"<span lang="ur">استمبول</span>[[ گٹھ:مضامین جنہاں وچ اردو بولی دا متن شامل اے ]]" دیاں دہرائیاں وچ وکھراپا

Content deleted Content added
چھوٹا کم ربط ساز دی مدد نال لندن دا لنک شامل کیتا
چھوٹا کم ربط ساز دی مدد نال قفقاز دا لنک شامل کیتا
لیک ۱۴۲ –
کی عالمی شناخت ہے۔
استنبول جس کو کانسٹنٹائن اعظم نے نیا روم قرار دیا، پرانے روم سے زیادہ اہم اسٹرٹیجک شہر واقع ہوا ہے۔ مشرقی رومن ایمپائر کا یہ شہر دریائے فرات سے لے کر جبل الطارق تک پھیلے وسیع خطوں کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک رومن ایمپائر کا پایۂ تخت رہا، دنیا کا کوئی دوسرا شہر ایسی تاریخی اہمیت کا حامل نہیں۔۔۔قسطنطنیہ تاریخ میں ایک Cosmopolitan شہر
رہا ہے، یہاں آرمینین، یونانی، ترک، پولش، عرب، ایرانی، اناطولین، بلغاروی، اطالوی، برطانوی، فرانسیسی اور قفقاز سمیت مختلف نسلوں اور زبانیں بولنے والوں کی بستیاں قائم رہیں جن کے تہذیبی و ثقافتی اثرات آج بھی استنبول کی ثقافت اور خصوصاً فنِ تعمیر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔29 مئی 1453 ء کو شام کے وقت سلطان محمد اپنے سفید گھوڑے پر سوار بازنطینی پایۂ تخت استنبول میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں استنبول کی فتح، تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور ترکوں کی تاریخ میں فتح استنبول ایک زندہ جشن ہے جو آج بھی جدید ترکی میں ایک قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سلطان محمد فاتح آج بھی ترک قوم کے ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سلطان محمد فاتح نے استنبول کے کاسموپولیٹن تشخص میں مزید اضافہ کیا اور اس کے لیے اس نے خصوصی طور پر قفقاز،[[قفقاز]]، بلقانی، یونانی، عربی اور وسطیٰ ایشیائی شہریوں کو اپنے ہاں (استنبول) میں آباد کرنے کی اصلاحات کیں۔ 1453 ء میں جب یہودیوں کو یورپ سے ہجرت کرنے پرمجبور کیا گیا تو یورپ بھر سے یہودی پناہ گزین سلطان محمد فاتح کی سلطنت میں پناہ لینے میں کامیاب ہوئے۔سپین میں ملکہ آئزابیل نے جب مسلمانوں اوریہودیوں کی نسل کشی کا آغاز کیا تو یہودیوں نے عثمانی ترکوں سے پناہ کی درخواست کی، جس کو عثمانیوں نے کھلے دل سے قبول کیا۔ نسل کشی کے شکار یہودیوں کے لیے سلطنت عثمانیہ نے اپنے دروازے کھول کر جس رواداری کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ کا اہم باب ہے۔