تدوین حدیث کی تاریخ (History of Hadith Compilation)

احادیث کی تدوین: پہلی، دوسری اور تیسری صدی ہجری میں

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شب و روز حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی صحبت میں گزرا کرتے تھے۔ انہوں نے آپ کی بہت سی باتوں کو نوٹ کیا اور آپ کی حیات طیبہ میں اور اس کے بعد اسے بیان کرنا شروع کردیا۔ صحابہ کرام سے یہ علم تابعین کو منتقل ہوا۔

          ہمیں جن صحابہ کرام علیہم الرضوان سے یہ حدیثیں سب سے زیادہ تعداد میں مل سکی ہیں ان میں حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر بن خطاب، انس بن مالک، ام المومنین حضرت عائشہ، عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن مسعود،  عبد اللہ بن عمرو بن عاص، علی المرتضی، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کی شخصیات بہت نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہ سے احادیث مروی ہیں لیکن ان کی تعداد کافی کم ہے۔ بعض صحابہ نے ذاتی طور پر احادیث کو لکھ کر محفوظ کرنے کا کام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں شروع کر دیا تھا۔
         صحابہ کے بعد تابعین کا دور آیا۔ تابعین ان لوگوں کو کہتے ہیں جنہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا اور ان سے دین سیکھا۔ اگرچہ تابعین حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے سے بہت قریب تھے لیکن آپ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی زیارت کی سعادت حاصل نہ کرسکے تھے چنانچہ وہ بڑے اشتیاق کے ساتھ صحابہ کرام سے آپ کی باتیں سنا کرتے تھے۔ یہی شوق ان کے بعد تبع تابعین، یعنی وہ حضرات جنہوں نے تابعین کا زمانہ پایا اور ان سے دین سیکھا، اور ان کے بعد کی نسلوں میں منتقل ہوا۔ بہت سے تابعین نے بھی اپنے ذخیرہ احادیث کو تحریری صورت میں محفوظ بھی کرلیا تھا۔
         رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے حاصل کردہ معلومات کے بیان کا معاملہ انتہائی حساس (Sensitive) ہے۔ ایک متواتر اور مشہور حدیث کے مطابق اگرکوئی آپ سے جھوٹی بات منسوب کر دے تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں صحابہ کرام علیہم الرضوان بہت احتیاط فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بڑے بڑے صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، طلحۃ، زبیر، ابوعبیدہ، عباس رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث کی تعداد بہت کم ہے۔
         ایسا ضرور ہوا ہے کہ بعض مواقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص یہ ارشاد فرمایا کہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچا دیا جائے۔ اس کی ایک مثال حجۃ الوداع کا خطبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطبہ ہم تک معنوی اعتبار سے تواتر سے پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ جن صحابہ نے احادیث بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، وہ ان کے اپنے ذوق، فہم ، رجحان طبع اور Initiative   کی بنیاد پر تھا۔ احادیث کے معاملے کی اسی حساسیت کی وجہ سے حدیث کو بیان کرنے والے افراد نے یہ اہتمام کیا کہ کوئی حدیث ان تک جس جس شخص سے گزر کر پہنچی، انہوں نے اس کا پورا ریکارڈ رکھا۔
         کچھ ہی عرصے میں احادیث بیان کرنے والوں کو معاشرے اور حکومت کی طرف سے غیر معمولی مقام حاصل ہوگیا۔ اس ممتاز طبقے کو محدثین کہا جاتا ہے۔ ان محدثین نے اپنی پوری پوری عمریں حدیث رسول  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی تعلیم و تبلیغ میں صرف کر دیں۔ یہ حضرات ایک ایک حدیث کا علم حاصل کرنے کے لئے سینکڑوں میل کا سفر کرنے سے بھی گریز نہ کرتے۔

وضع احادیث کے اسباب

اس صورتحال کے کچھ منفی اثرات بھی سامنے آئے۔ اسی دور میں اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی طرف منسوب کرنے کا فتنہ پیدا ہوا جو دین میں پیدا کئے جانے والے فتنوں میں سب سے زیادہ شدید ہے۔ ان گھڑی ہوئی حدیثوں کو"موضوع حدیث" یعنی وضع کی گئی جعلی حدیث کا نام دیا گیا۔ جعلی حدیثیں گھڑنے جیسا مذموم فعل کرنے کے پیچھے بہت سے عوامل تھے جن میں سے اہم یہ ہیں:

· پچھلے آسمانی مذاہب کی طرح اسلام کے دشمن بھی حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے ہی سے مسلمانوں میں کچھ گمراہ کن افکار داخل کرنے کی کوشش میں تھے۔ خلافت راشدہ کے دور میں انہیں اس کا موقع نہ مل سکا۔ بعد کے ادوار میں انہیں اس کا ایک موقع میسر آگیا۔ ان لوگوں کے لئے یہ تو ممکن نہ تھا کہ اپنی طرف سے قرآن مجید یا سنت متواترہ میں کوئی اضافہ کر سکتے کیونکہ ان کو کروڑوں مسلمان اپنے قولی و فعلی تواتر سے آگے منتقل کر رہے تھے، البتہ حدیث کے میدان میں ان کے لئے کسی حد تک گنجائش موجود تھی۔چنانچہ اپنے افکار کو پھیلانے کے لئے انہوں نے حدیثیں گھڑنے کا کام شروع کردیا۔ ابن ابی العوجاء نامی حدیثیں ایجاد کرنے والے ایک شخص کو بصرہ کے گورنر محمد بن سلیمان بن علی کے پاس لایا گیا تو اس نے اعتراف کیا: "میں نے تم لوگوں میں 4000 جعلی احادیث پھیلا دی ہیں، جن میں میں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے۔" اس کے جواب میں اسے کہا گیا کہ محدثین انہیں چھانٹ کر الگ کر لیں گے۔ (ڈاکٹر سعید احسن عابدی، موضوع اور منکر روایات، ص 50)

· اس دور تک امت میں سیاسی گروہ بندی بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ ہر دھڑے کے کم علم اور کم فہم افراد نے اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کے فضائل اور ناپسندیدہ شخصیات کی مذمت میں جعلی حدیثیں گھڑیں اور انہیں بیان کرنا شروع کردیا۔

· اس وقت تک مسلمانوں میں فرقہ پرستی کی وبا پھیل چکی تھی۔ بہت سے فرقہ پرست متعصب افراد نے اپنے نقطہ نظر اور افکار کی حمایت اور اپنے مخالفین کی مذمت میں احادیث وضع کرنا شروع کیں۔ جرح و تعدیل کے مشہور امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" کے مقدمے میں ایسے ہی ایک صاحب، جو احادیث گھڑا کرتے تھے اور بعد میں اس مذموم عمل سے توبہ کر چکے تھے، کا یہ قول نقل کیا ہے، "اس بات پر نگاہ رکھو کہ تم اپنا دین کن لوگوں سے اخذ کر رہے ہو۔ ہمارا یہ حال رہا ہے کہ جب ہمیں کوئی چیز پسند ہوتی تو اس کے لئے حدیث گھڑ لیا کرتے تھے۔" (ایضا، ص 50)

· چونکہ محدثین کو معاشرے میں باعزت مقام حاصل تھا اور ان کے لئے دنیاوی جاہ اور مال و دولت کے دروازے کھلے تھے، اس لئے بعض مفاد پرستوں نے بھی یہ فوائد حاصل کرنے کے لئے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑ کر پھیلانا شروع کردیں۔ یہ مفاد پرست خود تو اس قابل تھے نہیں کہ محدثین جتنی محنت کر سکتے، انہوں نے سستی شہرت کے حصول کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اپنی طرف سے احادیث وضع کرنا شروع کر دیں۔

· بعض ایسے بھی نامعقول لوگ تھے جنہوں نے محض اپنی پراڈکٹس کی سیل میں اضافے کے لئے ان چیزوں کے بارے میں حدیثیں گھڑنا شروع کردیں۔ مثال کے طور پر ہریسہ (ایک عرب مٹھائی) بیچنے والا ایک شخص یہ کہہ کر ہریسہ بیچا کرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو ہریسہ بہت پسند تھا۔

· بعض ایسے افراد بھی تھے جو ذاتی طور پر بہت نیک تھے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلم معاشرے میں دنیا پرستی کی وبا پھیلتی جارہی ہے تو انہوں نے اپنی ناسمجھی اور بے وقوفی میں دنیا پرستی کی مذمت ، قرآن مجید کی سورتوں اور نیک اعمال اور اوراد و وظائف کے فضائل میں حدیثیں گھڑ کر بیان کرنا شروع کردیں تاکہ لوگ نیکیوں کی طرف مائل ہوں۔ انہی جعلی احادیث کی بڑی تعداد آج بھی بعض کم علم مبلغ اپنی تقاریر میں زور و شور سے بیان کرتے ہیں۔ مصر کے مشہور محدث اور محقق علامہ احمد محمد شاکر (م 1957ء) لکھتے ہیں، "احادیث گھڑنے والوں میں بدترین لوگ اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے وہ ہیں جنہوں نے خود کو زہد و تصوف سے وابستہ کر رکھا ہے۔ یہ لوگ نیکی کے اجر اور برائیوں کے برے انجام سے متعلق احادیث وضع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے بلکہ اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ اپنے اس عمل کے ذریعے وہ اللہ سے اجر پائیں گے۔"(ایضا، ص 30) امام مسلم، صحیح مسلم کے مقدمے میں لکھتے ہیں، "ہم نے ان صالحین کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔" (مقدمہ صحیح مسلم)

ان تمام عوامل کے نتیجے میں حدیث کے پاکیزہ اور خالص ذخیرے میں بہت سی جعلی احادیث کی ملاوٹ ہوگئی۔اس موقع پر ہمارے محدثین (اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے) نے ایک نہایت ہی اعلیٰ نوعیت کا اہتمام فرمایا۔ انہوں نے اپنی دن رات کی محنت سے احادیث بیان کرنے والوں کی عمومی شہرت کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کردیا۔ ان کی ان کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا وہ فن وجود میں آیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر اسپرنگر کے مطابق یہ ایک ایسا فن ہے جس کی مدد سے پانچ لاکھ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

احادیث کی چھان بین کے طریقے

علم حدیث میں کسی بھی حدیث کے دو حصے مانے جاتے ہیں: ایک حصہ اس کی سند اور دوسرا متن۔ "سند" سے مراد وہ حصہ ہوتا ہے جس میں حدیث کی کتاب کو ترتیب دینے والے امامِ حدیث (Compiler) سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تک کے تمام راویوں (حدیث بیان کرنے والے) کی مکمل یا نامکمل زنجیر (Chain of Narrators) کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔

         "متن" حدیث کا اصل حصہ ہوتا ہے جس میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا کوئی ارشاد، آپ کا کوئی عمل یا آپ سے متعلق کوئی حالات بیان کئے گئے ہوتے ہیں۔ سند کی تحقیق میں سند کا حدیث کی کتاب کے مصنف سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک ملا ہوا ہونا اور راویوں پر جرح و تعدیل شامل ہیں جبکہ متن کی تحقیق کو درایت حدیث کہا جاتا ہے۔

سند کا اتصال

سب سے پہلے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ سند حدیث بیان کرنے والے سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک ملی ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر ایک راوی کی وفات مثلاً 200ھ میں ہوئی ہے اور کوئی شخص اس سے 210ھ میں حدیث روایت کرنے کا دعوی کر رہا ہو تو ظاہر ہے وہ اپنے دعوے میں درست نہیں ہے۔ ایسی صورت میں سند متصل (یعنی ملی ہوئی) نہیں بلکہ منقطع (ٹوٹی ہوئی) ہوتی ہے۔

راویوں پر جرح و تعدیل

فن رجال وہ علم ہے جس میں حدیث بیان کرنے والے تقریباً تمام راویوں کی عمومی شہرت کا ریکارڈ مل جاتا ہے۔ حدیث میں اس ملاوٹ کی وجہ سے محدثین نے احادیث کو پرکھنے کے اصول مرتب کئے تاکہ فلٹر کرکے اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جاسکے۔ ان اصولوں کو سمجھنے کے لئے ہم ایک مثال سے وضاحت کرتے ہیں۔

         فرض کیجئے امام ترمذی اپنی کتاب "الجامع الصحیح سنن" میں جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے ایک حدیث بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث کے سند والے حصے میں سند کچھ یوں بیان ہوتی ہے:  "ہم سے اس حدیث کو راوی 'اے' نے بیان کیا، ان سے اس حدیث کو 'بی' نے بیان کیا، ان سے اس حدیث کو 'سی' نے بیان کیا، انہوں نے اس حدیث کو 'ڈی' سے سنا اور انہوں نے 'حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ' کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا: ---------- [حدیث کا متن]"۔
         اس حدیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے لے کر امام ترمذی تک پانچ افراد ہیں جن میں سے ایک صحابی رسول سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے علاوہ چار اور اشخاص ہیں، چھٹے امام ترمذی خود ہیں۔ ہمیں یہ چیک کرنا ہے کہ کیا یہ حدیث واقعی حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمائی تھی یا پھر کسی نے اسے اپنی طرف سے وضع کرکے آپ کی طرف منسوب کر دیا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ چیک کرنا ہے کہ یہ حدیث اصلی ہے یا جعلی۔
         اس چیکنگ کے لئے محدثین نے جو ٹسٹ ایجاد کئے ہیں، ان میں سے سب سے پہلا اور اہم ترین یہ ہے کہ حدیث کے راویوں کو اچھی طرح دیکھ لیا جائے کہ وہ قابل اعتبار ہیں کہ نہیں۔ اس اصول کی بنیاد قرآن مجید کی اس آیت پر ہے:  یا ایھا الذین اٰمنوا ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا۔ (الحجرات 49:4) "اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی اچھی طرح جانچ پڑتا ل کرلو۔"
         امام ترمذی حدیث کے مشہور امام ہیں اور ان کے حالات ہمیں تفصیل سے معلوم ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انتہائی دیانت دار،  محتاط اور قابل اعتماد شخص ہیں۔ اس معاملے میں ان کے بارے میں پوری امت کا اتفاق ہے ۔ ان کی کتاب جامع ترمذی ان کی زندگی ہی میں مشہور ہوگئی تھی۔ بہت سے طلباء نے ان سے یہ کتاب پڑھی تھی۔ اس کی سینکڑوں کاپیاں ان کی زندگی ہی میں تیار ہو کر عالم اسلام میں پھیل چکی تھیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس کتاب کی لاکھوں کاپیاں تیار کی جاچکی ہیں اور ہر دور میں، ہر دینی مدرسے میں حدیث کے طالب علم اس کتاب کو پڑھتے آرہے ہیں، اس کی بہت سی شروحات (Commentaries) لکھی جاچکی ہیں، چنانچہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کسی نے ان کی کتاب میں اپنی طرف سے کوئی حدیث گھڑ کر لکھ دی ہو۔
         ایسا ضرور ممکن ہے کہ جامع ترمذی کے مختلف نسخوں میں کتابت وغیرہ کی غلطیوں کے باعث تھوڑا بہت فرق پایا جاتا ہو لیکن مجموعی طور پر اس کتاب کے اپنے مصنف کی طرف منسوب ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ جامع ترمذی کے ہر دور کے نسخے دنیا بھر کی لائبریریوں اور میوزیمز میں دستیاب ہیں۔ قدیم دور کی قلمی کتابیں، جنہیں مخطوطہ کہا جاتا ہے، کو ڈیجیٹل تصاویر کی صورت میں دنیا بھر کے محققین کے لئے دستیاب کر دیا گیا ہے۔ جامع ترمذی کے مختلف ادوار کے نسخوں کا اگر ایک دوسرے سے تقابل کیا جائے تو ان میں کوئی بہت بڑا فرق موجود نہیں ہے۔
         کسی کی کتاب میں اپنی طرف سے کچھ داخل کر دینے کا عمل صرف انہی کتابوں ہی میں ممکن ہے جو صرف چند افراد تک محدود تھیں مثلاً اہل تصوف کی کتابیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم سے لے کر امام ترمذی تک تو کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
         اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔ آپ کی دیانت داری اور حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت پر کوئی شک نہیں کر سکتا۔  ضرورت اصل میں امام ترمذی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان موجود چار اشخاص کو تفصیل سے چیک کرنے کی ہے کیونکہ اگر کوئی گڑبڑ ہوسکتی ہے تو وہ ان ہی میں ہو سکتی ہے۔ اس چیکنگ کو محدثین "جرح و تعدیل"  کا نام دیتے ہیں۔
         اس عمل میں ان میں سے ہر شخص کے بارے میں یہ سوالات کئے جاتے ہیں کہ کیا ان کی شہرت ایک دیانت دار اور محتاط شخص کی ہے؟ کیا وہ اپنی نارمل زندگی میں ایک معقول انسان تھے؟ کہیں وہ لاابالی اور لاپرواہ سے آدمی تو نہیں تھے؟ کہیں وہ کسی ایسے سیاسی یا مذہبی گروہ سے تعلق تو نہیں رکھتے تھے جو اپنے عقائد و نظریات کو فروغ دینے کے لئے حدیثیں گھڑتا ہو؟ کہیں وہ کسی شخصیت کی عقیدت کے جوش میں اندھے تو نہیں ہوگئے تھے؟ عمر کے کسی حصے میں کہیں ان کی یادداشت تو کمزور نہیں ہوگئی تھی یا ان کی حدیث لکھنے والی ڈائری گم تو نہیں ہو گئی تھی؟ یہ صاحب حدیثوں کو لکھ لیتے تھے یا ویسے ہی یاد کر لیتے تھے؟ ان کے قریب جو لوگ تھے، اُن کی اِن کے بارے میں کیا رائے ہے؟  وہ کس شہر میں رہتے تھے؟ انہوں نے کس کس امام حدیث سے کس زمانے میں تعلیم حاصل کی؟ وہ کب پیدا ہوئے اور کب فوت ہوئے؟ ان کی کس کس محدث اور راوی سے ملاقات ثابت ہے؟
         اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں راویوں کے بارے میں یہ معلومات کہاں سے آئیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فن رجال کے ماہرین نے اپنی پوری زندگیاں وقف کر کے ان تمام معلومات کا اہتمام کر دیا ہے۔ انہوں نے ان راویوں کے شہروں کا سفر کیا اور ان راویوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ چونکہ یہ لوگ حدیث بیان کرنے کی وجہ سے اپنے اپنے شہروں میں مشہور افراد تھے، اس لئے ان کے بارے میں معلومات بھی نسبتاً آسانی سے مل گئیں۔ یہ تمام معلوما ت فن رجال کی کتابوں میں محفوظ کردی گئی ہیں۔ یہ کتب بھی عام شائع ہوتی ہیں اور کوئی بھی شخص انہیں حاصل کرسکتا ہے۔ اب تو انٹرنیٹ پر بھی یہ کتب بلامعاوضہ مہیا کر دی گئی ہیں۔ کوئی بھی شخص انہیں سرچ کر کے حاصل کر سکتا ہے۔
         ہمارے علم کے مطابق ان میں سے کسی کتاب کا اردو ترجمہ ابھی تک شائع نہیں ہوا کیونکہ ان کے استعمال کرنے والے سب لوگ عربی سے واقف ہی ہوتے ہیں۔چنانچہ ان کا مطالعہ کرنے کے لئے عربی زبان سے واقفیت ضروری ہے۔ حالیہ سالوں میں ایسے سافٹ ویئر بھی دستیاب ہو چکے ہیں جن میں کسی راوی کے نام پر کلک کرکے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اردن کے "دار التراث الاسلامی" کا تیار کردہ سافٹ وئیر ہے۔
         اس تحقیق کے نتیجے میں ہمیں اپنی زیر بحث حدیث کے تمام راویوں کے بارے میں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دیانت دار اور معقول لوگ تھے۔ ان کا تعلق کسی ایسے گروہ سے نہیں تھا جو حدیثیں گھڑنے کی شہرت رکھتا ہو۔ یہ محتاط اور اچھی شہرت کے حامل تھے۔ لوگوں کی ان کے بارے میں رائے اچھی تھی۔ یہ اچھی یادداشت رکھنے والے لوگ تھے اور حدیثوں کو محفوظ بھی کر لیتے تھے۔ اگر ان میں سے کسی ایک راوی کے بارے میں بھی ایسی معلومات ملتی ہیں جس سے وہ ناقابل اعتبار ثابت ہوتا ہے تو اس کی بیان کردہ تمام احادیث کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔
         مسترد کرنے کا معنی یہ ہے کہ یہ طے کر لیا جائے کہ اس حدیث کو حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنا درست نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ ان راویوں کی آپس میں ملاقات بھی ہوئی ہے یا نہیں۔ فرض کیجئے کہ راوی اے کی پیدائش 200 ہجری میں ہوئی اور راوی بی کی وفات 190  ہجری میں ہوئی تو یہ بات کنفرم ہوگئی کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن نہیں۔
         اسی طرح راوی سی اگر کوفہ میں رہتا تھا اور ساری عمر شہر سے باہر نہیں نکلا اور راوی ڈی دمشق میں رہتا تھا اور کبھی کسی سفر پر کوفہ نہیں گیا تب بھی یہ بات کنفرم ہو جاتی ہے کہ ان دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایسی صورتوں میں یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ ان دو راویوں کے درمیان بھی کوئی راوی موجود ہے جس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ چیز بھی اس حدیث کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے۔
         ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی راوی کے بارے میں سرے سے معلومات ہی دستیاب نہ ہوں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں بھی حدیث کمزور حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ اسی طرح ایک صحابی اگر کسی حدیث کو بیان کرتے ہوں اور کسی دوسری مستند روایت سے یہ ثابت ہو جائے کہ ان کا اپنا عمل اس حدیث کے خلاف تھا تو یہ چیز بھی حدیث کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے کیونکہ صحابہ کرام کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حضور  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے کسی ارشاد کو جاننے کے باوجود اس پر عمل نہ کریں۔ ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے وہ حکم کسی خاص صورتحال کے پیش نظر دیا ہو جو ہر حال میں قابل عمل نہ ہو۔
         کمزور احادیث کو علم حدیث کی اصطلاح میں "حدیث ضعیف" کہا جاتا ہے۔ جبکہ درست سند کی احادیث کو "صحیح" اور "حسن" کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ محدثین نے حدیث کی بہت سی اقسام بیان کی ہیں جن کی تفصیل آگے اصل کتاب کے متن میں دیکھی جاسکتی ہے۔
         اس قدر تفصیلی چھان بین کے بعد حدیث کی سند کی تحقیق کا کام مکمل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کے بارے میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی سند درست ہے۔ اس کے تمام راوی قابل اعتبار ہیں اور اس سند کی زنجیر میں کوئی کڑی غائب نہیں۔ تاہم یہ ایک فطری سی بات ہے کہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، بسا اوقات کسی بات کو سمجھنے اور بیان کرنے میں غلطی کر سکتا ہے۔ اسے غلط فہمی بھی لاحق ہوسکتی ہے، وہ بات کو یا اس کے کچھ حصے کو بھول بھی سکتا ہے، اس سے بیان کرنے میں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ اس قسم کی غلطیوں سے کسی بڑی شخصیت کے علم و فضل اور جلالت شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ اس قسم کی خطائیں ہر انسان کا خاصہ ہے۔
         ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک شخص نے تو بات مکمل طور پر بیان کر دی ہو لیکن دوسرا اسے سمجھنے میں اور آگے منتقل کرنے میں غلطی کردے۔ سند جتنی طویل ہوتی جائے گی، اور حدیث کی کتاب مرتب کرنے والے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے درمیان زنجیر کی کڑیاں بڑھتی جائیں گی تو اس قسم کی غلطیوں کا امکان بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین ان احادیث کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جن کی سند مختصر ہو بشرطیکہ وہ ثقہ (Reliable)   راویوں کے ذریعے منتقل ہوئی ہوں۔
          عام طور پر احادیث کی سند میں تین سے لے کر نو افراد تک موجود ہوتے ہیں۔ تین راویوں والی احادیث کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ موطاء امام مالک میں بہت سی ایسی احادیث موجود ہیں کیونکہ امام مالک علیہ الرحمۃ (م 179ھ) اور حضور  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے درمیان زمانے کا فاصلہ زیادہ طویل نہ تھا۔ موطا میں بعض احادیث میں تو صرف دو راوی ہیں۔ ایسی بعض احادیث بخاری میں بھی موجود ہیں۔ امام بخاری اور حضور  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم میں تقریباً دو سو سال کا فرق ہے چنانچہ انہیں تین کڑیوں والی احادیث بہت کم مل سکی ہیں۔یہ وہی احادیث ہیں جن کے راویوں نے طویل عمریں پائی ہوں گی۔

درایت کے اصول

سند کی درستگی کے باوجود ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم راوی کو جن معلومات کی بنیاد پر پرکھ رہے ہیں، وہ بھی بہرحال انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہیں اور ان میں بھی غلطی کا امکان (Error Margin) موجود ہے۔ عین ممکن ہے کہ فن رجال کے کسی امام نے ایک صاحب کو ثقہ (قابل اعتماد) قرار دیا ہو لیکن وہ اپنی اصل زندگی میں انتہائی گمراہ کن آدمی ہو۔ ممکن ہے کہ اس نے اپنی ہوشیاری سے اپنی گمراہیوں اور کردار کی کمزوریوں پر پردہ ڈال رکھا ہو۔ انہی مسائل کی وجہ سے علمائے حدیث نے درایت کے اصول بھی وضع کئے ہیں۔ درایت کا معنی یہ ہے کہ سند کی درستگی کے باوجود حدیث کے متن یعنی اصل الفاظ کو بھی پرکھا جائے۔ اس کی تفصیل ضمیمہ میں بیان کر دی گئی ہے۔

         ان تمام فلٹرز سے گزر کر جو حدیث ہم تک پہنچے گی ، اس کے بارے میں ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ اس ذریعے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ارشادات اور آپ کے افعال کے بارے میں جو معلومات ملی ہیں وہ قابل اطمینان حد تک درست ہیں اور ان میں درمیان کے واسطوں میں کوئی غلطی یا فراڈ نہیں ہوا۔ ہم جدید ریسرچ کی زبان میں کہہ سکتے ہیں یہ حدیث مثلاً1% Error Margin   یا 99% Confidence Level   کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے۔



حدیث کی چھان بین اور تدوین پر جدید ذہن کے سوالات(1)

حدیث کو پرکھنے کے اس طویل طریق کار پر کچھ سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔

حدیث کی چھان بین کی ضرورت کیا ہے؟

ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ اتنی چھان بین اور تفصیلی تحقیق کی ضرورت کیا ہے؟ ہمارے اہل علم اس معاملے میں اتنے زیادہ کنزرویٹو کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا کی چیزوں کے بارے میں ہمارا عام رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اگر ہم نے محض دو چار روپے کی کوئی چیز لینا ہوتی ہے تو ہم اس کے بارے میں زیادہ احتیاط نہیں کرتے۔ لیکن اگر ہمیں چند ہزار روپے کی چیز درکار ہو تو ہم خاصی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں ، دکاندار کی حیثیت کو اچھی طرح دیکھتے ہیں، کئی دکانداروں سے قیمت معلوم کرتے ہیں ، چیز کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس پر بھی گارنٹی وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر اس چیز کی قیمت کروڑوں روپے میں ہو تو پھر تو آخری درجے کی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے ، ملکی و بین الاقوامی قوانین کے تحت باقاعدہ قانونی معاہدے بھی کئے جاتے ہیں جس میں ہر پہلو کو تفصیل سے دیکھا جاتا ہے۔

         رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے کسی بات کو منسوب کرنا ان سب چیزوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کسی حدیث کو آپ سے غلط طور پر منسوب کرنے کے سنگین نتائج دنیا و آخرت میں نکل سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے دین کے نام پر بہت سی گمراہیاں پھیلائی گئی ہیں۔ بہت سے ایسے گمراہ کن فرقے پیدا ہوئے ہیں جو  قرآن اور سنت متواترہ کے قلعے میں تو کوئی نقب نہیں لگا سکے لیکن جعلی احادیث کے ذریعے انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنے عقائد و نظریات کو زبردستی دین میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے جلیل القدر اہل علم نے اس سلسلے میں انتہا درجے کی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔

حدیث کی چھان بین کا طریقہ مشکل اور طویل کیوں ہے؟

دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اتنا طویل اور مشکل پروسس ہر شخص تو نہیں اپنا سکتا۔ ایک عام آدمی اس سلسلے میں کیا کرے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امت کے جلیل القدر اہل علم احادیث کی چھان پھٹک (Evaluation) کا یہ کام پہلے ہی کر چکے ہیں۔ یہ اتنا فنی کام ہے کہ اسے اس کے ماہرین ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی عام انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ میڈیکل سائنس کے ماہرین سے صرف نظر کرکے وہ خود ہی دوسروں کا علاج کرنا شروع کردے اسی طرح اس فن کے بارے میں بھی یہی اصول ہے کہ اس کے سلسلے میں ماہرین ہی پر اعتماد کیا جائے۔ کسی حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف کی صورت میں اسے قبول نہ کرنا احتیاط کے زیادہ قریب ہے۔

فن حدیث پیچیدہ کیوں ہے؟

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ فن حدیث کو اتنا زیادہ پیچیدہ کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کسی بھی فن سے ناواقف شخص کو اس کی اصطلاحات مشکل معلوم ہوتی ہیں۔ فزکس سے ناواقف شخص کے لئے ویو لینتھ اور فریکوئنسی نئی اصطلاحات ہوں گی، اسی طرح اکاؤنٹنگ سے نابلد شخص کے لئے ڈیبٹ اور کریڈٹ کا مفہوم ہی کچھ اور ہو گا۔ اس کتاب کا نام ہی "تیسیر مصطلح الحدیث" ہے جس کا معنی ہے مصطلح الحدیث کے علم کو آسان کرنا۔

         میں نے اس کتاب کے ترجمے میں بھی یہ کوشش کی ہے کہ قارئین تک فن حدیث کی اصطلاحات کو آسان اور جدید دور کی زبان میں پہنچا دیا جائے۔ امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے قارئین کے لئے یہ فن آسان ہو سکے گا۔

احادیث کو دیر سے کیوں مدون کیا گیا؟

حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے ہی سے لکھے جانے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ چونکہ اس دور میں نہ تو پرنٹنگ پریس ایجاد ہو سکا تھا اور نہ ہی کاغذ اتنا عام نہ تھا اس وجہ سے کتابیں عام طور پر ذاتی ڈائری کی حیثیت سے لکھی جاتی تھیں۔ بعد کے دور میں احادیث کو باقاعدہ تحریری صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا۔

         ہمارے پاس حدیث کی جو مستند کتابیں موجود ہیں ، انہیں حضور  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی وفات کے تقریباً ڈیڑھ سو سے تین سو سال بعد کے عرصے میں لکھی گئیں۔ ان میں سب سے زیادہ قدیم موطا امام مالک ہے جو 120-179 ہجری کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی چند کتب کا تذکرہ ملتا ہے لیکن وہ موجودہ دور میں ناپید ہیں۔ حال ہی میں متعدد کتب کا سراغ مل گیا ہے اور کئی ایک شائع بھی ہو چکی ہیں جیسا کہ دور جدید کے جلیل القدر عالم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب (م 2002ء) نے ہمام ابن منبہ رحمۃ اللہ علیہ، جو کہ ایک تابعی بزرگ تھے کے صحیفے کو شائع کیا ہے۔ اس صحیفے کی احادیث مسند احمد بن حنبل میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اصل صحیفے اور مسند احمد کی احادیث کا تقابلی جائزہ لیا گیا تو ان میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔
          تاریخ اور قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کتب کی احادیث بہرحال حدیث کی موجودہ کتب میں شامل ہوچکی ہیں۔ ہر علم و فن اپنے ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اپنے عروج کو پہنچتا ہے۔ اس کے ایجاد ہوتے ہی وہ فورا ہی مرتب و مدون نہیں ہو جاتا۔
         اس کام میں اتنی تاخیر کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پہلی صدی ہجری میں مسلمانوں کی زیادہ تر توجہ بیرونی فتوحات اور اندرونی بغاوتوں سے نمٹنے میں رہی۔ فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت اس وقت کی دنیا کے متمدن حصے کے تقریباً ستر فیصد علاقے پر قائم ہوگئی۔ اتنی بڑی سلطنت کا انتظام سنبھالنا اور مسائل کو حل کرنا ایک بہت مشکل کام تھا۔
         عرب چونکہ کسی سیاسی نظام کے عادی نہ تھے، اس لئے ان کے ہاں تفصیلی قانون سازی بھی نہ ہوسکی تھی۔ اس وقت یہ خطرہ لاحق ہو چکا تھا کہ اگر قرآن و سنت کی بنیاد پر ملک کے لئے کوئی قانون نہ بنایا گیا تو مجبوراً سلطنت روما کے قانون ہی کو اپنانا پڑ جائے گا۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال تھی کہ آزادی ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے پاس کوئی آئین موجود نہ تھا جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کو انگریزوں کا آئین 1935ء نافذ کرنا پڑ گیا تھا۔
         ان حالات میں امت کے ذہین ترین طبقے کے سامنے سب سے بڑ اچیلنج یہ تھا کہ مملکت اسلامیہ کے لئے قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی پوری توجہ قانون اور فقہ کی تدوین پر مرکوز ہوگئی۔
         دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں حدیث، فقہ اور دیگر فنون الگ بھی نہ ہوئے تھے چنانچہ اس دور کی کتب میں احادیث، اقوال صحابہ و تابعین، تفسیر، عدالتی فیصلے، ایمانیات و عقائد، زھد و تقویٰ، سیرت و تاریخ غرض ہر قسم کی روایات اور اقوال اکٹھے تھے۔
         دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ان علوم و فنون کو الگ الگ کیا گیا جیسے حدیث و فقہ میں امام مالک کی موطا، سیرت میں ابن اسحاق کی کتاب، تفسیر میں سفیان ثوری کا مجموعہ، تاریخ میں ابن سعد اور ابن ابی خثیمہ کی کتب، فقہی مسائل میں امام محمد بن حسن، محمد بن ادریس شافعی اور اوزاعی کی کتب، ٹیکس کے نظام پر امام ابویوسف کی کتاب الخراج وغیرہ۔ اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو حدیث کی تدوین بھی ان علوم کے مقابلے میں زیادہ دیر سے وقوع پذیر نہ ہوئی تھی۔
         کسی بھی علم و فن کا ارتقاء اس کی ضرورت کی شدت سے پیدا ہوتا ہے۔ پہلی صدی کے اہل علم کے سامنے احادیث میں ملاوٹ کا کوئی بڑا چیلنج نہ تھا کیونکہ احادیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تک دو یا تین راوی ہوا کرتے تھے جو بالعموم اتنے مشہور ہوتے تھے کہ ان کے بارے میں کسی تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اگر اس دور میں احادیث کی تدوین کا کام بھی کر لیا جاتا تو یہ علم بہت حد تک سادہ رہتا اور تمام احادیث کو احسن انداز میں مدون کر لیا جاتا۔ احادیث گھڑنے کے فتنے کو زیادہ تر دوسری صدی میں عروج حاصل ہوا۔ چنانچہ دوسری صدی کے نصف آخر میں امت کے ذہین ترین افراد نے احادیث کی تدوین کی طرف توجہ دی اور ان کی تحقیق و تفتیش کرنے کو ہی اپنا بنیادی کام بنایا۔ تیسری صدی کے تقریباً نصف تک یہ کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔

تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ہر دور مختلف ہوتا ہے۔ اس کی کچھ مخصوص خصوصیات ہوا کرتی ہیں۔ جیسے اس وقت ہم انفارمیشن ایج میں جی رہے ہیں۔ کتابوں کو بڑے پیمانے پر الیکٹرانک فارم میں لایا جا رہا ہے۔ 1990 سے پہلے کتابیں صرف کاغذی شکل ہی میں دستیاب ہوا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں الیکٹرانک کتابوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کتابوں اور علم کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ بالکل یہی معاملہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں ہوا۔

         عرب میں کاغذ نایاب تھا۔ عربوں کو کسی بات کو لکھ کر رکھنے کی بجائے ذہن میں محفوظ رکھنے کی عادت تھی۔ بلکہ بعض لوگ تو لکھنے کو عیب سمجھتے تھے اور ایسے شخص پر ترس کھایا جاتا تھا کہ "بے چارے کی یادداشت اچھی نہیں ہے ، اس لئے اسے لکھنا پڑتا ہے۔"
         احادیث کی ریکارڈنگ کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور ہی میں ہو چکا تھا۔ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم جو واقعات دیکھتے، اسے اپنے ذہنوں میں ریکارڈ کر لیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ انہیں لکھ بھی لیا کرتے تھے۔ اس کے بعد تابعین کا دور آیاتو انہوں نے صحابہ سے یہ احادیث سن کر حاصل کر لیں۔ بعض تابعین کو صحابہ سے تحریری صورت میں بھی احادیث ملیں۔ ذہنوں میں احادیث کے ریکارڈ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کام میں کوئی احتیاط نہ برتی گئی ہو گی۔ اگر احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں حتی الوسع پوری احتیاط سے کام لیا گیا۔ نہ صرف حدیث کا متن بلکہ اس کی پوری سند کو بھی ریکارڈ کر لیا جاتا۔ صحابہ و تابعین کے دور میں اکثر بڑے علماء عرب ہی تھے۔
         دوسری صدی ہجری میں ٹیکنالوجیکل اعتبار سے ایک بڑی تبدیلی آئی۔ مسلم دنیا میں کاغذ بنانے کے کارخانے لگے اور دوسرے ممالک سے بھی کاغذ امپورٹ کیا جانے لگا۔ دوسری طرف اہل عجم میں بڑے بڑے عالم پیدا ہونے لگے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں انہوں نے نہ صرف حدیث بلکہ تمام علوم  جیسے فقہ، تاریخ، تفسیر وغیرہ کو ذہنوں سے کاغذ پر منتقل کی طرف توجہ کی۔ اس زمانے میں حدیث کی اسناد بھی طویل ہوتی جا رہی تھیں، انہیں یاد رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ اس سے بھی احادیث کو ریکارڈ کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔
         دلچسپ امر یہ ہے کہ اس زمانے سے پہلے تمام علوم میں اسناد کو ریکارڈ کیا جاتا تھا۔ تاریخ طبری، سیرت ابن ہشام، موطاء امام مالک، معانی الآثار وغیرہ سب میں ہمیں مکمل یا نامکمل اسناد کے ساتھ  ہر بات ملتی ہے۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں  مختلف افراد کے حالات زندگی سے متعلق باتیں بھی سند کے ساتھ درج ہیں۔ نہ صرف دینی علوم بلکہ موسیقی جیسے فن کی کتاب "الاغانی" میں بھی سند کے ساتھ  ہی واقعات درج ملتے ہیں۔
         اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ احادیث کی تدوین عہد رسالت سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ دوسری صدی ہجری میں بڑے پیمانے پر انہیں تحریر میں لانا محض ایک ٹیکنالوجیکل تبدیلی تھی نہ کہ احادیث کی حقیقی تدوین۔

بہت سی احادیث جعلی ہیں، تو پھر ذخیرہ حدیث کا کیا اعتبار؟

یہ بات درست ہے کہ لوگوں نے مختلف مقاصد کے لئے احادیث وضع کیں۔ جعلی احادیث کے وضع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام کی تمام احادیث ہی جعلی ہیں۔ محدثین نے روایت و درایت کے جو قوانین مرتب کیے ہیں، ان سے اصلی و جعلی احادیث میں امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل اسی کتاب میں موجود ہے۔ اسے پڑھ لیجیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ محدثین نے اصلی و جعلی احادیث میں فرق کرنے کے لئے کس درجے میں محنت اور کاوش کی ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ احادیث کو قبول کرنے میں احتیاط کرتے تھے، اب یہ بے احتیاطی کیوں؟

بعض روایات میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے واقعات ملتے ہیں کہ ان کے سامنے جب کوئی حدیث پیش کی جاتی تو وہ اس پر گواہی طلب کرتے تھے۔ یہ ان کی غیر معمولی احتیاط تھی ۔ جب انہیں یقین ہو جاتا تو پھر وہ حدیث پر ہی عمل کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب باتوں کو قبول کرنے میں احتیاط ہی کرنی چاہیے۔ جب اس چھان بین کے نتیجے میں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ بات واقعتاً نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی ہے تو پھر اسے مان لینا چاہیے اور اس پر اپنے عمل کی بنیاد رکھنی چاہیے۔


حدیث کی چھان بین اور تدوین پر جدید ذہن کے سوالات (2)

جرح و تعدیل کا فن بھی تو محض لوگوں کی آراء ہیں۔ اس پر انحصار کیسے؟

جرح و تعدیل کے ماہرین نے حدیث کے راویوں کو قابل اعتماد یا ناقابل اعتماد قرار دینے کا جو کام کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے محض اٹکل پچو سے کسی راوی کو ثقہ اور کسی کو غیر ثقہ قرار دے دیا ہو۔ اس کے لئے انہوں نے غیر معمولی محنت سے کام کیا ہے۔ یہ ماہرین ان راویوں کے شہروں کا سفر کیا کرتے تھے اور وہاں کے لوگوں سے ان کے حالات اور عمومی شہرت کے بارے میں معلومات حاصل کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایسا اس وقت کیا جب نقل و حمل کے ذرائع بھی ترقی یافتہ نہ تھے۔

جرح و تعدیل کے ماہرین کا خاص طریقہ یہ تھا کہ ہر ہر راوی کی عجیب و غریب باتوں کو نوٹ کیا کرتے تھے۔اسے ہم ایک مثال کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ ایک صحابی سے بیس تابعین عموماً حدیث روایت کرتے ہیں۔ ان صحابی سے ایک حدیث روایت ہوئی ہے۔ جرح و تعدیل کا ماہر یہ دیکھے گا کہ اس حدیث کو ان بیس تابعین میں سے کس کس نے روایت کیا ہے اور ہر ایک کے الفاظ کیا ہیں۔ فرض کیجیے کہ اس حدیث کو بیس میں سے دس تابعین نے روایت کیا۔ ان دس میں نو نے حدیث کو ایک جیسے الفاظ اور معانی کے ساتھ روایت کیا جبکہ ایک تابعی نے مختلف الفاظ سے روایت کیا۔ یہ الفاظ اتنے مختلف ہیں کہ اس سے حدیث کا مفہوم بدل جاتا ہے۔

انسانوں کے ہاں غلطی یا بھول چوک سے کبھی کبھار ایسا فرق واقع ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر جرح و تعدیل کا ماہر اس راوی کے نام کے گرد ایک سرخ دائرہ لگا لے گا۔ اب وہ اس راوی کی روایت کردہ دیگر احادیث کا موازنہ اس کے ہم عصر دیگر تابعین کی روایات سے کرے گا۔ اگر اکثر حدیث میں ہی ایسا فرق پایا جاتا ہو تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اس راوی کے ہاں کوئی گڑبڑ ہے۔ اس صورت میں اس راوی سے متعلق شک مزید پختہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد اس راوی کے حالات کی مزید تفتیش کی جائے گی۔

         فرض کیجیے کہ مزید تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ اس راوی کے پندرہ شاگرد ہیں۔ ان میں سے تیرہ تو اس راوی سے جو احادیث روایت کرتے ہیں، وہ دوسرے ثقہ راویوں کی بیان کردہ احادیث سے مطابقت رکھتی ہیں مگر دو شاگرد ایسے ہیں جن کی بیان کردہ احادیث میں گڑبڑ ہوتی ہے۔ اب تفتیش کے دائرے میں ان دو شاگردوں کو شامل کر لیا جائے گا۔ اس طرح سے یہ سلسلہ ان شاگردوں کے شاگردوں تک جا پہنچے گا اور یہ واضح ہوتا چلا جائے گا کہ غلطی یا فراڈ کا منبع کون ہے؟ اس تفتیش سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی راوی محض غلطیاں ہی کرتا ہے یا پھر وہ جان بوجھ کر احادیث میں ملاوٹ کرتا ہے؟
         جو حضرات اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ امام مسلم کی "کتاب التمییز" کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرح و تعدیل کے ماہرین نے ایسے ہی راویوں کو ثقہ یا ضعیف قرار نہیں دیا بلکہ اس کے پیچھے ایک ٹھوس علمی اور عقلی کام موجود ہے۔

کہیں ہم صحیح احادیث کو رد تو نہیں کر رہے؟

ایک اور سوال یہ ہے کہ اتنے سخت معیار (Criteria) کے نتیجے میں جہاں ہم جعلی احادیث کو اصلی احادیث سے الگ کر رہے ہیں وہاں یہ بھی عین ممکن ہے کہ کچھ اصلی احادیث بھی ہمارے معیار کی سختی کی وجہ سے مسترد کر دی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا بالکل ممکن ہے اور ایسی صورتحال سے کسی صورت میں بھی چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ بہت سی ایسی احادیث جنہیں ہمارے اہل علم کمزور اور ضعیف قرار دے چکے ہیں ، عین ممکن ہے کہ حقیقت میں بالکل اصلی اور صحیح احادیث ہوں۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے غلط طور پر منسوب کرنے کا معاملہ اس سے سخت تر ہے کہ آپ کی کسی صحیح حدیث کو مسترد کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی صورت میں اللہ تعالی کے سامنے ہمارے پاس کوئی عذر نہ ہو گا جبکہ دوسری صورت میں ہمارے پاس یہ عذر موجود ہو گا کہ حدیث ہم تک قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی ہے۔

دین کو سمجھنے کے لئے حدیث کا کردار کیا ہے؟

· حدیث قرآن مجید کو سمجھنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ بہت سے لوگ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے قرآن کے بارے میں سوالات کیا کرتے تھے اور آپ ان کے جوابات ارشاد فرماتے تھے۔ ان میں سے آپ کے جتنے ارشادات ہمیں صحیح احادیث کی صورت میں میسر آ سکے ہیں، وہ ہمارے لئے غنیمت ہیں اور ہم ان سے قرآن اور سنت متواترہ کی تفصیلی جزئیات (Minute Details) کو سمجھنے میں مدد لے سکتے ہیں۔

· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم نے بھی اسی دین پر عمل فرمایا جو ہمارے لئے نازل کیا گیا۔ آپ کا یہی عمل ہمارے لئے اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ احادیث کی مدد سے ہم آپ کے اسوہ حسنہ تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

· حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سیرت طیبہ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا سب سے پاکیزہ اور مستند ذریعہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک ضعیف حدیث بھی عام تاریخی روایت سے زیادہ مستند ہوتی ہے کیونکہ عام تاریخی روایات میں راویوں کے نام اور حالات محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا جبکہ احادیث میں لازماً ایسا ہوتا ہے، اگرچہ مسلمانوں کے محتاط مورخین نے تاریخ میں بھی سند و روایت کا اہتمام کیا ہے۔

· بہت سی احادیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ذاتی عادات و خصائل کا ذکر ہے۔ اگرچہ یہ دین کے احکام تو نہیں لیکن اہل محبت کے لئے اپنے پیارے رسول کی ہر ہر ادا سے واقفیت بہم پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔

· بہت سی احادیث مختلف مواقع پر، دینی معاملات سے ہٹ کر ، حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ارشادات و افعال کا تذکرہ ہے۔ ظاہر ہے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ہمہ وقت دین ہی بیان نہ فرما رہے ہوتے تھے۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ اپنے ازدواجی، معاشی اور معاشرتی معاملات بھی دیکھا کرتے تھے۔ کبھی کسی سے مزاح فرماتے، کہیں کسی سے اظہار تعزیت فرماتے، کبھی کوئی چیز خریدتے، کبھی قرض لیتے اور کبھی اسے ادا کرتے۔ ایسی احادیث میں ضروری نہیں کہ دین کا کوئی حکم ہی بیان ہوا ہو، لیکن دنیاوی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا اسوہ حسنہ ضرور مل جاتا ہے۔ اہل محبت کے لئے یہ بھی ایک عظیم خزانہ ہے۔

· احادیث کا ایک بڑا حصہ حکمت و موعظت پر مبنی ارشادات، تزکیہ نفس ، عبادات کے فضائل، آخرت اور جنت و جہنم کی تفصیلات، مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں اور اسی طرح کے معاملات سے متعلق ہے۔ یہ سب احادیث بھی ہمارے لئے حکمت و دانش اور معلومات کا قیمتی ذخیرہ ہیں۔ نصیحت حاصل کرنے اور برائیوں سے بچ کر اپنا تزکیہ نفس کرنے کے لئے یہ احادیث بہت مفید ہیں ۔

بعد کی صدیوں میں حدیث پر زیادہ کام کیوں نہیں کیا گیا؟

ایک سوال ہی بھی کیا جاتا ہے کہ بعد کی صدیوں میں حدیث پر زیادہ کام کیوں نہیں کیا جاسکا اور معاملہ صرف پڑھنے پڑھانے تک ہی محدود رہا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ محدثین کی طرف سے ایک عظیم کام کی تکمیل کے بعد اس میں کسی اضافے کی ضرورت ہی نہ رہی تھی۔ فن رجال کے ائمہ نے، راویوں کے حالات بھی جہاں تک میسر آسکے ، تحریر کر دیے۔ محدثین کے گروہ نے مشہور کتب میں شامل احادیث کے بارے میں قبولیت اور عدم قبولیت کے فیصلے بھی کردیے۔

          اس کے بعد یہی کام باقی رہ جاتا تھا کہ ان احادیث کو دین کو سمجھنے میں استعمال کیا جائے اور اس کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے۔ یہ کام بہت پہلے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور ہی سے شروع ہوچکا تھا اگرچہ اس کا بڑا حصہ دوسری صدی کے وسط تک مکمل ہو گیا لیکن اس پر مزید کام ہوتا رہا اور یہ سلسلہ چوتھی صدی تک چلتا رہا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سلسلہ چلتا رہتا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ پیش آنے والے نئے مسائل کے بارے میں اجتہاد کی ضرورت تو قیامت تک پیش آتی رہے گی۔
         بعض فتنوں کے باعث چوتھی صدی کے اہل علم نے یہ اعلان کیا کہ اسلاف علم و تحقیق کا جو کام کرگئے ، وہ کافی ہے اور اب کسی اور اجتہاد کی ضرورت نہیں۔ ان کے اس اعلان کو مستقل طور پر سمجھ لیا گیا اور امت بحیثیت مجموعی علمی جمود کا شکار ہوگئی۔ المیہ یہ ہوا کہ یہ علمی جمود صرف علوم دینیہ تک ہی محدود نہ رہا بلکہ مسلمانوں کی سائنس اور ٹیکنالوجی بھی اس کا شکار ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ایک ہزار سال تک امت مسلمہ میں ہر علم و فن میں ایسے بلند پایہ عالم بہت کم پیدا ہوئے جیسا کہ پہلی چار صدیوں میں ہوا کرتے تھے۔
         دوسری طرف اہل یورپ نے اجتہادی فکر کو بیدار کرکے سائنس و ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کی اور ہم پر چڑھ دوڑے۔ موجودہ دور میں اہل مغرب کے علمی و سیاسی چیلنج نے مسلم علماء کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی بنیاد پر از سر نو اپنے فقہی و قانونی ذخیرے کا جائزہ لیں اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق قانون سازی کریں۔ دینی و دنیاوی علوم میں تحقیق کا رجحان تقریباً پورے عالم اسلام میں جنم لے چکا ہے اور امت کا یہ علمی قافلہ آہستہ آہستہ علمی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی طرف چل پڑا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ انشاء اللہ پندرہویں صدی ہجری اور اکیسویں صدی عیسوی کے آخر تک امت مسلمہ علمی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام بہت حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔


دور جدید میں حدیث کی خدمت کی کچھ نئی جہتیں

جہاں تک فن رجال کا تعلق ہے تو اس باب میں بہت زیادہ تحقیق و تفتیش کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ اس کی تدوین کا کام بالکل مکمل ہوچکا ہے البتہ احادیث کے طالب علم اسے سمجھنے اور سمجھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔

         ایسی احادیث جن کے بارے میں قدماء تحقیق نہیں کر سکے، ان کی تحقیق کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دور جدید میں علامہ ناصر الدین البانی کی تحقیق اس کی ایک مثال ہے۔ تحقیق کے میدان میں شخصیت پرستی کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی۔ قدیم اور جدید اہل علم بھی انسان ہیں اور ان کے کام میں غلطی کا امکان بہرحال موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے دور کے اہل علم قدیم اہل علم کے کام کا از سر نو جائزہ لیتے ہی رہتے ہیں تاکہ اس میں اگر کہیں کوئی غلطی رہ گئی ہے تو اس کی تلافی کی جا سکے۔
         فن حدیث کی خدمت کی دوسری جہت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حالیہ ترقی سے پیدا ہوئی ہے۔ دور قدیم سے احادیث کا ذخیرہ بہت سی کتابوں میں متفرق ہے جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان کتب کا کوئی اسٹینڈرڈ اشاریہ (Index) اب تک ترتیب نہیں دیا جاسکا جس کی مدد سے ایک موضوع پر موجود تمام احادیث کو سامنے رکھ کر ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ مصر کے فواد عبدالباقی کا اشاریہ بہت محنت سے ترتیب دیا ہوا ہے لیکن اس سے استفادہ کرنے کے لئے انسان کو بہت زیادہ اوراق پلٹنا پڑتے ہیں اور ایک ایک حدیث کی تلاش میں گھنٹوں صرف ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح فن رجال کی کتب بھی مواد بہت زیادہ بکھرا ہوا ہے اور اس سے استفادہ کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
         1990ء کے عشرے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ علم حدیث کے ماہرین کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ احادیث کا ایک جامع ڈیٹا بیس بنایا جائے جس میں احادیث کی تمام کتب میں موجود تمام احادیث کو درج کرلیا جائے۔ ہر حدیث کے ساتھ اس کی فنی حیثیت پر بھی بحث فراہم کی جائے اور اس کے متعلق تمام ائمہ حدیث کی آرا کو بھی میسر کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے تمام راویوں سے متعلق معلومات اور ان کے متعلق فن رجال کے تمام ائمہ کی آرا بھی اکٹھی کی جائیں اور انہیں حدیث کی سند سے لنک کردیا جائے۔ کسی بھی نام پر کلک کرنے سے اس راوی کی مکمل تفصیلات سکرین پر ڈسپلے ہوجائیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ دور جدید کی ضروریات اور مسائل کے مطابق ایک تفصیلی انڈیکس تیار کیا جائے اور اس سے تمام احادیث کو لنک کردیا جائے۔
         جدید ترین "سرچ انجنز" کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  کسی بھی ایک موضوع پر کلک کرنے سے ان تمام احادیث کا ذخیرہ سامنے آجائے جن میں اس موضوع سے متعلق کسی بھی قسم کا مواد پایا جاتا ہو۔ اس کے بعد کسی بھی حدیث پر کلک کرنے سے اس کی تفصیلی سند ، متن اور اصل کتاب کا حوالہ سامنے آجائے۔ احادیث کے ساتھ قدیم و جدید علماء کی لکھی ہوئی شروح (Commentaries)   کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے۔
         عرب دنیا میں پچھلے پچاس برس میں حدیث پر غیر معمولی کام ہوا ہے۔ حدیث سے متعلق ایسے کئی سافٹ وئیر وجود میں آ چکے ہیں۔ اردن کے دارالتراث الاسلامی کے موسوعۃ الحدیث، مکتبہ الفیۃ لسنۃ النبویۃ، اور مکتبہ شاملہ کے تیار کردہ سافٹ وئیر اس کی مثال ہیں۔ اسی طرح علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی کتب پر مشتمل سافٹ ویئر بھی منظر عام پر آ چکا ہے جو انٹرنیٹ پر بلاقیمت دستیاب ہے۔
         یہ تمام سافٹ وئیر عربی زبان میں دستیاب ہیں کیونکہ انہیں علماء ہی استعمال کرتے ہیں جن کا عربی زبان سے واقف ہونا ضروری ہے۔ کم و بیش یہ تمام سافٹ وئیر انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ان میں سے بعض بلا معاوضہ اور بعض قیمت کی ادائیگی پر دستیاب ہیں۔
         ان سافٹ وئیر میں جو مزید بہتری لائی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ احادیث کے ساتھ ساتھ ان کی شروح کو بھی لنک کر دیا جائے تاکہ براؤزنگ کرنے میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔ اسی طرح کتب حدیث میں احادیث کے نمبرز کو مکمل طور پر اسٹینڈرڈائز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تلاش میں دشواری نہ ہو۔


علوم حدیث کی اہم اور مشہور کتب

دور قدیم سے لے کر آج تک علوم حدیث میں بہت سی کتب لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے بہت سی کتابوں کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ اصول حدیث کا فن علوم حدیث کی نہایت ہی اہم اور بنیادی شاخ ہے۔ ڈاکٹر محمود طحان نے اس کتاب کے مقدمے میں ان کتابوں کے نام ذکر کیے ہیں۔

· المحدث الفاصل بین الراوی و الواعی: یہ قاضی ابو محمد الحسن بن عبدالرحمٰن بن خلاد الرامھرمزی (م 360ھ) کی کتاب ہے اور اس کا شمار اصول حدیث کی اولین کتابوں میں کیا جاتا ہے۔ اس میں علوم حدیث کی تمام ابحاث موجود نہیں کیونکہ کسی بھی فن کی ابتدائی کتابوں میں تمام فنون کو شامل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

· معرفۃ علوم الحدیث: یہ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیشاپوری (م 405ھ) کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کو فنی اعتبار سے مناسب انداز میں ترتیب نہیں دیا گیا۔

· المستخرج علی معرفۃ العلوم الحدیث: اسے ابو نعیم احمد بن عبداللہ الاصبہانی (م 430ھ) نے تصنیف کیا۔ جن مباحث کو حاکم اپنی کتاب "معرفۃ العلوم الحدیث" میں درج نہ کر سکے تھے، اصبھانی نے انہیں اس کتاب میں درج کیا ہے لیکن پھر بھی کچھ مباحث باقی رہ گئے ہیں۔

· الکفایۃ فی علم الروایۃ: یہ مشہور مصنف ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی (م 463ھ) کی کتاب ہے۔ یہ کتاب اس فن کے اہم ترین مباحث کی جامع ہے اور اس میں روایت کے قواعد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ اصول حدیث کے فن کی بنیادی کتب میں شمار کی جاتی ہے۔

· الجامع الاخلاق الراوی و آداب السامع: یہ بھی خطیب بغدادی کی تصنیف ہے۔ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، یہ کتاب روایت حدیث کے آداب پر مشتمل ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد کتاب ہے۔ فنون حدیث میں سے شاید ہی کوئی ایسا فن باقی رہ گیا ہو جس پر خطیب نے کوئی کتاب نہ لکھی ہو۔

· الالماع الی معرفۃ اصول الروایۃ و تقیید السماع: اس کتاب کے مصنف قاضی عیاض بن موسی الیحصبی (م 544ھ) ہیں۔ اس کتاب میں اصول حدیث کے تمام مباحث درج نہیں کیے گئے بلکہ اس میں صرف حدیث کو حاصل کر کے اپنے پاس محفوظ رکھنے (تحمل) اور پھر اسے آگے منتقل کرنے (اداء) کے طریق کار پر بحث کی گئی ہے۔ کتاب کی ترتیب نہایت ہی اعلی درجے کی ہے۔

· ما لا یسع المحدث جھلہ: یہ ابو حفص عمر بن عبدالمجید المیانجی (م 580ھ) کی کتاب ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی جزوی کتاب ہے جو علوم حدیث کے طلباء کے لئے زیادہ فائدہ مند نہیں ہے۔

· علوم الحدیث: یہ کتاب ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمٰن الشھرزوری (م 643ھ) کی تصنیف کردہ ہے۔ مصنف 'ابن صلاح' کے نام سے زیادہ مشہور ہیں اور یہ کتاب "مقدمہ ابن صلاح" کے نام سے معروف ہے۔ یہ علوم حدیث پر نفیس ترین کتاب ہے۔ مصنف نے اس میں خطیب بغدادی اور ان سے پہلے کے مصنفین کی کتابوں میں بکھرے ہوئے مواد کو اکٹھا کر دیا ہے۔ یہ کتاب بہت سے فوائد کی حامل ہے البتہ اسے مناسب انداز میں ترتیب نہیں دیا گیا۔

· التقریب و التیسیر لمعرفۃ السنن البشیر و النذیر: یہ محیی الدین یحیی بن شرف النووی (م 676ھ) کی کتاب ہے۔ یہ ابن صلاح کی "علوم الحدیث" کی تلخیص ہے۔ یہ کتاب نہایت ہی اہم سمجھی جاتی ہے۔

· تدریب الراوی فی شرح التقریب النواوی: یہ جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر السیوطی (م 911ھ) کی تصنیف ہے اور امام نووی کی کتاب "التقریب" کی شرح (تشریح) پر مبنی ہے۔ اس میں مولف نے بہت سے نتائج بحث کو شامل کر دیا ہے۔

· نظم الدرر فی علم الاثر: اس کتاب کے مصنف زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی (م 806ھ) ہیں۔ یہ کتاب "الفیۃ العراقی" کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں انہوں نے ابن صلاح کی کتاب "علوم الحدیث" کو منظم کر کے پیش کیا ہے اور اس میں مزید مباحث کا اضافہ کیا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی مفید کتاب ہے اور اس کی متعدد شروح لکھی گئی ہیں۔ خود مصنف نے بھی اس کتاب کی دو شروحات لکھی ہیں۔

· فتح المغیث فی شرح الفیۃ الحدیث: یہ کتاب محمد بن عبد الرحمٰن السخاوی (م 902ھ) کی تصنیف ہے۔ یہ الفیۃ العراقی کی تشریح پر مبنی ہے اور اس کی سب سے عمدہ شرح سمجھی جاتی ہے۔

· نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر: یہ حافظ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ) کی مختصر کتاب ہے لیکن اپنے مباحث اور ترتیب کے اعتبار سے نہایت ہی عمدہ ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو ایسے عمدہ انداز میں ترتیب دیا ہے جو اس سے پہلے کے مصنفین کے ہاں موجود نہیں ہے۔ مصنف نے خود اس کتاب کی شرح "نزھۃ النظر" کے نام سے لکھی ہے۔

· المنظومۃ البیقونیۃ: اس کتاب کے مصنف عمر بن محمد البیقونی (م 1080ھ) ہیں جنہوں نے ایک مختصر نظم کی صورت میں قواعد حدیث کو بیان کیا ہے۔ اس کے اشعار کی تعداد 34 سے زیادہ نہیں ہے لیکن اپنے اختصار کے باعث یہ بہت مشہور ہوئی۔ اس کی متعدد شروح لکھی جا چکی ہیں۔

· قواعد التحدیث: اس کتاب کے مصنف محمد جمال الدین قاسمی (م 1332ھ) ہیں۔ یہ بھی ایک مفید کتاب ہے۔


علم المصطلح کی بنیادی تعریفات(1)

اس سبق میں ہم "تیسیر مصطلح الحدیث" میں بیان کردہ بنیادی تعریفات کے علاوہ کچھ اضافی تعریفات بھی پیش کر رہے ہیں جو مصنف نے اصل کتاب میں درج نہیں کی ہیں۔

علم المصطلح

وہ علم جس کے اصولوں اور قواعد و ضوابط کی بنیاد پر کسی حدیث کو قبول یا مسترد کرنے کے لئے اس کی سند اور متن کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔

علم المصطلح کا موضوع

اس کا موضوع (حدیث کی) سند اور متن کا تجزیہ کرنا ہے تاکہ حدیث کو قبول یا مسترد کیا جا سکے۔

علم المصطلح کا مقصد

علم المصطلح کا مقصد صحیح اور کمزور احادیث کی پہچان کرنا ہے۔

حدیث

حدیث کا لغوی مفہوم "نئی بات" ہے۔ اس کی جمع "احادیث" ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کسی قول، آپ کے کسی فعل، آپ کی عطا کردہ اجازت یا کسی کیفیت کو بیان کرنے کا نام حدیث ہے۔

روایت

حدیث کی روایت کا مطلب ہے کہ کوئی شخص، کسی اور سے حدیث سنے اور پھر اسے آگے دوسرے افراد کو منتقل کر دے۔ روایت زبانی بھی ہو سکتی ہے اور تحریری بھی۔

خبر

اس کا لغوی مفہوم تو کسی واقعے کو بیان کرنا ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے تین مفاہیم مراد لئے گئے ہیں۔

· "خبر" اور "حدیث" ہم معنی لفظ ہیں۔

· "حدیث" وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب ہو اور "خبر" وہ ہے جو کسی اور سے منسوب ہو۔

· "خبر"، "حدیث" کی نسبت زیادہ عمومی نوعیت کی چیز ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے علاوہ دیگر لوگوں کی خبریں بھی شامل ہیں۔ (یعنی ہر حدیث خبر ہے لیکن ہر خبر حدیث نہیں ہے۔)

اثر

اس کا لغوی مفہوم تو باقی بچ جانے والی چیز ہے۔ اصطلاحی مفاہیم میں دو آراء پائی جاتی ہیں:

یہ حدیث کا مترادف ہے۔

وہ خبریں جو صحابہ و تابعین سے منسوب ہوں۔

اسناد

اس کے بھی دو معنی ہیں:

حدیث کی کڑیوں کو شمار کرنا

کسی حدیث کے متن کو آگے پہنچانے والے افراد کی زنجیر۔ یہ مفہوم "سند" کے مترادف ہے۔

سند

اس کا لغوی مفہوم ہے "قابل اعتماد ہونا"۔ سند کے ذریعے کسی حدیث کا مستند ہونا معلوم کیا جاتا ہے اور اس پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ اصطلاح میں یہ کسی حدیث کے متن کو آگے پہنچانے والے افراد کی زنجیر کا نام ہے۔

متن

اس کا لغوی معنی ہے "سخت اور زمین سے اٹھا ہوا" اور اصطلاحی مفہوم میں یہ حدیث کا وہ حصہ ہوتا ہے جس پر آ کر سند ختم ہو جاتی ہے۔ (یعنی اصل بات جو حدیث میں بیان کی گئی ہوتی ہے۔)

علم حدیث میں کسی بھی حدیث کے دو حصے مانے جاتے ہیں: ایک حصہ اس کی سند اور دوسرا متن۔ ’’سند‘‘سے مراد وہ حصہ ہوتا ہے جس میں حدیث کی کتاب کو ترتیب دینے والے امامِ حدیث (Compiler) سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تک کے تمام راویوں (حدیث بیان کرنے والے) کی مکمل یا نامکمل زنجیر (Chain of Narrators) کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ ’’متن‘‘ حدیث کا اصل حصہ ہوتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا کوئی ارشاد، آپ کا کوئی عمل یا آپ سے متعلق کوئی حالات بیان کئے گئے ہوتے ہیں۔اس بات کو سمجھنے کے لئے ہم ایک مثال سے وضاحت کرتے ہیں:

         فرض کیجئے حدیث کی کسی کتاب میں ہمیں یہ حدیث لکھی ہوئی ملتی ہے: سفیان بن عینیہ، زید بن علاقہ کے ذریعے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا، "ہم نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اس بات پر بیعت کی کہ ہم ہر مسلمان کے خیر خواہ ہوں گے۔"

اس حدیث میں بولڈ اور سرخ حروف میں لکھا گیا حصہ " سفیان بن عینیہ، زید بن علاقہ کے ذریعے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے" حدیث کی سند کہلاتا ہے اور انڈر لائن حروف میں لکھا گیا حصہ "ہم نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اس بات پر بیعت کی کہ ہم ہر مسلمان کے خیر خواہ ہوں گے۔" حدیث کا متن کہلاتا ہے۔

         حدیث کی ایک سند، اس کا ایک "طریق" کہلاتی ہے۔ اس کی جمع "طُرُق" ہے۔ بہت سی احادیث ہمیں متعدد طرق سے حاصل ہوتی ہیں۔

مُسنَد (نون پر زبر کے ساتھ)

لغوی مفہوم میں اس چیز کو مسند کہتے ہیں جس کی طرف کوئی چیز یا بات منسوب کی گئی ہو۔ اس کے اصطلاحی مفاہیم تین ہیں۔

احادیث کی وہ کتاب جس میں احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ کی ترتیب سے اکٹھا کیا گیا ہو۔

وہ حدیث جس کی سند ملی ہوئی ہو۔

یہ سند کا مترادف بھی ہے۔

مُسنِد (نون پر زیر کے ساتھ)

وہ شخص جو اپنی سند کے ساتھ حدیث روایت کرتا ہو، 'مُسنِد' کہلاتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے خود اس حدیث کا علم ہے یا وہ کسی اور شخص سے روایت کر رہا ہے۔

مُحدِّث

وہ شخص جو علم حدیث کی روایت اور درایت کا ماہر ہو۔ وہ کثیر تعداد میں روایات اور ان کے بیان کرنے والے راویوں کے بارے میں علم رکھتا ہو۔

نوٹ: حدیث کو پرکھنے کے معیار دو طرح کے ہیں۔ پہلی قسم کا معیار "روایت" کہلاتا ہے جس میں حدیث کی سند میں موجود راویوں کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے کہ وہ قابل اعتماد ہیں یا نہیں۔ دوسری قسم کا معیار "درایت" کہلاتا ہے جس میں حدیث کے متن کا قرآن مجید اور دیگر احادیث کی روشنی میں تجزیہ کر کے دیکھا جاتا ہے کہ کیا یہ بات واقعتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمائی ہو گی؟ کیا یہ حدیث قرآن اور دیگر صحیح احادیث سے مطابقت رکھتی ہے؟


علم المصطلح کی بنیادی تعریفات(2)

حافظ

اکثر محدثین کے نزدیک "حافظ" اور "محدث" ہم معنی الفاظ ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ "حافظ" کا درجہ "محدث" سے بلند ہے کیونکہ اس کا علم اپنے طبقے کے دیگر افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

حاکم

بعض اہل علم کی رائے کے مطابق حاکم ایسا محدث ہوتا ہے جو تمام احادیث کا علم حاصل کر لے سوائے اس کے کہ کوئی چھوٹی موٹی بات رہ جائے۔

راوی

راوی اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی سے سن کر حدیث کو آگے بیان کرتا ہے۔

شیخ

کوئی راوی جس استاذ سے حدیث کو حاصل کرتا ہے، اس استاذ کو شیخ کہا جاتا ہے۔ استاذ کے استاذ کو شیخ الشیخ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بخاری کی یہ حدیث دیکھیے:

حدثنا قبيصة بن عقبة قال: حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر۔ تابعه شعبة عن الأعمش۔ (بخاری، حدیث 34)

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص میں یہ چار خصوصیات ہوں، وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک خصلت ہو، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ یہ اس میں موجود رہے: جب اس کے سپرد کوئی امانت کی جائے تو وہ خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اسے توڑ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو اس میں گالی گلوچ پر اتر آئے۔

اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی مشہور زمانہ کتاب "الجامع الصحیح" میں نقل کیا ہے۔ امام بخاری کے شیخ قبیصہ بن عقبہ ہیں، قبیصہ کے شیخ سفیان ہیں، سفیان کے شیخ اعمش ہیں، اعمش کے شیخ عبداللہ بن مرۃ ہیں جن کے شیخ مشہور تابعی مسروق ہیں۔ مسروق اس حدیث کو صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سن کر آگے بیان کر رہے ہیں۔

صحت و ضعف

قابل اعتماد حدیث کو صحیح کہا جاتا ہے جبکہ ناقابل اعتماد حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کی مزید اصطلاحی بحث آگے کتاب کے متن میں آ رہی ہے۔ حدیث کے صحیح ہونے کو اس کی "صحت" اور ضعیف ہونے کو اس کا "ضعف" کہا جاتا ہے۔ یہاں صحت سے مراد جسمانی صحت نہیں ہے بلکہ اس کا معنی ہے صحیح ہونا۔

موضوع

اپنی طرف سے حدیث ایجاد کر کے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنے کو "وضع حدیث" کہا جاتا ہے۔ ایسی گھڑی ہوئی حدیث "موضوع حدیث" کہلاتی ہے۔ یہاں موضوع سے مراد 'ٹاپک' نہیں ہے بلکہ اس کا معنی ہے وضع کی گئی حدیث۔

متصل اور منقطع روایت

متصل روایت اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کا سلسلہ سند شروع سے لے کر آخر تک ملا ہوا ہو اور اس میں کوئی سند کی کوئی کڑی بھی غائب نہ ہو۔ منقطع ایسی روایت کو کہتے ہیں جس کی سند ایک یا ایک سے زائد مقام سے ٹوٹی ہوئی ہو یعنی سند کی کوئی کڑی غائب ہو۔

ضبط

ضبط کا معنی ہے حدیث کو محفوظ رکھنا۔ حدیث کو یادداشت کے سہارے محفوظ بھی رکھا جا سکتا ہے اور لکھ کر بھی۔ قدیم عرب غیر معمولی حافظے کے مالک ہو کرتے تھے۔ یہ لوگ سینکڑوں اشعار پر مشتمل قصیدوں کو ایک بار سن کر ہی ترتیب سے یاد کر لیا کرتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی یہ صلاحیت قرآن اور حدیث کو محفوظ رکھنے کے لئے استعمال ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے افراد نے ذاتی ڈائریوں کی صورت میں بھی حدیث کو محفوظ کر رکھا تھا۔

تابعین اور تبع تابعین

تابعین، صحابہ کرام سے اگلی نسل کا نام ہے۔ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے صحابہ کرام سے دین کی تربیت حاصل کی۔ تابعین کا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وفات (11ھ) کے بعد سے لے کر 150-160ھ کے لگ بھگ تک چلا ہے۔ تابعین کے بعد اگلی نسل کو تبع تابعین کا کہا جاتا ہے۔ ان کا دور آخری صحابی کی وفات (100ھ) کے بعد سے لے کر کم و بیش 250ھ تک چلا ہے۔

شرح

حدیث کی تشریح پر مبنی کتاب کو "شرح" کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ حدیث کے علاوہ دیگر علوم جیسے فقہ وغیرہ کی کسی کتاب کی تشریح پر مبنی کتاب کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی تشریح پر مبنی کتاب کے لئے ایک مخصوص نام "تفسیر" مقرر کیا گیا ہے۔

عربوں کے نام

قدیم عربوں کے ہاں طویل ناموں کا رواج رہا ہے۔ ان کے نام کے مختلف حصے ہوتے ہیں جن میں کنیت، اصل نام، والد کا نام، دادا کا نام، لقب، نسبت سب کچھ شامل ہے۔ مثال کے طور پر " ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی" کے نام میں 'ابوبکر' کنیت ہے، 'احمد' ان کا اپنا نام ہے، 'علی' ان کے والد کا نام ہے، 'ثابت' ان کے دادا کا نام ہے، 'خطیب' ان کا لقب ہے اور 'بغدادی' شہر بغداد کی طرف ان کی نسبت ہے۔ نسبت شہر کے علاوہ قبیلے، پیشے یا کسی اور چیز سے بھی ہو سکتی ہے۔

         طویل ناموں کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ مختلف افراد میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہی نام کے بہت سے افراد ہو سکتے ہیں لیکن اتنے طویل نام کا ایک ہی شخص ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ابن حجر نام کے دو علماء مشہور ہیں لیکن ان کی نسبت سے ان میں فرق کیا جا سکتا ہے، ایک ابن حجر عسقلانی اور دوسرے ابن حجر مکی۔
         طویل نام کو مختصر کر کے بولا جاتا ہے۔ ایک شخص اپنے نام کے کسی ایک حصے سے مشہور ہو جاتا ہے اور پھر اس کا تذکرہ نام کے اسی حصے سے کیا جانے لگتا ہے۔ مثلاً خطیب بغدادی اپنے لقب اور نسبت سے زیادہ مشہور ہیں۔

سن وفات

حدیث کی کتب میں اکثر اوقات مصنفین اور راویوں کا سن وفات بھی درج کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کتاب کی تصنیف کے وقت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ قدیم دور میں عام طور پر کتاب پر تاریخ تصنیف درج کرنے کا رواج نہ تھا۔ راویوں کا سن وفات بہت اہم ہے کیونکہ اسی سے ان کی روایت کے درست اور متصل ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

حدیث کے کتاب کے مصنف کی شرائط (Criteria)

احادیث کی کتب کے مصنفین اکثر کچھ شرائط متعین کر کے اپنی کتاب میں احادیث درج کیا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر امام بخاری علیہ الرحمۃ نے یہ شرط مقرر کی کہ میں اپنی کتاب میں صرف اور صرف صحیح احادیث اکٹھی کروں گا۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ نے یہ شرط مقرر نہیں کی کہ ان کی کتاب میں صرف صحیح احادیث ہی اکٹھی کی جائیں گی لیکن ان کی شرط یہ تھی کہ وہ کسی بھی صحابی سے منقول ہر طرح کی روایت کو اکٹھا کر دیں گے۔ کسی بھی مصنف کی کتاب پر علمی تنقید کرنے کے لئے ان کی شرائط کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

تخریج

علوم حدیث کی اصطلاح کے مطابق حدیث کے ذخیرے میں سے کسی مخصوص حدیث کو تلاش کر کےاسے کتاب میں درج کرنے کے عمل کو تخریج کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے عام طور پر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے، "اخرجہ بخاری" یعنی "امام بخاری نے اس حدیث کی تخریج کرنے کے بعد اسے اپنی کتاب میں درج کیا۔"

شیخین اور صحیحین

علوم حدیث میں شیخین سے مراد امام بخاری اور امام مسلم ہوا کرتے ہیں۔ ان دونوں کی تصنیف کردہ کتابوں کو کتب حدیث میں اہم ترین مقام حاصل ہے۔ چونکہ ان دونوں کتابوں کے نام میں لفظ "الصحیح" ہے اس وجہ سے انہیں صحیحین کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے، "اس حدیث کو شیخین نے صحیحین میں درج کیا۔"

کتب حدیث کا ایک تعارف

حدیث کے دستیاب ذخیرے میں موجود کتب کی تصنیف کا زمانہ دوسری صدی ہجری یا آٹھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے۔ کتب حدیث کی متعدد اقسام ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:

صحیح احادیث پر مشتمل کتب

یہ وہ کتابیں ہیں جن کے مصنفین نے اس بات کا اہتمام کرنے کی کوشش کی ہے کہ اپنی کتب میں صرف اور صرف صحیح احادیث درج کریں۔ ان میں صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم شامل ہیں۔ بعد کے محدثین نے ان کتابوں کی احادیث کا دوبارہ جائزہ لے کر یہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ کیا ان کتابوں کے مصنفین اپنی شرط کو پورا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں؟

         اس تحقیق کے مطابق صرف اور بخاری اور مسلم ایسی کتب ہیں جن کی احادیث کم از کم سند کے اعتبار سے صحت کے اعلی ترین معیار پر پورا اترتی ہیں۔ باقی مصنفین نے اگرچہ کوشش تو بہت کی ہے مگر ان کی کتب میں بعض ضعیف احادیث بھی درج ہو گئی ہیں۔ اگرچہ بخاری اور مسلم کی صرف چند روایات پر متن اور درایت کے اعتبار سے تنقید کی گئی ہے مگر ان کی اسناد کے معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

احکام کی احادیث پر مشتمل کتب

یہ وہ کتب ہیں جن میں مصنفین نے یہ کوشش کی ہے کہ صرف دین کے احکام سے متعلق احادیث اکٹھی کی جائیں۔ ان کتب کو فقہ کی کتب کے ابواب پر احادیث کو مرتب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان میں کتاب الصلوۃ، کتاب الزکوۃ، کتاب الصوم، کتاب الحج، کتاب البیوع، کتاب الامارۃ وغیرہ کے تحت احادیث لائی جاتی ہیں۔

         ان میں قدیم کتب کو "موطاء" کہا جاتا ہے۔ اس کی مثالیں امام مالک اور امام محمد بن حسن شیبانی کی موطاء ہیں۔ بعد کے ادوار میں ان کتب کو "سنن" کا نام دے دیا گیا۔ موطاء امام مالک کی احادیث بھی بعد کی چھان بین کے بعد سند کے اعتبار سے "صحیح" کے درجے پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موطاء امام مالک کو صحیح بخاری و مسلم کی ہم پلہ کتاب سمجھا جاتا ہے۔
         سنن کی مثالوں میں سنن ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ اور نسائی ہیں۔ یہ چاروں کتب مشہور و معروف ہیں اور دینی مدارس کے نصاب میں داخل ہیں۔ انہیں "سنن اربعہ" کہا جاتا ہے۔ ان کتب میں صحیح کے ساتھ ساتھ ضعیف احادیث بھی پائی جاتی ہیں۔ سنن کی دیگر کتابوں میں بیہقی، دارقطنی، اور دارمی کی سنن شامل ہیں۔ ان میں سے بعض مصنفین جیسے امام نسائی اور امام بیہقی نے سنن کی تین تین مختلف سائز کی کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں کبری، وسطی اور صغری شامل ہیں۔ مثال کے طور پر "سنن نسائی الکبری" میں مصنف نے بہت زیادہ احادیث جمع کی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اس کا اختصار کر کے "وسطی" تیار کی اور پھر مزید اختصار کر کے "صغری" تصنیف کی ہے۔

راوی صحابی کی ترتیب پر مشتمل کتابیں

ان کتابوں کو "مسند" کہا جاتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور مسند احمد بن حنبل ہے۔ ان کتابوں کے مصنفین نے ہر صحابی سے روایت کردہ احادیث کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ اس طریقے سے ان کی کتابوں کے ابواب صحابہ کے نام پر ہیں۔ قدیم ترین مسانید میں ابو عوانہ، ابو داؤد طیالسی، علی بن جعد، بزار، حمیدی، ابن مبارک، ابن راہویہ، شافعی، سراج، سعید بن منصور، اور سفیان بن عینیہ کی مسانید شامل ہیں۔

اساتذہ کی ترتیب پر مشتمل کتابیں

بعض مصنفین نے احادیث کی کتب کو اپنے اساتذہ کے ناموں پر مشتمل ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے جس جس استاذ سے احادیث حاصل کیں، انہی کے نام سے باب قائم کر کے اپنا مجموعہ تیار کیا۔ ان کتابوں کی "معجم" کہا جاتا ہے۔ ان میں طبرانی کی معجم کبیر، اوسط اور صغیر مشہور ہیں۔ ابن عساکر کی معجم نے بھی تاریخ میں شہرت پائی ہے۔

احادیث و آثار پر مشتمل کتابیں

یہ ایسی کتب ہیں جن میں مصنفین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول و فعل، واقعات اور عدالتی فیصلوں کو بھی اکٹھا کر دیا ہے۔ ان کتابوں میں مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق اور بیہقی کی معرفۃ السنن و الآثار شامل ہیں۔

جامع کتب

"جامع" ایسی کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں مصنف نے ہر ممکن موضوع سے متعلق احادیث اکٹھی کی ہوں۔ بخاری اور مسلم کی "الجامع الصحیح" جامع کتب کی بہترین مثال ہیں۔ ان کے علاوہ جامع ترمذی بھی صحاح ستہ میں شامل ہے۔ ترمذی کی کتاب کو بعض حضرات نے 'جامع' اور بعض نے 'سنن' میں شمار کیا ہے۔ ابن الاثیر کی جامع الاصول بھی اسی اصول پر لکھی گئی ہے۔ جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع کے نام سے تمام دستیاب احادیث کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے جو بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔

اجزا

بعض حضرات نے کسی خاص موضوع پر احادیث اکٹھی کی ہیں۔ ایسے مجموعوں کو "جزء" کہا جاتا ہے۔ امام بخاری کی "الادب المفرد" اس کی مثال ہے جو خاص طور پر آداب معاشرت سے متعلق ہے۔

سیرت

سیرت کی کتابوں کا موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سوانح حیات (Biography) لکھنا ہے۔ ان میں قدیم ترین کتاب سیرت ابن اسحاق ہے۔ اس کے بعد سیرت ابن ہشام کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بعد کثیر تعداد میں سیرت پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں ابن جوزی کی جلاء الفہوم، ابن کثیر کی السیرۃ النبویہ اور ابن حزم کی جوامع السیرۃ نے زیادہ شہرت پائی۔ اردو اور انگریزی میں بھی سیرت پر بہت سی کتب لکھی جا چکی ہیں۔ ان کتابوں میں صحیح و ضعیف ہر قسم کی روایات پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کی چھان بین کر کے ان پر اعتماد کیا جائے۔ اعتماد کے لحاظ سے سیرت کی کتب کا درجہ حدیث کی کتب سے کم سمجھا جاتا ہے۔

تاریخ

تاریخ میں طبری کی تاریخ الامم و الملوک، بعد کی تمام کتابوں کا ماخذ ہے۔ اس میں تاریخ سے متعلق ہر طرح کی روایات اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے متعلق روایات بھی شامل ہیں۔ بعد میں ابن خلدون کی تاریخ کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ اعتماد کے لحاظ سے تاریخ کی کتب کا درجہ سیرت کی کتب سے بھی کم سمجھا جاتا ہے۔

         ان تمام اقسام پر مشتمل کتابیں عربی زبان میں شائع ہو چکی ہیں۔ عربی میں یہ کتب انٹرنیٹ پر بلامعاوضہ دستیاب بھی ہو چکی ہیں۔ ان میں سے صرف چند کتب کے اردو اور انگریزی ترجمے ہو چکے ہیں۔ ان میں سے خاص طور پر بخاری اور مسلم کے ترجمے انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ بخاری و مسلم کے علاوہ تمام کتب حدیث میں صحیح و ضعیف ہر قسم کی روایات پائی جاتی ہیں۔ سیرت و تاریخ کی کتب کا معاملہ مزید احتیاط کا تقاضہ کرتا ہے۔
         ان کے علاوہ بھی احادیث سے متعلق کتب کی چند اقسام ہیں۔ انہیں ہم انشاء اللہ یونٹ 9 میں بیان کریں گے۔

مشہور محدثین کا تعارف

محدثین کی تعداد تو بلامبالغہ لاکھوں میں ہے لیکن ان میں سے بعض حضرات ایسے ہیں جنہوں نے اس فن میں اہم ترین کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ چونکہ اس کتاب میں بار بار ان کا ذکر آئے گا، اس لئے ضروری ہے کہ ان کا مختصر تعارف پیش کر دیا جائے۔ یہاں ہم تمام ائمہ کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ صرف انہی کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کے کام کا حوالہ اس کتاب میں بار بار دیا گیا ہے۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین

ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150H/699-767CE)

آپ فقہ کے مشہور امام ہیں۔ آپ کا اصل میدان قرآن اور حدیث کی بنیاد پر عملی زندگی کا لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔ کوفہ سے تعلق رکھتے تھے۔ صحابی رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے باعث آپ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ بہت بڑے تاجر بھی تھے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد کے شاگرد حماد سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کے شاگردوں میں ابویوسف اور محمد بن حسن شیبانی کو شہرت نصیب ہوئی۔ آپ کا فقہی مسلک پورے عالم اسلام میں پھیلا ہوا ہے۔

مالک بن انس (93-179H/712-795CE)

مدینہ کے مشہور امام ہیں۔ حدیث اور فقہ کے ماہر تھے۔ موطاء کے مصنف ہیں جو حدیث اور فقہ کی قدیم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ آپ کو بھی بادشاہ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے کے باعث تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

عبداللہ بن مبارک (118-181H/736-797CE)

حدیث اور فقہ کے مشہور امام ہیں۔ آپ نے اخلاقیات، تزکیہ نفس، جہاد اور تعمیر شخصیت سے متعلق کئی کتب لکھیں۔

سفیان بن عینیہ (107-198H/725-814CE)

کوفہ کے رہنے والے تھے مگر مکہ میں مقیم رہے۔ آپ کا شمار اہل حجاز کے بڑے علماء میں ہوتا ہے۔ امام شافعی آپ کا تقابل امام مالک سے کیا کرتے تھے۔

محمد بن ادریس شافعی (150-204H/767-820CE)

حدیث اور فقہ کے مشہور امام ہیں۔ آپ کا تعلق فلسطین سے تھا۔ مکہ میں بچپن گزارا۔ مالک بن انس اور سفیان بن عینیہ کے شاگرد ہوئے۔ بغداد اور یمن میں وقت گزارا۔ آخر عمر میں سرکاری ملازمت سے استعفی دے کر مصر میں مقیم ہوئے اور قاہرہ میں وفات پائی۔

یحیی بن معین (159-233H/775-848CE)

جرح و تعدیل یعنی راویوں کو قابل اعتماد قرار دینے یا نہ دینے کے فن کے امام ہیں۔ بغداد کے رہنے والے تھے۔ جرح و تعدیل کے علاوہ احادیث کے جامع بھی تھے۔

احمد بن حنبل (164-241H/780-855CE)

آپ حدیث اور فقہ کے مشہور امام ہیں۔ آپ کا تعلق عراق کے دارالحکومت بغداد سے تھا۔ امام شافعی کے شاگرد ہوئے۔ اپنی جرات کے باعث بادشاہ متوکل نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنوایا۔ آپ کے شاگردوں میں بخاری و مسلم شامل تھے۔

محمد بن اسماعیل بخاری (194-256H/810-870CE)

آپ فن حدیث کے مشہور ترین امام ہیں اور اپنی کتاب صحیح بخاری کے لئے مشہور ہیں۔ ازبکستان کے شہر بخارا میں پیدا ہوئے۔ بہت سے شہروں سے احادیث اکٹھی کیں۔ صحیح کے علاوہ آپ نے فن رجال، تاریخ اور اخلاقیات سے متعلق کتابیں تصنیف کیں۔ معاصر علماء کے تعصب کے باعث آپ کو بخارا سے نکلنا پڑا۔ سمرقند میں آپ کی وفات ہوئی۔

مسلم بن حجاج (204-261H/820-875H)

آپ کا تعلق ازبکستان کے شہر نیشا پور سے تھا۔ اپنے زمانے کے مشہور ترین محدثین سے احادیث حاصل کیں جن میں احمد بن حنبل اور بخاری جیسے محدثین شامل تھے۔ آپ "صحیح مسلم" کے مصنف ہیں جو صحیح بخاری کے بعد حدیث کا اعلی ترین مجموعہ ہے۔

ابو عیسی ترمذی (209-279H/824-892CE)

آپ حدیث کی مشہور کتاب جامع ترمذی کے مصنف ہیں۔ ازبکستان کے شہر ترمذ سے تعلق رکھتے تھے۔

ابن ابی حاتم رازی (240-327H/854-938CE)

جرح و تعدیل کے مشہور امام ہیں۔ ایران کے شہر رے سے تعلق رکھتے تھے۔ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔

احمد بن حسین البیہقی (384-458H/994-1066CE)

حدیث کے ائمہ میں سے تھے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ "سنن الکبری" ہے جو احکام سے متعلق احادیث کے سب سے بڑے مجموعوں میں سے ایک ہے۔ آپ کا تعلق ازبکستان کے علاقے نیشا پور سے تھا۔ اس کے بعد بغداد، کوفہ اور مکہ میں بھی رہے۔

خطیب بغدادی (392-463H/1002-1071CE)

آپ علوم حدیث کو مرتب کرنے والوں میں نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ آپ کا تعلق کوفہ کے قریب ایک گاؤں سے تھا۔ عالم اسلام کے مختلف شہروں میں علم کی تلاش میں نکلے۔ آخر میں بغداد میں رہائش اختیار کی۔ علوم حدیث میں آپ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

ابن عبدالبر (368-464H/978-1071CE)

آپ کا تعلق اسپین میں قرطبہ سے تھا۔ اسماء الرجال، حدیث اور فقہ کے امام تھے۔ موطاء مالک کی بہت بڑی شرح کے مصنف ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوانح حیات پر لکھی گئی "الاستیعاب" کے مصنف بھی آپ ہی ہیں۔

عبد الغنی المقدسی (541-600H/1146-1203CE)

آپ کا تعلق دمشق سے ہے۔ بعد میں مصر کے شہر اسکندریہ اور ایران کے شہر اصفہان میں مقیم رہے۔ حدیث کی چھ مشہور کتابوں کے رجال پر آپ نے تحقیق کر کے ایک ضخیم کتاب "الاکمال" تصنیف کی ہے۔

ابن الاثیر (555-630H/1160-1230CE)

عراق کے شہر موصل میں مقیم رہے۔ علوم الحدیث میں انہوں نے غیر معمولی اضافے کئے ہیں جن میں اسماء الرجال پر غیر معمولی کام شامل ہے۔ آپ کو شہرت صحابہ کرام کی زندگیوں پر لکھی گئی کتاب 'اسد الغابہ" سے حاصل ہوئی۔

جلال الدین سیوطی (849-911H/1445-1505CE)

سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ مصر کے شہر اسیوط میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حدیث کی دستیاب تمام کتابوں کو اکٹھا کر کے جامع الکبیر تیار کی۔علوم القرآن اور علوم الحدیث کو منظم صورت میں پیش کیا۔ بعد کے دور کے علماء میں آپ کا مقام غیر معمولی ہے۔


تاریخی معلومات کے حصول کے ذرائع

خبر کے ہم تک پہنچنے کے اعتبار سے اس کی دو اقسام ہیں:

· وہ خبر کو بے شمار ذرائع (طرق) سے ہم تک پہنچی ہو، متواتر کہلاتی ہے۔

· وہ خبر جو محدود واسطوں سے ہم تک پہنچی ہو، "خبر واحد" کہلاتی ہے۔ اس کی جمع "اخبار احاد" ہے۔ [یہ محدود واسطے ایک یا ایک سے زائد ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ ایک سے زائد بھی ہوں تب بھی یہ فن حدیث کی اصطلاح میں خبر واحد ہی کہلاتی ہے۔]

ان دونوں کی مزید اقسام اور دیگر تفاصیل ہم انشاء اللہ عنقریب بیان کریں گے۔ پہلے ہم متواتر کی بحث کرتے ہیں۔

نوٹ: حدیث کی ایک سند کو "طریق" کہتے ہیں۔ اس کی جمع "طرق" ہے۔ تاریخ میں کسی بھی قسم کی معلومات (Information)، خواہ وہ مذہبی ہوں یا نہ ہوں، کو دوسرے لوگوں اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے بنیادی طور پر دو طریقے استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقے کو تواتر اور دوسرے کو خبر واحد کہا جاتا ہے۔تواتر سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبرکو ہر دور میں اتنے زیادہ افراد بیان کرتے ہوں کہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اس کے برعکس خبر واحد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبر کو ایک دو یا چند افراد بیان کرتے ہوں اور ان کے بیان میں غلطی یا شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جائے۔

تواترکی مثال یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر2001 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہوگیا۔ یہ واقعہ رونما ہوتے ہی اس کی خبر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس واقعے کو موقع پر جا کر ہزاروں افراد نے دیکھا اور بیان کردیا۔ اس معاملے میں دنیا بھر میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ واقعہ رونما ہوا تھا کیونکہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

اب سے پندرہ بیس برس تک کے بعداس واقعے کو دنیا بھر کے اربوں افراد اپنی آنے والی نسل کو سنائیں گے، اس واقعے کے بارے مضامین لکھے جاتے رہیں گے، ویڈیو فلمیں دیکھی جاتی رہیں گی اور اس کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ ہمارے بعد والی نسل کے افراد انہی طریقوں سے ان معلومات کو اپنے سے اگلی نسل میں منتقل کریں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب سے کئی صدیاں بعد بھی اس بات میں کوئی شک و شبہ موجود نہیں ہوگا کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر جہازوں کے ٹکراؤ سے تباہ ہوگئے تھے۔ یہ پورا پراسیس "تواتر" کا عمل کہلاتا ہے۔

        اس ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات حتمی اور قطعی ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم لوگ پوری قطعیت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ1947  میں برصغیر آزاد ہوا تھا، 1857 میں برصغیرمیں جنگ آزادی ہوئی تھی، چار سو سال پہلے اکبر نام کا ایک بادشاہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا، پانچ سو سال پہلے کولمبس نے امریکہ دریافت کیا، آٹھ سو سال پہلے صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگیں لڑی تھیں، ساڑھے تیرہ سو سال پہلے سانحہ کربلا وقوع پذیر ہوا تھا، ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب میں محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی بعثت ہوئی تھی اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس وقت کی مہذب دنیا کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا، دو ہزار سال پہلے فلسطین میں سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے دین حق کا علم بلند کیا تھا، چار ہزار سال قبل سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے پر آنے والا فرعون سمندر میں غرق ہوگیا تھا، ساڑھے چار ہزار سال پہلے سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے نمرود کی خدائی کو چیلنج کیا تھا، اور اس سے بھی کہیں پہلے سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں زمین پر ایک بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ یہ وہ معلومات ہیں، جن کا کوئی ذی عقل اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے انکار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ان حقائق کا انکار کرتا ہو تو وہ سورج کے روشن ہونے ، دن اور رات کی تبدیل ہونے اور زمین کے گول ہونے کا بھی انکار کر سکتا ہے۔

ہمارے علمی ذخیرے میں ایسی بہت سی معلومات ہیں جو تواتر کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ بعض معلومات کے منتقل کرنے کا سلسلہ اگلی نسلوں میں پہنچ کر کسی وجہ سے منقطع ہو جائے اور یہ تواتر ٹوٹ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بادشاہوں کے وجود اور زمانوں کے بارے میں تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ ان معلومات کی اتنی اہمیت نہ تھی کہ کوئی انہیں محفوظ رکھنے کا اہتمام کرتا۔ اس کے برعکس انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور بعض دیگر مذاہب کے بانیوں کے بہت سے واقعات تواتر کے ساتھ منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں کیونکہ ان کی اہمیت کے پیش نظر انہیں محفوظ رکھنے کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ یہی اہتمام تواتر کہلاتا ہے۔

تاریخ میں بہت سی معلومات ہمیں خبر واحد (ایک دو افراد کی دی ہوئی خبر) کی صورت میں بھی ملتی ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا منظر کسی عینی شاہد نے دیکھا۔ اس نے اپنے ذہن میں موجود تفصیلات کو کسی دوسرے تک منتقل کردیا۔ دوسرے شخص نے ان معلومات کو تیسرے تک ، تیسرے نے چوتھے تک اور چوتھے نے پانچویں شخص تک منتقل کردیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ان معلومات میں اس قسم کی باتیں ہو سکتی ہیں کہ اس نے جہازوں کے ٹکرانے سے پہلے کسی شخص کو مشکوک انداز میں اس عمارت سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا، سب سے پہلے 79 ویں منزل تباہ ہوئی تھی، پچاسویں منزل پر موجود فلاں شخص کس طرح زندہ بچا وغیرہ وغیرہ ۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تباہ ہونا تو تواتر سے ثابت ہے لیکن اس کی جزوی تفصیلات خبر واحد سے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی واقعے کے بارے میں مختلف اخبارات کی خبروں میں جزوی سا فرق پایا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایک دو انسانوں کے مشاہدے اور یاد رکھنے پر ہوتی ہے۔

انسان کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی واقعے کے ہر پہلو کو جزوی تفصیلات کی حد تک یاد نہیں رکھتا۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ کسی بھی واقعے کو اپنے خیالات، نظریات، دلچسپیوں اور تعصبات کی عینک سے دیکھتا ہے۔ مثلاً اگر کسی جگہ کوئی قتل کا واقعہ ہو جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گواہ تو پوری تفصیل سے قاتل کا حلیہ بتا دیتا ہے لیکن اس کے قتل کرنے کے انداز کو زیادہ تفصیل سے بیان نہیں کر پاتا کیونکہ اس طریقے میں اس کی دلچسپی نہیں ہوتی اور وہ اسے مناسب حد تک نوٹ نہیں کر پایا ہوتا ۔ اس کے برعکس دوسرا گواہ قاتل کے حلیے کو تو زیادہ تفصیل سے نوٹ نہیں کرتا لیکن قتل کرنے کے انداز کو بڑے واضح انداز میں بیان کر دیتا ہے کیونکہ اس کی دلچسپی اسی میں ہوتی ہے۔

اسی طریقے سے اگر اس واقعے کو کوئی ایسا شخص بھی دیکھ رہا ہو جواسلحے میں بڑی دلچسپی رکھتا ہو تو وہ باقی چیزوں کی نسبت آلہ قتل کی جزئیات کو بڑی تفصیل سے بیان کردے گا۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی شخص نے قاتل کو پہچان لیا ہو لیکن وہ کسی ذاتی مفاد یا خوف کی وجہ سے اس کے بارے میں غلط معلومات فراہم کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی واقعے کو بیان کرنے والوں میں تفصیلات کے بارے میں کچھ نہ کچھ اختلاف رونما ہو ہی جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ہمارے اخبارات کسی بھی بڑے واقعے کی جب رپورٹنگ کرتے ہیں تو ان میں اس کے بارے میں بعض تفصیلات میں اختلاف موجود ہوتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں مرنے والے یا زخمی ہونے والوں کی تعداد کیا تھی، حادثے میں قصور کس کا تھا، جیسے معاملات میں اخباری رپورٹرز کے بیانات کے فرق کی وجہ سے مختلف اخبارات مختلف معلومات دیتے ہیں جبکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔

یہ چیز بھی عام مشاہدے میں دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک شخص دوسرے کے سامنے واقعے کو بالکل درست بیان کردیتا ہے لیکن دوسرا تیسرے کے سامنے بیان کرتے وقت اپنے کسی مفاد کے تحت، یا پھر محض غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے اس میں کچھ کمی بیشی بھی کر دیتا ہے۔ آپ نے وہ کھیل کھیلا یا پھر دیکھا ضرور ہوگا جس میں ایک فرد کو کوئی جملہ بتایا جاتا ہے اور اس نے اسے اپنے ساتھی کے کان میں بتانا ہوتا ہے۔ بہت سے ساتھیوں سے گزر کر جب وہی جملہ آخری فرد سے پوچھا جاتا ہے تو اس کا جواب اصل جملے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں تواتر سے حاصل ہونے والی معلومات سو فیصد قطعی اور یقینی (Confirm) ہوتی ہیں اور ان میں کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس خبر واحد سے حاصل ہونے والی معلومات سو فیصد یقین کے درجے پر نہیں پہنچتیں بلکہ ان میں کسی نہ کسی حد تک شک و شبہ پایا جاتا ہے۔ اس شک و شبہ کو تحقیق کے طریقوں سے کم از کم سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اصول حدیث کا فن ایجاد کیا تاکہ خبر واحد سے حاصل کردہ معلومات کو پرکھا جا سکے۔


خبر متواتِر

متواتر کی تعریف

لغوی اعتبار سے "متواتر"، "تواتر" سے نکلا ہے اور اس کا اسم فاعل ہے۔ تواتر کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کا مسلسل اور لگاتار ہونا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے "متواتر بارش ہوتی رہی" یعنی کہ بارش مسلسل اور لگاتار ہو رہی ہے۔

         اصطلاحی مفہوم میں متواتر وہ حدیث ہو گی جس کے بیان کرنے والے اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا ناممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ متواتر وہ حدیث ہوگی جس کی روایت ہر طبقہ کے افراد اتنی کثیر تعداد میں کر رہے ہوں کہ یہ بات عقلاً ناممکن ہو کہ انہوں نے کسی غلط یا جھوٹی بات پر اتفاق رائے کر لیا ہوگا۔ (طبقہ سے مراد ایک دور اور ایک نسل کے لوگ ہیں۔ ایک استاذ کے تمام شاگردوں کو ایک طبقہ کہا جاتا ہے۔)

متواتر کی شرائط

اس تعریف سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ کوئی خبر اس وقت تک متواتر نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں یہ چار شرائط نہ پائی جاتی ہوں۔

· اسے روایت کرنے والے کثیر تعداد میں ہوں۔ اس بات میں اختلاف رائے ہے کہ کم از کم کتنے افراد کو کثیر تعداد کہا جائے گا؟ اہل علم نے کم از کم "دس" افراد ہونے کو ترجیح دی ہے۔ (تدریب الراوی، ج 2، ص 177)

· (اب سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک) ہر نسل، طبقے اور ہر زمانے میں راویوں کی تعداد کثیر ہو۔

· ان افراد کا جھوٹی بات پر اکٹھا ہو جانا عقلاً ناممکن ہو۔ (یہ اس وقت ہی ہوگا جب یہ راوی مختلف شہر، جنس، مذہب وغیرہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس کے بغیر ہو سکتا ہے کہ راوی کثیر ہوں لیکن خبر متواتر نہ ہو یا پھر راوی کم ہوں لیکن خبر متواتر ہو جائے۔)

· اس خبر کو وہ ایک حسی مشاہدے کے طور پر بیان کریں یعنی یہ کہیں کہ "ہم نے یہ دیکھا ہے۔۔۔۔"، "ہم نے یہ سنا ہے ۔۔۔۔"، "ہم نے اسے چھوا ہے ۔۔۔۔"۔ اگر وہ محض اپنی عقل سے قیاس آرائی کر رہے ہوں گے جیسا کہ لوگوں نے دنیا کے آغاز (یا مختلف جانوروں کے ارتقاء) سے متعلق کی ہیں تو یہ خبر متواتر نہ ہو گی۔

نوٹ: ان شرائط کی وجہ یہ ہے کہ ایک نقطہ نظر کے ماننے والے باقاعدہ پلاننگ کر کے کسی بات کا پروپیگنڈہ کر سکتے ہیں لیکن اگر مختلف نقطہ ہائے نظر کے حاملین ایک ہی بات کر رہے ہوں تو پھر یہ امر محال ہو جائے گا۔

متواتر کا حکم

خبر متواتر سے قطعی اور یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ اتنا یقینی علم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ اس خبر کی اسی طرح تصدیق کرے جیسا کہ وہ بذات خود اس کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اسے اس خبر کی تصدیق میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔ خبر متواتر ایسی ہی ہوتی ہے اور ہر خبر متواتر کو لازماً قبول کیا جاتا ہے۔ اس کے راویوں کی چھان بین کی ضرورت بھی نہیں ہوتی (کیونکہ وہ اتنے زیادہ اور متنوع اور مختلف (Diversified) ہیں کہ ان کا جھوٹ پر اکٹھے ہونا ناممکن ہے۔)

متواتر کی اقسام

خبر متواتر کی دو اقسام ہیں، لفظی اور معنوی۔

· متواتر لفظی وہ خبر ہوتی ہے جس کے الفاظ اور معانی دونوں ہی تواتر سے منتقل کئے گئے ہوں۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے، "جس نے جان بوجھ کر مجھ (یعنی رسول اللہ) سے جھوٹی بات منسوب کی، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" اسے ستر سے زائد صحابہ نے روایت کیا ہے۔

· متواتر معنوی وہ خبر ہوتی ہے جس کے الفاظ تواتر سے نہ منتقل نہ کئے گئے ہوں لیکن معنی تواتر سے منتقل کیا گیا ہو۔ اس کی مثال دعا میں ہاتھ اٹھانا ہے۔ اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے سو سے زائد احادیث روایت کی گئی ہیں اور ان سب میں یہ ہے کہ آپ نے دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے لیکن یہ بات مختلف الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ کسی ایک جملے کو لفظاً تواتر حاصل نہیں ہے لیکن مختلف طرق (سند کے سلسلوں) کو اکٹھا کرنے سے معنوی تواتر حاصل ہو جاتا ہے۔ (تدریب الراوی، ج 2، ص 180)

متواتر کا وجود

اس میں کوئی شک نہیں کہ متواتر احادیث پائی جاتی ہیں جیسا کہ حوض، موزوں پر مسح کرنے، نماز میں ہاتھ اٹھانے، حدیث کو آگے پہنچانے، والی احادیث اور ان کے علاوہ دیگر۔ لیکن اگر ہم اخبار آحاد کی تعداد کو دیکھیں تو اس کے مقابلے میں متواتر احادیث کی تعداد بہرحال بہت کم ہے۔

متواتر سے متعلق مشہور تصانیف

اہل علم نے متواتر احادیث کو جمع کرنے کی کوششیں کی ہیں اور اس ضمن میں مستقل تصانیف کی ہیں تاکہ ایک طالب علم کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا آسان ہو۔ ان میں یہ تصانیف شامل ہیں:

· الازھار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ: یہ جلال الدین سیوطی کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب ابواب میں تقسیم شدہ ہے۔

· قطف الازھار: یہ بھی سیوطی کی کتاب ہے۔ اس میں انہوں نے پہلی کتاب کی تلخیص کی ہے۔

· نظم المتناثر من الحدیث المتواتر: اس کے مصنف محمد بن جعفر الکتانی ہیں۔


خبر واحد

خبر واحد کی تعریف

لغوی اعتبار سے "واحد" کا مطلب ہے ایک۔ خبر واحد وہ خبر ہے جو ایک شخص نے روایت کی ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں خبر واحد وہ خبر ہے جس میں تواتر کی شروط جمع نہ ہوں (خواہ اس کے روایت کرنے والے ایک سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔) (نزہۃ النظر ص 26)

خبر واحد کا حکم

خبر واحد سے غیر یقینی (ظنی) علم حاصل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس علم پر بحث و استدلال کی گنجائش ہوتی ہے۔

خبر واحد کی اقسام

خبر واحد کی طرق (اسناد) کی تعداد کے اعتبار سے تین اقسام ہیں:

· مشہور

· عزیز

· غریب

ہم ان میں سے ہر ایک پر مستقل بحث کریں گے۔


خبر مشہور

خبر مشہور کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مشہور" شہرت کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو چیز ظاہر اور مشہور ہو جائے۔ اس کو ظاہر ہونے کے باعث مشہور کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں "خبر مشہور" ایسی خبر کو کہتے ہیں جسے ہر دور میں کم از کم تین افراد نے روایت کیا ہو اگرچہ یہ حد تواتر تک نہ پہنچی ہو۔

خبر مشہور کی مثال

یہ حدیث مشہور ہے کہ "اللہ تعالی علم کو ویسے ہی لوگوں کے سینوں سے غائب نہیں کر دیتا بلکہ وہ اہل علم کو اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے یہاں تک کہ کوئی (صحیح) عالم باقی نہیں رہ جاتا۔ لوگ اپنے جاہل سرداروں کے پاس جا کر سوال پوچھتے ہیں اور وہ بغیر علم کے انہیں فتوی دے کر انہیں گمراہ کر دیتے ہیں۔" (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، احمد)

خبر مستفیض اور خبر مشہور

لغوی اعتبار سے "مستفیض" استفاض سے نکلا ہے جو خود "فاض" سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے کسی چیز جیسے پانی کا پھیلنا۔ اصطلاحی مفہوم میں اس کے تین معنی ہیں۔

· یہ مشہور کا مترادف ہے۔

· یہ مشہور کی نسبت زیادہ مخصوص اور متعین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مستفیض کی شرط یہ ہے کہ اس کی اسناد برابر ہوں جب کہ مشہور میں یہ شرط نہیں ہے۔

· یہ مشہور کی نسبت زیادہ عام ہے۔ یہ دوسری رائے کے مخالف نقطہ نظر ہے۔

غیر اصطلاحی معنی میں خبر مشہور

غیر اصطلاحی معنی میں مشہور ایسی خبر کو کہتے ہیں جو کہ لوگوں کی زبان پر عام ہو جائے اگرچہ وہ قابل اعتبار نہ بھی ہو۔ اس میں وہ خبریں بھی شامل ہیں جن کی ایک یا ایک سے زیادہ سند بھی نہ ہو، اور نہ ہی اس کی سند اپنی اصل میں پائی جائے۔

غیر اصطلاحی خبر مشہور کی اقسام

غیر اصطلاحی خبر مشہور کی متعدد اقسام ہیں:

· حدیث کے ماہرین میں مشہور خبر: اس کی مثال سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک مہینہ رکوع کے بعد رعل اور ذکوان کے بارے میں دعائے ضرر فرمائی۔ (بخاری، مسلم)

· حدیث کے ماہرین، عام علماء اور عوام میں مشہور خبر: اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ، "مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔" (بخاری، مسلم)

· فقہ کے ماہرین میں مشہور خبر: اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ "حلال کاموں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔" (مستدرک حاکم)

· اصول فقہ کے ماہرین میں مشہور خبر: اس کی مثال وہ حدیث ہے کہ "میری امت سے غلطی اور بھول چوک کی صورت میں کئے گئے ناپسندیدہ کام پر مواخذہ نہ ہو گا۔" اسے ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔

· نحو کے ماہرین میں مشہور خبر: جیسے "صہیب کتنا اچھا بندہ ہے۔ اگر وہ اللہ سے نہ ڈرتا ہوتا تو اس کی نافرمانی کرتا۔" یہ ایک بے اصل حدیث ہے۔

· عام لوگوں میں مشہور خبر: جیسے "جلدی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔" اسے ترمذی نے اپنی کتاب میں درج کیا اور اسے حسن قرار دیا۔

خبر مشہور کا حکم

خبر مشہور خواہ وہ اصطلاحی معنی میں ہو یا نہ ہو، صحیح یا غیر صحیح ہو سکتی ہے۔ اس میں صحیح، حسن، ضعیف اور موضوع احادیث سب کی سب پائی جائیں گی۔ اگر اصطلاحی معنی میں مشہور حدیث، صحیح ہو تو پھر اس کی شہرت کی خصوصیت کی بنیاد پر اسے عزیز اور غریب قسم کی احادیث پر ترجیح دی جائے گی۔

خبر مشہور سے متعلق اہم تصانیف

غیر اصطلاحی معنی میں مشہور احادیث پر کئی کتب تصنیف کی گئی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

· امام سخاوی کی المقاصد الحسنة فيما اشتهر على الألسنة

· عجلونی کی كشف الخفاء ومزيل الإلباس فيما اشتهر من الحديث على السنة الناس

· ابن الدیبغ الشیبانی کی تمييز الطيب من الخبيث فيما يدور على ألسنة الناس من الحديث

خبر عزیز

خبر عزیز کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ یا تو "عَزَّ یَعِزُ" سے صفت مشبہ ہے جس کا مطلب ہے قلیل ہونا یا پھر یہ "عَزَ یَعَزُ" سے صفت مشبہ ہے جس کا معنی ہے قوی اور طاقتور ہونا۔ اسے یہ نام اس کے قلیل اور نادر ہونے کے باعث دیا گیا ہے۔ یہ ایسی حدیث ہے جو کسی اور سند کے باعث قوت پکڑتی ہے (لیکن بذات خود یہ ایک ایسی روایت ہوتی ہے جس کے راوی کم ہوتے ہیں۔)

تعریف کی وضاحت

ایسی حدیث کو "عزیز" کہا جاتا ہے جس کی روایت ہر دور میں دو یا دو سے کم افراد کر رہے ہوں۔ یہ ممکن ہے کسی دور میں اس کے راوی تین یا تین سے زائد بھی ہو جائیں لیکن کسی ایک دور میں اس کے راویوں کی تعداد کا دو سے کم ہو جانا ضروری ہے کیونکہ (تعریف متعین کرنے میں) کم طبقات کا اعتبار کیا جائے گا۔ یہ وہ تعریف ہے جو قابل ترجیح ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے (شرح نخبہ میں) لکھا ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک عزیز دو یا تین افراد کی روایت کو کہتے ہیں۔ یہ لوگ بعض صورتوں میں مشہور اور عزیز کے مابین فرق نہیں کرتے۔

خبر عزیز کی مثالیں

جیسا کہ شیخین (امام بخاری و مسلم رحمھما اللہ) نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے اور امام بخاری نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ مجھ سے اپنے والدین، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت نہ کرنے لگے۔" (بخاری ، مسلم)

         اس حدیث کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے قتادہ اور عبدالعزیز بن صھیب نے روایت کیا۔ اس کے بعد قتادہ سے اس حدیث کو شعبہ اور سعید نے روایت کیا جبکہ عبدالعزیز بن صھیب سے اسماعیل بن علیہ اور عبدالوارث نے روایت کیا۔ ان میں سے ہر ایک سے پھر بہت سے افراد نے روایت کیا۔

خبر عزیز سے متعلق اہم تصانیف

اہل علم نے خاص طور پر خبر عزیز سے متعلق کوئی کتاب نہیں لکھی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ چونکہ ایسی احادیث بہت قلیل تعداد میں ہیں اور انہیں الگ سے لکھنے کا کوئی فائدہ بھی نہ تھا، اس وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا۔


خبر غریب (اکیلے شخص کی خبر)

خبر غریب کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ صفت مشبہ ہے اور اس کا معنی ہے ایسا منفرد شخص جو اپنے اقربا سے بھی دور ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں اس کا مطلب ہے ایسی روایت جو کسی ایک شخص کی ہو اور وہ اپنی روایت میں منفرد ہو۔ [عربی میں "غربت" کا معنی ہوتا ہے تنہائی۔ یہ اردو کے لفظ غربت سے مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔]

تعریف کی وضاحت

ایسی حدیث کو "غریب" کہا جاتا ہے جس کی روایت ہر دور میں ایک ہی شخص کر رہا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند ادوار یا صرف ایک ہی دور میں اس کی روایت ایک ہی شخص کر رہا ہو۔ اگر کسی دور میں ایک سے زائد افراد بھی اس کی روایت کر رہے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ اس دور کا اعتبار کیا جائے گا جس میں اس کی روایت صرف ایک ہی شخص نے کی ہے۔

خبر غریب کا دوسرا نام

بہت سے اہل علم "خبر غریب" کا دوسرا نام "خبر الفرد" بھی بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں مترادف الفاظ ہیں۔ بعض علماء ان دونوں کے درمیان فرق کرتے ہیں اور ان دونوں کو الگ الگ اقسام شمار کرتے ہیں لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی (وفات 852ھ) انہیں لغوی اور اصطلاحی معنی میں ایک ہی مترادف قرار دیتے ہیں۔ ہاں وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ، "اہل اصطلاح نے کثرت استعمال اور قلت استعمال کی بنیاد پر ان دونوں قسم کی احادیث میں فرق کیا ہے، وہ لوگ "فرد"، "فرد مطلق" کو قرار دیتے ہیں جبکہ غریب سے اکثر اہل علم "فرد النسبی" مراد لیتے ہیں۔ (نزہت النظر ص 28)

خبر غریب کی اقسام

خبر غریب کی انفرادیت کی بنیاد پر دو اقسام ہیں: غریب مطلق اور غریب نسبی:

· "غریب مطلق" یا "فرد مطلق" ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کی ابتدا (یعنی صحابی) ہی میں انفرادیت پائی جاتی ہو (یعنی اسے ایک صحابی روایت کر رہا ہو۔) اس کی مثال یہ حدیث ہے "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔" یہ حدیث صرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ یہ انفرادیت سند کے آخر تک برقرار رہتی ہے کہ ہر دور میں اس حدیث کو روایت کرنے والا ایک شخص ہی ہوتا ہے۔ (بخاری ، مسلم)

· "غریب نسبی" یا "فرد نسبی" ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس کو اصل میں زیادہ صحابہ نے روایت کیا ہو لیکن بعد میں اس کو روایت کرنے والا اکیلا رہ گیا ہو۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ "مالک، زہری سے اور وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر خود (Helmet) تھا۔" اس حدیث کی روایت میں امام مالک، زہری سے روایت کرنے میں اکیلے ہیں۔ اس قسم کی حدیث کو "غریب نسبی" اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس میں اکیلا پن کسی متعین شخص کی نسبت سے پیدا ہوتا ہے۔ (بخاری ، مسلم)

غریب نسبی کی ذیلی اقسام

غریب نسبی میں اکیلے پن کے اعتبار سے متعدد اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس قسم کی حدیث میں اکیلا پن مطلق (یعنی صحابی کی وجہ سے نہیں ہے) بلکہ اس میں اکیلا پن بعد میں کسی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس کی اقسام یہ ہیں:

· ثقہ (قابل اعتماد) شخص کے اکیلا ہونے کے باعث حدیث کی انفرادیت: جیسے کہا جائے کہ "اس حدیث کو سوائے فلاں کے کسی اور ثقہ شخص نے روایت نہیں کیا۔"

· کسی متعین راوی کے دوسرے متعین راوی سے اکیلے روایت کرنے کے باعث حدیث کی انفرادیت: جیسا کہ کہا جائے "اس حدیث کو صرف فلاں ہی نے فلاں سے روایت کیا۔"

· کسی شہر یا ملک کی وجہ سے حدیث کی انفرادیت: جیسا کہ کہا جائے "اس حدیث کو صرف اہل مکہ نے یا صرف اہل شام ہی نے روایت کیا۔"

· کسی شہر یا ملک کے راویوں کے کسی دوسرے شہر یا ملک کے راویوں سے روایت کرنے کی وجہ سے حدیث کی انفرادیت: جیسا کہ کہا جائے کہ "اس حدیث کو صرف اہل بصرہ ہی اہل مدینہ سے روایت کرتے ہیں یا پھر صرف اہل شام ہی اہل حجاز سے روایت کرتے ہیں۔"

غریب احادیث کی دوسری تقسیم

حدیث کے سند یا متن کے اکیلے پن کے اعتبار سے غریب حدیث کی دو اقسام ہیں:

· متن اور سند دونوں کے اعتبار سے غریب حدیث: یہ وہ حدیث ہے جس کے متن کی روایت کرنے والا فرد صرف ایک ہے۔

· صرف سند کے اعتبار سے غریب حدیث: یہ وہ حدیث ہے جس کا متن تو کثیر صحابہ نے روایت کیا ہو البتہ اس کی سند ہر صحابی سے اکیلے اکیلے روایت کی گئی ہو۔ اسی کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ "یہ اس (یعنی سند کے) پہلو سے غریب حدیث ہے۔"

غریب احادیث کہاں پائی جاتی ہیں؟

ان کتب میں غریب احادیث کثرت سے پائی جاتی ہیں:

· مسند بزاز

· طبرانی کی معجم الاوسط

غریب احادیث سے متعلق مشہور تصانیف

غریب حدیث کے موضوع پر یہ کتابیں لکھی گئی ہیں:

· غرائب مالک از دارقطنی

· الأفراد از دارقطنی

· السنن التي تفرد بكل سنة منها أهل بلدة از ابو داؤد السجستانی

خبر واحد کی قوت (قابل اعتماد ہونے) کے اعتبار سے اس کی تقسیم

خبر واحد، خواہ وہ مشہور، عزیز یا غریب ہو، کو اس کی قوت (یعنی قابل اعتماد ہونے) کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

· مقبول: یہ وہ خبر ہے جس کے بارے میں غالب فیصلہ یہ ہو کہ یہ سچے شخص کی سچی خبر ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے حاصل کر کے اس پر عمل کرنا چاہیے۔

· مردود: یہ وہ خبر ہے جس کے بارے میں غالب فیصلہ یہ ہو کہ یہ سچے شخص کی سچی خبر نہیں ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے حاصل کرنا اور اس عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔

مقبول و مردود دونوں قسم کی خبروں کی متعدد اقسام ہیں جنہیں ہم ان شاء اللہ موجودہ اور اگلے میں بیان کریں گے۔

خبر مقبول کی اقسام

خبر مقبول کو اس کے مختلف درجوں کی بنیاد پر دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: صحیح اور حسن۔ اس کے بعد ان میں سے ہر ایک کو دو مزید متعدد اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی وہ جو اپنی ذات میں ہی صحیح یا حسن ہوں یا کسی دوسرے کی وجہ سے صحیح یا حسن ہوں۔ اس طرح سے خبر مقبول کو چار اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

· صحیح لذاتہ

· صحیح لغیرہ

· حسن لذاتہ

· حسن لغیرہ

خبر مردود کی اقسام کو ہم اگلے یونٹ میں بیان کریں گے۔


صحیح حدیث (1)

صحیح حدیث کی تعریف

لغوی مفہوم میں صحیح (یعنی صحت مند) بیمار کا متضاد ہے۔ یہ لفظ جسم کی حالت کو بیان کرتا ہے اور اسی معنی میں یہ حدیث کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔

         اصطلاحی مفہوم میں صحیح حدیث اس کو کہا جاتا ہے جس میں قابل اعتماد اور احادیث کو محفوظ رکھنے والا راوی اپنے جیسے قابل اعتماد اور محفوظ رکھنے والے راوی سے کسی حدیث کو ملی ہوئی سند میں روایت کرتا ہے اور یہ سلسلہ آخر سند تک ایسے ہی چلا جاتا ہے۔ اس حدیث میں دیگر قابل اعتماد احادیث کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اور خامی پائی جاتی ہے۔

تعریف کی وضاحت

اس تعریف میں کچھ ایسے امور پائے جاتے ہیں جن کا موجود ہونا حدیث کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہو۔ وہ امور یہ ہیں:

· اتصال سند: ہر راوی اپنے سے پہلے جس راوی سے بھی حدیث کو حاصل کر رہا ہے، وہ ایسا بلا واسطہ (ڈائرکٹ) کر رہا ہو۔ یہی معاملہ حدیث کی سند کے آخر (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) تک چلا گیا ہو۔

· عدالۃ رواۃ: حدیث کو بیان کرنے والا ہر راوی اس وقت "عادل" قرار پائے گا جب وہ مسلمان، عاقل، بالغ ہو۔ اس میں کوئی بدکرداری نہ پائی جاتی ہو اور وہ معاشرے میں قابل عزت سمجھا جاتا ہو۔

· ضبط رواۃ: حدیث کو بیان کرنے والا ہر راوی حدیث کو محفوظ کرنے والا ہو۔ یہ حفاظت خواہ (اچھی یادداشت کے سہارے) سینے میں محفوظ رکھ کر کی گئی ہو یا پھر کسی کتاب یا ڈائری میں احادیث کو لکھ کر کی گئی ہو۔

· عدم شذوذ: حدیث شاذ نہ ہو۔ شذوذ کا مطلب ہے کہ حدیث میں کسی زیادہ قابل اعتماد راوی کی بیان کردہ کسی اور صحیح حدیث کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔

· عدم علت: حدیث میں کوئی اور علت (خامی) نہ پائی جاتی ہو۔ علت کا مطلب ہے کہ حدیث بظاہر تو صحیح معلوم ہوتی ہو لیکن اس میں کوئی مخفی خامی ایسی ہو جس کی بنیاد پر حدیث کی صحت مشکوک ہو جائے۔

صحیح حدیث کی شرائط

تعریف کی وضاحت سے یہ معلوم ہو گیا کہ حدیث کے صحیح ہونے کے لئے پانچ شرائط ہیں اور وہ ہیں: اتصال سند، عدالت رواۃ، ضبط رواۃ، عدم شذوذ اور عدم علت۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی موجود نہ ہو تو اس حدیث کو صحیح نہیں کہا جا سکے گا۔

صحیح حدیث کی مثالیں

جیسا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب "صحیح" میں حدیث نقل کی ہے: عبداللہ بن یوسف نے ہم سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے محمد بن جبیر بن مطعم سے، اور انہوں نے اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مغرب کی نماز میں سورۃ طور تلاوت فرمائی۔ (بخاری، کتاب الاذان)

یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ:

· اس کی سند متصل ہے کیونکہ ان میں سے ہر راوی نے اپنے شیخ سے سن کر روایت کی ہے۔ اگرچہ اس میں لفظ "عن" کے ذریعے روایت کی گئی ہے لیکن اسے سند کا اتصال ہی سمجھا جائے گا کیونکہ اس حدیث کے راوی مالک، ابن شہاب اور ابن جبیر سب کے سب تدلیس کے مرتکب نہ تھے۔ (تدلیس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنے شیخ کا نام چھپا لے اور اس کی بجائے اس کے شیخ کا ذکر کرے۔ چونکہ یہ دھوکا ہے اس وجہ سے تدلیس کرنے والا اگر حدیث کو "عن" کہہ کر روایت کرے تو اس کی حدیث قبول کرنے میں احتیاط برتی جاتی ہے۔)

· اس کے راوی عادل (یعنی اچھے کردار کے) اور ضابط (یعنی حدیث کو محفوظ رکھنے والے) ہیں۔ علماء جرح و تعدیل کے نزدیک کے نزدیک ان کے اوصاف یہ ہیں: (جرح کا مطلب ہے کسی راوی کو اس کے کردار یا ضبط پر اعتراضات کی بنیاد پر ناقابل اعتماد ٹھہرانا اور تعدیل کا مطلب ہے کہ اس کے کردار یا ضبط کی مضبوطی کے باعث اسے قابل اعتماد ٹھہرانا۔)

a عبداللہ بن یوسف: قابل اعتماد اور مضبوط راوی ہیں۔

a مالک بن انس: حدیث کے امام اور حافظ ہیں۔

a ابن شہاب الزہری: فقیہ اور حافظ ہیں اور ان کی بزرگی اور صلاحیت پر سب کا اتفاق ہے۔

a محمد بن جبیر: قابل اعتماد ہیں۔

a جبیر بن مطعم: صحابی ہیں۔

· یہ حدیث شاذ بھی نہیں ہے۔ اس سے زیادہ مضبوط کوئی اور حدیث نہیں ہے جو اس کے خلاف ہو۔

· اس کی سند یا متن میں کوئی خرابی بھی نہیں پائی جاتی۔

صحیح حدیث کا حکم

صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس بات پر حدیث، اصول فقہ اور فقہ کے ماہرین کا اتفاق رائے ہے۔ یہ شریعت کی حجتوں میں سے ایک ہے اور ایک مسلمان کو اسے ترک کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

اس بات کا کیا مطلب ہے کہ "یہ حدیث صحیح ہے" اور "یہ حدیث صحیح نہیں ہے"

اگر محدثین یہ کہیں کہ "یہ حدیث صحیح ہے" تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے اوپر بیان کی گئی پانچوں شرائط کی انہوں نے تحقیق کر لی ہے اور اسے صحیح پایا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حدیث ہر حال میں صحیح ہی ہو گی کیونکہ ایک قابل اعتماد شخص سے بھی غلطی یا بھول چوک کا امکان بہرحال پھر بھی موجود ہے۔ (تدریب الراوی، ص 75-76)

         اگر محدثین بیان کریں کہ "یہ حدیث صحیح نہیں ہے" تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس میں صحت کی پانچ شرائط مکمل یا جزوی طور پر نہیں پائی گئیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حدیث ہر حال میں جھوٹی ہی ہو گی کیونکہ بہت زیادہ غلطی کرنے والا شخص بھی درست بات کہہ سکتا ہے۔
         (ایسا ممکن ہے کہ ایک محدث اپنی تحقیق کے مطابق کسی حدیث کو صحیح قرار دے دے جبکہ دوسرا محدث اپنی تحقیق کے مطابق اسے ضعیف کے درجے پر رکھے۔ دونوں محدثین کے دلائل کو دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ کس کی تحقیق درست ہے۔)

کیا کسی سند کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح ترین سند ہی ہو گی؟

اس نقطہ نظر کو ترجیح دی گئی ہے کہ کوئی بھی سند (خواہ وہ کتنی ہی اعلی و ارفع کیوں نہ ہو) ہر حال میں صحیح ترین سند نہ ہو گی۔ حدیث کے صحیح ہونے کے درجات میں اس بنیاد پر فرق کیا جاتا ہے کہ وہ حدیث صحت کی شرائط کو کس حد تک پورا کرتی ہے۔

         اگر حدیث کے صحیح ہونے کی تمام شرائط پائی جائیں تو اس میں مزید اعلی درجات کی بہت ہی کم تحقیق کی گئی ہے۔ بہتر نقطہ نظر یہی ہے کہ محض حدیث کی سند دیکھ کر ہی اسے مطلقاً اعلی ترین سند قرار نہ دے دیا جائے۔ بعض ائمہ حدیث نے (اپنی کتب میں) کچھ اسناد کو صحیح ترین اسناد قرار دیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر امام نے اس سند کو ترجیح دی ہے جو اس کے نقطہ نظر کے مطابق صحیح ترین ہے۔ صحیح ترین سند کے بارے میں یہ اقوال نقل کئے گئے  ہیں:

· اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل کی رائے میں "زہری—سالم—ان کے والد (عبداللہ بن عمر)" صحیح ترین سند ہے۔

· ابن المدینی اور الفلاس کے نزدیک "ابن سیرین—عبیدہ—علی بن ابی طالب" صحیح ترین سند ہے۔

· ابن معین کے نزدیک "الاعمش—ابراہیم—علقمہ—عبداللہ بن مسعود" صحیح ترین سند ہے۔

· ابوبکر بن شیبہ کے نزدیک "زہری—زین العابدین—حسین—علی بن ابی طالب" صحیح ترین سند ہے۔

· بخاری کے نزدیک "مالک—نافع—ابن عمر" صحیح ترین سند ہے۔

صرف صحیح احادیث پر مبنی سب سے پہلی تصنیف کون سی ہے؟

صرف صحیح احادیث پر مبنی سب سے پہلی تصنیف امام بخاری کی "الجامع الصحیح" ہے اور اس کے بعد امام مسلم کی "صحیح" ہے۔ یہ دونوں قرآن کے بعد صحیح ترین کتب ہیں اور اس بارے میں امت مسلمہ نے متفقہ طور پر انہیں قبول کیا ہے۔

ان میں سے کون سی زیادہ صحیح ہے؟

ان دونوں میں سے زیادہ صحیح کتاب، صحیح بخاری ہے۔ اس میں کچھ اضافی خوبیاں ہیں۔ بخاری کی احادیث میں اتصال سند میں زیادہ شدت برتی گئی ہے اور اس کے راوی زیادہ ثقہ ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں فقہی احکام سے متعلق نکات بھی موجود ہیں جو صحیح مسلم میں نہیں ہیں۔

         صحیح بخاری کا صحیح مسلم سے زیادہ صحیح ہونا مجموعی اعتبار سے ہے۔ مسلم میں بعض احادیث ایسی پائی جاتی ہیں جو بخاری کی نسبت زیادہ صحیح ہیں۔ بعض اہل علم کا یہ قول ہے کہ مسلم (بخاری کی نسبت) زیادہ صحیح ہے لیکن پہلی رائے ہی درست ہے۔

کیا بخاری و مسلم نے تمام صحیح حدیثیں اپنی کتابوں میں شامل کر لی ہیں؟

بخاری و مسلم نے اپنی صحیحین میں تمام صحیح حدیثیں شامل نہیں کی ہیں۔ بخاری کہتے ہیں، "میں نے اپنی کتاب جامع میں صرف یہ چند صحیح احادیث درج کی ہیں اور بہت سے صحیح احادیث طوالت کے خوف سے چھوڑ دی ہیں۔" مسلم کہتے ہیں، "جو احادیث میرے نزدیک صحیح ہیں، میں نے وہ تمام کی تمام درج نہیں کی ہیں۔ میں نے صرف وہی درج کی ہیں جن پر اتفاق رائے ہے۔"

کیا ان کتب میں درج ہونے سے بہت زیادہ احادیث باقی رہ گئی ہیں یا تھوڑی سی؟

حافظ ابن الاخرم کہتے ہیں کہ ان دونوں کتب میں درج ہونے سے بہت کم احادیث ہی باقی بچی ہیں لیکن اس رائے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ ان دونوں کتب میں بہت سے احادیث درج نہیں ہو سکیں۔ خود امام بخاری کہتے ہیں، "میں نے ایک لاکھ صحیح اور ایک لاکھ غیر صحیح احادیث یاد کی ہیں۔" (علوم الحدیث ص 16)

ان دونوں میں احادیث کی تعداد کیا ہے؟

بخاری میں 7275 احادیث ہیں اگر ایک سے زائد بار آنے والی احادیث کو الگ گنا جائے۔ اگر تکرار کو حذف کر دیا جائے تو اس میں 4000 احادیث ہیں۔ مسلم میں مکررات کو ملا کر 12000اور مکررات کو حذف کر کے 4000 احادیث ہیں۔



صحیح حدیث (2)

جو صحیح احادیث بخاری و مسلم میں درج ہونے سے رہ گئی ہیں، وہ کہاں پائی جاتی ہیں؟

ہم انہیں حدیث کی مشہور اور قابل اعتماد کتب میں دیکھ سکتے ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم، سنن کی چار کتابیں (ابو داؤد، ابن ماجہ، نسائی اور ترمذی)، سنن دارقطنی اور بیہقی وغیرہ۔

         ان کتب میں حدیث کا محض پایا جانا اسے صحیح قرار دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔ ان احادیث کے صحیح ہونے کی تحقیق کرنا ضروری ہو گا سوائے اس کے کہ کسی کتاب میں یہ شرط لگائی گئی ہو کہ اس کتاب میں صرف صحیح احادیث ہی درج کی جائیں گی جیسے صحیح ابن خزیمہ۔

مستدرک حاکم، صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمۃ

مستدرک حاکم، احادیث کی ضخیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس میں مولف نے ان احادیث کا ذکر کیا ہے جو کہ شیخین (بخاری و مسلم) دونوں یا کسی ایک کی شرائط کے مطابق ہوں لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں درج نہ کیا ہو۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان احادیث کا ذکر بھی کیا ہے جو ان کے نزدیک صحیح ہیں کیونکہ ان کی سند صحیح ہے، اگرچہ وہ بخاری و مسلم میں سے کسی کی شرائط پر پوری نہ اترتی ہوں۔ انہوں نے بعض ایسی احادیث کا ذکر بھی کیا ہے جو صحیح نہیں ہیں لیکن انہوں نے اس کے متعلق بتا دیا ہے۔

         حاکم کسی حدیث کو صحیح قرار دینے میں بسا اوقات نرمی سے کام لیتے ہیں (یعنی غیر صحیح حدیث کو صحیح قرار دے بیٹھتے ہیں) اس وجہ سے یہ لازم ہے کہ ان کی بیان کردہ احادیث کا دوبارہ جائزہ لے کر ان پر حکم لگایا جائے۔ امام ذہبی نے ان کی بیان کردہ احادیث کا دوبارہ تجزیہ کر کے ان کا حکم بیان کیا ہے۔ ان کی کتاب کو اس مقصد کے لئے دیکھنا اشد ضروری ہے۔
         صحیح ابن حبان کو مصنف نے اپنی ایجاد کردہ ترتیب کے مطابق لکھا ہے۔ یہ کتاب موضوعات یا صحابہ کرام کے ناموں کے لحاظ سے مرتب نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے اس کتاب میں سے احادیث کو اخذ کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ ابو الحسن علی بن بلبان (م 739ھ) نے اسے موضوعات کی بنیاد پر ترتیب دیا ہے۔ ابن حبان کسی حدیث کو صحیح قرار دینے میں نرمی سے کام لیتے ہیں لیکن وہ حاکم کی نسبت کم نرم واقع ہوئے ہیں۔
         صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں ترتیب دی گئی ہے۔ اس کتاب میں صحیح قرار دی گئی احادیث کی اسناد پر چھوٹے موٹے اعتراضات کیے گئے ہیں۔ (تدریب الراوی ج 1 ص 109)

صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر مستخرجات

مستخرج کا موضوع

مستخرج ایسی کتاب کو کہتے ہیں جس میں مصنف، حدیث کی کسی کتاب میں موجود احادیث کی مزید سندیں اپنے علم سے بیان کرتا ہے۔ یہ وہ سندیں ہوتی ہیں جو اصل کتاب میں بیان نہیں کی گئی ہوتیں۔ مستخرج کا مصنف ان سندوں کو اصل کتاب کے مصنف کے شیخ یا اس سے اوپر کے کسی راوی سے روایت کر رہا ہوتا ہے۔

صحیحین (بخاری و مسلم) پر کی گئی مستخرجات

· ابو بکر اسماعیلی کی مستخرج علی البخاری

· ابو عوانہ الاسفراینی کی مستخرج علی مسلم

· ابو نعیم الاصبہانی کی بخاری و مسلم دونوں پر مستخرج

کیا مستخرجات کے مصنفین نے حدیث کے الفاظ میں صحیحین کی پیروی کا اہتمام کیا ہے؟

مستخرجات کے مصنفین نے الفاظ میں صحیحین کی مکمل پیروی کا اہتمام نہیں کیا ہے۔ انہوں نے وہ الفاظ بیان کیے ہیں جو ان کی شیوخ کے ذریعے ان تک پہنچے ہیں۔ اس وجہ سے بعض الفاظ میں تھوڑا بہت فرق پایا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح قدیم مصنفین جیسے بیہقی، بغوی وغیرہ نے اپنی مکمل تصانیف میں ایک حدیث بیان کرنے کے بعد یہ لکھا ہے، "اسے بخاری نے روایت کیا" یا "اسے مسلم نے روایت کیا"۔ ان کی روایت میں بخاری و مسلم سے الفاظ و معنی میں تھوڑا بہت فرق بھی واقع ہو جاتا ہے لیکن یہ جملہ لکھنے سے ان کی مراد ہوتی ہے کہ بخاری و مسلم کی روایت اصل ہے (اور یہ لوگ اس کی اضافی اسناد بیان کر رہے ہیں تاکہ حدیث کی مضبوطی میں اضافہ ہو سکے۔]

کیا یہ درست ہے کہ ہم مستخرج سے حدیث نقل کریں اور اس کی بنیاد پر اصل کتاب کی حدیث کو تقویت دینے کی کوشش کریں؟

جو کچھ اوپر بیان ہو چکا ہے اس کی روشنی میں کسی شخص کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ مستخرجات سے کوئی حدیث نقل کرے اور یہ کہے کہ "اسے بخاری یا مسلم نے روایت کیا۔" اگر وہ ایسا کر رہا ہے تو پھر اسے ان دو میں سے ایک شرط کا پورا کرنا ضروری ہے:

· وہ مستخرج کی حدیث کا بخاری و مسلم سے تقابل (Comparison) کرے۔

· وہ یہ کہے کہ صاحب مستخرج نے اسے اپنے الفاظ میں روایت کیا۔

مستخرجات کا کیا فائدہ ہے؟

مستخرجات کے دس کے قریب فوائد ہیں۔ امام سیوطی نے انہیں اپنی کتاب "تدریب" میں بیان کیا ہے۔ ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:

· سند میں واسطوں کی کمی: مثال کے طور پر مستخرج کے مصنف نے امام بخاری کی سند کے مطابق روایت کی لیکن انہوں نے سند میں ایک درجہ بلند کرتے ہوئے کسی راوی کی بجائے اس (سے ایک درجہ بلند اس) کے شیخ سے روایت کر دی۔ (اس طرح سے سند میں واسطے کم کرتے ہوئے سند کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

· حدیث کی قدر و قیمت میں اضافہ: مستخرج میں بعض اوقات حدیث کے اضافی الفاظ بیان ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض نامکمل احادیث مکمل ہو جاتی ہیں۔

· کثیر سندوں کے باعث حدیث کی قوت میں اضافہ: اگر وہ حدیث، دوسری حدیث سے متضاد مفہوم رکھتی ہے تو کثرت سند کے باعث اسے ترجیح دی جا سکتی ہے۔

بخاری و مسلم کی کون سی روایات صحیح ہیں؟

یہ بات گزر چکی ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتب میں سوائے صحیح احادیث کے اور کچھ درج نہیں کیا۔ امت نے ان کی کتابوں کو قبول کیا ہے۔ بخاری و مسلم میں بھی وہ کون سی احادیث ہیں جن پر صحیح ہونے کا حکم لگایا گیا ہے اور امت نے انہیں قبول کیا ہے؟

         اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری و مسلم میں جو روایات میں متصل سند کے ساتھ بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب صحیح ہیں۔ جن روایات میں اسناد یا ان کے راویوں کو حذف کر دیا گیا ہے، انہیں "معلقات" کا نام دیا گیا ہے۔ بخاری میں ایسی روایات کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن وہ یا تو ابواب کے عنوانات میں ہیں یا پھر ان کے مقدموں میں ہیں۔ ابواب میں بیان کردہ احادیث میں ایسی کوئی حدیث بہرحال موجود نہیں ہے۔ مسلم میں تیمم کے باب میں البتہ ایسی صرف ایک ہی حدیث ہے جو آخر تک متصل نہیں ہے۔
         اس قسم کی احادیث کا حکم یہ ہے کہ اگر انہیں معروف صیغے (Active Voice) میں بیان کیا گیا ہو جیسے آپ نے فرمایا، حکم دیا، تذکرہ کیا تو یہ حدیثیں صحیح ہوتی ہیں۔ اگر انہیں مجہول صیغے (Passive Voice) میں بیان کیا گیا ہو جیسے روایت کیا گیا، تذکرہ کیا گیا، حکایت کی گئی وغیرہ تو ان حدیثوں کو صحیح قرار نہیں دیا جاتا۔ کوئی کمزور حدیث محض اس بنیاد پر صحیح قرار نہیں دی جا سکتی کہ وہ "صحیح" نام کی کسی کتاب میں داخل ہے۔

صحیح حدیث کے مراتب و درجات

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ بعض اہل علم ان سندوں کو بیان کرتے ہیں جو ان کے نزدیک صحیح ترین ہوتی ہیں۔ اس پر بنیاد رکھتے ہوئے اور حدیث کے صحیح ہونے کی باقی شرائط کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صحیح حدیث کے بھی مختلف درجات ہوتے ہیں:

· سب سے اعلی مرتبے کی حدیث وہ ہوتی ہے جو صحیح ترین سند سے روایت کی گئی ہو۔ مثلاً مالک—نافع—ابن عمر۔

· اس کے بعد اس حدیث کا درجہ ہوتا ہے جس کے راوی پہلے درجے کی حدیث کے راویوں کی نسبت کم درجے کے ہوں جیسے حماد—سلمہ—ثابت—انس۔

· اس کے بعد اس حدیث کا درجہ ہوتا ہے جس کے راویوں میں ثقہ ہونے کی کم از کم خصوصیات موجود ہوں جیسے سہیل بن ابی صالح—ان کے والد—ابوہریرہ

نوٹ: یہاں راویوں کے درجے سے مراد علم حدیث میں ان کا درجہ ہے۔ جو راوی دوسرے کی نسبت بہتر شہرت کا مالک ہو اور حدیث کو محفوظ رکھنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہو، اس کا درجہ بلند سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہم انسانوں کے لحاظ سے ہے۔ یہاں اللہ تعالی کے حضور ان کا درجہ مراد نہیں ہے۔

ایک اور انداز میں صحیح احادیث کو سات درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

1. جس حدیث پر بخاری و مسلم متفق ہو جائیں۔ (یہ سب سے اعلی درجہ ہے۔)

2. جو حدیث صرف بخاری روایت کریں۔

3. جو حدیث صرف مسلم روایت کریں۔

4. جو حدیث بخاری اور مسلم دونوں کی شرائط کے مطابق صحیح ہو لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں درج نہ کیا ہو۔

5. جو حدیث صرف بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہو لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں درج نہ کیا ہو۔

6. جو حدیث صرف مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہو لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں درج نہ کیا ہو۔

7. جو حدیث بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر ائمہ حدیث کے نزدیک صحیح ہو جیسا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کی صحیح احادیث اگرچہ وہ بخاری و مسلم کی شرائط پر پورا نہیں اترتیں۔

شیخین (امام بخاری و امام مسلم) کی شرائط

شیخین نے صحیح احادیث سے متعلق اپنی شرائط کو متعین طور پر بیان تو نہیں کیا لیکن محقق اہل علم نے ان کے طریق کار کا مطالعہ کرتے ہوئے ان دونوں یا کسی ایک کی شرائط کو متعین کیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اچھی بات یہ کہی گئی ہے کہ شیخین یا ان میں سے کسی ایک کی شرائط سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کتاب کے راویوں سے حدیث روایت کی گئی ہو اور اس میں اس طریق کار کا خیال رکھا گیا ہو جس کے مطابق شیخین روایات کو درج کرتے ہیں۔

"متفق علیہ" کا مطلب

جب علمائے حدیث "متفق علیہ" یعنی "اس پر اتفاق ہے" کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امام بخاری و مسلم نے اس حدیث پر اتفاق کر لیا ہے نہ کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری امت نے اتفاق کر لیا ہے۔ ابن الصلاح نے ایک مختلف بات کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب بخاری و مسلم کسی حدیث پر اتفاق کر لیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث کو قبول کرنے پر پوری امت کا اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ (علوم الحدیث ص 24)

کیا صحیح حدیث کا عزیز ہونا ضروری ہے؟

صحیح حدیث کا عزیز ہونا ضروری نہیں ہے یعنی اس کی ایک سے زائد سند کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ صحیحین اور دیگر کتب میں کچھ ایسی احادیث بھی پائی جاتی ہیں جو صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ غریب بھی ہیں (یعنی ان کی صرف ایک ہی سند موجود ہے۔) یہ بعض اہل علم جیسے ابو علی الجبائی معتزلی اور حاکم کا نقطہ نظر ہے (کہ صحیح حدیث کا عزیز ہونا ضروری ہے)۔ ان کا یہ نقطہ نظر امت کے اتفاق رائے کے خلاف ہے۔


حسن حدیث

حسن حدیث کی تعریف

حَسَن، حُسن سے صفت مشبہ ہے۔ اس کا لغوی مطلب ہے خوبصورتی۔ اہل علم کے ہاں حسن کی تعریف میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ صحیح اور ضعیف کی درمیانی قسم ہے۔ بعض نے اسے صحیح اور بعض نے ضعیف میں شمار کیا ہے۔ ہم اب کچھ تعریفات کا ذکر کریں گے اور اس میں سے جو سب سے بہتر ہو گی اسے بیان کریں گے:

· خطابی کے نزدیک حسن وہ حدیث ہو گی جس کا منبع و مصدر جانا پہچانا ہو، جس کے راوی مشہور ہوں، جس پر اکثر احادیث کا مدار ہو، جو اکثر علماء کے نزدیک قابل قبول ہو اور جس سے عام فقہاء (مسائل اخذ کرنے کے لئے) استعمال کرتے ہوں۔ (معالم السنن ج 1 ص 11)

· ترمذی کے نزدیک ہر وہ حدیث حسن کہلاتی ہے جس کے راویوں میں سے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام موجود نہ ہو، جو شاذ نہ ہو، اور اسے اسی طرح سے روایت کیا گیا ہو۔ (جامع ترمذی مع شرحہ تحفۃ الاحوذی، کتاب العلل ج 10 ص 519)

· ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ جب خبر واحد اچھے کردار کے (عادل) راویوں نے روایت کی ہو، اسے محفوظ رکھنے کا اچھی طرح اہتمام کیا ہو، اس میں کوئی پوشیدہ خامی (علت) نہ ہو، اس میں صحیح احادیث کے خلاف کوئی بات (شذوذ) نہ پائی جاتی ہو تو یہ صحیح لذاتہ کہلاتی ہے اور اگر محفوظ رکھنے میں کچھ کمی ہو تو حسن لذاتہ کہلاتی ہے۔

ابن حجر کے نزدیک حسن وہ صحیح حدیث ہے جس کے محفوظ رکھنے میں کچھ کمی واقع ہو جائے۔ ہمارے نزدیک یہ تعریف سب سے بہتر ہے۔ خطابی کی تعریف پر متعدد اعتراضات کیے گئے ہیں جبکہ ترمذی نے حسن کی صرف ایک قسم "حسن لغیرہ" کی تعریف کی ہے جبکہ حسن کی اصلی تعریف "حسن لذاتہ" کی تعریف ہونی چاہیے۔ حسن لغیرہ تو ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے جو متعدد اسناد کے باعث ترقی پا کر حسن میں شمار ہو جاتی ہے۔ ابن حجر کی تعریف کی بنیاد پر ہم حسن حدیث کی تعریف اس طرح سے کر سکتے ہیں کہ:

حسن وہ حدیث ہے

· جس کی سند میں اتصال پایا جائے۔

· جس کے راوی عادل یعنی اچھے کردار کے ہوں۔

· حدیث کے راویوں میں اس کی حفاظت سے متعلق کچھ کمی پائی جائے۔

· حدیث شاذ نہ ہو۔

· حدیث میں کوئی پوشیدہ خامی (علت) نہ پائی جائے۔

حسن حدیث کا حکم

استدلال (مسائل اخذ کرنے) کے معاملے میں یہ صحیح حدیث کی طرح ہی ہے اگرچہ قوت میں یہ صحیح حدیث کی طرح نہیں ہے۔ فقہاء کی اکثریت نے اس سے مسائل اخذ کیے ہیں اور اس پر عمل کیا ہے۔ قلیل تعداد میں موجود بعض شدت پسندوں کے علاوہ محدثین اور اصول کے ماہرین کی اکثریت نے بھی اس سے مسائل اخذ کیے ہیں۔ بعض نرمی برتتنے والے علماء جیسے حاکم، ابن حبان اور ابن خزیمہ نے اس کا شمار صحیح میں کیا ہے۔ ان کی رائے میں صحیح کے علاوہ یہ سب سے زیادہ واضح احکام ہیں۔ (دیکھیے تدریب الراوی ج 1ص 160)

حسن حدیث کی مثالیں

جیسا کہ ترمذی نے روایت کی ہے: قتیبہ نے جعفر بن سلیمان الضبعی سے، انہوں نے ابن عمران الجونی سے، انہوں نے ابوبکر بن ابو موسی اشعری سے روایت کی ان کے والد رضی اللہ عنہ نے دشمن سے مقابلے کے وقت بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "جنت کے دروازے تلواروں کی چھاؤں میں ہیں۔" اس کے بارے میں ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (ترمذی، ابواب فضائل جہاد)

         یہ حدیث اس وجہ سے حسن ہے کہ اس کے راویوں میں سے چار تو ثقہ ہیں اور ایک جعفر بن سلیمان حدیث کے معاملے میں حسن ہیں۔ اس وجہ سے یہ حدیث صحیح کے درجے سے کم ہو کر حسن کے درجے میں آ جاتی ہے۔ (حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ابو احمد کے حوالے سے نقل کیا۔ 2/96)

حسن حدیث کے درجات

جس طرح صحیح حدیث کے مختلف درجات ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر بعض صحیح احادیث دوسرے صحیح احادیث سے اعلی درجے کی ہوتی ہیں، اسی طرح حسن کے بھی درجات ہوتے ہیں۔ امام ذہبی نے یہ درجات مقرر کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

· اعلی مرتبے کی حسن حدیثیں جیسا کہ بہز بن حکیم—ان کے والد—ان کے دادا، عمرو بن شعیب—ان کے والد—ان کے دادا، ابن اسحق—التیمی۔ اس طرح کی مثالوں کو صحیح حدیث کے ادنی ترین درجے میں بھی شمار کیا گیا ہے۔

· وہ حسن احادیث جن کے حسن یا ضعیف ہونے میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ حارث بن عبداللہ، عاصم بن ضمرہ، حجاج بن ارطاۃ وغیرہ کی احادیث۔

"صحیح الاسناد" اور "حسن الاسناد" حدیث کا معنی

بعض اوقات محدثین یہ کہنے کی بجائے کہ "یہ حدیث صحیح ہے"، یہ کہہ دیتے ہیں کہ "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔" اسی طرح بسا اوقات وہ یہ کہنے کی بجائے کہ "یہ حدیث حسن ہے"، یہ کہہ دیتے ہیں کہ "یہ حدیث حسن الاسناد ہے۔" اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح یا حسن ہیں اور متن کی علت و شذوذ سے متعلق کوئی بات نہیں کہی گئی۔

         جب وہ یہ کہیں کہ "یہ حدیث صحیح ہے" تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں حدیث کے صحیح ہونے کی پانچوں شرائط پائی جاتی ہیں۔ اور جب یہ کہا جائے کہ "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے" تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حدیث کے صحیح ہونے کی تین شرائط پوری ہیں یعنی اتصال سند، ضبط رواۃ اور عدالت رواۃ جبکہ دو شرائط نفی شذوذ اور نفی علت کا پورا ہونا ثابت نہیں ہے۔

امام ترمذی وغیرہ کے قول "یہ حدیث حسن صحیح ہے" کا معنی

امام ترمذی کی یہ عبارت بظاہر مشکل ہے کیونکہ حسن کا درجہ صحیح سے کم ہوتا ہے۔ درجے کے اس فرق کے باوجود ایک حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ حسن بھی ہے اور صحیح بھی، کیسے درست ہو سکتا ہے۔ اہل علم نے اس سوال کے متعدد جواب دیے ہیں جن میں سب سے بہترین ابن حجر کا ہے اور سیوطی نے بھی اسے ہی پسند کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے۔

· جب حدیث کی ایک سے زائد اسناد مروی ہوں تو پھر اس بات کا اکثر اوقات معنی یہ ہوتا ہے کہ "ایک سند کے اعتبار سے یہ حدیث حسن ہے اور دوسری کے اعتبار سے صحیح۔"

· اگر اس حدیث کی صرف ایک ہی سند ہو تو پھر اس کا مطلب ہوتا ہے کہ "ایک گروہ کے نزدیک یہ حدیث حسن ہے اور دوسرے کے نزدیک صحیح۔

امام ترمذی ایسے موقع پر حدیث کے بارے میں اختلاف رائے کا ذکر تو کر دیتے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کے حکم کو ترجیح نہیں دیتے۔

امام بغوی کی کتاب "مصابیح السنۃ" میں احادیث کی تقسیم

امام بغوی نے اپنی کتاب "مصابیح السنۃ" میں ایسی اصطلاحات استعمال کی ہیں جو صرف انہی کے ساتھ خاص ہیں۔ جب وہ صحیح بخاری و مسلم دونوں یا ان میں سے کسی ایک کتاب کی حدیث بیان کرتے ہیں تو اس کے لئے "صحیح" کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جب وہ کوئی ایسی حدیث بیان کرتے ہیں جو سنن اربعہ (یعنی ترمذی، نسائی، ابو داؤد، ابن ماجہ) میں پائی جاتی ہو تو اس کے لئے "حسن" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

         یہ اصطلاحات محدثین کی عام اصطلاحات کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ سنن اربعہ میں تو صحیح، حسن، ضعیف، منکر ہر طرح کی روایات پائی جاتی ہیں۔ ابن صلاح اور نووی نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب مصابیح کا مطالعہ کیا جائے تو امام بغوی کی خاص اصطلاحات "صحیح" اور "حسن" کو انہی کے نقطہ نظر کے تناظر میں دیکھا جائے۔

حسن حدیث کہاں پائی جاتی ہے؟

اہل علم نے صرف اور صرف حسن حدیث پر مشتمل کوئی خاص کتاب نہیں لکھی ہے۔ دوسری طرف ایسی کتب موجود ہیں جو صرف صحیح احادیث پر مشتمل ہیں۔ ایسی کتابیں کثیر تعداد میں موجود ہیں جن میں حسن احادیث بکثرت پائی جاتی ہیں۔ ان میں مشہور ترین یہ ہیں:

· جامع ترمذی: یہ "سنن ترمذی" کے نام سے بھی مشہور ہے اور حسن احادیث کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ امام ترمذی اسی کتاب کے باعث مشہور ہوئے۔ اس کتاب کا کثرت سے ہر جگہ ذکر ہوتا ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ ترمذی کے مختلف نسخوں میں کسی حدیث کو "حسن صحیح" قرار دیے جانے کے بارے میں کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ حدیث کے طالب علم کو نسخے کا انتخاب کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے اور ہمیشہ قابل اعتماد اصولوں کے تحت تحقیق شدہ نسخے پر اعتماد کرنا چاہیے۔

· سنن ابو داؤد: مصنف نے اس کتاب کا اہل مکہ کی طرف اپنے خط میں ذکر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ اس کتاب میں صحیح اور اس کے قریب ترین احادیث شامل ہیں۔ لیکن اس کتاب میں کمزور ترین احادیث بھی پائی جاتی ہیں۔ جس حدیث کے بارے میں مصنف کے کچھ ذکر نہیں کیا، وہ صحیح ہوتی ہے۔ اسی پر بنیاد رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سنن ابو داؤد کی جس حدیث کا ضعیف ہونا واضح نہیں ہے اور نہ ہی اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، وہ حسن ہے۔

· سنن دار قطنی: دار قطنی نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ان کی کتاب میں کثیر تعداد میں حسن احادیث موجود ہیں۔

صحیح لغیرہ

صحیح لغیرہ کی تعریف

یہ ایسی حسن لذاتہ حدیث ہے جو کسی اور سند سے روایت بھی کی گئی ہو۔ وہ سند پہلی سند جیسی یا اس سے زیادہ مضبوط سند ہو۔ اس کو صحیح لغیرہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا اپنی وجہ سے نہیں بلکہ دوسری سند کے اس میں انضمام کی وجہ سے ہوتا ہے۔

صحیح لغیرہ کا درجہ

اس کا درجہ حسن لذاتہ سے بلند اور صحیح لذاتہ سے کم ہوتا ہے (یعنی یہ ان دونوں کے درمیان درجہ رکھتی ہے۔)

صحیح لغیرہ کی مثالیں

یہ حدیث کہ: محمد بن عمرو (بن علقمہ)، ابو سلمۃ سے اور وہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "اگر مجھے اپنی امت کی تنگی کا خیال نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔" (اس حدیث کو ترمذی نے کتاب الطہارت میں روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ شیخین نے اسے ابو الزناد--الاعرج--ابوہریرہ کے طریقے سے بھی روایت کیا ہے۔)

         ابن صلاح (اس حدیث کا تجزیہ کرتے ہوئے) کہتے ہیں، (اس حدیث کے ایک راوی) محمد بن عمرو بن علقمہ اپنی سچائی اور (حدیث کی) خدمت کے لئے مشہور ہیں لیکن وہ حدیث کی حفاظت میں زیادہ ماہر نہ تھے بلکہ کچھ کمزور تھے۔ ان کی سچائی اور علمی شان کی لوگوں نے تعریف کی ہے۔ اس وجہ سے ان کی یہ حدیث حسن کے درجے کی ہے۔ جب اس حدیث کی کوئی اور سند مل جائے گی تو اس کے نتیجے میں اس حدیث کی سند میں جو کمزوری واقع ہوئی ہے وہ دور ہو جائے گی۔ یہ کمی پوری ہونے کے نتیجے میں یہ حدیث ترقی پا کر "صحیح (لغیرہ)" کے درجے میں چلی جائے گی۔


حسن لغیرہ

حسن لغیرہ کی تعریف

حسن لغیرہ ایسی حدیث ہے جس کی سند ضعیف ہو لیکن یہ متعدد طُرُق (اسناد) سے روایت کی گئی ہو۔ اس کے ضعیف ہونے کا سبب راوی کا فاسق یا جھوٹا ہونا نہ ہو۔ اس تعریف سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ضعیف حدیث، حسن لغیرہ کے درجے تک دو امور کے باعث ترقی پا سکتی ہے:

· یہ کسی اور سند سے روایت کی گئی ہو اور دوسری سند، پہلی جیسی ہی یا اس سے زیادہ قوی ہو۔

· حدیث کے ضعیف ہونے کا سبب راوی کا کچا حافظہ، سند کا منقطع ہونا، اور راوی کا بے خبر ہونا ہو (یعنی راوی پر جھوٹا یا فاسق ہونے کا الزام نہ لگایا گیا ہو۔)

حسن لغیرہ کا درجہ

حسن لغیرہ، حسن لذاتہ کی نسبت کم درجے کی حدیث ہے۔ اسی پر بنیاد رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر حسن لغیرہ اور حسن لذاتہ میں کچھ تعارض (اختلاف) پایا جائے تو حسن لذاتہ کو ترجیح دی جائے گی۔

حسن لغیرہ کا حکم

نتائج اخذ کرنے کے لئے یہ قابل قبول کے درجے پر ہے۔

حسن لغیرہ کی مثالیں

امام ترمذی روایت کرتے ہیں: شعبہ، عاصم بن عبیداللہ سے، وہ عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے، وہ اپنے والد سے کہ بنو فزارہ کی ایک خاتون نے نکاح کیا اور حق مہر میں جوتوں کی ایک جوڑی قبول کر لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان سے پوچھا، "کیا تم اس حق مہر کے بدلے نکاح اپنی مرضی سے کر رہی ہو؟" انہوں نے عرض کیا، "جی ہاں۔" تو آپ نے اس نکاح کو درست قرار دیا۔ (ترمذی کتاب النکاح، رقم 1113)

         ترمذی نے اس حدیث کو دیگر سندوں کے ذریعے سیدنا عمر، ابوھریرہ، عائشہ اور ابو حدرد رضی اللہ عنہم سے بھی روایت کیا ہے۔ اگر عاصم بن عبیداللہ احادیث کو یاد رکھنے کے معاملے میں کمزور ہیں لیکن دوسری اسناد کے باعث ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔


خبر واحد جسے شواہد و قرائن کی بنیاد پر قبول کیا جائے

وضاحت

مقبول احادیث کی بحث کے آخر میں ہم اس خبر واحد کا ذکر کریں گے جسے شواہد و قرائن کی بنیاد پر قبول کر لیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خبر کے ساتھ کچھ ایسے اضافی شواہد و قرائن بھی موجود ہوں جن کی وجہ سے خبر کو قبول کرنے کی شرائط پوری ہو جاتی ہوں۔ ان اضافی شواہد کی بنیاد پر وہ حدیث، دوسری احادیث سے ممتاز ہو جائے گی اور اسے دیگر احادیث پر ترجیح دی جائے گی۔

اقسام

ایسی خبر جس کے ساتھ شواہد و قرائن موجود ہوں کی متعدد اقسام ہیں۔ ان میں مشہور ترین یہ ہیں:

· شیخین اس حدیث کو اپنی کتابوں میں درج کریں اگرچہ وہ تواتر کی حد تک نہ پہنچی ہو۔ اس میں یہ قرائن موجود ہوں گے کہ:

a بخاری و مسلم کی شان دیگر اہل علم سے بلند ہے۔

a صحیح حدیث کی پہچان میں بخاری و مسلم دوسرے اہل علم پر فوقیت رکھتے ہیں۔

a اہل علم ان دونوں کی کتابوں کو قبول کرتے ہیں۔ یہ قبول عام، تواتر کے بغیر محض اسناد کی کثرت سے زیادہ مضبوط ہے۔

· حدیث مشہور ہو اور ایسی متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہو جو ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف ہوں۔ ان اسناد کے راوی ضعیف نہ ہوں اور یہ اسناد خامیوں سے پاک ہوں۔

· حدیث کو حفاظ حدیث ائمہ نے مسلسل روایت کیا ہو اور یہ ایک غریب روایت نہ ہو۔ مثال کے طور پر ایسی حدیث جو امام احمد نے امام شافعی سے، انہوں نے امام مالک سے روایت کی ہو۔ اسی طرح وہ احادیث جو امام احمد اور امام شافعی دونوں نے دیگر علماء سے روایت کی ہوں، یا امام شافعی اور امام مالک دونوں نے دیگر اہل علم سے روایت کی ہوں۔

حکم

ایسی خبر واحد جو شواہد و قرائن کی وجہ سے ممتاز ہو، دوسری قسم کی مقبول اخبار احاد سے زیادہ قابل ترجیح ہو گی۔ اگر دو احادیث میں تعارض (اختلاف) پایا جائے تو اس حدیث کو ترجیح دی جائے گی جس کے ساتھ شواہد موجود ہوں۔

مُحکَم اور مُختَلِف حدیث

عمل کرنے یا نہ کرنے کے لحاظ سے خبر مقبول کی دو اقسام ہیں: ایک تو یہ کہ اس پر عمل کیا جائے اور دوسری وہ جس پر عمل نہ کیا جائے۔ اس سے علوم حدیث میں سے دو علوم نکلتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

"محکم" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ 'احکم" کا اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے مضبوط بنائی گئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں وہ احادیث جو اختلافات سے پاک ہیں اور قبول کی گئی ہیں، "محکم" کہلاتی ہیں۔ اکثر احادیث اسی قسم کی ہیں۔ جہاں تک اختلافی احادیث کا تعلق ہے، تو ان کی تعداد بہت کم ہے۔

"مختلِف" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ 'اختلاف' کا اسم فاعل ہے جو کہ اتفاق کا متضاد ہے۔ یہ ایسی احادیث کو کہا جاتا ہے جن کا معنی بظاہر متضاد معلوم ہوتا ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں 'مختلف' ایسی احادیث کو کہا جاتا ہے جو کہ دونوں قابل قبول ہو لیکن ان کا مفہوم بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ اس تعارض کو دور کرنا بھی ممکن ہو۔

         دونوں 'مختلف' احادیث صحیح یا حسن کے درجے کی ہوتی ہیں اور ان میں بظاہر اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل علم و فہم کے لئے اس اختلاف کو دور کرنا ممکن ہوتا ہے۔

'مختلف' کی مثال

مسلم کی ایک حدیث میں آتا ہے، "ایک جانور سے دوسرے جانور کو بیماری لگنا کچھ نہیں ہے اور پرندوں سے شگون لینا بھی کچھ نہیں ہے۔" اس کے برعکس بخاری کی ایک حدیث میں ہے، "کوڑھ میں مبتلا کسی شخص سے اس طرح دور بھاگو جیسا کہ تم شیر سے دور بھاگتے ہو۔"

         یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں لیکن بظاہر ان میں اختلاف نظر آتا ہے۔ پہلی حدیث بیماری کے متعدی پن کی نفی کرتی نظر آتی ہے لیکن دوسری حدیث اس کے وجود کو تسلیم کرتی نظر آتی ہے۔ اہل علم نے متعدد انداز میں ان دونوں احادیث کے تعارض کو دور کیا ہے اور ان میں موافقت پیدا کی ہے۔ یہاں ہم اس بحث کا ذکر کریں گے جو حافظ ابن حجر نے کی ہے۔

تضاد کو دور کرنے کی مثال

ان دونوں احادیث کا تضاد اس طرح سے دور کیا جا سکتا ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے کہ "کوئی کسی دوسرے سے مرض حاصل کر کے بیمار نہیں ہوتا" اور جب آپ سے یہ پوچھا گیا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک خارش زدہ اونٹ دوسرے اونٹوں کو بھی یہ مرض لگا دیتا ہے تو آپ نے فرمایا، "پھر پہلے کو یہ مرض کس نے لگایا۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ مرض کی ابتدا اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے اور وہی پہلے کے بعد دوسرے کو بھی بیمار کرتا ہے۔

         جہاں تک کوڑھ کے مرض میں مبتلا شخص سے دور رہنے کا حکم دیا گیا تو وہ "سد ذرائع" (یعنی احتیاطی تدبیر) کے طور پر تھا۔ آپ اس بات سے اتفاق کر رہے تھے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق جذام لاحق ہو سکتا ہے جیسا کہ پہلے کو لاحق ہوا۔ شاید ایسا تھا کہ سوال پوچھنے والا شخص اللہ تعالی کی تقدیر کے مقابلے میں بیماری کے متعدی ہونے کا قائل تھا۔ چونکہ یہ نظریہ غلط تھا اور اسے ماننا ایک گناہ تھا، اس وجہ سے آپ نے اسے گناہ سے بچانے کے لئے حکم دیا کہ وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا شخص کے پاس نہ ٹھہرے۔

نوٹ: ان احادیث کی صحیح تطبیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ لوگ بیماری کے متعدی ہونے کے خیال سے اللہ تعالی کی تقدیر کو نظر انداز نہ کریں ورنہ آپ کے کوڑھی سے متعلق ارشاد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ بیماری کے متعدی ہونے کو درست سمجھتے تھے۔

مختلف احادیث کا حکم

مختلف احادیث کے ساتھ ان مراحل میں معاملہ کیا جائے گا:

· اگر انہیں جمع کرنا ممکن ہو (یعنی ان کا تضاد ختم کیا جا سکتا ہو) تو اس تضاد کو ختم کر کے ان پر عمل کیا جائے گا۔

· اگر مضبوط وجوہات کی بنیاد پر انہیں جمع کرنا ممکن نہ ہو تو پھر:

a اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ ان میں سے ایک حدیث ناسخ (یعنی حکم کو منسوخ کرنے والی) ہے اور دوسری منسوخ۔ ناسخ حدیث پر عمل کیا جائے گا اور منسوخ حدیث کو ترک کر دیا جائے گا۔

a اگر ناسخ و منسوخ کا علم نہ ہو سکے تو پھر ان میں سے کسی ایک حدیث کو ترجیح دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اس ترجیح کی بنیاد کچھ اصول ہیں جن کی تعداد پچاس تک پہنچتی ہے۔ قابل ترجیح حدیث پر عمل کیا جائے گا۔

a اگر ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دینا بھی ممکن نہ ہو، اور ایسا بہت ہی کم ہو گا، تو پھر ہم اس وقت تک ان دونوں احادیث پر عمل نہ کریں گے جب تک ان میں سے ایک کو ترجیح نہ دی جا سکے۔

اختلاف حدیث کے فن کی اہمیت اور اس کی تکمیل کیسے کی گئی ہے؟

یہ فن علوم حدیث کا اہم ترین فن ہے۔ اہل علم کے لئے اسے حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس میں وہ اہل علم ماہر ہوتے ہیں جو حدیث، فقہ اور اصول فقہ سب علوم پر عبور رکھتے ہوں۔ یہی اہل علم اس علم میں غوطہ زنی کر سکتے ہیں۔ ان کے لئے اس علم میں سوائے چند استثنائی معاملات کے اور کچھ مشکل نہیں ہے۔ اہل علم نے تعارض کو دور کرنے کے لئے جو کاوشیں کی ہیں اس سے ان کی دقت نظری، انتخاب کی خوبی اور ان کے مقام و مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے ان دوسرے درجے کے لوگوں کی جرات کی حیثیت بھی معلوم ہو جاتی ہے جو انہی علماء کے خوشہ چیں ہیں لیکن ان پر اعتراض کرتے ہیں۔

مختلف احادیث میں مشہور ترین تصانیف

· امام شافعی کی اختلاف الحدیث۔ یہ اس فن میں پہلی تصنیف ہے۔

· ابن قتیبہ یعنی عبداللہ بن مسلم کی تاویل مختلف الحدیث

· ابو جعفر احمد بن سلامہ الطحاوی کی مشکل الآثار

ناسخ اور منسوخ حدیث

"نسخ" کی تعریف

لغوی اعتبار سے نسخ کے دو معانی ہیں۔ ایک تو "ازالہ" ہے یعنی کسی چیز کو زائل کرنا جیسے سورج نے سائے کو زائل کر دیا۔ دوسرا معنی ہے کسی چیز کو نقل کرنا جیسا کہ اگر کسی کتاب میں سے کوئی بات نقل کی جائے تو کہا جائے گا کہ میں نے کتاب کو نسخ کر دیا ہے۔ ناسخ، منسوخ کو زائل کر دیتا ہے یا پھر اسے منتقل کر دیتا ہے۔

         اصطلاحی مفہوم میں شریعت کے ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم جاری کرنے کا نام 'نسخ' ہے۔

نوٹ: یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ شریعت کے بعض احکامات کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بعض احکامات کا تعلق مخصوص صورتحال سے ہوا کرتا ہے۔ جب وہ مخصوص صورتحال ختم ہو جاتی ہے تو اس کا حکم بھی باقی نہیں رہا کرتا۔

مثال کے طور پر قرآن مجید میں شراب کو ایک دم حرام نہیں کیا گیا کیونکہ عرب شراب کے بہت زیادہ عادی تھے۔ پہلے شراب کی برائی بیان کر کے اس سے نفرت دلائی گئی۔ پھر انہیں نماز کے اوقات میں شراب پینے سے منع کیا گیا۔ جب لوگوں کا ذہن اس معاملے میں ایک خاص پختگی کو پہنچ گیا تو شراب کی مکمل حرمت کا حکم نازل ہوا۔ یہی معاملہ حدیث کے ناسخ و منسوخ کا ہے۔

"نسخ" کی اہمیت، مشکلات اور اس میں مشہور ماہرین

حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم مشکل ترین مہم ہے۔ زہری کہتے ہیں، "حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرنے کی کوشش نے اہل علم کو تھکا دیا ہے۔" اس علم کے سب سے مشہور ماہر امام شافعی ہیں۔ وہ اس کام میں ید طولی رکھتے تھے اور دوسروں کی نسبت اس میدان میں بہت آگے تھے۔

         امام شافعی جب مصر چلے گئے تو امام احمد بن حنبل نے ابن وارہ سے کہا، "کیا آپ نے شافعی کی کتب لکھ رکھی ہیں؟" انہوں نے کہا، "جی نہیں۔" امام احمد کہنے لگے، "یہ تو آپ نے بڑی غلطی کی۔ ہم میں سے کوئی مجمل و مفسر اور حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم نہیں رکھتا تھا۔ جب ہم امام شافعی کے ساتھ بیٹھنے لگے تو ہمیں یہ چیزیں معلوم ہوئیں۔"

ناسخ و منسوخ کا علم کیسے ہوتا ہے؟

حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم ان طریقوں میں سے کسی ایک سے ہوتا ہے:

· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تصریح فرما دی ہو جیسے مسلم میں سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا: "میں نے تمہیں قبور کی زیارت سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارت کر لیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔"

· کسی صحابی نے وضاحت کر دی ہو جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جو آخری حکم دیے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھائی ہو، اسے دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے سنن کے مصنفین نے روایت کیا ہے۔

· تاریخ کے علم سے ناسخ و منسوخ کا علم ہو جائے۔ مثلاً سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ پچھنے لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (ابو داؤد) یہ حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے منسوخ ہو گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے۔ (مسلم) شداد کی حدیث کے بعض طرق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث فتح مکہ کے سال (8ھ) کی ہے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما حضور کے ساتھ حجۃ الوداع (10ھ) میں شریک تھے۔

· اجماع کے ذریعے ناسخ و منسوخ کا علم ہو جائے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ "جو شراب پئے اسے کوڑے مارو اور جو چوتھی مرتبہ ایسا کرتا پکڑا جائے، اسے موت کی سزا دے دو۔" (ابو داؤد و ترمذی) امام نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے منسوخ ہونے پر اجماع ہے۔ اجماع بذات خود نہ تو حدیث کو منسوخ کرتا ہے اور نہ ہی خود منسوخ ہوتا ہے لیکن یہ ناسخ و منسوخ کو متعین کر سکتا ہے۔

حدیث کے ناسخ و منسوخ سے متعلق اہم تصانیف

· ابو بکر محمد بن موسی الحازمی کی الاعتبار فی الناسخ و المنسوخ فی الآثار

· امام احمد کی الناسخ و المنسوخ

· ابن جوزی کی تجرید الاحادیث المنسوخۃ

مسترد شدہ خبر

سبق 1: خبر مردود اور اسے مسترد کرنے کے اسباب

تعریف

خبر مردود وہ خبر ہے جس کے راوی کا سچا ہونا معلوم نہ ہو سکے۔ صحیح حدیث کی بحث میں جو شرائط پائی گئی ہیں، ان میں سے ایک یا زیادہ شرائط اگر پوری نہ ہوں تو وہ حدیث مسترد کر دی جاتی ہے۔

نوٹ: یہاں پر لفظ "مردود" اس معنی میں نہیں ہے جس میں اردو میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں مردود کا مطلب ہے، "مسترد شدہ"۔ عربی میں اس لفظ میں ویسی نفرت اور حقارت نہیں پائی جاتی جیسا کہ اردو کے مردود میں پائی جاتی ہے۔

خبر مردود کی اقسام اور اس کے اسباب

اہل علم نے خبر مردود کی بہت سی اقسام بیان کی ہیں۔ بعض اہل علم نے ان کی تعداد چالیس بتائی ہے۔ ان میں سے اکثر ان اقسام کے الگ الگ نام رکھتے ہیں جبکہ بعض اہل علم سب کے الگ الگ نام رکھنے کی بجائے بہت سی اقسام کو ایک ہی عمومی نام "ضعیف" سے موسوم کرتے ہیں۔

         حدیث کو مسترد کرنے کے اسباب بہت زیادہ ہیں لیکن یہ سب کے سب ان دو بڑے اسباب کا حصہ ہیں۔ یہ بڑے اسباب یہ ہیں۔

· اسناد کی کڑیوں کا ٹوٹ جانا (سقط من الاسناد)

· راوی کی شخصیت پر عائد کردہ الزامات (طعن فی راوی)

ان میں سے ہر ایک سبب کے تحت بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ہم ان پر انشاء اللہ مستقل بحث کریں گے۔ اس کے علاوہ ثقہ راویوں کی بیان کردہ حدیث کی مخالفت کی وجہ سے بھی حدیث ضعیف ہو جایا کرتی ہے۔

ہم اپنی بحث کی ابتدا "ضعیف" حدیث سے کرتے ہیں جو کہ خبر مردود کا عمومی نام ہے۔ ضعیف حدیث

"ضعیف" کی تعریف

لغوی اعتبار سے "ضعیف"، "قوی" کا متضاد ہے یعنی کمزور۔ کمزوری جسمانی بھی ہو سکتی ہے اور معنوی بھی۔ یہاں معنوی کمزوری مراد ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں ضعیف وہ حدیث ہے جس میں حسن حدیث کی شرائط مکمل طور پر نہ پائی جاتی ہوں۔ بیقونی اپنی نظم میں کہتے ہیں:

و کل ما عن رتبة الحسن قصر فهو الضعيف و هو اقسام کثر

ہر وہ حدیث جو حسن کے رتبے سے کم ہو، وہ ضعیف حدیث ہے اور اس کی کثیر اقسام ہیں۔

ضعیف حدیث کے درجات

جیسا کہ صحیح حدیث کے درجات میں فرق ہے، اسی طرح راویوں کی کمزوری کی شدت اور کمی کے باعث ضعیف حدیث کے درجات میں بھی فرق ہے۔ اس میں ضعیف، بہت زیادہ ضعیف، ضعیف ترین، منکر اور موضوع احادیث شامل ہیں۔ موضوع ( یعنی گھڑی ہوئی جعلی حدیث) کا درجہ بدترین ہے۔ (علوم الحدیث ص 89)

کمزور ترین اسناد

جیسا کہ صحیح حدیث کی بحث میں ہم صحیح ترین اسناد بیان کر چکے ہیں، اسی طرح ضعیف کی بحث میں اہل علم نے ضعیف ترین اسناد بیان کی ہیں جنہیں "اوھی الاسانید" کہا جاتا ہے۔ حاکم نیشاپوری نے ان کا ذکر کیا ہے۔ (معرفۃ علوم الحدیث ص 71-72) اوھی الاسانید میں سب سے بڑی وہ ہیں جو کہ بعض صحابہ یا بعض ممالک یا بعض شہروں سے متعلق ہیں۔ ہم حاکم کی کتاب سے ان کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:

· سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب کمزور ترین سند: صدقۃ بن موسی الدقیقی—فرقد صبخی—مرۃ الطیب—ابوبکر۔

· اہل شام کی کمزور ترین سند: محمد بن قیس المصلوب—عبیداللہ بن زحر—علی بن یزید— قاسم—ابو امامہ

· ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب کمزور ترین سند: سدی صغیر محمد بن مروان الکلبی—ابو صالح—ابن عباس۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ سلسلہ کذب ہے نہ کہ سلسلہ ذھب (یعنی یہ سونے کی نہیں بلکہ جھوٹ کی زنجیر ہے۔) (دیکھیے تدریب الراوی ج 1 ص 181)

ضعیف حدیث کی مثالیں

امام ترمذی حکیم الاثرم—ابی تمیمہ الھجیمی—ابوھریرہ—سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے کسی عورت سے حالت حیض میں یا غیر فطری مقام سے ازدواجی تعلقات قائم کیے یا وہ کسی کاہن کے پاس گیا تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جو محمد پر نازل ہوئی۔"

         امام ترمذی یہ سند بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ہم سوائے اس سند کے اس حدیث کی کسی اور سند سے واقف نہیں ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اس سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اس سند میں حکیم الاثرم ضعیف راوی ہیں۔ امام بخاری نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ "ان میں کمزوری پائی جاتی ہے۔"

نوٹ: بعض اوقات کسی ضعیف بلکہ جعلی حدیث میں بھی جو بات بیان کی گئی ہوتی ہے، وہ درست ہوتی ہے۔ اس بات کے درست ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبت درست ہے یا نہیں۔ اس کے لئے حدیث کی سند کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ بات تو درست ہو لیکن سند کمزور ہو جس کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف قرار پائے۔

اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث کی سند بہت مضبوط ہوتی ہے لیکن اس میں بیان کی گئی بات بالکل غلط ہوتی ہے۔ اس صورت میں اہل علم نے درایت کے اصول بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں اس حدیث کے متن کا تجزیہ کر کے اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کی تحقیق کی جاتی ہے۔

ضعیف حدیث کی روایت کا حکم

اہل حدیث کے نزدیک چند شرائط کی پابندی کے ساتھ ضعیف احادیث کو روایت کرنا اور اس کی اسناد بیان کرتے ہوئے اس حدیث کے ضعف کو بیان نہ کرنا جائز ہے۔ ایسا موضوع احادیث میں نہیں ہے کیونکہ انہیں کے جعلی پن کو بیان کیے بغیر انہیں روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ضعیف حدیث کو روایت کرنے کی شرائط یہ ہیں:

· یہ عقائد سے متعلق نہ ہوں۔

· یہ احکام شرعیہ سے متعلق نہ ہوں جن کے ذریعے حلال و حرام کا تعین کیا جاتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وعظ و نصیحت، ترغیب و ترہیب، اور قصے وغیرہ بیان کرنے کے لئے ان حدیثوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں سفیان ثوری، عبدالرحمٰن مہدی اور احمد بن حنبل جیسے ماہرین حدیث نے بھی نرمی برتی ہے۔ (علوم الحدیث ص 93 اور الکفایۃ ص 33)

نوٹ: اس زمانے کے محدثین نے حدیث کا ضعف بتانے کی ضرورت اس وجہ سے محسوس نہیں کی کہ ان کے قارئین سند دیکھ کر حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل اپنے زمانے کے اعتبار سے درست تھا مگر موجودہ دور میں اس کی وجہ سے بڑے فتنے پیدا ہوئے۔ مثال کے طور پر نوافل کے فضائل ضعیف احادیث کی بنیاد پر لوگ نفلی عبادات میں اتنے مشغول ہوئے کہ انہوں نے بیوی بچوں کی کفالت جیسے فرض کو نظر انداز کر دیا۔

موجودہ دور میں عام لوگوں کے لئے چونکہ ایسا کرنا ممکن نہیں اور ضعیف احادیث کی بنیاد پر بہت سے فتنے بھی کھڑے کئے گئے ہیں، اس وجہ سے اہل علم کو اب احادیث کا صحیح و ضعیف ہونا بیان کرنا چاہیے۔

         اس قسم کی احادیث کی روایت کرتے ہوئے یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ یہ نہ کہا جائے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی"، بلکہ یہ کہا جائے کہ "حضور سے اس طرح سے روایت کیا گیا" یا "ہم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب یہ بات پہنچی ہے" یا اسی قسم کی کوئی اور بات۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ حدیث کے ضعف کو جانتے بوجھتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔

ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا حکم

اہل علم کے مابین ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ان کی اکثریت کے نزدیک فضائل اعمال سے متعلق ضعیف احادیث پر تین شرائط کی بنیاد پر عمل کرنا مستحب ہے۔ ان کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

· حدیث میں شدید نوعیت کا ضعف نہ پایا جاتا ہو۔

· حدیث کو کسی اصل حدیث کے تحت درج کیا جائے (جو کہ صحیح ہو) اور اس پر عمل کیا جاتا ہو۔

· عمل کرتے ہوئے اس حدیث کے ثابت شدہ ہونے پر یقین نہ رکھا جائے بلکہ احتیاطاً عمل کیا جائے۔ (تدریب الراوی ج 1 ص 298-299 اور فتح المغیث ج 1 ص 268)

ضعیف حدیث پر مشتمل مشہور تصانیف

· ایسی کتب جن میں ضعفاء (ضعیف راویوں) کا ذکر کیا گیا ہے جیسے ابن حبان کی کتاب الضعفاء، ذہبی کی میزان الاعتدال وغیرہ۔ ان کتب میں ان ضعیف احادیث کی مثالیں بیان کی گئی ہیں جو اپنے راویوں کی کمزوری کے باعث ضعیف ہیں۔

· ایسی کتب جو ضعیف احادیث کی کسی خاص قسم سے متعلق ہوں جیسے کتب مراسیل، کتب علل، کتب مدرج وغیرہ۔ ابو داؤد کی کتاب المراسیل اور دارقطنی کی کتب العلل اس کی مثالیں ہیں۔


اسقاط سند کے باعث مسترد کردہ حدیث

"اسقاط سند" کی تعریف

"اسقاط سند" کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ اسناد میں ایک یا ایک سے زائد راوی کے نام غائب ہوں خواہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو یا نہ ہو۔ راوی کے نام کا غائب ہونا سند کے شروع میں بھی ہو سکتا ہے، آخر میں بھی اور درمیان میں بھی۔ یہ سقوط ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور چھپا ہوا بھی۔

"سقوط سند" کی اقسام

"سقوط سند" کے ظاہر ہونے یا چھپے ہوئے ہونے کے اعتبار سے اس کی دو اقسام ہیں۔ ظاہر اور خفی۔

         سقوط ظاہر، ایسا اسقاط سند ہوتا ہے جسے علوم حدیث کے ماہرین پہچان سکتے ہیں۔ مثلاً وہ جانتے ہیں کہ ایک راوی اور اس کے شیخ (یعنی جس سے وہ روایت کر رہا ہے) کی آپس میں ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ وہ ایک زمانے سے تعلق نہ رکھتے تھے یا اگرچہ ان کا زمانہ ایک تھا لیکن وہ کبھی ایک مقام پر اکٹھے نہیں ہوئے۔ اس راوی کے پاس اپنے شیخ کی جانب سے اجازہ اور وجادہ بھی موجود نہ ہو۔ اسناد کی تحقیق کرنے والے محقق کو راویوں کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات، طلب علم اور سفر کے اوقات وغیرہ کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ چیزیں جان سکے۔

نوٹ: "اجازہ" روایت کرنے کی اجازت کو کہتے ہیں۔ ایک راوی کی اپنے شیخ سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اس نے شیخ سے کسی ذریعے (مثلاً کسی اور شخص) سے روایات حاصل کر لیں۔ جب شیخ کو اس کا علم ہوا تو اس نے اس شخص کو اس طرح سے روایت کرنے کی اجازت دے دی جیسے اس نے خود شیخ سے احادیث سنی ہوں۔ اس قسم کی اجازت کو اصطلاحی طور پر "اجازہ" کہا جاتا ہے۔

"وجادہ" اس صورت حال کو کہتے ہیں کہ کسی راوی کو اپنے شیخ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب مل گئی اور وہ شیخ کی تحریر کو پہچانتا تھا۔ اب وہ اس کتاب کی بنیاد پر شیخ سے روایت کرنے لگا۔ موجودہ دور میں حدیث کی غیر مشہور کتب کے بہت سے قلمی نسخے (مخطوطے) ملے ہیں جن پر ان کے مصنفین کے دستخط موجود تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے ملنے والے ان نسخوں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا اور ہر طرح کے اطمینان کے بعد انہیں ان کے مصنفین کے نام سے شائع کر دیا گیا۔ اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔

         علماء حدیث نے سقوط ظاہر کو راوی کے غائب ہونے  کی سند میں جگہ اور غائب راویوں کی تعداد کے اعتبار سے چار اقسام میں تقسیم کیا ہے: معلق، مرسل، معضل اور منقطع۔
         سقوط خفی، سند حدیث میں راویوں کا اس طرح سے غائب ہونا ہے جس کا علم کسی عام عالم حدیث کو نہیں ہو سکتا بلکہ سند میں خامیوں کے خصوصی ماہرین کو ہی اس کا علم ہو سکتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں: مدلَّس اور مرسل خفی۔ اب ہم ان چھ اقسام کو الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کریں گے۔


معلق حدیث

"معلق حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے "معلق"، علّق کا اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے ایسی چیز جسے باندھ کر لٹکا دیا گیا ہو۔ ایسی سند کو معلق کہا جائے گا جو کہ اوپر کی جانب تو ملی ہوئی ہو لیکن نیچے کی جانب ٹوٹی ہوئی ہو اور اس طرح سے اس چیز کی طرح ہو جائے جو چھت سے لٹکائی گئی ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے راویوں کی کثیر تعداد کو غائب کر دیا جائے۔

"معلق حدیث" کی صورتیں

· پوری کی پوری سند کو غائب کر دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔

· صحابی یا صحابی و تابعی کے علاوہ تمام راویوں کو حذف کر دیا جائے۔ (شرح نخبۃ ص 42)

"معلق حدیث" کی مثالیں

امام بخاری نے "باب ما یذکر فی فخذ" یعنی ران سے متعلق باب کے مقدمے میں یہ روایت نقل کی ہے: "سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حجرے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنی ٹانگ کو کپڑے سے ڈھانپ لیا۔ " یہ حدیث معلق ہے کیونکہ امام بخاری نے سوائے صحابی یعنی سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے تمام راویوں کو حذف کر دیا ہے۔

"معلق حدیث" کا حکم

معلق حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں حدیث قبول کرنے کی شرائط میں سے "اتصال سند" یعنی سند کے ملا ہوا ہونے کی شرط نہیں پائی جاتی۔ اس کی سند میں ایک یا ایک سے زائد راویوں کو حذف کر دیا گیا ہوتا ہے اور ان حذف کردہ راویوں کے حالات کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔

صحیحین میں موجود معلق احادیث کا حکم

یہ حکم کہ "معلق حدیث کو مسترد کیا جائے گا" عام کتب کے بارے میں ہے۔ اگر معلق حدیث ایسی کتب میں پائی جائے جس میں صرف صحیح احادیث کو درج کیا گیا ہو جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم تو پھر اس کے لئے ایک خصوصی حکم ہے۔ ان احادیث کو وعظ و نصیحت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان میں یہ شرائط پائی جاتی ہوں۔

· انہیں معروف صیغے (Active Voice) میں روایت کیا گیا ہو۔ جیسے فرمایا، ذکر کیا، حکایت کی وغیرہ۔ اس معاملے میں اس کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

· انہیں مجہول صیغے (Passive Voice) میں بیان کیا گیا ہو، جیسے کہا گیا، ذکر کیا گیا، حکایت کی گئی تو اس معاملے میں اس کے صحیح ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ یہ صحیح، حسن، ضعیف کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کسی "صحیح" نام کی کتاب میں مذکور ہو جانے سے حدیث صحیح نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لئے اسناد کی تحقیق کرنے کا طریقہ ہے جس کی بنیاد پر احادیث کو صحیح قرار دیا جاتا ہے۔

نوٹ: بعض لوگوں کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی معلق احادیث پائی جاتی ہیں۔ معلق احادیث ان کتب میں استثنائی طور پر صرف باب کے مقدمے میں پائی جاتی ہیں۔ ان معلق احادیث کی تحقیق پر علیحدہ کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔

حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب "تغلیق التعلیق" میں بخاری کی معلق احادیث کی متصل اسناد بیان کی ہیں۔ بخاری و مسلم کی وہ تمام احادیث صحیح قرار دی گئی ہیں جن کے ساتھ مکمل سند بیان کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بخاری کا مکمل نام "الجامع المسند الصحیح" ہے۔ یعنی بخاری کی وہ تمام احادیث صحیح ہیں جو کہ سند کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اسناد سے قطع نظر بخاری اور مسلم کی احادیث پر بھی درایت کے اصولوں کے تحت تنقید بھی کی گئی ہے۔


مُرسَل حدیث

"مرسل حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے مرسل "ارسال" کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھیلی ڈھالی چیز۔ مرسل وہ حدیث ہوتی ہے جس کی اسناد ڈھیلی ڈھالی ہوں یعنی اس میں جانے پہچانے راویوں ہی پر انحصار نہ کیا گیا ہو۔

         اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں تابعی کے بعد والے راوی (یعنی صحابی) کو حذف کر دیا گیا ہو۔

"مرسل حدیث" کی صورت

اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی تابعی خواہ اس کی صحابہ سے ملاقات بڑی عمر میں ہوئی ہو یا چھوٹی عمر میں وہ یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس طرح فرمایا، یا آپ نے ایسے کیا یا آپ کی موجودگی میں ایسا کیا گیا۔ محدثین کے نزدیک مرسل کی صورت اسی طرح کی ہوا کرتی ہے۔

"مرسل حدیث" کی مثال

امام مسلم اپنی "صحیح" میں کتاب البیوع میں حدیث نقل کرتے ہیں، "محمد بن رافع، حجین سے، وہ لیث سے، وہ عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزابنہ (یعنی تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے بیچنے) سے منع فرمایا۔"

         اس سند میں سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ بڑے تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے حدیث روایت کی ہے اور اپنے اور حضور کے درمیان واسطے کو حذف کر دیا ہے۔ اس حذف واسطے میں صرف ایک صحابی بھی ہو سکتے ہیں یا ایک صحابی کے ساتھ ساتھ کوئی اور تابعی بھی ہو سکتے ہیں (جن سے سعید بن مسیب نے یہ حدیث سنی ہو گی۔)

فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک "مرسل حدیث" کا معنی

ہم نے مرسل حدیث کی جن صورتوں کا ذکر کیا، یہ محدثین کی تعریف کے مطابق ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک مرسل حدیث کی تعریف میں کچھ فرق ہے۔ ان کے نزدیک مرسل کا معنی زیادہ وسیع ہے اور وہ ہر منقطع حدیث (یعنی جس میں کوئی ایک راوی بھی غائب ہو خواہ وہ صحابی ہو یا بعد کا کوئی راوی) کو مرسل ہی میں شمار کرتے ہیں خواہ اس انقطاع کا سبب کچھ بھی ہو۔ خطیب بغدادی کا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔

"مرسل حدیث" کا حکم

مرسل حدیث بنیادی طور پر تو مسترد ہی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔

         حدیث کے ماہرین کا مرسل حدیث اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ وہ منقطع حدیث ہے جس کی سند کا صرف آخری حصہ حذف کیا گیا ہے۔ جس نام کو حذف کیا گیا ہے، غالب گمان یہ ہے کہ وہ صحابی ہو گا اور تمام صحابہ اعلی کردار کے مالک تھے۔ اگر ہمیں ان کے نام کا علم نہ بھی ہو، تب بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
         اجمالی طور پر اہل علم کے اس بارے میں تین نقطہ نظر مشہور ہیں:

· مرسل حدیث کو مسترد کیا جائے گا۔ محدثین، فقہاء اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں حذف کردہ راوی کے نام کا علم نہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو بلکہ کوئی تابعی ہو اور حدیث روایت کرنے میں ضعیف ہو۔

· مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے اسے کسی قابل اعتماد شخص (یعنی صحابی) سے یہ بات سنی ہو۔

· مرسل حدیث کو کچھ شرائط کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔

یہ امام شافعی اور بعض دیگر اہل علم کا نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے مرسل حدیث کو قبول کرنے کے لئے چند شرائط بیان کی ہیں:

· مرسل حدیث بیان کرنے والا راوی بڑی عمر کے ان تابعین میں سے ہو جنہوں نے بڑی عمر میں صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی عمر والے تابعین براہ راست صحابہ سے روایت نہیں کرتے بلکہ کسی اور تابعی سے احادیث روایت کرتے ہیں۔)

· جب کبھی بھی وہ راوی اس شخص کا نام بیان کرے جس سے اس نے احادیث روایت کی ہیں تو وہ شخص ثقہ (یعنی قابل اعتماد) ہو۔

· حفاظ حدیث اس حدیث کے خلاف کوئی حدیث بیان نہ کریں۔

· حدیث کو کسی اور سند سے بھی روایت کیا گیا ہو۔ اگر دوسری سند بھی مرسل ہو تو اس صورت میں اسے بیان کرنے والا راوی پہلے راوی کے علاوہ کوئی اور شخص ہو۔

· مرسل حدیث کسی صحابی کے قول کے مطابق ہو۔

· اکثر اہل علم اس مرسل حدیث کے مطابق احکام اخذ کرتے ہوں۔ (کتاب الرسالۃ از شافعی)

ایسی مرسل حدیث، جو کئی طرق سے روایت کی گئی ہو، کی ان شرائط کی بنیاد پر تحقیق کر لینے کے بعد یہ واضح ہو جائے کہ یہ صحیح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی اور صحیح حدیث سے متضاد ہو اور اس تضاد کو دور کرنا ممکن نہ ہو، تو اس صورت میں ہم مرسل حدیث کو ترجیح دیں گے کیونکہ اس کی اسناد کے طرق زیادہ ہیں۔

نوٹ: تابعین کی بڑی یا چھوٹی عمر علوم حدیث میں ایک دلچسپ موضوع ہے۔ مثال کے طور پر ایک صاحب اس دور میں پیدا ہوئے جب صرف چند صحابہ کرام ہی زندہ تھے۔ انہوں نے بچپن یا لڑکپن میں ان صحابہ سے ملاقات کر لی اور تابعی کا درجہ حاصل کر لیا مگر ان کی عمر ایسی نہ تھی جس سے یہ ان صحابہ سے باقاعدہ کچھ سیکھ سکتے۔ جب یہ پختہ عمر کو پہنچے تو بڑی عمر کے تابعین سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ ایسے تابعی کی مرسل حدیث کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے یہ براہ راست کسی صحابی سے حاصل کی ہوگی۔

صحابی کی "مرسل حدیث"

کسی صحابی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قول و فعل سے متعلق بیان کردہ حدیث بھی مرسل ہو سکتی ہےکیونکہ ممکن ہے کہ اس صحابی نے اس بات کو خود سنا یا دیکھا نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ صحابی عہد رسالت میں کم عمر ہو، یا اس نے دیر سے اسلام قبول کیا ہو یا پھر اس موقع پر موجود نہ ہو۔ ایسے صحابہ جو عہد رسالت میں کم عمر تھے جیسے سیدنا ابن عباس یا ابن زبیر رضی اللہ عنہم کی روایات کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں۔

صحابی کی "مرسل حدیث" کا حکم

علماء کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق صحابی کی مرسل حدیث صحیح ہو گی اور اس سے نتائج اخذ کرنا درست ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا امکان بہت کم ہے کہ صحابی نے کسی تابعی سے حدیث روایت کی ہو۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہو تو وہ اسے بیان کر دیتے ہیں۔ جب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کوئی بات منسوب کریں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسرے صحابی سے ہی اس بات کو سنا ہو گا۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ صحابی کو حذف کر دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا (کیونکہ تمام صحابہ قابل اعتماد ہیں۔)

         ایک رائے یہ بھی ہے کہ صحابی کی مرسل حدیث بھی دوسری مرسل احادیث کی طرح ہے۔ یہ رائے بہت ہی کمزور اور مسترد شدہ ہے۔

"مرسل حدیث" سے متعلق مشہور تصانیف

· ابو داؤد کی مراسیل

· ابن ابی حاتم کی مراسیل

· علائی کی جامع التحصیل لاحکام المراسیل





مُعضَل حدیث

"معضل حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ اعضل کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے تھکی ہوئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں معضل ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے دو مسلسل راویوں کے نام غائب ہوں۔

"معضل حدیث" کی مثال

حاکم اپنی کتاب "معرفۃ علوم حدیث" میں اپنی سند سے قعنبی—مالک—سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "غلام کا کھانا اور لباس دستور کے مطابق مالک کی ذمہ داری ہے اور اس سے اس کی طاقت سے زائد کام نہیں لیا جائے گا۔" حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مالک علیہ الرحمۃ سے آگے معضل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالک اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان دو راویوں کے نام اس میں غائب ہیں۔

         اس حدیث کے بارے میں ہمیں دو مسلسل غائب راویوں کے نام امام مالک کی موطاء سے باہر ایک سند میں ملتے ہیں (جس سے یہ متصل سند کی حدیث ہو جاتی ہے) کہ مالک—محمد بن عجلان—ان کے والد—ابوھریرہ۔ (اس حدیث کی بہت سی متصل اسناد امام بخاری و مسلم نے بیان کی ہیں۔) (معرفۃ علوم الحدیث ص 46)

"معضل حدیث" کا حکم

معضل حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ یہ مرسل اور منقطع سے بھی زیادہ ضعیف قرار دی جاتی ہے کیونکہ اس کے مسلسل غائب راویوں کی تعداد ان سے زیادہ ہوتی ہے۔ (الکفایۃ ص 21 اور تدریب ج 1 ص 295)

معضل اور معلق احادیث میں بعض مشترک خصوصیات

اگر حدیث کی اسناد کے شروع میں دو مسلسل راویوں کو حذف کر دیا جائے تو یہ بیک وقت معلق بھی ہو گی اور معضل بھی۔ اگر حدیث کی سند کے درمیان سے دو مسلسل راویوں کو حذف کر دیا جائے تو یہ معضل تو ہو گی لیکن معلق نہ ہو گی۔ اگر حدیث کی سند کے شروع میں سے ایک راوی کو حذف کر دیا جائے تو یہ معلق تو ہو گی لیکن معضل نہ ہو گی۔

"معضل حدیث" کہاں پائی جاتی ہے؟

امام سیوطی تدریب الراوی میں بیان کرتے ہیں کہ معضل، مرسل اور منقطع احادیث ان کتب میں پائی جاتی ہیں:

· سعید بن منصور کی کتاب السنن

· ابن ابی الدنیا کی مولفات


مُنقطِع حدیث

"منقطع حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ انقطاع کا اسم فاعل ہے جو کہ اتصال کا متضاد ہے یعنی کاٹنے والی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں منقطع ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند کسی بھی وجہ سے ٹوٹی ہوئی ہو۔

تعریف کی وضاحت

حدیث کسی سند کے شروع، درمیان، آخر کسی بھی جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہو تو اس حدیث کو منقطع کہا جاتا ہے۔ اس تعریف کے اعتبار سے منقطع میں مرسل، معلق، معضل ہر قسم کی حدیث شامل ہو جاتی ہے۔ لیکن بعد کے دور کے حدیث کے ماہرین (متاخرین) نے منقطع حدیث کو اس صورت کے ساتھ مخصوص کر لیا ہے جس پر مرسل، معلق اور معضل کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ یہی استعمال قدیم دور کے بعض ماہرین (متقدمین) کے ہاں بھی عام رہا ہے۔

         امام نووی کہتے ہیں: "اکثر اوقات منقطع اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی صحابی سے روایت کرنے والے تابعی کو حذف کر دیا جائے جیسے امام مالک (درمیانی تابعین کو چھوڑ کر) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرنے لگیں۔"  (واضح رہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی وفات 74H میں ہو گئی تھی جبکہ امام مالک کی پیدائش 90H میں ہوئی ہے۔ لازمی طور پر ان کے درمیان ایک یا دو تابعین موجود ہوں گے۔) (التقریب مع التدریب ج 1 ص 208)

متاخرین کے نزدیک "منقطع حدیث" کی تعریف

منقطع ایسی حدیث ہوتی ہے جس کی سند ٹوٹی ہوئی ہو لیکن یہ معلق، مرسل اور معضل کے علاوہ ہو۔ منقطع ہر اس ٹوٹی سند کی حدیث کو کہا جائے گا جس کے شروع کی سند ٹوٹی ہوئی نہ ہو، جس میں سے صحابی کو حذف نہ کیا گیا ہو اور جس میں دو لگاتار راویوں کو حذف نہ کیا گیا ہو۔ ابن حجر نے نخبۃ میں یہی تعریف کی ہے۔ (النخبۃ و شرح لہ ص 44)

         اگر انقطاع (یعنی سند کا ٹوٹا ہوا ہونا) ایک جگہ ہو یا ایک سے زائد جگہ ہو، اسے منقطع حدیث ہی کہا جائے گا۔

"منقطع حدیث" کی مثال

عبدالرزاق ثوری سے، وہ ابو اسحاق سے، وہ زید بن یثیع سے، اور وہ حذیفہ سے (واسطہ بیان کئے بغیر) روایت کرتے ہیں کہ "اگر تم ابوبکر کو اپنا حاکم بنا لو تو وہ قوت والے اور دیانت دار شخص ہیں۔" (معرفۃ علوم الحدیث ص 36)

         اس حدیث کی سند میں ثوری اور ابو اسحاق کے درمیان ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے جن کا نام "شریک" ہے۔ ثوری نے براہ راست ابو اسحاق سے روایت نہیں کی ہے۔ انہوں نے شریک سے اور شریک نے ابو اسحاق سے احادیث روایت کی ہیں۔

"منقطع حدیث" کا حکم

اہل علم کا اس پر اتفاق رائے ہے کہ منقطع حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ محذوف شدہ راوی کے حالات کیا تھے؟

مُدَلّس حدیث

تدلیس کی تعریف

مدلس، تدلیس کا اسم مفعول ہے۔ لغوی اعتبار سے تدلیس کا معنی ہوتا ہے کہ خریدار سے بیچی جانے والی چیز کے عیب چھپائے جائیں۔ تدلیس، دلس سے نکلا ہے۔ ڈکشنری میں اس کا معنی اندھیرا اندھیروں کا اختلاط ہوتا ہے۔ جب ایک تدلیس کرنے والا راوی حدیث کے عیوب کو جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو اس حدیث کو "مدلس" (یعنی تدلیس شدہ حدیث) کہا جاتا ہے۔

تدلیس کی اقسام

تدلیس کی دو بڑی اقسام ہیں: اسناد میں تدلیس اور شیوخ میں تدلیس۔

تدلیس اسناد

حدیث کے ماہرین نے تدلیس اسناد کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ ہم ان میں سے صحیح اور دقیق ترین تعریف کو منتخب کرتے ہیں جو دو ائمہ ابو احمد بن عمرو البزار اور ابو الحسن بن القطان کی تعریف ہے۔ اس کے مطابق:

· تدلیس اسناد کی تعریف: "کوئی راوی کسی شیخ سے حدیث روایت کرتا ہو۔ اس نے اس شیخ سے کوئی حدیث نہیں سنی لیکن وہ اس حدیث کو بھی یہ بتائے بغیر روایت کر رہا ہو کہ اس نے اس حدیث کو اس شیخ سے نہیں سنا ہے۔" (شرح الفیہ عراقی ج 1 ص 180)

· تعریف کی وضاحت: تدلیس اسناد کی اس تعریف کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص نے حدیث بیان کرنے والے شیخ (مثلاً الف) سے چند احادیث سن رکھی ہیں۔ جس حدیث میں وہ تدلیس کرنے جا رہا ہے، اس حدیث کو اس نے اس شیخ (الف) سے نہیں سنا بلکہ کسی اور شیخ (ب) سے سنا ہے۔ وہ اصل شیخ (ب)، جس سے اس نے حدیث سنی ہے، کا ذکر نہیں کرتا بلکہ پہلے والے شیخ (الف) سے حدیث روایت کرنے لگتا ہے اور روایت کو ذو معنی الفاظ، جیسے "الف نے کہا" یا "الف سے روایت ہے"، میں بیان کر دیتا ہے۔ اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سننے والا اس وہم میں مبتلا ہو جائے کہ اس نے حدیث پہلے شیخ (الف) سے سن رکھی ہے۔ وہ یہ وضاحت نہیں کرتا کہ واقعتہً اس نے یہ حدیث پہلے شیخ (الف) سے نہیں سنی ہے۔ وہ واضح الفاظ جیسے "میں نے الف سے سنا ہے" یا " الف سے مجھ سے یہ حدیث بیان کی" استعمال نہیں کرتا تاکہ اسے جھوٹا نہ سمجھا جائے۔ اس طریقے سے وہ ایک یا ایک سے زائد راویوں کو حذف کر دیتا ہے۔

· تدلیس اور ارسال خفی میں فرق: ابو الحسن بن القطان یہ تعریف بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں، "تدلیس اور ارسال خفی میں فرق یہ ہے کہ ارسال خفی میں راوی اس شیخ سے احادیث روایت کر رہا ہوتا ہے جس سے اس نے کبھی بھی کوئی حدیث روایت نہیں کی ہوتی۔ جبکہ تدلیس کرنے والے شخص نے اس شیخ سے دیگر احادیث بھی تدلیس کے بغیر روایت کی ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ارسال خفی کرنے والا شخص اس شیخ سے کوئی بھی حدیث روایت نہیں کرتا اگرچہ وہ اس شیخ کے زمانے میں موجود ہو اور اس سے ملا ہوا بھی ہو۔

· تدلیس اسناد کی مثال: حاکم نے اپنی سند سے علی بن خشرم تک روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن عینیہ نے زھری سے حدیث روایت کی۔ ان سے پوچھا گیا، "کیا آپ نے یہ حدیث خود زہری سے سنی ہے؟" وہ کہنے لگے، "نہیں، میں نے نہ تو یہ زہری سے سنی ہے اور نہ ہی کسی ایسے شخص سے جس نے زہری سے یہ حدیث سنی ہو۔ یہ حدیث عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے زہری سے سنی ہے۔" اس مثال میں ابن عینیہ نے اپنے اور زہری کے درمیان دو واسطے حذف کر دیے ہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث ص 130)

تدلیس تسویہ

یہ تدلیس کی ایسی قسم ہے جو تدلیس اسناد کی اقسام میں سے ایک ہے۔

· تدلیس تسویہ کی تعریف: ایک شخص اپنے شیخ سے حدیث روایت کرے۔ اس سند میں دو ایسے راوی پائے جاتے ہوں جو ثقہ (قابل اعتماد) ہوں اور ان کی آپس میں ملاقات بھی ہوئی ہو۔ ان دونوں کے درمیان ایک ضعیف (کمزور) شخص بھی ہو۔ اب صورتحال یہ بنے گی کہ راوی (1)—ثقہ شیخ (2)—ثقہ راوی (3)—ضعیف راوی (4)—ثقہ راوی (5)۔ دونوں ثقہ افراد 3 اور 5 کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی ہو گی۔ اب تدلیس کرنے والا شخص 1 اس حدیث کو اس طرح سے روایت کرے گا کہ وہ ضعیف راوی 4 کو حذف کرتے ہوئے 3 کی روایت براہ راست 5 سے کر دے گا۔ اس طریقے سے وہ اپنی سند میں تمام ثقہ افراد کو شامل کر دے گا۔ یہ تدلیس کی بدترین شکل ہے۔ تدلیس کرنے والے کا شیخ، خود تدلیس کرنے کے لئے مشہور نہیں ہو گا۔ تدلیس کرنے والا شخص اس طریقے سے حدیث کو روایت کرے گا کہ سننے والا اس حدیث کو صحیح سمجھ بیٹھے گا۔ اس میں بہت بڑا دھوکہ پایا جاتا ہے۔

· تدلیس تسویۃ کرنے والے مشہور ترین لوگ: ان میں بقیۃ بن ولید اور ولید بن مسلم شامل ہیں۔ بقیۃ کے بارے میں ابو مسعر کہتے ہیں، "احادیث بقیۃ لیست نقیۃ فکن منہا علی تقیۃ"۔ یعنی "بقیۃ کی احادیث صاف نہیں ہوتیں، ان میں تقیہ کے اصول پر بات کو چھپایا گیا ہوتا ہے۔ (ميزان الاعتدال جـ1 ـ ص 332)

· تدلیس تسویۃ کی مثال: ابن ابی حاتم اپنی علل میں روایت کرتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے سنا: اسحق بن راہویہ، بقیۃ سے، وہ ابو وہب الاسدی سے، وہ نافع سے، اور وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، " کسی شخص کے اسلام کی اس وقت تک تعریف نہ کرو جب تک کہ تم اس کی رائے کی پختگی کو نہ پہچان لو۔" ان کے والد کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ایسی بات بیان کی گئی ہے جو کہ شاید ہی کسی کی سمجھ میں آئے۔ اس کی سند کچھ اس طرح ہے عبیداللہ بن عمرو (ثقہ) —اسحاق بن ابی فروۃ (ضعیف) —نافع (ثقہ)—ابن عمر۔ عبیداللہ بن عمرو کی کنیت ابو وہب تھی اور وہ بنو اسد (قبیلے کا نام) سے تعلق رکھتے تھے۔ اس حدیث میں بقیۃ (بن ولید) نے اسحاق بن ابی فروۃ، جو کہ ایک ضعیف راوی ہے، کو حذف کر دیا اور عبیداللہ بن عمرو کا ذکر نام کی بجائے کنیت اور قبیلے سے کر دیا تاکہ کوئی یہ پہچان نہ سکے کہ اس نے ایک ضعیف راوی کا نام غائب کیا ہے۔ (شرح الألفية للعراقي جـ1 ـ ص 190 والتدريب جـ1 ـ ص 225)

تدلیس شیوخ

شیوخ میں تدلیس کی تعریف یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے شیخ، جس سے وہ حدیث روایت کر رہا ہے، کا نام، کنیت، نسب وغیرہ غیر معروف طریقے سے بیان کرے تاکہ وہ پہچانا نہ جائے۔ (علوم الحديث ص 66)

         تدلیس شیوخ کی مثال یہ ہے کہ ابوبکر بن مجاہد جو کہ قرأت کے ائمہ میں سے ہیں، کہتے ہیں "عبداللہ بن ابی عبداللہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی" اس سے ان کی مراد ابو بکر بن ابو داؤد سجستانی ہیں۔

تدلیس کا حکم

· تدلیس اسناد ایک مکروہ عمل ہے۔ اکثر اہل علم نے اس کی مذمت کی ہے۔ شعبہ اس کی مذمت کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ انہوں نے اس سے متعلق سخت آراء پیش کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ "تدلیس تو جھوٹ کا بھائی ہے۔"

· تدلیس تسویۃ مکروہ ترین عمل ہے۔ عراقی کہتے ہیں، "جس نے جان بوجھ کر تدلیس تسویۃ کا ارتکاب کیا، وہ نہایت ہی ناقابل اعتماد شخص ہے۔"

· تدلیس شیوخ کی برائی تدلیس اسناد سے کم ہے کیونکہ تدلیس کرنے والے نے کسی راوی کو غائب نہیں کیا ہے (بلکہ اس کا غیر معروف نام بیان کیا ہے۔) اس کی کراہت اس وجہ سے ہے کہ اس نے ایک روایت کو ضائع کر دیا ہے اور حدیث کے سماع (یعنی سننے سنانے) معروف طریقے کے خلاف عمل کیا ہے۔ تدلیس شیوخ کے مختلف مقاصد کے مطابق اس کی کراہت کے درجے میں فرق ہوتا ہے۔

تدلیس شیوخ کے مقاصد

تدلیس شیوخ کے چار اسباب ہیں:

· شیخ ضعیف ہو یا غیر ثقہ (ناقابل اعتماد) ہو۔ (یہ بات چھپانے کے لئے اس کے مشہور نام کی بجائے غیر معروف نام یا کنیت بیان کی جائے۔)

· اس کی تاریخ وفات بعد کی ہو جس کے باعث ایک بڑا گروہ تدلیس کرنے والے کے ساتھ روایت میں شریک ہو جائے۔ (بڑے گروہ کے شریک ہو جانے سے تدلیس کرنے والے راوی کی انفرادیت اور انا مجروح ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی راوی، شیخ 'الف' کے غیر معروف نام سے روایت کر رہا ہو اور یہ تاثر دے رہا ہو کہ الف سے اس حدیث کو صرف اسی نے سنا ہے۔ اگر وہ شیخ 'الف' کا اصل نام بتا دے تو بہت سے لوگ یہ کہہ دیں گے کہ تمہاری کیا خصوصیت ہے؟ ہم نے بھی اس حدیث کو انہی شیخ سے سنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مفاد پرستانہ رویہ ہے جس کی دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔)

· وہ راوی سے عمر میں چھوٹا ہو۔ (راوی محض اپنی انا پرستی کے باعث اس کا درست نام ذکر نہ کرے کہ اس کا شیخ اس سے چھوٹا ہے اور لوگ کہیں گے کہ یہ اپنے سے چھوٹے سے حدیث روایت کرتا ہے۔)

· شیخ سے کثیر تعداد میں روایات پائی جاتی ہوں۔ راوی کثیر تعداد میں اس شیخ کی روایات بیان نہ کرنا چاہتا ہو اس لئے وہ مختلف روایتیں اس کے مختلف ناموں سے بیان کر دے۔ (اس کا مقصد بھی انفرادیت پسندی ہے۔)

تدلیس اسناد کے پانچ اسباب ہیں:

· سند کو بلند کرنا۔ (یعنی ایک شخص سے روایت کرنے کی بجائے اس کے اوپر والے سے روایت کرنا تاکہ سند مختصر ہو اور اسے زیادہ قابل اعتماد سمجھا جائے۔)

· جس شیخ سے کثیر تعداد میں احادیث سنی ہوں، ان احادیث (کی اسناد میں سے) کوئی نام ضائع ہو جائے۔ (یہ اتفاقی امر ہے جس کے لئے تدلیس کرنے والے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔)

· تدلیس شیوخ کی پہلی تین وجوہات کا اطلاق تدلیس اسناد پر بھی ہوتا ہے۔

نوٹ: حدیث کے راویوں میں یہ نفسیات ایک خاص دور میں پیدا ہوئی۔ محدثین کو ان کی غیر معمولی کاوشوں کے نتیجے میں معاشرے میں غیر معمولی اسٹیٹس حاصل ہو گیا۔ لوگ انہیں دین کی اس خدمت کے لئے وسائل فراہم کرنے لگ گئے۔ حکومت ان کی پشت پناہی کرنے لگ گئی۔ عوام الناس جوق در جوق ان کی محفلوں میں شریک ہونے لگے اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنے لگے۔ جو محدثین خوف خدا رکھتے تھے، وہ تو تدلیس جیسی الٹی سیدھی حرکتوں سے بعض رہے مگر اس شاندار اسٹیٹس کو حاصل کرنے کی دوڑ میں بہت سے کم ظرف لوگ بھی شریک ہو گئے اور انہوں نے اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ ان طریقوں سے شروع کر دیا جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ جرح و تعدیل کے ماہرین نے بے پناہ تحقیق کرنے کے بعد ایسی کم ظرفیوں کا پردہ جس طرح چاک کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔

تدلیس کرنے والے کی مذمت کے اسباب

تدلیس کرنے والے کی مذمت تین وجوھات کی بنیاد پر کی جاتی ہے:

· یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ جس شخص سے روایت کر رہا ہے، اس نے واقعتاً حدیث اسی سے سنی ہے یا نہیں۔

· ایک مشکوک بات کے ظاہر ہونے سے اس شخص کا کردار مجروح ہوتا ہے۔

· اس شخص کا عمل درست نہیں کہ اگر وہ تدلیس نہ کرتا اور حذف شدہ شخص کا ذکر کر دیتا تو اس کے نتیجے میں حدیث کو قبول نہ کیا جاتا۔ (راجع الكفاية ص 358)

تدلیس کرنے والے کی دیگر روایات کا حکم

تدلیس کرنے والے شخص کی دیگر روایات کو قبول کرنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اس میں دو مشہور ترین نقطہ ہائے نظر یہ ہیں:

· تدلیس کرنے والے کی ہر روایت کو مسترد کر دیا جائے گا اگرچہ اس نے اپنے شیخ سے حدیث کو خود سنا ہو کیونکہ تدلیس بذات خود ایسا فعل ہے جو راوی کے کردار کو مجروح کرتا ہے۔ (اس نقطہ نظر پر زیادہ اعتماد نہیں کیا گیا۔)

· دوسرا نقطہ نظر یہ ہے (اور اسے قبول کیا گیا ہے کہ) اگر تدلیس کرنے والا واضح الفاظ میں کوئی اور حدیث بیان کرتا ہے کہ "میں نے یہ حدیث فلاں سے سنی ہے" تو اس کی حدیث قبول کی جائے گی۔ اگر وہ شخص ذو معنی الفاظ میں حدیث بیان کرتا ہے جیسے "فلاں سے روایت ہے" تو اس کی حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ (علوم الحديث ص 67 – 68)

نوٹ: ان میں سے پہلا نقطہ نظر زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ تدلیس کر کے ایک شخص اپنا امیج خود تباہ کر لیتا ہے۔

تدلیس کا علم کیسے ہوتا ہے؟

تدلیس کا علم دو طریقے سے ہوتا ہے:

· ایک تو یہ کہ تدلیس کرنے والا پوچھنے پر خود کوئی بات بتا دے۔ جیسا کہ اوپر درج مثال میں ابن عینیہ نے خود یہ بات بتا دی۔

· فنون حدیث کا ماہر امام اپنی تحقیق کے نتیجے میں تدلیس سے آگاہ ہو جائے اور وہ اس کی تفصیلات بیان کر دے۔

نوٹ: ابن عینیہ ایک جلیل القدر محدث اور فقیہ ہیں۔ غالباً انہوں نے ایسا بے خیالی میں کر دیا ہو گا اور پھر توجہ دلانے پر فوراً درست سند کی وضاحت کر دی۔

تدلیس اور مدلسین کے بارے میں مشہور تصانیف

تدلیس اور تدلیس کرنے والے مدلسین کے بارے میں کثیر تصانیف موجود ہیں۔ ان میں سے مشہور ترین یہ ہیں:

· خطیب بغدادی کی تین کتب۔ ان میں سے پہلی کا نام "التبیین لاسماء المدلسین" ہے۔ یہ مدلسین کے ناموں پر مشتمل ہے۔دوسری دو کتب میں ان افراد کا ذکر ہے جو تدلیس کی مختلف اقسام میں سے کسی خاص قسم میں ملوث تھے۔ (الكفاية ص 361)

· برھان الدین ابن الحلبی کی "التبیین لاسماء المدلسین"۔

· حافظ ابن حجر کی "تعریف اھل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس"۔


مُرسَل خفی

مرسل خفی کی تعریف

مرسل، لفظ ارسال کا اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے ڈھیلی ڈھالی چیز۔ خفی، ظاہر کا متضاد ہے۔ اس کا مطلب ہے چھپی ہوئی چیز جسے تفصیلی تحقیق کے بغیر معلوم نہ کیا جا سکے۔

         اصطلاحی مفہوم میں مرسل خفی ایسی حدیث ہوتی ہے جس کا راوی اسے کسی ایسے شیخ سے روایت کرتا ہے جس سے اس راوی کی ملاقات ہوئی ہوتی ہے یا کم از کم جو اس کے زمانے میں موجود ہوتا ہے لیکن اس راوی نے شیخ سے کوئی بھی حدیث سنی نہیں ہوتی۔ وہ راوی حدیث کو ذو معنی الفاظ میں روایت کرتا ہے جیسے ("میں نے اس شخص سے یہ حدیث سنی" کی بجائے یہ کہنا کہ) "اس نے کہا"۔

مرسل خفی کی مثال

ابن ماجہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عقبۃ بن عامر سے مرفوع روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اللہ تعالی پہرہ دینے والے پر رحمت فرمائے۔" (ابن ماجه – كتاب الجهاد – جـ 2 ص 925 رقم الحديث / 2769) امام مِّزِی اپنی کتاب اطراف میں لکھتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کی ملاقات کبھی عقبہ بن عامر سے نہیں ہوئی۔

نوٹ: سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر عالم اور خلیفہ تھے۔ انہوں نے راوی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ ایسا بعد کے کسی راوی نے کیا ہو گا۔

کسی کو مدلس قرار دینے سے پہلے اس کا عمومی کردار دیکھا جانا ضروری ہے۔ ایسا شخص جس کی بہت سی احادیث میں تدلیس یا ارسال خفی پایا جائے، اسے تو مشکوک قرار دیا جا سکتا ہے مگر جس شخص کی کسی ایک آدھ حدیث میں تدلیس یا ارسال خفی پایا جائے تو اس کے بارے میں حسن ظن سے ہی کام لینا ضروری ہے کہ بھول چوک سب سے ہی ہو سکتی ہے۔

مرسل خفی کیسے پہچانی جاتی ہے؟

مرسل خفی کی پہچان تین ذرائع سے ہوتی ہے:

· (فن رجال کے) بعض ماہرین واضح طور پر بیان کر دیتے ہیں کہ وہ راوی جس شیخ سے حدیث بیان کر رہا ہے، اس کی کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی یا اس نے کبھی ان سے حدیث نہیں سنی۔

· وہ راوی خود کسی موقع پر بیان کر دے کہ اس کی شیخ سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی یا اس نے کبھی ان سے حدیث نہیں سنی۔

· حدیث کسی اور مقام پر بھی موجود ہو جس میں اس راوی اور شیخ کے درمیان کچھ افراد کا اضافہ پایا جاتا ہو۔

اس تیسرے امر کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کیونکہ ایک متصل سند مل جانے کے بعد یہ حدیث مرسل نہیں رہے گی بلکہ متصل ہو جائے گی۔

مرسل خفی کا حکم

یہ ضعیف حدیث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ منقطع ہے۔ جب اس کا منقطع ہونا ظاہر ہو جائے گا تو اس پر وہی حکم لگے گا جو منقطع حدیث کا حکم ہے۔

مرسل خفی سے متعلق مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب التفصیل لمبہم المراسیل


مُعََنعَن اور مُؤَنَن احادیث

تمہید

خبر مردود کی وہ چھ اقسام ہم بیان کر چکے ہیں جو کہ سند کے منقطع ہونے کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ معنعن اور مؤنن احادیث کا معاملہ ان سے کچھ مختلف ہے۔ ان کا شمار منقطع احادیث میں کیا جائے یا متصل احادیث میں؟ اسناد میں سقوط کے باعث ہم ان کی بحث کو یہاں درج کر رہے ہیں۔

معنعن کی تعریف

لغوی مفہوم میں "عنعن" کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ "عن، عن" کہہ کر بتائی جانے والی بات۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جو "عن، عن" کہہ کر روایت کی گئی ہوتی ہے جیسے "فلاں عن فلاں"۔

نوٹ: حدیث کی روایت مختلف الفاظ میں کی جاتی ہے۔ مثلاً حدثنا یعنی فلاں شخص نے ہم سے حدیث بیان کی، سمعتُ یعنی میں نے اس حدیث کو فلاں شخص سے سنا ہے، اخبرنا یعنی فلاں شخص نے ہمیں یہ خبر سنائی ہے۔

روایت کا ایک طریقہ "عن، عن" بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ "فلاں نے فلاں سے روایت کی۔" چونکہ اس لفظ کے ذریعے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فلاں نے فلاں سے یہ حدیث خود سنی ہے یا نہیں، اس وجہ سے معنعن حدیث کی سند میں کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جس کی بحث یہاں درج کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محدثین حدیث کو قبول کرنے میں کتنی احتیاط برتتے تھے۔

معنعن کی مثال

ابن ماجہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

حدثنا عثمان بن ابی شیبہ ثنا معاویہ بن ہشام ثنا سفیان عن اسامہ بن زید عن عثمان بن عروۃ عن عروۃ عن عائشہ۔ قالت، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم: ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی میامن الصفوف۔ (ابن ماجه ـ كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها جـ1 ـ ص 321 رقم الحديث / 1005 /)

عثمان بن ابی شیبہ ہم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، ان سے معاویہ بن ہشام نے حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے حدیث بیان کی، سفیان نے اسامہ بن زید سے روایت کی، انہوں نے عثمان بن عروہ سے روایت کی، انہوں نے عروہ سے روایت کی اور انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔ آپ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے صف کے دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والوں کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔"

معنعن متصل ہے یا منقطع؟

اس معاملے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ معنعن کو منقطع حدیث قرار (دے کر ضعیف قرار) دیا جائے گا جب تک کہ اس کی سند کا اتصال ثابت نہ ہو جائے۔ دوسرا نقطہ نظر، جو کہ حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا نقطہ نظر ہے، یہ ہے کہ اسے چند شرائط کے ساتھ متصل حدیث مان لیا جائے گا۔ ان میں سے دو شرائط پر سب اہل علم کا اتفاق رائے ہے۔ امام مسلم نے بھی انہی دو شرائط کو کافی سمجھا ہے، وہ یہ ہیں:

· معنعن حدیث کی سند میں کوئی راوی تدلیس کرنے والا نہ ہو۔ (کیونکہ تدلیس کرنے والے واضح الفاظ کی بجائے ذو معنی الفاظ بول کر تدلیس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔)

· معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں کی ملاقات ہونا ممکن ہو۔ (یعنی دونوں ایک ہی زمانے کے ہوں اور ایک نے دوسرے کے شہر میں کچھ وقت گزارا ہو۔)

ان دو شرائط پر اہل علم کے دوسرے گروہ نے کچھ اضافہ کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:

· معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں کی ملاقات ایک ثابت شدہ امر ہو۔ یہ امام بخاری، ابن المدینی اور دیگر محققین کا نقطہ نظر ہے۔

· معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں میں طویل عرصے کی رفاقت پائی جاتی ہو۔ یہ ابن المظفر السمعانی کا نقطہ نظر ہے۔

· یہ بات معلوم و متعین ہو کہ معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں میں سے ایک دوسرے سے حدیث کو براہ راست روایت کرتا ہے۔ یہ ابو عمرو الدانی کا نقطہ نظر ہے۔

مؤنن حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے مؤنن اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے "اَنّ، اَنّ" کہنا۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جسے اس طرح روایت کیا گیا ہو کہ "حدثنا فلاں انّ فلاں انّ فلاں۔۔۔۔" یعنی "ہم نے فلاں نے حدیث بیان کی، پھر فلاں سے، پھر فلاں سے۔۔۔۔"

مؤنن حدیث کا حکم

امام احمد اور ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مؤنن حدیث کو منقطع قرار (دے کر اسے ضعیف قرار) دیا جائے گا۔ اہل علم کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ لفظ "اَنَّ" بالکل "عن" کی طرح ہے اور مؤنن حدیث کو معنعن حدیث سے متعلق شرائط کی موجودگی میں قبول کر لیا جائے گا۔


راوی پر الزام کے باعث مردود حدیث

راوی پر الزام کا مطلب

راوی پر الزام کر معنی ہے کہ اس پر کھلے الفاظ میں الزام لگایا گیا ہو۔ اس کے کردار اور دین کے بارے میں اعتراضات کیے گئے ہوں۔ حدیث کے بارے میں اس کے رویے پر گفتگو کی گئی ہو یعنی وہ حدیث کو کس طرح محفوظ رکھتا تھا؟ انہیں کس حد تک یاد رکھتا تھا؟ اس معاملے میں وہ کس حد تک محتاط تھا؟ وغیرہ وغیرہ

نوٹ: اس موقع پر ایک دلچسپ سوال پیدا ہو گیا ہے۔ قرآن مجید میں کسی شخص کی عیب جوئی اور کردار کشی سے منع کیا گیا ہے۔ کیا یہ حکم حدیث بیان کرنے والے راویوں کے بارے میں بھی ہے؟ حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ جس عیب جوئی اور کردار کشی سے قرآن مجید میں منع کیا گیا ہے، اس کا تعلق کسی شریف انسان کے ذاتی معاملات سے ہے۔

اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کسی سے لین دین یا رشتے داری کرنا مقصود ہو تو اس شخص کے کردار کی چھان بین ضروری ہے۔ اگر کوئی دھوکے باز شخص ہے اور وہ دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کے کردار سے دوسروں کو آگاہ کرنا تاکہ وہ اس کے دھوکے سے محفوظ رہیں بالکل درست ہے۔

عام زندگی میں شریف لوگ کسی کی کردار کشی نہیں کرتے لیکن جب کسی کے ساتھ رشتے ناتے قائم کرنے یا اس سے لین دین کا معاملہ پیش آتا ہے تو کردار کی چھان بین سے اخلاقیات منع نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے بارے میں تو عیب جوئی نہیں کی جاتی لیکن حکومت کے لیڈروں کے بارے میں ہر شخص چھان بین کا حق رکھتا ہے۔

جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کسی بات کو بیان کرتا ہے تو بالکل اسی اصول پر وہ خود کو لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے کہ وہ اس کے کردار کی چھان بین کر سکیں۔ اگر کوئی شخص ایسا نہیں چاہتا تو اسے چاہیے کہ وہ احادیث بیان کرنے کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہے۔

راوی پر الزام کے اسباب

راوی پر الزام کے بنیادی طور پر دس اسباب ہیں۔ ان میں سے پانچ تو اس کے کردار سے متعلق ہیں اور پانچ کا تعلق حدیث کی حفاظت کے امور سے ہے۔ کردار سے متعلق الزامات ان بنیادوں پر لگائے جاتے ہیں:

· جھوٹ۔ (حدیث بیان کرنے والا شخص کہیں جھوٹ بولنے کا عادی تو نہیں؟ جھوٹے شخص کی حدیث قبول نہیں کی جاتی۔)

· جھوٹ بولنے کا الزام۔ (یہ الزام اگرچہ غلط بھی ہو لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس شخص کی حدیث کو قبول نہ کیا جائے۔)

· فسق و فجور۔ (وہ شخص اعلانیہ طور پر گناہوں کا ارتکاب تو نہیں کرتا۔ چھپے ہوئے گناہوں کو تو سوائے اللہ تعالی اور اس شخص کے اور کوئی نہیں جانتا۔)

· بدعت۔ (وہ شخص کہیں کسی نئے مذہب، مسلک، فرقے، رسم کا حامی تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ اپنے مذہب کے حق میں تعصب کا شکار ہو گا اور اس کی بیان کردہ احادیث اس کے تعصب سے متاثر ہوں گی۔)

· جہالت۔ (اگر وہ شخص دین کو نہیں جانتا تو بات کچھ کی کچھ ہو سکتی ہے۔)

· حدیث کی حفاظت سے متعلق راوی کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

· بہت زیادہ غلطیاں کرنا۔ (تھوڑی بہت غلطی تو سبھی سے ہو سکتی ہے لیکن بہت زیادہ غلطیاں کرنے والے شخص کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر محتاط طبیعت کا مالک تھا۔)

· حافظے کی کمزوری۔ (کمزور حافظے والا شخص کے لئے حدیث کو یاد رکھنے میں غلطیوں کا امکان زیادہ ہے۔)

· غفلت و لاپرواہی۔ (ایک لاپرواہ شخص سے غلطی صادر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔)

· بہت زیادہ وہمی ہونا۔ (وہمی شخص بھی بات کو آگے منتقل کرنے میں غلطیاں کر سکتا ہے۔ وہ بعض باتوں پر زیادہ زور دے گا اور بعض کو نظر انداز کر دے گا۔)

· ثقہ راویوں کی احادیث کے خلاف احادیث روایت کرنا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشادات میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ آپ کی محکم احادیث کے خلاف کثرت سے روایت کرنے والا یا تو بات سمجھنے میں غلطی کر رہا ہو گا اور یا پھر جان بوجھ کر کوئی غلط بات پھیلانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔)

اب ہم مسترد شدہ احادیث کی ان اقسام کا جائزہ لیں گے جو کہ راوی پر الزام کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ ہم سخت ترین اقسام سے آغاز کریں گے۔ موضوع حدیث

موضوع حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "موضوع" وضع کرنے کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے گھڑی ہوئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں موضوع حدیث اس جھوٹی حدیث کو کہتے ہیں جسے گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا گیا ہو۔

موضوع حدیث کا درجہ

یہ ضعیف احادیث میں سے سب سے بدترین درجے کی حامل ہے۔ بعض اہل علم تو اسے ضعیف حدیث میں بھی شمار نہیں کرتے بلکہ ایک الگ درجے پر رکھتے ہیں۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے گھڑ کر جھوٹی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ ضعیف حدیث میں تو پھر بھی یہ شک ہوتا ہے کہ شاید یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمائی ہو گی جبکہ موضوع حدیث تو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے۔)

موضوع حدیث کی روایت کرنے کا حکم

اہل علم کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ موضوع حدیث کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ یہ جعلی حدیث ہے، اسے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اس بات کی اجازت ہے کہ اسے روایت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بتا دیا جائے کہ یہ موضوع حدیث ہے۔ مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے جان بوجھ کر مجھ سے منسوب جھوٹی بات بیان کی تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔" (مقدمة مسلم بشرح النووي جـ 1 ـ ص 62)

جعلی احادیث ایجاد کرنے کا طریقہ

جعلی احادیث ایجاد کرنے والا شخص بسا اوقات اپنی طرف سے کوئی بات گھڑتا ہے اور اس کے بعد اس کی اسناد اور روایت کو ایجاد کر لیتا ہے۔ بعض اوقات وہ کچھ دانشوروں وغیرہ کے اقوال حاصل کرتا ہے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنے کے لئے جھوٹی اسناد ایجاد کر لیتا ہے۔

موضوع حدیث کو کیسے پہچانا جائے؟

موضوع حدیث کو ان طریقوں سے پہچانا جا سکتا ہے:

· احادیث ایجاد کرنے والا خود اقرار کر لے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ابو عصمہ نوح بن ابی مریم نے اس بات کا خود اقرار کیا کہ اس نے قرآن مجید کی ہر سورت کے فضائل سے متعلق احادیث گھڑیں اور انہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر دیا۔

· احادیث ایجاد کرنے والا الٹی سیدھی بات کر کے اپنا درجہ خود کم کر لے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا ہی شخص کسی شیخ سے حدیث روایت کر رہا تھا۔ جب اس شخص سے اس کی تاریخ پیدائش پوچھی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے شیخ اس شخص کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکے تھے۔ اس شخص کی بیان کردہ حدیث کا علم سوائے اس کے کسی اور کو نہ تھا۔ (اس جھوٹ کی وجہ سے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ شخص حدیث کو خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر رہا ہے۔)

· احادیث وضع کرنے کے شواہد راوی کی ذات میں پائے جائیں۔ مثلاً راوی کسی خاص مسلک کے بارے میں شدت پسندانہ رویہ رکھتا ہو اور وہ اس مسلک کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع کرنے لگے۔

· خود حدیث میں وضع کرنے کے شواہد پائے جائیں۔ مثلاً حدیث کے الفاظ گھٹیا درجے کے ہوں، یا حسی شواہد کے خلاف ہوں یا قرآن مجید کے صریح الفاظ کے خلاف ہوں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے آخری یونٹ، درایت کے اصول)

جعلی احادیث ایجاد کرنے کی وجوہات اور احادیث گھڑنے والوں کی خصوصیات

جعلی احادیث وضع کرنے کی کئی وجوہات ہیں:

قرب الہی کا حصول

بعض لوگوں نے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے احادیث وضع کیں۔ انہوں نے لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کرنے اور گناہوں سے روکنے کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ جعلی احادیث کے ان موجدوں نے اپنی طرف سے لوگوں کو زھد و تقوی کی طرف لانے کے لئے احادیث گھڑیں لیکن یہ بدترین لوگ تھے کیونکہ انہیں ثقہ سمجھتے ہوئے لوگوں نے ان کی احادیث پر یقین کر لیا۔

         ایسے لوگوں کی ایک مثال میسرہ بن عبد رب تھا۔ ابن حبان اپنی کتاب "الضعفاء" میں ابن مہدی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص سے پوچھا، "تم یہ احادیث کہاں سے لائے ہو، تم نے کس شخص کو یہ احادیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔" وہ کہنے لگا، "میں نے ان احادیث کو خود ایجاد کیا ہے تا کہ لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کر سکوں۔" (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 283)

مسلک اور فرقے کی تائید

بعض لوگوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی تائید میں احادیث ایجاد کیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں جو سیاسی نوعیت کے فرقے پیدا ہوئے انہوں نے اپنے فرقے کی تائید میں احادیث وضع کرنے کا کام شروع کیا۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ، "علی سب سے بہترین انسان ہیں۔ جس نے اس کا انکار کیا، اس نے کفر کیا۔"

اسلام پر اعتراضات

بعض ایسے ملحد لوگ تھے جنہوں نے اسلام پر اعتراضات کرنے اور اس سے متعلق لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے یہ کام شروع کیا۔ وہ کھلم کھلا تو اسلام پر اعتراضات کر نہیں سکتے تھے چنانچہ انہوں نے اس طریقے سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کا حلیہ بگاڑنے اور اس پر اعتراضات کرنے کے لئے احادیث وضع کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ ان کی ایک مثال محمد بن سعید شامی تھا۔ اس نے حمید اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت منسوب کی، "میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے۔" (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 284) اللہ تعالی کا بڑا شکر ہے کہ اس نے حدیث کے ایسے ماہرین پیدا کیے جنہوں نے ایسی احادیث کو الگ کر دیا۔

حکمرانوں کا قرب

بعض حضرات نے محض حکمرانوں کی قربت حاصل کرنے (اور ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے) احادیث گھڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ لوگ اس طریقے کے حکمرانوں کے ناجائز کاموں کو بھی جائز قرار دے دیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ غیاث بن ابراہیم النخعی الکوفی خلیفہ مہدی کے پاس آیا تو وہ کبوتر کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس موقع پر اس نے فوراً ہی اپنی سند سے حدیث بیان کی، "تیر اندازی، گھڑ دوڑ، خچر کی دوڑ اور کبوتر بازی کے علاوہ کسی چیز میں مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔" اس شخص نے حدیث میں "کبوتر بازی" کا اپنی طرف سے اضافہ کر دیا۔ مہدی اس حدیث سے واقف تھا۔ اس نے فوراً ہی کبوتر کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور کہنے لگا، "میں اس بات سے واقف ہوں۔"

روزگار کا حصول

کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو لوگوں کو قصے کہانیاں سنا کر اپنے روزگار کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو عجیب و غریب اور طلسماتی قصے سنا کر ان سے رقم وصول کرتے۔ ابو سعید المدائنی اسی قسم کا ایک قصہ گو ہے۔

نوٹ: عام لوگ قصے کہانیوں کو پسند کرتے ہیں۔ ناول، ڈرامہ، افسانہ وغیرہ کی اصناف سخن سب انسان کے اسی شوق کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔ دنیا کے دوسرے معاشروں میں قدیم دور سے ہی کہانیوں اور ڈراموں کا رواج رہا ہے۔ مسلم معاشروں میں چونکہ ڈرامے کو اچھا نہیں سمجھا گیا اس وجہ سے اس کی جگہ قصہ خوانی نے لے لی۔ قرون وسطی میں قصہ گو بڑے بڑے میدانوں یا چوراہوں پر باقاعدہ قصہ گوئی کی محفلیں جماتے اور لوگوں سے رقم لے کر انہیں قصے سناتے۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا اسی قسم کی داستانیں تھیں۔ اس قسم کے بعض قصہ گو حضرات نے بعض قصوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا۔

شہرت کا حصول

ایسی عجیب و غریب احادیث کو، جو حدیث کے کسی ماہر کے پاس موجود نہیں تھیں، محض سستی شہرت کے حصول لئے ایجاد کیا گیا۔ ابن ابی دحیۃ اور حماد النصیبی جیسے لوگ احادیث کی سند کو عجیب و غریب بنانے کے لئے اس میں تبدیلیاں کر دیتے تاکہ لوگ انہیں سننے کے لئے ان کے پاس آئیں۔ (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 284)

وضع حدیث کے بارے میں فرقہ کرامیہ کا نقطہ نظر

دور قدیم میں ایک بدعتی فرقہ کرامیہ پیدا ہوا۔ ان کے نزدیک ترغیب و ترہیب (یعنی لوگوں کو نیکیوں کی طرف رغبت دلانے اور برائیوں سے روکنے) کے لئے احادیث ایجاد کرنا جائز تھا۔ ان حضرات نے متواتر حدیث "جس نے مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" کے بعض طرق میں موجود اس اضافے سے استدلال کیا کہ "جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" یہ اضافہ حدیث کے ماہرین اور حفاظ کے نزدیک ثابت شدہ نہیں ہے۔

         ان میں سے بعض افراد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ، "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جھوٹ منسوب نہیں کرتے بلکہ آپ (کے مقصد کے حصول) کے لئے جھوٹ بولتے ہیں۔" یہ ایک نہایت ہی احمقانہ استدلال تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنے دین کو پھیلانے کے لئے کسی جھوٹے پروپیگنڈا کے محتاج ہرگز نہ تھے۔
         فرقہ کرامیہ کا یہ نقطہ نظر مسلمانوں کے اجماع کے خلاف تھا۔ اس کے بعد شیخ ابو محمد الجوینی کا دور آیا۔ انہوں نے احادیث ایجاد کرنے والے فرد کی تکفیر کا فتوی جاری کیا۔

موضوع حدیث بیان کرنے کے بارے میں بعض مفسرین کی غلطی

قرآن مجید کے بعض مفسرین نے بھی اپنی تفسیروں میں موضوع احادیث کو بیان کرنے کی غلطی کی ہے۔ انہوں نے ان احادیث کا موضوع ہونا بیان نہیں کیا ہے۔ ان میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منسوب وہ احادیث شامل ہیں جن میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی تلاوت کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں ثعلبی، واحدی، زمخشری، بیضاوی اور شوکانی جیسے مفسرین شامل ہیں۔

موضوع حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف

· ابن جوزی کی کتاب الموضوعات۔ یہ اس فن میں قدیم ترین تصنیف ہے۔ ابن جوزی حدیث کو موضوع قرار دینے میں نرمی سے کام لیتے تھے اس وجہ سے اہل علم نے ان پر تنقید کی ہے۔

· سیوطی کی اللائی المصنوعۃ فی الحادیث الموضوعۃ۔ یہ ابن جوزی کی کتاب کا خلاصہ ہے۔ اس میں ان پر تنقید بھی کی گئی ہے اور ایسی مزید موضوع احادیث بھی بیان کی گئی ہیں جن کا ابن جوزی نے ذکر نہیں کیا۔

· ابن عراق الکنانی کی تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ۔ یہ پہلی کتاب کی مزید تلخیص ہے اور اس کی ترتیب نہایت ہی مناسب ہے۔

متروک حدیث

متروک حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے متروک، ترک کا اسم مفعول ہے یعنی ترک کی گئی چیز۔ جب انڈے میں سے چوزہ نکل آئے تو باقی بچ جانے والے چھلکے کو اہل عرب "التریکۃ" یعنی بے فائدہ چیز کہتے ہیں۔

         اصطلاحی مفہوم میں ایسی حدیث کو متروک کہا جاتا ہے جس کی سند میں کوئی ایسا راوی موجود ہو جس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا ہو۔

راوی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگائے جانے کے اسباب

راوی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگائے جانے کی دو صورتیں ہیں:

· راوی کوئی ایسی حدیث بیان کر رہا ہو، جو حدیث قبول کرنے کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہو اور اس حدیث کو اس شخص کے علاوہ کوئی اور بیان نہ کرتا ہو۔

· راوی اپنی عام زندگی میں جھوٹ بولنے کی عادت کے لئے مشہور ہو لیکن حدیث کے معاملے میں اس سے جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو۔

متروک حدیث کی مثال

عمرو بن شمر الجعفی الکوفی، جابر بن ابو طفیل سے، اور وہ سیدنا علی و عمار رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فجر کی نماز میں قنوت (دعا) پڑھتے، اور یوم عرفۃ (9 ذو الحجۃ) کو صبح کی نماز سے تکبیر پڑھنا شروع کرتے اور ایام تشریق (10-13 ذوالحجۃ) کے آخری دن عصر تک یہ پڑھتے رہتے۔

نسائی، دارقطنی اور دیگر ائمہ حدیث عمرو بن شمر کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے (یعنی اس کی بیان کردہ احادیث متروک ہیں۔) (ميزان الاعتدال جـ3 ـ ص 268)

متروک حدیث کا درجہ

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ضعیف احادیث میں سب سے نچلے درجے کی حدیث موضوع ہے۔ اس کے بعد متروک، پھر منکر، پھر معلل، پھر مدرج، پھر مقلوب، پھر مضطرب۔ یہ ترتیب حافظ ابن حجر کی دی ہوئی ہے۔ (التدريب جـ1 ـ ص 295 والنخبة وشرحها ص 46)


"مُنکَر" حدیث

"منکر" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے منکر، انکار کا اسم مفعول ہے جو کہ اقرار کا متضاد ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں حدیث کے ماہرین نے اس کی متعدد تعریفیں کی ہیں جن میں سے مشہور ترین یہ ہیں:

         ایک تعریف تو وہ ہے جو حافظ ابن حجر نے بیان کر کے اسے کسی اور سے منسوب کیا ہے۔ اس کے مطابق، "منکر وہ حدیث ہے جس کی اسناد میں کوئی ایسا راوی ہو جو کثرت سے غلطیاں کرتا ہو، یا عام طور پر لاپرواہی برتتا ہو یا پھر اس کا گناہوں میں مشغول ہونا مشہور ہو۔" (النخبة وشرحها ص 47)
         دوسری تعریف بیقونی نے اپنی نظم میں کی ہے۔ اس کے مطابق "منکر وہ حدیث ہے جس کی سند میں موجود راوی ضعیف ہو اور یہ روایت ثقہ راوی کی روایت کے مخالف ہو۔" اصل شعر یہ ہے:

و منکر انفرد به راو غدا تعديله لا يحمل التفردا

منکر وہ حدیث ہے جس کا راوی منفرد بات کرے۔ اور قابل اعتماد راوی کی حدیث اس کے خلاف ہو۔

         یہ تعریف حافظ ابن حجر نے بیان کر کے اسی پر اعتماد کیا ہے۔ اس میں پہلی تعریف کی نسبت یہ اضافہ موجود ہے ضعیف راوی، ثقہ راوی کی روایت کے مخالف حدیث بیان کرے۔

منکر اور شاذ میں فرق

شاذ وہ حدیث ہوتی ہے جسے کوئی قابل اعتماد راوی بیان کر رہا ہو لیکن وہ اس راوی سے بھی زیادہ کسی قابل اعتماد راوی کی بیان کردہ حدیث کے خلاف مفہوم پیش کر رہی ہو۔ اس کے برعکس منکر وہ حدیث ہوتی ہے جسے ناقابل اعتماد ضعیف راوی بیان کر رہا ہوتا ہے اور وہ ثقہ راویوں کی حدیث کے خلاف ہوتی ہے۔ اس سے یہ جان لینا چاہیے کہ منکر اور شاذ احادیث میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ صحیح احادیث کے خلاف ہوتی ہیں لیکن ان میں فرق یہ ہے کہ شاذ کا راوی ثقہ ہوتا ہے اور منکر کا ضعیف۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ان دونوں کو ایک ہی سمجھنا لاپرواہی ہے۔

نوٹ: "منکر" حدیث اور "منکر حدیث" میں فرق ہے۔ یہاں پر اس حدیث کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے جو محدثین کی اصطلاح میں منکر ہے۔ "منکر حدیث" سے مراد وہ شخص ہے جو حدیث کے پورے ذخیرے پر اعتماد نہیں کرتا۔

"منکر" حدیث کی مثال

پہلی تعریف کی مثال یہ ہے۔

نسائی اور ابن ماجہ ابی زکیر یحیی بن محمد بن قیس سے، وہ ہشام بن عروۃ سے، وہ اپنے والد سے، وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "کچی کھجوریں کھایا کرو کیونکہ جب ابن آدم انہیں کھاتا ہے تو شیطان کو غصہ آتا ہے۔"

         امام نسائی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث، منکر کے درجے کی ہے۔ اس کے بیان کرنے والے صرف اور صرف ابو زکیر ہیں۔ اگرچہ وہ نیک انسان تھے (مگر ثقہ نہیں تھے۔) مسلم نے اس حدیث کو محض اضافی طور پر روایت کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں کوئی اور روایت ملی ہو جس سے اس روایت کی انفرادیت ختم ہو گئی ہو۔ (التدريب جـ1 ـ ص 240)
         دوسری تعریف کی مثال یہ ہے:

ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے حبیب بن حبیب الزیات سے، انہوں نے ابو اسحاق سے، انہوں نے عیزار بن حریث سے اور انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، حج بیت اللہ کیا، روزے رکھے، اور مہمان کی خاطر مدارت کی، وہ جنت میں داخل ہو گا۔"

         ابن ابی حاتم اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے کیونکہ ابو اسحاق سے اس سے متضاد مفہوم میں ثقہ راویوں نے حدیث روایت کی ہے اور وہ حدیث "معروف" ہے۔

"منکر" حدیث کا درجہ

منکر کی ان دونوں تعریفوں سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ بہت ہی ضعیف حدیث ہوتی ہے۔ روایت کا منکر ہونا خواہ راوی کی کثیر اور بڑی بڑی غلطیوں کی وجہ سے ہو، یا لاپرواہی کی وجہ سے، یا فسق و فجور کی وجہ سے یا صحیح احادیث کی مخالفت کی وجہ سے، ان میں ہر وجہ کی بنیاد پر منکر حدیث میں شدید کمزوری پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم "متروک حدیث" کی بحث میں بیان کر چکے ہیں کہ منکر حدیث کی کمزوری کا درجہ (موضوع اور) متروک کے بعد (تیسرے نمبر پر) ہے۔

معروف حدیث

لغوی اعتبار سے "عرف" کا اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے جانی پہچانی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ ثقہ راویوں کی اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو ضعیف راوی کی حدیث کے مخالف ہو۔ یعنی معروف حدیث، منکر حدیث کا متضاد ہے۔ بہتر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منکر حدیث کی جس تعریف کو حافظ ابن حجر نے ترجیح دی ہے، اس کے مطابق یہ وہ حدیث ہے جس کی مخالفت کے باعث ضعیف راوی کی حدیث کو "منکر" حدیث قرار دیا جاتا ہے۔

         اس کی مثال، منکر کی دوسری میں گزر چکی ہے۔ ثقہ راویوں نے موقوف طریقے پر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے جو کہ اس منکر حدیث کے خلاف ہے۔ اسی بنیاد پر ابن اسحاق کہتے ہیں کہ " یہ حدیث منکر ہے کیونکہ ابو اسحاق سے اس سے متضاد مفہوم میں ثقہ راویوں نے حدیث روایت کی ہے اور وہ حدیث 'معروف' ہے۔"

مُعَلَّل حدیث

معلل حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "معلل"، اعلّ کا اسم مفعول ہے۔ حدیث کے ماہرین کی نزدیک لفظ معلل کا استعمال غیر مشہور معنی میں ہے اور وہ ہے کمزور اور مسترد کیا ہوا۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی پوشیدہ خامی کی وجہ سے اس کا صحیح ہونا مشکوک ہو گیا ہو اگرچہ بظاہر وہ حدیث صحیح لگ رہی ہو۔ اگر کسی حدیث کے راوی پر "وہمی" ہونے کا الزام ہو تو اس کی حدیث معلل ہو جاتی ہے۔

"علّت" کی تعریف

علت کسی پوشیدہ خامی کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں حدیث کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا جا سکے۔ حدیث کے ماہرین کے نزدیک "علت" کی دو لازمی خصوصیات ہیں: ایک تو اس کا پوشیدہ ہونا اور دوسرے اس کے نتیجے میں حدیث کی صحت کا مشکوک ہو جانا۔

         اگر ان دونوں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو حدیث کے ماہرین کی اصطلاح میں اسے علت نہ کہا جائے گا۔ مثلاً اگر حدیث میں کوئی خامی ہے لیکن وہ ظاہر ہے، پوشیدہ نہیں ہے یا خامی تو پوشیدہ ہے لیکن اس سے حدیث کی صحت مشکوک نہیں ہوتی تو اس صورت میں اس خامی کو علت نہیں کہا جائے گا۔

لفظ "علت" کا غیر اصطلاحی معنی میں استعمال

ہم نے اوپر علت کی جو تعریف بیان کی ہے، وہ محدثین کے نزدیک علت کی اصطلاحی تعریف ہے۔ غیر اصطلاحی مفہوم میں بھی لفظ "علت" کو حدیث سے متعلق کسی بھی قسم کے الزام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

· راوی کے جھوٹ بولنے، لا پرواہ ہونے، اس کے حافظے کے کمزور ہونے، وغیرہ کو بھی علت کہا جاتا ہے۔ امام ترمذی نے اسے اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔

· ایسی خامی کو بھی علت کہا جاتا ہے جس سے حدیث کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ کسی ثقہ راوی کا مرسل حدیث روایت کرنا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث صحیح تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معلل بھی ہے۔

"علل حدیث" کے فن کی اہمیت اور اس کے ماہرین

علل حدیث کو جاننے کا علم، علوم حدیث میں مشکل ترین ہے اور اس کا درجہ دیگر علوم سے بلند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ذریعے احادیث میں پوشیدہ خامیوں کو تلاش کیا جاتا ہے جو کہ سوائے علوم حدیث کے اسپیشلسٹ ماہرین کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اس علم کے ماہرین کے لئے اعلی درجے کا حافظہ، معلومات اور دقت نظر درکار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس میدان میں سوائے چند قلیل ماہرین جیسے ابن مدینی، احمد، بخاری، ابو حاتم اور دارقطنی کے علاوہ کسی نے قدم نہیں رکھا۔

کس قسم کی اسناد میں علل تلاش کی جاتی ہیں؟

علت انہی اسناد میں تلاش کی جاتی ہیں جن میں بظاہر صحیح ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضعیف حدیث میں تو علتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہی نہیں کیونکہ اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

علت کو معلوم کرنے کے لئے کس چیز سے مدد لی جاتی ہے؟

علت کو پہچاننے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی حدیث کو بیان کرنے میں راوی بالکل اکیلا ہی تو نہیں، اس کی روایت دیگر راویوں کی روایت سے مختلف تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ دیگر شواہد بھی تلاش کیے جاتے ہیں۔

         اس فن کا ماہر تفصیلی چھان بین کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ راوی کو اس حدیث کے بارے میں وہم لاحق ہوا تھا یا نہیں۔ اس نے کہیں ایک متصل سند والی حدیث کو مرسل (جس کی سند میں سے صحابی کا نام غائب ہو) تو نہیں بنا دیا؟ کہیں اس نے موقوف حدیث (صحابی تک پہنچنے والی حدیث) کو مرفوع (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچنے والی) تو نہیں کر دیا؟ کہیں اس نے حدیث میں کوئی اور حدیث تو نہیں ملا دی یا اپنے وہمی پن کی وجہ سے کچھ اور تو اس حدیث میں داخل نہیں کر دیا؟ ان تمام تفصیلات کی بنیاد پر حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

معلل حدیث کو جاننے کا طریق کار کیا ہے؟

معلل حدیث کو جاننے کا طریق کار یہ ہے کہ کسی حدیث کے تمام طرق (اسناد) کو جمع کیا جائے۔ اس کی مختلف روایتوں اور راویوں کے باہمی اختلاف پر غور کیا جائے۔ مختلف راویوں کی مہارت اور احادیث کو محفوظ رکھنے (ضبط) کا موازنہ کیا جائے اور اس کے بعد حدیث کی علت سے متعلق حکم لگایا جائے۔

علت کہاں موجود ہوتی ہے؟

علت زیادہ تر حدیث کی اسناد میں ہوا کرتی ہے جیسا کہ حدیث کے مرسل یا موقوف ہونے کی علت۔ کبھی کبھار علت حدیث کے متن میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں نماز میں بسم اللہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔

کیا سند کی علتوں سے متن بھی متاثر ہوتا ہے؟

بعض اوقات سند میں علت ہونے کی وجہ سے متن بھی متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حدیث مرسل ہو تو اس علت کے باعث متن بھی متاثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات علت سے صرف سند ہی متاثر ہوتی ہے اور حدیث کا متن صحیح رہتا ہے۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے۔

یعلی بن عبید ثوری سے، وہ عمرو بن دینار سے، اور وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ "(جب تک خرید و فروخت کرنے والے اپنی جگہ سے الگ نہ ہوں تو انہیں) تجارت میں (سودا منسوخ کرنے کے) اختیار کی اجازت ہے۔"

اس حدیث میں متن درست ہے البتہ سند میں یہ غلطی موجود ہے کہ اس میں غلطی سے عمرو بن دینار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اصل راوی عبداللہ بن دینار ہیں۔ چونکہ عمرو اور عبداللہ دونوں ہی ثقہ راوی ہیں اس وجہ سے راوی کا نام غلط بیان کر دینے سے حدیث کے متن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

معلل حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

· ابن المدینی کی کتاب العلل

· ابن ابی حاتم کی علل الحدیث

· احمد بن حنبل کی العلل و معرفۃ الرجال

· ترمذی کی العلل الصغیر اور العلل الکبیر

· دارقطنی کی العلل الواردۃ فی الاحادیث النبویۃ۔ یہ کتاب سب سے جامع ترین ہے۔



نامعلوم راوی کی بیان کردہ حدیث

تعریف

لغوی اعتبار سے "جہالت"، علم کا متضاد ہے اور اس کا معنی ہے کسی چیز کا نامعلوم ہونا۔ اصطلاحی مفہوم میں "الجھالۃ الراوی" کا مطلب ہے کہ ہمیں کسی حدیث کے راوی کی شخصیت یا اس کے حالات کا تفصیلی علم نہ ہو۔

عدم واقفیت کے اسباب

راوی سے عدم واقفیت کی تین بڑی وجوہات ہیں:

· راوی کے کثیر نام: بعض اوقات کوئی راوی اپنے نام یا کنیت یا لقب یا صفت یا پیشے یا نسب میں سے کسی ایک سے مشہور ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے اس کا مشہور نام لینے کی بجائے دوسرا نام لے دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ دو اشخاص ہیں۔ اس طرح سے غیر مشہور نام کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہوتا ہے کہ یہ کون شخص ہے۔

· قلت روایت: کسی شخص نے کثیر تعداد میں لوگ حدیث روایت نہیں کرتے۔ صرف ایک آدھ ہی ایسا شخص ہوتا ہے جو اس سے حدیث کو روایت کر رہا ہو۔

· واضح طور پر نام کی نشاندہی نہ ہونا: بعض اوقات اختصار یا کسی اور وجہ سے ایک راوی کا نام نہیں لیا جاتا۔ ایسی احادیث کو "مبہم" کہا جاتا ہے۔

مثالیں

· کثیر ناموں کی مثال: اس کی مثال محمد بن سائب بن بشر الکلبی ہیں۔ بعض لوگ انہیں دادا سے نسبت دیتے ہوئے محمد بن بشر کہتے ہیں، بعض لوگ انہیں حماد بن سائب کے نام سے جانتے ہیں، بعض انہیں ان کی کنیت "ابو نضر" سے، بعض "ابو سعید" سے، بعض "ابو ہشام" سے جانتے ہیں۔ یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ سب بہت سے لوگ ہیں حالانکہ یہ ایک ہی شخص ہیں۔

· قلت روایت کی مثال: ابو العشرا الدارمی ایک تابعی ہیں۔ ان سے سوائے حماد بن سلمۃ کے کسی اور نے حدیث روایت نہیں کی۔

· نام کی نشاندہی نہ کرنے کی مثال: جیسے راوی کہے، یہ حدیث مجھ سے 'فلاں' نے بیان کی، یا 'ایک شخص' نے بیان کی، یا 'شیخ' نے بیان کی وغیرہ وغیرہ۔

مجہول کی تعریف

مجہول اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شخصیت یا صفات مشہور نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا راوی ہو جس کی شخصیت یا صفات جانی پہچانی نہ ہوں۔ یا اس کا نام تو لوگوں کو معلوم ہو لیکن اس کی صفات جیسے کردار یا حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کا لوگوں کو علم نہ ہو۔

مجہول کی اقسام

مجہول افراد کی تین اقسام ہیں:

· مجہول العین: یہ وہ شخص ہے جس کا نام تو بیان کر دیا گیا ہو لیکن اس سے سوائے ایک راوی کے اور کوئی حدیث روایت نہ کرتا ہو۔ اس شخص کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہ کیا جائے گا، ہاں اگر اس شخص (کے حالات کی چھان بین کے بعد اس) کو ثقہ قرار دے دیا جائے تب اس حدیث کو قبول کر لیا جائے گا۔ اس شخص کو ثقہ قرار دینے کے دو طریقے ہیں۔ یا تو اس مجہول شخص سے روایت کرنے والے راوی کے علاوہ کوئی اور راوی بھی اس مجہول شخص کو ثقہ قرار دے یا پھر اس مجہول شخص کو "جرح و تعدیل" کے فن کا کوئی ماہر ثقہ قرار دے۔ مجہول العین شخص کی بیان کردہ حدیث کا الگ سے کوئی نام نہیں رکھا گیا۔ اس کی بیان کردہ حدیث "ضعیف" ہی میں شمار ہوتی ہے۔

· مجہول الحال: یہ وہ شخص ہے جس سے دو یا دو سے زائد افراد نے حدیث روایت کی ہو لیکن انہوں نے اس کے ثقہ ہونے کو واضح طور پر بیان نہ کیا ہو۔ اہل علم کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق ایسے شخص کی حدیث کو بھی مسترد کر دیا جائے گا۔ ایسی حدیث کا بھی کوئی خاص نام نہیں ہے۔ اسے بھی "ضعیف" حدیث ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔

· مبہم: یہ وہ شخص ہے جس کا نام سند میں نہ لیا گیا ہو (بلکہ 'ایک شخص' یا 'شیخ' کہہ دیا گیا ہو۔) ایسے شخص کی روایت کو بھی قبول نہ کیا جائے گا۔ ہاں اگر کسی دوسری سند میں اس کا نام واضح طور پر بیان کیا گیا ہو تب اس روایت کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ ایسے شخص کی روایت کو مسترد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ مبہم شخص اچھے کردار کا ہے یا نہیں؟ اگر یہ کہہ کر روایت کی گئی ہو کہ "مجھ سے ایک ثقہ شخص نے حدیث بیان کی" تب بھی اس روایت کو قبول نہ کیا جائے گا کیونکہ ایک شخص، ایک ماہر کے نزدیک ثقہ ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ دوسرے کے نزدیک وہ ثقہ نہ ہو۔ ایسی حدیث کا ایک الگ نام "مبہم" رکھا گیا ہے لیکن ہم نے اسے مجہول کے تحت ہی بیان کر دیا ہے۔ بیقونی اپنی نظم میں کہتے ہیں، "مبہم وہ حدیث ہے جس کی سند میں ایسا راوی ہو جس کا نام بیان نہ کیا گیا ہو۔"

عدم واقفیت کے اسباب سے متعلق مشہور تصانیف

· خطیب بغدادی کی کتاب "موضع اوھام الجمع و التفریق" ایک ہی راوی کے کثیر ناموں سے متعلق ہے۔

· قلیل روایت والے راویوں سے متعلق لکھی گئی کتب کو "کتب الوحدان" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ وہ کتب ہیں جن میں ان راویوں کے حالات مذکور ہیں جن سے صرف کوئی ایک شخص ہی حدیث روایت کرتا ہے۔ اس میں امام مسلم کی "الوحدان" شامل ہے۔

· مبہم راویوں سے متعلق کتب کو "المبہمات" کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال خطیب بغدادی کی کتاب "الاسماء المبہمۃ فی الانباء المحکمۃ" اور ولی الدین العراقی کی کتاب "المستفاد من مبہمات المتن والاسناد" ہے۔


بدعتی راوی کی بیان کردہ حدیث

تعریف

لغوی اعتبار سے بدعت کا معنی ہے نئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے دین کے مکمل ہو جانے کے بعد اس میں نئے عقائد و اعمال کے اضافے کو بدعت کہا جاتا ہے۔

بدعت کی اقسام

بدعت کی دو اقسام ہیں:

· کفر تک پہنچانے والی بدعت: ایسی بدعت جس کے باعث اس کو اختیار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے۔ جو شخص دین کے متواتر اور معلوم احکام کا انکار کرے یا دین کے بنیادی عقائد سے مختلف عقیدہ رکھے، اس کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مثلاً کوئی خدا کے وجود، آخرت، نماز، زکوۃ وغیرہ کا منکر ہو۔) (النخبة وشرحها ص 52)

· فسق و فجور کی حد تک پہنچانے والی بدعت: اس بدعت کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوتا البتہ گناہگار ضرور ہوتا ہے۔ (مثلاً کوئی شخص دین میں نت نئی عبادات یا وظائف ایجاد کر لے۔)

بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا حکم

اگر بدعتی کی بدعت حد کفر تک پہنچتی ہو تو اس کی روایت کو رد کر دیا جائے گا۔ اگر اس کی بدعت حد کفر تک نہ پہنچتی ہو بلکہ ایسا بدعتی فسق و فجور کی حد تک ہی محدود ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس کی روایت کو دو شرائط کی بنیاد پر قبول کیا جائے گا:

· وہ شخص اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو۔

· وہ ایسی حدیث روایت نہ کرے جو اس کی بدعت کو فروغ دینے والی ہو۔

بدعتی کی حدیث کا کیا کوئی خاص نام ہے؟

بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا کوئی خاص نام نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ مردود احادیث کی ایک قسم ہے۔ ایسی حدیث کو سوائے اوپر بیان کردہ شرائط کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔

نوٹ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جو دین دیا، وہ کامل ہے۔ جو شخص اس دین سے ہٹ کر کوئی نیا عقیدہ، نئی عبادت یا نیا حکم ایجاد کرتا ہے، وہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ آپ کا دین کامل نہیں اس لئے اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسا جرم ہے جس کے بعد ایسے شخص کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔

مسلمانوں کی تاریخ میں ایک المیہ یہ رہا ہے کہ عہد رسالت کے بعد پیدا ہو جانے والے نئے نئے فرقوں نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے احادیث گھڑ کر پھیلانا شروع کیں۔ بعض فرقے تو اس ضمن میں خاصے بدنام ہیں کہ انہوں نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے جعلی احادیث کا ہی سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ایسے افراد کی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنی بدعت کے بارے میں متعصب نہ ہو اور اس کی دعوت پھیلانے کے لئے ایسا نہ کرے تب اس کی حدیث قبول کی جا سکتی ہے۔

اس سے محدثین کی وسعت نظری اور ان کے غیر متعصب ہونے کا علم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی بیان کردہ حدیث کو بھی کچھ ضروری شرائط کے ساتھ قبول کر لیا کرتے تھے۔


کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ حدیث

کمزور حفاظت کی تعریف

کمزور حفاظت کا معنی ہے کہ اس نے احادیث کوصحیح طور پر محفوظ نہ رکھا ہو جس کے باعث اس کی احادیث میں غلطی کا امکان، صحت کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہو۔

کمزور حفاظت کی اقسام

کمزور حافظے کی دو صورتیں ہیں:

· کسی شخص کا حافظہ اوائل عمر سے لے کر اس کی موت تک کمزور رہا ہو۔ حدیث کے بعض ماہرین کے نزدیک اس کی بیان کردہ حدیث شاذ ہو۔

· کسی شخص کے حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت میں عمر کے کسی مخصوص حصے میں کمزوری واقع ہو گئی ہو۔ بڑھاپے ، بینائی کے زائل ہونے، یا اس شخص کی لکھی ہوئی کتاب کے جل کر ضائع ہو جانے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسے شخص کو "مُختَلِط" کا نام دیا گیا ہے۔

کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ احادیث کا حکم

جہاں تک تو پہلی قسم کے شخص کا تعلق ہے، تو ایسے شخص کی تمام روایات کو مسترد کر دیا جائے گا۔ رہا دوسری قسم کا یعنی "مختلط" شخص تو اس کی روایت کا حکم اس طرح سے ہے:

· اگر حادثے سے پہلے اس شخص کی بیان کردہ احادیث کو الگ کرنا ممکن ہو تو ان احادیث کو قبول کیا جائے گا۔

· حادثے کے بعد بیان کردہ احادیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔

· وہ احادیث جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اس شخص نے حادثے سے پہلے بیان کی ہیں یا بعد میں، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے گی جب تک ان کے بارے میں تفصیل معلوم نہ ہو جائے۔


ثقہ راویوں کی حدیث سے اختلاف کے باعث مردود حدیث

اگر کسی راوی پر یہ الزام عائد کیا گیا ہو کہ اس کی روایات ثقہ راویوں کی روایات سے مختلف ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں (مردود) حدیث کی پانچ اقسام پیدا ہوتی ہیں جن کی تفصیلات یہ ہیں:

اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد میں تغیر و تبدل کیا جائے یا کسی موقوف (صحابی تک پہنچنے والی) روایت کو مرفوع (حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچنے والی) روایت بنا دیا جائے تو یہ حدیث "مدرج" کہلاتی ہے۔

· اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد کو آگے پیچھے کر دیا جائے تو یہ حدیث "مقلوب" کہلاتی ہے۔

· اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد میں کسی راوی کا اضافہ کر دیا جائے تو اس روایت کو "المزید فی متصل الاسانید" کہا جائے گا۔

· اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے راوی کا نام تبدیل کر دیا جائے یا پھر متن میں متضاد باتیں پائی جائیں تو یہ حدیث "مضطرب" کہلاتی ہے۔

· اگر ثقہ راویوں سے اختلاف اس طریقے سے کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں سند تو صحیح طور پر باقی رہ جائے لیکن اس میں الفاظ تبدیل ہو جائیں تو اس حدیث کو "مصحف" کہا جائے گا۔ (النخبة وشرحها ص 48-49)

اب ہم ان تمام اقسام کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔




مُدرَج حدیث

مدرج حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مدرج"، ادراج کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی چیز میں کچھ داخل کر دینا یا اس میں کوئی اور چیز ملا دینا۔ اصطلاحی مفہوم میں "مدرج" اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تبدیلی کر دی گئی ہو یا متن میں کوئی بات اس طریقے سے داخل کر دی گئی ہو کہ اسے علیحدہ شناخت نہ کیا جا سکے۔

مدرج حدیث کی اقسام

مدرج حدیث کی دو اقسام ہیں: مدرج الاسناد اور مدرج المتن۔

         مدرج الاسناد اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تغیر و تبدل کیا گیا ہو۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک راوی حدیث کی سند بیان کر رہا تھا۔ سند بیان کرتے ہی اس نے (حدیث کی بجائے) اپنی طرف سے کوئی بات کر دی اور سننے والے نے یہ سمجھا کہ ان اسناد کا متن یہ بات ہے جو ان صاحب نے کر دی ہے۔
         اس کی مثال ثابت بن موسی کا قصہ ہے جو کہ ایک عابد و زاہد شخص تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ "جس شخص نے رات کی نماز کثرت سے ادا کی، دن میں اس کا چہرہ خوب صورت ہو جائے گا۔" (ابن ماجة ـ باب قيام الليل ـ جـ1 ص 422 رقم الحديث / 1333)

اصل قصہ یہ ہے کہ ثابت بن موسی، شریک بن عبداللہ القاضی کی محفل میں آئے۔ اس وقت شریک اپنے شاگردوں کو کچھ اس طرح حدیث لکھوا رہے تھے۔ "اعمش نے ابو سفیان سے اور انہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔" یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے تاکہ دور کے شاگردوں کو آواز پہنچانے والا شخص اتنا حصہ لکھوا دے۔ اسی دوران ان کی نظر ثابت بن موسی پر پڑی جو کہ اچانک وہاں آ گئے تھے اور ان کے منہ سے نکلا، "جس شخص نے رات کی نماز کثرت سے ادا کی، دن میں اس کا چہرہ خوب صورت ہو جائے گا۔" اس بات سے ان کا مقصد ثابت کی عبادت اور پرھیز گاری کی تعریف کرنا تھا۔ ثابت غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ ان کی یہ بات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث ہے اور انہوں نے اسے روایت کر دیا۔

         مدرج المتن اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے متن میں کوئی بات اس طرح داخل کر دی گئی ہو کہ اسے علیحدہ شناخت کرنا مشکل ہو جائے۔ اس کی تین صورتیں ممکن ہیں:

· حدیث کے شروع میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے تاہم حدیث کے درمیان کی نسبت اس کے واقعات زیادہ ہیں۔

· حدیث کے درمیان میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ ایسا ہونے کا امکان سب سے کم ہے۔

· حدیث کے آخر میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے۔

مدرج حدیث کی مثال

حدیث کے شروع میں ادراج:

حدیث کے شروع میں کوئی بات اس وجہ سے داخل کی جا سکتی ہے کہ راوی حدیث سے اخذ شدہ نتیجہ پہلے بیان کرے اور اس کے ساتھ ہی حدیث بیان کر دے۔ سننے والا یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ پوری بات حدیث ہی ہے۔ اس کی مثال خطیب بغدادی نے بیان کی ہے:

ابی قطن اور شبابہ شعبہ سے ، محمد بن زیاد سے اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "وضو اچھی طرح کیا کرو۔ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔"

اس حدیث میں "وضو اچھی طرح کیا کرو" سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات ہے جسے حدیث کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے۔

آدم شعبہ سے، وہ محمد بن زیاد سے، اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "وضو اچھی طرح کیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔"

خطیب یہ مثال بیان کر کہتے ہیں کہ ابو قطن اور شبابہ دونوں حضرات نے شعبہ سے اس حدیث کو روایت کرتے ہوئے اس جملے کو حدیث کا حصہ سمجھ لیا جبکہ کثیر تعداد میں راویوں نے اس حدیث کو بالکل اسی طرح سے روایت کیا جیسا کہ آدم نے شعبہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (تدريب الراوي جـ 1 ـ ص 270)

حدیث کے درمیان میں ادراج

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وحی کے آغاز سے متعلق بیان کرتی ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم غار حراء میں جا کر "تحنث" کیا کرتے تھے۔ یہ عبادت کو کہتے ہیں۔ آپ متعدد راتیں وہیں گزارا کرتے تھے۔" (البخاري ـ باب بدء الوحي)

اس حدیث میں "یہ عبادت کو کہتے ہیں" ابن شہاب الزہری کی بات ہے جو کہ اس حدیث میں داخل ہو گئی ہے (کیونکہ زہری حدیث بیان کرنے کے درمیان ہی میں "تحنث" کی وضاحت کرنے لگے تھے۔)

نوٹ: کچھ وقت کے لئے دنیا سے لا تعلق ہو کر کسی الگ تھلگ مقام پر عبادت کرنے کو تحنث کہا جاتا ہے۔ دور قدیم ہی سے عبادت کا یہ انداز دین دار افراد میں عام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بھی اعلان نبوت سے پہلے غار حرا میں تحنث کیا کرتے تھے۔ دین اسلام میں تحنث کو "اعتکاف" کی شکل دے کر جاری کر دیا گیا ہے۔ ابن شہاب زہری پر بعض محدثین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ اکثر اوقات بات کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے الفاظ کو حدیث میں داخل کر دیا کرتے تھے۔

حدیث کے آخر میں ادراج

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوع روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "غلام کے لئے دوہرا اجر ہے۔ اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، حج کرنا اور والدہ کی خدمت کا معاملہ نہ ہوتا تو میں غلامی کی حالت میں موت کو پسند کرتا۔" (البخاري في العتق)

اس حدیث میں "اس اللہ کی قسم۔۔۔۔" سے آخر تک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات حدیث کا حصہ بن گئی ہے۔ اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زبان سے ادا ہونا ناممکن ہے کیونکہ آپ غلامی کی خواہش نہ کر سکتے تھے اور نہ ہی آپ کی والدہ موجود تھیں جن کی آپ خدمت کر سکتے۔

نوٹ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور سے پہلے ہی غلامی دنیا میں موجود تھی۔ اس دور کا پورا معاشی نظام بالکل اسی طرح غلامی کی بنیاد پر چل رہا تھا جیسا کہ آج کل کا معاشی نظام ملازمت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ حضور نے غلامی کے خاتمے کے لئے تدریجی طریقہ اختیار کیا۔ اس ضمن میں ایک اہم کام "غلامی" سے متعلق نفسیات کو درست کرنا تھا کیونکہ اس دور میں غلام کو نہایت ہی حقیر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ آپ نے یہ فرما کر کہ "غلام کے لئے دوہرا اجر ہے"، غلاموں کی عزت و توقیر میں اضافہ فرمایا۔ غلامی سے متعلق اسلام نے جو اصلاحات کیں، ان کی تفصیل کے لئے میری کتاب "اسلام میں جسمانی و نفسیاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ" کا مطالعہ کیجیے۔

غلام کے لئے دوہرا اجر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دنیاوی مالک کی پابندیوں میں رہ کر اس کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی عبادت بھی کرتا ہے۔ اس کی محنت ایک آزاد شخص کی نسبت زیادہ ہے جس کے باعث اسے دوہرا اجر ملے گا۔

ادراج کرنے کی وجوہات

ادراج کرنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے مشہور ترین یہ ہیں:

· کسی شرعی حکم کا بیان

· حدیث کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس میں سے کسی شرعی حکم کا استنباط

· حدیث میں بیان کردہ کسی نئے لفظ کی وضاحت

ادراج کا علم کیسے ہوتا ہے؟

ادراج کا علم کئی ذرائع سے ہو سکتا ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:

· کسی دوسری روایت میں یہ حدیث موجود ہو اور اس میں داخل شدہ متن الگ سے بیان کر دیا گیا ہو۔

· اس فن کے اسپیشلسٹ اہل علم تحقیق کر کے واضح کر دیں کہ اس مقام پر الگ سے متن داخل کیا گیا ہے۔

· راوی خود اقرار کر لے کہ یہ اس کی اپنی بات ہے جو حدیث میں داخل ہو گئی ہے۔

· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زبان مبارک سے اس بات کا صادر ہونا ناممکن ہو۔

ادراج کا حکم

تمام محدثین اور فقہاء کے نزدیک ادراج کرنا حرام ہے۔ اس سے مستثنی صرف کسی نئے لفظ کی وضاحت ہے کہ وہ ممنوع نہیں ہے۔ اسی وجہ سے زہری اور دیگر ائمہ حدیث نے ایسا کیا ہے۔

نوٹ: ادراج میں چونکہ ایک شخص اپنی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف منسوب کر دیتا ہے جس پر جہنم کی وعید ہے، اس وجہ سے ادراج کو ہر صورت میں ممنوع ہونا چاہیے۔ اگر کسی نئے لفظ کی وضاحت بھی درکار ہو تو اسے الگ سے بیان کرنا چاہیے تاکہ کوئی شخص اس وضاحت کو حضور کا ارشاد نہ سمجھ بیٹھے۔

مدرج حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف

· خطیب بغدادی کی الفصل للوصل المدرج

· ابن حجر کی تقریب المنھج بترتیب المدرج، یہ خطیب کی کتاب کی تلخیص اور اس میں کچھ اضافہ جات پر مبنی ہے۔



مَقلُوب حدیث

مقلوب حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے مقلوب، "قلب" کا اسم مفعول ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کا رخ تبدیل کرنا۔ (یعنی مقلوب اس چیز کو کہتے ہیں جس کا رخ تبدیل کیا گیا ہو۔) اصطلاحی مفہوم میں مقلوب ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند یا متن میں سے ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے تبدیل کر دیا گیا ہو۔ دو الفاظ کو آگے پیچھے کر کے یا ایک کی جگہ دوسرا لفظ استعمال کر کے ایسا کیا جا سکتا ہے۔

مقلوب حدیث کی اقسام

مقلوب حدیث کی دو بڑی اقسام ہیں: مقلوب السند اور مقلوب المتن۔

· مقلوب السند اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تبدیلی کر دی گئی ہو۔ اس کی دو صورتیں ہیں:

· کسی راوی اور اس کے باپ کے نام کو الٹ دیا جائے جیسے کہ "کعب بن مرۃ" سے مروی کسی حدیث بیان کرتے ہوئے ان کے نام کو "مرۃ بن کعب" کر دیا جائے۔

· کسی راوی کے نام کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے راوی کا نام بیان کر دیا جائے۔ ایسا جان بوجھ کر حدیث بیان کرنے میں منفرد بننے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ "سالم" کی کسی مشہور حدیث میں سے ان کا نام ہٹا کر اس کی جگہ "نافع" کا نام بیان کر دیا جائے۔

مقلوب حدیث روایت کرنے والوں میں "حماد بن عمرو النصیبی" ایسا شخص تھا جو اس قسم کی تبدیلیاں کیا کرتا تھا۔ وہ روایت کرتا ہے:

حماد النصیبی نے الاعمش سے، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "جب تم راستے میں ان مشرکین سے ملو تو انہیں سلام میں پہل نہ کرو۔"

نوٹ: محدثین کو مسلم معاشرے میں بہت بلند اسٹیٹس حاصل تھا۔ حماد جیسے بعض لوگوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے اور اپنا سکہ جمانے کے لئے دوسروں کی بیان کردہ احادیث کو سند میں تبدیلیاں کر کے اپنے نام سے منسوب کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں بھی محدثین جیسا اسٹیٹس حاصل ہو سکے۔ علمی دنیا میں یہ کام چوری ہی کہلاتا ہے۔

یہ حدیث مقلوب ہے کیونکہ اس میں حماد نے "الاعمش" کا نام داخل کر دیا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے "سہیل بن ابی صالح" ہیں جو اسے اپنے والد سے اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ امام مسلم نے اس حدیث کی سند اسی طرح بیان کی ہے۔ یہ "قلب حدیث" کی ایسی قسم ہے جس کے راوی پر حدیث چوری کرنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔

مقلوب المتن اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے متن میں کوئی تبدیلی کی گئی ہو۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں:

· راوی حدیث کے متن میں بعض الفاظ آگے پیچھے کر دے۔ اس کی مثال صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو ان سات قسم کے افراد کے بارے میں ہے جنہیں روز قیامت اللہ تعالی کی رحمت کا خصوصی سایہ نصیب ہو گا۔ ان میں ایک شخص وہ ہے "جو اس طرح چھپا کر صدقہ کرتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ بائیں ہاتھ سے اس نے کیا خرچ کیا ہے۔" بعض راویوں نے اس حدیث کے الفاظ میں کچھ اس تبدیلی کر دی ہے کہ "اس کے بائیں ہاتھ کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس نے دائیں ہاتھ سے کیا خرچ کیا ہے۔" (البخاري في الجماعة ، ومسلم في الزكاة)

· راوی ایک حدیث کے متن کو دوسری حدیث کے سند سے ملا دے اور دوسری کے متن کو پہلی کی سند سے۔ یہ عام طور پر امتحان کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال وہ مشہور واقعہ ہے جو اہل بغداد اور امام بخاری کے ساتھ پیش آیا۔ بغداد کے اہل علم نے سو حدیثوں کی سندوں اور متنوں کو خلط ملط کر دیا تاکہ وہ امام بخاری کی یادداشت کا امتحان لے سکیں۔ امام بخاری نے ان تمام احادیث کی سندوں اور متنوں کو صحیح صحیح طریقے سے جوڑ دیا اور اس میں کوئی غلطی نہ کی۔ (تاريخ بغداد جـ2 ـ ص 20)

قلب کی وجوہات

مختلف راویوں کے احادیث میں قلب (یعنی تبدیلی) کرنے کی مختلف وجوہات ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

· اپنی انفرادیت کا سکہ جمانا تاکہ لوگ اس شخص کی طرف راغب ہوں اور اس سے احادیث روایت کرنا شروع کریں۔

· محدث کے حافظے اور حدیث کی حفاظت کے معیار کا امتحان لینا۔

· بلا ارادہ غلطی سے حدیث کے الفاظ کا آگے پیچھے ہو جانا۔

قلب کا حکم

اگر اپنی انفرادیت کا سکہ جمانے کے لئے حدیث میں جان بوجھ کر تبدیلی کی جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ناجائز کام ہے۔ یہ حدیث میں تبدیلی ہے جو کہ سوائے حدیثیں گھڑنے والوں کے اور کوئی نہیں کرتا۔

         اگر ایسا کسی محدث کے حفظ اور اہلیت کے امتحان کی غرض سے کیا جائے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ وہ محفل ختم ہونے سے پہلے صحیح بات بیان کر دی جائے۔
         جہاں تک غلطی یا بھول چوک کا تعلق ہے تو اس معاملے میں غلطی کرنے والا معذور ہے۔ لیکن اگر وہ یہ غلطیاں کثرت سے کرتا ہو تو حدیث کو محفوظ کرنے کے بارے میں اس کی اہلیت مشکوک ہو جاتی ہے اور اس راوی کو ضعیف قرار دے دیا جاتا ہے۔
         مقلوب حدیث، مردود احادیث ہی کی ایک قسم ہے۔

مقلوب حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب "رفع الارتیاب فی المقلوب من الاسماء و الالقاب"، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ مقلوب حدیث کی ایک خاص قسم سے متعلق ہے جس میں حدیث کی سند میں تبدیلی کی گئی ہو۔


"المزید فی مُتصل الاسانید" حدیث

"المزید فی متصل الاسانید" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مزید"، "زیادۃ" سے اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے "اضافہ کی گئی چیز"۔ متصل، منقطع کا متضاد ہے اور اس کا معنی ہے ملا ہوا۔ اسانید، سند کی جمع ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی ملی ہوئی سند میں کوئی اضافہ پایا جاتا ہو۔

نوٹ: ایک حدیث دو اسناد سے بیان کی گئی ہو اور ان میں سے ایک سند اس طرح سے ہو کہ A-B-C-D-E اور دوسری سند اس طرح سے ہو کہ A-B-D-E۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے کس سند کو درست سمجھا جائے۔ اگر B نے D سے براہ راست احادیث سنی ہوں اور دوسری سند کے راوی زیادہ مضبوط ہوں تو اس صورت میں دوسری سند کو صحیح قرار دیا جاتا ہے اور پہلی سند میں C کو اضافہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ کسی راوی کو لاحق ہونے والی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔

اس خامی کا تمام تر تعلق حدیث کی سند سے ہے۔ اس سے حدیث کے متن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محدثین نے حدیث کے بارے میں کس قدر احتیاط برتی ہے کہ وہ حدیث کی سند یا متن میں معمولی سی خامی برداشت نہیں کرتے بلکہ اسے بھی بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

"المزید فی متصل الاسانید" حدیث کی مثال

ابن مبارک، سفیان سے، وہ عبدالرحمٰن بن یزید سے، وہ بسر بن عبیداللہ سے، وہ ابو ادریس سے، وہ واثلہ سے، اور واثلہ سیدنا ابو مرثد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرو۔" (رواه مسلم ـ كتاب الجنائز)

مثال میں "اضافے" کی وضاحت

اس حدیث میں دو مقامات پر اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک تو "سفیان" اور دوسرے "ابو ادریس" کے ناموں میں۔ ان دونوں مقامات پر اضافے کی وجہ راوی کی غلط فہمی ہے۔ جہاں تک "سفیان" کے نام میں اضافے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ ابن مبارک کے بعد کے کسی راوی کی غلط فہمی ہے کیونکہ متعدد ثقہ راویوں نے ایسی روایات بیان کی ہیں جن میں ابن مبارک نے عبدالرحمٰن بن یزید سے براہ راست احادیث روایت کی ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے واضح الفاظ میں اسے بیان کیا ہے۔

         جہاں تک "ابو ادریس" کے نام کے اضافے کا تعلق ہے، تو اس کی وجہ ابن مبارک کو لاحق ہونے والی غلط فہمی ہے کیونکہ بہت سے ثقہ راویوں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن میں ابو ادریس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بہت سے ثقہ ماہرین نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ بسر بن عبداللہ نے براہ راست اس حدیث کو واثلہ سے روایت کیا ہے (اور ابو ادریس کا نام اس میں اضافی ہے۔)

اضافے کو مسترد کرنے کی شرائط

اضافے کو مسترد کرنے کی شرائط دو ہیں۔

· جو روایت اضافے کے بغیر ہو، اس کے راوی اضافے والی روایت کے راویوں سے زیادہ ماہر ہوں۔

· جس مقام پر اضافہ موجود ہو، وہاں ایک راوی کا اپنے شیخ الشیخ سے براہ راست حدیث روایت کرنا ثابت شدہ ہو۔

اگر یہ دونوں یا ان میں سے ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو پھر اضافے والی روایت کو ترجیح دی جائے گی اور بغیر اضافے کی روایت کو "منقطع" قرار دے دیا جائے گا۔ یہ انقطاع مخفی نوعیت کا ہو گا۔ اسی وجہ سے ایسی روایت کو "مرسل خفی" کہا جاتا ہے۔

اضافے سے متعلق اعتراضات

سند میں کسی نام کو اضافہ قرار دینے سے متعلق دو اعتراضات پیش کئے جاتے ہیں:

· جس سند میں اضافہ نہ پایا جاتا ہو اور اس میں لفظ "عن" کہہ کر روایت کی گئی ہو تو اس میں یہ امکان موجود ہے کہ سند منقطع ہو۔

· اگرچہ ایک شخص کا اپنے شیخ الشیخ سے براہ راست حدیث سننا ثابت بھی ہو، تب بھی یہ ممکن ہے کہ اس شخص نے دوسرے سے حدیث سنی اور دوسرے نے اس شخص کے شیخ الشیخ سے اس حدیث کو سنا ہو۔

جہاں تک تو پہلے اعتراض کا تعلق ہے تو یہ درست ہے۔ رہا دوسرا اعتراض، تو اس میں بیان کی گئی صورتحال ممکن ہے لیکن اہل علم اس وقت ہی اضافے کا حکم لگاتے ہیں جب کچھ شواہد و قرائن اس کی حمایت کے لئے موجود ہوں۔

"المزید فی متصل الاسانید" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف

خطیب بغدادی کی کتاب "تمییز المزید فی متصل الاسانید"۔


"مضطرب" حدیث

"مضطرب" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مضطرب"، "اضطراب" کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے کسی معاملے میں اختلال پیدا ہو جانا اور نظام میں فساد پیدا ہو جانا۔ اپنی اصل میں یہ لہروں کے اضطراب سے نکلا ہے کیونکہ لہریں کثرت سے حرکت کرتی ہیں اور بے ترتیبی سے ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔

         اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جو متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہو۔ تمام اسناد قوت میں ایک دوسرے کے برابر ہوں لیکن ان میں کوئی تضاد پایا جاتا ہو۔

"مضطرب" حدیث کی تعریف کی وضاحت

مضطرب وہ حدیث ہوا کرتی ہے جس میں ایسا تضاد پایا جاتا ہو جس کی موافقت کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ یہ تمام روایات ایسی اسناد سے مروی ہوں جو قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جا سکے۔

اضطراب کی تحقیق کرنے کی شرائط

مضطرب حدیث کی تعریف اور اس کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو اس وقت تک مضطرب قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اس میں دو شرائط نہ پائی جاتی ہوں:

· حدیث کی مختلف روایات میں ایسا اختلاف پایا جاتا ہو جس میں موافقت پیدا کرنا (Reconciliation) ممکن ہی نہ ہو۔

· روایات سند کی قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا بھی ممکن نہ ہو۔

اگر ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا ممکن ہو یا ان میں کسی وضاحت کے ذریعے موافقت پیدا کی جا سکتی ہو تو اس حدیث میں سے "اضطراب" ختم ہو جائے گا۔ اگر کسی ایک روایت کو ترجیح دی گئی ہے تو ہم اس پر عمل کریں گے اور اگر ان میں موافقت پیدا کر دی گئی ہے تو تمام احادیث پر عمل کریں گے۔

"مضطرب" حدیث کی اقسام

مضطرب حدیث کو اضطراب کی جگہ کے اعتبار سے دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مضطرب السند اور مضطرب المتن۔ ان میں سے پہلی قسم زیادہ طور پر پائی جاتی ہے۔

مضطرب السند کی مثال یہ حدیث ہے:

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا، "یا رسول اللہ! میں آپ کے بال سفید ہوتے دیکھ رہا ہوں۔" آپ نے فرمایا، "ہود اور ان کے بھائیوں (یعنی دیگر انبیاء کی قوموں پر عذاب) کے واقعات نے میرے بال سفید کر دیے ہیں۔" (رواه الترمذي ـ كتاب التفسير)

         امام دارقطنی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ اس حدیث کو صرف ابو اسحاق کی سند سے روایت کیا گیا ہے۔ ان کی بیان کردہ اسناد میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ کہیں تو کسی راوی نے اسے مرسل (صحابی کا نام بتائے بغیر) روایت کیا ہے اور کہیں موصول (ملی ہوئی سند کے ساتھ)۔ کسی نے اس کا سلسلہ سند سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تک پہنچایا ہے، کسی نے سعد رضی اللہ عنہ تک اور کسی نے عائشہ رضی اللہ عنہا تک۔ ان تمام روایتوں کے راوی ثقہ ہیں جس کی وجہ سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینا ممکن نہیں اور ان میں مطابقت پیدا کرنا بھی ممکن نہیں۔

مضطرب المتن حدیث کی مثال یہ حدیث ہے:

ترمذی شریک سے، وہ ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور وہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زکوۃ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، "زکوۃ کے علاوہ بھی مال سے متعلق ذمہ داری ہے۔"

ابن ماجہ نے یہی حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے "زکوۃ کے علاوہ مال سے متعلق کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔" عراقی کہتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کی کوئی توجیہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

اضطراب کس سے واقع ہو سکتا ہے؟

اضطراب کسی ایک راوی سے بھی واقع ہو سکتا ہے اگر وہ مختلف الفاظ میں ایک ہی حدیث کو روایت کر رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اضطراب ایک سے زائد راویوں سے ہو جائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف الفاظ میں اس حدیث کو روایت کر رہا ہو۔

"مضطرب" حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ

مضطرب حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اضطراب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ راوی حدیث کو صحیح طور پر محفوظ نہیں کر سکے۔

"مضطرب" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف

حافظ ابن حجر کی کتاب "المقترب فی بیان المضطرب۔"


"مُصحَّف" حدیث

"مصحف" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مصحف"، تصحیف کا اسم مفعول ہے جس کا مطلب ہے صحیفے یا کتاب کو پڑھنے میں غلطی کرنا۔ اسی سے لفظ "مصحفی" نکلا ہے جو اس شخص کو کہتے ہیں جو کتاب کو پڑھنے میں غلطی کر بیٹھے اور اس وجہ سے الفاظ کو تبدیل کر کے کچھ کا کچھ بنا دے۔

         اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے ثقہ راویوں سے منقول الفاظ یا معانی میں غلطی سے تبدیلی کر دی گئی ہو۔

"مصحف" حدیث کی اہمیت اور دقت

(فنون حدیث میں مصحف حدیث کا) یہ فن نہایت ہی خوبصورت اور مشکل فن ہے۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ حدیث کو روایت کرنے میں راویوں سے جو غلطیاں سرزد ہو گئی ہوں، ان کا پتہ چلایا جائے۔ اس عظیم کام کا بیڑا وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو امام دارقطنی جیسے ماہر اور حافظ حدیث ہوں۔

"مصحف" حدیث کی اقسام

اہل علم نے مصحف حدیث کی کئی طریقوں سے تقسیم کی ہے۔

1۔ موقع کے اعتبار سے تقسیم

موقع کے اعتبار سے مصحف حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

· اسناد میں تصحیف: اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں شعبہ نے العوام بن مراجم سے روایت کی ہے۔ اس حدیث کو لکھتے ہوئے غلطی سے ابن معین نے "العوام بن مزاحم" لکھ دیا ہے۔

· متن میں تصحیف: اس کی مثال سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں یہ الفاظ ہیں "احتجر فی المسجد۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسجد میں ان کاموں سے منع فرمایا۔۔۔۔" ابن لہیعۃ نے اس حدیث کو اس طرح سے لکھ لیا ہے، "احتجم فی المسجد۔۔۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسجد میں پچھنے لگوائے۔"

2۔ تصحیف کی وجہ کے اعتبار سے تقسیم

وجہ کے اعتبار سے بھی تصحیف کی دو اقسام ہیں:

· پڑھنے میں تصحیف: یہ اکثر اوقات ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پڑھنے والا تحریر کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتا جس کی وجہ خراب رائٹنگ یا نقاط کا موجود نہ ہونا ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے "من صام رمضان و اتبعہ ستا من الشوال۔۔۔ یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے۔۔۔"۔ اس حدیث کو ابوبکر الصولی نے غلطی سے اس طرح لکھ دیا ہے، "من صام رمضان و اتبعہ شیئا من الشوال۔۔۔ یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال میں کچھ کر کے اس کی پیروی کی۔۔۔۔"۔

· سننے میں تصحیف: بعض اوقات حدیث کو صحیح طور پر نہ سننے یا سننے والے کے دور بیٹھنے کے باعث غلطی لاحق ہو جاتی ہے۔ بولنے والا کچھ بولتا ہے اور سننے والا اس سے ملتا جلتا کوئی اور لفظ سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جو "عاصم الاحول" سے روایت کی گئی ہے لیکن بعض لوگوں نے اس نام کو "واصل الاحدب" لکھ دیا ہے۔

3۔ لفظ اور معنی کے اعتبار سے تقسیم

لفظ اور معنی کے اعتبار سے تصحیف بھی دو طرح کی ہوتی ہے:

· لفظ میں تصحیف: اس کی مثالیں اوپر گزر چکی ہیں۔

· معنی میں تصحیف: اس میں حدیث کا لفظ تو اپنی اصل حالت میں برقرار رہتا ہے لیکن اس سے کوئی ایسا معنی مراد لے لیا جاتا ہے جو درحقیقت مراد نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے "عنزۃ" کے لئے دعا فرمائی۔ ابو موسی العنزی یہ حدیث سن کر کہنے لگے، "ہماری قوم کو یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ہمارے لئے دعا فرمائی۔" وہ یہ سمجھے کہ اس حدیث میں "عنزۃ" سے مراد ان کا قبیلہ بنو عنزۃ ہے حالانکہ عنزۃ اس نیزے کو کہتے ہیں جو کہ نماز پڑھنے والا اپنے سامنے گاڑ لیتا ہے (تاکہ نمازی اس کے آگے سے گزر سکیں۔ ایسا کرنے والے کے لئے آپ نے دعا فرمائی۔)

4۔ حافظ ابن حجر کی "مصحف" حدیث کی تقسیم

حافظ ابن حجر نے ایک اور طریقے سے مصحف حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے:

· مصحف: یہ وہ حدیث ہے جس میں تحریر تو باقی رہے لیکن غلطی سے نقاط میں تبدیلی واقع ہو جائے (جیسے 'ف' کو 'ق' یا 'ج' کو 'خ' سمجھ لیا جائے۔)

· محرف: یہ وہ حدیث ہے جس میں تحریر تو باقی رہے لیکن غلطی سے حرف میں تبدیلی واقع ہو جائے (جیسے 'ف' کو 'غ' یا 'ج' کو 'د' میں تبدیل کر دیا جائے۔)

کیا تصحیف کی وجہ سے راوی پر الزام عائد کیا جاتا ہے؟

اگر کسی راوی سے شاذ و نادر تصحیف ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث کی محفوظ کرنے کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کوئی شخص بھی تھوڑی بہت غلطی کرنے سے پاک نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کثرت سے تصحیف (غلطی) کرتا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کمزور شخص ہے اور ثقہ راوی کے درجے کا نہیں ہے۔

کثرت سے تصحیف کرنے کی وجہ

تصحیف اس راوی سے اکثر اوقات ہو جایا کرتی ہے جو حدیث کو کسی شیخ سے سنے بغیر کتاب سے نقل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ حدیث نے کہا ہے کہ اس شخص سے حدیث کو قبول نہیں کرنا چاہیے جو سنے بغیر صرف کتاب پڑھ کر حدیث روایت کرتا ہے۔

نوٹ: حدیث کی روایت اور تدوین زیادہ تر پہلی تین صدیوں (630-900AD) میں کی گئی۔ اس دور میں رسم الخط اس حد تک ترقی یافتہ نہ ہو سکا تھا کہ محض کتاب میں دیکھ کر کسی لفظ کو صحیح صحیح پڑھا جا سکے۔ الفاظ پر نقاط نہ لگانے کے باعث 'ف' اور 'ق'، 'ط' اور 'ظ'، 'تا' اور 'یا' وغیرہ میں فرق سمجھنا مشکل تھا۔ اسی طرح تشدید اور دیگر اعراب بھی الفاظ پر موجود نہ ہوتے تھے اس وجہ سے 'یعلم' اور 'یعلّم' جیسے الفاظ میں فرق کرنا بسا اوقات دشوار ہو جایا کرتا تھا۔

رسم الخط کی اس خامی کو دور کرنے کے لئے محدثین نے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ کتاب کو اس کے مصنف یا مصنف کے کسی شاگرد سے دو بدو سنا جائے تاکہ غلطی (تصحیف) کا امکان باقی نہ رہے۔ اس طریقے نے اتنی اہمیت اختیار کی کہ محدثین کسی ایسے شخص سے حدیث کو قبول نہ کیا کرتے تھے جو کتاب کو بغیر استاد کے پڑھ کر حدیث روایت کرتا ہو۔ اس سے احتیاط کے اس درجے کا اندازہ ہوتا ہے جو تدوین حدیث میں ملحوظ خاطر رکھی گئی۔ موجودہ دور میں چونکہ عربی زبان کا رسم الخط اور پرنٹنگ اس معیار پر پہنچ چکی ہے کہ پڑھنے میں بڑی غلطی ہونے کا امکان کم ہو گیا ہے، اس وجہ سے یہ حکم دور جدید میں باقی نہیں رہا۔ البتہ حدیث کو باقاعدہ کسی ماہر استاذ سے پڑھنے سے دیگر فوائد ضرور حاصل ہو سکتے ہیں۔

"مصحف" حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

· دارقطنی کی "التصحیف"

· خطابی کی "اصطلاح خطاء المحدثین"

· ابو احمد العسکری کی "تصحیفات المحدثین"


"شاذ" اور "محفوظ" حدیث

"شاذ" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "شاذ"، شذ کا اسم مفعول ہے جو کہ انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاذ کا معنی ہے اکثریت کے مقابلے پر اکیلا (Exceptional) ہونا۔ اصطلاحی مفہوم میں شاذ ایسی قابل قبول روایت کو کہتے ہیں جو کہ کسی دوسری اپنے سے زیادہ مضبوط روایت کے خلاف ہو۔

"شاذ" حدیث کی تعریف کی وضاحت

شاذ روایت قابل قبول ہوا کرتی ہے کیونکہ اس کے راوی اچھے کردار کے اور احادیث کو محفوظ کرنے والے ہوتے ہیں۔ دوسری روایت اس کی نسبت قابل ترجیح اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اس کے راوی زیادہ ثقہ ہوں یا اسے متعدد اسناد سے روایت کیا گیا ہو یا کسی اور وجہ سے ترجیح دی گئی ہو۔ (جس حدیث کو ترجیح دی جائے وہ محفوظ کہلاتی ہے۔)

         شاذ حدیث کی تعریف سے متعلق ماہرین میں اختلاف رائے ہے لیکن یہ وہ تعریف ہے جسے حافظ ابن حجر نے اختیار کیا ہے اور فرمایا ہے، "اصطلاحات کے علم میں یہ تعریف زیادہ قابل اعتماد ہے۔" (النخبة وشرحها ص 37)

شذوذ (شاذ ہونا) کہاں پایا جاتا ہے؟

کسی حدیث کی سند یا متن دونوں میں شذوذ پایا جا سکتا ہے۔ سند میں شذوذ پائے جانے کی مثال یہ حدیث ہے۔

ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اپنی سندوں سے ابن عینیہ، وہ عمرو بن دینار سے، وہ عوسجۃ سے اور وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں فوت ہو گیا۔ اس کا سوائے ایک آزاد کردہ غلام کے کوئی وارث نہ تھا جسے وہ پہلے ہی آزاد کر چکا تھا۔

ابن عینیہ نے اس حدیث کو ابن جریج وغیرہ سے بھی روایت کیا ہے۔ حماد بن زید نے اس سند سے مختلف ایک سند پیش کی ہے جس میں انہوں نے عمرو بن دینار اور عوسجۃ سے روایت کیا ہے لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

         ان دونوں روایتوں میں سے ابو حاتم نے ابن عینیہ کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ حماد بن زید بھی اگرچہ کردار اور ضبط کے معاملے میں ثقہ راوی ہیں لیکن ابو حاتم نے ابن عینیہ کی روایت کو کثرت تعداد کے باعث ترجیح دی ہے۔

متن میں شذوذ پائے جانے کی مثال یہ حدیث ہے:

ابو داؤد اور ترمذی اپنی سند سے عبدالواحد بن زیاد سے، وہ اعمش سے، وہ ابو صالح سے اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جب تم سے کوئی فجر کی نماز ادا کرے تو اس کے بعد وہ (اگر سونا چاہے تو) دائیں کروٹ پر سوئے۔"

امام بیہقی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں عبدالواحد نے اس سے مختلف بات کی ہے جو کثیر تعداد میں لوگوں نے بیان کی ہے۔ فجر کے بعد دائیں کروٹ پر سونا نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا عمل ہے نہ کہ آپ کا ارشاد۔ اعمش کے ثقہ شاگردوں میں صرف عبدالواحد ہی ایسے شخص ہیں جو اس حدیث کو حضور کے قول کے طور پر روایت کر رہے ہیں (جبکہ ان کے باقی شاگرد اس کو آپ کے عمل کے طور پر روایت کرتے ہیں۔)

"محفوظ" حدیث کی تعریف

محفوظ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی مخالفت کے باعث دوسری حدیث کو شاذ قرار دیا جائے۔ اس کی مثالیں اوپر گزر چکی ہیں۔

"شاذ" اور "محفوظ حدیث کا حکم

شاذ حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا اور محفوظ حدیث کو قبول کیا جائے گا۔


مقبول و مردود دونوں قسم کی احادیث پر مشتمل تقسیم



سبق 1: نسبت کے اعتبار سے حدیث کی تقسیم

منسوب کئے جانے کے اعتبار سے حدیث کی چار اقسام ہیں:

· حدیث قدسی

· مرفوع

· موقوف

· مقطوع

حدیث قدسی

حدیث قدسی کی تعریف

لغوی اعتبار سے قدسی، قدس سے نسبت ہے۔ اس کا معنی ہے پاک۔ اصطلاحی مفہوم میں ایسی حدیث کو حدیث کو قدسی کہا جاتا ہے جو ذات قدسی یعنی اللہ تبارک و تعالی کی طرف منسوب ہو۔ اس حدیث کی سند کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ہوتے ہوئے اللہ تعالی تک پہنچ جاتا ہے۔

حدیث قدسی اور قرآن مجید میں فرق

حدیث قدسی اور قرآن مجید میں کئی فرق پائے جاتے ہیں مثلا:

· قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالی کی طرف سے نازل کئے گئے ہیں جبکہ حدیث قدسی کا صرف مفہوم اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ہیں۔

· قرآن مجید کو بطور عبادت تلاوت کیا جاتا ہے جبکہ حدیث قدسی کو بطور عبادت تلاوت نہیں کیا جاتا۔

· کسی آیت کے قرآن کا حصہ ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہم تک تواتر سے پہنچی ہو۔ حدیث قدسی کے لئے تواتر کی شرط نہیں ہے۔

احادیث قدسی کی تعداد

احادیث نبوی کی نسبت احادیث قدسی کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ یہ تعداد دو سو سے کچھ اوپر ہے۔

حدیث قدسی کی مثال

مسلم اپنی صحیح میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اور آپ اللہ تبارک و تعالی سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا، "اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کر لیا ہے اور میں نے اسے تمہارے لئے بھی حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔۔۔۔" (مسلم بشرح النووي ـ جـ16 ـ ص 131 وما بعدها)

حدیث قدسی کی روایت کرنے کے الفاظ

حدیث قدسی کو دو طرح کے الفاظ میں روایت کیا گیا ہے:

· "قال رسول الله فيما يرويه عن ربه عزوجل" یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے روایت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

· "قال الله تعالی، فيما رواہ عنه رسول الله" یعنی اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا جیسا کہ اس سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے روایت کیا۔

حدیث قدسی سے متعلق مشہور تصانیف

اس ضمن میں عبدالروؤف المناوی کی "الاتحافات السنیۃ بالاحادیث القدسیۃ" تصنیف کی گئی ہے۔ اس میں انہوں نے 272 احادیث جمع کی ہیں۔


"مَرفُوع" حدیث

مرفوع حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے 'مرفوع'، رفع کا اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے بلند ہونا۔ حدیث کو یہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کی نسبت اس ہستی کی طرف ہے جن کا درجہ بلند ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم۔ اصطلاحی مفہوم میں ایسی حدیث کو مرفوع کہا جاتا ہے جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔ اس حدیث میں آپ کا ارشاد، عمل، صفت یا تقریر (یعنی خاموشی کے ذریعے کسی کام کی اجازت دینے) کو بیان کیا گیا ہوتا ہے۔

مرفوع حدیث کی تعریف کی وضاحت

مرفوع ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی قول، عمل، صفت یا تقریر (یعنی خاموش رہ کر اجازت دینے) کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔ یہ نسبت کسی صحابی نے بیان کی ہو یا کسی اور نے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حدیث کی سند خواہ متصل ہو یا منقطع، وہ مرفوع ہی کہلائے گی۔ اس تعریف کے اعتبار سے مرفوع میں موصول، مرسل، متصل، منقطع ہر قسم کی روایت شامل ہو جاتی ہے۔ یہ تعریف مشہور ہے لیکن اس ضمن میں دیگر نقطہ ہائے نظر بھی موجود ہیں۔

مرفوع حدیث کی اقسام

تعریف کے اعتبار سے مرفوع حدیث کی چار اقسام ہیں:

· مرفوع قولی: جس میں کسی قول کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔

· مرفوع فعلی: جس میں کسی فعل یا عمل کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔

· مرفوع تقریری: جس میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ کوئی کام حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے کیا گیا تو آپ نے اس سے روکا نہیں۔ اس سے اس کام کا جائز ہونا ثابت کیا جا سکتا ہے۔

· مرفوع وصفی: جس میں کسی صفت کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔

مرفوع حدیث کی مثالیں

· مرفوع قولی کی مثال یہ ہے کہ صحابی یا کوئی اور یہ بیان کرے، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔۔"

· مرفوع فعلی کی مثال یہ ہے کہ صحابی یا کوئی اور یہ بیان کرے، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس طرح سے یہ کام کیا۔۔۔۔۔"

· مرفوع تقریری کی مثال یہ ہے کہ صحابی یا کوئی اور یہ بیان کرے، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی موجودگی میں ایسا کیا گیا۔۔۔۔۔"۔ یہ بات روایت نہ کی گئی ہو کہ آپ نے اس کام کو دیکھ کر اس سے منع فرمایا۔

· مرفوع وصفی کی مثال یہ ہے کہ صحابی یا کوئی اور یہ بیان کرے، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم لوگوں میں سب سے عمدہ اخلاق کے حامل تھے۔"

"مَوقُوف" حدیث

موقوف حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے 'موقوف'، وقف کا اسم مفعول ہے یعنی ٹھہری ہوئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کا سلسلہ سند صحابی پر پہنچ کر رک جائے اور اس کے دیگر سلسلہ ہائے اسناد نہ پائے جاتے ہوں۔ یہ وہ حدیث ہوتی ہے جس میں کسی قول، فعل یا تقریر کی نسبت صحابی سے کی گئی ہو۔

موقوف حدیث کی تعریف کی وضاحت

موقوف حدیث وہ ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند صحابی پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور اسے ایک یا ایک سے زائد صحابہ سے منسوب کیا گیا ہوتا ہے۔ سند خواہ متصل ہو یا منقطع، یہ حدیث موقوف ہی کہلاتی ہے۔

موقوف حدیث کی مثالیں

· موقوف قولی کی مثال بخاری کی یہ روایت ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "لوگوں سے وہی حدیث بیان کرو جسے تم جانتے ہو۔ کیا تم اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ منسوب کرو گے؟"

· موقوف فعلی کی مثال امام بخاری کا یہ قول ہے، "سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تیمم کی حالت میں نماز کی امامت فرمائی۔" (البخاري ـ كتاب التيمم ـ جـ1 ص 82)

· موقوف تقریری کی مثال بعض تابعین کا یہ قول ہے، "ایک صحابی کے سامنے یہ کام کیا گیا لیکن انہوں نے اس سے منع نہیں فرمایا۔"

لفظ "موقوف" کا دیگر استعمال

لفظ 'موقوف' کو ایسی حدیث کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے جس کا سلسلہ سند صحابی کے علاوہ کسی اور پر جا کر رک گیا ہو۔ ایسی صورت میں واضح طور پر نام لیا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کہا جائے، "یہ حدیث ابن شہاب زہری پر موقوف ہے یا عطاء الخراسانی پر موقوف ہے۔"

فقہاء خراسان کے نزدیک "موقوف" کی تعریف

(قرون وسطی میں) خراسان کے رہنے والے فقہاء کے نزدیک مرفوع حدیث کو "خبر" اور موقوف حدیث کو "اثر" کہا جاتا ہے۔ محدثین ان میں سے ہر ایک کو "اثر" کہتے ہیں کیونکہ یہ "اثرت الشئی" سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے روایت یا نقل کرنا۔

مرفوع قرار دی جانے والی موقوف احادیث سے متعلق احکام

بعض اوقات اپنے ظاہری الفاظ یا شکل میں کوئی حدیث موقوف ہوتی ہے لیکن اس میں گہرے غور و فکر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث دراصل مرفوع ہی ہے۔ اس حدیث کو "مرفوع حکمی" کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ حدیث بظاہر موقوف لیکن درحقیقت مرفوع ہوتی ہے۔ اس کی یہ صورتیں ممکن ہیں:

· صحابی کوئی ایسی بات کہیں جس میں اجتہاد کرنے کی گنجائش نہ ہو، نہ ہی وہ بات کسی لفظ کی تشریح سے متعلق ہو اور نہ ہی وہ صحابی اہل کتاب سے روایت کرنے کے بارے میں مشہور ہوں تو وہ حدیث مرفوع ہوتی ہے۔

a ماضی کے واقعات جیسے کائنات کی تخلیق کی ابتدا وغیرہ سے متعلق حدیث۔

a مستقبل کے امور سے متعلق خبریں جیسے جنگیں، فتنے اور قیامت کی علامتیں۔

a کسی مخصوص کام کو کرنے پر ثواب یا عذاب کی تفصیل جیسے یہ کہا جائے، "اگر یہ کام کرو گے تو اس کا یہ اجر ملے گا۔"

a صحابی کوئی ایسا کام کر رہا ہو جس میں اجتہاد کرنے کی کوئی گنجائش نہ ہو جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سورج گرہن کی نماز میں ہر رکعت میں دو سے زیادہ رکوع کئے۔

· صحابی یہ بیان کریں کہ ہم اس طرح کرتے تھے یا یہ کہا کرتے تھے یا اس میں ہمیں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا تھا۔

a اگر صحابہ کے اس قول و فعل کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے سے ہو تو صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوع ہے۔ جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، "ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے۔" (البخاري ومسلم)

a اگر صحابہ کے قول و فعل کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے سے قائم نہ کیا گیا ہو تو اہل علم کی اکثریت کے نزدیک یہ حدیث موقوف ہے۔ جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ہی کا ارشاد ہے، "جب ہم بلندی کی طرف جاتے تو اللہ اکبر کہا کرتے اور جب نیچے اترتے تو سبحان اللہ کہا کرتے تھے۔" (البخاري)

· اگر صحابی یہ کہیں، "ہمیں اس کام کا حکم دیا گیا یا اس کام سے منع کیا گیا" تو یہ بھی مرفوع حدیث ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے:

a بعض صحابہ کا یہ ارشاد جیسے "سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے کلمات دو دو بار کہنے اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہنے کا حکم دیا گیا۔" (البخاري ومسلم)

a سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، "ہمیں جنازے کے پیچھے چلنے سے روک دیا گیا اور اسے ہمارے سامنے نہ روکا جاتا۔" (البخاري ومسلم)

a ابو قلابہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب کرتے ہیں، "یہ سنت ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ شخص کسی کنواری لڑکی سے شادی کرے تو اس کے ہاں شادی کے فوراً بعد سات دن گزارے۔" (البخاري ومسلم)

· حدیث کا راوی، حدیث بیان کرتے ہوئے صحابی کے نام کے ساتھ کچھ مخصوص الفاظ بولے تو یہ حدیث مرفوع ہوتی ہے۔ یہ مخصوص الفاظ چار ہیں: یرفعہ (اسے بلند کیا گیا ہے)، ینمیہ (اسے بڑھایا گیا ہے)، یبلغ بہ (اسے پہنچایا گیا ہے) اور روایۃً (اسے روایت کیا گیا ہے)۔ اس کی مثال اعرج کی حدیث ہے جو وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایۃً بیان کرتے ہیں۔ "ہم لوگ ایسی قوم سے جنگ کریں گے جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی۔" (غالباً یہاں تاتاری مراد ہیں۔) (البخاري)

· صحابی کسی حدیث کو قرآن مجید کی کسی آیت کے شان نزول سے متعلق بیان کر رہا ہو تو وہ حدیث بھی مرفوع ہوتی ہے۔ اس کی مثال سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے، "یہودی یہ کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی شرمگاہ (Vegina) میں اس کی پچھلی جانب سے جنسی عمل کرے تو اس کی اولاد بھینگی ہوتی ہے۔ اس (غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے) اللہ تعالی نے آیت نازل کی کہ تمہاری خواتین تمہارے لئے کھیت کی مانند ہیں سو جس طریقے سے چاہو ان سے ازدواجی تعلقات قائم کرو۔" (مسلم)

نوٹ: ان احادیث میں کچھ نکات قابل تشریح ہیں:

· اہل کتاب سے روایت نہ کرنے کی شرط اس وجہ سے لگائی گئی ہے کہ ماضی یا مستقبل کے واقعات کو کوئی صحابی یہود و نصاری کے علماء سے سن کر بھی بیان کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے یہ بات لازماً حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ہی سنی ہو گی کیونکہ ان کے علم کا اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہ تھا۔

· عزل فیملی پلاننگ کا ایک قدرتی طریقہ ہے۔ ازدواجی تعلقات میں جب مرد اپنا مادہ خاتون کے جسم سے باہر خارج کرے تو اسے عزل کہا جاتا ہے۔ عہد رسالت میں لوگ اس طریقے سے فیملی پلاننگ کیا کرتے تھے۔

· خواتین کو جنازے کے پیچھے جانے سے روکنے کا مقصد یہ ہے کہ خواتین جنازوں پر اکثر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین ڈالتی ہیں۔

· کنواری لڑکی کے پاس سات دن گزارنے سے متعلق حدیث میں بڑی حکمت کی بات ہے کہ کنواری لڑکی کو نئے خاوند اور نئے گھر میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اس وجہ سے خاوند کو اس کے پاس کم از کم سات دن گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔

· پچھلی جانب سے جنسی عمل کرنے سے مراد یہ ہے کہ خاوند گھوڑے وغیرہ کے اسٹائل میں صحیح مقام پر جنسی عمل کرے نہ کہ غیر فطری عمل کرنے لگے۔ دیگر احادیث میں واضح طور پر غیر فطری عمل کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

کیا موقوف حدیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے؟

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ موقوف حدیث صحیح، حسن، ضعیف کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موقوف حدیث اگر 'صحیح' کے درجے کی ہو تو کیا اس سے دینی امور میں استدلال کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنی اصل میں تو موقوف حدیث سے دینی احکام اخذ نہیں کئے جا سکتے کیونکہ یہ صحابہ کرام کے اقوال و افعال پر مشتمل ہے (اور دینی حکم ثابت ہونے کے لئے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے تعلق ہونا ضروری ہے۔)

         جیسا کہ مرسل کی بحث میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ اگر موقوف حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اس کی مدد سے ضعیف حدیث، مضبوط ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ ہر حال میں سنت کی پیروی کرتے تھے۔ یہ اس صورت میں ہے اگر موقوف حدیث، مرفوع حکمی نہ ہو۔ اگر وہ مرفوع حکمی ہو تو یہ مرفوع حدیث کی طرح ہی حجت ہے۔


"مَقطُوع" حدیث

مقطوع حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے مقطوع، قطع کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے کٹا ہوا۔ یہ وصل یعنی ملا ہوا کا متضاد ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں ایسی حدیث کو مقطوع کہا جاتا ہے جس کا سلسلہ سند تابعی یا اس کے علاوہ کسی اور (تبع تابعی) پر پہنچ کر ختم ہو جائے۔ ایسی حدیث میں تابعی کے قول و فعل کو بیان کیا جاتا ہے۔

مقطوع حدیث کی تعریف کی وضاحت

مقطوع وہ حدیث ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند تابعی یا تبع تابعی یا کسی اور کے قول و فعل پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ مقطوع اور منقطع حدیث ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ منقطع حدیث کا تعلق حدیث کی سند سے اور مقطوع کا تعلق متن سے ہوتا ہے۔ مقطوع حدیث وہ ہوتی ہے جس میں تابعی کا قول و فعل بیان کیا جائے اگرچہ اس کی سند اس تابعی تک متصل ہو۔ اس کے برعکس منقطع حدیث وہ ہوتی ہے جس کی سند کا سلسلہ کٹا ہوا ہو۔ اس کا متن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

مقطوع حدیث کی مثالیں

مقطوع قولی کی مثال حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے جو کہ بدعتی کی امامت میں نماز ادا کرنے سے متعلق ہے، "اس کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ اس کی بدعت کی ذمہ داری خود اس پر ہے۔" (البخاري)

         مقطوع فعلی کی مثال ابراہیم بن محمد بن المنتشر کا یہ قول ہے، "مسروق (تابعی) اپنے اور اپنے اہل و عیال کے درمیان ایک پردہ ٹانگ لیتے اور نماز شروع کر دیتے۔ اس طرح انہیں اہل و عیال اور دنیاوی امور کی کوئی خبر نہ رہتی۔" (حلية الأولياء جـ 2 ـ ص 96)

مقطوع حدیث سے دینی احکام اخذ کرنے کا حکم

اگرچہ مقطوع حدیث متعلقہ تابعی سے ثابت شدہ ہو، اس کے باوجود احکام شرعیۃ میں اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ محض کسی مسلمان کا قول یا فعل ہے۔ ہاں اگر کچھ ایسے شواہد و قرائن موجود ہوں جن سے یہ علم ہوتا ہو کہ یہ دراصل مرفوع حدیث ہے تو اس صورت میں اس کا وہی حکم ہو گا جو مرسل حدیث کا ہوا کرتا ہے۔ ان شواہد کی مثال یہ ہے کہ بعض راوی، تابعی کا نام ذکر کر کے لفظ 'یرفعہ' یعنی 'انہوں نے اسے مرفوع طریقے سے روایت کیا' کہہ دیتے ہیں۔

مقطوع اور منقطع

بعض محدثین جیسے شافعی و طبرانی نے لفظ 'مقطوع' کو 'منقطع' حدیث کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ منقطع وہ حدیث ہوتی ہے جس کی سند کا سلسلہ ٹوٹا ہوا ہو۔ ان کی یہ اصطلاح عام محدثین میں مشہور نہیں ہے۔ امام شافعی کے ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اصطلاحات کا فن ایجاد ہونے سے پہلے ایسا کیا۔ امام طبرانی کا یہ استعمال اصطلاحات کے فن میں کسی حد تک برداشت کر لیا گیا ہے۔

مقطوع حدیث کہاں پائی جاتی ہے؟

· مُصَنَف ابن ابی شیبہ

· مصنف عبدالرزاق

· ابن جریر، ابو حاتم اور ابن المنذر کی تفاسیر

نوٹ: موقوف اور مقطوع احادیث اگرچہ مرفوع کے درجے پر نہ پہنچتی ہوں، کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ان سے صحابہ و تابعین کے اقوال و احوال کا علم ہو سکتا ہے۔ ان روایات کو اگرچہ احکام شرعیہ کے ثابت کرنے میں استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ حضرات شریعت عطا کرنے والے نہیں ہیں لیکن یہ روایات اس دور کی معاشرت اور صحابہ و تابعین کے فہم دین سے متعلق نہایت اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔

"مُسنَد" حدیث

مسند حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے لفظ 'مسند'، اسند کا اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے منسوب کی گئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں مسند اس مرفوع حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک ملا ہوا ہو۔

مسند حدیث کی مثال

امام بخاری یہ حدیث روایت کرتے ہیں:

عبداللہ بن یوسف نے مالک سے، انہوں نے ابو الزناد سے، انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جب کتا تم سے کسی کے برتن میں منہ ڈال جائے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھوؤ۔" (البخاري)

یہ ایک مرفوع حدیث ہے جس کا سلسلہ سند شروع سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک ملا ہوا ہے۔

"مُتَصِّل" حدیث

متصل حدیث کی تعریف

لغوی مفہوم میں 'متصل'، اتصل کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے ملا ہوا۔ یہ منقطع کا متضاد ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کا سلسلہ سند ملا ہوا ہو اگرچہ یہ مرفوع یا موقوف ہو یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم یا کسی صحابی تک پہنچ کر سلسلہ سند ختم ہو جائے۔ اسے "موصول" حدیث بھی کہا جاتا ہے۔

متصل حدیث کی مثال

متصل مرفوع کی مثال یہ ہے: مالک—ابن شہاب—سالم بن عبداللہ—ان کے والد (یعنی عبداللہ بن عمر)—رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم۔ آپ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

متصل موقوف کی مثال یہ ہے: مالک—نافع—ابن عمر رضی اللہ عنہما۔ ابن عمر کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔

کیا تابعی کے قول کو بھی متصل کہا جا سکتا ہے؟

عراقی کہتے ہیں کہ تابعی کے قول کو مطلقاً متصل کہنا درست نہیں ہے، ہاں شرط لگا کر اس قول کو متصل کہا جا سکتا ہے۔ یہ شرط محدثین کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کہا جائے، "یہ سعید بن مسیب تک متصل ہے، یا ابن شہاب زھری تک متصل ہے، یا مالک تک متصل ہے، وغیرہ وغیرہ۔" اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ان احادیث کو 'مقطوع' کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی احادیث کو 'متصل' کہنا اسی طرح کا عمل ہے جیسا کہ بسا اوقات لغت میں ایک ہی چیز کے دو ایسے نام رکھ دیے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہوتے ہیں۔

نوٹ: یہاں کسی بات کا درست ہونا یا نہ ہونا شرعی معنی میں نہیں ہے بلکہ فن حدیث کے اعتبار سے ہے۔ ہر فن میں کچھ قوانین مقرر کر دیے جاتے ہیں جن کے تحت اس فن میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔

زیادات الثقات

زیادات الثقات کا معنی

لغوی اعتبار سے 'زیادات'، زیادہ کی جمع ہے اور 'ثقات'، ثقہ کی۔ ثقہ اس شخص کو کہتے ہیں جو اچھے کردار کا ہو اور حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ اگر کسی حدیث کو کچھ ثقہ راویوں نے ایک انداز میں روایت کیا ہو، اور دوسری طرف کچھ اور ثقہ راویوں نے اسی حدیث کو کچھ اضافی الفاظ کے ساتھ روایت کر دیا ہو تو یہ اضافی الفاظ 'زیادات الثقات' کہلاتے ہیں۔

زیادات الثقات کے ماہرین

بعض اہل علم نے زیادات الثقات کا علم حاصل کرنے اور انہیں جمع کرنے کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ ان میں سے یہ ائمہ زیادہ مشہور ہیں:

· ابوبکر عبداللہ بن محمد بن زیاد نیشاپوری

· ابو نعیم الجرجانی

· ابو الولید حسان بن محمد القرشی

زیادات الثقات کا مقام

زیادات الثقات متن اور سند دونوں میں پائی جا سکتی ہیں۔ متن میں یہ کسی جملے یا لفظ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف سند میں اضافی الفاظ کے نتیجے میں کوئی موقوف حدیث، مرفوع اور مرسل حدیث متصل ہو سکتی ہے۔

متن میں اضافے کا حکم

متن میں اضافے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے:

· بعض اہل علم اسے مطلقاً قبول کر لیتے ہیں۔

· بعض اسے مطلقاً مسترد کر دیتے ہیں۔

· بعض اہل علم کسی حدیث کے ان اضافی الفاظ کو مسترد کر دیتے ہیں جو اسی راوی نے بیان کیے ہوں جس نے پہلے بغیر اضافے کے حدیث روایت کی تھی۔ یہ اہل علم ان اضافی الفاظ کو قبول کر لیتے ہیں جو کسی اور ثقہ راوی نے روایت کیے ہوں۔ (علوم الحديث ص 77 والكفاية ص 424)

ابن صلاح نے 'زیادہ الثقات' کو ان کے رد و قبول کے اعتبار سے تین اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ یہ سب سے اچھی تقسیم ہے اور امام نووی وغیرہ نے بھی اسی تقسیم کی موافقت کی ہے:

· اگر حدیث کے اضافی الفاظ، ثقہ راویوں کی کسی حدیث سے متضاد مفہوم نہ پیش کر رہے ہوں تو انہیں قبول کیا جائے گا۔ یہ اسی حدیث کی طرح ہیں جو کسی ایک شخص نے روایت کی ہو۔

· اگر اضافی الفاظ، ثقہ راویوں کی کسی حدیث سے متضاد ہوں تو انہیں رد کر دیا جائے گا۔ یہ شاذ حدیث کی طرح ہیں۔

· اگر اضافی الفاظ سے، ثقہ راویوں کی کوئی مطلق حکم مشروط ہو جائے یا عمومی حکم، کسی مخصوص صورت حال کے لئے ہو جائے تو اس قسم کے اضافی الفاظ کے بارے میں ابن صلاح نے کوئی بات نہیں کی۔ امام نووی کہتے ہیں، "صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ اس قسم کے الفاظ کو قبول کرنا چاہیے۔" (امام شافعی اور مالک ان الفاظ کو قبول کرنے کے قائل ہیں جبکہ احناف اس کی تردید کرتے ہیں۔) (انظر التقريب مع التدريب جـ1 ـ ص 247)

زیادات الثقات کی مثالیں

متضاد مفہوم کے بغیر اضافہ

متضاد مفہوم کے بغیر اضافے کی مثال مسلم کی یہ حدیث ہے:

اعمش نے ابو رزین اور ابو صالح سے اور انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جب کتا تم سے کسی کے برتن میں منہ ڈال جائے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھوؤ۔"

اعمش کے شاگردوں نے اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا ہے۔ ان کے صرف ایک شاگرد علی بن مسہر نے اس حدیث کو روایت کرتے ہوئے ایک لفظ "فلیرقہ" یعنی "اسے چاہیے کہ وہ اس برتن کو اچھی طرح صاف کرے" کا اضافہ کیا ہے۔ چونکہ علی بن مسہر ایک ثقہ راوی ہیں، اس وجہ سے ان کے اس اضافے کو قبول کیا گیا ہے۔

متضاد مفہوم میں اضافہ

ترمذی اور ابو داؤد روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:

یوم نحر اور ایام تشریق (10-13 ذوالحجہ) ہم اہل اسلام کے لئے عید کے دن ہیں۔ یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔

اس حدیث کے تمام طرق (سلسلہ ہائے اسناد) میں یہی الفاظ آئے ہیں۔ صرف ایک سلسلہ سند "موسی بن علی بن رباح—ان کے والد—سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ" میں اس حدیث میں یوم عرفہ (9 ذوالحجۃ) کا اضافہ ہے۔ (اس اضافے کے باعث نو ذوالحجۃ بھی ان ایام میں شمار ہو جاتا ہے جن میں روزہ رکھنا منع ہے۔ دیگر صحیح احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نو ذوالحجۃ کا روزہ رکھنا ایک اچھا عمل ہے۔ چونکہ یہ اضافہ دیگر صحیح احادیث کے خلاف ہے، اس لئے اسے مسترد کر دیا گیا ہے۔)

کسی حد تک مفہوم میں تضاد

میرے لئے پوری زمین کو مسجد اور پاکیزہ بنا دیا گیا ہے۔

اس حدیث کو تمام راویوں نے انہی الفاظ میں روایت کیا ہے۔ امام مالک نے اپنی سند سے ابو مالک الاشجعی سے روایت کی ہے جنہوں نے اس میں چند الفاظ کا اضافہ کیا ہے اور حدیث کچھ اس طرح ہو گئی ہے، " میرے لئے پوری زمین کو مسجد اور اس کی مٹی کو پاکیزہ بنا دیا گیا ہے۔"

اسناد میں اضافے کا حکم

اسناد میں اضافے کے بارے میں ہم یہاں دو بڑے مسائل کا ذکر کریں گے: ایک تو یہ کہ اسناد میں اضافے کے نتیجے میں کوئی مرسل حدیث، متصل ہو جائے اور دوسرا یہ کہ کوئی موقوف حدیث مرفوع ہو جائے۔ اس کے علاوہ اسناد میں اضافے کی جو صورتیں ہیں ان سے محض کسی عام راوی کا اضافہ ہوتا ہے اور اس کی تفصیل ہم "المزید فی متصل الاسانید" کی بحث میں بیان کر چکے ہیں۔

اسناد میں اضافے کے رد و قبول سے متعلق اہل علم میں اختلاف رائے ہے۔ اس میں چار نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:

· فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نقطہ نظر کے مطابق جو سلسلہ سند متصل یا مرفوع ہو، اسے قبول کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ماہرین سند میں اضافے کو قبول کرتے ہیں۔

· حدیث کے اکثر ماہرین کے نزدیک اس سلسلہ سند کو قبول کیا جائے گا جو مرسل یا موقوف ہو۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے نزدیک اضافے والی سند کو مسترد کر دیا جائے گا۔

· حدیث کے بعض ماہرین کے نزدیک اس سلسلہ سند کو قبول کیا جائے گا جو راویوں کی اکثریت روایت کر رہی ہے۔

· حدیث کے بعض دیگر ماہرین کے نزدیک اس سلسلہ سند کو قبول کیا جائے گا جس میں حفاظ حدیث زیادہ تعداد میں موجود ہوں۔

اس کی مثال یہ ہے کہ حدیث، "خاتون کے سرپرست کے بغیر نکاح نہ کیا جائے۔" کو یونس بن ابی اسحاق السبیعی، اسرائیل بن یونس، قیس بن ربیع نے ابو اسحاق سے متصل سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ دوسری طرف اس حدیث کو سفیان ثوری، شعبہ بن الحجاج وغیرہ نے ابو اسحاق سے مرسل سند کے ساتھ روایت کیا ہے (یعنی اس سلسلہ سند میں صحابی کا نام موجود نہیں ہے۔) (انظر المثال واختلاف الرواة في إرساله ووصله في الكفاية ص 409 وما بعدها)


اعتبار، متابع، شاھد

تعریف

لغوی اعتبار سے 'اعتبار'، اعتبر کا مصدر ہے۔ اس کا معنی ہے امور میں غور و فکر کرنا تاکہ ایک چیز کو دوسری سے الگ کیا جا سکے۔ اصطلاحی مفہوم میں اگر ایک حدیث کو صرف ایک راوی نے روایت کیا ہو تو اس حدیث کی دیگر اسناد کی تلاش کرنے کو 'اعتبار' کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں کیا کوئی شخص بھی اس راوی کے ساتھ شریک ہے۔

         لغوی اعتبار سے 'متابع'، تابع کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے موافقت کرنے والا۔ اصطلاحی مفہوم میں اگر ایک حدیث کو ایک شخص روایت کر رہا ہو اور تلاش کرنے کے بعد کوئی اور راوی بھی مل جائے جو اسی حدیث کو روایت کر رہا ہو تو اس دوسرے راوی کی حدیث کو 'متابع' کہا جاتا ہے۔ اس میں شرط یہ ہے کہ حدیث کو روایت کرنے والے "صحابی" کے نام پر ان دونوں راویوں کی بیان کردہ حدیث کے سلسلہ سند میں اتفاق پایا جاتا ہو۔
         لغوی اعتبار سے 'شاہد'، شہادت کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے گواہ۔ اصطلاحی مفہوم میں اگر کوئی ایک راوی کسی صحابی سے کوئی حدیث روایت کر رہا ہو اور دوسرا راوی انہی الفاظ یا مفہوم میں وہی حدیث کسی اور صحابی سے روایت کر رہا ہو تو اس دوسری حدیث کو شاہد کہا جاتا ہے۔ اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں سلسلہ ہائے سند کے صحابی مختلف ہونے چاہییں۔ اس حدیث کو شاہد کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے دوسری حدیث بالکل اسی طرح مضبوط ہو جاتی ہے جیسے گواہ کے گواہی دینے کے نتیجے میں مدعی کا دعوی مضبوط ہو جایا کرتا ہے۔

کیا شاہد و تابع، اعتبار کی اقسام ہیں؟

کسی شخص کو یہ گمان ہو سکتا ہے کہ شاہد و تابع، اعتبار کی اقسام ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اعتبار ریسرچ اور تفتیش کے اس طریقے کا نام ہے جس کے ذریعے تابع اور شاہد احادیث تک پہنچا جا سکتا ہے۔

تابع و شاہد کا دوسرا مفہوم

ہم نے تابع اور شاہد احادیث کی جو تعریف بیان کی ہے یہ اہل علم کی اکثریت نے بیان کی ہے اور یہی مشہور ہے۔ ان کی دوسری تعریف بھی ہے اور وہ یہ ہے:

         تابع اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی ایک شخص کی بیان کردہ حدیث کو لفظ بلفظ دوسرا شخص بھی روایت کر رہا ہو۔ دونوں احادیث کا صحابی خواہ ایک ہی ہو یا مختلف ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
         شاہد اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی ایک شخص کی بیان کردہ حدیث کے مفہوم کو دوسرا شخص بھی روایت کر رہا ہو۔ دونوں احادیث کا صحابی خواہ ایک ہی ہو یا مختلف ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
         شاہد اور تابع کو ایک ہی معنی میں استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ شاہد کو تابع اور تابع کو شاہد بھی کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ شاہد اور تابع دونوں قسم کی احادیث کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک حدیث کے ذریعے دوسری حدیث کو تقویت دی جائے۔ (شرح النخبة ص 38)

متابعت

لغوی اعتبار سے متابعت، تابع کا مصدر ہے اور اس کا معنی ہے موافق ہونا۔ اصطلاحی مفہوم میں اگر کسی حدیث کی روایت میں ایک کے علاوہ دوسرا راوی بھی شریک ہو تو اسے متابعت کہا جاتا ہے۔

         متابعت دو قسم کی ہے: متابعت تامہ اور متابعت قاصرہ۔ اگر شریک ہونے والا راوی اسناد کے شروع میں ہو تو اسے متابعت تامہ کہا جاتا ہے جبکہ اگر وہ اسناد میں کہیں اور ہو تو اسے متابعت قاصرہ کہا جاتا ہے۔

نوٹ: تابع اور شاہد احادیث کی تلاش کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ اصل حدیث کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔ اگر کسی حدیث کی تابع اور شاہد احادیث نہ بھی مل سکیں لیکن اصل حدیث، صحیح ہونے کی شرائط پر پورا اترتی ہو تو اس پر اعتماد کیا جائے گا۔

مثالیں

یہاں پر ہم ایک ہی مثال کا ذکر کریں گے جو حافظ ابن حجر نے متابعت تامہ اور متابعت قاصرہ کے بارے میں بیان کی ہیں۔ امام شافعی کتاب الام میں روایت کرتے ہیں۔

مالک، عبداللہ بن دینار سے، وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔ جب تک تم (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو، روزہ رکھنا شروع نہ کرو اور جب تک (شوال کا) چاند نہ دیکھ لو، روزے رکھنا ختم نہ کرو۔ اگر بادل موجود ہوں (اور ان کی وجہ سے چاند نظر نہ آ سکے) تو تیس دن کی مدت پوری کر لو۔"

اس حدیث کے بارے میں کچھ لوگوں کو یہ خیال ہوا ہے کہ اس حدیث کو امام مالک سے روایت کرنے میں امام شافعی اکیلے ہیں۔ انہوں نے اس کا شمار ان کی غریب احادیث میں کر دیا ہے۔ امام مالک کے شاگردوں نے اس حدیث کو امام مالک سے دیگر الفاظ میں روایت کیا ہے کہ، "اگر بادل ہوں تو اندازہ کر لو۔"

         جب اس حدیث کے بارے میں اعتبار (یعنی تحقیق و تفتیش) کیا گیا تو اس حدیث کی متابعت تامہ، متابعت قاصرہ اور شاہد احادیث معلوم ہو گئیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

· متابعت تامہ: امام بخاری نے عبداللہ بن مسلمہ القعنبی سے اور انہوں نے امام مالک سے ان کی سند سے روایت کیا ہے جس میں یہ جملہ ہے، "اگر تمہارے سامنے بادل ہوں تو پھر تیس کا عدد پورا کر لو۔"

· متابعت قاصرہ: ابن خزیمہ نے عاصم بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد محمد بن زید سے، انہوں نے ان کے دادا سے اور انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ، "تیس پورے کر لو۔"

· شاھد: امام نسائی اپنی سند سے محمد بن حنین سے اور وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اگر تمہارے سامنے بادل ہوں تو پھر تیس کا عدد پورا کر لو۔"


جرح و تعدیل کا تعارف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث ہم تک راویوں کی وساطت سے پہنچی ہے۔ ان راویوں کے بارے میں علم ہی حدیث کے درست ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے حدیث کے ماہرین نے راویوں کے حالات اور ان سے روایات قبول کرنے کی شرائط بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ شرائط نہایت ہی گہری حکمت پر مبنی ہیں اور ان شرائط سے ان ماہرین حدیث کے گہرے غور و خوض اور ان کے طریقے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

         ان میں سے کچھ شرائط کا تعلق راوی کی ذات سے ہے اور کچھ شرائط کا تعلق کسی راوی سے حدیث اور خبریں قبول کرنے سے ہے۔ دور قدیم سے لے کر آج تک کوئی ایسی قوم نہیں گزری جس نے اپنے افراد کے بارے میں اس درجے کی معلومات مہیا کرنے کا اہتمام کیا ہو۔ کوئی قوم بھی اپنے لوگوں سے خبریں منتقل کرنے سے متعلق ایسی شرائط عائد نہیں کر سکی جیسی ہمارے علمائے حدیث نے ایجاد کی ہیں۔ ایسی روایات جن کے منتقل کرنے والے راویوں کے ناموں کا علم نہ ہو سکے کے بارے میں یہ خطرہ ہے کہ کسی غلط خبر کو صحیح سمجھ لیا جائے۔ اس وجہ سے ایسی روایات کے سچے یا جھوٹے ہونے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

نوٹ: راویوں کو پرکھنے کے فن کو "جرح و تعدیل" کہا جاتا ہے۔ اگر کسی راوی کو پرکھنے کے نتیجے میں اس کی مثبت صفات سامنے آئیں اور وہ شخص قابل اعتماد قرار پائے تو اسے "تعدیل" یعنی 'قابل اعتماد قرار دینا' کہا جاتا ہے۔ اگر راوی کی منفی شہرت سامنے آئے اور اس پر الزامات موجود ہوں تو اسے "جرح" یعنی 'ناقابل اعتماد قرار دینا' کہا جاتا ہے۔


راوی اور اسے قبول کرنے کی شرائط


سبق 2: راوی کے قابل اعتماد ہونے کی شرائط

فقہ اور حدیث کے ائمہ کی غالب اکثریت کے مطابق راوی کے قابل اعتماد ہونے کی بنیادی شرائط دو ہیں:

· عدالت: عدالت کا مطلب ہے عادل یعنی اچھے کردار کا مالک ہونا۔ کسی راوی کے عادل ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو، بالغ ہو، عاقل ہو، فسق و فجور سے دور رہنے والا ہو اور کسی قسم کی بدنامی سے پاک ہو۔

· ضبط: ضبط کا مطلب ہے کہ وہ راوی دیگر ثقہ راویوں کی بیان کردہ احادیث کے خلاف احادیث روایت نہ کرتا ہو، حافظے میں کمزور نہ ہو، بڑی بڑی غلطیاں بکثرت نہ کرتا ہو، لا پرواہ نہ ہو اور نہ ہی وہمی طبیعت کا مالک ہو۔

راوی کا عادل ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟

راوی کی عدالت کا ثبوت ان دو میں سے کسی ایک طریقے سے ہوتا ہے:

· جرح و تعدیل کے ماہرین کسی راوی کے بارے میں اپنی تحقیق و تفتیش کے بعد یہ طے کر دیں کہ شخص عادل ہے۔

· اہل علم کے مابین اس شخص کی عمومی شہرت ایک اچھے انسان کی ہو۔ اگر اہل علم میں کسی شخص کی عمومی شہرت اچھی ہے تو اس شخص کے لئے کسی جرح و تعدیل کے ماہر کی تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی مثال ائمہ اربعۃ یعنی مالک، ابوحنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل اور سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ، اوزاعی وغیرہ ہیں۔

عدالت کے ثبوت کے بارے میں ابن عبدالبر کا نقطہ نظر

ابن عبدالبر کا نقطہ نظر یہ ہے کہ احادیث کا علم رکھنے والا ہر محتاط شخص عادل ہے اگر اس پر کوئی جرح (الزام) موجود نہ ہو۔ اس شخص کی حدیث کو قبول کیا جائے گا۔ لکھتے ہیں:

"ہر وہ شخص جس کے پاس یہ (حدیث کا) علم ہو، عادل تصور کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں شدت پسند لوگوں کی تحریف، جھوٹے مذاہب کی دعوت دینے والوں کا تعصب، اور جاہلوں کی توضیحات کی نفی کی جائے گی۔" (رواه ابن عدي في الكامل وغيره)

ان کی اس رائے سے اہل علم متفق نہیں ہیں۔ اگر کوئی حدیث صحیح نہیں ہو گی اور اسے صحیح تصور کر لیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک شخص درحقیقت عادل نہیں ہے اور اسے عادل سمجھ لیا گیا ہے۔

راوی کے ضبط کا علم کیسے ہوتا ہے؟

اگر کسی راوی کی روایات کی غالب اکثریت، اس سے زیادہ ثقہ راویوں کی روایات سے موافقت رکھتی ہو تو اسے ضابط (احادیث محفوظ رکھنے والا) قرار دیا جائے گا۔ کسی ایک آدھ روایت میں مخالفت سے فرق نہیں پڑتا لیکن اگر یہ مخالفت کثیر تعداد میں پائی جائے تو اس شخص کا ضبط مشکوک ہو جائے گا اور اس کی بیان کردہ روایات قابل اعتماد نہ رہیں گی۔

کیا جرح و تعدیل کو بغیر کسی وضاحت کے قبول کر لیا جائے گا؟

صحیح اور مشہور نقطہ نظر کے مطابق اگر کسی راوی کی بغیر وجہ بتائے تعدیل (عادل قرار دینا) کی گئی ہو تو اسے درست قرار دیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی شخص کے عادل ہونے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان تمام وجوہات کو بیان کرنا مشکل کام ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں تعدیل کرنے والے ماہر کو یہ بتانا پڑے گا کہ، "اس راوی نے ان ان برے کاموں کا ارتکاب نہیں کیا یا اس نے اس اس نیک کام کا ارتکاب کیا ہے۔"

         جہاں تک جرح کا تعلق ہے، تو اسے بغیر تفصیلات کے قبول نہ کیا جائے گا کیونکہ ان تفصیلات کا ذکر کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ چونکہ لوگوں میں کسی شخص کی جرح سے متعلق اختلاف رائے پایا جاتا ہے اس وجہ کوئی شخص تو کسی راوی سے حدیث روایت کرے گا کیونکہ وہ اسے قابل اعتماد سمجھتا ہے اور کوئی نہیں۔ ابن صلاح لکھتے ہیں:

اس اصول پر فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کا اتفاق ہے۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہی نقطہ نظر حفاظ حدیث کے ائمہ جیسے بخاری و مسلم کا ہے۔ اسی وجہ سے امام بخاری بہت سے ایسے راویوں سے حدیث قبول کر لیتے ہیں جن پر جرح موجود نہیں ہے جیسے عکرمہ اور عمرو بن مرزوق۔ امام مسلم نے سوید بن سعید اور کچھ دیگر راویوں سے حدیث قبول کی ہے اگرچہ ان پر الزام موجود تھے (لیکن ان کی تفصیل موجود نہ تھی۔) اسی طرح امام ابو داؤد نے کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر جرح کی تفصیلات موجود نہ ہوں تو اس راوی کی حدیث کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ (علوم الحديث ص 96 باختصار يسير)

نوٹ: ایک دوسرا نقطہ نظر یہ بھی موجود ہے کہ اگر کسی راوی پر الزامات موجود ہوں اور اس کی جرح کی تفصیل بیان نہ بھی کی گئی ہو، تب بھی اس راوی کی حدیث کو قبول کرنے میں احتیاط برتی جائے۔ ایسی صورت میں یہ لازماً دیکھ لیا جائے کہ وہ حدیث کسی اور سند سے مروی ہے یا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کا ہے جس کو قبول کرنے میں احتیاط برتنے پر امت کے اہل علم کا اتفاق رائے ہے۔

کیا جرح یا تعدیل ایک ماہر کی رائے سے ثابت ہو جاتی ہے؟

صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ جرح یا تعدیل ایک ماہر کی رائے سے بھی ثابت ہو جاتی ہے اگرچہ ایک دوسرا نقطہ نظر یہ موجود ہے کہ جرح و تعدیل کے لئے کم از کم دو ماہرین کی رائے کا ہونا ضروری ہے۔


جرح و تعدیل سے متعلق چند اہم مباحث

اگر کسی راوی کے بارے میں جرح اور تعدیل دونوں پائی جائیں توکیا کیا جائے؟

اگر کسی راوی کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی آراء موجود ہوں اور جرح (منفی رائے) تفصیلی ہو تو صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ اس شخص کے بارے میں جرح کو ترجیح دی جائے گی۔ دوسرا نقطہ نظر یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر تعدیل کرنے والے ماہرین کی تعداد جرح کرنے والے ماہرین کی نسبت زیادہ ہے تو اس شخص کی تعدیل کی جائے گی۔ اس نقطہ نظر پر اعتماد نہیں کیا گیا ہے۔

نوٹ: اگر کسی راوی کو ایک ماہر قابل اعتماد قرار دے اور دوسرا ناقابل اعتماد تو اس صورت میں یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔

· اگر جرح اور تعدیل دونوں ہی کی تفصیلات بیان نہ کی گئی ہوں تو جرح کو ترجیح دی جائے اور اس راوی کو ناقابل اعتماد قرار دے کر اس کی بیان کردہ احادیث کو قبول نہ کیا جائے کیونکہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔

· اگر جرح یا تعدیل میں صرف ایک کی تفصیلات بیان کی گئی ہوں تو جس چیز کی تفصیلات موجود ہوں اسی کو ترجیح دی جائے۔

· اگر جرح یا تعدیل دونوں کی تفصیلات موجود ہوں تو ان تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس راوی کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔

· اگر تعدیل کرنے والے ماہرین راوی پر عائد کیے گئے الزامات کے جواب دے کر اس کی وضاحت کر دیں تو پھر تعدیل کو ترجیح دی جائے۔

· احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس راوی کی بیان کردہ احادیث کی دوسری اسناد کو بھی دیکھ کر حتمی فیصلہ کیا جائے۔

کسی راوی کے بارے میں اسی سے مروی تعدیل کی روایات کا حکم

اہل علم کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی شخص کے قابل اعتماد ہونے سے متعلق ایسی روایات جو اسی شخص سے مروی ہیں ناقابل قبول ہیں۔ یہی نقطہ نظر صحیح ہے اگرچہ بعض لوگوں نے ان روایات کو قابل قبول قرار دیا ہے۔

نوٹ: یہاں روایات سے مراد حدیث نہیں ہے بلکہ وہ روایات ہیں جو جرح و تعدیل کے ماہرین کی آراء پر مشتمل ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو تو ہر شخص عادل ہی قرار دے گا۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ کسی بھی راوی کے بارے میں دیگر افراد کی آراء کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔

اس ضمن میں جرح و تعدیل کرنے والے ماہر کی اپنی شخصیت کا تجزیہ بھی بہت ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ کسی شخص سے عقیدت کے باعث اس کی تعدیل کر رہا ہو یا کسی سے تعصب کے باعث اس پر جرح کر رہا ہو۔ جرح و تعدیل کرنے والے ماہر کا غیر جانب دار اور غیر متعصب ہونا بہت ضروری ہے۔

ہمارے محدثین اور جرح و تعدیل کے ماہرین کی غیر جانب داری اور عدم تعصب کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص اگر کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتا ہوتا مگر اپنی ذات میں ایک اچھا انسان ہوتا تو اس کی تعدیل کرتے اور مخصوص اختلافی مسائل سے ہٹ کر اس کی بیان کردہ احادیث کو قبول کرتے۔ دوسری طرف ان کے اپنے مسلک اور محدثین کے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں جو حقیقی خامیاں پائی جاتی تھیں، انہوں نے انہیں کھول کر بیان کر دیا ہے۔

جو گروہ اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے اور خوبیوں کو اجاگر کرے، اسے بہرحال متعصب ہی قرار دیا جائے گا۔ علماء کے مختلف طبقات میں صرف محدثین ہی ایسا گروہ ہے جس نے اعلی درجے کی غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ افسوس کہ موجودہ دور کے اکثر محدثین اور دیگر اہل علم اپنے اسلاف کی اس روش کو ترک کر چکے ہیں۔

فسق و فجور سے توبہ کرنے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم

فسق و فجور سے توبہ کرنے والے شخص کی (توبہ کے بعد کے زمانے میں کی گئی) روایات کو قبول کیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جھوٹی احادیث منسوب کرنے کا مرتکب ہو تو اس کی بیان کردہ روایات کو توبہ کے بعد بھی قبول نہ کیا جائے گا۔

نوٹ: یہاں فسق و فجور سے مراد کسی شخص کے وہ گناہ ہیں جو اعلانیہ ہوں۔ کسی شخص کے پوشیدہ گناہوں کا حساب تو کوئی بھی نہیں رکھ سکتا۔ اگر کوئی شخص علی الاعلان کسی گناہ میں مبتلا ہو تو اس کی روایات قبول نہیں کی جاتیں کیونکہ اعلانیہ گناہ کرنا اللہ تعالی کے آگے سرکشی کی علامت ہے۔ ایسے شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے اعلانیہ گناہوں کی توبہ بھی علی الاعلان کرے۔

حدیث کی تعلیم کا معاوضہ لینے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم

بعض اہل علم جیسے امام احمد بن حنبل، ابو اسحاق اور ابن حاتم کے نزدیک ایسے شخص سے احادیث قبول کرنا درست نہیں ہے۔ بعض دیگر اہل علم جیسے ابونعیم الفضل بن دکین کے نزدیک ایسے شخص سے احادیث قبول کی جائیں گی۔ ابو اسحاق شیرازی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو شخص حدیث کی تعلیم میں مشغولیت کے باعث اپنے اہل و عیال کے لئے کسب معاش نہ کر سکے تو اس کے لئے یہ معاوضہ لینا جائز ہے۔

نوٹ: قدیم اہل علم دینی خدمات جیسے قرآن و حدیث کی تعلیم کے بدلے معاوضہ لینے کو جائز نہ سمجھتے تھے۔ بعد کے ادوار کے علماء نے بالاتفاق ایسا کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں دور صحابہ و تابعین کے معاشرتی حالات کا جائزہ لینا ہو گا۔ عہد صحابہ و تابعین میں اہل علم اور ان کے خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ حکومت کی جانب سے اہل علم کے وظائف مقرر ہوتے جو ان کے خاندانوں کی کفالت کے لئے کافی ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے تمام اہل علم دینی خدمات کا اضافی معاوضہ لینا جائز نہ سمجھتے تھے۔

بعد کے ادوار میں ایسا انتظام باقی نہیں رہا۔ مسلمانوں کی حکومتیں عیاشی اور کرپشن کا شکار ہو گئیں اور انہوں نے اہل علم کی کفالت کو چھوڑ دیا۔ اس موقع پر دین کی خدمت کرنے والوں کے سامنے دو راستے تھے: ایک تو یہ کہ دینی خدمت کو چھوڑ کر معاشی جدوجہد میں اپنا پورا وقت گزار دیں اور دوسری یہ کہ انہی دینی خدمات کا معاوضہ قبول کر لیں۔ ان کی غالب اکثریت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ بعض افراد نے تیسرا راستہ اختیار کیا کہ اپنے دن کا کچھ حصہ کسب معاش میں اور کچھ حصہ دین میں خدمت میں لگا دیں۔، لیکن ظاہر ہے ایسا کرنا سب کے لئے ممکن نہ تھا۔

تساہل، سستی اور غلطیاں کرنے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم

ایسا شخص جو حدیث کو سننے اور سنانے میں سستی اور لاپرواہی سے کام لیتا ہو، اس کی روایت کردہ احادیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر جو شخص حدیث کو سننے کی محفل میں بیٹھ کر عام طور پر اونگھتا رہے یا اصل استاذ کی بجائے اس کے کسی شاگرد سے حدیث سن کر روایت کرے تو اس کی بیان کردہ احادیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

         اس شخص کی روایات کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا جو حدیث کو بغیر سوچے سمجھے (ہاں، ہاں) قبول کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ایسا کرتا ہے وہ یہ نہیں جانتا کہ جو بات وہ بیان کر رہا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث ہے بھی یا نہیں۔
         جو شخص روایت بیان کرنے میں کثرت سے غلطیاں کرتا ہو، اس کی بیان کردہ حدیث کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔

نوٹ: یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حدیث کو قبول نہ کرنے کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس حدیث کے متن کو یہ مسترد کر دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس سند سے وہ حدیث اس شخص نے روایت کی ہے، اس سند کو مسترد کر دیا جائے گا۔ اگر حدیث کا وہی متن کسی دوسری صحیح سند سے مروی ہے تو اس متن کو بہرحال قبول کیا جائے گا۔ اگر اس متن کو صرف ایک اسی شخص ہی نے روایت کیا ہے تو پھر اسے مسترد کر دیا جائے گا۔

جہاں تک حدیث سننے سنانے میں لاپرواہی اور اونگھنے کا تعلق ہے، تو یہ معاملہ سمجھنے کے لئے ہمیں حدیث روایت کرنے کے دور کی علمی محافل کے طریق کار کا علم ہونا چاہیے۔ چونکہ اس دور میں باقاعدہ کتابیں شائع کرنے کا رواج نہیں ہوا تھا، اس وجہ سے حدیث کو روایت کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک محدث کسی مسجد وغیرہ میں حدیث کی محفل سجاتا اور اس کے شاگرد محفل میں بیٹھ جاتے۔ استاذ اپنی یادداشت کے سہارے یا ڈائری میں لکھی گئی احادیث پڑھ کر شاگردوں کو سناتا۔ حدیث کی روایت کے لئے بنیادی شرط یہ تھی کہ استاذ اور شاگرد دونوں مضبوط حافظے کے مالک ہوں۔ شاگرد احادیث سن سن کر یاد بھی کرتے جاتے اور اپنی ڈائریوں میں ان کے نوٹس بھی تیار کرتے جاتے۔ اس عمل کو "سماع حدیث" کہا جاتا ہے۔

اگر ان شاگردوں میں سے کوئی اکثر سستی برتتا، حدیث کو صحیح طور پر نہ سنتا، یا حدیث کے سماع کے وقت اونگھتا تو یہ بات فوراً مشہور ہو جاتی اور اس کے بعد طالب علموں کی نظر میں وہ شخص اتنا لائق اعتماد نہ رہتا کہ کوئی اس سے احادیث کا علم حاصل کرے۔

یہاں ایک لفظ "تلقین" استعمال ہوا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص کے سامنے کوئی حدیث بیان کی جائے اور وہ بلا سوچے سمجھے ہاں، ہاں کہہ کر اس کی تائید کرتا چلا جائے۔ یہ بھی تساہل اور سستی کی ایک قسم ہے اور ایسا کرنے والے سے احادیث قبول نہیں کی جاتیں۔

اس سے اس احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے جو پرنٹنگ پریس کے دور سے کہیں پہلے احادیث کے ضمن میں برتی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے یورپی اور امریکی مستشرقین کا یہ نقطہ نظر ہے کہ مسلمانوں کی ضعیف سے ضعیف حدیث بھی دیگر اقوام کی بنیادی مذہبی کتب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کیونکہ ان ضعیف احادیث کے بارے میں بھی اتنی معلومات موجود ہیں جو دیگر اقوام کی بنیادی مذہبی کتب کے بارے میں موجود نہیں ہیں۔

حدیث بیان کر کے بھول جانے والے کی بیان کردہ احادیث کا حکم

اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شاگرد یہ بیان کرتا ہے کہ میں نے یہ حدیث اپنے استاذ سے سنی ہے اور استاذ یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ حدیث بیان نہیں کی۔ (اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں، یا تو استاذ حدیث بیان کرنے کے بعد خود بھول گیا اور دوسری یہ کہ شاگرد جھوٹ بول رہا ہے۔)

         ایسی احادیث کا حکم یہ ہے کہ اگر استاذ سختی سے اس حدیث کی تردید کرے اور مثلاً یہ کہے کہ میں نے اس شاگرد کو کبھی دیکھا ہی نہیں یا وہ شخص میرے متعلق جھوٹ بول رہا ہے تو اس حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ استاذ خود متردد ہو کہ اس نے یہ حدیث بیان کی ہے یا نہیں (اور شاگرد بھی ثقہ راوی ہو) تو اس صورت میں حدیث کو قبول کر لیا جائے گا۔

اس کی مثال وہ حدیث ہے ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔

ربیعۃ بن ابی عبدالرحمٰن نے سہیل بن ابی صالح سے، انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے (ایک مقدمے میں) ایک گواہ اور قسم کھانے کی بنیاد پر فیصلہ فرما دیا۔

عبدالعزیز بن محمد الدراوردی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ربیعۃ بن ابی عبدالرحمٰن نے مجھ سے اسی سند کے ساتھ بیان کی۔ اس کے بعد میری ملاقات سہیل بن ابی صالح سے ہوئی تو میں نے اس حدیث کے بارے میں ان سے پوچھا تو وہ اس سے بے خبر تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ ربیعۃ تو یہ حدیث آپ کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سہیل لوگوں کو بتاتے تھے کہ اور ربیعۃ نے یہ کہہ کر عبدالعزیز سے حدیث بیان کی کہ ان سے یہ حدیث میں نے بیان کی ہے۔

         حدیث کو بیان کرنے کے بعد بھول جانے سے متعلق خطیب بغدادی نے ایک کتاب "اخبار من حدث و نسی" تصنیف کی ہے۔


جرح و تعدیل سے متعلق تصانیف

چونکہ کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ کرنا راویوں کے اچھے کردار اور حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت یا ان کے کردار اور حفاظت سے متعلق الزامات پر مبنی ہے، اس وجہ سے اہل علم نے اس سے متعلق کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان میں سے جو کتب تعدیل کے ماہرین کی آراء پر مشتمل ہیں، ان میں بہت سے راویوں کے کردار اور حدیث کے محفوظ رکھنے کی صلاحیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کام کو "تعدیل" کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر متعصب اہل علم نے ایسی کتب لکھی ہیں جن میں مختلف راویوں کے کردار اور حدیث کی حفاظت کی صلاحیت پر اعتراضات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کام "جرح" کہلاتا ہے۔ اس مناسبت سے ان کتابوں کو "کتب الجرح و التعدیل" کہا جاتا ہے۔

         یہ کتب کثیر تعداد میں موجود ہیں اور ان میں بڑی ورائٹی پائی جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ کتب ایسی ہیں جن میں صرف ثقہ راویوں کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ کچھ کتب میں صرف ضعیف اور الزام یافتہ راویوں کے حالات ہیں۔ کچھ ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں ثقہ اور ضعیف دونوں قسم کے راویوں کے حالات موجود ہیں۔ بعض ایسی کتب موجود ہیں جن میں حدیث کی کسی خاص کتاب (جیسے ترمذی) کے راویوں (رجال) ہی کا تذکرہ ہے اور بعض ایسی کتب بھی ہیں جن میں کسی مخصوص کتاب کی بجائے ہر طرح کے راویوں کا ذکر موجود ہے۔

نوٹ: یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ محدثین کا احادیث کے حصول کا طریق کار کیا تھا۔ جو شخص بھی حدیث کا علم حاصل کرنا چاہتا، وہ سب سے پہلے اپنے شہر کے ماہرین حدیث کے پاس جاتا اور ان کی سماع حدیث کی محفلوں میں شریک ہو کر ان سے جتنی احادیث بھی میسر آتیں حاصل کر لیتا۔ اس شخص کی آمدورفت کا ریکارڈ یہ محدثین اور ان کے شاگرد نوٹ کر لیا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ شخص دوسرے شہروں کا سفر کرتا اور ہر قابل ذکر محدث کے پاس جا کر اس سے احادیث اخذ کرتا۔ ہر شہر کا محدث اور اس کے شاگرد، اس شخص کے سفر اور محدثین سے اس کی ملاقات کا ریکارڈ تیار کرتے رہتے۔

احادیث کے حصول میں اتنی محنت کرنے میں بالعموم اس شخص کی عمر کا بڑا حصہ صرف ہو جایا کرتا تھا لیکن جو شخص اس کٹھن منزل کو طے کر لیتا اس کے بعد اس کی شہرت ہر طرف پھیل جاتی۔ حدیث کے دیگر طالب علم اس شخص سے حدیث حاصل کرنے کے لئے دور دراز سے آتے اور وہ شخص عالمی سطح پر شہرت یافتہ (Celebrity) ہو جاتا۔

جس طرح موجودہ دور میں بھی کسی بھی مشہور شخصیت کے حالات معلوم کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہے بالکل اسی طرح اسی طرح دور قدیم میں بھی حدیث کے ہر راوی کے حالات کو اسی طرح قلم بند کیا گیا ہے۔ بعض افراد نے جرح و تعدیل کے میدان میں اسپیشلسٹ بننے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے راویوں سے متعلق معلومات کو اکٹھا کرنے کے لئے بالکل ویسی ہی محنت کی جیسی وہ راوی احادیث کو اکٹھا کرنے کے لئے کر چکے تھے۔ اس عمل کے نتیجے میں جرح و تعدیل کی کتب کا عظیم ذخیرہ معرض وجود میں آیا۔

         ائمہ جرح و تعدیل کے اس کام کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حدیث روایت کرنے والے (سوائے چند ایک کے) تمام افراد کے تراجم (یعنی حالات زندگی) بیان کیے ہیں اور ان کی جرح یا تعدیل کا فیصلہ کیا ہے۔ کسی راوی نے کس کس محدث سے احادیث کا علم حاصل کیا اور پھر اس راوی سے کس کس راوی نے احادیث کا علم حاصل کیا؟ کسی راوی نے کس کس شہر کا سفر کیا؟ کس راوی کی کس راوی سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی؟ وغیرہ وغیرہ۔
         ان حضرات نے اپنے زمانے میں ایسا کارنامہ کر دکھایا جو اس سے پہلے کوئی بھی نہ کر سکا تھا بلکہ موجودہ دور میں بھی (پرنٹنگ اور کمپیوٹر کے وسائل  کے باوجود) کوئی بھی قوم ایسا کارنامہ سرانجام نہ دے سکی ہے جو محدثین کے اس کام کے پاسنگ بھی ہو۔ انہوں نے حدیث کی روایت کرنے والے افراد کے ضخیم انسائیکلوپیڈیا تیار کر کے یہ کارنامہ انجام ہے۔ وہ اس عظیم کارنامے پر ستائش کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالی انہیں اس کام کا اجر عطا کرے۔ جرح و تعدیل کی بعض کتب کے نام یہ ہیں:

· امام بخاری کی 'التاریخ الکبیر'۔ یہ ثقہ اور ضعیف دونوں قسم کے راویوں کے حالات پر مشتمل ہے۔

· ابن ابی حاتم کی 'الجرح و التعدیل'۔ یہ بھی التاریخ الکبیر کی طرح ثقہ اور ضعیف ہر قسم کے راویوں کے حالات پر مبنی ہے۔

· ابن الحبان کی 'ثقات'۔ یہ خاص طور پر ثقہ راویوں کے حالات پر مشتمل ہے۔

· ابن عدی کی 'الکامل فی الضعفاء'۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب خاص طور پر ضعیف راویوں کے تراجم (Biographies) پر مشتمل ہے۔

· عبدالغنی المقدسی کی 'الکامل فی اسماء الرجال'۔ یہ کتاب خصوصی طور پر حدیث کی چھ کتب (بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ) کے راویوں کے حالات پر مشتمل ہے۔

· ذہبی کی 'میزان الاعتدال'۔ یہ کتاب ضعیف اور متروک راویوں کے حالات پر مشتمل ہے۔ متروک ایسے راویوں کو کہا جاتا ہے جن پر جرح کی گئی ہو لیکن اس جرح کو قبول نہ کیا گیا ہو۔

· ابن حجر کی 'تہذیب التہذیب'۔ (یہ اسماء الرجال کے فن میں عظیم ترین کتاب ہے۔) اس کتاب کا خلاصہ 'الکمال فی اسماء الرجال' کے نام سے (مزّی نے) کیا ہے۔


جرح و تعدیل کے درجات (Levels)


سبق 1: جرح و تعدیل کے بارہ درجات


ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" کے مقدمے میں جرح و تعدیل کے چار چار درجات اور ان کا حکم بیان کیا ہے۔ اس کے بعد کے اہل علم نے ان پر مزید دو دو درجات کا اضافہ کیا ہے جس سے ان میں سے ہر ایک کی تعداد چھ چھ (اور کل تعداد بارہ) ہو گئی ہے۔ ان درجات کی تفصیل، ان الفاظ کے ساتھ یہاں بیان کی جارہی ہے جن میں ان مراتب کا ذکر ہوتا ہے۔


تعدیل کے مراتب اور اس سے متعلق الفاظ

· تعدیل کا سب سے بلند درجہ وہ ہے جس میں کسی کے ثقہ ہونے کو مبالغے کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ اس کے لئے عام طور پر وہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو 'اَفعَلُ' کے وزن پر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر "فلان الیہ المنتھی فی التثبت" یعنی " حدیث کا ثابت ہونا تو بس فلاں پر ختم ہے" یا "فلان اثبت الناس" یعنی "فلاں شخص کی احادیث لوگوں میں سب سے زیادہ ثابت شدہ ہیں۔"

· تعدیل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ثقہ ہونے کی صفت کو تاکید کے ساتھ بیان کیا جائے۔ اس کے لئے ایک صفت کو دو مرتبہ بھی بیان کیا جا سکتا ہے جیسے "ثقہ ثقہ" یعنی "وہ تو ثقہ ثقہ شخص ہے" یا "ثقہ ثبت" یعنی "وہ ثقہ ہے اور اس کی احادیث ثابت شدہ ہیں۔"

· تعدیل کے تیسرے درجے میں کسی شخص کے ثقہ ہونے کو تو بیان کی جاتا ہے لیکن اس کی تاکید نہیں کی جاتی مثلاً "ثقہ" یعنی "فلاں شخص ثقہ ہے" یا "حجۃ" یعنی "فلاں شخص حجت ہے۔"

· تعدیل کا چوتھا درجہ یہ ہے کہ کسی شخص کو عادل (یعنی اچھے کردار) کا تو قرار دیا جائے لیکن حدیث کے محفوظ رکھنے (ضبط) سے متعلق کوئی بات نہ کی جائے۔ اس کی مثال ہے "صدوق" یعنی "وہ سچا ہے" یا "محلہ الصدق" یعنی "وہ سچائی کے مقام پر ہے" یا "لا باس بہ" یعنی "اس میں کوئی حرج نہیں"۔ استثنائی طور پر ابن معین جب کسی شخص کے لئے "لا باس بہ" کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص ان کے نزدیک ثقہ (یعنی تیسرے درجے) کا ہے۔

· تعدیل کا پانچواں درجہ یہ ہے کہ کسی شخص کی جرح یا تعدیل کا ذکر کرنے کی بجائے عام الفاظ میں اس کا تذکرہ کیا جائے جیسے "فلان شیخ" یعنی "فلاں حدیث کے معاملے میں بزرگ آدمی ہے" یا "روی عنہ الناس" یعنی "لوگ اس سے حدیث روایت کرتے ہیں۔"

· تعدیل کے آخری درجے میں موجود شخص، جرح کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا جاتا ہے، "فلان صالح الحدیث" یعنی "فلاں حدیث کے معاملے میں صالح شخص ہے" یا "یکتب حدیثہ" یعنی "اس کی احادیث کو لکھا گیا ہے۔"

تعدیل کے مختلف مراتب کا حکم

جو راوی تعدیل کے پہلے تین مراتب سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی بیان کردہ احادیث کا حکم یہ ہے کہ ان سے شرعی احکام اخذ کیے جائیں گے۔ ایسا ضرور ہے کہ ان راویوں کی احادیث درجے میں مختلف ہوں گی۔

         جو راوی چوتھے اور پانچویں درجے سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی احادیث سے شرعی احکام اخذ نہیں کیے جائیں گے البتہ ان کی احادیث ان راویوں کی کمزوری کو بیان کر کے روایت کی جائیں (کیونکہ ان کی احادیث حسن کے درجے کی ہوں گی۔) چوتھے درجے کے راویوں کی احادیث پانچویں درجے کے راویوں کی احادیث کی نسبت مضبوط سمجھی جائیں گی۔
         چھٹے درجے سے تعلق رکھنے والے راویوں کی احادیث سے شرعی احکام اخذ نہیں کیے جائیں گے کیونکہ ان کے بارے میں واضح ہے کہ یہ لوگ حدیث کو محفوظ رکھنے (ضبط) میں کمزور واقع ہوئے ہیں۔


جرح کے مراتب اور اس سے متعلق الفاظ

· جرح کا سب سے آسان (اور بہترین) درجہ یہ ہے کہ جو کسی راوی کے نرم رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کے لئے جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ان کی مثال یہ ہے، "فلان لیّن الحدیث" یعنی "فلاں حدیث کے معاملے میں نرم ہے" یا "فیہ مقال" یعنی "اس شخص کے بارے میں بحث موجود ہے۔"

· جرح کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ کسی شخص کے بارے میں واضح کر دیا جائے کہ اس کی احادیث کو شرعی احکام اخذ کرنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر "لا یحتج بہ" یعنی "اس کی احادیث سے استدلال نہ کیا جائے" یا "ضعیف" یعنی "یہ کمزور شخص ہے" یا "لہ مناکیر" یعنی "اس کی احادیث منکر ہیں۔"

· جرح کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ کسی شخص کے بارے میں واضح طور پر بتا دیا جائے کہ وہ احادیث لکھتا ہی نہ تھا وغیرہ وغیرہ (یعنی وہ بہت ضعیف راوی ہے۔) مثال کے طور پر "لا تحل الروایۃ عنہ" یعنی "اس سے روایت کرنا تو جائز ہی نہیں" یا "ضعیف جدا" یعنی "وہ بہت ہی کمزور راوی ہے" یا "واہ بمرۃ" یعنی "بہت ہی کمزور راوی ہے"۔

· اس کے بعد جرح کا وہ درجہ آتا ہے جس میں راوی پر جھوٹ بولنے یا اسی طرز کا کوئی (اخلاقی) الزام موجود ہوتا ہے۔ مثلاً "فلان متھم بالکذب" یعنی "فلاں پر جھوٹ بولنے کا الزام موجود ہے" یا "متھم بالوضع" یعنی "اس پر احادیث گھڑنے کا الزام موجود ہے" یا "یسرق الحدیث" یعنی "وہ احادیث چوری کرتا تھا (یعنی دوسروں کی بیان کردہ احادیث اپنے نام سے بیان کرتا تھا)" یا "ساقط" یعنی "چھوڑا ہوا ہے" یا "متروک" یعنی "اسے ترک کر دیا گیا ہے" یا "لیس بثقۃ" یعنی "وہ قابل اعتماد نہیں ہے"۔

· جرح کے پانچویں درجے کے راویوں سے متعلق جھوٹ بولنے یا اسی طرز کا کوئی کام کرنے کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہوتا ہے مثلاً "کذاب" یعنی "جھوٹا"، "دجال" یعنی "دھوکے باز"، "وضاع" یعنی "حدیثیں گھڑنے والا"، "یکذب" یعنی "وہ جھوٹ بولتا ہے"، "یضع" یعنی "وہ حدیث گھڑتا ہے۔"

· جرح کا آخری اور بدترین درجہ وہ ہے جس میں جھوٹ وغیرہ کے متعلق مبالغہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً "فلان اکذب الناس" یعنی "فلاں تو انسانوں میں سب سے بڑا جھوٹا ہے" یا "الیہ المنتھی فی الکذب" یعنی "جھوٹ تو اس پر ختم ہے" یا "ھو رکن الکذب" یعنی "وہ پکا جھوٹا ہے"۔

جرح کے مختلف مراتب کا حکم

مجروح راویوں میں سے پہلے دو درجات کے راویوں کے بارے میں بھی یہ واضح ہے کہ ان کی احادیث سے شرعی احکام تو اخذ نہیں کیے جائیں گے البتہ ان کی احادیث کو صحیح احادیث کو مضبوط کرنے کے لئے (بطور شاہد اور تابع) استعمال کر لیا جائے گا۔ اس میں دوسرے درجے کے راویوں کی نسبت پہلے درجے کے راویوں کی احادیث زیادہ مضبوط سمجھی جائیں گی۔

         جہاں تک تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے درجے کے راویوں کا تعلق ہے تو ان کی احادیث سے نہ تو احکام اخذ کیے جائیں گے، نہ ہی انہیں (بغیر کمزوری واضح کئے) روایت کیا جائے گا اور نہ ہی ان کا اعتبار کیا جائے گا۔



روایت، اس کے آداب اور اس کے ضبط کا طریق کار


حدیث کو حاصل، محفوظ اور روایت کرنے کا طریق کار

تمہید

"حدیث کو سننے، محفوظ رکھنے اور روایت کرنے کے طریق کار" سے مراد یہ ہے کہ ان شرائط کی وضاحت کر دی جائے جو اس شخص کے لئے لازم ہیں جو کسی استاذ سے حدیث سنے، اسے اپنے پاس محفوظ رکھے اور پھر اپنے بعد میں آنے والی نسلوں تک منتقل کر دے۔ ان میں سے بعض شرائط ایسی ہیں جن پر عمل کرنا لازم ہے جبکہ بعض پر عمل کرنا لازم تو نہیں لیکن بہتر ضرور ہے۔

         حدیث کے "تحمل" یعنی "اخذ کرنے" کا معنی یہ ہے کہ طالب حدیث کس طریقے سے حدیث کو اپنے شیوخ (اساتذہ) سے حاصل کرے۔ "ضبط" یعنی "محفوظ رکھنے" کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث ایک طالب علم تک پہنچی ہے وہ اسے اس کی اصل حالت میں محفوظ رکھے تاکہ جب وہ اسے اگلی نسل تک منتقل کرے تو یہ بالکل (صحیح سالم اپنی اصل اور) قابل اطمینان حالت میں اگلی نسل تک منتقل ہو جائے۔
         علوم حدیث کے ماہرین نے اس فن کو اہمیت دی ہے اور اس کے قواعد و ضوابط اور شرائط مقرر کر دی ہیں۔ انہوں نے حدیث کو اخذ کرنے کے مختلف درجات مقرر کیے ہیں۔ یہ محنت اس وجہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث بالکل صحیح حالت میں ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہو سکے تاکہ ہر مسلمان کو اس طریقے کے بارے میں اطمینان حاصل ہو سکے اور وہ یہ جان لے کہ یہی بالکل درست اور متعین طریق کار ہے جس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کو حاصل کر رہا ہے۔

نوٹ: حدیث کو اخذ کرنے اور آگے منتقل کرنے کے ان قواعد و ضوابط کا تعلق اس دور سے ہے جب حدیث ابھی باقاعدہ کتابوں کی صورت میں مدون نہ ہو سکی تھی۔ یہ دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے سے لے کر تقریباً اگلے دو سو سال پر مشتمل ہے۔

اگرچہ اس دور میں تحریر کا فن رواج پا چکا تھا اور قرآن مجید کو مرتب کیا جا چکا تھا لیکن دیگر کتب کو لکھ کر شائع کرنے کا رواج ابھی شروع نہ ہوا تھا۔ بعض صحابہ و تابعین نے احادیث لکھنے اور لکھوانے کا عمل شروع کیا اور اس دور میں بعض کتب جیسے موطاء امام مالک لکھی بھی گئیں اور ان کے نسخے ہاتھ سے نقل کر کے دنیا میں پھیلانے کے عمل کا آغاز بھی ہوا لیکن کاغذ کی کمیابی اور کاتبوں کی کمی کے باعث بہت سی دیگر احادیث ایسی باقی رہ گئی تھیں جنہیں باقاعدہ کتابوں کی صورت میں لکھا جائے۔

اس دور میں احادیث کو استاذ سے سن کر محفوظ کرنے اور پھر اگلی نسل میں منتقل کر دینے کے قوانین بنائے گئے تاکہ زبانی روایت میں غلطیوں کو کم سے کم سطح پر لایا جا سکے۔ جو راوی ان قوانین پر عمل پیرا نہ ہوتا، وہ محدثین کے نزدیک "ضعیف" قرار پاتا اور اس کی روایت کردہ احادیث قابل قبول نہ رہتیں۔

دوسری اور تیسری صدی ہجری میں احادیث کے پورے ذخیرے کو مدون کر لیا گیا اور اس کے بعد ان کتب کی ہزاروں کاپیاں پوری دنیا میں پھیلا دی گئیں۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک یہ کتب تواتر سے امت میں موجود ہیں اور ان کے بارے میں ہمیں سو فیصد اطمینان ہے کہ یہ وہی کتابیں ہیں جو ان کے مصنفین نے مرتب کی تھیں۔ اسی وجہ سے احادیث کو منتقل کرنے کے فن سے متعلق بحث کا تعلق ان کتابوں کی تدوین سے پہلے کے زمانے سے ہے۔

بعض کتب حدیث ایسی ہیں جو تواتر سے تو منتقل نہیں ہو سکی ہیں۔ ان کتابوں کے مخطوطوں کی سند آج سے لے کر ان کتابوں کے مصنفین تک بغیر کسی انقطاع کے موجود ہے اور ان اسناد میں موجود راویوں کے حالات زندگی پر تفصیلی لٹریچر بھی موجود ہے جس کی مدد سے ان کتابوں کے بارے میں ٹھیک ٹھیک رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ ان کتابوں کی نسبت اپنے مصنفین کی طرف درست ہے۔ آج بھی یہ بحث ان کتب کی روایت سے پوری طرح متعلق ہے۔

کیا حدیث کو حاصل کرنے کے لئے مسلمان اور بالغ ہونا ضروری ہے؟

صحیح نقطہ نظر کے مطابق حدیث کو محض حاصل کرنے کے لئے مسلمان اور بالغ ہونا ضروری نہیں ہے البتہ جیسا کہ ہم راوی کی شرائط میں بیان کر چکے ہیں کہ حدیث کو آگے منتقل کرنے کے لئے مسلمان اور بالغ ہونا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے مسلمان اور بالغ راویوں کی بیان کردہ ان احادیث کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے جو انہوں نے اسلام لانے یا بالغ ہونے سے پہلے کسی استاذ سے حاصل کی تھیں (بشرطیکہ وہ سوچنے سمجھنے کی عمر کو پہنچ چکے ہوں۔) لیکن ان احادیث کے بارے میں یہ فرق کرنا ضروری ہے کہ فلاں راوی نے یہ احادیث (اسلام لانے یا) بالغ ہونے سے پہلے حاصل کی تھیں۔

         ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ حدیث کو حاصل کرنے کے لئے بالغ ہونے کی شرط لازم ہے لیکن یہ نقطہ نظر صحیح نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان صحابہ کی بیان کردہ احادیث کو قبول کیا ہے جو عہد رسالت میں ابھی بچے تھے جیسے سیدنا حسن اور ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ ان احادیث میں یہ فرق نہیں کیا جاتا کہ ان حضرات نے یہ حدیث بالغ ہونے سے پہلے حاصل کی تھی یا بعد میں۔

حدیث کو حاصل کرنے کا عمل کتنی عمر میں شروع کرنا بہتر ہے؟

اہل شام میں یہ رواج رہا ہے کہ ایک طالب علم حدیث کو حاصل کرنے کا عمل تیس سال کی عمر میں شروع کرے۔ اہل کوفہ میں بیس سال اور اہل بصرہ میں دس سال کی عمر میں حدیث کی تعلیم شروع کرنے کو بہتر سمجھا جاتا رہا ہے۔

         بعد کے ادوار میں جلد سے جلد حدیث کو سیکھنے کا عمل شروع کرنا ہی بہتر ہے۔ بس یہ ضروری ہے کہ طالب علم حدیث کو صحیح طور پر حاصل کر کے سمجھ سکے کیونکہ اب تو احادیث کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

کیا کم عمری میں حدیث کو حاصل کرنے کے عمل کے صحیح ہونے کی کوئی کم از کم حد مقرر ہے؟

بعض اہل علم کا یہ موقف ہے کہ اس شخص کی بیان کردہ حدیث کو قابل اعتماد سمجھا جائے گا جو اس نے کم سے کم پانچ سال کی عمر میں سنی ہو۔ حدیث کے ماہرین میں اسی بات پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔

         بعض دیگر اہل علم کا یہ نقطہ نظر بھی ہے کہ صرف اسی صورت میں کسی شخص کی حدیث کو قابل اعتماد سمجھا جائے جب اس نے وہ حدیث اس عمر میں سنی ہو جب وہ چیزوں میں فرق کرنے لگا ہو یعنی بات کو سمجھنے لگا ہو۔ اس نقطہ نظر کو مسترد کر دیا گیا ہے کیونکہ بچہ اسی وقت چیزوں میں فرق کر سکتا ہے جب وہ اسے صحیح طور پر سن سکے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ اسے صحیح طور پر سمجھ بھی نہیں سکتا۔










حدیث کو حاصل کرنے کے مختلف طریقے

حدیث کو حاصل کرنے کے طریقے آٹھ ہیں:

· شیخ (یعنی استاذ) کے الفاظ میں سننا (سماع حدیث)

· شیخ کو پڑھ کر سنانا (قراءۃ علی الشیخ)

· اجازت

· مناولۃ

· کتابت

· اعلام

· وصیت

· وجادۃ

ہم ان میں سے ہر ایک سے متعلق مختصر بحث کریں گے۔ حدیث کو آگے منتقل کرتے ہوئے ان طریقوں کو جن مخصوص الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے، ہم ان کی بھی مختصراً وضاحت کریں گے۔

شیخ کے الفاظ میں سننا (سماع حدیث)

اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ احادیث پڑھ کر سنائے اور اس کے طالب علم احادیث کو سنیں۔ شیخ احادیث کو اپنی کتاب سے پڑھ کر بھی سنا سکتا ہے اور اپنی یادداشت کے سہارے بھی بیان کر سکتا ہے۔ طالب علم اس حدیث کو سن کر اپنے حافظے میں بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اپنی نوٹ بک میں بھی اسے لکھ سکتے ہیں۔

         اہل علم کی اکثریت کے مطابق حدیث کو حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے۔ (چونکہ کسی شخص کے لئے حدیث کو آگے منتقل کرتے وقت یہ بتانا ضروری ہے کہ اس نے یہ حدیث کس طریقے سے اپنے استاذ سے حاصل کی ہے، اس وجہ سے کچھ اسٹینڈرڈ الفاظ کو مخصوص طریقوں کے لئے مقرر دیا گیا ہے۔) جس زمانے میں یہ الفاظ مقرر نہیں کیے گئے تھے، اس زمانے میں آگے حدیث بیان کرتے ہوئے ان میں سے کوئی لفظ بھی بول دیا جانا درست سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب یہ الفاظ مقرر کر دیے گئے، اس کے بعد انہی الفاظ میں حدیث کو بیان کرنا ضروری ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے:

· سن کر حدیث حاصل کرنے کے لئے: سمعت (میں نے سنا ہے) یا حدثنی (انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی۔)

· یہ بیان کرنے کے لئے کہ استاذ نے حدیث پڑھ کر سنائی: اخبرنی (انہوں نے مجھے خبر پہنچائی۔)

· اجازت کے لئے: انباءنی (انہوں نے مجھے خبر پہنچائی۔)

· سماع مذاکرہ کے لئے: قال لی (انہوں نے مجھ سے کہا) یا ذکر لی (انہوں نے مجھ سے ذکر کیا۔)

نوٹ: حدیث روایت کرنے میں اس بات کا اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ ایک شخص یہ بھی بتائے کہ اس نے حدیث کو اپنے استاذ سے کس طریقے سے حاصل کیا۔ یہ طریق کار بتانا ہر حدیث روایت کرنے والے شخص کے لئے ضروری قرار دے دیا گیا۔ اس وجہ سے کچھ اسٹینڈرڈ الفاظ کو ہر طریقے کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ سماع مذاکرہ کا معنی ہے کہ ایک محدث دوسرے محدث سے اپنی احادیث شیئر کرے تاکہ دونوں کے علم میں اضافہ ہو۔ سماع مذاکرہ میں سنی ہوئی احادیث کو بیان کرنے کے لئے 'قال لی' یا 'ذکر لی' کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ سماع مذاکرہ اور سماع حدیث میں فرق یہ ہے کہ سماع حدیث میں شیخ اور طالب علم حدیث کو سننے یا سنانے کی باقاعدہ تیاری کر کے آتے ہیں جبکہ سماع مذاکرہ میں ایسا نہیں ہوتا۔

شیخ کے سامنے حدیث پڑھ کر سنانا

اسے اکثر محدثین نے "عرض" کا نام بھی دیا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ طالب علم حدیث پڑھے اور شیخ یا استاذ اس حدیث کو سنے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ایک شاگرد خود پڑھ رہا ہے یا دوسرا پڑھ رہا ہے، شاگرد کسی کتاب سے پڑھ کر سنا رہا ہے یا اپنے حافظے کی مدد سے زبانی پڑھ رہا ہے، شیخ حدیث کو اپنے حافظے کی مدد سے ہی سن رہا ہے یا اس نے اپنے سامنے کتاب رکھی ہوئی ہے، پڑھنے والا شاگرد ثقہ ہے یا نہیں ہے۔

نوٹ: اس طریق کار کا مقصد یہ تھا کہ شاگردوں کی غلطیوں کی اصلاح ہو جائے۔ اس دور میں استاذ اور شاگرد دونوں ہی بالکل اسی طرح حافظ حدیث ہوا کرتے تھے جیسا کہ آج کل حافظ قرآن ہوتے ہیں۔ شاگرد پڑھتا جاتا تھا اور استاذ اس کی تائید کرتا رہتا تھا۔ اگر شاگرد کہیں غلطی کرتا تو استاذ اسے ٹوک کر اس کی تصحیح کر دیتا۔ اگر شاگرد حافظ نہ ہوتا، تو وہ کتاب سے احادیث پڑھ کر سناتا جاتا۔ اگر وہ غلط پڑھتا یا کتاب میں کوئی غلطی موجود ہوتی تو استاذ اس کی اصلاح کر دیا کرتا تھا۔

         شیخ کے سامنے حدیث کو پڑھ کر روایت کرنا ایک بالکل درست طریق کار ہے اگرچہ بعض شدت پسند افراد نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ اس طریق کار کے درجے سے متعلق تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ امام مالک، بخاری اور حجاز و کوفہ کے جلیل القدر علماء کی رائے کے مطابق یہ طریقہ، پہلے طریقے (یعنی شیخ سے سننے) کے برابر ہے۔ اہل مشرق (یعنی خراسان، ہندوستان وغیرہ) کے علماء کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق یہ پہلے طریقے سے ادنی درجے کا طریقہ ہے۔ امام ابوحنیفہ، ابن ابی ذئب اور مالک سے ایک ایک روایت کے مطابق یہ پہلے طریقے سے اعلی درجے کا طریقہ ہے۔

اس طریقے کو بیان کرنے کے الفاظ کی تفصیل یہ ہے:

· سب سے محفوظ طریقہ یہ ہے کہ کہا جائے، "قرات علی فلان" یعنی "میں نے فلاں کے سامنے اسے پڑھا ہے" یا "قری علیہ و انا اسمع فاقر بہ" یعنی "ان شیخ کے سامنے اس حدیث کو پڑھ کر سنایا گیا۔ میں نے خود اپنے کانوں سے سنا کہ استاذ نے اس حدیث کی توثیق کر دی۔"

· یہ بھی درست ہے کہ اس طریقے کو پہلے طریقے (یعنی شیخ سے سننے) کے الفاظ میں بیان کر دیا جائے لیکن ساتھ ہی قراءۃ (یعنی پڑھنے) کے الفاظ بول دیے جائیں جیسے "حدثنا قراءۃ علیہ" یعنی "انہوں نے ہم سے حدیث بیان کی جو ان کے سامنے پڑھی گئی۔"

· محدثین اکثر اوقات لفظ "اخبرنا" یعنی "انہوں نے ہمیں خبر دی" کہہ کر اس سے یہ طریقہ مراد لیتے ہیں۔

اجازت

اس کا مطلب ہے حدیث کسی کو روایت کرنے کی زبانی یا تحریری اجازت دینا۔ (ایسا اس صورت میں ہوتا ہے جب شیخ شاگرد کو باقاعدہ حدیث کی تعلیم دیے بغیر اسے اپنے آپ سے حدیث روایت کرنے کی اجازت دے دے۔)

         اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ شیخ کسی شخص سے یہ کہے، "میں نے تمہیں اس بات کی اجازت دی کہ تم مجھ سے صحیح بخاری روایت کرو۔" اجازت کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے ہم پانچ کا ذکر کریں گے۔

· شیخ کسی متعین طالب علم کو متعین حدیث کے بارے میں اجازت دے: مثلاً وہ کسی خاص شاگرد کو یہ کہے، "میں نے تمہیں اجازت دی کہ تم مجھ سے صحیح بخاری کی یہ حدیث روایت کرو۔" یہ اجازت کی سب سے اعلی شکل ہے۔

· شیخ کسی متعین شاگرد کو غیر متعین حدیث کے بارے میں اجازت دے: مثلاً "میں نے تمہیں اجازت دی کہ تم نے مجھ سے جو بھی حدیث سنی ہے، اسے روایت کر دو۔"

· شیخ غیر متعین افراد کو غیر متعین حدیث کے بارے میں اجازت دے: مثلاً "میں سب کو یہ اجازت دیتا ہوں کہ وہ مجھ سے جو حدیث سنیں، روایت کر دیں۔"

· شیخ غیر متعین افراد یا غیر متعین حدیث کے بارے میں اجازت دے: مثلاً "میں کتاب السنن کی اجازت دیتا ہوں" جبکہ کتاب السنن کئی ہوں۔ یا "میں محمد بن خالد کو اجازت دیتا ہوں" جبکہ اس نام کے متعدد افراد موجود ہوں۔

· شیخ کسی غیر حاضر شخص کے لئے اجازت دے دے: وہ غیر حاضر شخص حقیقتاً دنیا میں موجود ہو مثلاً "میں نے فلاں اور اس کے بیٹے کو اجازت دی"۔ یہ بھی ممکن ہے وہ غیر حاضر شخص دنیا میں موجود ہی نہ ہو مثلاً "میں نے فلاں اور اس کی آنے والی نسل کو اجازت دی۔"

اہل علم کی اکثریت کے نزدیک پہلی قسم کی اجازت دینا درست ہے اور اسی پر ان کا عمل رہا ہے۔ اہل علم کے ایک گروہ جس میں امام شافعی بھی ایک روایت کے مطابق شامل ہیں نے اس اجازت کو بھی غلط قرار دیا ہے۔

         باقی قسم کی اجازتوں کے درست ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر قسم کی اجازت میں تساہل اور سستی تو بہرحال پائی ہی جاتی ہے۔

اجازت کو بیان کرنے کے الفاظ یہ ہیں:

· سب سے بہتر تو یہ ہے کہ کہاں جائے،"اجاز لی فلان" یعنی "فلاں نے مجھے اس حدیث کو روایت کرنے کی اجازت دی ہے۔"

· سماع (یعنی پہلے طریقے) کے الفاظ کے ساتھ 'اجازت' کا لفظ لگا کر بھی اسے بیان کرنا درست ہے جیسے "حدثنا اجازۃ" یعنی "انہوں نے ہمیں حدیث بیان کرنے کی اجازت دی" یا "اخبرنا اجازۃ" یعنی "انہوں نے ہمیں خبر بیان کرنے کی اجازت دی۔"

· بعد کے دور کے اہل علم (متاخرین) نے اجازت کے لئے "انباءنا" کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا ہے اور اسے کتاب "الوجازۃ فی تجویز الاجازۃ" کے مصنف ابو العباس الولید بن بکر العمری نے بھی اختیار کیا ہے۔

نوٹ: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث پر کسی شخص کی اجارہ داری تو نہیں ہے پھر اجازت لینے کو ضروری کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اجازت حدیث کو بیان کرنے کے لئے نہیں لی جا رہی بلکہ اس حدیث کو اس مخصوص استاذ سے منسوب کرنے کے لئے لی جا رہی ہے۔ ایک استاذ اگر کسی حدیث کو پبلک محفل میں بیان کرتا ہے تو اسے آگے روایت کرنے اور استاذ سے منسوب کرنے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ لیکن وہ ان احادیث کو کسی ایک شخص کو بتا دیتا ہے تو اس صورت میں اسے آگے روایت کرنے کے لئے لازم ہے کہ شیخ کی اجازت لے لی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ حدیث کی سند یا متن میں کوئی ایسا مسئلہ پایا جاتا ہو جس کے باعث شیخ اسے روایت کرنا نہ چاہتا ہو اور شاگرد اس حدیث کو استاذ کی طرف منسوب کر کے عام کر دے۔

مناولۃ (دے دینا)

(شیخ اگر کسی شخص کو حدیث کی ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب پکڑا دے تو اسے مناولۃ کہا جاتا ہے۔) مناولۃ کی دو اقسام ہیں: اجازت کے ساتھ دینا اور اجازت کے بغیر دینا۔

· اجازت کے ساتھ دینا: یہ اجازت کی سب سے اعلی قسم ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ، اپنے شاگرد کو حدیث کی ڈائری دے کر کہے، "یہ احادیث میں نے فلاں سے روایت کی تھیں، تم اب انہیں مجھ سے روایت کر سکتے ہو۔" اس کے بعد وہ ڈائری شاگرد کی ملکیت ہو جائے یا شاگرد اس ڈائری کو نقل کر کے اسے شیخ کو واپس کر دے۔

· اجازت کے بغیر دینا: اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ طالب علم کو ڈائری دے اور مختصر طور پر یہ کہہ دے کہ "یہ میری سنی ہوئی احادیث ہیں۔" (یعنی وہ اسے روایت کرنے کی اجازت نہ دے۔)

جہاں تک اجازت کے ساتھ مناولت کا تعلق ہے تو اس قسم کی مناولت کی بنیاد پر حدیث کو روایت کرنا درست ہے۔ اس کا درجہ البتہ شیخ سے سننے یا اسے سنانے سے بہرحال کم ہے۔ صحیح نقطہ نظر کے مطابق اجازت کے بغیر مناولت کی بنیاد پر حدیث روایت کرنا درست نہیں ہے۔

نوٹ: اس طریق کار کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس دور میں کتابیں آج کل کی کتب کی طرح نہیں ہوا کرتی تھیں۔ اس دور کی کتب زیادہ تر لوگوں کی ذاتی ڈائری کی حیثیت رکھتی تھیں۔ محدثین اپنی ڈائری میں احادیث درج کرتے اور اگر انہیں کسی کو تحریری صورت میں احادیث دینا مقصود ہوتیں تو اسے یہ ڈائری دے کر اجازت دے دیا کرتے تھے۔ ایسی ڈائریوں کے بہت سے مخطوطے دنیا بھر کی لائبریریوں اور عجائب گھروں میں اب تک موجود ہیں اور ان پر ماہرین حدیث تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے سب سے قدیم مخطوطہ دوسری صدی ہجری کا ہے۔ ان مخطوطوں کی سافٹ کاپیاں بعض ویب سائٹس پر بھی دستیاب ہیں۔

مناولت کو بیان کرنے کے لئے یہ الفاظ مقرر کئے گئے ہیں:

· بہتر الفاظ یہ ہیں، "ناولنی" یعنی "انہوں نے کتاب مجھے دی" یا اگر اجازت بھی دی ہو تو "ناولنی و اجاز لی" یعنی "انہوں نے مجھے کتاب دی اور اسے روایت کرنے کی اجازت بھی دی۔"

· پہلے دو طریقوں کے الفاظ کو "مناولۃ" کے الفاظ کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا بھی درست ہے جیسے "حدثنی مناولۃ" یعنی "انہوں نے کتاب دے کر مجھ تک حدیث پہنچائی" یا "اخبرنا مناولۃ" یعنی "انہوں نے کتاب دے کر مجھے خبر پہنچائی۔"

· بعد کے دور کے اہل علم جیسے کتاب "الوجازۃ فی تجویز الاجازۃ" کے مصنف ابو العباس ولید بن بکر المعمری نے اس کے لئے "انباءنا" یعنی "انہوں نے مجھے خبر پہنچائی" کا لفظ مخصوص کر لیا ہے۔

کتابت

(کتابت لکھ کر احادیث کسی کو دینے کو کہتے ہیں) اس کی صورت یہ ہے کہ شیخ کسی موجود یا غیر موجود شخص کے لئے احادیث اپنے ہاتھ سے لکھ دے یا کسی اور سے لکھوا کر اس شخص کو دے دے۔ اس کی بھی دو اقسام ہیں:

· ایک تو یہ کہ شیخ احادیث کو لکھ کر بھجوانے کے ساتھ ساتھ اسے روایت کرنے کی اجازت بھی دے دے۔ جیسے وہ یہ کہے، "میں نے جو کچھ لکھ کر آپ کو دیا ہے، میں اس کی روایت کی اجازت دیتا ہوں۔"

· دوسری قسم یہ ہے کہ شیخ احادیث لکھ کر بھجوا تو دے لیکن اس کی روایت کی اجازت کو واضح الفاظ میں بیان نہ کرے۔

ان میں سے پہلی قسم کی کتابت کا حکم بالکل اسی مناولۃ کی طرح ہے جس کی روایت کی اجازت دے دی گئی ہو۔ ایسی احادیث کی روایت کرنا درست ہے۔ دوسری قسم کی کتابت کے بارے میں اہل علم کے ہاں اختلاف رائے ہے۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق ایسی تحریر کی روایت منع ہے لیکن حدیث کے ماہرین کے صحیح نقطہ نظر کے مطابق اس کی روایت کرنا درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لکھ کر دینے کا مطلب ہی روایت کرنے کی اجازت دینا ہوتا ہے۔

نوٹ: مناولت اور کتابت میں فرق یہ ہے کہ مناولت میں کوئی شیخ اپنی پہلے سے لکھی ہوئی احادیث کسی شاگرد کو دے دے جبکہ کتابت میں خاص طور پر احادیث کسی شخص کے لئے لکھوائی جائیں۔ پرنٹنگ پریس اور انٹرنیٹ کے موجودہ دور میں یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے لیکن اس دور میں چونکہ فن تحریر اس قدر ترقی یافتہ نہ تھا، اس وجہ سے یہ تمام معاملات پیش آیا کرتے تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریر پر اعتماد کرتے ہوئے یہ طے کر لیا جائے گا کہ یہ احادیث اسی شخص سے روایت کی گئی ہیں جس نے یہ تحریر لکھی ہے۔ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ محض تحریر پر اعتماد نہ کیا جائے کیونکہ مختلف افراد کی تحریریں ملتی جلتی ہوا کرتی ہیں۔ یہ نقطہ نظر کمزور ہے۔ صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ تحریر سے اس کے لکھنے والے کی پہچان ہوتی ہے کیونکہ ہر شخص کی تحریر مختلف ہوتی ہے (اور تحریر پہچاننے کے ماہرین اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔)

نوٹ: موجودہ دور میں بھی ایسے ماہرین موجود ہیں۔ میرے استاذ محمد عزیر شمس صاحب نے ابن تیمیہ کی کتب کے مخطوطوں پر تفصیلی کام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کی تحریر سے اس حد تک واقف ہو گئے ہیں کہ کسی بھی مخطوطے کو دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ مخطوطہ ابن تیمیہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے یا نہیں۔

کتابت کو بیان کرنے کے لئے یہ الفاظ مقرر کیے گئے ہیں:

· تحریر میں یہ بات واضح کر دی گئی ہو جیسے لکھا ہو، "یہ تحریر فلاں شخص کے لئے ہے۔"

· روایت کرنے والا روایت کرتے ہوئے سماع کے الفاظ کے ساتھ ساتھ "کتابت" کے لفظ کا اضافہ کر دے، جیسے "حدثنی فلان کتابۃ" یعنی "فلاں نے لکھ کر مجھ سے حدیث بیان کی۔"

اعلام

اعلام کی صورت یہ ہے کہ شیخ، اپنے شاگرد کو (پرائیویٹ مجلس میں) یہ بتائے کہ اس نے یہ حدیث یا حدیث کی یہ کتاب اپنے شیخ سے سن رکھی ہے۔ ایسی صورت میں شاگرد کے لئے اس حدیث کو روایت کرنے کے بارے میں اہل علم کے ہاں اختلاف رائے ہے:

· حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق ایسی حدیث کی روایت جائز ہے۔

· بعض محدثین کے نقطہ نظر کے مطابق ایسی حدیث کو آگے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی نقطہ نظر صحیح ہے کیونکہ شیخ نے شاگرد کو یہ حدیث بتا تو دی ہے لیکن اس حدیث میں کوئی ایسی خامی موجود ہے جس کی وجہ سے شیخ نے اس حدیث کی روایت کی اجازت نہیں دی ہے۔ اگر اس حدیث میں یہ خامی موجود نہ ہوتی تو شیخ اس حدیث کو روایت کرنے کی اجازت دے دیتا۔

"اعلام" کو بیان کرنے کے لئے یہ الفاظ کہے جاتے ہیں، "اعلمنی شیخی بکذا" یعنی "میرے استاذ نے مجھے اس حدیث کے بارے میں مطلع کیا۔"

وصیت

وصیت کی صورت یہ ہے کہ ایک شیخ مرتے ہوئے یا کسی طویل سفر پر جاتے ہوئے کسی شخص کو اپنی حدیث کی ڈائری دینے کی اجازت دے جائے۔

         بعض اہل علم کے نزدیک اس ڈائری کی احادیث کو روایت کرنا جائز ہے۔ یہ نقطہ نظر درست نہیں۔ دیگر اہل علم اس ڈائری کی احادیث کو روایت کرنے کو درست نہیں سمجھتے کیونکہ شیخ نے ڈائری اس شخص کو دینے کی وصیت کی ہوتی ہے، روایت کرنے کی اجازت نہیں دی ہوتی۔ یہی نقطہ نظر درست ہے۔
         وصیت کو ان الفاظ میں ادا کیا جاتا ہے، "اوصی الی فلان بکذا" یعنی "انہوں نے فلاں کے لئے یہ وصیت کی" یا "حدثنی فلان وصیۃ" یعنی "فلاں استاذ نے وصیت کے ذریعے یہ حدیث مجھ تک منتقل کی۔"

وجادہ

وجادہ، وجد کا مصدر ہے اور اس کا مطلب ہے کسی چیز کو پانا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک طالب علم کو شیخ کے ہاتھ کا لکھا ہوا حدیث کا کوئی نسخہ مل جائے اور وہ طالب علم شیخ کی تحریر کو پہچانتا ہو۔ ایسی صورت میں اس نے حدیث کو نہ تو براہ راست سنا ہوتا ہے اور نہ ہی اسے حدیث کو شیخ سے روایت کرنے کی اجازت ملی ہوتی ہے۔

         وجادہ کے ذریعے روایت، منقطع حدیث کی طرح ہوتی ہے لیکن اس میں ایک قسم کا اتصال پایا جاتا ہے۔ اس کو ادا کرنے کے لئے یہ الفاظ ادا کئے جاتے ہیں، "وجدت بخط فلان او قرات بخط فلان کذا" یعنی "مجھے فلاں کی تحریر ملی ہے یا میں نے فلاں کی تحریر پڑھی ہے اور اس میں یہ لکھا ہے۔۔۔"۔ اس کے بعد وہ اسناد اور متن کو نارمل انداز میں بیان کرتا ہے۔

نوٹ: بیسویں صدی میں وجادہ کے ذریعے بہت سے قدیم مخطوطات دریافت ہوئے ہیں۔ مخطوطہ (Manuscript) دور قدیم کی قلمی تحریر کو کہتے ہیں۔ مخطوطے عام طور پر آثار قدیمہ یا لوگوں کے نوادرات کے ذاتی ذخیرے سے دستیاب ہوا کرتے ہیں۔

ان مخطوطوں کے صحیح ہونے کو پرکھنے کے لئے ریڈیو کاربن ٹیسٹ کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان مخطوطوں کا صحیح دور معلوم کیا جا سکے۔ کاربن ٹیسٹ کے علاوہ مخطوطے کے متن میں بھی بعض شواہد پائے جاتے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مخطوطہ کس دور کا ہے۔

مثال کے طور پر مصنف کی تحریر کے اگر دوسرے نمونے بھی پائے جاتے ہوں تو اس مخطوطے کو ان سے ملا کر دیکھا جاتا ہے۔ یا پھر اس مخطوطے کے اقتباسات اگر اس دور کی دیگر تصانیف میں پائے جاتے ہوں تو اس مخطوطے کو ان اقتباسات سے ملا کر دیکھا جاتا ہے۔ ان طریقوں سے یقین کی حد تک یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مخطوطہ اصلی ہے۔

اس کی ایک مثال صحیفہ ہمام بن منبہ ہے۔ ہمام بن منبہ رحمہ اللہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے اور انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے احادیث سن کر انہیں ایک صحیفے میں لکھ لیا تھا۔ یہی احادیث بعد میں امام بخاری، مسلم اور احمد بن حنبل نے اپنی کتب میں درج کیں۔ ہمام بن منبہ کا صحیفہ بہت بعد میں دریافت ہوا۔ ڈاکٹر حمید اللہ جیسے ماہرین نے اس کی احادیث کا بخاری، مسلم اور احمد کی متعلقہ احادیث سے موازنہ کیا تو انہیں سوائے چھوٹی موٹی کتابت کی غلطی کے اور کوئی فرق نہ مل سکا۔ اس کی تفصیل ان کتب میں دیکھی جا سکتی ہے:

· A. F. L. Beeston, T. M. Johnstone, R. B. Serjeant and G. R. Smith (Ed.), Arabic Literature To The End of Ummayyad Period, 1983, Cambridge University Press, p. 272

· Sahifa Hammam bin Munabbih: The Earliest Extant Work On The Hadith, 1979, M. Hamidullah, Centre Cultural Islamique

· R. M. Speight, "A Look At Variant Readings In The Hadith", Der Islam, 2000, Band 77, Heft 1, p. 170.


کتابت حدیث اور حدیث سے متعلق تصانیف کا طریق کار

حدیث کو تحریر کرنے کا حکم

صحابہ و تابعین میں حدیث کو تحریر کرنے کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض صحابہ جیسے سیدنا ابن عمر، ابن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اس کام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بعض دیگر صحابہ و تابعین جیسے سیدنا عبداللہ بن عمرو، انس اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم کے نزدیک ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

         بعد کے ادوار میں یہ اختلاف رائے ختم ہو گیا اور مسلمانوں کے تمام اہل علم نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ احادیث کو لکھ لینا چاہیے تاکہ ان کا یہ ذخیرہ ضائع نہ ہو جائے۔

احادیث لکھنے کے بارے میں اختلاف رائے کی وجوہات

صحابہ کے مابین اس اختلاف کی وجہ اس بارے میں مختلف احادیث تھیں۔ مثال کے طور پر:

مسلم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "مجھ سے سن کر قرآن کے سوا کوئی اور بات نہ لکھا کرو۔ جس نے قرآن کے علاوہ اب تک کچھ اور لکھا ہے، وہ اسے مٹا دے۔"

بخاری و مسلم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "ابو شاہ کو یہ باتیں لکھ کر دے دو۔"

اس کے علاوہ کچھ اور احادیث بھی موجود ہیں جن میں آپ نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو احادیث لکھنے کی اجازت دے دی۔

احادیث لکھنے سے منع کرنے اور اجازت دینے کی تطبیق

اہل علم نے دونوں قسم کی احادیث، جن میں حدیث لکھنے سے منع کیا گیا ہے یا حدیث لکھنے کی اجازت دی گئی ہے، کو اکٹھا کر کے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ لکھنے کی اجازت اس شخص کے لئے تھی جسے احادیث کے بھول جانے کا خدشہ تھا۔ جو شخص اچھی یادداشت کا مالک تھا، اسے لکھنے سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ تحریر پر ہی تکیہ نہ کرنے لگ جائے۔

         دیگر اہل علم کا یہ خیال ہے کہ شروع میں حدیث لکھنے سے اس وجہ سے منع فرمایا گیا کہ اس وقت قرآن کی تحریر کا کام جاری تھا اور یہ خدشہ تھا کہ قرآن اور حدیث خلط ملط نہ ہو جائیں۔ جب یہ خدشہ نہ رہا تو اس کے بعد حدیث لکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ اس وجہ سے حدیث لکھنے کی ممانعت منسوخ ہو چکی ہے۔

نوٹ: یہ دوسرا نقطہ نظر ہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس معاشرے میں اہم باتوں کو لکھ لینے کا زیادہ رواج موجود نہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قرآن مجید کی تدوین کا جو کام شروع کر رکھا تھا، وہ عربوں کے لئے ایک نئی چیز تھی۔ چونکہ یہ لوگ تحریر کرنے، کاغذات اور دیگر مواد کو الگ الگ کرنے اور اسے محفوظ کرنے کے بہت زیادہ عادی نہ تھے، اس وجہ سے یہ خطرہ تھا کہ اگر قرآن کے علاوہ کچھ اور بھی لکھا جائے گا تو یہ کہیں قرآن میں شامل نہ ہو جائے۔

جب قرآن مجید کی تدوین کا کام بڑی حد تک مکمل ہو گیا اور اس کی ایک باقاعدہ جلد تیار کر لی گئی تو یہ خطرہ نہ رہا کہ قرآن و حدیث خلط ملط ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے اب حدیث رسول کو لکھنے کی اجازت دے دی گئی۔

حدیث کو تحریر کرنے والے کو کیا احتیاطی تدابیر کرنی چاہییں؟

حدیث کو تحریر کرنے والے کاتب کو ان امور کا خیال رکھنا چاہیے:

· وہ فن تحریر کا ماہر ہو یعنی حروف کی شکلوں اور نقاط کو اچھی طرح پہچانتا ہو تاکہ حدیث کو پڑھنے اور لکھنے میں غلطی نہ کر بیٹھے۔

· اسے عبارت لکھنے کے رموز اور علامات (جیسے کامہ، فل اسٹاپ) سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ جان سکے کہ ایک علامت سے پہلے اور بعد میں کیا لکھا ہوا ہے۔

· وہ تحریر کے مشہور اور رائج قواعد کے مطابق تحریر لکھے کیونکہ اگر وہ اپنے ہی قواعد ایجاد کر لے گا تو دوسرے لوگ اسے سمجھ نہ سکیں گے۔

· جہاں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ذکر مبارک آئے، وہ وہاں آپ پر درود و سلام بھی لکھے اور اس کی تکرار سے اکتائے نہیں۔

· اسی طرح جہاں اللہ تعالی کا ذکر آئے وہاں وہ اس کی حمد و ثنا بیان کرے جیسے "عزوجل"۔

· اسی طرح صحابہ اور علماء کا ذکر کرتے ہوئے 'رضی اللہ عنہ' اور 'رحمۃ اللہ علیہ' لکھنا نہ بھولے۔

· بعض لوگ ان سب کو اختصار سے لکھتے ہیں جیسے 'صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم' کی جگہ صرف 'ص' یا 'صلعم' لکھ دیتے ہیں۔ یہ ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔

احادیث کا اصل ماخذ سے موازنہ

حدیث کو لکھ لینے کے بعد کاتب کو چاہیے کہ وہ اس حدیث کا اپنے شیخ کی اصل کتاب سے موازنہ بھی کر لے اگرچہ اسے شیخ سے حدیث روایت کرنے کے لئے اجازت بھی مل چکی ہو۔ یہ تقابل اس طریقے سے ہونا چاہیے کہ لکھنے والا شخص اپنی اور شیخ کی تحریر کو آمنے سامنے رکھ کر موازنہ کرے۔ وہ اپنی تحریر پڑھ کر سنائے اور دوسرا ثقہ شخص شیخ کی کتاب کا اس سے موازنہ کرتا چلا جائے۔

نوٹ: ان تمام احتیاطی تدابیر کا تعلق اس بات سے ہے کہ حدیث کو روایت کرنے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کوئی غلط بات منسوب نہ ہو جائے کیونکہ یہ معاملہ بہت ہی نازک ہے۔ اگرچہ یہ تمام احتیاطی تدابیر اس وقت ایجاد کی گئیں جب احادیث کی تدوین کا عمل جاری تھا۔ لیکن موجودہ دور میں بھی حدیث کی کسی کتاب سے حدیث نقل کرتے ہوئے یہی احتیاط ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے تاکہ غلطیوں کو کم سے کم کیا جا سکے۔

موجودہ دور میں ہم کمپیوٹر کی سہولت سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب قرآن و حدیث کی سافٹ کاپیاں (Softcopies) الیکٹرانک فارمیٹ میں دستیاب ہو چکی ہیں۔ اگر ان کو اچھی طرح چیک کرنے کے بعد ان پر اعتماد کر لیا جائے تو پھر محض کاپی پیسٹ کر کے آیات و احادیث کو غلطی کے بغیر نقل کیا جا سکتا ہے۔

کتب حدیث میں استعمال ہونے والی بعض اصطلاحات

حدیث کو منتقل کرنے کے طریقے کو بیان کرنے کے لئے حدیث کی اکثر کتابوں میں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ اس کی بعض صورتیں یہ ہیں:

· 'حدثنا' کو 'ثنا' یا صرف 'نا' لکھا جاتا ہے۔

· 'أخبرنا' کو 'أنا' یا 'أرنا' لکھا جاتا ہے۔

· ایک سند کے بعد دوسری سند شروع کرتے ہوئے 'ح' لکھا جاتا ہے۔

· بعض اوقات محض اختصار کے لئے لفظ 'قال' کو حذف کر دیا جاتا ہے اگرچہ یہ غلط ہے۔ مثال کے طور پر یوں لکھا جاتا ہے، "حدثنا عبداللہ بن یوسف اخبرنا مالک" یعنی "عبداللہ بن یوسف نے ہم سے یہ حدیث بیان کی، مالک نے ہمیں خبر دی"۔ اس کو اس طرح سے پڑھنا چاہیے "حدثنا عبداللہ بن یوسف قال اخبرنا مالک" یعنی "عبداللہ بن یوسف نے ہم سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مالک نے انہیں خبر دی۔"

· اسی طرح بعض مواقع پر اختصار کے لئے لفظ "انہ" کو حذف کر دیا جاتا ہے۔

طلب علم کے لئے سفر

ہمارے اسلاف نے حدیث کو حاصل کرنے کے لئے جو محنت کی، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے حدیث کو جمع کر کے اسے محفوظ کرنے کے لئے جس قدر کاوشیں کی اور اپنا قیمتی وقت صرف کیا، اس کو بیان کرتے ہوئے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک شخص اپنے شہر کے اہل علم سے احادیث جمع کرنے کے بعد قریب اور دور کے شہروں کا سفر کرتا تاکہ وہ ان شہروں کے اساتذہ سے احادیث حاصل کر سکے۔ اس کام کے لئے وہ لوگ سفر کی مشقتیں برداشت کرتے اور اپنی زندگی کا عیش و آرام چھوڑ دیتے۔

         خطیب بغدادی نے اس ضمن میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے "الرحلۃ فی طلب الحدیث"۔ اس میں انہوں نے صحابہ، تابعین اور بعد کے ادوار کے اہل علم کے سفروں کی تفصیلات لکھی ہیں جو انہوں نے حدیث جمع کرنے کے لئے کئے۔ انہیں پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ جو شخص عزیمت کی ان داستانوں کو پڑھنا چاہے، وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرے کیونکہ یہ کتاب طالبین علم کے عزائم کو تقویت دے گی، ان کی ہمت بڑھائے گی اور ان کی پریشانیوں کو دور کرے گی۔

نوٹ: ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے اس دور میں اس دور کے سفر کی مشقتوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے جب لوگ ہزاروں کلومیٹر کا سفر گھوڑوں اور اونٹوں پر کیا کرتے تھے جن پر ایک دن میں بمشکل تیس چالیس کلومیٹر کا فاصلہ طے ہوتا۔ راتوں کو جنگلوں اور صحراؤں میں پڑاؤ کرنا پڑتا۔ دوسرے شہر پہنچنے پر ایسے لگژری ہوٹل بھی دستیاب نہ ہوا کرتے تھے جہاں انسان آرام سے رہ سکے۔ تمدن کی یہ ترقیاں بہت بعد کے دور میں وقوع پذیر ہوئیں۔

موجودہ دور میں جب سفر بہت آسان ہے، علم کے طالبین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ دور میں حدیث کے حصول کے لئے بلکہ دین کو سمجھنے کے لئے سفر کر کے اہل علم کے پاس جانا چاہیے۔

حدیث کی تصانیف کی اقسام

جو شخص خود کو اس قابل پائے کہ وہ حدیث کی خدمت کر سکے تو اس پر لازم ہے کہ وہ حدیث سے متعلق تصانیف لکھے۔ ان تصانیف کا مقصد متفرق احادیث کو اکٹھا کرنا، احادیث کے مشکل پہلوؤں کی وضاحت کرنا، غیر مرتب احادیث کو ترتیب دینا، حدیث کے طالب علموں کے استفادے کے لئے فہرستیں اور انڈیکس تیار کرنا (یا سافٹ وئیر بنانا) ہو سکتا ہے۔ تصنیف کرنے کے بعد کتاب کو شائع کرنے سے پہلے اس کی غلطیوں کی اصلاح ضروری ہے تاکہ تصنیف دوسروں کے لئے فائدہ مند ہو جائے۔

         اہل علم نے احادیث سے متعلق بہت سی اقسام کی کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے مشہور اقسام یہ ہیں:

· الجوامع: یہ 'جامع' کی جمع ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں عقائد، عبادات، معاملات، سوانح حیات، مناقب، رقت قلب، فتنے، قیامت کی علامات وغیرہ وغیرہ ہر قسم کے موضوع پر احادیث اکٹھی کی گئی ہوں۔ اس کی مثال امام بخاری کی "الجامع الصحیح" ہے۔

· المسانید: یہ 'مُسند' کی جمع ہے۔اس قسم کی کتاب میں موضوع کی بجائے احادیث کو ان کے راوی صحابی کے نام سے ترتیب دیا جاتا ہے (یعنی ایک صحابی کی تمام روایات ایک جگہ اکٹھی کر دی جاتی ہیں۔) اس کی مثال امام احمد بن حنبل کی "مسند" ہے۔

· السنن: اس قسم کی کتابیں فقہ کے موضوعات کے مطابق لکھی جاتی ہیں تاکہ ہر موضوع سے متعلق احادیث ایک جگہ آ جائیں جن سے فقہاء استنباط کر سکیں۔ سنن اور جامع میں فرق یہ ہے کہ سنن میں عقائد، سوانح حیات اور مناقب سے متعلق احادیث درج نہیں کی جاتیں بلکہ صرف احکام سے متعلق احادیث ہوتی ہیں۔ اس کی مثال امام ابوداؤد کی "سنن" ہے۔

· المعاجم: یہ 'معجم' کی جمع ہے۔ اس قسم کی کتابوں میں مصنف احادیث کو اپنے اساتذہ کی ترتیب سے اکٹھا کرتا ہے۔ ان اساتذہ کے ناموں کو عموماً حروف تہجی سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال امام طبرانی کی تین کتابیں "المعجم الکبیر، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر" ہیں۔

· العلل: اس قسم کی کتابیں ان احادیث پر مشتمل ہوتی ہیں جن میں کوئی علت (خامی) پائی جاتی ہو۔ احادیث کے ساتھ ساتھ ان کی (سند یا متن کی) خامیوں کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال امام ابن ابی حاتم کی "العلل" یا امام دارقطنی کی "العلل" ہے۔

· الاجزاء: یہ 'جز' کی جمع ہے۔ یہ احادیث کی مختصر کتابیں ہوتی ہیں جن میں کسی ایک راوی یا کسی ایک موضوع سے متعلق احادیث اکٹھی کی جاتی ہیں۔ اس کی مثال امام بخاری کی "جزء رفع الیدین فی الصلاۃ" ہے۔

· الاطراف: اس قسم کی کتابوں میں کسی ایک حدیث کو بنیاد بناتے ہوئے اس سے متعلق دیگر احادیث کو درج کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تمام احادیث کی اسناد اور متون کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال امام مِزِّی کی "تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف" ہے۔

· المستدرک: مستدرک اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں دوسری کتاب کے مصنف کی شرائط پر پوری اترنے والی وہ احادیث بیان کی جاتی ہیں جو دوسری کتاب میں بیان نہیں کی گئیں۔ اس کی مثال ابو عبداللہ الحاکم کی "المستدرک علی الصحیحین" ہے۔ (اس کتاب میں حاکم نے وہ احادیث بیان کی ہیں جو ان کی تحقیق کے مطابق بخاری اور مسلم کی شرائط پر پورا اترتی ہیں لیکن انہوں نے ان احادیث کو اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا۔ مستدرک کا مقصد نامکمل کتاب کو مکمل کرنا ہوتا ہے۔)

· المستخرج: مستخرج اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں کسی دوسری کتاب میں بیان کردہ احادیث کی مزید اسناد بیان کی جاتی ہیں۔ یہ مزید اسناد اصل کتاب کے مصنف نے بیان نہیں کی ہوتیں۔ دیگر اسناد کے یہ سلسلے اصل کتاب کے مولف کے استاذ یا ان کے کسی استاذ سے جا کر مل جاتے ہیں۔ اس کی مثال ابو نعیم الاصبہانی کی "المستخرج علی الصحیحین" ہے۔ (ابو نعیم نے اس کتاب میں بخاری و مسلم میں بیان کردہ احادیث کی مزید اسناد بیان کی ہیں تاکہ ان کی احادیث میں مزید قوت پیدا ہو جائے۔)


روایت حدیث کا طریق کار

روایت حدیث کے طریق کار کی وضاحت

اس عنوان کا معنی یہ ہے کہ حدیث کو روایت کرنے کی کیفیت، آداب اور طریق کار کو بیان کیا جائے جس پر عمل کرنا ایک حدیث روایت کرنے والے کے لئے ضروری ہے۔ اس ضمن میں ضروری بحث گزر چکی ہے۔ مزید تفصیلات یہ ہیں۔

نوٹ: یہاں جو مسائل بیان کیے گئے ہیں، ان کا تعلق اس دور سے ہے جب حدیث کی کتابیں مدون نہ ہوئی تھیں۔ انہیں بیان کرنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس دور میں حدیث کی روایت میں کی گئی احتیاط کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اور دوسرے یہ کہ کتب حدیث میں موجود احادیث کو پرکھتے وقت یہ دیکھا جا سکے کہ کوئی حدیث ان شرائط پر پورا اترتی ہے یا نہیں؟

اگر راوی نے حدیث کو حفظ نہ کیا ہو تو کیا محض کتاب سے پڑھ کر اسے روایت کرنا درست ہے؟

اس بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض اہل علم نے اس معاملے میں بہت سخت رویہ اختیار کیا ہے اور بعض نے بہت نرم۔ اس کے علاوہ اس میں معتدل نقطہ نظر بھی پایا جاتا ہے۔

· بعض اہل علم جیسے امام ابوحنیفہ، مالک اور ابوبکر الصیدلانی الشافعی نے اس ضمن میں سخت رویہ اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک صرف اسی راوی سے حدیث روایت کرنا درست ہے جس نے حدیث کو زبانی یاد کر رکھا ہو۔

· بعض اہل علم جیسے ابن لہیعۃ نے نرم رویہ اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک کسی نسخے سے بغیر اصل سے موازنہ کیے روایت کرنا درست ہے۔

· اہل علم کی اکثریت نے اس معاملے میں اعتدال کا رویہ اختیار کیا ہے۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق اگر کسی شخص نے کتاب میں دیکھ کر روایت کرنے کی شرائط کو پورا کر رکھا ہو اور اس کی کتاب بعد میں گم ہو جائے اور اس شخص کا حافظہ اتنا مضبوط ہو کہ غالب گمان کے مطابق اس نے حدیث کو بغیر تغیر و تبدل کے محفوظ کر رکھا ہو (تو اس کی روایت کو درست سمجھا جائے گا۔)

نابینا شخص کی روایت حدیث کا حکم

اگر کوئی نابینا شخص جو حدیث کو محض سن کر حفظ نہیں کر سکتا، اگر حدیث کو لکھنے میں کسی ایسے شخص کی مدد لیتا ہے جو ثقہ ہو، سن کر ٹھیک ٹھیک حدیث کو لکھ کر محفوظ کر سکے اور اس کے بعد نابینا شخص کو صحیح صحیح حدیث پڑھ کر بھی سنا سکے تو اہل علم کی اکثریت کے نزدیک اس کی روایت قابل قبول ہے۔ یہی معاملہ اس آنکھوں والے شخص کا ہے جو پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔

حدیث کی روایت بالمعنی اور اس کی شرائط

قدیم اہل علم میں حدیث کو بالمعنی روایت کرنے کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ فقہ، اصول فقہ اور حدیث کے بعض ماہرین جیسے ابوبکر رازی اور ابن سیرین نے اس طریقے سے منع کیا ہے لیکن انہی فقہ، اصول فقہ اور حدیث کے قدیم و جدید ماہرین کی اکثریت نے حدیث کے مفہوم کو روایت کرنے کو درست قرار دیا ہے۔ یہی نقطہ نظر ائمہ اربعہ یعنی ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ کا ہے۔ ان کی شرط یہ ہے کہ روایت بالمعنی اسی صورت میں جائز ہے اگر روایت کرنے والا حدیث کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

         بعض دیگر اہل علم کا یہ نقطہ نظر ہے کہ روایت بالمعنی اسی صورت میں جائز ہے جب راوی حدیث کے الفاظ اور ان کے معانی سے اچھی طرح واقف ہو اور اس کے ساتھ ساتھ لفظ میں معمولی تبدیلیوں سے معانی کے تبدیل ہو جانے کو اچھی طرح جانتا ہو۔
         یہ تمام بحث ان احادیث کے بارے میں ہے جنہیں کسی کتاب میں تصنیف نہ کیا گیا ہو۔ جو احادیث کتب حدیث میں درج ہو چکی ہیں انہیں معنوی انداز میں روایت کرنا اب درست نہیں ہے۔ ان احادیث کے الفاظ کو بھی ہم معنی الفاظ سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ روایت بالمعنی کا جواز اسی وجہ سے ہے کہ ایک راوی کے لئے یہ مشکل ہے کہ وہ لفظ بلفظ کسی حدیث کو یاد رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ مفہوم کو یاد رکھ کر اسے روایت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر حدیث لکھی جا چکی ہو تو پھر یہ مسئلہ باقی نہیں رہتا اس وجہ سے لکھی ہوئی حدیث کو بالمعنی روایت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
         جو شخص حدیث کو بالمعنی روایت کر رہا ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ حدیث مکمل کرنے کے بعد یہ الفاظ کہے، "یا کہ جیسا حضور نے فرمایا" یا "آپ نے اس سے ملتی جلتی بات ارشاد فرمائی"۔

نوٹ: روایت بالمعنی کا اصول درست ہے کیونکہ عملاً یہ بہت ہی مشکل کام ہے کہ کسی بات کو جن الفاظ میں سنا جائے، اسے انہی الفاظ میں کسی اور کے سامنے بیان کیا جائے۔ بات کے مفہوم کو اگر سننے والا اچھی طرح سمجھ لے تو اسے اپنے الفاظ میں آگے بیان کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ بلفظ روایت کی جانے والی احادیث کی تعداد بہت کم ہے۔

روایت بالمعنی میں بعض اوقات کسی راوی کی غلط فہمی کے باعث بات تبدیل ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے روایت کے ساتھ ساتھ درایت کے اصول بھی ایجاد کیے ہیں تاکہ راویوں کی غلط فہمی سے پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لیا جا سکے۔

حدیث میں لحن اور اس کے اسباب

حدیث میں لحن، کا معنی ہے حدیث کو پڑھنے میں غلطی کرنا۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں:

· عربی زبان اور اس کی گرامر سے عدم واقفیت: حدیث کے طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان اور اس کی گرامر کو اتنا سیکھ لے جس سے وہ حدیث کو پڑھنے میں غلطی سے محفوظ رہ سکے۔ خطیب بغدادی، حماد بن سلمۃ کا قول نقل کرتے ہیں کہ "جو شخص حدیث کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ عربی زبان سے واقف نہیں ہے تو وہ اس گدھے کی طرح ہے جس نے جو کی خالی بوری اٹھا رکھی ہے۔" (تدريب الراوي جـ 2 ـ ص 106)

· کسی استاذ کے بغیر حدیث کی کتاب سے حدیث حاصل کرنے کی کوشش

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حدیث کو استاذ سے حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں اور ان میں بعض طریقے، دیگر کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔ ان میں سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ حدیث کو استاذ کے الفاظ میں سنا جائے۔ حدیث کے طالب علم کے لئے لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کو اہل علم اور محققین کی زبان سے سنے تاکہ وہ پڑھنے کی غلطیوں سے محفوظ رہ سکے۔ ایک طالب حدیث کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ محض کتابوں اور صحیفوں پر اعتماد کرتے ہوئے احادیث روایت کرنے لگ جائے کیونکہ لکھنے میں بھی غلطیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم اہل علم کہا کرتے تھے، "میری ذاتی ڈائری سے قرآن یا حدیث کو نقل نہ کیا کرو۔"

نوٹ: یہ معاملہ دور قدیم میں تھا جب کتابوں کی حیثیت ذاتی ڈائری کی تھی اور قرآن و حدیث کو اعراب کے بغیر لکھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں قرآن مجید اور حدیث کی کتابیں اعراب کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں۔ ان کتابوں کے اعراب کو بہت سے اہل علم نے چیک بھی کر لیا ہے۔ اس وجہ سے اب کتاب سے حدیث کو پڑھنے میں غلطی کا امکان بہت کم باقی رہ جاتا ہے۔ حدیث کے معانی اور مشکل مقامات کو سمجھنے کے لئے بہرحال اساتذہ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔


غریب الحدیث

تعریف

لغوی اعتبار سے غریب کا معنی ہے "اپنے اعز و اقارب سے بچھڑا ہوا" یعنی اکیلا شخص۔ یہاں غریب سے مراد وہ الفاظ ہیں جن کا معنی واضح نہ ہو۔ (یہاں اردو زبان کا غریب مراد نہیں ہے۔) (القاموس جـ 1 ـ ص 115)

         اصطلاحی مفہوم میں "غریب الحدیث" سے مراد حدیث کے متن میں آنے والے ایسے الفاظ ہیں جو بہت کم استعمال ہوتے ہیں اور قلت استعمال کے باعث ان کا معنی سمجھنا مشکل ہو۔

اس فن کی اہمیت

فنون حدیث میں یہ فن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حدیث کے ماہرین کے ہاں اس فن سے عدم واقفیت کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ اس علم کا حاصل کرنا ایک دشوار عمل ہے۔ انسان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے کلام کی توجیہ اپنے وہم و گمان کی بنیاد پر کر دے۔ اس معاملے میں ہمارے اسلاف بہت احتیاط برتا کرتے تھے۔

غریب الفاظ کی بہترین توضیح

حدیث میں وارد ہونے والے غریب الفاظ کی بہترین تشریح وہی ہے جو اسی حدیث کی دوسری روایت میں موجود ہو۔ اس کی مثال مریض کی نماز کے بارے میں بخاری میں سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث ہے جس میں ہے، "کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو 'جنب' پر نماز پڑھو۔"

         اس حدیث میں 'جنب' ایک غریب لفظ ہے جس کی وضاحت سنن دارقطنی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ہو جاتی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں، "اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دائیں کروٹ پر لیٹ کر قبلہ رو ہو کر نماز ادا کرو۔"

مشہور تصانیف

· ابو القاسم بن سلام کی غریب الحدیث

· ابن الاثیر کی النھایۃ فی غریب الحدیث۔ یہ اس موضوع پر بہترین کتاب ہے۔

· سیوطی کی الدر النثیر۔ یہ النھایۃ کی تلخیص ہے۔

· زمخشری کی الفائق


محدث کے لئے مقرر آداب

تمہید

حدیث کی تعلیم و تعلم میں مشغول ہونا اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کا بہترین اور اعلی ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے جو شخص حدیث کو حاصل کر کے اسے لوگوں میں پھیلانے میں مشغول ہو، اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اعلی اخلاق اور اچھی عادات پیدا کرے تاکہ لوگوں میں اس کی پہچان ایک سچے شخص کی ہو۔ اس شخص کو چاہیے کہ وہ دوسروں کو حدیث پر عمل کرنے سے پہلے خود اس پر عمل کرنے والا ہو۔

محدث کی شخصیت میں کیا خصوصیات ہونی چاہییں؟

· محدث کی نیت درست ہو اور وہ خلوص نیت سے کام کرے۔ اس کا دل دنیاوی مقاصد جیسے شہرت اور مرتبے کی خواہش سے خالی ہو۔

· اس کا مقصد حدیث کی نشر و اشاعت ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعلیمات کی تبلیغ کے باعث وہ بہت بڑے اجر کا حق دار ہو گا۔

· وہ حدیث کا علم ایسے استاذ سے حاصل کرے جو علم اور تجربے میں اس سے بہتر ہو۔

· اگر اس سے کوئی ایسی حدیث کے بارے میں پوچھے جس کا اسے خود علم نہ ہو لیکن وہ جانتا ہو کہ کوئی دوسرا شخص اس حدیث کے بارے میں علم رکھتا ہے تو وہ اس سائل کو دوسرے محدث کی طرف بھیج دے۔

· اگر کوئی اسے نیت کے درست نہ ہونے کے بارے میں خبردار کرے تو اسے چاہیے کہ وہ فوراً اپنی نیت کی اصلاح کر لے۔

· اگر وہ اہلیت رکھتا ہو تو حدیث کی املاء اور تعلیم کے لئے مجلس منعقد کرے۔ یہ حدیث روایت کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔

نوٹ: یہ تمام خصوصیات دین کی کسی بھی قسم کی خدمت کرنے والے کے لئے ضروری ہیں۔

حدیث کی تعلیم و املاء کی مجلس کے لئے کس چیز کا اہتمام بہتر ہے؟

· محدث پاک صاف ہو اور اپنے بال اور داڑھی کو اچھی طرح کنگھی کر کے آئے۔ (مقصد یہ ہے کہ اس کی شخصیت باوقار اور اچھی ہو تاکہ لوگ اس سے گھن کھا کر دور نہ بھاگیں۔ افسوس کہ ہمارے دور میں دین کی خدمت کرنے والوں میں یہ اچھی عادات مفقود ہوتی جا رہی ہیں۔)

· محدث رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کی تعظیم کے لئے باوقار انداز اختیار کرے۔

· محدث تمام حاضرین مجلس کے ساتھ برابری کا سلوک کرے۔ وہ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔

· محدث مجلس کا آغاز و اختتام اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر درود بھیج کر کرے۔

· محدث ایسے الفاظ سے اجتناب کرے جو حاضرین مجلس کے عقل و فہم سے بالاتر ہوں۔

· محدث حدیث کی املاء کے اختتام پر حکایات اور دلچسپ باتیں سنائے تاکہ حاضرین بوریت کا شکار نہ ہوں۔

نوٹ: قدیم محدثین کے ہاں اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ تعلیم حدیث کی محافل ایسی ہوں کہ لوگ بات کو اچھی طرح سمجھ لیں، بوریت کا شکار نہ ہوں اور حدیث کی عظمت ان کے دلوں میں گھر کر جائے۔ اسی وجہ سے تعلیم حدیث کے یہ آداب مقرر کیے گئے۔ موجودہ دور میں بھی یہ آداب پوری طرح قابل عمل ہیں۔

حدیث کی تعلیم دینے کے لئے مناسب عمر کیا ہے؟

اس بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک پچاس یا چالیس سال کی عمر میں یہ کام شروع کرنا چاہیے۔ صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ کام اس وقت کرنا چاہیے جب انسان اس کام کے قابل ہو جائے۔ یہ کام کسی بھی عمر میں شروع کیا جا سکتا ہے۔

مشہور تصانیف

· خطیب بغدادی کی الجامع الاخلاق الراوی و آداب السامع

· ابن عبدالبر کی جامع بیان العلم و فضلہ و ما ینبغی فی روایتۃ و حملہ



آداب روایت


حدیث کے طالب علم کے لئے مقرر آداب

تمہید

حدیث کے طالب علم کو بعض آداب عالیہ اور اخلاق کریمہ کی پیروی کرنا ضروری ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کے اس عظیم علم کے لئے ضروری ہے۔ ان میں سے بعض آداب وہی ہیں جو محدث کے لئے بیان کیے گئے ہیں اور بعض طالب علموں کے ساتھ خاص ہیں۔

محدث اور طالب علم دونوں سے متعلق آداب

· طلب علم میں خلوص نیت

· علم کو دنیاوی اغراض و مقاصد کے لئے حاصل کرنے سے اجتناب

ابو داؤد اور ابن ماجہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے علم کو اللہ تعالی کی رضا کے علاوہ کسی دنیاوی مقصد کے لئے حاصل کیا، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو کو نہ پا سکے گا۔

· سنی ہوئی احادیث پر عمل کرنا

صرف طالب علم سے متعلق آداب

· طالب علم حدیث کو حاصل کرنے اور اسے سمجھنے کے لئے اللہ تعالی سے مدد، توفیق اور آسانی کی دعا کرے۔

· وہ کلی طور پر طلب حدیث میں مشغول ہو جائے اور اس کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔

· اس کے شہر کے جو اساتذہ علمی، دینی اور اعلی سند کے اعتبار سے بلند مرتبے پر فائق ہوں، ان سے حدیث کی تحصیل شروع کرے۔

· طالب علم اپنے استاذ کی تعظیم و توقیر کرے۔ یہ علم حاصل کرنے اور استاذ کے علم سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے۔ استاذ اگر کبھی کوئی چھوٹی موٹی زیادتی بھی کر جائے تو طالب علم اسے برداشت کرے۔

· طالب علم اپنے ساتھی شاگردوں کی مدد کرے اور ان سے اپنا علم نہ چھپائے۔ علم کو چھپانا ایک گھٹیا درجے کی حرکت ہے جس سے کمزور طالب علم ناواقف رہ سکتے ہیں۔ علم حاصل کرنے کا مقصد تو اسے پھیلانا ہی ہے۔

· اگر استاذ عمر یا مرتبے میں شاگرد سے کم بھی ہو، پھر بھی اس سے علم کے حصول میں طالب علم جھجک یا تکبر کا شکار نہ ہو۔

· طالب علم خود کو محض حدیث کو سن کر لکھنے تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش بھی کرے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ بڑی کامیابی سے محروم رہ سکتا ہے۔

· احادیث کے علم کا آغاز صحیح بخاری و مسلم سے کیا جائے۔ اس کے بعد سنن نسائی، ترمذی اور ابوداؤد کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کے بعد بیہقی کی سنن کبری اور پھر اگر ضرورت ہو تو مسانید جیسے مسند احمد اور موطاء امام مالک کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ دارقطنی کی "العلل"، بخاری کی تاریخ الکبیر، ابن ابی حاتم کی الجرح و التعدیل، ناموں سے متعلق ابن ماکولا کی کتاب، اور غریب الحدیث سے متعلق ابن الاثیر کی نھایۃ کا مطالعہ کیا جائے۔


اسناد سے متعلق اہم مباحث



سبق 1: عالی اور نازل اسناد

نوٹ: یہاں سے سند حدیث سے متعلق کچھ اہم مباحث شروع ہو رہے ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محدثین نے حدیث کی سند سے متعلق کس قدر گہرائی میں جا کر تحقیق کی ہے۔

تمہید

اسناد کا علم اس امت کی خصوصیات میں سے ہے۔ پچھلی امتوں کے ہاں یہ علم نہیں پایا جاتا۔ یہ طریقہ ایسا ہے جس کے لئے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حدیث اور اخبار نقل کرتے ہوئے اس طریقے کی پیروی کرے۔ ابن مبارک کہتے ہیں، "اسناد دین میں سے ہیں۔ اگر اسناد نہ ہوتیں تو (دین سے متعلق) جس شخص کا جو جی چاہتا، وہ کہہ دیتا۔" ثوری کہتے ہیں، "اسناد مومن کا ہتھیار ہے۔"

نوٹ: فرض کیجیے کہ ایک شخص A نے اپنے استاذ B کو ایک حدیث بیان کرتے ہوئے سنا۔ استاذ نے اس حدیث کی سند میں اپنے استاذ C کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس حدیث کو میں نے C سے سنا تھا۔ استاذ کا استاذ C ابھی زندہ ہیں۔ اسناد کو مختصر کرنے کے لئے A ، C کے پاس پہنچتا ہے تاکہ وہ اس سے حدیث کو براہ راست سن سکے۔ یہ عمل "علو اسناد" کہلاتا ہے۔ اس طریقے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سند کی زنجیر کی کڑیوں کے کم ہونے سے سند مختصر ہو جاتی ہے اور حدیث پر اعتماد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

         علو اسناد امت کے اہل علم کا طریقہ رہا ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں، "اسناد کو بلند کرنے کی کوشش اسلاف کا طریقہ رہا ہے۔"

(سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد (ان سے حضرت عمر کی بیان کی ہوئی حدیث سننے کے بعد) کوفہ سے مدینہ کا سفر کیا کرتے تھے تاکہ وہ اس حدیث کو براہ راست سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حاصل کر سکیں۔ حدیث کے حصول کے لئے سفر کرنا ایک نہایت ہی اچھا کام ہے۔ علو اسناد کے لئے صحابہ میں سے ایک سے زائد افراد نے سفر کیا۔ ان میں سیدنا جابر بن عبداللہ اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔

تعریف

لغوی اعتبار سے "عالی"، علو کا اسم فاعل ہے اور "نازل" نزول کا۔ یہ ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور ان کا مطلب ہے بلند اور پست یا اعلی اور ادنیٰ۔

         اصطلاحی مفہوم میں "عالی اسناد" اس سند کو کہا جاتا ہے جس میں راویوں کی تعداد دوسری سند کی نسبت کم ہو اور "نازل اسناد" اس سند کو کہتے ہیں جس میں راویوں کی تعداد زیادہ ہو۔

نوٹ: مثال کے طور پر ایک سند ہے A—B—C—D اور دوسری سند ہے A—B—D۔ ان میں سے پہلی سند "نازل" اور دوسری سند "عالی" کہلائے گی۔

عُلُوّ کی اقسام

سند کے علو (یعنی عالی ہونے) کی پانچ اقسام ہیں۔ ان میں سے ایک علو مطلق (Absolute Height) ہے اور باقی علو نسبی (Relative Height) ہیں۔

· صحیح اور پاکیزہ اسناد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے قربت: یہی مطلق علو ہے اور یہ علو کی تمام اقسام میں سب سے اعلی ہے۔ (یہی وجہ ہے کہ مالک—نافع—ابن عمر کی سند کو سب سے عالی مانا جاتا ہے۔)

· حدیث کے کسی ماہر امام سے قربت: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک راویوں کی تعداد زیادہ ہو تو پھر حدیث کے کسی امام جیسے اعمش، ابن جریج، مالک، وغیرہ سے صحیح سند کے ساتھ قریب ہونا اہمیت کا حامل ہے۔

· راوی کی وفات کی وجہ سے علو: اس کی مثال وہ ہے جو امام نووی نے بیان کی ہے کہ "ابوبکر بن خلف—حاکم" کی نسبت "بیہقی—حاکم" کی سند زیادہ عالی ہے کیونکہ بیہقی کی وفات (458ھ)، ابن خلف کی وفات (487ھ) سے پہلے ہوئی تھی۔ (یعنی بیہقی کا زمانہ ابن خلف کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ قریب ہے۔) (التقريب بشرح التدريب جـ2 ـ ص 168)

· حدیث سننے میں اولیت کی وجہ سے علو: جس شخص نے اپنے استاذ سے حدیث کو پہلے سنا ہے، اس کی سند بعد میں سننے والے کی نسبت عالی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دو افراد نے ایک ہی استاذ سے حدیث سنی۔ پہلے کی عمر اس وقت ساٹھ سال تھی اور دوسرے کی چالیس سال۔ ان دونوں حضرات تک پہنچنے والی سندیں برابر راویوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے پہلے شخص کی سند زیادہ عالی سمجھی جائے گی کیونکہ اس کی عمر زیادہ ہے۔

· حدیث کی معتمد کتابوں سے قربت کی وجہ سے علو: متاخرین نے اس کی یہ صورتیں بیان کی ہیں:

a موافقت: صحاح ستہ کے مصنفین کے اساتذہ میں سے کسی تک کم واسطوں سے سند کے پہنچنے کو موافقت کہتے ہیں۔ اس کی مثال ابن حجر نے اس طرح بیان کی ہے، "امام بخاری نے اپنی سند سے قتیبہ سے اور انہوں نے امام مالک سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ فرض کیجیے بخاری اور قتیبہ کے درمیان آٹھ راوی ہیں۔ ہم اس حدیث کو کسی اور صحیح سند مثلاً ابو العباس السراج (امام بخاری کے استاذ) سے روایت کرتے ہیں اور ہمارے اور قتیبہ کے درمیان سات راوی ہیں تو ہماری سند میں اور امام بخاری کی سند میں موافقت پائی جائے گی اور ہماری سند زیادہ عالی ہو گی۔" (شرح النخبة ص 61)

a بدل: صحاح ستہ کے مصنفین کے اساتذہ میں سے کسی ایک کے ہم سبق تک کم واسطوں سے پہنچنے کو بدل کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال ابن حجر یوں بیان کرتے ہیں، "اوپر دی گئی مثال میں ہم امام بخاری کی سند کے مقابلے پر ایک اور سند سے اسی حدیث کو روایت کرتے ہیں لیکن وہ سند قتیبہ کی بجائے قعنبی (امام بخاری کے شیخ الشیخ) تک کم واسطوں سے پہنچ جاتی ہے۔ ہماری سند میں قعنبی، قتیبہ کا بدل ہوں گے۔"

a مساوات: صحاح ستہ کے مصنفین کی بیان کردہ سند اور ہماری بیان کردہ سند کے راوی اگر برابر ہوں تو یہ مساوات کہلائے گی۔ ابن حجر کی مثال کے مطابق، "امام نسائی کوئی حدیث بیان کرتے ہیں اور ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مابین راویوں کی تعداد گیارہ ہے۔ اگر ہماری سند میں بھی یہ تعداد گیارہ ہے تو یہ مساوات کہلائے گی۔"

a مصافحت: اگر ہماری اور صحاح ستہ کے مصنفین کے شاگردوں کی اسناد میں راویوں کی تعداد برابر ہو تو اسے مصافحت کہا جاتا ہے۔

نزول کی اقسام

سند کے نزول (یعنی سند کے طویل ہونے) کی بھی پانچ اقسام ہیں اور یہ علو کی پانچ اقسام کے عین متضاد ہیں۔

علو بہتر ہے یا نزول

اہل علم کی اکثریت کے نزدیک علو، نزول سے بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کی طویل تعداد ہونے کی صورت میں حدیث میں کوئی خلل پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ ابن مدینی کہتے ہیں، "نزول بدقسمتی ہے۔" یہ اسی صورت میں ہے جب دونوں اسناد صحیح ہونے میں ایک دوسرے کے برابر ہوں۔

         نزول اس صورت میں بہتر ہے اس کی اسناد میں زیادہ ثقہ راوی پائے جاتے ہوں۔

مشہور تصانیف

اسناد عالی اور نازل کے بارے میں الگ سے کوئی تصنیف نہیں ہے لیکن اہل علم نے الگ سے مختصر کتابیں لکھی ہیں جن کا عنوان ہے "ثلاثیات"۔ ان میں وہ احادیث شامل ہیں جن کے مصنف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے درمیان صرف تین افراد موجود ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علماء عالی اسناد کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس کی مثال ابن حجر کی ثلاثیات بخاری اور سفارینی کی ثلاثیات احمد بن حنبل ہیں۔



مسلسل

تعریف

لغوی اعتبار سے یہ "سلسلہ" کا اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے ملی ہوئی چیز۔ اسی سے سلسلہ حدیث ماخوذ ہے جو کہ حدیث کے اجزا میں کسی مشابہت کو کہا جاتا ہے۔

         اصطلاحی مفہوم میں حدیث کے ایک راوی میں ایک حالت یا صفت موجود ہو اور وہی صفت اس کے بعد کے ہر راوی میں پائی جائے۔

نوٹ: اس کی مثال یہ ہے کہ ایک راوی کوئی بات کہتے ہوئے مسکرایا ہو تو دوسرا راوی بھی اس بات کو بیان کرتے ہوئے مسکرائے۔ اس کے بعد تیسرا راوی بھی اسی بات پر مسکرائے اور یہ سلسلہ آخر تک چلتا رہے۔ ایسا کرنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ راویوں نے حدیث کو محفوظ رکھنے کا زیادہ اہتمام کیا ہے۔

تعریف کی وضاحت

روایت میں تسلسل کا معنی یہ ہے کہ اسناد میں شروع سے لے کر آخر تک کوئی ایک صفت یا حالت پائی جاتی ہو یا بذات خود روایت میں کوئی خصوصیت مسلسل پائی جا رہی ہو۔

مسلسل کی اقسام

تعریف کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تسلسل کی تین بڑی اقسام ہیں: راویوں کی حالت کے اعتبار سے تسلسل، راویوں کی خصوصیات کے اعتبار سے تسلسل اور روایت کی خصوصیات کے اعتبار سے تسلسل۔

راویوں کی حالت کے اعتبار سے تسلسل

· راویوں کے حالات کے اعتبار سے تسلسل ان کے قول یا فعل کی بنیاد پر پایا جا سکتا ہے۔ قولی تسلسل کی مثال سنن ابو داؤد کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا، "اے معاذ! مجھے یہ پسند ہے کہ تم ہر نماز کے بعد کہو، اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اچھے طریقے سے عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔" اس روایت کے ہر راوی نے اس روایت کو بیان کرتے ہوئے "انا احبک فقل" یعنی "مجھے یہ پسند ہے کہ تم کہو" کے الفاظ کہے ہیں۔

· فعلی تسلسل کی مثال سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر ارشاد فرمایا، "اللہ تعالی نے زمین کو ہفتے کے دن بنایا۔" اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے ہر راوی نے اگلے راوی کے ہاتھ پکڑ کر یہ بات کہی۔ (معرفة علوم الحديث ص 42)

· قولی اور فعلی دونوں قسم کے تسلسل کی مثال سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "کوئی شخص اس وقت تک ایمان کی مٹھاس حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اچھی و بری اور خوشگوار و ناگوار تقدیر پر ایمان نہ لے آئے۔" اس کے بعد آپ نے انس رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ کر یہ ارشاد فرمایا، "میں اچھی بری اور خوشگوار و ناخوشگوار ہر طرح کی تقدیر پر ایمان لایا۔" اس حدیث کی روایت کرتے ہوئے ہر راوی نے اپنے سے اگلے راوی کی داڑھی پکڑ کر یہ الفاظ کہے ہیں۔ (معرفة علوم الحديث ص40)

راویوں کی خصوصیات کے اعتبار سے تسلسل

راوی کے قول و فعل کے اعتبار سے بھی حدیث میں تسلسل پایا جاتا ہے:

· راویوں کی خصوصیات کے قولی تسلسل کی مثال سورۃ صف کی تلاوت سے متعلق حدیث ہے جس میں ہر راوی نے حدیث بیان کرنے کے بعد یہ صفت بیان کی ہے کہ "فلاں نے سورۃ صف کی تلاوت اس طرح سے کی تھی۔" عراقی کہتے ہیں کہ یہاں راویوں کی وہ صفات بیان کی جاتی ہیں جو ان کی قول سے متعلق ہوں۔

· راویوں کی خصوصیات کے فعلی تسلسل کی مثال یہ ہے کہ راویوں میں کوئی مشترک صفت پائی جائے جیسے ایک سے زائد راوی کا نام محمد ہو، یا سب راوی فقہ کے ماہر ہوں، یا سب کے سب حافظ حدیث ہوں، یا سب کے سب ایک ہی علاقے جیسے مصر یا دمشق سے تعلق رکھتے ہوں۔

روایت کی خصوصیت کے اعتبار سے تسلسل

روایت کی خصوصیت میں تسلسل اس طرح سے پایا جا سکتا ہے کہ ہر راوی نے اس روایت کو مخصوص الفاظ میں بیان کیا ہو یا یہ روایت کسی خاص علاقے یا خاص وقت میں بیان کی گئی ہو۔

· مخصوص الفاظ میں بیان کرنے کی مثال یہ ہے کہ ہر راوی حدیث کو "سمعتُ" یا "اخبرنا" کہہ کر بیان کرے۔

· خاص وقت میں روایت کی مثال یہ ہے کہ ہر راوی نے اس حدیث کو عید کے دن ہی بیان کیا ہو۔

· خاص مقام پر حدیث کو بیان کرنے کی مثال یہ ہے کہ ہر راوی نے اس حدیث کو خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس بیان کیا ہو۔

سب سے بہتر تسلسل

تسلسل میں سب سے بہتر خصوصیت یہ ہے کہ اس سے یہ معلوم ہو جائے کہ ہر راوی نے حدیث کو اپنے استاذ ہی سے سنا ہے اور یہ حدیث تدلیس سے پاک ہے۔

تسلسل کے فوائد

تسلسل کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے راوی کے بہترین ضبط کا اندازہ ہوتا ہے۔

کیا تسلسل کا تمام راویوں میں پایا جانا ضروری ہے؟

تسلسل کا شروع سے لے کر آخر تک تمام راویوں میں پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ ایسی صورت میں یہ کہا جائے گا کہ "یہ حدیث فلاں راوی تک مسلسل ہے۔"

کیا مسلسل حدیث کا صحیح ہونا ضروری ہے؟

یہ ضروری نہیں ہے کہ مسلسل حدیث صحیح بھی ہو۔ یہ ضعیف بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک حدیث مسلسل نہ ہو لیکن وہ صحیح ہو۔


اسناد سے متعلق اہم مباحث



اکابر کی اصاغر سے حدیث کی روایت

تعریف

لغوی اعتبار سے "اکابر"، اکبر کی جمع ہے جس کا معنی ہے بڑا اور "اصاغر"، اصغر کی جمع ہے جس کا معنی ہے چھوٹا۔ بعض اوقات بڑی عمر کے راوی، اپنے سے کم عمر راویوں سے حدیث روایت کرتے ہیں جسے "روایت الاکابر عن الاصاغر" کہا جاتا ہے۔

         اصطلاحی مفہوم میں اس کا معنی ہے کہ ایک راوی کسی ایسے دوسرے راوی سے حدیث حاصل کرے جو عمر اور طبقے (یعنی دور) کے اعتبار سے اس سے کم ہو یا علم اور حفظ حدیث میں پہلے راوی سے کم درجے کا حامل ہو۔

تعریف کی وضاحت

روایت الاکابر عن الاصاغر کا مطلب یہ ہے کہ کوئی راوی کسی حدیث کو اپنے سے کم عمر راوی سے روایت کرے یا وہ دوسرا راوی پہلے راوی کی نسبت بعد کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو جیسے کوئی صحابی تابعی سے حدیث حاصل کرے۔ اس کا ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ایک حافظ اور عالم شخص حدیث کو کسی ایسے شخص سے حاصل کرے جو علم و فضل میں پہلے شخص سے کم ہو اگرچہ وہ عمر میں پہلے شخص سے زیادہ ہو۔

نوٹ: چونکہ ایک صحابی کا کسی تابعی سے یا بڑی عمر کے شخص کا چھوٹی عمر سے یا عالم کا غیر عالم سے حدیث حاصل کرنا ایک عجیب سی بات ہے، اس وجہ سے محدثین کے ہاں ایسی احادیث کو خاص طور پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ چھان بین کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ سند کو بیان کرنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو جس سے نام آگے پیچھے نہ ہو گئے ہوں۔

اس سے ہمارے اہل علم کی تواضع اور انکساری کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر شخص سے علم حاصل کرنے کے لئے تیار رہا کرتے تھے خواہ وہ ان سے عمر اور مرتبے میں کم ہی کیوں نہ ہو۔

اقسام

اکابر کی اصاغر سے روایت کی تین اقسام ہیں:

· بڑا راوی چھوٹے راوی سے عمر اور طبقے دونوں کے اعتبار سے بڑا ہو یعنی اس کا علم اور حفظ بھی چھوٹے راوی سے زیادہ ہو۔ (مثلاً کوئی صحابی کسی تابعی سے روایت کرے۔)

· بڑا راوی صرف علم و فضل کے اعتبار سے بڑا سمجھا جاتا ہو اگرچہ عمر میں وہ چھوٹے راوی سے کم ہو، مثلاً کوئی بڑا نوجوان عالم کسی بوڑھے غیر عالم سے حدیث روایت کر رہا ہو جیسے امام مالک عبداللہ بن دینار سے حدیث روایت کریں۔ (امام مالک فقہ اور حدیث کے مشہور امام ہیں جبکہ عبداللہ بن دینار ایک عام بزرگ راوی ہیں۔)

· دونوں راوی ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں لیکن بڑا راوی عمر اور علم میں چھوٹے راوی سے زیادہ ہو۔ مثلاً برقانی خطیب سے حدیث روایت کریں۔ (برقانی خطیب کے استاذ تھے۔)

روایت الاکابر عن الاصاغر کی صورتیں

· صحابہ کی تابعین سے روایت۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، کعب الاحبار علیہ الرحمۃ سے روایت کریں۔

· تابعی کی تبع تابعی سے روایت۔ جیسے یحیی بن سعید الانصاری، امام مالک (رحمۃ اللہ علیہما) سے حدیث روایت کریں۔

فوائد

اس قسم کی احادیث کی چھان بین کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ شک دور ہو جاتا ہے کہ شاید روایت میں نام آگے پیچھے نہ ہو گئے ہوں یا چھوٹا راوی بڑے راوی سے زیادہ درجہ نہ رکھتا ہو۔

مشہور تصانیف

ابو یعقوب اسحق بن ابراہیم الوراق (م 403ھ) کی کتاب "ما رواہ الکبار عن الصغار و الآبا عن الابناء"



باپ کا بیٹے سے حصول حدیث

تعریف

سند حدیث میں یہ نظر آئے کہ کوئی باپ اپنے بیٹے سے حدیث کو روایت کر رہا ہے۔

مثال

اس کی مثال وہ حدیث ہے جو سیدنا عباس نے اپنے بیٹے فضل رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزدلفہ میں جمع کر کے نمازیں ادا فرمائیں۔

فوائد

ایسی احادیث کی چھان بین سے یہ شک دور ہو جاتا ہے کہ شاید سند میں نام آگے پیچھے ہو گئے ہیں کیونکہ عام طور پر بیٹے ہی حدیث کو باپ سے روایت کرتے ہیں۔ اس سے ہمارے اہل علم کی تواضع اور انکساری کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر شخص سے علم حاصل کرنے کے لئے تیار رہا کرتے تھے خواہ وہ ان سے عمر اور مرتبے میں کم ہی کیوں نہ ہو۔

مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب "روایۃ الآباء عن الابناء"۔


بیٹے کا باپ سے حصول حدیث

تعریف

ایسی حدیث جس کی سند میں کوئی بیٹا صرف اپنے باپ سے حدیث روایت کر رہا ہو یا اس کا باپ صرف اس کے دادا سے حدیث روایت کر رہا ہو۔

اہمیت

ایسی احادیث کی اہمیت یہ ہے کہ ان میں عام طور پر باپ یا دادا کا نام درج نہیں کیا جاتا بلکہ "فلان عن ابیہ عن جدہ" کہہ کر سند لکھ دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے باپ اور دادا کے ناموں کا پتہ چلانا اہمیت اختیار کر جاتا ہے (تاکہ ان کی جرح و تعدیل کو چیک کیا جا سکے۔)

اقسام

ایسی احادیث کی دو اقسام ہیں:

· راوی صرف اپنے باپ سے حدیث روایت کر رہا ہو۔ دادا سے حدیث روایت نہ کی گئی ہو۔ اس کی مثالیں کثیر تعداد میں ہیں جیسے ابو العشراء کی اپنے والد سے روایت۔ (ان کے اور ان کے والد کے نام میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ مشہور یہ ہے کہ ان کا نام اسامہ بن مالک تھا۔)

· کسی راوی کی اپنے باپ سے اور باپ کی دادا سے روایت۔ اس کی مثال یہ ہے کہ عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں۔ (عمرو بن شعیب کا پورا سلسلہ نسب یہ ہے، "عمرو بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص"۔ یہاں بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ دادا سے مراد محمد ہیں لیکن اس حدیث کی دوسری اسناد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عمرو کے نہیں بلکہ شعیب کے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما مراد ہیں جو کہ مشہور صحابی ہیں۔)

فوائد

ان احادیث پر تحقیق کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ راویوں کے باپ اور دادا کا نام معلوم ہو جاتا ہے (اور ان کے ثقہ ہونے یا نہ ہونے کا علم بھی ہو جاتا ہے۔) اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ "دادا" سے کیا مراد ہے۔ کیا یہاں مذکورہ راوی کے دادا جان مراد ہیں یا راوی کے والد کے دادا جان یعنی اصل راوی کے پڑدادا۔

مشہور تصانیف

· ابو نصر عبیداللہ بن سعید العوائلی کی کتاب "روایۃ الابناء عن الآبائھم"۔

· ابن ابی خثیمہ کا "جزء من روی عن ابیہ عن جدہ"۔

· حافظ علائی کا "کتاب الوشی المعلم فی من روی عن ابیہ عن جدہ عن نبی صلی اللہ علیہ وسلم"۔


مُدَبَّج اور روایت الاَقران

اقران کی تعریف

اقران، قرین کی جمع ہے جس کا معنی ہے ساتھی۔ اصطلاحی مفہوم میں اقران ایسے راویوں کو کہتے ہیں جو عمر اور اسناد میں ایک دوسرے کے قریب ہوں۔

روایت الاقران کی تعریف

اس کا مطلب ہے کہ ایک ساتھی دوسرے ساتھی سے حدیث روایت کرے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سلیمان التیمی، مِسعر بن کدام سے حدیث روایت کریں۔ یہ دونوں قریبی ساتھی ہیں۔ ہمیں ایسی کسی حدیث کا علم نہیں ہے جو مسعر نے سلیمان سے روایت کی ہو۔

مدبج کی تعریف

یہ "تدبیج" کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے مزین کیا ہوا۔ یہ "چہرے کی آرائش" سے ماخوذ ہے۔ اس کو مدبج کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ روایت کرنے والے دونوں راوی مرتبے میں ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں۔

         اصطلاحی مفہوم میں مدبج ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے راوی ایک دوسرے کے ساتھی ہوں۔

مدبج کی مثالیں

· صحابہ میں اس کی مثال یہ ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یا سیدہ عائشہ، حضرت ابوہریرہ سے حدیث روایت کریں۔

· تابعین میں اس کی مثال یہ ہے کہ زہری، عمر بن عبدالعزیز سے یا عمر بن عبدالعزیز زہری سے حدیث روایت کریں۔

· تبع تابعین میں اس کی مثال یہ ہے کہ امام مالک، امام اوزاعی سے یا اوزاعی مالک سے حدیث روایت کریں۔

فوائد

مدبج حدیث کی تحقیق کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے یہ شک دور ہو جاتا ہے کہ شاید سند میں ایک راوی کا نام محض اضافی طور پر آ گیا ہو یا سند میں لفظ 'و' یعنی 'اور' کی جگہ 'عن' یعنی 'ان سے روایت ہے' لکھا گیا ہو۔

مشہور تصانیف

· دارقطنی کی "المدبج"۔

· ابو شیخ الاصبہانی کی "روایۃ الاقران"۔


سابق اور لاحق

تعریف

سابق، سَبَقَ کا اسم فاعل ہے اور اس کا معنی ہے پہلے والا جبکہ لاحق "لحاق" کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے بعد والا۔ سابق سے مراد وہ راوی ہے جس نے پہلے وفات پائی ہو اور لاحق سے مراد وہ راوی ہے جس نے بعد میں وفات پائی ہو۔

         اصطلاحی مفہوم میں سابق اور لاحق ان دو راویوں کو کہتے ہیں جنہوں نے ایک ہی استاذ سے حدیث کا علم حاصل کیا ہو لیکن دونوں کے سن وفات میں بڑا فرق پایا جاتا ہو۔

مثال

· ایک مثال محمد بن اسحق السراج (216-313ھ) کی ہے۔ ان کے شاگردوں میں بخاری (م 256ھ) اور ابو حسین احمد بن محمد الخفاف (م 393ھ) شامل ہیں۔ ان دونوں شاگردوں کی وفات میں 137 سال کا فرق ہے۔

· دوسری مثال امام مالک (90-179ھ) کی ہے۔ ان سے روایت کرنے والے زہری (م 125ھ) بھی ہیں اور احمد بن اسماعیل السہمی (م 259ھ) بھی۔ ان دونوں کے سن وفات میں 135 سال کا فرق ہے۔ زہری، مالک سے زیادہ عمر کے تھے۔ زہری تابعی اور مالک تبع تابعی تھے۔ زہری نے مالک سے جو روایات کی ہیں وہ "روایۃ الاکابر عن الاصاغر" میں شمار ہوتی ہیں۔ سہمی، مالک کی نسبت کم عمر تھے۔ انہوں نے سو سال سے زائد عمر پائی۔ اسی وجہ سے ان کی اور زہری کے سن وفات میں طویل فرق پایا جاتا ہے۔

فوائد

سابق و لاحق کی بحث سے دلوں میں علو اسناد کی اہمیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے اس شک کا ازالہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ سن وفات میں اتنا فرق پایا جا سکتا ہے اس لئے یہ ممکن ہے کہ حدیث کی سند ٹوٹی ہوئی (منقطع) ہو۔

مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب "السابق و اللاحق"۔

اسناد اور اس سے متعلقہ علوم

یونٹ 12: اسماء الرجال (راویوں کا علم)


صحابہ کرام

صحابی کی تعریف

لغوی اعتبار سے صحابی، صحبت کا مصدر ہے۔ صحابی کی جمع صحابہ ہے جس کا معنی ہے ساتھی۔

         اصطلاحی مفہوم میں صحابی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے حالت ایمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اس کے بعد ان کی وفات بھی حالت اسلام ہی میں ہوئی ہو۔ صحیح نقطہ نظر کے مطابق اگر کوئی صحابی کچھ عرصے کے لئے مرتد بھی ہو جائے لیکن بعد میں دوبارہ اسلام قبول کر لے تو وہ صحابی ہی کہلائے گا۔

اہمیت و فوائد

صحابہ کے علم کے کثیر فوائد ہیں۔ فن حدیث میں اس علم کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی بدولت مرسل حدیث کو ترقی دے کر متصل کے درجے تک لایا جا سکتا ہے۔

کسی شخص کے صحابی ہونے کا علم کیسے ہوتا ہے؟

· تواتر کے ذریعے جیسے سیدنا ابوبکر و عمر یا دیگر عشرہ مبشرہ کے صحابہ رضی اللہ عنہم۔

· شہرت کے ذریعے جیسے ضمام بن ثعلبہ اور عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہما۔

· کسی اور صحابی کی دی ہوئی خبر کے ذریعے کہ یہ صاحب، صحابی ہیں۔

· کسی ثقہ تابعی کی دی ہوئی خبر کے ذریعے کہ یہ صاحب، صحابی ہیں۔

· خود ان صاحب کے دعوے کے ذریعے بشرطیکہ وہ قابل اعتماد ہوں اور ان کا صحابی ہونا ممکن ہو (یعنی وہ عہد رسالت میں عرب میں موجود رہے ہوں۔ مثال کے طور پر رتن ہندی کا صحابی ہونے کا دعوی قبول نہ کیا جائے گا کیونکہ اس نے یہ دعوی 600ھ میں کیا تھا۔ ذہبی کہتے ہیں کہ وہ جھوٹا شخص تھا۔) (الميزان جـ 2 – ص 45)

تمام صحابہ عادل ہیں؟

سب کے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل یعنی اچھے کردار کے حامل ہیں خواہ وہ فتنوں کے دور میں ان میں مبتلا ہوئے ہوں یا نہ ہوں۔ ان پر اعتماد کرنے والوں کے اتفاق رائے سے یہ بات طے ہے۔ ان کے عادل ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ کبھی جان بوجھ کر کسی جھوٹی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب نہیں کرتے اور نہ ہی آپ کے حکم سے انحراف کرتے ہیں۔

         اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صحابی کی بیان کی گئی تمام احادیث کو قبول کیا جائے گا اور اس معاملے میں ان کے کردار کو پرکھا نہیں جائے گا۔ ان میں سے جو حضرات فتنوں میں مبتلا ہو گئے (جیسے جنگ جمل و صفین کے فتنےوغیرہ) ، ان کے بارے میں یہ اچھا گمان رکھا جائے گا کہ یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا زمانہ سب سے بہترین تھا اور وہ شریعت پر عمل کرنے والے تھے۔

کثرت سے احادیث روایت کرنے والے صحابہ

صحابہ میں چھ صحابی رضی اللہ عنہم کثرت سے حدیث بیان کرنے والے تھے۔

· ابوہریرہ: ان سے 5374احادیث منقول ہیں اور ان سے300 سے زائد افراد نے احادیث روایت کی ہیں۔

· عبداللہ بن عمر: ان سے 2630 احادیث مروی ہیں۔

· انس بن مالک: ان سے 2286 احادیث مروی ہیں۔

· ام المومنین عائشہ: ان سے 2210 احادیث مروی ہیں۔

· عبداللہ ابن عباس: ان سے 1660 احادیث مروی ہیں۔

· جابر بن عبداللہ: ان سے 1540 احادیث مروی ہیں۔

سب سے زیادہ علم والے صحابی

روایت کرنے والے صحابہ میں سب سے بڑے عالم سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ ان کے علاوہ بڑی عمر کے صحابہ میں بھی بڑے علماء گزرے ہیں۔ مسروق کی رائے کے مطابق، "صحابہ کرام میں علم چھ افراد پر ختم ہے اور وہ سیدنا عمر، علی، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو درداء، اور عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم ہیں۔ اس کے بعد ان چھ کا علم سیدنا علی اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما پر ختم ہے۔"

عبادلہ سے کیا مراد ہے؟

عبادلہ سے مراد وہ صحابہ ہیں جن کا نام عبداللہ ہے۔ ویسے تو عبداللہ نام کے صحابہ کی تعداد تین سو کے قریب ہے لیکن یہ لفظ بول کر چار مخصوص صحابی مراد لئے جاتے ہیں:

· عبداللہ بن عمر

· عبداللہ بن عباس

· عبداللہ بن زبیر

· عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم

ان چاروں صحابہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب کے سب بڑے عالم تھے اور ان سب نے طویل عمر پائی جس کی وجہ سے ان کا علم ہر طرف پھیل گیا جس کے باعث انہیں امت میں خصوصی مقام اور مرتبہ حاصل ہوا۔ جب یہ چاروں حضرات کسی معاملے میں متفق ہوں تو کہا جاتا ہے کہ "یہ عبادلہ کی رائے ہے۔"

صحابہ کی تعداد

صحابہ کرام کی صحیح تعداد کو متعین کرنا تو مشکل ہے لیکن اس معاملے میں اہل علم کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ان سے استفادہ کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ ان میں مشہور ترین رائے ابن زرعۃ الرازی کی ہے، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے 124,000 صحابہ نے علم حاصل کیا اور پھر ان صحابہ سے حدیث روایت کی گئی۔" (التقريب مع التدريب جـ 2 - 2201)

صحابہ کے طبقات

صحابہ کرام کے طبقات کی تعداد کے بارے میں اہل علم میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض اہل علم نے اسلام قبول کرنے کے وقت یا ہجرت کے وقت کے اعتبار سے انہیں طبقات میں تقسیم کیا ہے اور بعض دیگر اہل علم نے اپنے اجتہاد کے مطابق کسی اور بنیاد پر ایسا کیا ہے۔ ابن سعد نے صحابہ کو پانچ طبقات اور حاکم نے بارہ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔

نوٹ: صحابہ کی طبقات میں تقسیم کا مقصد یہ ہے ان کے زمانے یا علم و فضل کے اعتبار سے ان کی پہچان ہو سکے۔ مثال کے طور پر عمر کے اعتبار سے صحابہ کے یہ طبقات بنائے جا سکتے ہیں:

· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پہلے پیدا ہونے والے صحابہ جیسے سیدنا حمزہ و عباس رضی اللہ عنہما۔

· رسول اللہ کے ہم عمر صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر، عثمان رضی اللہ عنہما۔

· رسول اللہ سے دس پندرہ سال چھوٹے صحابہ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ۔

· رسول اللہ سے بیس تیس سال چھوٹے صحابہ جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ۔

· رسول اللہ کی عمر مبارک کے آخری حصے میں پیدا ہونے والے صحابہ جیسے سیدنا حسن و حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم۔

اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے طبقات اس طرح بنائے جا سکتے ہیں:

· سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر، علی، خدیجۃ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم

· سابقون الاولون یعنی ابتدائی تین سالوں میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ جیسے سیدنا عثمان، مقداد بن اسود، بلال رضی اللہ عنہما۔

· ہجرت حبشہ سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ

· باقی مکی دور میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ

· انصار کے سابقون الاولون جیسے سیدنا اسعد بن زرارہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہما

· ہجرت کے بعد اور جنگ بدر سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ

· جنگ بدر کے بعد اور جنگ احد سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ

· جنگ احد کے بعد اور صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ

· صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ جیسے سیدنا خالد بن ولید اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما

· فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے صحابہ جیسے سیدنا سہیل بن عمرو، عکرمہ بن ابو جہل، ابو سفیان رضی اللہ عنہم

فضیلت والے صحابہ

اہل سنت کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ صحابہ میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق اور ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں۔ ان کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق اس کے بعد سیدنا عثمان، اسے کے بعد سیدنا علی، اسے کے بعد باقی عشرہ مبشرہ، اس کے بعد اہل بدر، اس کے بعد اہل احد اور اس کے بعد بیت الرضوان میں شریک ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ ہے۔ (اہل تشیع سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل صحابی قرار دیتے ہیں۔)

سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ

· آزاد مردوں میں: سیدنا ابوبکر صدیق

· بچوں میں: سیدنا علی

· خواتین میں: ام المومنین سیدہ خدیجہ

· آزاد کردہ غلاموں میں: سیدنا زید بن حارثہ

· غلاموں میں: سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہم

سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابہ

سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی سیدنا عامر بن واثلہ اللیثی ہیں جنہوں نے مکہ میں 100ھ میں وفات پائی۔ اکثر اہل علم کی رائے کے مطابق ان سے پہلے وفات پانے والے آخری صحابی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے 93ھ میں بصرہ میں وفات پائی۔

مشہور تصانیف

· ابن حجر عسقلانی کی "الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ"۔

· ابن الاثیر کی "اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ"۔

· ابن عبدالبر کی "الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب"۔



تابعین

تابعی کی تعریف

تابعی کی جمع تابعین ہے۔ لغوی اعتبار سے اس کا معنی ہے بعد میں آنے والا۔ اصطلاحی مفہوم میں تابعی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے کسی صحابی سے حالت اسلام میں ملاقات کی ہو اور پھر اس نے حالت اسلام ہی پر وفات پائی ہو۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ تابعی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے کسی صحابی کی صحبت اختیار کی ہو۔

فوائد

تابعین کو جاننے سے مرسل اور متصل احادیث میں فرق کیا جا سکتا ہے۔

تابعین کے طبقات

تابعین کے طبقات کی تعداد کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہر عالم نے الگ انداز میں انہیں طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ امام مسلم نے انہیں تین، ابن سعد نے چار اور حاکم نے پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سب سے افضل تابعی انہیں سمجھا جاتا ہے جنہیں عشرہ مبشرہ کے صحابہ سے شرف صحبت حاصل ہو۔

مخضرمین

مخضرمین، مخضرم کی جمع ہے۔ اس کا مطلب ہے ایسے افراد جو جاہلیت اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں موجود رہے ہوں لیکن ان کی آپ سے ملاقات نہ ہوئی ہو (لیکن وہ آپ پر ایمان لے آئے ہوں۔) صحیح نقطہ نظر کے مطابق مخضرمین کو تابعین میں شمار کیا جاتا ہے۔ امام مسلم کی رائے کے مطابق مخضرمین کی تعداد بیس ہے لیکن درست یہ ہے کہ ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ ابو عثمان النھدی اور اسود بن یزید النخعی کا شمار انہی میں ہوتا ہے۔ (اویس قرنی اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔)

تابعین کے سات فقہاء

سات تابعین کو فقہاء کہا جاتا ہے۔ یہ حضرات تابعین میں بڑے اہل علم ہوئے ہیں۔ یہ سب کے سب مدینہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں:

· سعید بن مسیب

· قاسم بن محمد بن ابوبکر

· عروۃ بن زبیر

· خارجہ بن زید

· ابو سلمۃ بن عبدالرحمٰن

· عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ

· سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہم اجمعین

(ابن مبارک نے ابو سلمۃ کی جگہ سالم بن عبداللہ بن عمر کو اور ابوالزناد نے ان کی جگہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن کو سات فقہاء تابعین میں شمار کیا ہے۔)

تابعین میں سب سے افضل حضرات

اہل علم کی اس معاملے میں مختلف آراء ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ ان میں سب سے افضل ہیں۔ محمد بن خفیف الشیرازی نے بیان کیا ہے کہ اہل مدینہ سعید بن مسیب کو، اہل کوفہ اویس القرنی کو اور اہل بصرہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہم کو سب سے افضل سمجھتے ہیں۔

تابعین میں سب سے افضل خواتین

ابوبکر بن داؤد کی رائے کے مطابق حفصۃ بنت سیرین اور عمرۃ بنت عبدالرحمٰن اور ان کے بعد ام الدرداء (الصغریٰ) رحمۃ اللہ علیہن سب سے افضل تابعیات ہیں۔

مشہور تصانیف

ابو المطرف بن فطیس الاندلسی کی کتاب "معرفۃ التابعین"۔ (الرسالة المستطرفة ص 105)




راویوں میں رشتہ

اہمیت

یہ علوم حدیث کا وہ فن ہے جس میں حدیث کے ماہرین نے خصوصی تصانیف لکھی ہیں۔ اس علم میں ہر طبقے کے راویوں میں سے بہن بھائیوں کا پتہ چلایا جاتا ہے۔ اس فن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے ماہرین حدیث کے راویوں سے متعلق معلومات جمع کرنے کے اہتمام کا علم ہوتا ہے۔ اس سے ہر راوی کے شجرہ نسب اور اس کے بھائیوں کا علم ہوتا ہے۔

فوائد

اگر دو راویوں کے باپ کا نام ایک ہی ہو تو اس سے یہ شک پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں بھائی ہیں جبکہ درحقیقت ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس علم کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں راوی بھائی نہیں بلکہ ان کے باپوں کے نام اتفاقاً ملتے جلتے ہیں۔ مثال کے طور پر عبداللہ بن دینار اور عمرو بن دینار کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ یہ بھائی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ان دونوں کے باپ کا نام دینار تھا۔

مثالیں

· دو بھائیوں کی مثال: صحابہ میں خطاب کے بیٹے زید اور عمر رضی اللہ عنہما۔

· تین بھائیوں کی مثال: صحابہ ہی میں ابو طالب کے بیٹے عقیل، جعفر اور علی رضی اللہ عنہم۔

· چار بھائیوں کی مثال: تبع تابعین میں ابو صالح کے بیٹے سھیل، عبداللہ، صالح اور محمد علیہم الرحمۃ۔

· پانچ بھائیوں کی مثال: تبع تابعین ہی میں عینیہ کے بیٹے سفیان، آدم، محمد، ابراہیم اور عمران علیہم الرحمۃ۔

· چھ بھائیوں کی مثال: تابعین میں سیرین کے بیٹے اور بیٹیاں محمد، انس، یحیی، معبد، حفصۃ اور کریمۃ علیہم الرحمۃ۔

· سات بھائیوں کی مثال: صحابہ میں مقرن کی اولاد نعمان، معقل، عقیل، سوید، سنان، عبدالرحمٰن اور عبداللہ رضی اللہ عنہم۔ ان ساتوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ سب کے سب مکی دور میں ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی۔ اس فضیلت میں کوئی اور بہن بھائی ان کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سب کے سب غزوہ خندق میں اکٹھے تھے۔

مشہور تصانیف

· ابو المطرف بن فطیس الاندلسی کی "کتاب الاخوۃ"۔

· ابو العباس السراج کی کتاب "الاخوۃ"۔



متفق اور مفترق راوی

تعریف

لغوی اعتبار سے متفق، اتفاق کا اسم فاعل ہے اور مفترق، افتراق کا۔ یہ ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ متفق کا معنی ہے اتفاق کرنے والے اور مفترق کا معنی ہے اتفاق نہ کرنے والے۔

         اصطلاحی مفہوم میں متفق ان مختلف راویوں کو کہا جاتا ہے جن کے نام، کنیت، باپ کے نام، دادا کے نام، نسبت وغیرہ ایک ہی ہوں۔

مثالیں

· خلیل بن احمد: اس نام کے چھ افراد ہیں۔ ان میں سے ایک (مشہور عالم) سیبویہ کے استاذ تھے۔

· احمد بن جعفر بن حمدان: اس نام کے ایک ہی دور میں چار افراد تھے۔

· عمر بن خطاب: اس نام کے چھ افراد ہیں۔

اہمیت

یہ ایک نہایت ہی اہم علم ہے۔ اس سے ناواقفیت کی وجہ سے بعض بڑے اہل علم کو بھی غلطی لگی ہے۔ اس علم کے بڑے فوائد یہ ہیں:

· ایک ہی نام کے باعث کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ یہ ایک ہی شخص ہے جبکہ درحقیقت وہ مختلف افراد ہوتے ہیں۔ یہ "مہمل" کا بالکل الٹ ہے جس میں ایک ہی شخص کو دو سمجھا جا سکتا ہے،

· اس علم کی بدولت مختلف افراد میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک ہی نام کے افراد میں سے ایک "ضعیف" اور دوسرا "ثقہ"۔ ہم افراد میں فرق نہ کرنے کی بنا پر ثقہ کو ضعیف اور ضعیف کو ثقہ قرار دے دیں۔

ایک ہی نام کے مختلف افراد میں فرق بیان کرنا کب ضروری ہے؟

جب ایک ہی نام کے کئی راوی ایک ہی زمانے میں پائے جاتے ہوں یا پھر ان سب کا استاذ ایک ہی ہو یا ان سب کا شاگرد کوئی ایک ہی شخص ہو تو اس صورت میں فرق کو بیان کرنا ضروری ہے۔ اگر ایک ہی نام کے افراد کے زمانے میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہو تو پھر ان افراد کے فرق کو بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔

مشہور تصانیف

· خطیب بغدادی کی کتاب "المتفق و المفترق"۔ یہ ایک نفیس کتاب ہے۔ اس کے مختلف اجزا مخطوطوں کی شکل میں ملے ہیں۔

· حافظ محمد بن طاہر (م 507ھ) کی کتاب "الانساب المتفقہ"۔ یہ خاص طور پر متفق سے متعلق ہے۔


اسماء الرجال (راویوں کا علم)



مُوتلِف اور مختلِف راوی

تعریف

لغوی اعتبار موتلف، ائتلاف کا اسم فاعل ہے اور اس کا معنی ہے اکٹھا ہونے والے۔ مختلف، اختلاف کا اسم فاعل ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ راویوں کے ان ناموں کو کہتے ہیں جو حقیقت میں تو مختلف ہی ہوں لیکن انہیں غلطی سے ایک سمجھ لیا جائے۔

نوٹ: نام کے پڑھنے میں غلطی کی بنیادی وجہ دور قدیم کا رسم الخط (Script) ہے۔ قدیم دور میں عربی حروف پر نقاط اور حرکات نہ لگائی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے متن کو غلطیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ اہتمام کیا گیا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ استاذ کی مدد سے قرآن کو نہ صرف زبانی حفظ کر لیتے بلکہ اسے پڑھ کر بھی استاذ کو سنایا کرتے تھے۔ حدیث کو بھی اسی قسم کی غلطیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ طریق کار اختیار کیا گیا کہ شاگرد حدیث کو محض کتاب سے پڑھنے کی بجائے اسے استاذ کے الفاظ میں سنے۔ بعد کے ادوار میں رسم الخط کی ترقی کے ساتھ ساتھ قرآن، حدیث اور دیگر عربی کتابوں میں نقاط اور اعراب لگائے جانے لگے جس کے بعد اس قسم کی غلطی کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔

مثالیں

· 'سلام' اور 'سلّام'۔ ان میں سے پہلا تشدید کے بغیر ہے اور دوسرا تشدید کے ساتھ۔

· 'مِسوَر' اور 'مُسَوّر'۔ پہلے میں میم پر زیر ہے، سین پر سکون اور واو پر تشدید کے بغیر زبر۔ دوسرے میں میم پر پیش ہے، سین پر زبر اور واو پر تشدید کے ساتھ زبر۔

· 'البزّاز' اور 'البزّار'۔ پہلے کا آخری حرف 'ز' ہے اور دوسرے کا 'ر'۔

· 'الثوری اور 'التوزی'۔ پہلے میں 'ث' اور 'ر' ہیں جبکہ دوسرے میں 'ت' اور 'ز'۔

کیا حرکات اور نقاط کو درج کیا جاتا ہے؟

(عربی کتابوں میں) اکثر اوقات حرکات کو لکھا نہیں جاتا کیونکہ انہیں ہر جگہ درج کرنا مشکل ہے۔ انہیں (طالب علم کو) پڑھ کر سنا دیا جاتا ہے۔ بعض الفاظ پر اعراب لگائے جاتے ہیں۔ بسا اوقات کسی خاص کتاب میں کسی خاص نام پر اعراب لگائے جاتے ہیں۔ بسا اوقات بعض الفاظ پر ہر کتاب میں اعراب لگائے جاتے ہیں جیسے سلّام پر ہمیشہ تشدید درج کی جاتی ہے۔

اہمیت اور فوائد

علم الرجال میں یہ فن نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ علی بن المدینی کہتے ہیں، "پڑھنے میں غلطی اکثر اوقات ناموں ہی میں ہو جایا کرتی ہے کیونکہ نام ایسی چیز ہے جسے قیاس سے اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ تو اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد کا کوئی لفظ اس کی توضیح کرتا ہے۔" (النخبة ص 68)

         اس علم کا فائدہ یہ ہے کہ نام کے پڑھنے میں غلطی نہ کی جائے (اور اس کے نتیجے میں ضعیف راوی کو ثقہ یا ثقہ کو ضعیف نہ سمجھ لیا جائے۔)

مشہور تصانیف

· عبدالغنی بن سعید کی "الموتلف و المختلف"۔

· ابن ماکولا کی "الاکمال"۔



متشابہ راوی

تعریف

لغوی اعتبار سے متشابہ، تشابہ سے اسم فاعل ہے اور اس کا معنی ہے ملتا جلتا۔ اسی سے (امور آخرت سے متعلق) قرآن کے متشابہات ہیں جن کا معنی (دنیاوی امور سے) ملتا جلتا ہے۔

         اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسے افراد کو کہتے ہیں جن کے نام ایک جیسے ہوں لیکن ان کے والد کے نام اگرچہ مختلف ہوں لیکن انہیں ایک ہی شخص سمجھ لیا جائے۔ یا جن کے والد کے نام ایک جیسے ہوں اور ان کے اپنے نام مختلف ہوں لیکن انہیں ایک ہی شخص سمجھ لیا جائے۔

مثالیں

· 'محمد بن عَقِیل' اور 'محمد بن عُقَیل'۔ دونوں راویوں کا نام محمد ہے لیکن ایک کے والد کا نام 'عَقِیل' (عین پر زبر اور قاف پر زیر کے ساتھ) ہے جبکہ دوسرے کے والد کا نام 'عُقَیل' (عین پر پیش اور قاف پر زبر کے ساتھ) ہے۔ (غلطی سے ان دونوں کو ایک ہی شخص سمجھا جا سکتا ہے۔)

· 'شُرَیح بن نعمان' اور 'سُرَیج بن نعمان'۔ اس میں راویوں کے والد کا نام ایک ہی ہے لیکن راویوں کے اپنے نام مختلف ہیں (جنہیں پڑھنے میں غلطی ہو سکتی ہے۔)

فوائد

اس علم کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی مدد سے ملتے جلتے ناموں میں فرق کیا جا سکتا ہے اور تصحیف (غلط پڑھنے) سے بچا جا سکتا ہے (جس کے نتیجے میں ثقہ راوی کو ضعیف اور ضعیف کو ثقہ قرار دینے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔)

متشابہ کی دیگر اقسام

متشابہ کی کچھ اور اقسام بھی ہیں جن میں دیگر وجوہات کی بنیاد پر ناموں میں فرق پیدا ہو سکتا ہے:

· دونوں راویوں اور ان کے باپوں کے ناموں میں ایک دو حروف کا فرق ہو جیسے 'محمد بن جبیر' اور 'محمد بن حنین'۔

· راوی کے نام میں الفاظ یا حروف آگے پیچھے ہو جائیں جیسے 'اسود بن یزید' کو 'یزید بن اسود' کر دیا جائے یا پھر 'ایوب بن سیار' کو 'ایوب بن یسار' پڑھا جائے۔ اس قسم کو "متشابہ مقلوب" کہا جاتا ہے۔

مشہور تصانیف

· خطیب بغدادی کی کتاب "تلخیص المتشابہ فی الرسم، و حمایۃ ما اشکل منہ عن بوادر التصحیف و الوہم"۔

· خطیب بغدادی ہی کی "تالی التلخیص"۔ یہ پہلی کتاب کا تکملہ ہے۔ مصر کے دارلکتب میں ان کے مکمل نسخے مل چکے ہیں۔

خطیب کی یہ دونوں کتابیں اس موضوع پر لاجواب ہیں اور اس موضوع پر ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئیں۔


مُہمَل راوی

تعریف

لغوی اعتبار سے مہمل، اہمال کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے ترک کیا گیا۔ اصطلاحی مفہوم میں اگر ایک شخص دو ایسے افراد سے حدیث روایت کر رہا ہوں جن کے نام یا باپ دادا کے نام ملتے جلتے ہوں اور یہ شخص یہ واضح نہیں کرتا کہ کہاں کونسا راوی مراد ہے تو اسے مہمل کہا جائے گا۔

مہمل ہونے سے کب فرق پڑتا ہے؟

اگر ان دونوں راویوں میں سے ایک ثقہ اور دوسرا ضعیف ہو تو عین ممکن ہے کہ ثقہ کی بیان کردہ حدیث کو ضعیف اور ضعیف کی بیان کردہ حدیث کو صحیح سمجھ لیا جائے۔ اگر یہ دونوں راوی ہی ثقہ ہیں تو پھر مہمل ہونے سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مثالیں

· دو ثقہ راویوں کی مثال یہ ہے کہ امام بخاری 'احمد' کے والد کا نام لئے بغیر سے روایت کرتے ہیں۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ اس سے ان کی مراد 'احمد بن صالح' یا 'احمد بن عیسی' ہوتی ہے اور یہ دونوں ثقہ راوی ہیں۔

· ایک ثقہ اور ایک ضعیف راوی کی مثال 'سلیمان بن داؤد الخولانی' اور 'سلیمان بن داؤد الیمانی' ہیں۔ ان میں سے خولانی ثقہ ہیں اور یمانی ضعیف ہیں۔

مہمل اور مبہم میں فرق

مہمل اور مبہم میں فرق یہ ہے کہ مہمل میں راوی کا نام لیا گیا ہوتا ہے لیکن اسے متعین کرنے میں مشکل ہو رہی ہوتی ہے جبکہ مبہم میں راوی کا نام ہی درج نہیں کیا جاتا۔

مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب "المکمَل فی بیان المھمَل"۔


مبُہَم راوی

تعریف

لغوی اعتبار سے مبہم، ابہام کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے، غیر واضح چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں مبہم اس راوی کو کہتے ہیں جس کا نام حدیث کی سند میں واضح طور پر بیان نہ کیا گیا ہو۔ بسا اوقات حدیث کے متن میں آنے والے کسی شخص کا نام بھی واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہوتا۔ اسے بھی مبہم ہی کہا جاتا ہے۔

فوائد

اگر سند میں کسی راوی کے نام میں ابہام پایا جائے تو اسے معلوم کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس راوی کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا علم ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

         (بعض اوقات حدیث کے متن میں کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہوتا ہے یا ویسے ہی کسی شخص کا تذکرہ کیا گیا ہوتا ہے لیکن اس کا نام مبہم ہوتا ہے۔) ایسی صورت میں اس ابہام کو دور کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث میں بیان کردہ کوئی واقعہ کس شخص سے متعلق ہے یا حدیث میں سوال کرنے والا شخص کون ہے یا اگر حدیث میں اس شخص کی تعریف یا مذمت کی گئی ہو تو اس شخص کا اچھا یا برا ہونا معلوم ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ متن میں ابہام دور کرنے سے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کے حالات کا علم ہوتا ہے۔

مبہم کو متعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟

اگر وہی حدیث کسی اور سند سے بھی مروی ہو تو ممکن ہے کہ دوسری سند میں نام متعین طریقے سے لئے گئے ہوں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سیرت کے ماہرین تحقیق کر کے اس شخص کے نام کا تعین کریں۔

مبہم کی اقسام

مبہم کو اس کے ابہام کی شدت کے اعتبار سے چار قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہم ان کا آغاز مبہم ترین سے کریں گے:

· کسی کا نام لینے کی بجائے اس کو مرد یا خاتون یا شخص کہہ کر ذکر کیا جائے: اس کی مثال سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ "ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حج ہر سال کرنا فرض ہے؟" یہاں 'شخص' سے مراد 'الاقرع بن حابس' رضی اللہ عنہ ہیں۔

· کسی کا نام لینے کی بجائے بیٹا یا بیٹی کہہ کر اس کا ذکر کیا جائے: اسی میں بہن، بھائی، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی کہہ کر بیان کرنا شامل ہے۔ اس کی مثال سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بیٹی (کی میت) کو پانی اور پتوں سے غسل دیا۔" یہاں بیٹی کا نام نہیں لیا گیا۔ اس سے مراد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔

· کسی کا نام لینے کی بجائے اسے چچا یا پھوپھی کہا جائے: اسی میں ماموں، خالہ یا کزن بھی شامل ہیں۔ اس کی مثال سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں انہوں نے اپنے چچا کا ذکر کیا ہے۔ ان کے چچا کا نام ظُھَیر بن رافع تھا۔اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث میں اپنی پھوپھی کا ذکر کیا ہے۔ ان کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا۔

· کسی کا نام لینے کی بجائے اسے خاوند یا بیوی کہہ کر پکارا جائے: اس کی مثال صحیحین کی حدیث ہے جس میں سیدہ سبیعۃ رضی اللہ عنہا کے خاوند کی وفات کا ذکر ہے۔ ان کے خاوند کا نام سعد بن خولہ تھا۔ اسی طرح سیدنا عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ کی زوجہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ان کا نام تمیمۃ بنت وہب تھا۔

مشہور تصانیف

اس ضمن میں اہل علم جیسے عبدالغنی بن سعید، خطیب، اور نووی وغیرہ نے بہت سے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان میں سب سے بہترین کتاب ولی الدین العراقی کی 'المستفاد من المبہمات المتن و الاسناد" ہے۔


وُحدان راوی

تعریف

لغوی اعتبار سے وحدان ایک کی جمع ہے یعنی بہت سے اکیلے۔ اصطلاحی مفہوم میں وحدان ان راویوں کو کہتے ہیں جن سے سوائے کسی ایک ہی شخص کے کسی اور نے حدیث روایت نہ کی ہو۔

فوائد

(چونکہ وحدان عام طور پر نامعلوم افراد ہوتے ہیں اور ان کے تفصیلی حالات کا علم نہیں ہوتا اس وجہ سے) وحدان کی شخصیت سے متعلق معلومات سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ صحابی ہے یا نہیں۔ صحابی نہ ہونے کی صورت میں ایسے شخص کی بیان کردہ احادیث کو مسترد کر دیا جاتا ہے (کیونکہ ان کے اتنے حالات معلوم نہیں ہوتے جن کی بنیاد پر ان کے ثقہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جا سکے۔)

مثالیں

صحابہ میں وحدان کی مثال عروۃ بن مضرس رضی اللہ عنہ ہیں جن سے سوائے شعبی کے اور کوئی حدیث روایت نہیں کرتا۔ دوسری مثال مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ ہیں جن سے ان کے بیٹے سعید کے علاوہ کوئی اور شخص حدیث روایت نہیں کرتا۔ تابعین میں وحدان کی مثال ابوالعشراء ہیں جن سے سوائے حماد بن سلمۃ کے اور کوئی حدیث روایت نہیں کرتا۔

کیا بخاری و مسلم نے بھی وحدان سے حدیث روایت کی ہے؟

حاکم اپنی کتاب "المدخل" میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری و مسلم نے وحدان سے کوئی حدیث روایت نہیں کی۔ ان کی یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ بخاری و مسلم میں بہت سے ایسی روایات ہیں جو وحدان سے روایت کی گئی ہیں۔ اس کی مثال یہ احادیث ہیں:

· ابو طالب کی وفات سے متعلق حدیث صرف مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔ یہ بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔

· صحیح بخاری میں ایک حدیث مرداس الاسلمی سے قیس بن ابی حازم نے روایت کی ہے جن سے سوائے قیس کے اور کوئی حدیث روایت نہیں کرتا۔

مشہور تصانیف

امام مسلم کی کتاب "المنفردات و الوحدان"۔


راویوں کے مختلف نام، القاب اور کنیتیں

تعریف

اس قسم کی معلومات میں راویوں کے مختلف ناموں، القاب اور کنیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

نوٹ: عرب معاشرے میں یہ رواج آج تک موجود ہے کہ ان کے ہاں نام کی بجائے کسی شخص کے لقب یا کنیت سے اسے پکارنا تعظیم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کنیت میں کسی شخص کو اس کے باپ یا اولاد کی نسبت سے پکارا جاتا ہے جیسے ابو محمد یا ابن زبیر۔

مثال

اس کی مثال محمد بن سائب الکلبی ہیں۔ انہیں بعض لوگ "ابو النضر" کے نام سے جانتے ہیں، بعض انہیں "حماد بن سائب" کہتے ہیں اور بعض انہیں "ابو سعید" کے نام سے جانتے ہیں۔

فوائد

ان معلومات کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی بدولت یہ شک دور جاتا ہے کہ یہ ایک ہی شخص ہے یا کئی افراد ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی بدولت حدیث بیان کرنے والے راویوں کی کی گئی تدلیس (یعنی سند میں سے کسی راوی کا نام چھپانے) کا علم بھی ہوتا ہے۔

خطیب بغدادی کا اپنے اساتذہ کے مختلف نام استعمال کرنا

خطیب بغدادی اپنی کتابوں میں ابو القاسم الازہری، عبیداللہ بن ابوالفتح الفارسی اور عبیداللہ بن احمد بن عثمان الصیرفی سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ یہ تینوں ایک ہی شخص کے نام ہیں۔

مشہور تصانیف

· حافظ عبدالغنی بن سعید کی "ایضاح الاشکال"

· خطیب بغدادی کی "موضح اوھام الجمع و التفریق"


راویوں کے منفرد نام، صفات اور کنیت

تعریف

بعض اوقات صحابہ یا بعد کے کسی راوی کی کنیت، لقب یا نام ایسا منفرد ہوتا ہے جو کسی اور شخص کا نہیں ہوتا۔ ان ناموں کے منفرد ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ (عربوں کے لئے ان کی ادائیگی) مشکل ہوتی ہے۔

فوائد

ان معلومات کے حصول کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ نام کے پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی بلکہ یہ بالکل صحیح نام ہے۔

مثالیں

ناموں میں مثالیں یہ ہیں:

· صحابہ میں احمد بن 'عُجیان' اور 'سَندر'۔

· غیر صحابہ میں 'اوسط' بن عمرو، اور 'ضُریب' بن نقیر بن سمیر

کنیت میں مثالیں یہ ہیں؛

· صحابہ میں سیدنا 'ابو الحمراء' رضی اللہ عنہ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کا اصل نام ھلال بن حارث ہے۔

· غیر صحابہ میں 'ابو العبیدین'۔ ان کا نام معاویۃ بن سبرۃ تھا۔

القاب میں اس کی مثالیں یہ ہیں:

· صحابہ میں 'سفینہ' رضی اللہ عنہ۔ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور ان کا نام مہران تھا۔

· غیر صحابہ میں 'مندل'۔ ان کا نام عمرو بن علی الغزی الکوفی تھا۔

مشہور تصانیف

اس ضمن میں ایک خصوصی کتاب حافظ احمد بن یحیی البردیجی نے لکھی ہے جس کا نام ہے "الاسماء المفردۃ"۔ اس کے علاوہ راویوں کے تراجم (یعنی حالات زندگی) سے متعلق کتابوں جیسے حافظ ابن حجر کی "تقریب التہذیب" کے آخر میں منفرد ناموں والے راویوں کا تذکرہ ملتا ہے۔


کنیت سے مشہور راویوں کے نام

تمہید

بعض راوی اپنے نام کی بجائے کنیت سے مشہور ہو گئے تھے۔ فنون حدیث کا یہ شعبہ ایسے راویوں کے اصل نام معلوم کرنے سے متعلق ہے جو کہ زیادہ مشہور نہیں ہیں۔

فوائد

اگر ایسے کسی راوی کا ذکر کبھی تو کنیت سے کیا جائے اور کبھی نام سے تو عدم واقفیت کے باعث کوئی اسے دو افراد سمجھ سکتا ہے۔ اس علم کی بدولت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس نام اور کنیت کا تعلق ایک ہی شخص سے ہے۔

کنیت کے فن میں تصنیف کا طریق کار

کنیت سے متعلق کتابوں کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہ ترتیب لفظ 'ابو، ابن' وغیرہ کو چھوڑ کر باقی نام کے اعتبار سے قائم کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر "ابو اسحاق" کو 'ہمزہ' کے باب میں درج کیا جائے گا اور ان کی کنیت کے سامنے ان کا نام لکھ دیا جائے گا۔ اسی طرح "ابو بشر" کو 'ب' کے باب میں درج کیا جائے گا اور ان کی کنیت کے سامنے ان کا نام لکھ دیا جائے گا۔

کنیت سے مشہور افراد کی اقسام اور مثالیں

· ایسے افراد جن کی کنیت ہی ان کا نام تھا۔ ان افراد کا الگ سے کوئی نام نہ تھا مثلاً ابو بلال الاشعری۔ ان کا نام اور کنیت یہی ہے۔

· ایسے افراد جو کہ کنیت سے مشہور ہوئے اور ان کا اصل نام نامعلوم ہے۔ مثلاً ابو اناس رضی اللہ عنہ جو کہ صحابی ہیں۔

· ایسے افراد جن کا لقب کنیت بن گیا لیکن ان کا نام اور دوسری کنیت بھی موجود ہے۔ مثلاً سیدنا ابوتراب رضی اللہ عنہ جن کا نام علی بن ابی طالب اور دوسری کنیت ابوالحسن ہے۔

· ایسے افراد جن کی دو یا دو سے زائد کنیتیں ہیں۔ مثلاً ابن جریج کی دو اور کنیتیں ابو خالد اور ابو الولید بھی ہیں۔

· ایسے افراد جن کی کنیتوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ مثلاً سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما۔ ان کی کنیت کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ انہیں ابو محمد، ابو عبداللہ اور ابو خارجہ کہا گیا ہے۔

· ایسے افراد جو کنیت سے مشہور ہیں لیکن ان کے ناموں کے بارے میں اختلاف ہے جیسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔ ان کے اور ان کے والد کے نام کے بارے میں تین آراء موجود ہیں اور مشہور یہ ہے کہ ان کا نام عبدالرحمٰن بن صخر تھا۔

· ایسے افراد جن کے نام اور کنیت دونوں کے بارے میں اختلاف ہے جیسے سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ۔ ان کے نام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ عمیر یا صالح یا مھران تھا اور ان کی کنیتوں کے بارے میں رائے ہے کہ وہ ابو عبدالرحمٰن یا ابو البختری تھی۔

· ایسے افراد جو نام اور کنیت دونوں ہی سے مشہور ہیں جیسے سفیان ثوری، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل۔ ان سب کی کنیت ابو عبداللہ مشہور ہے۔ اسی طرح نعمان بن ثابت ابوحنیفہ کی کنیت سے مشہور ہیں۔ علیہم الرحمۃ۔

· ایسے افراد جو کنیت سے مشہور ہوئے لیکن ان کا نام بھی معلوم ہے جیسے ابو ادریس الخولانی۔ ان کا نام عائذ اللہ تھا۔

· ایسے افراد جو نام سے مشہور ہوئے لیکن ان کی کنیت بھی معلوم ہے جیسے سیدنا طلحہ بن عبیداللہ، عبدالرحمٰن بن عوف اور حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم۔ ان سب کی کنیت ابو محمد تھی۔

مشہور تصانیف

کنیتوں کے بارے میں کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں علی بن المدینی، مسلم اور نسائی کی کتب شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور ابو بشر محمد بن احمد الدولابی (م 310ھ) کی کتاب "الکنی و السماء" ہے۔


القاب

تعریف

القاب، لقب کی جمع ہے۔ کسی شخص کا لقب اس کی کسی اچھی یا بری خصوصیت یا صفت کی وجہ سے مشہور ہو جاتا ہے۔ لقب کسی شخص کی تعریف پر مبنی بھی ہو سکتا ہے اور مذمت پر بھی۔

القاب کی بحث

القاب کی بحث کا تعلق محدثین اور راویوں کے القاب سے ہے تاکہ ان راویوں کی پہچان کی جا سکے۔

فوائد

اس علم کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کہیں پر ذکر نام سے اور کہیں پر لقب سے کیا گیا ہو تو اس علم کی بدولت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دو افراد نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس تحقیق و تفتیش کے نتیجے میں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس شخص کو یہ لقب کیوں دیا گیا؟ (یعنی اس سے اس شخص کی خوبی یا خامی واضح ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا ثقہ یا ضعیف ہونا معلوم ہو جاتا ہے۔)

اقسام

لقب کی دو اقسام ہیں۔ ایک تو وہ جو صاحب لقب کو پسند ہو اور دوسرا وہ جو اسے ناپسند ہو۔ کسی بھی شخص کو پہلی قسم کے لقب سے پکارنا درست ہے اور دوسری قسم کے لقب سے پکارنا جائز نہیں ہے۔

مثالیں

· ضال (یعنی راہ سے بھٹکنے والا): یہ معاویہ بن عبدالکریم الضال کا لقب تھا۔ انہیں یہ لقب اس لئے دیا گیا کہ وہ مکہ کے راستے سے بھٹک گئے تھے۔

· ضعیف (یعنی کمزور): یہ عبداللہ بن محمد الضعیف کا لقب ہے۔ انہیں یہ لقب اس لئے دیا گیا کہ وہ جسمانی طور پر کمزور تھے جبکہ وہ حدیث کے بارے میں ضعیف نہ تھے۔ عبدالغنی بن سعید کہتے ہیں: "دو جلیل القدر افراد کو برے القاب ضال اور ضعیف سے نوازا گیا ہے۔"

· غُندر (یعنی شور مچانے والا): یہ شعبۃ الایمان کے مصنف محمد بن جعفر البصری کا لقب ہے۔ اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ (مشہور محدث) ابن جریج جب بصرہ پہنچے تو انہوں نے حسن بصری علیہ الرحمۃ سے روایت کردہ ایک حدیث بیان کی۔ محمد بن جعفر نے اس بات پر شدید احتجاج کیا (کہ یہ حدیث درست نہیں۔) اس پر ابن جریج نے انہیں کہا، "اے غندر! خاموش ہو جاؤ۔"

· غُنجار (یعنی سرخ): یہ عیسی بن موسی التمیمی کا لقب ہے۔ انہیں یہ لقب اس لئے دیا گیا کیونکہ ان کے گال سرخ رنگ کے تھے۔

· صاعقۃ (یعنی بجلی): یہ امام بخاری کے استاذ حافظ محمد بن ابراہیم کا لقب ہے۔ انہیں یہ لقب دیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اچھے حافظے کی وجہ سے احادیث کو بجلی کی طرح تیزی سے بیان کر دیتے تھے۔

· مشکدانہ: یہ عبداللہ بن عمر الاموی کا لقب ہے۔ یہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے مشک کی خوشبو کا دانہ۔

· مُطین (یعنی مٹی میں لتھڑا ہوا): یہ ابو جعفر الحضرمی کا لقب ہے۔ انہیں یہ لقب اس وجہ سے دیا گیا کہ ایک مرتبہ وہ بچپن میں پانی میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ بچوں نے ان کی پیٹھ پر مٹی مل دی۔ (یہ دیکھ کر ان کے استاذ) ابو نعیم نے ان سے کہا، "اے مطین! تم آج علم کی محفل (کلاس) میں حاضر کیوں نہیں ہوئے؟"

مشہور تصانیف

قدیم اور جدید اہل علم نے اس فن سے متعلق کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سب سے اچھی اور مختصر کتاب حافظ ابن حجر کی "نزھۃ الباب" ہے۔



اپنے والد کے علاوہ کسی اور سے منسوب راوی

تعارف

وہ افراد جو اپنے والد کے علاوہ کسی اور جیسے ماں، دادا یا استاذ سے نسبت کے باعث مشہور ہو گئے، علوم حدیث کی اس شاخ میں ان کے والد کا اصل نام معلوم کیا جاتا ہے۔

فوائد

والد کے علاوہ کسی اور سے منسوب شخص کے والد کا اصل نام معلوم ہونے سے یہ شک دور ہو جاتا ہے کہ شاید یہ ایک سے زائد افراد ہیں۔

اقسام اور مثالیں

· ماں سے منسوب افراد: اس کی مثال مشہور صحابہ معوذ، معاذ اور عوذ رضی اللہ عنہ ہیں جو اپنی والدہ عفراء رضی اللہ عنہا سے نسبت سے مشہور ہیں۔ ان کے والد کا نام حارث تھا۔ اسی طرح سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اپنے والد رباح کی نسبت والدہ حمامہ کی نسبت سے مشہور ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ اپنے والد کی بجائے والدہ کی نسبت سے زیادہ مشہور ہیں۔

· دادی سے منسوب افراد: اس کی مثال یعلی بن منیۃ ہیں۔ ان کے والد کا نام امیہ تھا لیکن وہ اپنی دادی منیۃ کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ اسی طرح بشیر بن الخصاصیۃ کے والد کا نام معبد تھا لیکن وہ اپنے پڑدادا کی والدہ خصاصیۃ کی نسبت سے مشہور ہوئے۔

· دادا سے منسوب افراد: اس کی مثال سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کا اصل نام عامر بن عبداللہ بن الجراح تھا۔ یہی معاملہ امام احمد بن حنبل کا ہے جن کا پورا نام احمد بن محمد بن حنبل ہے۔ یہ دونوں حضرات اپنے دادا کی نسبت سے زیادہ مشہور ہیں۔

· کسی اور سے منسوب افراد: اس کی مثال سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کا اصل نام مقداد بن عمرو الکندی تھا۔ انہیں اسود کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا کہ اسود بن عبد یغوث نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔

مشہور تصانیف

اس ضمن میں الگ سے کتابیں تصنیف تو نہیں کی گئیں البتہ کتب تراجم (حالت زندگی) میں ہر راوی کے سلسلہ نسب کا ذکر ہوتا ہے کیونکہ یہ کتابیں بڑی وسعت رکھتی ہیں۔


کسی علاقے، جنگ یا پیشے سے منسوب راوی

تمہید

بعض ایسے راوی ہیں جنہیں بظاہر کسی علاقے یا قبیلے یا جنگ یا پیشے سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں اس نسبت سے ان کا حقیقی نسب مراد نہیں ہے۔ اس کی وجہ مثلاً یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے کسی مقام پر کوئی کارنامہ سر انجام دیا تو انہیں اس جگہ سے منسوب کر دیا گیا یا پھر وہ کسی خاص پیشے سے متعلق افراد کے پاس اٹھتے بیٹھتے تھے تو انہیں اسی پیشے سے منسوب کر دیا گیا۔

فوائد

اس بحث کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کا حقیقی نسب معلوم ہو جاتا ہے اور دوسری طرف وہ وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے جس کے باعث اسے کسی چیز سے منسوب کیا گیا ہو۔

مثالیں

· ابو مسعود البدری: یہ جنگ بدر کے موقع پر موجود نہیں تھے لیکن ایک مرتبہ انہوں نے بدر کے مقام پر پڑاؤ کیا تو یہ بدری کی نسبت سے مشہور ہو گئے۔

· یزید الفقیر: یہ فقیر نہیں تھے۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی (فقار) میں چوٹ لگی تھی جس کے باعث یہ فقیر مشہور ہو گئے۔

· خالد الحذاء: یہ موچی (حذاء) نہیں تھے بلکہ موچیوں کے پاس اٹھتے بیٹھتے تھے جس کی وجہ سے یہ بھی موچی مشہور ہو گئے۔

مشہور تصانیف

نسبتوں سے متعلق سمعانی نے کتاب "الانساب" لکھی ہے۔ ابن الاثیر نے اس کا خلاصہ "اللباب فی تھذیب الانساب" کے نام سے کیا ہے جس کا مزید خلاصہ سیوطی نے "لب اللباب" کی صورت میں کیا ہے۔



راویوں سے متعلق اہم تاریخیں (Dates)

تعریف

کسی راوی کی پیدائش، وفات اور اس سے متعلق اہم واقعات جیسے کسی استاذ سے ملاقات یا سفر وغیرہ کی تاریخ (Date) سے متعلق معلومات کو نوٹ کیا جاتا ہے۔

اہمیت

یہ ایک نہایت ہی اہم علم ہے۔ سفیان ثوری کہتے ہیں، "جھوٹ بولنے والے راویوں کے لئے ہم تاریخوں کے علم کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی سے ہمیں سند کے متصل یا منقطع ہونے کا علم ہوتا ہے۔" اگر کوئی شخص دوسرے سے حدیث روایت کرنے کا دعویٰ کرے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں وہ اس شخص سے اس کی وفات کے بعد تو روایت نہیں کر رہا۔

نوٹ: فرض کیجیے راوی A، B سے حدیث روایت کر رہا ہے۔ A کا سن پیدائش 200ھ ہے اور B کا سن وفات 190ھ۔ ان دونوں کی ملاقات ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کی سند ملی ہوئی ہے یا ٹوٹی ہوئی۔ اسی سے حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے۔

مثالیں

· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے 63 برس کی عمر میں وفات پائی۔

a رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے پیر کے دن صبح کے وقت ربیع الاول 11ھ میں وفات پائی۔

a سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جمادی الاولی 13ھ میں وفات پائی۔

a سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ذو الحجۃ 23ھ میں شہید کیا گیا۔

a سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالحجۃ 35ھ میں شہید کیا گیا۔ اس وقت آپ کی عمر 82 یا 90 سال تھی۔

a سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رمضان 40ھ میں شہید کیا گیا۔ اس وقت آپ کی عمر بھی 63 سال تھی۔

· مشہور مسالک کے ائمہ کے سن پیدائش اور سن وفات

a ابو حنیفہ نعمان بن ثابت 80-150ھ

a مالک بن انس 93-179ھ

a محمد بن ادریس شافعی 150-204ھ

a احمد بن حنبل (علیہم الرحمۃ) 164-241ھ

· حدیث کی مشہور کتب کے مصنفین کے سن پیدائش اور سن وفات

a محمد بن اسماعیل بخاری 194-256ھ

a مسلم بن حجاج نیشاپوری 204-261ھ

a ابو داؤد السجستانی 202-275ھ

a ابو عیسی ترمذی 209-279ھ

a احمد بن شعیب نسائی 214-303ھ

a ابن ماجہ القزوینی 207-275ھ

مشہور تصانیف

ابن زبر محمد بن عبیداللہ الربعی محدث دمشق (م 379ھ) کی کتاب "الوفیات"۔ یہ سن وفات کی ترتیب سے لکھی گئی ہے۔ اسی کتاب پر کتانی، ان کے بعد اکفانی اور ان کے بعد عراقی نے اضافہ کیا ہے۔

نوٹ: موجودہ دور میں ایسے سافٹ ویئر دستیاب ہو چکے ہیں جن میں ہر راوی یا مصنف سے متعلق اہم تاریخوں کا علم ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال دار التراث الاسلامی کا "الموسوۃ الذھبیۃ للحدیث الشریف" ہے۔ اسی طرح مکتبہ شاملہ کے سافٹ ویئر میں بھی یہ خصوصیات موجود ہیں۔ اب ایسی ویب سائٹس بھی بن چکی ہیں جن میں فن رجال کا پورا انسائیکلو پیڈیا مرتب کر دیا گیا ہے۔





حادثے کا شکار ہو جانے والے ثقہ راوی

تعریف

لغوی اعتبار سے اختلاط کا معنی ہے ذہنی طور پر معذور ہو جانا۔ اصطلاحی مفہوم میں اس کا معنی ہے کہ کسی راوی کا ذہنی طور پر معذور ہو جانا یا اسے کوئی ایسا حادثہ پیش آ جانا جس کے باعث وہ حدیث محفوظ رکھنے سے محروم ہو جائے جیسے پاگل ہونا، نابینا ہو جانا یا اس کی کتابیں جل جانا وغیرہ وغیرہ۔

مثالیں

· ذہنی معذور ہو جانے کے باعث اختلاط: اس کی مثال عطاء بن سائب الثقفی الکوفی ہیں۔

· نابینا ہو جانے کے باعث اختلاط: اس کی مثال عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی ہیں۔ نابینا ہو جانے کے بعد یہ ہر حدیث کو درست قرار دے دیا کرتے تھے۔

· دیگر اسباب کے باعث اختلاط: اس کی مثال عبداللہ بن لہیعۃ المصری ہیں جن کی کتابیں جل گئی تھیں۔

صاحب اختلاط کی روایات کا حکم

ایسا راوی، جسے کوئی ایسا حادثہ پیش آ گیا ہو، کی بیان کردہ وہ روایتیں جو اس حادثے سے پہلے کی ہیں، قبول کی جائیں گی (اگر وہ ثقہ ہو۔) اس کی وہ روایتیں مسترد کی جائیں گی جو حادثے کے بعد کی ہیں یا جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو سکے کہ وہ حادثے سے پہلے کی ہیں یا بعد کی۔

مشہور تصانیف

علائی اور جازمی جیسے اہل علم نے اس ضمن میں کتابیں لکھی ہیں۔ ایسی ہی کتابوں میں سے ایک کتاب، "الاغتباط بمن رمی بلاختلاط" جو حافظ ابراہیم بن محمد سبط بن العجمی (م 841ھ) کی ہے۔


علماء اور راویوں کے طبقات

تعریف

لغوی اعتبار سے طبقہ لوگوں کے اس گروہ کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہوں۔ اصطلاحی مفہوم میں طبقہ لوگوں کے اس گروہ کو کہتے ہیں جو اسناد اور عمر یا کم از کم صرف اسناد میں ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ (تدريب الراوي جـ 2 ـ ص 381) قریب ہونے کا معنی یہ ہے کہ دو افراد ایک ہی استاذ سے حدیث روایت کرتے ہیں تو ان دونوں کو ایک ہی طبقے میں شمار کیا جائے گا۔

فوائد

(کون سا راوی کس طبقے سے تعلق رکھتا ہے) یہ جاننے کا فائدہ یہ ہے کہ ملتے جلتے ناموں اور ملتی جلتی کنیتوں والے افراد میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ ناموں کی مشابہت کے باعث یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ہی شخص ہے لیکن درحقیقت وہ کسی اور زمانے کا کوئی فرد ہو سکتا ہے۔ اس سے معنعن روایت کو بھی پرکھا جا سکتا ہے۔

کیا کوئی راوی ایک اعتبار سے ایک طبقے اور دوسرے اعتبار سے دوسرے طبقے سے متعلق ہو سکتا ہے؟

(ایسا ممکن ہے۔) مثال کے طور پر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو عہد رسالت میں بچے تھے۔ دوسرے اعتبار سے وہ مجموعی طور پر "صحابہ" کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

طبقات کے محقق کو کس بات کا علم ہونا چاہیے؟

طبقات کی تحقیق کرنے والے محقق کو راویوں کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات، اساتذہ اور شاگردوں کا علم ہونا ضروری ہے۔

مشہور تصانیف

· ابن سعد کی "طبقات الکبری"

· ابو عمرو الدانی کی "طبقات القراء"

· عبدالوہاب السبکی کی "طبقات الشافعیۃ الکبری"

· ذہبی کی "تذکرۃ الحفاظ"


آزاد کردہ غلام

تعریف

لغوی اعتبار سے موالی، مولٰی کی جمع ہے۔ مولی کا اطلاق متضاد معنی میں ہوتا ہے جیسے مالک کو بھی مولی کہا جاتا ہے اور غلام کو بھی۔ آزاد کرنے والے کو بھی مولٰی کہتے ہیں اور غلام کو بھی۔

         اصطلاحی مفہوم میں مولٰی سے مراد ایسا غلام ہے جسے آزاد کر دیا گیا ہو یا ایسا شخص ہے جو کسی شخص کی ضمانت پر اس قبیلے میں رہ رہا ہو یعنی جس کا جان و مال کسی اور شخص کی ضمانت کے باعث محفوظ ہو۔

نوٹ: قدیم عرب معاشرت میں "ولاء" کا رشتہ معتبر سمجھا جاتا تھا۔ اس کی ایک صورت یہ تھی کہ ایک شخص کسی دوسرے کا غلام ہے۔ مالک نے اسے آزاد کر دیا۔ عرب معاشرے کا دستور تھا کہ آزاد ہو جانے والے غلام کو وہ آزاد کرنے والے مالک کے قبیلے کا فرد مان لیا کرتے تھے۔ ایسے شخص کو "مولی بالعتاقۃ" کہا جاتا تھا۔ اسلام نے ولاء کے رشتے کو بے پناہ اہمیت دی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ غلاموں کو آزاد کرنے کے بعد انہیں معاشرے میں وہی مقام دے دیا جائے جو ان کے سابقہ مالکوں کو حاصل ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے میری کتاب "اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ" ملاحظہ فرمائیے۔

"ولاء" کی ایک دوسری شکل یہ تھی کہ کوئی شخص باہر کے کسی علاقے سے عرب معاشرے میں آ کر آباد ہونا چاہے تو اس کے لئے لازم تھا کہ وہ کسی عرب کی ضمانت حاصل کرے۔ ایسے شخص کو "مولی بالحلف" کہا جاتا تھا۔ ایسے مولی کو اسی قبیلے کا حصہ مان لیا جاتا تھا جس کی ضمانت میں وہ رہ رہا ہوتا تھا۔ عرب معاشرے میں یہ دستور آج تک رائج ہے۔ تمام عرب ممالک میں کسی عرب کی ضمانت سے ہی غیر عرب کو ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اب قبیلے سے تعلق کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔

ظہور اسلام کے بعد اسی "ولاء" میں ایک تیسری قسم کا اضافہ ہوا اور وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے مفتوحہ ممالک میں ایسے غیر عرب افراد پائے جاتے تھے جو کہ اپنے معاشروں میں عزت کی نگاہ سے نہ دیکھے جاتے تھے۔ یہ لوگ جب کسی مبلغ کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہو جاتے تو ان کا سماجی رتبہ بلند کرنے کے لئے ان کا شمار اسی مبلغ کے قبیلے میں کیا جانے لگتا۔

مولٰی کی اقسام

· مولی بالحلف: اس کی مثال امام مالک بن انس الاصبحی التیمی تھے۔ ان کا تعلق قوم "اصبح" سے تھا جو کہ قریش کی ضمانت پر عرب میں رہ رہے تھے۔

· مولی العتاقۃ: اس کی مثال ابو البختری الطائی ہیں جو کہ تابعی ہیں۔ ان کا نام سعید بن فیروز تھا۔ یہ قبیلہ بنو طے کے ایک شخص کے غلام تھے جس نے انہیں آزاد کر دیا تھا۔ اسی نسبت سے انہیں بھی طائی کہا جاتا ہے۔

· مولی الاسلام: اس کی مثال امام محمد بن اسماعیل البخاری الجعفی ہیں۔ ان کے دادا مغیرہ مجوسی تھے۔ انہوں نے یمان بن اخنس الجعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا جس کی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ بھی الجعفی لکھا جانے لگا۔

فوائد

اگر ایک شخص ایک مختلف ولاء سے منسوب ہے تو اس سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس کا تعلق نسبی اعتبار سے اسی قبیلے سے ہو گا جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ اس علم کی بدولت یہ شک رفع ہو جاتا ہے۔

مشہور تصانیف

ابو عمر الکندی نے صرف مصریوں کے بارے میں ایک تصنیف کی ہے۔


ثقہ اور ضعیف راوی

تعریف

لغوی اعتبار سے ثقہ کا معنی ہے قابل اعتماد شخص اور ضعیف کا معنی ہے کمزور شخص۔ اصطلاحی مفہوم میں ثقہ وہ شخص ہے جو اچھے کردار کا مالک ہو اور احادیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ضعیف ایک عام اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے وہ شخص جس کے کردار یا احادیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کے بارے میں کوئی الزام موجود ہو۔

اہمیت

یہ فنون حدیث میں سب سے اہم فن ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پر حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

مشہور تصانیف

· صرف ثقہ راویوں کے حالات زندگی پر مشتمل کتب جیسے ابن حبان کی کتاب "الثقات" یا عجلی کی کتاب "الثقات"۔

· صرف ضعیف راویوں کے حالات زندگی پر مشتمل کتب کثیر تعداد میں ہیں جیسے امام بخاری، نسائی، عقیلی اور دارقطنی کی "الضعفاء"۔ ان کے علاوہ ابن عدی کی "الکامل فی الضعفاء" اور ذہبی کی "المغنی فی الضعفاء" بھی اسی موضوع پر ہیں۔

· ثقہ اور ضعیف دونوں قسم کے راویوں کے حالات زندگی پر مشتمل کتب بھی کثیر تعداد میں ہیں جیسے امام بخاری کی "تاریخ الکبیر"۔ اس کے علاوہ جرح و تعدیل کی کتابیں بھی ہیں جن میں ابن ابی حاتم کی "الجرح و التعدیل"۔ بعض کتابیں حدیث کی مخصوص کتب کے راویوں کے حالات پر مشتمل ہیں مثلاً عبدالغنی المقدسی کی "الکمال فی اسماء الرجال"۔ اس کو بہتر انداز میں مزی، ذہبی، ابن حجر اور خزرجی نے مرتب کیا ہے۔


راویوں کے ممالک اور شہر

تعارف

اوطان، وطن کی جمع ہے اور یہ ملک کو کہتے ہیں اور بلد شہر کو کہتے ہیں۔ فن حدیث میں اس بحث کا تعلق راویوں کے ممالک اور شہروں سے ہے جہاں وہ پیدا ہوئے اور جہاں جہاں انہوں نے قیام کیا۔

فوائد

ممالک اور شہروں کی بدولت ملتے جلتے ناموں والے راویوں میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ اس علم کی حفاظ حدیث کو بھی بہت ضرورت رہا کرتی ہے۔

عرب و عجم کے لوگوں کو کس سے منسوب کیا جاتا رہا ہے؟

دور قدیم میں اہل عرب زیادہ تر خانہ بدوش بدو تھے جو حالت سفر میں رہا کرتے تھے۔ یہ لوگ قبائل کی صورت میں رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کسی مخصوص شہر کی بجائے قبیلے کی نسبت سے پکارا جاتا ہے۔ ظہور اسلام کے بعد ان لوگوں کی بڑی تعداد شہروں اور دیہاتوں میں آباد ہو گئی اور اس کے بعد انہیں شہر یا گاؤں کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔

شہر تبدیل کرنے والے شخص کو کس سے منسوب کیا جائے؟

ایسے لوگ جنہوں نے اپنی رہائش کا شہر تبدیل کر لیا ہو، اور انہیں تمام متعلقہ شہروں سے منسوب کرنے کی ضرورت ہو تو پھر ابتدا پہلے شہر سے کی جاتی ہے اور پھر ترتیب سے شہروں کا نام لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص "حلب" میں پیدا ہوا اور اس کے بعد وہ مدینہ منورہ منتقل ہو گیا تو اس کے بارے میں کہا جائے گا، "فلان حلبی ثم مدنی" یعنی "فلاں حلبی اور اس کے بعد مدنی ہے"۔ اسی پر اکثر لوگوں کا عمل رہا ہے۔

         اگر تمام شہروں کا ذکر کرنا ضروری نہ ہو تو پھر کسی بھی ایک شہر سے اس شخص کو منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسا بہت ہی کم کیا جاتا ہے۔

جو شخص کسی شہر کے قریبی گاؤں سے تعلق رکھتا ہو تو اسے کس سے منسوب کیا جاتا ہے؟

ایسے شخص کو اس کے گاؤں، قریبی شہر یا ملک سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص شام کے شہر حلب کے قریب "الباب" گاؤں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس شخص کو البابی، حلبی یا شامی کہا جا سکتا ہے۔

کتنی مدت کے قیام سے کسی شخص کو اس شہر سے منسوب کیا جاتا ہے؟

عبداللہ بن مبارک کی رائے کے مطابق کسی شخص کو شہر سے منسوب کرنے کے لئے کم از کم چار سال کا قیام ضروری ہے۔

مشہور تصانیف

· اس ضمن میں قدیم ترین کتاب سمعانی کی کتاب "الانساب" ہے کیونکہ انہوں نے نسب کے ساتھ ساتھ ہر راوی کے شہر کا ذکر بھی کیا ہے۔

· ابن سعد نے "طبقات الکبری" میں بھی شہروں کا ذکر کیا ہے۔


حدیث کو پرکھنےکا درایتی معیار


درایت حدیث


درایت حدیث کا تعارف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے غلط بات کو منسوب کرنے کا معاملہ بہت ہی نازک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اس ضمن میں نہایت ہی احتیاط برتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب احادیث کی چھان بین کے لئے محدثین نے جو اصول وضع کیے ہیں، ان میں سے کچھ اصولوں کا تعلق حدیث کی سند سے ہے۔ ان اصولوں کو تفصیل سے "تیسیر مصطلح الحدیث" کے مصنف ڈاکٹر محمود طحان نے بیان کیا ہے۔ آپ ان اصولوں کا پچھلے یونٹس میں مطالعہ کر چکے ہیں۔ حدیث کی سند کی تحقیق کے عمل کو "روایت حدیث" کہا جاتا ہے۔

         حدیث کی سند کے علاوہ اس کے متن کی تحقیق بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ متن کی تحقیق کے اس عمل کو "درایت حدیث" کہا جاتا ہے۔ احادیث کو جب روایت کے اصولوں کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے تو احادیث کی غالب تعداد کے بارے میں نہایت ہی اطمینان کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف درست ہے یا نہیں۔
         بسا اوقات کوئی حدیث روایت کے اصولوں کے مطابق صحیح قرار پاتی ہے لیکن اس کے متن میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی درست نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک ثقہ سے ثقہ اور محتاط سے محتاط شخص بھی بھول چوک یا غلطی سے پاک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت کے اصولوں پر پرکھنے کے بعد بعض احادیث کو درایت کے اصولوں پر پرکھنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے تاکہ حدیث کی سند کے ساتھ ساتھ اس کے متن کی تحقیق بھی کر لی جائے کہ یہ بات واقعتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے درست طور پر منسوب ہوئی ہے یا نہیں۔
         درایت حدیث کے اصول بھی عقل و دانش کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ اصول روایت حدیث کی بحث میں بھی بیان کیے جا چکے ہیں۔ درایت کے اہم ترین اصول یہ ہیں:

· حدیث کا شذوذ سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ حدیث میں کہی گئی بات قرآن مجید، سنت متواترہ اور دیگر صحیح احادیث میں کہی گئی بات کے خلاف نہ ہو۔

· حدیث علم و عقل کے مسلمات کے خلاف نہ ہو۔

· حدیث کو اپنے ورود کے موقع و محل اور سیاق و سباق میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

· حدیث کو اسی موضوع سے متعلق قرآنی آیات اور دیگر احادیث کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے کیونکہ ایک حدیث کی وضاحت دوسری حدیث میں ہو جاتی ہے۔


شاذ حدیث

کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید، سنت متواترہ اور دیگر صحیح احادیث سے متضاد مفہوم پیش نہ کر رہی ہو۔ اگر ایسا ہو تو اس حدیث کو "شاذ" کہا جاتا ہے اور اس خصوصیت کو "شذوذ" کہتے ہیں۔

         یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم قرآن مجید یا اپنی ہی فرمائی ہوئی بات کے متضاد کوئی بات ارشاد فرمائیں۔ بظاہر ایسا نظر آنے کی وجہ یہی ممکن ہے کہ کسی راوی نے بات کو سمجھنے یا بیان کرنے میں کوئی غلطی کر دی ہو۔

اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے خطیب بغدادی ابن خزیمہ کا قول نقل کرتے ہیں:

لا أعرف انه روى عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حديثان بإسنادين صحيحين متضادان فمن كان عنده فليأت به حتى اؤلف بينهما۔

مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی ایسی کوئی دو احادیث کا علم نہیں ہے جو آپس میں باہم متضاد ہوں۔ اگر کسی شخص کو ایسی دو احادیث ملیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان میں مطابقت پیدا کرے۔ (الکفایۃ فی اصول الروایۃ باب 141)

ایسے موقع پر درست رویہ یہ نہیں ہے کہ احادیث کو فوراً متضاد قرار دے کر انہیں مسترد کر دیا جائے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ ایک طالب علم احادیث میں موافقت کے اسباب تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ عام طور پر اسی حدیث کی دیگر روایتوں کے مطالعے سے ان میں موافقت پیدا ہو جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث میں کوئی تضاد سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے اور محض موقع محل یا سیاق و سباق کا علم نہ ہونے کے باعث کسی کو بظاہر تضاد نظر آ رہا ہوتا ہے۔

         ایسا راوی جو اکثر اوقات شاذ احادیث بیان کرتا ہو، اس کی دیگر روایات کو بھی قبول نہ کیا جائے گا۔ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب الکفایۃ کے باب 45 کا یہی موضوع رکھا ہے اور اس ضمن میں بہت سے محدثین کی آراء نقل کی ہیں۔

علم و عقل کے مسلمات کے خلاف حدیث

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی پوری دعوت علم و عقل کے مسلمات پر مبنی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ حضور کوئی ایسی بات ارشاد فرمائیں جو علم و عقل کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہو۔

اس صورت حال کے بارے میں خطیب بغدادی لکھتے ہیں:

فان خبر الواحد فيها مقبول والعمل به واجب۔ ويكون ما ورد فيه شرعا لسائر المكلفين ان يعمل به۔ وذلك نحو ما ورد في الحدود والكفارات وهلال رمضان وشوال وأحكام الطلاق والعتاق والحج والزكاة والمواريث والبياعات والطهارة والصلاة وتحريم المحظورات۔ ولا يقبل خبر الواحد في منافاة حكم العقل وحكم القرآن الثابت المحكم والسنة المعلومة والفعل الجاري مجرى السنة كل دليل مقطوع به۔

خبر واحد کے ذریعے پہنچنے والی ایسی احادیث ہوتی ہیں جن پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔ یہ وہ احادیث ہیں جن میں شرعی احکام بیان کیے گئے ہوتے ہیں تاکہ ہر وہ شخص جو ان پر عمل کرنے کا مکلف ہے، وہ عمل کرے۔ اس قسم کی احادیث حدود، کفارے، رمضان و شوال کے چاند، طلاق، غلاموں کو آزاد کرنے، حج، زکوۃ، وراثت، تجارت، طہارت، نماز اور حرام کاموں سے متعلق احکام پر مشتمل ہوتی ہیں۔ خبر واحد کو اس صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا اگر وہ عقل عام، قرآن، سنت معلومہ کے فیصلوں اور امت میں جاری عمل کے منافی ہو اور کسی قطعی دلیل کے ذریعے اس خبر واحد کا ان کے خلاف ہونا ثابت ہو جائے۔ (الکفایۃ فی اصول الروایۃ باب 140)

جلال الدین سیوطی، جعلی احادیث کا ذکر کرتے ہوئے ابوبکر بن طیب کا قول نقل کرتے ہیں۔

أن من جملة دلائل الوضع أن يكون مخالفاً للعقل بحيث لا يقبل التأويل ، ويلتحق به ما يدفعه الحس والمشاهدة ، أو يكون منافياً لدلالة الكتاب القطعية أو السنة المتواترة أو الإِجماع القطعي ، أما المعارضة مع إمكان الجمع فلا ، ومنها ما يصرح بتكذيب رواة جميع المتواتر ، أو يكون خبراً عن أمر جسيم تتوفر الدواعي على نقله بمحضر الجمع ثم لا ينقله منهم إلا واحد ، ومنها الإِفراط بالوعيد الشديد على الأمر الصغير ، أو الوعد العظيم على الفعل الحقير ، وهذا كثير في حديث القصاص۔

حدیث کے جعلی ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو۔ اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہو جو حس و مشاہدے کے خلاف ہو۔ اسی طرح حدیث اگر قرآن مجید کی قطعی دلالت یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی کے منافی ہو (تو وہ بھی جعلی حدیث ہو گی۔) اگر تضاد کو دور کرنا ممکن ہو تو پھر ایسا نہ ہو گا۔ (جعلی احادیث) میں سے بعض ایسی ہوتی ہیں جن کے جھوٹ ہونے کی گواہی تمام راوی تواتر سے دیتے ہیں۔ بعض ایسی ہوتی ہیں جن میں کوئی ایسا بہت عظیم واقعہ بیان کیا گیا ہوتا ہے جسے کثیر تعداد میں لوگوں کو بیان کرنا چاہیے لیکن اسے صرف ایک ہی شخص نقل کر رہا ہوتا ہے۔ بعض ایسی احادیث ہوتی ہیں جن میں چھوٹی سی غلطی پر بہت بڑے عذاب کی وعید سنائی گئی ہوتی ہے یا چھوٹی سی نیکی پر بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا ہوتا ہے۔ قصے کہانیاں بیان کرنے والوں کی اکثر احادیث ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ (تدریب الراوی، موضوع حدیث کی بحث)

امام سیوطی، محدث ابن جوزی کا قول نقل کرتے ہیں۔

إذا رأيت الحديث يباين المعقول أو يخالف المنقول أو يناقض الأصول فاعلم أنه موضوع ۔

اگر آپ کوئی ایسی حدیث دیکھیں جو عقل کے خلاف ہو، یا (قرآن و حدیث کے) نقل شدہ (احکام) کے خلاف ہو یا (دین کے) اصولوں کے متضاد ہو تو جان لیجیے کہ یہ موضوع (جعلی) حدیث ہے۔ (تدریب الراوی، موضوع حدیث کی بحث)

         اگر ہمیں کوئی ایسی حدیث ملے جو بظاہر علم و عقل کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہو تو پھر اس میں ان تینوں صورتوں میں سے ایک ہی ممکن ہے۔

· حدیث کو کسی راوی نے صحیح طور پر بیان ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے بات کچھ کی کچھ ہو گئی ہے۔ یا

· کسی راوی نے اس حدیث کو اپنی طرف سے وضع کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب کر دیا ہے۔ یا

· عقلی بنیاد پر جو مقدمہ قائم کر لیا گیا ہے، وہی درست نہیں ہے۔ موجودہ دور میں یہی صورت زیادہ تر پائی جاتی ہے۔

         بعض لوگ عقلی طور پر چند دلائل دے کر حدیث کو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی نامعقول اور غیر علمی رویہ ہے۔ محض کسی ایک شخص کے کہہ دینے سے کوئی حدیث عقل کے خلاف نہیں ہو جایا کرتی۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام انسان عقلی طور پر جس بات کو درست مانتے ہوں، حدیث اس کے خلاف نہ ہو۔ اس کی مثال سوائے چند ایک روایتوں کے پورے ذخیرہ احادیث میں نہیں ملتی۔ صحیح علمی رویہ یہ ہے کہ اسی حدیث کی دیگر روایات کو اکٹھا کر کے ان کا مطالعہ کیا جائے تو بات پوری طرح سمجھ میں آ جاتی ہے۔

حدیث کا سیاق و سباق اور موقع محل

حدیث کو اپنے سیاق و سباق میں سمجھنا ضروری ہے۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک حکم ایک مخصوص صورتحال میں جاری فرمایا ہوتا ہے۔ اس صورتحال سے عدم واقفیت کے باعث حدیث کو پڑھنے والا اس کا کچھ اور معنی مراد لے لیتا ہے۔ اس صورت حال کے بارے میں خطیب بغدادی لکھتے ہیں:

ان قولين ظاهرهما التعارض ونفي أحدهما لموجب الآخر أن يحمل النفي والإثبات على أنهما في زمانين أو فريقين أو على شخصين أو على صفتين مختلفتين۔۔۔۔۔۔ فيجب أن يكون المراد بهذا أو نحوه انه آمر للأمة بالصلاة في وقت وغير آمر لها بها في غيره وآمر لها بها إذا كانت متطهرة ونهيها إذا كانت محدثة وآمل لزيد بالحج إذا قدر وغير آمر إذا لم يقدر۔ فلا بد من حمل ما علم انه تكلم به من التعارض على بعض هذه الوجوه وليس يقع التعارض بين قوليه الأبان يقدر كونه آمر بالشيء وناهيا عنه لمن أمر به على وجه ما امره به وذلك احالة في وصفه۔۔۔۔۔

حضور کے دو ارشادات میں بظاہر ایسا تعارض پایا جا سکتا ہے کہ آپ نے کسی کو ایک کام سے منع فرمایا اور دوسرے کو اسی کام کا حکم دیا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں کا زمانہ، شخصیت یا صورت حال ایک دوسرے سے مختلف ہو۔۔۔۔ اس قسم کی مثالوں میں ایسا ممکن ہے کہ آپ نے ایک شخص کو نماز کے وقت نماز کا حکم دیا ہو اور دوسرے شخص کو ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے سے روکا ہو۔ یا پہلے شخص کو پاکیزگی کی حالت میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو اور دوسرے کو ناپاکی کی حالت میں ایسا کرنے سے روکا ہو۔ اسی طرح آپ نے مثلاً زید کو حج کا حکم اس وجہ سے دیا ہو کہ وہ حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو جبکہ دوسرے شخص کو اس وجہ سے اس کا حکم نہ دیا ہو کہ وہ حج کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صورت حال کی وضاحت کے بعد آپ کے دو ارشادات میں کوئی تعارض باقی رہتا ہی نہیں ہے۔ آپ نے ایک کام کا حکم ایک صورت حال میں دیا اور اسی کام سے دوسری صورتحال میں منع فرما دیا۔ (الکفایہ باب 141)

سیاق و سباق کو متعین کرنے کا طریق کار یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق تمام احادیث کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے۔ ایک حدیث میں جو واقعہ اجمالی طور پر بیان ہوتا ہے، اس کی تفصیل دوسرے طرق میں مل جاتی ہے۔ اس طریقے سے حدیث کا موقع و محل اور سیاق و سباق سمجھ میں آ جاتا ہے۔

حدیث کو تمام متعلقہ آیات و احادیث کے ساتھ ملا کر سمجھنے کی اہمیت

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ راویوں نے حدیث کا صرف ایک حصہ بیان کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس حدیث کا صحیح مفہوم سمجھ میں نہیں آتا اور طالب علم اس معاملے میں غلطی کر بیٹھتا ہے۔ اگر اس حدیث سے متعلق دیگر احادیث کو اکٹھا کیا جائے اور ان سب کو قرآن مجید کی متعلقہ آیات کے ساتھ ملا کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو طالب علم بالکل درست نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔

         حدیث کے معاملے میں ایسی مثالیں بہت سی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کسی خاص معاملے میں کوئی حکم دیا۔ راوی نے اس معاملے کو تو بیان نہیں کیا مگر وہ حکم بیان کر دیا۔ اس حکم کو، جو صرف اسی معاملے کے ساتھ خاص تھا، قیامت تک کے لئے عام کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے تمام طرق اکٹھے کرنے چاہییں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کوئی حکم کسی خاص صورتحال کے لئے ہے یا قیامت کے لئے ہر مسلمان پر اس کی پیروی ضروری ہے۔


موضوع حدیث کی پہچان

ابن القیم سے سوال کیا گیا کہ کیا موضوع حدیث کو اس کی سند کی چھان بین کے بغیر پہچانا جا سکتا ہے؟ انہوں نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے "المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف" تصنیف کی۔ اس کتاب میں انہوں نے تفصیل سے موضوع احادیث کی خصوصیات کو بیان کیا ہے۔ یہاں ہم ان کی بیان کردہ خصوصیات کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔

حدیث میں نامعقول سی بات بیان کی گئی ہو

حدیث میں ایسی نامعقول بات کہی گئی ہو جس کی مثال کسی صحیح حدیث میں نہ ملتی ہو۔ ایسی موضوع احادیث بکثرت ہیں۔ ان کی مثال یہ ہے:

جس نے لا الہ الا اللہ کہا۔ تو اللہ اس کلمے سے ایک پرندہ پیدا کرے گا جس کی ستر ہزار زبانیں ہوں گی۔ ہر زبان پر ستر ہزار بولیاں جاری ہوں گی جس میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جا رہی ہو گی۔ یا جس نے فلاں عمل کیا، اسے جنت میں ستر ہزار شہر دیے جائیں گے۔ ہر شہر میں ستر ہزار محل ہوں گے اور ہر محل میں ستر ہزار حوریں اس کی منتظر ہوں گی۔

اگر کسی جعلی حدیث میں ایسی بات کہی گئی ہو تو اس کے وضع کرنے والا یا تو کوئی احمق ترین شخص ہو گا یا پھر وہ اسلام دشمن ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان میں کمی کے لئے آپ کی طرف ایسا کلام منسوب کر رہا ہو گا۔

حدیث میں حسی مشاہدے کے خلاف بات کہی گئی ہو

اس کی مثال یہ حدیث ہے، "بینگن میں ہر بیماری سے شفا ہے۔" یہ بات خلاف حقیقت ہے اور کسی احمق قسم کے حکیم (یا شاید بینگن کے کسی تاجر) نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا ہے۔ اسی طرح یہ حدیث بھی ہے کہ "جب کسی شخص کو بات کرتے وقت چھینک آ جائے تو وہ سچا ہو گا۔" اگرچہ بعض حضرات نے اس کی سند کو درست کہا ہے لیکن مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھڑی ہوئی حدیث ہے۔

         اسی طرح ایک حدیث ہے کہ "دال کھایا کرو۔ یہ دل کو نرم کرتی ہے۔ ستر انبیاء نے اسے پاکیزہ قرار دیا ہے۔" عبداللہ بن مبارک سے اس حدیث کے بارے میں کہا گیا، "یہ حدیث آپ کی طرف سے روایت کی جاتی ہے۔" وہ فرمانے لگے، "کیا! کیا مجھ سے بھی اس حدیث کو لوگ روایت کر رہے ہیں؟"

حدیث میں بیہودہ سی بات بیان کی گئی ہو

مثال کے طور پر یہ حدیث کہ "چاول اگر انسان ہوتا تو بڑا ہی بردبار ہوتا۔ جو اسے کھاتا ہے سیر ہو جاتا ہے۔" ایسی بیہودہ باتیں تو عام معقول لوگ بھی نہیں کرتے کجا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایسی بات کرتے۔

         اسی طرح یہ حدیث ہے کہ "بادام دوا ہے اور پنیر بیماری ہے۔ جب یہ دونوں پیٹ میں جاتے ہیں تو شفا بن جاتے ہیں۔" اللہ اس حدیث کو ایجاد کر کے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنے والے پر لعنت فرمائے۔
         اسی طرح یہ حدیث کہ "انگور کو روٹی کے ساتھ کھایا کرو۔" یا "مرغ کو برا بھلا نہ کہا کرو۔ اگر انسان کو معلوم ہوتا کہ اس کی آواز میں کیا ہے تو اس کے پر اور گوشت دونوں خریدتا۔" یا "جس نے سفید مرغ پالا، شیطان اور جادو اس کے قریب نہ پھٹکیں گے۔"

حدیث میں ظلم یا برائی کی تلقین کی گئی ہو

ایسی ہر حدیث جس میں دین سے تضاد پایا جاتا ہو، جس میں فساد، ظلم، بے کار باتوں کی دعوت دی گئی ہو یا حق کی برائی یا باطل کی تعریف کی گئی ہو، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بری ہیں۔

         اس میں وہ احادیث شامل ہیں جن میں محمد یا احمد نام رکھنے والے کو اس کے اعمال سے قطع نظر جہنم سے نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دین سے ہمیں معلوم ہے کہ نجات کا تعلق ایمان اور عمل سے ہے نہ کے نام سے۔ اسی میں وہ احادیث بھی شامل ہیں جن میں کسی چھوٹی سی نیکی پر جہنم سے نجات کی خبر دی گئی ہو۔

حدیث میں کوئی حکم دیا گیا ہو اور تمام صحابہ کرام کا عمل اس کے خلاف ہو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کوئی ایسا حکم دیا ہو جس پر عمل کرنا تمام صحابہ کے لئے لازم ہو۔ اس کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ ان سب کے سب نے اس حکم کو چھپا لیا ہو اور اس پر عمل نہ کیا ہو۔ ایسی احادیث جھوٹ کی بدترین شکل ہوا کرتی ہیں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل تھے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپسی پر تمام صحابہ کو اکٹھا کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے متعلق فرمایا، "یہ میرا بھائی ہے اور میں ان کے بارے میں وصیت کر رہا ہوں۔ میرے بعد یہی خلیفہ ہو گا۔ اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔" اسی طرح وہ حدیث کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لئے سورج کو پلٹا دیا گیا تھا۔

(ظاہر ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں وصیت کرنا تھی تو اس کا بہترین موقع حجۃ الوداع تھا۔) اسی طرح سورج اگر پلٹا ہوتا تو یہ ایسا واقعہ تھا کہ جس کی خبر ہر ہر شخص کو دینا چاہیے تھی مگر سوائے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے اور کسی کو اس واقعے کا علم نہیں ہے۔

حدیث میں کوئی باطل بات کہی گئی ہو

اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ "آسمان پر جو کہکشاں دکھائی دیتی ہے وہ عرش کے نیچے موجود ایک سانپ کی پھنکار سے بنتی ہے۔" یا "جب اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے تو وحی کو فارسی زبان میں نازل کر دیتا ہے اور جب خوش ہوتا ہے تو عربی میں وحی نازل کرتا ہے۔"

حدیث کلام انبیاء کے مشابہ نہ ہو

اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ "تین چیزوں کو دیکھنے سے بینائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سبزہ، بہتا پانی اور خوبصورت چہرہ۔" ایسی احادیث بعض اسلام دشمنوں کی ایجاد ہیں۔

کسی متعین تاریخ یا مہینے کے بارے میں کوئی عجیب و غریب بات بیان کی گئی ہو

اس کی مثال یہ ہے کہ "اگر چاند کو محرم میں گرہن لگے تو قیمتیں بڑھیں گی، جنگ ہو گی اور سلطنت پر قبضہ ہوگا۔ اگر صفر میں لگے تو ایسا ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔" اس ضمن میں بیان کی جانے والی تمام احادیث جھوٹ ہیں۔ (غالباً یہ کسی نجومی ٹائپ شخص کی ایجاد کردہ ہوں گی۔)

حدیث اطباء کے کلام سے مشابہ ہو

جیسے "ہریسہ سے کمر مضبوط ہوتی ہے۔" یا "مچھلی کھانے سے جسم کمزور ہوتا ہے۔" یا "نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کسی شخص نے کم اولاد ہونے کی شکایت کی تو آپ نے اسے انڈے اور پیاز کھانے کا مشورہ دیا۔" یا یہ حدیث کہ "مومن میٹھا ہوتا ہے اور حلوہ پسند کرتا ہے۔"

         (اس ضمن میں زیادہ تر احادیث وہ ہوتی ہیں جو لوگوں نے اپنی پراڈکٹس کی سیل بڑھانے کے لئے ایجاد کیں۔ ہمارے آج کل کے بہت سے حکیم اپنے نسخوں کو طب نبوی بتا کر ان کی مارکیٹنگ کرتے پھرتے ہیں۔)

حدیث میں عقل کی تخلیق سے متعلق عجیب و غریب بات ہو

اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ "جب اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اسے آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ وہ آگے آئی تو اسے پیچھے جانے کا حکم دیا۔ جب وہ پیچھے چلی گئی تو فرمایا، "میرے نزدیک تم سے زیادہ کوئی چیز قابل عزت نہیں ہے۔" اسی طرح "ہر چیز کی کان ہوتی ہے اور تقوی کی کان عارفین کے دل ہیں۔"

سیدنا خضر علیہ السلام سے متعلق احادیث

سیدنا خضر علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی طویل عمر سے متعلق تمام کی تمام احادیث جعلی ہیں۔ ان میں سے ایک بھی درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسجد میں خضر علیہ السلام سے ملاقات فرمائی۔" یا "خضر اور الیاس علیہما السلام ہر سال ملاقات کرتے ہیں۔" یا "عرفہ کے دن جبریل، میکائیل اور خضر اکٹھے ہوتے ہیں۔"

(صوفیاء کے ایک طبقے کو سیدنا خضر علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت دلچسپی رہی ہے۔ انہوں نے یہ احادیث ایجاد کر کے پہلے تو انہیں ہمیشہ کی عمر عطا کی اور اس کے بعد ان سے ملاقات کرنے کے لئے عجیب و غریب چلے اور ریاضتیں ایجاد کیں۔ ان سب ہتھکنڈوں کا مقصد لوگوں کو اپنا نفسیاتی غلام بنانا تھا۔ ان ڈرامے بازیوں کی تفصیل کے لئے میری کتاب "مسلم دنیا میں ذہنی و جسمانی غلامی" دیکھیے۔)

حدیث میں واضح شواہد کے خلاف کوئی بات ہو

اس کی مثال عوج بن عنق (قدیم دور کا ایک شخص) کے بارے میں حدیث ہے کہ وہ تین ہزار گز لمبا تھا (اور وہ ہاتھ بڑھا کر سورج کی گرمی سے گوشت بھون لیا کرتا تھا۔) اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ "زمین ایک چٹان پر کھڑی ہے، یہ چٹان ایک بیل کے سینگ پر قائم ہے۔ جب یہ بیل سر ہلاتا ہے تو زلزلہ آتا ہے۔"

حدیث قرآن کے صریحا خلاف ہو

اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں دنیا کی عمر بتائی گئی ہے، "دنیا کی عمر ستر ہزار برس ہے اور ہم آخری برس میں ہیں۔" قرآن مجید سے واضح ہے کہ قیامت کا علم کسی کو نہیں دیا گیا۔

حدیث میں مخصوص ایام کی خاص نمازوں کا ذکر ہو

بعض لوگوں نے مخصوص ایام جیسے جنگ احد کے دن، اتوار کی رات، پیر کے دن غرض ہر موقع کے لئے ایک مخصوص نماز سے متعلق حدیث وضع کر دی۔ اسی طرح رجب کے پہلے جمعے کی خاص نماز سے متعلق حدیث ہے۔ یہی معاملہ شعبان کی پندرہرویں رات (شب برات) کے خاص نوافل کا ہے۔

حدیث میں گھٹیا زبان استعمال کی گئی ہو

حدیث کے الفاظ کا گھٹیا اور بازاری پن یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے الفاظ نہیں ہو سکتے۔ جیسے یہ حدیث کہ "چار، چار سے سیر نہیں ہوتے: عورت مرد سے، زمین بارش سے، آنکھ دیکھنے سے اور کان سننے سے۔"

حدیث میں کسی خاص گروہ کی برائی بیان کی گئی ہو

اس کی مثال وہ احادیث ہیں جن میں اہل سوڈان کی برائی بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح ترکوں، مخنثین اور غلاموں کی برائی سے متعلق تمام احادیث جعلی ہیں۔

حدیث میں معروف تاریخی حقائق کے خلاف بات بیان کی گئی ہو

اس کی مثال وہ معاہدہ ہے جو خیبر کے یہودیوں نے اس دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ معاہدہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کیا تھا۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ معاہدہ جعلی تھا کیونکہ اس پر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے دستخط بطور گواہ موجود تھے جو جنگ خیبر سے دو سال پہلے جنگ خندق میں شہید ہو چکے تھے۔ اس معاہدے میں یہ کھا ہوا تھا کہ اسے تحریر کرنے والے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں جو جنگ خیبر کے ایک سال بعد ایمان لائے۔

حدیث میں خاص سورتوں کی تلاوت کے فضائل بیان کئے گئے ہوں

خاص خاص سورتوں کے فضائل سے متعلق احادیث بھی موضوع ہوا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دور میں بعض حضرات جیسے نوح بن ابراہیم نے یہ حدیثیں لوگوں کو قرآن کی طرف راغب کرنے کے لئے گھڑی تھیں اور بعد میں اس کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔

حدیث میں مخصوص صحابہ اور علماء کے فضائل بیان کئے گئے ہوں

اہل سنت کے بہت سے جاہل افراد نے سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہم کے فضائل سے متعلق احادیث گھڑ کر پھیلائی ہیں۔ انہوں نے یہ معاملہ اہل تشیع کے ان افراد کے جواب میں کیا جو سیدنا علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے فضائل میں احادیث گھڑا کرتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے سیدنا معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی مذمت میں احادیث ایجاد کیں۔ امام ابوحنیفہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہما کے فضائل میں ان کے مقلدین نے احادیث وضع کیں۔ بعض لوگوں نے بنو امیہ کی مذمت اور بنو عباس کے بادشاہوں کی تعریف میں احادیث ایجاد کیں۔ بعض احادیث میں تو بنو عباس کے بچے بچے کو جہنم سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح بغداد، دجلہ، بصرہ، کوفہ، مرو، قزوین، عسقلان، اسکندریہ، نصیبن اور انطاکیہ کے رہنے والوں نے بھی اپنے اپنے شہر کی فضیلت میں حدیثیں ایجاد کیں۔ ایسی تمام احادیث جعلی ہیں۔


مصادر و مراجع



· القرآن الكريم.

· تاريخ بغداد للخطيب البغدادي ـ نشر دار الكتاب العربي ـ بيروت .

· تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي للسيوطي ، تحقيق عبدالوهاب عبداللطيف ـ الطبعة الثانية سنة 1385هـ .

· التقريب للنووي مع شرحه التدريب ، تحقيق عبدالوهاب عبداللطيف ـ الطبعة الثانية سنة 1385هـ .

· الرسالة للشافعي ، تحقيق أحمد محمد شاكر .

· الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة المشرفة للكتاني ـ تحقيق الشيخ محمد المنتصر الكتاني ـ نشر دار الفكر.

· سنن الترمذي مع شرحه تحفة الأحوذي ـ الطبعة المصرية ـ نشر محمد عبدالمحسن الكتبي .

· سنن أبي داود ـ طبع الهند على الحجر .

· سنن ابن ماجه ترتيب وتحقق محمد فؤاد عبدالباقي ـ طبع عيسي البابي الحلبي وشركاه سنة 1372هـ .

· سنن الدارقطني ، تصحيح وتحقيق ونشر السيد عبدالله هاشم اليماني المدني .

· شرح ألفية العراقي له ـ طبع المغرب .

· صحيح البخاري مع شرحه فتح الباري ـ تحقيق الشيخ عبدالعزيز بن باز ـ المطبعة السلفية بالقاهرة سنة 1380هـ .

· صحيح البخاري المتن فقط . طبعة بولاق سنة 1296هـ .

· صحيح مسلم مع شرح النووي ـ الطبعة الأولي ـ المطبعة المصرية بالأزهر سنة 1347هـ .

· علوم الحديث لابن الصلاح ـ تحقيق الدكتور نور الدين عنتر ـ نشر المكتبة العلمية بالمدينة المنورة سنة 1386هـ .

· فتح المغيث شرح ألفية الحديث للسخاوي ـ تحقيق عبدالرحمن محمد عثمان ، نشر المكتبة السلفية بالمدينة المنورة .

· القاموس المحيط للفيروز آبادي ـ طبع المطبعة الميمنية بمصر .

· الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي ـ طبع دائرة المعارف العثمانية بالهند سنة 1357هـ.

· المتفق والمفترق للخطيب البغدادي ـ مخطوط .

· المستدرك على الصحيحين للحاكم النيسابوري ـ نشر مكتبة النصر الحديثة بالرياض .

· معرفة علوم الحديث للحاكم النيسابوري ـ نشر الدكتور السيد معظم حسين طبع دائرة المعارف العثمانية .

· معالم السن للخطابي ـ تحقيق أحمد محمد شاكر ومحمد حامد الفقي ـ مطبعة أنصار السنة المحمدية سنة 1367هـ.

· ميزان الاعتدال في نقد الرجال للذهبي ـ تحقيق على محمد البجاوي ـ طبع عيسى البابي الحلبي سنة 1382هـ .

· موطأ مالك تصحيح وتعليق محمد فؤاد عبدالباقي ـ طبع عيسي البابي الحلبي وشركاه سنة 1370هـ .

· نزهة النظر شرح نخبة الفكر للحافظ ابن حجر ـ نشر المكتبة العلمية بالمدنية المنورة.

· نخبة الفكر مع شرحها نزهة النظر للحافظ ابن حجر ـ نشر المكتبة العملية بالمدينة المدينة المنورة



ہورویکھو

سودھو

حوالے

سودھو

باہرلےجوڑ

سودھو