"<span lang="ur">ہخامنشی سلطنت</span>[[ گٹھ:مضامین جنہاں وچ اردو بولی دا متن شامل اے ]]" دیاں دہرائیاں وچ وکھراپا

Content deleted Content added
No edit summary
لیک ۱ –
<div style="direction:rtl; font-family:tahoma">
[[File:Iran-achaemenids (darius the great).jpg|thumb|left|250px|ھخامشی سلطنت]]
ھخامشی سلطنت 559 [[قبل مسیح]] توں 338 قبل مسیح تک قائم رہن والی اک [[فارسی]] سلطنت سی جہڑی [[عظیم ایرانی سلطنتاں]] دے سلسلے دی پہلی کڑی سی ۔
لیک ۵ –
ھخامشی سلطنت چ موجودہ [[ایران]] دے علاوہ [[مشرق]] چ [[افغانستان]] تے [[پاکستان]] دے چند علاقے ، شمال مغرب مکمل [[اناطولیہ]] یعنی موجودہ [[ترکی]] ، بالائی [[بلقاں]] ، [[تھریس]] تے [[کالا سمندر]] دا زیادہ تر ساحلی علاقہ شامل سی ۔ مغرب چ اس چ موجودہ [[عراق]] ، شمالی [[سعودی عرب]] ، [[فلسطین]] ، [[اسرائیل]] ، [[اردن]] ، [[لبنان]] تے [[مصر]] دے تمام اہم مرکز شامل سن ، مغرب چ اس دیاں سرحداں [[لبیا]] تک پھیلیاں ہوئیاں سن ۔ 75 لکھ مربع [[کلومیٹر]] تے پھیلی ہوئی ھخامشی سلطنت [[تریخ]] دی وسیع ترین سلطنت سی تے آبادی لحاظ نال [[رومی سلطنت]] دے بعد دوجی وڈی سلطنت سی ۔ ایہہ سلطنت 330 قبل مسیح چ [[سکندر اعظم]] دے ہتھوں ختم ہوئی ۔
 
سلطنت دا پہلا حکمراں [[کورشکو رش اعظم]] یا [[سائرس اعظم]] سی جد کہ آخری فرمانروا [[دارا سوم]] سی ۔ ھخامشی سلطنت دا دارالحکومتدارالحکو مت [[پرسی پولس]] یعنی [[تخت جمشید]] سی تے [[آتش پرستی]] ریاستی مذہب سی ۔
 
==ہخامنشی==
 
ھخامنشی سلسلہ کے ظہور کے ساتھ ہی دنیا کی اس دورکی سیاست میں ایران کا کردار بھی اہمیت کا حامل قراردیا جانے لگا،اس سلسلہ کے مورث اعلی نے انشان کے ایک حصہ ھخامنشیان میں ایک چھوٹے سے علاقہ سے اپنی حکومتحکو مت کی ابتداء کی تھی (ح۷۰۰ق م)۔ اس کے بیٹے نے اپنی حکومتحکو مت میں دوسرے علاقے بھی شامل کئے اور انشان کو چھوڑ کر صوبہ پارس تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا،اس کے بعد اس کی حکومتحکو مت اس کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوگئی، پارس کی حکومتحکو مت آریارمینہ کے حصہ میں آئی اور انشان کورشکو رش اول کو ملا اوریہیںاور یہیں سے ھخامنش خاندان دو بڑی شاخوں میں تبدیل ہو گیا اورانہوںاور انہوں نے ایک طویل مدت تک حکومتحکو مت کو اپنے درمیان تقسیم رکھا اوراساور اس پر حکومتحکو مت کرتے رہے۔
 
کمبوجیہ اول کے بیٹے کورشکو رش دوم ملقب ”کبیر“ نے جو کہ ھخامنشیان کے انشان سلسلہ سے تھا، درحقیقت وہی اس جہانی حکومتحکو مت کا بانی تھا۔ اس کی انشان ریاستی حکومتحکو مت کا آغاز ۵۵۹ق م میں ہوا لیکن اس نے پارس کے تمام قبائل کو متحد کرنے ایران کو حکومت اورقدرت حکو مت اور قدرت کو مادوں کے چنگل سے نکالا اور ہمدان کے سقوط کے ساتھ ہی کورشکو رش کی مستقل حکومتحکو مت کا آغاز ہوگیا۔
 
کچھ ہی عرصہ بعد ساردپر پارس کی فوج کے حملہ کے ساتھ ہی لیدیا کی حکومتحکو مت بھی سرنگوں ہو گئی(۵۴۷ق م)اوراساور اس کے بعد بتدریج تمام ایشیاء صغیر اور یونانی آناتولی کی زیرتسلط حکومتوںحکو متوں پر ھخامنشیان کا قبضہ ہوگیا (۵۴۶ق م) یہ واقعہ یونانیوں سے ھخامنشیان کے سیدھے ٹکراؤ کا سبب بنا جس کا نتیجہ طویل اور ہمیشہ رقابت اورجنگاور جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ کچھ ہی سالوں میں کورشکو رش نے مشرقی ایران اورمرکزیاور مرکزی ایشیاء کی تمام ریاستوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومتحکو مت میں شامل کر لیا (۵۴۵۔۵۳۹ق م) اس کے بعد بابل پرحملے کی تیاریوں میں لگ گیا اورمختصرسےاور مختصرسے حملوں اورجنگاور جنگ کے بعد بابل کے مضبوط قلعے، برج اورڈھیروںاور ڈھیروں مہمات کے باوجود اسے فتح کرلیا گیا ۵۳۹ق م) اس کے بعد کورشکو رش شہنشاہ بابل کے نام سے جانا جانے لگا،اس نے صلح وصفائی کی تاکید کے بعد عبادت گاہوں کی تعمیرنو کاحکم دیا۔ بابل کو تسخیر اور فتح کرنے کے ساتھ ہی بین النہرین، شام ،فلسطین اور فنیقیہ کے علاقے بھی (۵۲۹ق م )سے ھخامنشیان کی حکومتحکو مت میں داخل ہوگئے، کورشکو رش ظاہرا سکایی نامی صحرائی قبیلہ کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا (۵۳۰ق م) بہرحال اس کی موت کا سبب واضح نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے بارے میں تاریخ میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
کمبوجیہ اول کے بیٹے کورش دوم ملقب ”کبیر“ نے جو کہ ھخامنشیان کے انشان سلسلہ سے تھا، درحقیقت وہی اس جہانی حکومت کا بانی تھا۔ اس کی انشان ریاستی حکومت کا آغاز ۵۵۹ق م میں ہوا لیکن اس نے پارس کے تمام قبائل کو متحد کرنے ایران کو حکومت اورقدرت کو مادوں کے چنگل سے نکالا اور ہمدان کے سقوط کے ساتھ ہی کورش کی مستقل حکومت کا آغاز ہوگیا۔
 
 
کچھ ہی عرصہ بعد ساردپر پارس کی فوج کے حملہ کے ساتھ ہی لیدیا کی حکومت بھی سرنگوں ہو گئی(۵۴۷ق م)اوراس کے بعد بتدریج تمام ایشیاء صغیر اور یونانی آناتولی کی زیرتسلط حکومتوں پر ھخامنشیان کا قبضہ ہوگیا (۵۴۶ق م) یہ واقعہ یونانیوں سے ھخامنشیان کے سیدھے ٹکراؤ کا سبب بنا جس کا نتیجہ طویل اور ہمیشہ رقابت اورجنگ کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ کچھ ہی سالوں میں کورش نے مشرقی ایران اورمرکزی ایشیاء کی تمام ریاستوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومت میں شامل کر لیا (۵۴۵۔۵۳۹ق م) اس کے بعد بابل پرحملے کی تیاریوں میں لگ گیا اورمختصرسے حملوں اورجنگ کے بعد بابل کے مضبوط قلعے، برج اورڈھیروں مہمات کے باوجود اسے فتح کرلیا گیا ۵۳۹ق م) اس کے بعد کورش شہنشاہ بابل کے نام سے جانا جانے لگا،اس نے صلح وصفائی کی تاکید کے بعد عبادت گاہوں کی تعمیرنو کاحکم دیا۔ بابل کو تسخیر اور فتح کرنے کے ساتھ ہی بین النہرین، شام ،فلسطین اور فنیقیہ کے علاقے بھی (۵۲۹ق م )سے ھخامنشیان کی حکومت میں داخل ہوگئے، کورش ظاہرا سکایی نامی صحرائی قبیلہ کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا (۵۳۰ق م) بہرحال اس کی موت کا سبب واضح نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے بارے میں تاریخ میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
 
 
کو کورشرش کی فرمانروائی کا علاقہ اس قدر وسیع وعریض تھا کہ اس سے پہلے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اس نے اپنی راجدھانی کا نام اپنے قبیلہ پر افتخار کے عنوان سے پاسارگاد رکھا، کورشکو رش کی شہرت ایک بڑی فرمانروا اورفاتحاور فاتح کے عنوان سے اس کے زمانے کے صدیوں بعد تک ہمیشہ لوگوں کی تحسین کا سبب رہی، جس زمانے میں قتل وغارت وخون ریزی ومذہبی سختی اس زمانے کے بادشاہوں کا وطیرہ تھا۔ کورشکو رش نے اس طرح کی باتوں سے پرہیزکیا اورحکومتاور حکو مت وسلطنت کی نئی راہ لوگوں میں متعارف کرائی، کورشکو رش کی نظر انداز کرنے والی اس سیاست نے جس پر بعد میں دوسرے ھخامنش بادشاہوں نے بھی عمل کیا، اس حکومتحکو مت کے توسعہ اوراساور اس کے نظم و ضبط میں مددگار ثابت ہوئی۔
 
کوروشکو روش کا مدفن
کورش کے بعد اس کا بیٹا کمبوجیہ (۵۳۰۔۵۲۲) نے باپ کی حکمت عملی کے مطابق فتح مصر کو عملی کرکے دکھایا (۵۲۵ق م)اورشمال افریقا کے بعض علاقوں کو ھخامنش حکومت کے زیرقیادت لے آیا، کمبوجیہ کی ایران میں عدم موجودگی کے زمانے میں ایک مذہبی رہنمانے جس کا نام گئوماتہ تھا، خود کو مقتول کمبوجہ کا بھائی ثابت کرکے ایران کے تخت پرقابض ہوگیا، کمبوجیہ کو جیسے ہی بغاوت کی خبرہوئی اس نے ایران کا رخ کیا مگرراستہ ہی میں نامعلوم طریقے سے اسے قتل کردیا گیا اورسرانجام داریوش اول جو ھخامنش کے پارس خاندان کا فرد تھا، گئوماتہ کوقتل کرکے تخت حکومت پر بیٹھا (۵۲۲ق م)۔
 
کو کورشرش کے بعد اس کا بیٹا کمبوجیہ (۵۳۰۔۵۲۲) نے باپ کی حکمت عملی کے مطابق فتح مصر کو عملی کرکے دکھایا (۵۲۵ق م)اورشمالاور شمال افریقا کے بعض علاقوں کو ھخامنش حکومتحکو مت کے زیرقیادت لے آیا، کمبوجیہ کی ایران میں عدم موجودگی کے زمانے میں ایک مذہبی رہنمانے جس کا نام گئوماتہ تھا، خود کو مقتول کمبوجہ کا بھائی ثابت کرکے ایران کے تخت پرقابض ہوگیا، کمبوجیہ کو جیسے ہی بغاوت کی خبرہوئی اس نے ایران کا رخ کیا مگرراستہ ہی میں نامعلوم طریقے سے اسے قتل کردیا گیا اورسرانجاماور سرانجام داریوش اول جو ھخامنش کے پارس خاندان کا فرد تھا، گئوماتہ کوقتلکو قتل کرکے تخت حکومتحکو مت پر بیٹھا (۵۲۲ق م)۔
داریوش کا خودنوشت کتیبہ بیستون کے مطابق(ستون۴،کے بندنمبر ۵۲،۵۷، ۵۹، ۶۲ ) تخت پربیٹھنے کے ایک سال بعد تک بغاوتوں کو کچلتا رہا جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھیں، اس کے باوجود کہ داریوش کی صداقت جواس نے کتیبہ بیستون میں بیان کی ہیں اس سے گئوماتہ کے واقعہ میں شک وشبہ کا شکار ہوجاتا ہے۔
 
داریوش کا خودنوشت کتیبہ بیستون کے مطابق(ستون۴،کے بندنمبر ۵۲،۵۷، ۵۹، ۶۲ ) تخت پربیٹھنے کے ایک سال بعد تک بغاوتوں کو کچلتا رہا جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھیں، اس کے باوجود کہ داریوش کی صداقت جواس نے کتیبہ بیستون میں بیان کی ہیں اس سے گئوماتہ کے واقعہ میں شک وشبہ کا شکار ہوجاتا ہے۔
داریوش اول کی حکومت میں ھخامنش سلطنت کی وسعت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا، داریوش کی حسن تدبیراور انتظامی صلاحیتیں ملک میں امنیت کا سبب بنیں، اس نے ملک میں مختلف منظم شعائر،اقتصادی اورانتظامی ادارے قائم کئے، ملک کو انسجام بخشا،اس کے حکم سے تخت جمشید اور شوش کی عظمی عمارتیں تعمیر ہوئیں، سونے کے سکے جاری ہوئے،شاہی سٹرکیں تعمیرہوئیں جو شوش کو سارد اورافسوس سے متصل کرتی تھیں، ایک دائمی فوج، تشکیل دی گئی، یہی وجہ ہے کہ اسے پارس کی بادشاہت کا معمار(موسس) نام اورکبیر لقب دیا گیا ہے، لیکن داریوش غربی علاقوں کی طرف سے ہمیشہ دشواری کاشکار رہا اسکی افواج نے یونان کے ماراتن نامی علاقہ میں ہزیمت اٹھائی اورانہیں عقب نشینی کرناپڑی (۴۹۰ق م) یہ غیر متوقع واقع سبب بناکہ یونانی اس جنگ کےبارے میں جومبالغہ چاہیں کریں کچھ عرصہ بعد داریوش اول جوشاید عہدقدیم کی مشرق زمین کا سب سے مقتدر بادشاہ تھا ،اس دنیا سے انتقال کرگیا۔
 
داریوش اول کی حکومتحکو مت میں ھخامنش سلطنت کی وسعت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا، داریوش کی حسن تدبیراور انتظامی صلاحیتیں ملک میں امنیت کا سبب بنیں، اس نے ملک میں مختلف منظم شعائر،اقتصادی اورانتظامیاور انتظامی ادارے قائم کئے، ملک کو انسجام بخشا،اس کے حکم سے تخت جمشید اور شوش کی عظمی عمارتیں تعمیر ہوئیں، سونے کے سکے جاری ہوئے،شاہی سٹرکیں تعمیرہوئیں جو شوش کو سارد اورافسوساور افسوس سے متصل کرتی تھیں، ایک دائمی فوج، تشکیل دی گئی، یہی وجہ ہے کہ اسے پارس کی بادشاہت کا معمار(موسس) نام اورکبیراور کبیر لقب دیا گیا ہے، لیکن داریوش غربی علاقوں کی طرف سے ہمیشہ دشواری کاشکار رہا اسکی افواج نے یونان کے ماراتن نامی علاقہ میں ہزیمت اٹھائی اورانہیںاور انہیں عقب نشینی کرناپڑی (۴۹۰ق م) یہ غیر متوقع واقع سبب بناکہ یونانی اس جنگ کےبارے میں جومبالغہ چاہیں کریں کچھ عرصہ بعد داریوش اول جوشاید عہدقدیم کی مشرق زمین کا سب سے مقتدر بادشاہ تھا ،اس دنیا سے انتقال کرگیا۔
اس کاجانشین اوربیٹا خیشارشا اپنے باپ والی انتظامی استعداداورصلاحیت سے محروم تھا، اس نے اس نے مصر وبابل کی بغاوتوں کوبری طرح کچل ڈالنے کے بعد یونان پرچڑھائی کردی اورآتن کوتہہ وبالاکرڈالا مگر ھخامنش دریائی افواج کو سالامیس نامی گھاٹی میںبہت نقصان اٹھاناپڑا(۴۸۰ق م)یونانیوں نے اس جنگ کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا، خصوصا جنگی بیڑوں اور ھخامنش کی فوج کی تعداد کے بارے میں افسانے تراشنے اورگھڑنے شروع کردئیے، حالانکہ یہ شکست خشیارشا کی امیدوں کے قطعی برخلاف تھی لیکن ایران میں کوئی اس کوایک معمولی اوروقتی شکست ماننے کوتیار نہیں تھا۔
 
اس کاجانشین اور اس کاجانشین اوربیٹابیٹا خیشارشا اپنے باپ والی انتظامی استعداداورصلاحیتاستعداداور صلاحیت سے محروم تھا، اس نے اس نے مصر وبابل کی بغاوتوں کوبریکو بری طرح کچل ڈالنے کے بعد یونان پرچڑھائی کردی اورآتناور آتن کو تہہ وبالا کوتہہکر وبالاکرڈالاڈالا مگر ھخامنش دریائی افواج کو سالامیس نامی گھاٹی میںبہت نقصان اٹھاناپڑا(۴۸۰ق م)یونانیوں نے اس جنگ کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا، خصوصا جنگی بیڑوں اور ھخامنش کی فوج کی تعداد کے بارے میں افسانے تراشنے اورگھڑنےاور گھڑنے شروع کردئیے، حالانکہ یہ شکست خشیارشا کی امیدوں کے قطعی برخلاف تھی لیکن ایران میں کوئیکو ئی اس کوایککو ایک معمولی اوروقتیاور وقتی شکست ماننے کوتیارکو تیار نہیں تھا۔
 
 
خشایارشا
 
خشیار کے قتل کے ساتھ ہی (۴۶۵ق م)جوایک سازش کا نتیجہ تھا، ھخامنش حکومتحکو مت کادربار آہستہ آہستہ حرم سرا سازشوں اورخواجہاور خواجہ سراؤں کی سیاست بازیوں کا شکارہوگئی، داریوش اول کے اکثر جانشینوں میں حکومتحکو مت کی تدبیر ولیاقت نہیں تھی اس کے باوجود ھخامنش حکومتحکو مت ایک طویل عرصہ تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلتی رہی اس کا سبب خود داریوش کے ذریعہ قائم ومنظم ومقتدر ادارے اورحکومتاور حکو مت تھی جس کی تاسیس اس نے کی تھی، حتی کہ مصر کے ھخامنش حکومتحکو مت سے داریوش دوم (حک۴۲۳۔ ۴۰۴ق م)کی حکومتحکو مت کے آخری دورمیں جدا ہوجانے کے بعد ،اوراس،اور اس کے بیٹے کورشکو رش (حک۴۰۱ق م)کی اردشیردوم کے بھائی (حک۴۰۴۔۳۵۹ق م)کے خلاف بغاوت اورھخامنشاور حکومت ھخامنش حکو مت سے ۱۰ہزار یونانی افواج کے قلب لشکر ھخامنش کے جداہونے اپنے ملک واپس ہوجانا، جو ھخامنش حکومتحکو مت کی فوجی انحطاط کی نشانی ہے اس کے باوجود ھخامنش حکومتحکو مت جوں کی توں رہی اس پرکوئیپرکو ئی اثر نہیں پڑا حالانکہ مصر چند سال کے بعد اردشیرسوم (حک۳۵۹۔۳۳۸ق م)کے دور کی حکومتحکو مت دوبارہ پارسیوں کی حکومتحکو مت سے ملحق ہوگئی،داریوش اول نے ملک کو مختلف صوبوں میں تقسیم کررکھاتھا یہ تقسیم چند جزئی تغییرات کے علاوہ پوری کی پوری آخرتک ویسے ہی باقی رہی۔ وہ فہرست جو ہردوت نے ھخامنش حکومتحکو مت کی تقسیم کے بارے میں ذکرکی ہے اگرچہ کہ اس سلسلہ کے بادشاہوں کے کتیبہ سے مختلف ہے، مگراس سے ان علاقوں کے مالیات(ٹیکس) کے بارے میں زبردست اوردلچسپاور دلچسپ اطلاعات فراہم ہوتی ہے۔ اردشیرسوم کوسیاسیکو سیاسی وفوجی کامیابیوں کے باوجود، اپنے بھائیوں اورقریبیاور قریبی رشتہ داروں کاقتل عام کرنا، اس کی حکومتحکو مت کی تباہی ثابت ہوئی، جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ھخامنشی بادشاہ داریوش سون نے خود کو سکندر مقدونی کے مقابلے میں مجبور وکمزورپایا، سکندر کے لشکرکے ساتھ اس کی پہلی جنگ ایشیاء صغیر کے مغرب میں گرانیکوسگرانیکو س ندی کے کنارے ہوئی جس سے ہزیمت اٹھانی پڑی(۳۳۴ق م) اس کے بعد خلیج اسکندروں کے قریب ایسوس کے مقام پر سکندر کی دوسری فتح کے ساتھ(۳۳۳ق م) داریوش کا خانوادہ اورڈھیروںاور ڈھیروں غنائم پراسکندرکیپر اسکندر کی فوج کا قبضہ ہوگیا (۳۳۲ق م) مصرکی فتح کے بعد اسکندرنےاسکندر نے بابل کارخکا رخ کیا اورموصلاور موصل کے نزدیک ”گاوگاملا“(گوگمل) میں ھخامنش سپاہ سے اس کی آخری لڑائی ہوئی جس میں اس فتح حاصل ہوئی (۳۳۱ق م) اس فتح سے شوش اورتختاور تخت جمشید بھی اس کے قبضہ میں اگئے، اسکندر جوکہ داریوش سوم کا پیچھا کررہاتھا،کر رہا تھا، آخرمیں اس کو داریوش کی لاش ملی، داریوش کو اس کے ساتھیوں نے قتل کیاتھا (۳۳۰ق م )
 
{{سلطنتاں دی تریخ}}