صحیح ثابت ہو جائے گا۔ قرآنِ مجید اور سائنس کا تقابلی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کے بے شمار نظریات قرآنی تصوّرات کو صد فی صد صحیح ثابت کرتے ہیں اور وہ دِن دُور نہیں جب سائنس کلی طور پر دینی نظریات کی تائید و توثیق کرنے لگے گی۔
باب سوم
قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ
تاجدارِ کائنات (ص) کی بعثت سے تاریخِ اِنسانیت میں علم و فن ، فکر و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافت کے نئے اسالیب کا آغاز ہوا اور دُنیا علمی اور ثقافتی حوالے سے ایک نئے دَور میں داخل ہوئی۔ آپ(ص) پر نازِل ہونے والے صحیفۂ اِنقلاب نے اِنسانیت کو مذہبی حقائق سمجھنے کے لئے تعقّل و تدبّر اور تفکّر و تعمق کی دعوت دی۔( اَفَلاَ تَعقِلُونَ ) (تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟)،( اَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ ) (وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟) اور( اَلَّذِینَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ ) (جو لوگ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں) جیسے الفاظ کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اپنے کلامِ برحق میں بار بار عقلِ اِنسانی کو جھنجھوڑا اَور اِنسانی و کائناتی حقائق اور آفاقی نظام کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا۔ اِس طرح مذہب اور فلسفہ و سائنس کی غیریت بلکہ تضاد و تصادُم کو ختم کر کے اِنسانی علم و فکر کو وحدت اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا گیا۔ تاجدارِ رحمت (ص) کے اِس اِحسان کا بدلہ اِنسانیت رہتی دُنیا تک نہیں چکا سکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک دُنیا میں جس قدر علمی و فکری اور ثقافتی و سائنسی ترقی ہوئی ہے یا ہو گی وہ سب دینِ اِسلام کے اِنقلاب آفریں پیغام کا نتیجہ ہے، جس کے ذریعے علم و فکر اور تحقیق و جستجو کے نئے دَر وَا ہوئے۔ معلّمِ اِنسانیت (ص) کی بعثت سے قبل دُنیا میں علم، فلسفہ اور سائنس کی ترقی کا جو بھی معیار تھا اُس کی بنیاد سقراط ( Socrates )، اَفلاطون ( Plato ) اور اَرسطو ( Aristotle ) کے دیئے گئے نظریات پر تھی۔ آمدِ دینِ مصطفی (ص) سے قبل یونان ( Greece ) اور اسکندریہ ( Alexandria ) کی سرزمین علم کی سرپرستی کرتی رہی تھیں۔ اُن مخصوص خطہ ہائے زمین کے علاوہ دُنیا کا بیشتر حصہ جہالت کی تاریکی میں گم تھا۔سرزمینِ عرب کا بھی یہی حال تھا، جہاں کے لوگ اپنی جہالت اور جاہلیت پر فخر کرتے تھے۔ قدیم یونان، اسکندریہ اور رُوما (اٹلی) میں علم اور تمدّن کی ترقی کا کوئی فائدہ اہلِ عرب کو اِس لئے نہ تھا کہ اُن کے مابین زبانوں کا بہت فرق تھا۔ تاہم جاہلی عرب میں بعض علوم و فنون کا اپنا رواج اور ماحول تھا۔ مختلف علمی و اَدبی میدانوں میں عربوں کا اپنا مخصوص ذوق اور اُس کے اِظہار کا اپنا ایک مخصوص انداز ضرور تھا۔ ایسے حالات میں قرآنِ مجید کی پہلی آیاتِ طیبات الٰہیات، اَخلاقیات، فلسفہ اور سائنس کا پیغام لے کر نازل ہوئیں۔
اِرشادِ ربانی ہوا:
( اِقرَا بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ اِقرَا وَ رَبُّکَ الاَکرَمُ الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَم ) (العلق،۹۶:۱۔۵)
(اے حبیب (ص)) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا O اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وُجود سے پیدا کیا O پڑھئے اور آپ کا ربّ بڑا ہی کریم ہے O جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا O جس نے اِنسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاتاجدارِ رحمت (ص) پر نازِل ہونے والی پہلی وحی کی پہلی آیت نے اِسلامی ’الٰہیات‘ و ’اَخلاقیات‘ کی علمی بنیاد فراہم کی، دُوسری آیت نے ’حیاتیات‘ اور ’جینیات‘ کی سائنسی اَساس بیان کی، تیسری آیت نے اِنسان کو اِسلامی عقیدہ و فلسفۂ حیات کی طرف متوجہ کیا، چوتھی آیت نے فلسفۂ علم و تعلیم اور ذرائعِ علم پر روشنی ڈالی اور پانچویں آیت نے علم و معرفت، فکر و فن اور فلسفہ و سائنس کے تمام میدانوں میں تحقیق و جستجو کے دروازے کھول دیئے۔ حضور(ص) نے اپنی حیاتِ طیبہ میں علم و فن اور تعلیم و تعلم کی ایسی سرپرستی فرمائی کہ اپنی جہالت پر فخر کرنے والی اُمیّ (اَن پڑھ) قوم تھوڑے ہی عرصہ میں پوری دُنیا کے علوم و فنون کی اِمام و پیشوا بن گئی اور شرق سے غرب تک علم و اَخلاق اور فلسفہ و سائنس کی روشنی پھیلانے لگی۔ وہ عرب قوم۔ ۔ ۔ جسے علم و سائنس کی راہ پر ڈالنے کے لئے حضور(ص) نے غزوۂ بدر کے کافر قیدیوں کے لئے چار ہزار درہم زرِ فدیہ کی خطیر رقم چھوڑتے ہوئے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھانے کا فدیہ مقرر کر دیا تھا۔ ۔ ۔ اِسلام کی اَوائل صدیوں کے اندر ہی پوری دُنیائے اِنسانیت کی معلّم بن کر اُبھری۔ اور اُس نے سائنسی علوم کو اَیسی مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن کا لوہا آج بھی مانا جاتا ہے۔ اِس باب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اُس نے اِنسانی ذِہن کو اپنے وُجود اور نظامِ کائنات کے حقائق کو سمجھنے کے لئے دعوتِ غور و فکر دی۔
کلامِ مجید میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( سَنُرِیهِم اٰیَاتِنَا فِی الاٰفَاقِ وَ فِی اَنفُسِهِم حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُم اَنَّهُ الحَقُّ ) (حم السجدہ،۴۱:۵۳)
ہم عنقریب اُنہیں اپنی نشانیاں خارجی کائنات ( universal phenomenon ) میں اور اُن کے وُجودوں ( human world ) کے اندر دِکھا دیں گے، حتی کہ اُن پر آشکار ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے۔
تاجدارِ کائنات (ص) نے اُس جاہل بدوی قوم کو حقائق کے تجزیہ و تعلیل کا مزاج دیا، حقائقِ کائنات میں جستجو اور تحقیق کا ذَوق دیا۔ کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے اِختتام تک اور اِنسان کی تخلیق سے لے کر اُس کی موت تک، پھر موت سے قیامت تک کے اَحوال پر غور و فکر کے لئے بھی بنیادی مواد فراہم کیا۔ اِس طرح کائناتی اور اِنسانی علوم ( sciences ) کی ترقی کی راہیں تسلسل کے ساتھ کھلتی ہی چلی گئیں ۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ میں علمی ذوق نے اِس حد تک فروغ پایا کہ حکم قرآنی "عَلَّمَ بِالقَلَمِ" کا اِشارہ پاکر مسلم اہلِ علم نے "قلم" کی تاریخی تحقیق کا بھی حق اَدا کر دیا۔ یہاں تک کہ اِمام عبدالرحمن بن محمد بن علی الحنفی البسطامی نے ابوالبشر سیدنا آدمؑ سے لے کر اپنے دَور تک قلم کے جملہ مناہج و اَسالیب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام "مباھجُ الأعلام فی مناھجِ الأقلام " رکھا۔ اُس کتاب میں اُنہوں نے ۱۵۰ سے زائد قلموں اور اُن کے اَدوار و اَحوال کی تاریخ مرتب کی ہے۔ غالباً یہ دُنیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ اُس کا مخطوطہ یونیورسٹی آف لیڈن (ہالینڈ) میں محفوظ ہے۔ برائے حوالہ ملاحظہ ہو:
Catalogue of Arabic Manuscripts (xxi) Fasciule ۲ by J. J. Witkam, (Leiden University Press, Leiden, ۱۹۸۴ )
عالمِ اِسلام میں تہذیب و ثقافت کا فروغ
اِبنِ حوقل نے بیان کیا ہے کہ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی اور عرب دُنیا میں شرحِ خواندگی اور تعلیم و تعلم ( education / literacy ) کے شغل نے یہاں تک ترقی کی کہ صرف سسلی ( Sicily ) جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں ۶۰۰ پرائمری سکول موجود تھے اور اُن کی وُسعت کا یہ عالم تھا کہ ابو القاسم بلخی کی رِوایت کے مطابق ۳۰۰۰ طلباء صرف اُن کے اپنے اِنسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم تھے۔ اِسی طرح دمشق ( Damascus )، حلب ( Halab )، بغداد ( Baghdad )، موصل ( Mosul )، مصر ( Egypt )، بیتُ المقدس ( Jerusalem )، بعلبک، قرطبہ ( Cordoba )، نیشاپور اور خراسان ( Central Asia ) وغیرہ بھی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے معمور تھے۔ ’جامعہ نظامیہ بغداد‘۔ ۔ ۔ جو پانچویں صدی سے نویں صدی ہجری تک دُنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی۔ ۔ ۔ اُس میں ریگولر طلبہ کی تعداد ۶,۰۰۰رہتی تھی۔
دسویں صدی میں بقول اِمام نعیمی، صرف شہر دمشق میں فقہ و قانون( law and jurisprudence ) کے کالجز اور جامعات کا عالم یہ تھا کہ ۶۳ تعلیمی اِدارے فقہ شافعی کے تھے، ۵۲ فقہ حنفی کے،۱۱ فقہ حنبلی کے اور ۴ فقہ مالکی کے تھے۔ اِس کے علاوہ علمُ الطب ( medical sciences )کے سکول اور کالج الگ تھے۔
اِمام ابنِ کثیر تاریخ پر اپنی کتاب ’البدایہ والنہایہ‘ میں سن ۶۳۱ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اُس سال ’مدرسہ مستنصریہ‘ کی تعمیر مکمل ہوئی، جو اُس وقت کی قانون کی سب سے بڑی درسگاہ تھی۔ اُس میں چاروں فقہی و قانونی مکاتبِ فکر کے ۶۲، ۶۲ ماہرین و متخصّصین فقہ و قانون کے شعبوں میں تدریس کے لئے تعینات تھے۔
اِسلامی تاریخ کا سب سے پہلا باقاعدہ ہسپتال اُموی خلیفہ ’ولید بن عبدالملک‘ (۸۶ھ تا ۹۶ھ) کے زمانے میں پہلی صدی ہجری میں ہی تعمیر ہو گیا تھا۔ اُس سے قبل ڈسپنسریاں ( dispensaries ) موبائل میڈیکل یونٹ ( mobile medical units ) اور میڈیکل ایڈ سنٹرز ( medical aid centres ) وغیرہ موجود تھے، جو عہدِ رسالت مآب (ص) میں غزوۂ خندق کے موقع پر بھی مدینہ طیبہ میں کام کر رہے تھے۔ اُس ہسپتال میں indoor patients کے باقاعدہ وارڈز تھے اور ڈاکٹروں کو رہائش گاہوں کے علاوہ بڑی معقول تنخواہیں بھی دی جاتی تھیں۔
اِسلامی تاریخ کے اُس دورِ اوائل کے ہسپتالوں میں درج ذیل شعبہ جات مستقل طور پر قائم ہو چکے تھے:
۱- Department of Systematic Diseases
۲- Ophthalmic department
۳- Surgical department
۴- Orthopaedic department
۵- Department of mental diseases
اُن میں سے بعض بڑے ہسپتالوں کے ساتھ میڈیکل کالج ( medical colleges ) بھی متعلق کر دیئے گئے تھے, جہاں پوری دُنیا کے طلبہ medical science کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دمشق کا ’نوری ہسپتال‘ ( Noorie Hospital ) اور مصر کا ’ابنِ طولون ہسپتال‘ ( Ibn-i-Tulun Hospital ) اِس سلسلے میں بڑے نمایاں تھے۔ ابنِ طولون میڈیکل کالج میں اِتنی عظیم لائبریری موجود تھی جو صرف medical sciences ہی کی ایک لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل تھی۔ ہسپتالوں کا نظام دَورِ جدید کے مغربی ہسپتالوں کی طرح نہایت منظم اور جامع تھا اور یہ معیار دمشق ، بغداد، قاہرہ،بیتُ المقدس، مکہ، مدینہ اور اندلس ہر جگہ برقرار رکھا گیا تھا۔ بغداد کا ’اَزدی ہسپتال‘ ( Azdi Hospital )جو ۳۷۱ھ میں تعمیر ہوا، دمشق کا ’نوری ہسپتال‘ ( Noorie Hospital )، مصر کا ’منصوری ہسپتال‘ ( Mansuri Hospital ) اور مراکش کا ’مراکو ہسپتال‘ ( Moroccan Hospital ) اُس وقت دُنیا کے سب سے بڑے اور تمام ضروری سہولتوں اور آلات سے لیس ہسپتال تھے۔
اِسلامی تعلیمات کی بدولت ملنے والی ترغیب سے مسلمان تو تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھے جبکہ یورپ کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ تھا۔ مسلمانوں کے علمی شغف کا یہ عالم تھا کہ اِسلامی دُنیا کے ہر شہر میں پبلک اور پرائیویٹ لائبریریوں کی قابلِ رشک تعداد موجود تھی اور بیشتر لائبریریاں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ رکھتی تھی۔ قرطبہ ( Cordoba )، غرناطہ ( Granada )، بغداد ( Baghdad ) اور طرابلس ( Tarabulus ) وغیرہ کی لائبریریاں دُنیا کا عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصوّر ہوتی تھیں۔
علوم القرآن ( Quranic Sciences )
قرآنِ مجید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں اِنسانی زِندگی کے ہر گوشے سے متعلق ہدایت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک اَیسی کتابِ ہدایت ہے جس سے تمام علوم کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ چنانچہ اَوائل دورِ اِسلام ہی سے قرآنِ مجید کو منبعِ علوم تصوّر کرتے ہوئے اُس سے مستنبط ہونے والے علوم و فنون پر کام کیا گیا۔ قاضی ابو بکر بن عربی اپنی کتاب ’قانونُ التأویل‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قرآنی علوم کی تعداد ۷۷,۴۵۰ ہے۔ مسلمان اہلِ علم نے صرف مطالعۂ قرآن کے ذریعے جو علمی و اَدبی اور سائنسی و سماجی علوم و فنون اَخذ کئے اُن میں سے چند ایک یہ ہیں:
علمُ التوحید ( theology )
علمُ القراۃ والتجوید ( pronunciation )
علمُ النحو ( grammar / syntax )
علمُ الصرف ( morphology )
علمُ التفسیر ( exegesis )
علمُ اللغہ ( linguistics )
علمُ الاصول ( science of fundamentals )
علمُ الفروع ( science of branches )
علمُ الکلام ( theology )
علمُ الفقہ والقانون ( law / jurisprudence )
علمُ الفرائض والمیراث( law of inheritance )
علمُ الجریمہ ( criminology )
علمُ الحرب ( science of war )
علمُ التاریخ ( history )
علمُ التزکیہ والتصوف ( theosophy )
علمُ التعبیر ( oneiromancy )
علمُ الادب ( literature )
علمُ البلاغت، المعانی، البیان، البدیع ( rhetoric )
علمُ الجبر و المقابلہ ( algebra )
علمُ المناظرہ ( polemics )
علمُ الفلسفہ ( philosophy )
علمُ النفسیات ( psychology )
علمُ الاَخلاق ( ethics )
علمُ السیاسہ ( political science )
علمُ المعاشرہ ( sociology )
علمُ الثقافہ ( culture )
علمُ الخطاطی ( calligraphy )
علمُ المعیشت والاقتصاد( economics )
علمُ الکیمیا ( chemistry )
علمُ الطبیعیات ( physics )
علمُ الحیاتیات ( biology )
علمُ النباتات ( botany )
علمُ الزراعہ ( agronomy )
علمُ الحیوانات ( zoology )
علمُ الطب ( medical science )
علمُ الادویہ ( pharmacology )
علمُ الجنین ( embryology )
علم تخلیقیات ( cosmology )
علم کونیات ( cosmogony )
علمُ الہیئت ( astronomy )
علمِ جغرافیہ ( geography )
علمُ الارضیات ( geology )
علمُ الآثار ( archaeology )
علمُ المیقات ( timekeeping ) وغیرہ
اِسی طرح اَحادیثِ نبوی سے بھی ہزارہا علوم و فنون کا اِستنباط کیا گیا اور اگلی صدیوں میں اُن پر تحقیق کے ذریعے ہزاروں کتب کا بیش بہا ذخیرہ مرتب ہوا۔
اَب ہم اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند سائنسی اور سماجی علوم و فنون کے اِرتقاء میں ہونے والی پیش رفت کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔
علمِ ہیئت و فلکیات ( Astronomy )
علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار اَجرام سماوی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔
عظیم مغربی مؤرخ Prof Hitti لکھتا ہے:
Not only are most of the star ۔ ۔ ۔ names in European languages of Arabic origins ۔ ۔ ۔ but a numbers of technical terms ۔ ۔ ۔ are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe ."
( History of the Arabs, pp.۵۶۸-۵۷۳ )
ترجمہ: "یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں"۔
اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد ۔ ۔ ۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں ( sun spots ) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ’عمر خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات ( timekeeping ) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات ( timekeeping ) کے میدان میں خصوصی دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (۸۷۷ء۔۹۱۸ء) اور البیرونی (۹۷۳ء۔۱۰۵۰ء) کا زمانہ صرف تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل انجام پذیر ہوئے۔
( History of the Arabs, pp.۳۷۳-۳۷۸ )
پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقویم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔ رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری تقویم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعد اَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقویمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں باقاعدہ طور پر ’مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور ماہرِ فلکیات ہوتا تھا۔
مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات( observational astronomy ) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی الاصل ہے اِس کی عربی اصل ’المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاً مسلم سائنسدانوں نے اِیجاد کیا تھا۔ ’شیخ عبدالرحمن الصوفی ‘ نے اِس موضوع پر ایک عظیم کتاب ’صورُالکواکب‘ ( figures of the stars ) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔ مستزاد یہ کہ اِس باب میں ’ابنُ الہیثم‘۔ ۔ ۔ جسے اہلِ مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔ علمِ ہیئت و فلکیات ( astronomy ) اور علمِ نجوم ( astrology ) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ ’علی بن خلاف اندلسی‘ اور ’مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ ( Cordoba ) کے عظیم سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید کی سیارہ گاہ ( Planetarium ) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ’عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔ بعد اَزاں البیرونی ( al-Biruni ) اور ازرقیل ( Azarquiel ) وغیرہ نے equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن ( lunar / solar eclipses ) کو قبل اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے Toledan Astronomical Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیر مسلم مؤرخین نے اِس حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے:
" Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon --- later extended to the other planets --- as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation began ."
) The Legacy of Islam, pp. ۴۷۴-۴۸۲ (
ترجمہ: "مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا"۔
حساب،الجبرا،جیومیٹری ( Mathematics, Algebra, Geometry )
حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں ’الخوارزمی‘ مؤسسینِ علم میں سے ایک ہے۔ حساب میں algorism یا algorithm کا لفظ الخوارزمی ( al-Khwarizimi ) کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ اُن کی کتاب "الجبر و المقابلہ" کا بارہویں صدی عیسوی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصابی کتاب ( textbook ) کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اُسی سے عالمِ مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اُس کتاب میں ’تفرّق کے معکوس‘ ( integration ) اور ’مساوات‘ ( equation ) کی آٹھ سو سے زائد مثالیں دی گئی تھیں۔ مستزاد یہ کہ یورپ میں trigonometrical functions کا علم ’البتانی‘ کی تصانیف کے ذریعے اور tangents کا علم ’ابوالوفا‘ کی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔ اسی طرح صفر ( zero ) کا تصوّر مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم ۲۵۰ سال قبل عرب مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابو الوفاء، الکندی، ثابت بن القرّاء، الفارابی، عمرخیام، نصیرالدین طوسی، ابنُ البناء المراکشی، ابنِ حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور اِبراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات arithmetic ، algebra ، geometry اور trigonometry وغیرہ میں تأسیسی حیثیت کی حامل ہیں۔ حتیٰ کہ اِن مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اُصولوں کے ذریعے optics اور mechanics کو بھی خوب ترقی دی۔ یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ ’المراکشی‘ نے mathematics کی مختلف شاخوں پر ۷۰ کتابیں تصنیف کی تھیں, جو بعد اَزاں اِس علم کا اَساسی سرمایہ بنیں۔ الغرض مسلم ماہرین نے علمِ ریاضی کو یونانیوں سے بہت آگے پہنچا دیا اور یہی اِسلامی کام جدید mathematics کی بنیاد بنا۔
طبیعیات،میکانیات اورحرکیات( Physics, Mechanics, Dynamics )
قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات ( cosmology ) کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو ( Aristotole ) کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت ( motion ) اور سمتی رفتار ( velocity ) کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابنُ الہیثم نے density ، atmosphere ، measurements ، weight ، space ، time ، velocities ، gravitation ، capillary attraction جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات ( physics ) کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح mechanics اور dynamics کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔
ابنُ الہیثم کی ’کتابُ المناظر‘ ( optical thesaurus ) نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی dynamics میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے galileo سے بھی پہلے gravitational force کی خبر دی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح momentum کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے ذریعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے lever پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں liber karatonis کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بغداد کے دیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی mechanical devices اور gadgets وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔
علم بصریات ( Optics )
بصریات ( optics ) کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ ( Arnold ) اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب " On Optics " آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذریعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ lenses کی magnifying power کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے magnifying lenses کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کر دیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت ( nature of vision ) کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں ( rays ) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام ( external objects ) کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت ( retina ) کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا optic nerve اور دِماغ ( brain ) کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ Euclid اور Kepler کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات ( optics ) کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف Witelo Roger Bacon اور Peckham جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں Kepler اور Newton کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام velocities ، light ، lenses ، astronomical observations ، meteorology اور camera وغیرہ پر تأسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی اور القزوینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔
علمُ النباتات ( Botany )
اِس موضوع پر الدینوری (۸۹۵ء) کی چھ جلدوں پر مشتمل ’کتابُ النبات‘ سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع Encyclopaedia Botanica ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔
ایک مغربی سائنسی مورخ Strassburg لکھتا ہے:
" Anyhow it is astonishing enough that the entire botanical literature of antiquity furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How was it that the Muslim people could, during so early a period of its literacy life, attain the level of the people of such a genius as the Hellenic one, and even surpassed it in this respect ."
) Zeitschrift fuer Assyriologie, Strassburg, vols. ۲۵,۴۴ )
ترجمہ "الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں لکھا جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور میں مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہ اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے"۔
پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی طرف حج اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے biological science کو خاصی ترقی دی ہے۔ الغفیقی اور الادریسی نے اندلس ( Spain ) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں اور کتابیں مرتب کیں۔
ابنُ العوام نے ۵۸۵ پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی اور علمُ النباتات ( botany ) کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔
پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے:
" In the field of natural history especially botany, pure and applied, as in that of astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain) enriched the world by their researches. They made accurate observations on the sexual difference (of various plants
( Ameer Ali, The Spirit of Islam. pp. ۳۸۵-۳۸۷ )
ترجمہ: "قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم نباتات میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے جنسی اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم العراقی) کی تحقیقات بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں"۔
اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ ( Cordoba )میں ایک زرعی تحقیقاتی اِدارے "حدیقہ نباتاتِ طبیہ" کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ نباتات ( botany ) کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ علمُ الطب ( medical sciences ) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس کے ماہرینِ نباتات نے پودوں میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر دریافت کر لیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں اُنہیں "حدیقہ نباتاتِ طبیہ" میں کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ العزت کے فرمان "خَلَقَ ﷲ کُلَّ شَیئٍ زَوجًا" (اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی بنیادی رہنمائی عطا کی۔
عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ’کتاب اَعیان النبات و الشجریات الاندلسیہ‘ کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے ماہرِ نباتات ( botanist ) ابنُ الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں پرخالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ نباتا ت میں سے ہیں۔
علمُ الطب ( Medical Science )
اِس میدان میں بھی اِسلامی تاریخ عدیمُ المثال مقام کی حامل ہے۔ اِس باب میں الرازی، ابو القاسم الزہراوی، ابنِ سینا، ابنِ رُشد اور الکندی کے نام سرِ فہرست آتے ہیں۔
"مسلم سائنسدانوں نے اِسلام کے دورِ اَوائل میں ہی بڑے بڑے ہسپتال اور طبی اِدارے ( medical colleges ) قائم کرلئے تھے، جہاں علم الادویہ ( pharmacy ) اور علمُ الجراحت ( surgery ) کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں"۔
( Islamic Science, S.H. Nasr, pp.۱۵۶ )
ایک میلینئم سے زیادہ وقت گزرا جب عالمِ اِسلام کے نامور طبیب ’الرازی‘(۹۳۰ء)نے علمُ الطب ( medical science ) پر ۲۰۰ سے زائد کتب تصنیف کی تھیں، جن میں سے بعض کا لا طینی، انگریزی اور دُوسری جدید زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اُنہیں صرف ۱۴۹۸ء سے ۱۸۶۶ء تک تقریباً ۴۰ مرتبہ چھاپا گیا۔ smallpox اور measles پر سب سے پہلے صحیح تشخیص بھی ’الرازی‘ نے ہی پیش کی۔
اِسی طرح ابو علی الحسین بن سینا ( Avicenna)(۱۰۳۷ ئ) نے ’القانون‘ ( Canon of Medicine ) لکھ کر دُنیائے طب میں ایک عظیم دَور کا اِضافہ کیا۔ اِس کا ترجمہ بھی عربی سے لاطینی اور دیگر زبانوں میں کیا گیا اور یہ کتاب ۱۶۵۰ء تک یورپ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی۔
ابو ریحان البیرونی (۱۰۴۸ء) نے pharmacology کو مرتب کیا۔ اِسی طرح علی بن عیسیٰ بغدادی اور عمار الموصلی کی اَمراضِ چشم اور ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک فرانس اور یورپ کے medical colleges میں بطور textbooks شاملِ نصاب تھیں۔ ایک غیرمسلم مغربی مفکر E. G. Browne لکھتا ہے :
"جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنے علاج کے لئے بتوں کے سامنے جھکتے تھے اُس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار ہسپتال موجود تھے"۔ اِس سے آگے اُس کے اَلفاظ ملاحظہ ہوں:
The practice of medicine was regulated in the Muslim world from the tenth century onwards. At one time, Sinan ibn Thabit was Chairman of the Board of Examiners in Baghdad. Pharmacists were also regulated and the Arabs produced the first pharamcopia drug stores. Barber shops were also subject to inspection. Travelling hospitals were known in the eleventh century ۔ ۔ ۔ The great hospital of al-Mansur, founded at Damascus around ۱۲۸۴ AD, was open to all sick persons, rich or poor, male or female, and had separate wards for men and women. One ward was set apart for fevers, another for ophthalmic cases, one for surgical cases and one for dysentery and kindred intestinal ailments. There were in addition, kitchens, lecture-rooms, a dispensary and so on
( E. G. Browne, Arabian Medicine, pp.۱۰۱ )
ترجمہ "اِسلامی دُنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی علمِ طب اور ادویہ سازی کو منظم اور مرتب کر دیا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب سنان بن ثابت بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے صدر تھے۔ ادویہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتیٰ کہ طبی نقطۂ نظر سے حجاموں کی دُکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی میں سفری ( mobile ) ہسپتالوں کا بھی ذِکر ملتا ہے۔ ۱۲۸۴ء کے قریب دمشق میں قائم شدہ عظیمُ الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے دروازے امیر و غریب، مرد و زن، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اُس ہسپتال میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر بخار کے لئے ( fever ward ) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے ( eye ward ) ایک وارڈ سرجری کے لئے ( surgical ward ) اور ایک وارڈ پیچش ( dysentery ) اور آنتوں کی بیماریوں ( intestinal ailments ) کے لئے مخصوص تھا۔ علاوہ ازیں اُس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور اَدویات مہیا کرنے کی ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اِسی طرح طب کی تقریباً ہر شاخ کے لئے یہاں اِہتمام کیا گیا تھا"۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دُنیا تک منتقل ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دُنیا میں اِنقلاب بپا کیا۔ ملاحظہ ہو:
" Their medical studies, later translated into Latin and the European languages, revealed their advanced knowledge of blood circulation in the human body. The work of Abul-Qasim al-Zahrawi, Kitab al-Tasrif,on surgery, was translated into Latin by Gerard of Cremona and into Hebrew about a century later by Shem-tob ben Isaac. Another important work in this field was the Kitab al-Maliki of al-Majusi (died ۹۸۲ AD), which shows according to Browne that the Muslim physicians had an elementary conception of the capillary system (optic) and in the works of Max Meyerhof, Ibn al-Nafis (died ۱۲۸۸ AD) was the first in time and rank of the precursors of William Harvery. In fact, he propounded the theory of pulmonary circulation three centuries before Michael Servetus. The blood, after having been refined must rise in the arterious veins to the lung in order to expand its volume, and to be mixed with air so that its finest part may be clarified and may reach the venous artery in which it is transmitted to the left cavity of the heart
( Ibn al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, ۲۳:۱۶۶, June, ۱۹۳۵ )
ترجمہ: "اُن کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں لاطینی اور یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اُن کی اِنسانی جسم میں خون کی گردِش کے متعلق وُ سعتِ علم کا اِنکشاف کرتی ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق ’کتابُ التصریف لِمَن عجز عنِ التألیف‘ جس کا ترجمہ Cremona کے Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے عبرانی زبان میں کیا۔ اِسی میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات۹۸۲ء) کی تصنیف ’کتابُ الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق یہ کتاب اِس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان اَطباء کو شریانوں کے نظام کے بارے میں بنیادی تصوّرات اور معلومات حاصل تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے اَلفاظ میں ’ابنُ النفیس‘ (وفات۱۲۸۸ء) وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رَو تھا۔ حقیقت میں اُس نے ’مائیکل سرویٹس‘ سے تین صدیاں پہلے سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردِش کا سراغ لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقیناً پھیپھڑے کی شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اُس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے تاکہ اُس کا بہترین حصہ صاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دِل کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے"۔
علم ادویہ سازی ( Pharmacology )
Seirton اور Gulick جیسے مغربی محققین نے لکھا ہے کہ ابن البیطار نے سادہ ادویات کے مجموعے ( collection of simple drugs ) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو کہ علمِ نباتات ( botany ) پر عربی زبان میں اُس زمانے کی سب سے بڑی تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔ اُس نے بحیرۂ رُوم میں اندلس ( Spain ) سے لے کر شام ( Syria )تک کے علاقے سے مختلف پودے، جڑی بوٹیاں اور دوائیاں اِکٹھی کیں اور۱,۴۰۰ سے بھی زیادہ طبی ادویات کا اپنی کتاب میں ذِکر کیا اور اُن کا موازنہ اپنے سے قبل ۱۵۰ دیگر مصنفین کی تصنیفات سے بھی کیا:
Ibn al-Baytr wrote the Collection of Simple Drugs, which is regarded as the greatest Arabic book on botany of the age. He collected plants, herbs and drugs around the Mediterranean from Spain to Syria and described more than ۱۴۰۰ medicinal drugs, comparing them with the records of over ۱۵۰ writers before him
اُس دَور کے عظیم مسلمان ادویہ سازوں ( pharmacologists ) میں ابوبکر محمد بن زکریا رازی، علی بن عباس، ابوالقاسم خلاف ابن عباس الزہراوی (جسے لاطینی زبان میں Albucasis کا نام دیا گیا)، ابو مروان ابن ظہر (جسے لاطینی زبان میں Aben Bethar کا نام دیا گیا) کے نام بڑے معروف ہیں۔
اِسی طرح medicine پر ابنِ رُشد ( Ibn Rushd ) کی ’کتابُ الکلیات‘ ایک معرکہ آراء تصنیف ہے، جسے لاطینی میں ترجمہ کر کے پورے عالمِ مغرب میں نصابی کتاب ( textbook ) کا درجہ دیا گیا مگر اَفسوس کہ ترجمہ کے ذریعے اُس کا نام بدل کر colliget بن گیا، جسے آج کوئی معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ حقیقت میں کون سی کتاب تھی۔ ( Islamic Science, p.۱۸۱ )
علمُ الجراحت ( Surgery )
اندلس کے عظیم طبیب اور سرجن ابوالقاسم بن عباس الزہراوی کی نسبت پروفیسر Hitti لکھتا ہے:
Albucasis (۱۰۱۳ AD) was not only a physician but a surgeon of the first rank. He performed the most difficult surgical operations in his own and the obstetrical departments. The ample description he has left of the surgical instruments employed his time gives an idea of the development of surgery among the Arabs in lithotomy, he was equal to the foremost surgeons of modern times. His work al-Tasrif li-Man Ajaz an al-Ta'alif (an aid to him who is not equal to the large treatises) introduces or emphasises new ideas. It was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in ۱۴۹۷ AD, at Basle in ۱۵۴۱ AD and at Oxford in ۱۷۷۸ AD. It held its own for centuries as the manual of surgery in Salerono, Montpellier and other early schools of medicine ."
( Hitti, History of Arabs, pp.۵۷۶-۵۷۷ )
ترجمہ "آپ نہ صرف ایک ماہر طبیب تھے بلکہ اوّل درجے کے عظیم سرجن بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنے شعبے میں اِنتہائی مشکل اور پیچیدہ سرجری (آپریشن) کئے اور اُس کے ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے زچگی کے شعبے میں بھی آپریشن کئے اور اُنہوں نے اپنے زیر استعمال آلاتِ سرجری کی بڑی واضح اور روشن وضاحت کی ہے، جس سے عربوں میں سرجری کے فن کی ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ Lithotomy میں وہ موجودہ دَور کے عظیم ترین سرجنوں کا ہم پلہ تھے۔ اُن کا کام ’التصریف لِمن عجز عنِ التألیف‘ نئے تصوّرات کو متعارف کرواتا ہے۔ اُس کا ترجمہ کریمونا ( Cremona ) کے Gerard نے کیا اور اُس کے مختلف ایڈیشن ۱۴۹۷ء میں وینس سے اور ۱۵۴۱ء میں باسلے اور ۱۷۷۸ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا مقام و مرتبہ صدیوں تک سرجری کے علم میں برقرار رکھا اور طب کے اِبتدائی اَیام میں بھی طبی سکولوں میں اچھے کام کے ساتھ متعارف رہے"۔
سید حسین نصر نے ابنِ زہر کے مقام و مرتبہ کے بارے میں لکھا ہے:
Al-Zahrawi's rank in the art of surgery was paralleled by that of Ibn Zuhr (Aven-Zoar) in the science of medicine (۱۰۹۱-۱۱۶۲ AD). Of the six medical works written by them three are extent. The most valuable is al-Taysir fil-Mudawat al-Tadbir (the Facilitation of Therapy and Diet). Ibn Zuhr is hailed as the greatest physician since Galen. At least he was the greatest clinician in Islam after al-Razi. Ibn Zuhr wrote another book, Kitab al-Aghdhiyah (the Book of Diets) which is among the best of its kind dealing with the subject
( Islamic Science, p.۱۸۱ )
ترجمہ: "ابنِ زہر کا مرتبہ ادویہ ( medicine ) میں وُہی ہے جو الزہراوی کا سرجری ( surgery ) کے فن میں تھا۔ جو چھ قسم کا کام اُنہوں نے ’ادویہ سازی‘ پر کیا اُن میں سے تین ابھی تک جاری و ساری ہیں۔ سب سے گراں قدر کام ’خوراک اور غذائیت کی نشو و نما‘ ہے۔ گیلن کے بعد ابنِ زہر کو سب سے بڑا طبیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ کم از کم ’الرازی‘ کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب ( clinic ) کے مالک تھے۔ ابنِ زہر نے ایک اور تصنیف ’کتاب الاغذیہ‘ بھی ہے، جو اپنے موضوع کے اِعتبار سے اہم ترین کتب میں شمار ہوتی ہے"۔
علمِ اَمراضِ چشم ( Ophthalmology )
مسلم اَطباء نے اَمراضِ چشم کی دواسازی میں بھی بیش بہا علمی اِضافے کئے۔ علی بن عیسیٰ نے اِنتہائی مشہور کتاب Tadhkirat al-Kahhalin لکھی اور مؤخر الذکر نے صدیوں تک ماہرینِ اَمراضِ چشم کی رہنمائی کی۔ علی بن عیسیٰ کی تصنیفات کو دُنیا میں ہر جگہ پڑھایا گیا حتیٰ کہ Tractus de Oculis Jesu ben Hali کے نام سے اُس کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ اَمراضِ چشم سے وابستہ ایسی بہت سی فنی اِصطلاحات لاطینی زبان کے علاوہ دیگر جدید یورپی زبانوں میں بھی اِستعمال ہو رہی ہیں، جن کا منبع عربی زبان ہے۔ اس سے اُن موضوعات پر اِسلامی اَثرات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔
Muslim physicians also added valuable knowledge to another branch of medicine, Ali ibn Isa wrote the famous work, Tadhkirat al-Kahhalin (Treasury of Ophthalmologists) and Abu Ruh Muhammad al-Jurani entitled Zarrindast (the Golden Hand) wrote Nur al-Ain (the Light of the Eye). The last book has served practitioners of the art for centuries. Ali ibn Isa's works were taught everywhere and even translated into Latin as Tractus de Oculis Jesu ben Hali. Many of the technical terms pertaining to ophthalmology in Latin as well as in some modern European languages, are of Arabic origin, and attest to the influence of Islamic sources on this subject
( Islamic Science, pp.۱۶۶-۱۶۷ )
بیہوش کرنے کا نظام ( Anaesthesia )
علی بن عیسیٰ تاریخِ عالم میں پہلا سائنسدان تھا جس نے سرجری سے پہلے مریض کو بے ہوش و بے حس کرنے کے طریقے تجویز کئے۔ اندلس کا نامور سرجن ابوالقاسم الزہراوی بھی آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوشی کی دوا دینے سے بخوبی آگاہ تھا۔ اُسی عہد میں تیونس میں ایک اور ماہر اِسحاق بن سلیمان الاسرائیلی منظرِ عام پر آئے، جو اَمراضِ چشم کے ماہر تھے اور اُن کی تصنیفات کا ترجمہ بھی لاطینی اور عبرانی زبانوں میں کیا گیا۔
Ali ibn Isa was also the first person to propose the use of anaesthesia for surgery. Another person appeared at this time in Tunis, Ishaq ibn Sulaiman al-Israili, who practised ophthalmology and his works were also translated into Latin and Hebrew languages
( Islamic Science, p.۱۷۸ )
علمُ الکیمیا ( Chemistry )
اِسلام کی تاریخ میں علمُ الکیمیا کے باب میں خالد بن یزید (۷۰۴ء) اور امام جعفر الصادق (۷۶۵ء) کی شخصیات بانی اور مؤسس کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ نامور مسلم سائنسدان ’جابر بن حیان‘ (۷۷۶ء) اِمام جعفر الصادق ہی کا شاگرد تھا، جس نے کیمسٹری کی دُنیا میں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ مفروضہ اور تصوّر ( hypothesis / speculation )کی بجائے اُنہوں نے تجزیاتی تجربیت ( objective experimentation ) کو رواج دیا اور اُن مسلم رہنماؤں کی بدولت ہی قدیم الکیمی ( Alchemy ) باقاعدہ سائنس کا رُوپ دھار گئی۔ evaporation ، sublimation اور crystallization کے طریقوں کے موجد ’جابر بن حیان‘ ہی ہیں۔ اُن کی کتابیں بھی عرصۂ دراز تک یورپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی ہیں۔ ’جابر بن حیان‘ اور اُن کے شاگردوں کی سائنسی تصانیف The Jabirean Corpus کہلاتی ہیں۔ اُن میں کتابُ السبعین ( The Seventy Books ) اور کتابُ المیزان ( The Book of Balance ) وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کے علاوہ ’ابو مشعر‘، ’سہروردی‘، ’ابنِ عربی‘ اور ’الکاشانی‘ وغیرہ کا کام بھی کیمسٹری کی تاریخ کا عظیم سرمایہ ہے۔ یہ سب علمی اور سائنسی سرمایہ عربی زبان سے لاطینی اور پھر انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ چنانچہ زبانوں کی تبدیلی سے مسلم سائنسدانوں کے نام بھی بدلتے گئے۔ مثلاً الرازی کو Rhazes ، ابنِ سینا کو Avicenna ، ابوالقاسم کو Abucasis اور ابنُ الھیثم کو Alhazen بنا دیا گیا۔ اِسی طرح عربی اِصطلاحات بھی تراجم کے ذریعے تبدیل ہو گئیں، نتیجتاً آج کا کوئی مسلمان یا مغربی سائنسدان جب تاریخ میں اُن ناموں اور اصطلاحات کو پڑھتا ہے تو وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سب اِسلامی تاریخ کا حصہ ہے اور یہ اَسماء عربیُ الاصل ( Arabic origin ) ہیں۔
اِن حقائق کو جاننے کے لئے مزید ملاحظہ فرمائیں:
۱. Prof. Hitti, History of the Arabs, pp.۵۷۸-۵۷۹ (London, ۱۹۷۴ ).
۲. A and R. Kahane, The Krater and the Grail, Hermetic Sources of the Parzival, Urbana (Illinois, ۱۹۶۵ ).
۳. Corbin, En Islamiranien vol.۲, chap.۴ (Paris, ۱۹۷۱ )
۴. F.A.Yates, Giordana Bruno and the Hermetic Tradition (London, ۱۹۶۴ )
۵. Syed Husain Nasir, Islamic Science (London, ۱۹۷۶ ))
۶. George Sorton, An Introduction to the History of Science
۷. Briffault, The Making of Humanity
۸. Schaclt. J and Bosworth C.E. The Legacy of Islam (Oxford, ۱۹۴۷ )
۹. Watt-W.M. and Cachina P, A History of Islamic Spain (Edinlwrgh )
۱۰. Robert Gulick L.Junior, Muhammad, The Educator (Lahore, ۱۹۶۹ )
فنونِ لطیفہ( Fine Arts )
جہاں تک فنونِ لطیفہ کا تعلق ہے، قرآنِ مجید ہی کے شغف سے قرونِ وُسطیٰ میں ’فنِ خطاطی‘ ( calligraphy )کو فروغ ملا۔ مساجد کی تعمیر سے ’فنِ تعمیر‘ ( architecture ) اور’ فن تزئین و آرائش‘ ( decorative art ) میں ترقی ہوئی۔ حرمِ کعبہ، مسجدِ نبوی، بیتُ المقدس، سلیمانیہ اور دیگر مساجدِ اِستنبول ترکی، تاج محل، قصرِخُلد(بغداد)، جامع قرطبہ، الحمراء اور قصرُ الزہراء (اندلس) وغیرہ اِس فن کی عظیم تاریخی مثالیں ہیں۔
اندلس میں فنونِ لطیفہ کو تمام عالمِ اِسلام سے بڑھ کر ترویج ملی اور وہاں خطّاطی ( calligraphy )، موسیقی ( music )، تعمیر و تزئین( architecture / decorative art )، مصوّری ( painting )، فیشن اور دُوسرے بہت سے صنعتی فنون اپنے دَور کی مناسبت سے ترقی کی اَوجِ ثریا پر فائز تھے۔ اندلس کی ثقافتی ترقی اور فنونِ لطیفہ کے اِرتقاء کا ذِکر متعلقہ باب میں بالتفصیل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
علمِ فقہ و قانون ( Law / Jurisprudence )
اِس باب میں اِمامِ اعظم ابو حنیفہ (متوفی ۱۵۰ھ) نے دُوسری صدی ہجری کے اَوائل میں ہی تاریخِ قانون میں اُن نادِر ذخائر کا اِضافہ کیا جو صدیاں گزرنے کے با وُجود آج تک مینارۂ نور ہیں۔
۱ ۔ آپ کے تلامذہ میں سے بالخصوص اِمام محمد بن حسن شیبانی نے ’السیرالکبیر‘ اور ’السیرالصغیر‘ کی صورت میں public international law اور private international law پر اِما مِ اعظم کی فرمودہ تصانیف مرتب کیں۔ جن پر بعد ازاں اِمام سرخسی نے ’شرحُ السیر‘ کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل شرح لکھی، جو اپنے دَور میں آج کے strake اور Oppenheim سے بہتر مجموعہ تھا۔ اِمام سرخسی کی ہی ۳۰ جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ’المبسوط‘ قانون ( law ) پر آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ایک نادرُ المثال مجموعہ ہے۔ یہ تاجدارِ کائنات (ص) ہی کے عطا کردہ فیض کا کارنامہ تھا کہ عالمِ اِسلام اُس دَور میں قانون پر ایسی کتب مہیا کر رہا تھا، جبکہ باقی پوری دُنیا جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی۔ آج مغرب کی علمی تاریخ میں اُس دَور کو dark ages کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ اہلِ اِسلام کے ہاں وہ دَور علوم و فنون کی روشنی سے درخشاں و منوّر تھا۔
۲۔ بین الاقوامی قانون پر اِمام زید بن علی (متوفی ۱۲۰ھ) کی کتاب ’المجموع‘ میں بھی مفصل باب شامل تھا۔ اِمام مالک، اِمام ابویوسف، اِمام محمد، اِمام اَوزاعی، اِمام شافعی اور دیگر ائمہ فقہ و قانون نے بھی اِس موضوع پر بھرپور مواد فراہم کیا، جو علمی و قانونی تاریخ کا بیش بہا سرمایہ ہے۔
۳۔ comparative case law ، جو دورِ جدید کا ایک نہایت اہم قانونی فن اور علمی موضوع ہے، اُس پر دُوسری صدی ہجری میں ہی باضابطہ کام شروع ہو گیا تھا۔ دبوسی، ابنِ رُشد، شاطبی اور سیموری وغیرہ کی تصانیف اِس فن کے اَعلیٰ پایہ کے نمونے ہیں۔
۴۔ علمِ دستور ( constitutional law ) پر دُنیا کی سب سے پہلی با ضابطہ دستاویز خود حضور سرورِ کائنات (ص) کا تیار کردہ "میثاقِ مدینہ" ( The Pact of Madina ) ہے، جو ۶۳ دفعات ( articles ) پر مشتمل ہے۔ یہ آئینی و دستوری دستاویز ابنِ ہشام، ابنِ اِسحاق، ابو عبید، ابنِ سعد، ابنِ کثیر اور ابنِ اَبی خثیمہ کے ذریعے کامل شکل میں ہم تک پہنچی۔ جدید مغربی دُنیا کا آئینی و دستوری سفر ۱۲۱۵ء میں اُس وقت شروع ہوا جب شاہِ انگلستان King John نے ’محضّرکبیر‘ ( Magna Carta ) پر دستخط کئے، جبکہ اُس سے ۵۹۳ سال قبل ہجرت کے پہلے سال ۶۲۲ء میں ریاستِ مدینہ میں حضور نبیٔ اکرم (ص) کی طرف سے اِنسانیت کو معاشی و سماجی عدل اور مساوات پر مُشتمل ایک جامع تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔یہ دُنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین ( written constitution ) ہے، جس سے قبل تاریخِ عالم میں باقاعدہ اور باضابطہ ریاستی دستور کے تحریر کئے جانے کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ یہ تاریخِ علم و قانون اور تاریخِ سیاسیات میں حضور نبیٔ اکرم (ص) کا پہلا کارنامہ ہے۔ اُس سے پہلے شہری ریاستوں اور ہندوستان کے دساتیر سمیت منوسمرتی (۵۰۰ ق م)، آرتھ شاستر (۳۰۰ ق م) اور ارسطو (۳۲۲ق م) کی تصانیف میں جو کچھ ملتا ہے وہ سب پند و نصائح پر مشتمل درسی اور تعلیمی نوعیت کا کام ہے۔ ارسطو کا ’شہر ایتھنز کا دستور‘( Athenian Constitution ) جو گزشتہ صدی میں مصر سے دریافت ہوا اور ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا، وہ بھی اِسی نوعیت کا کام ہے جو مسلمانوں کے ہاں ’نصیحتُ الملوک‘ جیسی کتابوں میں عام پایا جاتا ہے، جن میں کسی ریاست کا نظام چلانے کے سلسلے میں بادشاہوں کے لئے پند و نصائح شامل ہیں۔ کسی سربراہِ ریاست یا حکومت کی طرف سے ارسطو کی یہ دستاویزات باقاعدہ دستور کے طور پر نافذ ہوئیں اور نہ ہی وہ اِس نوعیت کے دستاویز تھیں کہ اُنہیں نافذ کیا جاتا۔ یہ شان سب سے پہلے "میثاقِ مدینہ" کو حاصل ہوئی اور یہ اَمر سیرتِ محمدی (ص) کا ایک درخشندہ تاریخی باب ہے۔
تاجدارِ کائنات (ص) کی طرف سے دستوری و آئینی کام کے باضابطہ آغاز کے بعد اِس موضوع پر الماوردی اور ابوعلی کی ’الاحکام السلطانیہ‘ ،غزالی کی ’نصیحۃُ الملوک‘، طرطوسی کی ’سراجُ الملوک‘ اور الفارابی کی ’المدینہ الفاضلہ‘ جیسی درسی کتب بھی معرضِ وُجود میں آئیں۔ الغرض مسلمانوں کی دستوری و آئینی خدمات میں سے سب سے اہم خدمت یہ ہے کہ اُنہوں نے ریاست کے تین اہم اعضاء مقننہ ( legislature )، اِنتظامیہ ( executive ) اور عدلیہ ( judiciary ) کو الگ الگ تشخص دیا۔ اُنہیں عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہی ’اہل الحل والعقد‘، ’اُولی الامر‘ اور ’القضا‘ کے مستقل نام دے دیئے گئے تھے اور اُن کے دائرہ ہائے کار بھی متعین کر دیئے گئے تھے، جبکہ مغربی علمِِ دستور میں اُن کا تصوّر بہت بعد میں فروغ پذیر ہوا۔
۵۔ Common law پر باقاعدہ فقہی و قانونی مجموعات ( juristic / legal codes ) بھی اِسلام کی دُوسری صدی کے اَوائل میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جنہیں باقاعدہ حصص اور اَبواب ( parts / chapters ) میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ عبادات ( religious laws ) ، مناکحات ( family laws )، معاملات و معاہدات ( civil / contractual laws )، عقوبات ( penal laws )، مالیات ( fiscal laws ) اور قضا و شہادات ( procedural / evidence laws ) وغیرہ کی باقاعدہ قانونی تقسیم بھی تاریخِ اِسلام کی پہلی صدی میں ہی عمل میں آچکی تھی۔ یہ سب وہ علمی نظم تھا جو مسلمانوں کو اَوائلِ اِسلام سے ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور نبیٔ اکرم (ص) کی سنتِ مبارکہ کے ذریعے میسر آگیا تھا، جبکہ اُس وقت مغربی دُنیا بنیادی حقوقِ انسانی اور علم و آگہی کے تصوّر سے ہی یکسر محروم تھی۔
اِمام ابو حنیفہ کی کتب ’ظاہرالروایہ‘ جنہیں اُن کے شاگرد اِمام محمد نے مرتب کیا، اُن کے علاوہ اِمام مالک کی ’الموطا‘، اِمام شافعی کی ’کتابُ الام‘ اور دیگر ائمہ کی تصانیف کے ذریعے فقہ و قانون کا عظیم سرمایہ معرضِ وُجود میں آگیا تھا۔ بعد اَزاں "فقہ حنفی" میں سرخسی کی ’المبسوط‘، مرغینانی کی ’الھدایہ‘، ابن ہمام کی ’فتح القدیر‘، کاسانی کی ’بدائع الصنائع‘ وغیرہ، "فقہ مالکی" میں ابنِ سحنون کی ’المدوّنۃ الکبریٰ‘، ابنِ جزی کی ’القوانین الفقیہ‘، ابنِ فرحون کی ’تبصرۃُ الحکام‘، الخطاب اور خرشی کی شرح ’المختصر‘ وغیرہ، "فقہ شافعی" میں نووی کی ’المجموع‘، غزالی کی ’الوجیز‘، بصیر کی ’النہایہ‘ وغیرہ، "فقہ حنبلی" میں ابنِ قدامہ کی ’کتابُ المغنی‘ اور ابنِ القیم کی ’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘، ابنِ حزم کی ’المحلی‘ اور القرافی کی ’الفروق‘ وغیرہ، "فقہ جعفریہ" میں الحلی کی ’شرائع الاسلام‘ جواد مغنیہ کی ’فقہ الامام جعفر الصادق‘ وغیرہ اور ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ (الجزیری) جیسی کتب مرتب ہوتی رہی ہیں۔ Case law پر فتاویٰ اور شرعی فیصلہ جات ( judicial decisions ) کے ’فتاویٰ قاضی خان‘، ’فتاویٰ بزازیہ‘، ’فتاویٰ ابنِ تیمیہ‘، ’فتاویٰ اِمام نووی‘، ’فتاویٰ اِمام سبکی‘ اور ’فتاویٰ الہندیہ‘ جیسے مجموعات مرتب ہوئے۔
۶۔ fiscal / taxation law اور administrative law میں اِمام ابو یوسف اور یحییٰ بن آدم کی ’کتابُ الخراج‘ اور ابو عبید قاسم بن سلام کی ’کتابُ الاموال‘ اوائل دَور کے بہترین علمی شہ پارے ہیں۔
علم تاریخ اور عمرانیات ( Historiography / Sociology )
اِن علوم میں بھی اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں گرانقدر سرمایہ جمع کیا گیا، جس کے ذریعے نہ صرف سیرتِ نبوی ا بلکہ دس ہزار سے زائد صحابہ کرام کے حالات و سوانح بھی پوری تحقیق کے بعد مرتب ہوئے۔ تاریخِ اِسلام میں اِس علم کو ’اَسماءُ الرِجال‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کے تحت محققین نے ۵ لاکھ سے زیادہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دیگر رُواۃِ حدیث کے اَحوالِ حیات مرتب کئے۔ یہ فن اپنی نوعیت میں منفرد ہے جو دُنیا کی کسی قوم اور مذہب میں تھا اور نہ ہے۔ ابنِ اِسحاق، جنہوں نے عہدِ حضرت آدمؑ سے عہدِ رسالت مآب (ص) تک پوری اِنسانی تاریخ مرتب کی، اِسلام کے عظیم اوّلیں مورخین میں سے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ ہشام، طبری ، مسعودی، مسکویہ حلبی، اندلسی، ابنِ خلدون، دیار بکری، یعقوبی، بلاذری، ابنُ الاثیر، ابنِ کثیر، سہیلی، ابنِ سیدُالناس وغیرہ کے کام بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جبکہ political thought اور sociology میں غزالی، فارابی، ماوردی، ابنِ خلدون، ابنِ رُشد، ابنِ تیمیہ، ابنُ القیم اور شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کی تالیفات نہایت اہم ہیں۔
جغرافیہ اور مواصلات ( Geography / Communications )
اِسلامی عہد کے عروج کے موقع پر علمِ جغرافیہ میں بھی خوب ترقی ہوئی۔ بلاذری اور ابنِ جوزی بیان کرتے ہیں کہ عہدِ فاروقی میں ہی خلافتِ اِسلامیہ کی ڈاک ہر وقت ’ترکستان‘ ( Central Asia ) سے ’مصر‘ ( Egypt ) تک کے علاقے میں روانہ ہوتی تھی۔ geography اور topography کے ماہرین ڈاک کے ساتھ دورانِ سفر تمام علاقوں کے نقشے تیار کر کے لف کرتے اور تمام متعلقہ مقامات کی جغرافیائی، تاریخی اور اِقتصادی معلومات بھی بترتیبِ ہجائی ( alphabetic order ) میں فراہم کرنے کا اِہتمام کیا جاتا تھا۔
اوائل دورِ اسلام میں ’ابنِ حوقل‘ نے بھی معلوم کرۂ ارض کے نقشے تیار کئے اور cartography کے فن پر تحقیق کی۔ اپنے بنائے ہوئے نقشوں میں اُس نے زمین کو کروی شکل ( circular shape ) میں دِکھانے کے ساتھ ساتھ بحیرۂ رُوم ( Mediterranean sea ) کی حُدود کی صحیح شناخت بھی کروائی۔ اِسی طرح ’الادریسی‘ کا نقشہ جو شاہِ سسلی (۱۱۰۱ء ۔ ۱۱۵۴ئ) کے لئے آج سے ۹ صدیاں قبل تیار کیا گیا تھا، اُس میں دُنیائے عالم کے طویل ترین دریا ’دریائے نیل‘ ( Nile ) کے مصادر ( sources ) تک کی خبر دی گئی ہے، جو اُس کے ڈیلٹا سے ۶,۰۷۶ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
’یاقوت حموی ‘ نے ’معجمُ البلدان‘ کے نام سے جغرافیہ پر اُس وقت کی سب سے بڑی معجم ( dictionary ) مرتب کی، جس نے اہلِ دُنیا کو دُنیا کا علم فراہم کیا۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے دُنیا کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی تفصیلات حروفِ تہجی کی ترتیب ( alphabetic order ) سے پیش کی ہیں۔
’خوارزمی‘ نے ’صورۃُ الارض‘ ( Image of the Earth ) کے نام سے ایسا جغرافیائی مطالعہ اہلِ علم کو عطا کیا جو بعد ازاں جدید جغرافیہ کی بنیاد بنا۔
’حمدانی‘ (۹۴۵ء) نے آج سے گیارہ سو سال قبل چوتھی صدی ہجری میں علمِ جغرافیہ میں اِنتہائی گرانقدر معلومات کا اِضافہ کیا۔
نامور مغربی مؤرِخ Prof. Hitti نے اِن مسلمان ماہرینِ فن کی علمی خدمات کے اِعتراف میں لکھا ہے کہ:
" The bulk of this scientific material, whether astronomical, astrological or geographical, penetrated the west through Spanish and Sicilian channels ."
( History of the Arabs, pp.۳۸۳-۳۸۷ )
ترجمہ: "اُس سائنسی مواد کا زیادہ تر حصہ۔ ۔ ۔ خواہ وہ ’علمِ فلکیات‘ (اَجرامِ سماوی کا علم) کے مطالعہ پر مبنی ہو یا ’علم نجوم‘ (پیش بینی) کے مطالعہ پر یا ’علم جغرافیہ‘ پر مبنی ہو۔ ۔ ۔ اندلس ( Spain ) اور (اٹلی کے جنوبی ساحل پر واقع جزیرے) سسلی ( Sicily ) کے ذریعے عالمِ مغرب میں داخل ہوا"۔
علمِ جغرافیہ ( geography ) میں قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان اِس قدر مشّاق تھے کہ اُن کا فن عالمی شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ ۱۳۳۱ء میں چین ( China ) کا سرکاری نقشہ ( official map ) بھی مسلمان جغرافیہ دانوں نے ہی تیار کیا تھا۔
( Islamic Culture, ۸:۵۱۴, Oct.۱۹۳۴ )
وہ ہزارہا اِسلامی سکے جو جزیرہ نمائے سکینڈے نیویا ( Scandinavia )، فن لینڈ ( Finland )، کازن ( Kazan ) اور رُوس ( Russia ) کے دیگر دُور دراز مقامات کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں، مسلمانوں کے اوائلِ اسلام میں کئے جانے والے تجارتی سفروں اور عالمی سرگرمیوں کی خبر دیتے ہیں۔ Vasco de Gama کے پائلٹ ابنِ ماجد نے مسلمانوں میں اُس دَور میں قطب نما ( compass ) کے اِستعمال کی خبر دی ہے۔ اِس فن کی بہت سی جدید اِصطلاحات میں بھی قرونِ وُسطیٰ کے عرب مسلمان سائنسدانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ arsenal ، admiral ، cable ، monsoon اور tariff وغیرہ جیسے بے شمار عربیُ الاصل اَلفاظ و اِصطلاحات آج کی جدید دُنیا میں بھی متداوَل ہیں، جس سے جدید مغربی کلچر پر مسلم علم و ثقافت کے اَثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحرائے عرب کے اَن پڑھ باسی جن کے ہاں پڑھنا لکھنا بھی عیب تصوّر ہوتا تھا، جن کی بدوی زندگی میں صدیوں تک علمی و فکری ترقی کے ظاہراً کوئی اِمکانات دکھائی نہ دیتے تھے اور ’فتوحُ البلدان‘ میں ’بلاذری‘ کی رِوایت کے مطابق جس قوم کی شرحِ خواندگی کا یہ عالم تھا کہ مکہ شہر کے گرد و نواح میں آباد لاکھوں کی آبادی میں کل ۱۰ سے ۱۵ اَفراد ایسے تھے جو سادہ حد تک لکھ پڑھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ کسی کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ قوم تعلیمی پسماندگی کی اُس حالت سے اُٹھ کر صرف ایک ہی صدی کے بعد علم و فن، تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکنے لگی اور پوری دُنیائے تاریک میں تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی روشنی پھیلانے لگی۔ آخر اس محیرالعقول علمی و فکری اور سائنسی و ثقافتی اِنقلاب کا سبب کیا تھا؟ کیا یہ عدیمُ المثال اِنقلاب صرف اور صرف حضور نبیٔ اکرم (ص) کا فیضانِ سیرت اور آپ(ص) کی طرف سے دی گئی اِسلام کی آفاقی تعلیمات کا نتیجہ نہیں تھا جس نے اَن پڑھ صحرا نشینوں کو ہزارہا علوم و فنون کا بانی اور جدید تہذیب و ثقافت کا مؤسس بنا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے مغربی مفکرین اور مؤرِخین کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اُن کے ذِہنوں میں بھی یہی سوال اُٹھا ہے اور بعضوں نے اُس کا صحیح جواب تلاش کر لیا ہے اور بعض ابھی تک متذبذب ہیں۔
اِسلامی سائنس اور مستشرقین کے اِعترافات
یہ ایک حقیقت ہے کہ دُنیائے علم و ثقافت میں عرب مسلمانوں کی یہ حیرت انگیز ترقی اِسلام کی آفاقی تعلیمات ہی کی بدولت ممکن ہوئی اور جب تک مسلمان بحیثیتِ قوم قرآن و سنت کی فطری تعلیمات سے متمسّک رہے رُوحانی بلندی کے ساتھ ساتھ مادّی ترقی کی بھی اَوجِ ثریا پر فائز رہے اور جونہی اُنہوں نے لغزش کی اور اِسلامی تعلیمات سے اِعراض کا رستہ اپنایا قعرِ مذلّت میں جا گرے۔
ایک غیر مسلم مؤرّخ نے اِسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
The coming of Islam six hundred years after Christ, was the new, powerful impulse. It started as a local event, uncertain in its outcome; but once Muhammad conquered Makkah in ۶۳۰ AD, it took the southern world by storm. In a hundred years, Islam conquered Alexandria, established a fabulous city of learning in Baghdad and thrust its frontier to the east beyond Isfahan in Persia. By ۷۳۰ AD the Muslim Empire reached from Spain and Southern France to the borders of China and India. An empire of spectacular strength and grace while Europe lapsed into the Dark Age ۔ ۔ ۔ Muhammad had been firm that Islam was not to be a religion of miracles, it became in intellectual content a pattern of contemplation and analysis
( J Bronowski, The Ascent of Man, London ۱۹۷۳, pp.۱۶۵-۱۶۶ )
ترجمہ: "حضرت عیسیٰؑ کے چھ سو برس بعد اِسلام کا ظہور ایک نئی توانا تحریک کے طور پر ہوا۔ اُس کا آغاز ایک مقامی حیثیت سے ہوا، اور شروع میں نتائج کے اِعتبار سے صورتِ حال غیر یقینی تھی، مگر نبیٔ اکرم (ص) ۶۳۰ء میں جونہی فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے تو دُنیا کے جنوبی حصہ میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی۔ ایک صدی کے اندر ’اسکندریہ‘ فتح ہوا، ’بغداد‘ اِسلامی علم و فضل کا شاندار مرکز بنا اور اِسلامی حدوں کی وُسعت مشرقی ایران کے شہر ’اِصفہان‘ سے آگے نکل گئی۔ ۷۳۰ء تک اِسلامی سلطنت ’اندلس‘ اور ’جنوبی فرانس‘ کو سمیٹتی ہوئی ’چین‘ اور ’ہندوستان‘ کی سرحدوں تک جا پہنچی۔ طاقت اور وقار کی اِس اِمتیازی شان کے ساتھ جہاں مسلم سلطنت اپنے عروج پر تھی وہاں یورپ اُس وقت پستی اور تنزّل کے تاریک دَور سے گزر رہا تھا۔ حضرت محمد(ص) نے اِسلام کو معجزات کے محدُود دائرہ میں رکھنے کی بجائے اُسے غور و فکر اور تجزیہ کی نمایاں عقلی و فکری چھاپ عطا کی۔
اِسی طرح Robert L. Gulick نے بیان کیا ہے:
It should be borne in mind, however, that these aphorisms (maxims found in ahadith) have been widely accepted as authentic and it cannot be doubted that they have exerted a wide and salutary influence. The words attributed to Muhammad must assuredly have stimulated and encouraged the great thinkers of the Golden Age of Islamic civilisation
( Muhammad, The Educator )
ترجمہ: "اِس اَمر کو بخوبی ذِہن میں رکھنا چاہئے کہ ان اَحادیث کو اِنتہائی مستند حیثیت حاصل رہی ہے اور نبیٔ اکرم (ص) کے اُن اِرشادات کا بہت مفید اور گہرا اَثر مرتب ہوا ہے۔ اُن اَحادیث نے اِسلامی تہذیب کے سنہری دَور کے عظیم مفکرین پر نہایت صحتمند اور رہنما اَثر ڈالا ہے"۔
پروفیسر Robert علم اور حصولِ علم کی اہمیت و فضیلت پر مبنی آیات و اَحادیث کے ذِکر کے بعد مزید لکھتا ہے:
These statements must not be construed as idle and useless words. The results have been very substantial. The strength of Islamic science was its devotion to practical matters rather than to the vague notions of the Byzantine Greeks
( Muhammad, The Educator )
Robert L. Gulick کہتا ہے کہ (اِسلام کے) اُن اَقوال کو بے فائدہ اور بے مقصد نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ اُن پر عمل کرنے سے ٹھوس نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ اِسلامی سائنس کی اصل طاقت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ یہ بازنطینی یونانی واہموں کے برعکس تجرباتی اُمور پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے"۔
اِس موضوع پر مغرب کے نامور مؤرِخ اور محقق Robert Briffault کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتا ہے:
It is highly probable that but for the Arabs, modern European civilisation never have assumed that ۔ ۔ ۔ character which has enabled it to transcend all previous phases of evolution. For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the paramount distinctive force of the modern world and the supreme source of its victory, natural science and the scientific spirit. What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of enquiry, of new methods of investigation, experiment, observation and measurement of the development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs
( The Making of Humanity, pp.۱۹۰-۱۹۱ )
رابرٹ بریفالٹ نے کہا ہے کہ اِس بات کا غالب اِمکان ہے کہ عرب مشاہیر سے خوشہ چینی کئے بغیر جدید یورپی تہذیب دورِ حاضر کا وہ اِرتقائی نقطۂ عروج کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے۔ یوں تو یورپی فکری نشو و نما کے ہر شعبے میں اِسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہے لیکن سب سے نمایاں اثر یورپی تہذیب کے اُس مقتدِر شعبے میں ہے جسے ہم تسخیرِ فطرت اور سائنسی وجدان کا نام دیتے ہیں۔ یورپ کی سائنسی ترقی کو ہم جن عوامل کی وجہ سے پہچانتے ہیں وہ ’جستجو‘، ’تحقیق‘، ’تحقیقی ضابطے‘، ’تجربات‘، ’مُشاہدات‘، ’پیمائش‘ اور ’حسابی مُوشگافیاں‘ ہیں۔ یہ سب چیزیں یورپ کو معلوم تھیں اور نہ یونانیوں کو، یہ سارے تحقیقی اور فکری عوامل عربوں کے حوالے سے یورپ میں متعارف ہوئے۔
یہ بات بڑی حوصلہ اَفزا ہے کہ مغربی مفکرین نے اِس حقیقت کو اِن کھلے اَلفاظ میں تسلیم کیا ہے:
There is no doubt that the Islamic sciences exerted a great influence on the rise of European science; and in this Renaissance of knowledge in the west there was no single influence, but diverse ones; the main influence was of course, from Spain, then from Italy and Palestine through the crusaders, who had mixed with Muslims and seen the effect of sciences in Muslim culture
( Joseph Schacht / C.E.Bosworth, The Legacy of Islam, pp.۴۲۶-۴۲۷ )
ترجمہ: "اِس اَمر میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کے سائنسی فکر پر اِسلامی سائنسی فکر کا گہرا اَثر مرتب ہوا۔ مغرب کی اِس علمی نشأۃِ ثانیہ پر دیگر کئی اَثرات بھی مرتب ہوئے۔ مگر بنیادی طور پر سب سے گہرا اَثر اندلس ( Spain ) سے آیا، پھر اٹلی اور فلسطین کی جانب سے اَثرات مرتب ہوئے کیونکہ صلیبی جنگوں نے مغربی ممالک کے لوگوں کو فلسطینی مسلم ثقافت اور سائنسی اُسلوب سے رُوشناس کرایا"۔
ایک اور یورپی محقق نے اِس اَمر کی تصریح اِن اَلفاظ میں کی ہے:
Islam, impinging culturally upon adjacent Christian countries, was the virtual creator of the Renaissance in Europe
( Stanwood Cobb, Islam's Contribution to World Culture )
Stanwood Cobb نے اپنی درج بالا کتاب میں یہاں تک کہا ہے کہ یورپ کی نشأۃِ ثانیہ حتمی طور پر اِسلام کا مرہونِ منت ہے۔
اِس اِعترافِ حقیقت کے ساتھ ساتھ یورپی محققین نے براہِ راست اِس سوال پر بھی توجہ کی ہے کہ وہ اِنقلاب کس چیز کے زیرِاثر آیا اور اُس کا محرّک کیا تھا؟
Robert L. Gulick نے درج ذیل اَلفاظ میں اِس حقیقت کا برملا اِظہار کیا ہے:
That important contributions to world intellectual progress were made by the Arabs is not open to question. But were these development the result of the influence of Muhammad[L: ۶۳ ]
( Muhammad, The Educator )
ترجمہ: "یہ ایک مصدّقہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی شعوری ترقی میں عربوں نے نہایت اہم کردار اَدا کیا، مگر کیا یہ ساری ترقی حضرت محمد(ص) کے اَثر کا نتیجہ نہ تھی"۔
اُس نے ’بریفالٹ‘ کے اِس نقطۂ نظر کو ردّ کر دیا ہے کہ عرب سائنسدانوں کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا اور یہ تمام ترقی عرب علماء اور سائنسدانوں کی اپنی محنت تھی۔ اُس کے نزدیک اِس تمام ترقی کی بنیاد صرف اور صرف دینِ اِسلام اور سیرتِ محمدی(ص) تھی، جس کے ذریعے عرب مسلمان اور سائنسدان علوم و فنون اور تحقیق و جستجو کی شاہراہ پر گامزن ہو گئے تھے۔
Reverend George Bush نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے:
No revolution in history, if we accept that affected by the religion of the Gospel, has introduced greater changes into the state of the civilised world than that which has grown out of the rise, progress and permanence of Muhammadanism
( The Life of Muhammad )
ترجمہ: "اِلہامی کتابوں کے حوالہ سے کوئی بھی تاریخی اِنقلاب اِتنے ہمہ گیر اَثرات کا حامل نہیں جس قدر پیغمبرِ اِسلام کا لایا ہوا اِنقلاب جسے اُنہوں نے پائیدار بنیادوں سے اُٹھایا اور بتدرِیج اُستوار کیا"۔
باب چہارُم
اِسلامی سپین میں تہذیب و سائنس کا اِرتقاء
برِاعظم یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر موجود جزیرہ نما آئبیریا ( Iberian Peninsula ) جو ’کوہستانِ پیرینیز‘ ( Pyrenees ) کی وجہ سے باقی برِاعظم سے کافی حد تک کٹا ہوا ہے اور آج کل سپین ( Spain ) اور پرتگال ( Portugal ) نامی دو ممالک پر مشتمل ہے، مسلمانوں نے اُس پر تقریباً ۸۰۰ برس تک حکومت کی ۔ اِسلامی تاریخ میں اس ملک کو’ اندلس‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ اندلس جو کبھی اپنی وُسعت میں پھیلتا ہوا موجودہ سپین اور پرتگال کے ساتھ ساتھ فرانس کے جنوبی علاقوں اربونہ ( Narbonne )، بربنیان ( Perpignan )، قرقشونہ ( Carcassonne )اور تولوشہ ( Toulouse ) وغیرہ تک جا پہنچا تھا، دورِ زوال میں اُس کی حدُود جنوب مشرقی سمت میں سکڑتے ہوئے محض ’غرناطہ‘ ( Granada ) تک محدُود ہو گئیں۔
تاریخِ اندلس جہاں ہمیں عروج و زوال کی ہوش رُبا داستان سناتی ہے وہاں قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں کے عظیم کارہائے نمایاں سے بھی نقاب اُلٹتی نظر آتی ہے، اور اِس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بنیادوں میں دراصل قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں ہی کا ہاتھ ہے اور اِسلامی سپین کے سائنسدان بغداد کے مسلمان سائنسدانوں سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔
سپین میں سائنسی علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے ذکر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اَحوال اُس کی فتح اور اَدوارِ حکومت کے حوالے سے بھی بیان کر دیئے جائیں تاکہ قارئین کو اُس کا پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو۔
اَدوارِ حکومت
اِسلامی سپین کی تاریخ درج ذیل بڑے اَدوار میں منقسم ہے :
۱ ۔فتوحات و عصرِ وُلاۃ ۱۹جولائی ۷۱۱ء تا ۷۷۳ء
۲۔ دورِ بنو اُمیہ ۷۷۳ء تا ۱۰۰۸ء
۳۔ دورِ ملوکُ الطوائف ۱۰۰۸ء تا ۱۰۹۱ء
۴۔ دورِ مرابطون ۱۰۹۱ء تا ۱۱۴۵ء
۵۔ دورِ موحّدون ۱۱۴۷ء تا ۱۲۱۴ء
۶۔ طوائفُ الملوکی ۱۲۱۴ء تا ۱۲۳۲ء
۷۔ دورِ بنونصر(غرناطہ) ۱۲۳۲ء تا ۲جنوری۱۴۹۲ء
فتحِ سپین
ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت (۷۰۵ء تا ۷۱۵ء) میں موسیٰ بن نصیر کو شمالی افریقہ کی گورنری تفویض ہوئی۔ اُس دور میں سپین کی سیاسی و معاشی حالت اِنتہائی اَبتر تھی۔ عیش کوش ’گاتھ‘ حکمرانوں نے غریب رِعایا کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ عیش و عشرت کے دِلدادہ بدمست اُمراء اور پادریوں نے عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا۔ یہودیوں کی حالت سب سے بری تھی۔ اُنہیں کوئی دَم سکھ کا سانس نہیں لینے دیا جاتا تھا۔ ظلم و بربریت کے اُس نظام سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی سوچی اور وہاں سے فرار ہو کر موسیٰ بن نصیر کے زیرِ اِنتظام شمالی افریقہ میں پناہ لینا شروع کر دی جہاں اِسلامی نظامِ حکومت کے باعث لوگ پُر امن زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب معاملہ حد سے بڑھا اور مہاجرین بڑی تعداد میں سمندر پار کر کے افریقہ آنے لگے تو موسیٰ نے سپین کی مظلوم رِعایا کو بدمست حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنایا۔
سپین پر باقاعدہ حملے سے قبل دُشمن کی فوجی طاقت کے صحیح اندازے کے لئے موسیٰ نے اپنے ایک قابل غلام ’طریف‘ کی کمان میں جولائی ۷۱۰ء میں ۱۰۰ سواروں اور ۴۰۰پیادوں کا دستہ روانہ کیا، جس نے سپین کے جنوبی ساحل پر پڑاؤ کیا، جسے آج تک اُس کی یاد میں ’طریفہ‘ کہا جاتا ہے ۔
آس پاس کے علاقوں پر کامیاب یلغار کے بعد’طریف‘ نے موسیٰ کو اِطلاع دی کہ فضاء سازگار ہے، اگر حملہ کیا جائے تو جلد ہی عوام کو ظالم حکمرانوں کے پنجۂ تسلط سے نجات دِلائی جا سکتی ہے ۔
موسیٰ بن نصیر نے اگلے ہی سال ۷۱۱ء بمطابق۹۲ھ معروف بربر جرنیل ’طارق بن زیاد‘ کو ,۰۰۰۷ فوج کے ساتھ سپین پر لشکر کشی کیلئے روانہ کیا۔ افریقہ اور یورپ کے درمیان واقع ۱۳ کلومیٹر چوڑائی پر مشتمل آبنائے کو عبور کرنے کے بعد اِسلامی لشکر نے سپین کے ساحل پر جبل الطارق ( Gibraltar ) کے مقام پر پڑاؤ کیا۔
’طارق‘ کا سامنا وہاں سپین کے حکمران ’راڈرک‘ کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیئے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے:
أیها النّاسُ! أین المفرّ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و لیس لکم و الله إلا الصّدق و الصبر ۔
(دولۃُ الاسلام فی الاندلس، ۱:۴۶)
اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن، اور بخدا تمہارے لئے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
شریف اِدریسی نے اپنی کتاب "نُزھۃُ المشتاق" میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل ’طارق‘ نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔ چنانچہ مسلمان فوج بے جگری سے لڑی اور ۱۹جولائی۷۱۱ء کے تاریخی دِن ’وادیٔ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالمِ اِسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں سپین کے عوام نے یومِ نجات منایا۔ اس کے بعد اکتوبر۷۱۱ء میں اِسلامی اندلس کا نامور شہر قرطبہ ( Cordoba ) ’مغیث رومی‘ کے ہاتھوں فتح ہوا اور دُوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے تیزی سے فتح ہوتے چلے گئے ۔ بعد اَزاں جون۷۱۲ء میں ’موسیٰ بن نصیر‘ نے خود,۰۰۰۱۸ فوج لے کر اندلس کی طرف پیش قدمی کی اور ’اشبیلیہ‘ ( Seville ) اور ’ماردہ‘ ( Merida ) کو فتح کیا۔ دونوں اِسلامی لشکر ’طلیطلہ‘ ( Tledo ) کے مقام پر آن ملے جو پہلے ہی کسی مزاحمت کے بغیر فتح ہو چکا تھا۔
اِسلامی لشکر جن شہروں کو فتح کرتا وہاں کے مفلوک الحال مقامی باشندے خصوصاً یہودی مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیتے ۔ عوامی پذیرائی کچھ اِس قدر بڑھی کہ مسلمان تھوڑے سے وقت میں پورا سپین فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ طارق بن زیاد کی فتوحات میں سے آخری فتح ’خلیج بسکونیہ‘ ( Bay of Biscay )پر واقع شہر ’خیخون‘ ( Gijon ) کی تھی، جس کے بعد فتوحات کا سلسلہ روک کر ملکی اِنتظام و اِنصرام کی طرف توجہ دی گئی۔ (دولۃُ الاسلام فی الاندلس، ۱:۵۱)
اِسی اثناء میں موسیٰ بن نصیر کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ اور طارق بن زیادہ اس مہم کو یہیں چھوڑ کر دمشق چلے آئیں۔ دو سال کی قلیل مدّت میں کم و بیش سارا سپین فتح ہو چکا تھا، موسیٰ نے وہاں سے واپسی سے پہلے اُس کے اِنتظام حکومت کا اِہتمام کیا۔ قرطبہ ( Cordoba ) کو اندلس کا دارالحکومت قرار دیا، اپنے بیٹے ’عبدالعزیز‘ کو وہاں کا حاکم بنایا اور خلیفہ کے حکم کے مطابق دمشق کی طرف عازمِ سفر ہوا۔
عصرِ وُلاۃ
’موسیٰ بن نصیر‘ اور ’طارق بن زیاد‘ کی واپسی کے بعد ۷۱۴ء سے ۷۵۶ء تک ۴۳سالوں میں ملک سیاسی حوالے سے عدم اِستحکام کا شکار رہا۔ اُس دوران میں کل ۲۲گورنر اندلس میں مقرر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی اور تہذیبی اِرتقاء کے ضمن میں اُس دور میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔ اندلس کی تاریخ میں یہ دور کافی حد تک غیر واضح ہے ۔ اُس دَور کو اِسلامی سپین کی تاریخ میں عصرِ وُلاۃ (یعنی گورنروں کا دَور) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
دورِ بنواُمیہ
۴۰ہجری سے ۱۳۲ہجری تک عالمِ اِسلام پر حکمرانی کے بعد جب اُموی دورِ خلافت کا خاتمہ ہوا اور بنو عباس نے غلبہ پانے کے بعد شاہی خاندان کے اَفراد کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا تو اُموی خاندان کے چند اَفراد بمشکل جان بچا سکے ۔ اُنہی بچ نکلنے والوں میں سے ’ہشام بن عبدالملک‘ کا ۲۰سالہ نوجوان پوتا ’عبدالرحمن بن معاویہ‘ بھی تھا جس کی ماں ’قیوطہ‘ افریقہ کے بربری قبیلہ ’نفرہ‘ سے تعلق رکھتی تھی۔ عبدالرحمن نے عباسیوں کے مظالم سے بچنے کیلئے افریقہ کا رُخ کیا جہاں اُس کیلئے پناہ کے مواقع ایشیا کی نسبت بہت زیادہ تھے۔ وہ افریقہ سے گزرتا ہوا ۵سال بعد اندلس کے ساحل تک جا پہنچا ۔ جہاں اُموی دور کی شاہی اَفواج موجود تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں عبدالرحمن نے اُن میں اِتنا اثر پیدا کر لیا کہ اُنہوں نے اُسے اپنا کمانڈر بنا لیا۔ یہ فوج شمال کی سمت چلی اور چند ہی سالوں میں تمام اندلس اُس کے زیرِ قبضہ آگیا۔ مقامی اُمراء اور عوام نے اُس کی اِطاعت قبول کر لی اور پورا ملک آزاد اُموی ریاست کی صورت اِختیار کر گیا۔
تاریخ اُسے ’عبدالرحمن الداخل‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اُس نے اندلس پر ۷۵۶ء سے ۷۸۸ء تک کل ۳۲سال حکومت کی ۔ اس دوران میں اُس نے مقامی اُمراء کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے علاوہ فرانس کے بادشاہ ’شارلیمان‘ کا حملہ بھی بری طرح پسپا کیا ۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا ’ہشام‘ تختِ سلطنت پر بیٹھا۔ اُس کے عہد میں مسلمانوں نے جنوبی فرانس کے بہت سے شہروں کو فتح کیا۔ یہ وہ دور تھا جب فقہ مالکی کو ریاست میں قانون کی بنیاد کے طور پر نافذ کیا گیا۔
۸۲۲ء میں ’عبدالرحمن دُوم‘ تخت نشین ہوا۔ اُس کے ۳۰سالہ دورِ حکومت میں ملک اِنتظامی طور پر مضبوط ہوا۔ علوم و فنون کی ترقی کا آغاز ہوا، سائنسی علوم کی ترویج عام ہونے لگی۔ صنعت و حرفت نے بھی بہت زیادہ ترقی کی اور تجارت دُور دراز ممالک تک پھیل گئی۔ اندلس کی بحری طاقت بڑھ جانے سے تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ یہ دَور تعمیرات اور دولت کی فراوانی کا دَور تھا۔ (آگے چل کر ہم اس کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔) دُوسری طرف یہی وہ دَور ہے جس میں یورپ میں اِسلام کے خلاف باقاعدہ طور پر مسیحی تحریک کا آغاز ہوا۔ جس نے بعدازاں صدیوں تک سپین کے مسلمانوں کو جنگوں میں اُلجھائے رکھا اور بالآخر جزیرہ نما آئبیریا ( Iberian Peninsula ) سے نکال کر دَم لیا۔
اِسلامی سپین کی تاریخ میں سب سے عظیم حکمران ’عبدالرحمن سوم‘ تھا۔ اُس نے ۲۱برس کی عمر میں۹۱۲ء میں اپنے دادا ’عبداللہ‘ کی وفات کے بعد سلطنت کا اِنتظام سنبھالا۔ یہ وہ دَور تھا جب اندلس میں مسلمان رُو بہ زوال تھے اور صلیبی تحریک خوب زور پکڑ چکی تھی۔اُس نے ہر طرح کی داخلی بدامنی اور خارجی شورشوں کو کچل کر معاشرے کا امن بحال کیا اور ایک نئے دَور کی بنیاد رکھی۔ یہ اندلس کا پہلا حکمران تھا جس نے ’الناصر لدین ﷲ‘ کے لقب کے ساتھ اپنی خلافت کا اِعلان کیا۔ اپنے ۹۱۲ء سے ۹۶۱ء تک ۴۹ سالہ دورِ حکومت میں اُس نے نہ صرف بہت سی عیسائی ریاستوں کو اپنا زیرِ نگیں کر لیا بلکہ ملک کو عظیم اِسلامی تہذیب و تمدّن کا گہوارہ بنا دیا۔ اُس کے دَور میں علوم و فنون کو عروج ملا جس سے اندلس اپنے دَور کی ایک عظیم ویلفیئر سٹیٹ بن کر اُبھرا۔
’عبدالرحمن سوم‘ کے بعد ’حکم ثانی‘، ’ہشام‘ اور ’مظفر‘ تخت آرائے خلافت ہوئے مگر اُن کے بعد ۱۰۱۰ء میں سلطنت کا اِنتظام بکھرنا شروع ہوا اور پورا اندلس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔۱۰۱۰ء سے ۱۰۳۱ء تک ۲۱سالوں میں کل ۹خلفاء تخت نشین ہوئے مگر کوئی بھی حالات کے دھارے کو قابو میں نہ لا سکا۔ ۱۰۳۱ء میں اِنتشار اِس حد تک بڑھا کہ اُس کے نتیجے میں اندلس سے اُموی خلافت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا، سلطنت بہت سے حصوں میں بٹ گئی اور ہر علاقے میں مقامی سرداروں اور ملوک نے حکومت شروع کر دی۔ تاریخ اُن سرداروں کو ’ملوکُ الطوائف‘ کے نام سے یاد کرتی ہے ۔
دَورِ مرابطون
شمالی افریقہ کے بربری خاندان اور تحریکِ مرابطین کے زیرِ اِنتظام قائم حکومت کے تیسرے حکمران’یوسف بن تاشفین‘ کا دورِ حکومت ۱۰۹۱)ء تا ۱۱۰۶ء( شمالی افریقہ کے بہترین اَدوار میں سے ایک ہے ۔ اُس کے کارہائے گراں مایہ کے اِعتراف میں بغداد کی خلافت کی طرف سے اُسے ’امیر المسلمین‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا۔ جب اندلس میں طوائفُ الملوکی حد سے بڑھی اور عیسائی حکومتوں کی طرف سے مسلمان ریاستوں پر حملوں کا آغاز ہوا اور اِسلامی سپین کی سرحدیں سُکڑنا شروع ہوئیں تو ملوکُ الطوائف کو اپنے انجام سے خطرہ لاحق ہوا۔ ایسے میں اُنہیں ہمسایہ مسلمان ریاست کا فرمانروا ’یوسف بن تاشفین‘ اپنی اُمیدوں کے آخری سہارے کی صورت میں دِکھائی دیا۔ اندلس کے سفیروں نے ’یوسف بن تاشفین’ کو اندلسی مسلمانوں پر ہونے والے عیسائیوں کے مظالم کی لرزہ خیز داستان سنائی اور اُسے صلیبی حملوں کے خلاف اِمداد کے لئے بلایا، جس کے نتیجے میں وہ ۱۰۸۶ء میں ۱۰۰ جہازوں کے بیڑے کے ساتھ ۱۲ہزار کی فوج لے کر افریقہ کی بندرگاہ ’سبتہ‘ سے اندلس روانہ ہوا۔ ملوکُ الطوائف بالخصوص معتمد اشبیلیہ ( Seville ) کے,۰۰۰۸ اَفواج بھی اُس کے ساتھ آن ملیں۔ یوں,۰۰۰۲۰ اَفواج کے ساتھ اُس نے ’سرقسطہ‘ ( Zaragoza ) کے مقام پر ’لیون‘ ( Leon ) کے حملہ آور باشادہ ’الفانسوششُم‘ کے ۸۰,۰۰۰ سپاہیوں کو تہِ تیغ کیا، جن میں سے بمشکل چند سو سپاہی جان بچا کر اپنے وطن واپس لوٹ سکے۔
جنگ زلّاقہ کے نام سے معروف یہ لڑائی اِس اِعتبار سے سپین کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہے کہ عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کو جو زبردست خطرہ لاحق ہو گیا تھا وہ ایک طویل عرصے کے لئے ٹل گیا۔ اگر یوسف بن تاشفین عیسائیوں کا پیچھا کرتا تو اُن کی طاقت کو مستقل طور پر ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کر سکتا تھا مگر اُس نے واپسی کا اِرادہ کیا اور اپنی۳,۰۰۰ فوج اشبیلیہ ( Seville ) کی حفاظت کے لئے چھوڑ کر باقی لشکر کے ساتھ عازمِ افریقہ ہوا۔
’یوسف بن تاشفین‘ تو ’الفانسو‘ کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد واپس افریقہ چلا گیا مگر اندلس کے ملوک اِس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ اُن کا اِتحاد کسی صورت نہ رہ سکا اور ملک میں پھر سے اَمن و امان کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ یوسف نے چند سال بعد اندلسی علماء اور عوامُ الناس کے بھرپور اِصرار پر۱۰۹۱ء میں اندلس کو اپنی افریقی ریاست کے ساتھ مدغم کر لیا، یہیں سے ’مرابطین کے دور کا آغاز‘ ہوا۔
اُس دَور میں اندلس کا امن اور خوشحالی ایک بار پھر عود کر آئی تاہم یہ کوئی زیادہ طویل دَور نہ تھا۔ مرابطون کا دورِ حکومت صرف ۵۴سال تک قائم رہنے کے بعد ۱۱۴۵ء میں ختم ہو گیا۔ صدیوں پر محیط اندلس کی تاریخ میں اِس مختصر دَور کو فلاحِ عامہ کے نکتۂ نظر سے اِنتہائی اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے ۔
دورِ مؤحِّدُون
مغربِ اَقصیٰ (موجودہ مراکش) سے ۱۱۲۰ء میں ایک نئی اِصلاحی تحریک نے جنم لیا، جس کا بانی ’ابوعبداللہ محمد بن تومرت‘ تھا۔ مہدیت کے دعوے پر مشتمل اُس کی تبلیغ مَن گھڑت عقائد و نظریات کے باوُجود بڑی پُر اثر تھی، جس کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں لوگ اُس کے مُرید ہونے لگے بلکہ جلد ہی وہ افریقہ کی ایک عظیم سیاسی قوت کی صورت میں اُبھرا۔ اُس کے مریدین مؤحّدوں کہلاتے تھے۔ ’محمد بن تومرت‘ کے جانشین ’عبدالمومن علی‘ کے دَور میں اُس تحریک نے اپنی سیاسی قوت میں بے پناہ اِضافہ کیا، جس کے نتیجے میں ۱۱۴۵ء میں مرابطون کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
جن دِنوں مؤحّدون نے مرابطون کا خاتمہ کیا سپین کے صلیبی حکمران ’الفانسوہفتم‘ نے ’قرطبہ‘ ( Cordoba ) اور ’اشبیلیہ‘ ( Seville ) سمیت اندلس کے بہت سے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ چنانچہ اندلس میں مؤحّدون کے دَور کا آغاز ایک سُکڑی ہوئی ریاست کے طور پر ہوا۔ اس کے باوُجود عبدالمؤمن کے جانشینوں نے نہ صرف صلیبی حملوں کا پُر زور مقابلہ کیا بلکہ ریاست کی تمدّنی ترقی کی طرف بھی خصوصی توجہ دی۔ بہت سی مساجد، محلات، فوجی مدرسے، قلعے، پل اور سڑکیں اُسی دَور میں تعمیر ہوئیں۔ اُس دَور میں بندرگاہوں کی توسیع بھی عمل میں آئی اور جہازرانی کے کارخانے قائم ہوئے۔ صنعت و حرفت کو خوب فروغ ملا اور تجارت نے بھی ترقی کی۔
۱۲۱۴ء میں مؤحّدون کے آخری فرمانروا ’ابوعبداللہ محمدالناصر‘ نے ’الفانسونہم‘ کی زیرقیادت حملہ آور قشتالہ، لیون، نبرہ اور ارغون کی مشترکہ اَفواج سے ’العقاب‘ کی جنگ میں شکست کھائی۔ یہ جنگ مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کن ثابت ہوئی اور آئندہ کہیں بھی وہ عیسائیوں کے خلاف جم کر نہ لڑ سکے اور اُن کی عظمت و شکوہ کا سکہ پامال ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ جس کے نتیجے میں اندلس ایک بار پھر طوائفُ الملوکی میں گھِر گیا جو ۱۲۳۲ء تک جاری رہی۔
دورِ بنو نصر
مؤحّدون کے بعد ملک میں چھانے والی طوائفُ الملوکی کے دوران اندلس کی حدُود تیزی سے سمٹنے لگیں اور بہت سی مسلم ریاستیں یکے بعد دیگرے عیسائی مقبوضات میں شامل ہوتی چلی گئیں۔ حتیٰ کہ ’خاندانِ بنو نصر‘ کے آغاز سے قبل اِسلامی سپین محض ۷۰۰ میل کے لگ بھگ رقبے پر مشتمل رہ گیا، جس میں غرناطہ ( Granada )، المریہ ( Almeria )، مالقہ ( Malaga )، قادِس ( Cadiz )، بیضاء ( Baza ) اور جیان ( Jaen ) کے مشہور شہر شامل تھے۔
غرناطہ کا خاندانِ بنو نصر جس نے ۱۲۳۲ء سے ۱۴۹۲ء تک ۲۶۰ سال حکومت کی، تاریخِ اندلس میں ایک خاص مقام رکھتا ہے ۔ اُس خاندان نے اِتنے طویل عرصے تک اپنے محدُود ریاستی وسائل کے باوُجود یورپ بھر کی اِجتماعی یلغار کو روکے رکھا۔ ۱۴۲۳ء میں صحیح معنوں میں ریاست کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر ۲جنوری۱۴۹۲ء کے تاریخی دِن اپنے انجام کو جا پہنچا۔
عیسائی قابضین نے غرناطہ ( Granada ) کے مسلمان عوام کے ساتھ کئے گئے جان، مال، عزت و آبرو اور مذہبی آزادی کے وعدے کے برخلاف اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور اُنہیں تبدیلیِ مذہب یا جلاوطنی میں سے ایک پر مجبور کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں سپین سے مکمل طور پر مسلمانوں کا خاتمہ ہو گیا۔
اِسلامی سپین کے چند عظیم سائنسدان
سپین کی سرزمین اِسلام کی علمی تاریخ میں بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ اُس کا مقام مردم خیزی میں کسی طرح بھی بغداد ( Baghdad ) اور دمشق ( Damascus ) کی یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔ اندلس کی کوکھ سے جن عظیم سائنسدانوں نے جنم لیا یہ اُنہی کا کسبِ کمال تھا جس کی بدولت قرطبہ ( Cordoba ) جیسا عظیم شہر قرونِ وُسطیٰ میں رشکِ فلک بنا۔ اندلس کی تمدّنی زندگی کے پیچھے اُس کے جلیل القدر سائنسدانوں ہی کا ہاتھ تھا۔ قرونِ وُسطیٰ کی بہت سی نامور شخصیات اندلس ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ عظیم مفسرِ قرآن اِمام قرطبی، مشہورِ عالم سیاح اِبنِ بطوطہ اور اِبنِ جبیر، موجدِ سرجری و ماہرِ اَمراضِ چشم ابوالقاسم الزہراوی، معروف فلسفی و طبیب اِبنِ باجّہ، خالق فلسفۂ وحدتُ الوُجود اِبنِ عربی، عظیم فلسفی و طبیب اِبنِ رُشد، بطلیموسی نظریۂ کواکب کا دلائل کے ساتھ ردّ کرنے والے عظیم اِسلامی ماہرینِ فلکیات اَبواِسحاق الزّرقالی اور اَبواِسحاق البطرُوجی، تاریخ و عمرانیات کے اِمام اِبنِ خلدون، نامور طبیب یونس الحرانی، معروف جغرافیہ نگار و ماہرِ فلکیات شریف اِدریسی، ہوائی جہاز کا موجد عباس بن فرناس، نامور طبیب اِبنِ الہیثم، ماہرِ فلکیات و الجبراء نصیر الدین طوسی اور دیگر بے شمار علمی و ادبی شخصیات کا تعلق سپین ہی کی عظیم سرزمین سے تھا۔
اِن مسلمان سائنسدانوں نے علم کو صرف اِسلام ہی کی دولت سمجھتے ہوئے محدُود کرنے کی بجائے اپنے دروازے ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے کھلے رکھے اور علم کو بنی نوع انسان کا مشترکہ وِرثہ قرار دیا۔ چنانچہ سپین کی یونیورسٹیوں میں عیسائی اور یہودی طلباء بھی بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ حتیٰ کہ مسلمان سائنسدانوں کے یہودی و عیسائی شاگرد بعد میں نامور سائنسدان ہوئے اور اپنی قوم میں سائنسی تعلیم کی ترویج کا باعث بنے۔ یہیں سے سپین کا علمی سرمایہ مغربی اور وسطی یورپ منتقل ہونا شروع ہوا۔
معروف مستشرق ’منٹگمری واٹ‘ اِس سلسلے میں رقمطراز ہے:
Already when the fortunes of the Muslims were in the ascendant, their learning had attracted scholars of all faiths. Spanish Jews in particular were -- including the great Maimonides (۱۱۳۵-۱۲۰۴) -- sat at the feet of Arabic-speaking teachers and wrote their books in Arabic
( W. Montgomery Watt A History of Islamic Spain P.۱۵۷ )
ترجمہ:
"جب مسلمانوں کی قسمت اپنے عروج پر تھی تو اُن کی تعلیمات نے تمام مذاہب کے ماننے والے طلباء کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔ سپین کے یہودی بطورِ خاص عرب فکر سے متأثر ہوئے، اور (عظیم میمونائیڈز سمیت) اُن میں سے بیشتر نے عربی بولنے والے اساتذہ سے زانوئے تلمّذ طے کیا اور عربی زبان میں کتابیں لکھیں"۔
ذیل میں ہم خوفِ طوالت کے باعث اِختصار کے ساتھ اندلس کے چند اہم سائنسدانوں کے نام اور اُن کے شعبہ ہائے تحقیق پر مشتمل فہرست پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین پر اندلس کی مردم خیزی عیاں ہو سکے:
نام سائنسدان شعبۂ تحقیق
۱ اِبراہیم بن سعید السہلی فلکیات، ماہر اُسطُرلاب سازی
۲ اِبن الاصم طب، ماہر نباض
۳ اِبن البغونش طب
۴ اِبن البیطار، ابو محمد عبداللہ بن احمد المالقی باٹنی، طب
۵ اِبن الجزار طب، ادویہ سازی
۶ اِبن الحلاء طب
۷ اِبن الخطیب اندلسی، ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ لسان الدین طب، ماہرِ اَمراضِ تعدیہ، جغرافیہ، تاریخ، تصوّف، ادب، فلسفہ
۸ اِبن الذہبی، ابو محمد عبداللہ بن محمد الازدی کیمیا
۹ اِبن الرومیہ، ابوالعباس احمد بن محمد بن مفرح النباتی باٹنی، طب
۱۰ اِبن الصفار، ابوالقاسم احمد بن عبداللہ الغافقی حساب، نجوم، انجینئرنگ، فلکیات، علم الاعداد
۱۱ اِبن العوام باٹنی
۱۲ اِبن النباش طب
۱۳ اِبن الوافد طب
۱۴ اِبن ام البنین طب
۱۵ اِبن بدر، ابو عبداللہ محمد بن عمر بن محمد ریاضی، الجبرا
۱۶ اِبن باجّہ فلسفہ، طب، ادویہ سازی، کیمیا، انجینئرنگ، ہیئت، ادب، موسیقی
۱۷ اِبن خاتمہ طب، ماہرِ اَمراضِ تعدیہ
۱۸ اِبن رُشد، ابو محمد عبداللہ بن ابوالولید طب، ماہرِ اَمراضِ چشم، فلسفہ
۱۹ اِبن زہر اشبیلی طب، سرجن، کیمیا
۲۰ اِبن سعید المغربی جغرافیہ
۲۱ اِبن طفیل طب، فلسفہ
۲۲ اِبن عبدالبر انجینئرنگ، باٹنی
۲۳ اِبن مسعود فلکیات، انجینئرنگ
۲۴ اِبن ملوکہ طب
۲۵ ابو اِسحاق اِبراہیم الدانی طب
۲۶ ابو اِسحاق اِبراہیم بن لب التجیبی فلکیات
۲۷ ابو اِسحاق اِبراہیم بن یحییٰ الزرقالی قرطبی فلکیات، علمُ الاعداد (معیاری اُسطرلاب کا مُوجد، بطلیموسی نظریہ کا ردّ کرنے والا)
۲۸ ابو اِسحاق بن طملوس طب
۲۹ ابو اِسحاق نور الدین البطروجی فلکیات، بطلیموسی نظریہ کا ردّ کرنے والا
۳۰ ابو الاصبغ عیسیٰ بن احمد الواسطی فلکیات
۳۱ ابوالحجاج یوسف بن موراطیر طب
۳۲ ابوالحسن المراکشی فلکیات، ریاضی، جغرافیہ، ساعات شمسیہ، تقویم
۳۳ ابو الحسن بن عبدالرحمن بن الجلاب فلکیات
۳۴ ابوالحسن علی بن ابی الرجال الشبیانی فلکیات
۳۵ ابوالحسن علی بن سلیمان الزہراوی الحاسب ریاضی
۳۶ ابوالحسن علی بن محمد بن علی القرشی القطصادی ریاضی، علم الاعداد، الجبراء
۳۷ ابوالحسن علی بن موسیٰ الانصاری کیمیا
۳۸ ابوالحسن مختار بن عبدالرحمن بن شہر فلکیات
۳۹ ابو الحکم بن غلندو طب
۴۰ ابو الصّلت اُمیہ بن عبدالعزیز طبیعیات، ریاضی، میکانیات، طب، ادویہ سازی، کیمیا، انجینئرنگ، فلکیات، فلسفہ، ادب، موسیقی، منطق
۴۱ ابوالعباس احمد بن محمد، ابن البناء المراکشی فلکیات، ریاضی، انجینئرنگ، الجبراء، علم الاعداد، نجوم
۴۲ ابو العباس الکنیاری طب
۴۳ ابو العرب یوسف بن محمد طب
۴۴ ابو العلاء بن ابو جعفر احمد بن حسان طب
۴۵ ابو العلاء زہربن ابو مروان طب، ادویہ سازی، ماہر نباض، ادب، حدیث
۴۶ ابو الفضل محمد بن عبدالمنعم الجلیانی طب، شعر و ادب
۴۷ ابوالقاسم احمد بن عبداللہ بن الصفار فلکیات، ریاضی، کیمیا
۴۸ ابوالقاسم احمد بن محمد العددی ریاضی
۴۹ ابوالقاسم۔ اصبغ بن محمد بن السمح المہری فلکیات، ریاضی، انجینئرنگ
۵۰ ابوالقاسم الزہراوی طب، موجد سرجری، ماہرِ اَمراضِ چشم
۵۱ ابوالقاسم صاعد بن احمد بن عبدالرحمن بن صاعد فلکیات
۵۲ ابوالقاسم مسلمہ المجریطی فلکیات، ریاضی، کیمیا
۵۳ ابو ایوب عبدالغافر بن محمد ریاضی
۵۴ ابوبکر احمد بن جابر طب
۵۵ ابوبکر بن القاضی ابوالحسن الزہری طب
۵۶ ابوبکر بن سمجون طب، ادویہ سازی
۵۷ ابوبکر بن عیسیٰ فلکیات
۵۸ ابوبکر بن بشرون کیمیا
۵۹ ابوبکر محمد بن احمد الرقوطی طب، انجینئرنگ، منطق، موسیقی، ریاضی
۶۰ ابوبکر محمد بن عبدالملک بن زہر (الحفید) طب، ماہرِ اَمراضِ چشم، فقہ، حدیث، ادب
۶۱ ابوبکر محمد بن یحییٰ ابن باجہ فلکیات
۶۲ ابو جعفر احمد بن حسان طب
۶۳ ابو جعفر احمد بن سابق طب
۶۴ ابو جعفر احمد بن محمد الغافقی باٹنی
۶۵ ابو جعفر الذہبی طب
۶۶ ابو جعفر بن الغزال طب
۶۷ ابو جعفر یوسف بن احمد بن حسدائی طب
۶۸ ابو حامد الغرناطی جغرافیہ
۶۹ ابو داؤد سلیمان بن حسان ابن جلجل قرطبی طب، ادویہ سازی، سیاست
۷۰ ابو عبداللہ الملک الثقفی طب
۷۱ ابو عبداللہ الندرومی طب
۷۲ ابو عبداللہ بن یزید طب
۷۳ ابو عبداللہ محمد بن حسین الکتانی طب، ادویہ سازی، سیاست
۷۴ ابوعبداللہ محمد بن علی القربلائی طب، سرجری
۷۵ ابو عبداللہ محمد بن عمرو بن محمد بن برغوث فلکیات
۷۶ ابو عبداللہ محمد بن محمد الادریسی باٹنی
۷۷ ابو عبید عبداللہ بن عبدالعزیز البکری جغرافیہ، باٹنی، ادب، تاریخ، اِلٰہیات
۷۸ ابو عبیدہ مسلم بن احمد بن ابو عبیدہ البلنسی ریاضی
۷۹ ابو عمر النوشریسی جغرافیہ
۸۰ ابو محمد العبدری جغرافیہ
۸۱ ابو محمد الشذونی طب
۸۲ ابو محمد عبداللہ بن الحفید طب
۸۳ ابو محمد عبداللہ بن حجاج ابن الیاسمین ریاضی، الجبراء، شعر و ادب
۸۴ ابو مروان عبدالملک بن ابی العلاء زہر طب، ادویہ سازی
۸۵ ابو مسلم عمر بن احمد بن خلدون فلکیات
۸۶ ابو ولید محمد بن حسین الکتانی طب
۸۷ ابو یحییٰ بن قاسم الاشبیلی طب
۸۸ احمد بن حکم بن حفصون طب
۸۹ احمد بن خالد ریاضی
۹۰ ابو جعفر بن خاتمہ، احمد بن علی بن محمد طب
۹۱ احمد بن محمد الطبری طب، ادویہ سازی
۹۲ احمد بن نصر انجینئرنگ
۹۳ احمد بن یونس الحرانی طب، ماہرِ اَمراضِ چشم، ادویہ سازی
۹۴ اِسحاق الطبیب طب
۹۵ اِسحاق بن سلیمان طب، ادویہ سازی
۹۶ اِسحاق بن عمران طب، ادویہ سازی
۹۷ اِسحاق بن قسطار طب، فلسفہ، منطق
۹۸ اصبغ بن یحییٰ طب
۹۹ الرمیلی طب، حساب، معادلات
۱۰۰ المصدوم طب
۱۰۱ ثابت بن محمد الجرجانی نجوم، فلسفہ، منطق
۱۰۲ جابر بن افلح فلکیات، الجبراء
۱۰۳ جواد الطبیب طب
۱۰۴ حسدائی بن شپروط (یہودی) طب، ادویہ سازی، سیاست
۱۰۵ حسین بن محمد ابن حی التجیبی فلکیات
۱۰۶ حمدین بن ابان طب
۱۰۷ خالد بن یزید بن رومان قرطبی طب، باٹنی، ادویہ سازی
۱۰۸ سعید بن عبد ربہ طب، ادویہ سازی
۱۰۹ سلیمان ابوبکر بن باج طب، ادویہ سازی، سیاست
۱۱۰ سلیمان عبداللہ المشتری ریاضی
۱۱۱ شریف اِدریسی، ابو عبد اللہ محمد بن عبداللہ بن اِدریس فلکیات، جغرافیہ
۱۱۲ عامر الصفار القرطبی حساب، مساحت، فرائض
۱۱۳ عباس بن فرناس فلکیات، فلکیاتی لیبارٹری، ہوائی جہاز
۱۱۴ عبدالرحمن بن اسحاق بن الہیثم طب، ادویہ سازی
۱۱۵ عبدالعزیز بن مسلمہ الباجی طب
۱۱۶ عبداللہ بن احمد السرقسطی فلکیات
۱۱۷ عبداللہ بن محمد السری ریاضی
۱۱۸ عبدالمنعم الجلیانی طب
۱۱۹ عبدالمنعم الحمیری جغرافیہ، تاریخ
۱۲۰ عریب بن سعد الکاتب قرطبی تقویم، تاریخ، طب، ماہرِ اَمراضُ النساء و اَمراضُ الاطفال
۱۲۱ عمران بن ابی عمرو طب، ادویہ سازی
۱۲۲ محمد بن جابر جغرافیہ
۱۲۳ عمر بن حفص بن برتق طب
۱۲۴ عمر بن یونس الحرانی طب، ماہر امراضِ چشم، ادویہ سازی
۱۲۵ عمرو بن عبدالرحمن الکرمانی ریاضی
۱۲۶ قاسم بن اصبغ ریاضی
۱۲۷ محمد التمیمی طب
۱۲۸ محمد بن ابراہیم بن نوح بن بونہ المیورقی حساب، علم الاعداد
۱۲۹ محمد بن ابوبکر الزہری جغرافیہ، فلکیاتی جغرافیہ، ہیئت
۱۳۰ محمد بن احمد بن اللیث فلکیات
۱۳۱ محمد بن السراج طب
۱۳۲ محمد بن رشید الفہری جغرافیہ، ادب، حدیث، نحو
۱۳۳ محمد بن عبدون الجبلی طب
۱۳۴ محمد بن علی الشفرہ باٹنی
۱۳۵ محمد بن فتح طلمون طب
۱۳۶ محمد بن یوسف الوراق جغرافیہ
۱۳۷ محمد تملیخ طب
۱۳۸ محی الدین بن محمد الشکر المغربی فلکیات، انجینئرنگ
۱۳۹ مروان بن جناح طب، ادویہ سازی، سیاست
۱۴۰ مسلمہ المجریطی فلکیات، ریاضی، کیمیا
۱۴۱ مسلمہ بن قاسم فلکیات
۱۴۲ مُطرِف الاشبیلی فلکیات، ریاضی
۱۴۳ موسیٰ بن میمون فلسفہ، طب، ادویہ سازی، کیمیا، انجینئرنگ، ہیئت، ادب، موسیقی
۱۴۴ نصیر الدین طوسی فلکیات، الجبراء
۱۴۵ ہارون بن موسیٰ الاشبونی طب
۱۴۶ ہشام بن احمد ابن ہشام حساب، انجینئرنگ، منطق
۱۴۷ یحیٰ بن اِسحاق طب
۱۴۸ یحیٰ بن یحیٰ ابن السمینہ طب، حساب، فلکیات، لغت، نجوم، عروض، حدیث، فقہ
۱۴۹ یوسف المؤتمن المقتدر بﷲ بن ہود (امیرِ سرقسطہ) فلکیات، ریاضی، فلسفہ
۱۵۰ یوسف بن اِسحاق ابن بکلارش باٹنی، طب
۱۵۱ یونس الحرانی طب، ادویہ سازی
اِسلامی سپین کا علمی و فنی اِرتقاء
اِسلامی سپین کے آٹھ سو سالہ دَور میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم بھی اِرتقاء کے عمل سے گزرے۔ سپین میں سائنسی علوم کی وسیع پیمانے پر ترویج کا باقاعدہ آغاز ’عبدالرحمن الناصر‘ کے دَور (۹۱۲ء تا۹۶۱ء) میں ہوا، جو سپین کی اُموی خلافت کا پہلا باضابطہ خلیفہ تھا۔ اِسلامی سپین کے اِبتدائی ۲۰۰سالہ دَور میں مختلف حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانے میں علمی و فکری مجالس کے اِنعقاد اور دُنیا کے تمام علوم و فنون پر کتابیں جمع کرنے کے کام کا آغاز کر دیا تھا مگر اُس کام کی رفتار کوئی خاص نہ تھی۔ اُس دو سو سالہ دَور کی علمی سرگرمیوں کے مشاہدے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اندلس میں علمی و فکری اِرتقاء مشرق کے اِسلامی ممالک کی نسبت تاخیر سے شروع ہوا۔ اس تاخیر کا بڑا سبب سلطنت کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمن سوم‘ کا دَور جہاں تمدّنی حوالے سے قابلِ رشک ہے وہاں سیاسی اِستحکام کی بدولت علوم و فنون کی ترویج میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وہ دَور تھا جب اندلس کے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں آزادیِ اَفکار نصیب ہوئی اور اُنہوں نے علومِ عقلیہ پر کھل کر تجربی تحقیقات شروع کیں۔ اُسی دور میں اندلسی سائنسدانوں نے سائنسی طریقِ کار کو فروغ دیا اور علمِ ہیئت ( astronomy )، علمِ ریاضی ( mathematics )، علمِ طب ( medical science )، علمِ نجوم ( astrology )، علمِ کیمیا ( chemistry )، علمِ نباتات ( botany )، علمِ جغرافیہ ( geography ) اور بے شمار صنعتی علوم و فنون اندلس کی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔
تعلیم اِس قدر عام ہوئی کہ شرحِ خواندگی سو فیصد تک جا پہنچی۔ یہ اُس دور کی بات ہے کہ جب براعظم یورپ کے تمام صلیبی ممالک جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم تھے۔ اگر کوئی لکھنا پڑھنا جانتا بھی تھا تو وہ چند پادری لوگ تھے جو فقط اپنے مذہبی علوم سے آشنا ہوتے۔ سائنسی و عقلی علوم کا تصوّر بھی اُس دَور کے یورپ میں مفقود تھا بلکہ کلیسا کی طرف سے عقلی علوم پر کفر کا فتویٰ صادِر کیا گیا تھا۔ دُوسری طرف اِسلامی تعلیمات کے طفیل اندلس کے علمی عروج کا یہ عالم تھا کہ ’عبدالرحمن سوم‘ کے جانشیں ’حکم ثانی‘ کے دورِ خلافت (۹۶۱ء تا۹۷۶ء) میں قرطبہ ایک عالمی علمی مارکیٹ کی حیثیت سے دُنیا بھر میں شہرت اِختیار کر گیا تھا ۔ وہاں کتب فروشوں کی دُکانیں ۲۰ہزار تک جا پہنچی تھیں۔ کتب فروش نہ صرف کتابیں فروخت کرتے تھے بلکہ خاص اِہتمام کے ساتھ وسیع پیمانے پر ماہر خطاطوں سے کتابت کے ذریعے اُن کی نقول بھی تیار کرواتے تھے ۔ کتابت میں عورتیں بھی مردوں سے کم نہ تھیں۔ شہر کے صرف ایک مشرقی محلے میں ۱۷۰کے قریب خواتین قرآنِ مجید کو خط کوفی میں لکھنے میں خاص شہرت رکھتی تھیں۔
قرطبہ ( Cordoba )، غرناطہ ( Granada )، مالقہ ( Malaga )، سرقسطہ ( Zaragoza )، اشبیلیہ ( Seville ) اور جیان ( Jaen ) میں اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ صرف قرطبہ شہر میں حکم ثانی نے بالکل مفت تعلیم کیلئے ۲۷سکول قائم کر رکھے تھے۔ پرائیویٹ تعلیمی اِدارے اُن کے علاوہ تھے۔ نہ صرف تمام اَساتذہ بلکہ مستحق طلبہ کو بھی حکومت کی طرف سے وظائف ملتے اور دورانِ تعلیم اُن کی کفالت کی مکمل ذِمہ داری حکومت پر تھی۔ اندلس تعلیمی میدان میں دورِ حاضر کی جدید تہذیب کی کسی بھی فلاحی ریاست کے مقابلے میں کسی طور کم نہ تھا۔ لوگ علم کو برائے علم حاصل کرتے تھے نہ کہ برائے معاش۔
اندلس کے دُوسرے اُموی خلیفہ حکم ثانی (۹۶۱ء تا ۹۷۶ء) کی لائبریری اپنے دَور میں دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی، جہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر مذہبی علوم کے علاوہ ہیئت ( astronomy )، ریاضی ( mathematics )، طب ( medical sciences )، نجوم ( astrology )، کیمیا ( chemistry )، طبیعیات ( physics )، فلسفہ ( philosophy )، منطق ( logic )، تاریخ ( history ) اور جغرافیہ ( geography ) سمیت تمام علومِ عقلیہ پر مشتمل ۴لاکھ سے زیادہ (ایک رِوایت کے مطابق ۶ لاکھ) کتب موجود تھیں۔ اُس لائبریری کی کیٹلاگ ۴۴ بڑی جلدوں پر مشتمل تھی۔ خلیفہ چونکہ خود بہت بڑا عالم تھا اور سائنس سے گہری دِلچسپی رکھتا تھا اِس لئے اُس نے اُن میں سے بیشتر کتب کا نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ اُن پر جا بجا حواشی بھی چڑھا رکھے تھے۔ اندلس میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد جاہل پادریوں نے مسلمانوں کی تمام لائبریریاں جلا دیں، جن میں ’الحکم‘ کی عظیم الشان لائبریری بھی شامل تھی۔
بنواُمیہ کے بعد اندلس پر چھانے والی ’طوائف الملوکی‘ اور بعد ازاں ’مرابطون‘ کے دَور میں علمی اِرتقاء کا کام کسی حد تک زیرِ زمین چلا گیا مگر جونہی مؤحّدون کا دَور شروع ہوا پہلے کی سی تیزی پھر سے لوٹ آئی اور علمی و فکری میدانوں میں اِرتقاء کی رفتار روز اَفزوں ہو گئی۔ ملک بھر میں جا بجا سینکڑوں تعلیمی اِدارے قائم ہوئے۔ عہدِ مؤحّدون میں صرف قرطبہ ( Cordoba ) میں ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے ۸۰۰ سے زائد تعلیمی اِدارے قائم تھے، جہاں ,۰۰۰۱۰ سے زیادہ طلبہ مذہبی و سائنسی ہر دو قبیل کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
سقوطِ قرطبہ کے بعد جب ’بنو نصر‘ غرناطہ ( Granada ) کی ریاست کے حکمران ہوئے تو اُن کے دَور میں بھی علم و فن نے خوب ترقی کی ۔ اُنہوں نے غرناطہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک عظیم یونیورسٹی قائم کی جس میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ تاریخ و اَدب کے علاوہ سائنسی علوم کی تدریس کا بھی خاطر خواہ اِنتظام کیا گیا تھا۔ مرکزی یونیورسٹی کے علاوہ شہر میں سینکڑوں سکول اور کالج بھی تھے جو اِبتدائی اور ثانوی تعلیم کی ترویج میں مصروف تھے۔ شہر میں ۷۰ بڑی لائبریریاں تھیں۔ سیاسی عدم اِستحکام اور صلیبی شورشوں کے باوُجود غرناطہ اُن دِنوں سپین کا سب سے بڑا علمی شہر بن کر اُبھرا تھا۔
اِسلامی سپین کے چند اہم علوم
جیسا کہ ہم پہلے ذِکر کر چکے ہیں کہ سپین کا علمی اِرتقاء بغداد اور دمشق کی نسبت کافی تاخیر سے شروع ہوا، جس کی وجہ ریاست کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمن الناصر‘ کی تخت نشینی کے بعد جہاں ملک میں اَعلیٰ تہذیب و ثقافت پروان چڑھی وہاں علم و فکر کا راست انداز میں فروغ بھی اُس دَور کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ سائنسی علوم کی حقیقی بنیاد اُسی دَور میں پڑی۔ عبدالرحمن سوم کا دَور کاملاً آزادیِ اَفکار کا دَور تھا، جس کے نتیجے میں فقہائے مالکیہ کی گرفت خاصی کمزور پڑ گئی اور لوگ آزادانہ طور پر سائنس و فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ سائنس کی بہت سی شاخوں میں باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’عبدالرحمن سوم‘ اور اُس کے جانشین ’حکم ثانی‘ نے یونانی علوم کی وہ کتابیں جنہیں پہلے سے بغداد میں عربی میں ترجمہ کر لیا گیا تھا وہ اندلس منگوائیں اور اُنہیں سائنسی علوم کی بنیاد قرار دے کر مزید تحقیقات کے دَر وَا کئے۔
یونانی علماء کا اندازِ فکر فلسفیانہ مُوشگافیوں میں بند تھا۔ مسلمانوں نے اپنی تحقیقات میں تجربہ کو کسوٹی قرار دیا اور علم کے باب میں ایک نئے فکر "سائنسی طریقِ کار" کو فروغ دیا۔ سائنسی طریقِ کار کا حقیقی بانی بغداد کا مسلمان سائنسدان ’ابو البرات البغدادی‘ (۱۰۶۵ء تا ۱۱۵۵ء) ہے جس نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات کی سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور و خوض کے بعد اِسلام قبول کیا تھا۔ مسلمانوں نے اِس فکر کو فروغ دیا کہ تجربہ ہی وہ کسوٹی ہے جو سائنسی علوم میں حقیقت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔
بغداد سے نشر ہونے والے اِس نئے فکر کو ۔ ۔ ۔ جو اِسلام ہی کی دی گئی تعلیمات پر مشتمل تھا ۔ ۔ ۔ جلد ہی تمام مسلمانانِ عالم نے دِل و جان سے قبول کر لیا۔ چنانچہ سپین میں بھی تجربہ علومِ سائنس کے حصول کے لئے حتمی کسوٹی قرار پایا۔
یوں تو سپین میں بہت سے سائنسی علوم و فنون پر کام ہوا جن میں سے بیشتر کا ذِکر "قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کے فروغ" کے تحت گزر چکا ہے۔ تاہم علمُ الطب ( medical sciences ) ، علمُ الہیئت ( astronomy ) اور علمِ نباتات ( botany ) دیگر علوم کی نسبت زیادہ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اَب ہم اِن علوم میں خاص طور پر اندلسی مسلمانوں کی پیش رفت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ قاری پر تاریخِ علوم کے کچھ مزید مخفی گوشے عیاں ہو سکیں۔
علمُ الطب ( Medical sciences )
اَوائل دَورِ اِسلام میں دُوسرے بہت سے عقلی علوم کے ساتھ ساتھ علمُ الطب ( Medical sciences ) کی کتب کو بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اُس دَور میں طبی تحقیقات کا سارا دار و مدار عیسائیوں بالخصوص یونانیوں کی مترجمہ ( translated ) کتب پر تھا۔ بغداد کی طرح سپین میں بھی پہلے پہل یونانی کتبِ طب متعارف ہوئیں، جن پر مسلمان اَطباء نے اپنی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔
سپین میں اِسلامی طب ایشیا سے ہجرت کر کے آنے والے اَطباء کے ذریعہ متعارَف ہوئی جو اپنے ساتھ طبی کتب کا ذخیرہ بھی لائے تھے۔ علاوہ ازیں بغداد کی تحقیقات سے مستفید ہونے کے لئے سپین کے نوجوان حصولِ علم کے لئے افریقہ کی ہزارہا کلومیٹر طویل مسافت طے کر کے بغداد پہنچتے اور وہاں برس ہا برس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب میں مشّاق ہونے کے بعد وطن واپس لوٹتے۔ یونس الحرانی، اِسحاق بن عمران، اِسحاق بن سلیمان اور ابنُ الجزّار اُس دَور میں سپین میں طبی علوم کے اِفشاء کا باعث ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مشرقی ممالک سے ترکِ سکونت کر کے سپین میں آئے تھے۔
سپین میں اِسلامی طب کی معروف شاخوں تشخیصِ اَمراض، اَمراضِ نسواں، اَمراضِ اَطفال، امراضِ چشم اور سرجری پر خصوصی کام ہوا۔ بہت سے ماہر اَطباء نبض دیکھ کر مریض کی جملہ کیفیت بیان کر دیتے تھے۔ ابوالعلا زہر صرف نبض اور قارُورہ دیکھ کر مرض کی کامل تشخیص کر لیتا تھا، جبکہ ابنُ الاصم تشخیصِ اَمراض میں اِس قدر ماہر تھا کہ محض نبض دیکھ کر معلوم کر لیتا تھا کہ مریض کیا کھا کر آیا ہے۔
سرجری میں اَبوالقاسم الزہراوی کا مقام تمام اندلسی اَطباء میں بڑھ کر تھا، بلکہ اگر اُسے جدید علمِ جراحت ( surgery ) کا بانی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ ایسا ماہر سرجن تھا کہ ایک بار اُس نے ایک ایسے آدمی کا کامیاب آپریشن کیا جس کا پیٹ چاک ہوئے ۲۴گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ زہراوی نے کمال مہارت سے اُس کے پیٹ سے باہر نکل آنے والی انتڑیوں کو اصل مقام پر رکھا اور اپنے ہی اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کی مدد سے اُس کا پیٹ سی دیا۔ نہ صرف اُس شخص کی زندگی بچ گئی بلکہ چند ہی روز میں وہ بیٹھنے کے قابل بھی ہو گیا۔
ابوالقاسم الزہراوی قرونِ وُسطیٰ کا سب سے بڑا سرجن تھا۔ بغداد میں رازی کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب ( clinic ) کا مالک تھا۔ اُس نے آپریشن کے لئے خاص مہارت کے ساتھ خود ایسے بہترین آلات تیار کر رکھے تھے، جن کی مدد سے وہ ایسے پیچیدہ آپریشن کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا جن میں ۱۰۰ فیصد کامیابی کی توقع دورِ حاضر کے ماہر سرجن بھی نہیں کر پاتے۔ وہ آنتوں کے آپریشن کے لئے بلی کی آنتوں سے تیار کردہ دھاگہ اِستعمال کرتا۔ زخم کی سلائی یوں کرتا کہ باہر کی سمت اُس کا نشان مکمل طور پر غائب ہو جاتا۔ وہ آپریشن سے قبل بڑی شریانوں کو باندھ دیتا اور نچلے حصۂ بدن کے آپریشن کے دَوران میں پاؤں کو سر سے اُونچا رکھنے کی تاکید کرتا۔ یہ دونوں طریقے بالترتیب فرانس کے ایک سرجن Pare اور جرمنی کے سرجن Frederich کی طرف غلط منسوب کئے جاتے ہیں۔ وہ تکلیف دِہ سرجری کی صورت میں مریض کو بے ہوشی کی دوا ( anaesthesia ) دینے سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ علاوہ ازیں وہ آنکھوں کے آپریشن کا بھی ماہر تھا۔
لَوزَتین ( tonsils ) کے آپریشن کا طریقہ اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ پیٹ، جگر، پیشاب کی نالی، ناک، کان، گلے اور آنکھ کے آپریشن میں وہ ماہر تھا۔ مثانہ سے پتھری توڑ کر نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔
الزہراوی نے علمُ الطب پر ایک ضخیم کتاب "التصریف لمن عجز عن التألیف" بھی لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے علمُ العلاج اور علمُ الدّواء کے ساتھ ساتھ جراحت ( surgery ) پر بھی خاص روشنی ڈالی ہے۔ الزہراوی نے اپنے اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کے اِستعمال کا طریقِ کار اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے، جن میں اکثر اُس نے تصویروں کی مدد سے اُن آلات کی وضاحت اور اُن کا طریقِ استعمال بیان کیا ہے۔ اُس کے اِیجاد کردہ بعض آلاتِ جراحی اِس قدر ترقی یافتہ تھے کہ اُن کا اِستعمال آج تک جاری ہے۔
ابوالقاسم الزہراوی کے علاوہ ابنِ زہر بن مروان کا شمار بھی اِسلامی سپین کے ماہر سرجنوں میں ہوتا ہے۔
آنکھوں کے اَمراض میں احمدالحرانی اور عمرالحرانی اندلس کے ماہر اَطباء میں سے تھے۔ یہ دونوں معروف اندلسی طبیب یونس الحرانی کے بیٹے تھے جو حصولِ علم کے لئے بغداد میں ۱۰سال رہ چکے تھے۔ اندلس واپس آ کر اُنہوں نے آنکھوں کے اَمراض کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا اور اِس فیلڈ میں خاصے مشّاق ( expert ) ہو گئے۔ ابوالقاسم الزہراوی نے بھی آنکھوں کے آپریشن کے سلسلے میں اُن کی تحقیقات سے اِستفادہ کیا۔ علاوہ ازیں ابنِ رُشد اور ابوبکر محمد بن عبدالملک بن زہر بھی آنکھوں کے اَمراض کے ماہر ( ophthalmologist ) تھے۔
عورتوں کے اَمراض بالخصوص ایامِ حمل اور جنین کی پرورش کے بارے میں اندلس میں عریب بن سعد الکاتب کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ بچوں اور خواتین کے اَمراض کا ماہر معالج ہونے کے ناطے اُس نے اِس موضوع پر "خلق الجنین و تدبیر الحبالیٰ والمولود" کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، جس میں اُس نے جنین کی نشو و نما، حاملہ عورتوں کی بیماریوں، اُن کے بارے میں حفظ ماتقدم اور علاج کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے۔ اِس کتاب کا ایک قلمی نسخہ اسکوریال (سپین) میں محفوظ ہے۔ ابوالقاسم الزہراوی نے بھی ایک ماہر سرجن ہوتے ہوئے اپنی کتاب "التصریف لمن عجز عن التألیف" میں خواتین کے اَمراضِ مخصوصہ اور اُن کے علاج کے ساتھ ساتھ جنین کی مختلف حالتوں، وضعِ حمل اور غیر طبعی وِلادت کی صورت میں آپریشن کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔
اندلس کے اَطباء کی فہرست اِس قدر طویل ہے کہ اُن کے کارناموں کا احاطہ کرنے کے لئے الگ کتاب درکار ہو گی۔
علمُ الہیئت( Astronomy )
عبدالرحمن سوم کے دَور (۹۱۲ء تا ۹۶۱ئ) سے قبل سپین میں علم ہیئت کے مطالعہ و تحقیقات پر بہت کم توجہ دی گئی۔ اُس سے پہلے فقط اِسی قدر مطالعۂ اَفلاک کو مشروع اور رَوَا رکھا جاتا تھا جس سے اُمورِ شرعیہ میں مدد ملتی ہو۔ نمازوں کے اَوقاتِ اِبتداء و اِختتام اور روزے میں سحری و اِفطاری کے اَوقات پر ہونے والی تحقیقات سے علمُ المیقات ( time keeping ) کی بنیاد پڑی۔ سمتِ قبلہ کے تعین میں ستاروں کی پوزیشن کا فائدہ اُٹھانے کے لئے علمُ الہیئت کا سہارا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں اِبتدائے رمضان اور عیدین کے ہلال کی رؤیت کے لئے بھی مطالعۂ اَفلاک ناگزیر تھا۔ چنانچہ اِن اُمورِ شرعیہ کی بہتر بجا آوری کے لئے ضروری حد تک علمُ الہیئت ( astronomy ) حاصل کیا جاتا تھا۔
عبدالرحمن سوم کے عہد تک یہ حالت برقرار رہی اور فقہائے مالکیہ کے اَثر و رُسوخ کے باعث فلسفے کی طرح علمِ ہیئت ( astronomy ) اور علمِ نجوم ( astrology ) کو بھی ناجائز تصوّر کیا جاتا رہا۔ اُس دور کے اکثر سائنسدان اپنی علمی قابلیت و صلاحیت کو صیغۂ راز میں رکھتے اور کسی صورت ظاہر نہ ہونے دیتے، کیونکہ اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جاتا کہ فلاں شخص علومِ عقلیہ یعنی فلسفہ و منطق یا ہیئت و نجوم کا ماہر ہے تو اُسے زِندیق مشہور کر دیا جاتا اور لوگ اُس سے ملنا جلنا ترک کر دیتے۔
عبدالرحمن سوم (الناصر لدین ﷲ) نے اپنے دورِ خلافت میں با ضابطہ طور پر علومِ عقلیہ کی سرپرستی شروع کر دی، جس کے نتیجے میں سرزمینِ اندلس ایک خوشگوار اِنقلاب سے فیضیاب ہوئی۔ متلاشیانِ علم علمُ الطب ( medical sciences ) کی طرح علمُ الہیئت ( astronomy ) کے حصول کے لئے بھی بلادِ مشرق بالخصوص بغداد و دمشق کا رُخ کرنے لگے۔
اندلس کا سب سے پہلا ماہرِ فلکیات جو ملک میں سائنسی علوم و فنون کے اِفشاء و اِشاعت کا باعث بنا وہ ’یحییٰ بن یحییٰ ابن السمینہ‘ تھا۔ اُس نے حصولِ علم کے لئے مشرقی اِسلامی ممالک کا سفر کیا اور حساب ( mathematics )، نجوم ( astrology )، ہیئت ( astronomy ) اور طب ( medical science ) کے علوم حاصل کئے۔ اُس کے علاوہ اُس دَور میں علمِ فلکیات و نجوم میں ’مسلمہ بن قاسم‘ اور ’ابوبکر بن عیسیٰ‘ کے نام بھی قابلِ ذِکر ہیں۔
اِسلامی سپین کے ماہرینِ ہیئت نے مشرقی علوم کو اپنے ملک میں محض متعارف ہی نہ کرایا بلکہ مشرقی تحقیقات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر اُن میں بہت کچھ اِضافہ جات بھی کئے۔ اندلسی سائنسدانوں نے بہت سے آلاتِ رصد اِیجاد کئے جن کی بدولت آج کی جدید ہیئت کو مضبوط بنیادیں فراہم ہو سکیں۔ اندلس کی سب سے بڑی رصدگاہ اشبیلیہ ( Seville ) میں تھی، جہاں مشہورِ عالم مسلمان سائنسدانوں نے اپنی سماوی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔ ’ابو اِسحاق اِبراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی‘ ( Arzachel ) نے صدیوں سے مسلّمہ ’بطلیموسی نظریۂ اَفلاک‘ ردّ کرتے ہوئے زمین کی بجائے سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز قرار دیا اور یہ ثابت کیا کہ تمام سیارے بیضوی مداروں ( elliptic orbits ) میں سورج کے گرد محوِ گردش ہیں۔ تمام سیاروں کی بیضوی مداروں میں سورج کے گرد گردِش ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جسے کوپرنیکس جیسا عالی دِماغ جس پر پورے عالمِ مغرب کو فخر ہے ۱۵۱۴ء میں نظامِ شمسی سے متعلق دیئے جانے والے اپنے نظریئے میں بھی پیش نہ کر سکا۔ زرقالی ہی وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے اندلس میں سب سے معیاری اُسطُرلاب بنایا اور اُس کا نام "الصحیفہ" رکھا۔ اُس کے بنائے ہوئے اُسطُرلاب کے ذریعے اَجرامِ سماوی کا مُشاہدہ اِس قدر درُست ہوتا تھا کہ بغداد کے رہنے والے اِس فن کے بانی مسلمان سائنسدان بھی اُس کی عمدگی پر حیران تھے۔ ہوائی جہاز کے موجد ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک فلکیاتی کمرہ ( planetarium ) بنا رکھا تھا جس میں اُس نے سیارگانِ فلکی کی گردِش ، بادلوں کی حرکات اور آسمانی بجلی کی مصنوعی گرج چمک کا اِنتظام بھی کر رکھا تھا۔
’ابوبکر بن عیسیٰ‘ کا نامور شاگرد ’مسلمہ المجریطی‘ بڑا ماہر سائنسدان تھا۔ اُس نے سورج، چاند اور دیگر سیاروں کی حرکات کو عددی اُصول پر منظم کرتے ہوئے ’الخوارزمی‘ سے بھی بہتر ’زیج‘ ( astronomical table ) ترتیب دی اور اُسے عربی تاریخوں میں ظاہر کیا۔ اُس کے علاوہ بھی اندلس کے بہت سے سائنسدانوں نے اَزیاج ( astronomical tables ) بنائے، جن کی رُو سے مشاہدۂ اَفلاک میں خاصی مدد ملتی تھی۔
زرقالی کے علاوہ اِسلامی سپین کے دُوسرے بہت سے ماہرینِ فلکیات بھی اپنے دَور کا مسلّمہ نظریۂ بطلیموس ردّ کر چکے تھے۔ ابو اسحاق بطروجی نے بطلیموسی نظریۂ کواکب کو دلائل کے ساتھ ردّ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کیا۔ اُس سے قبل ابنِ باجہ نے بھی اپنے طور پر اِس نظریہ کا بطلان کر دیا تھا۔ ’بطروجی‘ کا شمار جدید علمِ ہیئت کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔ ’جابر بن اَفلح‘ کا ذِکر بھی اُنہی سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُس نے بطلیموس کے نظریہ کے ردّ میں "کتابُ الھیئۃ فی إصلاح المجسطی" لکھی۔
علمُ النباتات ( Botany )
اندلس میں علمِ نباتات کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے اَوائل دَور ہی میں شروع کر دیا تھا۔ طبی بنیادوں پر نباتات پر تحقیق علمُ الطب کے فروغ کے لئے ایک جزوِ لاینفکّ تھی۔ چنانچہ ’عبدالرحمن اوّل‘ نے قرطبہ میں "حدیقہ نباتاتِ طبیہ" کے نام سے ایک ایگریکلچرل ریسرچ فارم بنایا، جہاں اَطباء اور نباتیوں ( botanists ) کو پودوں کے خواص، اُن کی اَفزائش اور اَثرات پر تحقیق کے گوناگوں مواقع میسر تھے۔ عبدالرحمن اوّل نے علمِ نباتات ( botany ) کی سرپرستی میں خاص دِلچسپی لی اور اندلس میں میسر نہ آنے والے پودوں اور درختوں کے بیج اور قلمیں دُور دراز ممالک سے درآمد کروائیں۔ چنانچہ اُس نے نہ صرف برِاعظم افریقہ بلکہ بیشتر اَیشیائی ممالک کی طرف بھی سرکاری وفود بھیجے جو نایاب پودوں، درختوں اور جڑی بوٹیوں کی تلاش اور پیداوار میں مددگار ثابت ہوئے۔
طبی جڑی بوٹیوں کی اَفزائش میں وادیٔ آش ( Guadix )، المریہ ( Almeria ) اور غرناطہ ( Granada ) کے قریب جبلِ شلیر ( Mulhacen ) اندلس بھر سے بڑھ کر تھے۔ خوشبودار بوٹیاں بھی بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ زعفران مسلمان ماہرینِ نباتات ( botanists ) ہی نے اندلس میں متعارف کرایا۔ طلیطلہ ( Toledo )، بلنسیہ ( Velencia )، بیاسہ ( Beyasa ) اور وادئ حجارہ ( Hijara Valley ) زعفران کی پیداوار میں مشہور تھے۔ ماہرینِ نباتات کی شبانہ روز محنت سے اندلس میں زعفران اِس کثرت سے پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ آس پاس کے ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا۔ اِسی طرح بنفشہ کی پیداوار بھی خاصی تھی۔ اندلس کے نباتیوں ( botanists ) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ برس ہا برس کی تحقیقات سے نباتات میں موجود جنسی تفاوُت کا درُست مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔
اندلس کے نباتی نہ صرف طبی نباتات پر تحقیق کرتے بلکہ ہر قسم کے اناج اور نقد آور فصلوں پر بھی تجربات کرتے۔ ملک کا اکثر حصہ دریاؤں اور اُن سے نکالی جانے والی نہروں سے بہتر انداز میں سیراب ہوتا تھا۔ چنانچہ پورا ملک فصلوں سے لدا رہتا، حتیٰ کہ پہاڑوں کو بھی بنجر نہیں رہنے دیا گیا۔ اکثر پہاڑی علاقوں میں انگور کی کاشت کی جاتی۔ اِس کے علاوہ لیموں، امرود، سیب، انجیر، زیتون، بہی، بادام، کیلا، آڑو، چکوترا، خربوزہ، انار، گنا، گندم، جَو، چنا، جوار، مکئی اور چاول کی کاشت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ہوتی تھی اور اِن میں سے اکثر اَجناس بیرونِ ممالک برآمد کر کے خطیر زرِ مبادلہ بھی کمایا جاتا تھا۔
وادیٔ آش ( Guadix ) اور اشبیلیہ ( Seville ) میں اعلیٰ قسم کی ’رُوئی‘ پیدا ہوتی جو مسلمان ماہرینِ نباتات ہی نے سپین میں متعارف کروائی۔ رُوئی کو عربی میں ’قُطن‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہسپانوی میں alagodon اور انگلش میں cotton کہلانے لگا۔ اندلسی مسلمانوں کی تحقیقات سے ’پٹ سن‘ کے ایک نہایت اعلیٰ ریشے نے بھی جنم لیا، جس سے اچھی نسل کے دھاگے اور عمدہ قسم کا کاغذ تیار کیا جاتا تھا۔
ملک کے جنوبی ساحل پر واقع اکثر مقامات پر گنّے کی فصل نہایت شاندار ہوتی، جس سے اعلیٰ قسم کی شکّر ( sugar ) تیار کی جاتی۔
ابوعبید البکری، ابو جعفر بن محمد الغافقی، ابنِ بصال، ابنِ حجاج، شریف اِدریسی، ابنُ الرّومیہ، ابنِ بکلارش، ابوالخیر اشبیلی، ابنُ العوام اور ابنُ البیطار اندلس کے اِسلامی عہد کے نامور نباتی ( botanists ) تھے۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنی تحقیقات کے ذریعے اندلس کو پودوں، درختوں اور فصلوں سے لاد دیا بلکہ اُن کی حفاظت کا بھی بخوبی اِنتظام کیا، چنانچہ ابنُ العوام نے پھلوں اور اناج کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے بہت سے طریقے ’کتابُ الفلاحہ‘ میں ذِکر کئے ہیں۔ اُس نے کچھ ایسے طریقے بھی تحریر کئے ہیں جن سے گندم بیسیوں سال تک خراب ہونے سے بچی رہتی تھی۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے اُن ماہرین کے بتلائے ہوئے طریقوں کے مطابق بڑے بڑے گودام تیار کئے جاتے جن میں غلہ اور اناج سالہا سال تک محفوظ رہتا۔
اِسلامی سپین کا تہذیبی و ثقافتی اِرتقاء
اندلسی مسلمانوں نے یورپ کو ایک نئی تہذیب سے متعارف کروایا۔ اِسلام کی آمد سے قبل یورپ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ختم نہ ہوتے تھے، سیوریج کا گندہ پانی گلیوں اور بازاروں میں ہر سُو بکھرا رہتا تھا، عموماً لوگ مہینہ بھر نہاتے نہ تھے اور کوئی ہفتے میں ایک آدھ بار نہا لے تو اُس کے مسلمان ہونے کا شک کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ تھا۔ پورے یورپ میں ہسپتالوں کا وُجود ہی نہ تھا۔ خطرناک بیماریوں کا علاج جادُو، ٹونے اور عملیات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ لوگ توہمات کے اِس قدر رسیا تھے کہ معالج کی بجائے عامل کی طرف رُجوع کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ کھانے اور پہناوے میں نفاست کا فقدان تھا۔ علمی حالت سب سے بڑھ کر قابلِ رحم تھی۔ لاکھوں کی آبادی کے شہروں میں گنتی کے چند پادریوں کے سوا کوئی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا اور وہ پادری چمڑے پر لکھی پرانی کتابوں کو کھرچ کر اُنہی کے اُوپر نئی تحریریں لکھنا شروع کر دیتے تھے جس سے اُن کا بچا کھچا علمی سرمایہ بھی ضائع ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تعلیم، علاج اور تہذیب و ثقافت غرض عملی زندگی کا ہر شعبہ قابلِ رحم حالت کو پہنچا ہوا تھا۔
مسلمانوں نے یورپ کو ایک فکرِ تازہ سے رُوشناس کیا۔ زندگی کے نئے اَسالیب عملی طور پر اُن کے سامنے رکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سپین کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اِسلامی سپین یورپ بھر کے لئے رشکِ فلک بنا۔ دُنیا سپین کی ترقی اور تہذیب کی مثالیں دینے لگی۔ سپین نے جہاں علوم و فنون، صنعت و حرفت اور تجارت میں خوب ترقی کی وہاں تہذیب و ثقافت میں بھی قرونِ وُسطیٰ میں ہر طرف اُسی کا طوطی بولتا تھا۔
اِسلامی سپین کا کلچر عرب مسلمانوں ہی کا مرہونِ منّت تھا، جو ترکِ سکُونت کر کے یورپ میں جا آباد ہوئے تھے۔ وہ اِسلامی تہذیب کی خوشنما روایات بھی اپنے ساتھ یورپ لے گئے تھے، جس سے سپین کی سرزمین تہذیبی کمال کے عروج کو پہنچی۔
اِسلامی سپین کے دارُ الحکومت قرطبہ ( Cordoba ) کی آبادکاری کچھ اِس حسین انداز سے تھی کہ اُس کی سڑکوں، پلوں اور دیگر تعمیرات نے اُسے چار چاند لگا دیئے تھے۔ قرطبہ اپنی علمی و فنی سرگرمیوں اور صنعتی و تجارتی اہمیت کے باعث دُنیا میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ اندلس کے مسلمانوں نے خلفائے عباسیہ کی شان و شوکت اور پُرتکلف مہذّب زندگی کو بھی ماند کر دیا تھا۔ اندلس تہذیب و ثقافت اور فیشن میں دُنیا بھر میں ایک معیار کی حیثیت اِختیار کر چکا تھا اور دُنیا اُس کی مثالیں دیتے نہ تھکتی تھی۔ بڑے بڑے عالیشان محلات اور بنگلوں کے علاوہ بڑے شہروں میں میلوں تک پھلوں اور پھولوں کے باغات اُسے جنتِ ارضی کی صورت دے چکے تھے۔
مسلمانوں نے جہاں سپین کو تعمیرات سے آراستہ کیا وہاں اُسے تہذیبی اِرتقاء سے بھی منوّر کیا۔ سپین جہاں معاشرہ اَمن و امان کی ناقابلِ مثال صورت میں چین سے زندگی بسر کر رہا تھا، وہاں صنعت و حرفت اور تجارت کے فروغ نے شہریوں کو آسودہ حال کر دیا تھا۔ لوگ زیادہ سے زیادہ سرمایہ نئی صنعتوں میں لگانے لگے تھے۔ لوگوں کی قوتِ خرید بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ لباس اور بہترین اَشیائے خورد و نوش پر بے دریغ رقم خرچ کرتے تھے۔ تہذیبی تکلّفات اُن کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ آرائش و زیبائش پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ گھروں کے باہر لان بنانے اور اُن میں دُور دراز ممالک سے نایاب درخت منگوا کر لگانے کا رواج عام تھا۔ اکثر گھروں میں فوّارے اور حوض بھی بنائے جاتے تھے۔
عبدالرحمن الداخل کے دورِ حکومت میں جب سپین میں اِسلامی سلطنت کو اِستحکام نصیب ہوا تو اُس نے ملک کی تعمیر و تزئین کی طرف خاص توجہ دی۔ اُس نے تقریباً تمام بڑے شہروں میں جا بجا باغات، فوّاروں، پختہ گلیوں، سڑکوں اور دیدہ زیب عمارات کا جال بچھا دیا۔ گلی کوچے پختہ ہوتے اور اُن میں روشنی کا بخوبی اِنتظام حکومت کے خرچ سے ہوتا۔ شہروں میں سیورِیج کا بھی بہت اعلیٰ اِنتظام تھا۔ بلنسیہ ( Valencia ) کے بڑے گندے نالے پر پکی چھت تھی اور وہ اِتنا چوڑا تھا کہ ایک چھکڑا بآسانی اُس کے اُوپر چل سکتا تھا۔ عبدالرحمن اوّل ہی نے دریائے وادئ کبیر ( Guadalimor River ) اور دریائے شنیل ( Genil River ) کے کنارے آباد اکثر شہروں کو متعدّد نہریں کاٹ کر پانی بہم پہنچایا۔ غرناطہ کے باہر ایک عظیمُ الشان محل بنایا اور اُس کے اَطراف میں وسیع و عریض باغ لگایا ، جس کا نام ’رصّافہ‘ رکھا۔
عرب سے درخت منگوا کر اندلس کی سرزمین میں لگانے کا سلسلہ بھی عبدالرحمن اوّل ہی کے دَور سے جاری تھا۔ اُسی محل کے پائیں باغ میں اُس نے اپنے وطن دمشق سے کھجور کا ایک درخت منگوا کر لگایا جو اُسے اُس کے وطن کی یاد دِلاتا تھا۔ ایک روز کھجور کے اُس درخت کو دیکھ کر اُسے اپنا وطن اور اپنی بے سروسامانی کی حالت یاد آ گئی جس پر اُس نے بڑے ہی پُر سوز اَشعار کہے۔ ’تاریخِ مقرّی‘ میں اُس کے وہ اَشعار محفوظ ہیں۔
حکیمُ الاُمت علامہ محمد اِقبال نے بالِ جبریل میں اُن اَشعار کا مفہوم اور اپنے اِحساسات ایک نظم کی صورت میں یوں پیش کئے ہیں:
میری آنکھوں کا نور ہے تو
میرے دل کا سرُور ہے تو
اپنی وادی سے دُور ہوں میں
میرے لئے نخلِ طور ہے تو
مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حور ہے تو
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں ناصبور ہے تو
غربت کی ہوا میں بار وَر ہو
ساقی تیرا نمِ سحر ہو
عالم کا عجیب ہے نظارہ
دامانِ نگہ ہے پارہ پارہ
ہمت کو شناوری مبارک
پیدا نہیں بحر کا کنارہ
ہے سوزِ درُوں سے زندگانی
اُٹھتا نہیں خاک سے شرارہ
صبحِ غربت میں اور چمکا
ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
اِسلامی سپین کے دُوسرے بہت سے مسلمان حکمرانوں نے بھی خطۂ عرب سے بہت سے نئے پھلدار درخت سپین میں متعارف کروائے اور جا بجا اُن کے باغات لگوائے۔ اُن میں سے کچھ باغات کی باقیات ابھی تک موجود ہیں۔
عبدالرحمن دُوُم کے دورِ حکومت میں ملک تہذیب کے عروجِ کمال کو جا پہنچا تھا۔ مشرقی و مغربی تہذیب کے سنگم سے ایک نئے اِمتزاج نے جنم لیا۔ موسیقی سے عبدالرحمن دُوم کو خاص لگاؤ تھا ۔ اُس کے عہد میں اندلس میں موسیقی کے بڑے باکمال اساتذہ پیدا ہوئے جنہوں نے مشرق و مغرب کے دُور دراز ممالک سے بھی صاحبانِ ذوق سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ اِسلامی عہد کی صوفیانہ موسیقی اُس عہد میں اپنے کمال کو جا پہنچی اور بعد اَزاں اُس نے یورپ کی موسیقی پر بھی گہرے اَثرات مرتب کئے۔
سپین کی ثقافتی ترقی کا تذکرہ ہو اور اُس میں ’اُستاد زریاب‘ کا ذِکر نہ آئے، یہ ممکن نہیں۔ خلافتِ بغداد کے نامور موسیقار ’اِسحاق موصلی‘ کا عظیم شاگرد ’زریاب‘ بغداد سے ہجرت کر کے سپین میں جا آباد ہوا۔ اُس نے سپین کی تہذیب و ثقافت میں کئی درخشاں اَبواب کا اِضافہ کیا۔ وہ بلا مبالغہ سپین کا ’تان سین‘ تھا۔ ایک رِوایت کے مطابق اُسے ہزار راگ یاد تھے۔ موسیقی و دیگر فنونِ لطیفہ کا رسیا ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی شخصیت میں یہ خوبی تھی کہ وہ ہر فن مولا تھا۔ اُس کا ذوقِ لطیف بڑا عالی تھا اور وہ بے حد ذہین بھی تھا۔
موسیقی کے علاوہ اُس نے اِسلامی سپین کی تہذیب کے اِرتقاء میں دُوسرے بہت سے پہلوؤں پر بھی خاص توجہ دی۔ نئے نئے فیشن نکالنے میں اُسے کمال مہارت حاصل تھی۔ اُس نے ملک میں ’فنِ آرائش‘ ( decorative art ) کو ترویج دی۔ وہ شاہی مجالس کی تزئین و آرائش کا ماہر تھا۔ اُس نے اندلس کے لباس اور طعام میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کیں۔ نئے نئے فیشن اِیجاد کر کے جہاں اُس نے لوگوں کو بہترین اور دیدہ زیب لباس تیار کرنے کا ڈھنگ سکھایا اور سپین کے طرزِ معاشرت میں اِنقلاب پیداکیا، وہاں وہ ایک ماہر کک ( cook ) بھی تھا۔ سپین کے بہت سے کھانے اُسی نے اِیجاد کئے، جن کی باقیات آج کے سپین میں بھی موجود ہیں۔ اُس نے عام کھانے پکانے کے بھی نئے نئے طریقے نکالے جن سے کھانے زیادہ لذیذ تیار ہوتے تھے۔ اُس نے کھانے کے لئے شیشے کے برتنوں کو بھی رواج دیا اور چمچ اور چھری کانٹے سے کھانے کا طریقہ بھی نکالا۔
اُس کی بدولت لوگ مختلف موسموں میں مختلف فیشن اور رنگوں کا لباس پہننے لگے۔ سر کے بالوں کی مانگ بائیں طرف سے نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ اُس سے قبل ساری دُنیا کے لوگ ہمیشہ درمیان سے مانگ نکالتے تھے۔ یورپ بھر میں اُسے فیشن کا باوا آدم سمجھا جاتا تھا۔ الغرض اُس نے یورپ کے کلچر میں ایک حسین اِنقلاب بپا کر دیا جس کے اَثرات آج کے یورپ میں بھی بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شومئ قسمت کہ آج کے سادہ لوح مسلمان اِن میں سے بہت سی اشیاء کو ’مغربی تہذیب‘ کا نام دے کر ناپسند کرتے ہیں، حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ یورپ کی موجودہ تہذیب میں بہت کچھ ہمارے ہی اَجداد کا تہذیبی وِرثہ ہے اور اگر آج ہم اُس میں سے کسی اچھی بات پر عمل کرتے ہیں تو وہ یورپ کی نقّالی ہرگز نہیں بلکہ ہماری اپنی ہی کھوئی ہوئی تہذیب کی بازگشت ہے۔
دارُالحکومت۔ ۔ ۔ قرطبہ
"اگر دُنیا کو ایک انگوٹھی فرض کر لیا جائے تو قرطبہ اُس کا نگینہ ہے"۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو آج سے ۱۲ صدیاں قبل ایک جرمن نن نے عبدالرحمن سوُم کے شہر قرطبہ ( Cordoba ) کے بارے میں کہے تھے۔ اِسلامی سپین کا دارُالحکومت ’قرطبہ‘ خلافتِ عباسیہ کے دارُالخلافہ ’بغداد‘ ( Baghdad ) سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ بعض وُجوہ کی بناء پر اُسے بغداد پر فوقیت حاصل تھی۔
شہر کی آبادی ۱۰,۰۰,۰۰۰سے متجاوز تھی، جس میں ۲,۰۰,۰۰۰ سے زائد رہائشی مکانات موجود تھے۔ سکے سے بنی پائپ لائنوں کی مدد سے اِتنے وسیع و عریض شہر کو پینے کے تازہ پانی کی فراہمی اُس دَور کا سب سے عظیم کارنامہ تھا۔ قرطبہ میں کل ۸۰,۴۰۰ دُکانیں تھیں، جن میں سے تقریباً ۲۰,۰۰۰ فقط کتب فروشی اور اُس سے متعلقہ کاروبار کے لئے وقف تھیں۔ قرطبہ یورپ کے دورِ جاہلیت ( dark ages ) کے دوران ایک عظیمُ الشان علمی مرکز کے طور پر اُبھرا۔ شہر میں ۳۰۰۰مساجد، ۸۰ کالج، ۵۰ ہسپتال، ۷۰۰حمام اور غلّے کو محفوظ رکھنے کے لئے۴,۳۰۰ گودام تھے۔ میلوں طویل سڑکیں پختہ پتھروں سے بنی تھیں۔ رات کے وقت شہر میں روشنی کا بخوبی اِنتظام تھا۔ سرِشام ہرکارے گلیوں میں نصب ستونوں سے آویزاں لیمپوں میں تیل ڈال جاتے، غروبِ آفتاب پر اُنہیں جلا دیا جاتا اور ساری ساری رات اُن کی روشنی سے سڑکیں اور گلیاں منوّر رہتیں۔ یہ اُس دَور کا ایک اور ناقابلِ یقین عظیم کارنامہ تھا۔
اِسلامی سپین کی تہذیب تو آج سے ۱۲ صدیاں قبل ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھی جبکہ کوہِ پیرینیز( Pyrenees ) کی دُوسری طرف یورپ بھر کے تمام عیسائی ملکوں کی علمی و تہذیبی حالت اور معیارِ زندگی اِس قدر ناگفتہ بہ تھا کہ پیرس اور لندن جیسے بڑے شہروں میں بھی راتیں گھپ اندھیرے میں گزرتی تھیں، جس سے اکثر وہاں امن و امان کا مسئلہ درپیش رہتا۔ گلیاں کیچڑ اور سیوریج کے بیماریاں پھیلاتے پانی سے اَٹی رہتیں اور صدیوں بعد تک بھی اُن کی گلیوں میں سٹریٹ لائٹس کا اِنتظام نہ ہو سکا۔
اِسلامی سپین میں صنعت و ٹیکنالوجی کا اِرتقاء
حرکت میں برکت اور کام میں عظمت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو محنت و مشقت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔ ہر نبی اپنی اُمت کیلئے آئیڈیل حیثیت رکھتا ہے اور تاجدارِ کائنات (ص) کی شخصیت قیامت تک کی انسانیت کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے اپنی تعلیمات اور عمل کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو محنت میں عظمت کا درس دیا۔
کسی خاص فن میں کی گئی محنت جب ایک خاص مہارت تک پہنچتی ہے تو اُسے ’حرفہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہیں سے صنعت و حرفت کو بنیاد ملتی ہے اور انسانی معاشرے میں ٹیکنالوجی کو فروغ ملتا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی ’محنت میں عظمت‘ کے عظیم تصوّر کا نتیجہ قرار پاتی ہے۔
تاجدارِ کائنات (ص) کا فرمان ہے:
إنّ ﷲ یُحب إذا عمل أحدکم عملاً أَن یتقنه ۔
(مجمع الزوائد،۴:۹۸)
بیشک اللہ اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کو سرانجام دے تو اُسے مضبوطی سے کرے۔
اِسلام کی تعلیمات سے ملنے والے محنت کے سبق نے جاہل اور گنوار عرب قوم کو چند ہی برسوں میں اس قابل کر دیا کہ اُن کا پھریرا تین براعظموں پر لہرانے لگا۔ مسلمان جہاں کہیں فتوحات کرتے وہاں کی آبادی کے دلوں میں اپنے طرزِ حکومت اور عدل و انصاف کے باعث ایک اچھا مقام بنا لیتے۔ہر ملک میں ’محنت میں عظمت‘ کا تصور لے کر پہنچنے والے مسلمانوں نے ہر خطے کو فلاحی ریاست کے قیام کیلئے دن رات محنت میں مشغول کر دیا۔ صدیوں کی فراغت زدہ قومیں کام کی عظمت سے شناسا ہوتی چلی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے اپنے دور کی مناسبت سے ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال حاصل کر لیا۔ طلبِ علم اور فنی مہارت کے حصول کی ترغیب اقوام عالم کو اسلام ہی کے آفاقی پیغام سے نصیب ہوئی۔ اسلام سے قبل بھی ’علم‘ یونانی سانچوں میں موجود تھا، جس کا ’عمل‘ سے دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اسلام نے علم کو برائے علم نہیں رہنے دیا بلکہ علم برائے زندگی کی تعلیم سے مسلمان قوم کو دنیا کی سب سے متحرک قوم بنا دیا اور جن خطوں پر انہیں سیاسی غلبہ حاصل ہوا وہاں کے عوام نے ان سے متاثر ہو کر محنت شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال پا گئیں۔ آج مسلمان تو اگرچہ اپنی اصل دینی تعلیمات سے رُو گرداں ہو کر پسماندہ ہو چکے ہیں مگر محنت کا وہ تصوّر جو انہوں نے سپین کے راستے یورپ کو دیا تھا وہ پوری دنیا میں اپنے ثمرات مرتب کر رہا ہے۔
سرِ دست ہم سپین کے اِسلامی دور کی ٹیکنالوجی کا ذِکر کریں گے تاکہ قارئین پر اسلامی سپین میں فروغ پانے والی صنعت و ٹیکنالوجی عیاں ہو سکے:
کاغذ سازی ( Paper industry )
حصول و افشائے علم میں کاغذ کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ بغداد کی خلافتِ عباسیہ اور سپین کی خلافتِ اُمویہ کے دور میں علم کی وسیع پیمانے پر ترویج اشاعت کتب ہی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ کاغذ کی ایجاد سے قبل جن اشیاء (چمڑے وغیرہ) پر کتابیں لکھی جاتی تھی وہ اس قابل نہ تھیں کہ فقط اُن کے بل بوتے پر لاکھوں کتب پر مشتمل بڑی بڑی لائبریریاں وُجود میں آ سکتیں۔
رُوئی سے بننے والا کاغذ مسلمانوں کی ایجاد ہے، اُس سے پہلے دُنیا میں ریشمی کیڑے کے خول سے کاغذ بنایا جاتا تھا، جو نہ صرف بہت زیادہ مہنگا ہوتا بلکہ صرف انہی ممالک میں دستیاب ہوتا جن کی آب و ہوا اس قدر موزوں ہو کہ ریشم کا کیڑا وافر مقدار میں پرورش پا سکے۔ چنانچہ قرونِ وُسطیٰ میں یورپی ممالک میں چمڑا ہی وہ واحد شے تھی جس پر کتب لکھی جاتیں۔ چمڑا اِس قدر مہنگا اور کم یاب تھا کہ اُس دَور کے پادریوں نے مذہبی رسائل لکھنے کیلئے قدیم یونانی کتب کے حروف چھیل کر اُن کا چمڑا استعمال کرنا شروع کر دیا جس سے یونانیوں کی بہت سے عقلی اور فلسفیانہ تصنیفات تلف ہو گئیں۔
مسلمانوں نے جب ۷۰۴ء میں چین کے مغربی علاقے سنکیانگ کو فتح کیا تو اُس وقت چین کے قیدی سپاہیوں کی مدد سے سمر قند میں کاغذ بنانے کے کارخانے قائم کئے۔ یہیں سے انہیں کاغذ کی صنعت کو اپنانے اور فروغ دینے کا خیال آیا۔ کچھ کاغذ نمونے کے طور پر اسلامی سلطنت کے مرکزی شہروں دمشق اور بغداد بھیجے گئے اور فقط دو سال کے انتھک تجربات کے بعد ۷۰۶ء میں یوسف بن عمر نامی مسلمان سائنسدان نے روئی سے بننے والا کاغذ ایجاد کر لیا۔ جسے "دِمشقی" کاغذ کے نام سے جانا جانے لگا۔ یہ کاغذ سمرقندی کاغذ کو مات کر گیا۔ یوں آٹھویں صدی عیسوی کے اندر اندر تمام مسلمان ممالک میں بقدرِ ضرورت کاغذ سازی کی صنعت فروغ پذیر ہوئی اور سستا اور معیاری کاغذ وافر مقدار میں بننے لگا۔ بغداد میں ۷۹۴ء میں کاغذ سازی کا پہلا بڑا سرکاری کارخانہ فضل بن یحیٰ برمکی نے قائم کیا جسے ’صناعۃُ الورقہ‘ کا نام دیا گیا۔ روئی کے کاغذ کی آمد سے مصری قرطاس ( papyrus ) کا استعمال ختم ہونے لگا اور کچھ ہی عرصے میں تہامہ، دمشق اور طرابلس میں کاغذ سازی کی صنعت فروغ پذیر ہوئی۔ طرابلس کے بعد مراکش میں بھی کچھ فیکٹریاں کاغذ بنانے لگیں۔ یہیں سے یہ صنعت سپین میں داخل ہوئی۔
معروف مستشرق منٹگمری واٹ اِس سلسلے میں رقمطراز ہے:
Harun ar-Rashid's vizier, Yahya the Barmakid, built the first paper-mill in Baghdad about the year ۸۰۰. The manufacture of paper then spread westwards through Syria and North Africa to Spain, and it came into common use. In the twelfth century pilgrims from France to Compostela took back pieces of paper as a great curiosity, though Roger II of Sicily had used paper for a document in ۱۰۹۰. From Spain and Sicily the use of paper spread into western Europe, but paper-mills were not established in Italy and Germany until the fourteenth century
( W. Montgomery Watt, The Influence of Islam on Medieval Europe, p.۲۵ )
یورپ بھر میں سپین پہلا ملک ہے جہاں کاغذ بنانے کا کام شروع ہوا۔ اسلامی سپین میں کاغذ سازی کی صنعت مشرقی اسلامی سلطنت ہی سے پہنچی۔ ۱۰۸۵ء میں شاطبہ( Xatiua )میں کاغذ سازی کا کارخانہ قائم ہوا۔تھوڑے ہی عرصے میں اسلامی سپین کے ماہرین نے کاغذ سازی کو نئے انقلابات سے روشناس کیا۔ سپین کا کاغذ مضبوط اور معیاری ہوتا ۔ بالخصوص شاطبہ( Xatiua )میں نہایت عمدہ کاغذ تیار ہوتا تھا جس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ اپنے بہترین معیار کی بدولت اُسے آس پاس کے بہت سے ممالک کو برآمد کیا جانے لگا۔ شاطبہ( Xatiua )کے علاوہ قرطبہ ( Cordoba )، غرناطہ ( Granada )، قسطلہ اور بلنسیہ ( Valencia ) میں بھی کاغذ سازی کے بڑے کارخانے موجود تھے۔
ٹیکسٹائل انجینئرنگ ( Textile engineering )
خوراک کے بعد لباس انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ اس کی ضرورت و اہمیت سے کسی دور کے کسی بھی معاشرے نے انکار نہیں کیا۔ یہ الگ بات کہ دولت کی فراوانی اور اخلاقی بے راہ روی لباس پہنے ہوئے بھی بے لباسی کی کیفیت پیدا کر دے۔ اسلام نے جہاں لباس کیلئے ضروری ستر کی حدود متعین کی ہیں وہاں اُس کی زینت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ جہاں باطنی حسن و زیبائش کیلئے لِبَاسُ التَّقویٰ ذٰلِکَ خَیرٌ (الاعراف،۷:۲۶) میں تقویٰ کا لباس اپنانے کا حکم دیا گیا وہاں جمیع بنی آدم کو اللہ کے حضور حاضری اور سجدہ ریزی سے قبل بہترین لباس زیبِ تن کرنے کا بھی حکم دیا۔
فرمانِ خداوندی ہے:
( یَا بَنِیٓ آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِدٍ ) ۔
(الاعراف،۷:۳۱)
اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت ( پہن ) لیا کرو۔
اِس آیتِ کریمہ میں ﷲ ربّ العزت نے لباس کی اہمیت اور زینت کی طرف دِلائی، یہ اِسی توجہ کا ثمرہ تھا کہ مسلمانوں نے پارچہ بافی کی صنعت میں کمال حاصل کر لیا۔ ابتداء میں نو مفتوحہ علاقوں ( newly conquered ) میں پہلے سے مروّجہ ٹیکسٹائل کی صنعت مسلمانوں میں متعارف ہوئی۔ جس کے کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں نے اِس فن میں بھی اپنا ایک تشخص قائم کر لیا اور ٹیکسٹائل کے باب میں بھی دنیا بھر کے اِمام ( leader ) قرار پائے۔
اسلامی سپین میں ٹیکسٹائل کی صنعت اپنے عروج پر تھی یہاں کے تیار شدہ ملبوسات ( garments ) آس پاس کے بہت سے ممالک کو برآمد بھی کئے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ مرکزی اسلامی سلطنت کے دارالخلافہ بغداد میں بھی سپین کے معیار کا کپڑا تیار نہ ہوتا تھا۔ سپین کا ’دیباج‘ اور ’طِراز‘ دُنیا بھر میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ اور اکثر مؤرخین سپین کے شاہی ملبوسات کو بغداد کے شاہی ملبوسات پر فوقیت دیتے ہیں۔
سپین کے جنوبی ساحل پر واقع شہر المریہ ( Almeria ) ’دیباج‘ کی تیاری میں سب شہروں سے بڑھ کر تھا، جہاں پارچہ بافی کی۴,۵۰۰ سے زائد مشینیں نصب تھیں۔ اُس دَور کے سیاحوں اور مؤرّخین نے المریہ کے دیباج کی اعلیٰ بُنت کی بہت تعریف کی ہے۔
ٹیکسٹائل کے سلسلے میں بغداد کی مرکزی اسلامی سلطنت کی طرح مسلم سپین میں بھی روئی کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ کپاس کی وسیع پیمانے پر کاشت کا بخوبی انتظام کیا جاتا اور ماہرین نباتات ( botanists ) اعلیٰ قسم کی کپاس کی کاشت کیلئے نت نئے تجربات کرتے جن کے نتیجے میں سپین کی ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی اپنے دور کے عروج کو جا پہنچی۔
Cotton was in India and ancient Egypt but it became an important textile only after the advent of Islam. Indeed, one of the results of the Muslim agricultural revolution was that cotton plantations spread throughout all Islamic lands, in the east as well as the west. Fine cotton was manufactured and exported to various countries, including China and the Far East
( Ahmed Y. Al-Hassan, Islamic Technology, p.۱۸۱ )
سپین میں ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کا سہرا بھی عرب مسلمانوں ہی کے سر ہے۔ مسلمانوں نے دوسری صدی ہجری میں وہاں ٹیکسٹائل کی صنعت کا آغاز کر دیا تھا۔ جبکہ فرانس اور جرمنی میں یہ صنعت بہت عرصہ بعد بالترتیب چھٹی اور آٹھویں صدی ہجری میں پہنچی۔
گھڑیاں ( Watches )
علم فلکیات ( astronomy ) کی طرح علم المیقات ( time keeping ) بھی مسلمانوں کا پسندیدہ علم رہا ہے۔ ان دونوں علوم میں مسلمانوں نے بیش بہا اضافے کئے اور یونانی دور کی بے شمار خطاؤں کو دُور کر کے بنی نوع انسان کے زائیدہ ان علوم کو حقیقی معنوں مین فطری بنیادوں پر اُستوار کیا۔ علم فلکیات اور علم المیقات دونوں میں وقت کی پیمائش نہایت اہم چیز ہے۔ سالوں، مہینوں اور دنوں کی پیمائش کیلئے تو قدرت کی طرف سے مہیا کردہ سورج اور چاند رہنمائی کرتے ہیں، جن سے بننے والی تقویمات انسان کو وقت شماری کے قابل بناتی ہیں لیکن دن کو گھنٹوں، منٹوں اور سیکنڈوں میں تقسیم کرنا خالصتاً انسان کی شعوری کاوِش کا نتیجہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات ایسے آلات کا بنانا ہے جن کی مدد سے دن کے مختلف پہروں اور لمحوں کا شمار ممکن ہو سکے۔
وقت کی پیمائش کیلئے اسلام کی آمد سے قبل بھی کچھ قدیم پیمانے اور آلات مروّج تھے لیکن سادگی کی بناء پر اُن کی کارکردگی خالی از خطا نہ تھی۔
مسلمانوں نے میکینکل گھڑیاں ایجاد کیں اور اُن میں پنڈولم استعمال کر کے ان کی کارکردگی کو بہتر کیا۔ جامع دمشق (شام) مین ایک کافی بڑی اور عجیب و غریب گھڑی آویزاں تھی جو دن کے پہروں اور گھنٹوں کا اعلان مختلف طریقوں سے کرتی تھی اور اُس کی کارکردگی بھی نہایت عمدہ تھی۔ وہ گھڑی اپنے دور کا نہایت حسین عجوبہ تھی۔ بلنسیہ( Velencia )کے نامور سیاح ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں اس گھڑی کی کارکردگی کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (رحلہ ابن جبیر:۲۰۷)
اِسلامی سپین میں ہاتھ پر باندھی جانے والی گھڑیاں بھی بنائی جاتی تھیں جنہیں "منتقلہ" کہا جاتا تھا۔ اُن گھڑیوں کی مدد سے منٹوں تک کے وقت کا صحیح تعین کیا جا سکتا تھا۔ عباس بن فرناس نے بھی ایک نہایت عمدہ گھڑی بنائی تھی جس کی کارکردگی بے مثل تھی۔ یوں علم المیقات ( timekeeping ) کے شعبے میں بھی سپین کے مسلمان ایشیا کی اِسلامی خلافت سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔
حرکی توانائی ( Kinetic energy )
پانی اور بجلی کے ذریعے حرکی توانائی کا حصول اور اُس کی مدد سے روز مرّہ زندگی کے کئی ایک چھوٹے بڑے کام سر انجام دینا اسلامی سپین میں معروف تھا۔ ماہر انجینئرز کے علاوہ عام لوگ بھی نہ صرف حرکی توانائی کا استعمال سمجھتے تھے بلکہ عملاً اُس سے فائدہ بھی اُٹھاتے تھے۔
اناج کی پسائی وغیرہ کیلئے پانی اور ہوا کے زور سے چلنے والی چکیاں پورے ملک میں عام تھیں۔ پون چکیاں ( windmills ) عموماً ایسے پہیوں پر بنائی جاتی تھیں کہ بوقت ضرورت اُن کا رُخ ہوا کی سمت گھما لیا جاتا تھا۔ پن چکیوں ( water mills ) کیلئے دریاؤں کا پانی نہروں کے ذریعے مخصوص جگہوں پر لا کر بلندی سے یکدم گرا دیا جاتا جس سے نیچے لگی چرخیاں گھومنے لگ جاتیں۔ پن بجلی کیلئے بنائے جانے والے بڑے بڑے ڈیم آجکل اسی بنیاد پر قائم کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ’دریائے وادی کبیر‘ ( Guadalimar River )اور ’دریائے شنیل‘ ( Genil River )کے کنارے سینکڑوں پن چکیاں غلہ پیسنے کیلئے نصب تھیں۔ حرکی توانائی کا استعمال اس قدر عام ہو چکا تھا کہ پون چکیاں کشتیوں پر نصب ہونے لگ گئی تھیں۔ ایسی پون چکیاں بالعموم لوگوں کو کرایہ پر دینے کیلئے بنائی جاتی تھیں اور انہیں بآسانی دوسرے مقامات پر منتقل کیا جا سکتا تھا۔
اسلامی سپین میں عربوں نے حرکی توانائی ( kinetic energy ) کے جس سلسلے کا آغاز کیا تھا گیارھویں صدی عیسوی تک وہ مغربی یورپ کے چند ممالک تک بھی پھیل گیا اور وسطی یورپ میں یہ طریقِ کار چودھویں صدی تک پہنچ سکا۔ چنانچہ آج بھی یورپ کے اکثر ممالک بالخصوص ہالینڈ اور بیلجیئم میں پون چکیاں ( windmills ) بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
کیمیکل ٹیکنالوجی ( Chemical technology )
اِسلامی سپین کے دورِ عروج میں مسلمانوں نے کیمیکل ٹیکنالوجی کی طرف بھی خاص توجہ دی اور روزمرّہ زندگی میں کارآمد بہت سی اشیاء بنائیں۔
خطاطی مسلمانوں کا ہر دِل عزیز فن تھا۔ بہترین خطاطی کیلئے معیاری روشنائی اور رنگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے رنگوں کے معیار کو بہتر کیا اور خاص قسم کی روشنائیاں ایجاد کیں جو سالہا سال اپنا اثر نہ چھوڑتی تھیں۔ مصوری میں استعمال ہونے والے رنگوں کیلئے وہ ایک خاص قسم کی وارنش بھی بناتے جس سے وہ دیرپا ہو جاتے۔
شیشہ سازی کی تاریخ میں بھی مسلمانوں نے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ مسلمانوں کی سپین آمد سے قبل شیشہ کی صنعت وہاں موجود تھی اور قرطبہ ( Cordoba ) کے قریب شیشے کی ایک بڑی کان موجود تھی۔ اسلامی دور کے اوائل میں شیشے کے برتنوں کا رواج نہ تھا مگر ’زریاب‘ کی اندلس آمد کے بعد اُس کے اِیماء پر محلاتِ شاہی میں سونے چاندی کے برتنوں کی بجائے شیشے کے برتنوں کو رواج پڑا۔ یہیں سے شیشہ سازی کی صنعت نے ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام و خواص بھی شیشے کے برتنوں کا عام استعمال کرنے لگے۔
ہوائی جہاز کے موجد عباس بن فرناس نے شیشہ بنانے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ چکنی مٹی کو بھٹی میں پکاتا اور اس سے شیشہ بناتا ۔ شیشہ سازی کا یہ نیا اُسلوب جلد ہی سپین میں رواج پکڑ گیا۔ اُس نے اس نئے طریقے کی ترویج کیلئے اس پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ جنوبی ساحل پر واقع شہر المریہ ( Almeria ) میں شیشہ سازی کے بڑے کارخانے قائم تھے۔ جہاں سے شیشے کی مصنوعات کی اندرونِ ملک سپلائی کے علاوہ برآمد بھی کی جاتی تھیں۔ اِس کے علاوہ مُرسیہ ( Murcia )، مالقہ ( Malaga )، غرناطہ ( Granada )، قرطبہ ( Cordoba )، لورقہ ( Lorca ) اور موجودہ پرتگال میں واقع شہر باجہ ( Beja ) میں بھی شیشہ سازی کی صنعت فروغ پذیر تھی اور مقامی استعمال کیلئے وافر مقدار میں مصنوعات تیار کی جاتی تھیں۔
چمڑے کی مصنوعات کے سلسلے میں بھی سپین کے مسلمان کافی آگے تھے۔ اُنہوں نے چمڑے کی تیاری میں استعمال ہونے والے ایسے کیمیکلز ایجاد کئے جو چمڑے کو دیرپا رکھتے۔ قرطبہ ( Cordoba ) اور باجہ ( Beja ) چمڑے کی صنعت میں خاص مقام رکھتے تھے۔ قرطبہ تو لیدر انڈسٹری کی بدولت پورے یورپ میں مشہور تھا ۔ یہی وجہ ہے فرانس میں ایک عرصے تک چمڑے کو cordovan اور چرم سازی کا کاروبار کرنے والوں کو cordonniers کہا جاتا رہا۔
سمور کی پوستین کے سلسلے میں سرقسطہ ( Zaragoza ) اہم مقام رکھتا تھا۔ خلیج بسکونیہ ( Bay of Biscay ) سے ’سمور‘ نامی جانور کا شکار کیا جاتا ۔ جس کے بعد اُس کی کھال کو سرقسطہ لے جایا جاتا جہاں چرم سازی کا بخوبی انتظام تھا۔ ’سمور‘ کی کھال سے بننے والی پوستین کو بھی ’سمور ‘ ہی کہا جاتا تھا۔ یہ نہایت قیمتی ہوتی اور اس کی برآمد سے بھی زر مبادلہ کمایا جاتا۔ مرسیہ ( Murcia ) میں بعض قسم کے اسلحہ کیلئے بھی چمڑے کا استعمال کیا جاتا۔ یہاں کی شیلڈز بڑی مضبوط اور معیاری ہوتی ۔
اسلحہ سازی ( Ordnance )
جہاد اِسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ ظلم اور جبر و بربریت کی ہر ناروا صورت کو صفحۂ ہستی سے ناپید کر دینا مسلمانوں پر فرض ہے ۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب بھی کسی مفلوک و مظلوم نے مسلمانوں کو مدد کیلئے پکارا آنِ واحد میں وہ ظلم کا سر کچلنے کو پہنچ گئے۔ چنانچہ ایسے بہت سے واقعات تاریخ کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں۔
جہاد کے سلسلے میں سب سے اہم اور ضروری شے اسلحہ سازی میں خود کفالت تھی۔ مرکزی اسلامی سلطنت کی طرح اندلس کی اسلامی حکومت بھی اسلحہ سازی میں مکمل طور پر خود کفیل تھی۔ سپین کے بہت سے اضلاع میں لوہے کی کانیں موجود تھیں جن سے بھاری مقدار میں لوہا نکالا جاتا تھا۔ چنانچہ دیگر بہت سی ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ اُس سے تلواریں، تیر، نیزے، زرہیں اور خود (ہیلمٹ) وغیرہ بھی بنائے جاتے تھے۔طلیطلہ ( Toledo ) کی تلواریں اپنی مضبوطی اور کاٹ میں دُنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ شمشیر سازی میں اشبیلیہ ( Seville ) کا بھی اچھا مقام تھا۔ اُن کے علاوہ قرطبہ ( Cordoba )، غرناطہ ( Granada )، مُرسیہ ( Murcia )، المِریہ ( Almeria ) اور سرقسطہ ( Zaragoza ) بھی اسلحہ سازی میں مشہور تھے۔ ان شہروں میں عمدہ قسم کے ہتھیار تیار ہوتے اور انہیں حسبِ ضرورت ملک کے دُوسرے شہروں میں بھی بھیجا جاتا تھا۔
اپنے دور کے روایتی ہتھیاروں کے علاوہ اسلامی سپین کے مسلمان بارود اور توپ کا استعمال بھی شروع کر چکے تھے۔ بارود کا استعمال انہوں نے ایشیا کی مرکزی اسلامی خلافت سے سیکھا تھا۔ مسلمانوں نے حجاج بن یوسف کے دور میں۶۹۲ء میں پہلی بار توپ اور بارود کا استعمال کیا۔ بعد میں اسلامی سپین میں توپ کا استعمال عام ہونے لگا اور اسے متعدد جنگوں میں استعمال کیا گیا جبکہ مد مقابل انگریزوں کی طرف سے اسلامی سپین کے خلاف جنگ میں توپ کا سب سے پہلا استعمال۱۳۴۶ء کی جنگ میں کیا گیا۔
ہوائی جہاز ( Aeroplane )
اپنی تخلیق کے اوّل روز سے ہی انسان کے دل میں تجسس کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ تجسس ہی تھا جو سیدنا آدمؑ کو دانۂ گندم تک لے گیا۔ تجسس نے ہمیشہ بنی نوع انسان کو ترقی کے شاہراہ پر گامزن کیا۔ سمندر کے پار اور پہاڑ کی اوٹ میں کیا واقع ہے؟ یہ تجسس اِنسان کو صحرا نوَردی پر مجبور کرتا رہا اور ایک وقت آیا کہ انسان نے پورے کرۂ ارضی کا چپہ چپہ چھان مارا اور انچ انچ کے نقشے بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ سطحِ زمین کا قیدی انسان جب پرندوں کو آزادانہ فضا کی بلندیوں میں اڑتے دیکھتا تو اُس کے دل میں بھی اُڑنے کی خواہش جنم لیتی۔ پرندوں کیلئے اپنی خالی خولی اور ہلکی پھلکی ہڈیوں کی نسبت فضائی اُڑان ممکن تھی جبکہ انسان کے اعصاب اُس کے بدن کے وزن کو اُڑانے کیلئے کافی نہ تھے۔ تاہم مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کے لوگوں نے اپنے بازوؤں کے ساتھ پر باندھ کر اُڑنے کی کوشش کی اور پہاڑی ڈھلانوں سے کود کر مختصر سی اڑان بھی کی مگر اُن میں سے اکثر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دیرینہ خواہش کی تکمیل ۱۷ستمبر۱۹۰۳ء میں اُس وقت ہوئی جب رائٹ برادران نے اپنے خود ساختہ ہوائی جہاز کی پہلی کامیاب پرواز کی جو صرف ۱۲منٹ پر مشتمل تھی۔۱۹۰۳ء میں کامیاب ہونے والا انسان ایک صدی گزرنے سے بھی بہت پہلے ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگا اور اُ س نے آواز سے تیز رفتار سفر کرنے والے جہاز ایجاد کر لئے۔ ایسا کرتے وقت صدیوں کا انسانی شعور اُس کی پشت پناہی کرتا ہے۔
دنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز اسلامی سپین کے مسلمان سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے نویں صدی عیسوی میں ایجاد کیا اور اُسے اُڑانے میں کامیاب ٹھہرا۔ اُس نے اپنے جہاز کے دائیں بائیں بڑے بڑے پر بھی لگائے تھے جو جہاز اور اُس کا بوجھ اُٹھائے دور تک چلے گئے، تاہم وہ جہاز کی لینڈنگ ٹھیک طرح سے نہ کر سکنے کی بناء پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دراصل اُس نے اپنے جہاز کی دُم نہیں بنائی تھی اور وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھا کہ پرندے اپنی دُم کی مدد سے زمین پر واپس اُترتے ہیں۔
ہوائی اُڑان کی حد تک عباس بن فرناس کی یہ کوشش بنی نوع انسان کے اذہان پر ایک دستک تھی۔ بڑی بڑی ایجادات کے پس منظر میں انسان کی ایسی ہی ابتدائی کوششیں بنیاد بنتی ہیں۔ اسلامی سپین کی تاریخ میں میسر اس ایک مثال سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے مسلمان سائنسدان سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ میں کس قدر جنونی انداز اختیار کر چکے تھے کہ اپنی جان کو بھی داؤ پر لگا دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
سِول انجینئرنگ ( Civil engineering )
مسلمان جس خطۂ ارضی میں بھی حکمران ہوئے وہاں کے تہذیب و تمدن کے ارتقاء اور اُس میں اسلامی روایات کے فروغ کے علاوہ تعمیرات کی صورت میں بھی انہوں نے وہاں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ اِسلامی سپین کے مسلمان حکمران بھی تعمیرات کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ اندلس میں اُنہوں نے بہت سی باقیات چھوڑیں۔ اُن کی تعمیرات میں عمارات، شاہراہیں اور دریاؤں پر بنائے گئے پل شامل ہیں، جو سپین کے انجینئروں کی ماہرانہ کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سِول انجینئرنگ کے ذیل میں اسلامی سپین بہت آگے تھا۔ یہاں ہم تفصیل میں جائے بغیر چند اہم عمارات کا ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین پر سپین کے اسلامی دور کا یہ نقشہ بھی واضح ہو سکے:
مسجدِ قرطبہ
قرطبہ کی عظیم جامع مسجد جس کا سنگِ بنیاد عبدالرحمن سوُم نے اپنی وفات سے دو برس پہلے ۹۵۹ء میں رکھا تھا، بعد کے خلفاء نے اُسے مزید وسعت دی اور وہ تاریخِ اِسلام کی عظیمُ الشان مساجد میں سے ایک ٹھہری۔ وہ ایک مستطیل شکل کی مسجد ہے جس کی دیواریں بڑے قیمتی اور نفیس پتھروں سے بنی ہیں۔ اُس کے مینار ۷۰ فٹ بلند بنائے گئے۔ مسجد میں۴,۷۰۰ فانوس روشن ہوتے جن کے لئے سالانہ ۲۴,۰۰۰پاؤنڈ زیتون کا تیل اِستعمال ہوتا تھا۔ مسجد کے ستونوں کی کل تعداد۱,۳۹۰ ہے جو اعلیٰ کوالٹی کے دیدہ زیب ماربلز سے تعمیر کئے گئے تھے۔ ستونوں کے اُوپری حصہ میں دُہری محرابیں بنا کر اُن کے حسن کو مزید اُجاگر کیا گیا ہے، جو تمام عالمِ اِسلام میں اپنی نوعیت کا انوکھا کام ہے۔ مسجد کی تعمیر میں اِسلامی شان و شوکت اور اِستقامت دیدنی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں قرطبہ کے اندر ایسی حسین و جمیل اور مضبوط عمارت کا وُجود حیرت انگیز بات ہے، جبکہ اُس دوران میں دُنیا میں عام طور پر انجینئرز میں اِتنی قابلیت بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ مسجد کی تعمیر میں کاشی کاری کا کام اپنی نفاست اور دیدہ زیب رنگوں کے حسین اِمتزاج سے اِنتہائی خوبصورت شکل اِختیار کر گیا ہے، جسے دیکھ کر آج بھی اِنسان کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں۔
ایک انگریز مؤرخ نے اُس مسجد کے بارے میں یہاں تک لکھا ہے کہ:
Whatever the human eye has witnessed this is the most charming of them all, and its craftsmanship and splendour are not to be found in any of the ancient or modern monuments
ترجمہ: "یہ اِنسانی آنکھ کے سامنے سے گزرنے والے تمام مناظر میں سے سب سے زیادہ دِلکش منظر ہے اور اس کی مہارت اور عظمت قدیم یا جدید عمارات میں کہیں نہیں ملتی۔"
علامہ اقبال نے مسجدِ قرطبہ پر بالِ جبریل میں ایک طویل نظم لکھی، جو اندلس میں مسلمانوں کے عروج و زوال میں مخفی اَسرار سے پردہ سرکاتی نظر آتی ہے اور دورِ حاضر کے مسلمان کو ایک عظیم اِنقلاب کا درس دیتی ہے۔ اُس طویل نظم میں مسجدِ قرطبہ کی تعریف میں کہے گئے چند اَشعار یوں ہیں:
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
تیری بناء پائیدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
تیرے دَر و بام پر وادئ اَیمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں، کہ ہے
اُس کی اَذانوں سے فاش سرِ کلیم و خلیل
قصرُ الزہراء
قرطبہ سے ۴۰۰ میل مغرب کی طرف ’عبدالرحمن سوم‘ نے ایک محل ’قصرالزہراء‘ تعمیر کروایا، جو اُس کی ایک بیوی ’الزہراء‘ کے نام سے موسوم تھا۔ بعد اَزاں اُس محل کے اِردگرد ’مدینۃُ الزہراء‘ نامی شہر آباد ہو گیا۔ قصر الزہراء ایک ایسی عظیم الشان عمارت تھی جس کا مقابلہ عظیم تاریخی عمارات میں کسی کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔اُس کے در و دیوار منقّش تھے اور اُن میں جگہ کی مناسبت سے تصاویر بھی کندہ کی گئی تھیں جو اندلس میں اِسلامی فنِ مصوّری کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ’قصر الزہراء‘ کی تعمیر کے لئے بغداد اور قسطنطنیہ جیسے دُور دراز ممالک سے انجینئروں اور کاریگروں کو بلایا گیا تھا جنہوں نے اپنی کمالِ صناعی سے عمارت کو وہ حسنِ دوام بخشا کہ وہ رشکِ خلائق ہو گئی۔ پانی کی بہم رسانی کے لئے بُعدِ مسافت پر واقع پہاڑوں سے نہر کاٹ کر لائی گئی تھی جس سے نہ صرف محل کے حوض اور فوّاروں کو پانی میسر آتا بلکہ مقامی آبادی کے پینے کے لئے بھی کافی ہوتا۔ ’قصر الزہراء‘ کو ’دارالروضہ‘ کا نام بھی دیا گیا جو اندلس میں اِسلام کی تہذیبی روایات کا امین تھا۔
(تاریخ ابن خلدون، ۴:۱۷۲)
’قصر الزہراء‘ کے دروازے پر عبدالرحمن سوم کی محبوب بیوی ’زہراء‘ کی تصویر نقش کی گئی، جس کے نام پر اُس کا نام ’قصر الزہراء‘ پڑ گیا۔
(دولۃُ الاسلام فی الاندلس، ۴:۵۱۰)
یہ عجوبۂ روزگار اِس قدر عظیم فن کا آئینہ دار تھا کہ ایک ترکی مؤرّخ ’ضیاء پاشا‘ بیان کرتا ہے:
This palace is such a wonder of the world that a concept of the design of this type could not occur to any human being from the dawn of creation to this day and human intellect has through the ages failed to produce a parallel or even approaching it in beauty of design
( Dr. Mustafa Siba', Some Glittering Aspects of the Islamic Civilization )
ترجمہ: "یہ محل دُنیا کا ایک ایسا عجوبہ ہے کہ اُس کی ساخت کا تصوّر روزِ اوّل سے لے کر آج تک کسی اِنسان کے بس میں نہیں۔ اِنسانی شعور کئی اَدوار سے اُس جیسی یا جمالیاتی ساخت میں اُس کے قریب قریب بھی کوئی مثال پیدا کرنے سے قاصر رہا ہے"۔
’دریائے وادیٔ کبیر‘ ( Guadalimar River ) کے کنارے تعمیر ہونے والے ’قصر الزہراء‘ کو صحیح معنوں میں سپین کا تاج کہا جا سکتا ہے۔ اُس محل میں کل ۴۰۰ کمرے تعمیر کئے گئے۔ تعمیر میں اِستعمال ہونے والا بہت سا تعمیراتی سامان جس میں سنہری ستون اور دیگر سامانِ آرائش شامل ہے، ’قسطنطنیہ‘ سے منگوایا گیا تھا۔ سنگِ مر مر کا بڑا ذخیرہ ہمسایہ مسلمان افریقی ریاست ’مراکش‘ سے درآمد کیا گیا تھا۔ بعض تاریخی رِوایات کے مطابق اُس محل کی تعمیر۱۰,۰۰۰ مزدوروں کی محنت سے صرف ۴ سال کی مختصر مدّت میں تکمیل پذیر ہوئی۔ ’قصر الزہراء‘ صنعتِ تعمیر کا عظیم شاہکار تھا جس کا گنبد ۴,۶۱۳ سنہری ستونوں پر قائم تھا۔ محل میں صاف شفاف پانی کی چھوٹی چھوٹی نہریں ہر طرف رواں رہتیں جو اُس کے حسن کو اور بھی دوچند کئے دیتیں۔ اُس کی دیواروں پر نقّاشی کے نمونوں میں سنگِ مرمر، سونے اور جواہرات کا عام اِستعمال کیا گیا تھا۔
آبِ روانِ ’کبیر‘ تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اَور زمانے کا خواب
الحمراء
’مسجدِ قرطبہ‘ کے علاوہ دُوسری اہم عمارت جو سپین میں اِسلامی فنِ تعمیر کے منہ بولتے ثبوت کے طور پر زندہ سلامت کھڑی ہے، وہ ’الحمراء‘ ہے، جو۲,۲۰۰ مربع میٹر رقبے پر محیط ہے۔ اگرچہ اُس کی تعمیر ’مسجدِ قرطبہ‘ کی طرح مضبوط بنیادوں پر نہیں ہے مگر اُس کے باوُجود صدیاں گزرنے کے بعد بھی عمارت کا ابھی تک سلامت رہنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ ’الحمراء‘ دُنیا کی یادگار عمارات میں سے ایک ہے جسے صدیوں قبل نہایت نفاست کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ اپنی فصیل اور برجوں کی وجہ سے ایک قلعہ دِکھائی دیتا ہے۔ اُس کی تعمیر غرناطہ کی سرخ مٹی سے ایک پہاڑی کی ڈھلان پر کی گئی تھی اور اُس میں جا بجا حوض اور فوّارے نصب ہیں۔ پانی کے بہاؤ کے لئے قدرتی ڈھلان سے مدد لی گئی ہے جس کی وجہ سے اِضافی توانائی کی بہم رسانی ضروری نہیں رہی۔ محل کا ہر حصہ مرکزی حصے کی سی دِلکشی کا حامل ہے اور دیکھنے والا اُسی حصہ کو اُس کا مرکز سمجھنے لگتا ہے۔ اُس کے ہر حصے میں آیات، اَحادیث اور عربی اَشعار و عبارات کندہ ہیں، جو اِسلامی فنِ خطاطی ( calligraphy ) کے بہترین شہ پارے ہیں۔ ’الحمراء‘ کے پہلو میں بعد کے اَدوار میں ایک عیسائی بادشاہ نے بھی محل بنوایا تھا جو پختہ پتھروں سے بنا ہے۔ اُس محل کے تضاد کے ساتھ الحمراء کا حسن اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ پورے محل میں پتھر کی تراشی ہوئی جالیاں اور مختلف انداز کی محرابیں اُس کے حسن کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ یہاں مصوّری اور سنگ تراشی کے بھی چند بہترین نمونے موجود ہیں، جن میں اُس دَور کے لوگوں کا طرزِ بود و باش منقّش کیا گیا ہے۔
اِسلامی سپین کا طرزِ تعمیر مجموعی طور پر تمام دُنیائے اِسلام میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ مساجد کے مینار مربع شکل کے ہیں جو عالمِ اِسلام میں ایک انوکھا طرزِ تعمیر تھا۔ اُس دَور کی عمارتوں پر جا بجا خطاطی کے بے مثل نمونے ثبت ہوتے تھے۔ عمارات عربی عبارتوں اور آیاتِ قرآنیہ کی دیدہ زیب خطاطی سے مزین ہوتیں۔ اندلس کا فنِ خطاطی ( calligraphy ) اپنے کمال کی بنا پر یورپ کے بہت سے ملکوں میں فروغ پذیر ہوا، چنانچہ اکثر عیسائی سیدنا عیسیٰؑ اور سیدہ مریم علیہ ا السلام کی تصاویر اور مجسموں کی تزئین و آرائش کے لئے اُن پر س کے علاوہ کلمۂ طیبہ کی نقاشی بھی کرواتے، اگرچہ وہ یہ نہ جانتے تھے کہ یہ کیا الفاظ نقش کئے جا رہے ہیں۔
اَغیار کا اِعترافِ عظمت
بعثتِ محمدی (ص) کے زیر اثر عربوں میں شروع ہونے والی علمی و ثقافتی تحریک نے عالمِ اِسلام میں علم و تحقیق اور تہذیب و ثقافت کو خوب فروغ دیا، جس کے نمایاں اثرات سپین کی اِسلامی حکومت کے دَور میں بھی دیکھے گئے ہیں۔
E. Rosenthal بیان کرتا ہے:
In Muslim days, Cordova was the centre of European civilisation and one of the greatest seats of learning in the world. After the expulsion of the Moors from Spain, however, Cordova sank to the level of a provincial town. Yet her wonderful mosque is a superb legacy of the days when Cordova was the capital of the Arab Empire in Spain. "Traces of Arabic Influence in Spain "
( Islamic Culture ۱۱:۳۳۶ July, ۱۹۳۷ )
ترجمہ "اِسلامی دَورِ حکومت میں قرطبہ یورپی تہذیب کا مرکز اور دُنیا کا سب سے بڑا علم و دانش کا مقام تھا۔ تاہم مسلمانوں کے سپین سے اِخراج کے بعد قرطبہ کی حیثیت صوبائی شہر کی سی رہ گئی۔ وہ عظیم الشان مسجدِ قرطبہ اُن عظیم دِنوں کی یاد دِلاتی ہے جب قرطبہ سپین میں عرب سلطنت کا دارُالحکومت تھا"۔
اِسی حقیقت کو Sir Thomas W. Arnold نے یوں بیان کیا ہے:
د سویں صدی عیسوی میں ہی قرطبہ یورپ کا مہذب ترین اور متمدّن شہر بن چکا تھا۔ یہ دُنیا کے قابلِ تحسین اور حیران کن عجائبات میں شامل تھا۔ یہ ریاست ہائے بلقان کا "وینس" کہلاتا تھا۔ شمال سے جانے والے سیاحوں کے علم میں جب یہ بات آتی کہ اُس شہر میں ۷۰ لائبریریاں اور ۹۰۰ حمام ہیں تو وہ خوف اور حیرت کے ملے جلے جذبات کا اِظہار کرتے۔ لیون ( Leon )، ناقار ( Navarre ) اور برشلونہ ( Barcelona ) کی ریاستوں کے حکمرانوں کو جب کبھی سرجن، ماہرِ تعمیرات ( Architect )، ماہرِ ملبوسات ( Dressmaker ) یا کسی عظیم موسیقار ( Singer ) کی خدمات کی ضرورت ہوتی تو اُن کی نظریں قرطبہ کی طرف ہی اُٹھتی تھیں اور وہ اُنہیں یہیں سے منگواتے تھے۔
( The legacy of Islam )
اِ س موضوع پر C. H. Haskins کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
The broad fact remains that the Arabs of Spain were the principal source of the new learning for Western Europe
( Studies in the History of Medical Science )
ترجمہ "یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سپین کے عرب ہی مغربی یورپ کے تمام جدید علوم و فنون کا سرچشمہ اور منبع تھے"۔
اِسی طرح H. E. Barnes نے اِس تاریخی حقیقت کا اِعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے:
In many ways, the most advanced civilisation of the Middle Ages was not a Christian culture at all, but rather the civilisation of the people of the faith of Islam
( H.E. Barnes, A History of Historical Writings )
ترجمہ: "بہت سی جہتوں سے قرونِ وُسطیٰ کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب و ثقافت ہرگز عیسائی ثقافت نہیں تھی بلکہ یہ ثقافت اِسلامی عقیدہ رکھنے والی اَقوام کی تھی"۔
معروف مُستشرق منٹگمری واٹ لکھتا ہے:
" Yet it was the culture of the Arabs which became the matrix of the new Islamic civilisation, and all that was best in the older and higher culture was assimilated into the new culture ."
( W. Montgomery Watt, A History of Islamic Spain, p.۱۶۶ )
G. R. Gibb نے بھی اِس اَمر کی تصریح کی ہے کہ دسویں صدی سے تیرھویں صدی عیسوی تک سپین کی اِسلامی ثقافت یورپ کی سب سے بلند اور ترقی یافتہ ثقافت تھی۔
حصہ دُوُم
قرآنی وسائنسی علوم کا دائرۂ کار
باب اوّل
قرآنی علوم کی وُسعت
اَشرفُ المخلوقات بنی نوع اِنسان سے اللہ ربّ العزت کا آخری کلام حتمی وحی قرآنِ مجید کی صورت میں قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا۔ چونکہ یہ اللہ تعالی کی آخری وحی ہے اور اُس کے بعد سلسلۂ وحی ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا، چنانچہ اللہ تعالی نے اُس میں قیامت تک وُقوع پذیر ہونے والے ہر قسم کے حقائق کا علم جمع کر دیا ہے۔ کلامِ اِلٰہی کی جامعیت بنی نوعِ انسان کے لئے روزِ قیامت تک کے لئے رہنمائی کی حتمی دستاویز ہے جو عقلی و نقلی ہر دو قسم کے علوم کو محیط ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو اوّل سے آخر تک اصلاً تمام حقائق و معارف اور جملہ علوم و فنون کی جامع ہے۔ قرآن خود کئی مقامات پر اِس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔
اِرشادِ باری تعالی ہے:
وَ نَزَّلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ تِبیَانًا لِّکُلِّ شَیئٍ
(النحل، ۱۶:۸۹)
اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔
شئ کے لفظ کا اِطلاق کائنات کے ہر وُجود پر ہوتا ہے، خواہ وہ مادّی ہو یا غیر مادّی۔ جو چیز بھی ربِ ذوالجلال کی تخلیق ہے ’شئ‘ کہلاتی ہے، چنانچہ ہر شئے کا تفصیلی بیان قرآن کے دامن میں موجود ہے۔
اِرشاد فرمایا گیا ہے:
وَ تَفصِیلَ کُلِّ شَیئٍ
(یوسف، ۱۲:۱۱۱)
اور (قرآن) ہر شئے کی تفصیل ہے۔
ایک اور مقام پر اِرشاد ہے:
مَا فَرَّطنَا فِی الکِتَابِ مِن شَیئٍ
(الانعام، ۶:۳۸)
ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا کنایۃً بیان نہ کر دیا ہو)۔
چونکہ اَزل سے ابد تک جملہ حقائق اور مَا کَانَ وَ مَا یَکُون کے جمیع علوم قرآنِ مجید میں موجود ہیں اِس لئے اِس حقیقت کو اِس انداز سے بیان کیا گیا ہے:
وَ لَا رَطبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِی کِتَابٍ مُّبِینٍ(الانعام، ۶:۵۹)
اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔
اِس آیتِ کریمہ میں دو لفظ رَطبٍ اور یَابِسٍ اِستعمال ہوئے ہیں۔ رطب کا معنی تر ہے اور یابس کا خشک۔ یہ آیت قرآنی اِیجاز اور فصاحت و بلاغت کی دلیلِ اَتم ہے کیونکہ کائناتِ ارض و سماء کا کوئی وُجود اور کوئی ذرّہ ایسا نہیں جو خشکی اور تری کی دونوں حالتوں سے خارِج ہو۔ بحر و بر، شجر و حجر، زمین و آسمان، جمادات و نباتات، جن و اِنس، خاکی ذرّات اور آبی قطرات، حیوانات اور دیگر مخلوقات الغرض عالمِ پست و بالا کی جس شے کا بھی تصوّر کر لیجئے وہ یا تو خشک ہو گی یا تر یا دونوں حالتوں کا مرکب ہو گی۔ قرآن نے صرف دو لفظ وَلَا رَطبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِستعمال کر کے درحقیقت ساری کائنات کے ایک ایک ذرّے کا بیان کر دیا کہ اُس کا علم قرآن میں موجود ہے۔
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا ہے:
وَ کُلَّ شَیئٍ فَصَّلنَاهُ تَفصِیلًا(بنی اِسرائیل، ۱۷:۱۲)
اور ہم نے (قرآن میں) ہر چیز کو پوری تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔
علامہ ابنِ برہان اِسی کی تائید میں فرماتے ہیں:
ما من شئ فهو فی القرآن أو فیه أصله
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
کائنات کی کوئی شئے ایسی نہیں جس کا ذِکر یا اُس کی اصل قرآن سے ثابت نہ ہو۔
گویا قرآن میں یا تو ہر چیز کا ذکر صراحت کے ساتھ ملے گا یا اُس کی اصل ضرور موجود ہو گی۔ یہ بات لوگوں کی اپنی اپنی اِستعداد و صلاحیت، فہم و بصیرت اور قوتِ اِستنباط و اِستخراج کے پیشِ نظر کہی گئی ہے کیونکہ ہر کوئی ہر شئے کی تفصیل قرآن سے اَخذ کرنے کی اِستعداد نہیں رکھتا۔
اگر قدرت کی طرف سے کسی کو نورِ بصیرت حاصل ہو، اِنشراحِ صدر ہو چکا ہو، حجابات اُٹھ چکے ہوں اور ربّ ِذُوالجلال نے اُس کے سینے کو قرآنی معارف کا اَہل بنا دیا ہو تو اُسے ہر شئے کا تفصیلی بیان بھی نظر آتا ہے۔
اِسی موقع پر اِمام سیوطی فرماتے ہیں کہ اصلاً ذِکر کا معنی یہ ہے:
ما من شئ إلا یمکن إستخراجه من القرآن لمن فهّمه ﷲ ۔
کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا اِستخراج و اِستنباط آپ قرآن سے نہ کر سکیں لیکن یہ علوم و معارف اُسی پر آشکار ہوتے ہیں جسے ربّ ِذُوالجلال خصوصی فہم سے بہرہ وَر فرما دیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس نبیٔ اکرم (ص) کے وہ جلیلُ القدر صحابی ہیں جنہیں حضور (ص) نے ترجمانُ القرآن کے لقب سے سرفراز فرمایا تھا۔ اُن کے بارے میں جبرئیلِ اَمینؑ نے یہ خوشخبری بھی دی تھی:
إنّه کائن حبر هذه الأمة
وہ (عبداللہ بن عباس) اِس اُمت کے سب سے بڑے عالم ہیں۔
آپ فرماتے ہیں:
لو ضاع لی عقالُ بعیرٍ لوجدتُه فی کتابِ ﷲ ۔
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
(صحبتِ نبوی کے فیضان سے مجھے قرآن کی اِس قدر معرفت حاصل ہو چکی ہے کہ) میرے اُونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو قران کے ذریعے تلاش کر لیتا ہوں۔
اُونٹ کی رسی کا گم ہونا کتنا معمولی واقعہ ہے لیکن اہلِ بصیرت اَیسا معمولی سے معمولی واقعہ اور حادثہ بھی قرآن سے معلوم کر لیتے ہیں۔ محقق بن سراقہ ’کتابُ الاعجاز‘ میں جامعیتِ قرآن پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
ما من شئ فی العالم إلا و هو فی کتاب ﷲ ۔(الاتقان، ۲:۱۲۶)
کائنات میں کوئی شئے اَیسی نہیں جس کا ذِکر قرآن میں موجود نہ ہو۔
اِس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شئے قرآن میں مذکور نہ ہو تو وہ کائنات میں موجود نہیں ہو سکتی، گویا قرآن میں کسی چیز کا مذکور نہ ہونا کائنات میں اُس کے موجود نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن کی جامعیت کا یہ عالم ہے کہ اُس میں کسی چیز کے ذِکر یا عدم ذِکر کو کائنات میں اُس کے وُجود و عدم کی دلیل تصوّر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِمام شافعی نے جامعیتِ قرآن کی نسبت یہ دعویٰ کیا:
سلونی عمّا شِئتم، أخبرکم عنه فی کتابِ ﷲ ۔ (الاتقان، ۲:۱۲۶)
جس چیز کی نسبت چاہو مجھ سے پوچھ لو، میں تمہیں اُس کا جواب قرآن سے دوں گا۔
آپ نے حضرت سعید بن جبیر کا یہ قول بھی اپنی کتاب ’الام‘ میں نقل فرمایا ہے:
ما بلغنی حدیث عن رسول ﷲ علی وجهه إلا وجدت مصداقه فی کتاب ﷲ
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
آج تک رسول اللہ(ص) کی کوئی حدیث مجھے ایسی نہیں ملی جس کا واضح مصداق میں نے قرآن مجید میں نہ پایا ہو۔
تمام آسمانی کتابوں کے ثمرات و مطالب اور علوم و معارف کی جامع بھی یہی کتاب ہے۔ امام بیہقی حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں، جن میں کائنات کے تمام علوم و معارف بیان کر دیئے۔ پھر اُن تمام علوم کو چار کتابوں (تورات، زبور، انجیل اور قرآن) میں جمع کر دیا۔ پھر اُن میں سے پہلی تین کتابوں کے تمام معارف کو قرآنِ حکیم میں جمع فرمایا اوریوں یہ قرآن ایسی جامع کتاب قرار پائی کی ابنِ ابی الفضل المرسیص فرماتے ہیں:
جمع القرآن علوم الأوّلین و الآخرین بحیث لم یح بها علما حقیقة إلا المتکلم، ثم رسول ﷲ(ص)
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
اِس قرآن نے اوّل سے آخر تک، اِبتداء سے اِنتہا تک کائنات کے تمام علوم و معارف کو اپنے اندر اِس طرح جمع کر لیا ہے کہ فی الحقیقت خدا اور اُس کے بعد رسول(ص) کے سوا اُن علوم کا اِحاطہ نہ کوئی آج تک کر سکا اور نہ کر سکے گا۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے اِس سلسلے میں مروی ہے:
مَن أراد العلم فعلیه بالقرآن، فإنّ فیه خیر الأولین و الآخرین
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
جو شخص علم حاصل کرنا چاہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا دامن تھام لے کیونکہ اِسی قرآن میں ہی اوّل سے آخر تک سارا علم موجود ہے۔
تمام ظاہری و باطنی علوم و معارف کا جامع ہونا، تمام موجوداتِ عالم کے اَحوال کا جامع ہونا اور تمام آسمانی کتابوں کے ثمرات و مطالب کا جامع ہونا، یہ وہ نمایاں خصوصیات تھیں جن کے باعث اِس مقدس کتاب کا نام اللہ تعالی نے ’القرآن‘ رکھا ہے۔ اَب ہم قرآنِ مجید کی جامعیت پر چند عملی شہادتیں پیش کرتے ہیں تاکہ علومِ قرآنی کی ہمہ گیریت اور سائنسی علوم کی تنگ دامانی عیاں ہو سکے۔
جامعیتِ قرآن کی عملی شہادتیں
پہلی شہادت ۔ ۔ ۔ ’ہر معاملے میں اُصولی رہنمائی‘
جامعیتِ قرآن کی نہایت وقیع اور عملی شہادت یہ بھی ہے کہ قرآن اپنی تعلیمات کے اِعتبار سے اِنسان کی نجی زِندگی کی فکری و عملی ضروریات سے لے کر عالمی زِندگی کے جملہ معاملات پر حاوی ہے۔ حیاتِ اِنسانی کا مذہبی و رُوحانی پہلو ہو یا مادّی و جسمانی، عائلی و خاندانی پہلو ہو یا سماجی و معاشرتی، سیاسی و معاشی پہلو ہو یا تعلیمی و ثقافتی، حکومت و سلطنت کی تاسیس ہو یا اِدارت کی تشکیل، مختلف طبقاتِ اِنسانی کے نزاعات و معاہدات ہوں یا اَقوامِ عالم کے باہمی تعلّقات، اَلغرض قرآنی اَحکام و تعلیمات اِس قدر جامع ہیں کہ ہر مسئلے میں اُصولی رہنمائی قرآن ہی سے میسر آتی ہے۔
قرآنی اَحکام کا بیان و اِستنباط کہیں ’عبارۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِشارۃُ النّص‘ سے، کہیں ’دلالۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِقتضائُ النّص‘ سے۔ کہیں اُس کا انداز ’حقیقت‘ ہے، کہیں ’مجاز‘ ،کہیں ’صریح‘ ہے، اور کہیں ’کنایہ‘۔ کہیں ’ظاہر‘ ہے، کہیں ’خفی‘، کہیں ’مجمل‘ ہے، اور کہیں ’مفسر‘۔ کہیں ’مطلق‘ ہے، کہیں ’مقید‘، کہیں ’عام‘ ہے اور کہیں ’خاص‘۔ اَلغرض قرآنی تعلیمات مختلف صورتوں اور طریقوں میں موجود ہیں۔ اُن میں اصل اَحکام ( substantive laws ) بھی ہیں اور ضابطہ جاتی اَحکام ( procedural laws ) بھی، جیسا کہ اِس آیتِ کریمہ سے ثابت ہے:
( لِکُلٍّ جَعَلنَا مِنکُم شِرعَةً وَّ مِنهَاجًا ) ۔ (المائدہ، ۵:۴۸)
ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک اصل قانون بنایا اور ایک اُس کا ضابطہ و طریقِ کار۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اِسلام نے تمام شعبہ ہائے حیات سے متعلق قوانین اور اُصول و ضوابط کا اِستخراج اصلاً قرآن ہی سے کیا ہے۔
اِسی طرح قرآن علوم کے بیان کے اِعتبار سے بھی جامع و مانع ہے۔ دُنیا کا کوئی مفید علم اَیسا نہیں جس کا سرچشمہ قرآن نہ ہو۔ قاضی ابوبکر بن عربی اپنی کتاب ’قانون التأویل‘ میں اِبتدائی طور پر قرآنی علوم کی تعداد۷۷۷,۴۵۰ بیان کرتے ہیں۔ یہی تعداد قرآنِ مجید کے کل کلمات کی بھی ہے، تو اِس سے یہ حقیقت مترشّح ہوئی کہ قرآنِ حکیم میں اَلحَمد سے وَالنَّاس تک اِستعمال ہونے والا ہر کلمہ یقینا کسی نہ کسی مستقل علم اور فن کی بنیاد ہے۔ گویا ہر قرآنی حرف سے کوئی نہ کوئی علم اور فن جنم لے رہا ہے۔ یہاں سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی یہ حدیثِ رسول اللہ(ص) بھی پیشِ نظر رہے کہ قرآن کے ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور پھر ہر ظاہر و باطن کے لئے ایک حدِ آغاز ہے اور ایک حدِاِختتام۔ اِس لحاظ سے ہر قرآنی حرف کے چار پہلو متعین ہوئے۔ چنانچہ قاضی ابوبکر بن عربی متذکرۃُ الصدر تعداد کو پھر چار سے ضرب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ درحقیقت قرآنی علوم کی تعداد کم از کم ۳,۰۹,۸۰۰ ہے۔ یہ تو ایک بزرگ کی وُسعتِ نظر ہے، فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اُوست۔ اِمام رازی فرماتے ہیں کہ صرف تعوّذ و تسمیہ (أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ اور بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ) میں لاکھوں مسائل کا بیان ہے اور باقی آیات و کلمات کا تو ذِکر ہی کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علوم کے اِعتبار سے بھی قرآن کی جامعیت کا یہ عالم ہے کہ اُن کی صحیح تعداد کا شمار ہو سکتا ہے اور نہ اَندازہ۔ اَیسے اَقوال یا تو اُن اَکابر کی تحقیقات ہیں یا اُن کے ذاتی اِنکشافات، درحقیقت قرآنی علوم اِحصاء و تحدید سے ماوراء ہیں۔ کوئی علم ہو یا فن، کوئی صنعت و حرفت ہو یا پیشہ و تجارت، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی دریافت ہو یا علومِ قدیمہ کی، اِس کائنات میں کوئی ایسی شئے معرضِ وُجود میں نہیں آئی اور نہ آ سکتی ہے جس کا ذِکر خلّاقِ عالم نے کسی نہ کسی اَنداز سے قرآنِ مجید میں نہ کر دیا ہو۔
فلسفہ ( philosophy ) تمام علوم کا سرچشمہ اور مبداء تصور کیا جاتا ہے۔ علمِ طبیعیات ( physics ) اور علمِ حیاتیات ( biology ) بھی اِبتداءً فلسفے ہی کا حصہ تھے۔ طبیعی کائنات کے حقائق سے بحث کرنے والے علوم یہی تین ہیں۔
فلسفہ ( philosophy ) شروع سے آج تک تین چیزوں سے بحث کرتا چلا آیا ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ علم کیا ہے اور کیونکر ممکن ہے؟ اور اَعلیٰ ترین نصبُ العین کیا ہے؟ گویا فلسفے کی بحث ’حقیقت‘، ’علم‘ اور ’نصبُ العین‘ سے ہے۔ اِسی طرح طبیعیات ( physics ) کا موضوعِ تحقیق یہ ہے کہ موجوداتِ عالم اور مظاہرِ طبیعی کا آغاز کب ہوا؟ کس طرح ہوا؟ اور اُن مظاہرِ طبیعی کی حرکت کی علّت کیا ہے؟ حیاتیات ( biology ) کا موضوع یہ ہے کہ اِنسان اور دیگر مظاہرِ حیات کی اصل کیا ہے؟ اور تمام مظاہرِ حیات کی حرکت اور زندگی کی علّت کیا ہے؟ تینوں علوم کا خلاصۂ مبحث یہ ہواکہ:
فلسفہ کائنات کی حقیقت، اَعلیٰ نصبُ العین اور اُس کے علم کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ طبیعیات مظاہرِ طبیعی اور اُن کی حرکت کو جاننے میں مصروف ہے جبکہ حیاتیات مظاہرِ حیات کے آغاز اور اُن کے اِرتقاء کو سمجھنے میں مشغول ہے۔ آج تک یہ علوم اِقدام و خطاء ( trial / error ) کے اَنداز میں اپنی اِرتقائی منازل طے کرتے چلے آ رہے ہیں اور اُن میں سے کسی ایک علم و فن نے بھی یہ حتمی دعویٰ نہیں کیا کہ اُس نے مظاہرِ حیات کے نقطۂ آغاز کو یقینی طور پر جان لیا ہے یا اُس نے اُن کی حرکت کی علّت کو حتمی طور پر متعین کر لیا ہے۔ اِسی طرح فلسفہ آج تک یہ دعویٰ نہیں کر سکا کہ اُس نے وہ حقیقت پا لی ہے جو کائنات کی حتمی و اَبدی حقیقت ہے۔ ہندوستان کے ۹ کے ۹ فلسفے نفسِ ناطقہ کو بھی حقیقت مانتے ہیں اور مادّہ کو بھی۔ (سائنسی علوم میں پائی جانے والی اِقدام خطاء کی روِش پر آئندہ فصل میں مناسبِ حال بحث کی گئی ہے۔)
فلسفہ اور قرآن
ہزاروں سال کی اِنسانی جدّوجہد کے باوُجود آج تک یہ علوم و فنون اپنی صحت اور کمال کی حتمی منزل کو نہیں پہنچ سکے لیکن آخری اِلہامی کتاب قرآن کا یہ عالم ہے کہ سورۂ علق کی صرف پہلی ہی پانچ آیتوں نے فلسفے کے تمام مسائل کو حل کر دیا ہے۔ آیات ملاحظہ ہوں:
( اِقرَأ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ اِقرَأ وَ رَبُّکَ الاَکرَمُ الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَم)
(العلق،۹۶:۱۔۵)
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے، جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا O اُس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وُجود سے پیدا کیا O پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم
ہے O جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا O (جس نے) اِنسان کو (اُس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھااگر غور کریں تو اِن آیاتِ بیّنات میں فلسفے کے جملہ موضوعات اور اُن کے حتمی جوابات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ فَاعتَبِرُوا یٰ۔آ اُولِی الاَبصَار
اِن آیات کی وضاحت اور تفصیلی معانی میں جائے بغیر یہاں صرف اِس قدر بیان کرنا مقصود ہے کہ اِس کائنات کی حقیقتوں کو جاننے کے لئے آج تک تاریخِ اِنسانی میں جتنی فلسفیانہ کوششیں ہوئی ہیں وہ سب قطعیت و حتمیت سے محروم رہیں لیکن قرآن کی جامعیت و قطعیت کا یہ عالم ہے کہ صرف پانچ مختصر فقرات میں فلسفے کے تمام موضوعات، مسائلِ تحقیق اور اُن کے حتمی جوابات کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اَب یہ اہلِ تحقیق کا کام ہے کہ وہ اِس رُخ پر ریسرچ کریں اور اِن حقائقِ کائنات کی کامل معرفت حاصل کریں۔
سائنس اور قرآن
اِسی طرح طبیعی اور حیاتیاتی سائنس جن مسائل پر تحقیق سے عبارت ہے وہ اِصطلاحات کی صورت میں درج ذیل ہیں:
۱۔ تخلیقِ کائنات اور اُس کا تشکیلی نظام
Creation of Universe and its structural system
۲۔ زمانہ ہائے تخلیق اور اَدوارِ اِرتقاء
Periods of creation and eras of evolution
۳۔ وُجودِ کائنات کی طبیعی اور کیمیائی اَساس
Physical and chemical basis of the formation of universe
۴۔ زمین اور ظہورِ حیات
Earth and appearance of life
۵۔ اِرتقائے حیات کے طبیعی اور کیمیائی مراحل
Physical and chemical process of evolution of Life
۶۔ اَجرامِ فلکی کی ماہیت اور نظامِ کار
Nature and phenomena of heavenly bodies
۷۔ اِنسانی زندگی کا آغاز اور نظامِ اِرتقاء
Origin of human life and its development
۸۔ نباتات و حیوانات کی زندگی
The vegetable and animal kingdoms
۹۔ اَفزائشِ نسلِ اِنسانی کا نظام
System of human production and self-perpetuation
اِن تمام سائنسی موضوعات پر قرآنِ حکیم نے بہت سا بنیادی مواد فراہم کیا ہے، جو اُس میں سینکڑوں مختلف مقامات پر مذکور ہے۔ ہم اِستشہاد کے طور پر یہاں صرف تین مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں:
( اَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنٰهُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ)
کیا اُن کافروں نے اِس پر غور نہیں کیا کہ کائنات کے بالائی اور زیریں حصے دونوں باہم پیوست تھے یعنی ایک
( شَئ حَیٍّ اَفَلَا یُؤمِنُونَ وَ جَعَلنَا فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ اَن تَمِیدَ بِهِم وَ جَعَلنَا فِیهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُم یَهتَدُونَ وَ جَعَلنَا السَّمَآءَ سَقفًا مَّحفُوظًا وَّ هُم عَن اٰیٰتِهَا مُعرِضُونَ وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ وَ مَا جَعَلنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبلِکَ الخُلدَ أفَائِنم مِّتَّ فَهُمُ الخَالِدُونَ ) (الانبیاء، ۲۱:-۳۴۳۰)
تخلیقی وحدت ( unit of creation ) کی صورت میں موجود تھے۔ ہم نے اُن دونوں کو جدا جدا کر کے کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے تخلیق کیا O اور ہم نے زمین کی تیز رفتاری کے باعث اُس میں پیدا ہونے والی جنبش کو ختم کرنے کے لئے اُس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے تاکہ وہ اپنے اُوپر بسنے والی مخلوق کو لے کر کانپے بغیر حرکت پذیر رہے اور ہم نے اُس میں (بحری، برّی اور فضائی) کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ اپنی اپنی منازل سفر تک جا سکیں O اور ہم نے آسمانی کائنات کو محفوظ چھت بنایا۔ اور (کیا) وہ اُس کی نشانیوں سے اَب بھی رُو گرداں ہیں؟ O اور وُہی ذات ہے جس نے رات اور دِن بنائے اور سورج اور چاند جو اپنے اپنے مدار اور فلک میں گردِش پذیر ہیں O اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر (ارضی مخلوق) کو ایسی ہمیشگی اور دوَام نہیں بخشا (کہ وہ ہمیشہ اپنے حال پر بدلے یا ختم ہوئے بغیر قائم رہی ہو) اگر آپ اِنتقال فرما گئے تو کیا یہ طعنہ زنی کرنے والے ہمیشہ رہیں گے؟وَ قَد خَلَقَکُم اَطوَارًا O اَ لَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ اللهُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا O وَّ جَعَلَ القَمَرَ فِیهِنَّ نُورًا وَّ جَعَلَ الشَّمسَ سِرَاجًا O وَ اللهُ اَنبَتَکُم مِّنَ الاَرضِ نَبَاتًا O ثُمَّ یُعِیدُکُم فِیهَا وَ یُخرِجُکُم اِخرَاجًا O وَ اللهُ جَعَلَ لَکُمُ الاَرضَ بِسَاطًا O لِّتَسلُکُوا مِنهَا سُبُلًا فِجَاجًا(نوح، ۷۱:-۲۰۱۴)
حالانکہ اُس نے تمہیں نوع بنوع اور درجہ بدرجہ تخلیق کیا (یعنی تمہیں تخلیق کے کئی مراحل، ادوار اور احوال سے گزار کر مکمل کیا) O کیا تم غور نہیں کرتے کہ اللہ نے کس طرح آسمانی کائنات کے سات تدریجی طبقات بنائے O اور اُن میں چاند کو (اِنعکاسی نور سے) روشن کیا اور سورج کو چراغ (کی طرح روشنی کا منبع) بنایا O اور اللہ نے تمہیں زمین میں سے سبزے ( genealogical tree ) کی طرح اُٹھایا O پھر وہ تمہیں اُسی میں لے جائے گا۔ اور تمہیں دوبارہ نئی زندگی کے ساتھ باہر نکالے گا O اور اللہ نے تمہارے لئے زمین کو بچھایا ہوا قطعہ بنایا O تاکہ تم اُس کے کشادہ راستوں پر چلو( اَللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ مَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ مَا لَکُم مِّن دُونِه مِن وَّلِیٍّ وَّ لَا شَفِیعٍ اَفَلَا تَتَذَکَّرُونَ یُدَبِّرُ الاَمرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الاَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ اِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه اَلفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ذٰلِکَ عَالِمُ الغَیبِ وَ الشَّهَادَةِ العَزِیزُ الرَّحِیمُ الَّذِی اَحسَنَ کُلَّ شَئ خَلَقَه وَ بَدَاَ خَلقَ الاِنسَانِ مِن طِینٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَه مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّآئٍ مَّهِینٍ ثُمَّ سَوَّاهُ وَ نَفَخَ فِیهِ مِن رُّوحِه وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الاَبصَارَ وَ الاَفئِدَةَ قَلِیلًا مَّا تَشکُرُونَ ) (السجدہ،۳۲:-۹۴)
ﷲ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے چھ دِنوں (یعنی چھ اَدوار) میں پیدا کیا پھر وہ عرش یعنی کائنات کے تختِ اِقتدار پر جلوہ اَفروز ہوا۔ اُسے چھوڑ کر نہ تمہارا کوئی کارساز ہے نہ سفارشی، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ O وہ اپنے اَوامر اور معاملات کی تدبیر آسمان سے اِس لئے کرتا ہے کہ زمین (یعنی نچلی کائنات) میں ان کا نفاذ اور تعمیل ہو، پھر وہ اُمور رفتہ رفتہ اُسی کی طرف اُوپر اٹھائے جائیں گے۔ اِس تدریجی مرحلے کی تکمیل ایک دن ( one era of evolution ) میں ہو گی جس کا عرصہ تمہارے شمار کے مطابق ہزار سال پر محیط ہے o وُہی ہر نہاں اور عیاں کا جاننے والا (اور) عزت و رحمت والا ہے o جس نے ہر اُس چیز کو، جسے اُس نے پیدا کیا، (اُس کے حال کے مطابق) نہایت اَحسن اور مناسب صورت میں تشکیل دیا اور اُس نے اِنسانی تخلیق کی اِبتداء زمین کی مٹی یعنی غیر نامی مادّے ( inorganic matter ) سے کی، پھر اُس کی نسل کو کمزور اور بے قدر پانی ( despised fluid ) کے نچوڑ سے چلایا o پھر اُس وُجود کو صحیح شکل و صورت دی اور اُس میں اپنی طرف سے رُوح پھونکی۔ یعنی اُسے زندگی عطا کی، بعد اَزاں تمہیں سماعت اور دِل و دِماغ ( physical / mental faculties ) سے نواز دیا لیکن تھوڑے لوگ ہی اِن نعمتوں پر شکر بجا لاتے ہیں (یعنی اُن کا صحیح اِستعمال کرتے ہیں)اگر ہم فقط مذکورہ بالا تین مقامات پر ہی غور و فکر کریں تو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دُشواری نہیں ہو گی کہ طبیعیات ( physics ) اور حیاتیات ( biology ) کے جملہ مسائل پر اُصولی اور بنیادی رہنمائی قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی اِسی وُسعتِ علمی کا نام ’جامعیت‘ ہے۔
دُوسری شہادت ۔ ۔ ۔ ’قرآن تمام نقلی علوم و فنون کا ماخذ ہے‘
علوم و فنون کے اِعتبار سے جامعیتِ قرآن کا اندازہ اِس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ علمائے اِسلام نے جملہ علوم کی اَنواع و اَقسام سب قرآنِ حکیم سے ہی اَخذ کی ہیں۔ قرون وُسطیٰ میں جب تمام علوم و فنون کی باقاعدہ تقسیم اور علم و فن کی تفصیلات مرتب کرنے کا کام سر انجام دیا جانے لگا تو علماء کی ایک جماعت نے لغات و کلمات قرآن کے ضبط و تحریر کا فریضہ اپنے ذمہ لے لیا۔ اُس نے مخارجِ حروف کی معرفت، کلمات کا شمار، سورتوں اور منزلوں کی گنتی، سجدات و علاماتِ آیات کی تعداد و تعین، حصرِکلمات، متشابہ و متماثلہ آیات کا اِحصاء، الغرض تعرضِ معانی و مطالب کے بغیر جملہ مسائلِ قرات کا کام سراِنجام دیا۔ اُن کا نام ’قرّاء‘ رکھا گیا اور اِس طرح ’علمُ القراۃِ و التجوید‘ منصہ شہود پر آیا۔ بعض نے قرآن کے معرب و مبنی، اَسماء و اَفعال اور حروفِ عاملہ و غیر عاملہ وغیرہ کی طرف توجہ کی تو ’علمُ النحو‘ معرضِ وُجود میں آیا۔ بعض نے اَلفاظِ قرآن، اُن کی دلالت و اِقتضاء اور اُن کے مطابق ہر حکم کی تفصیلات بیان کیں تو ’علمُ التفسیر‘ وُجود میں آیا۔ بعض نے قرآن کی ادِلّہ عقلیہ اور شواہدِ نظریہ کی جانب اِلتفات کیا اور اللہ تعالی کے وُجود و بقاء، قدم و وُجود، علم و قدرت، تنزیہہ و تقدیس، وحدانیت و اُلوہیت، وحی و رسالت، حشر و نشر، حیات بعد الموت اور اِس قسم کے دیگر مسائل بیان کئے تو ’علمُ الاصول‘ اور ’علمُ الکلام‘ وُجود میں آئے۔ پھر اُنہی اُصولییّن میں سے بعض نے قران کے معانی خطاب میں غور کیا اور قرآنی اَحکام میں اِقتضاء کے لحاظ سے عموم و خصوص، حقیقت و مجاز، صریح و کنایہ، اِطلاق و تقیید، نص، ظاہر، مجمل، محکم، خفی، مشکل، متشابہ، اَمر و نہی، اَنواعِ قیاس اور دیگر ادِلّہ کا اِستخراج کیا تو فنِ ’اُصولِ فقہ‘ تشکیل پذیر ہوا۔ بعض نے قرآنی اَحکام سے حلال و حرام کی تفصیلات و فروعات طے کیں تو ’علمُ الفقہ‘ یا ’علمُ الفروع‘ کو وُجود ملا۔ بعض نے قرآن سے گزشتہ زمانوں اور اُمتوں کے واقعات و حالات کو جمع کیا اور آغازِ عالم سے قیامت تک کے آثار و وقائع کو بیان کیا جس سے ’علمُ التاریخ‘ اور ’علمُ القصص‘ وُجود میں آئے۔ بعض نے قرآن سے حکمت و موعظت، وَعد و وعید، تحذیر و تبشیر، موت و معاد، حشر و نشر، حساب و عقاب اور جنت و نار کے بیانات اَخذ کئے جس سے ’علمُ التّذکیر‘ اور ’علمُ الوعظ‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض نے قرآن سے مختلف خواب اور اُن کی تعبیرات کے اُصول اَخذ کئے تو ’علمِ تعبیرُالرؤیا‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض نے قرآن سے ’علمُ المیراث‘ اور ’علمُ الفرائض‘ کی تفصیلات بیان کیں۔ بعض نے رات، دِن، چاند، سورج اور اُن کی منازل وغیرہ کے قرآنی ذِکر سے ’علمُ المیقات‘ حاصل کیا۔ بعض نے قرآن کے حسنِ اَلفاظ، حسنِ سیاق، بدیع، نظم اور اطناب و اِیجاز وغیرہ سے ’علمُ المعانی‘، ’علمُ البیان‘ اور ’علمُ البدیع‘ کو مدوّن کیا۔ عرفائے کاملین نے قرآن میں نظر و فکر کے بعد اُس سے معانیٔ باطنہ اور دقائقِ مخفیہ کا اِنکشاف کیا۔ اُنہوں نے اُس سے تزکیہ و تصفیہ، فنا و بقاء، غیبت و حضور، خوف و ہیبت، اُنس و وَحشت اور قبض و بسط وغیرہ کے حقائق و تصوّرات بھی اَخذ کئے، جن سے’علمُ التصوّف‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض علماء نے قرانِ مجید ہی سے طب، ہیئت، ہِندسہ، جدل، جبر و مقابلہ، نجوم اور مناظرہ وغیرہ جیسے عقلی علوم و فنون اَخذ کئے اور اُن کی تفصیلات بھی طے کیں۔ اِس طرح یہ مقدس اور جامع اِلہامی کتاب بالفعل دُنیا کے ہر فن اور علم کے لئے منبع و سرچشمہ قرار پا گئی۔ اِمام موسی نے مزید تفصیل کے ساتھ مذکورہ بالا موضوع پر روشنی ڈالی ہے، جس کی تلخیص اِمام جلال الدین سیوطی نے الاتقان میں کی ہے۔
تیسری شہادت۔ ۔ ۔ ’حضور(ص) کی عمرِ مبارک کا اِستشہاد‘
تاجدارِ کائنات (ص) کی عمرِمبارکہ کے حوالے سے اِمام جلالُ الدین سیوطی ’الاتقان‘ میں یہ آیت نقل کرتے ہیں:
( وَ لَن یُّؤَخِّرَ اللهُ نَفسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا ) (المنافقون، ۶۳:۱۱)
جب کسی کی اَجل آ جائے تو اللہ تعالی ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں فرماتا۔
قرآنِ کریم کی اِس آیتِ مبارکہ کا اِطلاقِ عمومی ہر اِنسان کی موت پر ہوتا ہے لیکن اَہلِ علم و بصیرت جانتے ہیں کہ اِس کے نزول کے وقت اِس میں وِصالِ محمدی (ص) کی طرف اِشارہ کر دیا گیا تھا۔
یہ آیت ’سورۃُ المنافقون‘ (جو قرآن مجید کی تریسٹھویں ۶۳ سورت ہے) کی آخری آیت ہے۔ اِس سورت کے بعد ربّ ِذوالجلال نے ’سورۃ التغابن‘ کو منتخب فرمایا۔ تغابن ناپید ہو جانے اور ہست سے نیست ہو جانے کو کہتے ہیں۔ ۶۳ویں سورۃ کے اِختتام پر کسی پر وقت اَجل آ جانے کا ذِکر اِس اَمر کی طرف اِشارہ تھا کہ حضور(ص)کی ظاہری عمرِ مبارک ۶۳ویں برس پر اپنے اِختتام کو پہنچ جائے گی اور اِس آیت کے فوراً بعد سورۃُ التغابن کا اِنتخاب مزید صراحت کے لئے تھا کہ اَب اِس ہستیِ مبارک کی حیاتِ ظاہری کے ناپید ہو جانے کے بعد اِنعقادِ قیامت کا ہی دَور آئے گا۔ درمیان میں کسی اور نبی یا اُمت کا دَور ممکن نہیں۔ یعنی حضور(ص) کا دَورِ نبوّت روزِ قیامت سے متصل ہے اور درمیانی سارے عرصے کو یہی محیط ہے۔ کسی اور کا زمانہ باقی نہیں رہا جیسا کہ حضور(ص) نے خود اپنی درمیان والی انگلی اور انگشتِ شہادت کو ملا کر فرمایا تھا:
أنا و الساعة کهاتین ۔ (جامع ترمذی، ۲:۴۴)
میں (یعنی میرا دَور) اور قیامت دونوں آپس میں اِن دو اُنگلیوں کی طرح متصل ہیں۔
جیسے اِن دو اُنگلیوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں اِسی طرح میرے دورِ نبوت اور قیامت کے درمیان کوئی فاصلہ یا زمانہ نہیں۔ گویا یہ آیتِ مقدسہ آنحضرت(ص) کی عمرِ مبارک کے تعین کے ساتھ ساتھ آپ(ص) کے ختمِ نبوت کے اِعلان پر بھی مشتمل ہے۔ اِس شہادت سے ’قرآن‘ کی شانِ جامعیت پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔
چوتھی شہادت ۔ ۔ ۔ ’اَجرامِ فلکی کی دُہری گردِش‘
اِمام غزالی سے ایک غیرمسلم نے سوال کیا کہ جملہ اَجرامِ فلکی یعنی سورج، چاند اور دیگر سیارگان فضا میں جو حرکت کرتے ہیں وہ دو طرح کی ہے، ایک سیدھی اور دُوسری معکوس یعنی ایک سیارہ اگر کسی دُوسرے سیارے کے تناسب سے دائیں سے بائیں طرف جاتا ہے تو وہ مدار میں اپنا چکر پورا کرنے کے لئے واپس پلٹ کر بائیں سے دائیں طرف بھی آتا ہے کیونکہ تمام سیاروں کے مدار بیضوی ہیں۔ اِس بارے میں اُس غیرمسلم نے سوال کیا کہ قرآنِ مجید میں ایک سمت کی حرکت کا ذِکر تو موجود ہے لیکن دُوسری کا کہاں ہے؟ پہلی حرکت کے بارے میں اُس نے یہ آیت پڑھی:
( کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (یٰسین، ۳۶:۴۰)
تمام (سیارے اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں (یعنی گردِش کر رہے ہیں)اِمام غزالی نے فرمایا کہ اِسی آیت میں اُن کی حرکتِ معکوس کا ذِکر بھی موجود ہے۔ اگر کُلٌّ فِی فَلَکٍ کے اَلفاظ کو اُلٹا کر کے (یعنی معکوس طریقے سے پڑھا جائے) یعنی فَلَکٍ کے ’ک‘ سے شروع کر کے کُلٌّ کی ’ک‘ تک پڑھا جائے تو پھر بھی "کُلٌّ فِی فَلَکٍ" ہی بنے گا، گویا آیت کے اِس حصہ کو سیدھی سمت میں پڑھنے سے سیارگانِ فلکی کی سیدھی حرکت کا ذِکر ہے اور معکوس سمت میں پڑھنے سے حرکت معکوس کا ذکر ہے۔
( کُلٌّ فِی فَلَکٍ ) کو اُلٹی سمت سے پڑھئے، فَلَکٍ میں آخری حرف "ک" ہے پھر "ل" ہے تو یہ کُلٌّ بن گیا، اَب اُلٹی سمت سے اگلا حرف "ف" ہے اور پھر "ی" اِس طرح یہ فِی بن گیا، اُس کے بعد "ف" آتا ہے پھر "ل" اور آخری حرف "ک" ہے تو فَلَکٍ ہو گیا، چنانچہ اُلٹی ترتیب سے بھی کُلٌّ فِی فَلَکٍ ہی بنتا ہے۔ یہی سیارگان کی سیدھی حرکت ہے اور اِنہی لفظوں میں اُن کی اُلٹی حرکت بھی مذکور ہے۔
پانچویں شہادت ۔ ۔ ۔ ’واقعۂ تسخیرِ ماہتاب اور قرآن‘
اِس ضمن میں ایک اور شہادت تسخیر ماہتاب کے واقعہ سے متعلق ہے۔ جولائی ۱۹۶۹ء میں امریکہ کے خلائی تحقیقاتی اِدارے ’ناسا‘ ( National Aeronautic Space Agency ) کے تحت تین سائنس دانوں کے ہاتھوں تسخیرِ ماہتاب کا عظیم تاریخی کارنامہ انجام پذیر ہوا۔ اُس واقعہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے قرآن نے چودہ سو سال پہلے اِعلان کر دیا تھا:
( وَ القَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ فَمَا لَهُم لَا یُؤمِنُونَ ) (الانشقاق، ۸۴:۱۸۔۲۰)
اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے O تم یقیناً طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے O تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےاِن تینوں آیات کا باہمی ربط اور سیاق و سباق یہ ہے کہ اِس سورت میں قیامت سے پہلے رُونما ہونے والے حادثات اور واقعات کا ذِکر ہے۔ مذکورہ بالا آیات سے پہلے اَجرامِ فلکی، کائناتی نظام اور بالخصوص نظامِ شمسی کے اہم پہلوؤں کا بیان ہے۔ اِسی طرح اِس میں کائنات کے اہم تغیرات کا بھی ذِکر ہے۔ پھر مختلف قسمیں کھائی گئی ہیں، کبھی شفق کی اور کبھی رات کی، تیسری قسم چاند کی ہے۔ اُس کے بعد اِرشاد فرمایا گیا کہ تم یقینا ایک طبق سے دُوسرے طبق تک پہنچو گے، یعنی تم طبق در طبق پرواز کرو گے۔
اَب اِن آیات پر دوبارہ غور فرمایئے:
( وَ القَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ) (الانشقاق، ۸۴:۱۸)
اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دِکھائی دیتا ہے( لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ ) (الانشقاق، ۸۴:۱۹)
تم یقینا طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے( فَمَا لَهُم لَا یُؤمِنُونَ ) (الانشقاق، ۸۴:۲۰)
تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےقرآنِ حکیم کا انداز بیان، ربط بین الآیات اور نظم عبارت کا ایک ایک پہلو بلکہ ایک ایک حرف مستقل مفہوم، نمایاں اِفادیت اور خاص حکمت و مصلحت کا حامل ہوتا ہے۔ "( لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ ) " سے پہلے متصلاً قرآنِ حکیم کا چاند کی قسم کھانا اِس اَمر کی طرف واضح اِشارہ ہے کہ آگے بیان ہونے والی حقیقت چاند سے ہی متعلق ہو گی۔
لترکبنّ، رکب یرکب سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے کسی پر سوار ہونا۔ اِسی سے اِسمِ ظرف (مَرکَب) نکلا ہے، یعنی سوار ہونے یا بیٹھنے کی جگہ۔ گھوڑے پر سوار ہوتے وقت جس پر پاؤں رکھا جاتا ہے اُسے بھی اِسی وجہ سے رکاب کہتے ہیں۔
گویا لَتَرکَبُنَّ کا لفظ اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ اُوپر جانا کسی سواری کے ذریعے ہو گا۔ اِمام راغب اِصفہانی فرماتے ہیں:
الرّکوب: فی الأصل کون الإنسان علی ظهر حیوان، و قد یُستعمل فی السفینة ۔ (المفردات:۲۰۲)
رکوب: اصل میں اِنسان کے کسی حیوان پر سوار ہونے کو کہتے ہیں لیکن اِس کا اِستعمال جہاز پر بھی ہوتا ہے۔
لہٰذا اوّلین ترجیح کے طور پر ہم ’لَتَرکَبُنَّ‘ کے اصلی اور حقیقی معنی مراد لیں گے، مجازاً بلند ہونا مراد نہیں لیں گے۔ کیونکہ بعض اَوقات کوئی لفظ حقیقت اور مجاز دونوں معنوں پر دلالت کرتا ہے لیکن عام حالات میں جب کہ حقیقت مستعملہ ہو، معتذّرہ یا مہجورہ نہ ہو تو مجازی معنوں کی طرف اِلتفات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی اِس قدر فروغ پذیر نہ ہوئی تھیں کہ اِنسان زمین سے پرواز کر کے کسی دُوسرے طبق تک پہنچ سکے، اُس وقت تک مجازی معنوں کی بنیاد پر ہی آیت کا مفہوم بیان کیا جاتا رہا ہے کیونکہ حقیقی معنی کا اِطلاق ممکن نہ تھا لیکن آج جبکہ سائنسی ترقی کے دَور میں نہ صرف فضائی بلکہ خلائی حدُود میں بھی اِنسانی پرواز نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہو گئی ہے تو لَتَرکَبُنَّ کا اپنے حقیقی معنی پر اِطلاق بلا شک و شبہ جائز ہو گا۔
مزید برآں لَتَرکَبُنَّ میں لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ دونوں اِظہارِ مقصود میں خصوصی تاکید پیدا کر رہے ہیں۔جس سے مراد یہ ہے کہ آیتِ متذکرہ میں بیان ہونے والا واقعہ بہرصورت رُو نما ہو کر رہے گا کیونکہ یہ ترکیب مستقبل میں صدورِ فعل پر دلالت کیا کرتی ہے۔ لہٰذا یہ آیت پیشین گوئی کے اِعتبار سے ایک چیلنج کے طور پر نازِل کی گئی اور لَتَرکَبُنَّ کے اِعلان سے قبل پے در پے قسموں کا ذِکر منکرینِ قرآن کے لئے اِس چیلنج میں مزید شدت اور سنجیدگی پیدا کرنے کے لئے تھا۔ مستزاد یہ کہ لَتَرکَبُنَّ جمع کا صیغہ ہے اور صیغہ جمع عام طور پر عربی زبان میں کم از کم تین کے لئے اِستعمال ہوتا ہے جس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ لَتَرکَبُنَّ کے فاعل کم از کم تین اَفراد ہوں گے جو ایک طبق سے دُوسرے تک پرواز کر کے جائیں گے اور وہ غیرمسلم ہوں گے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ Apolo-۱۱ میں تسخیرِ ماہتاب کے لئے جانے والے مسافر تین ہی تھے اور وہ تینوں غیرمسلم تھے: نیل آرمسٹرانگ ( Neil Armstrong )، ایڈوِن بُز ( Edwin Buzz ) اور کولنز ( Collins )۔ اَب پھر اِن آیاتِ کریمہ اور اُن کی ترکیب ملاحظہ کیجئے۔
قرآن قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ "قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو جائے۔ اے بنی آدم! تم میں سے کم از کم تین اَفراد پرواز کریں گے"۔ کہاں سے کہاں تک۔ ۔ ۔ "طَبَقًا عَن طَبَقٍ" ایک طبق سے دُوسرے طبق تک۔ پہلا طبق تو یقیناً زمین ہے کیونکہ مخاطب اہلِ زمین تھے جو کسی دُوسرے طبق تک جائیں گے۔ دُوسرے طبق کا تعین بھی حکیمانہ انداز میں کیا گیا۔ اگر یہاں دُوسرے طبق کے لفظ کی بجائے سیدھا چاند ہی کہہ دیا جاتا تو پھر تسخیرِ کائنات کی مہم صرف طبقِ مہتاب تک ہی محدود و محصور تصور کی جاتی۔ ربِ ذوالجلال کو یہ منظور نہ تھا کہ انسان کی پرواز زمین کے بعد چاند پر جا کر رک جائے بلکہ وہ چاند کے بعد دیگر اَجرامِ فلکی کی تسخیر بھی چاہتا تھا۔ اِسی لئے لفظ طَبَقٍ کو تنوین کے ساتھ عام کر دیا تاکہ یکے بعد دیگرے اِنسان اَجرام و طبقاتِ کائنات کو تسخیر کرتا چلا جائے اور رازِ کائنات فاش کرنے کی مہم جاری رہ سکے۔ لیکن پہلا طبق جس پر اوّلاً اِنسان پہنچے گا وہ چاند ہو گا۔ اِس لئے اُس کی قسم پہلے کھائی گئی کیونکہ زمین کے سب سے زیادہ قریب چاند ہی کا طبق تھا اور باقی سب اُس کے مقابلے میں دُور تھے۔ آج سے چودہ سو سال قبل اہلِ زمین کو یہ پیشینگوئی سنائی گئی کہ تم میں سے کم از کم تین شخص کسی چیز پر سوار ہو کر پرواز کریں گے اور زمین کے طبق سے چاند تک پہنچیں گے، لیکن تسخیرِ مہتاب کے بعد اِنسان کی تگ و دَو ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ جاری رہے گی۔ اَب اِسی طرح مریخ کے طبق تک بھی اِنسان رسائی حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اِنسانی پرواز کی یہ کامیاب کاوِشیں دراصل واقعۂ معراج کی صحت و حقانیت پر رَوشن مادّی دلیلیں بنتی جا رہی ہیں۔ بقول اِقبال:
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردُوں
اور یہ حقیقت بھی ہے کہ معجزات و کرامات جن کے اِمکان و وقوع کو انسانی عقل منطقی پیمانوں پر سمجھنے سے قاصر تھی، سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ نے کسی حد تک اُن کے سمجھنے کی مادّی اور عقلی بنیادیں فراہم کر دی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر منکشف ہوتا جا رہا ہے کہ انسان جسے ایک دَور میں ناممکن سمجھتا ہے وہ مستقبل میں نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہو جاتا ہے۔ اِس لئے نام نہاد تعقل پسند طبقے کے اِنکارِ خوارق کی یہ دلیل کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے اور سمجھ میں نہیں آتی قابلِ اِلتفات نہیں رہتی کیونکہ عقل کا اِنحصار صرف محسوسات و مشاہدات پر ہوتا ہے اور جب تک کوئی حقیقت محسوس نہ ہو یا اُس کی کوئی مثل مشاہدے میں نہ آئی ہو، عقل اُس کے اِمکان کو کیونکر سمجھ سکتی ہے! اِس لئے عقل کا فیصلہ جزئی و اِضافی ہوتا ہے، وہ کلی و مطلق نہیں ہو سکتا۔ جبکہ قرآن کا ہر دعویٰ ابدی ہے، اِس لئے عین ممکن ہے کہ اِنسانی عقل قرآن کے بعض دیگر دعاویٰ و اِعلانات کو آج ممکن نہ سمجھے لیکن مستقبل کے کسی دَور میں وہ سب کچھ ممکن اور واقع نظر آنے لگے۔ لہٰذا محض عقل کے قصورِ فہم کی بنا پر کسی حقیقت کا اِنکار کر دینا نادانی ہے، عافیت اِیمان بالغیب میں ہی ہے۔ (’اثباتِ معجزہ اور جدید سائنسی تحقیقات‘ پر سیر حاصل مطالعہ کے لئے سیرتُ الرسول کی جلد نہم ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔)
مزید برآں تسخیرِ ماہتاب کی متذکرہ بالا قرانی تعبیر کی نسبت یہ خیال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ Apollo-۱۱ کے سفر میں تین امریکی سائنسدانوں میں سے صرف دو چاند کی سطح پر اُترے تھے اور تیسرا شخص کمانڈ ماڈل میں بیٹھا کسی مصنوعی سیارے کی طرح چاند کے گرد گھومتا رہا تھا تاکہ بعد اَزاں گاڑی کے چاند پر اُترنے والے حصے ( lunar model ) کو ساتھ ملا کر واپس لا سکے، لہٰذا لَتَرکَبُنَّ کا اِطلاق تین اَفراد پر کیسے ہو گیا؟ ایسا خیال دراصل غور و فکر نہ کرنے کے باعث پیدا ہو گا کیونکہ اِس آیتِ کریمہ میں بات چاند کی سطح پر اُترنے کی نہیں بلکہ چاند کے طبق تک پہنچنے کی ہو رہی ہے اور یہی( لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ ) کے اَلفاظ سے مستفاد ہے۔ اُس طبق (چاند) تک تو تین ہی اَفراد پہنچے تھے۔ اُن میں سے ایک جس کا نام کولنز ( Collins ) تھا کمانڈ ماڈل میں بیٹھا چاند کے گرد گھومتا رہا اور باقی دونوں اُس کی سطح پر اُتر گئے تھے۔ طبق محض کسی سیارے کی سطح ( soil surface ) کو نہیں کہتے بلکہ کسی سیارے اور اُس کے گرد فضائی حدود پر مشتمل اُس وسیع و عریض حلقے کو کہتے ہیں جہاں تک اُس سیارے کی کششِ ثقل ( gravitational force ) اثرانداز ہوتی ہے اور یہ علاقہ یا طبق سیارے کی سطح کے گرد فضا میں ہزاروں میل تک محیط ہوتا ہے۔ جس طرح ہوائی جہاز کی پرواز زمین کی سطح پر نہیں بلکہ اس سے اوپر فضا میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر ہوتی ہے لیکن طبق ارضی میں ہی تصور کی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن بھی طبق ارضی سے پرواز کر کے انسان کے دیگر طبقات فلکی تک پہنچنے کی پیشگوئی کر رہا ہے۔ انسان کی ایسی کامیابیوں کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کائنات کے اندر یعنی آسمانوں اور زمین کی وسعتوں میں جو کچھ موجود ہے وہ اِنسان کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور انسان ہی کے لئے مسخر کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
( وَ سَخَّرَ لَکُم مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الاَرضِ جَمِیعًا مِّنهُ ) ۔ (الجاثیہ، ۴۵:۱۳)
اور اُس (ﷲ) نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔
اس کے بعد سورۂ اِنشقاق کی زیر مطالعہ آیت سے آگے فرمایا گیا:
( فَمَا لَهُم لَا یُؤمِنُونَ ) (الانشقاق، ۸۴:۲۰)
تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےاَے فرزندانِ آدم! تم میں سے کچھ اَفراد زمین سے اُٹھ کر چاند کے طبق تک پہنچیں گے، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے اِس دعویٰ کے پورا ہو جانے اور اُس طبق پر بھی ہماری قدرت کا نظام دیکھ لینے کے باوُجود اِیمان نہیں لائیں گے۔ ایمان نہ لانے کا ذِکر اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تسخیرِ ماہتاب کی مہم غیرمسلموں کے ہاتھ سے سر ہو گی۔ دُنیا نے دیکھا کہ تین غیرمسلم سائنسدان چاند تک پہنچے، وہاں بھی تخلیقِ خداوندی کے مناظر دیکھے، اُس کے نظامِ قدرت کا مشاہدہ کیا لیکن قرآنی دعویٰ کے عین مطابق اُن کی قوم قرآن کی حقانیت پر اِیمان نہ لائی۔
تسخیرِ کائنات کے مذکورہ بالا قرآنی بیان کے حوالے سے ایک غیر مسلم فرانسیسی سکالر Maurice Bucaille نے اپنی کتاب The Bible, the Qur'an and Science کے صفحہ نمبر۱۶۷ تا ۱۶۹ پر The Qur'an and Modern Science کے باب میں " The Conquest of Space " کے زیر عنوان لکھا ہے:
The Conquest of Space
From this point of view, three verses of the Qur'an should command our full attention. One expresses, without any trace of ambiguity, what man should and will achieve in this field. In the other two, God refers for the sake of the unbelievers in Makka to the surprise they would have if they were able to raise themselves up to the Heavens; He alludes to a hypothesis which will not be realized for the latter
There can be no doubt that this verse indicates the possibility men will one day achieve what we today call (perhaps rather improperly) "the conquest of space." One must note that the text of the Heavens, but also the Earth, i.e. the exploration of its depths
۱. The first of these verses is sura ۵۵, verse ۳۳: "O assembly of jinns and men, if you can penetrate regions of the heavens and the earth, then penetrate them; You will not penetrate them save with a power ."
۲. The other two verses are taken from sura ۱۵, verses ۱۴-۱۵. God is speaking of the unbelievers in Makka as the context of this passage in the sura shows: "Even if We opened unto them a gate to Heaven and they were to continue ascending therein, they would say: our sight is confused as in drunkenness. Nay, we are people bewitched ."
The above expresses astonishment at a remarkable spectacle, different from anything man could imagine
When talking of the conquest of space, therefore, we have two passages in the text of the Qur'an: one of them refers to what will one day become a reality thanks to the powers of intelligence and ingenuity God will give to man, and the other describes an event that the unbelievers in Makka will never witness, hence its character of a condition never to be realized. The event will however, be seen by others as intimated in the first verse quoted above
It describes the human reactions to the unexpected spectacle that travellers in space will see: their confused sight as in drunkenness the feeling of being bewitched . . .
This is exactly how astronauts have experienced this remarkable adventure since the first human spaceflight around the world in ۱۹۶۱. It is a completely new spectacle therefore, that presents itself to men in space and the photographs of this spectacle are well known to present-day man
چنانچہ یہ دعویٰ بجا طور پر حق ہے کہ کائنات کے اندر جو کچھ ہو چکا یا ہونے والا ہے اس کا ذکر قرآن کے اندر موجود ہے۔
الغرض دُنیا میں موجود ہر فن و صنعت جو اِنفرادی، اِجتماعی اور عالمی سطح پر اِنسانی زندگی کی بقا و دوام اور فروغ و اِرتقاء کے لئے ضروری ہے اَصلاً قرآن سے ثابت ہے۔ علوم و فنون کے حوالے سے قرآنِ مجید کی جامعیت کے بیان سے یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہو گئی کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو محض ذکر و عبادت اور اَخلاق و روحانیت کا ہی درس نہیں دیتا بلکہ دنیا میں ہر قسم کی علمی، فنی، صنعتی، سائنسی اور فوجی ترقی کی راہیں بھی کشادہ کرتا ہے تاکہ ملتِ اسلامیہ ایک ہمہ گیر ترقی پسند اُمت کے طور پر اُبھرے اور آفاقی سطح پر اِنقلاب بپا کر کے عظیم مقام حاصل کر لے کیونکہ اُس کے بغیر عالمگیر غلبۂ حق کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جس کی نشاندہی قرآن نے پیغمبرِ اِسلام (ص) کے مقصدِ بعثت کے حوالے سے فرما دی ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
( هُوَ الَّذِی اَرسَلَ رَسُولَه بِالهُدٰی وَ دینِ الحَقِّ لِیُظهِرَه عَلَی الدِّینِ کُلِّه وَ لَو کَرِهَ المُشرِکُونَ ) (الصف، ۶۱:۹)
اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسولِ معظم (ص) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اِس لئے بھیجا کہ اُس نظامِ حق کو دُنیا کے تمام نظاموں پر غالب کر دے۔ خواہ مشرک (یعنی کفر و طاغوت کے علمبردار) اُس کی مخالفت کرتے رہیںگزشتہ اَنبیائے کرام کے زمانوں میں وحی کا سلسلہ جاری تھا اور ہر ایک الہامی کتاب کا بدل اگلے زمانے میں بنی نوع اِنسان کو کسی دوسری اِلہامی کتاب یا صحیفے کی صورت میں میسر آ رہا تھا۔ اِس لئے اُن کتابوں کو اِس قدر جامع بنانے کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی کسی کتاب کو ہمیشہ کے لئے اپنی اصلی حیثیت میں باقی رہنا تھا۔ اس کے برعکس خاتم الانبیاء (ص) کے بعد نہ کوئی اور نبی یا رسول آ سکتا تھا اور نہ قران کے بعد کوئی آسمانی وحی۔ چنانچہ ضروری تھا کہ نبوت محمدی (ص)کو آفاقی، کائناتی، ابدی، کلی، حتمی، قطعی اور آخری بنانے کے لئے ہر اِعتبار سے کامل اور جامع بنایا جائے اور اِس طرح وہ کتاب جو نبی آخر الزماں (ص) پر نازِل ہوئی اُسے بھی عالمگیر اور ابدی بنانے کے لئے اِس قدر جامع کیا جائے کہ اِنسانیت کو سب کچھ اُس کتاب کے دامن سے میسر آ سکے اور کسی کو دُوسری سمت متوجہ ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔
قرآن اپنی جامعیت کا ذِکر اِس انداز میں کرتا ہے:
( یَتلُوا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً فِیهَا کُتُبٌ قَیِّمَةٌ ) (البینہ، ۹۸:۲،۳)
وہ (اُن پر) پاکیزہ اَوراقِ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیں O جن میں درُست اور مستحکم اَحکام (درج) ہیںکوئی ضرورت کی چیز جس پر اِنسانی زندگی کا اِنحصار ہو قرآن سے خارج نہیں۔ باوُجود قلتِ حجم کے اُس میں وہ تمام علوم و معارِف بیان کر دیئے گئے ہیں، جن کا اِحصاء و اِستیفاء کوئی فرد نہیں کر سکتا تھا۔
خود قرآن اِعلان کرتا ہے:
( وَ لَو اَنَّ مَا فِی الاَرضِ مِن شَجَرَةٍ أَقلَامٌ وَّ البَحرُ یَمُدُّه مِنم بَعدِه سَبعَةُ اَبحُرٍ مَّا نَفِدَت کَلِمَاتُ ﷲ اِنَّ ﷲ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) (لقمان، ۳۱:۲۷)
اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر اُن کی سیاہی، اُس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (یعنی کلامِ اِلٰہی کی وُسعت و جامعیت کا احاطہ نہیں ہو سکے گا)، بیشک اللہ تعالی غالب حکمت والا ہےقرآنِ مجید کے اِسی اِعجازِ جامعیت اور ابدی فیضان کا ذِکر کرتے ہوئے اِمام جلالُ الدین سیوطی یہ شعر نقل کرتے ہیں:
کالبدرِ من حیث التفت رأیته
کالشّمسِ فی کبدِ السمآءِ و ضوئُها
یهدی إلی عینیک نورًا ثاقبًا
یغشی البلاد مشارقًا و مغاربًا
ترجمہ: "قرآن چودھویں رات کے چاند کی مانند ہے، تو اُسے جس طرف سے بھی دیکھے وہ تیری آنکھوں کو چمکتا ہوا نور عطا کرے گا۔ یہ قرآن آفتاب کی طرح آسمان کے وسط میں ہے لیکن اُس کی روشنی دُنیا کے مشارق و مغارب سب کو ڈھانپ رہی ہے"۔
باب دُوُم
سائنسی طریقِ کار اور تصوّرِ اِقدام و خطاء
طلوعِ اِسلام کے وقت یونانی فلسفے نے ذہنِ اِنسانی کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ یونانی سائنس اور فلسفہ کے دَور میں علم کا آغاز ذِہن سے خارِج کی طرف ہوا کرتا تھا۔ اُن کا طریقِ تحقیق اپنے ذِہن میں پہلے سے چند کلیوں کو طے کر لینے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اِستخراجی اندازِ فکر میں غور و فکر سے حاصل شدہ ایک قاعدہ کلیہ پہلے سے ذِہن میں رکھ لیا جاتا ہے، پھر ہر پیش آمدہ معاملے یا قضیئے کو اُسی پہلے قضیئے کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے اور یوں کسی عملی تجربے کے بغیر نتیجے تک پہنچنے کی سعی کی جاتی ہے۔ منطقی اِصطلاحات کی رُو سے "صغریٰ" اور "کبریٰ" کو باہم ملا کر "حدِ اوسط" کو گرا دیا جاتا ہے اور ما حاصل کو "نتیجہ" قرار دے دیا جاتا ہے۔ یونانی فلسفیوں کے نزدیک یہی نتیجہ "حقیقت" کہلاتا ہے، جس کے بُطلان کا اِمکان ہی سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ طریقِ تحقیق کجی سے خالی نہیں۔ اِس طریقِ تحقیق میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ نتیجے یا حقیقت تک رسائی کے اِس پورے عمل میں خارِج میں موجود حقائق کو کسوَٹی قرار نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نتیجہ اکثر و بیشتر خلافِ حقیقت نکلتا ہے۔ مگر اُن کے پاس چونکہ یہی طرزِ فکر تھا، اِس لئے وہ اِسی کو حقیقت سمجھتے رہے۔ یونانیوں کا سارا علم محض غیر سائنسی بنیادوں کئے جانے والے غور و فکر تک محدود رہا۔ یہی وجہ ہے کہ یونانیوں کی سائنس اور فلسفے کو جدا کرنا ناممکن کی حد تک محال ہے۔ یونانی زُعماء زیادہ تر ذِہنی قضیوں اور فکری مُوشگافیوں میں اُلجھے رہے اور عالمِ خارِج میں کسی قسم کی اِیجادات کے مُوجد ہونے کا اِعزاز حاصل نہ کر سکے۔ وہ کائناتِ رنگ و بو پر غور و خوض کر کے اِس کے راز ہائے سربستہ سے آگاہی حاصل کرنے کے شوقین ضرور تھے مگر اِس دُنیا میں کسی قسم کی تبدیلی یا عناصرِ حیات کے بہتر اِستعمال سے اُنہیں دورِ حاضر کے تناسب سے کوئی خاص دِلچسپی نہ تھی۔ بطلیموس ( Ptolemy ) کے اِنعطافِ نور کے تجربے اور فیثا غورث کے تار کی تھرتھراہٹ والے تجربے کے علاوہ موجودہ سائنس اُن کے کسی سائنسی اِنکشاف سے آگاہ نہیں۔
سائنسی طریقِ کار اور اُس کا فروغ
یونانی دَور دراصل سائنس کا نہیں فلسفے کا دَور تھا، جہاں فلسفے کی کسوَٹی پر ہی حقائق کو پرکھ کر نتائج اخذ کئے جاتے۔ یونانی سائنس کا دَور اِسی اُدھیڑ بن کے ساتھ دُنیا سے رُخصت ہوا تو سوچ اور اِظہار کے نئے پیمانے دریافت ہونے لگے اور ذہنِ اِنسانی کا زنگ اُترنے لگا۔ ذِہنِ اِنسانی پر جمی صدیوں کی گرد بارشِ رحمت میں دھُل گئی۔ تفکر کی پگڈنڈی پر سوچ کے قافلے روانہ ہوئے تو نئے نئے راستے خود بخود اہلِ اِیمان کی قدم بوسی کے لئے بڑھنے لگے اور فکرِ اِنسانی تسخیرِ کائنات اور نئے آفاق کی دریافت پر آمادہ ہوئی۔ اِسلامی تہذیب و تمدّن کا آغاز ہوا۔ لوحِ دیدہ و دِل پر نئے نئے نقش و نگار بننے لگے۔ علم، تقویٰ اور دانائی کو معیارِ فضیلت قرار دیا گیا۔ اِسلام سوچ پر پہرے نہیں بٹھاتا بلکہ نئے نئے زاویہ ہائے نگاہ سے اُمور و مسائل کے جملہ پہلوؤں پر اِظہارِ خیال کی دعوت دے کر اِمکانات کی وسیع و عریض دُنیاؤں کے دروازے کھولتا ہے۔
اِسلام کی آفاقی تعلیمات کی بنیاد ہوائی مفروضوں کی بجائے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اِس لئے قدرتی طور پر مسلمان اہلِ علم کی سوچ بھی سائنسی سوچ ٹھہری، جس سے تحقیق و جستجو کے ایک نئے درخشاں دَور کا آغاز ہوا۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے یونانی مُوشگافیوں سے جان چھڑا کر جدید سائنسی طریقِ کار سے تحقیق کرنے کی طرح ڈالی۔ اُن کے فکر کو قرآن و سنت کی اُن تعلیمات سے مہمیز ملی تھی جن میں خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب نبی(ص) کے ذریعے اپنے بندوں کو کائنات کے اَسرار و رُموز پر غور و خوض کا جا بجا حکم دیا ہے۔ چنانچہ مسلمان سائنسدانوں نے تجربی توثیق کی بنیاد ڈالی۔ اُنہوں نے واردات ( experience ) اور تجربہ ( experiment ) میں اِمتیاز کیا اور اُن کے الگ الگ دائرہ ہائے کار متعین کئے۔ تحقیق میں مشاہدے کے ساتھ ساتھ تجربہ کو بھی سائنسی تحقیقات کا جزوِ لاینفک قرار دیا۔ سائنسی طریقِ کار کے بانی معروف مسلمان سائنسدان "ابوالبرکات صبغت ﷲ بغدادی" ہیں جنہوں نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات اور اُن کے سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور و فکر کے بعد اِسلام قبول کیا تھا۔ چنانچہ آج بھی سائنسی تحقیقات میں اپنایا جانے والا طریقِ کار وُہی ہے جسے ابوالبرکات بغدادی نے اپنایا تھا۔ سائنسی طریقِ کار کو فروغ ملا تو ہر آن بدلتی ہوئی کائنات میں اِمکانات کی اَن گنت دُنیائیں ذہنِ اِنسانی کو تسخیرِ کائنات کی دعوت دینے لگیں۔
سائنس مُشاہدے اور تجربے کا دُوسرا نام ہے۔ تجربہ ہی وہ کسوَٹی ہے جو سائنسی علوم میں حقیقت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں ایک سائنسدان کو درج ذیل مراحل سے سابقہ پڑتا ہے:
-۱ تجربہ
experiment
-۲ مُشاہدہ
observation
-۳ نتیجہ
inference
-۴ حقیقت (تنظیمِ نتائج)
systemization of inference
کسی مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض ہی اِنسان کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ طے شدہ اَمر ہے کہ کسی بھی موضوع پر تحقیق کے دوران سب سے پہلے بھرپور غور و فکر کو ہی اوّلیت حاصل ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں پیش آمدہ معاملات کی جزئیات تک کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ زیر غور معاملے یا مسئلے کے متعلق سابقہ تمام سائنسدانوں کی آراء اور تجربات کی روشنی میں اُسے ہر ممکن طریقے سے پرکھا جاتا ہے اور بعد ازاں اُسے لیبارٹری میں "تجربے" کی کسوَٹی پر جانچا جاتا ہے۔ تجربے سے ماحصل مواد کا "مُشاہدہ" کرنے کے بعد اُسے "نتیجہ" کہا جاتا ہے۔ یہاں اِس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی نتیجے تک پہنچ جانے پر تحقیق و جستجو کا سفر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ بار بار تجربات کے ذریعہ نتیجے کی صداقت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہر بار وُہی نتیجہ اخذ ہونے کی صورت میں اُسے "نظریہ" قرار دے کر اُس کی وسیع پیمانے پر اِشاعت کا اِہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ہم عصر سائنسدان بھی اپنے اطمینانِ قلب کے لئے اُسے نقد و نظر کی کسوَٹی پر پرکھیں جس سے وہ نظریہ واضح اور روشن صورت میں سامنے آئے اور غلطی کا کوئی اِمکان ہی باقی نہ رہے۔ رفتہ رفتہ سائنسدان جانچنے اور پرکھنے کے بعد اُسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیتے ہیں۔
اگرچہ اِس طریقِ تحقیق میں ایک مفروضے کو بالآخر مسلّمہ نظریئے کا درجہ دے دیا جاتا ہے، تاہم سائنسی طریقِ کار میں کسی نظریہ کو حقیقت کی حتمی شکل قرار نہیں دیا جاتا۔ نئے تجربات، نئے اِنکشافات کو جنم دیتے ہیں، اِس لئے سائنس کی دُنیا میں کوئی نظریہ جامد نہیں ہوتا۔ ممکنہ تبدیلیوں کا اِمکان بہرحال موجود رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے تجربات کی روشنی میں اُسے مکمل طور پر مُستردّ کر دیا جائے۔
سائنسی تحقیقات میں اِقدام و خطاء کا تصوّر
جدید سائنس کی تمام تر تحقیقات اِقدام و خطا ( trial / error ) کے اُصول کے مطابق ہوتی ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ کل تک جو اشیاء حقائق کا درجہ رکھتی تھیں موجودہ سائنس اُنہیں کلی طور پر باطل ( rejected ) قرار دے چکی ہے اور آج جو حقائق بنی نوع اِنسان کی نظر میں غیر متبدّل ( unchanging ) اور مسلّمہ حیثیت کے حامل ہیں آنے والا کل اُنہیں بھی یکسر مُستردّ کر سکتا ہے۔ یہ روِشِ تحقیق عقلِ انسانی کے عین مطابق ہے۔ یہ مقام قطعاً جائے حیرت نہیںکہ صدیوں کے مصدّقہ حقائق باطل قرار پاتے ہیں۔ یہی اُصولِ اِرتقائے علم ہے کہ جدید اِنکشافات کی روشنی میں مسلّمہ حقائق کا از سرِ نو جائزہ لے کر اِرتقائے علم کا عمل جاری رکھا جائے۔
اَب ہم سائنسی تحقیقات اور اُس کے طریقِ کار میں مضمر اِقدام و خطا اور اُس کے اَسباب کا تصوّر واضح کرنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔
نظامِ شمسی پر تحقیقات
اِس کرۂ ارضی پر اِنسانی زِندگی کے آغاز ہی سے نظامِ شمسی اِنسان کی نگاہوں کا مرکز و محور بنا رہا ہے اور اُس کے جذبۂ تحقیق و جستجو کو اِمکانات کی نِت نئی دُنیاؤں کی طرف راغب کرتا رہا ہے۔ تاریخِ اِرتقائے تہذیب ِنسلِ اِنسانی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم دَور کا اِنسان بھی آج کے ترقی یافتہ اِنسان کی طرح اَجرامِ سماوی کی کرید میں خصوصی دِلچسپی لیتا رہا ہے۔ ذیل میں ہم نظامِ شمسی سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے مختلف اَدوار میں پنپنے والے اَفکار و نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔
۱۔ بنی نوعِ اِنسان کا اوّلیں نظریہ
معلوم تاریخِ اِنسانی کے مطابق تہذیبِ اِنسانی اِبتداءً دجلہ و فرات کے دوآبے ( Mesopotamia ) اور مصر ( Egypt ) میں پروان چڑھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قدیم اِنسانی معاشروں کے لوگ مظاہرِ فطرت کی پرستش کرتے تھے۔ اُن میں سمیری ( Sumerians )، کلدانی، بابلی ( Babylonians ) اور مصری ( Egyptians ) اَقوام کا ذِکر ملتا ہے۔ وہ لوگ سورج اور چاند، ستاروں کی حرکات پر غور کرتے، اُن کے طلوع و غروب کا مُشاہدہ کرتے اور جب اُن کی عقل اِس سارے نظامِ فطرت کو سمجھنے سے عاجز آ جاتی تو وہ اُنہی مظاہرِ فطرت کو دیوتا کا درجہ دے کر اُن کی پوجا شروع کر دیتے۔
اُن قدیم اَقوام کا نظریہ تھا کہ زمین ساکن ہے جبکہ تمام اَجرامِ سماوی زمین کے گرد گردِش کرتے ہیں۔ سورج کے طلوع و غروب سے سادہ ذِہن یہی نتیجہ اخذ کر سکتا تھا کہ سورج کی زمین کے گرد گردِش سے دِن رات پیدا ہوتے ہیں۔
۲۔ فیثا غورث کا نظریہ
فیثا غورث وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سورج ساکن ہے جبکہ زمین اُس کے گرد حرکت کرتی ہے۔ یونان ( Greece ) میں اپنی قائم کردہ اکیڈمی میں وہ اپنے شاگردوں کو سکونِ شمس اور حرکتِ زمین کے اِسی نظریہ کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ تقریباً ایک سو سال تک اُس کے شاگرد اور پیروکار اِسی نظریئے پر کاربند رہے، جس کے بعد رفتہ رفتہ یہ نظریہ تاریخ کے جھروکوں میں کھو گیا۔
۳۔ بطلیموس ( Ptolemy ) کا نظریہ
فیثاغورث کے بعد بطلیموس ( Ptolemy ) نے دوبارہ زمین کے ساکن ہونے اور اَجرامِ فلکی کے اُس کے محوِگردِش ہونے کا نظریہ پیش کیا، جسے پورے یونان میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور زمین کے ساکن ہونے کے نظریئے کو مِن و عن تسلیم کر لیا گیا۔ درحقیقت یہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا، بطلیموس نے ارسطو ( Aristotle ) ہی کے نظریئے کو فروغ دیا تھا۔ بطلیموس نے اِس نظریہ کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی اور زمین کے گرد سیارگانِ فلکی کی گردِش سے لوگوں کو عملی سطح پر رُوشناس کرایا، اِسی وجہ سے یہ نظریہ بطلیموس کے نام سے منسوب ہوتا چلا گیا۔ اُس نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب "المجسطی" ( Almagest ) میں قرائن و براہین کے ساتھ اِس نظریہ کی توضیح و تشریح کی۔ بطلیموس کا کہنا ہے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور تمام سیارگانِ سماوی اِس مرکزِ کائنات کے گرد محوِ گردش ہیں۔ تاہم وہ اپنے مداروں ( orbits ) میں واقع کسی اَن دیکھی طاقت کے گرد بھی گھوم رہے ہیں۔
آج کے دَور میں ہم اِس نظریئے کی وضاحت یوں کر سکتے ہیں کہ بطلیموس کے نزدیک تمام سیاروں کا معاملہ چاند کی مِثل تھا، جو ایک لحاظ سے سورج کے گرد گردِش کر رہا ہے جبکہ اُس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مختصر سے دائرے کی صورت میں زمین کے گرد بھی محوِ گردش ہے۔ بالکل اِسی طرح بطلیموس کے خیال کے مطابق تمام سیارے زمین کے گرد گردش کے علاوہ اپنے اپنے مدار میں موجود کسی اَن دیکھی قوّت کے گرد بھی چھوٹے چھوٹے دائروں میں گردِش کر رہے ہیں۔
اِس نظریئے میں زمین کے گرد واقع بڑے مداروں، اَن دیکھی طاقت کے گرد چھوٹے مداروں اور سیاروں کی حرکات میں باہم نسبت کی صحیح پیمائش کے دوران بہت سی بے قاعدگیاں سامنے آئیں، تاہم یہ نظریہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں خاصا مقبول رہا اور عیسائی مذہب کے حصے کے طور پر متعارف رہا۔
۴۔ قالی ( Arzachel ) کا نظریہ
اِسلام ہر شعبۂ زِندگی میں اِنقلاب آفریں تبدیلیوں کا پیامبر بنا۔ فاران کی چوٹیوں پر نورِ ہدایت چمکا تو فرسودگی کا ہر نشان مٹ گیا۔ سوچ اور اِظہار کے نئے نئے دروازے وَا ہوئے، فرد کے اندر کی کائنات (أنفس) کے ساتھ فرد کے خارِج کی دُنیا (آفاق) کی تسخیر کا آغاز بھی ہوا۔ خود اللہ کی آخری کتاب سائنسی حوالوں کی معتبر ترین دستاویز ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے علومِ جدیدہ کی بنیاد رکھتے ہوئے سائنٹیفک سوچ کے دروازوں پر پڑے قُفل توڑے اور ذِہنِ جدید کو کشادگی اور وُسعت کے جواہر سے آراستہ کیا۔ اِسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اِسحق اِبراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی ( Arzachel ) نے بطلیموس کے مذکورہ بالا نظریئے کا مضبوط دلائل اور مصدّقہ شواہد کے ساتھ ردّ کر کے دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بطلیموسی نظام تقریباً ایک ہزار سال سے مسلّمہ حقائق کے طور پر پوری دُنیا میں تسلیم کیا جا رہا تھا۔ صدیوں سے ذِہنوں میں راسخ غلط نظریات کو یکسر بدل کر رکھ دینا یقیناً ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ زرقالی نے ۱۰۸۰ء میں سورج اور زمین دونوں کے محوِ حرکت ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اِس تھیوری کے مطابق سورج اور زمین دونوں میں سے کوئی بھی مرکزِ کائنات نہیں اور زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ اِس نظریئے میں بعد میں آنے والے کوپرنیکس ( Copernicus ) کے نظریہ کی طرح گنجلک پن بھی نہیں ہے۔ زرقالی کے نزدیک سورج کے گرد تمام سیارے بیضوی مدار ( elliptic orbits ) میں گردِش کرتے ہیں۔
زرقالی کا یہ نظریہ فطرت سے قریب ترین ہے اور یہ سچائی کی دریافت کے سفر میں ایک خوشگوار پیش رفت تھی۔ اِقدام و خطاء کا سلسلہ یہاں بھی آ کر تھما نہیں اور تحقیق کا سفر جاری رہا۔ عالمِ اِسلام تو گیارہویں صدی عیسوی کے اَوائل ہی میں بطلیموس کے غیرفطری نظریئے کو مستردّ کر چکا تھا مگر یورپ۔ ۔ ۔ جسے آج اپنی روشن خیالی پر ناز ہے۔ ۔ ۔ نے سولہویں صدی تک اِس فرسودہ نظریئے کو اپنے مذہب کی اَساس بنائے رکھا اور اِس نظریئے کو عیسائی مذہب کے ایک بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل رہی۔
۵۔ کوپرنیکس ( Copernicus ) کا نظریہ
کوپرنیکس ( Copernicus) (۱۴۷۳ ء تا ۱۵۴۳ء) زرخیز ذِہن کا مالک سائنسدان تھا۔ اُس نے سولہویں صدی کے آغاز میں بطلیموس نظریئے کی خرافات پر سے پردہ اُٹھایا اور اہلِ یورپ کو اس نظریئے کی فرسودگی سے آگاہ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اِس کرۂ ارضی سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ کوپرنیکس کے اِن سائنسی اِنکشافات کے بعد اہلِ یورپ کی سوچ کے جامد سمندر میں اِرتعاش پیدا ہوا اور ذہنِ جدید کے قفل ٹوٹنے لگے اور مغربی دُنیا کو حقیقت تک رسائی کا راستہ دِکھائی دینے لگا۔ یہ ایک بہت بڑا اِنقلابی قدم تھا، عیسائی دُنیا اِسے آسانی سے اپنی سوچ کا محور نہیں بنا سکتی تھی۔ بطلیموسی نظریئے سے سرِمُو اِنحراف بھی عیسائی دُنیا کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ اُسے اپنے مذہب کا لازمی جزو قرار دے چکے تھے اور مذہبی عقائد سے اِنحراف کا راستہ نکالنا اُس وقت ناممکن تھا۔
۶۔کو براہی ( Tycho Brahe ) کا نظریہ
سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں ٹیکوبراہی ( Tycho Brahe ) نامی سائنسدان نے کو پرنیکس کے نظریئے کو مُسترد کرتے ہوئے ایک عجیب وغریب تھیوری پیش کی۔ اُس کے مطابق سورج اور چاند دونوں زمین کے گرد محوِ گردش ہیں جبکہ باقی پانچوں سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج اپنے گرد گھومنے والے پانچ سیاروں سمیت زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ اِس تھیوری نے سائنسدانوں کو ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال سے دوچار کر دیا۔ بہرحال کوپرنیکس کا نظریہ سائنس کی دُنیا میں اِن عجیب و غریب نئے اَفکار کی مٹی میں دفن ہو کر رہ گیا اور سولہویں صدی کے اِختتام تک مغربی سائنس کی تحقیقات ایک بار پھر خطا کی طرف پیش قدمی کرتے دِکھائی دینے لگیں۔
ٹیکوبراہی ( Tycho Brahe ) کے پیش کردہ اِس نظریئے میں بطلیموس ( Ptolemy ) اور کوپرنیکس ( Copernicus ) کے نظریات کا یہ بے تکا اِجتماع ناقابلِ یقین حد تک مبہم تھا، تاہم بعد میں آنے والوں کی سوچ کی راہیں تحقیق و جستجو کے چراغوں سے منوّر ہوتی رہیں اور کیپلر ( Kepler ) تک آتے آتے حقیقت تک رسائی آسان ہوتی گئی اور راستے کے پتھر خود بخود ہٹتے رہے۔
۷۔ گیلیلیو ( Galileo ) کا نظریہ
سائنسی حقائق کی تلاش کا سفر جاری رہا۔ جستجو اور تحقیق کے دروازے کھلے رہے۔ تازہ ہوائیں ذہنِ اِنسانی کو کشادگی اور تازگی عطا کرتی رہیں۔ اِٹلی کے مشہورِ زمانہ ہیئت دان گیلیلیو ( Galileo ) نے ۱۶۰۹ء میں دُوربین اِیجاد کرنے کے بعد جب کائنات کا مشاہدہ کیا تو اُسے کائنات میں عجائبات کی ایک دُنیا آباد نظر آئی۔ ماضی کے تمام نظریات ایک ایک کر کے باطل ہونے لگے۔ ٹیکوبراہی کا کیا دَھرا بھی غلط قرار پایا۔ گیلیلیو نے کوپرنیکس کے نظریئے کو قدرے درست پایا اور یوں کوپرنیکس کا نظریۂ حرکتِ زمین ایک بار پھر سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اِس حوالے سے تجربات و اِکتشافات کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔
۸۔ کیپلر ( Kepler )کا نظریہ
گیلیلیو کی توثیق کے بعد جوہانزکیپلر ( Johannes Kepler ) نے ٹیکوبراہی کی دیگر دریافتوں اور رصدگاہی آلات ( observatory ) کی مدد سے نئے سِرے سے تحقیقات کے بعد کوپرنیکس کے نظریئے کو علمی اور تجرباتی سطح پر دوبارہ زِندہ کیا۔ واضح رہے کہ کوپرنیکس کے نظریئے میں سورج کے گرد تمام سیاروں کے مداروں کو گول ( circular ) دِکھایا گیا تھا۔ کیپلر نے اِس نظریئے کو ردّ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مدار بیضوی ( alliptic ) ہیں اور یوں کوپرنیکس کی تھیوری میں واقع سُقم کو دُور کیا۔ اِسی سُقم کی وجہ سے یہ نظریہ ایک عرصہ تک نظرانداز کیا جاتا رہا تھا۔ اِس سُقم کے دُور ہوتے ہی اُسے دوبارہ پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ بالکل وُہی نظریہ ہے جو ۱۰۸۰ء میں قرطبہ ( Cordoba ) کے مسلمان سائنسدان زرقالی ( Arzachel ) نے پیش کیا تھا۔
۹۔ نیوٹن ( Newton ) کا نظریہ
اِنسان تسخیرِ کائنات کی راہوں پر گامزن رہا، قدم قدم پر نئے نئے اِنکشاف منظرِ عام پر آتے رہے، سترھویں صدی کے وسط میں سر آئزک نیوٹن ( Sir Isaac Newton ) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ نیوٹن نے باقی ساری کائنات کو بھی مجموعی طور پر ناقابلِ تبدیل ( unchanging ) قرار دیا۔
۱۰۔ آئن سٹائن ( Einstein ) کا نظریہ
اَفکار و نظریات میں تبدیلیاں رُونما ہوتی رہیں۔ سفرِ اِرتقاء کے کئی مزید مراحل طے ہو چکے تھے۔ بیسویں صدی نت نئی اِیجادات کی صدی ہے۔ اِسی صدی کے مشہورِ زمانہ یہودیٔ النسل سائنسدان البرٹ آئن سٹائن( Albert Einstein ) نے برسوں کی تحقیق اور عرق ریزی کے بعد اپنا نظریۂ اِضافیت ( Theory of Relativity ) پیش کیا۔ اِس تھیوری کی رُو سے تمام اَجرامِ سماوی (خواہ وہ ستارے ہوں یا سیارے) گردش میں ہیں۔ علمی حلقوں نے اِس نظریئے کو سندِ قبولیت عطا کی اور یوں مسلم سائنسدان زرقالی کی پیش کردہ نظریاتی بنیادیں نکھر کر سامنے آگئیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ حقیقت کے قریب ترین ہے اور اِسے( کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسبَحُونَ ) (یسین،۳۶:۴۰) اور( وَ السَّمَآءَ بَنَینٰهَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَه لَمُوسِعُونَ ) (الذاریات،۵۱:۴۷)کی صورت میں تائیدِ ایزدی بھی حاصل ہے۔ تاہم اِس نظریئے میں بھی جزوی طور پر کئی ایک اِصلاحات اور تبدیلیاں ممکن ہیں کیونکہ اِنسانی کاوِش حرفِ آخر نہیں ہوتی، اُس میں اِصلاح و ترمیم اور اِضافے کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔
سائنسی تحقیقات کی بنیاد۔ ۔ ۔ اِقدام و خطاء
ہم نے مختلف اَدوار میں سامنے آنے والے مختلف سائنسدانوں کے اَفکار و نظریات کی روشنی میں سائنسی تحقیقات میں پیش آمدہ اِقدام و خطاء ( trial / error ) کے تصوّر کو واضح کرنے کی سعی کی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ زندگی کے ہر گوشے اور سائنس کے ہر شعبے میں مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اِقدام و خطاء کا تسلسل بھی جاری رہا اور ہے۔ عین ممکن ہے کہ آگے چل کر کوئی سائنسدان اپنے تجربات اور جدید تحقیق کی روشنی میں دوبارہ خطاء کی طرف پیش قدمی کرے اور آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کو۔ ۔ ۔ جسے آج مستند اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔ ۔ ۔ کلیتاً مستردّ کر کے نئی تھیوری پیش کرے جو سابقہ تمام نظریات سے یکسر مختلف ہو۔
سائنسی علوم کا اندازِ تحقیق (یعنی تصوّرِ اِقدام و خطائ) کو جان لینے کے بعد قرآنی علوم کی حتمیت و قطعیت پر ہمارا اِیمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اِنسانی اِستعداد زائیدہ سائنسی علوم ﷲ ربُّ العزت کی نازِل کردہ آخری وحی کے مقابلے میں ذرّہ بھی حیثیت نہیں رکھتے، اور اصل حقیقت اور ہمارے عقائد و نظریات کا منبع صرف اور صرف قرآن و سنت کی تعلیمات ہی ہو سکتی ہیں، کیونکہ سائنسی علوم کسی بھی نئی پیش آمدہ تحقیق کے بعد اپنے بنیادی نظریات سے منحرف ہو سکتے ہیں۔
باب سوُم
سائنسی علوم کی بنیادی اَقسام اور اُن کا محدُود دائرۂ کار
نظم اور توازُن کے بغیر اِس معاشرے کی سب سے چھوٹی اِکائی یعنی خاندان کا نظام چلانا بھی ممکن نہیں ہوتا، ہرآن تغیر پذیر کائنات تو بڑی وسیع و عریض چیز ہے۔ اِنسانی عقل و شعور اِس کی حدبندی سے بھی قاصر ہے۔ نظم و توازن کے بغیر ماہ و نجوم اور سیارگانِ فلکی کی گردِش اور پھر مسلسل ربط، عظیم کائناتی ضوابط کی پابندی ہی سے ممکن ہے۔ یہ نظم توازُنِ کائنات کا حسن بھی ہے اور یہی نظم اور توازُن فرد کے اندر اور باہر کی دُنیا کو بھی رعنائیوں کامرقع بنا دیتا ہے۔ اِسی طرح فطرت کے مقاصد کی نگہبانی اُسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب تمام جاندار اور غیرجاندار مخلوقات اپنے خالق و مالک کے اَحکامات کی پابندی کریں۔ اِس وسیع و عریض کائناتِ رنگ و بو کے سائنسی مطالعہ سے قدم قدم پر اِنکشافات کی نئی دُنیائیں آباد نظر آتی ہیں اور اَجرامِ فلکی سختی سے قوانینِ فطرت کی پابندی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اِنکشاف ذِہنِ اِنسانی پر اَحکاماتِ خداوندی کی پابندی کے کئی بند دروازے کھولتا ہے کہ جب یہ غیرجاندار مخلوقات ستارے، سیارے،چاند، سورج اور کہکشائیں، سب اپنے خالق کے اَحکامات پر عمل پیرا ہیں تو پھر اِنسان کیوں نہ اپنے خالق کے اَحکامات بجا لائے۔ وہ تو اَشرفُ المخلوقات ہے اور اُسے تو اِس کائنات کی تسخیر کی ترغیب بھی خود خالقِ کائنات نے دی ہے۔ تسخیرِکائنات کے اِسی شعور سے جدید علوم جنم لیتے ہیں۔ ذِہنی اور فکری اِرتقاء کی منزلیں طے ہوتی ہیں اور قوانینِ فطرت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اِنسان کائنات میں جاری اُن قوانین اور ضابطوں کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور اَخذکردہ نتائج اور شعورِ نَو کی مدد سے معرفتِ اِلٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ فطرت کے اِس عظیم نظام کے فہم و اِدراک اور اُس کی عملی زندگی میں توجیہات و تفہیمات کی بنیاد رکھتا ہے۔ چنانچہ قدرتی طور پر اُس کے ذِہن پر کشادہ راستے کھلتے جاتے ہیں اور یوں علومِ جدید کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے لیکن اِنسانی قوّتِ مشاہدہ پر کامل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی بتاتی ہے کہ جدید تحقیق کے ساتھ ساتھ سابقہ نظریات کی بنیادیں تک بدلتی رہتی ہیں۔ اس کا طرزِ اِستدلال بھی بدلتا رہتا ہے۔ یہ اِنسانی علوم کا اپنا ایک انداز ہے جو اِنسانی عقل و دانش کے اُصولوں کے عین مطابق ہے۔ بہرحال علومِ اِنسانی کا دائرۂ کار اور اُس کی تمام تر تگ و دَو فطرت کے محض چند رُموز و اَسرار سے آگاہی تک ہی محدود ہے۔
سائنسی طرزِ فکر اِختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ اِنسان فطرت سے متعلق علوم میں مقدور بھر دسترس رکھنے اور حقائق کو قوانینِ فطرت کی کسوٹی پر پرکھ کر کسی حد تک ضمنی نتائج اَخذ کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور فرسودگی کا زنگ رفتہ رفتہ اُس کے ذِہن سے اُترنے لگا ہے، لیکن اِس کے برعکس وہ مافوق الفطرت واقعات کی ماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ مافوق الفطرت واقعات کے پس منظر اور پیش منظر کی تفہیم اُس کے حیطۂ شعور سے باہر ہے۔ مثلاً عالمِ اَنفس سے متعلق علم ’حیاتیات‘ ( biology ) ہمیں جسم کی ساخت، اُس کے اندر پیدا ہونے والی اچھی یا بری تبدیلیوں ، اُس کے لئے مفید اور ضرر رساں اشیاء اور اُس کی مکمل دیکھ بھال وغیرہ کا طریقہ بتاتا ہے اور اِنسان بیماری کی صورت میں اُس کے علاج معالجے کا شعور بھی رکھتا ہے، لیکن اِس کے برعکس یہ علم وجہِ تخلیقِ اِنسانی سے بے خبر ہے۔ اِنسان کی عاقبت کیا ہو گی؟ اِس سلسلے میں اُسے کچھ معلوم نہیں۔ اچھے یا برے اَعمال کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ وہ اِس قسم کے دیگر سوالوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اِسی طرح عالمِ آفاق کی تخلیق و توسیع سے متعلقہ علم ’تخلیقیات‘ ( cosmology ) ہمیں Minute Cosmic Egg سے لے کر Big Crunch تک جملہ معلومات فراہم کرتا ہے اور تخلیقِ کائنات کے تمام مراحل اور اِنجام ِکائنات کی کئی ایک ممکنہ صورتوں کی بابت قیمتی معلومات کا ایک خزانہ بہم پہنچتا ہے، لیکن مذہب سے متعلقہ تمام معاملات مثلاً خود خالقِ کائنات، وجہِ تخلیقِ کائنات اور روزِ جزا کے قیام جیسے موضوعات کے بارے میں خاموشی اِختیار کرنے کے سِوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ خلاصۂ بحث یہ ہے کہ جیسے ایک موٹر بوٹ سمندر کے پانیوں میں سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن خشکی پر ایک قدم آگے بڑھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی، بالکل اِسی طرح سائنسی علوم بھی اپنے ایک محدود دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اللہ ربّ العزّت کی عادت کے نظام یعنی نظامِ فطرت کے رازہائے سربستہ کو پا لینے اور اُن کے اِدراک و شعور تک محدود ہیں۔ خالقِ کائنات کی قدرت کا اِظہار کیا شے ہے؟ اور مافوق الفطرت معاملات کیا ہوتے ہیں؟ اِس بارے میں جدید سائنسی علوم ہماری معلومات میں ایک لفظ کا بھی اِضافہ نہیں کر سکتے۔ سائنسی تحقیقات کے ذریعہ اِن اُمور کا سُراغ لگانا اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ مذہب کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اِس بات کی وضاحت ہم حصہ اوّل کے دُوسرے باب میں تفصیل سے کر چکے ہیں کہ ’مذہب‘ اور ’سائنس‘ دونوں کے دائرۂ کار ہی جداگانہ ہیں، لہٰذا اِن میں سے کسی ایک سے صرفِ نظر اور دُوسرے پر کلی اِعتماد کرتے ہوئے فقط اُسی کے بل بوتے پر دُوسرے کے دائرۂ کار میں آنے والے حقائق سے آگہی کیونکر ممکن ہے!
سائنسی علوم کی اَقسام
عالمِ اسلام کے نامور سائنسدان ابوالبرکات بغدادی (۱۰۶۵ء تا ۱۱۵۵ء) کا وضع کردہ سائنسی طریقِ کار مسلمانوں پر حاوی ہو جانے والی ناقابلِ بیان علمی پسماندگی کے بعد گزشتہ پانچ صدیوں سے عالمِ مغرب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سائنٹفک اَپروچ نے بنی نوعِ اِنسان کو اپنی اپنی فیلڈ میں اپنی تحقیقات کی بنیاد کے طور پر حقیقت پسندانہ طرزِ عمل اپنانے کا شعور عطا کیا ہے۔ جدید مغربی سائنس کی تمام تحقیقات اُن طبعی اور حیاتیاتی علوم پر مشتمل ہیں جن کی کسی بھی حوالے سے بنی نوع اِنسان کو ضرورت ہے۔ وہ فطری علوم جو موجودہ سائنس کے زُمرے میں آتے ہیں،اُن کے دائرۂ کار کی بآسانی تفہیم کے لئے اُنہیں درج ذیل تین بنیادی اَقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
i ۔مادّی علوم
physical sciences
ii ۔حیاتیاتی علوم
biological sciences
iii ۔ نفسیاتی علوم
psychological sciences
مادّی علوم ( Physical sciences )
یہ کائناتِ ارض و سماء مادّے کی مختلف اَشکال اور مادّے کی رنگا رنگ صورت پذیری کا دِلکش اور دِلچسپ مرقع ہے۔ مادّے کی دُنیا سے تعلق رکھنے والے تمام علوم اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ اِنہیں ہم غیرنامیاتی اَشیاء کے علوم کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ مادّی علوم میں علمِ طبیعیات ( physics )، علمِ ہیئت ( astronomy )، علمِ تخلیقیات ( cosmology )، علمِ کونیات ( cosmogony ) علمِ جغرافیہ ( geography )، علمِ کیمیاء ( chemistry )، علم آثارِ قدیمہ ( archaeology )، علمِ طبقاتُ الارض ( geology )، علمِ موسمیات ( meteorology )، علمِ ہندسہ ( geometry )، فنِ تعمیر ( architectonics )، علمِ برقیات ( electronics )، اور کمپیوٹر سائنسز وغیرہ قابلِ ذِکر ہیں۔ اِن علوم کا دائرۂ کار زِندگی اور شعور دونوں سے قطع نظر محض غیر نامیاتی کائنات تک محدُود ہے۔
حیاتیاتی علوم ( Biological sciences )
سائنسی علوم میں حیاتیاتی علوم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اِس شعبہ میں زِندگی اور اُس کی نشو و نما سے متعلق تمام علوم شامل ہیں۔ اِن علوم کے دائرۂ کار میں تمام جاندار اشیاء آ جاتی ہیں۔ اِنسانی اور حیوانی زندگی، حشرات الارض، سمندری مخلوقات اور نباتات وغیرہ اِن علوم کا موضوع ہیں۔ علمِ حیاتیات ( biology )، علمُ الجنین ( embryology )، علمِ حیوانات ( zoology )، علمِ تشریحُ الاعضاء ( anatomy )، علمُ الطب ( medical science )، علمُ الجراحت ( surgery ) اور علمِ نباتات ( botany ) وغیرہ اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ حیاتیاتی علوم فقط دُنیوی زِندگی سے بحث کرتے ہیں۔ گویا جسمانی زِندگی کے مختلف اَدوار اور مختلف مراحل تو زیر بحث آتے ہیں لیکن اِنسان کی رُوحانی زِندگی اِن علوم کا موضوع ہی نہیں۔ اِس لئے قبل اَز حیات اور بعد ممات کی زِندگی سے اِن علوم کو کوئی سروکار نہیں۔ یہ موضوعات اِن حیاتیاتی علوم کے موضوع سے خارج ہیں۔
نفسیاتی علوم ( Psychological sciences )
وہ علوم جو حیاتِ اِنسانی کی شعوری رعایت سے تشکیل پاتے ہیں نفسیاتی علوم کہلاتے ہیں۔ اِنہیں مجموعی طور پر سوشل سائنسز کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ اِنسانی رویوں سے بحث کرتے ہیں اور اس کی فکری اور نظری سمتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ نفسیاتی علوم کی مختلف شاخیں ہیں۔ مثلاً: فلسفہ ( philosophy )، اَخلاقیات ( ethics )، نفسیات ( psychology )، صحافت ( journalism )، قانون ( law )، تعلیم ( education )، زبان و اَدب ( literature )، سیاسیات ( political science )، معاشیات ( economics )، تاریخ ( histiography )، عمرانیات ( sociology ) اور تمام فنونِ لطیفہ ( fine arts ) اِسی زُمرے میں آتے ہیں۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ تمام علوم و فنون شعورِ اِنسانی پر اور اِنسان کے جبلی طرزِ عمل پر براہِ راست اَثرانداز ہو کر اُس کی شخصیت اور کردار کو صیقل یا زنگ آلود کرتے ہیں، تاہم مذہب کے زُمرے میں آنے والے تمام مافوق الفطرت علوم تک کامل رسائی اِن نفسیاتی علوم کے ذریعہ بھی ممکن نہیں۔
جدید سائنس کی سنگین خطا
آج کا ترقی یافتہ اِنسان خواہ اُس کا تعلق کسی بھی برِاعظم سے ہو، وہ شدید ذِہنی اُلجھاؤ کا شکار ہے۔ اندرونی خلفشار نے اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں اِمامتِ علم کا فریضہ سر انجام دینے والے مغربی سکالرز نے اِعتدال اور توازُن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رکھا ہے۔ مادّی اور حیاتیاتی علوم کی اِنتہاؤں کو چھونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علوم پر کما حقہ توجہ نہیں دی جا سکی۔ سائنسی علوم کے مذکورہ بالا تینوں شعبے اور اُن کی بیسیوں ذیلی شاخیں اِنسانی ماحول میں واقع فطرت کا محض بِالاَجزاء مطالعہ کرتی ہیں۔ اِس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ ایک طرف تو اِنسان حیاتیاتی علوم میں درجۂ کمال تک پہنچنے کے باعث پیچیدہ تر بیماریوں کے خلاف مسلسل جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور دُوسری طرف جدید سائنس مادّی علوم کی رِفعتوں کو چھو رہی ہے۔ جہاں ایک طرف سرجری میں بے پناہ ترقی کی گئی ہے اور نت نئی ادویات بیماریوں کے خلاف کمربستہ ہیں، وہاں دُوسری طرف آسمان کی وُسعتوں میں سِتاروں پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں اور تسخیرِ کائنات کے عزم سے نکلنے والا اِنسان چاند پر اُترنے کے بعد مریخ کے سفر کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
ایسے میں جب ہم اِس ترقی یافتہ دَور میں نفسیاتی علوم کی طرف ایک نگاہ دیکھتے ہیں تو مارے شرم کے نظر ٹِک نہیں پاتی کہ اکثر مغربی سائنس دانوں اور اَربابِ دانش کی مخصوص ذِہنیت کے سبب سے نفسیاتی علوم کا شعبہ پوری طرح پنپ نہیں سکا۔ سوشل سائنسز جو نفسِ اِنسانی سے متعلقہ علوم پر مشتمل ہیں اور جن کا تعلق براہِ راست اِنسان کی شعوری زِندگی کے ساتھ ہے، اُنہیں جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا گیا ہے اور اِس ضمن میں کوئی قابلِ ذِکر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ حیران کن اَمر یہ ہے کہ موجودہ سائنس جس کی تمام تر ترقی شعورِ اِنسانی کی بیداری کی مرہونِ منت ہے، شعوری سائنسز سے اِس درجہ بے اِعتنائی برتنے کی مُرتکب ہو رہی ہے۔ یہ امر ہمارے پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ محض مادّی اور حیاتیاتی علوم میں ترقی کے ذریعہ اِنسانیت کے جمیع مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ اِس کے ذِہنی سکون اور اِطمینانِ قلب کے لئے نفسیاتی سائنسز پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مغرب کا بے سکون معاشرہ گوشۂ عافیت کی تلاش میں ہے۔ آج کے اِنسان کی مضطرب رُوح سکون کی متلاشی ہے۔ وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہے۔ دجل، جھوٹ، فریب اُس کی گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اُس کے نفسیاتی مسائل نے اُسے مفادات کا قیدی بنا دیا ہے۔ اَخلاقی طور پر وہ دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ مغرب میں اپنی مکمل تباہی کے بعد اب مشرق میں بھی معاشرے کی بنیادی اِکائی یعنی خاندان کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو چکا ہے۔ اِنسانی معاشرے قوّتِ برداشت سے محروم ہو چکے ہیں، معاشرے معاشروں پر جنگیں مسلّط کر رہے ہیں اور اِس آفاقی معاشرے کا فرد بے جہت منزلوں کی طرف سفر رواں ہے۔ مقصدیت نام کی کسی چیز کا اُس کی زندگی میں عمل دخل نہیں رہا۔ وہ مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ثقافتی بحران کی سنگینی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی رِوایات سے اِنحراف کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر مغربی سائنسدان اور اربابِ علم و دانش سوشل سائنسز پر بھی مناسب توجہ دیتے اور محض مادّی ترقی کو ہی اِنسانی معاشروں کی فلاح کا ضامن نہ ٹھہراتے تو آج اِنسان کی سوچوں کے اندر ایک ٹھہراؤ اور وقار ہوتا۔ اِنسانی معاشرہ یوں حیوانی معاشرے کے قریب تر ہو کر اپنی اعلیٰ اَخلاقی رِوایات سے یکسر محرومی کی راہ پر گامزن نہ ہوتا۔
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مادّی اور حیاتیاتی علوم کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز کو بھی بھرپور توجہ کا مستحق سمجھا جائے اور اِنسان کو ذِہنی خلفشار اور فکری پراگندگی سے نجات دِلا کر اور اُسے مقصدِ زندگی کی بے اَنت لذّتوں سے ہمکنار کیا جائے۔ جب تک تمام مادّی، حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم میں فکری روابط کو مضبوط نہیں بنایا جاتا اُس وقت تک معاشرے معاشروں کے خلاف جنگیں بپا کرتے رہیں گے اور نسلِ اِنسانی کی وحدت اور یگانگت کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ شعوری سائنسز یا نفسیاتی علوم ذہنِ اِنسانی سے براہِ راست تعلق کی وجہ سے رُوحانی علوم یعنی مافوق الفطرت علوم سے کسی حد تک قریب چلے آتے ہیں اور اُن تک رسائی میں قدرے معاوِن ثابت ہو سکتے ہیں۔
اِنسانی علوم کی بنیادی ضرورت
اب تک کی بحث سے ہم اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اِنسانی سوچ کبھی بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ ذِہنی اِرتقاء، فکری بالیدگی، کائناتی سچائیوں کے اِدراک اور خلافِ عقل واقعات کے ظہور سے بشری علوم میں ترمیم، اِضافہ اور اِصلاح کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔ اِنسانی علوم اور نظریات حالات و واقعات اور سائنسی اِنکشافات کی روشنی میں یکسر مُستردّ بھی ہو سکتے ہیں۔ اِس لئے کہ علومِ بشری کی وحیء اِلٰہی سے مطابقت ناپید ہوتی ہے اور یہ مطابقت علومِ بشری کی بنیادی ضرورت ہے۔ اِنسانی اِستعداد پر اِنحصار کرنے والے تمام علوم میں ہم آہنگی اور اِرتباط کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے وحیء اِلٰہی سے مطابقت۔ وحیء اِلٰہی کی آخری اور حتمی صورت اِسلام کے دامنِ رحمت میں موجود ہے اور صحیفۂ اِنقلاب کی صورت میں حرف بحرف محفوظ ہے۔ قرآنِ حکیم کو تمام علوم کی بنیاد قرار دے کر اور اِس کی ایک ایک آیت کو رہنما اُصول کا درجہ مان کر اگر تمام سائنسی علوم کا ڈھانچہ اُستوار کیا جائے تو یقیناً تمام سائنسی علوم میں ہم آہنگی اور اِرتباط بھی پیدا ہو گا اور یہ ایک ہی اِکائی کو مکمل کرتے نظر آئیں گے۔ قرآنِ مجید کے اَنوار و تجلّیات سے اِکتساب نور کرنے والے یہ تمام علوم کامیاب حیاتِ اِنسانی کے لئے ایک ہی ضابطہ اور لائحۂ عمل مرتّب کرتے دِکھائی دیں گے۔
اِس ضمن میں خاص طور پر قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مادّی علوم اور اُن کی مختلف شاخیں فقط تحقیق و جستجو کی بدولت خود بخود لاشعوری طور پر قرآنی علوم سے مطابقت اِختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور قدم قدم پر آسمانی ہدایت کے ایک ایک لفظ کی توثیق ہو رہی ہے، لہٰذا شعوری سائنسز کو بھی وحدتِ نتائج کے گوہرِ مُراد کے حصول کیلئے مادّی علوم کی اِتباع میں قرآنی علوم کی مطابقت اِختیار کرنا ہو گی۔اگر دورِ حاضر کے فلاسفرز اور دانشورانِ عالم شعوری سائنسز کو بھی باقی علوم کی طرح جگر سوزی کے ساتھ پروان چڑھائیں تو کچھ بعید نہیں کہ شعوری سائنسز بھی مادّی و حیاتیاتی علوم کی طرح بنی نوع اِنسان کو اِلہامی علوم یعنی مافوق الفطرت علوم کی صداقت کی طرف لے آئیں۔
تہذیبِ مغرب کا کھوکھلا پن
قرآن کے لفظ لفظ سے سچائی کی قندیلیں روشن ہیں۔ خلاء کی وُسعتوں میں بھی اللہ ربّ العزّت کی عظمتوں اور اُس کی آخری کتابِ ہدایت کے سورج چمک رہے ہیں۔ حضور رحمتِ عالم (ص) کی زبانِ اَقدس سے نکلا ہوا ہر لفظ کائناتی سچائیوں کا اَمین بن کر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چلنے کے لئے پیکرِ دعوتِ عمل بنا ہوا ہے۔ اگرچہ دُشمنانِ اِسلام کی آنکھوں پر تعصّب کی پٹی بندھی ہوئی ہے لیکن اُن کی اپنی سائنسی تحقیقات اِسلام اور پیغمبرِ اِسلام (ص) کی حقّانیت کے پرچم بلند کر رہی ہیں اور تہذیبِ مغرب اِس بات کا دبے لفظوں میں اِعتراف کر رہی ہے کہ قرآن ایک اِلہامی کتاب ہے اور تاجدارِ کائنات (ص) اللہ کے سچے نبی ہیں۔
مغرب کی کھوکھلی تہذیب کے پاس اِن کائناتی سچائیوں کا اِعتراف کرنے کے سِوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اگر مغرب وحیء اِلٰہی کی حتمی صورت (قرآن حکیم) سے مطابقت نہ سہی فقط اپنی اِستعداد کے زائیدہ علوم میں ہی باہم اِفتراق پیدا نہ ہوتے دیتا اور تمام علوم پر یکساں توجہ دے کر اُنہیں ایک ہی مقصد اور آفاقی سچائی کے حصول کے لئے ایک ساتھ پروان چڑھاتا تو نہ صرف یہ کہ وہ خود اپنے تمام علوم کی قرآن سے یگانگت اور مطابقت کی بنا پر اِسلام کی طرف مائل ہو جاتا بلکہ اُسے ترقی کے بامِ عروج کو چھو لینے کے بعد زوال اور اِنحطاط کے موسموں کو اپنے گلے کا ہار بھی نہ بنانا پڑتا اور دانائی کی فضیلت کا تاج بدستور اُس کے وقار اور تمکنت کو برقرار رکھتا، لیکن اِس وقت صورتحال بالکل اِس کے برعکس ہے۔ تہذیب مغرب اِجتماعی خودکشی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اِنسانی معاشرے حیوانی معاشروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اِنٹرنیٹ اور جدید ذرائع اِبلاغ و مواصلات کے ذریعے زمینی فاصلوں کے سمٹنے کے باوجود ذہنی، فکری اور رُوحانی فاصلوں کی خلیج کا پاٹ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ اِنسانوں کے گلوبل ویلج نامی ہجوم میں رہتے ہوئے بھی آج کا اِنسان تنہائی کا شکار ہے۔ وہ اِس لئے کہ مادّی ترقی نے اُس کی رُوحانی دُنیا کے ہر ہر نقش کو مِٹا دیا ہے اور اُس سے سکونِ قلب کی دولت چھین کر اُسے محض اپنے مفادات کا قیدی بنا دیا ہے۔ اِس وقت عالمِ مغرب کی حالت اُس خیمے کی سی ہے جس کی چوبیں جل چکی ہوں اور طنابیں ٹوٹ رہی ہوں۔ ایسے خیمے کو زیادہ دیر تک کس طرح کھڑا رکھا جا سکتا ہے؟ وہ عمارت جس کی دیواروں کو دیمک چاٹ رہی ہو اور جس کی بنیادوں میں پانی بھرا جا رہا ہو اُسے زمین بوس ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اور وہ اپنے ہی قدموں پر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہی حالت یورپ کی تہذیب کی ہے۔ ثقافتی اور رُوحانی بحران نے اُسے اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اُس کی ساری تابندگی مصنوعی روشنیوں کا کرِشمہ ہے جو ایک روز آن کی آن میں بجھ جائیں گی۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے کہا ہے:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گ
مسلم دانش کے لئے لمحۂ فکریہ
فکرِ مغرب اِنسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ مادّی علوم کی روشنی میں ضوابطِ حیات ترتیب دینے والے معاشرے اندرونی شکست و ریخت کا شکار ہو کر رُوح کی طمانیت اور قلب کی آسودگی سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ مادّی سائنسز کی ہر نازک شاخ فطرتِ اِنسانی کا جمیع بوجھ اُٹھائے رکھنے کے ہرگز ہرگز قابل نہیں۔ زوال لمحوں کے حصارِ بے اَماں میں اُلجھا عالمِ مغرب اپنی منزل کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ آنے والا وقت اُس کی رُوحانی اور فِکری محرومیوں اور ناآسودگیوں میں مزید اِضافہ کر دے گا۔ نفسیاتی یا شعوری سائنسز کو پسِ پشت ڈال کر صرف مادّی ترقی سے اپنا ناطہ جوڑنے کا خمیازہ مغربی دُنیا کے ساتھ ساتھ پورے عالمِ اِنسانی کو بھگتنا پڑے گا، بلکہ اِس کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ جب ثقافتی رِشتے ٹوٹتے ہیں اور فطری اَقدار سے عدم اِطمینان کا جذبہ اُبھرتا ہے تو اِنسان عملاً زِندہ لاش میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ رُوح کی موت جسم کی موت سے بھیانک منظر پیش کرتی ہے۔ اندر کا آدمی مر جائے اور اپنی رِوایات سے اُس کا رشتہ کٹ جائے تو اِنسان اور حیوان میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔ درندگی اور وحشت کے پیرہن میں اِنسان شیطان کے بھی پر کاٹنے لگتا ہے۔
مغرب اپنی تمام تر مادّی ترقی اور خوشحالی کے باوجود نا آسودگی کی جس آگ میں جل رہا ہے وہ مسلم دانش کے لئے بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ آگ مسلم اُمّہ کے دامن تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ۔ ۔ بلکہ عریانی، فحاشی، بے حیائی اور بے حمیتی کے مختلف ذرائع سے یہ آگ ہمارے دروازوں پر بھی دستک دے رہی ہے۔جب کوئی بڑا محل گرتا ہے تو اُس کے پہلو میں بنی آس پاس کی جھونپڑیاں بھی اُس کے ملبے تلے دب جاتی ہیں۔ عالمِ اِسلام کے اَربابِ دانش و بصیرت کو اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ابھی سے اِجتماعی سطح پر مؤثر اور ٹھوس اِقدامات کرنا ہوں گے۔ اپنے ثقافتی اَثاثوں کو بچانے کے لئے ابھی سے بے عملی اور نظری حوالوں سے پیش بندی کرنا ہو گی۔ مسلم اُمّہ اگر اَب بھی خوابِ غفلت کا شکار رہی تو وقت اُس کے بیدار ہونے کا اِنتظار نہیں کرے گا۔ ہمیں آج ہی اپنے مقام کا تعین کرنا ہو گا اور قرآنی علوم کی مطابقت میں جدید اِسلامی سائنس کے دور کا سنگِ بنیاد رکھنا ہو گا ورنہ آنے والا علمی و ثقافتی بحران ہمارے ملّی اَثاثوں کو بھی خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا اور طوفان گزر جانے کے بعد ساحلِ سمندر پر اپنے گھروندوں کے نشان ڈھونڈنے والا بھی کوئی نہیں بچے گا۔
سائنس اور مذہب میں رابطے کی واحد صورت
اِنسان کی مادّی اور رُوحانی زِندگی میں اِعتدال اور توازُن برقرار نہ رہے تو ذہنِ اِنسانی جسمانی آسودگی اور مادّی خوشحالی کے باوجود رُوحانی نا آسودگی کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور نظری غربت و اِفلاس کا اِحساس ہر لمحہ اُس کی رُوح کو ڈستا رہتا ہے، اِس لئے کہ مادّی آسودگی کا حصول ہی سب کچھ نہیں۔ اِطمینانِ قلب کے بغیر خوشحالی اور آسودگی کا مادّی تصوّر بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ بے پناہ مادّی ترقی اور ہر طرح کی خوشحالی کے باوُجود مغرب میں خودکشی کی شرح میں خوفناک حد تک اِضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ آج مغرب کے مفکرین اِس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود اُنہیں اِس سنگین مسئلہ کا ایک ہی حل نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ مادّی ترقی کو ہدفِ تنقید بنائے بغیر رُوحانی اَقدار کے اِحیاء کے ذریعے خدا خوفی کے جذبے کو اِنسانی سوچ کا مرکز و محور بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اِسلام اِنفرادی طور پر تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ مغربی دُنیا میں یہ اِحساس تیزی سے اُبھر رہا ہے کہ اگر آج کے جدید اِنسان کو اَمن، سکون اور عافیت کی تلاش ہے تو اُسے اُس پیغمبرِ اَعظم (ص) کی دہلیز پر جھک جانا ہو گا، جس نبیٔ محتشم (ص) نے آج سے چودہ سو سال قبل اُفقِ عالم پر دائمی اَمن کی بشارتیں تحریر کر کے اِنسان کو ایک مکمل ضابطۂ حیات عطا کیا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ جس رسولِ آخر (ص) نے علم و حِکمت اور دانائی کو معیارِ فضیلت قرار دیا تھا، اُس رسولِ بر حق (ص) کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے بغیر اِنسان اپنی تخلیق کے حقیقی مقاصد کو پورا نہیں کر سکتا۔ اِکیسویں صدی ہی نہیں آنے والی ہر صدی اِسلام کی صدی ہو گی اور پیغمبرِ اِسلام کی عظمت کا پرچم بلادِ عرب سے بلادِ مغرب تک ہر اُفق پر پوری آب و تاب کے ساتھ لہرائے گا۔ اِس لئے کہ ہر زمانہ حضور(ص) کا زمانہ ہے اور ہر صدی حضور(ص) کی صدی ہے۔ دامنِ حضور(ص) سے وابستگی ہی اِنسان کی مادّی اور رُوحانی فلاح کی ضامن ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اَب مغرب میں بھی نفسیاتی علوم سے بے اِعتنائی اِختیار کرنے کے منفی رویئے کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ سوشل سائنسز شعورِ اِنسانی کے اِنتہائی قریب ہونے کی وجہ سے مافوق الفطرت علوم سے تھوڑا بہت قرب ضرور رکھتے ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ تہذیبِ اِنسانی ہر قسم کے سائنسی علوم کے ذریعہ اگرچہ مافوق الفطرت نظام اور اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کے مختلف مظاہر کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہے، تاہم نفسیاتی علوم کی مدد سے اُس کا اِقرار اور اُس کی عظمتوں کا اِعتراف کرنے کے قابل ضرور ہو سکتی ہے۔ مثلاً خالقِ کائنات کے وُجود اور اللہ ربّ العزّت کی ربوبیت کا اِقرار، روزِ محشر کے قیام پر اِیمان وغیرہ، لیکن سولہویں صدی عیسوی میں کلیسا کے ڈسے ہوئے مغربی سائنسدان اِن حوالوں سے اِجتناب برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِن علوم کے اِرتقاء کے سفر میں کوئی قابلِ ذِکر پیش رفت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ موضوعات مادّی سائنس کے دائرۂ کار میں نہیں آتے۔ چونکہ اِنسانی فہم کے زائیدہ سائنسی علوم صرف نظامِ فطرت اور عادتِ خداوندی تک رسائی کے حامل ہیں اِس لئے حیاتِ انسانی کے با مقصد کمال اور ﷲ کی وحی کے تقاضوں کی تکمیل محض اِنسانی سائنسی علوم کے بل بوتے پر ممکن نہیں۔ انسان کی دائمی فلاح اور اُخروی سعادت کا حصول صرف اور صرف اِسلام کے دامن سے متمسک ہونے سے ہی ممکن ہے۔ اِنسان کے تمام تر خود ساختہ مادّی، حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم ﷲ رب العزت کی وحدانیت اور حقیقتِ کائنات کے اِدراک سے قاصر ہیں۔ اِن تینوں شعبوں میں شامل علوم غیرنامیاتی اشیاء، نامیاتی و حیاتیاتی مخلوقات اور شعوری سطح کے حامل اِنسانی رویّوں تک آ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ مافوق الفطرت علوم کا مطالعہ سائنس کی کسی بھی شاخ کا موضوع نہیں، اِس لئے"حقیقت" تک رسائی سائنسی علوم کے بس کی بات نہیں۔
حصہ سوُم
اِسلام اور کائنات
باب اوّل
اَجرامِ فلکی کی بابت اِسلامی تعلیمات
اِس کائناتِ ہست و بود میں اللہ ربّ العزت کی تخلیق کے مظاہر ناقابلِ شمار ہیں۔ اَجرامِ سماوی اور ان مجموعہ ہائے نجوم کی ریل پیل کائنات کے حسن کو دوبالا کرتے ہوئے اُسے ایک خاص انداز میں متوازن رکھے ہوئے ہے۔ یہی توازن اِس کائنات کا حقیقی حسن ہے، جس کے باعث مادّہ ( matter ) اور ضدِ مادّہ ( antimatter ) پر مشتمل کروڑوں اربوں کہکشاؤں کے مجموعے ( clusters ) بغیر کسی حادثہ کے کائنات کے مرکز کے گرد محوِ گردش ہیں۔ ان کلسٹرز میں کہکشاؤں کا ایک عظیم سلسلہ اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے اپنے اپنے نظام پر مشتمل سیاروں کا ایک گروہ لئے کُن فَیَکُون کی تفسیر کے طور پر خالقِ کائنات کے اوّلیں حکم کی تعمیل میں محوِ سفر ہیں۔ حرکت اِس کائنات کا سب سے پہلا اُصول ہے۔ حرکت میں برکت ہے اور برکت صرف حرکت میں ہے۔ حرکت کو ہی اِس کائنات میں حقیقی دوام اور ثبات حاصل ہے۔ حرکت زندگی ہے اور سکون موت ہے۔ کائنات کو اِس موجودہ حالت میں آئے ۱۵ ارب سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ آج سے ۱۵ ارب سال پہلے دراصل بگ بینگ ( Big Bang ) رُو نما ہوا تھا جس سے کائنات کا اِبتدائی مادّہ ہر سُو بکھرا اور اُس کے نتیجے میں یہ سلسلۂ اَفلاک و اَجرام سماوی وُجود میں آیا۔ تخلیقِ کائنات کا وہ عظیم لمحہ جب سے وقت کی دَوڑ شروع ہوئی نہایت عظیم لمحہ تھا۔ کُن فَیَکُون کا راز تخلیقِ کائنات کے سائنسی راز کے کھلنے پر ہی مُنکشف ہو سکتا ہے۔ مخلوق پر غور و فکر خالق تک رسائی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے تبھی تو اپنے نیکوکاروں کے اَوصاف کے بیان میں فرمایا کہ میرے محبوب بندے وہ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے ہر حالت میں مجھے یاد کرتے ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ کائناتِ ارض و سماء کی تخلیق میں بھی غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرنے سے لامحالہ اُنہیں خالقِ کائنات کی عظمت کا اِدراک ہوتا ہے اور بات اِیمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اِیقان تک جا پہنچتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( إِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوَاتِ وَ الأَرضِ وَ اختِلَافِ الَّیلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیَاتٍ لِّأُولِی الاَلبَابِ الَّذِینَ یَذکُرُونَ اللهَ قِیَامًا وَّ قُعُودًا وَّ عَلٰی جُنُوبِهِم وَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوَاتِ وَ الأَرضِ رَبَّنَا مَا خَلَقتَ هٰذَا بَاطِلاً سُبحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ) (آل عمران، ۳:۱۹۰.۱۹۱)
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں O یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں:) "اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے"پہلی آیتِ کریمہ میں حاملینِ عقل و شعور کے لئے تخلیقِ ارض و سماوات اور اِختلافِ لیل و نہار میں بھی اللہ ربّ العزت کی بے شمار نشانیوں کا ذِکر کرنے کے بعد دُوسری آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کے اپنے حضور میں روز و شب کی طاعت گزاری اور تقویٰ کا ذِکر کیا اور اُس کے معاً بعد اُن کی دُوسری خوبی یہ بیان کی کہ وہ کائنات کی تخلیق و تشکیل میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ کی تخلیق کے رازوں پر سے پردہ اُٹھتے ہی اُس کی بارگاہ میں سجدۂ شکر بجا لانے کو پکار اُٹھتے ہیں کہ "اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا"۔
ایک طرف قرآنِ مجید میں تخلیقِ ارض و سماوات کے راز ہائے سربستہ سے پردہ اُٹھانے کا اِس قدر واضح حکم اللہ ربّ العزت کے محبوب و مکرم بندوں کے لئے موجود ہے اور دُوسری طرف دورِ حاضر کی جملہ کائناتی تحقیقات کے علمبردار بالعموم مغربی ممالک کے غیرمسلم سائنسدان ہیں۔ رہی بات مسلمانوں کی تو اُن کی علمی پسماندگی اِس نوبت کو جا پہنچی ہے کہ وہ اِس علم سے متعلقہ کوئی خبر بھی سن لیں تو اِس قرآنی علم کو غیروں کا علم قرار دے کر أستغفرُﷲ/نعوذُباللہ پڑھتے ہوئے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت کے محبوب بندوں کی صف میں شامل ہونے کے لئے اپنے ہی اَسلاف کا پروان چڑھایا ہوا علم اَغیار سے سیکھنا اور اُسے دوبارہ سے حرزِ جاں بنانا خالقِ کائنات کی حقیقی معرفت کے حصول کے لئے ایک لابدّی امر ہے۔
سرِ دست اِس باب میں ہم چند اہم اَجرامِ سماوی کا مختصر طور پر سائنسی اور قرآنی حوالوں سے تذکرہ کریں گے تاکہ قارئین پر یہ واضح ہو سکے کہ قرآنِ مجید علمِ فلکیات ( astronomy ) کے کتنے اہم راز ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے اور ہم سے علمِ فلکیات کے سلسلے میں کیا توقعات رکھتا ہے۔
ستارے ( Stars )
بھڑکتی ہوئی ہائیڈروجن ( Hydrogen ) اور ہیلئم ( Helium ) کے گولے جو ایک دُوسرے کے مابین لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ چھوڑے پوری کائنات میں ہر سُو بکھرے ہوئے ہیں۔ اُن کے اندر ہونے والی خودکار ایٹمی تابکاری ہر طرف نور بکھیرتی نظر آتی ہے۔ ستارے اپنے اندر جلنے والی گیسوں ہی کی بدولت اِس قدر روشن نظر آتے ہیں۔ جب کائنات کی اوّلین تخلیق عمل میں آئی تو بِگ بینگ کے نتیجے کے طور پر ہر سُو بکھرنے والے مواد سے گیسی مرغولوں نے جنم لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی کثافت بڑھتی چلی گئی اور وہ نسبتاً کثیف اَجسام کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے۔ گیس اور گَرد و غبار کے عظیم بادل کششِ ثقل سے اندرونی سمت سُکڑنا شروع ہو گئے جس سے ستاروں کو وُجود ملا۔ گیسی مرغولوں کے سُکڑنے کے اِس عمل میں ستاروں کے ایٹم باہم ٹکراتے اور رگڑ کھاتے رہے جس سے حرارت اور توانائی کا اِخراج شروع ہو گیا۔ جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتا چلا گیا توانائی کے اِخراج کا عمل اِسی قدر تیز ہوتا چلا گیا۔ مرکزی ایٹم شدید دباؤ کے تحت ایک دُوسرے کے قریب ہونے سے حرارت میں مزید اِضافہ ہوتا چلا گیا، یوں روشن و منوّر ستارے وُجود میں آ گئے۔
قرآنِ مجید میں ستاروں کے لئے "النُّجُوم" اور "المَصَابِیح" کا لفظ اِستعمال ہوا ہے۔ فرمایا:
( وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ مبِأَمرِه ) ۔ (الاعراف، ۷:۵۴)
اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔
سورج، چاند اور ستارے سب اللہ ربّ العزت کے تخلیق کردہ نظامِ فطرت کے یکساں پابند ہیں اور اَحکامِ خداوندی سے سرِمُو سرتابی کی جرأت نہیں کرتے۔ نظامِ فطرت ہی کی پابندی سے کائنات میں حسن ہے اور اگر یہ نظم نہ رہے تو کائنات درہم برہم ہو جائے اور قیامت چھا جائے۔ قیامت کا وُقوع بھی فی الحقیقت ایک ایسے ہی اَمر کا متقاضی ہے، جب ستارے باہمی فاصلہ برقرار رکھنے سے مُنحرف ہو جائیں گے اور اپنے مابین طے شدہ فاصلوں کو برقرار رکھنے کی بجائے منہدم ہو کر ایک دُوسرے سے جا ٹکرائیں گے۔ کششِ ثقل کا یہ توازُن جو آج جمیع کائنات کے حسن و نظم کو تھامے ہوئے ہے، بگڑے گا تو سب نیست و نابود ( annihilate ) ہو جائے گا۔
قرآنِ مجید بھی وُقوعِ قیامت کے ضمن میں ستاروں کی کششِ ثقل کا توازُن بگڑنے اور باہمی تصادُم پیش آنے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
( فَإِذَا النُّجُومُ انکَدَرَت ) (التکویر، ۸۱:۲)
اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گےستاروں میں موجود اِیندھن کے جل جل کر ختم ہو جانے پر اُن سے توانائی اور حرارت کا اِخراج ختم ہو جائے گا اور وہ بُجھ کر بے نور ہو جائیں گے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
( وَ إِذَا النُّجُومُ طُمِسَت ) (المرسلٰت، ۷۷:۸)
اور جب ستارے بے نور کر دیئے جائیں گےستاروں کا بے نور ہونا دراصل اُن کی زِندگی کا آخری مرحلہ ہے۔ یہاں ہمیں ایک ستارے کی شروع سے لے کر آخر تک مکمل زِندگی کا سمجھنا ضروری ہے۔ ستارے گیسوں سے مرکب ایسے گولے ہیں جو نیوکلیئر فیوژن سے پیدا شدہ توانائی کا اخراج کرتے ہیں۔ اُن کی پیدائش گرد اور گیس کے اُن بادلوں میں ہوتی ہے جنہیں نیبیولا ( nebula ) کہا جاتا ہے۔ نیبیولا یعنی سحابیہ دراصل کسی ستارے کی وہ اِبتدائی دُخانی حالت ( gaseous stage ) ہوتی ہے جس سے وہ تشکیل پاتا ہے۔ سحابیئے میں موجود گیس اور گرد و غبار کششِ باہمی کی وجہ سے آپس میں ٹکرا کر سکڑتے ہوئے پروٹوسٹار کو جنم دیتے ہیں۔ پروٹوسٹار کو ہم نیم ستارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی پروٹوسٹار اندرونی دباؤ کے تحت کثیف اور شدید گرم ہوتے چلے جاتے ہیں، بالآخر وہ اِتنے شدید گرم ہو جاتے ہیں کہ اُن کے اندر خودکار ایٹمی دھماکوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اَب ہم اُنہیں مکمل ستارہ کہہ سکتے ہیں۔
درمیانے درجے کے ایک ستارے کی زِندگی چند ارب سال کے قریب ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہائیڈروجن سے ہیلئم میں تبدیلی کے عمل کے ساتھ ساتھ ہیلئم بھی شدید درجۂ حرارت کی بناء پر جلنے لگتی ہے اور ہائیڈروجن اور ہیلئم کے جلنے کا یہ دُہرا عمل ستارے کو اور بھی زیادہ گرم کر دیتا ہے۔ ہیلئم کی راکھ (یعنی کاربن) ستارے کے مرکز میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب ہیلئم بڑی مِقدار میں کاربن میں تبدیل ہو جاتی ہے تو ستارہ اچانک ایک دھماکے کے ساتھ پھول جاتا ہے، وہ اپنی اصل جسامت سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اُس کا رنگ بھی سرخ ہو جاتا ہے۔ اِس حالت میں اُسے "سرخ ضخام" ( red giant ) کہتے ہیں۔ اُس کے بعد ستارہ ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے لگتا ہے۔ اگر وہ ستارہ ہمارے سورج سے دس گنا بڑھ ہو تو وہ مرنے سے قبل ایک بار پھر سپرنووا کے دھماکے کے ساتھ پھٹتا ہے مگر یہ مرحلہ کچھ زیادہ دیر باقی نہیں رہتا اور مرتے ہوئے ستارے کی آخری ہچکی ثابت ہوتا ہے۔ اَب وہ ستارہ جلد ہی سیاہ شگاف ( black hole ) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
سیاہ شگاف ( Black hole )
ستارے کی زِندگی کے دوران اُسے جن مراحل سے سابقہ پڑتا ہے اُن میں سب سے پراَسرار سیاہ شگاف ( black hole ) ہے۔ سیاہ شگاف اِتنی بے پناہ کشش کے حامل ہوتے ہیں کہ روشنی سمیت کوئی شے اُن کی کشش سے بچ نہیں پاتی۔ عام ستاروں کو ہم اِس لئے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ روشنی کا اِخراج کرتے ہیں اور ’بلیک ہول‘ سے روشنی کے ہماری سمت نہ آ سکنے کی وجہ سے وہ ہماری نظروں سے مستقلاً اوجھل ہوتے ہیں۔ اِسی لئے اُنہیں ’سیاہ شگاف‘ ( black hole ) کا نام دیا گیا ہے۔ اِس وقت ہماری کائنات کا کافی زیادہ مادّہ پہلے سے اُن سیاہ شگافوں میں کھو چکا ہے۔
’بلیک ہول‘ بڑے ستاروں کی زِندگی کے خاتمے پر روشن سپرنووا کے پھٹنے کی صورت میں رُو نما ہوتے ہیں۔ ایسے ستاروں کا کثیف مرکزہ ( dense core ) دھماکے کے بعد اپنی ہی کششِ ثقل کے باعث اندرونی اِنہدام کو جاری رکھتا ہے تآنکہ وہ سیاہ شگاف کی صورت میں فنا ہو جاتا ہے اور پھر روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔ عظیم سائنسدان ’سٹیفن ہاکنگ‘ کے مطابق کچھ ماہرینِ تخلیقیات ( cosmologists ) کا خیال ہے کہ سیاہ شگاف عظیم منہ بند سوراخ کی طرح اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے ذریعے مادّہ ہماری کائنات سے کسی اور کائنات کی طرف جا نکلتا ہے۔ سیاہ شگاف فزکس کے قوانین پر عمل کرتے دِکھائی نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ اُنہیں سمجھنا نہایت دُشوار ہے۔
اوپن ہائمر ( Oppenheimer ) کی برس ہا برس کی تحقیقات سے جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ "بلیک ہول کا مقناطیسی میدان کسی بھی مکان-زمان میں پائی جانے والی شعاعوں کا راستہ بدل دیتا ہے اور روشنی کی کرنیں سیاہ شگاف کے قریب آہستگی سے اندر کو مڑ جاتی ہیں"۔ سورج گرھن کے دوران دُور واقع ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی کے جھکاؤ میں اِس اَمر کا بخوبی مُشاہدہ کیا گیا ہے۔ جوں جوں مرتا ہوا ستارہ سُکڑتا چلا جاتا ہے اُس کا مقناطیسی میدان طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں مزید اندر کو جھکنے لگ جاتی ہیں، جس کے باعث روشنی کے لئے اُس سے فرار اِختیار کرنا دُشوار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک مرتا ہوا ستارہ اپنی اصل جسامت سے لاکھوں گنا چھوٹا ہو جاتا ہے مگر اُس کی کمیّت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اِنتہائی طاقتور ہو جاتا ہیں اور اُس کی قوتِ کشش بے پناہ بڑھ جاتی ہے۔ آخرکار جب ستارہ اپنے کم سے کم ممکنہ رد اس کی حد تک سکڑ جاتا ہے تو اُس کی سطح کے مِقناطیسی میدان میں اِتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ روشنی کے فرار کے تمام راستے مسدُود کر دیتا ہے۔ نظریۂ اِضافیت ( Theory of Relativity ) کے مطابق کوئی مادّی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ اِس لئے روشنی کے سیاہ شگاف سے نہ بچ سکنے کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے اُس سے نہیں بچ سکے گی اور اُس کا مِقناطیسی میدان اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو اپنی جانب گھسیٹ لیتا ہے۔
ہم زمین پر رہتے ہوئے یہ خیال کرنے سے قاصر ہیں کہ ہم میں سے کوئی اِنسان سیاہ شگاف کے مُشاہدے کے لئے خلائی گاڑی کی مدد سے اُڑ کر اُس کے قریب جائے اور صحیح سلامت بچ کر واپس بھی آ جائے۔ یہی وہ مقام ہے جسے بلیک ہول کہتے ہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں اِس سے قبل کوئی بڑا ستارہ موجود تھا۔
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے مرے ہوئے ستارے کے اُس مقام کی اہمیت کے پیش نظر اُس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:
( فَلَا أُقسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَ إِنَّه لَقَسَمٌ لَو تَعلَمُونَ عَظِیمٌ ) (الواقعہ،۵۶:۷۵)
پس میں ستاروں کے مقامات کی قسم کھاتا ہوں O اور اگر تم جان لو تو یہ بہت بڑی (چیز کی) قسم ہےستاروں کے مقامات جو اُن کی موت کے بعد سیاہ شگافوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، سماوی کائنات کے باب میں قواسرز ( quasars ) کے بعد سب سے زیادہ پُر اسرار ہیں، کیونکہ وہ ایسے مقام ہیں جہاں سے روشنی سمیت کوئی شے فرار نہیں ہو سکتی اور اُن کی کیفیت و ماہیت فزکس کے قوانین کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے مسلمان قارئین کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاہ شگاف کسی دُوسری کائنات کو جانے والی گزرگاہ کا کام دیتے ہیں اور اُن میں گرنے والا مادّہ مکان-زمان کے کسی اور منطقے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ دُوسری کائنات کون سی ہے؟ اور کہاں ہے؟ اُس کی ماہیت کیا ہے؟ کیا بلیک ہول سے گزرے بغیر اُس کائنات تک پہنچا جا سکتا ہے؟ یہ اور اِن جیسے بے شمار سوالوں کا جواب فزکس کے موجودہ قوانین کی رُو سے محال ہے۔ اِسی لئے اللہ ربّ العزت نے ستاروں کے اُن مقامات ’سیاہ شگافوں‘ کی قسم کھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا کہ اگر بنی نوع اِنسان کا شعور اِس قدر پختہ ہو کہ اُن بلیک ہولز کی حقیقت کو جان لے تب اُسے پتہ چلے گا کہ یہاں کتنی عظیم شے کی قسم کھائی جا رہی ہے۔ (بلیک ہولز کے بارے میں مزید مطالعہ کے لئے ’سیاہ شگاف کا نظریہ اور قرآنی صداقت‘ نامی باب کا مطالعہ کریں)
دُمدار تارے ( Comets )
ہمارے نظامِ شمسی کے اندر ۹ بڑے سیاروں، اُن کے چاندوں اور سیارچوں کے علاوہ کچھ ایسے اَجرام بھی پائے جاتے ہیں جو برس ہا برس ہماری آنکھوں سے اوجھل رہنے کے بعد اپنے مقررہ وقت پر چند روز کے لئے ظاہر ہوتے ہیں اور بعد ازاں پھر اپنے طویل مدار پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں دُمدار تاروں ( comets ) کا نام دیا جاتا ہے۔ سورج کے گرد اُن کا مدار اِنتہائی بیضوی ہوتا ہے۔ وہ برف سے بنے بڑے بڑے گولے ہوتے ہیں، عام طور پر اُنہیں ’گرد آلود برف کے گولے‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جوں جوں کوئی دُمدار تارہ سورج کے قریب آتا چلا جاتا ہے اُس کا مرکزہ بخارات پر مشتمل روشن دُم بنانے لگتا ہے، جو ہمیشہ سورج کی مخالف سمت میں چمکتی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ بعض دفعہ چند کلومیٹر قطر کے دُمدار تارے کی دُم کئی لاکھ کلومیٹرز تک طویل ہوتی ہے۔
سورۂ تکویر میں اللہ ربّ العزت نے دُمدار تارے کی اِس اہمیت کے پیشِ نظر اُس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:
( فَلَا أُقسِمُ بِالخُنَّسِ الجَوَارِ الکُنَّسِ ) (التکویر،۸۱:۱۵،۱۶)
تو میں قسم کھاتا ہوں اُن (اَجرامِ فلکی) کی جو (ظاہر ہونے کے بعد) پیچھے ہٹ جاتے ہیں O جو بلا روک ٹوک چلتے رہتے ہیں، (پھر ظاہر ہو کر) چھپ جاتے ہیںسورج سے ڈیڑھ نوری سال کی مسافت پر بہت بڑا سحابیہ سورج کے گرد محوِ گردش ہے، جسے اُوورٹ بادل ( Oort Cloud ) کہا جاتا ہے۔ سورج کی طرف آنے والے دُمدار تارے وہیں پیدا ہوتے ہیں۔ سورج سے متعلقہ سب سے معروف دُمدار تارہ ’ہیلے کا دُمدار تارہ‘ ہے، جو اپنے بہت زیادہ بیضوی مدار کی وجہ سے ہر ۷۶ سال بعد منظرِ عام پر آتا ہے۔
برطانوی ماہر فلکیات ’ایڈمنڈ ہیلے‘ ( Edmund Halley ) نے اُسے ۱۶۸۲ء میں دیکھا اور پیشین گوئی کی کہ یہ ۷۶ سال بعد ۱۷۵۸ء میں دوبارہ نظر آئے گا، چنانچہ اُس کے اعداد و شمار صحیح نکلے اور وہ ۱۷۵۸ء میں ہی نظر آیا۔ آخری بار وہ ۶ فروری ۱۹۸۶ء کو سورج کے قریب آیا تھا۔ اُن دنوں بہت سے خلائی جہاز ( probes ) ریسرچ کی غرض سے اُس کی طرف بھیجے گئے۔ یورپین سپیس ایجنسی ( ESA ) کے خلائی جہاز Giotto نے اُس کے اِنتہائی قریب جا کر اُس کی تصاویر بنائیں اور اہلِ زمین کو اِرسال کیں، جن کی بدولت ہم دُمدار تاروں اور بالخصوص ہیلے کے دُمدار تارے کی ساخت کو سمجھنے کے قابل ہوئے۔ ’ہیلے کا دُمدار تارہ‘ اب دوبارہ اِنشاء اللہ ۲۹ اپریل ۲۰۶۱ء کے روز سورج کے قریب سے گزرے گا۔
قرآنِ مجید میں دُمدار تاروں کو "اَلخُنَّس" اور "اَلجَوَارُ الکُنَّس" کے لفظوں میں اِس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور پھر عرصۂ دراز کے لئے چھپ جاتے ہے۔
صاحبِ قاموس المحیط لکھتے ہیں:
( الکنّس: هی الخنّس، لأنّها تکنس فی المغیبِ ) ۔ (القاموس المحیط، ۲:۲۵۶)
"الکنس" کا معنی چھپنا اور گم ہو جانا ہے۔ وجہِ تسمیہ اُس کی یہ ہے کہ وہ comet (طویل عرصے کے لئے) کسی نادیدہ مقام میں کھو جاتا ہے۔
سورج ( The Sun )
سورج۔ ۔ ۔ جو ہماری زمین کے لئے روشنی اور حرارت کا سب سے بڑا منبع ہے اور جس کے بغیر کرۂ ارضی پر نباتاتی، حیوانی یا اِنسانی کسی قسم کی زِندگی کا کوئی تصوّر ممکن ہی نہ تھا۔ ۔ ۔ دراصل وہ معمولی درجے کا ایک ستارہ ہے۔ سورج چونکہ باقی ستاروں کی نسبت ہم سے بہت زیادہ قریب واقع ہے اِس لئے وہ ہمیں بہت بڑا اور گرم دِکھائی دیتا ہے اور دِن کو اُس کی کرۂ ارضی پر چھا جانے والی روشنی میں دُور دراز کے ستارے نظر آنا بالکل بند کر دیتے ہیں۔
سورج کی روشنی ہمارے لئے زِندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اِرشادِ باری تعالی ہے:
( هُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمسَ ضِیَاءً ) ۔ (یونس،۱۰:۵)
وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
( وَ جَعَلَ الشَّمسَ سِرَاجًا ) (نوح، ۷۱:۱۶)
اور سورج کو (ایک روشن) چراغ بنایا ہےسورج کی روشنی کا باعث اُس کے اندر ہونے والے شدید ایٹمی دھماکے ہیں۔ سورج عام طور پر ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں نہایت لطیف گیسیں ہیں۔ سورج کے مرکز میں ایک بڑا نیو کلیائی ری ایکٹر ہے جس کا درجۂ حرارت کم از کم ۱,۴۰,۰۰,۰۰۰سینٹی گریڈ ((۲,۵۰,۰۰,۰۰۰ فارن ہائیٹ) ہے۔ سورج نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے توانائی کا یہ عظیم ذخیرہ پیدا کرتا ہے۔ اُس نیوکلیائی عمل کے دوران اُس میں موجود ہائیڈروجن ہیلئم میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہے، جس سے روشنی اور حرارت کی صورت میں شدید توانائی کا اِخراج عمل میں آتا ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے نیوکلیئرفیوژن کے ذریعے پیدا ہونے والی اُس شدید حرارت کا ذِکر یوں فرمایا ہے:
( وَ جَعَلنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا ) (النباء،۷۸:۱۳)
اور ہم نے (سورج کو) روشنی اور حرارت کا (زبردست) منبع بنایااِتنے عظیم درجۂ حرارت کو برقرار رکھنے کے لئے سورج ۴۰,۰۰,۰۰۰ٹن فی سیکنڈ کی شرح سے توانائی کی صورت میں اپنی کمیّت کا اِخراج کر رہا ہے۔
گردشِ آفتاب
اِنسانی زندگی کی قدیم تاریخ میں سورج کو بالعموم زمین کے گرد محوِ گردش خیال کیا جاتا تھا۔ فیثا غورث نے تاریخِ علوم میں پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے۔ بعد ازاں کوپر نیکس سے پہلے ایک نامور مسلمان سائنسدان ’زرقالی‘ نے بھی ۱۰۸۰ء میں زمین کی سورج کے گرد گردِش کا نظریہ پیش کیا۔ سورج اور زمین کی گردِش کے بارے میں مختلف نظریات الگ باب "سائنسی طریقِ کار اور اِقدام و خطاء کا تصوّر" میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ سائنسی علوم کی تاریخ میں یہ جھگڑا ہمیشہ سے برقرار رہا ہے کہ سورج ساکن ہے اور زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے یا زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد محوِ گردش ہے اور سورج بھی ساکن نہیں ہے جیسا کہ قدیم نظریات میں خیال کیا جاتا تھا۔
ہماری کہکشاں ملکی وے ( Milky Way ) دراصل ایک چکر دار کہکشاں ہے۔ اُس کے چار بازو ہیں جن میں واقع کروڑوں ستارے کہکشاں کے مرکز کے گرد گردِش کر رہے ہیں۔ سورج بھی اپنے ساتھی ستاروں کی طرح کہکشاں کے مرکز سے ۳۰,۰۰۰ نوری سال کے فاصلے پر "اورِین آرم" ( Orion Arm ) میں واقع ہے اور کہکشاں کے مرکز کے گرد ۲۲,۰۰,۰۰,۰۰۰ سال میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔
سورج کی اِس گردِش کو اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے، فرمایا:
( وَ الشَّمسُ تَجرِی لِمُستَقَرٍّ لَّهَا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (یٰسین،۳۶:۳۸)
اور سورج اپنے لئے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے، یہ (راستہ) غالب علم والے (اللہ) کا مقرر کردہ ہے
شمسی تقویم ( Solar calendar )
سورج ہمارے لئے وقت کی پیمائش کا ایک قدرتی ذریعہ ہے۔ دِنوں اور سالوں کا تعین و شمار کرنا اُسی کے ذریعے ممکن ہے۔ زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر ۳۶۵ دن، ۵ گھنٹے، ۴۸ منٹ اور ۴۷.۴۶۲۴ سیکنڈ میں پورا کرتی ہے۔ شمسی سال کی اصل طوالت بعینہ یہی ہے۔ عام سال چونکہ ۳۶۵ دِنوں کا ہوتا ہے اِس لئے بچ رہنے والے گھنٹوں کو پورا کرنے کے لئے ہر چوتھے سال کو لیپ کا سال قرار دے کر اُس میں ایک دِن کا اِضافہ کر کے ۳۶۶ دِن بنا لئے جاتے ہیں، جس سے ’معیاری سال‘ میں چند منٹوں کا اِضافہ ہو جاتا ہے جسے کامل دِنوں کی صورت میں پورا کرنے کے لئے۴,۰۰۰ سال بعد تک بھی دِنوں میں کمی و بیشی کرنا پڑے گی۔ سال کی صورت میں وقت کی پیمائش کا ایک ہی بہترین ذریعہ ’سورج‘ ہے، جو ایک طرف ماہرینِ فلکیات کے لئے اَجرامِ فلکی کے ظہور و خفا کا تعین کرنے میں مُمِد ہوتا ہے تو دُوسری طرف ایک گنوار کسان کو موسموں کے تغیر و تبدل اور فصلوں کی بوائی و کٹائی کے موزوں وقت سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
سورج کی طرح چاند بھی قمری تقویم کے تعین اور مہینوں کے شمار کا سادہ اور فطری ذریعہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے سورج اور چاند دونوں کو وقت کی پیمائش کا ذریعہ بنایا۔
اِس سلسلے میں اِرشادِ ایزدی ہے:
( الشَّمسُ وَ القَمَرُ بِحُسبَانٍ ) (الرحمن،۵۵:۵)
سورج اور چاند معلوم اور مقررّہ (فلکیاتی) حسابات کے مطابق (محوِ حرکت) ہیںسورج سمیت تمام ستاروں میں ہائیڈروجن اور ہیلئم کی ایک بڑی مقدار موجود ہے، جو جلتے ہوئے روشنی اور حرارت خارِج کرتی ہے۔ کسی ستارے کا اِیندھن جل کر ختم ہو جاتا ہے تو وہ ’سرخ ضخام‘ ( red giant ) کی صورت میں پھول جاتا ہے، جس کے بعد وہ بتدریج سُکڑنے اور ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ مکمل بے نور ہو جاتا ہے۔ سورج کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا۔ سورج ستاروں کے جس قبیل سے تعلق رکھتا ہے اُس حساب سے اُس کی کل عمر ۹ ارب سال کے لگ بھگ ہے، جس میں سے ساڑھے چار ارب سال وہ گزار چکا ہے، گویا وہ عہدِ شباب میں ہے۔ آج سے ساڑھے چار ارب سال بعد جب اُس کا اِیندھن جل جل کر مکمل طور پر ختم ہو جائے گا تو وہ بھی دُوسرے ستاروں کی طرح بُجھ کر بے نور ہو جائے گا۔
اَحوالِ قیامت کے ضمن میں سورج کے بُجھ کر بے نور ہو جانے کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
( إِذَا الشَّمسُ کُوِّرَت ) (التکویر،۸۱:۱)
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گاسورۂ تکویر میں علاماتِ قیامت کے ضمن میں سب سے پہلی علامت سورج ہی کے بے نور ہونے کو قرار دیا گیا۔ کتنی بڑی سائنسی صداقت جس تک پہنچنے میں آج کے اِنسانی علوم کے پیچھے صدیوں کا شعور کارفرما ہے، قرآنِ مجید نے ایک ہی جملے میں بیان کر دی۔
سیارے ( Planets )
کائنات کی اوّلین تشکیل کے وقت ’بگ بینگ‘ ( Big Bang ) کے بعد اِبتدائی مادّہ جو بالعموم گیسی صورت میں تھا، ہر سُو بکھر گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا درجۂ حرارت کم ہوتا چلا گیا اور اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھرنے والا وہ مادّہ کروڑوں اربوں مرکزوں پر مجتمع ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہر بڑے مرکز کے اندر بے شمار چھوٹے مراکز اور اُن چھوٹے مراکز کے قرب و جوار میں اُن سے بھی چھوٹے مرکزے نمو پانے لگے۔ بڑے مراکز کہکشائیں قرار پائیں اور اُن کے اندر واقع چھوٹے مراکز کا مادّہ سُکڑ کر آہستہ آہستہ ستاروں کی شکل اِختیار کرتا چلا گیا۔ یونہی اُس کے آس پاس موجود مادّے کے معمولی حصے اُن ’نیم ستاروں‘ ( protostars ) کے گرد گھومتے ہوئے سُکڑنے اور سیارے بننے لگے اور وقت کے ساتھ ساتھ اکثر ستاروں کے گرد اُن کے اپنے ’نظام ہائے شمسی‘ وُجود میں آ گئے۔ ہمارا سورج بھی دراصل اُنہی میں سے ایک ستارہ ہے۔ کائنات میں اِس جیسے بے شمار ستارے موجود ہیں، جن کے گرد اُن کے اپنے سیاروں کے نظام واقع ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اُن میں سے کچھ میں زِندگی بھی پائی جاتی ہو مگر اُن کی بے پناہ دُوری کی وجہ سے ابھی کچھ کہنا قبل اَز وقت ہو گا۔
نظامِ شمسی سورج سمیت بہت سے ایسے اَجسام پر مشتمل ہے جو اُس کی کششِ ثقل کے پابند ہو کر اُس کے ساتھ ایک مربوط نظام کی صورت میں بندھے ہوئے اُس کے گرد محوِ گردش ہیں۔ نظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت دیگر ستاروں کی طرح سورج کے گرد گردِش کرنے والے ۹ بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلیں عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے، جن سے بعد میں ۹ سیارے اور کروڑوں اربوں سیارچے وُجود میں آئے۔
ہمارا نظامِ شمسی ایک سورج، ۹ سیاروں، ۶۱ چاندوں اور بے شمار دُمدار تاروں اور سیارچوں پر مشتمل ہے۔ سیاروں میں مشتری، زُحل، یورینس اور نیپچون بہت بڑے ہیں، باقی سیارے اُن سے بہت چھوٹے ہیں۔ ہماری زمین بھی اُنہی میں سے ایک ہے۔ تمام سیارے سورج کے گرد ایک ہی رُخ میں بیضوی مدار میں سفر کر رہے ہیں۔ سورج سے فاصلے کی بنیاد پر اُن کی ترتیب یوں ہے:
۱۔ عطارُد Mercury ))
-۲ زُہرہ ( Venus )
۳۔ زمین ( Earth )
-۴ مِرّیخ ( Mars )
۵۔ مُشتری ( Jupiter )
-۶ زُحل ( Saturn )
۷۔ یورینس Uranus ))
-۸ نیپچون ( Neptune )
۹۔ پلوٹو ( Pluto )
اللہ ربّ العزت نے نظامِ شمسی کے لئے قرآنِ مجید میں "سماء الدنیا" کا لفظ اِستعمال کیا ہے، اِرشاد ہوتا ہے:
( إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِزِینَتِنِ الکَوَاکِبِ ) (الصافات،۳۷:۶)
بیشک ہم نے آسمانِ دُنیا کو سیاروں کی زینت سے آراستہ کیااِس آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے سورج کے گرد محوِ گردِش سیاروں کا ذِکر کرتے ہوئے نظامِ شمسی کو آسمانِ دُنیا (یعنی زمین سے قریب ترین آسمان) قرار دیا ہے۔ ’سات آسمانوں کا قرآنی تصوّر‘ متعلقہ باب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
تمام سیاروں کے اپنے مدار میں محوِ گردش ہونے کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا:
( وَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (یٰسین، ۳۶:۴۰)
اور تمام (اَجرامِ فلکی) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںیہ آفتاب و ماہتاب اور یہ سیارگانِ فلکی کی ریل پیل ہمارے آسمان کو کتنا دِلکش و دِلنشیں بناتی ہے مگر یہ سب آرائش عارضی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی طرح نظامِ شمسی کے سیاروں کو بھی ایک روز فنا ہونا ہو گا۔ سورج کی موت اُنہیں بھی موت سے ہمکنار کر دے گی۔ اُن میں سے بعض قریبی سیارے سورج میں جا گریں گے تو بیرونی سیارے اِس نظام سے رُو گرداں ہو کر نظامِ شمسی کی حدوں سے اُس پار واقع کھلے آسمان کی وُسعتوں میں بھی کھو سکتے ہیں۔ سیاروں کی سورج کے گرد گردِش کا عارضی اور وقتی ہونا اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں بھی بیان فرمایا ہے۔
اِرشادِ خالقِ کائنات ہے:
( کُلٌّ یَّجرِی لِأَجَلٍ مُّسَمًّی ) ۔ (الرعد،۱۳:۲)
ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کے لئے (اپنے مدار میں) چلتا ہے۔
تمام سیارے اور ستارے، اِس کائناتِ ارض و سما کی ہر شے اور تمام اَجرامِ فلکی و سماوی ایک معینہ مدّت تک کے لئے زِندگی کی دَوڑ میں محوِ گردش ہیں۔ ہر سیارے ہر ستارے کی اپنی ایک پیدائش ہے، زِندگی ہے اور پھر موت بھی ہے۔ کسی سیارے کی موت ہی اُس کی قیامت قرار پاتی ہے اور تمام ستاروں اور سیاروں کی اِجتماعی موت جو محتاط سائنسی اندازوں کے مطابق ’بگ کرنچ‘ ( Big Crunch ) کی صورت میں آج سے کم و بیش ۶۵,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰ سال بعد رُو نما ہو گی وہ دِن اِس کائنات کی اِجتماعی قیامت کا دِن ہو گا۔
اِس کائناتِ پست و بالا کی اِجتماعی قیامت تمام کہکشاؤں میں واقع ستاروں کے گرد گردِش کرنے والے سیاروں کو اُن کے نظام سے بہکا دے گی اور وہ بھٹک کر اپنے ہی ستارے (جس کے نظام کا وہ حصہ ہیں) یا کسی دُوسرے ستارے سے جا ٹکرائیں گے۔
سیاروں کے اپنے مداروں سے بھٹک نکلنے اور بہک کر کسی دُوسری طرف جا نکلنے کا ذِکر اللہ تعالی نے علاماتِ قیامت کے ضمن میں قرآنِ مجید میں اِن الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے:
( وَ إِذَا الکَوَاکِبُ انتَثَرَت ) (الانفطار، ۸۲:۲)
اور جب سیارے گِر کر بکھر جائیں گےسیاروں کے اپنے مداروں سے باہر نکل جانے اور اپنی موت کی طرف چلے جانے کو اللہ ربّ العزت نے کتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
زمین ( The Earth )
سیاروں کا نظام جو سورج سمیت اکثر ستاروں کے گرد پایا جاتا ہے، اُس میں واقع کچھ سیاروں میں زِندگی کا اِمکان بھی موجود ہے۔ تاہم ہمارے نظامِ شمسی میں صرف زمین ہی ایک ایسا سیارہ ہے جو متنوّع قسم کی اَنواعِ حیات سے معمور ہے۔ کسی سیارے پر زندگی کے پائے جانے کے لئے اُسے بقائے حیات کے لئے قدرت کی طے کردہ بہت سی کڑی شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے۔ ہماری زمین اپنے اُوپر بسنے والی لاکھوں کروڑوں اَقسامِ حیات کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، جس کے باعث یہاں زِندگی پنپ سکی ہے۔ اگر یہ ماحول کسی دُوسرے ستارے کے گرد گردِش کرنے والا کوئی سیارہ بھی مہیا کر سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں زندگی کے آثار پیدا نہ ہوں۔
اِس کائنات میں ہماری زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر بھی زندگی واقع ہے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے بنی نوع اِنسان کو شروع دِن سے ہی تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے اور موجودہ سائنسی ترقی کے باوُجود ہم اِس سوال کا جواب سائنسی بنیادوں پر دینے سے اُسی طرح قاصر ہیں جیسے آج سے پانچ ہزار سال پہلے کا آدمی، تاہم اِس سائنسی ترقی نے ہمیں اِتنا پختہ فکر ضرور کر دیا ہے کہ ہم زندگی کے وہ سارے لوازمات جو کسی سیارے میں نمو و بقائے حیات کے لئے ضروری ہوتے ہیں اُنہیں جان سکیں۔ نظامِ شمسی کی حد تک تو تمام سیاروں کے بارے میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہاں زِندگی کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔ اندرونی سیارے بہت زیادہ گرم ہیں تو بیرونی سیارے بہت زیادہ ٹھنڈے۔ رہ سہ کر ہمسایہ سیارے مِرّیخ سے توقع تھی سو وہ بھی ختم ہو گئی ہے، جب ۱۹۷۶ء میں وائکنگ ( Viking ) نامی خلائی جہاز ( probes ) اُس کی سطح پر اُترے۔ اُن کی بھیجی گئی تصاویر اور رپورٹس نے تمام اُمیدوں کو ختم کر دیا اور یہ بات طے پا گئی کہ ’سرخ سیارہ‘ بھی نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کی طرح زِندگی سے خالی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ آڑے ترچھے خطوط نظر آتے ہیں، جنہیں سولہویں صدی عیسوی کے اِنسانی شعور نے وہاں بسنے والی مخلوق کی کھودی ہوئی نہریں اور دریا قرار دیا، مگر وائکنگ ( Viking ) اور اُس جیسی دُوسری مہمّات نے یہ بات واضح کر دی کہ نظامِ شمسی کے دیگر سیّاروں کی طرح وہاں بھی زِندگی کا کوئی اِمکان نہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے کم و بیش ایک ارب سال پہلے وہاں پانی موجود تھا۔ اب صرف قطبین پر تھوڑی برف جمی رہتی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ ہوا بھی موجود ہے، جس میں ’کاربن ڈائی آکسائیڈ‘، ’آکسیجن‘ اور ’نائٹروجن‘ گیسیں شامل ہیں، جو زِندگی کے لئے ضروری ہیں، لیکن وہ زندگی کے بے شمار ایسے لوازمات سے عاری ہے جن کے بغیر کسی سیارے پر زِندگی پروان نہیں چڑھ سکتی۔
زمین اللہ ربّ العزت کی تخلیق کا ایک ایسا شاہکار ہے جس میں اُس کی اربوں نعمتیں وافر مقدار میں بکھری ہوئی ہیں۔ یہاں زِندگی کے لئے ضروری گیسیں ایک خاص تناسب کے ساتھ موجود ہیں اور پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ زمین لاکھوں سالوں سے اپنے سینے پر کاروانِ حیات کو لئے سورج کے گرد محوِ سفر ہے۔ زمین پر زِندگی کے لئے سازگار ماحول میں اُس کی کمیّت، سورج سے فاصلہ، درجۂ حرارت اور ہوا کے دباؤ کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ یہ اور اِس جیسے بے شمار دُوسرے لوازمات مل کر زمین کو اِس قابل بناتے ہیں کہ ہم یہاں سانس لے سکیں۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں جا بجا کرۂ ارضی کو عطا کردہ اپنی نعمتوں کا ذِکر کرتے ہوئے اِنسان کو اپنا شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے۔ سورۂ رحمن تذکرۂ نِعم سے بھری پڑی ہے۔ ان میں وہ نعمتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم آگاہ ہیں اور روزانہ مُستفید ہوتے ہیں اور ایسی نعمتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم آگاہ نہیں۔ جوں جوں سائنسی ترقی اِرتقاء کی منازِل طے کر رہی ہے خالقِ کائنات کے بے پایاں اِحسان و کرم کے راز بنی نوع اِنسان پر عیاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
کرۂ ارضی پر اللہ ربّ العزت کی عام عطا کردہ نعمتیں بے شمار ہیں۔ ایک مقام پر چند نعمتوں کا ذِکر یوں آیا ہے:
( فَأَنشَأنَا لَکُم بِه جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَّ أَعنَابٍ لَکُم فِیهَا فَوَاکِهُ کَثِیرَةٌ وَّ مِنهَا تَأکُلُونَ وَ شَجَرَةً تَخرُجُ مِن طُورِ سَینآء تَنبُتُ بِالدُّهنِ وَ صِبغٍ لِّلاٰکِلِینَ وَ إِنَّ لَکُم فِی الأَنعَامِ لَعِبرَةً نُسقِیکُم مِّمَّا فِی بُطُونِهَا وَ لَکُم فِیهَا مَنَافِعُ کَثِیرَةٌ وَّ مِنهَا تَأکُلُونَ وَ عَلَیهَا وَ عَلَی الفُلکِ تُحمَلُونَ ) (المؤمنون، ۲۳:-۲۲۱۹)
پھر ہم نے تمہارے لئے اُس سے درجہ بدرجہ (یعنی پہلے اِبتدائی نباتات، پھر بڑے پودے، پھر درخت وُجود میں لاتے ہوئے) کھجور اور انگور کے باغات بنا دیئے، (مزید برآں) تمہارے لئے زمین میں (اور بھی) بہت سے پھل اور میوے (پیدا کئے) اور (اب) تم اُن میں سے کھایا کرتے ہو O اور یہ درخت (زیتون بھی ہم نے پیدا کیا ہے) جو طورِ سینا سے نکلتا ہے، جو تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن لے کر اُگتا ہے O اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ اُن کے شِکموں میں ہوتا ہے ہم تمہیں اُس میں سے (بعض اَجزاء کو دُودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمہارے لئے اُن میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم اُن میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہو O اور اُن پر اور کشتیوں پر تم سوار (بھی) کئے جاتے ہوآسٹرانومی کے نکتۂ نظر سے کرۂ ارضی پر جو نعمتیں موجود ہیں، اُن میں سورج سے مناسب فاصلہ (تاکہ زندگی کے لئے اوسط درجۂ حرارت اِعتدال سے تجاوُز نہ کر سکے) اور خلا کی عمیق وُسعتوں سے زمین کی طرف آنے والی مختلف اَقسام کی شعاع ریزی سے بچانے کو زمین کے اُوپر چڑھے اوزون ( ozone ) جیسے غلاف بھی نہایت اہم ہیں۔ یہ اللہ ربّ العزت کا خصوصی فضل ہے کہ اُس نے کرۂ ارضی کے گرد ہوا کا ایک خول چڑھا رکھا ہے، جس میں ہم سانس لیتے ہیں اور اُس خول کے اُوپر کچھ ایسی فضائی تہیں موجود ہیں جو زندگی کے لئے مُضِر اثرات کی حامِل شعاع ریزی کو سطح زمین تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں۔ اگر اوزون جیسے منطقے زمین کو چاروں اور سے گھیرے نہ ہوتے تو نہ صرف بیرونی خلا سے آنے والی شعاع ریزی بلکہ نظامِ شمسی میں اُڑنے پھرنے والے زمین کے آس پاس واقع لاکھوں آوارہ شہابیئے بھی بھٹک کر زمین کی طرف آ جاتے اور سطحِ زمین پر تباہی پھیلاتے۔
زمین کی بالائی فضا کی جانب اللہ ربّ العزت نے اہلِ زمین کے تحفّظ کے لئے جو سات تہیں بنائی ہیں اُن کا ذِکر قرآنِ مجید میں اِس طرح آیا ہے:
( وَ بَنَینَا فَوقَکُم سَبعًا شِدَادًا ) (النباء،۷۸:۱۲)
اور (خلائی کائنات میں بھی غور کرو،) ہم نے تمہارے اُوپر سات مضبوط (طبقات) بنائے۔
اِسی طرح ایک اور مقام پر اپنی حکمتِ تخلیق کو عیاں کرنے کے لئے یہی بات اِن الفاظ میں بھی فرمائی:
( وَ لَقَد خَلَقنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَآئِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَ ) (المؤمنون،۲۳:۱۷)
اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں اُس کی حفاظت کے لئے) سات (محفوظ) راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےیہ اُس ربِّ ذُوالجلال ہی کی حکمتِ تدبیر ہے کہ اُس نے مخلوق کی حفاظت کے لئے اُسے اِتنے پردوں میں محفوظ مقام پر رکھا۔ خالقِ کائنات کے خلیفہ ابوالبشر سیدنا آدمؑ کے ہبوطِ ارضی کے لئے اربوں نوری سال کی وُسعتوں میں بِکھری کائنات کا کوئی سا بھی سیارہ چنا جا سکتا تھا، اللہ ربّ العزت نے اس کے لئے زمین کو چنا اور اُس کا ماحول ہر اِعتبار سے محفوظ و مأمون کر دیا۔
سورۂ ملک میں کرۂ ارضی پر چڑھے حفاظتی غلافوں کا ذِکر کر کے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع اِنسان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اُس کی تخلیق کردہ حفاظتی پٹیوں میں نقص نکالے۔ اِرشادِ ایزدی ہے:
( اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِی خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارجِعِ البَصَرَ هَل تَرٰی مِن فُطُورٍ ثُمَّ ارجِعِ البَصَرُ کَرَّتَینِ یَنقَلِب إِلَیکَ البَصَرَ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیرٌ ) (الملک،۶۷:۳.۴)
(بابرکت ہے وہ اللہ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے، تو رحمن کی تخلیق میں کہیں تفاوُت نہیں دیکھے گا۔ دوبارہ نظر ڈال کیا کوئی فتور نظر آیا O (اے رحمن کی خدائی میں نقص کے متلاشی!) پھر دُہرا کر بار بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل و عاجز ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گیزمین گیند کی طرح مکمل گول نہیں بلکہ ذرا سی پچکی ہوئی ہے۔ اُس کا قطبی قطر اِستوائی قطر کی نسبت چند کلومیٹر کم ہے۔ ایسا اُس کی محوری گردِش میں تیز رفتاری کی وجہ سے ہے۔ زمین کا قطبی قطر ۱۲,۷۱۴ کلومیٹر جبکہ اِستوائی قطر ۱۲,۷۴۲ سے ۱۲,۷۵۶ کلومیٹر تک چلا گیا ہے۔ زمین کی شکل یوں دب کر خربوزے کی سی ہو گئی ہے۔ زمین کی کروی حالت اور پھر اُس کا مکمل گول ہونے کی بجائے بیضوی شکل میں ہونا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی بیان کیا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( وَ الأَرضَ بَعدَ ذٰلِکَ دَحَاهَا ) (النازعات،۷۹:۳۰)
اور زمین کو اُس کے بعد بیضوی شکل دے دیآج سے صدیوں قبل جب بالعموم دُنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم تھی، اور جہاں کہیں علم کی روشنی تھی بھی تو دھُندلائی ہوئی یونانی تحقیقات سائنسی بنیادوں پر سوچ کے تمام دروازوں کو مقفّل کر دیتی تھیں، ایسے میں پیغمبرِ آخرُ الزماں (ص) کا قرآنِ مجید کی صورت میں اِتنے عظیم سائنسی حقائق کا اِعلان کرنا بجائے خود آپ(ص) کے سچا نبی اور اِسلام کے سچا دین ہونے پر بہترین دلیل ہے۔
نظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت سورج کے گرد گردِش کرنے والے ۹بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلین عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرنے لگے، جن سے بعد میں ۹ سیارے، اُن کے چاند اور بے شمار سیارچے وُجود میں آئے۔ زمین بھی اپنی اوّلین تخلیق کے وقت گیسی حالت میں سورج کے گرد محوِ گردش تھی اور وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مائع حالت اِختیار کرتی چلی گئی۔ مائع اور گیسی حالت پر مشتمل اِبتدائی زمین کے بھاری عناصر اُس کے مرکز کی طرف سمٹ کر اِکٹھے ہونے لگے اور ہلکے گیسی عناصر لاوے کے اُوپر غلاف کی صورت میں چڑھ گئے۔ رفتہ رفتہ لاوے کے اُوپر جھاگ نما تہ چڑھنے لگی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سخت ہوتی چلی گئی۔ اُس ٹھوس تہ کے نیچے گرم لاوا اُسی طرح مائع حالت میں رہا۔
لاوے کے اُوپر ٹھوس سطح کو وُجود مل جانے کے باوُجود زمین کی سطح اِس قابل نہ تھی کہ زِندگی اُس پر کسی بھی صورت میں پروان چڑھ سکتی۔ ابھی اُس کا ٹمپریچر بے اِنتہا شدید تھا اور وہ پانی کی نعمت سے بھی محروم تھی۔ پھر اُس کے بعد کرۂ ہوائی میں موجود گیسی عناصر میں کیمیائی تعامل ہوا جس کے نتیجے میں پانی نے جنم لیا اور یوں پورے کرۂ ارضی پر تاریخ کی پہلی اور طویل ترین مُوسلا دھار بارِش ہوئی۔ یہ بارِش سالہا سال جاری رہی جس سے شدید گرم زمین پر ہر طرف جل تھل ہو گیا اور اُس کا درجۂ حرارت بھی نسبتاً کم ہونے لگا۔
لاوے اور گیسی غلاف کے درمیان موجود ٹھوس تہ، جو کافی سخت ہو چکی تھی، جن مقامات سے باریک (یعنی گہری) تھی بارش کا پانی اُن سمتوں میں بہ کر اِکٹھا ہونے لگا۔ یوں وسیع و عریض سمندر پیدا ہو گئے اور اُنہوں نے زمین کا بیشتر حصہ ڈھانپ لیا۔ اُس ٹھوس غلاف کے جو مقامات موٹے (یعنی بلند) تھے اُن کے اُوپر پانی نہ ٹھہر سکا اور وہ بتدریج براعظم اور سلسلہ ہائے کوہ بن گئے۔
زمین کو پیدا ہوئے۴,۵۰,۰۰,۰۰,۰۰۰ سال کا عرصہ گزر چکا مگر اُس کے باوُجود اُس کا مرکز اُسی لاوے پر مشتمل ہے اور شدید گرم ہے۔ ۷۱ فیصد سطحِ ارضی پر پھیلے ہوئے سمندروں نے اُس کی حدّت کو کنٹرول کر کے ٹھوس خلاف کے اُوپر کے ماحول کا درجۂ حرارت اوسطاً ۱۵ ڈگری سینٹی گریڈ کر رکھا ہے، جس سے وہ زندگی کے لئے سازگار ہوتا چلا گیا۔ آج بھی اگر کسی کیمیائی تعامل کے نتیجے میں سمندروں کا پانی ختم ہو جائے تو نہ صرف پانی کی قلت کی وجہ سے بلکہ اندرونی لاوے کی حدّت کے سبب بھی ہر طرح کی اَنواعِ حیات اِس طبقِ ارضی سے مفقود ہو جائیں۔
طویل ترین بارشوں کے نتیجے میں زمین کو قابلِ زندگی بنانے کے سلسلے میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:
( وَ أَنزَلنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآئًم بِقَدَرٍ فَأَسکَنَّاهُ فِی الأَرضِ وَ إِنَّا عَلٰی ذَهَابٍم بِه لَقَادِرُونَ ) (المؤمنون، ۲۳:۱۸)
اور ہم ایک مقررّہ مقدار میں (عرصۂ دراز تک) بادلوں سے پانی برساتے رہے، پھر (جب زمین ٹھنڈی ہو گئی تو) ہم نے اُس پانی کو زمین (کی نشیبی جگہوں) میں ٹھہرا دیا (جس سے اِبتدائی سمندر وُجود میں آئے) اور بیشک ہم اُسے (بخارات بنا کر) اُڑا دینے پر بھی قدرت رکھتے ہیںسائنسی تحقیقات کی پیش رفت اور قرآنی بیانات میں کسی قدر ہم آہنگی ہے۔ ۔ ۔ بالکل یونہی جیسے قرآن آج کے دَور کی کتاب ہو۔ ۔ ۔ اور واقعی قرآن آج کے دَور کی کتاب ہے، قرآن ہر اُس دَور کی کتاب ہے جو علم و فن اور شعور و آگہی سے ہم آہنگ ہے۔ سائنس جوں جوں تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اُٹھاتی جائے گی ہمیشہ قرآنِ مجید کو اپنے سے آگے اور آگے جاتا محسوس کرے گی اور یہ حقیقت علمی دُنیا کے فرزندوں کو ایک نہ ایک دِن ماننا پڑے گی کہ قرآن ہی صداقت کا آخری معیار ہے جسے خالقِ کائنات نے اپنے آخری نبی سیدنا محمد رسول اللہ(ص) پر نازل کیا اور اُسی میں بنی نوعِ اِنسان کے جملہ مسائل کا حل ہے اور اُس کی تعلیمات سے مطابقت ہی صحیح معنوں میں آئیڈیل علمی معاشرے کے قیام کا باعث بن سکتی ہے۔
چاند ( The Moon )
قرآنِ مجید میں چاند کا ذِکر دیگر اَجرامِ سماوی سے کہیں زیادہ ہے۔ ﷲ ربّ العزت نے چاند کی بہت سی خصوصیات کی بناء پر قرآنِ مجید میں قسم کھا کر اُس کا ذِکر فرمایا:
( کَلَّا وَ القَمَرِ ) (القمر،۷۴:۳۲)
سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کیجس طرح زمین اور نظامِ شمسی کے دیگر ستارے سورج کے گرد محوِ گردِش ہیں اور جس طرح سورج کہکشاؤں کے لاکھوں ستاروں سمیت کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول کے گرد محوِ گردِش ہے بالکل اُسی طرح چاند ہماری زمین کے گرد گردِش میں ہے۔ نظام شمسی میں واقع اکثر سیاروں کے گرد اُن کے اپنے چاند موجود ہیں، اور اکثر کے چاند متعدّد ہیں۔ زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے جو زمین سے اَوسطاً ۴,۰۰,۰۰۰ کلومیٹر کی دُوری پر زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اپنی گردِش کا ایک چکر ۲۷.۳۲۱۶۶۱ زمینی دِنوں میں طے کرتا ہے۔ چاند کا قطر ۳,۴۷۵ کلومیٹر ہے اور یہ نظامِ شمسی کے آخری سیارے پلوٹو سے بڑا ہے۔ دورانِ گردش وہ اپنا ایک ہی رُخ زمین کی طرف رکھتا ہے۔ اُس کی محوری اور سالانہ دونوں گردشوں کا دورانیہ برابر ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس کا ایک دن اور ایک سال دونوں برابر ہوتے ہیں۔ جوں جوں اُس کا محور گردِش کرتا ہے اُس کے ساتھ ساتھ وہ زمین کے گرد بھی اُسی تناسب سے گھومتا چلا جاتا ہے اور یوں وہ زمین کی طرف اپنا ایک ہی رُخ رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔
قمری تقویم ( Lunar calendar )
قمری تقویم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لئے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقویم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں مگر اُس کے باوُجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد ۱۵۸۲ ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب ۴ اکتوبر سے اگلا دِن ۱۵ اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیئے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جانے لگا۔
دُوسری طرف قمری تقویم میں خود ساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے۔ قدرتی طور پر کبھی چاند ۲۹ دِن بعد اور کبھی ۳۰دِن بعد نظر آتا ہے، جس سے خودبخود مہینہ ۲۹ اور ۳۰ دِن کا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا ۳۶۰ درجے کا ایک چکر ۲۷دن، ۷گھنٹے، ۴۳منٹ اور ۱۱.۶/۱۱.۵ سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چونکہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا ۲۷درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ ۲۷درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر ۳۶۰ درجے ہی کا ہوتا ہے مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں ۲۷درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لئے ۳۸۷ درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ۲۷ درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت ۲۷دن، ۷گھنٹے، ۴۳منٹ اور ۱۱.۶/۱۱.۵ سیکنڈ کی بجائے ۲۹دن، ۱۲گھنٹے، ۴۴منٹ اور ۲.۸سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ ۲۹دن اور ۱۲گھنٹے کی وجہ سے چاند ۲۹ یا ۳۰دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی ۴۴منٹ اور ۲.۸سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل ۳۰دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّ و بدل نہیں کرنا پڑتا۔
ہم نے دیکھا کہ شمسی تقویم کی طرح قمری تقویم میں بھی گوناگوں پیچیدگیاں موجود ہیں۔ اُنہیں سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں مگر اُن پیمائشوں میں پڑنے کی عام آدمی کو ضرورت ہی نہیں۔ چاند خود بخود فیصلہ کر دیتا ہے۔ شمسی تقویم کے برعکس اللہ ربّ العزت نے چاند کو تعینِ اَوقات کی ایسی ذِمہ داری سونپ دی ہے کہ فطری طریقے سے تقویم وضع ہونے لگتی ہے۔ یہ تقویم علم و فن سے عاری معاشروں کے لئے بھی وقت کے شمار کا بہترین ذریعہ ہے اور آج کا پڑھا لکھا اِنسان بھی اُس سے خوب متمتع ہو سکتا ہے۔
چاند کو سونپے گئے فطری طریقِ تقویم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں فرمایا:
وَ قَدَّرَه مَنَازِلَ لِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَ الحِسَابِ مَا خَلَقَ اللهُ ذٰلِکَ إِلَّا بِالحَقِّ یُفَصِّلُ الاٰیَاتِ
اور اُس (چاند) کے لئے (کم و بیش دِکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اَوقات کا)
( لِقَومٍ یَّعلَمُونَ ) (یونس، ۱۰:۵)
حساب معلوم کر سکو اور اللہ نے یہ (سب کچھ) درُست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے۔ وہ (اِن کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں علم رکھنے والوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہےہر اگلی رات چاند کی شکل تبدیل ہو کر ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا سورج اور زمین کے حساب سے اُس کے زاویئے میں تبدیلی کے باعث ہوتا ہے۔ پہلی تاریخ کو وہ باریک ناخن کی طرح مغربی اُفق پر ظاہر ہوتا ہے اور جلد ہی غروب ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعد ہر اگلے دِن پہلے سے بڑا ہوتا ہے اور زیادہ دیر تک اُفق پر رہتا ہے۔ ساتویں تاریخ کو وہ وسط آسمان میں ظاہر ہوتا ہے اور چودھویں کو مکمل چاند کی صورت میں مشرق سے باقاعدہ طور پر طلوع ہوتا دِکھائی دیتا ہے اور صبح طلوعِ شمس سے پہلے غروب ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعد کے دِنوں میں اُس کی روشن سطح بتدریج کم ہونے لگتی ہے اور وہ رات کو دیر سے طلوع ہوتا ہے۔ آخری تارِیخوں میں وہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے۔ اُن دنوں اُس کی حالت بہت باریک ہو جاتی ہے۔ چاند کی اُس حالت کو اللہ تعالیٰ نے عرجونِ قدیم (پرانی بوسیدہ شاخ) سے تشبیہ دی ہے۔
اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:
( وَ القَمَرَ قَدَّرنَاهُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالعُرجُونِ القَدیمِ ) (یٰسین، ۳۶:۳۹)
اور ہم نے چاند کی منازِل طے کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ (اپنی پہلی حالت کو) پلٹ کر (کھجور کی) پرانی بوسیدہ ٹہنی جیسا ہو جاتا ہےچاند کی روشنی جو چاندنی راتوں میں اِنتہائی دِلفریب حُسن رکھتی ہے اُس کی اپنی نہیں ہوتی۔ چاند تو محض سورج کی طرف سے آنے والی روشنی کو منعکس کر کے چمکتا دِکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے زاویہ بدلنے پر اُس کی شکلیں بھی بدلنے لگتی ہیں۔ اگر ہم چاند پر جا کر زمین کی طرف دیکھیں تو زمین بھی ہمیں چاند ہی کی طرح روشنی منعکس کر کے چمکتی دِکھائی دے گی اور چاند ہی کی طرح شکلیں بدلتی بھی نظر آئے گی۔ فرق صرف اِتنا ہو گا کہ چاند شکلیں بدلنے کے ساتھ ساتھ زمین پر طلوع و غریب ہوتا بھی دِکھائی دیتا ہے مگر زمین چاند پر سے ایک ہی جگہ کھڑی نظر آئے گی اور وہیں کھڑے کھڑے شکلیں بدلتی رہے گی۔
چاند کی روشنی سورج کی مرہونِ منت ہے۔ جس طرح زمین سورج کی دُھوپ سے تمازت پاتی اور روشن ہوتی ہے اُسی طرح چاند بھی سورج ہی کی دھُوپ سے منوّر ہوتا ہے۔ یہ بات قدیم یونانی نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی، مگر قرآنی صداقت اِس سے عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم و عرفان سے عاری دَور کے متداول نظریات کے خلاف قرآنِ مجید میں سورج کے لئے "روشنی دینے والا" اور چاند کے لئے "روشن کیا جانے والا" کے الفاظ فرمائے۔
سورۂ یونس میں فرمایا:
( هُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمسَ ضِیَآءً وَّ القَمَرَ نُورًا ) ۔ (یونس،۱۰:۵)
وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اُس سے) روشن (کیا)۔
اِسی طرح سورۂ نوح میں فرمایا:
( وَ جَعَلَ القَمَرَ فِیهِنَّ نُورًا وَّ جَعَلَ الشَّمسَ سِرَاجًا ) (نوح،۷۱:۱۶)
اور اُن میں سے چاند کو چمکنے والا اور سورج کو (ایک روشن) چراغ (روشنی دینے والا) بنایا ہےسورۂ فرقان میں اِسی حقیقت کو اِن الفاظ میں بے نقاب کیا:
( وَ جَعَلَ فِیهَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًا ) (الفرقان،۲۵:۶۱)
اور اُس میں سورج کو (روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایاسورج کے از خود روشن ہونے اور چاند کے مُستعار روشنی سے منوّر ہونے کی حقیقت اللہ ربّ العزت نے آج سے چودہ صدیاں پہلے قرآنِ مجید میں بیان کر دی تھی۔ یہ وہ دَور تھا جب دُنیا بھر کے علمی حلقوں میں فقط یونانی نظریات کا طوطی بولتا تھا۔ ایسے ماحول میں آج کے دَور کی سائنس کے نظریات کا کماحقہ پیش کرنا فقط اللہ ربّ العزت ہی کی قدرت سے ممکن ہے۔ کلامِ الٰہی کے برحق ہونے اور پیغمبرِ آخرُ الزماں (ص) کی نبوّت کے ثبوت میں یہ اور اِس جیسی بے شمار آیات قرآنِ مجید میں موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے سلیمُ العقل اِنسان اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اِسلام ہی دینِ حق ہے، جو آج کا بھی دین ہے اور آنے والے کل کا بھی، کہ اُسے روزِ قیامت تک کے لئے مکمل دین بنا کر بھیجا گیا ہے۔
تسخیرِ ماہتاب
سماوی کائنات کی حتیٰ المقدُور تسخیر اور اُس تسخیر کے ضمن میں اَسباب بہم پہنچانے کا حکم اللہ ربّ العزت نے اپنی دونوں مکلف مخلوقات بنی نوع اِنسان اور جنوں کو قرآنِ مجید میں دیا ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
یَا مَعشَرَ الجِنِّ وَ الاِنسِ إِنِ استَطَعتُم أَن تَنفُذُوا مِن أَقطَارِ السَّمٰوَاتِ وَ الأَرضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلطَانٍ(الرحمن،۵۵:۳۳)
اے گروہِ جنات و اِنسان! اگر تم سماوی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدُود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیت) کے بغیر تم (یقیناً) نہیں نکل سکتےچاند جس کی چاندنی اِنتہائی دِلفریب ہوتی ہے اور شاعر مزاج دلوں کو پگھلا کر موم کر دیتی ہے، ۱۹۶۹ء میں تین امریکی خلابازوں کے قدموں نے اُسے سر کر لیا اور اِنسان کا جذبۂ تسخیر کرۂ ارضی پر واقع بڑے بڑے سلسلہ ہائے کوہ سے بڑھ کر پہلی بار کسی دُوسرے سیارے تک جا پہنچا۔ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے ’ناسا‘ ( National Aeronautic Space Agency ) کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کی اُس مہم میں ’نیل آرمسٹرانگ‘ ( Neil Armstrong ) ، ’ایڈوِن بز‘ ( Edwin Buzz ) اور ’کولنز‘ ( Collins ) وہ پہلے اِنسان تھے جو ۲۰جولائی ۱۹۶۹ء کے تاریخی دِن Apollo-۱۱ میں سوار ہو کر چاند تک پہنچے۔ اُس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع زمینی مرکز KSC (کینیڈی سپیس سنٹر) میں موجود سائنسدان اُنہیں براہِ راست ہدایات بھی دیتے رہے اور دو دِن کے مختصر سفر کے بعد یہ مہم جُو قافلہ ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چند پتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر زمین کی طرف واپس پلٹ آیا۔ اُس مہم کے دَوران پورے خطۂ ارضی پر واقع اکثر ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنز نے پل پل کی خبر دُنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا جو چاند کی تسخیر کے سلسلے میں رُو نما ہوا۔
تسخیرِ ماہتاب کے ضمن میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:
( وَ القَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ فَمَا لَهُم لَا یُؤمِنُونَ ) (الانشقاق،۸۴:۱۸.۲۰)
اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دِکھائی دیتا ہے O تم یقیناً طبق دَر طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے O تو اُنہیں کیا ہو گیا کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےچاند کو سر کرنے کی اس مُہم کا تفصیلی اَحوال ’علومِ قرآنی کی وُسعت‘ نامی باب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
باب دُوُم
تخلیقِ کائنات کا قرآنی نظریہ
یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی اور بالخصوص اُس کی آخری چند دہائیوں میں حاصل کی ہیں قرآنِ مجید اُنہیں آج سے۱,۴۰۰سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے قرآنی اُصولوں میں سے ایک بنیادی اُصول یہ ہے کہ اِبتدائے خلق کے وقت کائنات کا تمام بنیادی مواد ایک اِکائی کی صورت میں موجود تھا، جسے بعد ازاں پارہ پارہ کرتے ہوئے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اِس سے کائنات میں توسیع کا عمل شروع ہوا جو ہنوز مسلسل جاری و ساری ہے۔
قرآنِ مجید اِس حقیقت کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے:
( أَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقاً فَفَتَقنَاهُمَا ) ۔ (الانبیاء،۲۱:۳۰)
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی ( singularity ) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ "رَتق" اور "فَتق" خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ’رَتق‘ کے معنی کسی شے کو ہم جنس مواد پیدا کرنے کے لئے ملانے اور باندھنے کے ہیں۔ ’فَتق‘ متضاد ہے ’رَتق‘ کا، جس کا معنی توڑنے، جدا کرنے اور الگ الگ کرنے کا عمل ہے۔ قرآنِ مجید نے آج سے ۱۴ صدیاں قبل تخلیقِ کائنات کی یہ حقیقت عرب کے ایک جاہل معاشرے میں بیان کر دی تھی اور لوگوں کو یہ دعوتِ فکر دی تھی کہ وہ اِس حقیقت کے بارے میں سوچیں۔ صدیوں کی تحقیق کے بعد بیسویں صدی کے وسط میں جدید علمِ تخلیقیات ( cosmology )، علمِ فلکیات ( astronomy ) اور علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) کے ماہرین نے بالکل وُہی نظریہ منظرِ عام پر پیش کیا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک ’صفر درجہ جسامت کی اِکائیت‘ سے ہوئی۔ ’عظیم دھماکے کا نظریہ‘ ( Big Bang Theory ) اسی کی معقول تشریح و توضیح ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائنسی معاشرے کی نشو و نما کی تمام تاریخ حقیقت تک رسائی کی ایسی مرحلہ وار جستجو پر مشتمل ہے جس میں حوادثِ عالم خود بخود انجام نہیں پاتے بلکہ ایک ایسے حقیقی اَمر کی عکاسی کرتے ہیں جو یکے بعد دیگرے امرِ ربّانی سے تخلیق پاتا اور متحرک رہتا ہے۔
تاریخِ علومِ اِنسانی میں تخلیق و وُجودِ کائنات سے متعلق بے شمار نظریات پائے جاتے ہیں، جو اُس کے آغاز کی مختلف اِبتدائی حالتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام نظریات ’لا محدُود کثافت‘ ( infinite density ) اور ’صفر درجہ جسامت کی اِکائی‘ ( zero volume singularity ) کی اِبتدائی حالت کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، مثلاً:
۱ فرائیڈمین کا خاکہ ( Friedmann Model )
۲ عظیم دھماکے کا خاکہ ( Big Bang Model )
۳ ایڈوِن ہبل کا خاکہ ( Edwin Hubble's Model )
۴ پنزیاس اور وِلسن کا خاکہ ( Penzias / Wilson's Model )
۵ نئے پھیلاؤ کا خاکہ ( New Inflationary Model )
۶ بدنظم پھیلاؤ کا خاکہ ( Chaotic Inflationary Model )
یا
اِکائیت کی تحویل کا خاکہ ( Singularity Theorem Model )
عظیم دھماکے کا نظریہ ( Big Bang theory )
کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت اُس کا تمام مادّہ ایک اِکائی ( minute cosmic egg ) کی صورت میں موجود تھا، پھر ﷲ ربّ العزت نے اُس اِکائی کو پھوڑا اور اُس کے نتیجے میں اِس کائناتِ پست و بالا کو وُجود ملا۔ قرآنِ مجید کے ’نظریۂ تخلیقِ کائنات‘ کے مطالعہ سے پہلے ہم کائنات کی تخلیق سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے اِرتقاء کی طویل جدوجہد کا مختصر ذِکر ضروری سمجھیں گے تاکہ قارئین کو اِسلامی اِعتقادات کی حقّانیت کو سمجھنے میں آسانی ہو:
ز ۱۶۸۷ء میں مشہور و معروف برطانوی سائنسدان ’آئزک نیوٹن‘ ( Isaac Newton ) نے تجاذُب کا کائناتی تصوّر پیش کرتے ہوئے کہا کہ کائنات جامد اور غیر مُتغیّر ہے۔ یہ بات بیسویں صدی تک ایک مصدقہ حقیقت کے رُوپ میں تسلیم کی جاتی رہی۔
۱۹۱۵ء میں ’البرٹ آئن سٹائن‘ ( Albert Einstein ) نے ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ ( General Theory of Relativity ) پیش کیا۔ اُس نظریئے میں اُس نے مادّے، توانائی، کشش، مکان اور زمان میں باہمی نسبت کی وضاحت کی۔ اُس نے ’نیوٹن‘ کا جمودِ کائنات کا تصوّر تو کسی حد تک ردّ کر دیا لیکن وہ خود کائنات کی اصلیت کے بارے میں کوئی نیا نظریہ دینے سے قاصر رہا کیونکہ نیوٹن کے نظریات کو اُس وقت تک دُنیا بھر میں غیر متبدّل سمجھا جا رہا تھا۔
۱۹۲۹ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ ( Edwin Hubble ) نے پہلی بار یہ مفروضہ پیش کیا کہ کائنات جامد اور غیر متغیر نہیں ہے، بلکہ حرکت پذیر ہونے کے علاوہ شاید وہ مسلسل وسیع بھی ہو رہی ہے۔ اُس کی تحقیق نے ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ ( Big Bang Theory )کو جنم دیا۔ عظیم دھماکے کے نظریئے کو اِبتدائی طور پر ’مارٹن ریلے‘ ( Martin Ryle ) اور ’ایلن آر سنڈیج‘ ( Allan R. Sandage ) نے پروان چڑھایا۔
۱۹۶۵ء میں دو امریکی سائنسدانوں ’آرنوپنزیاس‘ ( Arno Penzias ) اور ’رابرٹ وِلسن‘ ( Robert Wilson ) نے اپنے معمول کے تجربات کے دوران اِتفاقاً ’کائناتی پس منظر کی شعاع ریزی‘ ( cosmic background radiation ) دریافت کی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ مادّی کائنات کا آغاز ایک اِکائی سے ہوا تھا۔ اُس اِکائی کو اُنہوں نے ’مختصر ترین کائناتی انڈے‘ ( minute cosmic egg ) کے نام سے موسوم کیا، جو اپنے اندر بے پناہ توانائی کو سنبھالے ہوئے تھا۔ وہ اچانک پھٹا اور اُس کے نتیجے میں اِس کائنات کا مختلفُ الاقسام مادّہ تخلیق پایا اور اُسی سے بعد اَزاں مختلف کلسٹرز اور کہکشائیں تخلیق پائیں۔
چار ایسی بنیادی طاقتیں جو مختلف اَجرامِ فلکی کے اپنے اپنے کروں میں موجود ہوتی ہیں، وہ بھی اُس دھماکے کے ساتھ ہی معرضِ وُجود میں آ گئیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں:
کششِ ثقل ( gravity )
برقی مقناطیسیت ( electromagnetism )
طاقتور نیوکلیائی طاقتیں ( strong nuclear forces )
کمزور نیوکلیائی طاقتیں ( weak nuclear forces )
موجودہ سائنسی تحقیقات کے محتاط اندازوں کے مطابق اَب تک اِس کائنات کو تخلیق ہوئے کم و بیش ۱۵ارب سال گزر چکے ہیں۔ آج سے ۱۵ ارب سال پہلے پائی جانے والی اُس اِبتدائی کمیّتی اِکائی سے پہلے وہ کیا شے تھی جس سے یہ کائنات ایک دھماکے کی صورت میں تخلیق کی گئی؟ سائنس اِس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اِس مُعمّے کا حل قرآنِ مجید کے اِس فرمان پر اِیمان لانے سے ہی ممکن ہے:
( إِذَا قَضٰی أَمراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَه کُن فَیَکُونُ ) (مریم،۱۹:۳۵)
جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اُسے صرف یہی حکم دیتا ہے: "ہو جا"، بس وہ ہو جاتا ہےقرآنی اِصطلاح "رَتق" کی سائنسی تفسیر ہمیں اِس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ بے پناہ توانائی نے کائنات کو اُس وقت ’اِبتدائی کمیتی اِکائی‘ کی صورت میں باندھ رکھا تھا۔ وہ ایک ناقابلِ تصوّر حد تک کثیف اور گرم مقام تھا جسے ’اِکائیت‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اُس وقت کائنات کی کثافت اور خلائی وقت کا اِنحناء ( curvature ) دونوں لامحدُود تھے اور کائنات کی جسامت صفر تھی۔ اِکائیت کی اُس حالت اور صفر درجہ جسامت ( zero volume ) کی طرف قرآنِ مجید یوں اِشارہ کرتا ہے:
( أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقاً ) ۔ الانبیاء،۲۱:۳۰)
جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی ( singularity ) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے۔
اِن الفاظ میں بگ بینگ سے پہلے کا ذِکر کیا گیا ہے۔ پھر اُس کے بعد پھُوٹنے اور پھیلنے کا عمل شروع ہوا، جسے کلامِ مجید نے اِن اَلفاظ میں ذِکر کیا ہے:
( فَفَتَقنَاهُمَا ) ۔ الانبیاء،۲۱:۳۰)
پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
عظیم دھماکے ( Big Bang ) سے رُو پذیر ہونے والے عملِ اِنشقاق (پھٹنے کے عمل) کے آغاز کے ساتھ ہی ایک سیکنڈ کے سوویں حصے ( hundredth part ) میں وہ ’اِکائیت‘ پھیل کر اِبتدائی آگ کا گولا ( primordial fireball ) بن گئی اور دھماکے کے فوری بعد اُس کا درجۂ حرارت ایک کھرب سے ایک کھرب ۸۰ارب سینٹی گریڈ کے درمیان جا پہنچا۔ تاہم عظیم دھماکے سے ایک منٹ بعد ہی کائنات کا درجۂ حرارت تیزی سے گرتے ہوئے دس گنا کم ہو کر ۱۰ارب سے ۱۸ارب سینٹی گریڈ کے درمیان آن پہنچا۔ یہ سورج کے مرکز کے موجودہ درجۂ حرارت سے تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ حرارت تھی۔ اُس وقت کائنات زیادہ تر فوٹان، اِلیکٹران، نیوٹریناس اور اُس کے مخالف ذرّات کے ساتھ ساتھ کسی حد تک پروٹان اور نیوٹران پر مشتمل تھی۔
کائنات کے اُس اوّلین مرحلے کی تصویر کشی سب سے پہلے ’جارج گیمو‘ ( George Gamow ) نامی سائنسدان نے ۱۹۴۸ء میں تصنیف کردہ اپنی مشہور تحریر میں پیش کی۔ اُس نے کہا کہ ’عظیم دھماکے‘ ( Big Bang ) کے معاً بعد کائنات اِتنی شدید گرم تھی کہ ہر طرف ’نیوکلیائی حرارتی تعاملات‘ ( thermonuclear radiations ) شروع ہو سکیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اِبتدائی کائنات زیادہ توانائی کے حامل خُورد موجی ( short-wave ) فوٹانز سے معمور تھی۔ اُس نے ایک قابلِ قدر پیشین گوئی کی کہ کائنات کی اِبتدائی بے حد گرم حالتوں میں فوٹانز کی صورت میں پائی جانے والی شعاع ریزی ( radiation ) کو اَب بھی اپنے نسبتاً کم درجۂ حرارت کے ساتھ جاری ہونا چاہیئے، جو مطلق صفر ( o -۲۷۳سینٹی گریڈ) سے محض چند درجے زیادہ ہو۔ اسی شعاع ریزی کو بعد اَزاں ۱۹۶۵ء میں ’آرنوپنزیاس‘ اور ’رابرٹ وِلسن‘ نے دریافت کیا۔ جوں جوں کائنات میں وُسعت کا عمل جاری ہے اُس کا درجۂ حرارت گِرتا چلا جا رہا ہے۔ فی الحال کائنات کا اَوسط درجۂ حرارت -۷۰ o سینٹی گریڈ تک کم ہو چکا ہے، جو مطلق صفر سے محض ۳ درجہ اُوپر ہے۔ مطلق صفر (یعنی -۲۷۳.۱۶۰) وہ درجۂ حرارت ہے جہاں مالیکیولز کی ہر طرح کی حرکت منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔
’جارج لویٹر‘ ( George Lawaitre ) نے ۱۹۳۱ء میں اِس بات کی طرف اِشارہ کیا کہ اگر تمام کہکشاؤں کے باہر کی سمت پھیلاؤ کا تعاقب کیا جائے اور اُس میں چھپے حقائق پر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ وہ سب دوبارہ اُسی نقطے پر آن ملیں جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا ۔ مادّے کا وہ بڑا قطرہ جو اِبتدائی ایٹم ( primeval atom ) کے نام سے جانا جاتا ہے، یقیناً ماضی بعید میں طبیعی کائنات کے طور پر پایا جانے والا کائناتی انڈہ ( cosmic egg ) تھا۔ ’لویٹر‘ نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ مادّے کا وہ بڑا قطرہ کسی وجہ سے پھٹ گیا اور ایک بم کی طرح باہر کی طرف ہر سُو اُڑ نکلا۔ یہی کائنات کی اوّلین تخلیق قرار پائی۔ ’لویٹر‘ کا یہ خیال بعد اَزاں عظیم دھماکے کے نظریئے کی صورت میں متعارف ہوا۔ یہاں ایک چیز میں اِختلاف ہے کہ صفر درجہ جسامت کی اِکائیت پر مُشتمل وہ مادّہ کس طرح تقسیم ہوا، مادّے نے کس طرح بیرونی اَطراف میں سفر شروع کیا اور علیحدگی، اِنشقاق اور دھماکہ کس طرح شروع ہوا؟ ہم اِن تفصیلات میں جانے سے اِحتراز کریں گے۔
اصل حقیقت ہر صورت وُہی ہے کہ آج ہمیں نظر آنے والی کہکشائیں اُس اِکائی مادّے سے اِنشقاق شدہ اور علیحدہ شدہ ہیں، جس کا قرآنِ حکیم میں یوں ذِکر آتا ہے:
( کَانَتَا رَتقاً فَفَتَقنَاهُمَا ) ۔ (الانبیاء،۲۱:۳۰)
(سب) ایک اِکائی ( singularity ) کی شکل میں جُڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
اِبتدائی دھماکے کا قرآنی نظریہ
جوں جوں بگ بینگ تھیوری کی صداقت ثابت ہو رہی ہے قرآنِ مجید کی حقانیّت بھی اَظہر من الشمس ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تخلیقِ کائنات کے زُمرے میں قرآنِ مجید ایک قدم مزید آگے بڑھاتا ہے۔ آج کے سائنسدانوں کو یہ سوال درپیش ہے کہ کائنات میں صفر درجہ جسامت کی اِکائیت سے اِنشقاق اور وُسعت پذیری کا عمل کس طرح شروع ہوا؟ اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید میں ہے۔ مندرجہ ذیل دو آیاتِ مبارکہ اِس موضوع پر بڑی معنی خیز ہیں:
( قُل أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ) O (الفلق،۱۱۳:۱،۲)
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں O ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہےہمارے موضوع کی مناسبت سے اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ "فَلَق" اور "خَلَق" بطورِ خاص قابلِ توجہ ہیں۔ لفظِ ’خَلَق‘ اپنے مفہوم کا مکمل آئینہ دار ہے اور واضح طور پر عملِ تخلیق کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی توجہ طلب ہے کہ لفظِ ’فَلَق‘ عملِ تخلیق کے ساتھ ایک گہرا اور قریبی تعلق رکھتا ہے۔ آیئے اب ہم پہلی آیتِ کریمہ میں وارِد ہونے والے لفظ ’فَلَق‘ کے معانی اور اہمیت کو سمجھیں۔
’ڈاکٹر ہلوک نور باقی‘ نے عربی گرامر کی رُو سے لفظِ "فَلَق" کے بہت سے معانی بیان کئے ہیں۔ تاہم اِس لفظ کا بنیادی معنی کسی چیز کا اچانک پھٹنا اور شدید دھماکہ کرنا ہے۔ یہ "فَلَقٌ" سے مشتق ہے۔ ایک اور تعریف کے مطابق اِس میں پھٹی ہوئی شے کا تصوّر بھی پایا جاتا ہے اور یہ وہ تصوّر ہے جو مذکورہ مظہر کو عیاں کرتا ہے۔ "فَلَق" ایک شدید دھماکے کا نتیجہ ہے، جو اپنے اندر اِنتہائی غیر معمولی رفتار کا تصوّر بھی رکھتا ہے۔ مِثال کے طور پر "تَفَلُّق" کا معنی حد درجہ رفتار کے ساتھ بھاگنا ہے۔
قرآنِ مجید صفاتِ باری تعالیٰ کے ذِکر میں فرماتا ہے:
( فَالِقُ الحَبِّ وَ النَّوٰی ) ۔ (الانعام،۶:۹۵)
دانے اور گُٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا۔
صَرفی پس منظر کی اِس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم "فَلَق" کے لُغوی معانی پر غور کرتے ہیں۔ لُغوی اِعتبار سے "فَلَق" کے معانی کو یوں ترتیب دیا جا سکتا ہے:
- ایک ایسی مخلوق جو عدم کے پھٹنے کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ ظاہر ہو۔
- بیج کے پھٹنے سے ظاہر ہونے والا پودا۔
٭ روزانہ کا وہ عمل جس کے معنی اِس تمثیل سے لئے گئے ہیں کہ روشنی پھٹے اور اندھیرے میں ظاہر ہو، جسے پَو پھٹنا کہتے ہیں تب صبحِ صادِق اور بعد اَزاں طلوعِ آفتاب ہوتا ہے۔
اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیرو توضیح میں بہت سے مفسّرین نے عام معانی کو ترجیح دی ہے۔ تاہم کچھ مفسّرین نے تمثیلی معانی صبحِ صادِق اور طلوعِ شمس وغیرہ بھی اَخذ کئے ہیں۔ بعض مفسّرین نے اِس سے مُراد جہنّم میں واقع شدید دھماکوں کا علاقہ بھی بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظِ "فَلَق" ایسے نتیجے یا اَشیاء کا معنی دیتا ہے جو اچانک اور شدید دھماکے سے وُقوع پذیر ہوں۔ اِس لفظ کے دُوسرے مفاہیم ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جو تمثیلی اَنداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ اِس انداز کو اپنانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج سے ۱۴صدیاں قبل علمِ طبیعیات ( physics ) اور علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) کے بارے میں اِنسانی شعور کی واقفیت اِس قدر نہ تھی کہ وہ ان سائنسی مفاہیم کو بعینہ اَخذ کر سکتا۔
جدید سائنسی تحقیقات کی رُو سے کائنات کا آغاز جس بڑے حادثے سے ہوا وہ ایک عظیم دھماکہ تھا۔ یہاں ہم عظیم دھماکے کے نظریئے ( Big Bang theory ) کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنا مناسب خیال کریں گے:
۱۹۵۰ء کے عشرے میں ’آئن سٹائن‘ کے پھیلتی ہوئی کائنات کے تصور سے متاثر ہو کر ’ریلف الفر‘ ( Ralph Alpher )، ’ہینس بیتھے‘( Hans Bethe ) اور ’جارج گیمو‘ ( George Gamow ) نے پہلی بار عظیم دھماکے کے نظرئیے کو غور و خوض کے لئے منظرِ عام پر پیش کیا۔ یہ نظریہ سالہا سال گرما گرم بحثوں کا مرکز بنا رہا۔ دو اہم دریافتوں نے عظیم دھماکے کے نظریئے کو ثابت ہونے میں مدد دی۔
پہلی ایڈوِن ہبل کی’ کائناتی سرخ ہٹاؤ‘ ( cosmic red shift ) کی دریافت تھی، جو دُور ہٹتی ہوئی کہکشاں کے طِیف ( spectrum ) سے حاصل ہوئی۔ تاہم سب سے حتمی اور دو ٹوک فیصلہ کن دریافت ۱۹۶۵ء میں ہونے والی ۳درجہ کیلون کی مائیکرو ویو پس منظر کی شعاع ریزی تھی۔ یہ شعاع ریزی اِبتدائی دھماکے کے باقی ماندہ اَثرات کی صورت میں ابھی تک پوری کائنات میں سرایت کئے ہوئے ہے اور اُس کی لہروں کا شور ریڈیائی دُور بینوں کی مدد سے بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
طبیعیات کی ایک اور اہم دریافت جس نے سائنسدانوں کو ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ کی صداقت تک پہنچنے میں مدد دی وہ ’آزاد خلا کی تباہی‘ کی دریافت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلا ایک ایسی جگہ ہے جہاں کچھ بھی پایا نہیں جاتا، مگر تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خلاء میں بھی مادّے کی کوئی نہ کوئی شکل موجود ہے۔
کائنات میں نئے مادّے کا ظہور
فلکی طبیعیات کا یہ مُشاہدہ ’ہیسنبرگ‘ ( Heisenberg ) کے ’غیریقینی حالت کے قانون‘ ( uncertainty principle ) کا نتیجہ ہے۔ اِتنے عظیم واقعات کی غیریقینی حالت کی کیفیات میں سے گزر کر جب اِلیکٹران میں سے اُس کی ساری توانائی خارِج ہو گئی تو وہ بے قاعدگی کے ساتھ بکھرتی ہی چلی گئی اور یوں اُس کا اِطلاق خلاء کے مقام پر ہونے لگا۔ اگر اُن صفر مقام کے حامل تغیّرات ( zero-point fluctuations ) کا تعاقب کیا جائے تو وہ توانائی کی دیو قامت مِقدار کی غمازی کرتے ملیں گے، جسے ممکن ہے کہ کائنات کے دُوسرے مقامات سے اُدھار لی گئی توانائی تصوّر کیا جائے۔ نتیجۃً اُس مُستعار توانائی کے ذریعے بعض اَوقات کوئی ذرّہ پیدا بھی ہو سکتا ہے اور بعد اَزاں فوری طور پر تباہ بھی ہو سکتا ہے۔ اِس تصوّر کو پہلی بار ۱۹۴۸ء میں ڈچ ماہرِ طبیعیات ’ہینڈرک کیسیمر‘ ( Hendrick Casimir ) نے پیش کیا اور بعد ازاں اُن ذرّات کی موجودگی کا اِنکشاف بھی اُسی سال ۱۹۴۸ء ہی میں ایک امریکی ماہرِ طبیعیات ’وِلس لیمب‘ ( Willis Lamb ) نے کیا۔
حال ہی میں طبیعیات کے پروفیسر ’پال ڈیویز‘ ( Paul Davies ) نے دلیرانہ انداز میں یہ اِعلان کیا ہے کہ نئے مادّے کا عدم سے وُجود میں آنا ﷲ ربُّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کا ایک اہم ثبوت ہے۔ یہ جدید تصوّرات ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ ( Big Bang Theory ) اور ﷲ تعالیٰ کی غیبی قدرت کے بارے میں ہمارے فہم و اِدراک میں اِضافہ کرتے ہیں۔ تاہم ہم یہ دیکھتے ہیں کہ محیّر العقول دھماکہ کائنات کی پیدائش کا ایک بنیادی سبب تھا اور اُسی کے مطابق کائنات کی طبیعی ساخت اور سِتاروں اور کہکشاؤں کا وُجود عمل میں آیا۔ جدید ترین اَعداد و شمار کے مطابق اُس دیو قامت دھماکے کا پہلا مرحلہ ایک سیکنڈ کے اربویں حصے ( one billionth second ) میں مکمل ہو گیا تھا، جب کہکشاؤں اور سِتاروں کو جنم دینے والا مادّہ آپس میں جڑا ہوا تھا۔ اَوّلیں جدائی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے ( one thousandth second ) میں وُقوع پذیر ہوئی تھی۔
آیئے اب ہم علمِ فلکی طبیعیات اور علمِ تخلیقیات کی معلومات کی رَوشنی میں آیتِ مبارکہ کا از سرِ نو مطالعہ کرتے ہیں:
( قُل أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ) O (الفلق ۱۱۳:۱.۲)
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں O ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہے’عدم سے حاصل ہونے والے وُجود‘ اور ’پہلے سے موجود مواد سے پیدا ہونے والی مخلوق‘ کے ذِکر میں قرآنِ مجید "فَلَق" کی اِصطلاح اِستعمال کر رہا ہے، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اُن کا وُجود میں آنا ایک اِبتدائی دھماکے کا مرہونِ منّت ہے۔ اِن آیاتِ مبارکہ کا سب سے اہم رُخ یہ ہے کہ یہاں صفتِ ربوبیّت کے بیان میں "رَبُّ الفَلَقِ" کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔ بہت سے مفسّرین نے اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ آیت ﷲ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیّت کی شان بہترین انداز میں بیان کرتی ہے۔ ایک سیکنڈ کے دس اربویں حصے ( billionth second۱۰ ) میں دس سنکھ (۱۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰) سِتارے ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ یہ سب ﷲ ربّ العزّت کی ربوبیّت کی طاقت سے ہی ممکن ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے مادّی کائنات کی تشکیل کا اِرادہ فرمایا اور "کُن فَیَکُونُ" کے حکم کے ساتھ ایک دھماکہ پیدا کیا۔ "فَلَق" جو اُسی دھماکے کا نتیجہ ہے، اُس وقت ربوبیّتِ بارِی تعالیٰ کی طاقت سے ایک محیّرالعقول کمپیوٹری حکم کے ذریعے منظم ہو گیا تھا۔ آیتِ کریمہ میں لفظِ "رَبّ" اور لفظِ "فَلَق" کو ذِکر کرنے کی یہی وجہ ہے کہ تمام مخلوقات کو اِنشقاق اور دھماکے کے نتیجے میں پیدا کیا گیا۔ تاہم اِس سے پہلے کہ کوئی چیز ظہور پذیر ہونے کے لئے ضروری خصوصیات کی حامل ہو سکے اُسے ﷲ ربّ العزت کی ربوبیّت کی صفات ہی کا فیض حاصل کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ طبیعی کائنات اور حیاتیاتی کمپیوٹری نظام کے قابل ہو سکے۔ یہ دَرحقیقت خالقِ کائنات کی بصیرت کا کمال ہے جو تمام کائنات پر حاوی ہے۔ گویا ﷲ ربّ العزّت نے فرمایا کہ میری قدرتِ کاملہ میں ہر اُس مخلوق چیز کے شر سے پناہ حاصل کرو کہ جس کی تشکیل میری صفتِ ربوبیت کے فیضان سے ایک دھماکے کے نتیجے میں وُقوع پذیر ہوئی۔ میں تمہارا ربّ اور اِن کہکشاؤں کا حکمران ہوں جنہیں میں نے ایک عظیم دھماکے کے ساتھ خلا کی لا مُتناہی وُسعتوں میں بکھیر رکھا ہے۔ ایسا دھماکہ جو ایک اِکائی سے شروع ہوا اور اُس کے ذریعے بہت سی ایسی طاقتیں، قوتیں، شعاع ریزیاں اور ردِعمل معرضِ وُجود میں آئے، جو زِندگی کے لئے مہلک ہو سکتے ہیں۔ پس اُن ضَرَر رساں لہروں سے میری پناہ حاصل کرو، کیونکہ جو کوئی میری پناہ لیتا ہے وہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
عظیم دھماکے کا پیش منظر
عظیم ماہرِ طبیعیات ’سٹیفن ہاکنگ‘( Stephen Hawking ) کی تحقیق کے مطابق عظیم دھماکے سے فقط چند گھنٹے بعد ہیلئم اور دُوسرے عناصر کی افزائش تھم گئی اور اُس کے بعد اگلے کئی لاکھ سال تک کائنات کسی قابلِ ذِکر حادثے کے بغیر سکون کے ساتھ مسلسل پھیلتی ہی چلی گئی۔ پھر جب رفتہ رفتہ (کائنات کا اَوسط) درجۂ حرارت چند ہزار درجے تک گِر گیا تو اِلیکٹران اور مرکزے ( nuclei ) کے پاس اِتنی توانائی برقرار نہ رہ سکی کہ وہ اپنے درمیان موجود برقی مقناطیسی کشش پر غالب آ سکتے،
ز ’سٹیفن ہاکنگ‘ دُوربین کے مُوجد ’گیلیلیو گیلیلی‘ کی وفات کے ٹھیک ۳۰۰ سال بعد ۱۹۴۲ء میں برطانیہ کے علمی شہر ’آکسفورڈ‘ میں پیدا ہوا۔ اُس نے فزکس کی اِبتدائی تعلیم ’آکسفورڈ یونیورسٹی‘ سے حاصل کی اور اُس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے کیمبرج چلا گیا۔ نوجوانی کی عمر میں ہی وہ ’موٹرنیورون‘ ( motor neuron ) نامی بیماری میں مبتلا ہو گیا مگر اُس کے باوُجود تحقیق و جستجو کے دروازے اُس نے کبھی بند نہ ہونے دیئے۔ یہ اُسی محنت کا صلہ تھا کہ وہ ’کیمبرج یونیورسٹی‘ میں ریاضی کا پروفیسر بنا اور ’نیوٹن کی تاریخی کرسی‘ کا حقدار قرار پایا۔ اُس کا مرتبہ ایک عظیم سائنسدان کے طور پر نیوٹن اور آئن سٹائن کے ہم پلہ تصور کیا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی معروف کتاب A Brief History of Time میں نہ صرف کائنات کی تخلیق و توسیع اور قیامت کی کئی ایک ممکنہ صورتوں کے متعلق جدید نظریات اِنتہائی آسان پیرائے میں بیان کئے ہیں بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ زمان-مکان پر بھی گفتگو کی ہے۔
اِس لئے اُنہیں مجبوراً باہم مل کر ایٹم تشکیل دینا پڑے اور مادّے کا بنیادی تعمیری ذرّہ ایٹم وُجود میں آیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر پوری کائنات پھیلنے اور ٹھنڈا ہونے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم وہ علاقے جو نسبتاً زیادہ کثیف ہیں وہاں وُسعت پذیری کا عمل زیادہ کششِ ثقل کی وجہ سے آہستہ ہو گیا ہے۔ یہی چیز آخرکار کائنات کے پھیلاؤ کو کچھ علاقوں میں روکنے کا باعث بنے گی، جس کے بعد کائنات اندر کی جانب واپسی کا سفر شروع کر دے گی۔ اندر کی طرف ہونے والے اِنہدام کے دَوران جن مخصوص حلقوں سے اِنہدام شروع ہو گا اُن سے باہر موجود مادّے کی کششِ ثقل شاید اُنہیں آہستہ سے گھمانا شروع کر دے۔ جوں جوں مُنہدم ہونے والے حلقے چھوٹے ہوتے چلے جائیں گے، اُن کے گھومنے میں اُسی قدر تیزی آتی چلی جائے گی۔ بالآخر جب کوئی حلقہ بہت چھوٹا رہ جائے گا تو وہ اِتنی تیزی سے گھومے گا کہ کششِ ثقل کا توازُن برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ گھومتی ہوئی چکر دار کہکشائیں ( spiral galaxies ) بھی اِسی انداز میں پیدا ہوئی تھیں جبکہ دیگر کہکشائیں جن میں محوری گردِش کا یہ عمل ظاہر نہیں ہوا وہ بیضوی شکل اِختیار کرتی چلی گئیں جس کی وجہ سے اُنہیں بیضوی کہکشائیں ( elliptical galaxies )کہا جاتا ہے۔
قرآن اور نظریۂ اِضافیت( Theory of Relativity )
قرآنِ مجید میں تخلیقِ کائنات سے متعلق بے شمار آیات موجود ہیں جن کے مطالعہ سے خالقِ کائنات کی شانِ خلّاقیت عیاں ہوتی ہے۔ ﷲ ربّ العزت نے اِس کائنات کی تخلیق میں ایک خاص حُسنِ نظم سے کام لیا ہے، جسے ہم اپنی اِستعداد کے سانچوں میں ڈھالتے ہوئے مختلف علوم و فنون کی اِصطلاحات کی صورت میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید کا سائنسی مطالعہ آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کے حوالے سے علمِ تخلیقیات ( cosmology ) اور علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) کے مندرجہ ذیل اُصول مہیا کرتا ہے:
-۱ رَتق اور فَتق کے تصوّر کے تحت قرآنِ مجید یہ بتاتا ہے کہ مادّہ اور توانائی اِبتداءً ایک ہی چیز تھے۔ مادّہ سمٹی ہوئی توانائی ہے اور توانائی مادّے کی آزاد شدہ شکل۔ اِسی طرح زمان و مکان ( time / space ) کو بھی ایک دُوسرے سے جدا کرنا ناممکن ہے، دونوں ہمیشہ مسلسل متصل حالت میں پائے جاتے ہیں۔ ﷲ ربُّ العزت نے اپنی ربوبیّت کی طاقت اور دباؤ کے عمل سے تمام اَجرامِ سماوی کو ایک وحدت ( singularity ) سے پھاڑ کر جدا جدا کر دیا اور یوں تمام سماوی کائنات کو وُجود ملا۔ یہ قرآنی راز ’آئن سٹائن‘ کے ’نظریۂ اِضافیت‘ کے ذریعے بیسویں صدی کے اَوائل میں منظرِ عام پر آیا۔
-۲( وَ السَّمَآءَ بَنَینَاهَا بِأَیدٍ ) (الذاریات،۵۱:۴۷) کے تحت کائنات کو طاقت کے ذریعے پیدا کئے جانے سے حاصل ہونے والا قرآنی تصوّر اِس سائنسی حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ ’عظیم اِبتدائی دھماکے‘ ( Big Bang ) سے شروع ہونے والی کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے پھیلاؤ اور موجودہ حالت تک، ایک ایٹم کے نظام سے لے کر عظیم نظامِ سیارگان اور کہکشاؤں کے بڑے بڑے گروہوں تک ہر چیز کی بقا کا اِنحصار کھنچاؤ اور توانائی کے برقرار رہنے اور اُن کے مابین توازُن پر مبنی ہے۔
یہ کھنچاؤ مرکز مائل ( centripetal ) اور مرکز گریز ( centrifugal ) قوّتوں کی صورت میں کائنات کے ہر مقام اور ہر شے میں پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ’مرکز مائل قوّت‘ اور ’مرکز گریز قوّت‘ کا ہر جگہ برابر پایا جانا ایک ایسے توازُن کی نشاندہی کرتا ہے جو نظامِ سیارگان کے وُجود کی ضمانت ہے۔ اُن دونوں طاقتوں کے اِعتدال ہی سے ساری کائنات کا نظام قائم و دائم ہے اور ذرا سی بے اِعتدالی تمام نظامِ عالم کو نیست و نابود کر سکتی ہے۔ جیسے بجلی میں مخالف بار ایک دُوسرے کو کھینچتی اور موافق بار دفع کرتی ہیں، اِسی طرح کائنات میں موجود تمام اشیاء کو۔ ۔ ۔ خواہ وہ سورج اور دُوسرے ستاروں کے گرد محوِ گردِش سیارے ہوں یا نیوکلیئس کے گرد گھومنے والے اِلیکٹران۔ ۔ ۔ ’مرکز گریز قوّت‘ ہی اُنہیں ’کششِ ثقل‘ کے زیرِ اثر مرکز میں گرنے اور مُنہدم ہونے سے بچائے ہوئے ہے۔ گویا کائنات کا تمام توازُن ﷲ ربّ العزت کے نظامِ ربوبیت کے پیدا کردہ کھنچاؤ اور توانائی ہی سے منظم ہے۔
-۳ ’آئن سٹائن‘ کے ’خصوصی نظریۂ اِضافیت‘ ( Special Theory of Relativity ) کے ذریعے قرآنِ مجید کے اِس تصوّر۔ ۔ ۔ کہ کائنات کو طاقت (توانائی) کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ کی واضح توثیق میسر آ چکی ہے۔ اِس نظریئے کی بنیاد E=mc۲ مساوات ہے، یعنی توانائی ایسے مادّے پر مشتمل ہوتی ہے جسے روشنی کی سمتی رفتار ( velocity ) کے مربّع کے ساتھ ضرب دی گئی ہو۔ یہ تعلق اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مادّہ توانائی ہی کی ایک شکل ہے اور روشنی کی سمتی رفتار کے تناظر میں مادّے کے ہر ایٹم کے اندر توانائی کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ یہی وہ مساوات ہے جس نے سورج اور دُوسرے ستاروں میں توانائی کے ذرائع کی وضاحت کی اور اُسی کے ذریعے بعد ازاں ایٹمی توانائی اور ایٹم بم کی بنیادیں بھی فراہم ہوئیں۔
آئن سٹائن کی یہ دریافت اِس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ایٹم کی ساخت طاقت یعنی توانائی ( E=mc۲ ) کے ذریعے وُجود میں لائی گئی ہے۔ یہ حقیقت اِن آیاتِ قرآنیہ سے کس قدر ہم آہنگ ہے:
( وَ السَّمَآئَ بَنَینَاهَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَمُوسِعُونَ ) (الذّاریات،۵۱:۴۷)
اور ہم نے کائنات کے سماوی طبقات کو طاقت (توانائی) کے ذریعے پیدا کیا اور ہم ہی اُسے وُسعت پذیر رکھتے ہیں( وَ خَلَقَ کُلَّ شَئِ فَقَدَّرَه تَقدیراً ) (الفرقان،۲۵:۲)
اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اُس (کی بقاء و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت، اَلغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہےاِن آیاتِ کریمہ میں ہر شے کی توانائی کے ذریعے تخلیق، اور ہر چیز میں اور مادّے کے ہر ایٹم میں توانائی کے متناسب تسویہ کا تصوّر پایا جاتا ہے۔
( إِنَّا کُلَّ شَئ خَلَقنَاهُ بِقَدَرٍ وَّ مَا أَمرُنَا إِلاَّ وَاحِدَةٌ کَلَمحٍم بِالبَصَرِ ) (القمر،۵۴:۴۹،۵۰)
ہم نے ہر شے ایک مقرّر اَندازے سے بنائی ہے O اور ہمارا حکم تو یکبارگی ایسے (واقع) ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنایہ آیاتِ مبارکہ ظاہر کرتی ہیں کہ تخلیق کا عمل ایک حکم کی تعمیل میں ہونے والا دھماکہ تھا، جس نے عمل درآمد کے لئے پلک جھپکنے سے بھی کم، ایک سیکنڈ کا بہت تھوڑا عرصہ صرف کیا اور کائنات کا ہر ذرّہ توانائی اور خصوصیات میں مکمل تناسب رکھتا تھا۔
-۴ قرآنِ مجید اِس سائنسی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ کائنات کا تمام سماوی مواد اِبتداءً گیسی بادلوں کی صورت میں موجود تھا۔ سورۂ حم السجدہ کی آیت نمبر۱۱ میں وَھِیَ دُخَانٌ (اور وہ اُس وقت گیس کے بادل تھے) کے اَلفاظ غیر مبہم طور پر دُخانی حالت کی موجودگی کو ثابت کرتے ہیں۔ پھر اُن گیسی بادلوں کے اند ﷲ ربّ العزت نے متوازن فلکیاتی نظام ترتیب دیا، جس کے تحت اربوں کہکشائیں اور اُن کے اندر واقع کھربوں اِنفرادی نظاموں کو وُجود ملا۔ تمام کہکشائیں کائنات کے مرکز سے باہر کی جانب بیک وقت وُسعت پذیر ہیں اور ابھی تک اُن میں اِجتماعی طور پر کوئی ٹکراؤ یا عدم توازُن پیدا نہیں ہوا، جس روز اُن میں اِجتماعی سطح کا ٹکراؤ پیدا ہوا وہ اِس کائنات کے لئے قیامت کا دن ہو گا۔ (کہکشاؤں کی رجعتِ قہقری اور قیامت کے سائنسی اَسباب کے مطالعہ کے لئے باب دہم کی طرف رُجوع کریں)
باب سوُم
قرآنی لفظِ ’سمآء‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت
السَّمَآء کا لفظ سَمَا یَسمُو سے ہے، جس کے معنی بلندی کے ہیں۔ لغتِ عرب میں ہے:"سمآئُ کلِ شیٍٔ أعلاہ" )کسی بھی چیز کے اُوپر جو کچھ ہے وہ اُس چیز کا سمآء ہے(۔ چنانچہ لُغوی اِعتبار سے لفظِ ’سمآ‘ کا اِطلاق کرۂ ارض کے گِرداگِرد موجود تمام کائنات پر ہوتا ہے اور زمین کے علاوہ تمام کائنات اور اَجرامِ سماوی عالمِ سماوات میں شامل ہیں۔
لُغتِ عرب میں لفظِ سمآء کے معانی کی وُ سعت کے پیشِ نظر قرآنِ مجید میں بھی ﷲ ربّ العزت نے اِس لفظ کا اِستعمال متعدّد معانی میں کیا ہے۔ کہیں اِس سے مُراد بادل ہیں تو کہیں بارش۔ ۔ ۔ کہیں اِس کا اِستعمال کرۂ ہوائی کے معنی میں ہوا ہے تو کہیں بالائی کائنات کے معنی میں۔ ۔ ۔ الغرض کرۂ ارضی کی فضائے بسیط سے لے کر عالمِ طبیعی کی آخری حدوں تک وسیع و عریض کائنات کے تمام گوشوں پر لفظِ سمآء کا اِطلاق ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں جن مقامات پر یہ لفظ اِستعمال ہوا ہے وہاں سیاقِ کلام اُس کا مفہوم واضح کرتا ہے اور ہم آیات کے تسلسل پر غور و فکر کے بعد ہی اُس کے حقیقی معانی اور ﷲ ربُّ العزت کی غایتِ کلام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
قرآن مجید میں سمآء اور سمٰوٰت کا لفظ ۳۱۰ مرتبہ آیا ہے جن میں سے بیشتر مقامات پر اُس کا اِطلاق لغتِ اُردو میں استعمال ہونے والے لفظ ’آسمان‘ کی بجائے بارِش، بادل اور سماوی طبقات وغیرہ پر ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظ سماء کا سب سے پہلا اِستعمال بادل کے معنی میں ہوا ہے۔
ﷲ ربّ العزت کا فرمان ہے:
( أَو کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیهِ ظُلُمَاتٌ وَّ رَعدٌ وَّ بَرقٌ ) ۔ (البقرہ،۲:۱۹)
یا اُن کی مثال بادل سے برسنے والی بارش کی سی ہے، جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے۔
کسی مخصوص خطۂ ارضی کو اپنے دامن میں لپیٹ لینے والی کالی گھٹاؤں سے جب موسمِ گرما کی دوپہریں بھی نصف شب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں تو اُن بادلوں سے پیدا ہونے والی گرج اور چمک سے لوگوں میں بارِش کی خوشی کے باوُجود بجلی کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی موقع کی منظر نگاری قرآنِ مجید میں اِس مقام پر کی گئی ہے۔ جب لوگ موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیتِ کریمہ میں قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والا لفظِ ’سمآئ‘ اُردو کے معروف لفظ ’آسمان‘ کی بجائے ’بادل‘ کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔
لفظِ ’سمآئ‘ کے مختلف قرآنی معانی پر غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ’سمآء‘ کا معنی ہر جگہ ایسے ٹھوس غلاف نہیں ہیں جنہوں نے اربوں کھربوں نوری سال کی مسافتوں میں بکھری کہکشاؤں کے گروہوں ( clusters ) کو اپنے دامن میں لپیٹ رکھا ہے اور وہ تمام مادّی عالم کو محیط ہیں۔ بلکہ قرآنِ مجید لغتِ عرب کی وُ سعت کے پیشِ نظر اِس لفظ کا اِستعمال جا بجا اور بھی بہت سے معانی کے لئے کرتا ہے۔
قرآنی لفظ سمآء کے معانی
قرآنِ مجید میں لفظ ’سمآء‘ مروّجہ سات آسمانوں کے علاوہ اِن معانی کے لئے بھی اِستعمال ہوا ہے:
۱۔ بادل ۴۔کرۂ ہوائی
۲ ۔بادلوں کی فضا ۵ ۔گھر کی چھت
۳ ۔بارش ۶۔ سماوی کائنات
۱۔ بادل
قرآنِ مجید میں بہت سے مواقع پر لفظ سمآء بادلوں کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ بارِش بادلوں سے برستی ہے، جو ہماری زمین ہی کی فضا میں معلّق ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں بارِش کا ذِکر آیا ہے وہاں لفظ سمآء کا اِستعمال بارِش ہی کے معنی میں ہوا ہے۔
سورۂ حجر میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( وَ أَرسَلنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلنَا مِنَ السَّمَآءِ مآءً ) ۔ (الحجر،: ۲۲ : ۱۵)
اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں، پھر ہم بادلوں سے پانی اُتارتے ہیں۔
اِس آیتِ مبارکہ میں پانی سے بھرے بادلوں کو ’سمآء‘ کہا گیا ہے، جن سے پانی برسا کر ﷲ ربُّ العزت پیاسی زمینوں کو سیراب فرماتا ہے۔ وہ تمام آیات جن میں "( یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ) " (آسمان سے پانی (بارِش) اُتارتا ہے) کا بیان آیا ہے وہاں سمآء سے مراد بارش ہی ہو گی۔
۲۔ بادلوں کی فضا
بادل کے علاوہ بعض مقامات پر لفظ سمآء کا ذِکر کرۂ ہوائی کی اُن مخصوص تہوں کے لئے بھی ہوا ہے جن میں بادل تیرتے رہتے ہیں۔
سورۂ نور میں ﷲ ربّ العزت نے فرمایا:
( أَ لَم تَرَ أَنَّ اللهَ یُزجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤلِّفُ بَینَه ثُمَّ یَجعَلُه رُکَامًا فَتَرَی الوَدقَ یَخرُجُ مِن خِلَالِه وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِن جِبَالٍ فِیهَا مِنم بَرَدٍ ) ۔(النور،:۴۳۲۴
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ﷲ ہی بادل کو (پہلے) آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اُس (کے مختلف ٹکڑوں) کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر اُسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اُس کے درمیان خالی جگہوں سے بارش نکل کر برستی ہے۔ اور وہ اُسی فضا سے برفانی پہاڑوں کی طرح (دِکھائی دینے والے) بادلوں میں سے اولے برساتا ہے۔
سورۂ نور کی اِس آیتِ کریمہ میں لفظِ ’سمآء‘ کا اِستعمال زمین کے کرۂ ہوائی ( atmosphere ) کی اُن تہوں کے لئے ہوا ہے جن میں بادل معلّق ہوتے ہیں۔ نیز بادلوں کی بناوَٹ اور اُن کی مختلف تہوں کا ذِکر بھی کیا گیا ہے، جو سمندروں سے چل کر خشکی پر برستے ہیں اور زمینی حیات کی سیرابی کا باعث بنتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ میں یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ کے الفاظ میں واضح طور پر بادلوں کی فضا کو سماء کہا گیا ہے۔ یہ اور اِس قبیل کی دُوسری بہت سی آیات جملہ اہلِ ایمان کو حصولِ علمِ موسمیات ( meteorology ) کی ترغیب دیتی دکھائی دیتی ہیں۔
لفظِ سمآء کا بادلوں کی فضا کے معنی میں ایک اور مقام پر یوں اِستعمال ہوا ہے:
( ﷲ الَّذِی یُرسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبسُطُه فِی السَّمَآءِ کَیفَ یَشَآءُ ) ۔
(الروم، ۴۸:۳۰) ﷲ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے۔
۳۔ بارِش
بارِش چونکہ بادلوں سے ہی پیدا ہوتی ہے اِس لئے بادل اور بادلوں کی فضا کے علاوہ کبھی لفظِ سمآء کا اِستعمال براہِ راست بارِش ہی کے معنی میں بھی ہوا ہے۔
اِرشاد فرمایا گیا:
( وَ أَرسَلنَا السَّمَآءَ عَلَیهِم مِّدرَاراً وَّ جَعَلنَا الأَنهَارَ تَجرِی مِن تَحتِهِم ) ۔ (انعام، ۶:۶)
اور ہم نے اُن پر لگاتار برسنے والی بارِش بھیجی اور ہم نے اُن (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں۔
اِس آیتِ کریمہ میں بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔ یہاں سمآء کے مروّجہ معنی ’آسمان‘ کسی صورت میں بھی مراد نہیں لئے جا سکتے کیونکہ آسمان تو کبھی نہیں برستا، ہمیشہ بارِش ہی برستی ہے۔ اِس آیت میں اُوپر سے برسنے والی بارِش اور زمین کے اندر بہنے والی نہروں کا متوازی ذِکر کیا گیا ہے۔
ایک اور آیتِ مبارکہ میں یہی مضمون اِس انداز میں وارِد ہوا ہے:
( یُرسِلِ السَّمَآءَ عَلَیکُم مِّدرَارًا ) ۔ (ھود،۱۱:۵۲ )
وہ تم پر مُوسلا دھار بارِش بھیجے گا۔
اِس آیتِ کریمہ میں بھی بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔
۴-کرۂ ہوائی
قرآنِ مجید میں لفظِ سمآء کا اِستعمال زمین کے گِرد لپٹے کرۂ ہوائی کے لئے بھی ہوا ہے۔ پرندے زمین کی فضا میں اُس کی سطح سے کُچھ بلندی پر اُڑتے ہیں، زمینی فضا کی وہ بلندی جہاں پرندوں کی عام پرواز ہوتی ہے قرآنِ مجید میں اُسے بھی سمآء کہا گیا ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
( أَ لَم یَرَو إِلَی الطَّیرِ مُسَخَّرَاتٍ فِی جَوِّ السَّمَآءِ مَا یُمسِکُهُنَّ إِلَّا اللهُ ) ۔ النحل، (۷۹:۱۶)
کیا اُنہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اُڑتے رہتے) ہیں۔ اُنہیں ﷲ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔
اِس آیتِ مبارکہ میں فضا یا کرۂ ہوائی کو سمآء کہا گیا ہے، جہاں پرندے اُڑتے ہیں۔
۵۔گھر کی چھت
سورۂ حج میں ایک مقام پر مطلق بلندی اور گھر کی چھت کے معنی میں بھی لفظِ سمآء کا اِستعمال ہوا ہے:
اِرشادِ ربّ ِ جلیل ہے:
( فَلیَمدُد بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَآءِ ) ۔ (الحج) ۱۵:۲۲
اُسے چاہیئے کہ (گھر کی) چھت سے ایک رسی باندھ کر لٹک جائے۔
اِس آیتِ کریمہ میں تاجدارِ کائنات (ص) کے بارے میں نیک گمان نہ رکھنے والے منافقوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھر کی چھت سے رسا باندھ کر اُس سے لٹک جائیں اور خودکشی کر لیں۔ یہاں گھر کی چھت کے لئے سمآء کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔
۶- سماوی کائنات
لفظِ سمآء کو ﷲ ربُّ العزت نے اپنے کلامِ مجید میں کروڑوں اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھری ناقابلِ اِحصاء و شمار کہکشاؤں کے سلسلوں پر مشتمل تمام کائنات کے لئے بھی اِستعمال کیا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے وقت ہر طرف جو دُخانی کیفیت ( gaseous state ) موجود تھی، اُس کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا:
( ثُمَّ استَویٰ إِلیَ السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَضَاهُنَّ سَبعَ سَمٰوَاتٍ ) ۔(فصلت، ۴۱: ۱۱.۱۲)
پھر وہ (ﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دُھواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اُنہیں سات آسمان بنا دیا۔
اِس آیتِ مبارکہ میں ’بالائی کائنات‘ کو سمآء کہا گیا ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اِس مقام پر بات اُس وقت کی ہو رہی ہے جب ابھی سبع سماوات نہیں بنے تھے۔ گویا یہاں جس شے کو سمآء کہا گیا ہے وہ سبع سماوات کی تخلیق سے پہلے بھی موجود تھی۔ گویا جس حالت سے سات آسمانوں کی تخلیق عمل میں آئی اُسے بھی قرآن نے سمآء سے تعبیر کیا ہے۔
ایک اور مقام پر ﷲ ربُّ العزت نے لفظِ سمآء کو جملہ سماوی کائنات کے معنی میں اِستعمال کرتے ہوئے فرمایا:
( تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوجًا وَّ جَعَلَ فِیهَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًا ) (الفرقان، ۲۵:۶۱)
وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کروں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے) چمکنے والا چاند بنایاقرآنِ مجید سے آسمان کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ یہ کوئی ایسا ٹھوس اور جامد جسم نہیں جس کے آر پار جانا ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ قدیم فلاسفہ کا خیال تھا اور اُن کے زیرِ اثر ہمارے بعض علماء نے بھی یہی تصور کر لیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
( ثُمَّ استَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَضٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوَاتٍ فِی یَومَینِ وَ اَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآئٍ اَمرَهَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ ) ۔ (حم السجدہ، ۴۱: ۱۱.۱۲)
پھر وہ (ﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان اوپر کے طبقات کو دو ادوار میں مکمل سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اسی سے متعلق احکام بھیجے اور ہم نے سب سے نچلے آسمان کو ستاروں سے آراستہ کیا۔
اِن آیاتِ کریمہ اور ان کے سیاق و سباق سے درج ذیل اُمور سامنے آتے ہیں:
-۱ عالمِ سماء اِبتداء ً دھُواں ( cloud of hot gases ) تھا۔
-۲ اِس عالمِ سماء کو سات محکم طبقات میں تقسیم کیا گیا، جیسا کہ اِرشادِ اِلٰہی ہے:
( اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوَاتٍ طِبَاقًا ) ۔ (الملک، ۶۷:۳)
(بابرکت ہے وہ ﷲ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے۔
سات کا عدد خاص بھی ہو سکتا ہے اور لُغتِ عرب کے قاعدے کے مطابق اِس سے محض عددی کثرت بھی مُراد ہو سکتی ہے۔
-۳ تمام ستارے اور سیارے مثلاً چاند، سورج اور دیگر اَجرامِ فلکی جو عالمِ اَفلاک میں چراغوں کی مانند چمک رہے ہیں، پہلے طبقۂ آسمانی میں موجود ہیں۔ اُن کا مدار آسمانِ دُنیا کے نیچے ہی ہے۔ کوئی ستارہ یا سیارہ پہلے آسمان سے اُوپر نہیں۔ یہ تمام سیارگانِ فلکی باری تعالیٰ کے حکم اور اُس کی تدبیر کے مطابق محوِ گردش ہیں۔ جیساکہ اِرشاد ہے:
( وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍم بِأَمرِه ) ۔ (الاعراف، ۵۴: ۷)
اور سورج چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔
اِسی طرح ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:
( کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (الانبیاء، ۳۳ :۲۱)
تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں-۴ کائنات کی حدُود اِس نوعیت کی نہیں ہیں کہ اُنہیں چھُوا نہ جا سکے یا اُن کے آر پار آنا جانا نا ممکن ہو۔ قرآن و حدیث سے یہ اَمر ہرگز ثابت نہیں کہ اِنسان آسمانوں کے پار نہیں جا سکتا، بلکہ اِس کا عقلی و شرعی اِمکان خود قرآن سے یوں ثابت ہے۔
ﷲ ربُّ العزت نے جنوں کے ساتھ اِنسانوں کو بھی مخاطب کیا اور فرمایا:
یَا مَعشَرَ الجِنِّ وَ الاِنسِ إِنِ استَطَعتُم اَن تَنفُذُوا مِن اَقطَارِ السَّمٰوَاتِ وَ الاَرضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ اِلَّا بِسُلطَانٍ(الرحمن، ۵۵:۳۳)
اے گروہِ جن و اِنسان! اگر تم میں سماوی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیّت) کے بغیر تم (یقیناً) نہیں نکل سکتےاِسی آیتِ کریمہ کے مفہوم کا ایک مفاد یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان کے کناروں سے تو باہر نکل سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کی حدُود سے نہیں نکل سکتا۔ سائنس تخلیقِ سماوی کے باب میں بھی قرآن کے اَحکامات کی تصدیق کرتی ہے۔
لفظِ سمآء کے مختلف قرآنی اِستعمالات کے بعد اَب ہم سات آسمانوں سے متعلق کچھ جدید سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں تاکہ قرآنی بیانات کی صحت و صداقت جدید ذِہن پر آشکار ہو سکے اور وہ اُس کے کلامِ الہٰی ہونے پر یقینِ کامل پا سکے۔
سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر
قرآنِ مجید سات آسمانوں کی موجودگی اور اُن کے مابین ہم آہنگی کا تصوّر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اِن آیات میں واضح کی گئی ہے:
( اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ) (الملک،۶۷:۳)
(بابرکت ہے وہ ﷲ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے پیدا بنائے۔
( ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ وَ هُوَ بِکُلِّ شَئ عَلِیمٌ ) (البقرہ،۲:۲۹)
پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے اُنہیں درُست کر کے اُن کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے( أَلَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ ﷲ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ) (نوح،۷۱:۱۵)
کیا تم نہیں دیکھتے کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ نے کس طرح سات آسمانی طبقات اُوپر تلے پیدا کر رکھے ہیں( وَ لَقَد خَلَقنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَائِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَ ) (المؤمنون،۲۳:۱۷)
اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرّۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےاگرچہ سات آسمانوں کے کچھ رُوحانی معانی اور توجیہات بھی بہت سی تفاسیر میں پیش کئے گئے ہیں۔ ۔ ۔ اور ہم اُن کی تائید کرتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر اُس کے ساتھ ساتھ طبیعی کائنات، اُس کے خلائی طبقات، اَجسامِ سماوی اور خلاء اور کائنات سے متعلقہ کچھ سائنسی اور فلکیاتی توضیحات بھی ہمارے علم میں آئی ہیں۔ یہ طبیعی موجودات رُوحانی اور مابعد الطبیعی موجودات کے عینی شواہد بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِن دونوں میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔
پہلی وضاحت۔ ۔ ۔ سات آسمانوں کا کائناتی تصوّر
قرآنِ حکیم نے اپنی بہت سی آیات میں سات آسمانوں کا ذِکر کیا ہے۔ گزشتہ ۲۰۰سال سے کائنات سے متعلق ہونے والی انتھک تحقیقات کے باوُجود ہم ابھی اِس بارے میں سائنسی بنیادوں پر حتمی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ صرف حالیہ چند عشروں ( decades ) میں فلکی طبیعیات کے سلسلے میں چند اِنتہائی دِلچسپ دریافتیں ہوئی ہیں اور اُن سے معجزۂ قرآن کی حقانیت ثابت ہو گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِنسان نے جو کچھ بھی دریافت کیا ہے وہ سمندر میں سے فقط ایک قطرہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن پھر بھی اُس نے کم از کم اپنی پچھلی دو صدیوں کی خطاؤں کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔
ترکی کے نامور محقّق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق کائنات متنوّع مقناطیسی تہوں کی عکاسی کرتی ہے۔ پہلی اور مرکزی تہ بے شمار ستاروں سے بننے والی کہکشاؤں اور اُن کے گروہوں پر مشتمل ہے۔ اُس کے اُوپر واقع دُوسری تہ بہت سی مِقناطیسی خصوصیات کی حامل ہے، جو قواسرز ( quasars ) پر مشتمل ہے، جنہیں ہم ستاروں کے بیج بھی کہہ سکتے ہیں۔ قواسرز کائنات کے قدیم ترین اَجرام ہیں جو بہت زیادہ ریڈشفٹ چھوڑتے ہیں۔ اُس کے گِرد تیسری مقناطیسی پٹی ہے جو کائنات کے سِفلی مقامات کو اپنے حلقے میں لئے ہوئے ہے۔
سب سے اندرونی دائرہ اور خاص طور پر ہمارا اپنا نظامِ شمسی اپنے تمام سیاروں کے خاندان سمیت ہمارے لئے زمین پر رہتے ہوئے سب سے آسان قابلِ مُشاہدہ علاقہ ہے۔ اس نظام کی اندرونی ساخت تین الگ الگ مِقناطیسی میدانوں پر مُشتمل ہے۔
سب سے پہلے تو ہر سیارہ ایک مقناطیسی میدان کا مالک ہے، جو اُس سیارے سے اِردگرد واقع ہوتا ہے۔ پھر اُس کے بعد نظامِ شمسی کے اِمتزاج سے تمام سیارے ایک دُوسری مقناطیسی پٹی تشکیل دیتے ہیں۔ مزید برآں ہر نظامِ شمسی اپنی کہکشاں کے ساتھ ایک الگ وسیع و عریض مقناطیسی علاقے کی بنیاد رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ کم از کم ایک کھرب ستارے یا سورج تو صرف ہماری کہکشاں ( Milky Way ) میں شامل ہیں۔ مزید اعلیٰ سطح پر آس پاس واقع کہکشائیں کلسٹرز (کہکشاؤں کے گروہ) کے ایک اور مقناطیسی میدان کا باعث بن جاتی ہیں۔ تبھی تو جب ہم زمین سے آسمان کی طرف نظر کرتے ہیں تو سات ایسی مقناطیسی پٹیوں میں گھِرے ہوئے ہوتے ہیں جو خلاء کی بیکرانی میں پسپائی اِختیار کر چکی ہوں۔ اگر ہم زمین سے کائنات کی وُسعتوں کی طرف نظر دَوڑائیں تو سات آسمان اِس ترتیب سے واقع ہیں:
-۱ پہلا آسمان: وہ خلائی میدان، جس کی بنیاد ہم اپنے نظامِ شمسی کے ساتھ مل کر رکھتے ہیں۔
-۲ دُوسرا آسمان: ہماری کہکشاں کا خلائی میدان ہے۔ یہ وہ مقناطیسی میدان ہے جسے مِلکی وے کا مرکز تشکیل دیتا ہے۔
-۳ تیسرا آسمان: ہمارے مقامی کلسٹر (کہکشاؤں کے گروہ) کا خلائی میدان ہے۔
-۴ چوتھا آسمان: کائنات کا مرکزی مقناطیسی میدان ہے، جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔
-۵ پانچواں آسمان: اُس کائناتی پٹی پر مشتمل ہے جو قواسرز ( quasars ) بناتے ہیں۔
-۶ چھٹا آسمان: پھیلتی ہوئی کائنات کا میدان ہے، جسے رِجعتِ قہقری کی حامل (پیچھے ہٹتی ہوئی) کہکشائیں بناتی ہیں۔
-۷ ساتواں آسمان: سب سے بیرونی میدان ہے، جو کہکشاؤں کی لامحدود بیکرانی سے تشکیل پاتا ہے۔
اِن سات تہ در تہ آسمانوں کا ذِکر قرآنِ مجید نے آج سے ۱۴صدیاں پہلے واشگاف اَنداز میں کر دیا تھا۔ (سات آسمانوں سے متعلقہ آیاتِ مبارکہ سابقہ صفحات میں گزر چکی ہیں)۔
دُوسری وضاحت۔ ۔ ۔ سات فلکیاتی تہیں
سات آسمانوں کے تصوّر کو ذرا واضح انداز میں سمجھنے کے لئے ہم فلکی طبیعیات سے متعلقہ چند مزید معلومات کا مختصر ذِکر کریں گے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ مذکورہ بالا آسمانی تہوں کے درمیان ناقابلِ تصوّر فاصلے حائل ہیں۔
-۱ پہلی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ کم و بیش ۶۵کھرب کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔
-۲ دُوسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہماری کہکشاں کا قطر بھی ہے۔ ۔ ۔ ایک لاکھ ۳۰ہزار نوری سال وسیع ہے۔
-۳ تیسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہمارا مقامی کلسٹر ہے۔ ۔ ۔ ۲۰لاکھ نوری سال کی حدُود میں پھیلی ہوئی ہے۔
-۴ چوتھی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کا مجموعہ ہے، اور کائنات کا مرکز تشکیل دیتی ہے۔ ۔ ۔ ۱۰کروڑ نوری سال قطر پر محیط ہے۔
-۵ پانچویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ ایک ارب نوری سال کی مسافت پر واقع ہے۔
-۶ چھٹی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ ۲۰ارب نوری سال دُور ہے۔
-۷ ساتویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ اُس سے بھی کئی گنا آگے ہے، جس کا اَندازہ کرنا محال ہے۔
ایک آسمان سے دُوسرے آسمان تک کا جسمانی سفر ناممکن ہے، جس کا پہلا سبب روشنی سے کئی گنا زیادہ بے تحاشا رفتار کا عدم حصول ہے اور اُس کا دُوسرا سبب کائنات میں ہر سُو بکھری مقناطیسی قوّتوں پر نوعِ اِنسانی کا حاوی نہ ہو سکنا ہے۔ ان آسمانوں کی حدُود سے گزرنے کے لئے ضروری ہے کہ رَوشنی سے زیادہ رفتار حاصل کی جائے، روشنی کی رفتار کا حصول چونکہ مادّی اَجسام کے لئے قطعاً ناممکن ہے اِس لئے اِس کا دُوسرا مطلب یہ ہوا کہ ’مادّے کی دُنیا سے نجات‘ حاصل کی جائے۔ ایسا عظیم سفر مادّی اَجسام سے تو ممکن نہیں البتہ رُوح اپنے اِرتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد ایسا کرنے پر قادِر ہو سکتی ہے۔
تیسری وضاحت۔ ۔ ۔ لا مُتناہی اَبعاد
سات آسمانوں کے بارے میں لا مُتناہی اَبعاد کا تصوّر بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف آسمانوں میں موجود عالمِ مکاں مختلف اَبعاد کا حامل ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے سات آسمانوں کا تصوّر سات جدا جدا خلائی تسلسلوں کے تصوّر کو بھی شامل ہے۔ چونکہ ہم ابھی تک وقت سمیت چار سے زیادہ اَبعاد کو محسوس نہیں کر سکتے لہٰذا ہمارے لئے فی الحال اِن لامتناہی اَبعاد کو کاملاً سمجھ سکنا ممکن نہیں۔
باب چہارُم
مکان-زمان ( Space-time ) کا قرآنی نظریہ
آسمان کی وُسعتوں میں کروڑوں اربوں ستارے چہار دانگِ عالم میں صدیوں سے مسلسل ضوء پاشی کر رہے ہیں۔ اُن کے مُشاہدے کے دَوران ہم دراصل اُن کے ماضی کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہم فقط روشنی دیکھتے ہیں اور وہ روشنی جو آج سے لاکھوں سال قبل وہاں سے چلی تھی آج ہم تک پہنچتی ہے تو ہم اُن ستاروں کو دیکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اسی طرح آج اگر کسی ستارے پر کوئی حادثہ پیش آ جائے یا ستارہ اپنی موت سے قبل سرخ ضخّام ( red giant ) میں تبدیل ہو جائے تو ہمیں لاکھوں سالوں بعد اُس وقت اِس حقیقت کی خبر ہو گی جب اُس سے خارج ہونے والی روشنی اتنی طویل مسافت طے کر کے ہم تک پہنچے گی۔ گویا آج کی حقیقت لاکھوں سال بعد دکھائی دے گی۔ اِسی طرح ’سورج‘، جو ہم سے آٹھ نوری منٹ کے فاصلے پر واقع ہے، اگر اچانک بجھ جائے تو کرۂ ارض پر آٹھ منٹ تک زندگی جوں کی توں رواں دواں رہے گی اور زمین کے باسیوں کو خبر تک نہ ہو گی کہ سورج پر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ سورج کے بجھنے کے بعد مزید آٹھ منٹ تک زمین سورج سے نکلنے والی آخری کرنوں سے روشن رہے گی تآنکہ سورج کی آخری کرن آ کر یہ پیغام دے کہ میں روشنی کی آخری سفیر ہوں اور اَب میرے پیچھے اُجالوں کا سفر ختم ہو گیا ہے۔
مغربی سائنس کی تاریخ کی صدیوں پر محیط جدّوجہد میں ارسطو سے لے کر نیوٹن تک ہمیں مطلق زمان و مکان کا نظریہ چھایا دکھائی دیتا ہے۔ اُن دونوں کا یہ نظریہ تھا کہ کوئی سے دو واقعات کے درمیانی وقفہ کی پیمائش بغیر کسی خطاء کے ممکن ہے اور یہ وقفہ کسی بھی ماپنے والے کے لئے برابر ہو گا بشرطیکہ آلاتِ پیمائش معیاری ہوں۔ یہ وہ تصوّر ہے جسے قدیم یونانی فلاسفہ کے دَور سے لے کر بیسویں صدی کے اَوائل تک عقلِ انسانی کے بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
نیوٹن کے قوانینِ حرکت کے صدیوں بعد آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت سے ’مکان۔زمان‘ ( space-time ) کے جدید نظریات کا آغاز ہوا اور مسلسل اِرتقاء سے گزرتے ہوئے بیسویں صدی کے آخری سالوں تک یہ نظریات ’سٹیفن ہاکنگ‘ تک آ پہنچے۔ اگرچہ ’مکان-زمان‘ کے نئے نظریات کو متعارف ہوئے برس ہا برس گزر چکے ہیں مگر پھر بھی بنی نوعِ اِنسان کے ذِہن سے فرسودہ نظریۂ جمودِ کائنات مکمل طور پر محو نہیں ہو سکا۔ سٹیفن ہاکنگ اپنی شہرہ آفاق تصنیف A Brief History of Time میں لکھتا ہے کہ "ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مکان زمان سے مکمل طور پر الگ اور آزاد نہیں ہے بلکہ وہ اُس سے مل کر ایک اور شے بناتا ہے جسے ’مکان۔زمان‘ ( space-time ) کہتے ہیں۔" چنانچہ ’مکان-زمان‘ کی حیثیت کے پیش نظر کہیں وقت مسلسل پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کہیں وہ سُکڑ کر محض چند ثانیوں میں سمٹ آتا ہے، گویا اُس کی مطلق حیثیت جدید نظریات کے رَو میں دُور کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ نظریۂ اِضافیت کے مطابق مطلق وقت کچھ معنی نہیں رکھتا۔ ہر فرد اور شے کے لئے وقت کا ایک الگ پیمانہ ہوتا ہے جس کا اِنحصار اِس حقیقت پر ہوتا ہے کہ وہ کس مکان میں کس طریقے سے محوِ حرکت ہے۔ یہاں آ کر زمان و مکان کی اِنفرادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے اور وہ باہم مل کر ’مکان-زمان‘ کو تشکیل دیتے ہیں۔
’مکان-زمان‘ ( space-time ) کا نظریہ یقینی طور پر یہ طے کرتا ہے کہ زمان بھی مکان کی طرح حادِث ہے۔ ایک وقت تھاکہ یہ نہ تھے، پھر اُنہیں پیدا کیا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ دونوں موت سے ہمکنار ہوں گے۔
تقریباً ۱۵ ارب سال عمر کی نوخیز کائنات جس کی ۶۵ ارب سال عمر ابھی باقی ہے، خالقِ کائنات کے لئے اس کی تمام عمر (یعنی ۸۰ ارب سال) پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت ہے۔ یہی وقت یا زمان جو اپنی سُست روی کے باعث کسی کے لئے پھیل کر لامتناہی ہو جاتا ہے، جب کسی کے لئے سُکڑتا ہے تو تیز رفتاری کے ساتھ محض چند لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے چند ایسے واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے جن میں اُس نے اپنی خالقیت اور قدرت کا نظارہ کروانے کے لئے کچھ اَفراد پر وقت کی رفتار نہایت تیز کر دی اور سالوں پر محیط وقت چند گھنٹوں میں گزر گیا۔ وقت کے یوں سُکڑ جانے کو اِسلامی لٹریچر کی اِصطلاح میں "طئ زمانی" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
زمان و مکان کے اِضافی ہونے کا تصوّر بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب شہرہ آفاق یہودیٔ النسل سائنسدان آئن سٹائن نے ۱۹۰۵ء میں نظریۂ اِضافیتِ مخصوصہ ( Special Theory of Relativity ) پیش کیا۔ اُس تھیوری میں آئن سٹائن نے وقت اور فاصلہ دونوں کو تغیر پذیر قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ زمان و مکان ( time / space ) کی مطلق حیثیت کسی طور پر حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ دونوں محض ایک اِضافی حیثیت میں ہمارے اِدراک میں آتے ہیں۔ اُس نے یہ ثابت کیا کہ مادّہ ( matter )، توانائی ( energy )، کشش ( gravity )، زمان ( time ) اور مکان ( space ) اِن سب میں ایک خاص ربط اور نسبت موجود ہے اور اُس نسبت کی بنا پر ہی اُن کی تشریح کرنا ممکن ہے۔ جب ہم اُن میں سے کسی ایک کو دُوسری سے الگ کر کے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو نتائج یکسر مختلف حاصل ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی وقت یا فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں تو وہ اِضافی ( relative ) حیثیت میں کرتے ہیں۔ گویا کائنات کے مختلف مقامات پر وقت اور فاصلہ دونوں کی پیمائش میں کمی و بیشی ممکن ہے اور مکان کے بدلنے سے زمان کے بہاؤ اور رفتار میں کمی و بیشی بھی ممکن ہے۔ چنانچہ اِس سے یہ حقیقت منظرِ عام پر آتی ہے کہ ’آلاتِ پیمائش کے معیاری ہونے کے باوُجود کوئی سے دو واقعات کے درمیانی وقفہ کی پیمائش میں عدم یکسانی کا اِمکان بہرطور باقی رہتا ہے‘۔ نظریۂ اِضافیت میں آئن سٹائن نے یہ بھی ثابت کیا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے اور ایک جسم جب دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرتا ہے تو اُس کا حجم اور کمیّت بھی اُسی تناسب سے گھٹتے اور بڑھتے ہیں۔
روشنی کی رفتار کا عدم حصول
نظریۂ اِضافیت کے اِس پہلو سے یہ نتیجہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اِنتہائی تیز رفتار متحرک جسم کی لمبائی اُس کی حرکت کی سمت میں کم ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ روشنی کی ۱۰ فیصد رفتار پر کسی شے کی کمیّت میں اُس کی عام کمیّت سے ۰.۵ فیصد اِضافہ ہو جائے گا، روشنی کی ۹۰ فیصد رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت دوگنا ہو جائے گی جبکہ اُس کا حجم نصف رہ جائے گا۔ جب کسی شے کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچے گی تو اُس کی کمیّت میں اِضافہ تیز تر ہو جائے گا جس کی وجہ سے رفتار میں مزید اِضافے کے لئے اُسے توانائی کی مزید ضرورت بڑھتی جائے گی۔ اِس کا اصل سبب یہ ہے کہ کسی شے کو اپنی حرکت سے ملنے والی توانائی اُس کی کمیّت میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے جس کے سبب اُس کی رفتار میں اِضافہ مشکل ہوتا چلا جائے گا۔
مثال
اگر کوئی راکٹ ۱,۶۷,۰۰۰ میل فی سیکنڈ (روشنی سے ۹۰ فیصد) کی رفتار سے ۱۰ سال سفر کرے تو اُس میں موجود خلا نورد کی عمر میں وقت کی نصف رفتار کے پیشِ نظر محض ۵ سال کا اِضافہ ہو گا جبکہ زمین پر موجود اُس کے جڑواں بھائی پر ۱۰ سال گزر چکے ہوں گے اور خلا نورد اُس سے ۵ سال چھوٹا رہ جائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِنسانی جسم کی اِس محیر العقول رفتار پر نہ صرف دِل کی دھڑکن اور دورانِ خون بلکہ اِنسان کا نظامِ اِنہضام اور تنفّس بھی سُست پڑ جائے گا، جس کا لازمی نتیجہ اُس خلا نورد کی عمر میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔ روشنی کی رفتار کا ۹۰ فیصد حاصل کرنے سے جہاں وقت کی رفتار نصف رہ جاتی ہے وہاں جسم کا حجم بھی سُکڑ کر نصف رہ جاتا ہے اور اگر مادّی جسم اِس سے بھی زیادہ رفتار حاصل کر لے تو اُس کے حجم اور اُس پر گزرنے والے وقت کی رفتار میں بھی اُسی تناسب سے کمی ہوتی چلی جائے گی۔ اِس نظریئے میں سب سے دِلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال کوئی مادّی جسم روشنی کی ۱۰۰ فیصد رفتار حاصل کر لے تو اُس پر وقت کی رفتار لامحدود ہو جائے گی، اُس کی کمیّت بڑھتے بڑھتے لا محدُود ہو جائے گی اور اُس کا حجم سکڑ کر صفر ہو جائے گا، گویا جسم فنا ہو جائے گا۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس کی بنا پر آئن سٹائن اِس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔ یوں نظریۂ اِضافیت کے مطابق کوئی مادّی جسم کبھی روشنی کی رفتار کو نہیں چھو سکتا۔ صرف روشنی اور دُوسری لہریں جن کی حقیقی کمیّت کچھ نہیں ہوتی وُہی اِس محیر العقول رفتار سے سفر کر سکتی ہیں۔ نظریۂ اِضافیت میں مطلق وقت کا وُجود نہیں ہے بلکہ اُس کی جگہ ہر شے اور فرد کا اپنا اِضافی وقت ہوتا ہے جس کی پیمائش کا اِنحصار اِس بات پر ہے کہ وہ کہاں ہے اور کس رفتار سے حرکت میں ہے۔
اِضافیتِ زمان و مکان
مکان-زمان ( space-time ) سے متعلقہ جدید نظریات سے مکان اور زمان دونوں اِضافی قرار پاتے ہیں اور اُن کے مطلق ہونے کا تصوّر ختم ہو جاتا ہے۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ نے ’مکان-زمان‘ کی تشریح میں یہ بات بھی دو ٹوک الفاظ میں بیان کی ہے کہ جس طرح ہم کائنات میں ہونے والے واقعات کا ذِکر ’مکان-زمان‘ سے ماورا ہو کر نہیں کر سکتے اِسی طرح ’آئن سٹائن‘ کے عمومی نظریۂ اِضافیت ( General Theory of Relativity ) کے مطابق ’مکان-زمان‘ کا ذِکر کائنات کی حدُود سے ماورا ہو کر بے معنی ہو جاتا ہے۔ یہ چیز ہمیں اِسلامی نظریات کے کافی قریب لے آتی ہے اور خالقِ کائنات اور اُس کی غیر طبیعی نوری مخلوقات کے زمان-مکان کی حدُود سے ماورا ہونے کا اِعتقاد رکھنا عینِ عقل قرار پاتا ہے۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ نے تو مکان-زمان ( space-time ) کے جدید نظریات کو مستحکم کرتے ہوئے ایک اور نتیجہ بھی اَخذ کیا ہے۔ اُس نے مکان-زمان کی مطلق حیثیت کی نفی اور اِضافی حیثیت کے اِثبات سے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ کائنات غیر متغیر اور قدیم نہیں ہے بلکہ یہ دراصل مسلسل وُسعت اِختیار کر رہی ہے۔ کائنات کی اِس وُسعت پذیری سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا آغاز ماضی میں ایک خاص نقطے سے ہوا تھا اور مستقبل میں کسی خاص ساعت میں اُس کا خاتمہ بھی یقینی ہے۔
یونانی فلاسفہ کے وہ فرسودہ نظریات جو کائنات کو ’قدیم‘ ثابت کرتے ہوئے تصورِ خدا کی نفی کرتے تھے اور جس کے خلاف اِسلامی عہد میں بے شمار کلامی بحثیں ہوئیں، جدید سائنس نے یوں چپکے سے اُس بے سروپا نظریئے کے پر کاٹ دیئے اور بنی نوعِ اِنسان کو کائنات کی اوّلین تخلیق اور آخرکار اُس کی عظیم تباہی (یعنی قیامت) پر بھرپور سائنسی دلائل مہیا کر دیئے۔ عقلِ انسانی کا یہ اِرتقاء اِنسان کو اِسلام کی آفاقی تعلیمات سے مزید قریب لے آیا ہے۔
وقت کا آغاز اِس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی وُجود میں آیا تھا اور اُس کا تمام تر بہاؤ فقط اِسی طبیعی کائنات کی حدوں تک محدُود ہے۔ طبیعی کائنات سے ماوراء ہو کر وقت کی اہمیت کچھ نہیں، یہی وجہ ہے کہ ِاس مادّی کائنات سے براہِ راست تعلق نہ رکھنے والے فرشتوں اور اللہ تعالی کی دیگر نورانی مخلوقات کے لئے ہماری کائنات میں جاری و ساری وقت کی کچھ اہمیت نہیں ہے۔ ’ملک الموت‘ صرف اِسی کرۂ ارضی پر جہاں ۵ ارب سے زائد اِنسانی آبادی زندگی بسر کر رہی ہے، ایک ہی وقت میں ہزاروں کلومیٹر کے بُعد میں واقع شہروں میں رہنے والے اِنسانوں کو موت سے ہمکنار کرتا ہے اور اُن کی اَرواح کو اُسی قلیل ساعت میں عالمِ اَرواح میں چھوڑ آتا ہے۔ ’ملک الموت‘ کا اِس سرعت سے سفر یقینا روشنی کی رفتار سے بھی لاکھوں گنا تیز ہے۔ ایک عام ذہن میں فوری یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہے؟ ایسا صرف اِس لئے ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے ایسا چاہا اور اُس نے ایسے قوانین تخلیق کئے جن کی رُو سے اُس کی غیر مادّی نورانی مخلوق ’مکان-زمان‘ ( space-time ) کی قیود ( restrictions ) سے بالا ہو کر ہزاروں لاکھوں نوری سال کی مسافت سے کائناتی وقت کا ایک لمحہ صرف کئے بغیر اپنے فرائضِ منصبی سر انجام دینے میں مصروف ہے۔
جس طرح اِس کائنات سے براہِ راست تعلق نہ رکھنے والی مخلوقات اِس کائنات کے جملہ طبیعی قوانین سے کلیتہً آزاد ہیں اور اُن کے لئے ’مکان-زمان‘ ( space-time ) کی اہمیت صفر ہو کر رہ جاتی ہے بالکل اُسی طرح کائنات کی پیدائش سے قبل اور اُس کے اِختتام کے بعد بھی وقت کا وُجود نہیں۔ زمانے کا آغاز تخلیقِ کائنات سے ہوا اور کائنات کی آخری تباہی ( Big Crunch ) پر وقت کا یہ طویل سلسلہ تھم جائے گا۔
اِس کائناتِ ارض و سما میں ’مطلق زمان‘ اور ’مطلق مکان‘ کے وُجود کی سائنسی دلائل کے ساتھ ثابت ہونے والی نفی نے ہر فرد اور ہر شے کے لئے وقت اور جگہ کے الگ الگ اِضافی پیمانے متعارف کروائے۔ ایسے ہی ’اِضافی مکان‘ اور ’اِضافی زمان‘ کا اللہ ربّ العزت نے اپنے کلام میں بھی ذِکر کیا ہے جو مختلف اَفراد کے لئے مختلف حالتوں میں اپنی رفتار تبدیل کر لیتا ہے۔
قرآنِ مجید اور طئ زمانی
اللہ ربّ العزت کا آخری کلام ہونے کے ناطے جہاں قرآنِ مجید بنی نوع اِنسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے وہاں وہ ہمیں بے شمار سائنسی حقائق سے آشنا کرتے ہوئے اِس کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ سرکاتا بھی دِکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف ہم اِکیسویں صدی کی سائنسی پیش رفت اور جدید سائنسی آلات کی معاونت سے کائنات میں چھپے رازوں سے آگہی حاصل کرتے ہیں اور عناصرِ تخلیق کی مختلف تراکیب سے طبیعی دُنیا میں نت نئے قوانین دریافت کرتے ہیں جس سے یہ کائنات نسلِ اِنسانی کے لئے مسخر ہوتی چلی جا رہی ہے تو دُوسری طرف کلامِ مجید اِس دُنیا میں ہمیں اللہ تعالی کی کچھ ایسی نشانیاں بھی دِکھاتا ہے جو عام طبیعی قوانین کے تحت ہماری حیطۂ اِدراک میں سما ہی نہیں سکتی تھیں۔
روشنی کی رفتار یا اُس کے قریب قریب رفتار سے سفر کرنے والی مادّی اشیاء پر وقت کا اِنتہائی تیزی سے بہنا تو پچھلی چند دہائیوں کی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے۔ قرآنِ مجید اِس کرۂ ارضی پر حالتِ سکون میں پڑے اَفراد پر بھی اللہ کی نشانی کے طور پر وقت کا نہایت تیزی سے گزر جانا بیان کرتا ہے، جس سے اللہ ربّ العزت کی قدرت کا ایک اور پہلو ہماری عقل کو چیلنج کرتا دکھائی دیتا ہے۔ زمان و مکان کے اپنی اِضافی حیثیت کی بنا پر کسی خاص فرد کے لئے سکڑ جانے کو اِسلامی لٹریچر کی اِصطلاح میں "طئ زمان" و "طئ مکان" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اَصحابِ کہف کے لئے طئ زمانی
آج سے چند ہزار برس قبل ’دقیانوس‘ بادشاہ کے ظلم سے اپنے ایمان کو بچانے کے لئے اُس دَور کے چند اَفراد شہری آبادی سے ہجرت کر کے گھاٹیوں میں چلے گئے اور اُنہوں نے ایک غار میں قیام کیا، تھکن سے چور تھے اِس لئے جلد ہی آنکھ لگ گئی۔ قرآنِ مجید نے ’طئ زمانی‘ کے ضمن میں اُن کا واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ لوگ اُس غار میں ۳۰۹ سال تک آرام کرتے رہے۔ صدیوں بعد جب اُن کی آنکھ کھلی تو اُنہیں اِس حقیقت کا اِدراک نہ ہو سکا کہ اُن پر ۳۰۹ سال گزر چکے ہیں بلکہ وہ اپنی نیند کو ایک آدھ دِن سمجھتے رہے۔
قرآنِ مجید اِس محیر العقول واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے:
( قَالَ قَائِلٌ مِّنهُم کَم لَبِثتُم قَالُوا لَبِثنَا یَومًا أَو بَعضَ یَومٍ ) (الکہف، ۱۸:۱۹)
اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ اُنہوں نے کہا: ہم (یہاں) ایک دن یا اُس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔
۳۰۹ سال گزر جانے کے باوُجود اُنہیں یوں محسوس ہوا کہ ابھی ایک دِن بھی پورا گزرنے نہیں پایا اور اُن کے بدن پہلے کی طرح تروتازہ اور ہشاش بشاش رہے۔ ’طئ زمانی‘ کی یہ کتنی حیرت انگیز مثال ہے کہ مدتِ مدید تک اَصحابِ کہف اور اُن کا کتا ایک غار میں مقیم رہے اور مرورِ ایام سے اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچا۔ قرآنِ حکیم میں اِس مقام کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ ہمیں اِس حقیقت سے رُوشناس کرتا ہے کہ اَصحابِ کہف ۳۰۹ سال تک اپنے غار میں کھانے پینے اور دیگر حوائجِ نفسانی سے بے نیاز ہو کر آرام فرما رہے اور اللہ کی رحمت نے طبیعی نظامِ کائنات کو اپنے محبوب بندوں کے لئے بالائے طاق رکھ کر اُن کے جسموں کو گردِشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے کلیتاً محفوظ رکھا اور اُن کے اَجسام موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہے۔
۳۰۹ قمری سال ۳۰۰ شمسی سالوں کے مساوی ہوتے ہیں، اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کی ۳۰۰ بہاریں اُن پر گزر گئیں مگر اُن کے اَجسام تر و تازہ رہے۔ تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا اور وہ بیدار ہونے پر اُس مدّت کو محض ایک آدھ دِن خیال کرتے رہے۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ مطلقہ کا ظہور تھا جس سے کائنات کے طبیعی قوانین کے پیمانے سمٹ گئے۔
قرآن مجید فرماتا ہے:
( وَ تَرَی الشَّمسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن کَهفِهِم ذَاتَ الیَمِینِ وَ إِذَا غَرَبَت تَّقرِضُهُم ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُم فِی فَجوَةٍ مِّنهُ ) ۔ (الکہف، ۱۸:۱۷)
اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اُس غار کے کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔
اللہ تعالی کی وہ خاص نشانی جس کا ظہور اُس نے اَصحابِ کہف کی کرامت کے طور پر کیا، یہ ہے کہ اُس نے اپنے مقربین کو ظالم بادشاہ ’دقیانوس‘ کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے ۳۰۹ قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک تبدیل کر دیئے اور ’( ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) ‘ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی ۳۰۰ مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے بدل دیا اور فطری ضابطوں کو معطّل کئے رکھا۔
صدیوں سے جاری اِنسانی عقل کے سفر میں ایک نہایت اہم سنگِ میل ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ ( General Theory of Relativity ) کے نتیجے کے طور پر ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت سے بنی نوعِ اِنسان کا عقلی و سائنسی اِرتقاء ابھی اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ روشنی کی رفتار کے قریب قریب رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت اُس کی رفتار کے تناسب سے بڑھ جاتی ہے، حجم کم ہو جاتا ہے اور وقت اُس پر تیز رفتاری سے گزرتا ہے۔ جبکہ اِس کے برخلاف مذکورہ بالا قرآنی واقعہ میں اَصحابِ کہف سفر کی بجائے سکون کی حالت میں آرام فرما تھے کہ اُن کے جسم تروتازہ رہے، اُن کا حجم بھی برقرار رہا اور وقت اُن پر اِنتہائی تیزرفتاری سے گزر گیا۔ اَب یہ سب کیسے ہوا؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب موجودہ سائنسی تحقیقات و نظریات کی رُو سے تو ممکن نہیں۔ تاہم آنے والے وقتوں میں ’مکان-زمان‘ ( space-time ) پر ہونے والی مزید تحقیقات شاید اِس عُقدے کو وَا کر سکیں اور قدرتِ الٰہیہ کا یہ راز بھی عقلِ انسان کو حقائق کی ایک نئی کسوٹی عطا کرے۔
خدائے عز و جل نے اپنی خصوصی رحمت سے اَصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُر کیف نیند سُلا دیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دی، پھر اُنہیں ایسے مُشاہدۂ حق میں مگن کر دیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہو گئیں۔
سیدنا عزیرؑ کے لئے طئ زمانی
سیدنا عزیرؑ اللہ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے تھے۔ ایک روز آپ ایک ویران اور برباد بستی کے پاس سے گزرے جس کے مکانات منہدم ہو چکے تھے۔ اُس ویرانے کے مُشاہدے کے دوران اُن کے دِل میں یہ خیال وارِد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اِس تباہ حال بستی کے مکینوں کو دوبارہ کس طرح زِندہ کرے گا جن کے جسم مٹی میں مٹی ہو چکے ہیں۔ اِس خیال پر اللہ ربّ العزت نے اُنہیں حیات بعد الموت کا نظارہ کروانے کے لئے ایک صدی کے لئے سلا دیا۔ بطورِ مُشاہدہ اُن پر ۱۰۰ سال کے لئے موت طاری کر دی اور بعد اَزاں قدرتِ خداوندی ہی سے وہ زِندہ ہوئے اور ایک مکالمے میں ﷲ تعالیٰ نے ساری حقیقت اُن پر آشکار کی۔
قرآنِ مجید اِس بارے میں یوں گویا ہوتا ہے:
( فَأَمَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَه قَالَ کَم لَبِثتَ ) ۔ (البقرہ، ۲:۲۵۹)
سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) ﷲ نے اُسے سو برس تک مُردہ رکھا، پھر اُسے زندہ کیا۔ (بعد اَزاں) پوچھا: تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟
ایک صدی تک موت کی آغوش میں سوئے رہنے کے بعد جب حضرت عزیرؑ کو دوبارہ زِندگی ملی اور اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کتنا عرصہ سوئے رہے ہیں؟ تو اُنہوں نے جواب دیا:
( لَبِثتُ یَومًا أَو بَعضَ یَومٍ ) ۔ (البقرہ، ۲:۲۵۹)
میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔
سیدنا عزیرؑ کے اِس جواب پر اللہ تعالی نے تمام بات کھول کر اُن کے سامنے رکھ دی اور اپنی قدرت کا بھرپور نظارہ کروا دیا۔ فرمایا:
( بَل لَّبِثتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُر إِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَم یَتَسَنَّه وَ انظُر إِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجعَلَکَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انظُر إِلیَ العِظَامِ کَیفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَکسُوهَا لَحمًا ) ۔ (البقرہ، ۲:۲۵۹)
(نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے)، پس (اَب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں، اور (اَب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اِس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اَب اُن) ہڈیوں کی طرف دیکھ، ہم اُنہیں کیسے جنبش دیتے (اور اُٹھاتے) ہیں، پھر اُنہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں!
اِس آیتِ کریمہ میں جہاں اَصحابِ کہف کی طرز پر سیدنا عزیرؑ پر وقت کا اِنتہائی تیز رفتاری سے گزرنا بیان ہو رہا ہے کہ پوری صدی اُن کے محض ایک دِن میں گم ہو گئی، وہاں اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر تو صدی نے گزرنے میں ایک دِن کا وقفہ بھی نہ لگایا۔ اگر وہ صدی اُس خوراک پر حضرت عزیرؑ والی رفتار کے ساتھ محض ایک دِن میں گزرتی تب بھی کھلی فضا میں پڑا کھانا یقینا باسی ہو جاتا جبکہ یہاں اللہ تعالی نے اپنی نشانی کے طور پر اُس میں عفونت اور سڑاند تک پیدا نہ ہونے دی۔ یوں اِس ایک واقعہ میں وقت کی دو مختلف رفتاریں موجود ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں بھی گل سڑ کر پیوندِ خاک ہو گئیں۔ ایسا اِس لئے ہوا کہ گدھے پر وقت اپنی اصل رفتار سے گزرا اور ایک صدی گزر جانے کے بعد یقیناً اُسے ختم ہو جانا چاہئے تھے، سو ایسا ہی ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مُشاہدہ کروانے کے لئے اُس گدھے کو آپؐ کے سامنے زِندہ کیا، اُس کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں اور وہ زِندہ سلامت کھڑا ہو گیا۔
قرآنِ مجید میں مذکور حضرت عزیرؑ کی اِس مثال میں بھی ’طئ زمانی‘ کا ایک منفرد انداز ملتا ہے جس میں ۱۰۰ سال کا عرصہ گزر جانے پر اُن کے مادّی جسم کو کوئی گزند نہ پہنچی اور وہ موسموں کے تغیر و تبدل سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رہے۔ وقت اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر تو گویا ایک لمحے میں گزر گیا اور اُن کی تر و تازگی میں کوئی فرق نہ آیا لیکن وُہی صدی اللہ کے نبی کے گدھے پر اپنی عام رفتار کے ساتھ کچھ اِس طرح گزری کہ اُس کا نام و نشان تک مٹ گیا، حتیٰ کہ اُس کی ہڈیاں تک بکھر گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیرؑ کو احیائے موتیٰ کا نظارہ کروانے کے لئے اُن کے گدھے پر تجلی کی تو ۱۰۰ سالہ مُردہ گدھے کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں، اُن پر گوشت پوست چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ قادرِ مطلق نے چشمِ زدَن میں حضرت عزیرؑ کو "طئ زمانی" اور "اِحیائے موتیٰ" کے منظر دِکھلا دیئے۔
اَصحابِ کہف کے واقعے کی طرح یہاں حضرت عزیرؑ بھی حالتِ سکون میں تھے اور ۱۰۰ سال کا وقت اُن پر محض ایک دِن میں گزر گیا۔ اِس مقام پر بھی ’مکان-زمان‘ ( space-time ) کے جدید سائنسی نظریات صامت و ساکت ہیں۔ اِن دونوں قرآنی واقعات میں کرۂ ارضی پر حالتِ سکون میں صدیوں پڑے رہنے پر بھی وقت کا صرف ایک آدھ دِن کی صورت میں تیزی سے گزر جانا، کم از کم موجودہ سائنسی نظریات کی وساطت سے اِس کی کماحقہ تشریح ممکن نہیں۔ آنے والا وقت سائنسی تحقیقات میں مزید فروغ کا باعث ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ تب ’مکان-زمان‘ ( space-time ) پر ہونے والی مزید تحقیقات ہمارے لئے اِن قرآنی واقعات کی سائنسی تشریح کو ممکن بنا دیں۔
قرآنِ حکیم اور طئ مکانی
قرآنِ مجید میں طئ مکانی کی ایک بڑی بہترین مثال موجود ہے، جس میں طئ زمانی کا ایک پہلو بھی شامل ہے۔ وقت کی ایک قلیل ساعت میں سیدنا سلیمانؑ کی مجلس میں بیٹھنے والا ایک صحابی فقط آپ کے فیضِ صحبت اور علمِ کتاب کے بل بوتے پر کم و بیش ۹۰۰ میل کی مسافت طے کر کے وہاں سے ملکۂ سبا "بلقیس" کا تخت اُٹھا لاتا ہے۔ مجلس جاری رہتی ہے اور وہ دورانِ مجلس پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت میں یہ کام مکمل کر دیتا ہے۔ سینکڑوں میل فاصلے پر پڑی ہوئی منوں وزنی چیز کو ایک قلیل سے لمحے میں لا حاضر کرنا زمان و مکان دونوں کو لپیٹ دینے کے مترادف ہے۔
قرانِ مجید اِس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ سلیمانؑ نے اپنے درباریوں سے یہ سوال کیا:
( یَا أَیُّهَا المَلَؤُا أَیُّکُم یَأتِینِی بِعَرشِهَا قَبلَ أَن یَّأتُونِی مُسلِمِینَ ) (النمل، ۲۷:۳۸)
اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آ جائیںملکۂ سبا "بلقیس" کا تخت حضرت سلیمانؑ کے وطن سے تقریباً ۹۰۰ میل دُور پڑا تھا۔ حضرت سلیمانؑ یہ چاہتے تھے کہ ملکۂ سبا جو مطیع ہو کر اُن کے دربار میں حاضری کے لئے اپنے پایۂ تخت سے چل پڑی ہے، اُس کا تخت اُس کے آمد سے پیشتر سرِ دربار پیش کر دیا جائے۔
قرآنِ مجید کہتا ہے:
( قَالَ عِفرِیتٌ مِّنَ الجِنِّ أَنَا أٰتِیکَ بِه قَبلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِکَ وَ اِنِّی عَلَیهِ لَقَوی أَمِینٌ ) (النمل، ۲۷:۳۹)
ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا: میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بیشک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوںقرآنِ مجید کی اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سیدنا سلیمانؑ کے دربار کے ایک جن کو قاعدۂ طئ مکانی کے تحت یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ دربار برخاست ہونے سے پہلے ۹۰۰ میل کی مسافت سے تختِ بلقیس لا کر حاضر کر دے لیکن حضرت سلیمانؑ کو اِتنی تاخیر بھی گوارا نہ ہوئی۔ اِس موقع پر آپ کا ایک اِنسان صحابی "آصف بن برخیا" جس کے پاس کتاب اللہ کا علم تھا، خود کو حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔
اِس انداز کو قرآنِ مجید نے اِس طرح بیان فرمایا:
( قَالَ الَّذِی عِندَه عِلمٌ مِّنَ الکِتَابِ اَنَا اٰتِیکَ بِه قَبلَ اَن یَرتَدَّ اِلَیکَ طَرفُکَ فَلَمَّا رَاٰهُ مُستَقِرًّا عِندَه قَالَ هٰذَا مِن فَضلِ رَبِّی ) ۔(النمل، ۲۷:۴۰)
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب سلیمان(ں) نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔
یوں سیدنا سلیمانؑ کے ایک برگزیدہ صحابی "آصف بن برخیا" نے پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت میں تختِ بلقیس ۹۰۰ میل کی دُوری سے لا کر حاضر کر دیا۔ یہ طئ مکانی کی ایک بہترین قرآنی مثال ہے جس میں فاصلے سمٹ گئے اور دُوسری طرف یہ طئ زمانی کی بھی نہایت جاندار مثال ہے کہ پلک کا جھپکنا یقیناً وقت کا ایک قلیل ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اُس قلیل ترین ساعت میں اِتنی مسافت طے کرنا اور اِتنا وزن اُٹھا کر واپس پہنچنا طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔
یہاں ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ طئ زمانی و مکانی پر مشتمل اِس محیرالعقول واقعہ کا صدُور سیدنا سلیمانؑ کے ایک مقرب اُمتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُمتِ مصطفوی کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی حد کیا ہو گی! مردِ مومن کے اِشارۂ ابرو سے ہزاروں میل کی مسافت اُس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اُس کے قدم اُٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِپا آ جاتے ہیں۔ بقول حکیمُ الامت علامہ محمد اِقبال :
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
مذکورہ بالا قصصِ قرآنی میں جہاں اَصحابِ کہف اور حضرت عزیرؑ کی مثالوں میں حالتِ سکون میں طئ زمانی کی ایک صورت سامنے آئی وہاں سیدنا سلیمانؑ کے صحابی آصف بن برخیا کی مثال میں طئ مکانی کے ساتھ ساتھ حرکت کی حالت میں طئ زمانی کی ایک صورت بھی پائی گئی۔ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مسلّمات و نظریات کی رُو سے حالتِ سکون میں وقت کا اِنتہائی تیزی سے گزر جانا محال ہے، البتہ روشنی کے قریب قریب رفتار حاصل کر لینے والے مادّی جسم کے لئے ایسا ممکن ہے۔ چنانچہ جہاں پہلی دو مثالوں کی سائنسی توجیہ موجودہ نظریات کی رُو سے ناممکن قرار پاتی ہے وہاں تیسری مثال جس میں طئ زمانی و مکانی کسی قدر اِکٹھی ہو گئی ہیں وہاں بھی سائنسی نظریات کاملاً تفہیم دینے سے قاصر ہیں اور ’آصف بن برخیا‘ کا کرۂ ارضی پر ہی رہتے ہوئے روشنی کی سی رفتار سے سفر کرنا اور ۹۰۰ میل سے زیادہ فاصلہ طے کرتے ہوئے منوں وزنی تخت اُٹھا لانا عقلاً محال نظر آتا ہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ قوانینِ طبیعیات کی رُو سے زمین کے کرۂ ہوائی ( atmosphere ) میں اِتنی محیر العقول رفتار سے کیا جانے والا سفر یقینا اُس مادّی جسم (یعنی آصف بن برخیا) کو اُسی طرح جلا کر بھسم کر دیتا جیسے خلا سے زمینی حدود میں داخل ہونے والے سیارچے ( asteroids ) اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے جونہی ہوا سے رگڑ کھاتے ہیں، شہاب ثاقب ( meteors ) کے طور پر جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ ’آصف بن برخیا‘ کا اِن سائنسی قوانین کو شکست دینا اور نہ صرف اِس حیران کن رفتار پر اپنا جسم ہوا کی رگڑ کے باوُجود جلنے سے بچائے رکھنا بلکہ تختِ شاہی کو بھی آنچ نہ آنے دینا یقیناً اُن کی بہت بڑی کرامت ہے جو فقط اِلہامی کتاب کے علم ہی کی بدولت اُنہیں میسر آئی تھی۔
معجزۂ معراجِ مصطفی (ص) اور طئ مکانی و زمانی
تاجدارِ کائنات (ص) کا معجزۂ معراج اپنے اندر نوعِ اِنسانی کے لئے رہتی دُنیا تک کے لئے بہت سے سبق رکھتا ہے۔ وقت کے ایک نہایت قلیل لمحے میں مکان و لامکاں کی سیر اور اُسی قلیل ساعت میں کرۂ ارضی کی طرف واپسی عقلِ اِنسانی سے ماوراء ایک ایسا راز ہے جسے کسی دَور کی سائنس افشاء نہ کر سکی۔ معجزہ نام ہی اُس فعل کا ہے جو عقلی کسوٹی سے پرکھا نہ جا سکے۔ شبِ معراج حضور(ص) وقت کی ایک قلیل جزئی میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس پہنچے جہاں موجود تمام انبیاء کی اَرواح نے آپ(ص) کی اِقتداء میں نماز ادا کی۔ پھر آپ(ص) عالمِ بالا کی طرف روانہ ہوئے اور مکان و لامکاں کی حدود کے اُس پار سدرۃُ المنتہیٰ سے بھی آگے ربِ ذوالجلال کی رحمتِ بے پایاں سے اُس کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔
اربوں نوری سال سے زیادہ وسیع مادّی کائنات کی آخری حدود سے بھی پرے اِس محیر العقول رفتار کا سفر اور سکانِ ارضی کی طرف واپسی، یہ سب کچھ وقت کے محض ایک لمحے میں ہو گیا۔ وقت کا ایک لمحہ آپ(ص) پر یوں پھیلا کہ اُس میں یہ طویل عرصۂ دراز گم ہو گیا اور جب آپ واپس تشریف لائے تو دروازے کی کنڈی ابھی ہل رہی تھی۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ اللہ ربُ العزت کی قدرت کا ایک نظارہ تھا اور تاجدارِ انبیاء (ص) کا ایک ایسا جامع معجزہ تھا جسے عقلی و سائنسی بنیادوں پر پرکھنا اور سمجھنا قیامت تک ممکن نہیں کیونکہ فزکس کے تمام قوانین اِسی طبیعی کائنات کی حدود سے متعلق ہیں۔ جب اللہ ربّ العزت کا کوئی فعل طبیعی کائنات کے عام ضابطوں سے ہٹ کر ظاہر ہوتا ہے تو اُسے ہماری دانش سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔
معجزۂ معراج طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔ اس کا صدور نظریۂ اِضافیت میں ملنے والے وقت کے ٹھہراؤ کی ممکنہ صورت کے برعکس ہوا۔ نظریۂ اِضافیت کے مطابق روشنی کے قریب قریب رفتار سے بھاگنے والے مادّی جسم پر وقت کرۂ ارضی پر معمول کی زندگی کی نسبت اِنتہائی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ آئن سٹائن کی دو جڑواں بھائیوں والی مثال میں روشنی کی نصف رفتار سے محوِ سفر خلاباز پر زمینی دس سال دُگنی رفتار سے گزرے جس کی وجہ سے خلا باز کی عمر میں صرف پانچ سال کا اِضافہ ہوا جبکہ اُس کا زمینی بھائی اپنی دس سال عمر گزار چکا تھا، گویا وہ خلا باز بھائی سے پانچ سال بڑا ہو چکا تھا۔
نظریۂ اِضافیت اور مکان-زمان کے نئے نظریات کے مطابق ہم نے دیکھا کہ روشنی کے قریب رفتار سے سفر کرنے پر وقت زیادہ تیزی سے گزر جاتا ہے اور ایسا سفر کرنے والا مادّی جسم وقت کی دَوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے جبکہ معراج کے دوران تاجدارِ کائنات (ص) نے وقت کو پچھاڑ دیا۔ عام روشنی سے ہزاروں گنا تیز رفتار سے سفر کرنے پر بھی آپ(ص) وقت کی رَو میں پیچھے رہ جانے کی بجائے آگے نکل گئے۔ یہی آپ(ص) کا معجزہ ہے کہ عام سائنسی و عقلی قوانین کے برخلاف نہ صرف روشنی سے زیادہ رفتار حاصل کر لی بلکہ صحیح سلامت سفر کے بعد وقت کے اُسی لمحے میں واپس بھی تشریف لے آئے۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ کا اِظہار تھا جس کی بدولت آپ سے یہ معجزہ صادِر ہوا، چنانچہ اللہ تعالی نے اِس فعل کی نسبت بھی اپنی ہی طرف کی اور فرمایا:
( سُبحَانَ الَّذِی أَسرٰی بِعَبدِه لَیلاً ) ۔ (بنی اسرائیل، ۱۷:۱)
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو لے گئی۔
سفرِ معراج میں اِس محیر العقول رفتار سے روانگی کا راز عقلِ اِنسانی میں نہیں سما سکتا۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ ہی کا ظہور تھا جس کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔
مکان-زمان ( space-time ) کے نظریئے میں وقت کی اِضافیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مختلف اَفراد یا مختلف مکان پر وقت کا مختلف رفتار سے گزرنا باقاعدہ ایک علمی حیثیت میں تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اِضافیتِ زمان پر اللہ ربّ العزت کی آخری و حتمی وحی میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ طئ زمانی و مکانی کے ضمن میں آنے والی اَمثلہ کا تعلق بھی اِضافیتِ زماں ہی سے ہے۔ تاہم یہاں ہم ان کے علاوہ کچھ اور آیاتِ مبارکہ کا ذِکر بھی کریں گے جن میں واضح طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ وقت اور اُس کے گزرنے کی رفتار کی حیثیت محض ہمارے اِدراک تک محدود ہے۔ ہمارا اِدراک ہی وقت کی تعریف کرتا ہے اور یہی اُس کی رفتار کو تیز یا آہستہ قرار دیتا ہے۔ دراصل وقت محض ایک ایسا اِدراک ہے جس کا اِنحصار واقعات کی ترکیب پر ہوتا ہے اور واقعات کی ترتیب ہی وقت کے ایک سلسلے کا باعث بنتی ہے۔
روزِ قیامت۔ ۔ ۔ اِضافیتِ زمان
قیامت کا دن بھی طئ زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہو گا، جس میں وقت کے گزرنے کی شرح مختلف ہو گی۔ وہ دن بعض لوگوں کے لئے محض پلک جھپکنے میں گزر جائے گا اور بعض دُوسرے لوگوں کے لئے ایک ہزار یا پچاس ہزار سال تک طویل ہو جائے گا۔ دراصل وقت محض ایک نفسی اِدراک ہے جسے ہر فرد اپنے مخصوص حالات کے پس منظر میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ و محبوب بندوں کے لئے وہ دن مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں نہایت تیزی سے گزر جائے گا جبکہ دُوسری طرف عام لوگوں پر مشاہدۂ حق کی بجائے کرب و اذیت کا اِحساس غالب ہو گا، جس کی بدولت اُن کے لئے وہ دِن حسبِ حالت ایک ہزار یا پچاس ہزار سال پر محیط ہو گا۔
مادّی کائنات میں طبیعی قوانین کے تحت روشنی کی رفتار کے تناسب سے تیزرفتاری سے سفر کرنے والے اَجسام پر وقت نہایت تیزی سے گزر جاتا ہے جبکہ مشاہدۂ حق میں مصروف اللہ کے محبوب بندوں پر حالتِ سکون میں ہی وقت یوں گزرتا ہے کہ صدیاں لمحوں میں تبدیل ہوتی دِکھائی دیتی ہیں:
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
قرآنِ مجید میں روزِ قیامت کے مختلف رفتاروں سے گزرنے کا ذِکر آیا ہے۔ اللہ کے نیکو کاروں پر وہ دِن پلک جھپکنے میں ختم ہو جائے گا، اِرشاد فرمایا:
( وَ مَآ أَمرُ السَّاعَةِ إِلَّا کَلَمحِ البَصَرِ أَو هُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَي قَدیرٌ ) (النحل، ۱۶:۷۷)
اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہےاِسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
( وَ مَا أَمرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ کَلَمحٍم بِالبَصَرِ ) (القمر،۵۴:۵۰)
اور ہمارا حکم تو یکبارگی ایسے (واقع) ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا (کہ اُس میں دیر ہی نہیں لگتی)وُہی دِن جو اللہ کے نیکو کار اور اِطاعت گزار بندوں پر پلک جھپکنے میں گزر جائے گا دُوسرے لوگوں پر اُس کی طوالت ہزار برس ہو گی۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( إِنَّ یَومًا عِندَ رَبِّکَ کَأَلفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ) (الحج، ۲۲:۴۷)
(جب عذاب کا وقت آئے گا) تو (عذاب کا) ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے (اُس حساب سے) جو تم شمار کرتے ہوایک اور مقام پر فرمایا:
( ثُمَّ یَعرُجُ إِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه أَلفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ) (السجدہ، ۳۲:۵)
پھر امر اُس کے پاس پہنچ جائے گا ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کا ہو گایومِ قیامت کسی پر پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے اور کسی پر وہ ہزار برس کے برابر ہو گا، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن پر اُس دِن وقت کی رفتار اِنتہائی آہستہ ہو گی اور وہ اُس ایک دِن کو پچاس ہزار سال کے برابر خیال کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے نامۂ اعمال اُن کے بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور وہ عذاب کی وحشت سے اِس قدر دہشت زدہ ہوں گے کہ ایک ایک پل اُن پر اجیرن ہو جائے گا اور وہ ایک دِن اُن کے لئے پچاس ہزار برس کے مساوی ہو گا۔
اِرشادِ ربُّ العالمین ہے:
( تَعرُجُ المَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ إِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه خَمسِینَ أَلفَ سَنَةٍ ) (المعارج، ۷۰:۴)
(روزِ قیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیل اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دن (ہو گا) جس کا اندازہ (دنیا کے) پچاس ہزار سال ہے
وقت۔ ۔ ۔ اِدراک نفسی
روزِ قیامت کی اِضافی حیثیت کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں کچھ آیاتِ مبارکہ میں وقت کی اِضافی حیثیت کا ذِکر ہوا ہے۔ وقت کے اِحساس و اِدراکِ نفسی ہونے کے حوالے سے یہ آیات بیّن اور واضح ہیں۔
اِس دُنیا میں کسی شخص کی پوری زندگی جو اُسے ۶۰، ۷۰ سال کی طویل تاریخ کے طور پر دِکھائی دیتی ہے، بے حد مختصر ہے اور جب بندہ موت کے بعد دوبارہ زِندہ کیا جائے گا تو وہ سوچے گا کہ اُس کی زندگی تو چند ساعتوں سے زیادہ نہیں تھی۔
اِرشادِ ربِ کریم ہے:
( وَ یَومَ یَحشُرُهُم کَاَن لَّم یَلبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ یَتَعَارَفُونَ بَینَهُم ) ۔ (یونس، ۱۰:۴۵)
اور جس دِن وہ اُنہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ (باہمی تعارف کے لئے) دن کی ایک گھڑی کے سوا دُنیا میں ٹھہرے ہی نہ تھے۔
موت سے لے کر روز آخر جی اُٹھنے تک کے طویل ترین دور کے بارے میں حیات اُخروی کی عطا کے موقع پر لوگ اپنی موت کے لاکھوں سال طویل دورانیئے کو بالکل اصحاب کہف اور سیدنا عزیرؑ ہی کی مثل بہت کم وقت خیال کریں گے۔
اِرشاد فرمایا:
( یَومَ یَدعُوکُم فَتَستَجِیبُونَ بِحَمدِه وَ تَظُنُّونَ إِن لَّبِثتُم إِلَّا قَلِیلاً ) (بنی اسرائیل، ۱۷:۵۲)
جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اُس کی حمد کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرتے ہو گے کہ تم (دنیا میں) بہت تھوڑا عرصہ ٹھہرے ہوقرآنِ مجید ہماری توجہ اِس طرف بھی دلاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کی بے ثباتی اور اُخروی زندگی کے تناسب سے اس کی بے وقعتی اور محدودیت کو پہچانیں اور اُسے سدا کی زندگی سمجھ کر اپنے مولا کی یاد سے بے نیاز نہ ہو جائیں۔ چند روزہ حیاتِ دُنیوی کو طویل سمجھ کر گناہ اور ظلم میں لت پت زندگی گزارنے والے لوگ بھی قیامت کے روز اپنی تمام زندگی کو محض قلیل سا وقت قرار دیں گے۔
سورۂ مومنون میں اِرشادِ ربُّ العزت ہے:
ق( َالَ کَم لَبِثتُم فِی الاَرضِ عَدَدَ سِنِینَ قَالُوا لَبِثنَا یَومًا اَو بَعضَ یَومٍ فَسئَلِ العَآدِّینَ قَالَ اِن لَّبِثتُم اِلَّا قَلِیلاً لَّو اَنَّکُم کُنتُم تَعلَمُونَ ) (المؤمنون، ۲۳:-۱۱۴۱۱۲)
اِرشاد ہو گا کہ تم زمین میں برسوں کے شمار سے کتنی مدت ٹھہرے رہے (ہو) O وہ کہیں گے: ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے (ہوں گے)، آپ اَعداد و شمار کرنے والوں سے پوچھ لیں O اِرشاد ہو گا: تم (وہاں) نہیں ٹھہرے مگر بہت ہی تھوڑا عرصہ کاش تم (یہ بات وہیں) جانتے ہوتےمذکورہ بالا تمام آیات اور قرآنی قصص اِضافیتِ زمان و مکان کی تشریح کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ نیوٹن (۱۶۴۲ء تا ۱۷۲۷ء) سے پہلے زمان و مکان دونوں کو مطلق سمجھا جاتا تھا۔ نیوٹن نے اپنے نظریات میں مکان کی مطلق حیثیت کو تو ردّ کر دیا تھا مگر زمان کی اِضافی حیثیت کے بارے میں وہ کوئی رائے قائم نہ کر سکا۔ بیسویں صدی میں آئن سٹائن نے اپنے نظریۂ اِضافیت میں مکان کے ساتھ زمان کو بھی اِضافی قرار دیا اور یوں اِنسانی علوم کے سفرِ اِرتقاء میں اِس مادّی کائنات کا ہر ذرّہ اِضافی قرار پایا۔ مطلق ہونا مخلوق کی شان بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ مطلق العنان وُہی ذاتِ لازوال ہے جو اِس کائنات کی خالق و مالک ہے اور ہم سب اُس کے بندے ہیں اور یہ جمیع اَفلاک اور کہکشائیں بھی اُسی کے اَمر سے ایک دن وُجود میں آئیں اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب یہ سب کچھ نہ ہو گا۔ سو حادِث کو مطلق گرداننا کہاں کی دانائی ہے! یہی وجہ ہے کہ خود فزکس ہی کے قوانین اِس تمام عالمِ پست و بالا کو اِضافی اور حادِث ثابت کر چکے ہیں۔
باب پنجُم
اِرتقائے کائنات کے چھ اَدوار
قرآنِ مجید اِنسانیت کو جا بجا اُس کے اِردگرد پھیلی ہوئی بے عیب، عظیم اور با رُعب کائنات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ درس دیتا ہے کہ وہ ﷲ ربُّ العزّت کی ہدایت کی پاسداری اور اِطاعت گزاری کرے۔ مطالعۂ قرآن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جملہ کائنات کی تشکیل و تعبیر کا سلسلہ چھ اَدوار سے گزرا ہے، جنہیں چھ اَدوارِ تخلیق ( six periods of creation ) کا نام دیا جاتا ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
-( ۱ إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ) ۔ (یونس،۱۰:۳)
یقیناً تمہارا ربّ ﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی و زیریں کائنات) کو چھ مراحل میں (تدریجاً) پیدا فرمایا۔
( ۲ اَللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ وَ مَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِط یُدَبِّرُ الأَمرَ مِنَ السَّمَآءِ إِلَی الأَرضِ ثُمَّ)
ﷲ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے، کو چھ مراحل میں پیدا کیا، پھر (اپنے) تخت پر قیام فرمایا۔ ۔ ۔ وہ آسمان سے
( یَعرُجُ إِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه أَلفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ) (السجدہ،۳۲:۴،۵)
زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو گا-( ۳ سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِج وَ هُوَ العَزِیزُ الحَکِیمُ لَه مُلکُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِج یُحی وَ یُمِیتُج وَ هُوَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌ هُوَ الأَوَّلُ وَ الاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ البَاطِنُج وَ هُوَ بکُلِّ شَئ عَلِیمٌ هُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ) ۔
(الحدید،۵۷:-۴۱)
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب ﷲ کی تسبیح کرتے ہیں اور وُہی زبردست حِکمت والا ہے O آسمانوں اور زمین میں اُسی کی حکومت ہے، وُہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر بڑا قادِر ہے O وُہی اوّل و آخر ہے اور ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر شے سے بخوبی آگاہ ہے O وُہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ مراحل میں پیدا کیا۔
قرآنِ حکیم میں اِن کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو کائنات کی تخلیق و اِرتقاء پر روشنی ڈالتی ہیں۔ مذکورہ بالا آیات سے ہم بآسانی مندرجہ ذیل نکات حاصل کر سکتے ہیں:
-۱ کائنات محض حادثاتی طور پر معرضِ وُجود میں نہیں آئی بلکہ یہ ﷲ ربّ العزّت کے اِرادے اور اُس کی قدرتِ کاملہ کا نتیجہ ہے۔ اِس غیرمحدُود اور تعجب خیز کائنات میں پھیلا ہوا نظم و ضبط اور نظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا وُجود قدرتِ اِلٰہیہ کی کامل منصوبہ بندی کے تحت ہی قائم ہے۔
-۲ جملہ کائنات کی تخلیق و اِرتقاء ایسا مرحلہ وار عمل تھا جو بتدریج ۶ اِرتقائی اَدوار میں مکمل ہوا۔
-۳ اِس دُنیا میں وُقوع پذیر ہونے والے تمام تر حوادِث و واقعات اُس کے خالق کے بنائے ہوئے نظام اور حکم کے ساتھ مربوط ہیں۔ یہ ربانی منصوبہ بندی اور اِقتدار پوری کائنات کو کچھ اِس طرح سے منظم اور ہم آہنگ بنائے ہوئے ہے کہ کوئی شے اپنے طے شدہ ضوابط سے رُوگردانی نہیں کر سکتی۔
-۴ "یَوم" محض ۲۴گھنٹے کے دَورانیئے ہی کا نام نہیں بلکہ اِس کا اِطلاق ہزاروں زمینی سالوں کے دَورانیئے پر محیط بھی ہو سکتا ہے۔
قرآنِ مجید کا تصوّرِ یوم
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ کائنات کی تخلیق و ترقی چھ اَیام (چھ اَدوار) میں ہوئی۔ قرآن کا تصوّرِ یوم وہ دِن ہرگز نہیں جو عام طور پر طلوعِ شمس سے غروبِ آفتاب تک مُراد لیا جاتا ہے، کیونکہ خلقتِ کائنات کے دوران میں طلوع و غروبِ شمس کا محال ہونا ایک بدیہی حقیقت ہے۔ قرآنِ مجید میں یَوم کا لفظ کئی مقامات پر مختلف دورانیوں کے لئے اِستعمال ہوا ہے۔
قرآنِ مجید نے ’یوم‘ کا لفظ ’وقت کی ایک تغیر پذیر لمبائی‘ ( variable length of time ) کے لئے اِستعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃُ السجدہ میں اِرشاد فرمایا:
( یُدَبِّرُ الأَمرَ مِنَ السَّمَآءِ إِلَی الأَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ إِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه أَلفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ) (السجدہ،۳۲:۵)
وُہی آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو گااِسی طرح ایک اور مقام پر ’یوم‘ کا لفظ ۵۰ہزار سال کے لئے بھی اِستعمال کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
( تَعرُجُ المَلاَئِکَةُ وَ الرُّوحُ إِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه خَمسِینَ أَلفَ سَنَةٍ ) (المعارج،۷۰:۴)
(روزِ قیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیلؑ اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دِن ہو گا) جس کا اندازہ (دُنیا کے) ۵۰ ہزار سال ہےمذکورۃُ الصدر آیتِ کریمہ میں ’سِتَّۃِ أَیَّامٍ‘ کے اَلفاظ اُس مدّت کے لئے اِستعمال کئے گئے ہیں جس میں ہمارے سورج سمیت جملہ اَجرامِ سماوی کی تخلیق عمل میں آئی۔ بظاہر نظر آنے والے شب و روز کا وُجود سورج اور زمین کے وُجود میں آنے سے قبل ناممکن تھا۔ لہٰذا یہ بات عیاں ہے کہ قرآنِ مجید کا بیان کردہ لفظِ ’یَوم‘ وقت کی ایک ایسی تغیر پذیر مُعینہ مدّت ہے جو لاکھوں، اربوں سالوں پر محیط ہو سکتی ہے۔
تخلیقِ کائنات اور آٹھ قرآنی اُصول
مذکورہ بالا ا ٓیاتِ قرآنی سے ہم درج ذیل نتائج اَخذ کر سکتے ہیں:
-۱ کائنات از خود معرضِ وُجود میں نہیں آئی بلکہ اُسے باری تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے، یعنی اُس کی تخلیق محض اِتفاقیہ ( accidental ) نہیں بلکہ ایک خالق ( Creator ) کے اِرادے اور فعلِ خلق کا نتیجہ ہے۔
-۲ کائنات کی تخلیق کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: زیریں، بالائی اور وسطانی ۔ ۔ ۔ یعنی زمینی، آسمانی اور خلائی۔
i. Earthly Creation
ii. Heavenly Creation
iii. Intermediary Creation
جیسا کہ سورۃُ السجدہ میں مذکور ہے "( خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَ الأَرضَ وَ مَا بَینَهُمَا ) " )اُس نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے تخلیق فرمایا(۔ یہی مضمون قرآنِ مجید میں سورہ نمبر :۲۰ ۶، :۲۵ ۵۹، :۳۲ ۴، :۵۰ ۳۸، :۲۱ ۱۶، :۴۴ ۷ اور ۳۸، :۳۷۷۸، :۱۵ ۸۵، :۴۶ ۳ اور :۴۳ ۸۵ میں بھی بیان ہوا ہے۔ ارض و سما کے درمیان عالمِ خلق کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے دورِ جدید کی سائنسی تحقیقات کے مطابق cosmic extra galactic world کی طرف توجہ کرنا اشد ضروری ہے، جس میں کہکشائیں، ستارے اور سیارگانِ فلکی شامل ہیں۔
-۳ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی متعدد ہیں اگر سات کا عدد آسمانوں )بالائی طبقات( کے لئے محض تعدد اور کثرت ( plurality ) کے معنی میں تصور کیا جائے تو زمین کی طرح کے اور طبقات اور سیارگان بھی متعدد معلوم ہوتے ہیں اور اگر سات کے عدد کو خاص اور معین تصور کیا جائے تو زمین سے بالکل ملتے جلتے سات طبقے یا سیارے ثابت ہوتے ہیں۔ اِس دُوسرے مفہوم کے اِعتبار سے سائنس کو ابھی تحقیق و اِکتشافات کے مزید کئی مرحلوں سے گزرنا پڑے گا کیونکہ قرآنِ مجید نے یہ اِشارہ اِس آیتِ کریمہ میں فرما دیا ہے:
( اَللهُ الَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الاَرضِ مِثلَهُنَّ ) (الطلاق، ۱۲:۶۵)
اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان اور ان ہی کی طرح )سات( زمینیں پیدا کیں۔
-۴ کائناتِ ارض و سماء کی تخلیق تدریجاً عمل میں آئی۔
-۵ کائنات کی تخلیق کا تدریجی عمل ( evolutionary process of the creation ) چھ ایام (اَدوار) پر مشتمل ہے۔
-۶ کائناتِ ارض وسماء کے جملہ اُمور ایک باقاعدہ نظام کے تابع ہیں جو باری تعالیٰ کے حکم اور قدرت سے قائم اور رواں دواں ہے۔
-۷ اُس کی تدبیر ( divine planning ) کائنات کے پورے نظام کو ایک مقصد اور نظم کے تحت مربوط اور منظم کرتی ہے جس کے نتیجے میں جملہ اُمور اِس طرح انجام پاتے ہیں کہ کوئی وُجود اُس ضابطۂ قدرت سے اِنحراف نہیں کر سکتا۔
-۸ کسی چیز کا زمینی حدود میں داخل ہونا، اُس میں سے خارج ہونا، کسی سیارے سے آسمان کی وُسعتوں کی سمت جانا، آسمانی وُسعتوں سے زمین کی طرف اُترنا، کسی کا باقی رہنا اور ختم ہو جانا، الغرض یہ سب کچھ اُسی کے قائم کردہ نظام اور اُس کے جاری کردہ قوانین کے مطابق ہے۔
قرآنی چھ ایام کا مفہوم
اِن تمام نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں قرآنِ مجید ہی سے اِس اَمر کو متعین کرنا ہے کہ کائناتِ ارض و سماء کی تدریجی تخلیق کے ضمن میں جن چھ ایام کا ذِکر آیا ہے اُن سے مراد کیا ہے! اگر یہ گمان کیا جائے کہ یہاں یوم سے مراد وہی دن ہے جو سورج کے طلوع و غروب کے ساتھ قائم ہے اور چھ ایام سے مراد ہفتہ سے جمعہ تک کے معروف دن ہی ہیں تو یہ درست نہیں، اِس لئے کہ بات زمین و آسمان اور اُن کے مابین ساری کائنات کی تخلیق سے متعلق ہو رہی ہے جس میں سورج، چاند اور زمین وغیرہ کی اپنی تخلیق بھی شامل ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جب ابھی سورج، چاند اور زمین کی تخلیق خود عمل میں نہیں آئی تھی تو اُس وقت طلوع و غروبِ آفتاب کا نظام کہاں موجود تھا اور جب سورج کے طلوع وغروب کا نظام اَبھی معرضِ عمل میں نہیں آیا تھا تو معروف معنوں میں دِنوں اور ہفتوں کی گنتی کا کوئی تصوّر ہی موجود نہ تھا۔ بنابریں جب کائناتِ ارض وسما کے اِس سلسلۂ تخلیق کی مدت کو معروف معنی میں ۲۴گھنٹوں پر مشتمل چھ دِنوں پر محمول نہیں کیا جا سکتا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ چھ ایام سے مراد کیا ہے؟ جواب بالکل واضح ہے کہ یوم سے مراد ایک دَور ( period/era ) ہے جو ایک غیر معینہ طویل مدت ( a long span of time ) پر مبنی ہے اور ستہ ایام سے مراد چھ ادوارِ تخلیق ( six periods of creation ) ہیں۔
قرآنِ مجید نے بھی یَوم کے لفظ کو مختلف طویل مدتوں کے بیان کے لئے اِستعمال کیا ہے۔
اِرشادِ ایزدی ہے:
( یُدَبِّرُ الاَمرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلٰی الاَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ اِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه اَلفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ ) (السجدہ، ۳۲:۵)
وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو گااِس آیتِ کریمہ میں ہمارے نظامِ شمسی کے مطابق ایک ہزار سال کی مدت کو ایک "یوم" سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اِسی طرح دُوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کی مدّت کے لئے "یوم" کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
( تَعرُجُ المَلٰئِکَةُ وَ الرُّوحُ اِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه خَمسِینَ اَلفَ سَنَةٍ ) (المعارج، ۷۰:۴)
(روزِ قیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیلؑ اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دِن ہو گا) جس کا اندازہ (دُنیا کے) ۵۰ ہزار سال ہےجیسا کہ ہم نے پہلے ذِکر کیا کہ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ امر طے پا گیا کہ تخلیقِ ارض و سماء کے ذکر میں جن چھ ایام کا تذکرہ ہوا ہے اُن سے مراد چوبیس گھنٹوں کی مدت پر مشتمل ہمارے مروّجہ ایام نہیں بلکہ خود قرآنی تصورِ یوم کے تحت غیر محدود طوالت پر مبنی مدت کا ایک دَور ( period ) ہے جو لاکھوں کروڑوں اربوں برس پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے، کیونکہ قرآنِ مجید نے اُس یوم کے لئے کوئی خاص مدت مقرر نہیں فرمائی۔ جب ایک جگہ ہزار اور دوسری جگہ پچاس ہزار سال کو یوم قرار دیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ اِسی لفظِ یوم کا اِطلاق کئی لاکھ اور کروڑ برس پر بھی ہو سکتا ہے، بہرحال چھ ایام سے مراد تخلیقِ کائنات کے چھ ادوار ( six periods of creation ) ہیں۔
ہمارے اِس موقف کی تائید اِمام ابوالسعود العمادی (۹۵۱ھ) نے بھی کی ہے۔ آپ سورہ یونس کی آیت نمبر ۳ کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
( ( فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ) ) أی فی ستة أوقات، فإن النفس الیوم الذی هو عبارةٌ عن زمان کون الشمس فوق الأرض مما لایتصوّر تحققه حین لا أرض و لا سمآء ۔ (تفسیرابی السعود،۱۱۸۲)
"( فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ) " (چھ دِنوں میں) سے مراد ’چھ اَوقات و اَدوار‘ ہیں، کیونکہ وہ دِن جو سورج کے زمین پر طلوع ہونے سے عبارت ہے اُس کا تحقق ہی ممکن نہیں کیونکہ اُس وقت زمین و آسمان موجود ہی نہ تھے۔
صاف ظاہر ہے ایسی صورت میں یوم سے مراد کوئی مخصوص مدّت اور زمانہ ہی لیا جائے گا۔ اِمام راغب اِصفہانی نے بھی اِس کی تصریح کی ہے، فرماتے ہیں:
"اَلیَومُ" یعبّر به عن وقتِ طلوعِ الشّمس إلی غروبها وقد یعبّر به عن مدة من الزمان أیّ مدة کانت ۔ (المفردات: ۵۵۳ )
یوم سے مراد ایک تو سورج کے طلوع سے غروب تک کا وقت ہے اور دُوسرے اُس سے مراد کسی بھی زمانے پر مشتمل مدت ہے خواہ وہ جتنی بھی ہو۔
علامہ آلوسی سورۂ یونس کی تفسیر میں "سِتَّۃِ أَیَّامٍ" کے تحت فرماتے ہیں:
و لا یمکن أن یُراد بالیوم الیوم المعروف، لأنه کما قیل عبارةٌ عن کون الشمس فوق الأرض و هو مما لایتصوّر تحققه حین لا أرض و لا سمآء ۔) روح المعانی، ۱۱:۶۴)
یہاں یوم سے مراد معروف معنی میں دِن نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کا اِستعمال زمین پر سورج کے طلوع ہونے سے عبارت ہے اور وہ ممکن ہی نہیں کیونکہ اُس وقت نہ زمین تھی نہ آسمان (اور نہ طلوعِ آفتاب کا کوئی تصور)۔
اِس امر کی تصریح اِمام آلوسی نے سورۂ اَعراف کے تحت بھی کی ہے۔ ملاحظہ ہو روح المعانی جلد: ۵، جز ۸، صفحہ ۱۳۲۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی اِس قول۔ ۔ ۔ کہ اُن ایام سے مراد ایامِ دُنیا نہیں بلکہ ایامِ آخرت کی مدّت ہے۔ ۔ ۔ سے بھی مذکورہ بالا تصور کی تائید ہوتی ہے۔
تخلیق کے دو مراحل
قرآنِ مجید کا تفصیلی مطالعہ ہمیں یہ حقیقت جاننے کے قابل بناتا ہے کہ کائنات کی تخلیق و ترقی دو ایسے مراحل میں مکمل ہوئی جو چھ مکمل اَدوار میں منقسم ہیں:
-۱ مرحلۂ ما قبلِ ظہورِ حیات -۲ مرحلۂ ما بعدِ ظہورِ حیات
مرحلۂ ما قبلِ ظہورِ حیات
یہ مرحلہ تخلیق کے۶ اَدوار میں سے پہلے۲عہدوں پر مشتمل ہے۔ قرآنِ حکیم کی یہ آیتِ مُبارکہ اِس حقیقت کو یوں عیاں کرتی ہے:
( فَقَضٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ فِی یَومَینِ وَ أَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآءٍ أَمرَهَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَ حِفظًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (فصلت،۴۱:۱۲)
پھر اُن اُوپر کے طبقات کو دو اَدوار میں مکمل سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اُسی سے متعلق اَحکام بھیجے، اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا اور اُسے محفوظ بنایا۔ یہ زبردست اور علم رکھنے والے کا اِنتظام ہےیہ آیتِ کریمہ اِس تناظُر میں ۸ مختلف اِنکشافات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آیتِ مُبارکہ کا ہر حصہ کائنات کے تخلیقی و اِرتقائی خدوخال ظاہر کرتا ہے۔
پہلا حصہ
آیت کا پہلا حصہ سات آسمانوں یا سات کائناتوں کے وُجود کا اِنکشاف کرتا ہے۔
دُوسرا حصہ
یہ حصہ اُس عرصے سے متعلق ہے جو تشکیلِ کائنات میں صرف ہوا۔
تیسرا حصہ
آیتِ کریمہ کے تیسرے حصے کے مطابق ہر آسمان یا ہر کائنات کو اُس کا مکمل نظام عطا کیا گیا ہے، ایک ایسا نظام یا عمل درآمد کا ایک ایسا اِنتظامی ڈھانچہ جو اُس کی تشکیل سے متعلقہ اَفعال کا حامل ہو۔
چوتھا اور پانچواں حصہ
اِن حصوں میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ہمارا قریب ترین آسمان یا کائنات، جو وُسعت پذیر اور غیرمحدُود ہے، ناقابلِ شمار ستاروں سے بھری پڑی ہے۔
چھٹا حصہ
کہکشائیں اور ستارے کائنات میں اِس قدر دُوری میں واقع ہیں کہ سات آسمانوں میں سے ہمارا نزدیک ترین آسمان اِس قدر پھیلاؤ اور غیر محدُودیت کے سبب اِنتہائی محفوظ ہو گیا ہے۔ یہ بات اِنتہائی محیرالعقول ہے کہ روشنی (جو کائنات کا اپنا مادّی حصہ ہے) اور جو مجرّد مادّی ذرّات کے لئے سفر کا تیز ترین اور حتمی ذریعہ ہے، اُس کے لئے بھی کائنات اپنی بے پناہ توسیع کے سبب ناقابلِ فسخ ہے۔ واضح رہے کہ روشنی ۱,۸۶,۲۸۲.۳۹۷ میل یعنی ۲,۹۹,۷۹۲.۴۵۸ کلومیٹر فی سیکنڈ کی سمتی رفتار ( velocity ) سے اِس وُسعت پذیر کائنات میں سفر کرتی ہے۔ بنیادی سائنسی حقائق قرآنِ مجید کی مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے کس قدر حیرت انگیز حد تک مطابقت رکھتے ہیں! روشنی کی ’سمتی رفتار‘ میں ثبات کی حقیقت جو ’سمتی رفتار‘ کی شرح کو طے کرتی ہے، سائنس کی دریافت کردہ ایک زِندہ بنیادی حقیقت ہے اور یہ ایک بنیادی قانون ہے جو ﷲ تعالیٰ نے کائنات کی وُسعت کے تناظُر میں اُس کے ناقابلِ فسخ ہونے کے لئے پیدا کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ روشنی جو اِنتہائی چھوٹے مجرّد مادّی ذرّات سے بنی ہے، کائنات میں سفر کے لئے بہت ہی زیادہ ’سمتی رفتار‘ کی حامل ہے اور اُس سے تیز شے کبھی کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہ کائنات میں مادّی ذرّات کی اِنتہا درجے کی رفتار ہے۔
ساتواں حصہ
یہ بھی قرآنی آیت کا ایک منطقی اور قطعی حصہ ہے جو ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ اگر کوئی ﷲ ربّ العزّت کی قدرت کو ماپ تول کر جاننا چاہے یا اُس کی تخلیقی قوّت کا اِشارہ حاصل کرنا چاہے تو اُسے چاہیئے کہ وہ اپنے نزدیکی آسمان کے ناقابلِ شکست و ریخت ہونے پر غور کرے، اپنے دَور کی سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قریبی کائنات کا قابلِ مُشاہدہ حصہ دیکھے جو سات آسمانوں میں سے محض ایک ہے، جس میں اربوں کہکشائیں ہیں، جن میں سے ہر ایک اربوں ستاروں پر مشتمل ہے اور اربوں سیارے اربوں نوری سال کی مسافت پر واقع ہیں۔ ایک نوری سال اُس فاصلے پر مشتمل ہوتا ہے جسے روشنی ایک لاکھ ۸۶ہزار۲۸۲ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سال میں طے کرتی ہے۔ ہماری کہکشاں کے ستاروں کے مابین فاصلہ اِس قدر زیادہ ہے کہ اگر اِس میں موجود ستاروں کی تعداد کئی لاکھ گنا زیادہ ہوتی تب بھی ہماری کہکشاں ( Milky Way ) بہت زیادہ پُر ہجوم نہ ہوتی۔
آٹھواں حصہ
اِس آیتِ ربانی کے آٹھویں اور آخری حصے میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ﷲ ربّ العزّت ہر شے کا جاننے والا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وُہی سات آسمانوں اور ہماری ناقابلِ شکست و ریخت کائنات سمیت ہر شے کا خالق و مالک اور قادرِ مطلق ہے۔
کائنات کا ناقابلِ شکست و ریخت ہونا اُس قواسر( quasar ) کی دریافت سے متحقق ہو سکتا ہے جسے ’ PKS۲۰۰۰-۳۰۰ ‘ کہا جاتا ہے۔ اُس قواسر کو آسٹریلوی اور برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا تھا اور وہ ہم سے ۱۸ ارب نوری سال کی مسافت پر واقع کائنات کا بعید ترین روشن جسم ہے اور ۱۰ نیل (۱۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰) سورجوں کی توانائی خارج کرتا ہے۔ اِس قواسر کی دریافت نے پہلے سے موجود اِس تصوّر کو یکسر مُستردّ کر دیا کہ کائنات کے آخری کنارے دریافت ہو چکے ہیں۔ ماہرینِ تخلیقیات ( cosmologists ) کا کہنا ہے کہ صحیح معنوں میں جدید سائنسی تحقیق ہی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے جبکہ کائنات سے متعلق رِوایتی شعور میں خطاء کا بے حد اِمکان پایا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ نئی دریافتیں تصویرِ عالم کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیں۔
باب ششُم
کرۂ ارضی پر اِرتقائے حیات
کائنات کی وسیع و عریض ساخت میں زمین ایک اَیسے سورج کا اَدنیٰ سا سیارہ ہے جو لاکھوں کہکشاؤں کی ریل پیل میں سے ایک کہکشاں "ملکی وے" کے ایک کھرب ستاروں میں ایک کنارے پر واقع ہے۔
سورج نیوکلیائی اِخراج کا ایسا دیو قامت منبع ہے، جو ڈیڑھ کروڑ (۱,۵۰,۰۰,۰۰۰) سینٹی گریڈ درجۂ حرارت کے ساتھ چمک رہا ہے۔ اُس کا قطر زمین کے قطر سے ۱۰۰ گنا بڑا ہے اور زیادہ تر کائنات کے ہلکے ترین عناصر ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل ہونے کے باوجود اُس کی کمیّت زمین سے ۳ لاکھ گنا زیادہ ہے۔
ہمارا سورج ملکی وے کی دُوسری یا تیسری نسل کا نمائندہ سِتارہ ہے، جو آج سے تقریباً ۴ارب ۶کروڑ سال پیشتر اپنے سے پہلے عظیم نوتارے ( supernova ) کے ملبے پر مشتمل گھومتی ہوئی گیس کے بادل سے معرضِ وُجود میں آیا تھا۔ اُس گیس اور گرد و غبار کے زیادہ تر ایٹم اپنے اندر نو ساختہ ہائیڈروجن اور ہیلئم کے کثیف گولے کی طرف اِکٹھے ہونے لگے اور یوں وہ ستارہ وُجود میں آ گیا جسے آج ہم سب سورج کے نام سے جانتے ہیں۔ اُس گھومتے ہوئے گیسی مادّے کا باقی حصہ نوزائیدہ سورج کے گِرد چکر لگانے لگا، اور سب سے پہلے اُس مادّے سے نظامِ شمسی کے چاروں بڑے سیارے مُشتری، زُحل، یورینس اور نیپچون تشکیل پائے۔ زمین سمیت باقی تمام چھوٹے سیارے اور سیارچے کافی عرصہ بعد گرد و غبار کے باقی ماندہ ذرّات سے پیدا ہوئے۔
زمین پر زندگی کے آغاز کے پہلے باہمی اِنحصار کے ﷲ ربّ العزت کے تخلیق کردہ توازُن، ہم آہنگی اور تعاونِ باہمی نے پوری کائنات میں قوانینِ فطرت کو جنم دیا اور پروان چڑھایا، جن کے تحت تمام کہکشائیں، ستارے، سیارے اور مختلف سیاروں پر زِندگی گزارنے والی مخلوقات اپنا وُجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اور باہمی اِنحصار کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔
کائنات کی اس شکل و صورت کو قرآنِ مجید یوں بیان کرتا ہے:
( ۱ أَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاهُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَئ حَیٍّ أَفَلاَ یُؤمِنُونَ ) (الانبیاء،۲۱:۳۰)
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر زِندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر اَب بھی) اِیمان نہیں لاتے( ۲ وَ جَعَلنَا فِی الأَرضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِهِم وَ جَعَلنَا فِیهَا فِجَاجًا سُبُلاً لَّعَلَّهُم یَهتَدُونَ ) (الانبیاء،۲۱:۳۱)
اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ بنا دیئے تاکہ ایسا (نہ) ہو کہ کہیں (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے اُنہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ راستے (درّے) بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکیں( ۳ وَ جَعَلنَا السَّمَآءَ سَقفًا مَّحفُوظًاج وَّ هُم عَن اٰیَاتِهَا مُعرِضُونَ ) (الانبیاء،۲۱:۳۲)
اور ہم نے سمآء (یعنی زمین کے بالائی کرّوں) کو محفوظ چھت بنایا (تاکہ اہلِ زمین کو خلا سے آنے والی مُہلک قوّتوں اور جارحانہ لہروں کے مُضر اَثرات سے بچائیں) اور وہ اُن (سماوی طبقات کی) نشانیوں سے رُوگرداں ہیں( ۴ وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (الانبیاء،۲۱:۳۳)
اور وُہی (ﷲ) ہے جس نے رات اور دِن کو پیدا کیا اور سورج اور چاندکو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں( ۵ وَ جَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ مِن فَوقِهَا وَ بَارَکَ فِیهَا وَ قَدَّرَ فِیهَآ أَقوَاتَهَا فِی أَربَعَةِ أَیَّامٍ سَوآء لِّلسَّائِلِینَ ) (فصلت،۴۱:۱۰)
اور اُس نے اس (زمین کے) اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشوونما کی قوتیں) اور اُس میں (اپنی مخلوق کیلئے) چار مراحل میں (زمین) میں اُس کے ذرائعِ نِعَم رکھے، جو ہر طلبگار کیلئے برابر ہیں( ۶ ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآئِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلأَرضِ ائتِیَا طَوعًا أَو کَرهًا قَالَتَا أَتَینَا طَائِعِینَ ) (فصلت،۴۱:۱۱)
پھر وہ (ﷲ تعالیٰ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ پھر اُسے اور زمین کو حکم دیا کہ تم دونوں (باہمی اِنحصار کے توازُن کے لئے) خوشی سے آؤ یا نا خوشی سے، اُن دونوں نے کہا کہ ہم (فطری نظام کے تحت) خوشی سے حاضر ہیں-( ۷ فَقَضَاهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ فِی یَومَینِ وَ أَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآءٍ أَمرَهَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَ حِفظًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (فصلت،۴۱:۱۲)
پھر دو (خاص) مراحل میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان کے اَحکام اُس میں بھیج دیئے، اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں سے رَونق بخشی اور اُس کو محفوظ (بھی) کر دیا، یہ اِنتظام ہے زبردست (اور) علم والے ربّ کا
تخلیقِ زمین اور اُس کا فطری اِرتقاء
-۱ زمین اِبتدائی طور پر بے اِنتہا گرم تھی اور اِس پر کسی قسم کی فضا موجود نہ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور چٹانوں سے نکلنے والی گیسوں کے اِخراج سے اُس کے چاروں طرف ہوا کا ایک غلاف چڑھ گیا۔ زمین کے اِبتدائی دَور کی فضا ہرگز اِس قابل نہ تھی کہ ہم اُس میں زِندہ رہ سکتے۔ اُس میں آکسیجن بالکل نہیں تھی بلکہ ہائیڈروجن سلفائیڈ جیسی زہریلی گیسیں تھیں۔
-۲ اُس وقت ﷲ ربّ العزّت نے زِندگی کچھ ایسی اِبتدائی حالتوں میں پیدا کی تھی جو سمندروں میں ہی پنپ اور پروان چڑھ سکتی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُس دوران میں ایٹموں کے ملنے کے نتیجے میں ایسی بڑی بڑی ساختیں پیدا ہونے لگ گئی ہوں گی، جنہیں ’میکرومالیکیولز‘ ( macromolecules ) کہا جاتا ہے، اور وہ امرِ باری تعالیٰ سے سمندروں میں موجود دُوسرے ایٹموں سے ایسی ہی مزید ساختیں پیدا کرنے کے قابل ہو گئے ہوں گے۔ نئے مالیکیولوں نے مزید مالیکیولز کو جنم دیا اور یوں ﷲ تعالیٰ نے زِندہ اَجسام کی خودکار اَفزائشِ نسل کو وُجود بخشا۔
-۳ زِندگی کی اُن اِبتدائی شکلوں نے بہت سے زہریلے مادّے تحلیل کر دیئے اور آکسیجن کو جنم دیا۔ یوں آہستہ آہستہ فضا اُن ترکیبی عناصر میں تبدیل ہوتی چلی گئی، جو آج رُوئے زمین پر بکثرت پائے جاتے ہیں اور اُس نو ترکیب شدہ فضا نے زِندگی کی اَعلیٰ اَقسام: حشرات، مچھلیوں، ممالیہ جانوروں اور بالآخر اَشرفُ المخلوقات نسلِ اِنسانی کو ترقی پذیر ہونے کا موقع فراہم کیا، تب ﷲ تعالیٰ نے سیدنا آدمں کو کرۂ ارضی کی خلافت کا تاج پہنا کر مبعوث فرمایا۔
مراحلِ تخلیقِ اَرض
زمین بھی اُنہی دو مراحل میں تخلیق ہوئی جن کا ذِکر پہلے گزر چکا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِسے زمینی تخلیق کے ضمن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
( قُل أَئِنَّکُم لَتَکفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الأَرضَ فِی یَومَینِ وَ تَجعَلُونَ لَه أَندَادًا ذٰلِکَ رَبُّ العٰلَمِینَ ) (فصلت،۴۱:۹)
آپ (اُن سے) پوچھئے کہ کیا تم اُس ذات کے مُنکر ہو جس نے زمین کو دو مراحل میں تخلیق کیا؟ اور (دُوسروں کو) اُس کا ہمسر ٹھہراتے ہو؟ وُہی تو تمام جہانوں کا پروردگار ہےجدید سائنسی تحقیقات کے محتاط اندازے کے مطابق زمین کی تخلیق آج سے کم و بیش ۴ارب ۶۰کروڑ سال پہلے گیس اور گرد و غبار کے بادل سے عمل میں آئی۔ اصل حقیقت سے ﷲ تعالیٰ ہی بہتر آگاہ ہے۔ یہاں ہمیں جدید سائنس قرآنِ مجید کے پیش کردہ حقائق کی بھی تصدیق کرتی نظر آتی ہے۔ علمِ طبقاتُ الارض ( geology ) کے جدوَل کے مطابق ظہورِ حیات سے پہلے کے مرحلے کو اَیزویک اِیرا ( asoic era ) کہتے ہیں۔ اُس دَور کے بارے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ تقریباً ۴ارب ۵کروڑ سالوں پر محیط تھا۔ اُس زمانے میں زمین کسی بھی نوعِ حیات کے لئے قابلِ سکونت نہ تھی۔ پھر آج سے تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ سال قبل اِذنِ اِلٰہی سے زمین کے حالات کو اِبتدائی اَنواعِ حیات کے قابل بنایا گیا اور کرۂ ارضی پر حیات بیکٹیریا ( bacteria ) اور ایلجی ( algee )کی شکل میں رُونما ہونے لگی۔ یہیں سے عملِ تخلیق کے دُوسرے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے۔
مرحلۂ ما بعدِ ظہورِ حیات
کرۂ ارضی پر ظہورِ حیات کے بعد کا مرحلہ چار اَدوار میں منقسم ہے۔ قرآنِ مجید اِس بارے میں یوں گویا ہوتا ہے:
( وَ بَارَکَ فِیهَا وَ قَدَّرَ فِیهَآ أَقوَاتَهَا فِی أَربَعَةِ أَیَّامٍ سَوآء لِّلسَّائِلِینَ ) (فصلت،۴۱:۱۰)
اور اُس نے اس (زمین کے) اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشوونما کی قوتیں) اور اُس میں (اپنی مخلوق کیلئے) چار مراحل میں (زمین) میں اُس کے ذرائعِ نِعَم رکھے، جو ہر طلبگار کیلئے برابر ہیںیہ جان کر اِسلام پر ہمارا یقین مزید پختہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جدید سائنس قرآنِ حکیم میں پیش کئے جانے والے اوّلین ظہورِ حیات کے بعد زِندگی کے چار مراحل کی مکمل طور پر بھرپور حمایت کرتی ہے۔
سائنسی تحقیقات جن چار اَدوار کو بیان کرتی ہیں وہ یہ ہیں:
-۱ مرحلۂ ماقبلِ عہدِ حجری Proterozoic Era
-۲ مرحلۂ حیاتِ قدیم Palaeozoic Era
-۳ مرحلۂ حیاتِ وُسطیٰ Mesozoic Era
-۴ مرحلۂ حیاتِ جدید Cainozoic Era
۱۔ مرحلۂ ما قبلِ عہدِ حجری
اِس دَور کو Proterozoic Era کے علاوہ Precambrian Time کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ stone age سے پہلے کا دور ہے۔ اُس دوران میں زمینی زندگی چار ابتدائی آثار کی شکل میں نمودار ہوئی:
i. First Life Cells iii. Protista
ii. Monera iv. Metazoa
۲۔مرحلۂ حیاتِ قدیم
یہ دورِ قدیم کی زِندگی ( ancient life ) کہلاتی ہے جس کا آغاز آج سے ۵۵,۰۰,۰۰,۰۰۰ سال پہلے ہوا تھا۔ یہ وہ دَور ہے جب کرۂ ارضی شروع شروع میں اِس قابل ہوا کہ اُس پر زندگی کا آغاز ہو سکے، تب ﷲ تعالیٰ نے زِندگی کو اُس کی سادہ ترین شکلوں میں سمندروں اور بعد اَزاں خشکی پر بھی پروان چڑھانا شروع کیا۔
اس دَور کو مزید درج ذیل حصوں ( periods ) میں تقسیم کیا گیا ہے:
i. Cambrian Period
ii. Ordovician Period
iii. Silurian Period
iv. Devonian Period
v. Carboniferous Period
vi. Permian Period
۳۔ مرحلۂ حیاتِ وُسطیٰ
یہ زندگی کا وسطانی دَور ہے، جسے middle life کہتے ہیں۔ یہ وہ دَور ہے جب کرۂ ارضی پر ہر طرف عظیمُ الجثہ جانوروں کی فرمانروائی تھی۔ ڈائنوسار اُسی دَور میں پائے جاتے تھے۔ یہ دَور آج سے ۲۴,۸۰,۰۰,۰۰۰ سال پہلے شروع ہوا اور ۱۸,۳۰,۰۰,۰۰۰ سال تک قائم رہنے کے بعد آج سے تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال قبل اپنے اِختتام کو پہنچا۔
اُس دَور کے درج ذیل ۳ نمایاں حصے ہیں:
i. Triassic Period
ii. Jurassic Period
iii. Cretaceous Period
۴۔ مرحلۂ حیاتِ جدید
زندگی کی پیچیدہ شکلوں ڈائنوسار وغیرہ کی تباہی کے بعد ’مرحلہ حیاتِ جدید‘ کا آغاز ہوا جسے " modern life " کہتے ہیں۔ زندگی کے اِس مرحلے کو شروع ہوئے ۶,۵۰,۰۰,۰۰۰ سال بیت چکے ہیں۔ ہمیں سائنسی تحقیقات کی بدولت سب سے زیادہ معلومات اُسی دَور کے متعلق حاصل ہو سکی ہیں۔
اِس کی تقسیم مزید درج ذیل حصوں ( periods ) میں یوں کی گئی ہے:
i. Palaeocene Period
ii. Eocene Period
iii. Oligocene Period
iv. Miocene Period
v. Pliocene Period
vi. Pleistocene Period
vii. Holocene Period
اِن چاروں اَدوار میں رفتہ رفتہ زمین اِس قابل ہوتی چلی گئی کہ اُس پر اعلیٰ مخلوقات زندگی بسر کر سکیں۔ بیکٹیریا ( Bacteria ) اور ایلجی ( Algae ) سے شروع ہونے والے ’دورِ حیاتِ قدیم‘ کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِبتدائی پودوں اور سمندری مخلوقات کی تخلیق عمل میں آتی چلی گئی حتی کہ’ وسطی دورِ حیات‘ میں ڈائنوسار جیسے عظیمُ الجثہ دیو قامت جانور بھی پیدا ہوئے۔ تخلیقِ ارضی سے لے کر آج کے دِن تک کرۂ ارضی پر چار برفانی دَور بھی گزر چکے ہیں، جن میں سے آخری آج سے تقریباً ۲۰,۰۰۰ سال قبل رونما ہوا تھا۔ اسی اثناء میں جب زمینی ماحول اِس قابل ہوا کہ اُس پر حضرتِ انسان زندگی بسر کر سکے تو ﷲ ربّ العزت نے سیدنا آدمؑ کو خلافتِ ارضی کی خلعت سے سرفراز فرماتے ہوئے مبعوث فرمایا۔ آدمؑ کی تخلیق "خلقِ آخر" ہونے کے ناطے تخلیقِ خاص ( special creation ) ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات کا دار و مدار اَزمنہ قدیم سے وابستہ حجری آثار ( fossils ) سے ہے جو کئی ملین سال کی قدامت کے حامل ہیں۔ قدیم جانوروں اور پودوں کی وہ باقیات جو پتھروں میں محفوظ ہیں اُن کے مطالعہ سے زمین پر رہنے والی قدیم مخلوقات کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس بات کا بھی بخوبی اَندازہ ہوتا ہے کہ کرۂ ارض پر کس دَور میں کس قسم کے موسمی و جغرافیائی حالات رہے ہیں۔ مرنے والے اکثر جانوروں کے جسم دُوسرے جانوروں کی خوراک کی نظر ہو جاتے یا پھر گل سڑ کر ختم ہو جاتے مگر بعض دفعہ مُردہ جسم مکمل طور پر فنا ہو جانے سے قبل کسی دلدل یا ریت میں دفن ہو جاتا۔ اِرد گرد کی ریت وغیرہ سے معدنی ذرّات اُس مُردہ جسم میں شامل ہو کر اُسے سخت اور محفوظ بنا دیتے۔ اور یوں کروڑوں سال بعد آج ہم نے اُن جسموں کو پتھروں میں سے نکال کر اپنی تحقیق کا موضوع بنا لیا اور اُن فوسلز کی مدد سے بے شمار قرآنی حقائق بعینہ ثابت ہوتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ جوں جوں معدُومیات ( fossils ) پر تحقیق میں پیش رفت ہوتی جا رہی ہے توں توں ﷲ ربّ العزّت کی خالقیت نکھر کر سامنے آ رہی ہے۔ وہ دِن دُور نہیں جب سائنس خود اِنسان کو اللہ تعالیٰ کی دہلیز تک کھینچ لائے گی اور اِنسان پکار اُٹھے گا :
( رَبَّنَا مَا خَلَقتَ هٰذَا بَاطِلاً ) ۔ (آل عمران، ۳:۱۹۱)
اے ہمارے ربّ! تو نے یہ سب کچھ بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔
زمینی زندگی کا پانی سے آغاز
اِس عنصرِ تخلیق کی وضاحت بھی قرآن نے کر دی ہے۔ جس میں اِس اَمر کی صراحت ہے کہ زِندگی کا آغاز پانی سے ہوا ہے، بلکہ زیریں اور بالائی کائنات کی تخلیق کے وقت بھی ہر سو پانی ہی پانی تھا۔
ارشادِ ربانی ہے:
( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَ الاَرضَ فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّکَانَ عَرشُه عَلَی المَآءِ ) ۔ (ہود، :۱۱ ۷)
اور وُہی (ﷲ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ اَدوار میں پیدا فرمایا اور (اُس سے قبل) اُس کا تختِ اِقتدار پانی پر تھا۔
اِس آیتِ کریمہ سے واضح طور پر پانی کا جملہ مظاہرِ حیات پر مقدّم ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یعنی زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے (عالمِ مادّی میں صرف) پانی تھا۔
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:
( وَ جَعَلنَا مِنَ المَآئِ کُلَّ شَیٔ حَیٍّ اَفَلاَ یُؤمِنُونَ ) (الانبیاء،:۲۱ ۳۰)
اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی۔ کیا وہ (اِس حقیقت سے آگاہ ہو کر بھی) اِیمان نہیں لاتے؟اِس آیتِ قرآنی نے بہت بڑی سائنسی حقیقت ( scientific fact ) کو بیان کیا ہے جس کی تائید دورِ جدید کی سائنس نے آج کر دی ہے۔
تخلیقِ ارضی سے تخلیقِ حیات تک کا درمیانی زمانہ جو " Azoic Era " کہلاتا ہے اور جسے قرآن مجید نے یَومَین ( two periods )سے تعبیر کیا ہے وہ زمانہ قبلِ ظہورِ حیات ہے۔ جو پانی ( water ) اور پہاڑوں و چٹانوں ( mountains / rocks ) کا زمانہ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ پہاڑوں کا وجود تو زمین کے معرضِ وُجود میں آنے کے بعد عمل میں آیا مگر پانی اس وقت سے تھا جب زمین وآسمان پر مشتمل طبیعی کائنات کی تقسیم بھی عمل میں نہیں آئی تھی۔
زمین پر زندگی کے آغاز کے اِبتدائی زمانے میں بھی زندگی کے آثار اور مظاہر خشکی پر نظر نہیں آتے بلکہ صرف پانی میں نظر آتے ہیں۔ جدید سائنسی تحقیق نے اِس قرآنی امر کو ثابت کر دیا ہے کہ اُس دَور کے پہلے زمانے ( Pre-Cambrian Era ) میں زندگی کے جملہ مظاہر و آثار فقط سمندروں تک ہی محدُود تھے اور اُن کا خشکی پر کوئی وُجود نہ تھا۔ قدیم حیات کے دُوسرے دَور Palaeozoic Era میں بھی اِبتداءً زِندگی فقط پانی تک محدُود تھی اور خشکی پر اُس کا نام و نشان تک نہ تھا۔
جدید سائنسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ Palaeozoic Era کے شروع میں Cambrian Period اور Ordovician Period کے دونوں عرصوں میں آبی حیات تو کرۂ ارضی پر موجود تھی مگر اُس عرصے میں خشکی کی زِندگی کا کوئی سراغ نہیں ملتا، لہٰذا یہ بات سائنسی تحقیق سے بھی پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ قرآنِ مجید کا اِعلان بر حق ہے کہ "ہم نے زندگی کے جملہ مظاہر کا آغاز پانی سے کیا ہے"۔ خشکی پر زندگی کا آغاز Silurian Period میں ہوا، جس میں سب سے پہلے Cooksonia نامی پودے معرضِ وُجود میں آئے۔ یہ آج سے تقریباً ۴۳,۸۰,۰۰,۰۰۰ سال پہلے کی بات ہے۔ یہ پودے بغیر پتوں کے تھے اور سمندروں کے کناروں پر اُگے یعنی زندگی کی پہلی علامات جو خشکی پر ظہور پذیر ہوئیں وہ بھی پانی سے ہی وجود میں آئیں جبکہ اُس وقت تک پانی میں زِندگی پودوں، کیڑوں، لارووں، مچھلیوں اور دیگر چھوٹے چھوٹے جانوروں کی شکل میں کئی اِرتقائی منازِل طے کر چکی تھی۔ پھر اُس سے ۳کروڑ سال بعد اگلے عرصے Devonian Period میں زمین کے خشک حصوں پر کافی حد تک سبزہ نظر آنے لگا۔ اِسی عرصے میں درختوں کو وُجود ملا اور اُسی آخری حصے میں خشکی پر بھی بغیر پروں کے کیڑے مکوڑے ( wingless insects )، مکڑیاں ( spiders ) اور دیگر چھوٹے جانور ظہور پذیر ہوئے۔
اِن تاریخی شواہد پر کی جانے والی سائنسی تحقیقات سے اِس اَمر کی مکمل طور پر تصدیق ہو جاتی ہے کہ زمینی زِندگی کا آغاز پانی ہی سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اِبتداء سے اَب تک زمین کا غالب حصہ پانی پر ہی مشتمل ہے۔ ابھی تک زمین کا ۲۹ فیصد حصہ خشکی پر مشتمل ہے اور باقی دو تہائی سے بھی زیادہ حصہ پانی ہے۔ قرآنِ مجید نے سورۃُ الانبیاء میں آج سے صدیوں قبل جب کوئی اِن حقائق کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا اِس حقیقت کا اِعلان کرتے ہوئے سوال کیا:
( أَ فَلَا یُؤمِنُونَ ؟ ) (الأنبیاء،۲۱:۳۰)
کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے؟
یہ وہ چیلنج ہے جسے عالمِ کفر تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، مگر یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسلمان علماء و مفسرین خود سائنسی علوم اور تحقیقات سے کماحقہ آگہی حاصل نہیں کریں گے۔ دَورِ جدید کے اِن سائنسی حقائق اور اِنکشافات کا بغور مطالعہ کئے بغیر قرآنِ مجید کی عظمت و حقانیت کے اَیسے ہزاروں گوشے ہماری نظروں میں نہیں آ سکتے۔
باب ہفتم
ڈاروِن کا مفروضۂ اِرتقائے حیات ( Darwinism )
اِس باب میں ہم کرۂ ارضی پر پائے جانے والے زِندگی کے موجودہ دَور اور تخلیقِ اِنسانی کے بارے میں فرسودہ ڈاروِنی مفروضے کا پر حاصل بحث کریں گے۔ یہاں ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقائے حیات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عام قارئین پر یہ حقیقت عیاں ہو سکے کہ یہ مفروضہ ہر قسم کی سائنسی صداقت سے مکمل طور پر خالی ہے۔
کرۂ ارضی پر پائے جانے والے اَدوارِ حیات میں سے اِس وقت ہم مرحلۂ حیاتِ جدید ( Cenozoic Era ) کے آخری حصے میں موجود ہیں، جسے سائنسی اِصطلاح میں ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جاتا ہے۔ چارلس ڈاروِن کے مطابق نوعِ اِنسانی بھی دُوسرے بہت سے جانوروں کی طرح ’ممالیہ گروپ‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس نے اِنسان کو جانوروں کے درج ذیل حصے میں شمار کیا ہے:
Phylum................................Chordata
Sub-Phylum.........................Vertebrata
Class..................................Mammalia
Order....................................Primate
Superfamily...........................Hominoid
Family.................................Hominoid
Genus......................................HomSpecies.............................Homosapien
جب سے ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقاء نے نوعِ اِنسانی کو بوزنہ ( ape ) ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دیا ہے تب سے موجودہ دَور کو ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جانے لگا ہے اور اِس ضمن میں اِنسان کا الگ سے ذِکر نہیں کیا جاتا۔ تاہم قرآنِ مجید نسلِ اِنسانی کو "خَلقِ آخَر" )ممیز مخلوق( کہہ کر پکارتا ہے اور اُسے "أَحسَنِ تَقویم" )بہترین بناوَٹ( قرار دیتا ہے، لہٰذا اِس دور کو ’جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کا دَور‘ کہا جانا چاہیئے۔ یہ بات بھی ذِہن نشین رہے کہ جانور، پرندے اور اِنسان، تینوں مخلوقات ایک ہی دَور میں ظہور پذیر ہوئیں۔
قرآنِ حکیم بھی ایک مقام پر اِسی مفہوم میں یوں فرماتا ہے:
( وَ مَا مِن دَآبَّةٍ فِی الأَرضِ وَ لاَ طَآئِرٍ یَّطِیرُ بِجَنَاحَیهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمثَالُکُم ) ۔ (الانعام،۶:۳۸)
اور (اے اِنسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔
ڈاروِنی اِرتقاء کا غیرسائنسی اَفسانہ
لیمارک ( Lamarck )، مالتھس ( Malthas )، مینڈل ( Mandle )، ڈاروِن ( Darwin )، اوپرائن ( Oparin )، مونوڈ ( Monod )، وِلسن ( Wilson )، اور دُوسرے بہت سے وہ لوگ جنہوں نے لیمارکزم ( Lamarchism )، ڈاروِنزم ( Darwinism ) اور نیوڈاروِنزم ( Neo Darwinism ) جیسے اِرتقائی نظریات پیش کئے اُن کے تمام کئے دَھرے کا اِنحصار اِنسان اور دیگر جانوروں کے مابین پائی جانے والی کچھ مماثلتوں پر ہے۔ جو حقیقت میں محض مماثلتیں ہی ہیں اور اُن سے وہ نتائج اَخذ کرنا جو اُنہوں نے کئے کسی طرح بھی درُست نہیں۔ وہ مماثلتیں مندرجہ ذیل ہیں:
-۱ حیاتیاتی مماثلتیں ( biological similarities )
-۲ عضوی یا ترکیبی مماثلتیں ( anatomical similarities )
-۳ حیاتی کیمیائی مماثلتیں ( biochemical similarities )
-۴ جینیاتی مماثلتیں ( genetic similarities )
یہ تمام مماثلتیں جو طویل سائنسی تحقیقات کی بدولت دریافت کی گئی ہیں، قرآنِ مجید نے آج سے ۱۴صدیاں قبل اِن کا ذِکر سورۂ اَنعام کی آیت نمبر۳۸ میں کر دیا تھا۔ "أَمثَالُکُم" (تمہارے جیسی) کا لفظ جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کے مابین مختلف اَقسام کی مماثلتوں کی طرف واضح اِشارہ کر رہا ہے، جس سے کلامِ الٰہی کی صداقت اور حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ تاہم قرآنِ حکیم اُن مماثلتوں سے لئے جانے والے بیہودہ ڈاروِنی اِستدلال سے ہرگز اِتفاق نہیں کرتا اور نہ تمام کے تمام سائنسدان اِس سے اِتفاق کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ خود ساختہ نظریۂ اِرتقائے حیات کے حاملین اپنے اِس مَن گھڑت فرسودہ مفروضے کو قطعی طور پر ثابت بھی نہیں کر سکے۔ وہ اپنے مفروضے میں موجود تسلسل کے فقدان سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اس عدم تسلسل کو وہ ’گمشدہ کڑیاں‘ ( missing links ) کہتے ہیں۔ اُن بہت سی گمشدہ کڑیوں کے با وصف مفروضۂ اِرتقاء کی بہت سی خلطِ مبحث اور متضاد تعبیرات کی جاتی ہیں اور کوئی بھی متفقہ نظریہ منظرِ عام پر نہیں آ سکا۔
یہاں ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ سائنسی تحقیقات کے وہ گوشے جو قرآنی تصوّرات سے ہم آہنگ ہیں، وہ بالکل فطری انداز میں منتج ہوتے ہیں اور سائنس اُس منزل تک پہنچنے میں بآسانی کامیاب ہو جائے گی۔ دُوسری طرف تمام وہ تصوّرات جو قرآنی تعلیمات سے متعارِض ہوں کبھی بھی تذبذُب اور شکوک و شبہات سے نہیں نکل سکتے اور اُن میں اِبہام و اِلتباس ہمیشہ برقرار رہے گا اور کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ بھی برآمد نہ ہو پائے گا۔ یہی حالت مفروضۂ ارتقاء کی بھی ہے۔
اب ہم یہاں ڈاروِن کے غیر منطقی مفروضۂ اِرتقاء کے بارے میں ترکی کے نامور محقق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کی تحقیق پیش کرتے ہیں تاکہ اِرتقاء کا یہ مَن گھڑت اَفسانہ طشت اَز بام ہو سکے۔
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے بقول چارلس ڈاروِن ( Charles Darwin ) نے آج سے تقریباً ایک سو سال قبل کیمبرج یونیورسٹی کے کرائسٹ کالج ( Christ's Collage ) سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اِس سے پہلے اُسے علمِ حیاتیات ( biology ) یا علمُ الطب ( medical science ) کا کوئی خاص تجربہ نہ تھا۔ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ اِنسان ایک جانور تھا جس کا اِرتقاء ’یک خلوی جسیمے‘ ( unicellular organism ) سے ہوا اور وہ بوزنہ ( ape ) سے پروان چڑھا ہے۔ بہت سے سائنسدان بلا سوچے سمجھے اُس کی باتوں میں آ گئے اور اُس کے ہم نوا بن بیٹھے، اور یوں جلد ہی اِرتقاء کا یہ اَفسانہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ مفروضہ کئی سال تک دُنیا بھر کے تمام تعلیمی اِداروں میں اِس طرح پڑھایا جاتا رہا جیسے یہ واقعی کوئی سائنسی حقیقت ہو، حالانکہ سائنسی تحقیقات سے اُس کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
دورِ جدید کے ایک سائنسدان دُواں گِش ( Duane Gish ) کے بقول اِرتقاء۔ ۔ ۔ اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ قسم ہونا۔ ۔ ۔ محض ایک فلسفیانہ خیال ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ آر بی گولڈسمتھ ( R. B. Goldschmidt ) جو بیالوجی کا ایک پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ مفروضۂ اِرتقاء کا پُر زور حامی بھی ہے، اِس حد تک ضرور دیانتدار ہے کہ اُس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اِرتقاء کے حق میں تمام تر شکوک و شبہات سے بالا تر کوئی شہادت میسر نہیں آ سکی اور یہ محض تصوّرات کا ایک تانا بانا ہے۔
مفروضۂ اِرتقاء کا کھوکھلا پن
سائنسی علوم سے نابلد لوگ اِس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ ڈاروِنزم اور نیوڈاروِنزم کے خلاف سائنسی شہادتوں کے اَنبار لگتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس قسم کے نظریات باطل اور فرسودہ سوچ کے حامل گمراہ لوگوں کے لئے ہمیشہ سے پسندیدہ مشاغل رہے ہیں، جو محض شہرت کی خاطر بلا تحقیق ایسے ایشوز پیدا کرتے رہتے ہیں جن کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ پچھلے چند برسوں سے اِس مفروضہ کے خلاف تنقید میں بڑے بڑے ماہرینِ حیاتیات کا بھرپور اِضافہ ہوا ہے۔ جیریمی رِفکن ( Jeremy Rifkin ) نے اپنے مقالات میں اِس حقیقت کا اِنکشاف کیا ہے کہ علمِ حیاتیات ( biology ) اور علمِ حیوانات ( zoology ) کے بہت سے تسلیم شدہ محققین مثلاً سی ایچ واڈنگٹن ( C. H. Waddington )، پائرے پال گریس ( Pierre-Paul Grasse ) اور سٹیفن جے گولڈ ( Stephen J. Gold ) وغیرہ نے مفروضۂ اِرتقاء کے حامی نیم خواندہ جھوٹے سائنسدانوں کے جھوٹ کو طشت اَز بام کر دیا ہے۔
پروفیسر گولڈ سمتھ ( Prof. Goldschmidt ) اور پروفیسر میکبتھ ( Prof. Macbeth ) نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ اِس نظریئے کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما ہے کہ نیم سائنسدانوں نے اُوٹ پٹانگ طریقوں سے خود ساختہ سائنس کو اِختیار کیا ہے اور اپنی مرضی کے نتائج اَخذ کئے ہیں۔ مفروضۂ اِرتقاء کے حق میں چھپوائی گئی بہت سی تصاویر بھی جعلی اور مَن گھڑت ہیں۔ اِن تمام اِبتدائی حقائق کے باوجود بھی ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حیاتیاتی معاملے سے متعلق اِس اَندرونی کہانی کا بالتفصیل ذِکر کر دیا جائے جسے اِرتقاء کے حامی اپنے نظریئے کی بنیاد تصوّر کرتے ہیں، تاکہ قرآنِ مجید اور اُس کی تفاسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے قلوب و اَذہان میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کے دروازے مکمل طور پر مقفّل ہو جائیں۔
۱۔ خلیوں کی مَن گھڑت اَقسام
اپنے اِبتدائی تصوّرات کے مطابق اِرتقاء کے حامی ابھی تک خلیوں کی دو اَقسام: ’بنیادی‘ اور ’اِرتقائی‘ پر اَڑے ہوئے ہیں، حالانکہ تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ تقسیم غیر حقیقی ہے۔ ۱۹۵۵ء کے بعد اِس حقیقت کا انکشاف ہو گیا تھا کہ تمام خلیوں کا تانہ بانہ ۹۹ فیصد تک ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور DNA (یعنی کیمیائی تعمیراتی بلاکوں) کے لئے یکسانی کی یہ شرح ۱۰۰ فیصد تک پائی جاتی ہے۔ خلیوں کے مابین فرق محض اُن کے ریاضیاتی پروگراموں میں پایا جاتا ہے۔ جس سے کسی طور بھی اِرتقاء پسندوں کا اِستدلال درُست نہیں، جیسا کہ کسی پودے کے خلئے کا پروگرام آکسیجن کو عمل میں لانا ہے جبکہ جگر کے خلئے کے ذِمّہ صفراوی مادّے کی پیدائش ہے۔ اِن کمپیوٹرائزڈ پروگراموں کے حامل خلیوں کو محض مختلفُ النوع کام سر انجام دینے کی بناء پر ’قدیم‘ یا ’اِرتقائی‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اُن میں یہ صلاحیتیں بتدریج نہیں آئیں بلکہ اُن کی تخلیق کے وقت سے ہی موجود تھیں۔ اِس لئے اُن سے متعلق اِرتقاء کا دعویٰ ہرگز درُست نہیں ہو سکتا۔ سو مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کو سب سے پہلے تو کسی خلئے اور اُس کے ریاضیاتی پروگرام سے متعلق اپنی معلومات کی اِصلاح کر لینی چاہیئے۔
۲۔ اِرتقاء کا عمل سُست رَو ہے۔ ۔ ۔ ؟
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے خیال میں سلسلۂ اِرتقاء کے موجودہ دَور میں نظر نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ یہ عمل بہت آہستگی سے لاکھوں کروڑوں سالوں میں وُقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ دلیل بھی سراسر بے ہودہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۶۵ء میں آئس لینڈ کے قریب زلزلے اور لاوا پھٹنے کے عمل سے ایک نیا جزیرہ سرٹسے ( Surtsey ) نمودار ہوا اور محض سال بھر کے اندر اندر اُس میں ہزاروں اَقسام کے کیڑے مکوڑے، حشراتُ الارض اور پودے پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بات اَبھی تک کسی اِرتقاء پسند کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ وہ سب وہاں کیسے اور کہاں سے آئے۔ ۔ ۔ ! قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر اِرتقاء کا عمل سُست رَو ہے تو محض ایک سال میں وہاں اِتنی مخلوقات کیسے پیدا ہو گئیں؟
۳۔ جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہوتا ہے
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے نزدیک اِرتقائے حیات کا عمل جینیاتی خصوصیات میں تبدّل کے ذریعے وُقوع پذیر ہوا۔ یہ دعویٰ بھی صحیح معنوں میں حقیقت کو مسخ کرنے کے مُترادف ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تبدّل کبھی بھی تعمیری نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ تخریبی ہی ہوتا ہے۔ تبدّل کو دریافت کرنے والے سائنسدان ملّر ( Muller ) کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعمیری جینیاتی تبدیلی کا حقیقت میں کوئی وُجود نہیں، جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہی ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں کئے جانے والے تجربات میں بھی یہ حقیقت اِسی طرح عیاں ہوئی کہ جینیاتی خصوصیات کبھی بھی مثبت انداز میں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ اُن کی تبدیلی ہمیشہ تباہی کی طرف ہی جاتی ہے، جس کا نتیجہ کینسر یا موت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے۔ یا پھر بگڑنے والی خصوصیات پہلے سے کمزور جسیمے کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں، جیسا کہ ملّر کے تجربات سے حاصل ہونے والی سبز آنکھوں والی مکھی کمزور جسیمے کی ایک بہترین مثال ہے۔ آج تک کئے گئے ہزارہا تجربات کے باوُجود کوئی بھی کسی جسیمے میں ہونے والے مثبت تبدّل سے نیا جسیمہ حاصل نہیں کر سکا۔ جبکہ دُوسری طرف ہڈی کے گودے میں واقع ایک پِدری خلئے کے ذریعے ہر سیکنڈ میں لاکھوں کی تعداد میں مختلف نئے خلئے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اگر تبدّل کے اَفسانے میں ذرا بھی حقیقت ہوتی تو اب تک یہ عجوبہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہوتا۔
۴۔ علمی دھوکہ دہی کی ننگی داستان
اِرتقاء کے حامیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ موجودہ آدمی اور اُس کے قدیم وُجود میں ربط پیدا کرنے والا ڈھانچہ موجود ہے۔ اُن میں سے سب سے زیادہ مشہور ڈھانچہ پِلٹ ڈاؤن آدمی ( Piltdown Man ) کا تھا، جس میں موجود دھوکے کا اِنکشاف ’ریڈیو ایکٹو تجربات‘ کے ذریعے ثابت ہو چکا ہے، جس کے بعد اُسے تمام تر بے ہودہ تحریروں سمیت ’برِٹش میوزیم‘ سے نکال باہر پھینکا گیا ۔ مزید برآں قدیم مخلوق جس سے نوعِ اِنسانی کا ناطہ جوڑنے کی کوشش کی گئی، اُس کے دِماغ کا وزن ۱۳۰گرام ہے جبکہ اِنسان کے دِماغ کا وزن ۱۳۵۰گرام ہے۔ ’مفروضۂ اِرتقائ‘ کے مطابق اِن دونوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کے لئے کم از کم ۱۰جسیمے ہونے چاہئیں۔ اور یہ بات ناقابلِ تسلیم ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک بھی زِندہ نہ بچ سکا ہو۔ ہم اِرتقاء کے حامی گروہ سے یہ سوال کریں گے کہ بوزنہ ( ape ) تو آج بھی اپنی تمام تر اَقسام سمیت زِندہ ہے مگر اُس کے اور اِنسان کے درمیان پائی جانے والی ممکنہ ۱۰ اَقسام سب کی سب کدھر گئیں۔ ۔ ۔ ؟
۵۔ اَپنڈکس ہرگز غیر ضروری نہیں
اِرتقاء پسند تو اِس حد تک گئے ہیں کہ اُن کے نزدیک اِنسان کی آنتوں میں سے اَپنڈکس ( appendix ) سلسلۂ اِرتقاء ہی کی بے مقصد باقیات میں سے ایک ہے۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اَپنڈکس جسم کے چند مُستعد ترین اَعضاء میں سے ایک ہے جو نچلے بدن کے لئے لَوزَتین ( tonsils ) کا کام کرتی ہے۔ وہ آنتوں کا لُعاب چھوڑتی اور آنتوں کے بیکٹیریا کی اَقسام اور اُن کی تعداد میں باقاعدگی لاتی ہے۔ اِنسانی جسم میں کوئی عضو بھی ہرگز فضول نہیں ہے بلکہ بہت سے اَعضاء بیک وقت متنوّع اَقسام کے بہت سے اَفعال سر انجام دیتے ہیں۔
۶۔ کوئی مخلوق اِرتقاء یافتہ نہیں
مفروضۂ اِرتقاء کے جنم لینے کا سبب یہ ہے کہ اِس مفروضہ کے حاملین مذہبِ عیسائیت سے شعوری و لاشعوری سطح پر بدلہ لینے کی غرض سے خالقِ کائنات کے وُجود سے اِنکاری ہیں، اِس لئے وہ اپنی خود ساختہ مقصدیت کی تلاش میں مفروضۂ اِرتقاء کے گِرد گھوم رہے ہیں۔ وہ اپنی دانست میں قدیم اور ترقی یافتہ دونوں مخلوقات کے درمیان قائم کردہ کڑیوں میں موجود روز اَفزوں پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ لیکن اِس اِرتقاء کے سلسلے میں اُن کے مفروضے مَن مانے اور محض اُن کے اپنے ہی ذِہنوں کی اِختراع ہیں۔ اپنے نظریئے کے تحت وہ کبھی بھی کماحقہ یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ’کمال‘ سے اُن کی مُراد کیا ہے؟ مِثال کے طور پر خوشنما رنگوں میں ’تتلی‘ سب سے بلند مقام رکھتی ہے۔ بجلی کے آلات کے حوالے سے ’چمگادڑ‘ کا کوئی جواب نہیں جو ایک بہترین ریڈار کی نظر کی حامل ہوتی ہے۔ یاداشت کو محفوظ رکھنے اور دِماغ کے زیادہ وزن کے معاملے میں ’ڈولفن‘ سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ اور جنگی معاملات کے حوالے سے ’دیمک‘ جو ایک چیونٹی سے بھی چھوٹی ہوتی ہے، تمام مخلوقات سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اُس کا ہتھیار اَیسا زہر ہے جس کا نقطۂ کھولاؤ ۱۰۰ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو اُس کے ماحول کے ہر جسیمے کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کو کس نے اِرتقائی عمل سے گزارا؟ اور اِن کا اِرتقاء کس مخلوق سے عمل میں آیا؟ کیمیائی جنگ کے سلسلے میں تو بوزنہ( ape ) اِس حقیر دیمک سے بہت پیچھے رَہ جانے والی قدیم مخلوق ہے، پھر یہ زِندہ مخلوقات میں سے اِنسان کے قریب ترین مخلوق کیونکر کہلا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟
۷۔ بقائے اَصلح ( Survival of the fittest )کی حقیقت
مفروضۂ اِرتقاء کی حامیوں کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ تمام مخلوقات ’فطری چناؤ‘ یا ’بقائے اَصلح‘ ( survival of the fittest ) کے قانون کے تابع ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ ڈائنوسار ( dinosaur ) کی مِثال دیتے ہیں جس کی نسل ہزاروں سال پہلے کرۂ ارضی سے کلیتاً معدُوم ہو گئی تھی۔ لیکن اِس تصویر کا دُوسرا رُخ کچھ یوں ہے کہ رُوئے زمین پرموجود ۱۵لاکھ اَقسام پر مشتمل زِندہ مخلوقات کے مقابلے میں معدُوم مخلوقات کی تعداد ۱۰۰سے زیادہ نہیں ہے۔ اِس موقع پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سی مخلوقات اپنے ماحول میں موجود مشکل ترین حالات کے باوُجود لاکھوں سالوں سے زِندہ ہیں اور مفروضہ ارتقاء کے حامیوں کے نظریہ بقائے اَصلح کے مطابق اُن کا وُجود کرۂ ارضی سے ناپید نہیں ہو گیا۔
یہاں ہم اِس سلسلے میں تین اہم مِثالیں دینا ضروری سمجھتے ہیں:
- i اَندھی مچھلی
مچھلی کی ایک ایسی قسم جو بصارت کی صلاحیت سے محروم ہے اور سمندر کی تہہ میں رہتی ہے۔ اُس مختصر سے ماحول میں اُس کے ساتھ ریڈار کے نظام کی حامل اور برقی صلاحیت کی مدد سے دیکھنے والی مچھلیوں کی چند اَقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر اِرتقاء پسندوں کی تحقیق درُست ہوتی تو اَندھی مچھلی باقی دونوں اَقسام کی مچھلیوں کی غارت گری سے مفقود ہو چکی ہوتی، لیکن ہم اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مچھلی کی یہ تینوں اَقسام لاکھوں سالوں سے ایک ساتھ پُرامن طور پر زِندگی بسر کر رہی ہیں اور ایک دُوسرے کی نسل کی بقاء کے لئے خطرہ پیدا نہیں کر سکیں۔
- ii اَندھا سانپ
یہ دَرحقیقت چھپکلی کی ایک قسم ہے جس کے ہاتھ پاؤں نہیں ہوتے اِس لئے اِس مخلوق کے لئے زِندگی اِنتہائی دُشوار ہوتی ہے، لیکن اِس کے باوُجود وہ لاکھوں سال سے کرۂ ارض پر موجود ہے۔ وہ اِس مرورِ اَیام سے معدُوم ہوا اور نہ اِرتقائی عمل سے گزر کر حقیقی چھپکلی ہی بن سکا۔ اِرتقاء کے بنیادی اُصولوں سے متعلق قصے کہانیاں کہاں گئیں۔ ۔ ۔ ؟
- iii آسٹریلوی خارپُشت
آسٹریلیا میں ایک خاص قسم کا خار پُشت پایا جاتا ہے جو اپنے بچے کو کنگرو کی طرح اپنے پیٹ سے مُعلّق تھیلی میں اُٹھائے پھرتا ہے۔ وہ ہزارہا سال کے اِرتقائی عمل کے تحت اپنے جسم میں ایسا تبدّل کیوں نہیں لاتا جس کی بدولت اِس تکلیف دِہ جھلی سے اُس کی جان چھوٹ جائے اور وہ بھی دُوسرے عام خار پُشتوں کی طرح آرام و سکون سے رہ سکے؟
اِس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ﷲ ربّ العزّت نے اُس کے لئے ایسا ہی چاہا ہے۔ وہ خار پُشت اپنی زِندگی سے مطمئن ہے اور اُسی طرح ﷲ ربّ العزت کا تابع فرمان رہے گا۔ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی حامی اِس راز سے کبھی آگاہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مذہب دُشمنی میں حد سے گزرتے ہوئے اَندھی منطق کے گرداب میں اُلجھا ہوا ہے۔
فطری چھانٹی یعنی بقائے اَصلح کے عجوبہ کی کوئی حیثیت نہیں، لاتعداد مخلوقات کی نمائش کے لئے ﷲ تعالیٰ نے ہی مختلف اَنواعِ حیات کو تخلیق کیا ہے۔
۸۔ اَصناف کا تنوّع
اگر مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کا دعویٰ درُست ہوتا تو ہر مخلوق میں اَیسا اِرتقاء عمل میں آتا کہ وہ اَمیبا ( amoeba ) سے شروع ہو کر زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ہی قسم کی اَصناف بناتی چلی جاتی۔ اور یوں اُس امیبا سے ایک ہی قسم کے کیڑے، ایک ہی قسم کی مچھلی، ایک ہی قسم کے پتنگے اور ایک ہی قسم کے پرندے نکلتے یا زیادہ سے زیادہ ہر ایک کی چند ایک اَقسام ہو جاتیں۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف پتنگوں کی ۳لاکھ سے زیادہ اقسام ہیں۔ پھر یہ کس قسم کا اِرتقاء ہے۔ ۔ ۔ ؟
مزید برآں جانوروں کی تمام اَنواع میں ہر قسم کی قابلِ تصوّر اَقسام پائی جاتی ہیں۔ جیومیٹری اور حیاتیات کی تقریباً تمام ممکنہ صورتوں میں مخلوقات کی اَنواع و اَقسام موجود ہیں۔ رنگوں کے ۱۰,۰۰۰سے زائد نمونے تو صرف تتلیوں کے پروں میں پائے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہر نوع اپنی چھوٹی اور بڑی جسامتیں رکھتی ہے۔ جیسا کہ:
چھپکلی............اور..........مگرمچھ
بلی.............اور...........شیر
امریکی چوہا........اور..........خنزیر
اگر اِرتقاء کا کوئی وُجود ہوتا تو ہر نوع ایک ہی سمت میں پروان چڑھتی جبکہ صورتحال اِس کے برعکس ہے، کیونکہ ﷲ ربُّ العزّت نے اپنی مخلوقات کی بے شمار اَنواع و اَقسام سے گویا ایک عظیم الشان نمائش کا اِہتمام کر رکھا ہے۔
۹۔ سائنسی علوم کی عدم قبولیت
مختلف سائنسی علوم کے نکتۂ نظر سے اِرتقاء کا عمل حالیہ سالوں میں مکمل طور پر ناممکن قرار پا گیا ہے۔
- i طبیعیات ( Physics )
علمِ طبیعیات میں کسی قسم کا کوئی اِرتقاء نہیں ہو سکتا۔ پُر اَمن اِرتقاء کے طور پر بھاری عناصر ہائیڈروجن سے پیدا نہیں ہوئے۔ اِسی لئے اگر آپ ہائیڈروجن کے ۲ یا ۴ اَیٹموں کو ملا کر ہیلئم ( helium ) بنانا چاہیں گے تو اُس کے نتیجے میں آپ کو ’تھرمونیوکلیئربم‘ ( thermonuclear bomb ) ہی حاصل ہو گا جس کے سبب تمام ماحول ’کھمبی‘ ( mushroom ) کی شکل کے دھُوئیں کے بادلوں سے اَٹ جائے گا۔
- ii ریاضی ( Mathematics )
ریاضیاتی اِعتبار سے بھی اِرتقاء بالکل ناممکن ہے۔ اَمیبا سے کیڑا بننے تک اِرتقاء کے لئے جینی کوڈ میں ۱۰۲۰[ L:۴ R:۲۳۵]۳۹ تبدیلیاں مطلوب ہیں، جو فی سیکنڈ ایک تبدیلی کی شرح سے ۱۰۰کھرب سال ۔ ۔ ۔ گویا موجودہ کائنات کی عمر سے ۵۰۰گنا زیادہ وقت ۔ ۔ ۔ میں مکمل ہو سکتی ہیں۔ ایک بوزنہ ( ape ) سے اِنسان بننے کے اِرتقائی عمل کے لئے ۱۰۵۲۰[ L:۴ R:۲۳۵]۳ تبدیلیوں کی ضرورت ہے، یہ تبدیلیاں اِتنی کثیر تعداد پر مشتمل ہیں کہ اگر ہم اِس کائنات کی ایک چوتھائی مرکّبات کی قوّت کو زیرِ اِستعمال لائیں تو بھی اُسے پانے میں قاصر رہیں گے۔ مزید موازنے کے لئے اِتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ کائنات کا قطر ایک اِلیکٹران کے قطر سے ۱۰۱۲۴گنا سے زیادہ بڑا نہیں ہے۔ اِن سب حقائق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِرتقاء کا یہ تصوّر ریاضیاتی ناممکنات میں سے ہے۔
- iii حیاتیات ( Biology )
حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کسی صورت ممکن نہیں۔ آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی سائنسی ذرائع کی معاونت سے کوئی شخص اِس قابل نہیں ہو سکا کہ ایک ’سسٹرن‘ ( cistron ) ۔ ۔ ۔ جو ایک مخصوص پروٹین کے کوڈ کے لئے ڈی این اے ( deoxyribonucleic acid ) کی لمبائی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ میں تبدیلی لا سکے۔ کسی مخلوق میں کامیاب جینیاتی تبدیلی کی مِثال نہیں ملتی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینز ( genes ) ۔ ۔ ۔ جو نامیاتی تعمیر کے فارمولا کی حامل ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ ایک اِنتہائی مخصوص نظام کی حفاظت میں ہوتی ہیں۔ اگر اَیسا نہ ہوتا تو دُنیا راتوں رات اُوٹ پٹانگ قسم کی مخلوقات سے بھر جاتی۔ چنانچہ حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کا عمل ناممکن ٹھہرا۔ جیسا کہ ’نِلسن ہیریبرٹ‘ ( Nilson Heribert ) نے کہا ہے کہ اَنواعِ حیات کی نوعیت کچھ اَیسی ہے کہ وہ خود بخود بدل سکتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
’پروفیسر میکس ویسٹن ہوفر‘ ( Prof. Max Westenhofer ) نے اپنے مطالعہ کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مچھلیاں، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانور سب ہمیشہ سے ایک ساتھ موجود رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’پروفیسر ویزمین‘ ( Prof. Weismann ) کے ہاں ’جاوا کے آدمی‘ ( Java Man ) کا تصوّر سائنس کا تمسخر اُڑانے کے مُترادف ہے۔ اِسی طرح ’پروفیسر گِش‘ ( Prof. Gish ) نے سائنسی معاشرے کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا کہ قدیم اِنسان کا ڈھانچہ جسے ’نبراسکا کا آدمی‘ ( Nebraska Man ) کہتے ہیں، مکمل طور پر ایک مصنوعی چیز ہے، اور پورے ڈھانچے کی بنیاد محض ایک دانت پر ہے۔
ہمیں یہ بات ہمیشہ مدِّ نظر رکھنی چاہیئے کہ مفروضۂ اِرتقاء ایک سوچا سمجھا ڈھونگ ہے، جو اَیسے پراگندہ خیالات کو جنم دیتا ہے جن کا اِنجام اِنسانی معاشرے کی تباہ حالی ہے۔ جو لوگ اِس سلسلے میں مزید حقائق سے آگہی میں دِلچسپی رکھتے ہیں وہ مزید مطالعہ کے لئے درج ذیل ذرائع سے اِستفادہ کر سکتے ہیں:
۱.. Jeremy Rifkin, Algeny, Middlesex: Penguin,۱۹۸۴
۲. Paul S. Moorhead and Martin M. Kaplan, eds. Mathematical Challenges to the Neo-Darwinian Interpretations of Evolution, Philadelphia: Wistar Institute Press, ۱۹۶۷
۳. Norman Macbeth, Darwin Retried: An Appeal to Reason, Boston: Gambit, ۱۹۷۱
۴. Duane T. Gish, Evolution: The Fossils Say No[L: ۳۳], San Diego: Creation Life Publishers, ۱۹۷۸
۵. John Moore, On Chromosomes, Mutations and Philogeny, Philadelphia, ۱۹۷۱
۶. Walter J. Bock, Book Review of Evolution, Orderly Law, Science, (۱۴۶) ۱۹۶۹
۷. Harold Francis Blum, Time's Arrow and Evolution, Princeton University Press, ۱۹۶۸
۸. Nilson N. Heribert, Synthetische Artbildung, University of Lund, Sweden
۹. Pierre-Paul Grasse, Evolution of Living Organisms, New York: Academix Press, ۱۹۷۷
۱۰.. David Raup. Conflicts Between Darwin and Paleontology, Field Museum of Natural History Bulletin. January ۱۹۷۹
اِسلامی تصوّرِ تخلیق ہی حق ہے
اگرچہ دُنیا کے مشہور و معروف عیسائی اور یہودی سائنسدان مفروضۂ اِرتقاء کو برحق نہیں جانتے مگر اِس کے باوُجود وہ اِس گندے کھیل میں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، کیونکہ سولہویں صدی کے کلیسائی مظالم کا بدلہ لینے کا تصوّر اُنہیں حقائق کو مسخ کرنے کا جواز بخشتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دُنیا میں کوئی جانور بھی اِرتقائی عمل کی پیداوار نہیں، یہ محض ایک تصوّراتی اور فلسفیانہ مفروضہ ہے۔ دُوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سائنس کے نام پر اِنسان کی اس خودساختہ اَصل سے متعلق جو دعوے کئے جاتے ہیں سب کے سب جھوٹے ہیں۔ اِنسان کی اَصل کے متعلق ہنوز کوئی سائنسی ثبوت میسر نہیں آ سکا۔ تب پھر اِنسان کی اَصل کیا ہے؟ ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید کی رَوشنی میں دیں گے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
( لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقویمٍ ) (التین،۹۵:۴)
بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہےاِس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اِنسان ایک الگ مخلوق کے طور پر معرضِ وُجود میں آیا ہے اور یہ کسی دُوسری مخلوق سے اِرتقاء کے نتیجے میں ظاہر نہیں ہوا۔ اِنسان کی تخلیق "خلقِ آخر" ہونے کے ناطے تخلیقِ خاص ( special creation ) ہے، جسے ﷲ ربُّ العزّت نے ایک مناسب وقت پر تخلیق کیا۔
باب ہشتُم
پھیلتی ہوئی کائنات ( Expanding Universe ) کا قرآنی نظریہ
قرآنِ مجید نے جہاں طبیعی کائنات کی تخلیق کی نسبت چند اہم حقائق بیان کئے ہیں وہاں اُس کے اِختتام کی بعض خصوصی علامات کا بھی ذکر کیا ہے جن کی تائید و تصدیق مکمل طور پر جدید سائنس کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ہم پہلے جدید سائنس کی تحقیقات و اکتشافات کا خلاصہ درج کریں گے تاکہ اصل تصور واضح ہو جائے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ دورِ حاضر کے سائنس دانوں کی رائے میں اِس مادّی اور طبیعی کائنات ( physical universe ) کا آغاز اَجرامِ سماوی کی تخلیق و تقسیم کے جس عمل سے ہوا وہ آج سے تقریباً ۱۵ ارب برس پہلے رونما ہوا اور اُس کا اِختتام آج سے تقریباً ۶۵ارب برس بعد ہو گا۔
تخلیقِ کائنات کے بعد اُس کی مسلسل توسیع و اِرتقاء اور بالآخر اُس کے انجام کے بارے میں موجودہ سائنسی تحقیق Oscillating Universe Theory کی شکل میں سامنے آئی ہے۔
کائنات کی بیکرانی
آئیے اَب اِس وسیع و عریض کائنات کی ساخت، اِرتقاء و عمل اور پھیلاؤ کے بارے میں ذرا غور و فکر کریں۔ تمام اَجرامِ فلکی سمیت زمین، سورج، سِتارے اور سیارے کائنات میں محض چھوٹے چھوٹے نقطوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا سورج ایک ایسی کہکشاں کا سِتارہ ہے جو اِس جیسے اور اِس سے بڑے ایک کھرب سِتاروں پر مشتمل ہے اوراِس کائنات میں اُس جیسی اربوں کہکشائیں مزید بھی پائی جاتی ہیں۔ اَب تک کی جستجو سے معلوم کردہ دُوسری کہکشاؤں کے بعید ترین اَجسام ہم سے تقریباً۱۶ارب نوری سال (تقریباً ۹۳,۹۱,۲۸,۴۶,۳۳,۶۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰ میل) کی مسافت پر واقع ہیں۔ اُن کی شعاع ریزی ( radiation ) نہ صرف زمین بلکہ شاید ہماری کہکشاں کی تخلیق سے بھی پہلے اپنا سفر شروع کر چکی تھی۔ اِس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری کہکشاں کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت ہی پیدا نہیں ہو گئی تھی بلکہ اُس کی پیدائش کائنات کی تخلیق سے کافی عرصہ بعد عمل میں آئی اور دُوسری بہت سی کہکشائیں اُس سے عمر میں بڑی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کہکشاں دُوسری یا تیسری نسل کی نمائندہ ہو۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آج یہ جس مادّہ پر مبنی ہے اُسی مادّہ پر ایک یا زائد کہکشائیں اِس سے قبل بھی مشتمل رہ چکی ہیں۔ جن میں واقع لاکھوں کروڑوں سورجوں کے گرد گردِش کناں سیاروں کی مخلوقات اپنے دَور کی قیامت کے بعد فنا ہو چکی ہیں۔جب وہ اپنی زِندگی پوری کر چکیں تو اُنہی کے متروکہ مادّے سے ہماری کہکشاں ’ملکی وے‘ ( Milky Way )نے جنم لیا۔
سورج کے بعد ہم سے قریب ترین سِتارہ ’پروگزیما سنچری‘ ( Proxima Centauri ) ہے، جو ہم سے تقریباً ۴.۲نوری سال کی مسافت پر واقع ہے، جو تقریباً ۲۴.۶۸ کھرب میل کے مساوی ہے۔ (اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں ۴سال سے زیادہ عرصہ صرف کرتی ہے۔) ہمارا سورج ہم سے ۸.۳ نوری منٹ کے فاصلے پر واقع ہے،جو تقریباً ۹,۲۷,۷۲,۹۳۴.۵۸ میل یعنی ۱۴,۹۲,۹۶,۶۴۴ کلومیٹر کے مساوی ہے۔ (اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں ۸.۳ منٹ کا وقت صرف کرتی ہے۔) اکثر سِتارے جو ہمیں نارمل آنکھ سے دِکھائی دے جاتے ہیں وہ کئی سو نوری سال کی دُوری پر واقع ہیں۔
توسیعِ کائنات ۔ ۔ ۔ ایک سائنسی دریافت
کائنات کے مسلسل وسیع تر ہوتے چلے جانے کے بارے میں ہماری تحقیقات ۱۹۲۴ء سے زیادہ قدیم نہیں، جب ایک ماہرِ فلکیات ایڈوِن ہبل ( Edwin Hubble ) نے یہ اِنکشاف کیا کہ ہماری کہکشاں اِکلوتی نہیں ہے۔ کائنات میں دُوسری بہت سی کہکشائیں بھی اپنے مابین وسیع و عریض علاقے خالی چھوڑے ہوئے موجود ہیں، جو ایک دُوسرے کی مخالف سمت میں یوں حرکت کر رہی ہیں کہ آپس میں فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی رفتار میں بھی اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ کہکشاؤں کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ پوری کائنات بھی پھیلتی چلی گئی ہے اور کہکشاؤں کے مابین پایا جانے والا فاصلہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر ہبل نے کائنات کی وُسعت پذیری کا یہ راز رَوشنی کے ’سرخ ہٹاؤ‘ ( red shift ) کے کہکشاؤں کے ساتھ موازنے کے ذریعے دریافت کیا۔ اُس نے مسلسل بڑھنے والے فاصلوں کی درُستگی کو ’قانونِ ہبل‘ ( Hubble's Law ) اور پھیلاؤ کی حقیقی شرح کے ذریعے ثابت کیا، جسے ہبل کے غیر متغیر اُصول ( Hubble's Constant ) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ دریافت بیسویں صدی کے عظیم شعوری اِنقلابات میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اَب ہم اِس قابل ہو چکے ہیں کہ ’ڈاپلر اثر‘ ( Doppler Effect ) کے ذریعے کائنات اور کہکشاؤں کے پھیلاؤ کی موجودہ شرح کو متعین کر سکیں۔ اَب ہم سب اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کائنات ہر ایک ارب سال میں ۵سے ۱۰ فیصد کی شرح کے ساتھ پھیل رہی ہے۔
ڈاپلر اثر ( Doppler Effect )کی ایک عام فہم مثال
کسی جرمِ فلکی کی روشنی یا برقی مقناطیسی لہروں کا اُس جسم کے ناظر سے دُور بھاگنا یا کائنات کے ’عظیم اِبتدائی دھماکے‘ ( Big Bang ) کی وجہ سے طویل الموج ہونا ’ریڈشفٹ‘ یا ’سرخ ہٹاؤ‘ کہلاتا ہے۔ ایسا ’ڈاپلر اثر‘ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اِس کی سادہ مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ جیسے کسی گاڑی کے آگے پیچھے ہر طرف سپرنگ باندھ کر اُسے تیزی سے دوڑایا جائے تو اُس کی تیز رفتاری کے باعث اگلے سپرنگ دب کر سکڑے ہوئے جبکہ پچھلی طرف بندھے سپرنگ کھنچ کر لمبے ہوتے نظر آئیں گے۔ بالکل اِسی طرح جب کوئی ستارہ، کہکشاں یا کوئی اور جِرمِ فلکی اپنے چاروں طرف بیک وقت ایک سی شعاع ریزی کرتے ہوئے ہم سے دُور بھاگا چلا جا رہا ہو تو اُس کی پچھلی سمت سے نکلنے والی روشنی کی موجیں اپنے اصل طول سے قدرے لمبی دِکھائی دیں گی اور ہماری طرف آنے والے اَجرام سے نکلنے والی روشنی کی موجیں اپنے اصل طول سے قدرے سکڑی ہوئی نظر آئیں گی۔ ہم سے دُور بھاگنے والی کہکشاؤں کی لہریں ’طویل الموج‘ ہو کر رنگت میں ’سرخی مائل‘ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جبکہ ہماری سمت آنے والے اَجرامِ فلکی کی روشنی کی لہریں ’قصیرالموج‘ ہو کر رنگت میں ’بنفشی مائل‘ ہو جاتی ہیں۔ اِسی کو ’ڈاپلر اثر‘ ( doppler effect ) کہتے ہیں۔
یہ تحقیق سب سے پہلے آسٹریلوی ماہرِ طبیعیات ’کرسچین ڈاپلر‘ (۱۸۰۳-۱۸۵۳) نے منظرِ عام پر لائی۔ کسی خاص عنصر کے حامل سیارے سے نکلنے والی روشنی کا رنگ اُس عنصر کے حقیقی رنگ کی نسبت مائل بہ سرخ ہونے کے تناسب سے اِس بات کا بخوبی اَندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ستارہ ہم سے کس رفتار سے کس سمت دُور جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر تمام کہکشائیں ’بگ بینگ‘ کے اثر سے ایک دُوسرے سے دُور بھاگ رہی ہیں جس کا اندازہ ’ایڈوِن ہبل‘ نے ۱۹۲۴ء میں تقریباً تمام کہکشاؤں کی روشنی میں پائے جانے والے ’سرخ ہٹاؤ‘ ( Red Shift ) ہی کے ذریعے لگایا تھا۔
وُسعت پذیر کائنات کا قرآنی نظریہ
یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی، بالخصوص اُس کی چند آخری دہائیوں میں حاصل کی ہیں، قرآنِ مجید اُنہیں آج سے ۱,۴۰۰ سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ قرآنِ مجید نے کائنات کی وُسعت پذیری کا اُصول سورۂ فاطر میں کچھ اِس طرح سے بیان کیا ہے:
( اَلحَمدُ ِللهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ یَزِیدُ فِی الخَلقِ مَا یَشآء إِنَّ ﷲ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌ ) (فاطر،۳۵:۱)
تمام تعریف ﷲ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کو (بلا نمونے کے اِبتداءً) بنانے والا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ بے شک ﷲ ہر شے پر قادِر ہےاِسی سائنسی حقیقت کو قرآنِ حکیم نے سورۃُ الذّاریات میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ یوں ذِکر کیا ہے:
( وَ السَّمَآءَ بَنَینَاهَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَمُوسِعُونَ ) (الذّاریات،۵۱:۴۷)
اور ہم نے آسمان (کائنات کے سماوی طبقات) کو طاقت (توانائی) سے بنایا ہے اور بلاشبہ ہم کائنات کو پھیلاتے چلے جا رہے ہیںاِس آیتِ کریمہ نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ کائنات، جسے ﷲ ربّ العزّت نے طاقت اور توانائی کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وسیع تر انداز میں ہر سمت پھیلتی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ "لَمُوسِعُون" کا لفظ خود وُسعت پذیری کے معنی پر واضح دلالت کرتا ہے۔ قرآنِ مجید وُسعت پذیری کے عمل کو تخلیقِ کائنات کا تسلسل قرار دیتا ہے۔ سورۃُ النّحل میں اِرشاد فرمایا گیا:
( وَ یَخلُقُ مَا لاَ تَعلَمُونَ ) (النّحل،۱۶:۸)
اور وہ پیدا فرماتا جا رہا ہے جسے تم نہیں جانتےمغربی دُنیا کے سائنسدانوں اور سائنس کے طلباء کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ آج سے ۱۴صدیاں قبل۔ ۔ ۔ جب کائنات کے مجرّد اور غیر متحرک ہونے کا نظریہ تمام دُنیا میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ ۔ ۔ علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) اور علمِ تخلیقیات ( cosmology ) کے اِس جدید نظریہ سے قرآنِ مجید نے کس طرح اِنسانیت کو آگاہ کیا! جبکہ کائنات کے جمود کا نظریہ اِس قدر مستحکم تھا کہ وہ بیسویں صدی کے اَوائل تک دُنیا بھر میں ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ’نیوٹن‘ کا قانونِ تجاذُب حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ ’آئن سٹائن‘ نے بھی ۱۹۱۵ء میں جب اپنا ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ ( General Theory of Relativity ) پیش کیا تو اُس وقت تک اُسے ’نظریۂ جمودِ کائنات‘ پر اِتنا پختہ یقین تھا کہ اُس نے اُس نظریئے کی مساوات میں مشہورِ عالم ’تخلیقیاتی مستقل‘ ( cosmological constant )کو مُتعارف کراتے ہوئے اپنے نظریئے میں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔
دَرحقیقت رُوسی ماہرِ طبیعیات اور ریاضی دان ’الیگزینڈر فرائیڈ مین‘ ( Alexander Friedmann ) وہ شخص تھا جس نے ۱۹۲۲ء میں پہلی بار کائنات کی وُسعت پذیری کا مفروضہ پیش کیا، جسے بعد میں ۱۹۲۹ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور بالآخر ۱۹۶۵ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات ’آرنوپنزیاس‘ ( Arno Penzias ) اور ’رابرٹ وِلسن‘ ( Robert Wilson ) نے اُسے ثابت کیا۔ یہ دونوں سائنسدان امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں واقع ’بیل فون لیبارٹریز‘ میں کام کرتے تھے، جنہیں ۱۹۷۸ء میں نوبل پرائز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ یہ بلا شک و شبہ قرآنِ مجید کا ایک سائنسی معجزہ ہے۔
باب نہُم
سیاہ شگاف ( Black Hole ) کا نظریہ اور قرآنی صداقت
’سٹیفن ہاکنگ‘ ( Stephen Hawking ) دورِ حاضر میں طبیعیات ( physics ) کا عظیم سائنسدان ہے۔ اِنعقادِ قیامت کے حوالے سے اُس کی تحقیقات نہایت عمدہ خیال کی جاتی ہیں۔ وہ سیاہ شگاف کو قیامت کی ایک ممکنہ شکل قرار دیتا ہے۔ ’سیاہ شگاف‘ ( black hole ) کی اِصطلاح فزکس کی تاریخ میں زیادہ قدیم نہیں۔ اسے ۱۹۶۹ء میں ایک امریکی سائنسدان ’جان ویلر‘ ( John Wheeler ) نے ایک ایسے تصوّر کی جدوَلی صراحت کے لئے وَضع کیا جو کم از کم ۲۰۰سال پرانا ہے۔ اُس وقت جبکہ روشنی کے بارے میں کوئی موجودہ نظریات نہیں پائے جاتے تھے۔ قدیم نظریات میں سے ایک نظریہ تو ’نیوٹن‘ کا تھا کہ روشنی ذرّات سے بنی ہے اور دُوسرے کے مطابق یہ لہروں پر مشتمل ہے۔ آج ہم اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دونوں نظریات اپنی جگہ درُست ہیں۔ ’کوانٹم مکینکس‘ کی لہروں اور ذرّات کی ثنویت کی وجہ سے روشنی کو لہر اور ذرّہ دونوں پر محمول کیا جا سکتا ہے۔
سیاہ شگاف ( Black Hole )کا تعارُف
جب سورج سے ۲۰گنا بڑا کوئی ستارہ ۳,۵۰,۰۰,۰۰,۰۰۰ سینٹی گریڈ کے حامل ’عظیم نوتارہ‘ ( supernova ) کی صورت میں پھٹتا ہے تو اُس کا باقی ماندہ ملبہ اِتنا بڑا قالب ہوتا ہے کہ جو عام طور پر ایک ’نیوٹران ستارے‘ کا آخری مرحلہ نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اُس کی کشش اِس قدر زیادہ ہو کہ وہ ناقابلِ تصوّر حد تک ہر شے کو اپنے اندر گِراتا چلا جائے۔ جوں جوں اُس کی کثافت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں اُس کی قوّتِ کشش میں اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ روشنی سمیت کوئی شے بھی اُس کی کشش سے بچ نہیں پاتی۔ اسی کو ’سیاہ شگاف‘ ( black hole ) کہتے ہیں۔ سیاہ شگاف کے مرکز میں سابقہ ستارے کا ملبہ تباہ ہو کر لا محدُود کثافت کا حامل ہو جاتا ہے جبکہ اُس کا حجم صفر ہوتا ہے۔ اُسی نقطہ کو ’اِکائیت‘ ( singularity ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’فلکی طبیعیات‘ ( astrophysics ) کے جدید نظریات کی رُو سے اِتنے کثیف ستارے کے قالب کو اپنی ہی کشش کے تحت ہونے والی غیرمتناہی اندرونی تباہی سے روکنا کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری کہکشاں میں ایک کروڑ کے لگ بھگ سیاہ شگاف پائے جانے کا اِمکان ہے جو عظیمُ الجثہ ستاروں کے عظیم نوتارہ ( supernova ) دھماکوں سے معرضِ وُجود میں آئے ہیں۔ پوری کائنات میں موجود اَجرامِ سماوی میں اِعتدال و توازُن اِنہی سیاہ شگافوں کی بدولت قائم ہے۔
سیاہ شگاف ( Black Hole )کا معرضِ وُجود میں آنا
سیاہ شگاف بننے کے عمل کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں کسی بھی ستارے کی آغاز تا انجام زِندگی کا پورا چکر ( life-cycle ) سمجھنا ہو گا۔ سِتارہ اِبتدائی طور پر ایسی گیس۔ ۔ ۔ جو زیادہ تر ہائیڈروجن پر مشتمل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ کی ایک بہت بڑی مقدار کے کششِ ثقل کے باعث سُکڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اِس صورت میں اُس گیس کے ایٹم آزادانہ اور تیز ترین رفتار کے ساتھ باہم ٹکراتے ہوئے گیس کو گرم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آخرکار گیس اِتنی گرم ہو جاتی ہے کہ ’ہائیڈروجن‘ ( Hydrojen ) کے ایٹم جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو وہ زیادہ دیر اِکٹھے اُچھل کُود بند نہیں کرتے بلکہ آپس میں ضم ہو کر ’ہیلئم‘ ( Helium ) تشکیل دیتے ہیں۔ اِس عمل سے بے پناہ حرارت خارج ہوتی ہے۔ ۔ ۔ بالکل اُسی طرح جیسے ایک ’ہائیڈروجن بم‘ پھٹتا ہے۔ ۔ ۔ اسی کی بدولت ستارے چمکتے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ اِضافی حرارت گیس کا دباؤ اِس قدر بڑھا دیتی ہے جو کششِ ثقل میں توازُن برقرار رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے، اور یوں گیس مزید سکڑنا بند کر دیتی ہے۔
یہ کسی حد تک غبارے کی مِثل ہے جس کے اندر کی ہوا میں توازُن ہوتا ہے۔ ہوا غبارے کو مزید پھیلانا چاہتی ہے مگر غبارے کی ربڑ کا تناؤ اُسے چھوٹا کر دینا چاہتا ہے۔ یوں ہوا اور غبارے کی ربڑ کے مابین پائے جانے والے توازُن کے سبب غبارہ ایک خاص متوازن حد تک پھُلا رہتا ہے۔ سِتارے بھی اِسی طرح نیوکلیائی ردِ عمل سے پیدا ہونے والی حرارت اور کششِ ثقل کے درمیان توازُن کی وجہ سے عرصۂ دراز تک سلامت رہتے ہیں۔ بالآخر ستارہ جل جل کر اپنی ہائیڈروجن اور نیوکلیائی اِیندھن ختم کر دیتا ہے۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جتنے زیادہ اِیندھن کے ساتھ کوئی ستارہ اپنی زندگی کی دَوڑ کا آغاز کرے گا اُتنی ہی جلدی وہ ختم ہو جائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ستارہ جتنا بڑا ہو گا اُسے اپنی کششِ ثقل کے ساتھ توازُن برقرار رکھنے کے لئے اُتنا ہی زیادہ گرم رہنا پڑے گا، اور جتنا زیادہ وہ گرم رہے گا اُسی تیزی سے وہ اپنا اِیندھن خرچ کرے گا۔ ہمارے سورج میں اِتنے اِیندھن کی موجودگی کا اِمکان ہے کہ وہ ۵ ارب سال مزید گزار سکے، لیکن اُس سے بڑے سِتارے اپنا اِیندھن صرف ۵۰کروڑ سال میں ختم کر سکتے ہیں، جو اِس کائنات کی مجموعی عمر کی نسبت بہت کم مدّت ہے۔ جب کسی ستارے کا اِیندھن کم ہو جاتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے لگتا ہے۔ پھر اُس کے بعد کیا ہو تا ہے؟ اِس بات کا پتہ سب سے پہلے ۱۹۲۰ء کے عشرے کے اَواخر میں چلایا گیا۔
’سیاہ شگاف‘ بڑے ستاروں کی زِندگی کے اِختتام پر رَوشن نوتارے ( supernova ) کے پھٹنے کی صورت میں رُو نما ہوتے ہیں۔ ایسے ستارے کا کثیف مرکزہ ( dense core ) دھماکے کے بعد اپنی ہی کششِ ثقل کے باعث اندرونی اِنہدام کو جاری رکھتا ہے تآنکہ وہ سیاہ شگاف کی صورت میں معدُوم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں جا سکتی۔ کچھ ماہرینِ فلکیات کا خیال ہے کہ سیاہ شگاف عظیم منہ بند سوراخ کی طرح عمل پذیر ہیں جن کے ذریعے مادّہ ہماری کائنات سے کسی اور جگہ جا نکلتا ہے۔ یوں جدید سائنسی تحقیقات ہمیں اِسلام کے تصوّرِ آخرت سے خاصا قریب لے آتی ہیں۔ ایک لحاظ سے سیاہ شگاف ’قواسرز‘ ( quasars ) کی طرح پُر اسرار ہیں۔ وہ فزکس کے قوانین پر عمل درآمد کرتے دِکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ پیدائشی طور پر ناقابلِ دید ہیں۔
جب ہمارے سورج سے ۱۰گنا بڑا کوئی ستارہ اپنی تمام تر توانائی خرچ کر بیٹھتا ہے تو اُس کی بیرونی تہہ مرکز کی طرف مُنہدم ہونا شروع کر دیتی ہے۔ تب ستارہ ’عظیم نوتارہ‘ ( supernova ) کے دھماکے کے ساتھ بیرونی تہہ کو دُور پھینکتے ہوئے پھٹتا ہے۔ اُس دھماکے کے بعد ستارے کا کثیف مرکزہ باقی بچ رہتا ہے، ممکن ہے کہ وہ کسی ’نیوٹران ستارے‘ کی طرح شدید دباؤ زدہ ہو۔ تیزی سے گھومتے ہوئے ستاروں کو دمکتے ہوئے ’شعاع اَفشاں ذرائع‘ یا ’ پلسر‘ ( pulsar ) کی صورت میں پایا گیا ہے۔ اگر ستارے کے باقی ماندہ مرکزے ( core ) کی اہمیت بہت زیادہ ہو تو وہ اپنی کششِ ثقل کے بل بوتے پر سکڑتے ہوئے سیاہ شگاف کی صورت اِختیار کر لیتا ہے۔ اُس سوراخ میں مادّہ گِر تو سکتا ہے مگر کوئی بھی شے اُس سے فرار اِختیار نہیں کر سکتی۔
سیاہ شگاف سے روشنی بھی فرار نہیں ہو سکتی
’اوپن ہائمر‘ ( Oppenheimer ) کی تحقیق سے حاصل ہونے والی تصویر کشی کے مطابق سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جانے والے اُس ستارے کا ’مقناطیسی میدان‘ کسی بھی زمان و مکان میں پائی جانے والی شعاعوں کا راستہ بدل دیتا ہے۔ روشنی کی وہ ’مخروطی شکلیں‘ ( cones ) ۔ ۔ ۔ جو اپنے کناروں سے خارج ہونے والی روشنی کی چمک سے زمان و مکان میں اپنا راستہ نمایاں کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ اُس ستارے کی سطح کے قریب آہستگی سے اندر کو مُڑ جاتی ہیں۔ سورج گرہن کے دوران دُور واقع ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی کے جھکاؤ میں اِس امر کا بخوبی مُشاہدہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کے ثبوت کے طور پر کیا گیا تھا۔ جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتا چلا جاتا ہے، اُس کی سطح کا مقناطیسی میدان ( magnetic field ) طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں مزید اندر کو جھکنے لگ جاتی ہیں۔ یہ چیز روشنی کے اُس ستارے سے فرار کو مزید مشکل بنا دیتی ہے اور دُور سے نظارہ کرنے والے ناظر کے لئے روشنی نسبتاً ہلکی اور سرخ ہو جاتی ہے۔ آخرکار جب وہ ستارہ اپنے کم از کم ممکنہ رد اس کی حد تک سکڑ جاتا ہے تو اُس کی سطح کا مقناطیسی میدان اِتنا طاقتور ہو جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں اُس کی طرف اِس قدر جھک جاتی ہیں کہ روشنی کے فرار کے تمام ممکنہ راستے مسدُود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ’نظریۂ اِضافیت‘ کے مطابق کوئی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ اِس لئے اگر روشنی بھی اُس سیاہ شگاف بن جانے والے مُردہ ستارے سے نہیں بچ سکتی تو صاف ظاہر ہے کہ اور بھی کوئی شے اُس سے نہیں بچ سکتی، اُس کا ’مقناطیسی میدان‘ ہر شے کو اپنی جانب گھسیٹ لے گا۔ کسی دُور بیٹھے ناظر کے لئے اُن مخصوص حالات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ وہ مُشاہدے کے لئے بلیک ہول کے زیرِ اثر مکان-زمان کے اُس مخصوص خطہ کی طرف جائے اور صحیح سلامت بچ کر واپس بھی چلا آئے۔ یہی وہ جگہ ہے جسے ہم اب ’سیاہ شگاف‘ ( black hole ) کا نام دیتے ہیں۔ اُس کی اصل حدُود کو’واقعاتی اُفُق‘ یا ’اِیونٹ ہورِیزن‘ ( event horizon ) کہا جاتا ہے اور یہ روشنی کی اُن لہروں کے راستے کے سِرے پر واقع ہوتا ہے جو سیاہ شگاف سے فرار اِختیار کرنے میں ناکام رہ جاتی ہیں۔
سیاہ شگاف بیرونی نظارے سے مکمل طور پر پوشیدہ ہیں
’سٹیفن ہاکنگ‘ ( Stephen Hawking )کہتا ہے کہ اُس کی اور ’راجرپینروز‘ ( Roger Penrose ) کی۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۵ء تک کی گئی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ کے مطابق سیاہ شگاف کے اندر ’لا محدُود کمیّت کی اِکائی‘ ( singularity of infinite density ) اور ’زمان و مکان کے اِنحناء‘ ( space-time curvature ) کی موجودگی ضروری ہے۔یہ کسی حد تک زمانے کے آغاز میں رُو نما ہونے والے عظیم دھماکے کی طرح ہوتا ہے جو اِنہدام زدہ جسم اور اُس کی طرف سے خلا میں سفر کرنے والے خلا نورد کے لئے وقت کا اِختتام ثابت ہو گا۔ اُس اِکائیت کے مقام پر سائنس کے قوانین اور ہماری مستقبل کو جاننے کی صلاحیت دونوں جواب دے جائیں گی۔ تاہم ہر وہ ناظر جو اُس سیاہ شگاف سے دُور رہے گا، جہاں وہ پیش از وقت ممکنہ خدشات کے اَندازے کی صلاحیت سے محروم رہے گا وہاں وہ ہر قسم کے نقصان سے بھی محفوظ رہے گا، کیونکہ سیاہ شگاف میں واقع صفر جسامت کی حامل اُس ’اِکائیت‘ سے روشنی سمیت کوئی مضر شعاع اُسے نقصان پہنچانے کی غرض سے باہر نکل کر اُس تک نہیں پہنچ سکتی۔
زمین آخرکار سورج سے جا ٹکرائے گی
’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ یہ اِنکشاف کرتا ہے کہ بڑے اَجرامِ فلکی کشش کی ایسی لہروں کے اِخراج کا باعث بن جائیں گے جو خلاء کے اِنحناء کی وجہ سے بنتی ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ یہ روشنی کی لہروں جیسی ہوتی ہیں جو ’برقی مقناطیسی میدان‘ میں بنتی ہیں، لیکن اُنہیں پا سکنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ یہ جن اَجسام سے خارج ہوتی ہیں اُن سے روشنی کی طرح توانائی لئے جاتی ہیں۔ اِس بات کا اَندازہ ہر کوئی بآسانی کر سکتا ہے کہ اُن بڑے اَجسام کا نظام آخرکار ساکن حالت پر آ جائے گا کیونکہ کسی بھی حرکت میں پیدا ہونے والا کشش کی لہروں کا اِخراج توانائی کو ساتھ لے جاتا ہے۔ مِثال کے طور پر زمین کی سورج کے گِرد اپنے مدار میں گردِش کشش کی لہریں پیدا کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے توانائی کے ضیاع کا اثر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے مدار کو تبدیل کر دے گا اور یوں یہ سورج سے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی اور بالآخر اُس سے ٹکرا کر ساکن حالت اِختیار کر لے گی۔ زمین اور سورج کے معاملے میں ضائع ہونے والی توانائی کی شرح اِس قدر کم ہے کہ اُس سے ایک چھوٹا برقی چولھا بھی نہیں چلایا جا سکتا۔ دُوسرے لفظوں میں زمین کو سورج میں گرنے میں تقریباً ایک ارب سنکھ (۱,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰) سال لگیں گے۔ سیاہ شگاف کی تشکیل کے لئے ایک ستارے کے ثِقلی اِنہدام کے دَوران حرکات اِس قدر تیز ہوں گی کہ توانائی کے ضیاع کی شرح بہت زیادہ ہو جائے گی۔ تاہم یہ اِتنا طویل نہیں ہو گا کہ ایک ساکن حالت کو پہنچ جائے۔
موجود سیاہ شگافوں کی تعداد اور جسامت
ہمیں اب تک اپنی کہکشاں ( Milky Way ) اور دو ہمسایہ کہکشاؤں ( Magellanic Clounds ) میں پائے جانے والے ’سیگنس ایکس ون‘ ( Cygnus X-۱ ) جیسے نظاموں میں موجود بہت سے سیاہ شگافوں کی شہادت میسر آ چکی ہے۔ تاہم حقیقت میں سیاہ شگافوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کائنات کی طویل ترین تاریخ میں بہت سے ستارے اپنا اِیندھن جلا کر ختم کر چکے ہوں گے اور اُنہیں اندرونی اِنہدام کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ ممکن ہے کہ سیاہ شگافوں کی تعداد قابلِ دید ستاروں سے بھی زیادہ ہو، جو تقریباً ایک کھرب کی تعداد میں تو صرف ہماری کہکشاں میں پائے جاتے ہیں۔ اِتنی کثیر تعداد میں پائے جانے والے سیاہ شگافوں کی اِضافی کششِ ثقل کو شمار کرتے ہوئے ہی ہماری کہکشاں کی محورِی گردِش اور اُس کے توازُن کی موجودہ شرح کی وضاحت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ صرف قابلِ دید ستاروں کی تعداد اُس شرح کی وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہمیں اِس بات کی شہادت بھی میسر آ چکی ہے کہ ہماری کہکشاں کے وسط میں سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ کمیّت کا حامل عظیمُ الجثہ سیاہ شگاف موجود ہے۔ کہکشاں میں پائے جانے والے وہ ستارے جو اُس سیاہ شگاف سے زیادہ قریب آ جاتے ہیں، اپنے قریبی اور بعیدی جہات میں پائی جانے والی قوّتِ کشش میں اِختلاف کی وجہ سے جدا ہو کر اُس سیاہ شگاف کے گرد گردش کرنے والے طوفان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اُسی جیسے۔ ۔ ۔ بلکہ جسامت میں اُس سے بھی بڑے۔ ۔ ۔ کمیّت میں ہمارے سورج سے ۱۰کروڑ گنا بڑے۔ ۔ ۔ سیاہ شگاف ’قواسرز‘ کے وسط میں پائے جاتے ہیں۔ اِتنے عظیمُ الجثہ سیاہ شگاف میں مادّے کا مسلسل گرنا ہی قوّت کا وہ ذریعہ ہے جو اِتنا عظیم ہے کہ اُسے شمار کرنے سے اُن سیاہ شگافوں سے خارج ہونے والی توانائی کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ مادّہ جس سمت میں گھومتے ہوئے سیاہ شگاف میں گرتا ہے اُسی طرف کو سیاہ شگاف گھومنے لگ جاتا ہے، چنانچہ اسی سے اُس سیاہ شگاف کا ’میدانِ تجاذُب‘ پروان چڑھتا ہے۔ مادّے کے سیاہ شگاف میں گرنے سے اُس کے قریب بہت بڑی توانائی کے ذرّات پیدا ہوتے ہیں۔
یہ گمان بھی بجا ہے کہ شاید ہمارے سورج سے کم کمیّت کے حامل سیاہ شگاف بھی پائے جاتے ہوں۔تاہم ایسے سیاہ شگاف ’اندرونی کششی اِنہدام‘ کی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن کی کمیّت ’چندرشیکھر‘ کی ’کمیتی حدُود‘ ( Chandrasekhar Mass Limit ) سے کم ہوتی ہے۔ اِس قدر کم کمیّت کے حامل ستارے صرف اِسی صورت میں کششِ ثقل کے خلاف مزاحمت سے اپنے وُجود کو سہارا دے سکتے ہیں جب وہ اپنے نیوکلیائی اِیندھن کا مکمل طور پر اِخراج کر چکے ہوں۔ کم کمیّت کے سیاہ شگاف صرف اِسی صورت میں تشکیل پا سکتے ہیں جب مادّہ شدید ترین بیرونی دباؤ سے دب کر اِنتہا درجہ کثیف ہو جائے۔
سیاہ شگاف۔ ۔ ۔ ایک ناقابلِ دید تنگ گزرگاہ
جیسا کہ اِن کے نام سے ظاہر ہے سیاہ شگاف نظر نہیں آ سکتے کیونکہ وہ بالکل روشنی خارِج نہیں کرتے۔ ایک سیاہ شگاف اگرچہ خود تو نظر نہیں آ سکتا مگر اِس کے باوُجود جب وہ کسی ہمسایہ ستارے کو کھینچ رہا ہوتا ہے اور اُس کے مادّے کو ہڑپ کر کے نگل جاتا ہے تو ’ایکس ریز کے اِخراج‘ کی وجہ سے اُس کا سراغ لگانا ممکن ہو جاتا ہے۔
سیاہ شگاف کسی دُوسری کائنات کو جانے والی گزرگاہ کا کام دیتے ہیں، لہٰذا ممکن ہے کہ جو مادّہ سیاہ شگاف کی طرف جاتا ہے وہ زمان و مکان کے کسی اور منطقے میں بھیج دیا جاتا ہو، جس سے ہم بالکل آگاہ نہیں ہیں۔ جب ہماری تحقیق اِس مقام پر آن پہنچتی ہے تو ہمیں اِسلام کے عطا کردہ عقیدۂ آخرت پر مزید پختگی میسر آتی ہے۔
باب دہُم
کائنات کا تجاذُبی اِنہدام اور اِنعقادِ قیامت
سیاہ شگاف اور ستاروں کی زِندگی اور موت کے قریبی مشاہدے کے بعد آیئے اَب ہم قیامت سے متعلق ہونے والی سائنسی تحقیقات کے نمایاں خدّوخال اور اِسلام کے تصوّرِ قیامت اور عقیدۂ آخرت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
انجامِ کائنات سے متعلقہ سائنسی تحقیقات ہمیں اِس نتیجے پر پہنچاتی ہیں:
-۱ ہماری مادّی کائنات جس کا آغاز آج سے کم و بیش ۱۵ارب سال پہلے ’اوّلین عظیم دھماکے‘ ( Big Bang ) کی صورت میں ہوا تھا، اُس کا انجام آج سے تقریباً ۶۵ارب سال بعد کائنات کے آخری عظیم دھماکے‘ ( Big Crunch ) پر ہو گا۔
-۲ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہماری پھیلتی ہوئی کائنات اپنی نصف عمر گزار لینے کے بعد کششِ باہمی کی وجہ سے سکڑاؤ کا شکار ہو جائے گی۔ باہر کو پھیلتی ہوئی کہکشاؤں کی رفتار کم ہو جائے گی، حتیٰ کہ وہ رُک جائیں گی اور پھر مرکز کی سمت اندرونی اِنہدام کا شکار ہو جائیں گی اور آپس میں ٹکرا کر مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گی۔
-۳ یہ ٹکراؤ (یعنی بِگ کرنچ) بِگ بینگ جیسے اِنتہائی عظیم اوّلین دھماکے کی طرح ہو گا۔ تمام اَجرامِ سماوی کا مادّہ سیاہ شگافوں میں جا گرے گا اور کائنات کی تمام ہائیڈروجن ( hydrogen ) اور ہیلئم ( helium ) ستاروں کی تھرمونیوکلیائی آگ میں جل کر ختم ہو جائیں گی۔ کوئی نیا ستارہ پیدا نہیں ہو گا اور کائنات مُردہ ستاروں، شہابیوں، چٹانوں اور اُنہی جیسے دُوسرے کائناتی ملبے پر مشتمل ہو گی۔
-۴ جب کائنات کی عمر ۱۰۲۷سال ہو جائے گی تو وہ بکثرت ایسے سیاہ شگافوں پر مشتمل ہو گی جو مُردہ ستاروں کے جُھرمٹ میں گھِرے ہوئے ہوں گے۔ کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعد تمام کہکشائیں گھومتی ہوئی ایک دُوسرے کی طرف آئیں گی اور آپس میں ٹکراتے ہوئے بڑے ’کائناتی سیاہ شگافوں‘ ( supergalactic black holes ) پر منتج ہوں گی۔ آخرکار ۱۰۱۰۶سال گزرنے کے بعد وہ عظیم سیاہ شگاف بخارات بن کر ایسے ذرّات اور شعاع ریزی کی صورت میں بھڑک اُٹھیں گے جو ایک ارب میگا واٹ ہائیڈروجن بم کے دھماکے کے برابر ہو گی۔
-۵ تباہی و بربادی کا یہ عمل آج سے ۶۵ ارب سال بعد شروع ہو گا اور ۱۰۱۴۰سال بعد مکمل ہو گا۔
-۶ بالآخر یہ عمل پوری کائنات کو ایک عظیم سیاہ شگاف یا ناقابلِ دید بنا دے گا، اور شاید تمام مادّہ، توانائی، مکان اور زمان اُس میں سمٹ جائے اور وہ دوبارہ سے سُکڑتے ہوئے چھوٹی ہو کر ’اِکائیت‘ اور صفر جسامت بن جائے گی اور لاشئ اور غیر موجود ( nothing / naught ) ہو جائے گی۔
کائنات کے تجاذُبی اِنہدام کا قرآنی نظریہ
قرآنِ مجید اِنعقادِ قیامت کے ضمن میں کائنات کے تمام موجودات کی کششی دھماکے سے رُو نما ہونے والی حالت اور اُس کی بے تحاشا تباہی کو یوں واضح کرتا ہے:
( إِذَا وَقَعَتِ الوَاقِعَةُ لَیسَ لِوَقعَتِهَا کَاذِبَةٌ خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ إِذَا رُجَّتِ الأَرضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الجِبَالُ بَسًّا فَکَانَت هَبآء مُّنبَثًّا ) (الواقعہ،۵۶: ۱.۶)
(یاد رکھو) جب قیامت واقع ہو جائے گی O تب اُسے جھوٹ سمجھنے کی گنجائش کسی کے لئے نہ ہو گی O کسی کو پست اور کسی کو بلند کرنے والی O جب زمین کپکپا کر لرزنے لگے گی O اور پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے O پھر (مکمل طور پر) غبار بن کر اُڑنے لگیں گے( یَومَ تَرجُفُ الأَرضُ وَ الجِبَالُ وَ کَانَتِ الجِبَالُ کَثِیبًا مَّهِیلاً ) (المزمل،۷۳:۱۴)
جس دِن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) ریت کے بھُربھُرے تودے ہو جائیں گے( اَلسَّمَآءُ مُنفَطِرٌ مبِه کَانَ وَعدُه مَفعُولاً ) (المزمل،۷۳:۱۸)
جس (دِن کی دہشت) سے آسمان پھٹ جائے گا، (یاد رکھو کہ) اُس کا وعدہ (پورا) ہو کر رہے گا( وَ حُمِلَتِ الأَرضُ وَ الجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّةً وَّاحِدَةً فَیَومَئِذٍ وَّقَعَتِ الوَاقِعَةُ وَ انشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِیَ یَومَئِذٍ وَّاهِیَةٌ ) (الحاقہ،۶۹: ۱۴.۱۶)
اور زمین اور پہاڑ اُٹھائے جائیں، گے پھر یکبارگی (لپک کر) ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے O پس اُسی
وقت جس (قیامت) کا ہونا یقینی ہے وہ واقع ہو جائے گی O اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گا( وَ نَرَاهُ قَرِیبًا یَومَ تَکُونُ السَّمَآءُ کَالمُهلِ وَ تَکُونُ الجِبَالُ کَالعِهنِ ) (المعارج، ۷۰:۷.۹)
اور وہ ہماری نظر میں قریب ہے O جس دِن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہو گا O اور پہاڑ رنگین اُون کے گالے کی طرح ہلکے ہوں گے( إِذَا الشَّمسُ کُوِّرَت وَ إِذَا النُّجُومُ انکَدَرَت وَ إِذَا الجِبَالُ سُیِّرَت ) (التکویر،:۸۱:۱.۳)
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا O اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گے O اور جب پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) چلا دیئے جائیں گے( إِذَا السَّمَآءُ انفَطَرَت وَ إِذَا الکَوَاکِبُ انتَثَرَت وَ إِذَا البِحَارُ فُجِّرَت ) (الانفطار، ۸۲:۱.۳)
جب (سب) آسمانی کرے پھٹ جائیں گے O اور سیارے گِر کر بھر جائیں گے O اور جب سمندر (اور دریا) اُبھر کر بہہ جائیں گے( وَ الأَمرُ یَومَئِذٍ لِّلّٰهِ ) (الانفطار،۸۲:۱۹)
اور حکم فرمائی اُس دن ﷲ ہی کی ہو گی( یَسئَلُ أَیَّاَن یَومُ القِیَامَةِ فَإِذَا بَرِقَ البَصَرُ وَ خَسَفَ القَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمسُ وَ القَمَرُ یَقُولُ الإِنسَانُ یَومَئِذٍ أَینَ المَفَرُّ ) (القیامۃ،۷۵:۶.۱۰)
وہ پوچھتا ہے کہ قیامت کا دِن کب ہو گا O پھر جب (ربُّ العزت کی تجلیٔ قہری سے) آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گی O اور چاند بے نور ہو جائے گا O اور سورج اور چاند ایک سی حالت پر آ جائیں گے O اُس روز اِنسان کہے گا کہ (اب) کہاں بھاگ کر جاؤں( إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَت وَ إِذَا السَّمَآءُ فُرِجَت وَ إِذَا الجِبَالُ نُسِفَت ) (المرسلات، ۷۷:۷.۱۰)
بیشک تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور (پورا) ہو کر رہے گا O پھر جب تارے بے نور ہو جائیں گے O اور جب آسمان پھٹ جائے گا O اور جب پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) اُڑتے پھریں گے( وَ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَت أَبوَاباً وَّ سُیِّرَتِ الجِبَالُ فَکَانَت سَرَاباً ) (النباء،۷۸:۱۹.۲۰)
اور آسمان کے طبقات پھاڑ دیئے جائیں گے تو (پھٹنے کے باعث گویا) وہ دروازے ہی دروازے ہو جائیں
گے O اور پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) اُڑا دیئے جائیں گے، سو وہ سراب (کی طرح کالعدم) ہو جائیں گے( اَلقَارِعَةُ مَا القَارِعَةُ وَ مَآ أَدرٰکَ مَا القَارِعَةُ یَومَ یَکُونُ النَّاسُ کَالفَرَاشِ المَبثُوثِ وَ تَکُونُ الجِبَالُ کَالعِهنِ المَنفُوشِ ) (القارعۃ۔ ۱۰۱:۱.۵))
(زمین و آسمان کی ساری کائنات کو) کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑک O وہ (ہر شے) کو کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑک کیا ہے؟ O اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ (ہر شے کو) کھڑکھڑا دینے والے شدید جھٹکے اور کڑک سے کیا مُراد ہے؟ O (اِس سے مُراد) وہ یومِ قیامت ہے جس دِن سارے لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے O اور پہاڑ رنگ برنگ دھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں گے( کَلاَّ إِذَا دُکَّتِ الأَرضُ دَکًّا دَکًّا ) (الفجر،۸۹:۲۱)
یقیناً جب زمین پاش پاش کر کے ریزہ ریزہ کر دی جائے گی( وَ إِذَا السَّمَآءُ کُشِطَت ) (التکویر،۸۱:۱۱)
اور جب سماوی طبقات کو پھاڑ کر اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گا( یَومَ نَطوی السَّمَآءَ ) ۔ (الأنبیاء،۲۱:۱۰۴)
اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔
( وَ الأَرضُ جَمِیعًا قَبضَتُه یَومَ القِیَامَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطویاتٌ مبِیَمِینِه ) ۔(الزُمر،۳۹:۶۷)
اور قیامت کے دِن تمام زمین اُس کی مٹھی میں (ہو گی) اور آسمان (کاغذ کی طرح) لپٹے ہوئے اُس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے۔
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ کی تشریح و توضیح سرورِ کائنات (ص) کی اَحادیثِ مبارکہ میں بھی پائی جاتی ہے:
-۱ سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رحمت (ص) نے فرمایا:
اَلشَّمسُ وَ القَمَرُ مُکَوَّرَانِ یَومَ القِیَامَةِ ۔ (صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق،۱:۴۵۴)
روزِ قیامت چاند اور سورج اپنی روشنی کھو کر ایک دُوسرے سے جا ٹکرائیں گے۔
مختلف شارِحینِ حدیث کے مطابق اِس حدیثِ مبارکہ میں" مُکَوَّرَانِ" کا لفظ اپنے اندر تین معانی رکھتا ہے:
- i سِتارے آپس میں ٹکرا کر ایک دُوسرے کے اُوپر جا چڑھیں گے۔
- ii اُن کی روشنی ختم ہو کر بُجھ جائے گی۔
- iii سورج اور چاند سمیت تمام اَجرامِ سماوی ’تجاذُبی اِنہدام‘ کا شکار ہو جائیں گے۔
-۲ سیدنا عبدﷲ بن عمر نے بھی اِسی مفہوم میں ایک اور حدیثِ مبارکہ روایت کی ہے:
یَقبِضُ اللهُ الأَرضَ یَومَ القِیَامَةِ وَ یَطوی السَّمَآءَ بِیَمِینِهِ، ثُمَّ یَقُولُ: (أَنَا المَلِکُ أَینَ مُلُوکُ الأَرضِ )؟
(صحیح البخاری،۲:۱۰۹۸) (الصحیح لمسلم،۲:۳۷۰) (مسند احمد بن حنبل،۲:۳۷۴) (سنن الدارمی،۲:۲۳۳)
قیامت کے دن ﷲتعالیٰ زمین اور آسمان(کائنات کی تمام موجودات) کو لپیٹ لے گا اور اپنی قوّت سے اُنہیں باہم ٹکرا دے گا اور فرمائے گا: میں کائنات کا مالک ہوں، زمین کی بادشاہی (کا دعویٰ کرنے) والے کہاں ہیں؟
کائنات کے لپیٹے جانے کی سائنسی تفسیر
کائنات کے قیامت خیز اِنہدام کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات اور علومِ قرآنیہ کے مابین ناقابلِ تصوّر یگانگت اور مطابقت دیکھنے کو ملتی ہے۔ فلکی طبیعیات ( astro-physics ) قیامت سے متعلقہ اُمور کو بالکل اُسی طرح واضح کرتی ہے جس طرح اُنہیں قرآنِ مجید نے بیان کیا ہے۔ سیاہ شگافوں یا ناقابلِ دید مُنہدم ستاروں کی تصدیق قرآنِ مجید نے بھی ناقابلِ دید گزر گاہوں کے طور پر کی ہے۔
’آئن سٹائن‘ کے نظریہ کے مطابق کشش محض ایک پابندِ جہات حقیقت ہے جو مادّے اور توانائی کی موجودگی میں گھِری ہوئی ہے، بالکل اِسی طرح جیسے ایک گدّا ( mattress ) بھاری بھرکم جسم کے بوجھ تلے دَب جاتا ہے۔ کسی مادّے کا مقامی اِرتکاز جتنا زیادہ ہو گا مکاں کا اِنحناء اُس کے آس پاس اُسی قدر زیادہ ہو گا۔ جب تھرمونیوکلیائی آگ کا اِیندھن ختم ہو جائے گا اور کشش اُسے اندرونی سمت مُنہدم کر دے گی تو اُس وقت کیا بیتے گا؟ وہ ایسی ہولناک قیامت ہو گی جس کا آج ہم تصوّر کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
ہمارے سورج کی جسامت کے ستارے اپنی موت سے قبل سُکڑ کر زمین جتنے قد کے ’سفید بونے‘ ( white dwarf ) بن جاتے ہیں جبکہ اُس سے بڑے ستاروں کو کشش بری طرح کچل کر ’نیوٹران‘ پر مشتمل ٹھوس گیند بنا دیتی ہے۔ اُس کے ایک چمچ بھر مِقدارِ مادّہ کا وزن ۔ ۔ ۔ جو ۲۰میل قطر کے حامل ایٹمی مرکزوں کے جڑے ہونے کی حالت ہے ۔ ۔ ۔ کئی ارب ٹن ہوتا ہے۔ اُس کے بعد ’نیوٹران تارے‘ کے مرحلے میں اُس کی کثافت اِتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ مکاں اُس کے گِرد سیاہ مکے کی طرح لپٹ جاتا ہے اور پھر روشنی سمیت کوئی بھی شے اُسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ ستارے کا ملبہ اپنے آپ کو خوب دباتے ہوئے یوں بھینچتا چلا جاتا ہے کہ اُس کی کثافت لا محدُود ہو جاتی ہے اور مکاں لا محدُود سطح تک اِنحناء ( curvature ) کا شکار ہو جاتا ہے۔ اُس کا نتیجہ کائناتی موت کی صورت میں نکلتا ہے، جسے ’اِکائیت‘ ( singularity ) کہتے ہیں، اور یہاں عمومی اِضافیت، مکاں-زماں اور علمِ طبیعیات کے دُوسرے بہت سے قوانین ٹوٹ جاتے ہیں۔
قیامت کے روز اِن حالات کے تمام کائنات پر غالب آ جانے کا معاملہ قرآنِ مجید یوں بیان کرتا ہے:
( یَومَ نَطوی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلکُتُبِ کَمَا بَدَأنَآ أَوَّلَ خَلقٍ نُّعِیدُه وَعدًا عَلَینَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ ) (الأنبیاء،۲۱:۱۰۴)
اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے،
جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اِس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عملِ تخلیق کو دُہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے اپنے اُوپر لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںفلکی طبیعیات کا عظیم سائنسدان ’جان ویلر‘ ( John Wheeler ) کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص آئن سٹائن کے ’نظریۂ عمومی اِضافیت‘ ( General Theory of Relativity ) کو سنجیدگی سے لے تو وہ دیکھے گا کہ کائنات کی آخری عام کششی تباہی ایک حقیقی اِمکان ہے جس کے وُقوع پذیر ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ کسی ستارے کی موت کے بعد پیدا ہونے والی فطرت کی اُس عجیب و غریب تخلیق کو ’سیاہ شگاف‘ کا نام پہلے پہل اُسی نے دیا۔ اِسی چیز کا ذِکر قرآنِ مجید ’ناقابلِ دید آسمان‘ کے طور پر کرتا ہے۔ جان ویلر کے مطابق کائنات میں جابجا موجود سیاہ شگاف آخری قیامت خیز تباہی ( Big Crunch ) کے سلسلے میں فقط ریہرسل ہے، جو اُس کے خیال میں اِختتامِ کائنات کے وقت تخلیق کی بے ثبات حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے اُس کا پردہ چاک کر دے گی۔ قرآنِ مجید کے مطابق وہ آخری تباہی یومِ قیامت کی صورت میں برپا ہو گی۔
عظیم آخری تباہی( Big Crunch )اور نئی کائنات کا ظہور
’جان ویلر‘ ( John Wheeler )کی تحقیقات کے مطابق اگر کائنات سیاہ شگاف کے متعلق طبیعیاتی قوانین کے مطابق ٹکرائی تو عین ممکن ہے کہ وہ پھر سے معرضِ وُجود میں آ جائے۔ ’عظیم آخری تباہی‘ ( Big Crunch ) کائنات کے ایک نئے ’اوّلین عظیم دھماکے‘ ( Big Bang ) کا باعث بن سکتی ہے، جس کا نتیجہ ایک نئی کائنات کے وُجود میں آنے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ کائنات کی ایک شکل سے دُوسری میں تبدیلی کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جسے جان ویلر نے ’بہت اَعلیٰ مکاں‘ ( Super Space ) کا نام دیا ہے۔ اُس کے مطابق وہ ایک مطلق لامحدُود جہات کا حامل مکاں ہو گا، جس کا ہر نقطہ کائنات کی مکمل ترکیب اور جیومیٹری کا آئینہ دار ہو گا۔ ویلر پُرزور انداز سے کہتا ہے کہ ’سپرسپیس‘ شاعرانہ تخیل نہیں، بلکہ عمومی اِضافیت کے نظریئے پر مبنی ایک حقیقت ہے۔ جیسا کہ وہ ذرا سی مبہم لائن پر بگ بینگ کے نقطے سے بِگ کرنچ کا پیچھا کرتے ہوئے نظریۂ اِضافیت کے مطابق کائنات میں دخل اَنداز ہے۔
دُوسری کائنات کِس نقطے پر رُو پذیر ہو گی؟ اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید میں پہلے سے موجود ہے، جو دو ٹوک انداز میں یہ کہتا ہے کہ ہاں دُوسری کائنات یقیناً پیدا ہو گی اور یہ ﷲ ربُّ العزّت کا وعدہ ہے، جس کا اِیفاء اُس نے اپنے اُوپر لازِم قرار دیا ہے۔ مُندرجہ ذیل پہلی آیتِ کریمہ اُوپر مذکورہ سائنسی تصوّر کی طرف اِشارہ کرتی ہے اور ویلر کے اِکتشافات باقی دی گئی آیات کے نزول سے مطابقت رکھتے ہیں:
( یَومَ نَطوی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلکُتُبِ کَمَا بَدَأ نَا أَوَّلَ خَلقٍ نُّعِیدُه وَعدًا عَلَینَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ ) (الأنبیاء ،۲۱:۱۰۴)
اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اِس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عملِ تخلیق کو دُہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے اپنے اُوپر لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیں( یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُواللهِ الوَاحِدِ القَهَّارِ ) (إبراہیم،۱۴:۴۸)
جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ ﷲ کے رُو برُو حاضر ہوں گے جو ایک سب پر غالب ہے( أَ وَ لَیسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی أَن یَّخلُقَ مِثلَهُم بَلٰی وَ هُوَ الخَلاَّقُ العَلِیمُ ) (یٰسین،۳۶:۸۱)
کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ اِس پر قادِر نہیں کہ اُن جیسے لوگوں کو (قیامت کے دِن پھر) پیدا کر دے، یقیناً (وہ قادِر ہے) اور وُہی تو اصل بنانے والا سب کچھ جاننے والا ہے( أَ وَ لَم یَرَوا أَنَّ اللهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ قَادِرٌ عَلٰی أَن یَّخلُقَ مِثلَهُم وَ جَعَلَ لَهُم أَجَلاً لاَّ رَیبَ فِیهِ فَأَبَی الظّٰلِمُونَ إِلاَّ کُفُورًا ) O (الأسراء،۱۷:۹۹)
کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ جس ﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے (وہ) اِس بات پر (بھی) قادِر ہے کہ وہ اُن لوگوں کی مِثل (دوبارہ) پیدا فرما دے اور اُس نے اُن کے لئے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں، پھر بھی ظالموں نے اِنکار کر دیا ہے، مگر (یہ) ناشکری ہےمذکورہ بالا قرآنی آیات کائنات کی ’چکر کھاتے ہوئے آخری کششی تباہی‘، ’اوّلین عدم‘ اور ’سیاہ شگاف‘ سے متعلقہ طبیعیات کے قوانین سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہیں، جو اِس بات کی طرف اِشارہ کرتی ہے کہ نئی جیومیٹری کے تحت مختلف ماہیت کی نئی کائنات کا ظہور ممکن ہے۔
ویلر کہتا ہے کہ اِس قسم کی دوبارہ ظہور میں آنے والی کائنات اُس قادرِ مطلق کے اِرادے ہی سے اِنعقاد پذیر ہو سکتی ہے، جو کشش کو محو کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔نئی کائنات شاید ہماری موجودہ کائنات سے ہو بہو مشابہت نہ رکھتی ہو۔ اِس مظہر کی مزید تائید ’چکر دار کائنات کے نظریہ‘ ( Oscillating Universe Theory ) سے بھی ملتی ہے۔ قرآنِ حکیم اِس حقیقت کو یوں عیاں کرتا ہے:
( یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوا ِللّٰهِ الوَاحِدِ القَهَّارِ ) (اِبراہیم،۱۴:۴۸)
جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ ﷲ کے رُو برُو حاضر ہوں گے جو ایک سب پر غالب ہےسیدہ عائشہ صدیقہ سے ایک حدیثِ مبارکہ یوں مروی ہے:
سَأَلتُ رَسُولَ ﷲ(ص) عَن قَولِهِ: ( ( یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ ) ) فَأَینَ یَکُونُ النَّاسُ یَومَئِذٍ یَا رَسُولَ ﷲ(ص)؟ فَقَالَ: عَلٰی الصِّرَاطِ ۔ (الصحیح لمسلم،۲:۳۷۱) (جامع الترمذی،۲:۱۴۰) (جامع الترمذی،۲:۱۵۷) (سنن ابن ماجہ:۳۲۶) (سنن الدارمی،۲:۳۳۶) (مسند احمد،۶:۳۵،۱۰۱،۱۳۴،۲۱۸)
میں نے رسول ﷲ(ص) سے اِس آیتِ کریمہ کا مفہوم دریافت کیا (جس میں ﷲ تعالیٰ نے فرمایا:) (جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے) پھر اُس دِن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ(ص) نے فرمایا: "صراط پر"۔
کائنات کی دُوسری گیسی حالت ( Gaseous state )
سائنسی اور قرآنی بیانات میں ایک اور مطابقت یہ ہے کہ کائنات اپنی عظیم تباہی ( Big Crunch ) کے بعد پھر سے ’دُخانی حالت‘ ( gaseous state ) میں تبدیل ہو جائے گی۔ قرآنِ مجید میں ہے:
( فَارتَقِب یَومَ تَأتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِینٍ ) (الدُخان،۴۴:۱۰)
پس اُس دِن کا اِنتظار کرو جب آسمان سے ایک واضح دھُواں ظاہر ہو گااِسی حقیقت کو سرورِ کائنات (ص) نے یوں واضح کیا ہے:
إنّ السّاعةَ لَا تَکُونُ حَتّٰی عَشَر آیَاتِ الدُّخَانُ وَ طُلُوعُ الشَّمسِ مِن مَّغرِبِهَا ۔ ۔ ۔ (سنن ابنِ ماجہ:۳۰۲) (مسند احمد بن حنبل،۲:۳۷۲) (مسند احمد بن حنبل،۴:۷)
قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک ۱۰علامات ظاہر نہ ہو جائیں۔دُخان اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا(بھی اُنہی میں سے ہے)۔
سیدنا حذیفہ بن اُسید غفاری حضور نبی اکرم(ص) سے روایت کرتے ہیں:
إِنَّهَا لَن تَقُومَ حَتّٰی تَرَوا قَبلَهَا عَشرَ آیَاتٍ، فَذَکَرَ الدُّخَان وَ طُلُوعَ الشَّمسِ مِن مَغرِبِهَا ۔ (الصحیح لمسلم‘ :۲ ۳۹۳) (مشکوۃ المصابیح: ۴۷۲)
قیامت اس وقت تک واقع نہیں ہو گی جب تک اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو- پھر حضور(ص) نے (مشرق سے مغرب تک محیط) دھوئیں کا ذکر فرمایا ۔ ۔ ۔ اور آگے( سورج کے الٹی سمت سے )مغرب سے طلوع ہونے کا بھی ذکر کیا۔
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی وارِد ہوئے ہیں:
یَملَأُ مَا بَینَ المَشرِقِ وَ المَغرِبِ، یَمکُثُ أَربَعِینَ یَومًا وَ لَیلَةً ۔
اُسی دھُوئیں سے مشرق و مغرب تمام اَطرافِ عالم بھر جائیں گے اور وہ مسلسل ۴۰ دِن رات قائم رہے گا۔
بہرحال اِس بات کو سمجھنے میں کوئی دُشواری نہیں ہو سکتی کہ تمام کہکشاؤں کے ٹکرا جانے پر جب کشش کی قوت اپنا اثر کھو دے گی تو کائنات کا مادّہ اپنی اوّلیں صورت میں بکھر جائے گا اور ہر سُو دھُواں ہی دھُواں ہو جائے گا۔ تمام اَجرامِ سماوی جب آپس میں ٹکرائیں گے تو اُس دھماکے سے آگ اور دھُوئیں کا پیدا ہونا لابدّی امر ہے۔ اِس لئے اِسی حدیث میں "وَ أٰخِرُ ذٰلِکَ نَارٌ" )اور اُس کی آخری علامت آگ ہو گی( کا بیان بھی ہے۔ جدید سائنس بھی آگ اور دھُوئیں کی اُس کیفیت کے پیدا ہونے کا اِعتراف کر چکی ہے۔ مزید یہ کہ سورج کے اُلٹی سمت )مغرب( سے طلوع ہونے کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ کشش ( gravitation ) جو تمام اَجرام کو اپنے اپنے مستقر اور مدار پر مقررہ سمت میں گردِش پذیر رکھتی ہے جب اُس میں تبدیلی واقع ہو جائے گی تو اُن کی حرکت کی سمتیں بھی متضاد اور متصادم ہو جائیں گی اور اُسی کے نتیجے میں بالآخر سب کچھ آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔ (گویا زمین کی گردش اُلٹی ہو جائے گی جس سے سورج مغرب سے طلوع ہوتا نظر آئے گا)۔
یہ قیامت کا بیان ہے، جو اِس مادّی کائنات کے اِختتام کی ایک ممکنہ صورت ہے، جسے جدید سائنس نے اپنے اَنداز میں مِن و عن تسلیم کر لیا ہے اور اُس کی قرآن و حدیث میں مذکور علامتوں کی توجیہ بھی پیش کر دی ہے۔ ایسا قوّتِ کشش کے زائل ہو جانے کی وجہ سے ہو گا، جس نے تمام ستاروں اور اَجرامِ فلکی کو اُن کے مداروں میں جکڑ رکھا ہے۔
جدید دَور کے ذرّاتی طبیعیات دان ( particle physicists ) یہ کہتے ہیں کہ انجام کے طور پر اَیٹموں کے نیوکلیائی اَجزاء تباہ ہو جائیں گے اور اُس کے نتیجے میں محض لیپٹون ( lepton )، ہلکے اِلیکٹران ( light electron )، پازیٹران ( positron ) اور کثافت سے عاری نیوٹران ( massless neutron ) باقی بچیں گے، جس کے نتیجے میں ’فوٹانز کے بادل‘ بڑی مقدار میں پیدا ہوں گے۔ وہ نئی کائنات شعاع ریزی سے بری طرح مغلوب ہو گی کیونکہ اُس کی توانائی کا بیشتر حصہ ایسے کثافت سے عاری ذرّات ہوں گے جو روشنی کی رَفتار سے متحرّک ہوں گے۔ جبکہ دُوسری طرف آج کی کائنات ایسے مادّے سے مغلوب ہے جس کی زیادہ تر توانائی کثیف ذرّات پر مشتمل ہے اور اُس کی کم ترین توانائی کی حالت ابھی باقی ہے۔
انجامِ کائنات ۔ ۔ ۔ عظیم سیاہ شگاف ( Black Hole )
رِیڈرز ڈائجسٹ نومبر ۱۹۷۷ء میں شائع شدہ ’جان ایل وِلہم‘ ( John L. Wilhelm ) کے مضمون کا ایک اِقتباس جس کا اُوپر مذکورہ سیاق سے خاصا گہرا تعلق ہے ، نیچے دیا جا رہا ہے۔ اُسے نزولِ قرآن کے اُس تناظر میں پڑھنا چاہیئے جو کائنات کی تخلیق و اِرتقاء اور آخری تباہی سے متعلق ہے۔
ایکس ریز کے شدید قسم کے دھماکوں سے پیدا ہونے والی لہریں جو آسمان پر واقع مجمع النّجوم ’دجاجہ‘ ( Cygnus ) میں سے ستاروں کی گیس سے بنی ہوئی کثیف ندیوں کی صورت میں تیزی سے نکل رہی ہیں، دُوربین کی مدد سے اُن کا بخوبی مُشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ گیس کی یہ ندیاں ایک قابلِ دید چمکدار ستارے میں سے نکل کر دُوسرے پُراسرار ناقابلِ دید مقام کی طرف بھاگتی ہوئی جاتی دِکھائی دیتی ہیں۔ تمام تر شواہد اِنسانی دِماغ کے تراشیدہ اِس مُہیب ترین مفروضے کی بھرپور تائید کرتے دِکھائی دیتے ہیں کہ خلاء میں اُس مقام پر ایک ناقابلِ دید سیاہ شگاف موجود ہے جو مادّے ( matter ) کو ہڑپ کر جاتا ہے، مکاں ( space ) کو مُنحنی )یعنی ٹیڑھا( کر دیتا ہے اور وقت ( time ) کو لپیٹ دیتا ہے۔
سیاہ شگاف اِس قدر ناقابلِ یقین قوّتِ کشش رکھتے ہیں کہ ایٹموں کو لا محدُود کمیّت کی حد تک رَوندھتے ہوئے ہر قسم کے مادّے کو بلا لحاظ کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ سیاہ شگاف ایسے تباہ حال ستارے کا ملبہ ہوتا ہے جس کا اِیندھن جل جل کر ختم ہو چکا ہو۔ اُس ستارے کی جسامت کسی دَور میں اِتنی بڑی رہ چکی ہوتی ہے کہ اُس کی بے پناہ قوّتِ کشش اُسے تباہ کر کے گالف کی گیند کی جسامت جتنا کر دیتی ہے اور پھر وہ لاشئ ہو کر معدُوم ہو جاتا ہے۔
اپنی ناقابلِ یقین کثافت کی وجہ سے ایک تباہ شدہ ستارے کی قوّتِ کشش کا دائرہ اِس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ حصے پر حاوی ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شے جو اُس کشش کی حدُود میں سے گزرتی ہے وہ ستارے کے بھنور میں گر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پھنس جاتی ہے۔ حتیٰ کہ روشنی بھی اُس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتی، یہی وجہ ہے کہ اُسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ سابقہ ستارہ خلاء میں ناقابلِ پیمائش پاتال بن جاتا ہے۔ یہ آسمانی بھوت ہیں اور اُنہیں سیاہ شگاف کہا جاتا ہے۔
آج کل بہت سے سائنسدان اِس نقطے پر سوچ رہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ہماری ملکی وے سمیت اکثر کہکشاؤں کے وسط میں ’جینیاتی سیاہ شگاف‘ گھن لگائے ہوئے ہوں جو ستاروں کو ہڑپ کر کے نِگل جاتے ہوں اور تمام ستارے اُن کے عظیم میدانِ تجاذُب کی وجہ سے اُنہی کے گرد گردِش میں مصروف ہوں۔ ایک اَندازے کے مطابق پوری کائنات کی شاید ۹۰ فیصد کمیّت پہلے سے اُن سیاہ شگافوں میں گم ہو چکی ہے۔ پُر اسرار قواسرز جو خلاء کے دُور دراز گوشوں سے بے پناہ توانائی کے کڑھاؤ کا شور مچاتے ہیں، شاید وہ تمام کہکشاؤں کے دِلوں کو ہڑپ کرتے ہوئے عظیم سیاہ شگاف ہوں۔ ’ہاروَرڈسمتھ‘ کے فلکی طبیعیات کے مرکز پر موجود ایک سائنسدان ’ہربرٹ گرسکی‘ نے دِماغ کو چونکا کر رکھ دینے والا اِمکان ظاہر کیا کہ عین ممکن ہے کہ پوری کائنات خود ایک بہت بڑا سیاہ شگاف ہو۔
سیاہ شگاف کے بننے کے لئے دو شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ جن میں سے ایک تو بہت زیادہ مِقدار میں مادّے کی موجودگی ہے اور دُوسرے اُس مادّے کا اِنتہائی قلیل جگہ پر سما جانا ہے۔ مطلوبہ مِقدارِ مادّہ بڑے بڑے ستارے مہیا کرتے ہیں۔
جب ستارے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اُن کا ’تھرمونیوکلیائی اِیندھن‘ اپنے اِختتام کو جا پہنچتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک اپنی بیرونی تہ کو اَندرونی کشش کے مقابلے میں برقرار نہیں رکھ پاتے ۔ نتیجۃً یہ بیرونی تہیں اَیٹموں کو لپیٹتے ہوئے اور سِتاروں کو سُکیڑتے ہوئے اَندر کی سمت گِرنا شروع کر دیتی ہیں۔
ایک چھوٹا کم کششی طاقت کا حامل ستارہ جو اِس قابل نہیں ہوتا کہ اِلیکٹرانوں کو باہم قریب قریب کر کے بے پناہ کثافت حاصل کر لے، اَیسا خاکستر ستارہ ’سفید بونا‘ ( white dwarf ) کہلاتا ہے، جس کے تمام اِلیکٹران اُس کے پروٹانوں کے ساتھ مل کر نیوٹرانوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ یا پھر اَیسا ستارہ بن جاتا ہے جو آخری تباہی تک لا محدُود کثافت کے حامل نقطہ تک آن پہنچتا ہے۔ اُس آخری تحت الثریٰ کی رفتار روشنی کی سمتی رفتار ( velocity ) کو جا چھُوتی ہے اور اَیسا ایک سیکنڈ کے معمولی حصے میں ہو سکتا ہے۔ ستارہ غائب ہو جاتا ہے، اَدبی اَلفاظ میں پلک جھپک جاتا ہے اور ایک ’سیاہ شگاف‘ کو جنم دیتا ہے۔
قرآنِ حکیم کی اِس آیتِ مبارکہ کو اِس سائنسی وضاحت کے بعد پھر سے پڑھنا چاہیئے:
( وَ لِلّٰهِ غَیبُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ مَآ أَمرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمحِ البَصَرِ أَو هُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌ ) (النحل،۱۶:۷۷)
اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب ﷲ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر۔ بیشک ﷲ ہر چیز پر بڑا قادِر ہےسیاہ شگاف کی سائنس اور ذرّاتی سائنس کے مطابق طبیعیاتی قوانین رُو سے ہماری کائنات جب تک عام اِرتقائی عمل کے تحت قائم و دائم رہتی ہے، اُس کی قیامت خیز تباہی کا باعث مندرجہ ذیل اَسباب میں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے:
-۱ سیاہ شگاف بن جانا
-۲ تصادُم کے نتیجے میں مادّے اور ضدِ مادّہ کا فنا ہو جانا
-۳ پروٹان کا خاتمہ
-۴ اَیٹموں کے مرکزی اَجزاء کی تباہی، جب وہ زیادہ دیر کے لئے قائم نہیں رہ سکیں گے۔
تاہم پروٹان بھی ہمیشہ زِندہ نہیں رہ سکتے، اُن کی زِندگی ہر شے کے معدُوم ہو جانے کے ۱۰۳۲سال بعد تک ہی رہے گی۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ اِس بات کا پابند نہیں کہ وہ قیامت برپا کرنے کے لئے ۱۰۳۲سال تک پروٹانوں کی تباہی کا اِنتظار کرے۔ کائنات کے خاتمے یا قیامت کا علم صرف ﷲ ربُّ العزّت ہی کے پاس ہے۔ قیامت کی ساعت ﷲ نے طے کر رکھی ہے اور وہ ﷲ کی مرضی سے کسی بھی لمحے اور کسی بھی طریقے سے وُقوع پذیر ہو سکتی ہے اور ﷲ اُسے اُس کے مناسب وقت پر ہی آشکار کرے گا۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ ( Stephen Hawking ) کہتا ہے کہ: "سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کائنات کو تباہی اور پھیلاؤ (اَفزائش) دونوں کو تقسیم کرنے والی لائن کے اِنتہائی قریب واقع ہونا چاہیئے"۔
’سیاہ شگاف‘ یا قرآنِ مجید کے اَلفاظ میں ’ناقابلِ دید آسمان‘ سے متعلقہ سائنس ہمیں اِس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ پوری کائنات بالآخر سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جائے گی اور اُس کے بعد معدُوم ہو جائے گی۔ قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق جس طرح کائنات کی اِبتدائی تخلیق عمل میں آئی تھی اُسی طرح اِس کائنات کی تباہی کے بعد ایک نئی مابعدُالطّبیعیاتی دُنیا میں نوعِ اِنسانی کا انجام بھی یقینی ہے، جو آخرت میں اُس کی دوبارہ زِندگی کی صورت میں رُو نما ہو گا۔ وہ ایک اَبدی اور حقیقی دُنیا ہے جو زیادہ آرام دِہ، بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور وُہی نسلِ اِنسانی کا مستقل گھر ہے، جہاں سے ابوالبشر سیدنا آدمؑ ﷲ ربّ العزت کی طرف سے خلافتِ ارضی کا تحفہ لے کر اِس عالم رنگ و بُو میں تشریف لائے تھے۔ وہاں مالکِ ارض و سماء کی طرف سے نوعِ اِنسانی کے اَچھے لوگوں کے لئے خوش آمدید کا تحفہ منتظر ہے۔ اِس بات سے قرآنِ حکیم نے ہی اِنسانیت کو آگاہ کیا، جبکہ اِنسانی اِستعداد پر منحصر سائنس طبیعی کائنات کی حدُود سے ماوراء نہیں جا سکتی اور ہمیں یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ آخرت کی مُستقل اور زیادہ بہتر زِندگی تمام بنی نوعِ اِنسان کے لئے منطقی اِنجام اور مستقل ٹھکانہ ہے۔ بلا شک و شبہ قرآنِ مجید اُس منظر کی تصدیق کرتا ہے جس کا نوعِ اِنسانی کے لئے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اَب یہ اِنسان کا فرض ہے کہ وہ قرآنی اَحکامات کی تعمیل اور اُس کی تعلیمات پر عمل کرے، جس سے نہ صرف اُس کی دُنیوی زِندگی سنورے بلکہ آخرت کی حقیقی زِندگی میں بھی اُس کا مقدّر بھلا ہو۔
ذرا سوچیں کہ کچھ ہی عرصے بعد کائنات اُلٹی سمت بھاگ رہی ہو گی۔ تمام کائنات اور اُس کا مادّہ آج سے ۶۵اَرب سال بعد اُسی لمحے پر جا پہنچے گا جہاں سے اِس کائنات کی اوّلین تخلیق عمل میں آئی تھی۔ قرآنِ حکیم اِس بات کو یوں بیان کرتا ہے کہ ’کائنات کا کششی اِنہدام‘ قیامت کی ساعت میں واقع ہو گا، مگر پلک جھپکنے میں یا اُس سے بھی کم مدّت میں ﷲ ربُّ العزّت اِس کائنات کو یوں لپیٹ کر رکھ دے گا کہ جیسے ٹیپ رِیکارڈر کیسٹ کے فیتے کو لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔
پھر اُس کے بعد ﷲ تعالیٰ عملِ تخلیق کو اُسی طرح دُہرائے گا جیسے اُس نے پہلی بار سارا عالم تخلیق کیا تھا۔ ﷲ ربُّ العزّت نے خالق، بدیع اور اَحسنُ الخالقین کی صفات کے ساتھ خود یہ وعدہ کیا ہے اور وہ ضرور اُسے پورا کرے گا۔ یہ سب کچھ اُس کے پاک کلام ’قرآنِ مجید‘ میں سچ سچ لکھا ہوا ہے۔
آیئے چند آیات ملاحظہ کریں:
( وَ لِلّٰهِ غَیبُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ مَا أَمرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمحِ البَصَرِ أَو هُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌ ) (النحل،۱۶:۷۷)
اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب ﷲ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر۔ بیشک ﷲ ہر چیز پر قادِر ہے( یَومَ نَطوی السَّمآء ) ۔ (الأنبیاء،۲۱:۱۰۴)
اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔
( یَسئَلُونَکَ عَنِ السَّاعَةِ أَیَّانَ مُرسٰهَا قُل إِنَّمَا عِلمُهَا عِندَ رَبَِیج لاَ یُجَلِّیهَا لِوَقتِهَآ إِلاَّ هُوَ ثَقُلَت فِی السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ لاَ تَأتِیکُم إِلاَّ بَغتَةً ) ۔ (الأعراف،۷:۱۸۷)
یہ کفار آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اُس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اُس کا علم تو صرف میرے ربّ کے پاس ہے، اُسے اپنے (مقرّرہ) وقت پر اُس (ﷲ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آ جائے گی۔
قرآنِ مجید عالمِ اِنسانیت کی توجہ کائنات کے لپیٹے جانے اور دوبارہ معرضِ وُجود میں آنے کی طرف دِلا رہا ہے، جب یہ زمین کسی دُوسری زمین کے ساتھ تبدیل کر دی جائے گی اور کائنات بھی اُس وقت تبدیل ہو چکی ہو گی۔
تمام کائنات کی اُس اِجتماعی قیامت کے آنے میں کم و بیش ۶۵ارب سال باقی ہیں، تاہم ہماری قیامت تو اُسی دن واقع ہو جائے گی جس روز ہماری زمین تباہ ہو جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ اربوں نوری سال کی وُ سعت میں بکھری کائنات کے کسی دُور دراز گوشے سے کوئی بھٹکتا ہوا سیارہ ہماری طرف آن نکلے اور زمین سے ٹکرا کر قیامت برپا کر دے۔ یوں زمین پر آنے والی قیامت کے بارے میں حتمی پیشین گوئی ناممکن ہو جاتی ہے۔ ہمارے مشاہدے میں چند ایسی صورتیں بھی آئی ہیں جن میں زمین کی تباہی کائنات کی اِجتماعی قیامت سے بہت پہلے واقع ہو جائے گی۔
سورج کی موت اور اِنعقادِ قیامت
سورج سمیت تمام ستاروں میں موجود مادّہ کی مقدار کا بڑا حصہ ہائیڈروجن ( Hydrogen ) پر مشتمل ہے۔ ہائیڈروجن کے مسلسل خودکار ایٹمی دھماکوں سے روشنی اور حرارت کا وسیع تر اِخراج ہوتا ہے جس سے سورج چمکتا نظر آتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کا یہ عمل ہائیڈروجن کو ہیلئم میں تبدیل کرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے سورج میں ابھی اِتنا اِیندھن موجود ہے کہ وہ ۴,۵۰,۰۰,۰۰,۰۰۰سال مزید روشن رہ سکے۔
جب ہمارے سورج کے مرکز میں واقع دس فیصد ہائیڈروجن نیوکلیئر فیوژن کے عمل سے گزر کر ہیلئم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز اپنے بے پناہ دباؤ کے تحت مزید سُکڑے گا اور اُس کا درجہ حرارت بے پناہ حد تک بڑھ جائے گا۔ ایسے میں ہیلئم بھی جلنا شروع کر دے گی جس سے کاربن پیدا ہو کر سورج کے مرکز میں جمع ہونے لگے گی۔ ہائیڈروجن اور ہیلئم کے جلنے کا یہ دُہرا عمل سورج میں شدید حرارت پیدا کر دے گا جس سے زوردار دھماکوں کے ساتھ سورج کی بیرونی سطح پھول جائے گی اور اُس کے بعد اُس پھولی ہوئی سطح کا ٹمپریچر بھی نسبتاً کم ہو جائے گا۔
کسی بھی ستارے کے پھُول کر اپنی اصل جسامت سے کئی گناہ بڑھ جانے کو فلکیاتی سائنس کی اِصطلاح میں ’سرخ ضخّام‘ ( red giant ) کا نام دیا جاتا ہے۔ ہمارا سورج جب red giant میں تبدیل ہو گا تو وہ پھُول کر نہ صرف عطارُد بلکہ زُہرہ کے مدار تک آ پہنچے گا۔ جس سے لامحالہ دونوں قریبی سیارے سورج میں گِر کر اُس کی کمیّت کا حصہ بن جائیں گے۔ زمین زیادہ فاصلے پر ہونے کی بنا پر سورج میں گرنے سے تو بچ جائے گی مگر سورج کا پھُول کر زمین سے اِس قدر قریب تک چلے آنا زمین کے درجۂ حرارت کو بے اِنتہا بڑھا دے گا، جس سے کرۂ ارض پر واقع کروڑوں اربوں اَقسام کی اَنواعِ حیات جُھلس کر تباہ ہو جائیں گی اور ہر سُو قیامت چھا جائے گی۔
سورج کے پُھول کر زمین سے اِس قدر قریب چلے آنے سے زمین پر قیامت برپا ہونے کے ضمن میں تاجدارِ کائنات (ص) سے بہت سی اَحادیث مروی ہیں۔ نبیٔ آخرُالزّماں(ص) نے فرمایا:
تُدنَی الشَّمسُ یَومَ القِیَامَةِ مِنَ الخَلقِ ۔ (الصحیح لمسلم ،۲:۳۸۴) (جامع الترمذی،۲:۶۴) (مسند احمد بن حنبل،۴:۱۵۷) (مسند احمد بن حنبل،۵:۲۵۴)
قیامت کے روز سورج مخلوق سے اِنتہائی قریب آن پہنچے گا۔
فلکی طبیعیات ( astrophysics )کی قرآنی آیات کے ساتھ کافی گہری مطابقت پائی جاتی ہے۔ دُنیا بھر کے سائنسدانوں کو یہ دَعوت دی جاتی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کا سائنسی نکتۂ نظر سے مطالعہ کریں اور اِن آیاتِ کریمہ پر بطورِخاص غور و فکر کریں جو اُنہیں یقیناً حیران کر دیں گی اور بالآخر وہ اِس حتمی سچائی یعنی اِسلام کے پیغام کی طرف آ جائیں گے۔
حصہ چہارُم
اِسلام اور اِنسانی زِندگی
باب اوّل
اِنسانی زِندگی کا کیمیائی اِرتقاء
جس طرح عالمِ آفاق کے جلوے اِجمالاً عالمِ اَنفس میں کارفرما ہیں اُسی طرح نظامِ ربوبیت کے آفاقی مظاہر پوری آب و تاب کے ساتھ حیاتِ انسانی کے اندر جلوہ فرما ہیں۔ اِنسان کے "اَحسن تقویم" کی شان کے ساتھ منصہ خلق پر جلوہ گر ہونے سے پہلے اُس کی زندگی ایک اِرتقائی دَور سے گزری ہے۔ یہی اُس کے کیمیائی اِرتقاء ( chemical evolution ) کا دَور ہے۔ جس میں باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کا مطالعہ بجائے خود ایک دِلچسپ اور نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ حقائق آج صدیوں کے بعد سائنس کو معلوم ہو رہے ہیں جبکہ قرآن اِنہیں چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔
کیمیائی اِرتقاء کے سات مراحل
قرآنِ مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اِنسانی زِندگی کا کیمیائی اِرتقاء کم و بیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا جو درج ذیل ہیں:
-۱ تراب ( inorganic matter )
-۲ ماء ( water )
-۳ طین ( clay )
-۴ طین لازب ( adsorbable clay )
-۵ صلصال من حماء مسنون
( old physically / chemically altered mud )
-۶ صلصال کالفخار ( dried / highly purified clay )
-۷ سلالہ من طین ( extract of purified clay )
قرآنِ مجید مذکورہ بالا سات مرحلوں کا ذِکر مختلف مقامات پر یوں کرتا ہے:
۱- تراب ( Inorganic matter )
ﷲ ربّ العزت اِنسان کے اوّلیں جوہر کو غیر نامی مادّے سے تخلیق کیا۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( هُوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ) ۔ (المومن، ۴۰:۶۷)
وُہی ہے جس نے تمہیں مٹی (یعنی غیرنامی مادّے) سے بنایا۔
اِس آیتِ کریمہ میں آگے حیاتیاتی اِرتقاء کے بعض مراحل کا بھی ذِکر کیا گیا ہے۔ مثلاً "ثُمَّ مِن نُّطفَۃٍ ثُمَّ مِن عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخرِجُکُم طِفلاً" لیکن قابل ِتوجہ پہلو یہ بھی ہے کہ اِنسانی زندگی کے اِن اِرتقائی مرحلوں کا ذِکر باری تعالیٰ نے اپنی صفت ربُّ العالمین کے بیان سے شروع کیا ہے۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ سے پہلی آیت کے آخری اَلفاظ یہ ہیں:
( وَ أُمِرتُ أَن أُسلِمَ لِرَبِّ العَالَمِینَ ) (المومن، ۴۰:۶۶)
اور مجھے حکم ہوا ہے کہ اُس کے سامنے گردن جھکاؤں جو سارے عوالم اور اُن کے مظاہرِ حیات کو درجہ بدرجہ مرحلہ وار کمال تک پہنچانے والا ہےیہاں ﷲ ربّ العزت نے اپنی شانِ ربُّ العالمین کے ذِکر کے ساتھ ہی دلیل کے طور پر اِنسانی زندگی کے اِرتقاء کا ذِکر کر دیا گیا ہے ،جس سے واضح طور پر یہ سبق ملتا ہے کہ قرآنِ مجید باری تعالیٰ کے ربُّ العالمین ہونے کو اِنسانی زندگی کے نظامِ ارتقاء کے ذریعے سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے، کہ اے نسلِ بنی آدم! ذرا اپنی زندگی کے اِرتقاء کے مختلف اَدوار و مراحل پر غور کرو کہ تم کس طرح مرحلہ وار اپنی تکمیل کی طرف لے جائے گئے۔ کس طرح تمہیں ایک حالت سے دُوسری حالت کی طرف منتقل کیا گیا اور کس طرح تم بالآخر "اَحسن تقویم" کی منزل کو پہنچے۔ کیا یہ سب کچھ "ربُّ العالمین" کی پرورِش کا مظہر نہیں ہے جس نے تمہیں بجائے خود ایک عالم بنا دیا ہے!
۲- ماء ( Water )
یوں تو ہر جاندار کی تخلیق میں پانی ایک بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے، تاہم ﷲ تعالیٰ نے اِنسان کی تخلیق میں بطورِ خاص پانی کا ذِکر کیا ہے۔ اِرشادِ ربّ العالمین ہے:
( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ المَآءِ بَشَراً ) ۔ (الفرقان،۲۵:۵۴)
اور وُہی ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا۔
اِس آیتِ کریمہ میں بھی تخلیقِ اِنسانی کے مرحلے کے ذِکر کے بعد باری تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا بیان ہے:
( وَ کَانَ رَبُّکَ قَدیراً ) ۔ (الفرقان،۲۵:۵۴)
اور تمہارا رب قدرت والا ہے۔
گویا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تخلیقِ اِنسانی کا یہ سلسلہ اللہ ربُّ العزّت کے نظامِ ربوبیت کا مظہر ہے۔
اِنسان کے علاوہ کرۂ ارض پر بسنے والی لاکھوں کروڑوں مخلوقات کی اوّلیں تخلیق میں بھی پانی کی وُہی اہمیت ہے جتنی اِنسان کی کیمیائی تخلیق میں۔ اِس سلسلے میں ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا:
وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَیٍٔ حَیٍّ أَفَلَا یُؤمِنُونَ(الانبیاء، ۲۱:۳۰)
اور ہم نے (زمین پر) ہر زِندہ چیز کی نمود پانی سے کی۔ تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے O ؟
یہ آیتِ کریمہ حیاتِ اِنسانی یا حیاتِ اَرضی کے اِرتقائی مراحل پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے لئے دعوتِ فکر بھی ہے اور دعوتِ ایمانی بھی۔
۳- طین ( Clay )
اِنسان کی کیمیائی تخلیق میں ’تراب‘ اور ’مائ‘ بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن دونوں عناصر کے مکس ہو جانے پر ’طین‘ کو وُجود ملا۔ ’طین‘ کا ذِکر ﷲ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں یوں کیا ہے:
( هُوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن طِینٍ ) ۔
(الانعام،:۲۶)
(ﷲ) وُہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا، (یعنی کرۂ ارضی پر حیاتِ اِنسانی کی کیمیائی اِبتدا اس سے کی)۔
یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ مترجمینِ قرآن نے بالعموم "تُرَاب" اور "طِین" دونوں کا معنی مٹی کیا ہے، جس سے ایک مغالطہ پیدا ہو سکتا ہے کہ آیا یہ دو الگ مرحلے ہیں یا ایک ہی مرحلے کے دو مختلف نام؟ اِس لئے ہم نے دونوں کے اِمتیاز کو برقرار رکھنے کے لئے طِین کا معنی ’مٹی کا گارا‘ کیا ہے۔ تُرَاب اصل میں خشک مٹی کو کہتے ہیں۔ اِمام راغب اِصفہانی فرماتے ہیں: التُّرابُ الأرض نفسہا (تراب سے مراد فی نفسہ زمین ہے) جبکہ طِین اُس مٹی کو کہتے ہیں جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔ جیسا کہ مذکور ہے:
الطین: التراب والماء المختلط ۔ (المفردات:۳۱۲)
مٹی اور پانی باہم ملے ہوئے ہوں تو اُسے "طین" کہتے ہیں۔
اِسی طرح کہا گیا ہے:
الطین: التراب الذی یجبل بالماء ۔ (المنجد:۴۹۶)
"طین" سے مراد وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔ (اِسی حالت کو گارا کہتے ہیں)۔
اِس لحاظ سے یہ ترتیب واضح ہو جاتی ہے:
مٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گار
۴- طینِ لازِب ( Adsorbable clay )
’طین‘ کے بعد ’طین لازِب‘ کا مرحلہ آیا، جسے ﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے:
( إِنَّا خَلَقنَاهُم مِّن طِینٍ لَّازِبٍ ) (الصافات،:۱۱۳۷)
بیشک ہم نے اُنہیں چپکتے گارے سے بنایا’طینِ لازب‘ طین کی اگلی شکل ہے، جب گارے کا گاڑھا پن زیادہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ لغتِ عرب میں ہے:
إذا زال عنه (الطی)ن قوةُ المآءِ فهو طینٌ لازبٌ ۔
جب گارے سے پانی کی سیلانیت زائل ہو جائے تو اُسے ’طینِ لازِب‘ کہتے ہیں۔
یہ وہ حالت ہے جب گارا قدرے سخت ہو کر چپکنے لگتا ہے۔
۵- صلصال من حماء مسنون
( Old physically / chemically altered mud )
مٹی اور پانی سے مل کر تشکیل پانے والا گارا جب خشک ہونے لگا تو اُس میں بو پیدا ہو گئی۔ اُس بودار مادّے کو ﷲ ربّ العزت نے ’صلصال من حماء مسنون‘ کا نام دیا۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( وَ لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍ ) (الحجر، ۱۵:۲۶)
اور بیشک ہم نے اِنسان کی(کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دُھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھااِس آیتِ کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیقِ اِنسانی کے کیمیائی اِرتقاء میں یہ مرحلہ ’طینِ لازب‘ کے بعد آتا ہے۔ یہاں ’صلصال‘ (بجتی مٹی) کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے جس کی اصل ’صلل‘ ہے ۔ اِ مام راغب اِصفہانی ’صلصال‘ کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:
تردّد الصوت من الشیٔ الیابس، سمّی الطین الجافّ صلصالًا ۔ (المفردات ۲: ۷۴)
خشک چیز سے پیدا ہونے والی آواز کا تردّد یعنی کھنکناہٹ۔ اسی لئے خشک مٹی کو ’صلصال‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ بجتی اور آواز دیتی ہے۔
لغتِ عرب میں ’صلصال‘ کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے:
الصلصال: الطین الیابس الذی یصل من یبسه أی یصوت ۔ (المنجد۴۶:۴)
’صلصال‘ سے مراد وہ خشک مٹی ہے جو اپنی خشکی کی وجہ سے بجتی ہے یعنی آواز دیتی ہے۔
’صلصال‘ کی حالت گارے کے خشک ہونے کے بعد ہی ممکن ہے پہلے نہیں۔ کیونکہ عام خشک مٹی، جسے تُرَاب کہا گیا ہے وہ اپنے اندر بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لفظِ صلصال اِس اِعتبار سے تراب سے مختلف مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ لہٰذا صلصال کا مرحلہ "طینِ لازب" یعنی چپکنے والے گارے کے بعد آیا۔ جب طینِ لازِب (چپکنے والا گارا) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خشک ہوتا گیا تو اُس خشکی سے اُس میں بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ یہ تو طبیعی تبدیلی ( physical change ) تھی مگر اِس کے علاوہ اُس پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیمیائی تبدیلیاں بھی ناگزیر تھیں جن میں اُس مٹی کے کیمیائی خواص میں بھی تغیر آیا۔ اِن دونوں چیزوں کی تصدیق اِسی آیت کے اگلے اَلفاظ "مِن حَمَإٍ مَّسنُونٍ" سے ہو جاتی ہے۔
"حَمٰی" حرارت اور بخار کو کہتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں یہ لفظ تپنے، کھولنے اور جلنے وغیرہ کے معنوں میں کثرت سے اِستعمال ہوا ہے۔ اِرشاداتِ ربانی ملاحظہ ہوں:
( تَصلٰی نَاراً حَامِیَةً ) (الغاشیہ، ۸۸:۴)
دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے( یَومَ یُحمٰی عَلَیهَا فِی نَارِ جَهَنَّمَ ) ۔ (التوبہ،۵۹:۳)
جس دِن اُس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی۔
( لاَ یَذُوقُونَ فِیهَا بَرداً وَ لاَ شَرَاباً إِلَّا حَمِیماً ) ۔ (النباء، ۷۸:۲۴.۲۵)
وہ اُس میں (کسی قسم کی) ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ کسی پینے کی چیز کا O سوائے کھولتے ہوئے گرم پانی کے۔
الغرض "حَمٰی" میں اُس سیاہ گارے کا ذِکر ہے جس کی سیاہی، تپش اور حرات کے باعث وُجود میں آئی ہو، گویا یہ لفظ جلنے اور سڑنے کے مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔
"مَسنُون" سے مراد متغیر اور بدبو دار ہے۔ یہ "سنّ" سے مشتق ہے جس کے معنی صاف کرنے، چمکانے اور صیقل کرنے کے بھی ہیں، مگر یہاں اِس سے مراد متغیر ہو جانا ہے۔ جس کے نتیجے میں کسی شئے میں بو پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ إحماء (جلانے اور ساڑنے) کا لازمی نتیجہ ہے جس کا ذِکر اُوپر ہو چکا ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے:
( فَانظُر إِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَم یَتَسَنَّه ) ۔(البقرہ،:۲:۲۵۹)
پس (اَب) تو اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھ، (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں۔
جب گارے "طینِ لازب" پر طویل زمانہ گزرا اور اُس نے جلنے سڑنے کے مرحلے عبور کئے تو اُس کا رنگ بھی متغیر ہو کر سیاہ ہو گیا اور جلنے کے اَثر سے اُس میں بو بھی پیدا ہو گئی۔ اِسی کیفیت کا ذکر "صَلصَالٍ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍ" میں کیا جا رہا ہے۔
کسی شئے کے جلنے سے بدبو کیوں پیدا ہوتی ہے، اِس کا جواب بڑا واضح ہے کہ جلنے کے عمل سے کثافتیں سڑتی ہیں اور بدبو کو جنم دیتی ہیں جو کہ مستقل نہیں ہوتی۔ اس وقت تک رہتی ہے جب تک کثافتوں کے سڑنے کا عمل یا اُس کا اثر باقی رہتا ہے اور جب کثافت ختم ہو جاتی ہے تو بدبو بھی معدُوم ہو جاتی ہے۔ اِس لئے اِرشاد فرمایا گیا:
( صَلصَالٍ مِّن حَمآء مَّسنُونٍ ) (الحجر، ۱۵:۲۶)
سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو جانے والا گاراگویا لفظِ "صلصال" واضح کر رہا ہے کہ اِس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے مٹی کی سیاہی اور بدبو وغیرہ سب ختم ہو چکی تھی اور اُس کی کثافت بھی کافی حد تک معدُوم ہو چکی تھی۔
۶- صلصال کالفخار( Dried / highly purified clay )
اِنسان کے کیمیائی اِرتقاء میں چھٹا مرحلہ صَلصَالٌ کَالفَخَّار ہے، جس کی نسبت اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( خَلَقَ الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ ) (الرحمن،۵۵:۱۶)
اُس نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیاجب تپانے اور جلانے کا عمل مکمل ہوا تو گارا پک کر خشک ہو گیا۔ اُس کیفیت کو "کَالفَخَّار" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اِس تشبیہ میں دو اِشارے ہیں:
(الف) ٹھیکرے کی طرح پک کر خشک ہو جانا۔
(ب) کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ حالت میں آ جانا۔
لفظِ "فَخَّارٌ" کا مادّہ فخر ہے، جس کے معنی مباہات اور اِظہارِ فضیلت کے ہیں۔ یہ فَاخِر سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت فخر کرنے والا۔ "فَخَّار" عام طور پر گھڑے کو بھی کہتے ہیں اور مترجمین و مفسرین نے بالعموم یہاں یہی معنی مراد لئے ہیں۔ ٹھیکرا اور گھڑا چونکہ اچھی طرح پک چکا ہوتا ہے اور خوب بجتا اور آوازیں دیتا ہے، گویا اپنی آواز اور گونج سے اپنے پکنے، خشک اور پختہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے اِس لئے اُسے فخر کرنے والے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ بھی اپنی فضیلت اور شرف کو ظاہر کرتی ہے۔
اِمام راغب اصفہانی اِس بارے میں لکھتے ہیں:
یعبّر عن کل نفیس بالفاخر، یقال ثوب فاخرة وناقة فخور ۔ (المفردات:۳۷۴)
ہر نفیس اور عمدہ چیز کو فاخر کہتے ہیں۔ اِس لئے نفیس کپڑے کو ’ثوبِ فاخر‘ اور عمدہ اُونٹنی کو ’ناقۂ فخور‘ کہا جاتا ہے۔
اور فَخَّار اِسی سے مبالغہ کا صیغہ ہے جو کثرتِ نفاست اور نہایت عمدگی پر دلالت کرتا ہے۔ صاحبُ المحیط بیان کرتے ہیں:
الفاخِر: إسم فاعلٍ و الجید من کل شیٔ (القاموس المحیط،۲:۱۱۲)
"الفاخِر" اسمِ فاعل ہے اور ہر شئے کا عمدہ (حصہ) ہے۔
فَخَّار میں عمدگی اور نفاست میں مزید اِضافہ مراد ہے۔ اِس معنی کی رُو سے اِظہارِ شرف کی بجائے اصلِ شرف کی طرف اِشارہ ہے۔ دونوں معانی میں ہرگز کوئی تخالف اور تعارُض نہیں بلکہ اِن میں شاندار مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ باری تعالیٰ تخلیقِ اِنسانی کے سلسلۂ اِرتقاء کے ضمن میں اِس مرحلے پر یہ واضح فرما رہے ہیں کہ وہ مٹی اور گارا جو بشریت کی اصل تھا۔ اِس قدر تپایا اور جلایا گیا کہ وہ خشک ہو کر پکتا بھی گیا اور ساتھ ہی ساتھ مٹی، پانی اور کثافتوں سے پاک صاف ہو کر نفاست اور عمدگی کی حالت کو بھی پا گیا۔ یہاں تک کہ جب وہ "صلصال کالفخّار" کے مرحلے تک پہنچی تو ٹھیکرے کی طرح خشک ہو چکی تھی اور کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ مادّے کی حالت اِختیار کر چکی تھی۔ گویا اَب ایسا پاک، صاف، نفیس، عمدہ اور لطیف مادّہ تیار ہو چکا ہے کہ اُسے اَشرفُ المخلوقات کی بشریت کا خمیر بنایا جا سکے۔ اِنسان اور جن کی تخلیق میں یہی فرق ہے کہ جن کی خلقت ہی آگ سے ہوئی مگر اِنسان کی خلقت میں "صلصال" کی پاکیزگی، طہارت اور لطافت کے حصول کے لئے آگ کو محض اِستعمال کیا گیا۔ اُسے خلقتِ اِنسانی کا مادّہ نہیں بنایا گیا۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
( خَلَقَ الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ وَ خَلَقَ الجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ ) (الرحمن،۵۵:۱۴.۱۵)
اُسی نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا O اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیااِسی طرح اِرشاد فرمایا گیا:
( وَ الجَانَّ خَلَقنَاهُ مِن قَبلُ مِن نَّارِ السَّمُومٍ ) (الحجر،۱۵:۲۷)
اور اُس سے پہلے ہم نے جنوں کو شدید جلا دینے والی آگ سے پیدا کیا، جس میں دھواں نہیں تھااِس لئے خلقتِ انسانی کے مراحل میں آگ کو ایک حد تک دخل ضرور ہے مگر وہ جنات کی طرح اِنسان کا مادّۂ تخلیق نہیں۔
۷۔ سلالہ من طین ( Extract of purified clay )
اِنسان کی کیمیائی تخلیق کے دوران پیش آنے والے آخری مرحلے کے بارے میں اِرشادِ ایزدی ہے:
( وَ لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِنَ سُلٰلَةٍ مِن طِینٍ ) (المؤمنون،۲۳:۱۲)
اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی (کے کیمیائی اجزا) کے خلاصہ سے فرمائیاِس آیتِ کریمہ میں گارے کے اس مصفیٰ اور خالص نچوڑ کی طرف اِشارہ ہے، جس میں اصل جوہر کو چن لیا جاتا ہے۔ یہاں اِنسانی زندگی کا کیمیائی اِرتقاء "طینِ لازب" کے تزکیہ و تصفیہ ( process of purification ) کا بیان ہے۔ سُلٰلَۃٌ، سَلُّ یُسَلّ سے مشتق ہے، جس کے معنی میں نکالنا، چننا اور میل کچیل سے اچھی طرح صاف کرنا شامل ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی لکھتے ہیں کہ سُلٰلَۃٍ مِّن طِینٍ سے مرادالصَّفوُا الَّذِی یُسَلُّ مِنَ الأَرض ہے۔ یعنی مٹی میں سے چنا ہوا وہ جوہر جسے اچھی طرح میلے پن سے پاک صاف کر دیا گیا ہو۔ الغرض سُلٰلَۃ کا کامل مفہوم اُس وقت وُجود میں آتا ہے جب کسی چیز کو اچھی طرح صاف کیا جائے، اُس کی کثافتوں اور میلے پن کو ختم کیا جائے اور اُس کے جوہر کو مصفّٰی اور مزکّٰی حالت میں نکالا جائے۔ گویا سُلٰ۔لَۃ کا لفظ کسی چیز کی اُس لطیف ترین شکل پر دلالت کرتا ہے جو اُس چیز کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر کہلاتی ہے۔
تخلیقِ آدمؑ اور تشکیلِ بشریت
کرۂ ارض پر تخلیقِ انسانی کے آغاز کے لئے خمیرِ بشریت اپنے کیمیائی اِرتقاء کے کن کن مراحل سے گزرا، اپنی صفائی اور لطافت کی آخری منزل کو پانے کے لئے کن کن تغیرات سے نبرد آزما ہوا اور بالآخر کس طرح اِس لائق ہوا کہ اُس سے حضرتِ اِنسان کا بشری پیکر تخلیق کیا جائے اور اُسے خلافت ونیابتِ الٰہیہ کے عالیشان منصب سے سرفراز کیا جائے! اُس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو مذکورہ بالا بحث سے ضرور ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اِن اِرتقائی مراحل کی جس ترتیب اور تفصیل کا ہم نے ذِکر کیا ہے اُسے حتمی نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی صاحبِ علم اِن جزئیات وتفصیلات کے بیان میں اِختلاف کر سکتا ہے۔ جو کچھ مطالعۂ قرآن سے ہم پر منکشف ہوا ہم نے بلا تأمل عرض کر دیا ہے۔ البتہ اِس قدر حقیقت سے کوئی اِنکار نہیں کر سکتا کہ آیاتِ قرآنی میں مختلف اَلفاظ و اِصطلاحات کے اِستعمال سے کیمیائی اِرتقاء کے تصوّر کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔
جب ارضی خمیرِ بشریت مختلف مراحل سے گزر کر پاک صاف ہو چکا اور اپنی جوہری حالت کو پہنچا تو اُس سے باری تعالیٰ نے پہلے اِنسان کی تخلیق ابوالبشر سیدنا آدمؑ کی صورت میں فرمائی اور فرشتوں سے اِرشاد فرمایا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں جس کا پیکرِ بشریت اِس طرح تشکیل دُوں گا۔ یہ تفصیلات قرآنِ مجید میں سورۃُالبقرہ،۲:۳۰.۳۴، سورۃُالحجر، ۱۵:۲۶.۳۵، سورۃُالاعراف، ۷:۱۱.۱۶ اور دیگر مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔
فرشتوں کا اِس خیال کو ظاہر کرنا کہ یہ پیکرِ بشریت زمین میں خونریزی اور فساد انگیزی کرے گا، اِسی طرح اِبلیس کا اِنکارِ سجدہ کے جواز کے طور پر حضرت آدمؑ کی بشریت اور صَلصَالٌ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍ کا ذِکر کرنا وغیرہ یہ سب اُمور اِس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اُن کی نظر اِنسان کی بشری تشکیل کے اِبتدائی اور دورانی مراحل پر تھی اور ایسا خیال وہ اُن اَجزائے ترکیبی کے خواص کے باعث کر رہے تھے جن کا اِستعمال کسی نہ کسی شکل میں اُس پیکرِ خاکی کی تخلیق میں ہوا تھا۔ وہ مٹی کی کثافت اور آگ کی حرارت جیسی اَشیاء کی طرف دھیان کئے ہوئے تھے، اُن کی نظر مٹی کی اُس جوہری حالت پر نہ تھی جو مصفّٰی اور مزکّٰی ہو کر سراسر کندن بن چکی تھی، جسے باری تعالیٰ ’سُلٰلَۃٌ مِّن طِینٍ‘ سے تعبیر فرما رہا ہے۔ مٹی کی یہ جوہری حالت (سُلٰلَہ) کیمیائی تغیرات سے تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے اب یقیناً اِس قابل ہو چکی تھی کہ اُس میں روحِ اِلٰہیہ پھونکی جاتی اور نفخِ رُوح کے ذریعے اُس کے پیکر کو فیوضاتِ اِلٰہیہ کے اَخذو قبول اور اَنوار وتجلیاتِ ربانی کے اِنجذاب کے قابل بنا دیا جاتا۔ اِس لئے اِرشاد فرمایا گیا:
( فَإِذَا سَوَّیتُه وَ نَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَه سَاجِدینَ ) (الحجر،۱۵:۲۹)
پھر جب میں اُس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درُست حالت میں لا چُکوں اور اُس پیکرِ (بشری) کے باطن میں اپنی (نورانی) رُوح پھونک دُوں تو تم اُس کے لئے سجدے میں گر پڑناچنانچہ بشریتِ اِنسانی کی اسی جوہری حالت کو سنوارا گیا اور اُسے نفخِ رُوح کے ذریعے عَلَّمَ آدَمَ الأَسمآء کُلَّھَا (ﷲ نے آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیئے) کا مِصداق بنایا گیا اور تب ہی حضرتِ انسان مسجودِ ملائک ہوا۔
بشریتِ محمدی (ص) کی جوہری حالت
اِمام قسطلانی ’المواھب اللدنیہ‘ میں سیدنا کعبُ الاحبار سے رِوایت کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بشریتِ محمدی (ص) کو تخلیق فرمانا چاہا تو جبریلِ امینؑ کو اِرشاد فرمایا کہ وہ دُنیا کے دِل اور سب سے اعلیٰ مقام کی مٹی لے آئے تاکہ اُسے منوّر کیا جائے۔
فهب جبریل فی ملائکة الفردوس و ملائکة الرفیع الأعلیٰ، فقبض قبضة رسول ﷲ (ص) من موضع قبره الشریف، و هی بیضآء منیرة، فجنّت بمآء التسنیم فی معین أنهار الجنة حتی صارت کالدرّة البیضآء لها شعاع عظیم ۔ (المواھب اللدنیہ،۱:۸)
پس جبرئیلؑ مقامِ فردوس اور رفیعِ اعلیٰ کے فرشتوں کے ساتھ (کرۂ ارضی پر) اُترے اور حضور(ص) کے مزارِ اَقدس کی جگہ سے رسول اللہ(ص) کی بشریتِ مطہرہ کے لئے مٹی حاصل کی۔ وہ سفید رنگ کی چمکدار مٹی تھی۔ پھر اُسے جنت کی رواں نہروں کے صاف اور اُجلے پانی سے گوندھا گیا اور اُسے اِس قدر صاف کیا گیا کہ وہ سفید موتی کی طرح چمکدار ہو گئی اور اُس میں سے نور کی عظیم کرنیں پھوٹنے لگیں۔
اُس کے بعد ملائکہ نے اُسے لے کر عرشِ الٰہی اور کرسی وغیرہ کا طواف کیا۔ بالآخر تمام ملائکہ اور جمیع مخلوقاتِ عالم کو حضور(ص) اور آپ کی عظمت کی پہچان ہو گئی۔ حضرت ابنِ عباس سے اِس ضمن میں اِس قدر مختلف منقول ہے کہ آپ کے لئے خاکِ مبارک سرزمینِ مکہ کے مقامِ کعبہ سے حاصل کی گئی۔ صاحبِ عوارفُ المعارف نے بھی اِسی کی تائید کی ہے۔
(المواہب اللدنیہ،۱:۸)
شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی بھی جواہر العارف السید عبد اللہ میر غنی کے تحت اُن کی کتاب "الأسئلۃ النفسیۃ" کے حوالے سے اِس امر کی تائید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور(ص) کا پیکرِ بشریت بھی نور کی طرح لطیف تھا۔ آپ(ص) کی بشریتِ مطہرہ کے اُس پاکیزہ اور نورانی جوہر کی حالت کا اندازہ اِس امر سے بھی ہوتا ہے کہ آپ(ص) کے پیکرِ اقدس پر پر کبھی مکھی نہیں بیٹھتی تھی، جیسا کہ کتبِ سیر و فضائل میں صراحتاً منقول ہے:
إنّ الذبابَ کان لا یقع علٰی جسدِه و لا ثیابِه ۔ (الشفاء،۱:۵۲۲)
مکھی نہ تو آپ(ص) کے جسدِ اقدس پر بیٹھتی تھی اور نہ آپ کے لباس پر۔
حضرت عمر سے منقول ہے کہ آپ نے حضور(ص) کی بارگاہ میں عرض کیا:
إنّ اللهَ عصمک من وُقوعِ الذبابِ علٰی جسدِک لأنّه یقع علٰی النجاسات ۔(تفسیرالمدارک،۳:۱۳۴)
بیشک اللہ تعالیٰ نے جسم پر مکھی کے بیٹھنے سے بھی آپ(ص) کو پاک رکھا ہے، کیونکہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے۔
اِن مقامات پر جہاں دیگر حکمتوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضور(ص) کی بشریت مطہرہ کی لطافت و نظافت جو اس جوہری حالت کی آئینہ دار تھی، کا عالم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ(ص) کے پیکر بشریت سے ہمہ وقت خوشگوار مہک آتی۔ پسینہ مبارک کو لوگ خوشبو کے لئے محفوظ کرتے۔ اِمام بخاری تاریخ کبیر میں لکھتے ہیں کہ حضور(ص) جس راستے سے گزر جاتے لوگ فضا میں مہکی ہوئی خوشبو سے پہچان لیتے کہ آپ(ص) اُدھر تشریف لے گئے ہیں۔ اپنا دستِ مبارک کسی کے سر یا بدن سے مس فرما دیتے تو وہ شخص بھی خوشبو سے پہچانا جاتا۔ الغرض اِن تمام اُمور سے یہ حقیقت مترشح ہو جاتی ہے کہ بشریتِ محمدی (ص) اپنی تخلیق کے لحاظ سے ہی اعلیٰ نورانی اور رُوحانی لطائف سے معمور تھی۔ گویا یہ تخلیق بشریت کے اِرتقائی مراحل کا وہ نقطۂ کمال تھا جسے آج تک کوئی نہیں چھو سکا، یہ اعجاز و کمال اِس شان کے ساتھ فقط بشریتِ مصطفوی (ص) کو نصیب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبیٔ اکرم (ص) کو مقامِ اِصطفاء سے نوازا گیا اور آپ کو مصطفی کے نام سے سرفراز کیا گیا۔
باب دُوُم
اِنسانی زندگی کا حیاتیاتی اِرتقاء
اِنسانی زندگی کے حیاتیاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی ایک مسلسل اِرتقائی عمل ہے، جس میں واضح طور پر اللہ ربُّ العزت کے نظامِ ربوبیت کی جلوہ آرائیاں نظر آتی ہیں۔ یہ اِرتقائی مرحلے ربوبیتِ الٰہیہ کے فیض سے بطنِ مادر کے نہاں خانوں میں اِس طرح طے پاتے ہیں کہ چشمِ اِنسان کو اُن کا گمان تک بھی نہیں ہو سکتا۔ سائنس صدیوں کی تحقیق کے بعد اُن اِرتقائی مراحل کا کھوج لگانے میں آج کامیاب ہوئی ہے مگر یہ مراحل جس ربِّ کریم کے نظامِ ربوبیت کے مظاہر ہیں وہ آج سے چودہ صدیاں قبل ۔ ۔ ۔ جب سائنسی شعور نے دُنیا میں آنکھ بھی نہیں کھولی تھی ۔ ۔ ۔ واضح طور پر بیان فرما چکا ہے۔ اگر حیاتیاتی اِرتقاء کے اُن مراحل کا جائزہ اِنسانی زندگی میں کارفرما نظامِ ربوبیت کے حوالے سے لیاجائے تو اُس کے ۲ دَور معلوم ہوتے ہیں، ایک کا تعلق رحمِ مادر میں خلیاتی تقسیم ( celluler division ) اور اُس کے نظام کے ساتھ ہے اور دُوسرے کا تعلق جسمانی تشکیل اور اُس کے اِرتقاء کے ساتھ۔
رحمِ مادر میں خلیاتی تقسیم ( Mitotic division in uterus )
اِنسان کے حیاتیاتی اِرتقاء کا پہلا قرآنی اُصول یہ ہے کہ اُس کی تخلیق نفسِ واحدہ سے ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید اِس ضابطے کو متعدّد مقامات پر صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
اِرشاد فرمایا گیا:
( یٰٓا اَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَفسٍ وَّاحِدَةٍ ) ۔ (النساء،۴:۱)
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری تخلیق ایک جان ( single life cell ) سے کی۔
دُوسرے مقام پر اِس کی تصریح اِن الفاظ میں کی گئی ہے:
( وَ هُوَ الَّذِی أَنشَأَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَةٍ ) ۔ (الانعام،۶:۹۸)
اور وُہی (ﷲ) ہے جس نے تمہاری (حیاتیاتی) نشوونما ایک جان سے کی۔
یہی اُصول سورۃُ الزمر کی آیت نمبر۶ میں بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ سورۂ لقمان میں اِس اُصول کو مزید زور دار انداز میں اِن الفاظ میں واضح کیا گیا ہے:
( مَا خَلقُکُم وَ لَا بَعثُکُم إِلَّا کَنَفسٍ وَّاحِدَةٍ ) ۔ (لقمان،۳۱:۲۸)
تمہیں پیدا کرنا اور تمہیں دوبارہ اُٹھانا بالکل اُسی طرح ہے جیسے ایک جان سے اِنسانی زندگی کا آغاز کیا جانا۔
اُس نفسِ واحدہ کو جدید اِصطلاح میں Zygote یا fertilized ovum کہتے ہیں۔ یہی ایک سیل حیاتِ اِنسانی کے اِرتقاء و نشوونما کے لئے مکمل یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اِس حقیقت کا اِشارہ بھی واضح طور پر قرآنِ مجید میں کر دیا گیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
( إِنَّا خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن نُطفَةٍ أَمشَاجٍ نَبتَلِیهِ فَجَعَلنَاه سَمِیعاً بَصِیراً ) (الدھر،۷۶:۲)
بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفے ( mingled fluid ) سے پیدا کیا۔ پھر ہم اُسے مختلف حالتوں میں پلٹتے اورجانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے دیکھنے والا بنا دیتے ہیںاِس آیتِ کریمہ میں نظامِ ربوبیت کے اِس حسنِ انتظام کا بیان ہے کہ ذاتِ حق نے اُسی ایک جان کے اندر بنیادی طور پر مکمل سننے دیکھنے اور سوچنے سمجھنے والا اِنسان بننے کی تمام صلاحیتیں ( potentialities ) ودیعت کر دی ہیں۔
نطفۂ اَمشاج ( Mingled fluid ) کا مفہوم
اِنسان کے حیاتیاتی اِرتقاء کے سلسلے میں دُوسری اہم چیز نطفۂ اَمشاج ہے جس کا تعلق fertilization کے نظام سے ہے۔ اس کا ذکر قرآنِ مجید میں کم و بیش گیارہ مقامات پر کیا گیا ہے۔ اُنہی میں نطفۂ اَمشاج کا بیان بھی آتا ہے۔ قرآنِ حکیم سے fertilizing liquid کے سلسلے میں درج ذیل تفصیلات کا پتہ چلتا ہے:
۱۔ منی یُمنٰی ( Sperm )
اِس کا بیان قرآنِ حکیم میں اِن الفاظ کے ساتھ آیا ہے:
( أَلَم یَکُ نُطفَةً مِّن مَّنِیٍّ یُّمنٰی ثُمَّ کَانَ عَلَقَةً ) ۔ (القیامہ،۷۵:۳۷.۳۸)
کیا وہ اِبتدائً محض منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو )عورت کے رحم میں( ٹپکا دیا گیا O پھر وہ لوتھڑا بنا۔
اِس میں( نُطفَةً مِّن مَنِیٍّ یُّمنٰی ) سے مراد وہ spermatic liquid یا sperm ہے جو تخلیقِ انسانی کا باعث بنتا ہے۔
۲۔ ماء دافق ( A liquid poured out )
اِس کا بیان قرآنِ مجید میں اِس طرح ہے:
( فَلیَنظُرِ الإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِن مّآء دَافِقٍ یَّخرُجُ مِنم بَینِ الصُّلبِ وَ التَّرَآئِبِ ) (الطارق،۸۶:۵.۷)
پس انسان کو غور )و تحقیق( کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے O وہ قوت سے اُچھلنے والے پانی )یعنی قوی اور متحرک مادۂ تولید( میں سے پیدا کیا گیا ہے O جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان ) پیڑو کے حلقہ میں( سے گزر کر باہر نکلتا ہےاُسی جوہر میں اِنسانی تخلیق کی تمام صلاحیتیں رکھی گئی ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ میں صُلب اور تَرَآئِب دو چیزوں کا ذکر ہے۔ تَرَآئِب، تَربِیَۃ کی جمع ہے۔ عربی ادب میں سینے کی ہڈی کو تربیۃ اور سینے کی دائیں اور بائیں طرف کی چار چار پسلیوں کو تَرَآئِب کہتے ہیں۔ اِس لئے مترجمین نے بالعموم اِس کا ترجمہ "ماؤں کے سینوں" کیا ہے۔ مگر دورِ جدید کی تحقیق اور سائنسی اِصطلاح کے مطابق صُلب کو sacrum اور تَرَآئِب کو symphysis pubis کہا جاتا ہے، جو کولھے کی ہڈیوں کا جوڑ ہے۔
عصرِحاضر کی اناٹومی نے اِس امر کو ثابت کیا ہے جیساکہ میڈیکل سائنس کی کتابیں بیان کرتی ہیں:
The seminal passage in the pelvic cavity lies between the anterior and posterior segments of the pelvic girdle
مرد کا پانی جو semen پر مشتمل ہوتا ہے اُسی صلب اور ترائب میں سے گزر کر رحمِ مادر کو سیراب کرتا ہے۔ یہ اُصول ساتویں صدی عیسوی میں ۔ ۔ ۔ جب علمِ تشریح الأعضاء ( anatomy ) کا کوئی وُجود نہ تھا ۔ ۔ ۔ قرآنِ مجید صراحت کے ساتھ بیان کر چکا ہے۔
بہرحال لفظِ ترائب سینوں سے اِستعارہ ہو یا کولھوں کی ہڈیوں کے جوڑ سے، پہلی صورت میں وہ خلیاتی تقسیم سے قبل کے مرحلے کا بیان کرتا ہے اور دُوسری صورت میں سیمنز پر مشتمل مرد کے پانی کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔
۳۔ ماء مھین ( A despised liquid )
اِس موضوع پر قرآنِ مجید کا اِرشاد ہے:
( ثُمَّ جَعَلَ نَسلَه مِن سُلٰلَةٍ مِّن مّآء مَّهِینٍ ) (السجدہ،۳۲:۸)
پھر اُس کی نسل کو ایک حقیر پانی کے نطفہ سے پیدا کیا جو اس کی غذاؤں کا نچوڑ ہے
۴۔ نطفہ أمشاج ( Mingled fluid )
اس کا ذکر قرآنِ مجید میں یوں آیا ہے:
( إِنَّا خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن نُّطفَةٍ أَمشَاجٍ ) ۔ (الدھر،۷۶:۲)
بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفے ( mingled fluid ) سے پیدا کیا۔
نطفۂ اَمشاج کی اِصطلاح سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مادّہ کئی رطوبات کا مرکب اور مجموعہ ہے، اِس لئے قرآنِ مجید نے اُسے مخلوط کہا ہے۔ اِس امر کی تائید بھی عصرِ حاضر کی سائنسی تحقیق نے کر دی ہے۔
سائنسی تحقیق کے مطابق spermatic liquid بعض رطوبات ( secretions ) سے بنتا ہے، جو درج ذیل غدُودوں ( glands ) سے آتی ہیں:
۱. Testicles
۲. Seminal vesicles
۳. Prostate glands
۴. Glands of urinary tract
خلیاتی تقسیم ( Mitotic division )
قرآنِ مجید نے اِس باب میں ربِّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا تیسرا اُصول یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس حیاتیاتی خلئے ( fertilized ovum ) کو مزید دو حصوں میں تقسیم فرماتا ہے۔ اِسی طرح اُنہیں مزید تقسیم کیا جاتا ہے حتیٰ کہ تمام مردوں اور عورتوں کی تخلیق اِسی خلیاتی تقسیم کے نظام کے تحت عمل میں آتی ہے۔ دورِ جدید کی سائنس نے اِس نظامِ تقسیم کو mitotic division سے تعبیر کیا ہے۔
ارشادِ ایزدی ہے:
( یٰآ أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَ بَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً کَثِیرًا وَّ نِسآء ) ۔ (النساء، ۴:۱)
اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جو تمہاری تخلیق ایک جان ( single life cell ) سے کرتا ہے، پھر اُسی سے اُس کا جوڑ پیدا فرماتا ہے، پھر اُن دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلاتا ہے۔
دُوسرے مقام پر اِرشاد ہوتا ہے:
( خَلَقَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنهَا زَوجَهَا ) ۔ (الزمر، ۳۹:۶)
اُس (ربّ) نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اُسی میں سے اُس کا جوڑ نکالا۔
اِن آیاتِ کریمہ میں تین اُمور واضح طور پر بیان کر دیئے گئے ہیں:
۱۔ اِنسانی تخلیق کا نفسِ واحدہ ( zygote ) سے وُجود میں آنا۔
۲۔ اُس نفسِ واحدہ کا اِبتداءً دو میں تقسیم ہونا۔
۳۔ پھر اُن دو cells کا مزید تقسیم ہو کر کثیر تعداد میں پھیلنا، حتیٰ کہ تمام مردوں اور عورتوں کی تخلیق کا یہی ذریعہ بننا۔
یہی mitotic division ہے جو علمُ الحیاتیات کی رُو سے درج ذیل چار مراحل میں سے گزرتی ہے:
۱. Prophase ۲. Metaphase
۳. Anaphase ۴. Telophase
یوں اِنسان کی حیاتیاتی زِندگی، عمودی ( vertically ) اور اُفقی ( horizontally ) دونوں طرح اِرتقاء پذیر رہتی ہے۔
نفسِ واحدہ ( Single life cell ) کی اوّلیں تخلیق
یہ امر سائنسی مسلمات میں سے ہے کہ mitosis سے پہلے بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے جسے meiosis کہتے ہیں۔ اُس میں مردانہ اور زنانہ جسیمے ( cells ) مرد اور عورت کے جسموں میں سے آتے ہیں جو maturity سے پہلے بالترتیب testicular cells اور ovarian cells کہلاتے ہیں۔ یہاں meiosis کے مرحلے میں سے گزرنے کے بعد spermatozoa اور ova کی تشکیل ہوتی ہے اور وہ fertilization کے ذریعے اُس نفسِ واحدہ میں بدلتے ہیں جسے zygote کہا جاتا ہے۔
انڈے کی رحمِ مادر ( Uterus ) میں منتقلی
جب sperm اور ovum کا ملاپ ہو جاتا ہے تو انڈا رحم ( uterus ) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اُسے مرحلے کو implantation of egg کہتے ہیں۔
قرآنِ مجید اُس مرحلے کا ذِکر اِن اَلفاظ میں کرتا ہے:
( وَ نُقِرُّ فِی الأَرحَامِ مَا نَشآء إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی ) ۔ (الحج،۲۲:۵)
اور ہم جسے چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مقررہ مدّت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔
یہ انڈا ( egg ) رحم مادر میں بڑھتا ہے اور اس کی زمین کے اندر جڑوں کی طرح لمبائی میں پھیل جاتا ہے اور رحم کے موٹاپے سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔
علقہ ( Hanging mass )کی اِبتداء
رحمِ مادر میں پرورش پانے والا نطفہ رحم کے ساتھ معلّق ہو جاتا اور جم جاتا ہے۔ اُس کے معلّق ہونے کی کیفیت کو قرآنِ مجید نے پانچ مختلف مقامات پر عَلَقَۃ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
( إِقرَأ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ خَلَقَ الإِنسَانَ مِن عَلَقٍ ) (العلق،۹۶:۱.۲)
اپنے رب کے نام سے پڑھیئے جس نے پیدا کیا O اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح "معلّق وُجود" سے پیدا کیااِسی طرح دُوسری جگہ اِرشاد ہوتا ہے:
( ثُمَّ جَعَلنَاهُ نُطفَةً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ ثُمَّ خَلَقنَا النُّطفَةَ عَلَقَةً ) ۔ (المومنون، ۲۳:۱۳.۱۴)
پھر ہم نے اُسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھا O پھر ہم نے اُس نطفہ کو (رحمِ مادر میں) "معلّق وُجود" بنا دیا۔
عَلَقَۃ کے مندرجہ بالا معنی پر بحث آگے آئے گی۔ اِس وقت صرف اِتنی بات ذِہن نشین کرانا مقصود ہے کہ قرآنِ مجید نے حیاتِ انسانی کے اِرتقاء کے جملہ مرحلوں پر روشنی ڈالی ہے اور اُس وقت اِن حقیقتوں کو بیان کیا جب سائنسی تحقیق اور embryology جیسے سائنسی مضامین کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ کیا یہ سب کچھ قرآن اور اسلام کی صداقت و حقانیت کو تسلیم کرنے کے لئے کافی نہیں؟ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ قرآن اُس ربّ کی نازل کردہ کتاب ہے جس کے نظامِ ربوبیت کے یہ سب پرتَو ہیں۔ اِس لئے اُس سے بہتر اِن حقائق کو اور کون بیان کر سکتا تھا! بات صرف یہ ہے کہ سائنس جوں جوں چشمِ اِنسانی کے حجابات اُٹھاتی جا رہی ہے قرآنی حقیقتیں توں توں بے نقاب ہو کر سامنے آتی جا رہی ہیں۔
رحمِ مادر میں اِنسانی وُجود کا اِرتقاء
قرآنِ مجید میں رحمِ مادر کے اندر اِنسانی وُجود کی تشکیل اور اُس کے اِرتقاء کے مختلف مرحلے بیان کئے گئے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ ربِّ کائنات کا نظامِ ربوبیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بطنِ مادر کے اندر بھی جلوہ فرماہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی زندگی کے نقطۂ آغاز سے لے کر اُس کی تکمیل اور تولد کے وقت تک پرورش کا ربانی نظام انسان کو مختلف تدرِیجی اور اِرتقائی مرحلوں میں سے گزار کر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اِنسانی وُجود کی داخلی کائنات ہو یا عالمِ ہست و بود کی خارجی کائنات، ہر جگہ ایک ہی نظامِ ربوبیت یکساں شان اور نظم و اُصول کے ساتھ کارفرما ہے۔ قرآنِ مجید کے بیان کردہ اِن مراحلِ اِرتقاء کی تصدیق بھی آج کی جدید سائنسی تحقیق کے ذریعے ہو چکی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
( ۱ وَ لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن سُلٰلَةٍ مِّن طِینٍ)
اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی کے (کیمیائی اجزا کے) خلاصہ سے فرمائی
( ۲ ثُمَّ جَعَلنَاهُ نُطفَةً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ)
پھر ہم نے اُسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھا
( ۳ ثُمَّ خَلَقنَا النُّطفَةَ عَلَقَةً)
پھر ہم نے اُس نطفہ کو (رحمِ مادر میں) "معلّق وُجود" بنا دیا۔
( ۴ فَخَلَقنَا العَلَقَةَ مُضغَةً)
پھر ہم نے اُس معلّق وُجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے۔
( ۵ فَخَلَقنَا المُضغَةَ عِظَاماً)
پھر ہم نے اُس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا۔
( ۶ فَکَسَونَا العِظَامَ لَحماً ) ۔
پھر ہم نے اُن ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے۔
( ۷ ثُمَّ أَنشَانَاهُ خَلقاً اٰخَرَ فَتَبَارَکَ ﷲ أَحسَنُ الخَالِقِینَ ) (المومنون، ۲۳:۱۲.۱۴)
پھر ہم نے اُسے تخلیق کی دُوسری صورت میں (بدل کر تدرِیجاً) نشو و نما دی، پھر (اُس) ﷲ نے (اُسے) بڑھا کر محکم وُجود بنا دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہےان آیات میں انسانی تشکیل و اِرتقاء کے سات مراحل کا ذِکر ہے۔ جن میں سے پہلے کا تعلق اُس کی کیمیائی تشکیل سے ہے اور بقیہ چھ کا اُس کے بطنِ مادر کے تشکیلی مراحل سے۔ مذکورہ بالا آیات میں بیان کردہ اِنسانی اِرتقاء کے مراحل ( developmental stages of human embryo ) درج ذیل ہیں:
۱۔ سُلٰلۃ من طین
Extract of clay
۲۔ نطفہ
Spermatic liquid of sperm
۳۔ علقہ
Hanging mass clinging to the endometrium of the uterus
۴۔ مضغہ
Chewed lump of chewed substance
۵۔ عظام
Skeletal system
۶۔ لحم
Muscular system
۷۔ خلقِ آخَر
New creation
پھر اُس تخلیق میں باری تعالیٰ نے نظامِ سماعت کو نظامِ بصارت اور نظامِ عقل و فہم پر مقدّم رکھا ہے۔
اِرشاد فرمایا گیا:
( ثُمَّ سَوَّاهُ وَ نَفَخَ فِیهِ مِن رُّوحِه وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الأَبصَارَ وَ الأَفئِدَةَ قَلِیلاً مَّا تَشکُرُونَ ) (السجدہ، ۳۲:۹)
پھر اُسے (اعضائے جسمانی کے تناسب سے) درُست کیا اور اُس میں اپنی طرف سے جان پھونکی اور تمہارے لئے (سننے اور دیکھنے کو) کان اور آنکھیں بنائیں اور (سوچنے سمجھنے کے لئے) دِماغ، مگر تم کم ہی (اِن نعمتوں کی اہمیت اور حقیقت کو سمجھتے ہوئے) شکر بجا لاتے ہواِسی طرح ایک دُوسرے مقام پر اِرشادِ ربانی ہے:
( إِنَّا خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن نُّطفَةٍ أَمشَاجٍ نَّبتَلِیهِ فَجَعَلنَاهُ سَمِیعاًم بَصِیراً ) (الدھر، ۷۶:۲)
بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے ( mingled fluid ) سے پیدا کیا۔ پھر ہم اُسے مختلف حالتوں میں پلٹتے اور جانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے والا ( اور) دیکھنے والا ( انسان) بنا دیتے ہیںیہاں بھی اِس امر کی بخوبی صراحت ہے کہ اِنسانی ایمبریو ( embryo ) کی نشوونما میں اِنسان کے نظامِ سماعت کو پہلے وُجود میں لایا جاتا ہے اور نظامِ بصارت بعد میں تشکیل پاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں درج اِس تخلیقی عمل کی تصریح اور تائید آج ایمبریالوجی ( embryology ) کی جدید تحقیق نے کر دی ہے۔ کینیڈا کی ٹورانٹو یونیورسٹی ( University of Toronto ) میں شعبۂ اناٹومی کے پروفیسر ڈاکٹر کیتھ ایل مُور ( Dr Keith L. Moore ) اس سلسلے میں رقمطراز ہیں:
Primordium of the internal ears appears before the beginning of the eyes and the brain (the site of understanding) differentiates last. This part of Sura ۳۲:۹ indicates that special senses of hearing, seeing and feeling develop in this order, which is true
ترجمہ: "کانوں کے اندرونی عضویات آنکھوں کی اِبتدا سے پہلے ظاہر ہوتے ہیں اور پھر دِماغ (سمجھنے کی صلاحیت) اُسے ممتاز کرتی ہے۔ سورۃالسجدہ کی آیت نمبر۹ کا یہ حصہ اِس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مخصوص حسِ سامعہ، حسِ باصرہ اور حسِ لامسہ بالترتیب نمو پاتی ہیں، اور یہی حقیقت ہے"۔
تخلیقِ انسانی کے بارے میں یہ وہ سائنسی حقائق ہیں جنہیں قرآنِ مجید آج سے چودہ سوسال پہلے منظرِ عام پر لایا اور آج جدید سائنس نے اُن کی تصدیق و تائید کر دی ہے۔ اِس سے باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کی عظمتوں اور رِفعتوں کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید کی حقانیت اور نبوتِ محمدی کی صداقت و قطعیت کی ایسی عقلی دلیل بھی میسر آتی ہے جس کا کوئی صاحبِ طبعِ سلیم اِنکار نہیں کر سکتا۔
بطنِ مادر میں اِنسان کے حیاتیاتی نشوونما کے یہ مدارج معلوم کرنے کا باقاعدہ سائنسی نظام سب سے پہلے۱۹۴۱ء میں سٹریٹر ( Streeter ) نے اِیجاد کیا جو بعد ازاں۱۹۷۲ء میں O' Rahilly کے تجویز کردہ نظام کے ذریعے زیادہ بہتر اور صحیح شکل میں بدلا گیا اور اَب اِکیسویں صدی کے آغاز تک یہ نظام مرحلہ وار تحقیق کے بعد بھرپور مستحکم ہو چکا ہے، مگر قرآنِ مجید کا اِسی صحتِ ترتیب کے ساتھ آج سے ۱۴ صدیاں قبل اِن مدارج کو بیان کرنا جس کی تصدیق آج اناٹومی اور ایمبریالوجی کی جدید تحقیقات کے ذریعے ہوئی ہے، ایک ناقابلِ اِنکار معجزہ ہے، جسے غیر مسلم دُنیا بھی اپنے تمام تر تعصبات کے باوُجود تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
جنین ( Embryo )کی بطنِ مادرمیں تین پردوں میں تشکیل
اِسی طرح بطنِ مادر میں نظامِ ربوبیت کے محیر العقول کرشموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باری تعالیٰ بچے کی حیاتیاتی تشکیل کے یہ تمام مرحلے ماں کے پیٹ میں تین پردوں کے اندر مکمل فرماتا ہے۔ یہ بچے کی حفاظت کا کس قدر خوشگوار اِہتمام ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
( یَخلُقُکُم فِی بُطُونِ أُمَّهَاتِکُم خَلقاً مِّنم بَعدِ خَلقٍ فِی ظُلُمٰتٍ ثَلاَثٍ ذٰلِکُمُ ﷲ رَبُّکُم لَهُ المُلکُ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَ فَأَنّٰی تُصرَفُونَ ) (الزمر،۳۹:۶)
وہ تمہیں ماؤں کے پیٹ میں تاریکیوں کے تین پردوں کے اندر ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں مرحلہ وار تخلیق فرماتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا ربّ )تدریجاً پرورش فرمانے والا( ہے۔ اُسی کی بادشاہی )اندر بھی اور باہر بھی( ہے۔ سو اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، پھر تم کہاں بہکے چلے جاتے ہو! ۱۷ویں صدی عیسوی میں Leeuwen Hook نے خوردبین ( microscope ) اِیجاد کی۔ صاف ظاہر ہے اِس سے پہلے اندرونِ بطن اُن مخفی حقیقتوں کی صحیح سائنسی تعبیر کس کو معلوم ہو سکتی تھی! آج سائنس اُن پردوں کی حقیقت بھی منظرِ عام پر لے آئی ہے۔ جس کی رُو سے اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ واقعی ہی بطنِ مادر میں بچے کے یہ اِرتقائی مرحلے تین پردوں میں تکمیل پذیر ہوتے ہیں۔ جنہیں قرآنِ مجید نے ظُلُمٰتٍ ثَلاَثٍ ( three veils of darkness ) کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔
اُن پردوں کے نام یہ ہیں:
۱. Anterior abdominal wall
۲. Uterine wall
۳. Amnio-chorionic membrane
or
Extra-embryonic membranes
قرآنِ مجید نے ظُلُمٰت ( veils of darkness ) کا لفظ اِستعمال کیا ہے، جو layers کے لئے نہیں بلکہ opacities (تاریکیایوں) کے معنی میں مستعمل ہے۔ چونکہ ہر پردے کے اندر مزید کئی تہیں ( layers ) ہیں، اِس لئے ربّ ِکامل نے اُنہیں ظُلُمٰت کے لفظ کے ذریعے واضح فرمایا ہے۔ ظُلُمٰتٍ ثَلاَثٍ کی ایک اور متبادل سائنسی تعبیر بھی درج ذیل ہے:
۱. Chorion ۲. Amnion ۳. Amniotic fluid
تاہم ڈاکٹر کیتھ مُور ( Dr Keith L. Moore ) کی تحقیق کی رُو سے پہلی تعبیر زیادہ صحیح اور مناسبِ حال ہے۔ یہاں اُن کی اصل انگریزی تحریر کا اِقتباس درج کیا جاتا ہے:
Keith L. Moore, Ph D, FIAC
Statements referring to human reproduction and development are scattered throughout the Qur'an. It is only recently that the scientific meaning of some of these verses has been appreciated fully. The long delay in interpreting these verses correctly resulted mainly from inaccurate translations and commentaries, and from a lack of awareness of scientific knowledge
Interest in explanations of the verses of the Qur'an is not new, people used to ask the Prophet Muhammad all sorts of questions about the meaning of verses referring to human reproduction. The Apostle's answer form the basis of the Hadith literature
The translations of the verses from the Qur'an which are interpreted in this paper were provided by Sheikh Abdul Majid Zendani, a professor of Islamic Studies in King Abdulaziz University in Jeddah, Saudi Arabia
" He makes you in the wombs of your mothers, in stages, one after another, in three veils of darkness ."
This statement is from sura ۳۹. We do not know when it was realized that human beings underwent development in the uterus (womb), but the first known illustration of a fetus in the uterus was drawn by Leonardo de Vinci in the ۱۵th century. In the ۲nd century AD, Galen described the placenta and fetal membranes in his book On the Formation of the Foetus. Consequently, doctors in the ۷th century AD likely knew that the human embryo developed in the uterus. It is unlikely that they knew that it developed in stages, even though Aristotle had described the stages of development of the chick embryo in the ۴th century BC. The realization that the human embryo develops in stages was not discussed and illustrated until the ۱۵th century
After the microscope was discovered in the ۱۷th century by Leeuwen Hook, descriptions were made of the early stages of the chick embryo. The staging of human embryos was not described until the ۲۰th century. Streeter (d.۱۹۴۱) developed the first system of staging which has now been replaced by a more accurate system proposed by O'Rahilly (d.۱۹۷۲ ).
" The three veils of darkness" may refer to: (۱) the anterior abdominal wall; (۲) the uterine wall; and (۳) the amnio-chorionic membrane. Although there are other interpretations of this statement, the one presented here seems the most logical from an embryological point of view
" Then we placed him as a drop in a place of rest." This statement is from sura ۲۳:۱۳. The drop or nutfah has been interpreted as the sperm of spermatozoan, but a more meaningful interpretation would be the zygote which divides to form a blastocyst which is implanted in the uterus (a place of rest). This interpretation is supported by another verse in the Qur'an which states that "a human being is created from a mixed drop." The zygote forms by the union of a mixture of the sperm and the ovum (the mixed drop (.
" Then we made the drop into a leech-like structure." This statement is from sura ۲۳:۱۴. The word alaqa refers to a leech or bloodsucker. This is an appropriate description of the human embryo from days ۷-۲۴ in which it clings to the endometrium of the uterus, in the same way that a leech clings to the skin. Just as the leech derives blood from the host, the human embryo derives blood from the decidua or pregnant endometrium. It is remarkable how much the embryo of ۲۳-۲۴ days resembles a leech. As there were no microscopes of lenses available in the ۷th century, doctors would not have known that the human embryo had this leech-like appearance. In the early part of the fourth week, the embryo is just visible to the unaided eye because it is smaller than a kernel of wheat
" Then of that leech-like structure, We made a chewed lump." This statement is also from sura ۲۳:۱۴. The Arabic word Mudghah means chewed substance or chewed lump. Toward the end of the fourth week, the human embryo looks somewhat like a chewed lump of flesh. The chewed appearance results from the somites which resemble teeth marks. The somites represent the beginnings or primordia of the vertebrate
" Then we made out of the chewed lump, bones and clothed the bones in flesh." This continuation of sura ۲۳:۱۴ indicates that out of the chewed lump stage, bones and muscles form. This is in accordance with embryological development. First the bones form as cartilage models and then the muscles (flesh) develop around them from the somatic mesoderm
" Then we developed out of it another creature." This next part of sura ۲۳:۱۴ implies that the bones and muscles result in the formation of another creature. This may refer to the human-like embryo that forms by the end of the eighth week. At this stage it has distinctive human characteristics and possesses the primordia of all the internal and external organs and parts. After the eighth week, the human embryo is called a fetus. This may be the new creature to which the verse refers
" And He gave you hearing and sight and feeling and understanding." This part of sura ۳۲:۹ indicates that the special senses of hearing, seeing, and feeling develop in this order, which is true. The primordial of the internal ears appear before the beginning of the eyes, and the brain (the site of understanding) differentiates last
" Then out of a piece of chewed flesh, partly formed and partly unformed." This part of Sura ۲۲:۵ seems to indicate that the embryo is composed of both differentiated and undifferentiated tissues. For example, when the cartilage bones are differentiated, the embryonic connective tissue or mesenchyme around them is undifferentiated. It later differentiates into the muscles and ligaments attached to the bones
" And We cause whom we will to rest in the wombs for an appointed term." This next part of sura ۲۲:۵ seems to imply that God determines which embryos will remain in the uterus until full term. It is well-knwon that many embryos abort during the first month of development, and that only about ۳۰[L: ۳۷] of zygotes that form, develop into fetus that survive until birth. This verse has also been interpreted to mean that God determines whether the embryo will develop into a boy or girl, and whether the child will be fair or ugly
This interpretation of the verses in the Qur'an referring to human development would not have been possible in the ۷th century AD, or even a hundred years ago. We can interpret them now because the science of modern embryology affords us new understanding
Undoubtedly there are other verses in the Qur'an related to human development that will be understood in the future as our knowledge increases
References :
۱. Arey, L.B, Development Anatomy: A textbook and Laboratory Mannual of Embryology, revised ۷th ed., Philadelphia, W.B.Sanders Co., ۱۹۷۴
۲. Moore, K.L, The Developing Human Clinically Oriented Embryology, ۳rd ed. Philadelphia, W.B. Sanders Co., ۱۹۸۲
۳. Moore, K.L, Highlights of Human Embryology in the Qur'an and the Hadith. Proceedings of the Seventh Saudi Medical Meeting, ۱۹۸۲
۴. Moore, K.L, Before We are Born, Basic Embryology and Birth Defects, ۲nd ed., Philadelphia, W.B.Sanders Co, ۱۹۸۳
۵. O' Rahilly, R, Guide to the Staging of Human Embry ۶. Streeter, G.L, Developmental Horizons in Human Embryos
اِنسانی تکوین و تشکیل میں حسنِ نظم
اِنسانی جسم کی حیاتیاتی تشکیل میں قدم قدم پر ربوبیتِ الٰہیہ کے حسّی اور معنوی لاتعداد مظاہر کار فرما ہیں۔ ہر جگہ حسنِ نظم اور حسنِ ترتیب کی آئینہ داری ہے۔ ہر کام اور مرحلے کے لئے مخصوص مدّت اور طریقِ کار متعین ہے۔ ایک مرحلے کے جملہ مقتضیات خود بخود پورے ہو رہے ہیں۔ جو کام اِنسان کے جسمانی پیکر سے بعد میں لیا جانے والا ہے اُس کی تمام تر ضرورتیں رحمِ مادر میں پوری کی جا رہی ہیں۔ ہر مرحلے پر نہ صرف اُن ضرورتوں کی کفالت ہو رہی ہے بلکہ بہرطور اُن کی حفاظت و نگہداشت کے بھی تمام اِنتظامات ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں۔ ﷲ ربُّ العزت کی شانِ خلّاقیت کا نظارہ اِس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ مکمل اِنسان کے لئے مطلوبہ تمام صلاحیتوں کا جوہر ایک نطفہ کے اندر پیدا کر دیاگیا ہے۔ پھر اُس کے خواص و آثار اور علامات کو اپنے اپنے مقررہ اَوقات پر پورا کر کے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اِس اُصول کو نظامِ ربوبیت کے تحت ’تقدیر‘ کے عنوان سے واضح کیا گیا ہے۔ ’تقدیر‘ کے معنی اَندازہ کرنے کے ہیں، خواہ یہ کسی شے کے وُجود میں ہو یا ظہور میں، کمیّت میں ہو یا کیفیت میں، مدّتِ پرورش میں ہو یا تکمیل میں۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( وَ خَلَقَ کُلَّ شَیٍٔ فَقَدَّرَه تَقدیراً ) ( (الفرقان، ۲۵.۲)
اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے، پھر اُس (کی بقا و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت الغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہےباری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کے اِس حسنِ تقدیر نے کائنات کے ظاہر و باطن میں ایک عجیب نظم و ترتیب، مطابقت و یگانگت اور توازُن و اِعتدال پیدا کر دیا ہے۔ یہی رنگ ہم بچے کی تشکیل و اِرتقاء کے جملہ مراحل میں کار فرما دیکھتے ہیں۔
اِس خاص موضوع پر اِرشادِ ربانی ہے:
( مِن أَیِّ شَیٍٔ خَلَقَه مِن نُّطفَةٍ خَلَقَه فَقَدَّرَه ثُمَّ السَّبِیلَ یَسَّرَه ثُمَّ أَمَاتَه فَأَقبَرَه ثُمَّ إِذَا شآء أَنشَرَه ) (عبس، ۸۰:۱۸.۲۲)
ﷲ نے اُسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟ O نطفہ میں سے اُس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اُس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعیّن فرما دیا O پھر (تشکیل، اِرتقاء اور تکمیل کے بعد بطنِ مادر سے نکلنے کی) راہ اُس کے لئے آسان فرما دی O پھر اُسے موت دی، پھر اُسے قبر میں دفن کر دیا گیا O پھر جب وہ چاہے گا اُسے )دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کر لے گا
اِنسانی وُجود کی تکوین کے چار مراحل
قرآنِ مجید نے اِنسانی تخلیق کے ضمن میں پیش آنے والے چار مراحل کا ذِکر کیا ہے، جو یہ ہیں:
۱۔ تخلیق
Creation
-۲ تسویہ
Arrangement
-۳ تقدیر
Estimation
-۴ ہدایت
Guidance
اِن مراحل کا ذِکر سورۃ الاعلیٰ میں یوں کیا گیا ہے:
( سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الأَعلَی الَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰی وَ الَّذِی قَدَّرَ فَهَدٰی ) (الاعلیٰ، ۸۷:۱.۳۰)
اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے O جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیا O اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرّر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایا O ہم دیکھتے ہیں کہ تکوینِ وُجود کے تمام مرحلے نظامِ ربوبیت کی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ تکمیل پذیر ہوتے ہیں۔ ہر مرحلے کو ایک خاص حکمت و تدبر اور نظم کے ساتھ مکمل کیا جاتا ہے۔
یہ بحث بڑی تفصیل کے ساتھ پہلے گزر چکی ہے کہ کس طرح اِنسانی وُجود نطفے سے باقاعدہ خلق کے مرتبے تک پہنچتا ہے۔ ہر مرحلے میں اُس کی ایک مدّت مقرر ہے جس میں بعض خاص اُمور کی تکمیل ہوتی ہے، پھر اُسے اگلے مرحلے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
اِرشادِ الٰہی ہے:
( أَلَم نَخلُقکُم مِّن مّآء مَّهِینٍ فَجَعَلنَاهُ فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ إِلٰی قَدَرٍ مَّعلُومٍ فَقَدَرنَا فَنِعمَ القَادِرُونَ ) (المرسلات، ۷۷:۲۰.۲۳)
کیا ہم نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا نہیں فرمایا O پھر ہم نے اُسے ایک محفوظ جگہ (رحمِ مادر) میں رکھا O ایک معلوم و معین انداز سے (مدت ) تک O پھر ہم نے (اگلے ہر ہر مرحلے کے لئے) اندازہ فرمایا، پس ہم کیا ہی اچھے قادر ہیںقرآن مجید میں ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا ہے:
( وَ هُوَ الَّذِی أَنشَأکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُستَقَرٌّ وَّ مُستَودَعٌ قَد فَصَّلنَا الاٰیَات لِقَومٍ یَّفقَهُونَ ) (الانعام،۹:۸۶)
اور وُہی (ﷲ) ہے جس نے تمہیں ایک جان ( cell ) سے پیدا فرمایا ہے، پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اِقامت (ہے) اور جائے اَمانت (مراد رحمِ مادر اور دُنیا ہے یا دُنیا اور قبر)، بیشک ہم نے سمجھنے والوں کے لئے (اپنی قُدرت کی) نشانیاں کھون کر بیان کر دی ہیںاِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ قابل توجہ ہیں: مُستَقَر اور مُستَودَع۔
مُستَقَرّ: قرار، إِستَقَرَّ سے ہے ۔
اور مُستَودَع: ودع، إِستَودَعَ سے ہے۔
"مستقر" میں عارضی طور پر ایک مقام پر ایک حالت میں رہنے کی طرف اِشارہ ہے جبکہ "مستودع" میں وہاں اپنا وقت گزارنے اور اگلی حالت میں منتقل ہونے کی طرف اِشارہ ہے۔ اِنسانی تکوینِ وُجود کے مرحلۂ تخلیق میں سپرم ( sperm ) باپ کی پشت سے آتا ہے اور رحمِ مادر کے اندر اووم ( ovum ) سے اپنا رابطہ قائم کرتا ہے۔
یہاں نظامِ ربوبیت کا کیسا شاندار اِہتمام ہے کہ ایک اوسط درجے کے آدمی کا ایک بار خارج شدہ مادۂ تولید اپنے اندر ۴۰,۰۰,۰۰,۰۰۰سپرم ( sperm ) رکھتا ہے جس سے چالیس کروڑ عورتوں کے حمل واقع ہو سکتے ہیں، مگر نظامِ قدرت کی کرشمہ سازیاں دیکھئے کہ جب پہلا سپرم ( sperm ) عورت کے رحم میں اووم ( ovum ) سے پیوست ہوتا ہے تو اُسی وقت اووَم ( ovum ) پر ایک جھلی ( membrane ) آ جاتی ہے، جو دُوسرے sperm کو اُس میں داخل ہونے سے روک دیتی ہے۔ اُسے fertilizing membrane کہتے ہیں۔ چنانچہ اُن دونوں کے ملاپ سے تکوینِ وُجودِ انسانی کے کام کا آغاز ہو جاتا ہے، جس کا ذِکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔
بعد ازاں مختلف تخلیقی مرحلوں میں سے گزر کر embryo وُجود میں آتا ہے۔ ربِّ کریم کی شانِ پروردگاری دیکھئے کہ اُس کے ہر مرحلے کے لئے خاص مدت مقرر ہے، جس میں بعض تخلیقات وُجود میں آتی ہیں، جن کے اندر تدریجاً اِرتقاء ہوتا رہتا ہے اور وہ embryo یکے بعد دیگرے مختلف مرحلوں اور حالتوں میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُس کی حالت میں ہفتہ وار تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اُس کے اعضاء کا تخلیقی اور تکوینی عمل جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ چھ ہفتے کے بعد بچے کی سی شکل دِکھائی دینے لگتی ہے۔ پھر اُس میں نظامِ اُستخوان ( skeleton system ) اور بعد ازاں گوشت پوست کے ساتھ نظامِ اَعصاب ( muscular system ) کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مقامِ خلق کو پا لیتا ہے اور ھُوَ الَّذِی یُصَوِّرُکُم فِی الأَرحَامِ کَیفَ یَشآء )وہ تمہیں ماؤں کے رحموں کے اندر ہی جسمانی شکل و صورت اور اندازِ ساخت عطا کر دیتا ہے، جیسے وہ چاہتا ہے( کے مراتب اور مدارج سے گزرتا ہوا( لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقویمٍ ) )بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے( کی شان کے ساتھ منصہ شہود پر جلوہ گر ہو جاتا ہے۔
قرآنی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحلۂ تقدیر کی رحمِ مادر کے اندر مزید تین قسم کی تفصیلات ہیں:
۱ تعدیل ( equalization )
۲ تصویر ( personification )
۳ ترکیب ( methodical formation )
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( یَا أَیُّهَا الإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الکَرِیمِ الَّذِی خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ فِی أَیِّ صُورَةٍ مَّاشآء رَکَّبَکَ ) (الانفطار۸۲:۶.۸)
اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربّ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا O جس نے (رحمِ مادر کے اندر ایک نُطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اُس نے تجھے (اعضاء سازی کے لئے) درُست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا O جس صورت میں بھی چاہا اُس نے تجھے ترکیب دے دیااِس آیتِ کریمہ میں تخلیق و تسویہ کے بعد مذکورہ بالا تینوں مراتب کا ذِکر ہے۔ تعدیل، تصویر اور ترکیب۔ یہ تمام مرحلۂ تقدیر ہی کی تفصیلات ہیں۔
باری تعالیٰ نے آغازِ حمل سے اِختتامِ ضرورتِ رضاعت تک کا عرصہ بھی مقرر فرما دیا ہے، جو کم از کم ۳۰ ماہ پر مشتمل ہے۔ جس طرح بچہ رحمِ مادر میں پرورش پا کر عالمِ آب و گل میں رہنے کے قابل ہو جائے تو اُسے تولّد کے ذریعے دُنیا میں منتقل کر دیا جاتا ہے اِسی طرح بچے کا معدہ عام غذاؤں کو ہضم کرنے کی اِستعداد حاصل کر لے تو تدریجاً ماں کا دُودھ خود بخود خشک ہونے لگتا ہے اور یہ تبدیلی اِس امر کی طرف اِشارہ ہوتا ہے کہ اَب بچے کو رضاعت کی ضرورت نہیں رہی، اُسے دُوسری غذاؤں کی طرف منتقل کیا جائے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( حَمَلَتهُ أُمُّه کُرهاً وَّ وَضَعَتهُ کُرهاً وَ حَملُه وَ فِصٰلُه ثَلاثُونَ شَهراً ) ۔ (الاحقاف ۴۶:۱۵)
اُس کی ماں نے اُسے تکلیف اٹھا کر پیٹ میں رکھا اور اِس طرح تکلیف سے جنا اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت )کم از کم( تیس ماہ ہے۔
دورانِ حمل نظامِ ربوبیت کے مظاہر
جب تک بچہ رحمِ مادر میں اپنے تشکیلی اور تکوینی مراحل طے کرتا ہے باری تعالیٰ کا نظامِ ربوبیت اُس کی جملہ ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ درج ذیل چار اُمور کا بڑے حسن و خوبی سے اِنتظام کرتا ہے۔ اِس کا ایک ایک پہلو ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
۱ تغذِیہ ( Nourishment )
بچے کی نشوونما کے لئے ہر قسم کا ضروری مواد رحمِ مادر میں فراہم ہوتا ہے۔
۲ حفاظت ( Protection )
ماں کو پیش آنے والے جسمانی صدمات اور ضربات وغیرہ کے اثر سے بالعموم اُس کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ اُسے چوٹ نہ آئے۔
۳ نقل و حرکت ( Movement )
رحمِ مادر میں اُس کے مناسبِ حال ضروری نقل و حرکت کا اِنتظام کر دیا جاتا ہے۔
۴ تکیّفِ حرارت ( Control of temperature )
طبی ضرورت کے مطابق رحمِ مادر کے اندر بچے کو مطلوبہ حرارت ( temperature ) مہیا ہوتی رہتی ہے۔
ماں کے خون میں سے جو مواد بچے کے لئے مفید اور ضروری ہے اُسے خودبخود میسر آتا رہتا ہے اور جو مواد مضر اور نقصان دہ ہو وہ خود بخود ضائع ہو جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک خلّاقِ عالم اور قادرِ مطلق کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر یہ سب کچھ ایک نظم و ترتیب کے ساتھ کیسے ممکن ہے۔( فاعتبروا یا أولی الأبصار )
باب سوُم
اِنسانی زندگی کا شعوری اِرتقاء
جس طرح اِنسان کے جسمانی وُجود کی تکوین و تکمیل کے لئے نظامِ ربوبیّت کے حسین و جمیل جلوے پوری آب و تاب کے ساتھ ہر جگہ اور ہر مرحلے پر کارفرما نظر آتے ہیں، یہی رنگ اور ڈھنگ اِنسان کے شعوری ارتقاء کے نظام میں بھی نظر آتا ہے۔ خلّاقِ عالم کے حسنِ ربوبیت نے اِنسان کی جسمانی ساخت اور پرورِش کی ذِمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ اُس کی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اُسے ایک مرحلہ وار نظامِ ہدایت سے بھی نوازا ہے، جس سے وہ اپنے ہر مرحلۂ حیات پر نہ صرف مختلف ضروریات و مقتضیات کو جانتا اور پہچانتا ہے بلکہ اُن کی تسکین و تکمیل کے لئے مختلف راستے اور وسائل بھی تلاش کرتا ہے۔ وہ جوں جوں عمر کے مختلف اَدوار طے کرتا چلا جاتا ہے اُس کی ضرورتیں بدلتی چلی جاتی ہیں، اُن میں تنوّع اور تسوّع کے ساتھ ساتھ مسلسل اِضافہ بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ پہلے سے موجود طبعی ذرائعِ ہدایت اُس کی نئی حاجات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ سو خود بخود اگلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نئے دروازے کھل جاتے ہیں اور یوں اِنسان کا شعوری سفر اپنی منزل کی طرف جاری رہتا ہے۔ اِس شعوری پرورِش کی ذِمہ داری بھی ربِّ کائنات نے اپنے ذِمہ لے رکھی ہے اور وہ اُس کا آغاز بھی زمانۂ حمل سے کر دیتا ہے۔
جیساکہ ہم پچھلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ رحمِ مادر میں اَعضائے جسمانی کی تشکیل و تکمیل کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائعِ ہدایت کی تکوین کا سلسلہ بھی ایک خاص نظم و ترتیب سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ پیدائش کے بعد بھی ایک خاص نظم کے تحت مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جاری رہتا ہے۔
اِنسانی زِندگی اور اَقسامِ ہدایت
باری تعالیٰ نے اپنے نظامِ ربوبیت کا جلوۂ کمال اِنسانی زندگی کو مختلف قسم کی ہدایتوں سے سرفراز فرما کر دِکھایا ہے۔ اگر ماحولیاتی ضرورتیں، تقاضے اور حقائق کی نوعیتیں جدا جدا ہوں مگر ذریعۂ ہدایت اور ماہیتِ ہدایت ایک ہی ہو تو صاف ظاہر ہے کہ یہ تقاضائے پرورِش ہے اور نہ روِشِ بندہ پروری۔
ربّ کائنات نے اِنسان کو۔ ۔ ۔ بلکہ ہر ذِی رُوح کو۔ ۔ ۔ اُس کے حسبِ حال ذرائعِ ہدایت سے نوازا ہے۔ مطالعۂ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہدایت بنیادی طور پر درج ذیل پانچ اَقسام پر مشتمل ہے، جبکہ آخری قسمِ ہدایت مزیدتین صورتوں میں پائی جاتی ہے:
۱ ہدایتِ فطری (ہدایتِ وِجدانی)
۲ ہدایتِ حسی
۳ ہدایتِ عقلی
۴ ہدایتِ قلبی
۵ ہدایتِ ربانی (ہدایت بالوحی)
i ہدایتِ عامہ (ہدایتُ الغایہ)
Ii ہدایتِ خاصہ (ہدایتُ الطریق)
Iii ہدایتِ اِیصال (ہدایتُ الایصال)
۱۔ ہدایتِ فطری (ہدایتِ وِجدانی)
شبلی نعمانی اور ابوالکلام آزاد اِسے ہدایتِ وجدانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بقول ابوالکلام وجدان کی ہدایت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی طبیعت میں کوئی ایسا اندرونی اِلہام موجود ہے جو اُسے زندگی اور پرورِش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ خارجی رہنمائی و تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ بچہ اِنسان کا ہو یا حیوان کا، جونہی شکمِ مادر سے باہر آتا ہے خودبخود معلوم کر لیتا ہے کہ اُس کی غذا ماں کے سینے میں ہے اور جب پستان منہ میں لیتا ہے تو جانتا ہے کہ اُسے چوسنا چاہئے۔ بلی کے بچوں کو ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں، اُن کی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں لیکن ماں جوشِ محبت میں اُنہیں چاٹ رہی ہے، وہ اُس کے سینے پر منہ مار رہے ہیں۔ یہ بچہ جس نے اِس دُنیا میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے، جسے خارِج کے مؤثرات نے چُھوا تک نہیں، وہ کس طرح معلوم کر لیتا ہے کہ اُسے پستان منہ میں لے لینا چاہئیں اور اُس کی غذا کا سرچشمہ یہیں ہے؟ وہ کون سا فرشتہ ہے جو اُس وقت اُس کے کان میں پھونک دیتا ہے کہ اِس طرح اپنی غذا حاصل کر لے؟ یقینا وہ فطری ہدایت کا فرشتہ ہے اور یہی وہ فطری ہدایت ہے جو حواس و اِدراک کی روشنی نمودار ہونے سے بھی پہلے ہر مخلوق کو اُس کی پرورش و زِندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے۔
بلاشبہ یہ ربوبیتِ اِلٰہی کی فطری ہدایت ہے، جس کا اِلہام ہر مخلوق کے اندر اپنی نمود رکھتا ہے اور جو اُن پر زندگی اور پرورِش کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔ یہ ہدایت ہر ذِی رُوح کو پیدائش کے ساتھ ہی عطا کر دی جاتی ہے۔
اِس کا ذِکر قرآنِ مجید میں اِس طرح آیا ہے:
( رَبُّنَا الَّذِی أَعطٰی کُلَّ شَیٍٔ خَلقَه ثُمَّ هَدٰی ) (طہٰ،۲۰:۵۰)
ہمارا ربّ وہی ہے جس نے ہر چیز کو (اُس کے لائق) وُجود بخشا، پھر (اُس کے حسبِ حال) اُس کی رہنمائی کی
۲۔ ہدایتِ حسّی
ہدایت کا دُوسرا مرتبہ حواس اور مدرِکاتِ حسّی کی ہدایت ہے اور وہ اِس درجہ واضح و معلوم ہے کہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اُس جوہرِ دِماغ سے محروم ہیں جسے فکر و عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم قدرت نے اُنہیں اِحساس و اِدراک کی وہ تمام قوّتیں دے رکھی ہیں جن کی زِندگی و معیشت کے لئے ضرورت تھی اور اُن کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، تولد و تناسل اور حفاظت و نگرانی کے تمام وظائف حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس و اِدراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لئے ایک ہی طرح کی نہیں ہے بلکہ ہر وُجود کو اُتنی ہی اور ویسی ہی اِستعداد دی گئی ہے جتنی اور جیسی اِستعداد اُس کے اَحوال و ظروف کے لئے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوتِ شامّہ نہایت دُور رس ہوتی ہے، اِس لئے کہ اُسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتی ہے۔ چیل اور عقاب کی نگاہ تیز ہوتی ہے کیونکہ اگر اُن کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلندی میں اُڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ نہ سکیں۔
یہ ہدایت جو حواسِ خمسہ کے ذریعے میسر آتی ہے، اس کا ذِکر قرآنِ مجید ’سمع‘ و ’بصر‘ کے حوالے سے یوں کرتا ہے:
( إِنَّ السَّمعَ وَ البَصَرَ وَ الفُؤادَ کُلُّ أُولٰئِکَ کَانَ عَنهُ مَسؤلاً ) (بنی اسرائیل، ۱۷:۳۶)
بیشک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی( وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الأَبصَارَ وَ الأَفئِدَةَ ) ۔ (ملک، ۲۳:۶۸
اور اُس نے تمہاری رہنمائی کے لئے کان، آنکھیں اور دِل و دماغ پیدا فرمائے۔
۳۔ ہدایتِ عقلی
ہدایتِ عقلی عقل اور فہم و تدبّر سے میسر آتی ہے۔ اِس کا ذِکر قرآنِ مجید قلب، عقل، فؤاد اور تعقّل و تدبّر کے الفاظ میں کرتا ہے۔ چنانچہ جا بجا اِرشاد ہوتا ہے:
أَفَلاَ تَعقِلُونَ؟
تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟
أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ؟
وہ تدبر اور بصیرت سے کام کیوں نہیں لیتے؟
۴۔ ہدایتِ قلبی
ہدایتِ قلبی تزکیۂ نفس کے ذریعے دِل کی صفائی اور باطنی روشنی سے میسر آتی ہے۔ اس کا ذِکر قرآنِ مجید ’علمِ لدُنی‘ کے اَلفاظ میں کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خضرؑ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
( أٰ تَینَاهُ رَحمَةً مِّن عِندِنَا وَ عَلَّمنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلمَاً ) (الکہف، ۱۸:۶۵
ہم نے اُسے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اُسے اپنا علمِ لدُنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھایہاں تک ہدایت اور رہنمائی کی جتنی صورتیں بھی بیان ہوئیں سب ظنّی تھیں اور اُن میں خطا کا اِحتمال باقی تھا۔ اُن سے حاصل ہونے والا علم یقینی اور قطعی نہیں ہو سکتا۔ اُس سے حاصل ہونے والے نتائج خواہ کتنے ہی صحیح کیوں نہ ہوں لیکن غلطی کا اِمکان پھر بھی باقی رہتا ہے کیونکہ اُن میں اِنسانی کسب کو دخل حاصل ہے۔
۵۔ ہدایتِ ربانی (ہدایت بالوحی)
اس کی مزید تین قسمیں ہیں:
- i ہدایتِ عامہ (ھدایۃُ الغایۃ)
یہ وہ یقینی ہدایت ہے جو انبیائے کرام کو بصورتِ وحی عطا ہوتی ہے اور اُن کے ذریعے وہ عام اِنسانوں تک پہنچائی جاتی ہے۔
اِس کا ذِکر قرآنِ مجید میں یوں ملتا ہے:
( وَ جَعَلنَا مِنهُم أَئِمَّةً یَّهدُونَ بِأَمرِنَا ) ۔ (السجدہ، ۳۲:۲۴)
اور ہم نے ان میں سے پیشوا یعنی انبیاء مبعوث کر دیئے جو انہیں ہمارے حکم کی رہنمائی عطا کرتے ہیں۔
اِسی طرح اِرشاد فرمایا گیا:
( قَد تَبَیَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَیِّ ) ۔ (البقرہ، ۲:۲۶۵)
بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔
( فَمَن شآء فَلیُؤمِن وَ مَن شآء فَلیَکفُر ) ۔ (الکہف،۱۸:۲۹)
پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے اِنکار کر دے۔
ایک اور مقام پر اِس ہدایت کا ذکر یوں کیا گیا:
( إِنَّا هَدَینَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِراً وَّ إِمَّا کُفُوراً ) (الدھر، ۷۶:۳)
بیشک ہم نے اُسے سیدھی راہ دِکھا دی ہے، اَب چاہے وہ مان لے یا اِنکار کر دےیہ ہدایت تمام بنی نوع اِنسان کے لئے ہوتی ہے۔ اِس میں کسی کو اِمتیاز حاصل نہیں ہوتا۔ تمام انبیائے کرام کی دعوت اِسی ہدایت پر مشتمل ہوتی ہے۔ اِس لحاظ سے قرآن خود کو "ھُدیً لِّلنَّاسِ" کہتا ہے، کہ یہ قرآن تمام اِنسانوں کے لئے ہدایت ہے۔ یعنی تمام اِنسانوں کو بلا اِمتیازِ رنگ و نسل نورِ ہدایت مہیا کرتا ہے اور ہر ایک کو جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و ہدایت کے اُجالوں کی طرف لے آتا ہے۔ یہ ہدایت ہر ایک کو زِندگی کا مقصد اور منزل کا شعور عطا کرتی ہے۔ اسے ہدایتِ عامہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
- ii ہدایتِ خاصہ (ھدایۃُ الطریق)
یہ ہدایتِ ربانی کا دُوسرا درجہ ہے، جو ہدایتِ عامہ کے بعد بالخصوص اہلِ ایمان کو نصیب ہوتا ہے۔ جو لوگ انبیاء کی دعوت پر اِیمان لانے کے بعد سعادتِ اُخروی کی منزلِ مقصود کے حصول کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اُنہیں باری تعالیٰ اِس خاص ہدایت کی دولت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ یہ ہدایت اُس راستے کی مفصل نشاندہی پر مبنی ہوتی ہے جو اصل منزل تک پہنچاتا ہے۔
اس کا ذِکر قرآنِ مجید میں یوں ملتا ہے:
( وَ مَن یُّؤمِنم بِﷲ یَهدِ قَلبَه ) ۔(التغابن، ۶۴:۱۱)
اور جو کوئی اللہ پر اِیمان لے آئے اُس کے دِل کو صحیح رہنمائی عطا کر دی جاتی ہے۔
( إِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ یَهدیهِم رَبُّهُم بِإِیمَانِهِم ) ۔(یونس، ۱۰:۹)
بیشک جو لوگ اِیمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اُنہیں اُن کا ربّاُن کے اِیمان کے باعث (جنتوں تک) پہنچا دے گا۔
صاف ظاہر ہے کہ یہ ہدایت کا وہ مقام ہے جو صرف ایمان اور اَعمالِ صالحہ کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔
مزید اِرشاد فرمایا گیا ہے:
( فَهَدَی اللهُ الَّذِینَ اٰمَنُوا ) ۔(البقرہ، ۲:۱۳۲)
پھر اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں کو ہدایت دی۔
( وَ الَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهدیَنَّهُم سُبُلَنَا ) ( ) ) العنکبوت،۶۹:۲۹)
جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم یقیناً اُن پر اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔
یہ ہدایتِ عامہ سے بلند ہدایت ہے جو ہر شخص کے لئے مقرّر نہیں۔ یہ صرف اُنہی لوگوں کے لئے خاص ہے جو ﷲ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں۔
اِرشاد فرمایا گیا:
( وَ الَّذِینَ اهتَدَوا زَادَهُم هُدًی ) ۔(محمد،۱۷:۴۷)
اور جن لوگوں نے ہدایت پائی، اللہ نے اُن کی ہدایت میں مزید اِضافہ کر دیا۔
- iii ہدایتُ الایصال
یہ وہ آخری اور حتمی ہدایت ہے جس میں منزلِ مقصود تک کامیابی و کامرانی کے ساتھ پہنچنے کی قطعی ضمانت عطا کی جاتی ہے۔ یہ ہدایت عام اہلِ اِیمان کے لئے بھی نہیں بلکہ صرف اُن مومنوں کے لئے ہے جو تقویٰ کی شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ اِس میں نہ صرف منزلِ مقصود کی روشنی مہیا کی جاتی ہے اور اُس کے راستے کی نشاندہی کی جاتی ہے بلکہ راہِ حق کے مسافروں کو خیر و عافیت کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچا بھی دیا جاتا ہے۔ یہ رہنمائی کی سب سے اعلیٰ صورت ہے جس کی ضمانت قرآنِ مجید کے علاوہ دُنیا کی کوئی اور کتاب مہیا نہیں کر سکتی۔
اِس کا ذِکر اِن اَلفاظ میں کیا گیا ہے:
( سَیَهدیهُم وَ یُصلِحُ بَالَهُم ) (محمد،۵:۴۷)
اللہ تعالیٰ عنقریب اُنہیں اپنی منزل تک پہنچائے گا اور اُن کا حال سنوار دے گااِسی طرح اہلِ جنت اپنی منزل ’جنت‘ کو پاکر کہیں گے:
( اَلحَمدُ للهِ الَّذِی هَدَانَا لِهٰذَا ) ۔ (الاعراف،۴:۳۷)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔
قرآنِ حکیم اپنی رہنمائی کے اِس درجے کا ذِکر اِن اَلفاظ میں بھی کرتا ہے:
( إِنَّ هٰذَا القُرآنَ یَهدی لِلَّتِی هِیَ أَقوَمُ ) )بنی اسرائیل،۹:۱۷)
بیشک یہ قرآن اُس (منزل) کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درُست ہے۔
ہدایتِ اِیصال کے میسر آ جانے کے بعد گمراہی کا کوئی اِمکان باقی نہیں رہتا۔
اِنسانی ذرائعِ علم
اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ نظامِ ربوبیت نے اِنسان کو اپنے گرد و پیش اور ماحول سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے مختلف ذرائعِ علم و ہدایت سے نوازا ہے۔ اُسے سوچنے کے لئے طاقتور دِماغ، دیکھنے کے لئے صاف شفاف آنکھیں، سُننے کے لئے حسّاس کان، چکھنے کے لئے زبان، سُونگھنے کے لئے ناک، چھُونے کے لئے ہاتھ اور اِحساسِ لمس کے لئے اَعصاب بخشے گئے ہیں۔ اِن ذرائعِ علم کو عقل اور حواس کہا جاتا ہے۔ یہ اُس ذاتِ برحق کی عنایت ہے کہ اُس نے اِن ذرائع کو بالعموم ہر اِنسان کے لئے کھلا رکھا ہے، اُنہیں محدُود اور مسدُود نہیں فرمایا۔
اِنسان کو ذرائعِ علم عطا کئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے کائنات میں زندگی بسر کر سکے مخلوقات اور اُن کے خواص و اَوصاف کو جانے، اُن کی حقیقتوں کا اِدراک کرے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مختلف زاویوں سے غور و فکر کر سکے۔
اِس مقصد کے لئے بلاتمیز رنگ ونسل، اِنسان کو جو ذرائع عطا کئے گئے ہیں اُنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
-۱ حواسِ خمسہ ظاہری
-۲ حواسِ خمسہ باطنی
-۳ لطائفِ خمسہ قلبی
۱۔ حواسِ خمسہ ظاہری
حواس کی پہلی قسم حواسِ خمسہ ظاہری کہلاتی ہے، جن کی تعداد پانچ ہے اور یہ عمر کے ساتھ ساتھ تکمیلی مراحل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔
-۱ حسِ لامسہ (چھُونے کی قوت)
-۲ حسِ باصرہ (دیکھنے کی قوت)
-۳ حسِ سامعہ (سُننے کی قوت)
-۴ حسِ ذائقہ (چکھنے کی قوت)
-۵ حسِ شامہ (سُونگھنے کی قوت)
یہ وہ پانچ ذرائعِ علم ہیں جن کی بدولت اِنسان اپنے گرد و پیش اور ماحول سے اپنا اِدراکی تعلق قائم کرتا ہے، مگر یہ حواس صرف ظاہری دُنیا ( physical world ) کی حقیقتوں کو جاننے اور اُن کا اِدراک کرنے تک محدُود رہتے ہیں۔ یہ حواس اِنسانی ذِہن کو فقط ظاہری خام مواد مہیا کرنے پر مامور ہیں۔ ’قوتِ لامسہ‘ کا کام کسی چیز کو چھُو کر یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ چیز کیسی ہے؟ نرم و گداز ہے یا سخت اور کھردری ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز غیر مادّی جسم رکھتی ہے تو ہاتھ کوشش کے باوُجود اُس کے وُجود کا سُراغ نہیں لگا سکتے۔ اِسی طرح ’قوتِ باصرہ‘ کا کام مرئی اشیاء کو دیکھنا اور اُن کے وُجود کا سراغ لگانا ہے۔ لیکن آنکھ اُسی وقت جسم کا سُراغ لگا سکتی ہے جب کوئی چیز دیکھے جانے کے قابل ہو۔ اگر کوئی چیز غیر مرئی ہے تو اُسے ’قوتِ باصرہ‘ معلوم نہیں کر سکتی۔ علیٰ ہٰذا القیاس ’قوتِ سامعہ‘ کا کام آواز کا پتہ لگانا ہے۔ خوشبو یا بدبو کو ’قوتِ شامہ‘ کے ذریعے جانا جاتا ہے۔ مٹھاس یا کڑواہٹ کا اِحساس ’قوتِ ذائقہ‘ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
حواسِ خمسہ ایک دُوسرے کا بدل نہیں بن سکتے
آنکھ کے دائرۂ بصارت میں آنے والی کوئی چیز کسی اور حسّ کے ذریعے نہیں دیکھی جا سکتی۔ اِسی طرح اگر کسی شخص کی قوّتِ سامعہ مفقود ہو جائے تو وہ بقیہ چاروں حواس کو آزمانے کے باوُجود آواز کا سُراغ لگانے سے قاصِر رہتا ہے۔ اگر زبان ذائقے کا پتہ نہ چلا سکے تو آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ پاؤں سلامت ہونے کے باوُجود انسان مختلف ذائقوں میں تمیز نہیں کر سکتا۔ روزمرّہ زندگی میں عام مشاہدے میں آنے والی یہ حقیقت ہمیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ حواسِ خمسہ ایک دُوسرے کا بدل نہیں بن سکتے۔
حواسِ ظاہری کا محدُود دائرۂ کار
اَب ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہر حس کا ایک مخصوص دائرہ اور حلقہ ہوتا ہے۔ جو اشیاء حواسِ ظاہری کے ذریعے معلوم کی جاتی ہیں اُنہیں ’اِدراکاتِ حسّی‘ کہتے ہیں۔ جو شئے جس حاسّے کے دائرہ کار میں آتی ہے اُسے ہمیشہ اُسی حاسّے کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر اُس حاسّے کے بجائے اُس پر دُوسرے حواس آزمائے جائیں تو لاکھ کوشش کے باوُجود اُس چیز کی صحیح ماہیت اور ہیئت کا اِدراک ناممکن ہوتا ہے۔
آواز کو کان کے ذریعے معلوم کیا جائے تو وہ سمجھ میں آ سکتی ہے۔ رنگوں کو آنکھوں کے ترازو میں تولا جائے تو اُن میں اِمتیاز کیا جا سکتا ہے۔ خوشبو کو قوتِ شامّہ کے ذریعے معلوم کیا جائے تو وہ اِنسانی اِدراک میں سما سکتی ہے، لیکن مذکورہ بالا حواس کے علاوہ اُسی چیز کو کسی دُوسرے حاسّے کی مدد سے جاننے کی کوشش بے کار ثابت ہو گی۔ طے یہ پایا کہ اگر کوئی وُجود دُنیا میں موجود ہے مگر اُسے معلوم کرنے والی خاص حس موجود نہیں تو پھر باقی سارے حواس آزمانے کے باوُجود اُس وُجود کا سُراغ نہیں لگایا جا سکتا۔
ایک لطیف تمثیل
مولانا روم نے اِس بات کو ذِہن نشین کرانے کے لئے بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ کسی جگہ پانچ اندھے تھے۔ اُنہوں نے ساری زندگی ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ ہاتھی کو اُن کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا گیا اور ہر ایک سے کہا گیا کہ باری باری ہاتھ سے چھُو کر بتاؤ کہ ہاتھی مجموعی طور پر کیسا ہوتا ہے۔ ہر ایک نے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اُس ہاتھی کو جاننے کی کوشش کی۔ چنانچہ اِس کوشش کے نتیجے میں ایک نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے پیٹ پر پڑا، اُس نے کہا ہاتھی تو دیوار کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نابینا نے اپنا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگوں پر رکھا تو اُس نے خیال کیا کہ ہاتھی تو ستونوں کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نے ہاتھی کے کان کو ٹٹولا تو اُس نے گمان کیا کہ ہاتھی تو پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔ اِسی طرح ایک نے سُونڈ پر ہاتھ لگایا تو اُس نے کہا کہ ہاتھ تو رَسّے کی مانند ہوتا ہے۔
الغرض پانچوں نابینا اپنے تمام تر حواس آزمانے کے باوُجود اِتنے بڑے وُجود )ہاتھی( کے صحیح اِدراک سے قاصر رہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ جس حاسّے کی مدد سے اُس وُجود کو جانا جا سکتا تھا، یہ لوگ اُس سے محروم تھے اور اُس کی عدم موجودگی میں دُوسرے تمام حواس آزمانے کے باوُجود اُنہیں ہاتھی کی شکل و صورت معلوم نہ ہو سکی۔
اِس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ:
اولاً : حواس خمسہ ظاہری صرف طبیعی دُنیا ( physical world ) کی اشیاء کا اِدراک کر سکتے ہیں، جس میں مادّہ اور توانائی دونوں شامل ہیں۔
ثانیاً: ہر حس کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ جو چیز اُس دائرے میں آ جائے وہ حس فقط اُسی کو محسوس کر سکتی ہے، لیکن جو چیز اُس حس کے دائرے سے باہر ہو اُس شے کا صحیح اِدراک باقی تمام حواس مل کر بھی نہیں کر سکتے۔
حواسِ خمسہ ظاہری کی بے بسی
ایک اور قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ اگر حواس درُست اور سلامت ہوں لیکن اُنہیں عقل کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو یہ پانچوں حواس کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک محسوس کرنے کے باوُجود اِنسان کو کسی خاص نتیجے تک نہیں پہنچا سکتے۔ اُن سے حاصل شدہ مواد خام مال ( raw material ) یا اِدراک ( perception ) تو کہہ سکتے ہیں، علم ( knowledge ) ہرگز نہیں قرار دے سکتے۔ یہ اِدراک اور اِحساس اُس وقت علم کا رُوپ اِختیار کرتا ہے جب آنکھوں کی بصارت، کانوں کی سماعت، ہاتھوں کے لمس اور زبان کے ذائقے کا تاثر عقل پر وارِد ہو اور عقل اُس اِدراک کو منظم کرتے ہوئے اُس سے صحیح نتائج اَخذ کر کے اِنسانی جستجو کو خاص نہج عطا کر دے۔
اِنسانی جسم کے جس حصے میں یہ عمل تکمیل پذیر ہوتا ہے، اُسے دِماغ کہتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے بذاتِ خود عقل کو ایک بہت بڑا کارخانہ ( factory ) بنا دیا ہے۔ جس طرح حواسِ ظاہری کے پانچ الگ الگ حصے ہیں، اُسی طرح عقل کے بھی پانچ الگ الگ گوشے ہیں۔ عقل کے یہ تمام حصے نہایت نظم و ضبط اور باہمی اِفہام و تفہیم سے کام کرتے ہیں۔ حواسِ خمسہ ظاہری جو کچھ محسوس کرتے ہیں اُس کے تأثرات جوں کے توں دِماغ تک پہنچا دیتے ہیں۔ عقل اپنے پانچوں شعبوں کی مدد سے اُن تأثرات سے صحیح نتیجہ اَخذ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کان نے کیا سنا؟ ہاتھوں نے کیا چُھوا، زبان نے کون سا ذائقہ چکھا اور آنکھ نے کیا دیکھا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن حواس کا کام دِماغ کے لئے معلومات کا خام مواد تیار کرنا ہے، اُن محسوسات کو سمجھنا نہیں۔ کان بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ سُنے ہوئے الفاظ کا مطلب کیا ہے، آنکھ بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ سرخ اور سبز رنگ میں کیا فرق ہے، ہاتھ اور زبان خود یہ نہیں بتا سکتے کہ فلاں چیز نرم ہے یا سخت، میٹھی ہے یا کڑوی، آخری فیصلہ عقلِ انسانی صادِر کرتی ہے حواسِ خمسہ نہیں۔ گویا علم کی آخری صورت گری عقل سے ہوتی ہے حواسِ خمسہ ظاہری سے نہیں۔
حواسِ خمسہ ظاہری کا دائرۂ کار جہاں مادّی اور طبیعی دُنیا ( physical world ) تک محدُود ہے اور غیر مادّی اَشیاء کا اِدراک حواسِ ظاہری کے ذریعے ناممکن ہے وہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ اِنسانی حواس کی معلوم کردہ اشیاء کو اگر عقلِ اِنسانی منظم اور مربوط نہ کرے تو حواسِ خمسہ کے کسی قسم کے تأثرات علم کا رُوپ نہیں دھار سکتے۔
۲۔ حواسِ خمسہ باطنی
جس طرح محسوساتِ ظاہری کے لئے قدرت نے پانچ حواس تخلیق فرمائے ہیں، اِسی طرح عقلِ اِنسانی میں بھی پانچ مُدرِکات پیدا کئے گئے ہیں جنہیں ’حواسِ خمسہ باطنی‘ کہا جاتا ہے۔ اُن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ حسِ مشترک
۲۔ حسِ واہمہ
۳۔ حسِ متصرفہ
۴۔ حسِ خیال
۵۔ حسِ حافظہ
۱۔حسِ مشترک
اِنسانی عقل کا یہ گوشہ حواسِ ظاہری کے تأثرات کو وصول کرتا ہے۔ حواس کے اوّلین تأثرات اِس حصۂ عقل میں پہنچ کر جذب ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اِنسانی عقل کے اُس حصے پر اُس کی تصویر مرتسم ہو جاتی ہے۔ اِسی لئے اِسے ’لوحُ النفس‘ بھی کہتے ہیں۔
۲۔حسِ خیال
حسِ خیال کا کام یہ ہے کہ وہ حسِ مُشترک میں پہنچنے والی مُدرِکات اور محسوسات کی تصاویر اور شکلوں کی ظاہری صورت کو اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے۔ مثلاً جب ہم لفظ "میں" بولتے ہیں، تو اُس لفظ کی ظاہری صورت یعنی ’میم‘، ’ی‘ اور ’نون غنہ‘ ہے۔ چنانچہ اُس کے ظاہر کا یہ تأثر حسِ مشترک پر منعکس ہوتا ہے اور یہ تأثر بصورتِ تصویر ’حسِ خیال‘ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔
۳۔حسِ واہمہ
جس طرح محسوسات کی ظاہری شکل و صورت کو ’حسِ مشترک‘ نے حواسِ ظاہری سے وُصول کیا تھا اور ’حسِ خیال‘ نے اُسے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر لیا تھا، اُسی طرح ’حسِ واہمہ‘ مدرِکات حِسّی کے معنٰی و مفہوم یعنی اُن کی باطنی شکل و صورت کا اِدراک کرتی ہے اور محفوظ رکھنے کے لئے اُن تاثرات کو اپنے سے اگلی حس میں منتقل کر دیتی ہے، جسے ’حافظہ‘ کہتے ہیں۔
۴۔حسِ حافظہ
یہاں محسوسات کے مفہوم یعنی معنوی وُجود کو اِس طرح سے محفوظ کیا جاتا ہے جیسے اُن کی ظاہری شکل کو ’حسِ خیال‘ میں محفوظ کیا گیا تھا۔
۵۔حسِ متصرّفہ
پانچویں اور آخری باطنی حس ’متصرّفہ‘ کہلاتی ہے۔ اُس کا کام یہ ہے کہ ’حسِ مشترک‘ میں آنے والی ظاہری صورت کو ’حسِ واہمہ‘ میں حاصل ہونے والے معنی سے اور ’حسِ خیال‘ میں محفوظ شکل و صورت کو ’حسِ حافظہ‘ میں محفوظ مفہوم کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ یوں اِنسان مختلف اَلفاظ سن کر اُن کا مفہوم سمجھنے، مختلف رنگ دیکھ کر اُن میں تمیز کرنے اور مختلف ذائقے چکھ کر اُن میں فرق معلوم کرنے پر قادِر ہو جاتا ہے۔
اِس طرح یہ پانچوں حصے باہم مل کر ایک خاص نقطے تک پہنچتے ہیں۔ جسے ’علم‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں اِدراک ’علم‘ میں بدل جاتا ہے۔ اگر یہاں ’حسِ مشترک‘ موجود نہ ہو تو یہ پانچوں حواس بے بس ہو کر رہ جائیں۔ اگر اُن میں ’حسِ واہمہ‘ صحیح نہ ہو، تو ہم سب کچھ دیکھیں گے لیکن جان کچھ نہ سکیں گے۔ آواز تو سنائی دے گی مگر اُس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکے گا۔ چیز کو ہاتھوں سے چُھوا تو جا رہا ہو گا مگر نرم اور سخت چیزوں میں کوئی اِمتیاز نہیں کیا جا سکے گا۔
’حواسِ خمسہ باطنی‘ کی بے بسی
اِس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ علم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ’حواسِ خمسہ باطنی‘ کے محتاج ہیں۔ جب تک حواسِ ظاہری کے مدرِکات اِن پانچوں حواسِ باطنی سے گزر کر ایک صحیح نتیجے تک نہ پہنچیں اُس وقت تک حواسِ ظاہری کے ذریعے محسوس کئے جانے والے تمام مادّی حقائق علم کی شکل اِختیار نہیں کر سکتے۔ گویا حواسِ خمسہ ظاہری کسی شئے کو محسوس تو کرتے ہیں، اُسے معلوم نہیں کر سکتے۔
دُوسری طرف عقل اور اُس کے پانچوں باطنی حواس مکمل طور پر ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ کے محتاج ہیں۔ اگر آنکھ دیکھنے سے، کان سننے سے، ناک سونگھنے سے اور زبان چکھنے سے محروم ہو تو تمام عقلی حواس مل کر بھی کوئی نتیجہ اَخذ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جہاں حواس عقل کے محتاج ہیں وہاں خود عقل بھی حواس کی محتاج ہے۔
اگر کسی بچے کی پرورش کا آغاز اُس کی پیدائش کے معاً بعد ایسے مقام پر کیا جائے جہاں کوئی آواز اُس کے کان میں نہ پڑنے پائے تو وہ پچاس سال کی عمر کو پہنچ جانے پربھی کچھ بول سکے گا اور نہ سمجھ سکے گا۔ وجہ فقط یہ ہے کہ ہم جو کچھ اپنی زبان سے بولتے ہیں یہ دراصل اُن آوازوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو کانوں نے سنیں اور جنہیں عقل نے حافظے میں محفوظ کر لیا۔ جب کوئی شخص اپنے کان سے کچھ سن ہی نہیں سکا اور اُس کی عقل الفاظ، حروف، لہجوں اور آوازوں کو محفوظ ہی نہ کر سکی تو جس طرح اُس کا دِماغ الفاظ کے معاملے میں سفید کاغذ کی طرح کورا رہا اِسی طرح اُس شخص کو اپنی کیفیات، حاجات اور خواہشات کے بیان پر بھی قدرت حاصل نہ ہو سکی۔
اَب یہ طے پا گیا کہ انسانی عقل کی پرواز صرف وہیں تک ہوتی ہے جہاں تک حواس اپنا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ جو حقیقت ہماری باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ اور شامہ قوتوں کی دسترس سے باہر ہو اُس کا اِدراک عقل بھی نہیں کر سکتی۔ حواس کے خام مال کے بغیر عقل ایک عضوِ معطل ہے اور عقل کے بغیر سارے کے سارے حواس عبث و بے کار ہیں۔ پس انسان کو جو ذرائع عطا کئے گئے ہیں، وہ ایک دُوسرے کے محتاج ہیں۔ اس لئے ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ اور ’حواسِ خمسہ باطنی‘ (عقل) کی فعّالیت کے باوُجود اِنسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق اکثر سوالات تشنۂ طلب رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اِنسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اِنسان کو کس نے پیدا کیا؟ اِنسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ آغازِ کائنات کیسے ہوا اور اُس کا اِختتام کیسے اور کب ہو گا؟ اِس کائنات سے اُس کا تعلق کیا ہے؟ اِس کائنات میں زندگی گزارنے کے لئے کون سے قانون کی پاسداری کی جائے؟ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی بری؟ ظلم کیا ہے اور اِنصاف کیا؟ مرنے کے بعد اِنسان کہاں جاتا ہے؟ آیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے یا ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے؟ اگر وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے تو اِس نظامِ زندگی کا مفہوم کیا ہوا اور اگر مرنے کے بعد نئی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اُس کی کیفیت کیا ہے؟ مزید یہ کہ مرنے کے بعد اُس سے کوئی جواب طلبی بھی ہو گی یا نہیں؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو اِنسانی ذِہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس اگر اِنسانی زندگی بامقصد ہے تو اِنسان کو اِن سوالوں کے تسلی بخش جواب چاہئیں۔ جب یہ تمام سوالات اِنسانی عقل پر دستک دیتے ہیں تو اِنسان اُن کے جواب کے لئے اپنی ’آنکھوں‘ کی طرف رُجوع کرتا ہے۔ وہ جواب دیتی ہیں کہ ہم تو خود تیرے باعث معرضِ وجود میں آئی ہیں۔ ۔ ۔ ہم تیری تخلیق سے پہلے کا حال کیونکر جان سکتی ہیں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنے ’کانوں‘ سے پوچھتا ہے۔ ۔ ۔ کان گویا ہوتے ہیں کہ ہمارا وُجود خود تیری ہستی کا رہینِ منت ہے۔ ۔ ۔ جو اشیاء ہمارے دائرۂ اِدراک سے ماوراء ہیں، ہم اُن کا جواب کیسے دے سکتے ہیں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنی ’قوتِ شامہ‘ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ وہ جواب دیتی ہے کہ یہ حقائق سونگھنے سے معلوم نہیں ہوتے۔ ۔ ۔ میں اِن سوالات کا جواب کس طرح دُوں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنی ’قوتِ ذائقہ‘ سے پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ ِان ماورائی حقیقتوں کو چکھا نہیں جا سکتا۔ ۔ ۔ میں بھی مجبور ہوں۔ ۔ ۔ پھر اِنسان اپنی ’قوتِ لامسہ‘ سے سوال کرتا ہے تو وہ جواب دیتی ہیں کہ میں اِن اَحوال کو چھو نہیں سکتی۔ ۔ ۔ اُن کی نسبت کیا بتاؤں۔ ۔ ۔ !
الغرض اِنسان نے ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ میں سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دی۔ ۔ ۔ اُن میں سے ہر ایک سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا خالق کون ہے۔ ۔ ۔ ؟ زِندگی کا مقصد کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ مجھے مرنے کے بعد کہاں جانا ہے۔ ۔ ۔ ؟ اچھائی اور برائی کا معیار کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ مگر اِنسانی حواس اِنتہائی درماندگی کا اِظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حقائق کوئی آواز نہیں کہ ہم سُن کر بتا سکیں، کوئی رنگ نہیں کہ دیکھ کر جواب دے سکیں، مادّی اَجسام نہیں کہ چُھو کر فیصلہ صادِر کر سکیں۔ یوں اِنسانی حواس کی بے بسی اور عاجزی پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے۔ اور جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام حقائق جن سے اِنسان کی اَخلاقی و رُوحانی اور اِعتقادی و نظریاتی زِندگی تشکیل پاتی ہے، وہ پانچوں حواس کی زد سے ماوراء ہیں، تب اِنسان اپنی عقل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اُس کا دامن جھنجھوڑ کر کہتا ہے، اے میرے وُجود کے لئے سرمایۂ اِفتخار چیز!۔ ۔ ۔ میری زندگی کے بنیادی حقائق سے متعلق مجھے تمام حواس نے مایوس کر دیا۔ ۔ ۔ اَب تو ہی اِس سلسلے میں میری رہنمائی کر۔ ۔ ۔ مگر عقل بھی اپنے پانچوں حواسِ باطنی کی بے بسی کا اِظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے اِنسان! میں تو خود تیرے ’حواسِ ظاہری‘ کی محتاج ہوں۔ ۔ ۔ جو چیز حواسِ خمسہ ظاہری کے اِدراک میں نہیں آ سکتی اُس کے متعلق میں کیسے فیصلہ صادِر کر سکتی ہوں!۔ ۔ ۔ اگر ظاہری حواس خاموش ہیں تو میرے باطنی حواس کو بھی بے بس و مجبور سمجھ۔ ۔ ۔ اور یوں اِنسان کے ظاہری و باطنی تمام حواس قطعی طور پر اپنی تنگ دامانی کا اِعتراف کر لیتے ہیں۔
۳۔ اِنسانی قلب کے لطائفِ خمسہ
اِن تمام حواسِ ظاہری و باطنی کے علاوہ بھی اللہ ربُّ العزت نے اِنسان کو ذریعۂ علم کے طور پر ایک اور باطنی سرچشمہ بھی عطا کر رکھا ہے، جسے ’وِجدان‘ ( intuition ) کہتے ہیں۔ ’وِجدان‘ بعض ایسے حقائق کا اِدراک کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے جن میں حواسِ ظاہری و باطنی ناکام رہ جاتے ہیں۔
وِجدان کے بھی پانچ ہی گوشے ہیں جنہیں ’لطائفِ خمسہ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے:
۱ لطیفۂ قلب
۲ لطیفۂ رُوح
۳ لطیفۂ سِرّ
۴ لطیفۂ خفی
۵ لطیفۂ اَخفی
اِن لطائف کے ذریعے اِنسان کے دِل کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے، حقائق سے پردے اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں، رُوح کے کان سننا شروع کر دیتے ہیں اور یوں اِنسانی قلب بعض اَیسی حقیقتوں کا اِدراک کرنے لگتا ہے جو حواس و عقل کی زد میں نہیں آ سکتے لیکن اِنسانی وِجدان کی پرواز بھی محض طبیعی کائنات تک ہی محدُود ہے۔
امام غزالی اِس سلسلے میں اِرشاد فرماتے ہیں:
وَ وراءُ العقل طورٌ أخر، تنفتح فیه عین أُخریٰ، فیبصربها الغیب و ما سیکون فی المستقبل و أُموراً أخر، العقل معزول عنها ۔ (المنقذ من الضلال: ۵۴)
اور عقل کے بعد ایک اور ذریعہ ہے جس میں باطنی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اُس کے ذریعے غیبی (اوجھل اور مخفی) حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو دیکھا جا سکتا ہے اور اُن دیگر اُمور کو بھی جن کے اِدراک سے عقل قاصر رہتی ہے۔
وِجدان طبیعی کائنات کے مخفی حقائق کا اِدراک کرنے پر قادِر ہے لیکن وہ حقائق جو طبیعی کائنات کی وُ سعتوں سے ماوراء ہیں، جو خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہیں اور اِنسانی تخلیق اور اُس کے مقصدِ تخلیق، نیز اُس کی موت اور مابعدالموت سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کے بارے میں حتمی اور قطعی علم کے سلسلے میں وِجدان بھی ’حواس خمسہ ظاہری‘ اور ’عقل‘ کی طرح قاصر ہے۔ اِنسان نے یکے بعد دیگرے تینوں ذرائعِ علم کے دروازوں پر دستک دی، اُن میں سے ایک ایک کو پکارا مگر ہر ایک نے اُسے مایوس کر دیا۔ کوئی بھی ذریعہ اُس کے علم کو حتمیت اور قطعیت نہ دے سکا۔ اب اِنسان خدا کی ذات کو پکارتا اُٹھتا ہے:
اے ربِّ کائنات! میں خود اپنی ذات، اِس کائنات اور تیری ذات کو یقینی طور پر سمجھنا چاہتا ہوں مگر میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو مجھے مطمئن کر سکے۔ اس لئے اس کائنات میں میرے لئے علم کا کوئی ایسا سرچشمہ پیدا کر دے، علم کا کوئی ایسا منبع تخلیق کر دے، جو مجھے اِن حقائق کے بارے میں حقیقی آگہی بخش سکے۔ جہاں تمام حواس ناکام ہو جائیں، وہاں اُسے پکارا جا سکے، جہاں اِنسانی عقل خیرہ ہو جائے وہاں اُس سے مدد کی درخواست کی جا سکے، جہاں اِنسانی وِجدان بھی نامراد لوٹ آئے وہاں اُس سرچشمۂ علم سے فیضان کی بھیک مانگی جائے۔
اِنسانی علوم کی بے بسی اور علمِ نبوّت کی ضرورت
اِنسان جب پوری طرح اپنی علمی بے بسی اور فکری کم مائیگی کا اِعتراف کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ندا آتی ہے: اَے اِنسان!۔ ۔ ۔ تو نے اپنے علم اور اپنے ذرائع کی بے بسی کا اِعتراف کر لیا۔ ۔ ۔ ہم تجھے یہی سمجھانا چاہتے تھے کہ تو کہیں اپنے حواس و عقل اور کشف و وجدان کی بدولت یہ تصوّر نہ کر بیٹھے کہ میرا علم درجۂ کمال کو پہنچ گیا ہے۔۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا علم ابھی کائنات کی حقیقتوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔۔ ۔ ۔ اِسی لئے قرآنِ مجید میں رُوح کی حقیقت پر بحث کے دوران میں اِرشاد فرمایا گیا:
( وَ مَا أُوتِیتُم مِّنَ العِلمِ إِلَّا قَلِیلاً ) )الاسراء،۱۷:۸۵)
اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہےاے اِنسان! تُجھے جس سرچشمۂ علم کی تلاش تھی وہ ہم نے نظامِ نبوّت و رسالت کی صورت میں اِس کائنات میں قائم کر دیا ہے۔ ۔ ۔ جا دروازۂ نبوّت پر دستک دے۔ ۔ ۔ اُسی چوکھٹ سے رہنمائی طلب کر۔ ۔ ۔ علمِ نبوّت کے فیضان سے یہ تمام حقیقتیں بے نقاب ہو جائیں گی۔۔ ۔ ۔ چنانچہ علمِ نبوّت اور ہدایتِ ربانی نے بالآخر اِنسان پر وہ عظیم اِحسان کیا ہے کہ جس کی بدولت اُس کے شعوری، علمی اور فکری اِرتقاء کا سفر اپنی منزلِ مقصود تک جا پہنچا۔ یہ سب کچھ ربوبیتِ اِلٰہیہ کا پرتو تھا، جس نے اِنسان کی جسمانی نشو و نما کے ساتھ ساتھ اُس کی شعوری اور فکری و علمی نشو و نما کا بھی سامان مہیا کر دیا، ورنہ وہ ہمیشہ ہمیشہ حقیقت مطلقہ سے لاعلمی اور جہالت کا شکار رہتا۔ اُسی ربِّ کریم کی شانِ ربوبیت نے اُسے سنبھالا دیا اور اُس کا فکر و شعور اپنے ساحلِ مراد تک پہنچنے کے قابل ہوا۔ اِس آخری ہدایت کے بغیر اِنسانی فکر و شعور ’حسیت‘، ’عقلیت‘ اور ’تشکیک‘ کے بھنوروں سے نکل کر بالآخر ’لااَدریت‘ کے دامن میں اِعترافِ ناکامی کر کے سستانے لگا تھا اور اِس امر کا برملا اِعلان کر رہا تھا کہ ِانسان حقیقتِ علیا ( ultimate reality ) کو نہیں جان سکتا اور حسنِ مطلق ( absolute reality ) کی جلوہ ریزیوں سے شادکام نہیں ہو سکتا کہ اُسے یکایک ندا سنائی دی:۔ ۔ ۔ "لَا تَقنَطُوا مِن رَّحمَۃِ ﷲ" (ﷲ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو)۔۔ ۔ ۔ تمہاری جبلی، طبعی، حسی، عقلی اور قلبی و وِجدانی اِستعداد نے تمہیں جواب نہ دیا تو کیا ہوا، ربِّ کریم کی رحمت کا دروازہ تو بند نہیں ہوا۔ آ ہم تجھ پر اپنی ہدایت کا دروازہ کھولتے ہیں اور وہ ہے "بابِ نبوّت" جس کی دہلیز پر سرِ تسلیم خم کرنے سے تجھے وحیٔ اِلٰہی کے نورِ علم سے یوں سرفراز اور منوّر کیا جائے گا کہ تیرے فکر و شعور کی ساری منزلیں قیامت تک اُسی روشنی میں طے ہوتی رہیں گی۔ اِس فیضانِ نبوت کے ذریعے تیری تمام مایوسیاں ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائیں گی۔ پھر تیرا فکری اِرتقاء اِس ’علم بالوحی‘ کی روشنی میں ہمیشہ صحیح سمت میں اِس طرح جاری رہے گا کہ اُس میں کبھی تعطل نہ آ سکے گا۔
اِنسانی زندگی کا فکری و شعوری اِرتقاء کے سلسلے میں ﷲ ربّ العزت نے حواسِ خمسہ ظاہری، عقل کے حواسِ خمسہ باطنی اور وِجدان کے لطائفِ خمسہ کو پروان چڑھایا اور اُنہیں حقیقت تک پہنچنے کے لئے ذریعہ بنایا۔ تاہم جو حقائق اُن کی حدود سے ماوراء ہیں اُن کے لئے علم بیالوحی کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اُن حقائق سے آگہی کے لئے ﷲ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے اِنسانیت کو ہدایت بخشی۔
باب چہارُم
اِسلام اور طبِ جدید
اِسلام دینِ فطرت ہے۔ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو رُوحانیت کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہماری مادّی فلاح اور بدنی صحت کے لئے بھی ایک بہترین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اِس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اَخلاقی و رُوحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید کا لفظ لفظ حقائق پر مبنی ہے اور اپنے اندر معانی کی لاتعداد وُسعت رکھتا ہے۔ تاہم اُن کے مُشاہدے کے لئے علم اور دانش کی ضرورت ہے۔
اِرشادِ خداوندی ہے:
( هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ اٰیٰتٌ مُّحکَمٰتٌ هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنهُ ابتِغآء الفِتنَةَ وَ ابتِغآء تَأویلِه وَ مَا یَعلَمُ تَأویلَهٓ اِلَّا اللهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ اٰمَنَّا بِه کُلٌّ مِّن عِندِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّا أُولُو الأَلبَابِ)
وُہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازِل فرمائی جس میں سے کچھ آیات محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں، وُہی (اَحکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دُوسری آیات متشابہ (یعنی معنی میں کئی اِحتمال اور اِشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دِلوں میں کجی ہے اُس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِاثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مُراد لینے کی غرض سے، اور اُس کی اصل مُراد کو اللہ کے سِوا کوئی نہیں جانتا اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اُس پر اِیمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے ربّ کی طرف سے اُتری ہے اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے (آل عمران، ۳:۷)
اِس آیتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ربُّ العزت نے قرآنِ حکیم میں دو طرح کی آیات نازِل کی ہیں۔ اوّل محکمات جو اَحکامِ قرانی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ اُن کا مطلب واضح اور مقصدِ نزول عیاں ہے، اُن میں کسی قسم کی تأویل کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ دُوم وہ آیات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متشابہات کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اِن آیات کا تعلق ماورائے عقل حقائق سے ہے اور اِنسان اپنے محدُود علم اور حواس کے ذریعے اُن کا کامل اِدراک نہیں کر سکتا۔ اُن کا صحیح مطلب اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ رَاسِخُونَ فِی العِلمِ یعنی دانشمند لوگ اُن آیات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ رَاسِخُونَ فِی العِلمِ سے وہ لوگ مُراد ہیں جو اپنے علم و فن میں پختہ اور اپنی فیلڈ میں ماہر و کامل اور اسپیشلسٹ ہیں۔ قرآنی علوم کا دائرہ اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ علوم سے وسیع ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ کمال ہے کہ اَحکام و اُصول سے متعلق کوئی بات اُس نے تشنہ یا نامکمل نہیں رہنے دی، قرآنِ مجید بنی نوعِ اِنسان کے لئے ہر علم و فن کا سرچشمہ ہے۔ اِس سلسلے میں قرآنِ مجید کے الفاظ کس قدر واضح ہیں:
( وَ نَزَّلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ تِبیَانًا لِّکُلِّ شَیئ ) ۔ (النحل،۱۶:۸۹)
اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازِل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔
یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ قرآن اور احادیث کے عظیم مجموعے میں ہر علم و فن کے لئے اِشارے موجود ہیں مگر اُنہیں سمجھنے کے لئے عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے۔ اِسلام کی عمومی تعلیمات بنی نوعِ اِنسان کی فلاح کے لئے حفظانِ صحت کے اُصولوں کے عین مطابق ہیں جنہیں قرآنِ مجید اور پیغمبرِ اِسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے وضع فرمایا تھا۔ جدید سائنس اَب کہیں جا کر اُن زرّیں اُصولوں کی اِفادیت سے آگاہ ہوئی ہے جو تاجدارِ کائنات (ص) نے بالکل سادہ اور عام فہم زبان میں اپنی اُمت کو سمجھائے تھے۔
مسلسل طبی تحقیق کی ترغیب
طبی نکتۂ نگاہ سے مسلسل تحقیقات کا جاری رکھنا اور ہر بیماری کا علاج ڈھونڈ نکالنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے۔ ہر بیماری قابلِ علاج ہے۔ اِس حوالے سے تاجدارِ کائنات (ص) کا اِرشادِ گرامی ہے:
ما أنزل ﷲ مِن دآءٍ إلا أنزل له شفآءٌ ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۴۷) (جامع الترمذی، ۲:۲۵)
اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری جس کی شفا نازل نہ فرمائی ہو۔
یہ حدیثِ مبارکہ بنی نوعِ انسان کو ہر مرض کی دوا کے باب میں مسلسل ریسرچ کے پراسس کو جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ تصور کہ بعض بیماریاں کلیتاً لاعلاج ہیں، اِس تصور کو اِسلام نے قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط قرار دیا اور اِس تصور کو اپنانا ریسرچ کے تصور کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی تحقیق سے کسی مرض کا علاج دریافت نہ کر سکنے پر مرض کو ناقابلِ علاج قرار دینا جہالت کی علامت ہے۔
صحت، صفائی اور حفظِ ماتقدّم
اِسلام علاج سے زیادہ حفظانِ صحت اور اِحتیاطی طبی تدابیر پر زور دیتا ہے۔ اِسلام کی جملہ تعلیمات کا آغاز طہارت سے ہوتا ہے اور حفظانِ صحت کے اُصولوں کا پہلا قدم اور پہلا اُصول بھی طہارت ہے۔ طہارت کے بارے میں حضور نبی اکرم(ص) کا فرمان ہے:
الطهورُ شطرُ الإیمانِ ۔ (الصحیح لمسلم،۱:۱۱۸)
صفائی اِیمان کا لازمی جزو ہے۔
اِسلامی تعلیمات میں طہارت کا باب اُن مقامات کی طہارت سے شروع ہوتا ہے جہاں سے فضلات خارج ہوتے ہیں۔ یہ طہارت کا پہلا اُصول ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر شخص سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر طہارت کا کوئی تصور مکمل نہیں ہوتا۔
عن أنس بن مالک یقول: "کان النبی(ص) إذا خرج لحاجته، أجئ أنا و غلام و أداوة من مآء یعنی تستنجی به"
(صحیح البخاری، ۱:۲۷)
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جب نبئ اکرم (ص) رفعِ حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن لے کر حاضرِ بارگاہ ہوتے تاکہ آپ(ص) اس سے اِستنجا فرما لیں۔
آج عالمِ مغرب میں پانی سے طہارت کے اس فطری طریقہ کو چھوڑ کر کاغذ وغیرہ کے استعمال کو رواج مل چکا ہے اور ہمارے ہاں بھی یہ طریقہ پروان چڑھ رہا ہے حالانکہ اِس سے کئی خرابیاں اور قسم قسم کی بیماریاں بھی دَر آئی ہیں۔ عافیت درحقیقت اِسلام ہی کے بیان کردہ اُصولوں میں ہے۔ طبِ جدید کے مطابق جو لوگ رفعِ حاجت کے بعد طہارت کے لئے پانی کی بجائے فقط کاغذ استعمال کرتے ہیں اُنہیں مندرجہ ذیل بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
-۱ Pilonidal Sinus : یہ ایک بال دار پھوڑا ہے جو پاخانے کی جگہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کا علاج آپریشن کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
-۲ Pyelonephritis : پیشاب کے راستوں اور گردوں میں پیپ کا پیدا ہو جانا، بالخصوص عورتوں میں پاخانے کے جراثیم پیشاب کی نالی میں آسانی سے داخل ہو کر سوزش اور پیپ پیدا کر دیتے ہیں اور اس سے آہستہ آہستہ گردوں کی مہلک بیماری لاحق ہو جاتی ہے، جس کا پتہ بعض دفعہ اُس وقت چلتا ہے جب وہ اِنتہائی پیچیدہ صورت اِختیار کر لیتی ہے اور اُس کا علاج صرف آپریشن رہ جاتا ہے۔
وضو سے حفظانِ صحت
نماز ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے، ایک مسلمان جب دن میں پانچ بار اللہ کے حضور نماز ادا کرتا ہے تو وہ اُس سے پہلے وضو کرتا ہے، جس سے اُسے بدنی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو کرنا فرض ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
( فَاغسِلُوا وُجُوهَکُم وَ أَیدیَکُم اِلَی المَرَافِقِ وَ امسَحُوا بِرُئُ وسِکُم وَ أَرجُلَکُم اِلَی الکَعبَینِط ) (المائدہ، ۵:۶)
تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔
وضو حفظانِ صحت کے زرّیں اُصولوں میں سے ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ہوا، زمین اور ہمارے اِستعمال کی ہر چیز پر یہ موذی مسلط ہیں۔ جسمِ انسانی کی حیثیت ایک قلعے کی سی ہے۔ اللہ تعالی نے ہماری جلد کی ساخت کچھ ایسی تدبیر سے بنائی ہے کہ جراثیم اُس میں سے ہمارے بدن میں داخل نہیں ہو سکتے البتہ جلد پر ہو جانے والے زخم اور منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے وضو کے ذریعے نہ صرف اُن سوراخوں کو بلکہ اپنے جسم کے ہر حصے کو جو عام طور پر کپڑوں میں ڈھکا ہوا نہیں ہوتا اور آسانی سے جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے دن میں پانچ بار دھونے کا حکم فرمایا۔ انسانی جسم میں ناک اور منہ ایسے اَعضاء ہیں جن کے ذریعے جراثیم سانس اور کھانے کے ساتھ آسانی سے اِنسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں، لہٰذا گلے کی صفائی کے لئے غرارہ کرنے کا حکم دیا اور ناک کو اندر ہڈی تک گیلا کرنے کا حکم دیا۔ بعض اَوقات جراثیم ناک میں داخل ہو کر اندر کے بالوں سے چمٹ جاتے ہیں اور اگر دن میں پانچ بار اُسے دھونے کا عمل نہ ہو تو ہم صاف ہوا سے بھرپور سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اُس کے بعد چہرے کو تین بار دھونے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ٹھنڈا پانی مسلسل آنکھوں پر پڑتا رہے اور آنکھیں جملہ اَمراض سے محفوظ رہیں۔ اِسی طرح بازو اور پاؤں کے دھونے میں بھی کئی طبی فوائد پنہاں ہیں۔ وضو ہمارے بے شمار اَمراض کا ازخود علاج کر دیتا ہے کہ جن کے پیدا ہونے کا ہمیں اِحساس تک نہیں ہوتا۔ طہارت کے باب میں طبِ جدید جن تصورات کو واضح کرتی ہے اِسلام نے اُنہیں عملاً تصورِ طہارت میں سمو دیا ہے۔
آدابِ طعام اور حفظانِ صحت
بیماری کے جراثیم کھانا کھاتے وقت بآسانی ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے۔ اس میں اشیائے خورد و نوش کے علاوہ ہمارے ہاتھوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے تاجدارِ رحمت(ص) کا ارشادِ گرامی ہے:
برکةُ الطعامِ: الوضوئُ قبله و الوضوئُ بعده ۔
(جامع الترمذی، ۲:۷)
(سنن ابی داؤد، ۲:۱۷۲)
کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے۔
کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھو کر اگر کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کر لیا جائے تو بھی اُس کپڑے کی وساطت سے جراثیم دوبارہ سے ہاتھوں پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اُس تولئے پر پہلے سے کچھ جراثیم موجود ہوں اور ہمارے ہاتھ خشک کرنے کے عمل سے وہ ہمارے صاف ہاتھوں سے چمٹ جائیں اور کھانے کے دوران میں ہمارے جسم میں داخل ہو جائیں۔ اِس بارے میں بھی اِسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔،فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے:
وَ لا یمسح یده قبل الطعام بالمندیل لیکون أثر الغسل باقیاً وقت الأکل ۔(الفتاویٰ الہندیہ، ۱۶:۳۲)
کھانے سے پہلے دھوئے ہاتھ کسی کپڑے سے مت خشک کرو تاکہ ہاتھوں کی صفائی کھانے کے دوران قائم رہ سکے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس سے تاجدارِ کائنات (ص) کی حدیثِ مبارکہ مروی ہے، جس میں آپ(ص) نے فرمایا:
إذا أکل أحدکم فلا یمسح یده حتیٰ یَلعقها أو یُلعقها ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۲۰)
جب تم میں سے کوئی کھانا کھا لے تو اپنے ہاتھوں کو چاٹنے سے قبل نہ پونچھے۔
تاجدارِ کائنات (ص) کا اپنا معمول بھی یہی تھا:
کان النبی(ص) یأکل بثلاثِ أصابعٍ و لا یمسح یده حتٰی یلعقها ۔ (سنن الدارمی، ۲:۲۴)
نبی علیہ الصلوۃ والسلام تین اُنگلیوں سے کھاتے تھے اور (کھانے کے بعد) اُنگلیوں کو چاٹے بغیر ہاتھ صاف نہیں فرماتے تھے۔
کھانے کے بعد ہاتھوں کو ضرور دھونا چاہئے مبادا خوراک کے ذرّات کسی اذیت کا باعث بنیں۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر سو جانے سے حضور(ص) نے سختی سے منع فرمایا۔
اِرشادِ نبوی ہے:
مَن نام فی یده غمر و لم یغسله فأصابه شئ فلا یلومنّ إلا نفسه ۔(سنن ابی داؤد، ۲:۱۸۲)
اگر کسی شخص کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہو اور وہ اُسی حال میں اُسے دھوئے بغیر سو جائے جس سے اُسے کچھ نقصان
پہنچے تو وہ اپنے آپ کو ہی برا کہے (یعنی اپنا ہی قصور سمجھے کہ ہاتھ دھو کر نہ سویا تھا)۔
اِسی طرح حضورِ اکرم(ص) کا اِرشاد گرامی ہے کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب تک ہاتھ دھو نہ لئے جائیں برتن میں نہیں ڈالنے چاہئیں:
إذا استیقظ أحدکم من نومه فلا یغمس یدَه فی الإنائِ حتی یغسلها ثلاثًا، فإنّه لا یدری أین باتت یده ۔ (الصحیح لمسلم، ۱:۱۳۶)
جب تم میں سے کوئی شخص بیدار ہو تو اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری، (یعنی نیند کی حالت میں کہاں لگتے رہے)۔
برتن میں سانس لینے کی ممانعت
حفظانِ صحت کے نقطۂ نظر سے اَشیائے خورد و نوش کو کامل اِحتیاط سے رکھنا چاہئے اور اگر وہ کھلے برتن میں ہوں تو اُنہیں ڈھانپ دینا چاہئے تاکہ اُن میں ایسے جراثیم داخل نہ ہو سکیں جو صحتِ انسانی کے لئے مضر ہوں۔ اِسی طرح برتن میں سانس لینے سے بھی جراثیم اُس میں منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مبادا سانس لینے والا مریض ہو اور اُس کے جراثیم بعد میں پینے والوں کے جسم میں بھی چلے جائیں۔
تاجدارِ کائنات (ص) کا اِرشاد ہے:
عن عبد ﷲ بن أبی قتادة عن أبیه، قال، قال رسول ﷲ(ص): "إذا شرب أحدُکم فلا تنفّس فی الانآء "۔(صحیح البخاری، ۲:۸۴۱)
عبداللہ بن أبی قتادہ، اپنے والد سے رِوایت کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔"
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا گیا:
عن ابن عباس، قال: "نهٰی رسولُ اللهِ(ص) أن یتنفّس فی الإناء أو یُنفخ فیه ۔(جامع الترمذی، ۲:۱۱) (سنن أبی داؤد، ۲:۱۶۸)
سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم (ص) نے برتن میں سانس لینے اور اُس میں پھونکنے سے منع فرمایا ہے۔
تاجدارِ کائنات (ص) کا اپنا معمولِ مبارک بھی یہی تھا کہ آپ کھانے پینے کی اَشیاء میں کبھی سانس لیتے اور نہ اُنہیں ٹھنڈا کرنے کے لئے پھونک مارتے تاکہ اُمت کو بھی اِس کی تعلیم ہو۔
سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
لم یکن رسول ﷲ(ص) ینفخ فی طعام و لا شراب و لا یتنفّس فی الإناءِ ۔
رسولِ اکرم(ص) کسی کھانے کی چیز میں پھونک مارتے تھے اور نہ پینے کی چیز میں اور برتن میں سانس بھی نہیں لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ : ۲۴۴)
طبِ جدید کے مطابق بھی کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک نہیں مارنی چاہئے کیونکہ اس سے بیماری کے جراثیم اَشیائے خورد و نوش میں منتقل ہو سکتے ہیں جو بعد ازاں کسی دُوسرے کھانے والے کو بیمار کر سکتے ہیں۔ آنحضرت(ص) نے بہت پہلے یہ باتیں فرما دی تھیں۔
متعدّی اَمراض سے حفاظت
وہ اَمراض جو متعدی ہیں اور اُن کے جراثیم تیزی سے ایک اِنسان سے دُوسرے کی طرف منتقل ہوتے ہیں، اُن سے بچاؤ کے لئے اِسلام نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ طاعون ایک نہایت موذی بیماری ہے۔ آج اگرچہ اُس پر قابو پایا جا چکا ہے مگر کچھ عرصہ قبل تک یہ شہروں کے شہر ویران کر دیا کرتا تھا۔ کوئی گھر ایسا نہ بچتا جس میں صفِ ماتم نہ بچھتی تھی۔ طاعون سے بچاؤ کے لئے تاجدارِ حکمت نے کچھ ایسے خاص اَحکام بیان فرمائے جو عام بیماریوں کے لئے نہیں۔
تاجدارِ کائنات (ص) نے فرمایا:
إذا سمعتم بالطاعونِ بأرضٍ فلا تدخلوها، و إذا وقع بأرضٍ و أنتم بها فلا تخرجوا منها ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۵۳)
جب تمہیں پتہ چلے کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہیں ہو تو اُس علاقے کو چھوڑ کر مت بھاگو۔
گویا آپ نے نہ صرف ایسے شہر سے باہر کے لوگوں کو طاعون سے بچانے کے لئے وہاں جانے سے منع فرمایا بلکہ اُس شہر کے لوگوں کو وہاں سے نکلنے سے منع کر کے آس پاس کے شہروں کو بھی طاعون سے محفوظ فرما دیا مبادا وہاں سے لوگ ہر طرف بھاگ نکلیں اور یہ مرض آس پاس کے تمام شہروں میں پھیل جائے۔
دانتوں اور منہ کی صفائی
دانتوں کی صفائی کے بارے میں تاجدارِ حکمت و بصیرت(ص) کا ارشادِ مبارکہ ہے:
طهّروا أفوَاهَکم ۔ (سلسۃ الأحادیث الصحیۃ للألبانی، ۳:۲۱۵)
اپنا منہ صاف رکھو۔
طبی نقطۂ نظر سے دانتوں کی صفائی جہاں دانتوں کو بہت سی خرابیوں سے محفوظ رکھتی ہے وہاں اَمراضِ معدہ کے سدِباب کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ تاجدارِ کائنات (ص) نے دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیا۔
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:
لو لا أَن أشقّ علیٰ أمتی لأمرتُهم بالسّواک مع کلّ صلوةٍ ۔ (صحیح البخاری، ۱:۱۲۲) (سنن النسائی، ۱:۶)
اگر میں اپنی اُمت پر باعثِ دُشواری نہ سمجھتا تو اُنہیں ہر نماز میں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔
حضور(ص) مداومت کے ساتھ مسواک فرمایا کرتے تھے۔ آپ مسواک ہمیشہ اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر کی طرف فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے آجکل تجویز کیا جاتا ہے۔
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضور(ص) کس میڈیکل کالج میں پڑھے، اللہ ربّ العزت تو خود حضور(ص) کو اُمی کہہ رہا ہے۔ تاجدارِ حکمت(ص) کی ذاتِ پاک کی تعلیم کا مبدا اور سرچشمہ اللہ کی ذات تھی۔ آقا علیہ الصلوۃُ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے وہ اُصول جو آج اپنے گوناگوں فوائد کے ساتھ منظرِعام پر آ رہے ہیں، آپ نے آج سے چودہ صدیاں قبل بغیر کسی کالج/یونیورسٹی کی تعلیم کے بیان فرما دیئے۔ ایسے میں ہماری نگاہیں اُس عظیم حق کے سامنے کیوں نہ جھکیں، ہم یہ کیوں نہ تسلیم کریں کہ سرکار کا ہر فرمان حق اور درُست ہے۔ دانتوں کی صفائی کے سلسلے میں کھانے کے بعد دانتوں میں خلال کرنا بھی سنتِ نبوی (ص) ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام کا اِرشاد ہے:
مَن أکل فلیتخلّل ۔ (سنن الدارمی، ۲:۳۵)
جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہئے۔
دانتوں کے تمام ڈاکٹر بھی معیاری ٹوتھ پکس کے ساتھ خلال کو ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ اُس سے دانتوں کے درمیان پھنسے کھانے کے چھوٹے ذرّات نکل جاتے ہیں، جس سے بندہ منہ اور معدہ کے بہت سے اَمراض سے محفوظ رہتا ہے۔ حضور(ص) نے خلال کرنے کی تعلیم دے کر اُمت کو بہت سے ممکنہ اَمراض سے محفوظ فرما دیا۔
نماز کے طبی فوائد
نماز اَرکانِ اِسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد سب سے بڑا رُکن ہے۔ اللہ اور اُس کے رسول(ص) نے اِسے اِیمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات اپنی جگہ مسلّم ہیں، سرِدست چونکہ ہمارا موضوع طبی تحقیقات کے اِرتقاء میں اِسلام کا کردار ہے اِس لئے یہاں ہم اِسی موضوع کو زیرِبحث لائیں گے۔ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ فزیو تھراپی کے ماہر ( physiotherapists ) کہتے ہیں کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی عبادت کے طور پر وہ عمل عطا کیا کہ جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی غالباً تمام صورتیں بہتر صورت میں پائی جاتی ہیں۔
ایک مؤمن کی نماز جہاں اُسے مکمل رُوحانی و جسمانی منافع کا پیکیج مہیا کرتی ہے وہاں منافقوں کی علامات میں ایک علامت اُن کی نماز میں سستی و کاہلی بھی بیان کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( وَ إِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوا کُسَالٰی ) ۔(النساء ۴:۱۴۲)
اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سُستی کے ساتھ کھڑے (ہوتے ہیں)۔
تعدیلِ اَرکان کے بغیر ڈھیلے ڈھالے طریقے پر نماز پڑھنے کا کوئی رُوحانی فائدہ ہے اور نہ طبی و جسمانی، جبکہ درُست طریقے سے نماز کی ادائیگی کولیسٹرول لیول کو اعتدال میں رکھنے کا ایک مستقل اور متوازن ذریعہ ہے۔
قرآنی اَحکامات کی مزید توضیح سرکارِ مدینہ(ص) کی اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے:
فإنّ فی الصلٰوةِ شِفاءٌ ۔ (سنن ابن ماجہ:۲۲۵)
بیشک نماز میں شفاء ہے۔
جدید سائنسی پیش رفت کے مطابق وہ چربی جو شریانوں میں جم جاتی ہے رفتہ رفتہ ہماری شریانوں کو تنگ کر دیتی ہے اور اُس کے نتیجہ میں بلڈ پریشر، اَمراضِ قلب اور فالج جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
عام طور پر اِنسانی بدن میں کولیسٹرول کی مقدار ۱۵۰ سے ۲۵۰ ملی گرام کے درمیان ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں اس کی مقدار اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کولیسٹرول کو جمنے سے پہلے تحلیل کرنے کا ایک سادہ اور فطری طریقہ اللہ تعالیٰ نے نمازِ پنجگانہ کی صورت میں عطا کیا ہے۔ دن بھر میں ایک مسلمان پر فرض کی گئی پانچ نمازوں میں سے تین یعنی فجر (صبح)، عصر (سہ پہر) اور مغرب (غروب آفتاب) ایسے اوقات میں ادا کی جاتی ہیں جب انسانی معدہ عام طور پر خالی ہوتا ہے، چنانچہ ان نمازوں کی رکعات کم رکھی گئیں۔ جبکہ دُوسری طرف نمازِ ظہر اور نمازِ عشاء عام طور پر کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہیں اِس لئے اُن کی رکعتیں بالترتیب بارہ اور سترہ رکھیں تاکہ کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کو حل کیا جائے۔ رمضانُ المبارک میں اِفطار کے بعد عام طور پر کھانے اور مشروبات کی نسبتاً زیادہ مقدار کے اِستعمال کی وجہ سے بدن میں کولیسٹرول کی مقدار عام دنوں سے غیر معمولی حد تک بڑھ جاتی ہے اِس لئے عشاء کی سترہ رکعات کے ساتھ بیس رکعات نمازِ تراویح بھی رکھی۔
نماز کے ذریعے کولیسٹرول لیول کو اِعتدال میں رکھنے کی حکمت دورِ جدید کی تحقیقات ہی کے ذریعے سامنے نہیں آئی بلکہ اِس بارے میں تاجدارِ حکمت (ص) کی حدیثِ مبارکہ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
حضور(ص) نے اِرشاد فرمایا:
أذِیبوا طعامَکم بذکرِ اللهِ وَ الصلٰوةِ (المعجم ا لأوسط،۵:۵۰۰، رقم:۴۹۴۹) (مجمع الزوائد،۵:۳۰)
اپنی خوراک کے کولیسٹرول کو اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی سے حل کرو۔
اگر ہم رسولِ اکرم (ص) کے اِرشاد اور عمل کے مطابق صحیح طریق پر پنج وقتی نماز ادا کریں تو جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جس کی اَحسن طریقے سے ہلکی پھلکی ورزش نہ ہو جائے۔ نماز کی مختلف حالتوں میں جو ورزش ہوتی ہے اُس کی تفصیل درج ذیل ہے:
تکبیرِ تحریمہ
تکبیرِ تحریمہ کے دوران نیت باندھتے وقت کہنی کے سامنے کے عضلات اور کندھے کے جوڑوں کے عضلات حصہ لیتے ہیں۔
قیام
ہاتھ باندھتے وقت کہنی کے آگے کھنچنے والے پٹھے اور کلائی کے آگے اور پیچھے کھنچنے والے پٹھے حصہ لیتے ہیں جبکہ جسم کے باقی پٹھے سیدھا کھڑے ہونے کی وجہ سے اپنا معمول کا کام ادا کرتے ہیں۔
رُکوع
رکوع کی حالت میں جسم کے تمام پٹھے ورزش میں حصہ لیتے ہیں۔ اُس میں کولہے کے جوڑ پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ گھٹنے کے جوڑ سیدھی حالت میں ہوتے ہیں۔ کہنیاں سیدھی کھنچی ہوئی ہوتی ہیں اور کلائی بھی سیدھی ہوتی ہے جبکہ پیٹ اور کمر کے پٹھے، جھکے اور سیدھے ہوتے وقت کام کرتے ہیں۔
سجدہ
سجدے میں کولہوں، گھٹنوں، ٹخنوں اور کہنیوں پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ ٹانگوں و رانوں کے پیچھے کے پٹھے اور کمر و پیٹ کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں اور کندھے کے جوڑ کے پٹھے اس کو باہر کی طرف کھینچتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کلائی کے پیچھے کے عضلات بھی کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ سجدے میں مردوں کے برخلاف عورتوں کے لئے گھٹنوں کو چھاتی سے لگانا احسن ہے یہ بچہ دانی کے پیچھے گرنے کے عارضے کا بہترین علاج ہے۔ سجدہ دل و دماغ کو خون کی فراہمی کے لئے نہایت ہی موزوں عمل ہے۔
تشہّد
التحیات کی صورت میں گھنٹے اور کولہے پر جھکاؤ ہوتا ہے، ٹخنے اور پاؤں کے عضلات پیچھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں، کمر اور گردن کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔
سلام
سلام پھیرتے وقت گردن کے دائیں اور بائیں طرف کے پٹھے کام کرتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ سنتِ نبوی کی پیروی میں درُست طریقے سے نماز ادا کرنے کی صورت میں اِنسانی بدن کا ہر عضو ایک قسم کی ہلکی پھلکی ورزش میں حصہ لیتا ہے جو اُس کی عمومی صحت کے لئے مفید ہے۔
کم خوری اور متوازن غذا
طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب دل کے اَمراض سے بچاؤ میں بہت مُمِد ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔
ایک وقت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھا جانا یا ہر روز بھاری ناشتہ کرنا یا روزانہ دوپہر کا بھرپور کھانا، شام کا بھرپور کھانا، اچھی صحت کے لئے ضروری خوراک سے کافی زیادہ ہے۔ روزانہ دن میں تین وقت کا بھرپور کھانا، خاص طور پر زیادہ کیلوریز پر مشتمل خوراک اور سیرشدہ چکنائیاں نہ صرف صحت کے لئے سخت نقصان دِہ ہیں بلکہ اَمراضِ قلب اور دُوسری بہت سی خطرناک بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا سبب بھی بنتا ہے۔
قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( کُلُوا وَ اشرَبُوا وَ لَا تُسرِفُوا إِنَّه لَا یُحِبُّ المُسرِفِینَ ) (الاعراف، ۷:۳۱)
کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاقرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم (ص) نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے:
إنّ المؤمنَ یأکلُ فی معیٍ واحدٍ، وَ الکافر یأکلُ فی سبعة أمعاء ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۱۲) (جامع الترمذی، ۲:۴) (سنن الدارمی،۲:۲۵)
مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
إنّ اللهَ یبغض الأ کلَ فوق شبعه ۔(کنزالعمال: ۴۴۰۲۹)
اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
بسیار خوری بیماری کی جڑ ہے اِس لئے اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔ تاجدارِ حکمت (ص) کا فرمان ہے:
أکثر الناسِ شبعاً فی الدُّنیا أطولهم جوعاً یومَ القیامةِ ۔ (سنن ابن ماجہ :۲۴۸)
جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔
اِسی طرح نبی اکرم(ص) نے مزید اِرشاد فرمایا:
حسب الآٰدمی لقیمات، یقمن صلبہ، فإن غلبت الآٰدمی نفسہ فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس۔
اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک تہائی سانس لینے میں آسانی کے لئے چھوڑ دو۔ (سنن ابن ماجہ :۲۴۸)
کثرتِ طعام ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار ایسا ہونے سے لبلبے کے خلئے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی کمی کا ایک بڑا سبب بسیار خوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔
مجوزّہ غذائیں
اچھی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بنیادی شے خوراک کی مقدار نہیں بلکہ ایسی خوراک کا چناؤ ہے جو متوازن ہو اور تمام جسمانی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کر سکے۔ کھانا کھاتے وقت اگر ہم اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں تو بہت سے اَمراض سے بچ سکتے ہیں۔ حلال غذائیں یوں تو بے شمار ہیں مگر اُن میں چند ایک ہی ایسی ہیں جن کی ترغیب قرآن و سنت سے ملتی ہے اور وُہی غذائیں اِنسانی جسم کے لئے حیرت انگیز حد تک مفید ہیں۔
عام آدمی کو روزانہ جتنی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے:
حرارے ( calories )
۲۹۰۰ کیلوریز عام اوسط مردوں کیلئے، ۲۲۰۰ کیلوریز اوسط خواتین کے لئے
نشاستہ ( carbohydrates )
۴۰۰ گرام
نمکیات ( minerals )
سوڈیم کلورائیڈ، کیلشیم، پوٹاشیم، آئرن، سلفر، فاسفورس، اور آیوڈین کی شکل میں۔
لحمیات ( proteins )
کم از کم ۴۵ گرام
حیاتین ( Vitamins )
وٹامن A ، وٹامن B۱ ، B۲ ، B۶ ، B۱۲ ، وٹامن C ، وٹامن D اور وٹامن E
چکنائیاں ( fats )
صرف اتنی مقدار جتنی توانائی کے لئے جلائی جا سکے
پانی ( water )
خالص اور جراثیم سے پاک، یہ جسم کے ۶۶[ L: ۳۷ ] حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ویسے تو تمام حلال غذائیں اِستعمال کرنا جائز ہے مگر قرآن و سنت کی تعلیمات ہمیں بعض غذاؤں سے متعلق خاص ہدایات دیتی دِکھائی دیتی ہیں۔
گوشت ( Meat )
گوشت اِنسانی خوراک کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ بعض جانوروں کا گوشت عام انسانی صحت کے لئے مفید ہے جبکہ دوسرے بعض جانوروں کا گوشت کچھ مضر ہے۔ دیگر جانوروں کا گوشت مکمل طور پر نقصان دہ بھی ہے۔ جن جانوروں کا گوشت کسی طور پر انسان کے لئے مناسب نہیں شریعت نے اُنہیں حرام قرار دیا ہے۔ جن کا گوشت قدرے غیرمفید ہے اُن کا اِستعمال اگرچہ روا رکھا ہے مگر اُسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ جو جانور اپنے گوشت میں مضرات نہیں رکھتے اور صحتِ اِنسانی کے لئے مفید ہیں اُن کا گوشت کھانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ شریعتِ مطہرہ میں چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے گوشت کو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن سفید گوشت (یعنی مچھلی اور پرندوں وغیرہ کے گوشت) کو ترجیح دی گئی ہے اُس میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے اور اِس طرح وہ دِل کے لئے کسی نقصان کا باعث نہیں بنتا۔
گائے کا گوشت ( Beef )
پیارے نبی(ص) نے سرخ گوشت کے بارے میں اِرشاد فرمایا ہے:
علیکم بألبانِ البقر فإنّها شفاءٌ، و سمنها دواءٌ و لحومها داءٌ ۔ (زاد المعاد، ۴:۳۲۴) (المستدرک للحاکم،۴:۱۰۴،۱۹۷)
گائے کا دودھ شفا ہے، اُس کے مکھن میں طبی فوائد ہیں، جبکہ اُس کے گوشت میں بیماری ہے۔
گائے کا گوشت جسے سرخ گوشت بھی کہتے ہیں اُس میں کولیسٹرول کی بہت بڑی مقدار ہوتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے نبی اکرم(ص) کے اِرشاد کی مزید تصدیق کر دی ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ گائے کے گوشت میں ایک جرثومہ taenia saginate پایا جاتا ہے جو پیٹ کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اَحادیثِ مبارکہ میں اُس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
۱۰۰گرام گائے کے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی یہ مقدار پائی جاتی ہے:
-۱ پکے ہوئے قیمے میں ۲۲۹ حرارے ۱۵.۲ گرام چکنائیاں
-۲ پشت کے بھنے ہوئے ٹکڑے میں ۲۴۶ حرارے ۱۴.۶ گرام چکنائیاں
-۳ کباب میں ۲۱۸ حرارے ۱۲.۱ گرام چکنائیاں
-۴ روسٹ کئے ہوئے پٹھہ میں ۲۸۴ حرارے ۲۱.۱ گرام چکنائیاں
چھوٹا گوشت ( Mutton )
اِس میں بھی بہت زیادہ چکنائی ہوتی ہے، درج ذیل جدول میں دیکھئے کہ ۱۰۰ گرام چھوٹے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی مقدار یوں ہے:
-۱ ٹانگ کا بھنا ہوا گوشت ۲۶۶ حرارے ۱۷.۹ گرام چکنائیاں
-۲ پشت کا بھنا ہوا گوشت ۳۵۵ حرارے ۲۹ گرام چکنائیاں
-۳ کباب (چربی کے بغیر گوشت) ۲۲۲ حرارے ۱۲.۳ گرام چکنائیاں
-۴ بھنا ہوا چربی کے بغیر گوشت ۱۹۱ حرارے ۸.۱ گرام چکنائیاں
چھوٹے گوشت میں گردن ایک ایسا عضو ہے جس میں چکنائی کی مقدار باقی بدن کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔ اسی لئے اس میں کچھ زیادہ کولیسٹرول نہیں ہوتا۔ چنانچہ نبی اکرم (ص) نے چھوٹے گوشت میں سے گردن کے گوشت کو تجویز کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
و کان أحبّ الشاةِ إلٰی رسول ﷲ (ص) مقدّمها و کل ما علا منه سوی الرأس کان أخفّ و أجود مما سفل ۔
(زاد المعاد، ۴:۳۷۳)
رسول اللہ (ص) کو بکری میں سب سے زیادہ اگلے حصے (گرد)ن کا گوشت پسند تھا اور جو کچھ سر کے علاوہ اگلے بدن میں ہے کیونکہ یہ حصہ خفیف (بوجھل پن سے پاک) ہوتا ہے اور پچھلے حصے کی نسبت عمدہ ہوتا ہے۔
ماہرینِ غذا نے بھی بغیر چربی کے گوشت ( lean ) کو بہترین قرار دیا ہے کیونکہ اُس میں سیرشدہ چکنائی نسبتاً کم ہوتی ہے۔
سفید گوشت ( White meat )
مچھلی اور پرندوں کے گوشت میں چونکہ نسبتاً کم چکنائی ہوتی ہے اِس لئے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں اُس کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآنِ مجید نے پرندوں کے گوشت کو "جنت کی خوراک" قرار دیا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ( لَحمِ طَیرٍ مِّمَّا یَشتَهُونَ ) (الواقعہ، ۵۶:۲۱)
اور اُنہیں پرندوں کا گوشت ملے گا، جتنا وہ چاہیں گےعلاوہ ازیں نبی مکرم(ص) نے گوناگوں غذائی اور طبی فوائد کی بنا پر ہی مچھلی کے گوشت کی خاص طور پر اِجازت عطا کی۔ سفید مچھلی میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے جبکہ تیل والی مچھلی میں غیرسیرشدہ چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ کولیسٹرول کے تناسب کو خود بخود کم کر دیتی ہے۔ اِس لئے اُس کا اِستعمال بھی اِنسانی صحت کے لئے مفید ہے۔
انجیر اور زیتون ( Fig / Olive )
قرآنِ مجید میں انجیر اور زیتون کی اہمیت کو اللہ ربّ العزت نے قسم کھا کر اُجاگر کیا ہے، فرمایا:
( وَ التِّینِ وَ الزَّیتُونِ ) (التین، ۹۵:۱)
انجیر اور زیتون کی قسمانجیر سے کیلشیم، فاسفورس اور فولاد کے ضروری اجزاء کی بڑی مقدار حاصل ہوتی ہے لیکن اُس کی زیادہ مقدار ریشے ( fibre )میں پائی جاتی ہے۔ یہ پھیپھڑوں اور چھاتی کو طاقت بخشتا ہے اور ذہنی و قلبی امراض کے علاج میں مدد دیتا ہے۔ چونکہ اُس میں ریشے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اِس لئے غیرسیرشدہ چکنائی ہونے کے ناطے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کا اِستعمال دل کے مریض کے لئے بہت مفید ہے۔
قرآنی پھل ہونے کے ناطے زیتون بہت سے اَمراض میں مفید ہے۔ جو لوگ اپنی روزانہ خوراک میں کولیسٹرول کی کمی کرنا چاہتے ہیں اُن کے لئے زیتون کا تیل گھی کا بہترین متبادل ہے۔
۱۰۰ گرام زیتون ان اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:
کیلوریز ۸۲
پروٹین ۰.۷ گرام
سیرشدہ چکنائیاں ۱.۲ گرام
غیر سیرشدہ چکنائیاں ۱.۰ گرام
غذائی ریشہ ۳۵گرام
مکمل چکنائی ۸.۸گرام
جبکہ اِس میں کولیسٹرول کی مقدار صفر ہوتی ہے۔
چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد آج کی جدید طب کی تحقیق یہ ہے کہ جمنے والی چیزوں بناسپتی گھی وغیرہ کو چھوڑ کر اُس کی جگہ تیل کو اِستعمال میں لایا جائے تاکہ اِنسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار مقررّہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ اُن محققین و ماہرینِ طب کی نظر سے آقائے دوجہاں(ص) کے فرمودات و اِرشادات کا یہ رُخ گزرے تو اُنہیں اِسلام کی حقانیت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے چودہ سو سال قبل زیتون کی اِفادیت کا اِعلان فرما دیا تھا۔ آج زیتون کی یہ تحقیق ثابت ہو چکی کہ اَمراضِ قلب، انجائنا، بلڈپریشر اور اَمراضِ سینہ وغیرہ میں زیتون کا تیل نہایت مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں دل کے اَمراض باقی دُنیا کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہاں کے باشندے گھی اور مکھن جیسی چکنائیوں کی بجائے زیتون کا تیل کثرت سے اِستعمال کرتے ہیں۔
یہاں تاجدارِ رحمت و حکمت(ص) کا یہ فرمان خاص طور پر قابلِ توجہ ہے:
إنّ عمر بن الخطاب قال، قال رسول ﷲ (ص): "کلوا الزیت وَ ادّهنُوا به، فإنّه مِن شجرةٍ مبارکةٍ ۔ (جامع الترمذی، ۲:۶)
حضرت عمر بن خطاب روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم (ص) نے فرمایا: "تم روغنِ زیتون کو کھاؤ اور اُس کا بدن پر بیرونی اِستعمال بھی کرو کیونکہ وہ مبارک درخت سے ہے"۔
شہد ( Honey )
شہد حفظانِ صحت کے لئے بہترین ٹانک ہے۔ قدرت نے اُس میں اِنسانی جسم کی تمام ضروریات و مقتضیات کو یکجا کر دیا ہے۔ شہد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہے:
فِیهِ شِفآء لِّلنَّاسِ ۔ (النحل، ۱۶:۴۹)
اُس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔
اِس ضمن میں رسولِ اکرم(ص) کا اِرشاد ِگرامی ہے:
علیکم بالشفائین، العسل و القرآن ۔
دو چیزیں شفا کے لئے بہت ضروری ہیں: (کتابوں میں) قرآن اور (اشیائے خوردنی میں) شہد۔ (سنن ابن ماجہ :۲۵۵)
شہد نہ صرف حفظانِ صحت کے لئے مفید ہے بلکہ اُس میں بہت سی بیماریوں کا علاج بھی پایا جاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ایک بیمار صحابی کا واقعہ بھی مذکور ہے جو نہایت موذی مرض میں مبتلا تھے اور اُنہیں شہد ہی سے اِفاقہ ہوا۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ یوں ہیں:
عن أبی سعید، قال: جآء رجل إلی النبی(ص)، فقال: "إن أخی إستطلق بطنه"، فقال: "اسقه عسلاً"، فسقاه، ثمّ جآء، فقال: "یارسولَ ﷲ! قد سقیتُه عسلاً فلم یزده إلا إستطلاقًا"، فقال رسول ﷲ(ص): "اسقه عسلاً"، قال فسقاه، ثم جآء، فقال: "یارسول ﷲ! إنی قد سقیتُه فلم یزده إلا إستطلاقا"، قال: فقال رسول ﷲ(ص): "صدق ﷲ و کذب بطن أخیک، اسقه عسلاً"، فسقاهُ فبرأ ۔
ابو سعید خدری روایت کرتے ہیںکہ حضور اکرم (ص) کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اُس کے بھائی کو اِسہال لگے ہوئے ہیں۔ آپ(ص) نے اُس کے لئے شہد تجویز فرمایا۔ اُس شخص نے واپس آ کر بتایا کہ اِسہال زیادہ ہو گئے ہیں، آپ(ص) نے فرمایا: "اُسے پھر شہد دو"۔ اِس طرح اُس بیمار کو تین مرتبہ شہد دیا گیا۔ چوتھی مرتبہ حضور(ص) کو بتایا گیا کہ آرام نہیں آیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ خداوند تعالی نے شہد کے متعلق جو فرمایا ہے وہ درُست ہے لیکن تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ چنانچہ بیمار کو پھر شہد دیا گیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ (جامع الترمذی، ۲:۲۹)
شہد کے اجزاء
امریکہ کے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے بہت بڑے کیمسٹ ’ڈاکٹر سی اے براؤن‘ نے شہد میں موجود مندرجہ ذیل غذائی اَجزاء معلوم کئے ہیں:
۱۔ پھلوں کی شکر ۴۰ سے ۵۰ فیصد
۲۔ انگور کی شکر ۳۴.۲ فیصد
۳۔ گنے کی شکر ۱,۹ فیصد
۴۔ پانی ۱۷.۷ فیصد
۵۔ گوند وغیرہ ۱.۵ فیصد
۶۔ معدنیات ۰.۱۸ فیصد
شہد میں فولاد، تانبہ، میگنیز، کلورین، کیلشئم، پوٹاشیم، سوڈیم، فاسفورس، گندھک، ایلومینیم اور میگنیشئم بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے سائنسدان کھلاڑیوں پر تجربات کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شہد کو عام قسم کی شکر پر مندرجہ ذیل فوقیتیں حاصل ہیں:
-۱ شہد معدے اور انتڑیوں کی جھلی میں خراش پیدا نہیں ہونے دیتا۔
-۲ یہ زُود ہضم ہے۔
-۳ اِس کا گُردوں پر کوئی مضر اثر نہیں ہے۔
-۴ یہ اَعصابِ ہضم پر بغیر بوجھ ڈالے حراروں کا بہترین سرچشمہ ہے۔
-۵ شہد تھکاوٹ کو بہت جلد دُور کرتا ہے اور اُسے باقاعدہ اِستعمال کرنے والا جلدی نہیں تھکتا۔
-۶ یہ کسی حد تک قبض کشا بھی ہے۔
انگور ( Grapes )
قرآن اسے "جنت کا پھل" کہتے ہوئے اس کے استعمال کی یوں ترغیب دیتا ہے:
( حَدآءقَ وَ أَعنَابًا ) (النباء، ۷۸:۳۲)
(وہاں اُن کے لئے) باغات اور انگور (ہوں گے)حالیہ طبی تحقیق کے مطابق انگور کاربوہائیڈریٹس، فاسفورس، پوٹاشیم، کیلشیم اور خاص طور پر وٹامن اے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے دل، جگر اور معدے کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ یہ خاص طور پر دل و دماغ کی مختلف بیماریوں اور انتڑیوں کی بیماریوں میں بہت سودمند ہے۔
لہسن ( Garlic )
قرآنِ حکیم نے سورۂ بقرہ میں لہسن کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے:
( وَ فُومِهَا ) ۔ (البقرہ، ۲:۶۱)
اور اُس (زمین )کا لہسن۔
لہسن ایک ایسا مصالحہ ہے جو دل، دماغ، آنکھوں اور جسم کے دُوسرے حصوں کو طاقت دیتا ہے اور خاص طور پر جسم کو نقصان پہنچانے والے جراثیموں کو مارنے کے لئے جسم میں قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ جدید طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ لہسن فالج، دمہ، ٹی بی اور جوڑوں کے درد میں بھی بہت مفید ہے۔ علاوہ ازیں اس میں جراثیم کش ( antiseptic ) خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خصوصاً خون کے بڑھے ہوئے دباؤ ( hypertension ) پر قابو پانے میں اس کے خصوصی عمل کی وجہ سے سقوطِ قلب سے بچنے کے لئے مفید ہے۔
پیاز ( Onion )
قرآن نے سورۂ بقرہ کی اِسی آیت میں پیاز کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے:
( وَ بَصَلِهَا ) ۔
(البقرۃ، ۲:۶۱) اور اُس (زمین )کا پیاز۔
یہ پروٹین، کیلشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، سلفر اور فولاد کا اہم ذریعہ ہے۔ ۱۰۰گرام پیاز درج ذیل اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:
غذائی ریشہ ( fiber) ۱.۳ گرام
حرارے ( Calories) ۲۳ گرام
لحمیات ( proteins) ۰.۹ گرام
چینی ( sugar) ۵.۲ گرام
پیاز میں خاص طور پر B۶ بھی پایا جاتا ہے، جو ٹی بی اور پھیپھڑوں کے ناسور کا سبب بننے والے جراثیموں اور مُضرِ صحت بیکٹیریا کے خاتمے میں بھی مفید ہے۔ اِس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ خون میں موجود کولیسٹرول کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے اور اِس کے مستقل اِستعمال سے دِل کے دَورے کا خطرہ ممکنہ حد تک کم ہو جاتا ہے۔
ممنوعہ غذائیں
خنزیر ( Pork )
قرآنِ مجید نے سؤر کے گوشت کے اِستعمال سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے:
( اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحمَ الخِنزِیرِ وَمَآ أُهِلَّ بِه لِغَیرِ اللهِ ) ۔ (البقرہ، ۲:۱۷۳)
اُس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذِبح کے وقت غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے۔
بنی نوعِ انسان کے لئے اِسلام کے آفاقی اَحکامات میں پنہاں وسیع تر مفاد اور اُن کے دُور رس نتائج کے پیشِ نظر ہم بہت سے اَمراض سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اِسلام نے اِنسانی جسم و رُوح کو نقصان پہنچانے والی تمام اشیاء کے اِستعمال سے اپنے ماننے والوں کو سختی سے منع فرما دیا تاکہ وہ اُن کے مُضر اَثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ حالیہ طبی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات منظرِ عام پر آئی ہے کہ سؤر کے گوشت میں taenia solium اور trichinella spiralis دو کیڑے پائے جاتے ہیں جن میں سے اوّل الذکر مِرگی ( epilepsy ) جبکہ مؤخر الذکر ایک بیماری trichinosis کا باعث بنتا ہے۔
acute trichinosis کے مریض کو تیز جسمانی درجۂ حرارت سے سابقہ پیش آ سکتا ہے۔ اُس کے خون کا بہاؤ زہریلے مواد سے متاثر ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اُسے دِل اور نظامِ تنفس کا فالج بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دِماغ اور جسم کے دُوسرے اَجزاء کی سوزش بھی پیدا کرتا ہے اور زبان، گردن، آنکھوں اور گلے وغیرہ کے اَعصاب کو بھی متاثر کرتا ہے۔
خنزیر کے گوشت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ موٹاپا پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ اُس میں بہت زیادہ حرارے اور چکنائی ہوتی ہے اور کولیسٹرول کی سطح بہت بلند ہوتی ہے۔ ۱۰۰ گرام بڑے گوشت میں زیادہ سے زیادہ ۲۸۴کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سؤر کے گوشت میں زیادہ سے زیادہ ۴۹۶کیلوریز ہوتی ہیں، اِسی طرح بڑے گوشت میں چکنائی کی مقدار زیادہ سے زیادہ ۲۱.۱فیصد ہوتی ہے جبکہ سؤر کے گوشت میں یہ مقدار زیادہ سے زیادہ ۴۴.۸فیصد ہوتی ہے۔
اِسلام میں خنزیر کے گوشت کی ممانعت کی حکمت اَب امریکہ اور یورپ میں بھی مقبول ہو رہی ہے اور وہاں کے صحت شناس لوگ بالعموم اِسلام کی حلال کردہ اشیاء کو ترجیح دے رہے ہیں اور سؤر کا گوشت ترک کرتے چلے جا رہے ہیں۔
شراب ( Drinking )
قرآنِ مجید میں ﷲ ربّ العزت نے شراب کو کلیتاً حرام قرار دیا ہے۔
اِرشادِ خداوندی ہے:
( یٰٓا أَیُّهَا الَّذِینَ اٰمَنُوآ إِنَّمَا الخَمرُ وَ المَیسِرُ وَ الأَنصَابُ وَ الأَزلَامُ رِجسٌ مِّن عَمَلِ الشَّیطَانِ فَاجتَنِبُوهُ لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ ) (المائدہ، ۵:۹۰)
اے ایمان والو! یقینا شراب اور جوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں، سو تم اُن سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤتاجدارِ کائنات (ص) کی یہ دونوں اَحادیثِ مبارکہ اِس آیتِ کریمہ کے شراب کی حرمت سے متعلقہ حصے کی بہترین تفسیر کرتی نظر آتی ہیں:
اِرشادِ نبوی (ص) ہے:
کلّ مُسکرٍ خمرٌ و کل خمرٍ حرامٌ ۔
ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔ (الصحیح لمسلم، ۲:۱۶۸)
ما أسکرَ کثیرُه فقلیلُه حرامٌ ۔
(جامع الترمذی، ۲:۹)
جس شے کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اُس کی تھوڑی مقدار کا اِستعمال بھی حرام ہے۔
شراب جسم کو حرارے (کیلوریز) تو مہیا کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ جسمانی نشوونما کے لئے ضروری وٹامنز اور امائنو ایسڈز ( amino acids ) مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ چنانچہ جسم میں خلیوں کی تخریب ( metabolism ) اور تعمیر کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے اور متعدد طبعی بیماریاں اور ذہنی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شراب نوشی بہت حد تک جگر، معدہ، انتڑیوں، تلی، خوراک کی نالی، دماغ اور دل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ بے شمار بیماریوں کے علاوہ یہ بالخصوص دل کے عضلات کی بیماری cardiomyopathy اور خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے تالو کی ہڈیوں میں توڑ پھوڑ بھی پیدا کرتی ہے۔ مزید برآں شراب کا باقاعدہ استعمال خون کے دباؤ کے مسائل پیدا کرتا ہے اور نظامِ دورانِ خون ( cardiovascular system ) کو متاثر کرتا ہے۔
کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے سقوطِ قلب کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ شراب خون میں کولیسٹرول کی مجموعی سطح کو کم کئے بغیر ہائی ڈنسٹی لیپوپروٹینز ( HDL Cholesterol ) کی مقدار بڑھا دیتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کولیسٹرول میں توازن بگڑ جاتا ہے اور اُس سے دِل کے دَورے کا مجموعی خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے صحت شناس لوگوں میں شراب نوشی کی خاطر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے اور اکثر ہارٹ ایسوسی ایشنز ( heart associations ) بھی اِسی بات پر بہت زور دے رہی ہیں کہ شراب کا اِستعمال نہ کیا جائے۔
ڈاکٹروں کی رجسٹریشن اور اِمتحانی نظام
اوّلاً اِسلام نے اِنسانیت کے لئے حفظانِ صحت کے ایسے اُصول مرتب کئے ہیں کہ بندہ زیادہ سے زیادہ بیماریوں سے قبل از وقت بچا رہے۔ تاہم اگر کوئی بیماری حملہ آور ہو جائے تو اُس کا مناسب علاج بھی پیش کیا ہے۔طب کو باقاعدہ ایک فن کے طور پر پروان چڑھانے اور اِس فن کے ماہرین پیدا کرنے میں سب سے زیادہ دخل اِسلام کو حاصل ہے۔ دُنیا میں سب سے پہلے ہسپتال مسلمانوں ہی نے قائم کئے اور سب سے پہلے رجسٹرڈ ڈاکٹروں اور سرجنوں کا ایک باقاعدہ نظام بھی اِنہی نے وضع کیا تاکہ مختلف بیماریوں کا صحیح طبی خطوط پر علاج کیا جا سکے۔
اِس سلسلے میں تاجدارِکائنات(ص) کا فرمان اُمتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ بنا۔ اِرشاد ِنبوی ہے:
و من تطبّب و لم یعلم منه الطب قبل ذٰلک فهو ضامنٌ ۔ (سنن ابنِ ماجہ : ۲۵۶)
جس شخص نے علمُ الطب سے ناآگہی کے باوُجود طب کا پیشہ اِختیار کیا تو اُس (کے غلط علاج۔/مضر اثرات) کی ذمہ داری اُسی شخص پر عائد ہو گی۔
اِس فرمان نے جہاں لوگوں کو طب میں تخصیص کے لئے مہمیز دی وہاں اِسلام کی اوّلین صدیوں میں ہی جعل سازوں سے بچنے کے لئے میڈیکل کا ایک باقاعدہ اِمتحانی نظام وضع کرنے میں بھی مدد ملی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے ماہرینِ طب اور سرجن پیدا ہوئے۔
دُنیا میں سب سے پہلے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے لئے اِمتحانات اور رجسٹریشن کا باقاعدہ نظام عباسی خلافت کے دور میں ۹۳۱ء میں بغداد میں وضع ہوا جسے جلد ہی پورے عالم اِسلام میں نافذ کر دیا گیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک جعلی حکیم کے ناقص علاج سے ایک مریض کی جان چلی گئی۔ اُس حادثے کی اِطلاع حکومت کو پہنچی تو تحقیقات کا حکم ہوا۔ پتہ یہ چلا کہ اُس عطائی طبیب نے میڈیکل کی مروّجہ تمام کتب کا مطالعہ نہیں کیا تھا، اور چند ایک کتابوں کو پڑھ لینے بعد مطب ( clinic ) کھول کر بیٹھ گیا تھا۔
اُس حادثے کے فوری بعد حکومت کی طرف سے معالجین کی باقاعدہ رجسٹریشن کے لئے ایک بورڈ بنایا گیا، جس کی سربراہی اپنے وقت کے عظیم طبیب ’سنان بن ثابت‘ کے ذمہ ہوئی۔ اُس بورڈ نے سب سے پہلے صرف بغداد شہر کے اطباء کو شمار کیا تو پتہ چلا کہ شہر بھر میں کل ۱,۰۰۰ طبیب ہیں۔ تمام اطباء کا باقاعدہ تحریری اِمتحان اور اِنٹرویو لیا گیا۔ ایک ہزار میں سے ۷۰۰ معالج پاس ہوئے، چنانچہ رجسٹریشن کے بعد اُنہیں پریکٹس کی اِجازت دے دی گئی اور ناکام ہو جانے والے ۳۰۰ اطباء کو پریکٹس کرنے سے روک دیا گیا۔
بخار کا علاج
عموماً انسانی جسم ۱۰۵، ۱۰۶ درجہ فارن ہائیٹ سے زیادہ ٹمپریچر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر جسم انسانی کا درجۂ حرارت اِس سے بہت زیادہ تجاوز کر جائے تو فقط اُس کی حدت کی زیادتی کی وجہ سے بھی موت واقع ہو سکتی ہے ۔ ایسی حالت میں سب سے مفید علاج جلد از جلد درجۂ حرارت کو نیچے لانا ہے۔ طبِ جدید کی رُو سے ایسے مریض کے تمام جسم کو برف کے پانی سے بھگو دینا چاہئے، جسم پر گیلے کپڑے کی پٹیاں رکھنی چاہئیں تاکہ اُن کی برودت سے جسم کا درجۂ حرارت نسبتاً کم ہو کر اِعتدال پر آ جائے۔
اس باب میں رسولِ اکرم(ص) کا اِرشادِ گرامی یاد رکھنے کے قابل ہے، اِرشادِ نبوی ہے:
الحمی من فیح جهنم، فابرودها بالماء ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۵۲)
بخار جہنم کے شعلوں میں سے ہے، اِس لئے اُس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
إنّ شدة الحمی مِن فیحِ جهنم فابردُوها بالمآءِ ۔ (سنن ابن ماجہ : ۲۵۶) (جامع الترمذی، ۲:۲۸)
بخار کی شدت جہنم کے شعلوں میں سے ہے، اِس لئے اُس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔
آپریشن کے ذریعے علاج
جب بیماری کی نوعیت بگڑ جائے اور عام علاج سے اِفاقے کی صورت ممکن نہ ہو تو ایسے میں بعض اَوقات آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قربان جائیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی عظمت پر کہ آپ نے چودہ سو سال قبل آپریشن کے ذریعے علاج کی بنیاد رکھی اور سرجری کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ حضور(ص) کی چند احادیث جو سرجری کے باب میں مذکور ہیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔
سیدنا انس تاجدارِکائنات(ص) کا معمول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أنّ النبی(ص) احتجم ثلثاً فی الاخدعین و الکاهل ۔ (سنن ابی داؤد، ۲:۱۸۴)
رسولِ اکرم(ص) نے اپنے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور اخدعین (گردن کے دونوں طرف کی رگوں) کے بیچ میں تین سنگی کھنچوائے
اِسی سلسلے میں ایک اور حدیثِ نبوی ہے:
عن ابن عباس قال: احتجم النبی(ص) و هو صائم ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۴۹)
حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم(ص) نے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوائے۔
صحیح بخاری ہی میں مذکور ہے:
أنّ رسول ﷲ احتجم و هو محرم فی رأسه من شقیقة کانت به ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۵۰)
رسول اللہ(ص) نے سر میں دردِ شقیقہ کے علاج کے لئے حالتِ اِحرام میں پچھنے لگوائے۔
اِرشادِ نبوی ہے:
الشفاء فی ثلاثةٍ: فی شرطة محجمٍ، أو شربة عسلٍ، أو کیّة بنارٍ ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۴۸)
شفاء تین چیزوں میں ہے، پچھنے لگوانا، شہد پینا یا آگ سے داغ دلوانا۔
نفسیاتی اَمراض کا مستقل علاج
اگر اِسلامی طرزِ زندگی کو مکمل طور پر اپنایا جائے تو انسان بہت سی نفسیاتی بیماریوں پر بھی قابو پا سکتا ہے۔ اِسلامی طرزِ حیات اِنسان کو ذہنی تناؤ اور بوجھ سے آزاد کرتا ہے اور اِنسان کو زندگی کی دلچسپیوں کو برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اِسلام نے انسان کو نفسیاتی دباؤ اور اُلجھنوں سے دُور رہنے اور خوشحال زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کرنے پر بہت زور دیا ہے۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
( اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرّآء وَ الضَّرّآء وَ الکَاظِمِینَ الغَیظَ وَ العَافِینَ عَنِ النَّاسِ ) ۔ (آل عمران، ۳:۱۳۴)
یہ وہ لوگ ہیں جو (معاشرے سے مفلسی کے خاتمے کے لئے) فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔
سرکارِ مدینہ(ص) نے فرمایا:
إنّ الغضبَ من الشیطانِ، و إن الشیطان خُلِق من النار، و إنما تطفئ النار بالماء، فإذا غضب أحدکم فلیتوضّاء ۔ (ابوداؤد، ۲:۳۱۲)
غصہ شیطانی عمل ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے (تاکہ غصہ جاتا رہے)۔
غضب و غصہ پر قابو پانے سے اعصابی تناؤ اور ذہنی کھنچاؤ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے جو دِل کے امراض سے بچاؤ کی بھی ایک اہم صورت ہے۔ اِسی طرح غریبوں اور ضرورت مندوں کی فلاح کے لئے روپیہ خرچ کرنے سے اور دُوسروں کو معاف کر دینے کے عمل سے اِنسان کو رُوحانی خوشی و سرمستی حاصل ہوتی ہے۔ جس سے زندگی کی مسرّتیں اور رعنائیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔
حسد بہت سی ذہنی پریشانیوں کا منبع ہے، اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو سختی سے حسد سے روکا ہے۔ تاجدارِ رحمت(ص) کا اِرشادِ گرامی ہے:
إیاکم و الحسد، فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب ۔ (سنن ابی داؤد، ۲:۳۲۴)
اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ، بیشک حسد تمام نیکیوں اور ثواب کو اِس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔
اِسی طرح لالچ اور خود غرضی بھی بہت سا ذِہنی تناؤ اور پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ اِن نفسانی آلائشوں سے بھی اسی طرح منع کیا گیا ہے اور اُن کی بجائے اطمینان و سکون کی تلقین کی گئی ہے۔
اِسلام کی یہی تعلیم خوشگوار زندگی کی اَساس ہے جو پُرامن معاشرے اور صحت مند ماحول کے قیام کے لئے لابدّی ہے۔ علاوہ ازیں زندگی کے ہر معاملے میں توازن پیدا کرنا چاہئے اور معمولاتِ حیات میں شدّت پیدا کرنے یا ضرورت سے زیادہ نرمی سے گریز بھی نہایت لازمی ہے۔
قرآنِ حکیم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
( یُرِیدُ اللهُ بِکُمُ الیُسرَ وَ لَا یُرِیدُ بِکُمُ العُسرَ ) ۔ (البقرہ، ۲:۱۸۵)
اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لئے دُشواری نہیں چاہتا۔
آقائے دوجہاں(ص) کا ارشادِ گرامی ہے:
"هلک المتنطّعون"، قالها ثلاثاً ۔ (الصحیح لمسلم، ۲:۳۳۹)
"مشکلات پر اِصرار کرنے والے تباہ ہو جاتے ہیں"۔ آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے۔
اِسلام ہر مسلمان کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور طاقت سے زیادہ بوجھ اپنے سر نہ لے۔ قرآن مجید میں ایک دعا کی صورت میں ارشاد ہوتا ہے:
( رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِه ) ۔(البقرہ، ۲:۲۸۶)
اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اِتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔
اگرچہ اِسلام نے جسمانی محنت و مشقت کی بھرپور تائید کی ہے، تاہم اُس کی ساری تائید صرف اور صرف توازن اور میانہ روی کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہے۔ اسلامی طرز حیات میں سے یہ وہ چند مثالیں تھیں جو اِسلام کی تجویز کردہ، اَعصابی تناؤ سے آزاد اور متوازن زندگی کی تفصیل و توجیہہ بیان کرتی ہیں۔
اِسلام اورجینیاتی انجینئرنگ( Genetic engineering )
دورِ جدید کی طبی تحقیقات میں جینیاتی انجینئرنگ ( genetic engineering ) کو خاص مقام حاصل ہے ۔ کسی شخص کے جینز ( genes ) کے مطالعہ سے اُس کا نسب، اُس کی زندگی کی تمام بیماریاں اور اُس سے متعلق بے شمار ایسے حقائق جنہیں عام حالات میں معلوم کرنا ناممکن ہے، جینیاتی انجینئرنگ ہی کی بدولت طشت از بام ہو رہے ہیں۔ ڈی این اے ( Deoxyribonucleic Acid ) کی تھیوری سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ اِنسانی جسم کے ہر خلۓ میں انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا ( Encyclopaedia Britannica ) کے دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جا سکتی ہیں۔ یہ دریافت جہاں سائنسی تحقیقات میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں اِسلامی عقائد کی تصدیق و تائید بھی کرتی جا رہی ہے۔ آج کی طبی تحقیق جن DNA کوڈز کو بے نقاب کر رہی ہے، ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہی تحقیق جب اپنے نکتۂ کمال کو پہنچے گی اور ہم ایسے آلات اِیجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن سے کسی بھی اِنسان کی گزری ہوئی زندگی کے اچھے بُرے اعمال طشت از بام کئے جا سکیں گے۔
یوں طبی میدان میں کی جانے والی سائنسی پیش رفت کا فرسِ تحقیق اِس رُخ پر گامزن ہے اور جس دن اِس ممکن نے حقیقت کا رُوپ دھار لیا ، دینِ اسلام کا ایک اور بنیادی ستون ’عقیدۂ آخرت‘ سائنسی توجیہ سے مزین ہو کر غیرمسلم محققین پر بھی اِسلام کی حقانیت آشکار کردے گا۔
روزِ قیامت جب تمام اِنسان جِلائے جائیں گے اور اُن سے حساب کتاب کیا جائے گا تو اُن کے ہاتھ اور پیراِس بات کی گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے اپنی دُنیوی زندگی میں کیسے اَعمال سرانجام دئیے۔ سادہ لوح عقل اِسلام کے پیش کردہ اِس نظریئے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے کہ ہاتھ، پاؤں یا دیگر اعضائے جسمانی آخر کس طرح ہمارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں! اِس ضمن میں اور بھی ہزاروں سوالات انسانی ذہن میں سر اُٹھاتے ہیں جن کا جواب DNA تھیوری میں مل سکا ہے ۔ خالقِ کائنات اپنے آخری اِلہامی صحیفے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں فرماتا ہے:
( اَلیَومَ نَختِمُ عَلٰی أَفوَاهِهِم وَ تُکَلِّمُنَا أَیدیهِم وَ تَشهَدُ أَرجُلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) (یٰسین،۳۶:۶۵)
آج (کا دن وہ دن ہے کہ) ہم اُن (مجرموں) کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور اُن کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور اُن کے پاؤں اُس کی گواہی دیں گے جو وہ لوگ کیا کرتے تھےاِسی آیتِ کریمہ کی تشریح و توضیح میں سرورِ دوجہاں(ص) کا ارشادِ گرامی ہے:
فیُختم علی فیه، و یُقال لفخذِه و لحمِه و عظامِه "انطقی"، فتنطق فخذُه و لحمُه و عظامُه بعملِه ۔(الصحیح لمسلم،۲:۴۰۹)
پس اُس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اُس کی ٹانگ ، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کا حکم ہو گا ۔ پس اُس کی ٹانگ، گوشت اور ہڈیاں اُس کے اَعمال بتائیں گے۔
سیدنا عقبہ بن عامر سے بھی اِسی مضمون میں ایک حدیثِ مبارکہ مروی ہے ۔ سرورِ کائنات (ص) نے اِرشاد فرمایا:
إنّ أوّلَ عظم من الإنسان یتکلّم یومَ یختم علٰی الأفواه فخذُه من الرِّجل الشمالِ ۔ (الدرالمنثور،۵:۶۲)
(جس روز منہ پر مہریں لگائی جائیں گی) اِنسان کے جسم کی سب سے پہلی ہڈی جو بولے گی وہ بائیں ٹانگ کی ران کی (ہڈی) ہو گی۔
یہ مضمون متعدّد احادیثِ مبارکہ میں اِسی طرح درج ہے اور اِسے قرآنی تائید بھی حاصل ہے ۔
آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے اُس جاہل معاشرے میں اِسلام نے یہ عقیدہ پیش کیا جہاں اَذہان جہالت کی گرد میں لپٹے ہوئے تھے اور اپنی جہالت پر فخر کرتے تھے ۔ وہ اِس اِسلامی تصوّر کو بآسانی قبول نہیں کر سکتے تھے۔ وہ تو مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کی مطلق حقیقت کو بھی جھٹلاتے تھے، چہ جائیکہ وہ اعضائے اِنسان کی گواہی دینے کی صلاحیت کو تسلیم کر لیتے اور اُس پر ایمان لے آتے۔
آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی اُن جاہل کفار و مشرکین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بعض غیرمسلم اَقوام اور مغربی یلغارسے مرعوب بعض نام نہاد مسلمان اپنی کم عملی اور جہالت کی بناء پر بلاتحقیق اِسلام کے بنیادی عقیدے ’آخرت‘ کو مسلمانوں کی تضحیک و تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر وہ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے حقائق و نظریات کا بخوبی مطالعہ کریں تو وہ اِس حقیقت پر پہنچیں گے کہ اِسلام ہی آفاقی سچائیوں سے معمور دین ہے ۔ جو ہر شعبۂ زندگی میں اِنسانیت کی رہنمائی کرتا ہے ۔ جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات جسمِ انسانی کے ہر خلۓ میں اِتنی گنجائش ثابت کر چکی ہیں جہاں دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جا سکیں۔بغیر خوردبین کے نظر نہ آسکنے والا معمولی خلیہ اپنے اندر اِتنی وسیع دُنیا لئے ہوئے ہے۔ روزِ آخر اللہ ربّ العزت کے حکم پر اِنسانی جسم کا ہر ہر خلیہ اپنی ساری سرنوشت زبانِ حال سے کہہ سنائے گا اور اِنسان کا سب کیا دھرا اُس کی آنکھوں کے سامنے بے نقاب کر دے گا ۔ یہ اِسلام کی تعلیم ہے اور اِسی طرف جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات پیش قدمی کر رہی ہیں۔
طبِ جدید کی اِن ساری تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول(ص) کے اِرشادات پر ایک نظر کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کے قول سے بڑھ کر حق کائنات میں کہیں موجود نہیں۔ آج تک سائنس اور طب کی جتنی بھی تحقیقات ہوئیں وہ بالآخر اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ نبیٔ مختارِ عالم (ص) کی ہر بات، خواہ وہ قرآن مجید ہو یا آپ(ص) کی حدیثِ مبارکہ، مبنی برحق ہے اور سائنسی بنیادوں پر کام کرنے والے معاشروں کے لئے اُس سے رُوگردانی ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث کا ہر لفظ رسولِ آخر الزماں (ص) کی عظمت پر دالّ ہے اور مُنکرینِ عظمتِ مصطفی کے دِل و دِماغ پر ضربِ کاری ہے۔
کتابیات
قرآن مجید منزّل من ﷲ
صحیح البخاری امام محمد بن اسماعیل بخاری، ۲۵۶ھ کراچی، قدیمی کتب خانہ، ۱۳۸۱ھ
الصحیح لمسلم امام مسلم بن الحجاج قشیری، ۲۶۱ھ کراچی، قدیمی کتب خانہ، ۱۳۷۵ھ
جامع الترمذی امام محمد بن عیسیٰ ترمذی، ۲۷۹ھ ملتان، فاروقی کتب خانہ
سنن أبی داؤد امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث، ۲۷۵ھ کراچی، ایچ-ایم-سعید کمپنی
سنن النسائی امام احمد بن شعیب نسائی ، ۳۰۳ھ کراچی، قدیمی کتب خانہ
سنن ابن ماجہ امام محمد بن یزید قزوینی بن ماجہ، ۲۷۵ھ کراچی، ایم ایم سعید کمپنی
مسند احمد بن حنبل امام احمد بن محمد بن حنبل، ۲۴۱ھ بیروت، المکتب الاسلامی، ۱۳۹۸ھ
سنن الدارمی امام ابو محمد عبداللہ دارمی، ۲۵۵ھ ملتان، نشر السنہ
المستدرک امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری، ۴۰۵ھ سعودی عرب، دارالباز
المعجم الاوسط امام سلیمان بن احمد طبرانی ، ۳۶۰ھ بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۳ھ
مشکوٰۃ المصابیح امام محمد بن عبداللہ خطیب تبریزی افغانستان، نعمانی کتب خانہ
مجمع الزوائد حافظ نور الدین علی بن ابوبکر الھیثمی، ۸۰۷ھ بیروت، دارالریان للتراث
کنز العمّال علامہ علاؤالدین علی المتقی الہندی، ۹۷۵ھ بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، ۱۳۹۹ھ
کتاب مصنف مطبع
سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ علامہ محمد ناصر الدین البانی ، ۱۴۲۰ھ بیروت، المکتب الاسلامی، ۱۴۰۵ھ
المدارک امام عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی، ۷۰۱ھ بیروت، دار احیاء الکتب العربیہ
الدالمنثور فی التفسیر بالماثور امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی، ۹۱۱ھ بیروت، دارُالمعرفہ
رُوح المعانی علامہ سید محمود آلوسی، ۱۲۷۰ھ ملتان، مکتبہ امدادیہ
زادُ المعاد امام ابن القیم الجوزیہ، ۷۵۱ھ بیروت، مؤسسۃ الرسالہ
المفردات امام راغب اصفہانی ، ۵۰۲ھ بیروت، دارالقلم، ۱۴۱۲ھ
الاتقان امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی، ۹۱۱ھ مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی
الشفاء قاضی ابوالفضل عیاض، ۵۴۴ھ بیروت، دارالکتاب العربی
شرح الشفاء امام ملا علی قاری بن سلطان بن محمد، ۱۰۱۴ھ مصر، قاہرہ، ۱۳۰۹ھ
المواھب اللدنیہ امام احمد بن محمد القسطلانی ، ۹۱۱ھ بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۹۷۳ء
البدایہ والنھایہ امام ابو الفداء اسماعیل بن کثیر، ۷۷۴ھ بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۹ھ
تاریخ ابن خلدون عبدالرحمن بن خلدون، ۸۰۸ھ بیروت، دارالکتب العلمیہ
دولۃ الاسلام فی الاندلس کتاب مصنف
مطبع المنقذ من الضلال امام ابو حامد محمد غزالی ، ۵۰۵ھ
کتاب الأم امام شافعی قانون التأویل
قاضی ابوبکر ابن عربی الفتاویٰ الھندیہ ترکی، المکتبہ الاسلامیہ
القاموس المحیط محمد بن یعقوب الفیروز آبادی مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، ۱۹۵۲ء
المنجد لوئیس معلوف ایران
بالِ جبریل علامہ محمد اِقبال، ۱۹۳۸ء پاکستان
Ahmad Y. al-Hassan, Islamic Techonology, New York: Cambridge University Press, ۱۹۹۴
Ameer Ali, The Spirit of Islam
Bernard Lewis, The Muslim Discovery of Europe, London, Phoenix, ۱۹۸۸
Dr. Mustafa Siba'i, Some Glittering Aspects of the Islamic Civilization
George Bush, The Life of Muhammad
Gerhard Endress, An Introduction to Islam, Edinburgh University Press, ۱۹۹۴
H. E. Bornes, A History of Historical Writings
J. Bronowski, The Ascent of Man
J. J. Witkam, Catalogue of Arabic Manuscripts
Joseph Schacht (ed), C. E. Bosworth (ed), The Legacy of Islam
Maurice Bucaille, The Bible, the Qur'an and Science
Nasim Butt, Islam and Muslim Societies, London: Crey Seal
Philip Hitti, History of Arabs
Robert Briffault, The Making of Humanity
S. H. Nasr, Islamic Sciences
Stanwood Cobb, Islam's Contribution to World Culture
Stephen Hawking, A Brief History of Time
Strassbury, Zeitsechrift fues Assyriologie ,
W. Montgomery Watt, The Influence of Islam on Medieval Europe, Edinburgh University Press, ۱۹۹۴
W. Montgomery Watt and Pierre Cachia, A History of Islamic Spain, Edinburgh University Press, ۱۹۹۲
Muhammad, The Educator
Studies in the History of Medical Sciences
تشکر: عبد الستّار منہاجین، مرتّب کتاب
ان پیج سے تبدیلی اور عملِ لفظی: اعجاز عبید، تدوین: اعجاز عبید، جویریہ مسعود
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ۲۵۰ فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
http://urdulibrary.org Archived 2020-10-21 at the وے بیک مشین, http://kitaben.ifastnet.com Archived 2013-05-18 at the وے بیک مشین, http://kutub.۲۵۰free.com