انعام الحسن کاندھلوی


حضرت جی
انعام الحسن کاندھلوی
جم2 مارچ 1918

کاندھلہ، برطانوی ہند دے صوبے تے علاقے
وفات۱۰ جون ۱,۹۹۵(1995-06-10) (عمر 77 سال)

ہندستان
قومیتہندوستانی
نسلہندوستانی
ودرجدید
شعبۂ زندگیبیہویں صدی
پیشہعلماء، داعی
مذہباسلام
فرقہسنی
فقہحنفی
تحریکدیوبندی, تبلیغی جماعت
شعبۂ عملدعوہ
کارہائے نماياںتبلیغی جماعت دے مقاصد دی تکمیل
مادر علمیمظاہر علوم سہارنپور
کاشف العلوم نظام الدین
سلسلۂ تصوفچشتیہ (صابری-امدادی)
پیر/شیخمحمد الیاس کاندھلوی
محمد یوسف کاندھلوی
انعام الحسن کاندھلوی
جم 2 مارچ 1918  ویکی ڈیٹا اُتے (P569) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن


کاندھلہ  ویکی ڈیٹا اُتے (P19) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن

تاریخ وفات 10 جون 1995 (77 سال)  ویکی ڈیٹا اُتے (P570) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن

شہریت بھارت (۲۶ جنوری ۱۹۵۰–)

برطانوی ہندستان (–۱۴ اگست ۱۹۴۷)

ڈومنین بھارت (۱۵ اگست ۱۹۴۷–۲۶ جنوری ۱۹۵۰)  ویکی ڈیٹا اُتے (P27) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن
عملی زندگی
پیشہ الٰہیات دان  ویکی ڈیٹا اُتے (P106) د‏‏ی خاصیت وچ تبدیلی کرن

خانوادۂ کاندھلہ دا شجرہ سودھو

حضرت نظام الدین اولیاء کے ہم عصر ایک جلیل القدر بزرگ قاضی ضیاء الدین سنامی ؒ سے آپ کا نسبی تعلق ہے۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ آپ کے اجداد میں ایک بزرگ مولانا حکیم محمد اشرف جھنجھانوی ؒ تھے۔ جو علم و فضل، تقوی و طہارت اور معرفت و طریقت میں یگانۂ روزگار تھے۔ صاحب کرامات بھی تھے۔ مولانا حکیم محمد اشرف صاحب باشارہ غیبی تلاش مرشد میں نکلے اور قادریہ سلسلے کے ایک بزرگ کے پاس جا پہنچے ۔ ان کی باتیں سن کر اور حالات دیکھ کر دل میں عقیدت پیدا ہوئی تو ان سے بیعت ہوئے دو سال بعد ارشاد ِمرشد ہوا کہ تمہارا بقیہ حصہ فلاں کے پاس ہے، چنانچہ ان سے رخصت ہوکر دوسرے بزرگ کے پاس پہنچے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی دوسرے بزرگ کی خدمت میں بھیج دیا۔ یہاں پہنچے تو ارشاد ہوا کہ آپ ہر اعتبار سے کامل ہو چکے ،اب وطن واپس تشریف لے جائیں ، وہاںاگر روحانی دولت کا اظہارکرنا چاہو تو لوگوں سے بیعت لیجیے اور ہدایت کا کام جاری رکھیں۔ اور اگر روحانی دولت چھپانا چاہتے ہو تو تدریس میں مشغول ہو جاؤ۔ آپ ؒ نے عرض کیا کہ میں تو علم شریعت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر بزرگ پیر نے دعائیںدی اور فرمایا کہ قیامت تک آپ کے خاندان سے علم رخصت نہ ہوگا۔ چنانچہ اجازت و خلافت کے بعدوطن پہنچ کر آپ دوبارہ تعلیم و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ مولانا محمد اشرف صاحب کے دو صاحب زادے تھے۔ مولانا محمد شریف اور عبد المقتدر۔ ان میں مولانا محمد شریف علم و فضل اور معرفت و طریقت میں اپنے والد کے جانشین تھے۔ مولانا احتشام الحسن کاندھلوی صاحب اپنی کتاب ’حالاتِ مشائخ کاندھلہ‘ میں تحریر فرماتے ہیں : حضرت مولانا محمد اشرف کے پیر و مرشد نے ان کو بشارت سنائی تھی کہ تمہاری اولاد میں علم شریعت قیامت تک رہے گا۔ اس بشارت کے اولین مظہر مولانا محمد شریف صاحب کی ذات ستودہ صفات تھی۔ ان کے بعد ان کی اولاد میں بھی آج تک دس گیارہ پشت گزر جانے کے باوجود ہر دور میں علم شریعت نمایاں نظر آرہا ہے اور خدانے چاہا تو تا قیامت نمایاں رہے گا۔ مولانا حکیم محمد شریف صاحب کے دو فرزند تھے۔ ایک حضرت مولانا محمد فیض ، جن کا قیام جھنجھانہ میں رہا ۔ ان کی اولاد میںحضرت مولانا اسماعیل کاندھلوی رحمہ اللہ، حضرت مولانا محمدیحی کاندھلوی رحمہ اللہ اور ان کے فرزند شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ ، ان کے بھائی بانی تبلیغ حضرت جی مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ اور ان کے فرزندحضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ ؛ جیسے نامورعلماء اور بزرگان دین پیدا ہوئے۔ دوسرے فرزند مولانا حکیم عبدالقادر صاحب جو کاندھلہ میں مقیم رہے ، ان کی اولاد میں بھی بڑی تعداد میں علماء پیدا ہوئے۔ مثلا مولانامفتی الہی بخش کاندھلوی ، ان کے بھتیجے مولانا مفتی مظفر حسین کاندھلوی وغیرہم۔ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب ؒ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ جھنجھانہ اور کاندھلہ والے یہ دونوں سلسلے مولانا محمد شریف تک جاکر مل جاتے ہیں۔ درج ذیل شجرہ سے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مولانا حکیم محمدشریف صاحب کی اولاد میں حضرت مولانا مفتی الہی بخش صاحب بڑی مشہور شخصیت کے مالک تھے۔ شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی ؒ کے ممتاز ترین تلامذہ میں سے تھے۔ اپنے زمانہ کے نامور صاحب فتوی و تدریس اور صاحب تصنیف تھے۔ آپ کی تصنیفات میں مثنوی مولانا روم کاتکملہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ان کے صاحب زادے مولانا ابوالحسن بھی بڑے عالم اور مشہور طبیب تھے۔ تقوی و طہارت میں اعلی مقام پر فائز تھے۔ ان کے صاحب زادے مولانا نور الحسن بھی بڑے صاحب علم و فضل تھے۔ علیگڑھ کالج کے بانی سر سید احمد آپ کے شاگرد تھے۔ ان کے صاحب زادے مولانا ظہور الحسن بھی بڑے عالم اور ماہر طبیب تھے۔ ان کے فرزند مولانا حکیم رضی الحسن بھی عالم و طبیب تھے اورحدیث شریف میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سے شرف ِتلمذ رکھتے تھے۔ ان کے صاحب زادے مولانا اکرام الحسن ،مولانا الیاس صاحب ؒ کے بھانجے ہوتے ہیں،انہوں نے دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علیگڑھ سے بی۔اے۔ایل۔بی ۔ کی ڈگڑی حاصل کی ۔ پھرکچھ مدت کیرانہ میں کامیاب طورپر وکالت کا پیشہ کیا ، مگر اس پیشہ سے جی بھر گیا اورآخر کار اسے چھوڑ کر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ؒ اور مدرسہ مظاہر علوم کی خدمت کو مقصد زندگی بنا کر یکسو ہو گئے ۔حضرت جی مولانا الیاس صاحب ؒ آپ سے بڑی محبت فرماتے تھے۔ حضرت جی ؒ کے مرض وفات میں آپ ؒ ہی خصوصی خدمت انجام دیتے تھے۔ حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمہ اللہ ، انہی مولانا اکرام الحسن صاحب ؒ کے فرزند تھے۔

ولادت اور ابتدائی تعلیم سودھو

یو۔پی۔ کے ضلع مظفرنگر کے مشہور قصبہ کاندھلہ میںمؤرخۃ : ۱۸ ،جمادی الاولی ۱۳۳۶ مطابق ۲۰ فروری ۱۹۱۸ ئ۔ کو آپ کی ولادت ہوئی۔ کاندھلہ کے مشہور حافظ منگتو صاحب کے پاس حفظ قرآن فرمایا اور بوستاں تک کی فارسی تعلیم اپنے نانا حکیم عبدالحمید صاحب سے حاصل فرمائی۔اس کے بعد عربی کی ابتدائی تعلیم میزان منشعب سے لے کر شرح جامی تک ، مدرسہ کاشف العلوم،نظام الدین دہلی میں، حضرت جی مولانا الیاس صاحب ؒ سے حاصل کی۔

مظاہر علوم کی تعلیم سودھو

ہجری سن ۱۳۵۱ ۔ میں جب حضرت مولاناالیاس صاحب ؒ سفر حج پر تشریف لے جارہے تھے ، تو آپ کو اور حضرت مولانا یوسف صاحب ؒ کو مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخل کرگئے۔یہاں ہدایہ حضرت مولانازکریا قدوسی ؒ سے اور میبذی حضرت مولانا جمیل احمد تھانوی ؒ سے پڑھی۔ حضرت مولانا الیاس صاحب ؒ سفر حج سے واپس تشریف لائے تو پھر بستی حضرت نظام الدین آگئے اور تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھا۔چنانچہ مشکوۃ شریف حضرت مولانا الیاس صاحب ؒ سے اور جلالین حضرت مولانا احتشام الحسن کاندھلوی ؒ سے پڑھی۔تعلیم کے پورے زمانہ میں حضرت مولانا یوسف صاحب آپ کے ہم درس رہے۔ ۱۳۵۴ ھ۔ میں پھر دونوں حضرات کو مظاہر علوم سہارنپور میں داخل کرایا گیا ، یہاں بخاری شریف حضرت مولانا عبداللطیف سے،ترمذی شریف حضرت مولانا عبدالرحمن کاملپوری ؒ سے ، مسلم شریف حضرت مولانا منظور احمد خان صاحب سے اور ابوداؤد حضرت مولانا محمد زکریا صاحب ؒ سے پڑھی۔ حضرت مولانا یوسف صاحب آپ کے رفیق اور ہم درس تھے۔وہ فرماتے ہیں کہ ، ہم دونوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ رات کے ابتدائی آدھے حصے میں ہم میں سے ایک مطالعہ کرے گا اوردوسرا سوئے گا اور آدھی رات ہوجانے پر مطالعہ کرنے والا چائے بنائے گا اور دوسرے ساتھی کو اٹھا کر اور اس کے ساتھ چائے پی کر سو جائے گا اور اس دوسرے کے ذمہ ہوگا کہ فجر کی جماعت کے لیے سونے والے ساتھی کو اٹھائے ۔ایک دن مولانا محمد یوسف صاحب شروع رات میں مطالعہ کرتے تھے اور میں سوتا تھا اور دوسرے دن اس کے برعکس ترتیب رہتی تھی۔ [۱] مگر تعلیمی سال مکمل ہونے سے قبل ہی مولانا محمد یوسف صاحب کے مرض کے سبب مظاہر سے واپس بستی نظام الدین آجانا پڑا ، اور بقیہ کتب ِحدیث یعنی ابن ماجہ، نسائی ، طحاوی اور مستدرک حاکم وغیرہ حضرت جی مولانا الیاس صاحب ؒ سے پڑھ کرتعلیمی سلسلہ ختم فرمایا۔

نکاح سودھو

بچپن ہی سے آپ کا رشتہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی دوسری صاحب زادی سے ، آپ کے دادا مولانا الحاج حکیم رضی الحسن صاحب کی مرضی کے مطابق طے پا چکا تھا، جب کہ حضرت مولانا یوسف صاحب کا رشتہ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی بڑی صاحب زادی سے طے تھا۔ آپ بیتی میں ہے کہ چچا جان نور اللہ مرقدہ ہر سال مدرسہ مظاہر علوم کے سالانہ جلسے میں شنبہ کی شام کو تشریف لایا کرتے تھے۔ حسب معمول مؤرخہ ۲ محرم ۱۳۵۴ ھ۔ مغرب کے قریب تشریف لائے اور فرمایا کہ ہمارے یہاں میوات میں جلسوں میں نکاح کا دستور پڑ گیا ہے، کل کے جلسے میںحضرت مدنی ؒ سے یوسف و انعام کا نکاح پڑھوا دوں۔ میں نے کہا شوق سے ضرور پڑھوا دیجئے۔ مجھ سے کیا پوچھنا۔عشا کی نما ز کے کچھ دیر بعد میں نے اہلیہ مرحومہ اور دونوں بچیوں کے کان میں ڈال دیا کہ چچاجان کا ارادہ ہے یہ ہے کہ کل کے جلسہ میںدونوں بچیوں کا نکاح پڑھوا دیں۔ میری اہلیہ مرحومہ نے - اس کے لفظ مجھے خوب یاد ہیں -یہ کہا کہ تم دوچار دن پہلے کہتے تو میں ایک جوڑا تو ان کے لیے سلوا دیتی۔مجھے اپنا جواب بھی خوب یاد ہے اور میرے جواب پر مرحومہ کا سکوت بھی ، اچھا ، مجھے خبر نہیں تھی ، یہ ننگی پھر رہی ہیں، میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہ کپڑ ے پہنے پھرتی ہیں۔[۲] اس جلسہ میں متعدد اکابرین موجودتھے، جن کی موجودگی میں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے ان دونوں حضرات کے نکاح پڑھائے ۔

سفرحج سودھو

۱۳۵۶ ھ۔ میں حضرت مولانا الیاس صاحب ؒ کے ہمراہ پہلا حج فرمایا۔ اس قافلہ میں مولانا محمد یوسف صاحب ؒ اور مولانا احتشام الحسن صاحب ؒ بھی تھے۔ کراچی سے بذریعہ اسٹیمر یہ سفر ہوا تھا۔ اس سفر میں حجاز میں بھی تبلیغی کام ہوا، عربوں نے کام کی تعریف بھی کی اوروعدے بھی کیے۔ دوران سفر تبلیغی کام کے متعلق بہت سے مبشرات بھی دیکھنے سننے کو ملے۔

طویل علالت سودھو

درمیان میں کچھ عرصہ آپ ؒ طویل مدت تک مریض رہے ۔ یہ پورا وقت کاندھلہ میں گذارا۔ کاندھلہ کے اس قیام کے دوران راہِ سلوک کے بڑے مجاہدے فرمائے اور منازل طے فرمائے۔

  1. حضرت جی مولانا الیاس صاحب ؒ کی وفات

مؤرخہ ۲۱ رجب ، ۱۳۶۳ ہجری ، مطابق ۱۳ جولائی ۱۹۴۴ بروز جمعرات ، حضرت جی مولانا الیاس صاحب ؒ کا انتقال ہوا۔ آپ ؒ نے وفات سے دو دن قبل اپنے مقربین میں سے چھ حضرات کو نامزد فرما کر ان کو اجازت و خلافت سے نوازا تھا ۔ ان میں ایک نام آپؒ کا یعنی حضرت مولانا انعام الحسن صاحب ؒ کا تھا۔ اجازت و خلافت کے اس قصے کی کچھ تفصیل آپ بیتی میں موجود ہے۔ [۳]

جماعت تبلیغ کا دماغ سودھو

حضرت جی مولانا الیاس صاحب ؒ کی وفات کے بعد، اکابر علماء و مشائخ( یعنی حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری ؒ حضرت مولانا فخر الدین صاحب ؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاصاحبؒ)کے مشورہ سے حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کوامیر تبلیغ متعین کیا گیا۔ آپ ؒ چوں کہ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کے بچپن سے ہی رفیق اور دوست تھے، اس لیے آپ ؒ نے اس فیصلہ کو بخوشی قبول فرماکر حضرت مولانا محمد یوسف ؒ کے ساتھ رہ کر تعاون اور خلوص کی وہ خدمات انجام دیں کہ آپ ؒ ، حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کے دست راست کہے جانے لگے ، بلکہ’ جماعت تبلیغ کا دماغ‘آپ کو سمجھا جاتا تھا۔ حضرت جی مولانا یوسف صاحب ؒ کی زندگی کے آخری لمحات تک مسلسل آپ ؒ کے شریک کار اور معاون رہے۔ مرکز نظام الدین کے امور میں بھی اہم کردار ادا کرتے۔ مدرسہ کاشف العلوم کے مہتمم اور شیخ الحدیث بھی آپ ہی تھے۔بلکہ حضرت جی مولانا یوسف صاحب ؒ کے زمانہ میں ہی آپ ؒہی مدرسہ کے مہتمم متعین ہو چکے تھے۔

درس و تدریس اوراعلی علمی مقام سودھو

تبلیغی ذمہ داریوں اورہ مدرسہ کاشف العلوم کے منصب اہتمام کے ساتھ مدرسہ کاشف العلوم میں آپ ؒ درس و تدریس کی ذمہ داریاں بھی بخوبی ادا فرما تے تھے۔ مختلف علوم و فنون کی کتب کے علاوہ سالہا سال تک حدیث شریف کی مختلف کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔ کئی سال تک بخاری شریف کا درس بھی دیا۔علمی اعتبار سے جو مقام بلند آپ رکھتے تھے، اس کا اندازا اس بات سے ہو سکتا ہے کہ آپ ؒ کی کچھ باتوں کو حضرت اقدس شیخ الحدیث ؒ نے لامع الدراری کے حاشیہ میں آپ کے نام سے نقل کیا ہے۔ یکسوئی ، کم آمیزی اور نظام الاوقات کی پابندی کی وجہ سے وقت میں بہت برکت ہوتی تھی، اور یہ پورا وقت عامۃً مطالعۂ کتب میں صرف ہوتا تھا۔ مختلف علوم و فنون کی کتابوں پر مشتمل آپ ؒ کااپنا ایک مستقل کتب خانہ بھی تھا۔ مطالعہ کی وسعت اور علمی گیرائی کا اندازا اس بات سے کر سکتے ہیں کہ حضرت جی مولانا یوسف صاحب ؒ کو’ حیات الصحابہ‘ اور ’امانی الاحبار‘کی تالیف میں کسی مقام پر علمی الجھن پیش آتی تو اولاً خود ہی غور وفکر فرماتے، کتابوں کا مطالعہ کرکے تلاش فرماتے، مگر پھر بھی حل نہ ملتا تو مولانا عبداللہ طارق صاحب کو آپ ؒ کی خدمت میں بھیجتے کہ جاؤ، مولانا انعام الحسن سے دریافت کرو۔ مولانا عبداللہ طارق کے بقول ، عامۃً ایسا ہوتا کہ کتاب کے اس مقام کو دیکھ کر فوراً ہی اس کا حل بتا دیتے ،یا آپ ؒ کا ذہن ِ رسا بہت جلد اس مآخذ تک پہنچ جاتا جہاں اس کا حل موجود ہوتا، چنانچہ فوراً اٹھتے اور کوئی کتاب نکال کر اس میں سے حل ذکر فرماتے۔ یا وہ کتاب ہی دے دیتے کہ ، اسے لے جائیے اور یہ مقام دکھلا دیجئے۔ آپ ؒ کے ایک خادمِ خاص کے حوالہ سے معلوم ہوا کہ فتاوی عالم گیری جیسی ضخیم کتاب از اول تا آخر دو بار مطالعۃً ختم فرمائی تھی۔ اس سے آپ ؒ کے علمی شغف اور ذوق مطالعہ کا اندازا کیا جا سکتا ہے۔ اس زمانہ کے اکثر مفتیان کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی ہوگی۔ تراجم ابواب پر آپ ؒ کی کچھ تحقیقات اور تحریرات کے مسودے بھی موجود ہے۔

امیر تبلیغ سودھو

جماعت تبلیغ کے امیر ثانی حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب ؒ ۲۹ذی القعدۃ ۱۳۸۴ ۔ھ مطابق ۲ ؍اپریل ۱۹۶۵ ۔ء برو ز جمعہ ، بمقام لاہور انتقال فرماگئے ، اس کے بعد سب اہم مسئلہ ، جس کی نزاکت اور اہمیت کے سبب ہی تمام حضرات فکر مند تھے ، وہ جماعت تبلیغ کی امارت ہی کا تھا۔ حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کے خلا کو پر کرنا اور ان کی جا نشینی کوئی آسان کام نہ تھا۔اس منصب کے لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو دل و دماغ کے اعتبار سے بھی تبلیغ سے ایسی وابستگی رکھتا ہو جیسی حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحبؒ اور حضرت جی مولانا الیاس صاحب ؒ کو تھی۔ سفر و حضر میں ان حضرات کا رفیق رہا ہو، مختلف اوقات اورمختلف امور میں ان حضرات کے ارد گرد موجود رہا ہو اور ان اکابر نے اپنی بھی اپنی حیات میں اس پر اعتماد کا اظہار فرمایا ہو۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ایک کی نظر حضرت مولانا انعام الحسن صاحب ؒ پر جا کر رکتی تھی۔ آپ ؒ بذات خود علم و عمل میں اعلی مقام رکھتے تھے۔ بچپن سے وفات تک حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کے رفیق و معین تھے ، امور تبلیغ میں آپ ؒ کے دست راست تھے۔ حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب ؒ ہمیشہ آپ کے مشورہ پر اعتماد فرماتے تھے۔ جب کہ علم و عمل، تصوف و سلوک اور امور تبلیغ میں حضرت جی مولانا الیاس صاحب ؒ کے خصوصی تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ آپ کے معتمداور مجاز بیعت بھی تھے۔ چنانچہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ نے صلاح و مشورہ کے بعد آپ ؒ کو حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کا جانشین اور امیر تبلیغ متعین فرمایا۔حضرت مولانا فخر الحسن صاحب ؒ (استاذ دارالعلوم) نے ہزاروں ذمہ داران اور قدیم وابستگان کے مجمع میں اس کا اعلان فرمایا ۔اور سب ہی نے اس فیصلہ کو دل و جان سے قبول فرما یا اور اپنے اعتماد اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس وقت سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک ، مسلسل ۳۱ ، سال تک آپ ؒ نے تبلیغی تحریک کی مکمل سرپرستی اور رہبری کا فریضہ ، بکمال ہوش و دانش ادا فرمایا ۔ آپ ؒ کے دور ِ امارت میںاس کام کو اور بھی ترقی ہوئی اور اطراف عالم میں ، مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور قوموں میں اس کام کی نقل و حرکت مقبول و معروف ہوئی۔

تقریر اور وعظ سودھو

امیر تبلیغ بننے تک تو حال یہ تھا کہ آپ ؒ اس میدان کے آدمی نہ سمجھے جاتے تھے۔ البتہ امیر منتخب ہونے کے بعد آپ ؒ اس میدان میں بھی آگے سمجھے گئے۔ ابتدا میں مختصر مگر حقیقت افروز جامع تقریر فرماتے تھے اور بعد میں طویل خطاب بھی فرمانے لگے تھے۔ اس حقیقت سے کس کو انکار ہوگا کہ دعوت و تبلیغ فقط تقریر اور وعظ کا نام نہیں، بلکہ اس کے علاوہ اور بہت سے لازمی امور بھی ہیں، چنانچہ آپ ؒ نے جماعت ِ تبلیغ کی دیگر سرگرمیوں اور نظام کی طرف توجہ دینا مناسب سمجھا۔ تاہم کوئی بھی بڑا اجتماع آپ ؒ کے جامع وعظ اور مقبول دعا کے بغیر ختم نہ ہوتا، یعنی اس باب میں کم از کم اس قدر ذمہ داری ضرورادا فرماتے تھے۔ اپنی کم گوئی اور خاموشی کی برکت سے آپ ؒ بہت سے مشکل کام بآسانی کر پاتے تھے۔ مثلاً کسی فتنہ انگیز بات کا جواب ہی نہ دیتے تھے، جس سے فتنہ وجود میں آنے سے پہلے ہی دفن ہو جاتا۔حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہے کہ خاموشی اختیارکرو اور باطل کو ختم کر دو۔اپنی کم گوئی ، خاموشی اور کم آمیزی سے آپ نے بڑا کام یہ انجام دیا کہ لوگوں کو اپنی ذات سے وابستہ کرنے کے بجائے کام اور خدمت سے وابستہ کر دیا۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ ؒ مرکز میں ہوں یا سفر میں، یہاں لوگوں کی آمدو رفت اور کام کی ترتیب میں کوئی فرق نہ آتا۔ تقسیم کار کے بھی خوب پابند تھے، جو کام جس سے متعلق ہوتا ، اسی کے حوالے کردیتے، کبھی خود میں دخل نہ دیتے۔

علالت اور وفات سودھو

آخر حیات میں کئی سال مسلسل بیمار رہے ، جس کے سبب سے عمومی ملاقات اور روابط کم کر دیے تھے ، زیادہ تر ذمہ داریاں تقسیم کردی تھیں، جس کے سبب آپ سے بار بار رجوع یا استفسار کی ضرورت بھی کم پڑتی تھی، البتہ اس کے باوجود بڑے اجتماعات میں خود پہنچتے تھے، تبلیغی امور کی بھی نگرانی فرماتے تھے، ملک اور بیرونِ ملک کے حالات اور تبلیغی سرگرمیوں سے واقف رہتے تھے، پیش آمدہ مسائل خوبی وخموشی سے حل فرماتے تھے۔ چوں کہ جسم میں فربہی آخر تک نہ تھی، اس لیے فی نفسہ نقل و حرکت میں کوئی دشواری پیش نہ آتی تھی اور آپ ؒ نشاط سے اپنے کام انجام دیتے تھے۔ ۹ جون ،۱۹۹۵ ۔ء بعد نماز عشاء ، سوا دس بجے ، آپ کو وہیل چیر پر لایا گیا، کار میں بٹھاکر پنت اسپتال پہنچایا گیا ، علاج و معالجہ کی پوری کوشش کی گئی، مگر آخرش ۷۰ سال کی عمر میں ۱۰ محرم الحرام ، ۱۴۱۶ ھ۔ مطابق ۱۰ جون ، ۱۹۹۵۔ ء سنیچر کی رات کو ایک بج کر ۲۵ منٹ پر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ إنا للہ اإنا إلیہ راجعون۔ اپنے پس ماندگان میں ایک صاحب زادہ مولانا زبیر الحسن اور ایک صاحب زادی چھوڑ گئے۔ وفات کی خبر بجلی کی طرح ملک بھر میں ، بلکہ پوری دنیا میں پہنچ گئی، شام کو چھ بجے نمازِ جنازہ کا وقت تھا، چنانچہ چھ بجے سے پہلے ہی اس قدر ہجوم جمع ہو گیا کہ نظام الدین آنے والے تمام راستے بند کرنے پڑے۔ تقریباً پانچ لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی حاضری کا تخمینہ لگایا گیا۔نماز جنازہ اور تدفین میں مجمع پر وقار رہا اور مغرب کی نماز کے بعد حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کے جوار میں آپ کو دفن کیا گیا۔


حوالے سودھو

  1. (۱)سوانح حضرت مولانا محمد یوسف صاحب،ص: ۱۷۰-۱۷۱
  2. (۲)آپ بیتی جلد اول ۳۰۶
  3. آپ بیتی جلد اول ص: ۴۶۷ اور ۴۸۷

باہرلے جوڑ سودھو

خانوددہ کاندھلہ دا شجرہ ایتھے دیکھیا جاسکتا ہے سانچہ:تبلیغی جماعت